فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ26%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130281 / ڈاؤنلوڈ: 6751
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

بہت کم ہے اس لئے کہ یہ اختلاف اہل حدیث کے ایک گروہ کی طرف منسوب ہوتا ہے،جنہوں نے کمزور حدیثیں نقل کی ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ یہ حدیثیں ہیں ظاہر ہے ایسی حدیثوں کی طرف رجوع کرکے ایک یقینی بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے۔(۱)

ابن حزم نے یہ تو اعتراف کیا ہے کہ شیعہ امامیہ تحریف کے قائل ہیں لیکن ان کی عبارت ملاحظہ ہو،وہ کہتے ہیں((امامیہ فرقہ چاہے قدیم ہو یا جدید ان کا قول ہے کہ قرآن بدلا ہوا ہے اس میں کچھ زیادتی بھی ہے اور بہت زیادہ کمی بھی ہے۔

سواعلی بن الحسن(الحسین)بن علی ابی طالب کے یہ امامی فرقے سے ہیں اور اعتزال کا مظاہرہ کرتے ہیں تحریف قرآن کے منکر ہیں اور اس کے قاءل کو کافر کہتے ہیں اس طرح ان کے دو ہم مذہب ابویعلی میلاد الطّوسی اور ابوالقاسم رازی ہیں۔(۲)

سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ابن حزم کہتے ہیں کہ جو تحریف قرآن کا قائل ہے اس کو سید مرتضی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اعلام شیعہ میں سے تھے اور سید مرتضی کہتے ہیں کہ تحریف قرآن کا ماننےوالا کافر ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ شیعوں کی طرف تحریف قرآن کو منسوب کیا جائے جب کہ ان کا مرجع دینی،تحریف قرآن والے کو کافر کہتا ہے۔

د:شیخ ابوجعفر طوسی آپ کا تذکرہ مصادر شیعہ کے ذیل میں گزرچکا ہے آپ اپنے دور میں حدیث اور اجتہاد کے جامع تھے،یعنی اہل حدیث اور اہل اجتہاد دونوں کے مرجع تھے آپ نے اپنی تفسیر کی شاندار کتاب التبیان کے مقدمہ میں عدم تحریف کی صراحت کی ہے آپ نے فرماتے ہیں((قرآن مجید میں زیادتی اور نقص کے بارے میں گفتگو کرنا ہماری اس کتاب تبیان کے شایان نہیں ہے اس لئے کہ زیادتی کے بطلان پر تو امت کا اجماع ہے اب رہ گیا نقصان کا سوال تو ظاہر یہ ہے کہ عام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مجمع البیان ج:۱ص:۱۵

(۲)الفصل فی الملل و النحل:ج:۴ص:۱۸۲

۱۸۱

مسلمان اس کے خلاف ہے اور ہمارا مذہب بھی قرآن میں نقصان کا قائل نہیں ہے اس کی تائید جناب سید مرتضی نے بھی فرمائی ہے اور روایات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ شیعہ سنی دونوں فرقوں میں بہت سی روایتیں ایسی پائی جاتی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں کم ہوگئیں یا کسی آیت کا کوئی ٹکڑا دوسری آیت میں جوڑ دیا گیا لیکن یہ روایتیں احاد کے طریقہ سے نقل کی گئی ہیں جو نہ علم کا۔

سبب بنتی ہیں اس لئے ان کی طرف توجہ نہ دی جائے اور اپنا قیمتی وقت ان پر ضائع نہیں کیا جائے اس لئے کہ ایسی روایتوں کی تاویل ممکن ہے پھر ہماری وہ روایتیں جن کے ذریعہ قرآن کی قرات پر اور قرآن میں جو کچھ ہے اس کے تمسک پر اور خبروں کے اختلاف کی وجہ سے ان پر جو اعتراض کیا گیا ہے اور وہ ان سے تحریف کے خلاف ہیں خود سرکار دو عالم کی یہ متفق علیہ حدیث جس کو کسی نے بھی غلط نہیں کہا ہے۔

(انی تاریک فیکم الثّقلین ما ان تمسکمتم بهما لن تضلّوا بعد کتاب الله و اهل بیتی و انّهما لن یّفترقا حتی یرد علی الحوض)

ترجمہ حدیث:میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں جب تک ان دونوں کو پکڑے رہوگے میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے یہ دونوں چیزیں اللہ کی کتاب اور میری عترت ہیں یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے ہرگز الگ نہیں ہوں گی،یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پہ ملاقات کریں گی۔

یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن ہر دور میں مکمل طور پر موجود رہا اس لئے کہ نبی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہمیں ایسی چیز کے تمسک کا حکم دیا جائے جس کے تمسک پر ہم قدرت نہیں رکھتے ہوں۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تفسیر تبیان:ج:۱ص:۳۔۴

۱۸۲

ھ:شیخ ابوعلی فضل بن حسن طبرسی متوفی ۵۴۸؁ آپ تفسیر مجمع البیان کے مقدمہ میں لکھتے ہیں اور قرآن میں زیادتی اور کمی کا موضوع تفسیر کے شایان نہیں ہے جہاں تک زیادتی کا سوال ہے تو امت کا اس کے بطلان پر اجماع ہے لیکن کمی کے بارے میں ہمارے علما نے اور اہل سنت کے فرقہ حشویہ نے کچھ روایتیں پیش کی ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے قرآن میں تغیر اور نقصان ہوا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ ہمارے علما کا مذہب اس کی مخالفت کرتا ہے اسی نظریہ کی تائید سید مرتضی نے فرمائی ہے اور بھر پور دلیلوں کے ساتھ تحریف کو غلط ثابت کیا ہے سید مرتضی مسائل طرابلسات کا جواب دے رہے ہیں اس کے بعد سید مرتضی کی مذکورہ عبارت پیش کی گئی ہے۔(۱)

و:علامہ حلی جمال الدین بن حسن بن علی مطہر جن کا تذکرہ مصادر شیعہ میں ہوچکار ہے یہ اپنے دور میں نمایان شیعوں میں تھے ان سے سید مہنا نے کچھ سوالات کئے ہیں اس میں ایک سوال یہ بھی ہے۔

((کتاب عزیز کے بارے میں ہمارے سردار کا کیا قول ہے۔))

کیا ہمارے علما اس بات کو صحیح سمجھتے ہیں کہ قرآن میں نقص یا زیادتی ہوئی ہے یا یہ کہ اس کی ترتیب بدل دی گئی ہے یا ہمارے اس علما اس میں سے کسی بات کے قائل نہیں؟آپ مجھے فائدہ پہنچائیں خدا آپ کو اپنے فضل سے فائدہ پہنچائے اور آپ کے شایان سلوک آپ کے ساتھ کرے۔

علامہ نے جواب دیا،حق یہ ہے کہ قرآن میں تقدیم ہے اور نہ تاخیر زیادتی ہے نہ کمی میں اس طرح عقائد سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں،اس سے سرکار دو عالم کے معجزہ پر بات آتی ہے جو تواتر کے ذریعہ ثابت ہے۔(۲)

ان حضرات کے بعد علما کی ایک کثیر جماعت ہے جو تحریف قرآن کی سختی سے منکر ہے جیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مجمع البیان ج:۱ص:۱۵

(۲)اجوبۃ المسائل المھناویہ المسلہ:۱۳ص:۱۲۱،نجفی تمرین قرآن شریف کے سلسلے میں جو کتاب المحقق میں نقل ہوا ہےص:۱۵

۱۸۳

محقق کرکی،صاحب مقاصد،محقق اردبیلی متوفی۹۹۳؁شیخ بہائی متوفی۱۰۳۱؁فیض کاشانی متوفی۱۰۹۰؁محدث حرعاملی متوفی۱۱۰۴؁،آپ کی کتاب وسائل الشیعہ کا تذکرہ ہوچکا ہے اور جناب کاشف الغطا متوفی۱۲۲۸؁،اس کے علاوہ بعد میں آنے والے علما میں ایک بڑی جماعت ہے جن کو طول کلام کی وجہ سے چھوڑا جارہا ہے،پھر ہمارے دور میں بھی بہت سے علما ہیں جن میں شیعہ فرقے کے مرجع اور ہمارے استاد ابوالقاسم الخوئی نے اپنی کتاب البیان فی تفسیر القرآن کے مقدمے میں دعوہ تحریف کو ایک لمبی بحث کرکے توڑ پھوڑ دیا ہے۔

علما کی ایک بڑی جماعت ہے جنہوں نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں اور عدم تحریف پر مضبوط دلیلیں دی ہیں ان خبروں پر تنقید کی ہے جو وقوع تحریف کی شہادت دیتی ہیں اور ان حدیثوں کی تاویل بھی بیان کی ہے،ظاہر ہے کہ ہم اس مختصر کتاب میں ان کے بیانات کی گنجائش نہیں پاتے،یوں بھی شیعہ قوم کے نمایان علما کے اقوال اور ان کے اساتذہ کی تصریحات جو میں آپ کی خدمت میں پیش کرچکا ہوں میرے دعوائے عدم تحریف کے لئے کافی ہے بلکہ میں یہ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اہل سنت کے علما نے اس کثرت سے عدم تحریف کی صراحت نہیں کی ہے جیسا کہ شیعوں کے یہاں پائی جاتی ہے،سنی علما نے عدم تحریف پر استدلال کرنے میں زیادہ زحمت بھی نہیں اٹھائی ہے جب کہ شیعوں نے کافی تحقیق اور تفصیل سے کام لیا ہے سنی علما کا نظریہ تو اس اجماع عملی سے ثابت ہوتا ہے جس میں شیعہ اور سنی مشترک ہیں۔

۴۔ہم شیعوں کے پاس جتنی بھی روایتیں ہیں ان میں سے اکثر اہل سنت کے طریقوں پر مروی ہیں دونوں فرقے کے مصادر کو دیکھےگا وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ جائےگا اور یہ حدیثیں ایسی ہیں بھی نہیں جن سے قرآن شریف کی واقعیت پر بات آئے یا قرآن مجید کو مقام تشکیک میں ڈال دیا جائے جیسا کہ گذشتہ اور آئندہ بیان سے ثابت ہوگا،اس لئے اگر کسی کو اس طرح کی روایت ملتی بھی ہے تو ضروری ہے کہ یا تو اس کی تاویل کردی جائے یا پھر خاموش ہوجایا جائے اس لئے کہ ایسی روایت بدیہیات سے ٹکراؤ کا سبب ہے،یوں بھی اس طرح کی روایتیں یا بعض روایتیں تحریف کے

۱۸۴

نظریہ کی تائید بھی نہیں کرتیں یا اس لئے کہ جمع کرنےوالے نے تحریف پر استدلال کرنے کے لئے جمع بھی نہیں کیا ہے بلکہ اس کا مقصد حدیثوں کو جمع کرنا تھا اس نے تو وہ روایتیں بھی جمع کی ہیں جو تحریف کے خلاف ہیں یا جن کی تاویل لازم ہے جیسا کہ جناب شیخ صدوق کے بیان سے ظاہر ہورہا ہے اس لئے بھی کہ یہ روایتیں بداہت سے ٹکرا رہی ہیں یا بغیر بداہت کے پیش کی جا رہی ہیں۔

ہاں بعض شیعہ اور بعض سنی علما ان حدیثوں کی بنیاد پر تحریف کو صحیح قرار دیتے ہیں بلکہ کچھ لوگوں نے اپنے گذشتہ دلام میں اشارہ کیا ہے تو اسیے علما نے بنیادی غلطی یہ کی ہے کہ تحریف والی خبروں کو صحیح مانا ہے اور اس پر غور نہیں کیا ہے کہ کوئی بھی اس طرح کی کبریں پڑھ کے بداہت سے انکار نہیں کرسکتا حالانکہ شیعوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں،اتنے کم کہ انہیں مقام مثال میں نہیں لایا جاسکتا ہے ثابت ہوچکا ہے اور شیعوں کے بڑے بڑے علما اور شیوح جو شیعوں کے لئے نمونہ عمل ہیں عدم تحریف پر ان کی تصریحات پیش کی جاچکی ہیں۔

