فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ26%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130309 / ڈاؤنلوڈ: 6755
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ایسی محنت کریں کہ زمین خود کہے کہ مجھ کو شرعی احکام کے بیج بوتا کہ

ایمانیت کا جڑ

عبادت کا تنا

اور فرائض واجبات کے برگ وبار

اور اعمال صالحہ کادرخت تیار ہو

پھر اس میں اخلاقیات کے پھل آئیں اور ان میں

اخلاص کا رس ہو ۔

اگر کسی گھر میں معنویت اور روحانیت نہ ہو ،اسلامی تعلیمات پر عمل نہ ہو اس گھر کی حالت خراب ہوہی جاتی ہے ۔

گناہ انسان کے دل کو سیاہ کردیتاہے ،دل کو بیمار کردیتا ہے اورجب دل ہی بیمار ہوجائے تو اس پر سب سے پہلی مصیبت یہ آتی ہے کہ انسان عبادت سے لذت حاصل نہیں کرسکتا بلکہ گناہ سے لذت حاصل کرتاہے اور جو گناہ سے لذت حاصل کرتا ہے وہ جان لے کہ وہ روحانی اعتبار سے بیمار ہے ۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ :

"اگر کوئی شخص چاقو کو ہاتھ میں یا پیٹ میں کسی کی کمر میں مارے تو جو ہوتا ہے اس سے زیادہ یہ گناہ دل کے لئے خطرناک ہوتے ہیں ۔"

لہذا یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ اپنی لڑکیوں کو اسلام کے احکام وقوانین

۶۱

سے روشناس کرائیں اور واجب احکام یاد کرائیں ۔ لیکن اب جب کہ انہوں نے ا س سلسلے میں کوتاہی کی ہے اور سادہ لوح بے گناہ لڑکی کو تعلیم دئیے بغیر شادی کے بندھن میں باندھ دیا ہے تو اب یہ اہم ترین اور سنگین فریضہ شوہر پر عائد ہوتاہے کہ وہ بیوی کو دینی مسائل سے روشناس کرائے اور سلام کے واجبات وحرام چیزوں کے متعلق بتائے اور اس کی فہم اور عقل کے مطابق اس کو اسلامی اخلاق اور عقائد کی تعلیم دے ۔

شوہر محترم! اگر آپ خود اس کام کو انجام دے سکیں تو کیا کہنا ۔

اس کے علاوہ اہل علم سے مشورہ کرکے سودمند اور علمی اور اخلاقی کتب اور رسالے مہیا کرکے اس کو پڑھنے کی ترغیب دلائے اور ضرورت ہو تو ایک قابل اعتماد اور عالم دیندار استاد یا معلمہ کو اس کی تعلیم وتربیت کے لئے مقررکیجئے ۔

اب اگر آپ نے اس فریضہ کو ادا کیا تو آپ ایک دیندار ،دانا ،خوش اخلاق اور مہربان بیوی کے ہمراہ زندگی بسر کریں گے اور اخروی ثواب کے علاوہ بہترین دنیاوی زندگی بھی بسر کریں گے ۔

اور اگر آپ نے اس فریضے کی انجام دہی میں کوتاہی کی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دنیا میں ضعیف الایمان اور لاعلم بیوی کا ساتھ رہے گا جو دینی واخلاقی اصولوں سے بے بہرہ ہوگی اور قیامت میں بھی خداوند قہار اس سلسلے میں بازپرس کرے گا ۔

کیونکہ اس سے قرآن میں آپ کی یہ ذمہ داری قراردی ہے کہ :

۶۲

"اے ایمان والو ، خود اپنے آپ کو اور اپنے خاندان والوں کو اس جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھرہوں گے "۔

امام صادق(ع)فرماتے ہیں کہ :

"جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس کو سن کر ایک مسلمان رونے لگا اوربولا میں خود اپنے نفس کو آگ سے محفوظ رکھنے سے عاجز ہوں اس پر مجھے یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ اپنے گھر والوں کو بھی دوزخ کی آگ سےبچاؤں "۔

تو پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا :

" اس قدر کافی ہے کہ جن کاموں کو تم انجام دیتے ہو ان ہی کو کرنے کو ان سے کہو اور خود جن کاموں کو تمہیں ترک کرنا چاہیے ان سے انہین روکتے رہو ۔"

تعلیم وتربیت کے لئے حوصلہ اور وقت درکار ہے اگر عقل اور تدبر سے کام لے کر اس سلسلے میں جس قدر محنت کرے گا خود اس کے مفاد میں ہوگا اور اگلی زندگی اور عالم آخرت تک اس کے اثرات سے بہرہ مند ہوگا ۔

٭ جس دعا کی ابتدا ء بسم اللہ الرحمن الرحیم ہو وہ دعا کبھی نامنظور نہیں ہوتی ۔(حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

۶۳

نسخہ نمبر ۱۲

--{دیندار شوہر گھر میں فقہی قوانین نہ چلائیں کیونکہ گھر الفت ومحبت سے چلتے ہیں ، قانون سے نہیں }--

مثلا اگرآپ بیوی سے یہ کہیں کہ تم اپنے والدین یا فلاں رشتہ دار سے ملنے نہیں جاؤں گی کیونکہ میری اجازت کے بغیر گھر س ے باہر قدم نہیں نکال سکتیں ۔

یہ قانون سے بہت غلط استفادہ ہے ۔آیت اللہ حسین مظاہری، ایک مجتہد کا قول اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ

"بعض عادل شمر سے بھی بدتر ہیں ۔"

قانون سے ایسا غلط استفادہ بظاہر مذہبی مردوں اور عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔مثلا کوئی لڑکی اسکول یا کالج جاتی ہے اور ایک یا دو اصطلاحات یاد کرکے غرور کرنے لگتی ہے اپنے شوہر سے کہتی ہے میں پڑھنا چاہتی ہوں ، میں گھر کا کوئی کام نہ کروں گی کیونکہ یہ مجھ پر واجب نہیں ہے ۔ یہ قانون فقہی سے غلط اسفادہ ہے بقول ان عالم کے یہ لڑکی عادل ہے لیکن شمر سے بدتر ہے کیونکہ آج نہیں تو کال ضرور اس گھر کو برباد کرے گی ۔

۶۴

اگر چہ آپ ایک مومن ہیں لیکن سخت گیر ہیں ،امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر میں ضرورت سے زیادہ ہی سخت ہیں ۔ آپ کی یہ سخت گیری اور تیز روی ایک دن آپی پاکیزہ بیوی کو اور آپ کی نیک سیرت لڑکی کو ضدی اور خراب کردے گی ۔

نسخہ نمبر ۱۳

--{بیوی سے اچھا سلوک کرنا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا }--

اگر آپ صدر مملکت یا وزیر اعظم کے داماد بنیں اور وہ آپ سےیہ کہے کہ " دیکھو میری بیٹی س اچھا سلوک کرنا اور اسے ہمیشہ خوش رکھنا " تو آپ کس طرح دل وجان سے اس کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گے اور اس کی ناگوار باتوں کو بھی خندہ پیشانی س برداشت کریں گے ۔

جب صدر یا وزیر اعظم کی بات کی آپ کو اتنی ہی پرواہ ہے تو اگر اس پوری کائنات کا پروردگار آپ سے یہ کہے :

"وعاشر هنّ بالمعروف "

"(دیکھو)ان بیویوں سے اچھا سلوک کرو۔"(سورۃ نساء ۱۹)

تو اب آپ کا رد عمل بیوی سے کیا ہونا چاہئے ،افسوس صدر اور وزیر اعظم

۶۵

کی ہدایت کی تو اتنی پرواہ ہو اور کائنات کے پروردگار کی ہدایت اور حکم کو اتنی اہمیت بھی نہ ہو جتنی اس کے فاسق وفاجر بندہ کی ہو ۔ افسو س! اگر آپ پروردگار عالم کی اس ہدایت کو یاد رکھیں گے تو گھر میں کبھی جھگڑا نہ ہوگا ۔

نسخہ نمبر ۱۴

--{ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگتے رہنا چاہیئے }--

ان تمام نسخوں پر عمل کے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگتے رہنا چاہیئے ۔بعض اوقات انسان کے اپنے گناہوں کی نحوست کایہ اثر ہوتا ہے کہ بیوی یا اولاد نافرمان ہوجاتی ہے اوراسی طرح بیوی کے لئے بھی مسلسل دعائیں مانگتی رہنا چاہیئں ۔ایک مرد دانا کا کہنا ہے کہ میں اپنے گناہوں کا اثر اکثر بیوی بچوں بلکہ گھر کے پالتو جانوروں تک میں پاتا ہوں کہ ہو پہلے کی طرح میرے مطیع وفرمانبردار نہیں رہتے ۔

