فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ13%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130311 / ڈاؤنلوڈ: 6755
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

کی گئی اور آج تک اہل سنت میں مذاہب اربعہ ہی قابل اعتبار ہیں آخرم یں عثمانیوں نے امام ابوحنیفہ کے مسلک کو شاہی مذہب قرار دیا۔اس کے علاوہ بھی خلفا کے دور میں بہت ہرج مرج ہوتا رہا جن کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں لیکن اس تناقض دینی کا نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑا حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ حکومت بدلنے سے دین نہیں بدلا کرتا یہ ساری خرابیاں صرف اس لئے پیدا ہوئیں کہ خلیفہ کی صلاحیت کے بارے میں اہل سنت کے پاس کوئی ٹھوس نظریہ نہ پہلے تھا،نہ اب ہے اور ظاہر ہے کہ آج بھی خلافت کی جب تک حدیں معین نہ کی جائیں مکمل نہیں مانا سکتا اور خلافت کی تحدید نہٰں ہوسکتی یہ بات طے شدہ ہے چونکہ میں اہل سنت کے مذہب کے بارے میں بہت کم جان سکاہوں اس لئے میں اہل سنت کو اس بات کا ذمہ دار بناتا ہوں کہ وہ اپنے مذہب کی تشریع اور تعارف کرادیں۔

جب اہل سنت حضرات خلیفہ اور نظام خلافت کی واضح تعریف کردیں گے اور اس تعریف کو شرعی دلائل سے مضبوط کریں گے اس حیثیت سے کہ وہ تعریف ان کے لئے معیار بن جائے اور اس کی شرعیت،امامت اور خلافت کے دعوے مٰں ثابت ہوجائے تو پھر ممکن کہ ہم شیعہ سنی دونوں کے نظام حکومت کو سامنے رکھ کے اشتراک کے راستے تلاش کریں اور دونوں کی دلیوں کو ان دلیلوں کے لحاظ سے موازنہ کر کے اور اسنی اور شیعوں کی دلیلوں کے درمیان جہاں ترجیح کا پہلو نکلتا ہے اس پر غور کرکے دونوں کی دلیلوں میں جو قوی تر دلیل ہو جو قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش کی جاسکتی ہے،اسے اختیار کریں۔

ارشاد ہوتا ہے: ( يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ) (۱)

ترجمہ:اس دن کو یاد کرو جس دن ہر شخص اپنی ذات کے بارے میں جھگڑنے کے لئے موجود ہوگا اور ہر شخص کو جو کچھ بھی اس نے کیا تھا پورا پورا بدلہ ملےگا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائےگا۔

لیکن اگر نظام خلافت کی مذکورہ جہات سے شرعی تعریف ہی نہیں ہوسکے تو پھر ایسا نظام کس

-------------------

(۱)سورہ نحل آیت:۱۱۱

۲۰۱

کام کا اس کے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ شیعہ نظریہ کے مقابلے میں رکھا جاسکے اور موازنہ کیا جاسکے پھر اس کی اسلامی تشریع بھی تو ناممکن ہے۔خلافت و امامت کا مسئلہ ایک شرعی مسئلہ ہے(اور اس موضوع کی تعریف اور اس کا تعارف اگر شریعت کی طرف سے نہیں کیا گیا ہے تو ایک اہم تریں موضوع سے چشم پوشی برتی گئی ہے بلکہ اپنے موضوع کو ناقص رکھا گیا ہے جس کا لگاؤ ملت کے مستقبل سے ہے،اگر ہم یہ مان لیں کہ خلافت اور امامت کا تعارف اور تعریف دین میں موجود نہیں ہے تو پھر مندرجہ ذیل خرابیاں سامنے آتی ہیں)(۱)

۱۔پہلی بات تو یہ ہے کہ دین ہی ناقص ہے اور شارع اقدس کی طرف سے ایک شرعی موضوع کی تعریف کی گئی اور نہ امت کے سامنے اس کی وضاحت کی گئی ہے اس لئے کہ امامت کے لئے کچھ شرعی احکام بھی وارد کئے ہیں۔

امامت ایک شرعی موضوع ہے اس کو ثابت کرنے کے لئے یہ ہم پہلے مان چکے ہیں کہ امام کا وجود واجب ہے امام کی اطاعت واجب ہے جو امام پر خروج کرے اس سے جنگ واجب یہ سب کیسے ادا ہوں گے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ شارع اقدس نے اس موضوع کی وضاحت نہیں کی اور ظاہر ہے کہ یہ دین کا نقص ہے شریعت کی کمزوری ہے اور اسلام عظیم ان کمزوریوں سے پاک ہے بلکہ دین کو ناقص چھوڑ دنیا خدا کے اس قول کی مخالفت ہے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے: (أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) (۲)

ترجمہ:آج ہم نے تمہارے دن کو کامل کردیا اپنی نعمتیں تم پر تمام کیں اور تمہارے اسلام دین کو پسند کرلیا،یہ آیت بتارہی ہے کہ دین کامل ہوچکا ہے۔

۲۔نظام سلطنت کے بارے میں شریعت کی خاموشی بہت سی مشکلات پیدا کرےگی مثلاً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مترجم

(۲)سورہ مائدہ آیت۳

۲۰۲

نظام میں خلل،امامت کے مختلف دعویداروں کی سرکشی،خواہشات نفس کی طغیانی اور ان خرابیوں سے جو خرابیاں پیدا ہوں گی وہ بھی بے حد خطرناک ہیں،مثلاً مسلمانوں کی ہتک حرمت،فساد کا انتشار،جان اور مال کا ضائع ہونا(جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ماحول پیدا ہوجائےگا)(مترجم)حلانکہ ملت اسلامیہ ان تمام بری حالتوں کو جھیل چکی ہے،اسلامی تاریخ کی کتابیں اس بات کی شاہد ہیں۔

اور کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ دنیا کو ایک نظام حکومت بھی دےدے،خلافت کے منصب کا تعارف بھی کرادے اور خلیفہ کے معین کرنے کا طریقہ نہ بتائےجب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے قوانین کو وضع کرنےوالے نظام سلطنت کی تشریع اور قوانین پر سب سے زیادہ توجہ دیتے ہیں تا کہ قانونی نقص سے محفوظ رہ سکتے پھر اللہ اور اس کا رسول اتنے اہم موضوع کو مہمل کیسے قرار دےگا جبکہ مذکورہ خرابیوں سے بچنے کا قانون نے ہت زیادہ اہتمام کیا ہے خاص طور سے حکومت اور خلافت کا اسلامی قانون میں ایک بلند مرتبہ ہے اور مقدس مقام ہے یہاں تک کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام وقت کی معرفت ضروری ہے اور اس کی بیعت واجب ہے،جو بغیر معرفت امام کے مرجاتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے جیسا کہ آنےوالے صفحات میں ہم عرض کریں گے مسلمانوں کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ امام کی طاعت واجب ہے اس کے خلاف خروج حرام ہے امام کے خلاف خروج کرنےوالا باغی ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسے شخص سے جنگ کریں۔

سرکار حجۃ بن الحسن العسکری المہدیؑ کے سلسلے میں مذہب شیعہ کی حقانیت پر چند دلیلیں

اب ہم امام مہدی علیہ السلام کی طرف واپس آتے ہیں عرض ہے کہ مہدی کی امامت خود ہی وجود مہدی کا مطالبہ کرتی ہے اور اگر چہ حضرتؑ کی ذات گرامی،عمارت امامت کی آخری انیٹ ہے گویا کہ رسالہ امامت کا وہ آخری حصہ ہے جہاں پر مہر لگائی جاتی ہے،پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ شیعوں

۲۰۳

کے پاس نظام امامت کی ٹھوس واضح اور مظبوط دلیلیں کثرت سے موجود ہیں لیکن یہی دو باتوں پر توجہ دلائی جارہی ہے،پہلے حضرت حجۃؑ کا وجود اور دوسرے آپ کی امامت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف۔

امام کی معرفت واجب ہے اور اس کے حکم کو بھی ماننا واجب ہے

حضور سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی حدیثیں وارد ہیں۔جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(۱) جو بغیر امام کے مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(۲) جو اس حال میں مرجائے کہ کسی امام کی امامت میں نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے(۳) جو کسی امام کی امامت میں نہ مرے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(۴)

جو مرجائے اور اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ینابیع المودۃ ج:۳ص:۳۷۲،طبقات الحنیفۃ ص:۴۵۷

(۲)مسند احمدج:۴ص:۹۶،معاویہ ابن ابی سفیان کی حدیث میں،حلیۃ الاولیاءج:۳ص:۲۲۴زید بن اسلم کے حالات میں،معجم الکبیرج:۱۹ص:۳۸۸،جس میں شریح بن عبید نے معاویہ سے روایت کی ہے مسند الشامین ج:۲ص:۴۳۸،ضمضم میں شریح بن عبید،مجمع الزوائدج:۵ص:۲۱۸،کتاب الخلافۃ،لزوم جماعت اور طاعت ائمہ اور ان سے قتال کے نہی ہونے کے بارے میں

(۳)السنۃ بن ابی عاصم ج:۱ص:۵۰۳،امیر کے وقار و عزت کے فضل کے باب میں،مسند ابی یعلی ج:۱۳ص:۳۶۶معاویہ بن ابی سفیان کی حدیث میں

(۴)مجمع الزوائدج:۵ص:۲۲۴،کتاب الخلافۃ،لوگوں کے ساتھ رہنے اور امت سے خروج اور اس کے قتال کی نہی کے باب میں،مجروحین ج:۱ص:۲۸۶،حلیج بن دعلج کے حالات میں