قائلین تحریف کے ساتھ کیا کیا جائے؟

میرا خیال ہے کہ قائلیں تحریف کے ساتھ سختی نہیں کرنی چاہئے اس لئے کہ وہ محض خطاکار ہیں اور یہ غلطی بھی ان سے غفلت کی بنیاد پر ہوئی ہے اس لئے وہ بےحرمتی کے مستحق نہیں ہیں اور نہ کافر ہیں خاص طور سے جب وہ اس بات پر تمام مسلمانوں سے متفق ہیں کہ قرآن مجید میں زیادتی یا نقصان نہیں ہوا ہے اس لئے کہ یہ بات یا تو تواتر سے ثابت ہے یا درجہ اعجاز تک پہنچی ہوئی ہے اس لئے کہ عدم زیادتی پر تو اجماع ثابت ہوچکا ہے،قائلین تحریف کے ساتھ احترام سے پیش آنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دیکھ رہے ہیں کہ شیعہ اور ایک سنی فرقہ کے درمیان بسم اللہ..کو لےکے اچھا خاصہ اختلاف ہے سنی یہ کہتے ہیں کہ بسم اللہ..ہر سورہ کا جز نہیں ہے جب کہ شیعہ اس کی جزئیت کے قائل ہیں ظاہر ہے کہ یہ معمولی اختلاف اس بات کی اجازت تو نہیں دیتا کہ جزئیت کے قائل کو عدم جزئیت کا قائل کافر کہے یا عدم جزئیت کے قائل کو جزئیت کا قائل کافر

۱۸۵

کہے تو پھر قائلین تحریف کو بھی ہمیں کافر کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ویسے جناب عبداللہ بن مسعود جو قرآن کی قرات کی دنیا میں ایک قدآور شخصیت ہیں آپ خود معوذتین کو قرآن میں شامل نہیں سمجھتے لیکن ہم انہیں صرف اس بنیاد پر کافر نہیں کہہ سکتے،اگر اس قول کی نسبت ان کی طرف صحیح ہو۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اختلاف ہمیں سقوط حرمت کا حق نہیں دیتے اور نہ کسی کو کافر کہنے کی جازت دیتے ہیں زیادہ سے زیادہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ ان کے شبہات کو رفع کردیں یا ان کی غلطیوں کی نشاندہی کردیں تا کہ دوسرے لوگ بھی ان کی طرح غلطی نہ کریں اس لئے کہ اسلام اس اللہ کا دین ہے جس نے اپنے بندوں کے لئے اس دین کو شریعت بناکے نافذ کیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم اسلام اور کفر کی حدیں معین کرنے سے پہلے اللہ کے حکم کو دیکھ لیں(دین اس کا،شریعت اس کی،جس کو وہ کافر کہےگا وہ کافر اور جس کو وہ مومن کہےگا وہ مومن)کسی کو حق نہیں پہونچتا کہ محض اپنے نظریہ اور مسلمات کا مخالف ہونے کی وجہ سے کسی کو کافر کہہ دے جب مخالف کا انکار،اصول اسلام اور ان حدود الہیہ کو نہ پہنچتا ہو جو اللہ نےقائم کی ہوں تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس طرح کے خیالات سے بچیں اور سختی سے پرہیز کریں۔

عدم تحریف کی تاکید

۵۔ظاہر ہے کہ قرآن مجید اپنی حقانیت خود ثابت کرتا ہے،قرآن کوئی انسان کا انشا کیا ہوا نہیں ہے جیسا کہ خود قرآن کہتا ہے-(وَمَا كَانَ هَٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّهِ) (۱)

ترجمہ آیت:ایسا نہیں ہے کہ یہ قرآن خدا کےسوا کوئی اور اپنی طرف سے جھوٹ بناڈالے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ تواتر سے مستغنی ہے اگر چہ قرآن کے بارے میں تواتر پایا جاتا ہے اور یہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورہ یونس آیت:۳۷

۱۸۶

وجہ ہے کہ قرآن سرکار دو عالم کا معجزہ ہے جو آپ کی صداقت پر گواہی دیتا ہے،سرکار دو عالمؐ نے انفرادی طور پر قرآن کو اللہ کی طرف منسوب کیا ہے اور کسی کو اس نسبت کا گواہ نہیں بنایا اگر قرآن قرآن خود کو ثابت نہ کرتا ہوتا اور تواتر سے مستغی نہ ہوتا تو اس کے اندر صلاحیت اعجاز بھی نہیں ہوتی اس کی طرف وہ تمام آیتیں اشارہ کرتی ہیں جو قرآن میں تحدی کے طور پر آئی ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے:قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً (۱)

ترجمہ آیت:اے رسول آپ کہہ دیں کہ اگر سارے دنیا و جہاں کے آدمی اور جن اس پر اکھٹے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لےآئیں تو غیرممکن اس کے برابر نہیں لاسکتے اگر چہ اس کوشش میں ایک کا ایک مددگار بھی بنے۔

اب یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ خبریں جن سے تحریف کا وہم پیدا ہوتا ہے اگر زیادتی کی طرف اشارہ کرتی ہیں یعنی قرآن میں انسان کا کلام بھی شامل ہے اور دو دفتیوں کے بیچ جو کچھ ہے وہ سب کا سب کلام اللہ نہیں ہے یا اس کو بدل دیا گیا ہے تو خود قرآن ان کی مدد کرےگا اس لئے کہ قرآن کا لہجہ اور اس کا اسلوب کہیں پر بھی بدلا نہیں ہے تا کہ یہ تمیز کی جاسکے کہ یہاں تک کہ قائلین تحریف بھی اس کو کلام خدا مانتے ہیں۔

اور اگر تحریف کی خبرون سے وہ روایتیں مراد ہیں کہ جن میں قرآن کو ناقص بتایا گیا ہے یعنی دو دفتیوں کے درمیان جو کچھ ہے وہ مکمل قرآن نہیں ہے بلکہ اس میں سے کچھ ضائع ہوگیا ہے تو اس کو رد کرنے کے لئے سید مرتضی کی دلیل کافی ہے کہ صاحبان نظر جب غیراللہ کے کلام کو جمع کرنے کے لئے بہت زیادہ احتیاط اور دقت نظر سے کام لیتے ہیں تو پھر اللہ کے کلام کو جمع کرنے میں اتنی بے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ اسراءآیت:۸۸

۱۸۷

احتیاطی کیسے کرسکتے ہیں کہ اس میں کا کچھ حصہ ضائع ہوجائے اور انہیں کبر تک نہ ہو،ایک مضبوط دلیل اور بھی ہے وہ یہ کہ اب تک کسی نے بھی کوئی ایسا جملہ نہیں پیش کیا جس میں آیات قرآن جیسی صلاحیت ہو اور اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ قرآن تھا جواب تک قرآن میں شامل نہیں ہوا تھا۔

صدر اول کے مسلمان اپنے کلام میں مقام احتجاج میں قرآن مجید کی آیتیں پیش کرتے تھے اس وقت کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ قرآن نہیں ہے،ظاہر ہے کہ قرآن کے باہر کے جملوں سے شہادت اور دلیل دینا اور مصحف کے اندر جملوں سے استدلال کرنا دونوں میں فرق ہے۔

مثلاً معصومہ کونینؐ نے دو خطبے ارشاد فرمائے دونوں ہی خطبوں میں استدلال کے لئے قرآنی آیات کا سہارا لیا،لیکن آپ نے جو آیتیں استعمال کی ہیں وہ مصحف شریف میں موجود ہیں حالانکہ مصحف شریف نسلاً بعد نسل ہم تک پہنچاہے لیکن حوالہ اسی مصحف کی آیتوں کا ہے جب کا معصومہ کا قرآن اس وقت کی بات ہے نبیؐ کی وفات کو زیادہ زمانہ نہیں گذرا تھا اور قرآن کے ضائع ہونے یا پوشیدہ رہنے کا کوئی بھی سبب نہیں تھا۔

اب رہ گئیں وہ روایتیں جو بعض کلمات اور عبارت اک طرف قرآن کے تحریف ہونے کا اشارہ کرتی ہیں تو ایسی روایتوں پر توجہ نہیں دینی چاہئیے اس لئے کہ اصلی بات یہ ہے کہ وہ عبارتیں قرآنی نہیں ہیں ان کا اسلوب لب و لہجہ اور ضعف بیان اس بات کا شاہد ہے کہ وہ قرآن نہیں ہیں اور عدم تحریف پر یہ کافی دلیل ہے اس لئے کہ خداوند عالم نے اپنے مخصوص لب و لہجہ سے قرآن کو کامل بنادیا ہے اور ایک معجزاتی کتاب کی حیثیت دے کے حجت تمام کی ہے۔

اس لئے یہ بات طے ہے کہ اگر تاویل ممکن نہ ہو تو ایسی روایتوں کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ اس طرح کی کمزور روایتیں قرآن مجید کی اصلیت اور اس کے تواتر اور اعجاز کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان روایتوں کو جھوٹا مانتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسی روایتوں کو اللہ کی طرف پلٹا دینا چاہئیے کہ خدا جانتا ہے اور ان روایتوں کا قائل جانتا ہے۔

اس لئے کہ یہ وہ اشکالی روایتیں ہیں جن کے بارے میں ہمارے اماموں نے وقوف کی ہدایت

۱۸۸

کی ہے اور اس کے اہل کی طرف اس کے علم کو پلٹانے کی ہدایت کی ہے اس لئے کہ کبھی بھی ماحول سے متاثر ہو کے بھی انسان ایسی باتیں کہہ دینا ہے کو وہ کہنا نہیں چاہتا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بات کی جھوٹی نسبت بھی کسی کی طرف دیدی جاتی ہے اور اس کا علم صرف خدا کو ہوتا ہے۔

تحریف قرآن کا موضوع ایک خطرناک موضوع

۶۔ہم جس طرح خطرناک دور سے گذر رہے ہیں اس میں مسلمانوں کے لئے بہتر ہے کہ بجائے اس کے کہ ایک دوسرے پر کیچڑا اچھالیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں یا انہیں بدنام کریں،ہمیں چاہئے کہ ہم سب مل کر مندرجہ ذیل باتوں کی طرف زیادہ توجہ دیں۔

۱۔دینی حقائق کی تحقیق کامل موضوعیت کے ساتھ تعصب اور جذبات سے دورہ کرکریں اور اس تحقیق میں ہمارا ہدف یہ ہو کہ ہم خدا کے نزدیک جواب دہی کے ذمہ دار ہیں اور دنیا میں اس کے خذلان اور آخرت میں اس کے عذاب سے محفوظ رہیں۔

۲۔جن عقائد میں ہم مشرک ہیں اس میں اسلام کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو کر اتحاد کا ثبوت دیں اور کلمہ اسلام کو بلند کرنے کے لئے اور مشترک ہدف کی خدمت کرنے کے لئے متحد ہوجائیں۔

اس دور میں میری ان لوگوں سے پرزور گذارش ہے جو شیعوں پر تہمت رکھتے ہیں اور بدنام کرتے رہتے ہیں کہ برائے مہربانی صرف وہ تہمتیں رکھئے جو صرف شیعہ فرقہ کے لئے نقصان دہ ہوں اور اس طرح کی تہمتیں ہرگز مت رکھئے جو اسلام کو نقصان پہنچانےوالی ہوں اور جن کا لگاؤ اسلام کے مقدسات و رموز سے ہو مثلاً یہ الزام رکھنا کہ شیعہ غلو کرتے ہیں یہ ایک سنگدلانہ اور ظالمانہ الزام تو ہے لیکن اس کا نقصان صرف شیعوں کو پہنچتا ہے اب یہ شیعوں کی ذمہ داری ہے کہ یا تو وہ اس کی مدافعت کریں گے اور اس الزام کے نتیجوں سے خود کو نجات دینے کی کوشش کریں گے یا پھر اس کا جواب دینے سے عاجز ہوں گے،چاہے ان کا یہ ضعف صرف الزام دینےوالا ہی محسوس کرے،بہرحال الزام تراشی

