فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ20%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130296 / ڈاؤنلوڈ: 6754
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

کی گئی اور آج تک اہل سنت میں مذاہب اربعہ ہی قابل اعتبار ہیں آخرم یں عثمانیوں نے امام ابوحنیفہ کے مسلک کو شاہی مذہب قرار دیا۔اس کے علاوہ بھی خلفا کے دور میں بہت ہرج مرج ہوتا رہا جن کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں لیکن اس تناقض دینی کا نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑا حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ حکومت بدلنے سے دین نہیں بدلا کرتا یہ ساری خرابیاں صرف اس لئے پیدا ہوئیں کہ خلیفہ کی صلاحیت کے بارے میں اہل سنت کے پاس کوئی ٹھوس نظریہ نہ پہلے تھا،نہ اب ہے اور ظاہر ہے کہ آج بھی خلافت کی جب تک حدیں معین نہ کی جائیں مکمل نہیں مانا سکتا اور خلافت کی تحدید نہٰں ہوسکتی یہ بات طے شدہ ہے چونکہ میں اہل سنت کے مذہب کے بارے میں بہت کم جان سکاہوں اس لئے میں اہل سنت کو اس بات کا ذمہ دار بناتا ہوں کہ وہ اپنے مذہب کی تشریع اور تعارف کرادیں۔

جب اہل سنت حضرات خلیفہ اور نظام خلافت کی واضح تعریف کردیں گے اور اس تعریف کو شرعی دلائل سے مضبوط کریں گے اس حیثیت سے کہ وہ تعریف ان کے لئے معیار بن جائے اور اس کی شرعیت،امامت اور خلافت کے دعوے مٰں ثابت ہوجائے تو پھر ممکن کہ ہم شیعہ سنی دونوں کے نظام حکومت کو سامنے رکھ کے اشتراک کے راستے تلاش کریں اور دونوں کی دلیوں کو ان دلیلوں کے لحاظ سے موازنہ کر کے اور اسنی اور شیعوں کی دلیلوں کے درمیان جہاں ترجیح کا پہلو نکلتا ہے اس پر غور کرکے دونوں کی دلیلوں میں جو قوی تر دلیل ہو جو قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش کی جاسکتی ہے،اسے اختیار کریں۔

ارشاد ہوتا ہے: ( يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ) (۱)

ترجمہ:اس دن کو یاد کرو جس دن ہر شخص اپنی ذات کے بارے میں جھگڑنے کے لئے موجود ہوگا اور ہر شخص کو جو کچھ بھی اس نے کیا تھا پورا پورا بدلہ ملےگا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائےگا۔

لیکن اگر نظام خلافت کی مذکورہ جہات سے شرعی تعریف ہی نہیں ہوسکے تو پھر ایسا نظام کس

-------------------

(۱)سورہ نحل آیت:۱۱۱

۲۰۱

کام کا اس کے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ شیعہ نظریہ کے مقابلے میں رکھا جاسکے اور موازنہ کیا جاسکے پھر اس کی اسلامی تشریع بھی تو ناممکن ہے۔خلافت و امامت کا مسئلہ ایک شرعی مسئلہ ہے(اور اس موضوع کی تعریف اور اس کا تعارف اگر شریعت کی طرف سے نہیں کیا گیا ہے تو ایک اہم تریں موضوع سے چشم پوشی برتی گئی ہے بلکہ اپنے موضوع کو ناقص رکھا گیا ہے جس کا لگاؤ ملت کے مستقبل سے ہے،اگر ہم یہ مان لیں کہ خلافت اور امامت کا تعارف اور تعریف دین میں موجود نہیں ہے تو پھر مندرجہ ذیل خرابیاں سامنے آتی ہیں)(۱)

۱۔پہلی بات تو یہ ہے کہ دین ہی ناقص ہے اور شارع اقدس کی طرف سے ایک شرعی موضوع کی تعریف کی گئی اور نہ امت کے سامنے اس کی وضاحت کی گئی ہے اس لئے کہ امامت کے لئے کچھ شرعی احکام بھی وارد کئے ہیں۔

امامت ایک شرعی موضوع ہے اس کو ثابت کرنے کے لئے یہ ہم پہلے مان چکے ہیں کہ امام کا وجود واجب ہے امام کی اطاعت واجب ہے جو امام پر خروج کرے اس سے جنگ واجب یہ سب کیسے ادا ہوں گے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ شارع اقدس نے اس موضوع کی وضاحت نہیں کی اور ظاہر ہے کہ یہ دین کا نقص ہے شریعت کی کمزوری ہے اور اسلام عظیم ان کمزوریوں سے پاک ہے بلکہ دین کو ناقص چھوڑ دنیا خدا کے اس قول کی مخالفت ہے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے: (أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) (۲)

ترجمہ:آج ہم نے تمہارے دن کو کامل کردیا اپنی نعمتیں تم پر تمام کیں اور تمہارے اسلام دین کو پسند کرلیا،یہ آیت بتارہی ہے کہ دین کامل ہوچکا ہے۔

۲۔نظام سلطنت کے بارے میں شریعت کی خاموشی بہت سی مشکلات پیدا کرےگی مثلاً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مترجم

(۲)سورہ مائدہ آیت۳

۲۰۲

نظام میں خلل،امامت کے مختلف دعویداروں کی سرکشی،خواہشات نفس کی طغیانی اور ان خرابیوں سے جو خرابیاں پیدا ہوں گی وہ بھی بے حد خطرناک ہیں،مثلاً مسلمانوں کی ہتک حرمت،فساد کا انتشار،جان اور مال کا ضائع ہونا(جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ماحول پیدا ہوجائےگا)(مترجم)حلانکہ ملت اسلامیہ ان تمام بری حالتوں کو جھیل چکی ہے،اسلامی تاریخ کی کتابیں اس بات کی شاہد ہیں۔