(۵)صحیح مسلم ج:۳ص:۱۴۷۸،کتاب الامارۃ:باب وجوب ملازمت جماعت مسلمین،سنن الکبریٰ بیہقی ج:۸ص:۱۵۶،کتاب قتال اہل بغی،جماع ابواب الرعاۃ باب الترغیب،تفسیر ابن کثیرج:۱ص:۱۵۸،آیت:۵۹،کی تفسیر میں سورہ آل عمران،مجمع الزوائدج:۵ص:۲۱۸،کتاب خلافت باب لزوم جماعت و اطاعت ائمہ اور نہی قتال کے بارے میں،کبائر للذھبی ص:۱۶۹،السنۃ ابن ابی عاصم ج:۲ص:۵۱۴باب عزت و توقیر امیر کے بارے میں معجم الکبیرج:۱۹ص:۳۳۴،اور اسی طرح یہ روایت شیعہ مصادر میں بھی وارد ہوئی ہے،کافی جؒ:۱ص:۳۷۶،کتاب حجت باب من مات و لیس من ائمۃ الہدی،حدیث۱۔۲۔۳،ص:۳۷۸کتاب حجت:باب مایجب علی الناس عند مضٰی الامام حدیث۲ اور ص:۱۸۰کتاب حجت باب معرفت امام ص:۳۷۴،کتاب حجت باب من دان اللہ عز و جل بغیر امام من اللہ،بحارالانوارج:۲۳،ص:۷۶۔۹۵باب معرفت امام

۲۰۴

اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہے،ہر دور میں ایک امام موجود رہتا ہے جس کی اطاعت لوگوں پر واجب ہوتی ہے اس لئے کہ اس کی امامت،شرعی اصولوں پر ہوتی ہے اس سلسلے میں خداوند عالم کا یہ قول بھی ہے کہ: (يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ) (۱)

ترجمہ:قیامت کے دن ہم لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ پکاریں گے۔

حالانکہ کچھ لوگوں نے اس آیت میں امام سے نبی مراد لیا ہے،یعنی ہر امت اپنے اپنے نبی کے ساتھ بلائی جائےگی،لیکن امام کا اطلاق نبی کے لئے آیت کے ظاہر معنی کے خلاف ہے اس لئے کہ عرف عام میں امام اس کو کہتے ہیں جو دینی اور دنیاوی امور مٰں ان کی امامت کرتا ہے اور لوگ اسی کی اطاعت کرتے ہیں جبکہ نبی اپنے زمانے میں اپنی امت کا امام ہوتا ہے نبی کے مرنے کے بعد دوسرا نبی آتا ہے جو امت کا امام اور قابل پیروی ہوتا ہے،آیت میں امام تذکرہ ہے حدیث میں بھی امام کا تذکرہ ہے اس لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ حدیثیں آیت کی تشریح کررہی ہیں اور امام سے وقت کا امام مراد ہے اگر اس بات کو نہ بھی مانا جائے تو جن حدیثوں کو پیش کیا گیا ہے وہ بہرحال اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہے،ایسا امام جس کی بیعت لوگوں پر واجب ہے اس لئے کہ اس کی امامت شرعی ہے اور یہی حدیثیں اور آیتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ مذہب شیعہ کا قول بالکل صحیح ہے کہ امام مقرر کرنا اللہ کی ذمہ داری ہے اور امام کو منصوص من اللہ ہونا چاہئیے امام اس بات کا ہرگز محتاج نہیں ہے کہ لوگ اس کو امام مانیں اور اس کی بیعت کریں اور اطاعت کریں اس لئے کہ وہ اللہ کی طرف سے امام بنایا گیا ہے،گذشتہ صدی میں تو یہ بات بالکل واضح ہوگئی اس لئے کہ۱۳۴۲؁کے بعد اہل سنت نے اپنا بنایا اور اس کی بیعت کرنا بالکل چھوڑ دیا،اس لئے کہ مذکورہ سال میں ترکستان میں خلافت عثمانیہ ساقط ہوگئی،(اب اس دور میں

------------------

(۱)سورہ اسراء:آیت:۷۱

۲۰۵

کوئی خلیفہ یا امام موجود نہیں ہے تو پھر مذکورہ حدیثوں کے مطابق کیا مسلمان جاہلیت کی موت مررہے ہیں مترجم)جبکہ حدیثیں کہتی ہیں کہ ہر دور میں اور اس دور میں بھی ایک امام ہے جو واجب الطاعۃ ہے ماننا پڑےگا کہ امام موجود ہے اور وہی امام مہدی ہیں اس لئے کہ اس دور میں ہم دونوں ہی کے پاس سوائے امام مہدی کے کوئی امام نہیں ہے اور نہ کسی کی امامت کا احتمال ہے۔

بارہ امام قریش سے ہیں

۲۔سرکار دو عالم سے کثیر تعداد میں ایسی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جن میں اس امت کے اماموں کو شمار کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امام سارے کے سارے قریشی ہیں۔یہ حدیثیں بہت سے طریقوں سے مروی ہیں،جن کو اکثر اہل سنت نے صحیح قرار دیا ہے بلکہ بغوی تو کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں متفق علیہ ہیں۔(۱)

لطف کی یہ بات یہ ہے کہ یہ ساری حدیثیں مذہب امامیہ کے عقیدے کے مطابق ہیں،اس لئے کہ شعیوں کے نزدیک بارہ امام ہیں جن کے پہلے مولائے کائنات امیرالمومنین علیؑ ہیں اور آخری امام مہدی منتظر عجل اللہ فرجہ،مری سمجھ میں کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان حدیثوں سے آئمہ اہل بیت کو مراد نہ لیا جائے،اگر کوئی وجہ سمجھ میں آتی ہے تو اہل سنت کا امامت کے بارے میں وہ عقیدہ ہے جس میں خلافت کو شرعی حیثیت دینے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے بنائے ہوئے خلفا کی حرکتوں نے ان کی دلیلوں کا تیاپانچہ کردیا ہے چونکہ ان کے خلفا کے کردار مذکورہ حدیثوں کےمطابق نہیں تھے اس لئے انہوں نے حدیثوں کی توجیہ کی اور پھر اس توجیہ پر باقی نہیں رہے،بعض حضرات نے تو ایسی توجیہات کی ہیں جن کی کمزوری روز روشن ظاہر ہے۔(۲)

انہوں نے زبردستی اور ہٹ دھرمی سے اپنی بات کو ثابت کرنا چاہا ہے حالانکہ منطق کا تقاضا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح السنۃ ج:۱۵ص:۳۰۔۳۱،دلیل متحرین فی بیان الناجین ص:۲۲۶سے نقل کیا گیا ہے

(۲)فتح الباری ج:۱۳ص:۲۱۱۔۲۱۵

۲۰۶

ہے کہ واقعات کو دلیل کے مطابق ہونا چاہئیے،حیثیت طے کرنی چاہئیے اس لئے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے((حق کو پہچانو اہل حق سمجھ میں آجائیں گے))پھر دلیلوں کو توڑ مروڑ کر واقعات کے مطابق کرنا اور واقعات کے ہاتھ میں دلیل کا فیصلہ دے کے ان واقعات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلیلوں کی توجیہ کرنا بے معنی بات ہے،مذہب شیعہ کا عقیدہ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ ہے اس کی صحت پر دلیل دینے میں بس اسی منزل پر اکتفا کی جاتی ہے۔

جب امامت کے مباحث میں گفتگو کی جائےگی اور شیعہ دلیلیں اس سلسلے میں پیش کی جائیں گی تو باقی باتیں بھی ہوجائیں گی خاص طور سے ابھی سرکار حجۃ بن العسکری المہدیؑ کے بارے میں بہت سی باتیں رہ گئی ہیں،اسی لئے شیعوں نے حضرت حجۃؑ کے موضوع پر بہت زیادہ گفتگو کی ہے یہاں تک کہ بعض علما نے تو اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں،جو چاہتا ہے کہ حقیقت کا پتہ چلائے اور اللہ کے سامنے مسئولیت سے بچے،اس کو چاہئیے کہ ان کتابوں کا مطالعہ کرے اور ان کو پڑھ کر غور و فکر کرے اس لئے کہ خدا کی طرف سے توفیق ملتی ہے اور اسی کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے۔

۲۰۷

۲۰۸

سوال نمبر۔۵

نصب امام کے سلسلے میں شیعہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ خدا پر واجب ہے کہ وہ بندوں پر لطف و کرم کرے اور لوگوں کے درمیان عدل کا جاری رہنا اس کا لطف ہے اور یہ عدل امام کے ذریعہ ہی قائم ہوسکتا ہے اس لئے خدا پر واجب ہے کہ وہ نصب امام کرے لیکن آج کے دور میں جبکہ لوگوں کے درمیان کوئی امام عادل نہیں ہے کیا یہ دلیل صحیح نہیں ہوجاتی؟(یعنی امام عادل نہیں اور عدل لطف الہی ہے تو اب دنیا لطف الہی سے محروم ہے)

جواب:سب سے پہلے ضروری ہے کہ لطف الہی کی تشریح کردی جائے وہ لطف الہی جس کی بنیاد پر شیعہ کہتے ہیں کہ نصب امام خدائے متعال پر واجب ہے۔

پہلے یہ عرض کردای جائے کہ لطف الہی سے کیا مراد ہے؟پھر اس دلیل کے بارے میں طے کیا جائے کہ دلیل ابطال کے لائق ہے یا نہیں؟

لطف الہی کے قائد کی شرح اور اس کی تعریف

عالم بشریت کے لئے لطف الہی کے قائدہ کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انسان ذاتی طور پر ناقص ہے اپنے اچھے برے کو نہٰں جانتا فساد،شر اور ظلم سے معصوم نہیں ہے بلکہ کبھی کبھی صلاح و فساد کے

