فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 118237
ڈاؤنلوڈ: 5309


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118237 / ڈاؤنلوڈ: 5309
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کی گئی اور آج تک اہل سنت میں مذاہب اربعہ ہی قابل اعتبار ہیں آخرم یں عثمانیوں نے امام ابوحنیفہ کے مسلک کو شاہی مذہب قرار دیا۔اس کے علاوہ بھی خلفا کے دور میں بہت ہرج مرج ہوتا رہا جن کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں لیکن اس تناقض دینی کا نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑا حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ حکومت بدلنے سے دین نہیں بدلا کرتا یہ ساری خرابیاں صرف اس لئے پیدا ہوئیں کہ خلیفہ کی صلاحیت کے بارے میں اہل سنت کے پاس کوئی ٹھوس نظریہ نہ پہلے تھا،نہ اب ہے اور ظاہر ہے کہ آج بھی خلافت کی جب تک حدیں معین نہ کی جائیں مکمل نہیں مانا سکتا اور خلافت کی تحدید نہٰں ہوسکتی یہ بات طے شدہ ہے چونکہ میں اہل سنت کے مذہب کے بارے میں بہت کم جان سکاہوں اس لئے میں اہل سنت کو اس بات کا ذمہ دار بناتا ہوں کہ وہ اپنے مذہب کی تشریع اور تعارف کرادیں۔

جب اہل سنت حضرات خلیفہ اور نظام خلافت کی واضح تعریف کردیں گے اور اس تعریف کو شرعی دلائل سے مضبوط کریں گے اس حیثیت سے کہ وہ تعریف ان کے لئے معیار بن جائے اور اس کی شرعیت،امامت اور خلافت کے دعوے مٰں ثابت ہوجائے تو پھر ممکن کہ ہم شیعہ سنی دونوں کے نظام حکومت کو سامنے رکھ کے اشتراک کے راستے تلاش کریں اور دونوں کی دلیوں کو ان دلیلوں کے لحاظ سے موازنہ کر کے اور اسنی اور شیعوں کی دلیلوں کے درمیان جہاں ترجیح کا پہلو نکلتا ہے اس پر غور کرکے دونوں کی دلیلوں میں جو قوی تر دلیل ہو جو قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش کی جاسکتی ہے،اسے اختیار کریں۔

ارشاد ہوتا ہے: ( يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ) (1)

ترجمہ:اس دن کو یاد کرو جس دن ہر شخص اپنی ذات کے بارے میں جھگڑنے کے لئے موجود ہوگا اور ہر شخص کو جو کچھ بھی اس نے کیا تھا پورا پورا بدلہ ملےگا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائےگا۔

لیکن اگر نظام خلافت کی مذکورہ جہات سے شرعی تعریف ہی نہیں ہوسکے تو پھر ایسا نظام کس

-------------------

(1)سورہ نحل آیت:111

۲۰۱

کام کا اس کے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ شیعہ نظریہ کے مقابلے میں رکھا جاسکے اور موازنہ کیا جاسکے پھر اس کی اسلامی تشریع بھی تو ناممکن ہے۔خلافت و امامت کا مسئلہ ایک شرعی مسئلہ ہے(اور اس موضوع کی تعریف اور اس کا تعارف اگر شریعت کی طرف سے نہیں کیا گیا ہے تو ایک اہم تریں موضوع سے چشم پوشی برتی گئی ہے بلکہ اپنے موضوع کو ناقص رکھا گیا ہے جس کا لگاؤ ملت کے مستقبل سے ہے،اگر ہم یہ مان لیں کہ خلافت اور امامت کا تعارف اور تعریف دین میں موجود نہیں ہے تو پھر مندرجہ ذیل خرابیاں سامنے آتی ہیں)(1)

1۔پہلی بات تو یہ ہے کہ دین ہی ناقص ہے اور شارع اقدس کی طرف سے ایک شرعی موضوع کی تعریف کی گئی اور نہ امت کے سامنے اس کی وضاحت کی گئی ہے اس لئے کہ امامت کے لئے کچھ شرعی احکام بھی وارد کئے ہیں۔

امامت ایک شرعی موضوع ہے اس کو ثابت کرنے کے لئے یہ ہم پہلے مان چکے ہیں کہ امام کا وجود واجب ہے امام کی اطاعت واجب ہے جو امام پر خروج کرے اس سے جنگ واجب یہ سب کیسے ادا ہوں گے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ شارع اقدس نے اس موضوع کی وضاحت نہیں کی اور ظاہر ہے کہ یہ دین کا نقص ہے شریعت کی کمزوری ہے اور اسلام عظیم ان کمزوریوں سے پاک ہے بلکہ دین کو ناقص چھوڑ دنیا خدا کے اس قول کی مخالفت ہے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے: (أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) (2)

ترجمہ:آج ہم نے تمہارے دن کو کامل کردیا اپنی نعمتیں تم پر تمام کیں اور تمہارے اسلام دین کو پسند کرلیا،یہ آیت بتارہی ہے کہ دین کامل ہوچکا ہے۔

2۔نظام سلطنت کے بارے میں شریعت کی خاموشی بہت سی مشکلات پیدا کرےگی مثلاً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مترجم