اور کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ دنیا کو ایک نظام حکومت بھی دےدے،خلافت کے منصب کا تعارف بھی کرادے اور خلیفہ کے معین کرنے کا طریقہ نہ بتائےجب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے قوانین کو وضع کرنےوالے نظام سلطنت کی تشریع اور قوانین پر سب سے زیادہ توجہ دیتے ہیں تا کہ قانونی نقص سے محفوظ رہ سکتے پھر اللہ اور اس کا رسول اتنے اہم موضوع کو مہمل کیسے قرار دےگا جبکہ مذکورہ خرابیوں سے بچنے کا قانون نے ہت زیادہ اہتمام کیا ہے خاص طور سے حکومت اور خلافت کا اسلامی قانون میں ایک بلند مرتبہ ہے اور مقدس مقام ہے یہاں تک کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام وقت کی معرفت ضروری ہے اور اس کی بیعت واجب ہے،جو بغیر معرفت امام کے مرجاتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے جیسا کہ آنےوالے صفحات میں ہم عرض کریں گے مسلمانوں کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ امام کی طاعت واجب ہے اس کے خلاف خروج حرام ہے امام کے خلاف خروج کرنےوالا باغی ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسے شخص سے جنگ کریں۔

سرکار حجۃ بن الحسن العسکری المہدیؑ کے سلسلے میں مذہب شیعہ کی حقانیت پر چند دلیلیں

اب ہم امام مہدی علیہ السلام کی طرف واپس آتے ہیں عرض ہے کہ مہدی کی امامت خود ہی وجود مہدی کا مطالبہ کرتی ہے اور اگر چہ حضرتؑ کی ذات گرامی،عمارت امامت کی آخری انیٹ ہے گویا کہ رسالہ امامت کا وہ آخری حصہ ہے جہاں پر مہر لگائی جاتی ہے،پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ شیعوں

۲۰۳

کے پاس نظام امامت کی ٹھوس واضح اور مظبوط دلیلیں کثرت سے موجود ہیں لیکن یہی دو باتوں پر توجہ دلائی جارہی ہے،پہلے حضرت حجۃؑ کا وجود اور دوسرے آپ کی امامت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف۔

امام کی معرفت واجب ہے اور اس کے حکم کو بھی ماننا واجب ہے

حضور سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی حدیثیں وارد ہیں۔جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(۱) جو بغیر امام کے مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(۲) جو اس حال میں مرجائے کہ کسی امام کی امامت میں نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے(۳) جو کسی امام کی امامت میں نہ مرے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(۴)

جو مرجائے اور اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ینابیع المودۃ ج:۳ص:۳۷۲،طبقات الحنیفۃ ص:۴۵۷

(۲)مسند احمدج:۴ص:۹۶،معاویہ ابن ابی سفیان کی حدیث میں،حلیۃ الاولیاءج:۳ص:۲۲۴زید بن اسلم کے حالات میں،معجم الکبیرج:۱۹ص:۳۸۸،جس میں شریح بن عبید نے معاویہ سے روایت کی ہے مسند الشامین ج:۲ص:۴۳۸،ضمضم میں شریح بن عبید،مجمع الزوائدج:۵ص:۲۱۸،کتاب الخلافۃ،لزوم جماعت اور طاعت ائمہ اور ان سے قتال کے نہی ہونے کے بارے میں

(۳)السنۃ بن ابی عاصم ج:۱ص:۵۰۳،امیر کے وقار و عزت کے فضل کے باب میں،مسند ابی یعلی ج:۱۳ص:۳۶۶معاویہ بن ابی سفیان کی حدیث میں

(۴)مجمع الزوائدج:۵ص:۲۲۴،کتاب الخلافۃ،لوگوں کے ساتھ رہنے اور امت سے خروج اور اس کے قتال کی نہی کے باب میں،مجروحین ج:۱ص:۲۸۶،حلیج بن دعلج کے حالات میں

(۵)صحیح مسلم ج:۳ص:۱۴۷۸،کتاب الامارۃ:باب وجوب ملازمت جماعت مسلمین،سنن الکبریٰ بیہقی ج:۸ص:۱۵۶،کتاب قتال اہل بغی،جماع ابواب الرعاۃ باب الترغیب،تفسیر ابن کثیرج:۱ص:۱۵۸،آیت:۵۹،کی تفسیر میں سورہ آل عمران،مجمع الزوائدج:۵ص:۲۱۸،کتاب خلافت باب لزوم جماعت و اطاعت ائمہ اور نہی قتال کے بارے میں،کبائر للذھبی ص:۱۶۹،السنۃ ابن ابی عاصم ج:۲ص:۵۱۴باب عزت و توقیر امیر کے بارے میں معجم الکبیرج:۱۹ص:۳۳۴،اور اسی طرح یہ روایت شیعہ مصادر میں بھی وارد ہوئی ہے،کافی جؒ:۱ص:۳۷۶،کتاب حجت باب من مات و لیس من ائمۃ الہدی،حدیث۱۔۲۔۳،ص:۳۷۸کتاب حجت:باب مایجب علی الناس عند مضٰی الامام حدیث۲ اور ص:۱۸۰کتاب حجت باب معرفت امام ص:۳۷۴،کتاب حجت باب من دان اللہ عز و جل بغیر امام من اللہ،بحارالانوارج:۲۳،ص:۷۶۔۹۵باب معرفت امام