۲۰۹

درمیان تنازع ہوتا ہے خیر و شر،ظلم و عدل کو نہیں سمجھتا اس لئے ایک امام معصوم کا بہرحال محتاج ہے جو عالم انسانیت کو خیر و عدل پر جمع کرسکے اور شر و فساد و ظلم سے دور رکھے،خدا کی حکمت اور اس کی رحمت کا تقاضہ یہ ہےکہ وہ بندوں پر رحم کرے،اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا ایک امام معصوم کو منصوب کرے اور پھر ٹھوس دلیلوں اور وضح نشانیوں کے ساتھ عوام کے سامنے اس امام کو معارف کرے شاید اسی کی طرف قدرت کا اشارہ ہے۔

ارشاد ہوتا ہے کہ: (وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ) (۱)

ترجمہ:انہوں نے خدا کی جس میں قدر چاہئیے تھی نہیں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بشر پر کچھ نہیں نازل کیا۔

چونکہ انسان ہر دور میں ہدایت کا محتاج ہے اس لئے کہ وہ ہر وقت ناقص ہے اس لئے امام کا وجود ہر دور میں ضروری ہے اور امام کی ضرورت نبیؐ کے ذریعہ پوری نہیں ہوسکتی اس لئے کہ نبیؐ تو اپنے دور کا امام ہوگا لیکن نبیؐ کی وفات کے بعد ضرورت باقی رہےگی اور ضرورتوں کو پورا کرنےوالا مفقود ہوگا،ایسی صورت میں نبیؐ کے بعد امت میں اختلاف پیدا ہوجائےگا شر و فساد پیدا ہوجائیں گے اور امت کے کچھ لوگ اللہ کی اطاعت سے خروج کا اعلان کردیں گے دین کے علوم ضائع ہوں گے اور امت انتشار کا شکار ہوجائےگی لطف الہی کے قاعدہ کا یہی فائدہ ہے کہ عوام کی شرعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے امام کا ہونا ضروری ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ پھر امام کو تسلط و اختیار حاصل ہونا چاہئے اور زمانہ کا اقتدار امام کے ہاتھوں میں کردینا خدا کے اوپر واجب ہے کہ وہ بندوں کو امام کا حکم ماننے پر اس کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کرے اس لئے کہ یہ صورت حال تو بہت کم حاصل ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ تاریخ کے ان مختصر زمانوں کو مقام مثال میں پیش نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس مطلب یہ ہے کہ خدا کے اوپر نصب امام واجب ہے تا کہ انسان کی نفسانی کمزوریوں کے علاج کا ایک ذریعہ موجود رہے اور وہ امام وقت سے متعارف رہیں تا کہ ان پر واجب حجت تمام کی جاسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انعام آیت:۹۱

۲۱۰

(لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ)(۱)

ترجمہ:جو ہلاک ہو دلیل کی بنیاد پر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کی بنیاد پر زندہ رہے۔

پھر اس کے بعد عوام کو اختیار ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے منصوب امام کو مانے یا نہ مانے اگر لوگ خدا کی نعمت کا شکریہ ادا کرکے امام کی اطاعت کرتے ہیں تو ان کے امور کی اصلاح ہوجائےگی اور ان کے درمیان خیر و عدل عام ہوجائےگا جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ: ( وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ-وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌوَ كَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ) (۲)

ترجمہ:اور اہل کتاب ایمان لاتے اور(ہم سے)ڈرتے تو ہم ضرور ان کے گناہوں سے درگذر کرتے اور ان کو نعمت و آرام(بہشت)کے باغوں میں پہنچادیتے اور یہ لوگ تو ریت اور انجیل اور جو(صحفے)ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کئے گئے تھے(ان کے احکام کو)قائم رکھتے تو ضرور(ان کے)اوپر سے بھی(رزق برس پڑتا)اور پاؤں کے نیچے سے بھی(ابل آتا اور یہ خوب چین سے)کھاتے ان میں سے کچھ لوگ تو اعتدال پر ہیں،مگر ان میں کے بہتر جو کچھ کرتے ہیں برا ہی کرتے ہیں۔

اگر مسلمان خدا کا کفران نعمت کرتے ہیں اور امام وقت کی مخالفت کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ انہیں اپنے اعمال کا مزہ چھکنا پڑےگا اور ان کے درمیان ظلم و فساد عام ہوجائےگا اس لئے کہ خدا فرماتا ہے:( مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ) (۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انفال آیت:۴۲(۲)سورہ مائدہ آیت:۶۵۔۶۶

(۳)سورہ نساءآیت:۷۹

۲۱۱

ترجمہ:تمہیں جو اچھائیاں ملتی ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہیں اور تم جو برائیاں جھیلتے ہو یہ تمہارے نفس کے اعمال کا نتیجہ ہے.

اللہ پر کوئی حجت نہیں ہے اس لئے کہ اس نے عوام پر لطف و کرم کیا تھا کہ امام مقرر کردیا اور سیدھے راستے کی ہدایت کردی اب یہ ان کی غلطی تھی کہ انہوں نے خدا کے معین کردہ امام کو چھوڑ کر اپنی طرف سے ایک ایک امام بنالیا اور اپنی غلطیوں کا ذمہ دار بھی اس کو ٹھرادیا اور اپنے گناہ بھی اسی پر لاد دیئے۔

خداوند عالم اگر اسی گمراہی میں بندوں کو چھوڑ دے یعنی ان کے لئے کوئی ایسا امام نہ بنائے جو ان کے درمیان ہدایت کرنےوالا ہے اور ان کے حالات کے مطابق انہیں ہدایت پر مضبوطی سے قائم رکھنےوالا ہے تو یہ بندوں کی حق تلفی ہوگی اور اللہ کے لطف کے خلاف ہوگا عوام کی ہدایت و اصلاح کے لئے ان کو شریعت کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ ناکافی ہوگا بلکہ بندے خدا پر حجت قائم کردیں گے کہ ہماری ہدایت کا انتظام نہیں کیا گیا اور اللہ ان باتوں سے بہت بلند ہے اس لئے کہ خداوند اپنی کتاب پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ۰أَن تَقُولُواْ إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَآئِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ ۰أَوْ تَقُولُواْ لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ فَقَدْ جَاءكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِآيَاتِ اللّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يَصْدِفُونَ(۱)

ترجمہ:ہم نے اس کتاب مبارک کو نازل کیا پس تم اس کی پیروی کرو اور پرہیزگار بنوتا کہ تم پر رحم کیا جائے(تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو)کتاب ہمارے پہلے دو گروہوں(یہود و نصاری)پر نازل کی گئی مگر یہ کہ ہم انکی تعلیمات سے غافل رہے یا یہ(نہ کہو)کہ وہ کتابیں ہم پر نازل ہوتیں تو ہم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے اب تو تہمارے پروردگار کی طرف سے خود ہی دلیل آگئی اور ہدایت و رحمت بھی..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انعام آیت۱۵۵۔۱۵۶۔۱۵۷

۲۱۲

(تو قاعدہ لطف)امامت کے معاملے میں بھی اس طرح جاری ہے جس طرح دوسرے احکام کے بارے میں جیسے واجبات،محرمات اور آداب و غیرہ میں۔

قائدہ لطف کا تقاضہ یہ ہے کہ چونکہ لوگ اپنی جہالت اور محتاجی کی بنیاد پر قاصر ہیں اس لئے اللہ پر واجب ہے کہ ان پر لطف و کرم کرے ان کے لئے ایک ایسا نظام وضع کردے جن سے ان کے امور کی اصلاح ہوجائے ان کے معاد و معاش اور خود خدا سے رابطہ اور ان کی آپسی معاشرت کو قانونی حیثیت مل جائے لیکن قاعدہ لطف اس بات کا تقاضہ نہیں کرتا کہ اللہ اس قانون کو نافذ کرنے کے لئے مناسب ماحول بھی تیار کرے اور ان پر زبردستی ان کے احکام لادے،تا کہ وہ خیر و صلاح کے راستے میں کامیاب ہوسکیں اور شر و فساد سے دور رہ سکیں بلکہ خدا پر صرف یہ واجب ہے کہ وہ ایسے احکام جو بندوں کے لئے صالح ہوں ان کا ایک نظام ان کے سامنے رکھ دے جبکہ اس نظام کو اختیار کرنے کا حق بندوں کو دےدے جس کی طرف سورہ دہر کی ابتدائی آیت میں۔

ارشارہ کیا ہے:(إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا) (۱)

ترجمہ:ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا اب چاہے وہ شکر کرے چاہے وہ کفران نعمت کرے۔

پس جو خدا کی اطاعت کرےگا اور اور ان احکام پر عمل کرےگا وہ کامیاب اور خوش بخت ہوگا اور جو نافرمانی کرےگا اور ان احکام سے منہ موڑ لےگا وہ بدبخت اور نقصان اٹھانےوالوں میں ہوگا اور اس کی خدا پر کوئی حجت نہیں ہے۔

لطف الہی کا اصول صرف مذہب امامیہ کا نظریہ ماننے پر ہی ٹوٹےگا

میں نے لطف الہی کے اصول کی وضاحت کردی اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف امامیہ مذہب کے قائل ہونے پر ہی اس اصول کو مانا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انسان آیت:۳

۲۱۳

اس لئے کہ اس دور میں بھی شیعہ فرقہ بارہویں امام کے وجود کا قائل ہے جو حضرت حجت ابن الحسن صلوۃ اللہ علیہ کی ذات مقدس ہے الحمداللہ وہ بالفعل موجود ہیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں آپؐ جسمانی اعتبار سے موجود ہیں اور اپنی قدرت کا استعمال کررہے ہیں،بلکہ آپ کا وجود مبارک قاعدہ لطف الہی پر ایک ٹھوس دلیل ہے۔