۱۸۹

کرنےوالے کا مقصد تو حل ہوجائےگا اور اس کے غصہ کی آگ کو تشفی مل جائےگی۔

لیکن شیعوں پر یہ الزام کہ وہ تحریف قرآن کے قائل ہیں صرف شیعوں تک نہیں بلکہ قرآن مجید کے لئے بھی خطرناک ہے جو قرآن اسلام کا دائمی معجزہ ہے وہی قرآن پر عام مسلمانوں کا اجماع نہیں ہے اور وضاحت و ظہور میں اتنا کمزور ہے کہ ہر مسلمان اس کو کلام خدا نہیں مانتا بلکہ مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ اس کا اقرار نہیں کرتا اور اس میں تحریف کو مانتا ہے پھر یہ قرآن دوسری آسمانی کتابوں سے ممتاز کیوں کر ہوا جب کہ دوسری کتابوں کی طرح قرآن میں بھی تحریف ہوئی ہے،سوچئے کہ یہ بات کہاں تک پہنچی!آپ شیعہ دشمنی نے قرآن اور اسلام کے دشمنوں کو جو قرآن اور اسلام پر کسی مصیبت کے آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں انھیں کتنا بڑا ہتھیار دےدیا۔

جو لوگ اس طرح کے الزام شیعوں پر رکھتے ہیں اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے شیعوں کی شان کھٹ جائےگی اور شیعوں کو اسلام سے نکالا جائےگا تو ان کا خیال ہے اس لئے کہ شیعہ فرقہ تمام اسلامی فرقوں کے اندر بلکہ خود اسلام کے اندر اتنی اہمیت رکھتا ہے اور اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ اس فرقہ کو ہٹ دھرمی اور غلط الزام تراشی کے ذریعہ نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا ہے،شیعوں کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہے اگر شیعہ اتنے مضبوط اور پائدار وجود کے حامل نہ ہوتے تو تمام مسلمان مل کے شیعوں پر یہ اعلامی حملے ہرگز نہیں کرتے اور شیعوں سے لوگوں کے دل میں وہ کینے اور عداوت ہرگز نہیں ہوتی جس کو ہم شیعہ آج جھیل رہے ہیں۔

یہ خدائی معجزہ ہے کہ بنی امیہ و بنی عباس کے دور سے شیعہ ظلم سہتے چلے آرہے ہیں(مترجم)مگر دشمنان اسلام کے لئے قرآن مجید اور اسلام عظیم کے اوپر اس طرح کے الزامات یقیناً ایک خوش خبری ہوں گی انہیں دیر سویر تو معلوم ہو ہی جائےگا کہ یہ مسلمان خود قرآن مجید کی واقعیت پر متحد نہیں ہیں تو شیعہ کے خلاف یہ کوشش در حقیقت اسلام اور قرآن کو کمزور کردےگی،آپ یقین کریں اس طرح کے الزامات شیعوں کے خلاف نہیں بلکہ براہ راست اسلام اور قرآن کو نقصان پہنچاتے ہیں اب تو یہ ہوگا کہ اگر شیعہ تحریف قرآن کے الزام سے خود کو الگ ثابت کرنے کے لئے اور جھوٹ کو

۱۹۰

جھوٹ ثابت کرنے کے لئے دلیلیں بھی دیں گے تو شیعہ سنی کا جو مشترک دشمن ہے وہ ان کی بات نہیں سنےگا اور اس الزام کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرےگا،بلکہ جہاں تک ممکن ہوگا اس جھوٹ کو مضبوط کرنے کی کوشش کرےگا،اب اگر شیعوں نے الزام کے جواب میں الزام رکھا اور جواباً کہہ دیا کہ سنی بھی تحریف قرآن کے قائل ہیں تو ظاہر ہے وہ سنی کتابوں سے دلیلیں دیں گے یہ اور برا ہوگا،اس لئے کہ دشمن کہےگا کہ تحریف قرآن کے اوپر تو سنی اور شیعوں کا اجماع ہوچکا ہے اس لئے کہ اس کی نسبت قرآن کی کرامت اور اسلام کی عظمت کو نقصان پہنچانا ہے اور پس وہ جان بوجھ کے اس اجماع عمل سے تجاہل برتےگا جو ابھی کچھ صفحات پہلے بیان کیا جاچکا ہے،بلکہ وہ اسلامی علما کی تصریحات اور تحریف قرآن کے خلاف جو شواہد پیش کئے گئے ہیں ان کی طرف بھی جان بوجھ کے توجہ نہیں دےگا اور مسلمانوں کے اختلاف کو مشہور کرکے اپنا گندا مقصد حاصل کرےگا،اب وہ وقت نہیں رہا کہ مسلمانوں کے فرقے آپس میں ایک دوسرے پر اندر ہی اندر الزام تراشی کریں اور اس کی خبر دشمنوں کو نہ ہو،آج تو میڈیا نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی خبر دشمنوں کو فوراً ہوجاتی ہے،جس طرح مسلمانوں کو آپسی اختلاف کی خبر رہتی ہے تو جب دشمن باخبر ہوجائےگا تو اس کے لئے اسلام کو کمزور کرنا اور اس کو بدنام کرنا بہت آسان ہوجائےگا۔

جن حضرات نے اپنے قلم کے نیزے شیعوں کو نشانہبانے کے لئے اٹھا رکھے ہیں اور شیعوں کے حساس پہلوؤں پر چوٹیں کررہے ہیں انہیں سمجھنا چاہئیے کہ اپنی اس حرکت سے وہ اسلام اور مقدسات اسلامی کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔میں تو عرض کرتا ہوں کہ تمام ملت اسلامیہ کو ایسے لوگوں کے خلاف متحد ہوجانا چاہئیے تا کہ ان کے دین اور مقدسات دین کو نقصان نہ پہنچانےوالوں سے سوال کیا جائے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں اور بہتر طریقہ سے انہیں روک دیا جائے۔

تقریباً سات سال پہلے میرے سامنے ایک بہت خطرناک مسئلہ آیا تھا کچھ شیعہ نوجوان تحریف قرآن کے الزام سے تنگ آکے جوش میں آگئے تھے اور انہوں نے اہل سنت کے پاس تحریف قرآن کی جو روایتیں ہیں انہیں جواب میں پیش کرنے کی ٹھان لی تا کہ جواب بالمثل دیا جاسکے بلکہ انہوں

۱۹۱

نے سنی حدیثوں سے اس عجیب و غریب اور ناقابل گفتگو موضوع پر اچھا خاصہ مواد بھی اکٹھا کرلیا تھا،لیکن جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے ان کے جوش کو ٹھنڈا کیا اور انہیں سمجھایا کہ ہماری اس حرکت سے کتنی مشکلیں سامنے آئیں گی،ہم نے انہیں سمجھایا کہ جو کچھ آپ جانتے ہیں اسے وسیع پیمانے پر مشہور نہ کریں اور انفرادی طور پر صرف معترضین کو ان کی غلطی پر متوجہ کردیں بڑے پیمانے پر اس آپسی الزام تراشی اور طعن و تشنیع کے طریقے سے بچیں تا کہ اس حساس مسئلہ میں ان کے کسی طریقہ سے قرآن مجید کو شعوری یا لاشعوری طور پر کوئی نقصان نہ پہنچ سکے،ہم نے انہیں سمجھایا کہ شیعوں پر زیادتی اور حملے سے زیادہ بری بات قرآن مجید کی رفعت اور اس کی عظمت پر حملہ ہے،بات ان لوگوں کے سمجھ میں آگئی اور خدا ہی مکروہات کے معاملے میں بھی حمد کا مستحق ہے-(انا لله و انا الیه راجعون و العاقبة للمتقین) (۱)

ہم تو بس خدا کے ہیں او اسی کی طرف واپس جانے والے ہیں اور عاقب تو صاحبان تقویٰ کا حق ہے۔

--------------

سورہ قصص : آیت ۸۳

۱۹۲

سوال نمبر۔۴

سنیوں کے امام مہدی جن کا انتظار کیا جارہا ہے دوسرے ہیں اور شیعوں کے دوسرے کیا دونوں رائے ایک ساتھ صحیح ہوسکتی ہے؟صحیح رائے کس کی ہے سنیوں کی یا شیعوں کی؟

جواب:اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل امور آپ کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں

۱۔امام مہدیؑ وہی صاحب ہیں جن کی سرکار دو عالمؐ اور آئمہ ہدیٰؑ نے خبر دی ہے اور وہ تمام مسلمانوں کےنزدیک ایک ہی ہیں لیکن اختلاف کا موضوع دو باتیں ہیں۔

الف:حضرت کا نسب،شیعوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام مہدی ابوعبداللہ الحسینؑ کی اولاد میں سے ہیں آپ امام حسینؑ کی ذریت کے نویں اور شیعوں کے بارویں امام ہیں علما اہل سنت کی ایک جماعت بھی شیعوں کہ اس عقیدے سے متفق ہے اس عقیدے کی گواہ وہ بہت سی حدیثیں ہیں جو نبیؐ اور آپ کے آل اطہارؑ سے مروی ہیں یا کسی دوسری بات پات کی دلیل میں ضمیمہ کرکے پیش کی گئی ہیں۔

ب:دوسرا اختلاف آپ کی ولادت کے سلسلے میں ہے،یعنی یہ کہ آپ پیدا ہوچکے ہیں اور فعلاً

۱۹۳

موجود ہیں یا ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں،بلکہ اپنے قیام کے کچھ دن پہلے پیدا ہوں گے امامیہ فرقہ کا اجماع قول اول پر ہے یعنی آپ پیدا ہوچکے ہیں،ان کا عقیدہ ہے کہ آپ بہ حکم خدا غائب ہیں اور ظہور کے لئے خدا کی اجازت کا انتظار کررہے ہیں۔اہل سنت کی ایک جماعت بھی شیعوں کے اس قول سے متفق ہے لیکن علما اہل سنت کی ایک بڑی جماعت دوسرے قول کی قائل ہے یعنی آپ پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ ظہور سے قبل پیدا ہوں گے۔

شیعہ فرقہ اور وہ حضرات جو شیعوں سے معاملے میں متفق ہیں وہ آپ کی ولادت پر حدیثوں کے ذریعہ دلیلیں دیتے ہیں لیکن دوسرے فریق کے پاس ظاہر ہے کہ ایسی خبریں نہیں ہیں جو آپ کی ولادت کی نفی کرسکیں۔

بلکہ ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ شیعہ دلیلوں پر غور نہیں کرتے یا ان حدیثوں پر بھروسہ نہیں کرتے اور چونکہ ان کے نزدیک امام کی ولادت ثابت نہیں ہوسکی۔

اور آپ کی لمبی حیات کو وہ بعید از قیاس سمجھتے ہیں اس لئے انہوں نے گھبرا کے فیصلہ کردیا کہ ابھی آپ پیدا نہیں وہئے ہیں اور پھر چونکہ آپ کے متعلق وافر مقدار میں خبریں ہیں اس لئے انہوں نے مجبوری میں یہ فیصلہ کیا کہ آپ ظہور کے کچھ پہلے پیدا ہوں گے۔

۲۔اب رہ گیا آپ کا یہ سوال کہ کیا سنی عقیدےوالے مہدی اور شیعہ عقیدے والے مہدی ایک ہوسکتے ہیں تو عرض ہے کہ ایک ہونے کی کوئی گنجائش نہیں،اس لئے کہ امام مہدی ایک واحد شخص کا نام ہے جس کے بارے میں نبی نے پیشن گوئی فرمائی ہے اور ظاہر ہے کہ شخص واحد کا دو مختلف حالتوں میں پایا جانا محال ہے دونوں میں سے کوئی ایک ہی قول صحیح ہوسکتا ہے۔یعنی یا تو یہ مان لیا جائے کہ پیدا ہونگے اس لئے کہ معاملہ انہیں دو باتوں کے درمیان محصوت ہے اور جب دونوں باتوں میں سے ایک بات ثابت ہوجائے گی تو دوسری خودبخود باطل ہوجائےگی۔

۳۔اگر آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کون سے رائے صحیح ہے تو فطری طور پر میں یہی کہوں گا کہ میرے مذہب کی رائے صحیح ہے اس کی وجہ وہ ٹھوس دلیلیں ہیں جو میری بات کی حمایت میں مجھ حاصل

۱۹۴

ہیں ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک میری رائے کی خاص اہمیت نہیں ہوگی کہ آپ میری دلیلوں کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔

چونکہ امام غائب اثنا عشری شیعوں کے خاتم الائمہ ہیں اس عقیدہ سے امامت کی تکمیل ہوتی ہے اور امامت و خلافت کو ثابت کرنے میں بھی حدیثیں اہل سنت کے دعوائے خلافت و امامت کے خلاف بھی استعمال ہوتی ہیں۔