آخری بات :- آپ نے دیکھا کہ آپ کی بیوی ،ایک لڑکی نے صرف دو بول پڑھ کر آپ سے ایسا رشتہ قائم کیا اور اپنے والدین ان دو بولیوں کی ایسی لاج رکھی کہ ماں کو چھوڑ ا ، باپ کو چھوڑا ،بہن بھائی اور پورے خاندان کو چھوڑا اورآپ کی ہوگئی ۔جب یہ لڑکی ان دو بولیوں کا اتنا بھرم رکھتی ہے کہ سب کو چھوڑ کر ایک

۶۶

کی ہوگئی لیکن آپ سے نہ ہو سکا کہ یہ دو بول :

"لا اله الا الله محمد رسول الله علی ولی الله "

" پڑھ کر اس اللہ کے ہوجاؤ جس کے لئے یہ دو بول پڑھےتھے :۔؟؟؟

٭ علم حاصل کرو ۔ علم کاحاصل کرنا نیکی ہے ۔ مشق جاری رکھنا تسبیح ہے ۔علمی معاملات میں بحث ومباحثہ جہاد ہے ۔ جاہل آدمی کو تعلیم دینا صدقہ ہے اور علم کی وجہ سے طالب علم خدا سے نزدیکی حاصل کرلیتا ہے ۔ کیونکہ علم کے ذریعے حرام وحلال کے درمیان فرق پہچانا جاتاہے اور علم طالب علم کو جنت کے راستے پر لگادیتا ہے اور علم وحشت میں انیس ہے علم تنہائی میں دوست ہے ۔(حضرت علی علیہ السلام

۶۷

ساس ،سسر اور گھر کے دیگر افراد کے عمل کے لئے چودہ مجرب نسخے

نسخہ بمبر ۱

--{ساس سسر یا گھر میں رہنے والے اور افراد سورہ بقرہ پڑھ کر اپنے گھر والوں پر دم کریں }--

کیونکہ رسول اسلام (ص)نے فرمایا ہے :

"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد (ص) کی جان ہے ، شیطان اس گھر میں ٹھہر نہیں سکتا جس میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جائے ۔"

اس لئے کہ گھروں میں جھگڑوں سے بچنے کے لئے شیطان مردوں سے بچنے کی بہت زیادہ فکر کی جائے اور جن چیزوں سے گھروں میں شیاطین آتے ہیں ان سے بچا جائے اور جن اعمال سے شیاطین سے حفاظت ہوتی ہے ،ان اعمال کا اہتمام کیا جائے جس میں سے ایک عمل گھر میں سورہ بقرہ کا ختم ہے ۔

۶۸

نسخہ نمبر ۲

--{ساس سسر یا گھر میں کثرت سے تلاوت قرآن بمعہ ترجمہ کا اہتمام کریں }--

کیونکہ حدیث میں ہے کہ :

" جس گھر میں قران کریم کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ملائکہ اس میں حاضر ہوتے ہیں ،شیاطین نکل جاتے ہیں اور جس گھر میں تلاوت نہ ہو ، اس میں خیر وبرکت کم ہوجاتی ہے ،شیاطین اس گھر میں مسکن بنالیتے ہیں ۔فرشتے وہاں سے چلتے جاتے ہیں "

نسخہ نمبر ۳

--{ حتی الامکان بیٹے کو شادی کے بعد الگ رہنے کی ترغیب دیں }--

دینداری کا دم بھرنے والے اکثر سےایک غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ

۶۹

سب کا ایک ساتھ ،ایک ہی گھر میں رہنا بہت ضروری ہے ورنہ گھر کی برکت نکل جائے گی ۔

محترم ساس وسسر ! ایک برتن میں کھانا پکنے سے برکت ضرور آئے گی لیکن لڑائی جھگڑے ی وجہ سے گھروں میں نفرت ،حسد ،بغض ،غیبت ،لڑائی ،جھگڑے کا دروازہ کھل جاتا ہے اور وہ پورے گھر کو اللہ کی رحمت سے دور کردیتا ہے ۔ صرف ایک ایسی برکت کے لئے ہزاروں مصیبتوں اور گناہوں کا ارتکاب کیسے جائز ہوگا ؟

یعنی ایک مستحب کے لئے اتنا اہتمام کہ ہزاروں حرام اس کی وجہ سے ہوجائیں یہ کہاں کی عقلمندی ہے ؟

ایک گھر جہاں کئی شادی شدہ بھائی ایک ساتھ رہتے ہوں اور ایک ساتھ کھانا کھاتے ہوں لیکن

----- آپس میں دل گرفتہ ہوں ۔

---- روزانہ جھگڑے بڑھ رہے ہوں ۔

---- حسد اور حرص کی بیماریاں بڑھ رہی ہوں ۔

----- رات کو شوہر آئیں تو بہو ئیں ایک دوسرے کے خلاف باتین کرکے شوہروں (سگے بھائیوں )میں عداوت اور دشمنی کے بیج بورہی ہوں ۔

----- غیبت ،چغل خوری اور جھوٹ کے جراثیم پیداہو کر بڑی بڑی روحانی بیماریاں پیدا کررہے ہوں ۔

۷۰

---- بیٹے کو ماں اور بہن سے دور کیا جارہا ہو۔

---- بیوی گھر چھوڑنے یا طلاق لینے کی دھمکی دے رہی ہو ۔

----- ساس ، تعویذ ،گنڈوں کی فکر میں ہو ۔

----- سسر ہر نماز کے بعد بد دعا کررہا ہو ۔

-----لڑکے یا لڑکی کی ساس ،پورے خاندان میں سمدھی اور سمدھن کے برا ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہو ۔

----- چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑے بڑے عیب بنا کر پیش کیا جارہا ہو ۔

----- ان سب کے نتیجے میں گھر کے بعض افراد نفسیاتی ہمسپتالوں کے چکر کاٹ رہے ہوں ۔

----- اپنے بچوں کو مشترک گھر میں رہنے سے حرام سے ڈش انٹینا اور کیبل سے بچانا مشکل ہورہا ہو ۔

اور اس کے بر خلاف ایک گھر ایسا ہو جہاں شادی ک فضول اور بیہودہ رسموں سے پیسے بچا کر اور ایسی شادی کرکے جس میں ش کے تین نقطے نہ ہوں یعنی سادی ،ایسی شادی جو سادہ ہو ، اسراف اور فضول خرچیوں سے مبرا ہو اور ان حرام کاموں سے پیسے بچا کر جب تک مستقل علیحدہ مکان لینے کی گنجائش نہ ہو تو چاہے چھوٹا سا گھر یا فلیٹ بھی کیوں نہ ہو الگ رہ کر ماں ،باپ کی خدمت کرکے زیادہ سے زیادہ دعائیں لی جاتی ہوں ۔

----- نند اور بھاوج میں آپس کی محبت برقراررہے ۔

۷۱

---- دیورانی اور جیٹھانیاں ایک دوسرے کا احترام کرتی ہوں ۔

---- بچوں کی اچھی تربیت ہورہی ہو۔

----- روزانہ یا اکثر ملاقات کے لئے آپس میں آنا جانا ہو۔

----- حسب توفیق تحفہ ،تحائف دئیے جاتے ہوں ۔

---- کھانا پکا کر ساس وسسر کے لئے لایا جاتا ہو ۔

----- چھوٹے بچوں میں آپس میں محبت ہو ۔

دونوں زندگیاں آپ کے سامنے ہیں ،دونوں کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔ کون سی زندگی آپ کو پسند ہے ؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔

محترم ساس ! جو بات رب العالمین کی شریعت میں بری نہیں ، اس کو برا نہ سمجھئے ، شریعت میں جس کی اجازت ہو اس پر پابندی نہ لگائیے ۔

لیکن بد قسمتی سے اور بعض اوقات آپ کی ہٹ دھرمی سے اور ان تما م خرابیوں کے بعد لڑجھگڑ کر بیٹا اور بیٹا اور بہو کو علیحدہ ہونا ہی پڑتا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ ان تمام خرابیوں سے پہلے ہی ان کو الگ کردیں ۔

----- چاہے کتنی بھی طلاقیں ہوں ۔

----- کتنے بھی گھر اجڑیں ۔

----- کتنے نوجوانوں کی زندگیاں برباد ہوں ۔

---- کتنے بہن بھائی ،بہنوں میں اختلاف وجھگڑے ہوں ۔

کیا تب بھی آپ کا فیصلہ وہی رہے گا ؟

۷۲

اسلامی شریعت نے بھی بہو کے لئے ساس ،سسر کی خدمت کرنے کو حسن سلوک تو کہا ہے لیکن واجب قرار نہیں دیا اور دیور اور جیٹھ کی خدمت تو غیر مناسب بھی ہے اکثر بے پردگی کا اہتمام ہوتا ہے ۔ اور جب یہ سب بہو کے فرائض میں شامل ہی نہیں تو آپ زبردستی خدمت کیسے لیں گے ؟ یہی سوچ فتنے او رفساد کی بنیادیں ہے اور ظلم کی ابتدا ہے ۔