کوئی یہ نہ سمجھے کہ جب آپؐ کو سلطنت او اقتدار ہی حاصل نہیں ہے اور آپؐ اس دور میں عدالت قائم ہوگا جب دنیا چاہےگی اور اس کی ضرورت محسوس کرےگی،اس سے آپؐ کی امامت پر نہیں فرق آتا اور نہ خدا چاہےگی اور اس کی ضرورت محسوس کرےگی،اس سے آپؐ کی امامت پر نہیں فرق آتا اور نہ خدا کے فضل اور اس کی تشریع میں کوئی کمی ثابت ہوتی ہے بلکہ آپ کی حالت آپؐ کے آباء کرام علیہم السلام سے مختلف نہیں ہے جن کی سلطنت اور اقتدار کے درمیان اس دور کے ظالم لوگ حائل ہوگئے اور انھیں امور کی قیادت اور لوگوں کے درمیان عدالت قائم کرنے سے روک دیا،بلکہ آپؐ کے حالات اور اکثر انبیاء کے حالات ملتے جلتے ہیں،اس لئے کہ حضور بھی عام عالم انسانیت کے درمیان عدالت کا نفاذ نہیں کرپائے اس لئے کہ آپؑ کی عمر نے وفا نہیں کی امام مہدی کی غیبت اور آپؑ کی امامت پر کوئی الزام نہیں آتا نہ یہ کہ آپؑ ایسے امام ہیں جو امامت کی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہیں اور نہ قائدہ لطف الہی پر کوئی الزام آتا ہے بلکہ آپؑ کی امامت میں اور بر سر اقتدار آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ ماحول ہے جو آپؑ کے اردگرد پایا جاتا ہے۔

وہ ماحول جس کا نتیجہ فاسد سماج اور ظالم حکومتوں کا قیام ہے دوسری رکاوٹ خود عالم انسانیت کی غیر ذمہ داری ہے کہ انسان اس فرض اطاعت کو ادا نہیں کرتا ہے جو حق ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے بلکہ ہوں سمجھ لیجئے کہ جس طرح آپؑ کے آباء طاہرین جناب ابوابراہیمؑ،حضرت موسیؑ بن جعفر الکاظم علیہ السلام،ابوالحسینؑ علی ابن محمد الہادی النقی علیہ السالم اور ابومحمد العسکری علیہ السلام نے قیدخانے میں زندگی گذاری اسی طرح آپؑ غیبت میں زندگی گذار رہے ہیں مذکورہ حضرات میں اور آپؑ کی

۲۱۴

غیبت میں اگر فرق ہے تو بس اتنا کہ وہ حضرات جبری طور پر ظالموں کی قید میں ڈال دئیے گئے تھے آپؑ نے ظالموں کی طرف سے خوف جان کی وجہ سے غیبت اختیار کررکھی ہے ابھی ماحول آپؑ کے ظہوار کے لئے سازگار نہیں ہے اور آپؑ کی غیبت کی دوسری مصلحتیں بھی ہیں،جن کا علم اللہ کو ہے یعنی غیبت میں آپؑ کی امامت کا قصور نہیں ہے بلکہ خدا کی مصلحت کا تقاضہ ہے،جس دن یہ اسباب ختم ہوجائیں گے اس دن آپؑ انشاءاللہ ظاہر ہوں گے اور لوگوں سے اپنے نفس کو پوشیدہ نہیں کریں گے پھر آپؑ کی امامت اپنے فرائض کو جو اللہ کی طرف سے عائد کئے گئے ہیں اور مقام سلطنت میں حاصل ہوں گے پورا کرنے میں کوتاہی نہیں کرےگی،آپؑ کے اندر عدل و انصاف کو قائم کریں گے اور تمام امور کو اپنے طور پر جاری کریں گے(انشاءاللہ تعالی)

حاصل کلام یہ ہےکہ آپؑ کی اور آپؑ کے آبائے طاہرین علیہم السلام کی امامت کی شرعی حیثیت قائدہ لطف الہی کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے،بالفعل جو عدل و انصاف آپؑ کی طرف سے نہیں قائم ہو پارہا ہے وہ اس لئے کہ انسانی سماج آپؑ کی امامت کے مزاج کے مطابق نہیں ہے آپؑ کی امامت کے قیام میں جو رکاوٹیں وہ لوگوں کی تقصیر اور مداخلت بےجا کا نتیجہ ہیں جو پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے قاعدہ لطف الہی ان موانع کو دور کرنے کا ذمہ دار نہیں ہے۔

جب آپ کے سامنے ساری باتیں رکھ دی گئیں تو پھر آپ اپنے اس قول پر غور کریں(کیا اس زمانے کے امام کا عدل سے خالی ہونا قاعدہ لطف الہی سے نہیں ٹکراتا)اگر امام کو غیر موجود سمجھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ابھی کوئی اور یہ زمانہ یا کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہے لہذا قاعہ لطف نہ ٹوٹتا ہے اور نہ باطل ہوتا ہے اور اگر امام کے غیر موجود ہونے سے آپ کی یہ مراد ہے کہ امام کو نہ سلطنت و اقتدار ہے اور نہ اقامہ عدل ہورہا ہے تو یہ قاعدہ لطف الہی کے منافی نہیں ہے کیونکہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ امام صالح کی امامت میں عدل کو قائم کرنے کے لئے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے اور سلطنت کا حاصل نہ ہونا بالفعل اقامہ عدل میں بڑی رکاوٹ ہے اور شیعوں کا لطف الہی کی بنیاد پر امامت کا استدلال کسی بھی طرح ساقط نہیں ہوتا۔

۲۱۵

۲۱۶

سوال نمبر۔۶

حدیث عترت سے مولا علیؑ کی امامت کا وجود کیسے ثابت ہوسکتا ہے؟کیا ممکن ہے کہ حدیث عترت سے سمجھا جائے کہ سرکار صحابہ کو اہل بیتؑ کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کررہے ہوں اور صحابہ کو اہل بیتؑ کی طرف متوجہ کررہے ہوں اور اس حدیث کو خلافت پر نس نہ سمجھا جائے؟

جواب:آپ کے اس سوال کے جواب میں کچھ امور پیش کئے جارہے ہیں جو ایک دوسرے پر مرتب ہیں۔

۱۔عرض ہے کہ یہ حدیث کثیر طریقوں سے اور قریب المعنی الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے حضور سرور کائناتؐ نے اس حدیث کو مختلف موقعوں پر ارشاد فرمایا ہے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس منزل میں موقعہ پر کچھ ثبوت پیش کروں جن کے ذریعہ یہ حدیث وارد ہوئی ہے اور جو بعض طریقوں سے شامل ہیں تا کہ مجھے اپنی بات ثابت کرنے میں آسانی ہو۔

حدیث ثقلین کے کچھ متن حاضر ہیں

الف:جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ ایام حج میں عرفہ کے دن میں نے سرکار کو خطبہ دیتے ہوئے سنا اس وقت آپ اپنے ناقہ پر سوار تھے اور میں نے سنا کہ حضورؐ فرما رہے تھے اے لوگو!میں تمہارے درمیان چھوڑ دی ہیں اللہ کی کتاب اور میری عترت(اہل بیتؑ)جس کو پکڑے رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سنن ترمذی،ج:۵،ص:۶۶۲،کتاب مناقب،باب مناقب اہل بیتؑ نبیؐ

۲۱۷

ب:زید بن ارقم اور ابوسعید کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا:میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ جب تک تم ان سے تمسک رکھوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ان میں ہر ایک،ایک،دوسرے سے عظیم تر ہے اللہ کی کتاب ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور میری عترت جو میرے اہلبیتؑ ہوئے ہیں اور یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گے،یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے پھر دیکھو کو میرے بعد تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو...؟(۱)

ج:زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور ہادی برحق مکہ اور مدینہ کے درمیان اس جگہ اترے جہاں پانچ بڑے اور سایہ دار درخت ہیں۔لوگوں نے درخت کے نیچے جھاڑو دیکر صاف کردیا پھر سرکارؐ نے وہاں رات کو قیام کیا اور عشا کی نماز پڑھی،پھر آپ خطبہ دینے کھڑے ہوئے،آپؑ نے خدا کی حمد و ثنا کی اور جب تک خدا نے چاہا وعظ و پند اور ذکر و تذکر کرتے رہے پھر فرمایا لوگو!میں تمہارے درمیان دو امر چھوڑ کے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کی پیروی کرتے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے وہ دو امر کتاب خدا اور میرے اہل بیتؑ میری عترت ہیں۔(۲)

د:ابوسعید خدی نبیؐ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا مجھے لگتا ہے کہ خدا کی طرف سے مجھے بلایا جائے گا اور میں جواب دوں گا(میں وفات پا جاؤں گا)اس لئے میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں خدائے عز و جل کی کتاب اور میری عترت اہل بیتؑ۔

کتاب خدا ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے۔

لطیف و خبیر خدا نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں بھی ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں پر تم غور کرو کہ میرے بعد ان کے ساتھ تم کیا سلوک کرتے ہو۔؟(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سنن ترمذی ج:۵،ص:۶۶۳،کتاب مناقب،باب اہل بیت نبیؐ

(۲)مستدرک علی صحیحن،ج:۳،ص:۶۱۸،کتاب معرفت صحابہ میں مناقب امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ

۲۱۸

(۳) مسند احمد،ج:۲،ص:۱۸،مسند ابی سعد خدری میں،طبقات کبریٰ،ج:۲،ص:۱۹۴،میں جس میں رسولؐ کی وفات کے قریب کی چیزیں ذکر ہوئی ہیں------ ھ:زید بن ثابت سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا!میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب((جو آسمان سےزمین تک پھیلی ہوئی رسی ہے))اور دوسرے میری عترت،میرے اہل بیتؑ اور یہ دونوں بھی ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔(۱) ----و:ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ سرکارؐ نے فرمایا میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ان میں ہر ایک،ایک دوسرے سے بڑی ہے ایک اللہ کی کتاب((جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے))اور دوسرے میری عترت اہل بیتؑ اور سنو یہ دونوں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے،(۲) یہ وہ قریب المعنی الفاظ ہیں جن میں یہ حدیث،بہت ساری مشہور و معروف کتابوں میں وارد ہوئی ہے۔(۳)