(2)سورہ مائدہ آیت3

۲۰۲

نظام میں خلل،امامت کے مختلف دعویداروں کی سرکشی،خواہشات نفس کی طغیانی اور ان خرابیوں سے جو خرابیاں پیدا ہوں گی وہ بھی بے حد خطرناک ہیں،مثلاً مسلمانوں کی ہتک حرمت،فساد کا انتشار،جان اور مال کا ضائع ہونا(جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ماحول پیدا ہوجائےگا)(مترجم)حلانکہ ملت اسلامیہ ان تمام بری حالتوں کو جھیل چکی ہے،اسلامی تاریخ کی کتابیں اس بات کی شاہد ہیں۔

اور کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ دنیا کو ایک نظام حکومت بھی دےدے،خلافت کے منصب کا تعارف بھی کرادے اور خلیفہ کے معین کرنے کا طریقہ نہ بتائےجب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے قوانین کو وضع کرنےوالے نظام سلطنت کی تشریع اور قوانین پر سب سے زیادہ توجہ دیتے ہیں تا کہ قانونی نقص سے محفوظ رہ سکتے پھر اللہ اور اس کا رسول اتنے اہم موضوع کو مہمل کیسے قرار دےگا جبکہ مذکورہ خرابیوں سے بچنے کا قانون نے ہت زیادہ اہتمام کیا ہے خاص طور سے حکومت اور خلافت کا اسلامی قانون میں ایک بلند مرتبہ ہے اور مقدس مقام ہے یہاں تک کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام وقت کی معرفت ضروری ہے اور اس کی بیعت واجب ہے،جو بغیر معرفت امام کے مرجاتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے جیسا کہ آنےوالے صفحات میں ہم عرض کریں گے مسلمانوں کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ امام کی طاعت واجب ہے اس کے خلاف خروج حرام ہے امام کے خلاف خروج کرنےوالا باغی ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسے شخص سے جنگ کریں۔

سرکار حجۃ بن الحسن العسکری المہدیؑ کے سلسلے میں مذہب شیعہ کی حقانیت پر چند دلیلیں

اب ہم امام مہدی علیہ السلام کی طرف واپس آتے ہیں عرض ہے کہ مہدی کی امامت خود ہی وجود مہدی کا مطالبہ کرتی ہے اور اگر چہ حضرتؑ کی ذات گرامی،عمارت امامت کی آخری انیٹ ہے گویا کہ رسالہ امامت کا وہ آخری حصہ ہے جہاں پر مہر لگائی جاتی ہے،پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ شیعوں

۲۰۳

کے پاس نظام امامت کی ٹھوس واضح اور مظبوط دلیلیں کثرت سے موجود ہیں لیکن یہی دو باتوں پر توجہ دلائی جارہی ہے،پہلے حضرت حجۃؑ کا وجود اور دوسرے آپ کی امامت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف۔

امام کی معرفت واجب ہے اور اس کے حکم کو بھی ماننا واجب ہے

حضور سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی حدیثیں وارد ہیں۔جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(1) جو بغیر امام کے مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(2) جو اس حال میں مرجائے کہ کسی امام کی امامت میں نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے(3) جو کسی امام کی امامت میں نہ مرے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(4)

جو مرجائے اور اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)ینابیع المودۃ ج:3ص:372،طبقات الحنیفۃ ص:457

(2)مسند احمدج:4ص:96،معاویہ ابن ابی سفیان کی حدیث میں،حلیۃ الاولیاءج:3ص:224زید بن اسلم کے حالات میں،معجم الکبیرج:19ص:388،جس میں شریح بن عبید نے معاویہ سے روایت کی ہے مسند الشامین ج:2ص:438،ضمضم میں شریح بن عبید،مجمع الزوائدج:5ص:218،کتاب الخلافۃ،لزوم جماعت اور طاعت ائمہ اور ان سے قتال کے نہی ہونے کے بارے میں

(3)السنۃ بن ابی عاصم ج:1ص:503،امیر کے وقار و عزت کے فضل کے باب میں،مسند ابی یعلی ج:13ص:366معاویہ بن ابی سفیان کی حدیث میں

(4)مجمع الزوائدج:5ص:224،کتاب الخلافۃ،لوگوں کے ساتھ رہنے اور امت سے خروج اور اس کے قتال کی نہی کے باب میں،مجروحین ج:1ص:286،حلیج بن دعلج کے حالات میں

(5)صحیح مسلم ج:3ص:1478،کتاب الامارۃ:باب وجوب ملازمت جماعت مسلمین،سنن الکبریٰ بیہقی ج:8ص:156،کتاب قتال اہل بغی،جماع ابواب الرعاۃ باب الترغیب،تفسیر ابن کثیرج:1ص:158،آیت:59،کی تفسیر میں سورہ آل عمران،مجمع الزوائدج:5ص:218،کتاب خلافت باب لزوم جماعت و اطاعت ائمہ اور نہی قتال کے بارے میں،کبائر للذھبی ص:169،السنۃ ابن ابی عاصم ج:2ص:514باب عزت و توقیر امیر کے بارے میں معجم الکبیرج:19ص:334،اور اسی طرح یہ روایت شیعہ مصادر میں بھی وارد ہوئی ہے،کافی جؒ:1ص:376،کتاب حجت باب من مات و لیس من ائمۃ الہدی،حدیث1۔2۔3،ص:378کتاب حجت:باب مایجب علی الناس عند مضٰی الامام حدیث2 اور ص:180کتاب حجت باب معرفت امام ص:374،کتاب حجت باب من دان اللہ عز و جل بغیر امام من اللہ،بحارالانوارج:23،ص:76۔95باب معرفت امام