نسخہ نمبر ۴

--{ ہم مزاج بیٹے اور بہو کو ساتھ رکھیں }--

اگر آپ بھی چا ہتے ہیں کہ ایک بیٹا ہمارے ساتھ ہو اور پوتے پوتیوں سے گھر میں رونق ہو تو اس بیٹے کو ساتھ رکھیں جس سے مزاج ملتا ہو ۔اور اس بیٹے اور بہو کو دعائیں بھی دیتے رہیں جو آپ کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔

نسخہ نمبر ۵

--{ کچن تو ضرور علیحدہ ہو }--

اگر مالی حالات یا کسی اور مصلحت سے بہوؤں کو ایک ہی گھر میں رکھنا ہو

۷۳

تو کم از کم اتنا کیجئے کہ ان کے آنے جانے کا راستہ الگ ہو اور کچن تو ضرور علیحدہ ہو ، زیادہ تر آگ چولہے ہی بھڑکتی ہے ۔'

نسخہ نمبر ۶

--{ حسن اخلاق او رخوش دلی سے جتنی چاہے خدمت کروائیے }--

ساس اور سسر خصوصا ساس اگر سلیقہ مند ہو تو بہو کے ساتھ حسن اخلاق او رخوش دلی سے جتنی چاہے خدمت کرواسکتی ہیں ۔ یہ بہو کے لئے سعادت اور ساس وسسر کے اخلاق کی بلندی کی علامت ہے ۔لیکن بہو سے جبر ا خدمت لینا نہ شرعا جائز ہے اور نہ اخلاقا صحیح ہے ۔

بہو کا اکرام اور عزت کرکے دیکھئے آپ حیران ہوں گے کہ وہ آپ کی بیٹی سے بڑھ کر آپ کی خدمت گزار ہوگی ۔

٭ عالم کو عابد پر وہی فضیلت ہے جو چاند کو چودھویں شب میں تمام ستاروں پر ہے اور علماء وارث انبیاء ہوتے ہیں ۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

۷۴

نسخہ نمبر ۷

--{ بہو سے بدگمان نہ ہوں }--

اس کی غلطی دیکھ کر بھی اچھی تاویل کریں ،اپنے خیال کی پرواہ نہ کریں ۔

جب آپ ایسا کریں گے تو گویا شیطان کے منہ پر طمانچہ ماریں گے وہ خبیث خود بخود دور ہوجائے گا ۔

امام صادق (ع) نے فرمایا ہ ےکہ :

"اس ناپاک کے منہ پر طمانچہ مارو ،جب اس کو ماروگے ، اس کی باتوں پر عمل نہ کروگے تویہ خود بخود دفع ہوجائے گا ۔"

اس کے برعکس اگر اس کی باتوں کو اہمیت دیں گے اور بہو سے سوء ظن رکھیں گے تو یہ منحوس شیطان آپ کی فکر اور سوچ پر قابض ہو جائے گا لہذا س کا علاج فقط یہ قرآنی حکم ہے کہ :

"لوگوں سے متعلق بد گمانی سے پر ہیز کرو کیونکہ اکثر گمان گناہ ہوتے ہیں ۔"

اگر آپ نے ظن یا گمان بد سے کام لیا تو گویا قرآن کی مخالفت کی ہے ۔

۷۵

نسخہ نمبر ۸

--{بیٹا اور بہو کے ہر کام میں مداخلت نہ کریں }--

اگر آپ اپنی شادی شدہ اولاد کو سعادت مند دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ ان کے ہر کام میں مداخلت نہ کریں ۔

آپ کو حیوانوں سے سبق لینا چاہئیے کہ وہ اپنے بچوں کی اسوقت تک سرپرستی کرتے ہیں جب تک وہ ان کے محتاج ہوتے ہو۔جو نہی وہ ایک مستقل زندگی گزارنے کے قابل ہوتے ہیں والدین ان کو آزاد چھوڑدیتے ہیں تاکہ وہ اپنی مستقل زندگی گزارنا شروع کردیں ۔یہی بات پرندوں اور دیگر جانوروں بلکہ انسانوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم اس پر عمل نہیں کرتے ۔

جب اولاد کی شادی ہوجائے تو ان کے کاموں میں بے جا مداخلت نہ کریں ۔

٭ جان لو کہ تم علم کے ساتھ ہی خوش نصیبی حاصل کرسکتے ہو ۔(حضرت علی علیہ السلام)

۷۶

نسخہ نمبر ۹

--{ماں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ داماد اور بہو کی طرفداری کریں }--

آیت اللہ مظاہری فرماتے ہیں کہ :

"ہمیشہ صلح وصفائی آپ کا مطمع نظر رہے ۔"

بہو کے ماں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ داماد کی طرفداری کریں اور ساس وسسر کو بہو کی طرفداری کرنی چاہئیے ۔

اگر لڑکی لڑبھڑ کر ماں باپ کے گھر چلی جائے تو لڑکی کی ماں اپنی بیٹی کو لے جاکر داماد کے حوالے کردے اور اس کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ کرباتیں کرے تو داماد کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہو،راضی ہوجائے گا اور اگر ساس وسسر گھر میں بہو کے ساتھ الفت ومحبت رکھیں اور اگر جھگڑا پیدا ہو جائے تو اس کی طرفداری کریں تو بہو خواہ کتنی ہی بری کیوں نہ ہو خود بخود ان کے ساتھ محبت کرنےلگے گی اور جھگڑا فساد ختم ہوجائے گا ۔

امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب (ع) نے اپنی شہادت کے وقت اپنے فرزندوں کو یوں نصیحت فرمائی :

۷۷

" اے میرے فرزندوں ! میں تمہیں تاکید کرتاہوں کہ تقوی کو اپنا شعار بناؤ ،اپنے معاملات کو منظم رکھو اور اپنے درمیان ہمیشہ صلح وصفائی رکھو"۔

کیونکہ میں نے تمہارے جد پیغمبر اسلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا :-

دو افراد کے درمیان صلح کرنا خدا کے نزدیک ایک سال کی نماز اور روزوں سے افضل ہے ۔"

نسخہ نمبر ۱۰

--{ کبھی بھی بہو کی برائی بیٹے سے یا داماد کی برائی اپنی بیٹی سے نہ کریں }--

ان کی خامیوں کی تلاش میں بھی نہ رہیں ۔

بہت سے لوگ خود اپنے اندر اور دوسروں میں اچھائیاں نہیں دیکھ پاتے ان کو ہر چیز منفی صورت میں نظر آتی ہے وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اندر کیسی کیسی خوبیاں ہیں بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے میں کون کون سی برائیاں ہیں ۔

منفی پہلو کی سوچ گویا مکھی کی طرح ہے وہ باغ میں بھی جائے تو ڈھونڈ تی ہے کہ کہیں کوئی گندگی مل جائے تاکہ وہ اس پر بیٹھ سکے ۔

محترم ساس و سسر ،اپنی بہو اور داماد کے پیچھے نہ پڑیں کہ کسی نہ کسی طرح

۷۸

کوئی نقص نکال ہی لوں بلکہ آپ کو ایک بلبل کی طرح ہمیشہ پھولوں پر ہی رہنا چاہئیے ۔آپ کو پھولوں ہی کی تلاش ہونی چاہیے ۔بہو میں اچھائی اور مثبت نقاط کی تلاش کرنی چاہیئے ،آپ اس کی ساری اچھائیاں ایک بد سلوکی کی وجہ سے بھلا دیتے ہیں ۔ اور آپ کا رویہ یکدم بدل جاتا ہے ۔

افسوس! قرآن کا بھی یہی مشہورہ ہے کہ انسان وفادار نہیں ہے ۔

نسخہ نمبر ۱۱

--{معافی کواپنا شعار بنائیں }--

واقعا اگر آپ کی بہو بری بھی ہے ،اور اس نے آپ کے ساتھ کچھ زیادتی بھی کی ہے تو آپ اسے معاف کردیں ۔

کیوں ؟

اس لئے کہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ قیامت میں خدا آپ کو معاف کردے ؟

آپ نے سنا ہوگا کہ قیامت میں کچھ لوگ بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلے جائیں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس دنیا میں عفو ،درگذر اور بخشش سے کام لیتے ہیں ۔

۷۹

نسخہ نمبر ۱۲

--{ جب کوئی تم سے برائی کرے اس کے ساتھ نیکی کرو}--

آیت اللہ مظاہری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گھر میں (بمعہ ترجمہ) لکھ کر ایسی جگہ لٹکا دینی چاہئیے ،کہ گھر کے ہر فرد کی نگاہ اس پر پڑتی رہے

"ویدرون بالحسنة "(سورہ قصص)

"جب کوئی تم سے برائی کرے اس کے ساتھ نیکی کرو"

اے ساس وسسر ! اگر آپ قرآنی احکام پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ کو اس آیت پر بھی عمل کرنا ہوگا ۔یہ آیت لکھ کر ایسی جگہ لٹکا دیں کہ جسے آپ بھی دیکھیں ،بہو بھی دیکھے ،بیٹا بھی دیکھے ،گھر کے بچے بھی دیکھ لیں اور آہستہ آہستہ سب میں معاف کرنے کی طاقت پیدا ہوجائے ۔ اگر آپ اور بہو میں ہم آہنگی نہ ہو تو بھی بخشش اور حسن سلوک سے اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں ۔