۲۰۴

اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہے،ہر دور میں ایک امام موجود رہتا ہے جس کی اطاعت لوگوں پر واجب ہوتی ہے اس لئے کہ اس کی امامت،شرعی اصولوں پر ہوتی ہے اس سلسلے میں خداوند عالم کا یہ قول بھی ہے کہ: (يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ) (۱)

ترجمہ:قیامت کے دن ہم لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ پکاریں گے۔

حالانکہ کچھ لوگوں نے اس آیت میں امام سے نبی مراد لیا ہے،یعنی ہر امت اپنے اپنے نبی کے ساتھ بلائی جائےگی،لیکن امام کا اطلاق نبی کے لئے آیت کے ظاہر معنی کے خلاف ہے اس لئے کہ عرف عام میں امام اس کو کہتے ہیں جو دینی اور دنیاوی امور مٰں ان کی امامت کرتا ہے اور لوگ اسی کی اطاعت کرتے ہیں جبکہ نبی اپنے زمانے میں اپنی امت کا امام ہوتا ہے نبی کے مرنے کے بعد دوسرا نبی آتا ہے جو امت کا امام اور قابل پیروی ہوتا ہے،آیت میں امام تذکرہ ہے حدیث میں بھی امام کا تذکرہ ہے اس لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ حدیثیں آیت کی تشریح کررہی ہیں اور امام سے وقت کا امام مراد ہے اگر اس بات کو نہ بھی مانا جائے تو جن حدیثوں کو پیش کیا گیا ہے وہ بہرحال اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہے،ایسا امام جس کی بیعت لوگوں پر واجب ہے اس لئے کہ اس کی امامت شرعی ہے اور یہی حدیثیں اور آیتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ مذہب شیعہ کا قول بالکل صحیح ہے کہ امام مقرر کرنا اللہ کی ذمہ داری ہے اور امام کو منصوص من اللہ ہونا چاہئیے امام اس بات کا ہرگز محتاج نہیں ہے کہ لوگ اس کو امام مانیں اور اس کی بیعت کریں اور اطاعت کریں اس لئے کہ وہ اللہ کی طرف سے امام بنایا گیا ہے،گذشتہ صدی میں تو یہ بات بالکل واضح ہوگئی اس لئے کہ۱۳۴۲؁کے بعد اہل سنت نے اپنا بنایا اور اس کی بیعت کرنا بالکل چھوڑ دیا،اس لئے کہ مذکورہ سال میں ترکستان میں خلافت عثمانیہ ساقط ہوگئی،(اب اس دور میں

------------------

(۱)سورہ اسراء:آیت:۷۱

۲۰۵

کوئی خلیفہ یا امام موجود نہیں ہے تو پھر مذکورہ حدیثوں کے مطابق کیا مسلمان جاہلیت کی موت مررہے ہیں مترجم)جبکہ حدیثیں کہتی ہیں کہ ہر دور میں اور اس دور میں بھی ایک امام ہے جو واجب الطاعۃ ہے ماننا پڑےگا کہ امام موجود ہے اور وہی امام مہدی ہیں اس لئے کہ اس دور میں ہم دونوں ہی کے پاس سوائے امام مہدی کے کوئی امام نہیں ہے اور نہ کسی کی امامت کا احتمال ہے۔

بارہ امام قریش سے ہیں

۲۔سرکار دو عالم سے کثیر تعداد میں ایسی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جن میں اس امت کے اماموں کو شمار کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امام سارے کے سارے قریشی ہیں۔یہ حدیثیں بہت سے طریقوں سے مروی ہیں،جن کو اکثر اہل سنت نے صحیح قرار دیا ہے بلکہ بغوی تو کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں متفق علیہ ہیں۔(۱)

لطف کی یہ بات یہ ہے کہ یہ ساری حدیثیں مذہب امامیہ کے عقیدے کے مطابق ہیں،اس لئے کہ شعیوں کے نزدیک بارہ امام ہیں جن کے پہلے مولائے کائنات امیرالمومنین علیؑ ہیں اور آخری امام مہدی منتظر عجل اللہ فرجہ،مری سمجھ میں کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان حدیثوں سے آئمہ اہل بیت کو مراد نہ لیا جائے،اگر کوئی وجہ سمجھ میں آتی ہے تو اہل سنت کا امامت کے بارے میں وہ عقیدہ ہے جس میں خلافت کو شرعی حیثیت دینے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے بنائے ہوئے خلفا کی حرکتوں نے ان کی دلیلوں کا تیاپانچہ کردیا ہے چونکہ ان کے خلفا کے کردار مذکورہ حدیثوں کےمطابق نہیں تھے اس لئے انہوں نے حدیثوں کی توجیہ کی اور پھر اس توجیہ پر باقی نہیں رہے،بعض حضرات نے تو ایسی توجیہات کی ہیں جن کی کمزوری روز روشن ظاہر ہے۔(۲)

انہوں نے زبردستی اور ہٹ دھرمی سے اپنی بات کو ثابت کرنا چاہا ہے حالانکہ منطق کا تقاضا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح السنۃ ج:۱۵ص:۳۰۔۳۱،دلیل متحرین فی بیان الناجین ص:۲۲۶سے نقل کیا گیا ہے