۲۰۴

اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہے،ہر دور میں ایک امام موجود رہتا ہے جس کی اطاعت لوگوں پر واجب ہوتی ہے اس لئے کہ اس کی امامت،شرعی اصولوں پر ہوتی ہے اس سلسلے میں خداوند عالم کا یہ قول بھی ہے کہ: (يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ) (1)

ترجمہ:قیامت کے دن ہم لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ پکاریں گے۔

حالانکہ کچھ لوگوں نے اس آیت میں امام سے نبی مراد لیا ہے،یعنی ہر امت اپنے اپنے نبی کے ساتھ بلائی جائےگی،لیکن امام کا اطلاق نبی کے لئے آیت کے ظاہر معنی کے خلاف ہے اس لئے کہ عرف عام میں امام اس کو کہتے ہیں جو دینی اور دنیاوی امور مٰں ان کی امامت کرتا ہے اور لوگ اسی کی اطاعت کرتے ہیں جبکہ نبی اپنے زمانے میں اپنی امت کا امام ہوتا ہے نبی کے مرنے کے بعد دوسرا نبی آتا ہے جو امت کا امام اور قابل پیروی ہوتا ہے،آیت میں امام تذکرہ ہے حدیث میں بھی امام کا تذکرہ ہے اس لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ حدیثیں آیت کی تشریح کررہی ہیں اور امام سے وقت کا امام مراد ہے اگر اس بات کو نہ بھی مانا جائے تو جن حدیثوں کو پیش کیا گیا ہے وہ بہرحال اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہے،ایسا امام جس کی بیعت لوگوں پر واجب ہے اس لئے کہ اس کی امامت شرعی ہے اور یہی حدیثیں اور آیتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ مذہب شیعہ کا قول بالکل صحیح ہے کہ امام مقرر کرنا اللہ کی ذمہ داری ہے اور امام کو منصوص من اللہ ہونا چاہئیے امام اس بات کا ہرگز محتاج نہیں ہے کہ لوگ اس کو امام مانیں اور اس کی بیعت کریں اور اطاعت کریں اس لئے کہ وہ اللہ کی طرف سے امام بنایا گیا ہے،گذشتہ صدی میں تو یہ بات بالکل واضح ہوگئی اس لئے کہ1342؁کے بعد اہل سنت نے اپنا بنایا اور اس کی بیعت کرنا بالکل چھوڑ دیا،اس لئے کہ مذکورہ سال میں ترکستان میں خلافت عثمانیہ ساقط ہوگئی،(اب اس دور میں

------------------

(1)سورہ اسراء:آیت:71

۲۰۵

کوئی خلیفہ یا امام موجود نہیں ہے تو پھر مذکورہ حدیثوں کے مطابق کیا مسلمان جاہلیت کی موت مررہے ہیں مترجم)جبکہ حدیثیں کہتی ہیں کہ ہر دور میں اور اس دور میں بھی ایک امام ہے جو واجب الطاعۃ ہے ماننا پڑےگا کہ امام موجود ہے اور وہی امام مہدی ہیں اس لئے کہ اس دور میں ہم دونوں ہی کے پاس سوائے امام مہدی کے کوئی امام نہیں ہے اور نہ کسی کی امامت کا احتمال ہے۔

بارہ امام قریش سے ہیں

2۔سرکار دو عالم سے کثیر تعداد میں ایسی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جن میں اس امت کے اماموں کو شمار کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امام سارے کے سارے قریشی ہیں۔یہ حدیثیں بہت سے طریقوں سے مروی ہیں،جن کو اکثر اہل سنت نے صحیح قرار دیا ہے بلکہ بغوی تو کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں متفق علیہ ہیں۔(1)

لطف کی یہ بات یہ ہے کہ یہ ساری حدیثیں مذہب امامیہ کے عقیدے کے مطابق ہیں،اس لئے کہ شعیوں کے نزدیک بارہ امام ہیں جن کے پہلے مولائے کائنات امیرالمومنین علیؑ ہیں اور آخری امام مہدی منتظر عجل اللہ فرجہ،مری سمجھ میں کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان حدیثوں سے آئمہ اہل بیت کو مراد نہ لیا جائے،اگر کوئی وجہ سمجھ میں آتی ہے تو اہل سنت کا امامت کے بارے میں وہ عقیدہ ہے جس میں خلافت کو شرعی حیثیت دینے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے بنائے ہوئے خلفا کی حرکتوں نے ان کی دلیلوں کا تیاپانچہ کردیا ہے چونکہ ان کے خلفا کے کردار مذکورہ حدیثوں کےمطابق نہیں تھے اس لئے انہوں نے حدیثوں کی توجیہ کی اور پھر اس توجیہ پر باقی نہیں رہے،بعض حضرات نے تو ایسی توجیہات کی ہیں جن کی کمزوری روز روشن ظاہر ہے۔(2)

انہوں نے زبردستی اور ہٹ دھرمی سے اپنی بات کو ثابت کرنا چاہا ہے حالانکہ منطق کا تقاضا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح السنۃ ج:15ص:30۔31،دلیل متحرین فی بیان الناجین ص:226سے نقل کیا گیا ہے

(2)فتح الباری ج:13ص:211۔215

۲۰۶

ہے کہ واقعات کو دلیل کے مطابق ہونا چاہئیے،حیثیت طے کرنی چاہئیے اس لئے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے((حق کو پہچانو اہل حق سمجھ میں آجائیں گے))پھر دلیلوں کو توڑ مروڑ کر واقعات کے مطابق کرنا اور واقعات کے ہاتھ میں دلیل کا فیصلہ دے کے ان واقعات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلیلوں کی توجیہ کرنا بے معنی بات ہے،مذہب شیعہ کا عقیدہ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ ہے اس کی صحت پر دلیل دینے میں بس اسی منزل پر اکتفا کی جاتی ہے۔