٭ علم کی وجہ سے اللہ کے واحد ہونے کا اقرار کیا جاتا ہے علم کے ذریعے صلہ رحم کیا جاتا ہے ۔"

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

کی گئی اور آج تک اہل سنت میں مذاہب اربعہ ہی قابل اعتبار ہیں آخرم یں عثمانیوں نے امام ابوحنیفہ کے مسلک کو شاہی مذہب قرار دیا۔اس کے علاوہ بھی خلفا کے دور میں بہت ہرج مرج ہوتا رہا جن کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں لیکن اس تناقض دینی کا نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑا حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ حکومت بدلنے سے دین نہیں بدلا کرتا یہ ساری خرابیاں صرف اس لئے پیدا ہوئیں کہ خلیفہ کی صلاحیت کے بارے میں اہل سنت کے پاس کوئی ٹھوس نظریہ نہ پہلے تھا،نہ اب ہے اور ظاہر ہے کہ آج بھی خلافت کی جب تک حدیں معین نہ کی جائیں مکمل نہیں مانا سکتا اور خلافت کی تحدید نہٰں ہوسکتی یہ بات طے شدہ ہے چونکہ میں اہل سنت کے مذہب کے بارے میں بہت کم جان سکاہوں اس لئے میں اہل سنت کو اس بات کا ذمہ دار بناتا ہوں کہ وہ اپنے مذہب کی تشریع اور تعارف کرادیں۔

جب اہل سنت حضرات خلیفہ اور نظام خلافت کی واضح تعریف کردیں گے اور اس تعریف کو شرعی دلائل سے مضبوط کریں گے اس حیثیت سے کہ وہ تعریف ان کے لئے معیار بن جائے اور اس کی شرعیت،امامت اور خلافت کے دعوے مٰں ثابت ہوجائے تو پھر ممکن کہ ہم شیعہ سنی دونوں کے نظام حکومت کو سامنے رکھ کے اشتراک کے راستے تلاش کریں اور دونوں کی دلیوں کو ان دلیلوں کے لحاظ سے موازنہ کر کے اور اسنی اور شیعوں کی دلیلوں کے درمیان جہاں ترجیح کا پہلو نکلتا ہے اس پر غور کرکے دونوں کی دلیلوں میں جو قوی تر دلیل ہو جو قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش کی جاسکتی ہے،اسے اختیار کریں۔

ارشاد ہوتا ہے: ( يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ) (۱)

ترجمہ:اس دن کو یاد کرو جس دن ہر شخص اپنی ذات کے بارے میں جھگڑنے کے لئے موجود ہوگا اور ہر شخص کو جو کچھ بھی اس نے کیا تھا پورا پورا بدلہ ملےگا اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائےگا۔

لیکن اگر نظام خلافت کی مذکورہ جہات سے شرعی تعریف ہی نہیں ہوسکے تو پھر ایسا نظام کس

-------------------

(۱)سورہ نحل آیت:۱۱۱

۲۰۱

کام کا اس کے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ شیعہ نظریہ کے مقابلے میں رکھا جاسکے اور موازنہ کیا جاسکے پھر اس کی اسلامی تشریع بھی تو ناممکن ہے۔خلافت و امامت کا مسئلہ ایک شرعی مسئلہ ہے(اور اس موضوع کی تعریف اور اس کا تعارف اگر شریعت کی طرف سے نہیں کیا گیا ہے تو ایک اہم تریں موضوع سے چشم پوشی برتی گئی ہے بلکہ اپنے موضوع کو ناقص رکھا گیا ہے جس کا لگاؤ ملت کے مستقبل سے ہے،اگر ہم یہ مان لیں کہ خلافت اور امامت کا تعارف اور تعریف دین میں موجود نہیں ہے تو پھر مندرجہ ذیل خرابیاں سامنے آتی ہیں)(۱)

۱۔پہلی بات تو یہ ہے کہ دین ہی ناقص ہے اور شارع اقدس کی طرف سے ایک شرعی موضوع کی تعریف کی گئی اور نہ امت کے سامنے اس کی وضاحت کی گئی ہے اس لئے کہ امامت کے لئے کچھ شرعی احکام بھی وارد کئے ہیں۔

امامت ایک شرعی موضوع ہے اس کو ثابت کرنے کے لئے یہ ہم پہلے مان چکے ہیں کہ امام کا وجود واجب ہے امام کی اطاعت واجب ہے جو امام پر خروج کرے اس سے جنگ واجب یہ سب کیسے ادا ہوں گے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ شارع اقدس نے اس موضوع کی وضاحت نہیں کی اور ظاہر ہے کہ یہ دین کا نقص ہے شریعت کی کمزوری ہے اور اسلام عظیم ان کمزوریوں سے پاک ہے بلکہ دین کو ناقص چھوڑ دنیا خدا کے اس قول کی مخالفت ہے کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے: (أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) (۲)

ترجمہ:آج ہم نے تمہارے دن کو کامل کردیا اپنی نعمتیں تم پر تمام کیں اور تمہارے اسلام دین کو پسند کرلیا،یہ آیت بتارہی ہے کہ دین کامل ہوچکا ہے۔

۲۔نظام سلطنت کے بارے میں شریعت کی خاموشی بہت سی مشکلات پیدا کرےگی مثلاً

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مترجم

(۲)سورہ مائدہ آیت۳

۲۰۲

نظام میں خلل،امامت کے مختلف دعویداروں کی سرکشی،خواہشات نفس کی طغیانی اور ان خرابیوں سے جو خرابیاں پیدا ہوں گی وہ بھی بے حد خطرناک ہیں،مثلاً مسلمانوں کی ہتک حرمت،فساد کا انتشار،جان اور مال کا ضائع ہونا(جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ماحول پیدا ہوجائےگا)(مترجم)حلانکہ ملت اسلامیہ ان تمام بری حالتوں کو جھیل چکی ہے،اسلامی تاریخ کی کتابیں اس بات کی شاہد ہیں۔

اور کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ دنیا کو ایک نظام حکومت بھی دےدے،خلافت کے منصب کا تعارف بھی کرادے اور خلیفہ کے معین کرنے کا طریقہ نہ بتائےجب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے قوانین کو وضع کرنےوالے نظام سلطنت کی تشریع اور قوانین پر سب سے زیادہ توجہ دیتے ہیں تا کہ قانونی نقص سے محفوظ رہ سکتے پھر اللہ اور اس کا رسول اتنے اہم موضوع کو مہمل کیسے قرار دےگا جبکہ مذکورہ خرابیوں سے بچنے کا قانون نے ہت زیادہ اہتمام کیا ہے خاص طور سے حکومت اور خلافت کا اسلامی قانون میں ایک بلند مرتبہ ہے اور مقدس مقام ہے یہاں تک کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام وقت کی معرفت ضروری ہے اور اس کی بیعت واجب ہے،جو بغیر معرفت امام کے مرجاتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے جیسا کہ آنےوالے صفحات میں ہم عرض کریں گے مسلمانوں کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ امام کی طاعت واجب ہے اس کے خلاف خروج حرام ہے امام کے خلاف خروج کرنےوالا باغی ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسے شخص سے جنگ کریں۔

سرکار حجۃ بن الحسن العسکری المہدیؑ کے سلسلے میں مذہب شیعہ کی حقانیت پر چند دلیلیں

اب ہم امام مہدی علیہ السلام کی طرف واپس آتے ہیں عرض ہے کہ مہدی کی امامت خود ہی وجود مہدی کا مطالبہ کرتی ہے اور اگر چہ حضرتؑ کی ذات گرامی،عمارت امامت کی آخری انیٹ ہے گویا کہ رسالہ امامت کا وہ آخری حصہ ہے جہاں پر مہر لگائی جاتی ہے،پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ شیعوں

۲۰۳

کے پاس نظام امامت کی ٹھوس واضح اور مظبوط دلیلیں کثرت سے موجود ہیں لیکن یہی دو باتوں پر توجہ دلائی جارہی ہے،پہلے حضرت حجۃؑ کا وجود اور دوسرے آپ کی امامت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف۔

امام کی معرفت واجب ہے اور اس کے حکم کو بھی ماننا واجب ہے

حضور سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی حدیثیں وارد ہیں۔جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(۱) جو بغیر امام کے مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(۲) جو اس حال میں مرجائے کہ کسی امام کی امامت میں نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے(۳) جو کسی امام کی امامت میں نہ مرے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(۴)

جو مرجائے اور اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ینابیع المودۃ ج:۳ص:۳۷۲،طبقات الحنیفۃ ص:۴۵۷