حدیث ثقلین دلالت کرتی ہے کہ عترتؑ کی اطاعت واجب ہے

۲۔متن حدیث کے الفاظ میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی ہے کہ حدیث کو محض ایک وصیت سمجھا جائے جس میں سرکارؐ اہل بیتؑ کی محبت،ان کا احترام،ان کی تعظیم،ان کی طرف نگاہ توجہ اور ان کے حقوق کی رعایت کا حکم دےرہے ہیں بلکہ حدیث کے الفاظ پکار رہے ہیں کہ نبیؐ و اہل بیتؑ کی اطاعت اور ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسند احمد،ج:۵،ص:۱۸۱۔۱۸۹،حدیث زید بن ثابت میں جو نبیؐ سے نقل کی ہے(۲)مسند احمد،ج:۳،ص:۵۹،مسند ابی سعید خدری کے مسند میں

(۳)تفسیر ابن کثیرج:۴،ص:۱۱۴،مجمع الزوائدج:۹،ص:۱۶۲۔۱۶۵،کتاب مناقب اہل بیتؑ،سنن کبریٰ نسائی،ج:۵،ص:۴۵،مصنف بن شیبہ،ج:۶،ص:۳۰۹،کتاب الفضائل باب مااعطی اللہ محمد معجم الاوسط،ج:۳،ص:۳۷۴،معجم صغیر،ج:۱،ص:۲۲۶،مسند ابی یعلی ج:۲ص:۲۹۷،مسند ابی الجعدج:۱ص:۳۹۷،سنۃ ابن ابی عاصم ج:۲ص:۳۵۱،باب ما ذکر عن النبیؐ انہ و عد من تمسک بامرہ و رود حوضہ و نوادر الاصول فی احادیث الرسول،ج:۱ص:۲۵۸،الاصل الحمسون فی الاعتصام بالکتاب والعترۃ،سیرہ اعلام النبلاءج:۹ص:۳۶۵،حالات ہارون بن یزید میں

۲۱۹

کے اتباع کا حکم دےرہے ہیں دیکھئے قابل الذکر معنی پر محمول کرنے کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:

الف:اکثر متون حدیث سے ظاہر ہے کہ جب سرکار کو اپنی وفات کے دن قریب ہونے کا احساس ہوا تو آپؐ نے یہ حدیث امت کے سامنے پیش فرمائی،اگر ان حدیثوں سے مقصد یہ تھا کہ امت اہل بیتؑ سے محبت کرھے اور ان کا احترام کرے تو پھر اس کی ہدایت مخصوص وقت میں کیوں فرمائی،کیا حضورؐ کی زندگی میں اہل بیتؑ سے محبت اور ان حضرات کا احترام ضروری نہیں تھا ماننا پڑےگا کہ ان الفاظ سے محض اہل بیتؑ کی محبت مقصود نہیں تھی بلکہ حضورؐ کے انتقال کا وقت قریب تھا اور اپنی زندگی میں امت کے مرجع اور ان کے حیات کے ناظم تھے آپؐ کے اوپر امت کی قیادت کی ذمہ داریاں تھیں ظاہر ہے کہ وفات کے بعد امت آپؐ کی قیادت سے محروم ہورہی تھی،اس لئے حضورؐ نے ان حدیثوں میں ایک ایسے گروہ کا تعارف کرادیا جو امت کی قیادت اور مرجعیت کا ذمہ دار ہے اور اس سلسلے میں آپؐ کی جانشین کرسکتا ہے تا کہ امت کے اندر اس بات کا احساس نہ رہے کہ اب ہمارا کوئی قاعد و سرپرست نہیں اور حضورؐ نے عترتؑ کی نشاندہی کردی کہ ان کی پیروی سے تم بھی گمراہ نہیں ہوگے۔

زید بن ارقم کی حدیث ملاحظہ فرمائیں اس میں کچھ زیادہ وضاحت کردی گئی ہے آپؐ نے فرمایا((میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں))حدیث کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اس حدیث میں خلیفہ سےمراد جو حضرات بھی ہیں وہ سرکار دو عالمؐ کی غیر موجودگی میں سرکاری ذمہ داریوں کو ادا کرنےوالے ہیں اور آپؐ کے قائم مقام کی حیثیت رکھتے ہیں،جو لوگ ہیں جو قیادت کے وظیفہ کو ادا کریں گے اس لئے ان کی محبت اور اطاعت دونوں ہی واجب ہے۔

ب:آپ نے ہر حدیث میں عترتؑ کو قرآن مجید کے سیاق میں رکھا ہے تا کہ لوگوں کی سمجھ میں آجائے کہ آپ قرآن مجید کے لئے محض عزت و احترام کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں کہ اس کو چوم لیا جائے اور اس کو بلند جگہ پر رکھا جائے بلکہ آپؐ کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید کی پیروی کی جائے اور اس

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

سوالات

۱_ جس وقت رسول خد ا(ص) نے روميوں سے جنگ كيلئے سپاہ روانہ كرنے كا اقدام كيا تو آنحضرت (ص) كوكيا مشكلات اور دشوارياں پيش آئيں؟

۲_ جب رسول خد ا(ص) نے مسلمانوں كو روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كى دعوت دى تو ان كى طرف سے كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۳_ رسول خد ا(ص) جب غزوہ تبوك پر تشريف لے جارہے تھے تو آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں كسے اپنا جانشين مقرر رفرمايا اور اس شخص كے انتخاب كئے جانے كا كيا سبب تھا؟

۴_ اگر چہ غزوہ تبوك كے موقع پر جنگ تو نہيں ہوئي مگراسلام دشمنوں نے اس سے كچھ سبق ضرور حاصل كئے ان كے بارے ميں لكھئے وہ كيا تھے؟

۵_ غزوہ تبوك كا مسلمانوں كے دل ودماغ پر كيا اثر ہوا ؟

۶_ عزوہ تبوك كے موقع پر منافقين نے جو ريشہ دوانياں كيں اس كے دو نمونے پيش كيجئے_

۷_ غزوہ تبوك كو ''فاضحہ'' كس وجہ سے كہا گيا ؟ وضاحت كيجئے_

۸_ سورہ توبہ كى ابتدائي آيات ہجرت كے كس سال رسول خدا (ص) پر نازل ہوئيں اور آنحضرت (ص) نے كس شخص كے ذريعے انہيں مشركين تك پہنچايا ؟

۹_ سورہ توبہ كے علاوہ بھى كيا رسول خد ا(ص) كى طرف سے كوئي پيغام مشركين كو بھيجا گيا تھا ؟ وہ كيا پيغام تھا اس كے بارے ميں لكھئے_

۱۰_ كيا سورہ توبہ كى ابتدائي آيات اور اس كا مفہوم جو حضرت على (ع) كى جانب سے مشركين كو بھيجا گيا تھا ، ان پر كسى عقيدے كو مسلط كرنے اور ان كى آزادى سلب كرنے كے مترادف ہے يا نہيں ؟، اس كى وضاحب كيجئے_

۲۸۱

حوالہ جات

۱_يہ جگہ ''وادى القري'' اور شام كے درميان واقع ہے مدينہ سے اس جگہ تك بارہ منزل كا فاصلہ ہے ، معجم البلدان ج ۲ ص ۱۴_ ۱۵ ، مسعودى نے اپنى كتاب التنبيہ والاشراف ميں ص ۲۳۵ پر لكھا ہے كہ مذكورہ بارہ منزلوں كا فاصلہ نوے فرسخ ہے (تقريباً ۵۴۰ كلوميٹر)_

۲_يہ جگہ شام اور وادى القرى كے درميان دمشق كے علاقے ميں واقع ہے ، معجم البلدان ج ۱ ص ۴۸۹_

۳_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۹۰_

۴_علامہ ''مفيد'' مرحوم نے اپنى كتاب ''الارشاد'' ميں ص ۸۲ پر لكھتے ہيں كہ ''رسول خدا (ص) '' كو وحى كے ذريعے علم ہوگيا تھا كہ اس سفر ميں جنگ نہيں ہوگى ''اورتلوار چلائے بغير ہى كام آنحضرت (ص) كى مرضى كے مطابق انجام پذير ہوں گے ، سپاہ كو تبوك كى جانب روانہ كئے جانے كا حكم محض مسلمانو ں كى آزمائشے كى خاطر ديا گيا تھا تاكہ مومن ومنافق كى تشخيص ہوسكے، موصوف اپنى كتاب ميں دو صفحات كے بعد لكھتے ہيں كہ اگر اس سفر ميں جنگ واقع ہوتى او ر رسول خد ا(ص) كو مدد كى ضرورت پيش آتى تو خداوند تعالى كى طرف سے يہ حكم نازل نہ ہوتا كہ آپ (ص) حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمائيںبلكہ انہيں مدينہ ٹھہرانے كى آپ(ص) كو اجازت ہى نہيں ملتي_

۵_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۹۰_

۶_ايضا ص ۱۰۰۲_

۷_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۱۰_

۸_سورہ توبہ كى ۴۲ سے ۱۱۰ تك كى آيات اسى سلسلے ميں نازل ہوئي ہيں_

۹_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيت ۹۲_

۱۰_ ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت ۸۱_

۱۱_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت ۷۹_

۱۲_ملاحظہ ہو : تفسير برہان ج ۲ ص ۱۴۸_

۱۳_سورہ توبہ آيت ۴۹و ۹۰_

۲۸۲

۱۴_ايضا آيت ۱۱۸_

۱۵_الارشاد ، مفيد ص ۸۲_

۱۶_ايضا ص ۸۳_

۱۷_التنبيہ والاشراف ص ۲۳۵_

۱۸_المغازى ج ۳ ص ۱۰۱۵_

۱۹_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۱۰۳۱ وسيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۹_