لیکن اس سلسلے میں کافی لمبی گفتگو کی ضرورت ہے جس کو میں اس مختصر سی بحث میں چھیڑنا نہیں چاہتا جو حقیقت کا طالب ہے اس کو چاہئیے کہ خود تلاش کرے۔

دونوں فرقوں(شیعہ اور سنی)کے علاوہ درمیان نظام حکومت کی تعریف

ایک بات عرض کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے درمیان جب امامت پر گفتگو ہو تو کسی شخص کا تقابل کرنے کےبجائے نظام حکومت کو سمجھ لیا جائے یعنی اس بات پر بحث نہ ہو کہ علیؑ مستحق خلافت تھے یا ابوبکر یا یہ کہ اہل بیت کو یا پھر قرشی اور مہاجرین صحابہ میں تقابل کردیا جائے اس طرح تو بحث محدود ہو کے شخصی ہوجائے گی اس لئے کہ اسلام دین خاتم ہے اور جب تک یہ زمین باقی رہےگی اس وقت تک یہ دین بھی باقی رہےگا اور یہ بھی طے ہے کہ اسلام ہی تا قیامت اس دنیا کے لئے ایک حکومت کا نظارہ رکھتا ہے تو پھر نظام حکومت کے نفاذ کے لئے اور اسلامی حکومت کی تشریع کے لئے ایک ایسا نظام چاہئیے جس کے اندر زمین میں استمرار کی صلاحیت ہو اگر اس نظام امامت و حکومت کو ہم کسی ایک شخص یا چند افراد سے مخصوص کردیں گے تو ظاہر ہے کہ جب وہ افراد دنیا میں رہیں گے تو نظام چلےگا اور اس کے بعد اسلام تو موجود رہےگا لیکن نظام اسلام کو نافذ کرنےوالا کوئی نہ ہوگا۔

اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ دونوں کے نظام حکومت و امامت میں مقارنت ہونی چاہئیے تو پھر یہ

۱۹۵

ضروری ہے کہ دونوں کے پاس ایک ایسا نظام صالح ہونا چاہئیے جس کے ذریعہ اسلامی حکومت کے قانون کا نفاذ اور اس کی تشریع ہوسکے اور اس کے اندر اتنا امتداد ہو کہ جب تک اس زمین کے سینے پر ایک بھی انسان ہے اس کے لئے تشریع اور تنظیم کے لئے کوئی ہو جو نظام حکومت اسلامی کے معیار پر پورا اترتا ہو اور جب ہم نظام حکومت کو معین کریں گے اور اس کی حقانیت پر شرعی دلیلیں قائم کریں گے تو پھر اس کے معیار پر حاکم بھی مل جائےگا اس لئے کہ اب ہم حاکم کی تلاش،شرعی اساس پر کریں گے اور جو ہماری نظام حکومت کی تعریف کی حدوں میں آئےگا وہی حاکم ہوگا باقی جو ان حدوں کے اندر نہیں آتا ہے خودبخود نکل جائےگا،حق کو پہچان لو اہل حق کو پہچان جاؤگے(۱) البتہ اگر ہم شرعی نظام حکومت معین نہیں کریں گے اور پھر بھی حاکم شرعی بات کرنا چاہیں گے تو یہ گفتگو بےمعنی ہوگی اور یہ سوچنا ہی بے معنی ہے کہ کس کی حکومت شرعی تھی یا غیر شرعی اس لئے کہ ابھی تو ہم نے حکومت شرعیہ کو معین ہی نہیں کیا ہے۔اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ شیعوں کے نزدیک اسلامی نظام حکومت کا مطلب یہ ہے کہ امام کا تعین اللہ کی طرف سے ہو اس میں کسی سے مشورہ لینے،بیعت لینے یا اقرار لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

خداوند عالم کے لئے یہ ضروری ہے کہ امام کا تعیّن کرے اور اس کو مشخص کردے اس کے لئے ایسی دلیل دے کہ جو واضح ہو،تعین اللہ کی طرف سے یا تو نبی کے ذریعہ ہوتا ہے یا پھر اس امام کے ذریعہ ہوتا ہے جو نبی کی طرف سے معین کیا گیا ہو،اس لئے کہ نبی کا تعین کردہ امام نبی کے اشارہ پر ہی امام کو مشخص کرےگا اور نبی خدا کے اشارے پر۔

اس بنا پر عرض ہے کہ:

شیعوں کے نزدیک وہ امام جنہیں اللہ نے نبی کے بعد امامت کی ذمہ داری دی ہے اور جن کے ذریعہ اپنی تبلیغ مکمل کرتا ہے وہ بارہ امامؑ ہیں اور وہ سب کے سب نبیؐ کے اہل بیت میں سے ہیں

-------------

(۱)تفسیر قرطبی،ج:۱ص:۳۴۰،آیت(ولاتلبسوا الحق بالباطل) کی تفسیر میں،فیض القدیر شرح جامع الصغیر،ج:۱ص:۲۷۲،۲۸،حدیث،۲۸۸،کی شرح میں،اسی طرح،ج:۴،ص:۲۴۰۹،۲۳حدیث کی شرح میں،ابجد العلوم،ج:۱ص:۱۲۶،الاعلام الثامن فی آداب المتعلم و المعلم فی الجمل السابقہ

۱۹۶

ان میں سب سے پہلے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ اسلام پھر حسن سبط الزکی علیہ السلام،پھر حسین سبط شہید علیہ السلام پھر نو امام سبط اصغر امام حسینؑ کی ذریت میں ہیں،جن کے نویں،امام ابن الحسن العسکری،الغائبہ المہدی،المنتظر ہیں بارہ حضرات ہیں جو خلافت و حکومت شرعی کے مالک ہیں،ان کے علاوہ کوئی کتان ہی بڑا آدمی ہو امام نہیں ہوسکتا شیعوں کے پاس اپنے اس عقیدے کے لئے بھر پور دلیلیں ہیں جن پر وہ بھروسہ کرتے ہیں اور جن کے ذریعہ وہ حجت قائم کرکے اپنے مخالف کو تسلی بخش جواب دیتے ہیں۔

لیکن افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ اہل سنت کے پاس نظام حکومت کا ایسا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ ان حضرات نے اب تک امت کو اندھرے میں رکھا ہے میرے لئے ممکن نہیں ہے کہ میں ان کے نظام حکومت و شریعت کی تعریف کرسکوں اس لئے کہ وہ شیعوں کے عقیدے سے بالکل الگ عقیدہ رکھتے ہیں اگر کوئی آدمی ان کے خلفاء کے واقعات کو دیکھے اور ان خلفاء کی خلافت کو شرعی حیثیت دینے کے لئے ان حضرات نے جو مفروضات قائم کئے ہیں ان پر غور کرے تو اس کی نظر میں بات خودبخود واضح ہوجائےگی یہ الگ بات ہے کہ بعض اہل سنت کی یہ کوشش رہی ہے کہ خلافت کا اختیار امت کو ہے،چاہے جس کو خلیفہ بنائے،حالانکہ اگر یہ بات مان لی جائے تو پھر نظام مکمل نہیں ہوگا اس لئے کہ جب ہم اس کی تحدید کرتےہیں تو مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

۱۔امامت و خلافت کا انتظام کرنے کا حق کس کو ہے؟اس کا نسب اس کا سن اس کی دینی اور سماجی حیثیت کیا ہونی جاہئے؟

۲۔خلافت کے لئے منتخب شخص کی اہلبیت کب ساقط ہوجائےگی اور وہ کون سے اسباب ہیں جو اس کو معزول کردیں گے؟

مثلاً فیصلے میں ظلم یا مطلق فسق،خرافات و مرض،عجز مطلق اور ضعف و غیرہ ان تمام باتوں کو بہت توجہ کے ساتھ واضح کرنا ضروری ہے تا کہ اختلافات کی کوئی صورت نہ پیدا ہو اس سلسلے میں عثمان کے معاملے میں جو کچھ ہوا اس سے امن بچانا بھی ضروری ہے،اس وقت عثمان کے مخالفین اس بات کا

۱۹۷

مطالبہ کررہے تھے کہ عثمان کو خلافت سے معزول کردیا جائے اس لئے کہ وہ اس کی اہلیت نہیں رکھتے اور عثمان کہہ رہے تھے کہ اللہ نے جو لباس پہنایا ہے،اس کو وہ نہیں اتاریں گے،اس طرح کے واقعات حکومت اموی اور عباسی میں بھی سامنے آئے۔

۳۔خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار کا حق کس کو ہے؟اس کی خاندانی،دینی اور سماجی حیثیت کیا ہونی چاہئے؟کس عمر میں اس کو یہ حق حاصل ہوتا ہے؟مردوں ہی کو یہ حق حاصل ہے یا عورتیں بھی حقدار ہیں و غیرہ۔

۴۔ان امور کی نگرانی اور جانچ کیسے ہوگی؟یعنی کیسے پتہ چلےگا کہ کس کے اندر خلافت کی صلاحیت ہے؟اور کس کے اندر انتخاب و اختیار ہے؟منتخب شخص کے اندر کب تک وہ صلاحیتیں موجود ہیں اور کب ختم ہوجاتی ہیں کس طریقہ پر ہم ان امور کو ثابت کرسکیں گے۔

۵۔امام اور خلیفہ کی صلاحیت کیا ہونی چاہئیے اس لئے کہ جب اہل سنت کا شیعوں سے اختلاف ہوا تو انہوں نے کہہ دیا کہ خلیفہ کا معصوم ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کرسکتا ہے،اپنے اجتہاد میں وہ خدا اور رسول کا پابند نہیں ہے،اس لئے خلیفہ کی صلاحیت کی حدیں کیا ہیں؟طے ہوجانا چاہئے اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اہل سنت کے خلفاء کے کردار میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔

جیسے اہل سنت اس بات کے قائ ہوگئے کہ نبی نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا تھا اور خلیفہ کے اختیار کا حق امت کو دےدیا تھا پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ابوبکر،عمر کو خلیفہ بناتے ہیں پھر عمر خلیفہ بنانےکا ایک الگ طریقہ اختیار کرتے ہیں،ان کے خیال میں خلافت کی صلاحیت چند افراد میں تھی اور خلیفہ بنانے کا اختیار بھی چند افراد کو تھا،پھر امیرالمومنینؑ کی بیعت عثمان کے بعد اجتماعی حیثیت سے کی جاتی ہے اور مہاجرین و انصار کے نمایان افراد امیرالمومنینؑ کی بیعت کرتے ہیں اور عام مسلمان آپ کی خلافت کو قبول کرتے ہیں جب کہ عثمان کے دور میں ایسا نہیں تھا۔پھر امام حسنؑ کی بیعت ہوتی ہے لیکن آپ کی خلافت پر امیرالمومنینؑ نص فرماتے ہیں یا بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عوام نے امام حسن کو خلیفہ مانا،

۱۹۸

واقعہ تحکیم میں معاویہ اپنے آپ کو خلیفہ شرعی ہونے کا اعلان کردیتے ہیں(یعنی انتخاب خلیفہ کا کوئی اصول نہیں ہے جس کو جیسے موقع ملا وہ خلیفہ بناتا چلا گیا،اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ)مترجم

اس کے بعد اکثر خلفاء کی نص پر مستحق قرار پائے پھر معیار خلافت قوت کو مان لیا گیا اور اب خلیفہ نے ایک سے زیادہ اور دوسری اسلامی حکومتوں میں بھی یہی سلسلہ اپنایا گیا جیسے کبھی کسی کو خلافت سے لگ کردیا گیا کبھی ولی عہد بنایا گیا،کبھی طاقت کے ذریعہ خلافت حاصل کی گئی اور کبھی دوسرے ذریعوں سے جس کی تفصیل مورخین نے پنی کتابوں میں بیان کی ہے۔