(۲)مسند احمدج:۴ص:۹۶،معاویہ ابن ابی سفیان کی حدیث میں،حلیۃ الاولیاءج:۳ص:۲۲۴زید بن اسلم کے حالات میں،معجم الکبیرج:۱۹ص:۳۸۸،جس میں شریح بن عبید نے معاویہ سے روایت کی ہے مسند الشامین ج:۲ص:۴۳۸،ضمضم میں شریح بن عبید،مجمع الزوائدج:۵ص:۲۱۸،کتاب الخلافۃ،لزوم جماعت اور طاعت ائمہ اور ان سے قتال کے نہی ہونے کے بارے میں

(۳)السنۃ بن ابی عاصم ج:۱ص:۵۰۳،امیر کے وقار و عزت کے فضل کے باب میں،مسند ابی یعلی ج:۱۳ص:۳۶۶معاویہ بن ابی سفیان کی حدیث میں

(۴)مجمع الزوائدج:۵ص:۲۲۴،کتاب الخلافۃ،لوگوں کے ساتھ رہنے اور امت سے خروج اور اس کے قتال کی نہی کے باب میں،مجروحین ج:۱ص:۲۸۶،حلیج بن دعلج کے حالات میں

(۵)صحیح مسلم ج:۳ص:۱۴۷۸،کتاب الامارۃ:باب وجوب ملازمت جماعت مسلمین،سنن الکبریٰ بیہقی ج:۸ص:۱۵۶،کتاب قتال اہل بغی،جماع ابواب الرعاۃ باب الترغیب،تفسیر ابن کثیرج:۱ص:۱۵۸،آیت:۵۹،کی تفسیر میں سورہ آل عمران،مجمع الزوائدج:۵ص:۲۱۸،کتاب خلافت باب لزوم جماعت و اطاعت ائمہ اور نہی قتال کے بارے میں،کبائر للذھبی ص:۱۶۹،السنۃ ابن ابی عاصم ج:۲ص:۵۱۴باب عزت و توقیر امیر کے بارے میں معجم الکبیرج:۱۹ص:۳۳۴،اور اسی طرح یہ روایت شیعہ مصادر میں بھی وارد ہوئی ہے،کافی جؒ:۱ص:۳۷۶،کتاب حجت باب من مات و لیس من ائمۃ الہدی،حدیث۱۔۲۔۳،ص:۳۷۸کتاب حجت:باب مایجب علی الناس عند مضٰی الامام حدیث۲ اور ص:۱۸۰کتاب حجت باب معرفت امام ص:۳۷۴،کتاب حجت باب من دان اللہ عز و جل بغیر امام من اللہ،بحارالانوارج:۲۳،ص:۷۶۔۹۵باب معرفت امام

۲۰۴

اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہے،ہر دور میں ایک امام موجود رہتا ہے جس کی اطاعت لوگوں پر واجب ہوتی ہے اس لئے کہ اس کی امامت،شرعی اصولوں پر ہوتی ہے اس سلسلے میں خداوند عالم کا یہ قول بھی ہے کہ: (يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ) (۱)

ترجمہ:قیامت کے دن ہم لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ پکاریں گے۔

حالانکہ کچھ لوگوں نے اس آیت میں امام سے نبی مراد لیا ہے،یعنی ہر امت اپنے اپنے نبی کے ساتھ بلائی جائےگی،لیکن امام کا اطلاق نبی کے لئے آیت کے ظاہر معنی کے خلاف ہے اس لئے کہ عرف عام میں امام اس کو کہتے ہیں جو دینی اور دنیاوی امور مٰں ان کی امامت کرتا ہے اور لوگ اسی کی اطاعت کرتے ہیں جبکہ نبی اپنے زمانے میں اپنی امت کا امام ہوتا ہے نبی کے مرنے کے بعد دوسرا نبی آتا ہے جو امت کا امام اور قابل پیروی ہوتا ہے،آیت میں امام تذکرہ ہے حدیث میں بھی امام کا تذکرہ ہے اس لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ حدیثیں آیت کی تشریح کررہی ہیں اور امام سے وقت کا امام مراد ہے اگر اس بات کو نہ بھی مانا جائے تو جن حدیثوں کو پیش کیا گیا ہے وہ بہرحال اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہے،ایسا امام جس کی بیعت لوگوں پر واجب ہے اس لئے کہ اس کی امامت شرعی ہے اور یہی حدیثیں اور آیتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ مذہب شیعہ کا قول بالکل صحیح ہے کہ امام مقرر کرنا اللہ کی ذمہ داری ہے اور امام کو منصوص من اللہ ہونا چاہئیے امام اس بات کا ہرگز محتاج نہیں ہے کہ لوگ اس کو امام مانیں اور اس کی بیعت کریں اور اطاعت کریں اس لئے کہ وہ اللہ کی طرف سے امام بنایا گیا ہے،گذشتہ صدی میں تو یہ بات بالکل واضح ہوگئی اس لئے کہ۱۳۴۲؁کے بعد اہل سنت نے اپنا بنایا اور اس کی بیعت کرنا بالکل چھوڑ دیا،اس لئے کہ مذکورہ سال میں ترکستان میں خلافت عثمانیہ ساقط ہوگئی،(اب اس دور میں

------------------

(۱)سورہ اسراء:آیت:۷۱

۲۰۵

کوئی خلیفہ یا امام موجود نہیں ہے تو پھر مذکورہ حدیثوں کے مطابق کیا مسلمان جاہلیت کی موت مررہے ہیں مترجم)جبکہ حدیثیں کہتی ہیں کہ ہر دور میں اور اس دور میں بھی ایک امام ہے جو واجب الطاعۃ ہے ماننا پڑےگا کہ امام موجود ہے اور وہی امام مہدی ہیں اس لئے کہ اس دور میں ہم دونوں ہی کے پاس سوائے امام مہدی کے کوئی امام نہیں ہے اور نہ کسی کی امامت کا احتمال ہے۔

بارہ امام قریش سے ہیں

۲۔سرکار دو عالم سے کثیر تعداد میں ایسی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جن میں اس امت کے اماموں کو شمار کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امام سارے کے سارے قریشی ہیں۔یہ حدیثیں بہت سے طریقوں سے مروی ہیں،جن کو اکثر اہل سنت نے صحیح قرار دیا ہے بلکہ بغوی تو کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں متفق علیہ ہیں۔(۱)

لطف کی یہ بات یہ ہے کہ یہ ساری حدیثیں مذہب امامیہ کے عقیدے کے مطابق ہیں،اس لئے کہ شعیوں کے نزدیک بارہ امام ہیں جن کے پہلے مولائے کائنات امیرالمومنین علیؑ ہیں اور آخری امام مہدی منتظر عجل اللہ فرجہ،مری سمجھ میں کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان حدیثوں سے آئمہ اہل بیت کو مراد نہ لیا جائے،اگر کوئی وجہ سمجھ میں آتی ہے تو اہل سنت کا امامت کے بارے میں وہ عقیدہ ہے جس میں خلافت کو شرعی حیثیت دینے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے بنائے ہوئے خلفا کی حرکتوں نے ان کی دلیلوں کا تیاپانچہ کردیا ہے چونکہ ان کے خلفا کے کردار مذکورہ حدیثوں کےمطابق نہیں تھے اس لئے انہوں نے حدیثوں کی توجیہ کی اور پھر اس توجیہ پر باقی نہیں رہے،بعض حضرات نے تو ایسی توجیہات کی ہیں جن کی کمزوری روز روشن ظاہر ہے۔(۲)

انہوں نے زبردستی اور ہٹ دھرمی سے اپنی بات کو ثابت کرنا چاہا ہے حالانکہ منطق کا تقاضا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح السنۃ ج:۱۵ص:۳۰۔۳۱،دلیل متحرین فی بیان الناجین ص:۲۲۶سے نقل کیا گیا ہے

(۲)فتح الباری ج:۱۳ص:۲۱۱۔۲۱۵

۲۰۶

ہے کہ واقعات کو دلیل کے مطابق ہونا چاہئیے،حیثیت طے کرنی چاہئیے اس لئے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے((حق کو پہچانو اہل حق سمجھ میں آجائیں گے))پھر دلیلوں کو توڑ مروڑ کر واقعات کے مطابق کرنا اور واقعات کے ہاتھ میں دلیل کا فیصلہ دے کے ان واقعات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلیلوں کی توجیہ کرنا بے معنی بات ہے،مذہب شیعہ کا عقیدہ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ ہے اس کی صحت پر دلیل دینے میں بس اسی منزل پر اکتفا کی جاتی ہے۔

جب امامت کے مباحث میں گفتگو کی جائےگی اور شیعہ دلیلیں اس سلسلے میں پیش کی جائیں گی تو باقی باتیں بھی ہوجائیں گی خاص طور سے ابھی سرکار حجۃ بن العسکری المہدیؑ کے بارے میں بہت سی باتیں رہ گئی ہیں،اسی لئے شیعوں نے حضرت حجۃؑ کے موضوع پر بہت زیادہ گفتگو کی ہے یہاں تک کہ بعض علما نے تو اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں،جو چاہتا ہے کہ حقیقت کا پتہ چلائے اور اللہ کے سامنے مسئولیت سے بچے،اس کو چاہئیے کہ ان کتابوں کا مطالعہ کرے اور ان کو پڑھ کر غور و فکر کرے اس لئے کہ خدا کی طرف سے توفیق ملتی ہے اور اسی کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے۔