۲۰_يہ قلعہ شام كے نواح ميں تھا جس كا فاصلہ دمشق سے پانچ رات (تقريبا ۱۹۰ كلوميٹر) اور مدينہ تك اس كا سفر تقريباً پندرہ يا سولہ رات (تقريباً ۵۷۰ كلوميٹر) كا تھا_ الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۶۲ و وفاء الوفاء ج ۲ ص ۱۲۱۳_

۲۱_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۱۰۲۵ والسيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۹

۲۲_محمد بن سعد نے''الطبقات الكبري''كى جلد اول كے صفحات ۳۵ _۲۹۱ميں لكھا ہے كہ تہتر(۷۳) وفد رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے چنانچہ ہر وفد كى اس نے عليحدہ خصوصيات بھى بيان كى ہيں_

۲۳_ملاحظہ ہو: الكامل فى التاريخ ج ۳ ص ۲۸۶_

۲۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۲۰۵_

۲۵_ملاحظ ہو : الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۶۷ والمغازى ج ۳ ص ۱۰۵۷_

۲۶_ السيرة النبويہ ابن كثير ج ۴ ص ۴۱_۴۲_

۲۷_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۲۹_

۲۸_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۰_

۲۹_ملاحظہ ہو :المغازى ج ۳ ص ۹۹۵_

۳۰_ ملاحظہ ہو: تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۰۳_ ۱۰۴ و السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۳۲_

۲۱_بعض كتب ميں ان كى تعداد چودہ اور پندرہ بھى بتائي گئي ہے (السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۴۲_

۳۲_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۴۲ والمغازى ج ۳ ص ۱۰۴۲_ ۱۰۴۵_

۲۸۳

۳۳_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيات ۱۰۷ سے ۱۱۰ تك ، خداوند تعالى نے اس مسجد كو مسجد ضرار كے عنوان سے ياد كيا ہے اور اس مركز كے قائم كئے جانے كا سبب مسلمانوں كو زك پہنچانا ' كفر كى بنيادوں كو محكم كرنا اور ' مسلمانوں كى صفوں ميں تفرقہ ڈالنا بيان كيا ہے اور اسے دشمنان رسول خد ا(ص) كے مركز سے تعبير كياہے_

۳۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۷۳ وبحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۵۲ _ ۲۵۵_

۳۵_سورہ توبہ كى آيات ۴۲ سے ۱۱۰ تك ان منافقين كى خيانت كاريوں اور سازشوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہے جو جنگ تبوك كے دوران اپنى سازشوں ميں سرگرم عمل تھے ، مذكورہ آيات ميں خداوند تعالى كى طرف سے ان كى ذہنى كيفيات و خصوصيات بيان كى گئي ہيں_

۳۶_رسول خد ا(ص) ماہ رمضان ميں مدينہ واپس تشريف لائے ، عبداللہ بن ابى ماہ شوال ميں بيمار ہوا اور ماہ ذى القعدہ ميں مرگيا ، ملاحظہ ہو: المغازى ج ۳ ص ۱۰۵۶_ ۱۰۵۷_

۳۷_لَايُؤَديّ عَنكَ الَّا اَنتَ اَو رَجُلٌ منكَ _

۳۸_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج ۴ ص ۱۹۰ _ ۹۱ ۱' بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۶۵ _۲۷۵_

۲۸۴

سبق ۱۶:

حجة الوداع ، جانشين كا تعين اور رحلت پيغمبر(ص) اكرم

۲۸۵

حجة الوداع

اسلام كے ہاتھوں تبوك ميں سلطنت روم كى سياسى شكست، جزيرہ نمائے عرب ميں شرك و بت پرستى كى بيخ كنى(۱) اورمشركين كے نہ صرف مناسك حج ميں شركت كرنے بلكہ مكہ ميں داخل ہونے پر مكمل پابندى كے بعد جب زمانہ حج نزديك آيا تو رسول خد ا(ص) كو مامور كيا گيا كہ آنحضرت (ص) بذات خود ہجرت كے دسويں سال ميں مناسك حج ادا كريں تاكہ اسلام كى طاقت كو اور زيادہ نماياں كرنے كے ساتھ عہد جاہليت كے آداب و رسوم كو ترك كرنے اورسنت ابراہيمى كے اصول كے تحت حج كى بجا آورى بالخصوص مستقبل ميں مسئلہ قيادت اسلام كے بارے ميں براہ راست مسلمانوں كو ہدايت فرمائيں تاكہ سب پر حجت تمام ہوجائے_(۲)

رسول خد ا(ص) كو وحى كے ذريعے اس كام پر مامور كيا گيا كہ آنحضرت(ص) تمام مسلمانوں كو حج بيت اللہ پر چلنے كےلئے آمادہ كريں اور انہيں اس عظیم اسلامى اجتماع ميں شركت كرنے كى دعوت ديں چنانچہ اس بارے ميں خداوند تعالى اپنے نبى (ص) سے خطاب كرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے كہ :

( وَأَذّن فى النَّاس بالحَجّ يَأتُوكَ رجَالًا وَعَلَى كُلّ ضَامر: يَأتينَ من كُلّ فَجّ: عَميق )

''اور لوگوں كو حج كيلئے دعوت عام دو كہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پيدل اور

۲۸۶

سوار ى پر آئيں تاكہ وہ فائدے ديكھيں جو يہاں ان كيلئے ركھے گئے ہيں''(۳) _

جس وقت يہ اعلان كياگيا اگر چہ اس وقت مدينہ اور اس كے اطراف ميں چيچك كى وبا پھيلى ہوئي تھى اور بہت سے مسلمان اس مرض كى وجہ سے اركان حج ادا كرنے كيلئے شركت نہيں كرسكتے تھے(۴) مگر جيسے ہى انہوں نے رسول خد ا(ص) كا يہ پيغام سنا مسلمان دور و نزديك سے كثير تعداد ميں مدينہ كى جانب روانہ ہوگئے تاكہ رسول خدا (ص) كے ساتھ مناسك حج ادا كرنے كا فخر حاصل كرسكيں ، مورخین نے ان كى تعداد چاليس ہزار سے ايك لاكھ چوبيس ہزار تك اور بعض نے اس سے بھى زيادہ لكھى ہے_(۵)

رسول خدا (ص) نے حضرت ابودجانہ كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمايا اور ہفتہ كے دن بتاريخ پچيس ذى القعدہ(۶) مكہ كى جانب روانہ ہوئے اس سفر ميں مسلمانون كا ذوق وشوق اس قدر زيادہ تھا كہ ان ميں سے كثير تعداد نے مدينہ و مكہ كے درميان كا فاصلہ پيدل چل كر طے كيا _(۷)

يہ قافلہ دس روز بعد منگل كے دن(۸) بتاريخ چہارم ذى الحجہ(۹) مكہ ميں داخل ہوا_(۹) جہاں اس نے عمرہ كے اركان ادا كئے _

آٹھ ذى الحجہ تك مسلمانوں كى دوسرى جماعت بھى مكہ پہنچ گئي جس ميں حضرت على (ع) اور آپ (ع) كے وہ ساتھى بھى شامل تھے جو اس وقت آپ (ع) يمن كے دورے پر تشريف لے گئے تھے_(۱۰)

رسول خدا (ص) نے اس عظیم اسلامى اجتماع ميں سنت ابراہيمى كے مطابق مناسك حج ادا كرنے كى تعليم دينے كے ساتھ يہ بھى ہدايت فرمائي كہ كس طرح صحيح طور پر اركان حج پر عمل پيرا ہوں ، آنحضرت (ص) نے ''مكہ''، ''منى '' اور ميدان ''عرفات '' ميں مختلف مواقع پر خطاب

۲۸۷

فرما كر آخرى مرتبہ مسلمانوں كو پند ونصائح اور ارشادات عاليہ سے نوازا(۱۱) ان تقارير ميں آپ(ص) نے انہيں يہ نصيحت فرمائي كہ لوگوں كے جان ومال كى حفاظت كريں ، قتل نفس كى حرمت كا خيال ركھيں ، سود كى رقم كھانے ، دوسروں كا مال غصب كرنے سے بچیں ، دورجاہليت ميں جو خون بہايا گيا تھا اس سے چشم پوشى كو ہى بہتر سمجھيں ، كتاب اللہ پر سختى سے عمل پيرا ہوں ، ايك دوسرے كے ساتھ برادرانہ سلوك كريں، نيز استقامت و پائيدارى كے ساتھ احكام الہى و قوانين دين مقدس اسلام پر كاربند رہيں ، اس ضمن ميں آنحضرت(ص) نے مزيد ارشاد فرمايا كہ : حاضرين ان لوگوں كو جو يہاں موجود نہيں ہيں يہ پيغام ديں كہ ميرے بعد كوئي نبى و پيغمبر نہيں ہوگا اور تمہارے بعد كوئي امت نہ ہوگي(۱۲) آنحضرت(ص) نے يہ بات تاكيدسے كہى كہ : اے لوگو ميرى بات كو اچھى طرح سے سنو اور اس پر خوب غورو فكر كرو كيونكہ يہ ممكن ہے كہ اس كے بعد يہ موقع نہ ملے كہ ميرى تم سے ملاقات ہوسكے(۱۳) چنانچہ ان الفاظ كے ذريعے آنحضرت (ص) لوگوں كو مطلع كر رہے تھے كہ وقت رحلت نزديك آگيا ہے اور شايد اسى وجہ سے اس حج كو ''حجة الوداع'' كے عنوان سے ياد كيا جاتاہے_