بلکہ اکثر بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے خلیفہ صرف اپنے بعد والے پر نص ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے دور خلافت میں کچھ لوگوں کو خلافت کا حصہ دار بنانا چاہتا ہے،چنانچہ ابوبکر نے امیرالمومنین علیہ السالم کی قوت کو کمزور کرنے کے لئے عباس بن عبدالمطلب کو اپنے ساتھ ملانا چاہا اور انہیں خلافت میں ایک حصہ دینے کی پیش کش کی یہ الگ بات ہے کہ جناب عباس بن عبدالمطلب نے ابوبکر کی یہ پیش کش ایک تاریخی جملہ کہہ کے ٹھکرادی عباس بن عبدالمطلب نے فرمایا کہ تم ہمیں جو خلافت کا حصہ دار بنانا چاہتے ہو تو اگر خلافت تمہارا حق ہے تو ہم کیوں لیں؟اپنے حق کو اپنے پاس رکھو اور اگر مومنین کا حق ہے تو تمہیں اس میں حکم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور اگر ہمارا حق دے رہے ہو تو سب دو ورنہ ہم کچھ حصہ لےکے راضی نہیں ہوں گے۔(۱) تو جناب والا اہل سنت کے نظریہ خلافت کے متعلق یہ ساری باتیں ہیں اور اب رہ گئے بقیہ دینی امور اور ان کی شرعی حیثیتیں تو خلفا نے اس میں بھی مداخلت کی ہے۔جیسا کہ ابھی ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۲۲۱ الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۱۸،علیؑ کی بیعت کس طرح ہوئی تھی،تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۵۔۱۲۶،سقیفہ بنی ساعدہ کی روایت اور بیعت ابی بکر کے باب میں۔

۱۹۹

آپ کے ساتویں سوال کے جواب میں عرض کریں گے کہ عمر اور ابوبکر کے دور خلافت میں سنت نبوی کو معطل کردیا گیا اور حدیث نبی بیان کرنے کا حق بھی مسلمانوں سے سلب کرلیا گیا صرف چند حدیثیں(جو بظاہر ان کے مفاد میں تھیں،مترجم)بیان کرنے کی اجازت دی گئی یہی حال معاویہ کے دور میں خلافت میں رہا،وہ مسلمانوں سے کہا کرتا تھا کہ اے لوگو!پیغمبرؐکی حدیثیں کم سے کم بیان کرو اگر تم حدیث بیان کرنا ہی چاہتے ہو تو صرف وہ حدیثیں بیان کرو جو عمر کے دور میں رائج تھیں(۱) عمر نے مسلمانوں پر ہمیشہ پر ہمیشہ دینی امور میں اپنی رائے مسلط کی،جیسے متعۃ الحج اور متعۃ النساء کو حرام قرار دینا(اسلام پر ایسا بھی وقت پڑا ہے،مترجم)کہ لوگ فقہ،عقائد اور حدیث کی توجیہ کے وقت اس بات کا خیال رکتھے تھے کہ حکما وقت ان کی طرف متوجہ ہوں،بلکہ حکام اپنے مطلب کی توجیہ کرنے کے لئے علما کی پرورش کرتے تھے جیسے منصور عباسی نے امام مالک بن انس سے کہا کہ فقہ کی ایسی کتاب لکھیں جو لوگوں پر تحمیل کردی جائے اور مامون نے ارادہ کیا تھا کہ متعہ کو حلال کردے لیکن لوگوں کے ڈر سے خاموش رہا،مامون نے قرآن کے مخلوق ہونے کا نظریہ اور اللہ کی قیامت کے دن نفی رویت ہونے کے نظریہ کی مسلمانوں پر تحمیل کی۔

مامون،معتزلہ کے مذہب کی ترویج کرتا رہا،یہاں تک کہ متوکل نے آکے اس کو بدل ڈالا اور رویت کی حدیثوں کو عام کرنے کا حکم دیا۔پھر قرآن کے عدم خلقت کا نظریہ بھی رائج کیا اور معتزلہ کے مذہب کے خلاف نظریوں کی حوصلہ افزائی کی۔

سن۴۰۸؁میں قادر نے حنفی معتزل اور شیعوں سے توبہ کرنے کو کہا،ان کے علاوہ بھی جو لوگ اس کے نظریوں کے مخالف تھے سب سے توبہ کرنے کو کہا اور مناظرہ کرنے کو منع کردیا،پھر بات یہاں تک پہنچی کہ صرف مذاہب اربعہ کے نظریات کے مطابق فیصلہ ہونے لگا،اس کی سختی سے پابندی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)کنزالعمال ج:۱۰ص:۲۹۱،حدیث۲۹۴۷۳،اور اسی طرح معجم الکبیرج:۱۹ص:۳۷۰،جس میں عبداللہ بن عامر الحصی التاری نے معاویہ سے روایت کی ہے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

وجہ سے آپ کی سانس رکنے لگ جاتی تھی_(۴۷۳)

امام حسن علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ نماز کی حالت میں آپ کا بدن مبارک لرزنے لگتا تھا اور جب بہشت یا دوزخ کی یاد کرتے تو اس طرح لوٹتے پوٹتے کہ جیسے سانپ نے ڈس لیا ہو اللہ تعالی سے بہشت کی خواہش کرتے اور دوزخ سے پناہ مانگتے تھے_(۴۷۴)

حضرت عائشےہ رسول خدا(ص) کے بارے میں فرماتی ہیں کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو کر رہی ہوتی جب نماز کا وقت آیات تو آپ اس طرح منقلب ہوتے کہ گویا آپ مجھے نہیں پہچانتے اور میں انہیں نہیں پہچانتی_(۴۷۵)

امام زین العابدین علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ نماز کی حالت میں تھے کہ آپ کے کندھے سے عبا گر گئی لیکن آپ متوجہ نہیں ہوئے جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کے اصحاب میں سے ایک نے عرض کی اے فرزند رسول(ص) آپ کی عباء نماز کی حالت میں گر گئی اور آپ نے توجہ نہیں کی؟ آپ نے فرمایا کہ افسوس ہو تم پر جانتے ہو کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہوا تھا؟ اس ذات کی توجہ نے مجھے عباء کے گرنے کی توجہ سے روکا ہوا تھا_ کیا تم نہیں جانتے کہ بندہ کی نماز اتنی مقدار قبول ہوتی ہے کہ جتنا وہ خدا کی طرف حضور قلب رکھتا ہو_ اس نے عرض کی _ اے فرزند رسو ل(ص) پس ہم تو ہلاک ہوگئے؟ آپ نے فرمایا '' نہیں _ اگر تم نوافل پڑھو تو خدا ان کے وسیلے سے تمہاری نماز کو پورا کر دے گا_(۴۷۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ نماز کی حالت میں آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا تھا اور آپ کے سینے سے غلفے کی طرح آواز اٹھتی ہوئی سنی جاتی تھی اور جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اس لباس کی طرح جو زمین پر گرا ہوا ہو حرکت نہیں کیا کرتے تھے_

۲۶۱

حضور قلب کے مراتب

حضور قلب اول اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کے مختلف درجات ہیں کہ ان میں سے بعض کامل اور دوسرے بعض زیادہ کامل ہیں_ عارف انسان آہستہ آہستہ ان درجات کو طے کرے تا کہ قرب اور شہود کے اعلی درجے اور عالیتر مقام کو حاصل کر لے_ یہ ایک طویل راستہ ہے اور متعدد مقامات رکھتا ہے کہ جس کی وضاحت مجھ جیسے محروم انسان سے دور ہے دور سے دیکھتے والا جو حسرت کی آگ میں جل رہا ہے یہ اس کی قدرت اور طاقت سے خارج ہے لیکن اجمالی طور سے بعض مراتب کی طرف اشارہ کرتا ہوں شاید کہ عارف انسان کے لئے فائدہ مند ہو_

پہلا مرتبہ

یوں ہے کہ نماز پڑھنے والا تمام نماز یا نماز کے بعض حصے میں اجمالی طور سے توجہ کرے کہ خداوند عالم کے سامنے کھڑا ہوا ہے اور اس ذات کے ساتھ ہم کلام اور راز و نیاز کر رہا ہے گرچہ اسے الفاظ کے معانی کی طرف توجہ نہ بھی ہو اور تفضیلی طور سے نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے_

دوسرا مرتبہ

قلب کے حضور اور توجہ کا یوں ہونا کہ نمازی علاوہ اس کے کہ وہ نماز کی حالت میں اپنے آپ کو یوں جانے کہ خدا کے سامنے کھڑا اور آپ سے راز و نیاز کر رہا ہے ان کلمات کے معانی کی طرف بھی توجہ کرے جو پڑھ رہا ہے اور سمجھے کہ وہ خدا سے کیا کہہ رہا ہے اور کلمات اور الفاظ کو اس طرح ادا کرے کہ گویا ان کے معانی کو اپنے دل پر خطور دے رہا ہے مثل اس ماں کے جو الفاظ کے ذریعے اپنے فرزند کو معانی کو تعلیم دیتی ہے_

۲۶۲

تیسرا مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی تمام سابقہ مراتب بجا لاتے ہوئے تکبیر اور تسبیح تقدیس اور تحمید اور دیگر اذکار اور کلمات کی حقیقت کو خوب جانتا ہو اور ان کو علمی دلیلوں کے ذریعے پہچانتا ہو اور نماز کی حالت میں ان کی طرف متوجہ ہو اور خوف جانے کہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا چاہتا ہے اور کس ذات سے ہم کلام ہے_

چوتھے مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی ان سابقہ مرحلوں کے ساتھ کلمات اور اذکار کے معانی اور معارف کو اچھی طرح اپنی ذات کے اندر سموئے اور کامل یقین اور ایمان کے درجے پر جا پہنچے اس حالت میں زبان دل کی پروی کرے گی اور دل چونکہ ان حقائق کا ایمان رکھتا ہے زبان کو ذکر کرنے پر آمادہ اور مجبور کرے گا_

پانچواں مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی سابقہ تمام مراحل کے ساتھ کشف اور شہود اور حضور کامل تک جاپہنچے اللہ تعالی کے کمالات اور صفات کو اپنی باطنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے اور سوائے خدا کے اور کسی چیز کو نہ دیکھے یہاں تک کہ اپنے آپ اور اذکار اور افعال اور حرکات کی طرف بھی متوجہ نہ ہو خدا سے ہم کلام ہے یہاں تک کہ متکلم اور کلام سے بھی غافل ہے اپنے آپ کو بھی گم اور ختم کر چکا ہے_ اور اللہ تعالی کے جمال کے مشاہدے میں محو اور غرق ہے_ یہ مرتبہ پھر کئی مراتب اور درجات رکھتا ہے کہ عارف انسانوں کے لحاظ سے فرق کر جاتا ہے _ یہ مرتبہ ایک عمیق اور گہرا سمندر ہے بہتر یہی ہے کہ مجھ جیسا محروم انسان اس میں وارد نہ ہو اور اس کی وضاحت ان کے اہل اور مستحق لوگوں کی طرف منتقل کردے_اللهم ارزقنا حلاوة ذکرک و

۲۶۳

مشاهدة جمالک

حضور قلب اور توجہ کے اسباب

جتنی مقدار حضور قلب اور توجہ کی ارزش اور قیمت زیادہ ہے اتنی مقدار یہ کام مشکل اور سخت دشوار بھی ہے _ جب انسان نماز میں مشغول ہوتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالنا شروع کردیتا ہے او ردل کو دائما ادھر ادھر لے جاتا ہے اور مختلف خیالات اور افکارمیں مشغول کر دیتا ہے_ اسی حالت میں انسان حساب کرنا شروع کر دیتا ہے بقشے بناتا ہے اور گذرے ہوئے اور آئندہ کے مسائل میں فکر کرنا شروع کر دیتا ہے_ علمی مطالب کو حل کرتا ہے اور بسا اوقات ایسے مسائل اور موضوعات کو کہ جن کو بالکل فراموش کر چکا ہے نماز کی حالت میں یاد کرتا ہے اور اس وقت اپنے آپ میں متوجہ ہوتا ہے کہ جب نماز ختم کر چکا ہوتا ہے اور اگر اس کے درمیان تھوڑا سا نماز کی فکر میں چلا بھی جائے تو اس سے فورا منصرف ہوجاتا ہے_

بہت سی تعجب اور افسوس کا مقام ہے _ کیا کریں کہ اس سرکش اور بیہودہ سوچنے والے نفس پر قابو پائیں کس طرح نماز کی حالت میں مختلف خیالات اور افکار کو اپنے آپ سے دور کریں اور صرف خدا کی یاد میں رہیں_ جن لوگوں نے یہ راستہ طے کر لیا ہے اور انہیں اس کی توفیق حاصل ہوئی ہے وہ ہماری بہتر طریقے سے راہنمایی کر سکتے ہیں_ بہتر یہ تھا کہ یہ قلم اور لکھنا اس ہاتھ میں ہوتا لیکن یہ حقیر اور محروم بھی چند مطالب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو حضور قلب اور توجہہ کے فائدہ مند ہوں گے_