جب امامت کے مباحث میں گفتگو کی جائےگی اور شیعہ دلیلیں اس سلسلے میں پیش کی جائیں گی تو باقی باتیں بھی ہوجائیں گی خاص طور سے ابھی سرکار حجۃ بن العسکری المہدیؑ کے بارے میں بہت سی باتیں رہ گئی ہیں،اسی لئے شیعوں نے حضرت حجۃؑ کے موضوع پر بہت زیادہ گفتگو کی ہے یہاں تک کہ بعض علما نے تو اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں،جو چاہتا ہے کہ حقیقت کا پتہ چلائے اور اللہ کے سامنے مسئولیت سے بچے،اس کو چاہئیے کہ ان کتابوں کا مطالعہ کرے اور ان کو پڑھ کر غور و فکر کرے اس لئے کہ خدا کی طرف سے توفیق ملتی ہے اور اسی کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے۔

۲۰۷

۲۰۸

سوال نمبر۔5

نصب امام کے سلسلے میں شیعہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ خدا پر واجب ہے کہ وہ بندوں پر لطف و کرم کرے اور لوگوں کے درمیان عدل کا جاری رہنا اس کا لطف ہے اور یہ عدل امام کے ذریعہ ہی قائم ہوسکتا ہے اس لئے خدا پر واجب ہے کہ وہ نصب امام کرے لیکن آج کے دور میں جبکہ لوگوں کے درمیان کوئی امام عادل نہیں ہے کیا یہ دلیل صحیح نہیں ہوجاتی؟(یعنی امام عادل نہیں اور عدل لطف الہی ہے تو اب دنیا لطف الہی سے محروم ہے)

جواب:سب سے پہلے ضروری ہے کہ لطف الہی کی تشریح کردی جائے وہ لطف الہی جس کی بنیاد پر شیعہ کہتے ہیں کہ نصب امام خدائے متعال پر واجب ہے۔

پہلے یہ عرض کردای جائے کہ لطف الہی سے کیا مراد ہے؟پھر اس دلیل کے بارے میں طے کیا جائے کہ دلیل ابطال کے لائق ہے یا نہیں؟

لطف الہی کے قائد کی شرح اور اس کی تعریف

عالم بشریت کے لئے لطف الہی کے قائدہ کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انسان ذاتی طور پر ناقص ہے اپنے اچھے برے کو نہٰں جانتا فساد،شر اور ظلم سے معصوم نہیں ہے بلکہ کبھی کبھی صلاح و فساد کے

۲۰۹

درمیان تنازع ہوتا ہے خیر و شر،ظلم و عدل کو نہیں سمجھتا اس لئے ایک امام معصوم کا بہرحال محتاج ہے جو عالم انسانیت کو خیر و عدل پر جمع کرسکے اور شر و فساد و ظلم سے دور رکھے،خدا کی حکمت اور اس کی رحمت کا تقاضہ یہ ہےکہ وہ بندوں پر رحم کرے،اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا ایک امام معصوم کو منصوب کرے اور پھر ٹھوس دلیلوں اور وضح نشانیوں کے ساتھ عوام کے سامنے اس امام کو معارف کرے شاید اسی کی طرف قدرت کا اشارہ ہے۔

ارشاد ہوتا ہے کہ: (وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ) (1)

ترجمہ:انہوں نے خدا کی جس میں قدر چاہئیے تھی نہیں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بشر پر کچھ نہیں نازل کیا۔

چونکہ انسان ہر دور میں ہدایت کا محتاج ہے اس لئے کہ وہ ہر وقت ناقص ہے اس لئے امام کا وجود ہر دور میں ضروری ہے اور امام کی ضرورت نبیؐ کے ذریعہ پوری نہیں ہوسکتی اس لئے کہ نبیؐ تو اپنے دور کا امام ہوگا لیکن نبیؐ کی وفات کے بعد ضرورت باقی رہےگی اور ضرورتوں کو پورا کرنےوالا مفقود ہوگا،ایسی صورت میں نبیؐ کے بعد امت میں اختلاف پیدا ہوجائےگا شر و فساد پیدا ہوجائیں گے اور امت کے کچھ لوگ اللہ کی اطاعت سے خروج کا اعلان کردیں گے دین کے علوم ضائع ہوں گے اور امت انتشار کا شکار ہوجائےگی لطف الہی کے قاعدہ کا یہی فائدہ ہے کہ عوام کی شرعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے امام کا ہونا ضروری ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ پھر امام کو تسلط و اختیار حاصل ہونا چاہئے اور زمانہ کا اقتدار امام کے ہاتھوں میں کردینا خدا کے اوپر واجب ہے کہ وہ بندوں کو امام کا حکم ماننے پر اس کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کرے اس لئے کہ یہ صورت حال تو بہت کم حاصل ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ تاریخ کے ان مختصر زمانوں کو مقام مثال میں پیش نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس مطلب یہ ہے کہ خدا کے اوپر نصب امام واجب ہے تا کہ انسان کی نفسانی کمزوریوں کے علاج کا ایک ذریعہ موجود رہے اور وہ امام وقت سے متعارف رہیں تا کہ ان پر واجب حجت تمام کی جاسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ انعام آیت:91

۲۱۰

(لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ)(1)