۲۰۷

۲۰۸

سوال نمبر۔۵

نصب امام کے سلسلے میں شیعہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ خدا پر واجب ہے کہ وہ بندوں پر لطف و کرم کرے اور لوگوں کے درمیان عدل کا جاری رہنا اس کا لطف ہے اور یہ عدل امام کے ذریعہ ہی قائم ہوسکتا ہے اس لئے خدا پر واجب ہے کہ وہ نصب امام کرے لیکن آج کے دور میں جبکہ لوگوں کے درمیان کوئی امام عادل نہیں ہے کیا یہ دلیل صحیح نہیں ہوجاتی؟(یعنی امام عادل نہیں اور عدل لطف الہی ہے تو اب دنیا لطف الہی سے محروم ہے)

جواب:سب سے پہلے ضروری ہے کہ لطف الہی کی تشریح کردی جائے وہ لطف الہی جس کی بنیاد پر شیعہ کہتے ہیں کہ نصب امام خدائے متعال پر واجب ہے۔

پہلے یہ عرض کردای جائے کہ لطف الہی سے کیا مراد ہے؟پھر اس دلیل کے بارے میں طے کیا جائے کہ دلیل ابطال کے لائق ہے یا نہیں؟

لطف الہی کے قائد کی شرح اور اس کی تعریف

عالم بشریت کے لئے لطف الہی کے قائدہ کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انسان ذاتی طور پر ناقص ہے اپنے اچھے برے کو نہٰں جانتا فساد،شر اور ظلم سے معصوم نہیں ہے بلکہ کبھی کبھی صلاح و فساد کے

۲۰۹

درمیان تنازع ہوتا ہے خیر و شر،ظلم و عدل کو نہیں سمجھتا اس لئے ایک امام معصوم کا بہرحال محتاج ہے جو عالم انسانیت کو خیر و عدل پر جمع کرسکے اور شر و فساد و ظلم سے دور رکھے،خدا کی حکمت اور اس کی رحمت کا تقاضہ یہ ہےکہ وہ بندوں پر رحم کرے،اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا ایک امام معصوم کو منصوب کرے اور پھر ٹھوس دلیلوں اور وضح نشانیوں کے ساتھ عوام کے سامنے اس امام کو معارف کرے شاید اسی کی طرف قدرت کا اشارہ ہے۔

ارشاد ہوتا ہے کہ: (وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ) (۱)

ترجمہ:انہوں نے خدا کی جس میں قدر چاہئیے تھی نہیں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بشر پر کچھ نہیں نازل کیا۔

چونکہ انسان ہر دور میں ہدایت کا محتاج ہے اس لئے کہ وہ ہر وقت ناقص ہے اس لئے امام کا وجود ہر دور میں ضروری ہے اور امام کی ضرورت نبیؐ کے ذریعہ پوری نہیں ہوسکتی اس لئے کہ نبیؐ تو اپنے دور کا امام ہوگا لیکن نبیؐ کی وفات کے بعد ضرورت باقی رہےگی اور ضرورتوں کو پورا کرنےوالا مفقود ہوگا،ایسی صورت میں نبیؐ کے بعد امت میں اختلاف پیدا ہوجائےگا شر و فساد پیدا ہوجائیں گے اور امت کے کچھ لوگ اللہ کی اطاعت سے خروج کا اعلان کردیں گے دین کے علوم ضائع ہوں گے اور امت انتشار کا شکار ہوجائےگی لطف الہی کے قاعدہ کا یہی فائدہ ہے کہ عوام کی شرعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے امام کا ہونا ضروری ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ پھر امام کو تسلط و اختیار حاصل ہونا چاہئے اور زمانہ کا اقتدار امام کے ہاتھوں میں کردینا خدا کے اوپر واجب ہے کہ وہ بندوں کو امام کا حکم ماننے پر اس کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کرے اس لئے کہ یہ صورت حال تو بہت کم حاصل ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ تاریخ کے ان مختصر زمانوں کو مقام مثال میں پیش نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس مطلب یہ ہے کہ خدا کے اوپر نصب امام واجب ہے تا کہ انسان کی نفسانی کمزوریوں کے علاج کا ایک ذریعہ موجود رہے اور وہ امام وقت سے متعارف رہیں تا کہ ان پر واجب حجت تمام کی جاسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انعام آیت:۹۱

۲۱۰

(لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ)(۱)

ترجمہ:جو ہلاک ہو دلیل کی بنیاد پر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل کی بنیاد پر زندہ رہے۔

پھر اس کے بعد عوام کو اختیار ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے منصوب امام کو مانے یا نہ مانے اگر لوگ خدا کی نعمت کا شکریہ ادا کرکے امام کی اطاعت کرتے ہیں تو ان کے امور کی اصلاح ہوجائےگی اور ان کے درمیان خیر و عدل عام ہوجائےگا جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ: ( وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ-وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌوَ كَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ) (۲)

ترجمہ:اور اہل کتاب ایمان لاتے اور(ہم سے)ڈرتے تو ہم ضرور ان کے گناہوں سے درگذر کرتے اور ان کو نعمت و آرام(بہشت)کے باغوں میں پہنچادیتے اور یہ لوگ تو ریت اور انجیل اور جو(صحفے)ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کئے گئے تھے(ان کے احکام کو)قائم رکھتے تو ضرور(ان کے)اوپر سے بھی(رزق برس پڑتا)اور پاؤں کے نیچے سے بھی(ابل آتا اور یہ خوب چین سے)کھاتے ان میں سے کچھ لوگ تو اعتدال پر ہیں،مگر ان میں کے بہتر جو کچھ کرتے ہیں برا ہی کرتے ہیں۔

اگر مسلمان خدا کا کفران نعمت کرتے ہیں اور امام وقت کی مخالفت کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ انہیں اپنے اعمال کا مزہ چھکنا پڑےگا اور ان کے درمیان ظلم و فساد عام ہوجائےگا اس لئے کہ خدا فرماتا ہے:( مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ) (۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انفال آیت:۴۲(۲)سورہ مائدہ آیت:۶۵۔۶۶

(۳)سورہ نساءآیت:۷۹

۲۱۱

ترجمہ:تمہیں جو اچھائیاں ملتی ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہیں اور تم جو برائیاں جھیلتے ہو یہ تمہارے نفس کے اعمال کا نتیجہ ہے.

اللہ پر کوئی حجت نہیں ہے اس لئے کہ اس نے عوام پر لطف و کرم کیا تھا کہ امام مقرر کردیا اور سیدھے راستے کی ہدایت کردی اب یہ ان کی غلطی تھی کہ انہوں نے خدا کے معین کردہ امام کو چھوڑ کر اپنی طرف سے ایک ایک امام بنالیا اور اپنی غلطیوں کا ذمہ دار بھی اس کو ٹھرادیا اور اپنے گناہ بھی اسی پر لاد دیئے۔

خداوند عالم اگر اسی گمراہی میں بندوں کو چھوڑ دے یعنی ان کے لئے کوئی ایسا امام نہ بنائے جو ان کے درمیان ہدایت کرنےوالا ہے اور ان کے حالات کے مطابق انہیں ہدایت پر مضبوطی سے قائم رکھنےوالا ہے تو یہ بندوں کی حق تلفی ہوگی اور اللہ کے لطف کے خلاف ہوگا عوام کی ہدایت و اصلاح کے لئے ان کو شریعت کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ ناکافی ہوگا بلکہ بندے خدا پر حجت قائم کردیں گے کہ ہماری ہدایت کا انتظام نہیں کیا گیا اور اللہ ان باتوں سے بہت بلند ہے اس لئے کہ خداوند اپنی کتاب پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ۰أَن تَقُولُواْ إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَآئِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ ۰أَوْ تَقُولُواْ لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ فَقَدْ جَاءكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِآيَاتِ اللّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يَصْدِفُونَ(۱)

ترجمہ:ہم نے اس کتاب مبارک کو نازل کیا پس تم اس کی پیروی کرو اور پرہیزگار بنوتا کہ تم پر رحم کیا جائے(تا کہ تم یہ نہ کہہ سکو)کتاب ہمارے پہلے دو گروہوں(یہود و نصاری)پر نازل کی گئی مگر یہ کہ ہم انکی تعلیمات سے غافل رہے یا یہ(نہ کہو)کہ وہ کتابیں ہم پر نازل ہوتیں تو ہم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے اب تو تہمارے پروردگار کی طرف سے خود ہی دلیل آگئی اور ہدایت و رحمت بھی..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انعام آیت۱۵۵۔۱۵۶۔۱۵۷