۱_ گوشہ نشینی

اگر مستحب نماز یا فرادی نماز پڑھے تو بہتر ہے کہ کسی تنہائی کے مکان کو منتخب کرے کہ ج ہاں شور و شین نہ ہو اور وہاں کوئی فوٹو و غیرہ یا کوئی ایسی چیز نہ ہو کہ جو نمازی کو اپنی طرف متوجہ کرے اور عمومی جگہ پر نماز پڑھے اور اگر گھر میں نماز پڑھے تو

۲۶۴

بہتر ہے کہ کسی خاص گوشے کو منتخب کر لے اور ہمیشہ وہاں نماز پڑھتا رہے نماز کی حالت میں صرف سجدہ گاہ پر ن گاہ رکھے یا اپنی آنکھوں کو بند رکھے اور ان میں سے جو حضور قلب اور توجہہ کے لئے بہتر ہو اسے اختیار کرے اور بہتر یہ ہے کہ چھوٹے کمرے یا دیوار کے نزدیک نماز پڑھے کہ دیکھنے کے لئے زیادہ جگہ نہ ہو اور اگر نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھے تو پھر صرف سجدہ گاہ پر نگاہ کرے اور اگر پیش نماز بلند آواز سے قرات پڑھے تو اس کی قرائت کی طرف خوب توجہ کرے_

۲_ رکاوٹ کا دور کرنا

نماز شروع کرنے سے پہلے جو حضور قلب اور توجہ کا مانع اور رکاوٹ ہے اسے دور کرے پھر نماز پڑھنے میں مشغول ہوجائے اور اگر پیشاب اور پاخانے کا زور ہو تو پہلے اس سے فارغ ہو جائے اس کے بعد وضو کرے اور نماز میں مشغول ہو اور اگر سخت بھوک اور پیاس لگی ہوئی ہو تو پہلے کھانا اور پانی پی لے اور اس کے بعد نماز پڑھے اور اگر پیٹ کھانے سے بھرا ہوا اور نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو تو پھر ٹھہر جائے اور صبر کرے یہاں تک کہ نماز پڑھنے کو دل چاہنے لگے_

اور اگر زیادہ تھکاوٹ یا نیند کے غلبے سے نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو_ تو پہلے اپنی تکاوٹ اور نیند کو دور کرے اس کے بعدنماز پڑھے_ اور اگر کسی مطلب کے واضح نہ ہونے یا کسی واقعہ کے رونما ہونے سے پریشان ہو اگر ممکن ہو تو پہلے اس پریشانی کے اسباب کو دور کرے اور پھر نماز میں مشغول ہو سب سے بڑی رکاوٹ دنیاوی امور سے محبت اور علاقہ اور دلبستگی ہوا کرتی ہے_ مال و متاع _ جاہ و جلال اور منصب و ریاست اہل و عیال یہ وہ چیزیں ہیں جو حضور قب کی رکاوٹ ہیں ان چیزوں سے محبت انسان کے افکار کو نماز کی حالت میں اپنی طرف مائل کر دیتے ہیں اور ذات الہی کی طرف متوجہ ہونے کو دور کر دیتے ہیں_ نماز کو ان امور سے قطع تعلق کرنا چاہئے تا کہ اس کی توجہ اور حضور قلب اللہ تعالی کی طرف آسان ہوجائے_

۲۶۵

۳_ قوت ایمان

انسان کی اللہ تعالی کی طرف توجہ اس کی معرفت اور شناخت کی مقدار کے برابر ہوتی ہے اگر کسی کا اللہ تعالی پر ایمان یقین کی حد تک پہنچا ہوا ہو اور اللہ تعالی کی قدرت اور عظمت اور علم اور حضور اور اس کے محیط ہونے کا پوری طرح یقین رکھتا ہو تو وہ قہر اللہ تعالی کے سامنے خضوع اور خشوع کرے گا_ اور اس غفلت اور فراموشی کی گنجائشے باقی نہیں رہے گی_ جو شخض خدا کو ہر جگہ حاضر اور ناظر جانتا ہو اور اپنے آپ کو اس ذات کے سامنے دیکھتا ہو تو نماز کی حالت میں جو ذات الہی سے ہم کلامی کی حالت ہوتی ہے کبھی بھی اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہیں ہوگا_ جیسے اگر کوئی طاقت ور بادشاہ کے سامنے بات کر رہا ہو تو اس کے حواس اسی طرف متوجہ ہونگے اور جانتا ہے کہ کیا کہہ رہاہے اور کیا کر رہا ہے اگر کوئی اللہ تعالی کو عظمت اور قدرت والا جانتا ہو تو پھر وہ نماز کی حالت میں اس سے غافل نہیں ہوگا لہذا انسان کو اپنے ایمان اور معرفت الہی کو کامل اور قوی کرنا چاہئے تا کہ نماز میں اسے زیادہ حضور قلب حاصل ہوسکے_

پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ '' خدا کی اس طرح عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے_(۴۷۸)

ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے امام زین العابدین علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ آپ کا نماز میں ایک رنگ آتا تھآ اور جاتا تھا؟ آپ نے فرمایا '' ہاں وہ اس مبعود کو کہ جس کے سامنے کھڑے تھے کامل طور سے پہچانتے تھے_(۴۷۹)

۴_ موت کی یاد

حضور قلب اور توجہ کے پیدا ہونے کی حالت کا ایک سبب موت کا یاد کرنا ہو

۲۶۶

سکتا ہے اگر انسان مرنے کی فکر ہیں اور متوجہ ہو کہ موت کا کوئی وقت نہیں ہوتا ہر وقت اور ہر شرائط میں موت کاواقع ہونا ممکن ہے یہاں تک کہ شاید یہی نماز اس کی آخری نماز ہو تو اس حالت میں وہ نماز کو غفلت سے نہیں پڑھے گا بہتر ہے کہ انسان نماز سے پہلے مرنے کی فکر میں جائے اور یوں تصور کرے کہ اس کے مرنے کا وقت آ پہنچا ہے اور حضرت عزرائیل علیہ السلام اس کی روح قبض کرنے کے لئے حاضر ہو چکے ہیں تھوڑا سا وقت زیادہ نہیں رہ گیا اور اس کے اعمال کا دفتر اس کے بعد بند ہو جائیگا اور ابدی جہاں کی طرف روانہ ہوجائے گا وہاں اس کے اعمال کا حساب و کتاب لیا جائے گا جس کا نتیجہ یا ہمیشہ کی سعادت اور اللہ تعالی کے مقرب بندوں کے ساتھ زندگی کرنا ہوگا اور یا بدبختی اور جہنم کے گڑھے میں گر کر عذاب میں مبتلا ہونا ہوگا_

اس طرح کی فرک اور مرنے کو سامنے لانے سے نماز میں حضور قلب اور توجہ کی حالت بہتر کر سکے گا اور اپنے آپ کو خالق کائنات کے سامنے دیکھ رہا ہوگا اور نماز کو خضوع اور خشوع کی حالت میں آخری نمازسمجھ کر بجا لائیگا نماز کے شروع کرنے سے پہلے اس طرح اپنے آپ میں حالت پیدا کرے اور نماز کے آخر تک یہی حالت باقی رکھے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' واجب نماز کو اس کے وقت میں اس طرح ادا کرو کہ وہ تمہاری وداعی اور آخری نماز ہے اور یہ خوف رہے کہ شاید اس کے بعد نماز پڑھنے کی توفیق حاصل نہ ہو_ نماز پڑھنے کی حالت میں سجدہ گاہ پر نگاہ رکھے اور اگر تجھے معلوم ہوجائے کہ تیرے نزدیک کوئی تجھے دیکھ رہا ہے اور پھر تو نماز کو اچھی طرح پڑھنے لگے تو جان لے کہ تو اس ذات کے سامنے ہے جو تجھے دیکھ رہا ہے لیکن تو اس کو نہیں دیکھ رہا_(۴۸۰)

۵_ آمادگی

جب نمازی نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر کسی خلوت اور تنہائی کی

۲۶۷

مناسب جگہ جا کر نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوجائے اور نماز شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی بے پناہ عظمت اور قدرت اور اپنی ناتوانی اور کمزوری کو یاد کرے اور یہ یاد کرے کہ وہ پروردگار اور تمام چیزوں کے مالک کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے ہمکلام ہے_ ایسی عظیم ذات کے سامنے کھڑا ہے کہ جو تمام افکار یہاں تک کہ مخفی سوچ اور فکر کو جانتا ہے_ موت اور اعمال کے حساب اور کتاب بہشت اور دوزخ کو سامنے رکھے اور احتمال دے کہ شاید یہ اس کی آخری نماز ہو اپنی اس سوچ اور فکر اتنا زیادہ کرے کہ اس کی روح اس کی تابع اور مطیع ہوجائے اس وقت توجہ اور حضور قلب سے اذان اور اقامہ کہتے اور اس کے بعد نماز کی طرف مہیا ہونے والی یہ دعا پڑھے _ اللہم الیک توجہت و مرضاتک طلبت و ثوابک ابتقیت و بک امنت و علیک توکلت اللہم صل علی محمد و آلہ محمد و افتح مسامع قلبی لذکرک و ثبتنی علی دینک و دین نبیک و لا تزغ قلبی بعد اذ ہدیتنی و ہب لی من لدنک رحمة انک انت الوہاب

اس دعا کے پڑھتے کے وقت ان کلمات کی معانی کی طرف توجہ کرے پھر یہ کہے _ یا محسن قد اتاک المسئی یا محسن احسن الی

اگر حضور قلب اور توجہہ پیدا ہوجائے تو پھر تکبیر الاحرام کہے اور نماز میں مشغول ہوجائے اور اگر احساس ہوجائے کہ ابھی وہ حالت پیدا نہیں ہوئی تو پھر استغفار کرے اور شیطانی خیالات سے خداوند عالم سے پناہ مانگے اور اتنا اس کو تکرار کرے کہ اس میں وہ حالت پیدا ہوجائے تو اس وقت حضور قلب پیدا کر کے تکبیرة الاحرام کے معنی کی طرف توجہہ کرے نماز میں مشغول ہوجائے لیکن متوجہ رہے کہ وہ کس ذات سے ہمکلام ہے اور کیا کہہ رہا ہے اور متوجہ رہے کہ زبان اور دل ایک دوسرے کے ہمراہوں اور جھوٹ نہ بولے کیا جانتا ہے کہ اللہ اکبر کے معنی کیا ہیں؟ یعنی اللہ تعالی اس سے بلند و بالا ہے کہ اس کی تعریف اور وصف کی جا سکے درست متوجہ رہے کہ کیا

۲۶۸

کہتا ہے آیا جو کہہ رہا ہے اس پر ایمان بھی رکھتا ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب تو نماز کے قصد سے قبلہ رخ کھڑا ہو تو دنیا اور جو کچھ اس میں ہے لوگوں اور ان کے حالات اور اعمال سب کو ایک دفعہ بھولا دے اور اپنے دل کو ہر قسم کے ایسے کام سے جو تجھے یاد خدا سے روکتے ہوں دل سے نکال دے اور اپنی باطنی آنکھ سے ذات الہی کی عظمت اور جلال کا مشاہدہ کر اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے اس دن کے لئے حاضر جان کہ جس دن کے لئے تو نے اپنے اعمال اگلی دنیا کے لئے بھیجے ہیں اور وہ ظاہر ہونگے اور خدا کی طرف رجوع کریں گے اور نماز کی حالت میں خوف اور امید کے درمیان رہ تکبرة الاحرام کہنے کے وقت جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے معمولی شمار کر کیونکہ جب نمازی تکبیرة الاحرام کہتا ہے خداوند عالم اسکے دل پر نگاہ کرتا ہے اگر تکبیر کی حقیقت کی طرف متوجہ نہ ہو تو اسے کہتا ہے اے جھوٹے_ مجھے دھوکا دینا چاہتا ہے؟ مجھے عزت اور جلال کی قسم میں تجھے اپنے ذکر کی لذت سے محروم کرونگا اور اپنے قرب اور اپنی مناجات کرنے کی لذت سے محروم کر دونگا_(۴۸۱)