(۲)فتح الباری ج:۱۳ص:۲۱۱۔۲۱۵

۲۰۶

ہے کہ واقعات کو دلیل کے مطابق ہونا چاہئیے،حیثیت طے کرنی چاہئیے اس لئے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے((حق کو پہچانو اہل حق سمجھ میں آجائیں گے))پھر دلیلوں کو توڑ مروڑ کر واقعات کے مطابق کرنا اور واقعات کے ہاتھ میں دلیل کا فیصلہ دے کے ان واقعات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلیلوں کی توجیہ کرنا بے معنی بات ہے،مذہب شیعہ کا عقیدہ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ ہے اس کی صحت پر دلیل دینے میں بس اسی منزل پر اکتفا کی جاتی ہے۔

جب امامت کے مباحث میں گفتگو کی جائےگی اور شیعہ دلیلیں اس سلسلے میں پیش کی جائیں گی تو باقی باتیں بھی ہوجائیں گی خاص طور سے ابھی سرکار حجۃ بن العسکری المہدیؑ کے بارے میں بہت سی باتیں رہ گئی ہیں،اسی لئے شیعوں نے حضرت حجۃؑ کے موضوع پر بہت زیادہ گفتگو کی ہے یہاں تک کہ بعض علما نے تو اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں،جو چاہتا ہے کہ حقیقت کا پتہ چلائے اور اللہ کے سامنے مسئولیت سے بچے،اس کو چاہئیے کہ ان کتابوں کا مطالعہ کرے اور ان کو پڑھ کر غور و فکر کرے اس لئے کہ خدا کی طرف سے توفیق ملتی ہے اور اسی کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے۔

۲۰۷

۲۰۸

سوال نمبر۔۵

نصب امام کے سلسلے میں شیعہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ خدا پر واجب ہے کہ وہ بندوں پر لطف و کرم کرے اور لوگوں کے درمیان عدل کا جاری رہنا اس کا لطف ہے اور یہ عدل امام کے ذریعہ ہی قائم ہوسکتا ہے اس لئے خدا پر واجب ہے کہ وہ نصب امام کرے لیکن آج کے دور میں جبکہ لوگوں کے درمیان کوئی امام عادل نہیں ہے کیا یہ دلیل صحیح نہیں ہوجاتی؟(یعنی امام عادل نہیں اور عدل لطف الہی ہے تو اب دنیا لطف الہی سے محروم ہے)

جواب:سب سے پہلے ضروری ہے کہ لطف الہی کی تشریح کردی جائے وہ لطف الہی جس کی بنیاد پر شیعہ کہتے ہیں کہ نصب امام خدائے متعال پر واجب ہے۔

پہلے یہ عرض کردای جائے کہ لطف الہی سے کیا مراد ہے؟پھر اس دلیل کے بارے میں طے کیا جائے کہ دلیل ابطال کے لائق ہے یا نہیں؟

لطف الہی کے قائد کی شرح اور اس کی تعریف

عالم بشریت کے لئے لطف الہی کے قائدہ کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انسان ذاتی طور پر ناقص ہے اپنے اچھے برے کو نہٰں جانتا فساد،شر اور ظلم سے معصوم نہیں ہے بلکہ کبھی کبھی صلاح و فساد کے

۲۰۹

درمیان تنازع ہوتا ہے خیر و شر،ظلم و عدل کو نہیں سمجھتا اس لئے ایک امام معصوم کا بہرحال محتاج ہے جو عالم انسانیت کو خیر و عدل پر جمع کرسکے اور شر و فساد و ظلم سے دور رکھے،خدا کی حکمت اور اس کی رحمت کا تقاضہ یہ ہےکہ وہ بندوں پر رحم کرے،اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا ایک امام معصوم کو منصوب کرے اور پھر ٹھوس دلیلوں اور وضح نشانیوں کے ساتھ عوام کے سامنے اس امام کو معارف کرے شاید اسی کی طرف قدرت کا اشارہ ہے۔

ارشاد ہوتا ہے کہ: (وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ) (۱)

ترجمہ:انہوں نے خدا کی جس میں قدر چاہئیے تھی نہیں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بشر پر کچھ نہیں نازل کیا۔

چونکہ انسان ہر دور میں ہدایت کا محتاج ہے اس لئے کہ وہ ہر وقت ناقص ہے اس لئے امام کا وجود ہر دور میں ضروری ہے اور امام کی ضرورت نبیؐ کے ذریعہ پوری نہیں ہوسکتی اس لئے کہ نبیؐ تو اپنے دور کا امام ہوگا لیکن نبیؐ کی وفات کے بعد ضرورت باقی رہےگی اور ضرورتوں کو پورا کرنےوالا مفقود ہوگا،ایسی صورت میں نبیؐ کے بعد امت میں اختلاف پیدا ہوجائےگا شر و فساد پیدا ہوجائیں گے اور امت کے کچھ لوگ اللہ کی اطاعت سے خروج کا اعلان کردیں گے دین کے علوم ضائع ہوں گے اور امت انتشار کا شکار ہوجائےگی لطف الہی کے قاعدہ کا یہی فائدہ ہے کہ عوام کی شرعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے امام کا ہونا ضروری ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ پھر امام کو تسلط و اختیار حاصل ہونا چاہئے اور زمانہ کا اقتدار امام کے ہاتھوں میں کردینا خدا کے اوپر واجب ہے کہ وہ بندوں کو امام کا حکم ماننے پر اس کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کرے اس لئے کہ یہ صورت حال تو بہت کم حاصل ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ تاریخ کے ان مختصر زمانوں کو مقام مثال میں پیش نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس مطلب یہ ہے کہ خدا کے اوپر نصب امام واجب ہے تا کہ انسان کی نفسانی کمزوریوں کے علاج کا ایک ذریعہ موجود رہے اور وہ امام وقت سے متعارف رہیں تا کہ ان پر واجب حجت تمام کی جاسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انعام آیت:۹۱

۲۱۰

(لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ)(۱)