۲۱۲

(تو قاعدہ لطف)امامت کے معاملے میں بھی اس طرح جاری ہے جس طرح دوسرے احکام کے بارے میں جیسے واجبات،محرمات اور آداب و غیرہ میں۔

قائدہ لطف کا تقاضہ یہ ہے کہ چونکہ لوگ اپنی جہالت اور محتاجی کی بنیاد پر قاصر ہیں اس لئے اللہ پر واجب ہے کہ ان پر لطف و کرم کرے ان کے لئے ایک ایسا نظام وضع کردے جن سے ان کے امور کی اصلاح ہوجائے ان کے معاد و معاش اور خود خدا سے رابطہ اور ان کی آپسی معاشرت کو قانونی حیثیت مل جائے لیکن قاعدہ لطف اس بات کا تقاضہ نہیں کرتا کہ اللہ اس قانون کو نافذ کرنے کے لئے مناسب ماحول بھی تیار کرے اور ان پر زبردستی ان کے احکام لادے،تا کہ وہ خیر و صلاح کے راستے میں کامیاب ہوسکیں اور شر و فساد سے دور رہ سکیں بلکہ خدا پر صرف یہ واجب ہے کہ وہ ایسے احکام جو بندوں کے لئے صالح ہوں ان کا ایک نظام ان کے سامنے رکھ دے جبکہ اس نظام کو اختیار کرنے کا حق بندوں کو دےدے جس کی طرف سورہ دہر کی ابتدائی آیت میں۔

ارشارہ کیا ہے:(إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا) (۱)

ترجمہ:ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا اب چاہے وہ شکر کرے چاہے وہ کفران نعمت کرے۔

پس جو خدا کی اطاعت کرےگا اور اور ان احکام پر عمل کرےگا وہ کامیاب اور خوش بخت ہوگا اور جو نافرمانی کرےگا اور ان احکام سے منہ موڑ لےگا وہ بدبخت اور نقصان اٹھانےوالوں میں ہوگا اور اس کی خدا پر کوئی حجت نہیں ہے۔

لطف الہی کا اصول صرف مذہب امامیہ کا نظریہ ماننے پر ہی ٹوٹےگا

میں نے لطف الہی کے اصول کی وضاحت کردی اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف امامیہ مذہب کے قائل ہونے پر ہی اس اصول کو مانا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انسان آیت:۳

۲۱۳

اس لئے کہ اس دور میں بھی شیعہ فرقہ بارہویں امام کے وجود کا قائل ہے جو حضرت حجت ابن الحسن صلوۃ اللہ علیہ کی ذات مقدس ہے الحمداللہ وہ بالفعل موجود ہیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں آپؐ جسمانی اعتبار سے موجود ہیں اور اپنی قدرت کا استعمال کررہے ہیں،بلکہ آپ کا وجود مبارک قاعدہ لطف الہی پر ایک ٹھوس دلیل ہے۔

کوئی یہ نہ سمجھے کہ جب آپؐ کو سلطنت او اقتدار ہی حاصل نہیں ہے اور آپؐ اس دور میں عدالت قائم ہوگا جب دنیا چاہےگی اور اس کی ضرورت محسوس کرےگی،اس سے آپؐ کی امامت پر نہیں فرق آتا اور نہ خدا چاہےگی اور اس کی ضرورت محسوس کرےگی،اس سے آپؐ کی امامت پر نہیں فرق آتا اور نہ خدا کے فضل اور اس کی تشریع میں کوئی کمی ثابت ہوتی ہے بلکہ آپ کی حالت آپؐ کے آباء کرام علیہم السلام سے مختلف نہیں ہے جن کی سلطنت اور اقتدار کے درمیان اس دور کے ظالم لوگ حائل ہوگئے اور انھیں امور کی قیادت اور لوگوں کے درمیان عدالت قائم کرنے سے روک دیا،بلکہ آپؐ کے حالات اور اکثر انبیاء کے حالات ملتے جلتے ہیں،اس لئے کہ حضور بھی عام عالم انسانیت کے درمیان عدالت کا نفاذ نہیں کرپائے اس لئے کہ آپؑ کی عمر نے وفا نہیں کی امام مہدی کی غیبت اور آپؑ کی امامت پر کوئی الزام نہیں آتا نہ یہ کہ آپؑ ایسے امام ہیں جو امامت کی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہیں اور نہ قائدہ لطف الہی پر کوئی الزام آتا ہے بلکہ آپؑ کی امامت میں اور بر سر اقتدار آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ ماحول ہے جو آپؑ کے اردگرد پایا جاتا ہے۔

وہ ماحول جس کا نتیجہ فاسد سماج اور ظالم حکومتوں کا قیام ہے دوسری رکاوٹ خود عالم انسانیت کی غیر ذمہ داری ہے کہ انسان اس فرض اطاعت کو ادا نہیں کرتا ہے جو حق ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے بلکہ ہوں سمجھ لیجئے کہ جس طرح آپؑ کے آباء طاہرین جناب ابوابراہیمؑ،حضرت موسیؑ بن جعفر الکاظم علیہ السلام،ابوالحسینؑ علی ابن محمد الہادی النقی علیہ السالم اور ابومحمد العسکری علیہ السلام نے قیدخانے میں زندگی گذاری اسی طرح آپؑ غیبت میں زندگی گذار رہے ہیں مذکورہ حضرات میں اور آپؑ کی

۲۱۴

غیبت میں اگر فرق ہے تو بس اتنا کہ وہ حضرات جبری طور پر ظالموں کی قید میں ڈال دئیے گئے تھے آپؑ نے ظالموں کی طرف سے خوف جان کی وجہ سے غیبت اختیار کررکھی ہے ابھی ماحول آپؑ کے ظہوار کے لئے سازگار نہیں ہے اور آپؑ کی غیبت کی دوسری مصلحتیں بھی ہیں،جن کا علم اللہ کو ہے یعنی غیبت میں آپؑ کی امامت کا قصور نہیں ہے بلکہ خدا کی مصلحت کا تقاضہ ہے،جس دن یہ اسباب ختم ہوجائیں گے اس دن آپؑ انشاءاللہ ظاہر ہوں گے اور لوگوں سے اپنے نفس کو پوشیدہ نہیں کریں گے پھر آپؑ کی امامت اپنے فرائض کو جو اللہ کی طرف سے عائد کئے گئے ہیں اور مقام سلطنت میں حاصل ہوں گے پورا کرنے میں کوتاہی نہیں کرےگی،آپؑ کے اندر عدل و انصاف کو قائم کریں گے اور تمام امور کو اپنے طور پر جاری کریں گے(انشاءاللہ تعالی)

حاصل کلام یہ ہےکہ آپؑ کی اور آپؑ کے آبائے طاہرین علیہم السلام کی امامت کی شرعی حیثیت قائدہ لطف الہی کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے،بالفعل جو عدل و انصاف آپؑ کی طرف سے نہیں قائم ہو پارہا ہے وہ اس لئے کہ انسانی سماج آپؑ کی امامت کے مزاج کے مطابق نہیں ہے آپؑ کی امامت کے قیام میں جو رکاوٹیں وہ لوگوں کی تقصیر اور مداخلت بےجا کا نتیجہ ہیں جو پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے قاعدہ لطف الہی ان موانع کو دور کرنے کا ذمہ دار نہیں ہے۔

جب آپ کے سامنے ساری باتیں رکھ دی گئیں تو پھر آپ اپنے اس قول پر غور کریں(کیا اس زمانے کے امام کا عدل سے خالی ہونا قاعدہ لطف الہی سے نہیں ٹکراتا)اگر امام کو غیر موجود سمجھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ابھی کوئی اور یہ زمانہ یا کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں ہے لہذا قاعہ لطف نہ ٹوٹتا ہے اور نہ باطل ہوتا ہے اور اگر امام کے غیر موجود ہونے سے آپ کی یہ مراد ہے کہ امام کو نہ سلطنت و اقتدار ہے اور نہ اقامہ عدل ہورہا ہے تو یہ قاعدہ لطف الہی کے منافی نہیں ہے کیونکہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ امام صالح کی امامت میں عدل کو قائم کرنے کے لئے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے اور سلطنت کا حاصل نہ ہونا بالفعل اقامہ عدل میں بڑی رکاوٹ ہے اور شیعوں کا لطف الہی کی بنیاد پر امامت کا استدلال کسی بھی طرح ساقط نہیں ہوتا۔

۲۱۵

۲۱۶

سوال نمبر۔۶

حدیث عترت سے مولا علیؑ کی امامت کا وجود کیسے ثابت ہوسکتا ہے؟کیا ممکن ہے کہ حدیث عترت سے سمجھا جائے کہ سرکار صحابہ کو اہل بیتؑ کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کررہے ہوں اور صحابہ کو اہل بیتؑ کی طرف متوجہ کررہے ہوں اور اس حدیث کو خلافت پر نس نہ سمجھا جائے؟

جواب:آپ کے اس سوال کے جواب میں کچھ امور پیش کئے جارہے ہیں جو ایک دوسرے پر مرتب ہیں۔