درست ہے کہ نیت اور تکبرة الاحرام کے وقت اس طرح کی تیاری قلب کے حضور کے لئے بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے لیکن سب سے مہم تر یہ ہے کہ ایسی حالت استمرار پیدا کرے اگر معمولی سے غفلت طاری ہوگئی تو انسان کی روح ادھر ادھر پرواز کرنے لگے گی اور حضور اور توجہہ خداوند عالم کی طرف سے ہٹ جائیگی_ لہذا نمازی کو تمام نماز کی حالت میں اپنے نفس کی مراقبت اور حفاظت کرنی چاہئے اور مختلف خیالات اور افکار کو روکنا چاہئے ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے حاضر سمجھے اور اس طرح نماز پڑھے کہ خدا کے ساتھ کلام کر رہا ہے اور اس کے سامنے رکوع اور سجود کر رہا ہے اور کوشش کرے کہ قرائت کرتے وقت ان کے معانی کی طرف متوجہ رہے اور غور کرے کہ کیا کہہ رہا ہے اورکس عظیم ذات کے ساتھ گفتگو کر رہا ہے اس حالت کو

۲۶۹

نماز کے آخر تک باقی رکھے گرچہ یہ کام بہت مشکل اور دشوار ہے لیکن نفس کی مراقبت اور کوشش کرنے سے آسان ہو سکتا ہے و الذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا اگر اسے اس کی ابتداء میں توفیق حاصل نہ ہو تو ناامید نہ ہو بلکہ بطور حتمی اور کوشش کر کے عمل میں وارد ہوتا کہ تدریجاً نفس پر تسلط حاصل کرلے_ مختلف خیالات کو دل سے نکالے اور اپنے آپ کو خدا کی طرف توجہ دے اگر ایک دن یا کئی ہفتے اور مہینے یہ ممکن نہ ہوا ہو تو مایوس اور نا امید نہ ہو اور کوشش کرے کیونکہ یہ بہرحال ایک ممکن کام ہے_ انسانوں کے درمیان ایسے بزرگ انسان تھے اور ہیں کہ جو اول نماز سے آخر نماز تک پورا حضور قلب رکھے تھے اور نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے تھے_ ہم بھی اس بلند و بالا مقام تک پہنچنے سے نا امید نہ ہوں اگر کامل مرتبہ تک نہیں پہنچے پائے تو کم از کم جتنا ممکن ہے اس تک پہنچ جائیں تو اتنا ہی ہمارے لئے غنیمت ہے_(۴۸۲)

دوم _ نوافل

پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سیر اور سلوک اور اللہ تعالی سے تقرب کا بہترین راستہ نماز ہے_ اللہ تعالی انسان کی خلقت کی خصوصیت کے لحاظ سے اس کے تکامل اور کمال حاصل کرنے کے طریقوں کو دوسروں سے زیادہ بہتر جانتا ہے_ اللہ تعالی نے نماز کو بنایا ہے اور پیغمبر علیہ السلام کے ذریعے انسانوں کے اختیار میں دیا ہے تا کہ وہ اپنی سعادت اور کمال حاصل کرنے کے لئے اس سے فائدہ حاصل کریں _ نماز کسی خاص حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے ہر زمانے میں ہر مکان اور ہر شرائط میں فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے نماز کی دو قسمیں ہیں ایک واجب نمازیں اور دوسری مستحب نمازیں_

چھ نمازیں واجب ہیں پہلی پنجگانہ نمازیں یعنی دن اور رات میں پانچ نمازیں دوسری نماز آیات تیسری نماز میت چوتھی نماز اطراف پانچویں وہ نمازیں جو نذر یا قسم یا

۲۷۰

عہد سے انسان پر واجب ہوتی ہیں چھٹی باپ کی نمازیں جو بڑے لڑکے پر واجب ہیں_

پنجگانہ نمازیں تو تمام مکلفین مرد اور عورت پر واجب ہیں لیکن باقی نمازیں خاص زمانے اور خاص شرائط سے واجب ہوتی ہیں_ جو انسان اپنی سعادت اور کمال کا طالب ہے اس پر پہلے ضروری ہے کہ وہ واجب نمازوں کو اس طرح جس طرح بنائی گئی ہیں انجام دے_ اگر انہیں خلوص اور حضور قلب سے انجام دے تو یہ بہترین اللہ تعالی سے تقرب کا موجب ہوتی ہیں_ واجبات کو چھوڑ کر مستحبات کا بجا لانا تقرب کا سبب نہیں ہوتا_ اگر کوئی خیال کرے کہ فرائض اور واجبات کو چھوڑ کر مستحبات اور اذکار کے ذریعے تقرب یا مقامات عالیہ تک پہنچ سکتا ہے تو اس نے اشتباہ کیا ہے_ ہاں فرائض کے بعد نوافل اور مستحبات سے مقامات عالی اور تقرب الہی کو حاصل کر سکتا ہے_ دن اور رات کے نوافل پینتیں ہیں ظہر کی آٹھ ظہر سے پہلے اور عصر کی آٹھ عصر سے پہلے اور تہجد کی گیارہ رکعت ہیں_ احادیث کی کتابوں میںنوافل کے پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے اور انہیں واجب نمازوں کا متمم اور نقص کو پر کرنے والا بتلایا گیا ہے_ دن اور رات کی نوافل کے علاوہ بھی بعض نوافل خاص خاص زمانے اور مکان میں بجالانے کا کہا گیا ہے او ران کا ثواب بھی بیان کیا گیا ہے آپ مختلف مستحب نمازوں اور ان كّے ثواب اور ان کے فوائد اور اثرات کو حدیث اور دعا کی کتابوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نفس کے کمال تک پہنچنے میں ان سے استفادہ کرسکتے ہیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ ہمیشہ کے لئے کھالا ہوا ہے_ اس کے علاوہ بھی ہر وقت ہر جگہ اور ہر حالت میں نماز پڑھنا مستحب ہے_

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا '' مستحب نمازیں مومن کے لئے تقرب کا سبب ہوا کرتی ہیں_(۴۸۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھی آدھی اور کبھی تہائی اور چوتھائی نماز اوپر جاتی ہے_ یعنی قبول ہوتی ہے_ اتنی نماز اوپر جاتی ہے اور قبول ہوتی ہے کہ

۲۷۱

جتنی مقدار اس میں حضور قلب ہو اسی لئے مستحب نمازوں کے پڑھنے کا کہا گیا ہے تا کہ ان کے ذریعے جو نقصان واجب نماز میں رہ گیا ہے پورا کیا جائے_(۴۸۴)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' مومن بندہ میرے نزدیک محبوب ہے اور اس کے لئے واجبات پر عمل کرنے سے اور کوئی چیز بہتر نہیں ہے مستحبات کے بجالانے سے اتنا محبوب ہوجاتا ہے کہ گویا میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ دیکھتا ہے اور گویا میں اس کی زبان ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ بولتا ہے اور گویا میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ چیزوں کو پکڑتا ہے اور گویا میں اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں کہ جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھے پکارے تو میں قبول کرتا ہوں اور جواب دیتا ہوں اور اگر کوئی چیز مجھ سے مانگے تو اسے عطا کرتا ہوں میں نے کسی چیز میں تردید اور ٹھہراؤ پیدا نہیں کیا جتنا کہ مومن کی روح قبض کرنے میں کیا ہے وہ مرنے کو پسند نہیں کرتا اور میں بھی اس کا ناپسندی کو ناپسند کرتا ہوں_(۴۸۵)

سوّم_ تہجّد

مستحبات میں سے تہجد کی نماز کی بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے قرآن مجید اور احادیث میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے خداوند عالم کی ذ ات پیغمبر علیہ السلام کو فرماتا ہے کہ ''رات کو تھوڑے سے وقت میں تہجد کی نماز کے لئے کھڑا ہو یہ تیرے لئے مستحب ہے شاید خدا تجھے خاص مقام کے لئے مبعوث قرار دے دے_(۴۸۶)

اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' کچھ لوگ رات کو اپنے پروردگار کے لئے سجدے اور قیام کے لئے رات گذارتے ہیں_(۴۸۷)

اللہ تعالی مومنین کی صفات میں یوں ذکر کرتا ہے کہ '' رات کو بستر سے اپنے آپ کو جدا کرتے ہیں اور امید اور خوف میں خدا کو پکارتے ہیں اور جو کچھ انہیں دیا گیا ہے

۲۷۲

خرچ کرتے ہیں کوئی نہیں جان سکتا کہ کتنی نعمتیں ہیں جو ان کی آنکھ کے روشنی اور ٹھنڈک کا موجب بنیں گی جنہیں ان کے اعمال کی جزاء کے طور پر محفوظ کیا جاچکا ہے_(۴۸۸)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ خداوند عالم نے دنیا کو وحی کی ہے کہ اپنی خدمت کرنے والوں کو مصیبت اورمشقت میں ڈال اور جو ترک کر دے اس کی خدمت کر جب کوئی بندہ رات کی تاریکی میں اپنے خالق سے خلوت اور مناجات کرتا ہے تو خدا اس کے دل کو نورانی کردیتا ہے جب وہ کہتا ہے با رب یا رب تو خدا کی طرف سے کہا جاتا ہے_ لبیک یا عبدی_ تو جو چاہتا ہے طلب کرتا کہ میں تجھے عطا کروں مجھ پر توکل اور آسرا کرتا کہ میں تجھے کفایت کروں اس کے بعد اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے بندے کو دیکھو کس طرح تاریکی میں میرے ساتھ مناجات کر رہا ہے جب کہ بیہودہ لوگ لہو اور لعب میں مشغول ہیں اور غافل انسان سوئے ہوئے ہیں تم گواہ رہو کہ میں نے اسے بخش دیا ہے_(۴۸۹)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرماتے ہیں کہ '' جبرائیل مجھے تہجد کی نماز میں اتنی سفارش کر رہا تھا کہ میں نے گمان کیا کہ میری امت کے نیک بندے رات کو کبھی نہیں سوئیں گے_(۴۹۰)

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' آدھی رات میں دو رکعت نماز پڑھنا میرے نزدیک دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے_(۴۹۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تہجد کی نماز شکل کو خوبصورت اور اخلاق کو اچھا اور انسان کو خوشبودار بناتی ہے اور رزق کو زیادہ کرتی ہے اور قرض کو ادا کراتی ہے اور غم اور اندوہ کو دور کرتی ہے اور آنکھوں کو روشنائی اور جلادیتی ہے_(۴۹۲)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' تہجد کی نماز اللہ تعالی کی خوشنودی اورملائکہ سے دوستی کا وسیلہ ہے_ تہجد کی نماز پیغمبروں کاطریقہ اور سنت اور ایمان اور معرفت کے لئے نور اور وشنی ہے_ کیونکہ تہجد کی نماز کے ذریعے ایمان قوی ہوتا ہے) بدن کو آرام دیتی ہے اور شیطان کو غضبناک کرتی ہے_ دشمنوں

۲۷۳

کے خلاف ہتھیار ہے دعا اور اعمال کے قبول ہونے کا ذریعہ ہے انسان کی روزی کو وسیع کرتی ہے_ نمازی اور ملک الموت کے درمیان شفیع ہوتی ہے_ قبر کے لئے چراغ اور فرش ہے اور منکر اور نکیر کا جواب ہے_ قبر میں قیامت تک مونس اور نمازی کی زیارت کرتی رہے گی_ جب قیامت برپا ہوگی تو نمازی پر سایہ کرے گی اس کے سرکا تاج اور اس کے بدن کا لباس ہوگی_ اس کے سامنے نور اور روشنی ہوگی اور جہنم اور دوزخ کی آگ کے سامنے نور اور روشنی ہوگی اور جہنم اور دوزخ کی آگ کے سامنے رکاوٹ بنے گی_ مومن کے لئے اللہ تعالی کے نزدیک حجت ہے اور میران میں اعمال کو بھاری اور سنگین کردے گی پل پر عبور کرنے کا حکم ہے اور بہشت کی چابی ہے کیونکہ نماز تکبیر اور حمد تسبیح اور تمجید تقدیس اور تعظیم قرات اور دعا ہے_ یقینا جب نماز وقت میں پڑھی جائے تو تمام اعمال سے افضل ہے_(۴۹۳)