ترجمہ:جو ہلاک ہو دلیل کی بنیاد پر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کی بنیاد پر زندہ رہے۔

پھر اس کے بعد عوام کو اختیار ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے منصوب امام کو مانے یا نہ مانے اگر لوگ خدا کی نعمت کا شکریہ ادا کرکے امام کی اطاعت کرتے ہیں تو ان کے امور کی اصلاح ہوجائےگی اور ان کے درمیان خیر و عدل عام ہوجائےگا جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ: ( وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ-وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌوَ كَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ) (2)

ترجمہ:اور اہل کتاب ایمان لاتے اور(ہم سے)ڈرتے تو ہم ضرور ان کے گناہوں سے درگذر کرتے اور ان کو نعمت و آرام(بہشت)کے باغوں میں پہنچادیتے اور یہ لوگ تو ریت اور انجیل اور جو(صحفے)ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کئے گئے تھے(ان کے احکام کو)قائم رکھتے تو ضرور(ان کے)اوپر سے بھی(رزق برس پڑتا)اور پاؤں کے نیچے سے بھی(ابل آتا اور یہ خوب چین سے)کھاتے ان میں سے کچھ لوگ تو اعتدال پر ہیں،مگر ان میں کے بہتر جو کچھ کرتے ہیں برا ہی کرتے ہیں۔

اگر مسلمان خدا کا کفران نعمت کرتے ہیں اور امام وقت کی مخالفت کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ انہیں اپنے اعمال کا مزہ چھکنا پڑےگا اور ان کے درمیان ظلم و فساد عام ہوجائےگا اس لئے کہ خدا فرماتا ہے:( مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ) (3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ انفال آیت:42(2)سورہ مائدہ آیت:65۔66

(3)سورہ نساءآیت:79

۲۱۱

ترجمہ:تمہیں جو اچھائیاں ملتی ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہیں اور تم جو برائیاں جھیلتے ہو یہ تمہارے نفس کے اعمال کا نتیجہ ہے.

اللہ پر کوئی حجت نہیں ہے اس لئے کہ اس نے عوام پر لطف و کرم کیا تھا کہ امام مقرر کردیا اور سیدھے راستے کی ہدایت کردی اب یہ ان کی غلطی تھی کہ انہوں نے خدا کے معین کردہ امام کو چھوڑ کر اپنی طرف سے ایک ایک امام بنالیا اور اپنی غلطیوں کا ذمہ دار بھی اس کو ٹھرادیا اور اپنے گناہ بھی اسی پر لاد دیئے۔

خداوند عالم اگر اسی گمراہی میں بندوں کو چھوڑ دے یعنی ان کے لئے کوئی ایسا امام نہ بنائے جو ان کے درمیان ہدایت کرنےوالا ہے اور ان کے حالات کے مطابق انہیں ہدایت پر مضبوطی سے قائم رکھنےوالا ہے تو یہ بندوں کی حق تلفی ہوگی اور اللہ کے لطف کے خلاف ہوگا عوام کی ہدایت و اصلاح کے لئے ان کو شریعت کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ ناکافی ہوگا بلکہ بندے خدا پر حجت قائم کردیں گے کہ ہماری ہدایت کا انتظام نہیں کیا گیا اور اللہ ان باتوں سے بہت بلند ہے اس لئے کہ خداوند اپنی کتاب پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ 0أَن تَقُولُواْ إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَآئِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ 0أَوْ تَقُولُواْ لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ فَقَدْ جَاءكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِآيَاتِ اللّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يَصْدِفُونَ(1)

ترجمہ:ہم نے اس کتاب مبارک کو نازل کیا پس تم اس کی پیروی کرو اور پرہیزگار بنوتا کہ تم پر رحم کیا جائے(تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو)کتاب ہمارے پہلے دو گروہوں(یہود و نصاری)پر نازل کی گئی مگر یہ کہ ہم انکی تعلیمات سے غافل رہے یا یہ(نہ کہو)کہ وہ کتابیں ہم پر نازل ہوتیں تو ہم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے اب تو تہمارے پروردگار کی طرف سے خود ہی دلیل آگئی اور ہدایت و رحمت بھی..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ انعام آیت155۔156۔157

۲۱۲

(تو قاعدہ لطف)امامت کے معاملے میں بھی اس طرح جاری ہے جس طرح دوسرے احکام کے بارے میں جیسے واجبات،محرمات اور آداب و غیرہ میں۔

قائدہ لطف کا تقاضہ یہ ہے کہ چونکہ لوگ اپنی جہالت اور محتاجی کی بنیاد پر قاصر ہیں اس لئے اللہ پر واجب ہے کہ ان پر لطف و کرم کرے ان کے لئے ایک ایسا نظام وضع کردے جن سے ان کے امور کی اصلاح ہوجائے ان کے معاد و معاش اور خود خدا سے رابطہ اور ان کی آپسی معاشرت کو قانونی حیثیت مل جائے لیکن قاعدہ لطف اس بات کا تقاضہ نہیں کرتا کہ اللہ اس قانون کو نافذ کرنے کے لئے مناسب ماحول بھی تیار کرے اور ان پر زبردستی ان کے احکام لادے،تا کہ وہ خیر و صلاح کے راستے میں کامیاب ہوسکیں اور شر و فساد سے دور رہ سکیں بلکہ خدا پر صرف یہ واجب ہے کہ وہ ایسے احکام جو بندوں کے لئے صالح ہوں ان کا ایک نظام ان کے سامنے رکھ دے جبکہ اس نظام کو اختیار کرنے کا حق بندوں کو دےدے جس کی طرف سورہ دہر کی ابتدائی آیت میں۔