جانشين كا تعين

مناسك حج مكمل ہوگئے اور رسول خدا(ص) واپس مدينہ تشريف لے آرہے تھے ليكن جو فرض آنحضرت (ص) پر واجب تھا وہ ابھى پورا نہيں ہوا تھا، مسلمانوں نے يہ سمجھ كر كہ كام انجام پذير ہوچكا ہے اورہر شخص نے اس سفر سے معنوى فيض كسب كرليا ہے اب ان كے دلوں ميں يہى تمنا تھى كہ جس قدر جلد ہوسكے تپتے ہوئے بے آب وگيا صحرا اورويراں ريگزاروں كو پار كركے واپس اپنے وطن پہنچ جائيں ليكن رسول خد ا(ص) نے چونكہ اپنى عمر عزيز كے تئيس سال ،

۲۸۸

اول سے آخر تك رنج وتكاليف ميں گزار كر آسمانى دين يعنى دين اسلام كى اشاعت و ترويج كے ذريعے انسانوں كو پستى و گمراہى اور جہالت و نادانى كى دلدل سے نكالنے ميں صرف كئے تھے اور آپ (ص) اپنے اس مقصد ميں كامياب بھى ہوئے كہ پراكندہ انسانوں كو ايك پرچم كے نيچے جمع كرليں اورانہيں امت واحد كى شكل ميں لے آئيں انہيںاب دوسرا خيال درپيش تھا ،اب آنحضرت (ص) كے سامنے اسلام كے مستقبل اور قيادت كا مسئلہ تھا بالخصوص اس صورت ميں جبكہ آپ (ص) كے روبرو يہ حقيقت بھى تھى كہ اس پر افتخار زندگى كے صرف چند روز ہى باقى رہ گئے ہيں_

رسول خدا (ص) ہر شخص سے زيادہ اپنے معاشرے كى سياسى ، معاشرتي، اجتماعى اور ثقافتى وضع و كيفيت سے واقف تھے ، آنحضرت(ص) كو اس بات كا بخوبى علم تھا كہ آسمانى تعليمات ، آپ (ص) كى دانشورانہ قيادت و رہبرى اور حضرت على (ع) جيسے اصحاب كى قربانى كے باعث قبائل كے سردار و اشراف قريش اسلام كے زير پرچم جمع ہوگئے ہيں ليكن ابھى تك بعض كے دل و دماغ مكمل طور پر تسليم حق نہیں ہوئے اور وہ ہر وقت اس فكر ميں رہتے ہيں كہ كوئي موقع ملے اور وہ اندر سے اس دين پر ايسى كارى ضرب لگائيں كہ بيروى طاقتوں كيلئے اس پر حملہ كرنے كيلئے ميدان ہموار ہوجائے _

( اَلْيَومُ اَكْمَلْتُ لَكُمْ ديْنَكُمْ ) (۱۴) كے مصداق كوئي ايسا ہى لائق اور باصلاحيت شخص جو آنحضرت (ص) كى مقرر كردہ شرائط كو پورا كرسكے ،دين اسلام كو حد كمال تك پہنچا سكتا ہے نيز امت مسلمہ كى كشتى كو اختلافات كى تلاطم خيز لہروں سے نكال كر نجات كے ساحل كى طرف لے جاسكتاہے_

رسول اكرم (ص) اگر چہ جانتے تھے كہ امت مسلمہ ميں وہ كون شخص ہے جو آپ(ص) كى جانشينى اور

۲۸۹

مستقبل ميں اس امت كى رہبرى كيلئے مناسب وموزوں ہے اور خود آنحضرت (ص) نے كتنى ہى مرتبہ مختلف پيرائے ميں يہ بات لوگوں كے گوش گذار بھى كردى تھى ليكن ان حقائق كے باوجود اس وقت كے مختلف حالات اس امر كے متقاضى تھے كہ جانشينى كيلئے خداوند تعالى كى طرف سے واضح وصريح الفاظ ميں جديد حكم نازل ہو، آنحضرت (ص) يہ بات بھى خوب جانتے تھے كہ اس معاملے ميں اللہ تعالى آنحضرت (ص) كى مدد بھى فرمائے گا_كيونكہ رسالت كى طرح مقام خلافت و امامت بھى ايك الہى منصب ہے اور حكمت الہى اس امر كى متقاضى ہے كہ اس منصب كيلئے كسى لائق شخص كوہى منتخب كياجائے ليكن اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص) كو خدشہ بھى لاحق تھا كہ اگر يہ عظيم اجتماع پراكندہ ہوگيا اور ہر مسلمان اپنے اپنے وطن چلاگيا تو پھر كبھى ايسا موقع نہ مل سكے گا كہ كسى جانشين كے مقرر كئے جانے كا اعلان ہوسكے اور آپ (ص) كا پيغام لوگوں تك پہنچ سكے_

قافلہ اپنى منزل كى جانب رواں دواںتھا كہ بتاريخ ۱۸ ذى الحجہ ''جحفہ '' كے نزديك ''غدير خم'' پر پہنچا اور يہ وہ جگہ ہے جہاں سے مدينہ ،مصر اور عراق كى جانب جانے والى راہيں ايك دوسرے سے جدا ہوتى ہيں ، اس وقت فرشتہ وحى نازل ہو ااوررسول خدا (ص) كو جس پيغام كى توقع تھى اسے اس نے ان الفاظ ميں پہنچاديا :

( يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَهُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس إنَّ الله َ لاَيَهدى القَومَ الكَافرينَ ) (۱۵) _

''اے پيغمبر (ص) جو كچھ تمہارے رب كى طرف سے تم پر نازل كيا گيا ہے اسے لوگوں تك پہنچا

۲۹۰

دو ، اگر تم نے ايسا نہ كيا تو تم نے اس كى پيغمبرى كا حق ادا نہيں كيا اللہ تم كو لوگوں كے شر سے بچائے گااور خدا كافروں كو ہدايت نہيں كرتا'' _

گرمى سخت تھى اور كافى طويل قافلہ زنجير كے حلقوں كى مانند پيوستہ اپنى منزل كى جانب گامزن تھا ، رسول خد ا(ص) كے حكم سے يہ قافلہ رك گيا اور سب لوگ ايك جگہ جمع ہوگئے اور يہ جاننے كے متمنى تھے كہ كون سا اہم واقعہ رونما ہونے والا ہے_

رسو-ل خد ا(ص) نے پہلے تو نماز ظہر كى امامت فرمائي اور اس كے بعد ايك (منبر نما) اونچى جگہ پر جو اونٹ كے كجاوئوں سے بنائي گئي تھى تشريف فرما ہوئے اس موقع پر آپ (ص) نے مختلف مسائل كے بارے ميں تفصيلى خطبہ ديا اور ايك بار پھر لوگوں كو يہ نصيحت فرمائي كہ كتاب اللہ اور اہلبيت رسول (ص) كى پورى ديانتدارى كے ساتھ پيروى كريں كيونكہ يہى دونوں ''متاع گرانمايہ'' يعنى بيش قيمت اثاثے ہيں ، اس كے بعد آنحضرت(ص) نے اصل مقصد كى جانب توجہ فرمائي_

آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) كا دست مبارك اپنے دست مبارك ميں لے كر اس طرح بلند كيا كہ سب لوگوں نے رسول خد ا(ص) نيز حضرت على (ع) كو ايك دوسرے كے دوش بدوش ديكھا چنانچہ انہوں نے سمجھ ليا كہ اس اجتماع ميں كسى ايسى بات كا اعلان كياجائے گا جو حضرت على (ع) كے متعلق ہے_

رسول خد ا(ص) نے مجمع سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا :

''اے مومنو تم لوگوں ميں سے كونسا شخص خود ان سے زيادہ اَولى اور ان كى جانوں كا زيادہ حق دار ہے ؟'' مجمع نے جواب ديا كہ خدا ا ور رسول خدا(ص) ہى بہتر جانتے ہيں _

اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا :'' ميرا مولا خدا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں ميں خود ان

۲۹۱

سے زيادہ اَولى اور ان كى جانوں پر تصرف كا زيادہ حق ركھتا ہوں اور سب پر مجھے فضےلت حاصل ہے اور جس كا مولا ميں ہوںيہ على (ع) بھى اس كے سردار اورمولا ہيں ، اے خدا وندا جو على (ع) كے دوست ہوں انہيں تو عزيز ركھ اور جو على (ع) كے دشمن ہوں تو ان كے ساتھ دشمنى كر ، على (ع) كے دوستوں كو فتح ونصرت عطا فرما اور دشمنان على (ع) كو ذليل وخوار كر''_(۱۶)

رسول خدا (ص) كا خطبہ ختم ہوجانے كے بعد مسلمان حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور رسول خدا (ص) كى طرف سے مقام خلافت و قيادت تفويض كئے جانے پر انہوں نے آپ(ع) كو مبارك باد پيش كى اور آپ (ع) سے امير المؤمنين اور مولائے مسلمين كہہ كر ہمكلام ہوئے ، خداوند تعالى نے بھى حضرت جبرئيل (ع) كو بھيج كر اور مندرجہ ذيل آيت نازل فرما كر لوگوں كو اس نعمت عظمى كى بشارت اور مبارك باد دي_

( اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نعمَتى وَرَضيتُ لَكُم الإسلاَمَ دينًا ) _(۱۷)

''آج ميں نے تمہارے دين كو تمہارے لئے مكمل كرديا ہے اور اپنى نعمت تم پر تمام كردى ہے اور تمہارے لئے اسلام كو دين كى حيثيت سے پسند فرمايا ہے''(۱۸) _

اس روز (۱۸ ذى الحجہ )سے مسلمان اور حضرت على (ع) كے پيروكار ''عيد غدير'' كے نام سے ہر سال جشن مناتے ہيں اور اس عيد كا شمار اسلام كى عظیم عيدوں ميں ہوتا ہے_

رسول خدا(ص) كى آخرى عسكرى كوشش

رسول اكرم (ص) ''حجة الوداع'' سے واپس آنے كے بعد خداوند تعالى كى طرف سے عائد كردہ دو اہم فرائض (فريضہ حج اور حضرت على (ع) كى جانشينى كے اعلان) كو انجام دينے كے