۱۔عرض ہے کہ یہ حدیث کثیر طریقوں سے اور قریب المعنی الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے حضور سرور کائناتؐ نے اس حدیث کو مختلف موقعوں پر ارشاد فرمایا ہے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس منزل میں موقعہ پر کچھ ثبوت پیش کروں جن کے ذریعہ یہ حدیث وارد ہوئی ہے اور جو بعض طریقوں سے شامل ہیں تا کہ مجھے اپنی بات ثابت کرنے میں آسانی ہو۔

حدیث ثقلین کے کچھ متن حاضر ہیں

الف:جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ ایام حج میں عرفہ کے دن میں نے سرکار کو خطبہ دیتے ہوئے سنا اس وقت آپ اپنے ناقہ پر سوار تھے اور میں نے سنا کہ حضورؐ فرما رہے تھے اے لوگو!میں تمہارے درمیان چھوڑ دی ہیں اللہ کی کتاب اور میری عترت(اہل بیتؑ)جس کو پکڑے رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سنن ترمذی،ج:۵،ص:۶۶۲،کتاب مناقب،باب مناقب اہل بیتؑ نبیؐ

۲۱۷

ب:زید بن ارقم اور ابوسعید کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا:میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ جب تک تم ان سے تمسک رکھوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ان میں ہر ایک،ایک،دوسرے سے عظیم تر ہے اللہ کی کتاب ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور میری عترت جو میرے اہلبیتؑ ہوئے ہیں اور یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گے،یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے پھر دیکھو کو میرے بعد تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو...؟(۱)

ج:زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور ہادی برحق مکہ اور مدینہ کے درمیان اس جگہ اترے جہاں پانچ بڑے اور سایہ دار درخت ہیں۔لوگوں نے درخت کے نیچے جھاڑو دیکر صاف کردیا پھر سرکارؐ نے وہاں رات کو قیام کیا اور عشا کی نماز پڑھی،پھر آپ خطبہ دینے کھڑے ہوئے،آپؑ نے خدا کی حمد و ثنا کی اور جب تک خدا نے چاہا وعظ و پند اور ذکر و تذکر کرتے رہے پھر فرمایا لوگو!میں تمہارے درمیان دو امر چھوڑ کے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کی پیروی کرتے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے وہ دو امر کتاب خدا اور میرے اہل بیتؑ میری عترت ہیں۔(۲)

د:ابوسعید خدی نبیؐ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا مجھے لگتا ہے کہ خدا کی طرف سے مجھے بلایا جائے گا اور میں جواب دوں گا(میں وفات پا جاؤں گا)اس لئے میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں خدائے عز و جل کی کتاب اور میری عترت اہل بیتؑ۔

کتاب خدا ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے۔

لطیف و خبیر خدا نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں بھی ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں پر تم غور کرو کہ میرے بعد ان کے ساتھ تم کیا سلوک کرتے ہو۔؟(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سنن ترمذی ج:۵،ص:۶۶۳،کتاب مناقب،باب اہل بیت نبیؐ

(۲)مستدرک علی صحیحن،ج:۳،ص:۶۱۸،کتاب معرفت صحابہ میں مناقب امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ

۲۱۸

(۳) مسند احمد،ج:۲،ص:۱۸،مسند ابی سعد خدری میں،طبقات کبریٰ،ج:۲،ص:۱۹۴،میں جس میں رسولؐ کی وفات کے قریب کی چیزیں ذکر ہوئی ہیں------ ھ:زید بن ثابت سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا!میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب((جو آسمان سےزمین تک پھیلی ہوئی رسی ہے))اور دوسرے میری عترت،میرے اہل بیتؑ اور یہ دونوں بھی ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔(۱) ----و:ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ سرکارؐ نے فرمایا میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ان میں ہر ایک،ایک دوسرے سے بڑی ہے ایک اللہ کی کتاب((جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے))اور دوسرے میری عترت اہل بیتؑ اور سنو یہ دونوں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے،(۲) یہ وہ قریب المعنی الفاظ ہیں جن میں یہ حدیث،بہت ساری مشہور و معروف کتابوں میں وارد ہوئی ہے۔(۳)

حدیث ثقلین دلالت کرتی ہے کہ عترتؑ کی اطاعت واجب ہے

۲۔متن حدیث کے الفاظ میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی ہے کہ حدیث کو محض ایک وصیت سمجھا جائے جس میں سرکارؐ اہل بیتؑ کی محبت،ان کا احترام،ان کی تعظیم،ان کی طرف نگاہ توجہ اور ان کے حقوق کی رعایت کا حکم دےرہے ہیں بلکہ حدیث کے الفاظ پکار رہے ہیں کہ نبیؐ و اہل بیتؑ کی اطاعت اور ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسند احمد،ج:۵،ص:۱۸۱۔۱۸۹،حدیث زید بن ثابت میں جو نبیؐ سے نقل کی ہے(۲)مسند احمد،ج:۳،ص:۵۹،مسند ابی سعید خدری کے مسند میں

(۳)تفسیر ابن کثیرج:۴،ص:۱۱۴،مجمع الزوائدج:۹،ص:۱۶۲۔۱۶۵،کتاب مناقب اہل بیتؑ،سنن کبریٰ نسائی،ج:۵،ص:۴۵،مصنف بن شیبہ،ج:۶،ص:۳۰۹،کتاب الفضائل باب مااعطی اللہ محمد معجم الاوسط،ج:۳،ص:۳۷۴،معجم صغیر،ج:۱،ص:۲۲۶،مسند ابی یعلی ج:۲ص:۲۹۷،مسند ابی الجعدج:۱ص:۳۹۷،سنۃ ابن ابی عاصم ج:۲ص:۳۵۱،باب ما ذکر عن النبیؐ انہ و عد من تمسک بامرہ و رود حوضہ و نوادر الاصول فی احادیث الرسول،ج:۱ص:۲۵۸،الاصل الحمسون فی الاعتصام بالکتاب والعترۃ،سیرہ اعلام النبلاءج:۹ص:۳۶۵،حالات ہارون بن یزید میں

۲۱۹

کے اتباع کا حکم دےرہے ہیں دیکھئے قابل الذکر معنی پر محمول کرنے کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:

الف:اکثر متون حدیث سے ظاہر ہے کہ جب سرکار کو اپنی وفات کے دن قریب ہونے کا احساس ہوا تو آپؐ نے یہ حدیث امت کے سامنے پیش فرمائی،اگر ان حدیثوں سے مقصد یہ تھا کہ امت اہل بیتؑ سے محبت کرھے اور ان کا احترام کرے تو پھر اس کی ہدایت مخصوص وقت میں کیوں فرمائی،کیا حضورؐ کی زندگی میں اہل بیتؑ سے محبت اور ان حضرات کا احترام ضروری نہیں تھا ماننا پڑےگا کہ ان الفاظ سے محض اہل بیتؑ کی محبت مقصود نہیں تھی بلکہ حضورؐ کے انتقال کا وقت قریب تھا اور اپنی زندگی میں امت کے مرجع اور ان کے حیات کے ناظم تھے آپؐ کے اوپر امت کی قیادت کی ذمہ داریاں تھیں ظاہر ہے کہ وفات کے بعد امت آپؐ کی قیادت سے محروم ہورہی تھی،اس لئے حضورؐ نے ان حدیثوں میں ایک ایسے گروہ کا تعارف کرادیا جو امت کی قیادت اور مرجعیت کا ذمہ دار ہے اور اس سلسلے میں آپؐ کی جانشین کرسکتا ہے تا کہ امت کے اندر اس بات کا احساس نہ رہے کہ اب ہمارا کوئی قاعد و سرپرست نہیں اور حضورؐ نے عترتؑ کی نشاندہی کردی کہ ان کی پیروی سے تم بھی گمراہ نہیں ہوگے۔

زید بن ارقم کی حدیث ملاحظہ فرمائیں اس میں کچھ زیادہ وضاحت کردی گئی ہے آپؐ نے فرمایا((میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں))حدیث کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اس حدیث میں خلیفہ سےمراد جو حضرات بھی ہیں وہ سرکار دو عالمؐ کی غیر موجودگی میں سرکاری ذمہ داریوں کو ادا کرنےوالے ہیں اور آپؐ کے قائم مقام کی حیثیت رکھتے ہیں،جو لوگ ہیں جو قیادت کے وظیفہ کو ادا کریں گے اس لئے ان کی محبت اور اطاعت دونوں ہی واجب ہے۔

ب:آپ نے ہر حدیث میں عترتؑ کو قرآن مجید کے سیاق میں رکھا ہے تا کہ لوگوں کی سمجھ میں آجائے کہ آپ قرآن مجید کے لئے محض عزت و احترام کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں کہ اس کو چوم لیا جائے اور اس کو بلند جگہ پر رکھا جائے بلکہ آپؐ کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید کی پیروی کی جائے اور اس

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296