ارشارہ کیا ہے:(إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا) (1)

ترجمہ:ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا اب چاہے وہ شکر کرے چاہے وہ کفران نعمت کرے۔

پس جو خدا کی اطاعت کرےگا اور اور ان احکام پر عمل کرےگا وہ کامیاب اور خوش بخت ہوگا اور جو نافرمانی کرےگا اور ان احکام سے منہ موڑ لےگا وہ بدبخت اور نقصان اٹھانےوالوں میں ہوگا اور اس کی خدا پر کوئی حجت نہیں ہے۔

لطف الہی کا اصول صرف مذہب امامیہ کا نظریہ ماننے پر ہی ٹوٹےگا

میں نے لطف الہی کے اصول کی وضاحت کردی اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف امامیہ مذہب کے قائل ہونے پر ہی اس اصول کو مانا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ انسان آیت:3

۲۱۳

اس لئے کہ اس دور میں بھی شیعہ فرقہ بارہویں امام کے وجود کا قائل ہے جو حضرت حجت ابن الحسن صلوۃ اللہ علیہ کی ذات مقدس ہے الحمداللہ وہ بالفعل موجود ہیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں آپؐ جسمانی اعتبار سے موجود ہیں اور اپنی قدرت کا استعمال کررہے ہیں،بلکہ آپ کا وجود مبارک قاعدہ لطف الہی پر ایک ٹھوس دلیل ہے۔

کوئی یہ نہ سمجھے کہ جب آپؐ کو سلطنت او اقتدار ہی حاصل نہیں ہے اور آپؐ اس دور میں عدالت قائم ہوگا جب دنیا چاہےگی اور اس کی ضرورت محسوس کرےگی،اس سے آپؐ کی امامت پر نہیں فرق آتا اور نہ خدا چاہےگی اور اس کی ضرورت محسوس کرےگی،اس سے آپؐ کی امامت پر نہیں فرق آتا اور نہ خدا کے فضل اور اس کی تشریع میں کوئی کمی ثابت ہوتی ہے بلکہ آپ کی حالت آپؐ کے آباء کرام علیہم السلام سے مختلف نہیں ہے جن کی سلطنت اور اقتدار کے درمیان اس دور کے ظالم لوگ حائل ہوگئے اور انھیں امور کی قیادت اور لوگوں کے درمیان عدالت قائم کرنے سے روک دیا،بلکہ آپؐ کے حالات اور اکثر انبیاء کے حالات ملتے جلتے ہیں،اس لئے کہ حضور بھی عام عالم انسانیت کے درمیان عدالت کا نفاذ نہیں کرپائے اس لئے کہ آپؑ کی عمر نے وفا نہیں کی امام مہدی کی غیبت اور آپؑ کی امامت پر کوئی الزام نہیں آتا نہ یہ کہ آپؑ ایسے امام ہیں جو امامت کی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہیں اور نہ قائدہ لطف الہی پر کوئی الزام آتا ہے بلکہ آپؑ کی امامت میں اور بر سر اقتدار آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ ماحول ہے جو آپؑ کے اردگرد پایا جاتا ہے۔

وہ ماحول جس کا نتیجہ فاسد سماج اور ظالم حکومتوں کا قیام ہے دوسری رکاوٹ خود عالم انسانیت کی غیر ذمہ داری ہے کہ انسان اس فرض اطاعت کو ادا نہیں کرتا ہے جو حق ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے بلکہ ہوں سمجھ لیجئے کہ جس طرح آپؑ کے آباء طاہرین جناب ابوابراہیمؑ،حضرت موسیؑ بن جعفر الکاظم علیہ السلام،ابوالحسینؑ علی ابن محمد الہادی النقی علیہ السالم اور ابومحمد العسکری علیہ السلام نے قیدخانے میں زندگی گذاری اسی طرح آپؑ غیبت میں زندگی گذار رہے ہیں مذکورہ حضرات میں اور آپؑ کی

۲۱۴

غیبت میں اگر فرق ہے تو بس اتنا کہ وہ حضرات جبری طور پر ظالموں کی قید میں ڈال دئیے گئے تھے آپؑ نے ظالموں کی طرف سے خوف جان کی وجہ سے غیبت اختیار کررکھی ہے ابھی ماحول آپؑ کے ظہوار کے لئے سازگار نہیں ہے اور آپؑ کی غیبت کی دوسری مصلحتیں بھی ہیں،جن کا علم اللہ کو ہے یعنی غیبت میں آپؑ کی امامت کا قصور نہیں ہے بلکہ خدا کی مصلحت کا تقاضہ ہے،جس دن یہ اسباب ختم ہوجائیں گے اس دن آپؑ انشاءاللہ ظاہر ہوں گے اور لوگوں سے اپنے نفس کو پوشیدہ نہیں کریں گے پھر آپؑ کی امامت اپنے فرائض کو جو اللہ کی طرف سے عائد کئے گئے ہیں اور مقام سلطنت میں حاصل ہوں گے پورا کرنے میں کوتاہی نہیں کرےگی،آپؑ کے اندر عدل و انصاف کو قائم کریں گے اور تمام امور کو اپنے طور پر جاری کریں گے(انشاءاللہ تعالی)