ترجمہ:جو ہلاک ہو دلیل کی بنیاد پر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کی بنیاد پر زندہ رہے۔

پھر اس کے بعد عوام کو اختیار ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے منصوب امام کو مانے یا نہ مانے اگر لوگ خدا کی نعمت کا شکریہ ادا کرکے امام کی اطاعت کرتے ہیں تو ان کے امور کی اصلاح ہوجائےگی اور ان کے درمیان خیر و عدل عام ہوجائےگا جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ: ( وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ-وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌوَ كَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ) (۲)

ترجمہ:اور اہل کتاب ایمان لاتے اور(ہم سے)ڈرتے تو ہم ضرور ان کے گناہوں سے درگذر کرتے اور ان کو نعمت و آرام(بہشت)کے باغوں میں پہنچادیتے اور یہ لوگ تو ریت اور انجیل اور جو(صحفے)ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کئے گئے تھے(ان کے احکام کو)قائم رکھتے تو ضرور(ان کے)اوپر سے بھی(رزق برس پڑتا)اور پاؤں کے نیچے سے بھی(ابل آتا اور یہ خوب چین سے)کھاتے ان میں سے کچھ لوگ تو اعتدال پر ہیں،مگر ان میں کے بہتر جو کچھ کرتے ہیں برا ہی کرتے ہیں۔

اگر مسلمان خدا کا کفران نعمت کرتے ہیں اور امام وقت کی مخالفت کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ انہیں اپنے اعمال کا مزہ چھکنا پڑےگا اور ان کے درمیان ظلم و فساد عام ہوجائےگا اس لئے کہ خدا فرماتا ہے:( مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ) (۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انفال آیت:۴۲(۲)سورہ مائدہ آیت:۶۵۔۶۶

(۳)سورہ نساءآیت:۷۹

۲۱۱

ترجمہ:تمہیں جو اچھائیاں ملتی ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہیں اور تم جو برائیاں جھیلتے ہو یہ تمہارے نفس کے اعمال کا نتیجہ ہے.

اللہ پر کوئی حجت نہیں ہے اس لئے کہ اس نے عوام پر لطف و کرم کیا تھا کہ امام مقرر کردیا اور سیدھے راستے کی ہدایت کردی اب یہ ان کی غلطی تھی کہ انہوں نے خدا کے معین کردہ امام کو چھوڑ کر اپنی طرف سے ایک ایک امام بنالیا اور اپنی غلطیوں کا ذمہ دار بھی اس کو ٹھرادیا اور اپنے گناہ بھی اسی پر لاد دیئے۔

خداوند عالم اگر اسی گمراہی میں بندوں کو چھوڑ دے یعنی ان کے لئے کوئی ایسا امام نہ بنائے جو ان کے درمیان ہدایت کرنےوالا ہے اور ان کے حالات کے مطابق انہیں ہدایت پر مضبوطی سے قائم رکھنےوالا ہے تو یہ بندوں کی حق تلفی ہوگی اور اللہ کے لطف کے خلاف ہوگا عوام کی ہدایت و اصلاح کے لئے ان کو شریعت کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ ناکافی ہوگا بلکہ بندے خدا پر حجت قائم کردیں گے کہ ہماری ہدایت کا انتظام نہیں کیا گیا اور اللہ ان باتوں سے بہت بلند ہے اس لئے کہ خداوند اپنی کتاب پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ۰أَن تَقُولُواْ إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَآئِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ ۰أَوْ تَقُولُواْ لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ فَقَدْ جَاءكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِآيَاتِ اللّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يَصْدِفُونَ(۱)

ترجمہ:ہم نے اس کتاب مبارک کو نازل کیا پس تم اس کی پیروی کرو اور پرہیزگار بنوتا کہ تم پر رحم کیا جائے(تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو)کتاب ہمارے پہلے دو گروہوں(یہود و نصاری)پر نازل کی گئی مگر یہ کہ ہم انکی تعلیمات سے غافل رہے یا یہ(نہ کہو)کہ وہ کتابیں ہم پر نازل ہوتیں تو ہم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے اب تو تہمارے پروردگار کی طرف سے خود ہی دلیل آگئی اور ہدایت و رحمت بھی..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انعام آیت۱۵۵۔۱۵۶۔۱۵۷

۲۱۲

(تو قاعدہ لطف)امامت کے معاملے میں بھی اس طرح جاری ہے جس طرح دوسرے احکام کے بارے میں جیسے واجبات،محرمات اور آداب و غیرہ میں۔

قائدہ لطف کا تقاضہ یہ ہے کہ چونکہ لوگ اپنی جہالت اور محتاجی کی بنیاد پر قاصر ہیں اس لئے اللہ پر واجب ہے کہ ان پر لطف و کرم کرے ان کے لئے ایک ایسا نظام وضع کردے جن سے ان کے امور کی اصلاح ہوجائے ان کے معاد و معاش اور خود خدا سے رابطہ اور ان کی آپسی معاشرت کو قانونی حیثیت مل جائے لیکن قاعدہ لطف اس بات کا تقاضہ نہیں کرتا کہ اللہ اس قانون کو نافذ کرنے کے لئے مناسب ماحول بھی تیار کرے اور ان پر زبردستی ان کے احکام لادے،تا کہ وہ خیر و صلاح کے راستے میں کامیاب ہوسکیں اور شر و فساد سے دور رہ سکیں بلکہ خدا پر صرف یہ واجب ہے کہ وہ ایسے احکام جو بندوں کے لئے صالح ہوں ان کا ایک نظام ان کے سامنے رکھ دے جبکہ اس نظام کو اختیار کرنے کا حق بندوں کو دےدے جس کی طرف سورہ دہر کی ابتدائی آیت میں۔