۲۹۲

بعد اگر چہ بہت زيادہ اطمينان محسوس كر رہے تھے ليكن اس كے باوجود آپ (ص) كى دور رس نگاہيں ديكھ رہى تھيں كہ ابھى امت مسلمہ كے سامنے ايسے مسائل ہيں جن كى وجہ سے وہ فتنہ وفساد سے دوچار رہے گى چنانچہ يہى فكر آنحضرت (ص) كيلئے تشويش خاطر كا باعث تھي_

سنہ ۱۱ ہجرى كے اوائل ميں جب كچھ لوگوں نے يہ خبر سنى كہ سفر كى وجہ سے رسول خد ا(ص) كى طبيعت ناساز ہے تو انہوں نے نبوت كا دعوى كركے فتنہ و غوغا برپا كرديا ، چنانچہ ''مُسيلمہ'' نے ''يمامہ'' ميں ''اسود عنسي'' نے ''يمن ''ميں اور ''طليحہ'' نے ''بنى اسد '' كے علاقوںميں لوگوں كو فريب دے كر گمراہ كرنا شروع كرديا _(۱۹)

مسيلمہ نے تو رسول خد ا(ص) كو خط بھى لكھا اور آنحضرت (ص) سے كہا كہ اسے بھى امر نبوت ميں شريك كرلياجائے_(۲۰)

دوسرى طرف ان لوگوں كو ، جو كل تك كافر اور آج منافق تھے اور جن كے دلوں ميں پہلے سے ہى اسلام كے خلاف بغض و كينہ بھرا ہوا تھا ، جب يہ معلوم ہوا كہ رسول خد ا(ص) نے حضرت على (ع) كے پيشوائے اسلام اور جانشين پيغمبر (ص) ہونے كا اعلان كرديا ہے تو ان كا غصہ پہلے سے كہيں زيادہ ہوگا چنانچہ جب انہيں يہ علم ہوا كہ رسول خدا(ص) كى طبيعت ناساز ہے اور آنحضرت (ص) كى رحلت عنقريب ہى واقع ہونے والى ہے تو ان كا جوش و خروش كئي گنا زيادہ ہوگيا_

ان واقعات كے علاوہ مشرقى روم كى مغرور و خود سر حكومت اور اس كى نو آباديات كو مسلمانوں كے ساتھ چند مرتبہ نبرد آزمائي كرنے كے بعد ان كى طاقت كا اندازہ ہوگيا تھا اور ان سے كارى ضربيں كھاچكے تھے اسى لئے ان كا وجود مدينہ كى حكومت كے لئے خطرہ بنا ہوا تھا كيونكہ سياسى عوامل سے قطع نظر اس خاص مذہبى حساسيت كے باعث بھى جو عيسائي

۲۹۳

سربراہوں كے دلوں ميں اسلام كے خلاف تھى شمالى سرحدوں پر ہميشہ ناامنى سايہ فگن تھي_

ان حالات ميں بقول پيغمبر اكرم (ص) ''فتنے وفسادات سياہ رات كى طرح يكے بعد ديگرے اسلامى معاشرے پر چھانے شروع ہوگئے ہيں''_(۲۱)

چنانچہ آنحضرت (ص) نے ان كے خاتمہ كيلئے بعض آخرى اور انتہائي اقداما ت بھى كئے _

رسول خدا (ص) نے ''يمن''اور'' يمامہ'' ميں اپنے گورنروں اور قبيلہ بنى اسد كے درميان موجود اپنے نمائندے كو حكم ديا كہ نبوت كے دعويداروں كى شورش كو دبا دیں، اس كے علاوہ يہ حكم بھى صادر فرمايا كہ''اسامہ بن زيد'' نامى اٹھارہ يا انيس(۲۲) سالہ سپہ سالار كى زير قيادت طاقتور سپاہ تيار كى جائے چنانچہ آنحضرت (ص) نے حضرت اسامہ كى تحويل ميں پرچم دينے كے بعد فرمايا كہ پورى امت مسلمہ كے ساتھ جس ميں مہاجر و انصار شامل ہوں بلاد روم ميں اپنے والد ''زيد بن حارثہ'' كى شہادت گاہ كى جانب روانہ ہوں(۲۳) _

حصرت اسامہ كے سپہ سالار مقرر كرنے كى وجہ ان كى مہارت ولياقت كے علاوہ يہ بھى ہوسكتى تھى كہ :

۱_يہ عمل آنحضرت (ص) كى جانب سے ان خرافات كے خلاف عملى جدو جہد تھى جو دور جاہليت سے بعض صحابہ كے ذہنوں ميں سمائي ہوئي تھيں كيونكہ ان كى نظر ميں كسى مقام ومرتبہ كے حصول كا معيار يہى تھا كہ صاحب جاہ ومرتبہ معمر شخص ہو اور كسى قبيلے كے سردار سے وابستہ شخص ہى اس كا حقدار ہوسكتا ہے_

۲_حضرت زيد ابن حارثہ كى شہادت چونكہ روميوں كے ہاتھوں ہوئي تھى اسى لئے ان كے دل ميں روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كا جوش وولولہ بہت زيادہ تھا، رسول خدا (ص) كى يہ كوشش تھى كہ ان كے اس جوش وولولے ميں مزيد شدت اورحدت پيدا ہو چنانچہ

۲۹۴

اسى وجہ سے جب آنحضرت (ص) نے سپہ سالار ى كى ذمہ دارى ان كو دى تو اس كے ساتھ يہ بھى ارشاد فرمايا كہ ''اپنے باپ كى شہادت گاہ كى جانب روانہ ہو ''_(۲۴)

۳_اگر اس وقت كے حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے سپاہ كى قيادت مہاجر و انصار ميں سے كسى معمر شخص كى تحويل ميں دے دى جاتى تو اس بات كا امكان تھا كہ وہ شخص اس عہدے سے سوء استفادہ كرتا اوراسى وجہ سے خود كو پيغمبر اكرم (ص) كا خليفہ و جانشين سمجھنے لگتا ليكن حضرت اسامہ كى يہ حيثيت نہيں تھى اور ان كے خليفہ بننے كا كوئي امكان بھى نہيں تھا_

حضرت اسامہ نے رسول خد ا(ص) كے حكم كے مطابق ''جُرْف''(۲۴) نامى مقام پر خيمے نصب كئے اور ديگر مسلمانوں كى آمد كا انتظار كرنے لگے_

رسول خد ا(ص) نے مسلمانوں بالخصوص مہاجر و انصار كے سرداروں كو حضرت اسامہ كے لشكر ميں شامل كرنے كيلئے بہت زيادہ تاكيد اور اہتمام سے كام ليا اور جو لوگ اس اقدام كے مخالف تھے ان پر آنحضرت (ص) نے لعنت بھى بھيجي_(۲۶)

حضرت اسامہ كى عسكرى طاقت كو تقويت دينے كے علاوہ اس اہتمام كى ايك وجہ يہ بھى تھى كہ آنحضرت(ص) چاہتے تھے كہ وقت رحلت وہ لوگ مدينہ ميں موجود نہ رہيں جو امت ميں اختلاف پيدا كرنے اور منصب خلافت كے حصول كى فكر ميں ہيں تاكہ حضرت على (ع) كى قيادت و پيشوائي كے بارے ميں فرمان خدا و رسول (ص) جارى كئے جانے كيلئے راستہ ہموار رہے_(۲۷)

ليكن افسوس بعض مسلمانوں نے جنہيں رسول خدا(ص) مدينہ سے باہر بھيجنے كيلئے كوشاں تھے يہ بہانہ بناكر كہ حضرت اسامہ بہت كم عمر ہيں مخالفت شروع كردى اور ان كى خميہ گاہ كى

۲۹۵

جانب جانے سے انكار كرديا _(۲۸) نيز يہ ديكھ كر كہ رسول خدا (ص) كى طبيعت ناساز ہے تو انہوں نے حضرت اسامہ كے لشكر كو روم كى طرف جانے سے يہ كہہ كر روكنا چاہا(۲۹) كہ چونكہ اس وقت رسول خدا (ص) بہت عليل ہيں اسى لئے ان حالات كے تحت ہمارے دلوں ميں آپ (ص) سے جدائي كى تاب و طاقت نہيں_(۳۰)

رسول خدا (ص) كو منافقين كے اس رويے سے سخت تكليف پہنچى آپ (ص) طبيعت كى ناسازى كے باوجود مسجد ميں تشريف لے گئے اور مخالفت كرنے والوں سے فرمايا كہ : ''اسامہ كو سپہ سالار مقرر كئے جانے كے بارے ميں ميں يہ كيا سن رہاہوں ، اس سے پہلے جب ان كے باپ كو سپہ سالار مقرر كيا تھا تو اس وقت بھى تم طعن و تشنيع كر رہے تھے خدا گواہ ہے كہ وہ بھى لشكر كى سپہ سالارى كے لئے مناسب تھے اور اسامہ بھى اس قيادت كے اہل اور لائق ہيں''_(۳۱)

رسول خدا(ص) اس وقت بھى جب كہ صاحب فراش تھے تو ان لوگوں سے جو عيادت كيلئے آئے تھے مسلسل يہى فرماتے كہ ''انْفُذوْابَعْثَ اُسَامَةَ ''(۳۲) اسامہ كے لشكر كو تو روانہ كروليكن آنحضرت(ص) كى يہ سعى وكوشش بھى بے سود ثابت ہوئي كيونكہ صحابہ ميں جو سردار تھے انہوں نے اس قدر سستى اورسہل انگارى سے كام ليا كہ آنحضرت(ص) كى رحلت واقع ہوگئي اور سپاہ واپس مدينہ آگئي _

رسول خدا(ص) كى رحلت

رسول خدا(ص) كے مزاج كى ناسازى ميں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا علالت كے دوران آنحضرت (ص) بقيع كى جانب تشريف لے گئے اور جو لوگ وہاں ابدى نيند سو رہے تھے

۲۹۶