حاصل کلام یہ ہےکہ آپؑ کی اور آپؑ کے آبائے طاہرین علیہم السلام کی امامت کی شرعی حیثیت قائدہ لطف الہی کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے،بالفعل جو عدل و انصاف آپؑ کی طرف سے نہیں قائم ہو پارہا ہے وہ اس لئے کہ انسانی سماج آپؑ کی امامت کے مزاج کے مطابق نہیں ہے آپؑ کی امامت کے قیام میں جو رکاوٹیں وہ لوگوں کی تقصیر اور مداخلت بےجا کا نتیجہ ہیں جو پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے قاعدہ لطف الہی ان موانع کو دور کرنے کا ذمہ دار نہیں ہے۔

جب آپ کے سامنے ساری باتیں رکھ دی گئیں تو پھر آپ اپنے اس قول پر غور کریں(کیا اس زمانے کے امام کا عدل سے خالی ہونا قاعدہ لطف الہی سے نہیں ٹکراتا)اگر امام کو غیر موجود سمجھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ابھی کوئی اور یہ زمانہ یا کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہے لہذا قاعہ لطف نہ ٹوٹتا ہے اور نہ باطل ہوتا ہے اور اگر امام کے غیر موجود ہونے سے آپ کی یہ مراد ہے کہ امام کو نہ سلطنت و اقتدار ہے اور نہ اقامہ عدل ہورہا ہے تو یہ قاعدہ لطف الہی کے منافی نہیں ہے کیونکہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ امام صالح کی امامت میں عدل کو قائم کرنے کے لئے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے اور سلطنت کا حاصل نہ ہونا بالفعل اقامہ عدل میں بڑی رکاوٹ ہے اور شیعوں کا لطف الہی کی بنیاد پر امامت کا استدلال کسی بھی طرح ساقط نہیں ہوتا۔

۲۱۵

۲۱۶

سوال نمبر۔6

حدیث عترت سے مولا علیؑ کی امامت کا وجود کیسے ثابت ہوسکتا ہے؟کیا ممکن ہے کہ حدیث عترت سے سمجھا جائے کہ سرکار صحابہ کو اہل بیتؑ کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کررہے ہوں اور صحابہ کو اہل بیتؑ کی طرف متوجہ کررہے ہوں اور اس حدیث کو خلافت پر نس نہ سمجھا جائے؟

جواب:آپ کے اس سوال کے جواب میں کچھ امور پیش کئے جارہے ہیں جو ایک دوسرے پر مرتب ہیں۔

1۔عرض ہے کہ یہ حدیث کثیر طریقوں سے اور قریب المعنی الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے حضور سرور کائناتؐ نے اس حدیث کو مختلف موقعوں پر ارشاد فرمایا ہے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس منزل میں موقعہ پر کچھ ثبوت پیش کروں جن کے ذریعہ یہ حدیث وارد ہوئی ہے اور جو بعض طریقوں سے شامل ہیں تا کہ مجھے اپنی بات ثابت کرنے میں آسانی ہو۔

حدیث ثقلین کے کچھ متن حاضر ہیں

الف:جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ ایام حج میں عرفہ کے دن میں نے سرکار کو خطبہ دیتے ہوئے سنا اس وقت آپ اپنے ناقہ پر سوار تھے اور میں نے سنا کہ حضورؐ فرما رہے تھے اے لوگو!میں تمہارے درمیان چھوڑ دی ہیں اللہ کی کتاب اور میری عترت(اہل بیتؑ)جس کو پکڑے رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سنن ترمذی،ج:5،ص:662،کتاب مناقب،باب مناقب اہل بیتؑ نبیؐ

۲۱۷

ب:زید بن ارقم اور ابوسعید کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا:میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ جب تک تم ان سے تمسک رکھوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ان میں ہر ایک،ایک،دوسرے سے عظیم تر ہے اللہ کی کتاب ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور میری عترت جو میرے اہلبیتؑ ہوئے ہیں اور یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گے،یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے پھر دیکھو کو میرے بعد تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو...؟(1)

ج:زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور ہادی برحق مکہ اور مدینہ کے درمیان اس جگہ اترے جہاں پانچ بڑے اور سایہ دار درخت ہیں۔لوگوں نے درخت کے نیچے جھاڑو دیکر صاف کردیا پھر سرکارؐ نے وہاں رات کو قیام کیا اور عشا کی نماز پڑھی،پھر آپ خطبہ دینے کھڑے ہوئے،آپؑ نے خدا کی حمد و ثنا کی اور جب تک خدا نے چاہا وعظ و پند اور ذکر و تذکر کرتے رہے پھر فرمایا لوگو!میں تمہارے درمیان دو امر چھوڑ کے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کی پیروی کرتے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے وہ دو امر کتاب خدا اور میرے اہل بیتؑ میری عترت ہیں۔(2)

د:ابوسعید خدی نبیؐ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا مجھے لگتا ہے کہ خدا کی طرف سے مجھے بلایا جائے گا اور میں جواب دوں گا(میں وفات پا جاؤں گا)اس لئے میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں خدائے عز و جل کی کتاب اور میری عترت اہل بیتؑ۔

کتاب خدا ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے۔

لطیف و خبیر خدا نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں بھی ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں پر تم غور کرو کہ میرے بعد ان کے ساتھ تم کیا سلوک کرتے ہو۔؟(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سنن ترمذی ج:5،ص:663،کتاب مناقب،باب اہل بیت نبیؐ

(2)مستدرک علی صحیحن،ج:3،ص:618،کتاب معرفت صحابہ میں مناقب امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ

۲۱۸

(3) مسند احمد،ج:2،ص:18،مسند ابی سعد خدری میں،طبقات کبریٰ،ج:2،ص:194،میں جس میں رسولؐ کی وفات کے قریب کی چیزیں ذکر ہوئی ہیں------ ھ:زید بن ثابت سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا!میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب((جو آسمان سےزمین تک پھیلی ہوئی رسی ہے))اور دوسرے میری عترت،میرے اہل بیتؑ اور یہ دونوں بھی ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔(1) ----و:ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ سرکارؐ نے فرمایا میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ان میں ہر ایک،ایک دوسرے سے بڑی ہے ایک اللہ کی کتاب((جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے))اور دوسرے میری عترت اہل بیتؑ اور سنو یہ دونوں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے،(2) یہ وہ قریب المعنی الفاظ ہیں جن میں یہ حدیث،بہت ساری مشہور و معروف کتابوں میں وارد ہوئی ہے۔(3)

حدیث ثقلین دلالت کرتی ہے کہ عترتؑ کی اطاعت واجب ہے

2۔متن حدیث کے الفاظ میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی ہے کہ حدیث کو محض ایک وصیت سمجھا جائے جس میں سرکارؐ اہل بیتؑ کی محبت،ان کا احترام،ان کی تعظیم،ان کی طرف نگاہ توجہ اور ان کے حقوق کی رعایت کا حکم دےرہے ہیں بلکہ حدیث کے الفاظ پکار رہے ہیں کہ نبیؐ و اہل بیتؑ کی اطاعت اور ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند احمد،ج:5،ص:181۔189،حدیث زید بن ثابت میں جو نبیؐ سے نقل کی ہے(2)مسند احمد،ج:3،ص:59،مسند ابی سعید خدری کے مسند میں

(3)تفسیر ابن کثیرج:4،ص:114،مجمع الزوائدج:9،ص:162۔165،کتاب مناقب اہل بیتؑ،سنن کبریٰ نسائی،ج:5،ص:45،مصنف بن شیبہ،ج:6،ص:309،کتاب الفضائل باب مااعطی اللہ محمد معجم الاوسط،ج:3،ص:374،معجم صغیر،ج:1،ص:226،مسند ابی یعلی ج:2ص:297،مسند ابی الجعدج:1ص:397،سنۃ ابن ابی عاصم ج:2ص:351،باب ما ذکر عن النبیؐ انہ و عد من تمسک بامرہ و رود حوضہ و نوادر الاصول فی احادیث الرسول،ج:1ص:258،الاصل الحمسون فی الاعتصام بالکتاب والعترۃ،سیرہ اعلام النبلاءج:9ص:365،حالات ہارون بن یزید میں

۲۱۹

کے اتباع کا حکم دےرہے ہیں دیکھئے قابل الذکر معنی پر محمول کرنے کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:

الف:اکثر متون حدیث سے ظاہر ہے کہ جب سرکار کو اپنی وفات کے دن قریب ہونے کا احساس ہوا تو آپؐ نے یہ حدیث امت کے سامنے پیش فرمائی،اگر ان حدیثوں سے مقصد یہ تھا کہ امت اہل بیتؑ سے محبت کرھے اور ان کا احترام کرے تو پھر اس کی ہدایت مخصوص وقت میں کیوں فرمائی،کیا حضورؐ کی زندگی میں اہل بیتؑ سے محبت اور ان حضرات کا احترام ضروری نہیں تھا ماننا پڑےگا کہ ان الفاظ سے محض اہل بیتؑ کی محبت مقصود نہیں تھی بلکہ حضورؐ کے انتقال کا وقت قریب تھا اور اپنی زندگی میں امت کے مرجع اور ان کے حیات کے ناظم تھے آپؐ کے اوپر امت کی قیادت کی ذمہ داریاں تھیں ظاہر ہے کہ وفات کے بعد امت آپؐ کی قیادت سے محروم ہورہی تھی،اس لئے حضورؐ نے ان حدیثوں میں ایک ایسے گروہ کا تعارف کرادیا جو امت کی قیادت اور مرجعیت کا ذمہ دار ہے اور اس سلسلے میں آپؐ کی جانشین کرسکتا ہے تا کہ امت کے اندر اس بات کا احساس نہ رہے کہ اب ہمارا کوئی قاعد و سرپرست نہیں اور حضورؐ نے عترتؑ کی نشاندہی کردی کہ ان کی پیروی سے تم بھی گمراہ نہیں ہوگے۔

زید بن ارقم کی حدیث ملاحظہ فرمائیں اس میں کچھ زیادہ وضاحت کردی گئی ہے آپؐ نے فرمایا((میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں))حدیث کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اس حدیث میں خلیفہ سےمراد جو حضرات بھی ہیں وہ سرکار دو عالمؐ کی غیر موجودگی میں سرکاری ذمہ داریوں کو ادا کرنےوالے ہیں اور آپؐ کے قائم مقام کی حیثیت رکھتے ہیں،جو لوگ ہیں جو قیادت کے وظیفہ کو ادا کریں گے اس لئے ان کی محبت اور اطاعت دونوں ہی واجب ہے۔

ب:آپ نے ہر حدیث میں عترتؑ کو قرآن مجید کے سیاق میں رکھا ہے تا کہ لوگوں کی سمجھ میں آجائے کہ آپ قرآن مجید کے لئے محض عزت و احترام کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں کہ اس کو چوم لیا جائے اور اس کو بلند جگہ پر رکھا جائے بلکہ آپؐ کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید کی پیروی کی جائے اور اس

۲۲۰