ارشارہ کیا ہے:(إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا) (۱)

ترجمہ:ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا اب چاہے وہ شکر کرے چاہے وہ کفران نعمت کرے۔

پس جو خدا کی اطاعت کرےگا اور اور ان احکام پر عمل کرےگا وہ کامیاب اور خوش بخت ہوگا اور جو نافرمانی کرےگا اور ان احکام سے منہ موڑ لےگا وہ بدبخت اور نقصان اٹھانےوالوں میں ہوگا اور اس کی خدا پر کوئی حجت نہیں ہے۔

لطف الہی کا اصول صرف مذہب امامیہ کا نظریہ ماننے پر ہی ٹوٹےگا

میں نے لطف الہی کے اصول کی وضاحت کردی اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف امامیہ مذہب کے قائل ہونے پر ہی اس اصول کو مانا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انسان آیت:۳

۲۱۳

اس لئے کہ اس دور میں بھی شیعہ فرقہ بارہویں امام کے وجود کا قائل ہے جو حضرت حجت ابن الحسن صلوۃ اللہ علیہ کی ذات مقدس ہے الحمداللہ وہ بالفعل موجود ہیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں آپؐ جسمانی اعتبار سے موجود ہیں اور اپنی قدرت کا استعمال کررہے ہیں،بلکہ آپ کا وجود مبارک قاعدہ لطف الہی پر ایک ٹھوس دلیل ہے۔

کوئی یہ نہ سمجھے کہ جب آپؐ کو سلطنت او اقتدار ہی حاصل نہیں ہے اور آپؐ اس دور میں عدالت قائم ہوگا جب دنیا چاہےگی اور اس کی ضرورت محسوس کرےگی،اس سے آپؐ کی امامت پر نہیں فرق آتا اور نہ خدا چاہےگی اور اس کی ضرورت محسوس کرےگی،اس سے آپؐ کی امامت پر نہیں فرق آتا اور نہ خدا کے فضل اور اس کی تشریع میں کوئی کمی ثابت ہوتی ہے بلکہ آپ کی حالت آپؐ کے آباء کرام علیہم السلام سے مختلف نہیں ہے جن کی سلطنت اور اقتدار کے درمیان اس دور کے ظالم لوگ حائل ہوگئے اور انھیں امور کی قیادت اور لوگوں کے درمیان عدالت قائم کرنے سے روک دیا،بلکہ آپؐ کے حالات اور اکثر انبیاء کے حالات ملتے جلتے ہیں،اس لئے کہ حضور بھی عام عالم انسانیت کے درمیان عدالت کا نفاذ نہیں کرپائے اس لئے کہ آپؑ کی عمر نے وفا نہیں کی امام مہدی کی غیبت اور آپؑ کی امامت پر کوئی الزام نہیں آتا نہ یہ کہ آپؑ ایسے امام ہیں جو امامت کی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہیں اور نہ قائدہ لطف الہی پر کوئی الزام آتا ہے بلکہ آپؑ کی امامت میں اور بر سر اقتدار آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ ماحول ہے جو آپؑ کے اردگرد پایا جاتا ہے۔

وہ ماحول جس کا نتیجہ فاسد سماج اور ظالم حکومتوں کا قیام ہے دوسری رکاوٹ خود عالم انسانیت کی غیر ذمہ داری ہے کہ انسان اس فرض اطاعت کو ادا نہیں کرتا ہے جو حق ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے بلکہ ہوں سمجھ لیجئے کہ جس طرح آپؑ کے آباء طاہرین جناب ابوابراہیمؑ،حضرت موسیؑ بن جعفر الکاظم علیہ السلام،ابوالحسینؑ علی ابن محمد الہادی النقی علیہ السالم اور ابومحمد العسکری علیہ السلام نے قیدخانے میں زندگی گذاری اسی طرح آپؑ غیبت میں زندگی گذار رہے ہیں مذکورہ حضرات میں اور آپؑ کی

۲۱۴

غیبت میں اگر فرق ہے تو بس اتنا کہ وہ حضرات جبری طور پر ظالموں کی قید میں ڈال دئیے گئے تھے آپؑ نے ظالموں کی طرف سے خوف جان کی وجہ سے غیبت اختیار کررکھی ہے ابھی ماحول آپؑ کے ظہوار کے لئے سازگار نہیں ہے اور آپؑ کی غیبت کی دوسری مصلحتیں بھی ہیں،جن کا علم اللہ کو ہے یعنی غیبت میں آپؑ کی امامت کا قصور نہیں ہے بلکہ خدا کی مصلحت کا تقاضہ ہے،جس دن یہ اسباب ختم ہوجائیں گے اس دن آپؑ انشاءاللہ ظاہر ہوں گے اور لوگوں سے اپنے نفس کو پوشیدہ نہیں کریں گے پھر آپؑ کی امامت اپنے فرائض کو جو اللہ کی طرف سے عائد کئے گئے ہیں اور مقام سلطنت میں حاصل ہوں گے پورا کرنے میں کوتاہی نہیں کرےگی،آپؑ کے اندر عدل و انصاف کو قائم کریں گے اور تمام امور کو اپنے طور پر جاری کریں گے(انشاءاللہ تعالی)