تہجد کی نماز میں بہت زیادہ آیات اوراحادیث وارد ہوئی ہیں_ تہجد کی نماز کو پڑھنا پیغمبروں اور اولیاء خدا کا طریقہ اور سنت ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ اطہار نماز تہجد کے بارے میں خاص اہمیت اور توجہ اور عنایت رکھتے تھے_ اللہ کے اولیاء اور عرفاء شب کو ہمیشہ بجالانے سے اور سحر کیوقت دعا اور ذکر سے عالی مراتب تک پہنچے ہیں_ کتنا ہی اچھا اور بہتر اور لذت بخش ہے کہ انسان سحری کے وقت نیند سے بیدار ہوجائے اور نرم اور آرام وہ بستر کو چھوڑ دے اور وضوء کرے اور رات کی تاریکی میں جب کہ تمام آنکھیں نیند میں گم اور سوئی ہوئی ہیں اللہ تعالی کے حضور راز و نیاز کرے اور اس کے وسیلے روحانی معراج کے ذریعے بلندی کی طرف سفر کرے اور آسمان کے فرشتوں سے ہم آواز بنے اور تسبیح اور تہلیل تقدیس اور تمجید الہی میں مشغول ہوجائے اس حالت میں اس کا دل اللہ تعالی کے انوار اور اشراقات مرکز قرار اپائیگا اورخدائی جذب سے مقام قرب تک ترقی کرے گا (مبارک ہو ان لوگوں کو جو اس کے اہل ہے)

۲۷۴

نماز شب کی کیفیت

تہجد کی نماز گیارہ رکعت ہے دو دو رکعت کر کے صبح کی نماز کی طرح پڑھی جائے باین معنی کہ اٹھ رکعت کو تہجد کی نیت سے اور دور رکعت نماز شفع کی نیت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے پڑھے_ کے لئے کچھ آداب اور شرائط بیان کئے گئے ہیں_ جنہیں دعاؤں اور احادیث کی کتابوں میں دیکھےا جا سکتا ہے_

۲۷۵

چوتھا وسیلہ

جہاد اور شہادت

اسلام کو وسعت دینے اور کلمہ توحید کے بلند و بالا کرنے اسلام کی شوکت اور عزت سے دفاع کرنے قرآن کے احکام اور قوانین کی علمداری اور حاکمیت کو برقرار کرنے ظلم اور تعدی سے مقابلہ کرنے محروم اور مستضعفین کی حمایت کرنے کے لئے جہاد کرنا ایک بہت بڑی عبادت ہے اور نفس کے تکامل اور ذات الہی سے تقرب اور رجوع الی اللہ کا سبب ہے_ جہاد کی فضیلت میں بہت زیادہ روایات اور آیات وارد ہوئی ہیں_

خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور اپنے وطن سے ہجرت کر لی ہے اور اپنے مال اور جان سے خدا کے راستے میں جہاد کرتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک ایک بلند و بالا مقام اور رتبہ رکھتے ہیں اور وہی نجات پانے والے لوگ ہیں خدا انہیں اپنی رحمت اور رضوان اور بہشت کی کہ جس میں دائمی نعمتیں موجود ہیں خوشخبری اور بشارت دیتا ہے_ وہ بہشت میں ہمیشہ رہیں گے اور یقینا اللہ تعالی کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی جزا اور ثواب ہے_(۴۹۴)

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' اللہ تعالی نے مجاہدوں کو جہاد نہ کرنے والوں پر بہت زیادہ ثواب دیئے جانے میں برتری اور بلندی دی ہوئی ہے_(۴۹۵)

۲۷۶

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کا نام باب المجاہدین ہے_ جب مجاہد بہشت کی طرف روانہ ہوں گے تووہ دروازہ کھل جائیگا جب کے جانے والوں نے اپنی تلواروں کو اپنے کندھوں پر ڈال رکھا ہو گا دوسرے لوگ قیامت کے مقام پر کھڑے ہونگے اور فرشتوں ان کا استقبال کریں گا_(۴۹۶)

پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر نیکی کے اوپر کوئی نہ کوئی اور نیک موجود ہے یہاں تک کہ انسان اللہ کے راستے میں مارا جائے کہ پھر اس سے بالاتر اور کوئی نیکی موجود نہیں ہے_(۴۹۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اللہ کے راستے میں شہادت پالے تو خداوند عالم سے اس کا کوئی یاد نہیں دلائے گا_(۴۹۸)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم شہید کو سات چیزیں عنایت فرمائیگا_ ۱_ جب اس کے خون کا پہلا قطرہ بہتا ہے تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے_ ۲_ شہادت کے بعد اس کا سر دو حوروں کے دامن میں قرار دیتا ہے اور وہ اس کے چہرے سے غبار کو ہٹاتی ہیں اور کہتی ہیں_ تم پر شاباش ہو وہ بھی ان کے جواب میں ایسا کہتا ہے_ ۳_ اسے بہشت کا لباس پہنایا جاتا ہے_ ۴_ بہشت کے خزانچی اس کے لئے بہترین عطر اور خوشبو پیش کرتے ہیں کہ ان میں سے جسے چاہے انتخاب کرلے_

۵_ شہادت پانے کے وقت وہ اپنی جگہ بہشت میں دیکھتا ہے_ ۶_ شہادت کے بعد اس کی روح کی خطاب ہوتا ہے کہ بہشت میں جس جگہ تیرا دل چاہتا ہے گردش کر_ ۷_ شہید اللہ تعالی کے جمال کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس میں ہر پیغمبر اور شہید کو آرام اور سکون ہے_(۴۹۹)

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' خداوند عالم مومنین کے جان اور مال کو خرید تا ہے تا کہ اس کے عوض انہیں بہشت عنایت فرمائے یہ وہ مومن ہیں جو اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ ان سے

۲۷۷

اللہ تعالی کا وعدہ ہے جو تو رات اور انجیل اور قرآن میں اللہ تعالی نے لکھ دیا ہے اور اللہ تعالی سے کون زیادہ وعدہ کو پورا کرنے والا ہے؟ تمہیں یہ معاملہ مبارک ہو کہ جو تم نے خدا سے کر لیا ہوا ہے اور یہ ایک بڑی سعادت ہے_(۵۰۰)

قرآن مجید کی یہ آیت ایک بڑی لطیف اور خوش کن آیت ہے کہ جو لوگوں کو عجیب اور لطیف ارو ظریف انداز سے جہاد کا شوق دلاتی ہے _ ابتداء میں کہتی ہے _ کہ اللہ تعالی نے مومنین کے مال اور جان کو خرید لیا ہے اور اس کے عوض ان کو بہشت دیتا ہے یہ کتنا بہترین معاملہ ہے؟ اللہ تعالی جو غنی مطلق اور جہان کا مالک ہے وہ خریدار ہے اور فروخت کرنے والے مومنین ہیں جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں_ اور جن چیزوں پر معاملہ کیا ہے وہ مومنین کے مال اور جان ہیں اور اس معاملہ کا عوض بہشت ہے اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ تورات اورانجیل اور قرآن یعنی تین آسمانی بڑی کتابیں ہیں جن میں اس طرح کا ان سے وعدہ درج کیا گیا ہے_ پھر خدا فرماتا ہے کہ کس کو پیدا کر سکتے ہو کہ اللہ تعالی سے وعدہ پر عمل کرے آخر میں خدا مومنین کو خوشخبری دیتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نیک بختی اورسعادت ہے_

قرآن مجید ان لوگوں کے لئے جو خدا کے راستے میں شہید ہوجاتے ہیں مقامات عالیہ کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ '' ان لوگوں کو مردہ گمان نہ کرو جو اللہ کے راستے میں شہید ہوجاتے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں روزی پاتے ہیں_(۵۰۱) لفظ عندہم جو اس آیت میں ہے وہ بلند و بالا مقام کی طرف اشارہ ہے مرنے کے بعد انسان کی روح کا زندہ رہنا شہیدکے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام انسان زندہ ہیں لیکن شہداء کی خصوصیت یہ ہے کہ شہید اللہ کے ہاں عالیترین مقامات اور درجات میں زندہ رہتا ہے اور انہیں مقامات عالیہ میں روزی دیا جاتا ہے اور یہ واضح ہے کہ ان مقامات میں روزی دیا جانا دوسروں کے ساتھ مساوی اور برابر نہیں ہے_ اللہ تعالی کے راستے میں شہادت بہت بڑی قیمت اور بڑی عبادت ہے_ عارف اس ممتاز راستے میں عالی مقامات تک جاپہنچتا ہے_ اس بزرگ عبادت کو دوسری عبادت سے دو چیزوں کی وجہ

۲۷۸

سے خصوصیت اورامتیاز حاصل ہے_ پہلی_ مجاہد انسان کی غرض اور غایت اپنے ذاتی مفاد اور لواحقین کے مفاد کو حاصل کرنا نہیں ہوتا وہ کوتاہ نظر اور خودخواہ نہیں ہوتا بلکہ وہ جہاں میں خدا خواہ ہوا کرتا ہے_ مجاہد انسان کلمہ توحید اور اسلام کی ترویج اور وسعت کو چاہتا ہے اور ظلم اور ستم اور استکبار کے ساتھ مبارزہ اور جہاد کرتا ہے اور محروم طبقے اور مستضعفین سے دفاع کرتا ہے اور اجتماعی عدالت کے جاری ہونے کا طلبکار ہوتا ہے اور چونکہ یہ غرض سب سے بلند اور بالا ترین غرض ہے لہذا وہ اعلی درجات اور مراتب کو پالیتا ہے_

دوسری _ ایثار کی مقدار

مجاہد انسان اللہ تعالی سے تقرب اور اس کی ذات کی طرف سیر اور سلوک کے لئے ارزشمند اور قیمتی چیز کا سرمایہ ادا کرتا ہے اگر کوئی انسان صدقہ دیتا ہے تو تھوڑے سے مال سے درگذر اور صرف نظر کرتا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو تھوڑا سا وقت اور طاقت اس میں خرچ کرتا ہے لیکن مجاہد انسان تمام چیزوں سے صرف نظر اور درگذر کرتا ہے اور سب سے بالاتر اپنی جان سے ہاتھ دھولیتا ہے اور اپنی تمام ہستی کو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کے سپرد کر دیتا ہے_ مال اور جاہ و جلال مقام اور منصب اور اہل اور عیال اور رشتہ داروں سے صرف نظر کرتا ہے اور اپنی جان اور روح کو اپنے پروردگار کے سپرد کر دیتا ہے_ جس کام کو متدین اور عارف لوگ پوری عمر کرتے ہیں مجاہد انسان ان سب سے زیادہ تھوڑے سے وقت میں انجام دے دیتا ہے_ مجاہد انسان کی عظیم او رنورانی روح کے لئے مادیات اور مادی جہان تنگ ہوتا ہے اسی واسطے وہ شیر کی طرح مادی جہان کے پنجرے کو توڑتا ہے اور تیز پرواز کبوتر کی طرح وسیع عالم اور رضایت الہی کی طرف پرواز کرتا ہے اور اعلی مقامات اور مراتب تک اللہ تعالی کی طرف جاپہنچتا ہے_ اگر دوسرے اولیاء خدا ساری عمر میں تدریجاً محبت اور عشق اور شہود کے مقام تک پہنچتے ہیں تو مجاہد شہید ایک رات میں سو سال کا راستہ طے کر لیتا ہے اور

۲۷۹

مقام لقاء اللہ تک پہنچتا ہے _ اگر دوسرے لوگ ذکر اور ورد قیام اور قعود کے وسیلے سے اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں_ تو اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے والا انسان زخم اور درد سختی اور تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دے کر اللہ تعالی کا تقرب ڈھونڈتا ہے_

ان دو میں بہت زیادہ فرق ہے_ جنگ اور جہاد کا میدان ایک خاص قسم کی نورانیت اور صفا اور معنویت رکھتا ہے_ شور و شفب اور عشق اور حرکت اور ایثار کا میدان ہے_ محبوب کے را ستے میں بازی لے جانے اور ہمیشگی زندگی کا میدان ہے_ مورچے میں بیٹھتے والوں کا زمزمہ ایک خاص نورانیت اور صفا اور جاذبیت رکھتا ہے کہ جس کی نظیر اور مثال مساجد اورمعابد میں بہت کم حاصل ہوتی ہے_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296