حاصل کلام یہ ہےکہ آپؑ کی اور آپؑ کے آبائے طاہرین علیہم السلام کی امامت کی شرعی حیثیت قائدہ لطف الہی کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے،بالفعل جو عدل و انصاف آپؑ کی طرف سے نہیں قائم ہو پارہا ہے وہ اس لئے کہ انسانی سماج آپؑ کی امامت کے مزاج کے مطابق نہیں ہے آپؑ کی امامت کے قیام میں جو رکاوٹیں وہ لوگوں کی تقصیر اور مداخلت بےجا کا نتیجہ ہیں جو پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے قاعدہ لطف الہی ان موانع کو دور کرنے کا ذمہ دار نہیں ہے۔

جب آپ کے سامنے ساری باتیں رکھ دی گئیں تو پھر آپ اپنے اس قول پر غور کریں(کیا اس زمانے کے امام کا عدل سے خالی ہونا قاعدہ لطف الہی سے نہیں ٹکراتا)اگر امام کو غیر موجود سمجھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ابھی کوئی اور یہ زمانہ یا کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہے لہذا قاعہ لطف نہ ٹوٹتا ہے اور نہ باطل ہوتا ہے اور اگر امام کے غیر موجود ہونے سے آپ کی یہ مراد ہے کہ امام کو نہ سلطنت و اقتدار ہے اور نہ اقامہ عدل ہورہا ہے تو یہ قاعدہ لطف الہی کے منافی نہیں ہے کیونکہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ امام صالح کی امامت میں عدل کو قائم کرنے کے لئے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے اور سلطنت کا حاصل نہ ہونا بالفعل اقامہ عدل میں بڑی رکاوٹ ہے اور شیعوں کا لطف الہی کی بنیاد پر امامت کا استدلال کسی بھی طرح ساقط نہیں ہوتا۔

۲۱۵

۲۱۶

سوال نمبر۔۶

حدیث عترت سے مولا علیؑ کی امامت کا وجود کیسے ثابت ہوسکتا ہے؟کیا ممکن ہے کہ حدیث عترت سے سمجھا جائے کہ سرکار صحابہ کو اہل بیتؑ کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کررہے ہوں اور صحابہ کو اہل بیتؑ کی طرف متوجہ کررہے ہوں اور اس حدیث کو خلافت پر نس نہ سمجھا جائے؟

جواب:آپ کے اس سوال کے جواب میں کچھ امور پیش کئے جارہے ہیں جو ایک دوسرے پر مرتب ہیں۔

۱۔عرض ہے کہ یہ حدیث کثیر طریقوں سے اور قریب المعنی الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے حضور سرور کائناتؐ نے اس حدیث کو مختلف موقعوں پر ارشاد فرمایا ہے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس منزل میں موقعہ پر کچھ ثبوت پیش کروں جن کے ذریعہ یہ حدیث وارد ہوئی ہے اور جو بعض طریقوں سے شامل ہیں تا کہ مجھے اپنی بات ثابت کرنے میں آسانی ہو۔

حدیث ثقلین کے کچھ متن حاضر ہیں

الف:جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ ایام حج میں عرفہ کے دن میں نے سرکار کو خطبہ دیتے ہوئے سنا اس وقت آپ اپنے ناقہ پر سوار تھے اور میں نے سنا کہ حضورؐ فرما رہے تھے اے لوگو!میں تمہارے درمیان چھوڑ دی ہیں اللہ کی کتاب اور میری عترت(اہل بیتؑ)جس کو پکڑے رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سنن ترمذی،ج:۵،ص:۶۶۲،کتاب مناقب،باب مناقب اہل بیتؑ نبیؐ

۲۱۷

ب:زید بن ارقم اور ابوسعید کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا:میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ جب تک تم ان سے تمسک رکھوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ان میں ہر ایک،ایک،دوسرے سے عظیم تر ہے اللہ کی کتاب ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور میری عترت جو میرے اہلبیتؑ ہوئے ہیں اور یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گے،یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے پھر دیکھو کو میرے بعد تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو...؟(۱)

ج:زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور ہادی برحق مکہ اور مدینہ کے درمیان اس جگہ اترے جہاں پانچ بڑے اور سایہ دار درخت ہیں۔لوگوں نے درخت کے نیچے جھاڑو دیکر صاف کردیا پھر سرکارؐ نے وہاں رات کو قیام کیا اور عشا کی نماز پڑھی،پھر آپ خطبہ دینے کھڑے ہوئے،آپؑ نے خدا کی حمد و ثنا کی اور جب تک خدا نے چاہا وعظ و پند اور ذکر و تذکر کرتے رہے پھر فرمایا لوگو!میں تمہارے درمیان دو امر چھوڑ کے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کی پیروی کرتے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے وہ دو امر کتاب خدا اور میرے اہل بیتؑ میری عترت ہیں۔(۲)

د:ابوسعید خدی نبیؐ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا مجھے لگتا ہے کہ خدا کی طرف سے مجھے بلایا جائے گا اور میں جواب دوں گا(میں وفات پا جاؤں گا)اس لئے میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں خدائے عز و جل کی کتاب اور میری عترت اہل بیتؑ۔

کتاب خدا ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے۔

لطیف و خبیر خدا نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں بھی ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں پر تم غور کرو کہ میرے بعد ان کے ساتھ تم کیا سلوک کرتے ہو۔؟(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سنن ترمذی ج:۵،ص:۶۶۳،کتاب مناقب،باب اہل بیت نبیؐ

(۲)مستدرک علی صحیحن،ج:۳،ص:۶۱۸،کتاب معرفت صحابہ میں مناقب امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ

۲۱۸

(۳) مسند احمد،ج:۲،ص:۱۸،مسند ابی سعد خدری میں،طبقات کبریٰ،ج:۲،ص:۱۹۴،میں جس میں رسولؐ کی وفات کے قریب کی چیزیں ذکر ہوئی ہیں------ ھ:زید بن ثابت سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا!میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب((جو آسمان سےزمین تک پھیلی ہوئی رسی ہے))اور دوسرے میری عترت،میرے اہل بیتؑ اور یہ دونوں بھی ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔(۱) ----و:ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ سرکارؐ نے فرمایا میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ان میں ہر ایک،ایک دوسرے سے بڑی ہے ایک اللہ کی کتاب((جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے))اور دوسرے میری عترت اہل بیتؑ اور سنو یہ دونوں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے،(۲) یہ وہ قریب المعنی الفاظ ہیں جن میں یہ حدیث،بہت ساری مشہور و معروف کتابوں میں وارد ہوئی ہے۔(۳)

حدیث ثقلین دلالت کرتی ہے کہ عترتؑ کی اطاعت واجب ہے

۲۔متن حدیث کے الفاظ میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی ہے کہ حدیث کو محض ایک وصیت سمجھا جائے جس میں سرکارؐ اہل بیتؑ کی محبت،ان کا احترام،ان کی تعظیم،ان کی طرف نگاہ توجہ اور ان کے حقوق کی رعایت کا حکم دےرہے ہیں بلکہ حدیث کے الفاظ پکار رہے ہیں کہ نبیؐ و اہل بیتؑ کی اطاعت اور ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسند احمد،ج:۵،ص:۱۸۱۔۱۸۹،حدیث زید بن ثابت میں جو نبیؐ سے نقل کی ہے(۲)مسند احمد،ج:۳،ص:۵۹،مسند ابی سعید خدری کے مسند میں

(۳)تفسیر ابن کثیرج:۴،ص:۱۱۴،مجمع الزوائدج:۹،ص:۱۶۲۔۱۶۵،کتاب مناقب اہل بیتؑ،سنن کبریٰ نسائی،ج:۵،ص:۴۵،مصنف بن شیبہ،ج:۶،ص:۳۰۹،کتاب الفضائل باب مااعطی اللہ محمد معجم الاوسط،ج:۳،ص:۳۷۴،معجم صغیر،ج:۱،ص:۲۲۶،مسند ابی یعلی ج:۲ص:۲۹۷،مسند ابی الجعدج:۱ص:۳۹۷،سنۃ ابن ابی عاصم ج:۲ص:۳۵۱،باب ما ذکر عن النبیؐ انہ و عد من تمسک بامرہ و رود حوضہ و نوادر الاصول فی احادیث الرسول،ج:۱ص:۲۵۸،الاصل الحمسون فی الاعتصام بالکتاب والعترۃ،سیرہ اعلام النبلاءج:۹ص:۳۶۵،حالات ہارون بن یزید میں

۲۱۹

کے اتباع کا حکم دےرہے ہیں دیکھئے قابل الذکر معنی پر محمول کرنے کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:

الف:اکثر متون حدیث سے ظاہر ہے کہ جب سرکار کو اپنی وفات کے دن قریب ہونے کا احساس ہوا تو آپؐ نے یہ حدیث امت کے سامنے پیش فرمائی،اگر ان حدیثوں سے مقصد یہ تھا کہ امت اہل بیتؑ سے محبت کرھے اور ان کا احترام کرے تو پھر اس کی ہدایت مخصوص وقت میں کیوں فرمائی،کیا حضورؐ کی زندگی میں اہل بیتؑ سے محبت اور ان حضرات کا احترام ضروری نہیں تھا ماننا پڑےگا کہ ان الفاظ سے محض اہل بیتؑ کی محبت مقصود نہیں تھی بلکہ حضورؐ کے انتقال کا وقت قریب تھا اور اپنی زندگی میں امت کے مرجع اور ان کے حیات کے ناظم تھے آپؐ کے اوپر امت کی قیادت کی ذمہ داریاں تھیں ظاہر ہے کہ وفات کے بعد امت آپؐ کی قیادت سے محروم ہورہی تھی،اس لئے حضورؐ نے ان حدیثوں میں ایک ایسے گروہ کا تعارف کرادیا جو امت کی قیادت اور مرجعیت کا ذمہ دار ہے اور اس سلسلے میں آپؐ کی جانشین کرسکتا ہے تا کہ امت کے اندر اس بات کا احساس نہ رہے کہ اب ہمارا کوئی قاعد و سرپرست نہیں اور حضورؐ نے عترتؑ کی نشاندہی کردی کہ ان کی پیروی سے تم بھی گمراہ نہیں ہوگے۔

زید بن ارقم کی حدیث ملاحظہ فرمائیں اس میں کچھ زیادہ وضاحت کردی گئی ہے آپؐ نے فرمایا((میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں))حدیث کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اس حدیث میں خلیفہ سےمراد جو حضرات بھی ہیں وہ سرکار دو عالمؐ کی غیر موجودگی میں سرکاری ذمہ داریوں کو ادا کرنےوالے ہیں اور آپؐ کے قائم مقام کی حیثیت رکھتے ہیں،جو لوگ ہیں جو قیادت کے وظیفہ کو ادا کریں گے اس لئے ان کی محبت اور اطاعت دونوں ہی واجب ہے۔

ب:آپ نے ہر حدیث میں عترتؑ کو قرآن مجید کے سیاق میں رکھا ہے تا کہ لوگوں کی سمجھ میں آجائے کہ آپ قرآن مجید کے لئے محض عزت و احترام کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں کہ اس کو چوم لیا جائے اور اس کو بلند جگہ پر رکھا جائے بلکہ آپؐ کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید کی پیروی کی جائے اور اس

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296