فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 118277
ڈاؤنلوڈ: 5312


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118277 / ڈاؤنلوڈ: 5312
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کے اوامر و نواہی پر عمل کیا جائے۔

تو جب عترتؑ کا تذکرہ و سیاق کتاب میں ہے تو پھر عترت کے لئے قرآن ہی کی طرح اطاعت و اتباع کا مطالبہ ہی سمجھا جائےگا۔

ج:ہر حدیث میں آپؐ نے فرمایا:((تا کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو،جب تک ثقلین سے متمسک رہوگے گمراہی سے محفوظ رہوگے))میں مانتا ہوں کہ عترتؑ طاہرہ کا احترام اگر چہ بنفسہ واجب ہے لیکن احترام کی حیثیت ویسے ہی ہے جیسے دوسرے فرائض محض احترام گمراہی سے تو نہیں بچاسکتا،گمراہی سے تو صرف معصوم افراد کی پیروی ہی بچاسکتی ہے اور ان کے طریقہ کو لازم سمجھ کر ہر امر میں ان کی طرف رجوع کرنا ہی گمراہی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

د:تمام حدیثوں میں اس بات کی طرف خاص طور سے متوجہ کیا گیا ہے کہ کتاب و عترت میں اختلاف نہیں ہوسکتا وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہ الفاظ کہہ رہے ہیں کہ کتاب و عترتؑ کی محض تعظیم و احترام مقصود نہیں ہے تعظیم تو تمام انبیا کی واجب ہے جبکہ ان حضرات کی شریعتوں میں اختلاف ہے پھر کتاب و عترتؑ میں خوف اختلاف نہیں ہونے کی وجہ سے ان کی تعظیم کا وجوب کیا معنی رکھتا ہے؟

اسی لئے ماننا پڑےگا کہ عدم اختلاف پر زور دینے کی وجہ یہی ہے کہ نبیؐ کتاب و عترتؑ کی پیروی اور اطاعت کا حکم دےرہے ہیں اگر کتاب و عترتؑ میں کسی منزل پر اختلاف ہوگیا تو پھر امت کے لئے سوال پیدا ہوگا کہ کس کی پیروی کرے کتاب کی یا عترتؑ کی۔

اس لئے سرکارؐ نے فرمایا کہ یہ دونوں ایک دوسری سے جدا نہیں ہوں گے((یعنی ان میں اختلاف نہیں ہوگا کہ امت ان کے اختلاف کو عذر بنا کر پیروی سے باز رہنے کی گنجائش پیش کرے،حضورؐ کا کتاب و عترتؑ کے بارے میں بار بار عدم افتراق کا اعلان یہ بتا رہا ہے کہ دونوں بظاہر دو ہو کر بھی دو نہیں ہیں کتاب،عترتؑ کی پیروی کو مانع ہے نہ عترتؑ کتاب کی پیروی سے روکتی ہے مرجع دو ہیں لیکن تعلیمات اور ہدایتیں ایک ہیں۔(مثال کے طور پر جو خدا کہےگا وہی نبی کہےگا مطلب دونوں ایک رہےگا۔مترجم)

۲۲۱

ھ:حدیث ثقلین جن مقامات پر وارد ہوئی ہے ان میں غدیر کا بھی ایک موقع ہے ان کے لئے جو زید بن ثابت کی حدیث پر غور کریں یہ حدیث مولائے کائناتؑ کی ولایت پر نص کرنے کے پہلے تمہیداً وارد ہوئی،چونکہ حضورؐ امیرالمومنینؑ کی ولایت اور اطاعت پر نص کرنےوالے تھے،اس لئے مناسب سمجھا کہ حدیث ثقلین کو اعلان ولایت کا سیاق قرار دیں۔

و:سب سے اہم بات جو ان حدیثوں میں ہے اور جو حدیث ثقلین کے لئے متون ہیں ان سب میں جو مشرک بات ہے وہ ہے لفظ تمسک کا استعمال کہیں تمسک کا مطالبہ ہے کہیں اتباع کا اور کہیں اخذ کا،ظاہر ہے کہ تمسک،اتباع اور اخذ کسی کا بھی تحقق بغیر پیروی کے ممکن نہیں تمسک کا مطلب ہے پیروی اور ان اوامر و نواہی سے اتفاق جو قرآن مجید میں مذکور ہیں اور عترتؑ طاہرہ سے صادر ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ طبرانی نے جو حدیث ثقلین وارد کی ہے اس کا تتمہ ملاحظہ فرمائیں:دیکھو ان دونوں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور ان دونوں کو چھوڑ دینے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے انہیں تعلیم دینے کی کوشش نہ کرنا وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔(1)

یہ الفاظ صراحت سے اطاعت و اتباع پر دلالت کرتے ہیں اور اب کسی اشکال کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔

عترتؑ کی اطاعت واجب ہونے کا مطلب ان کی امامت ہے

3۔چونکہ عترتؑ طاہرہ اور اہل بیت اطہارؑ کی اطاعت واجب ہے اس لئے امامت بھی انہیں کی ثابت ہے اس لئے کہ امام تو اپنے مامومین کے لئے صرف نمونہ عمل ہوتا ہے اور مامومین پر واجب ہے کہ وہ امام کی اطاعت اور متابعت کریں یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ امت اطاعت کسی اور کی کرے اور امامت کسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)معجم کبیرج:5ص:166،جس میں ابوطفیل عامر بن واثلہ نے زید بن ارقم سے روایت کی،مجمع الزوائدج:9ص:163،کتاب مناقب،فضائل اہل بیت علیھم السلام کے باب میں

۲۲۲

اور کی ہو ورنہ پھر حاکم محکوم ہوجائےگا اور سائس مسوس ہوجائےگا اور یہ بات بالکل غلط ہے جس کی ضرورت نہیں۔

4۔جب یہ ثابت ہوچکا کہ امامت کی حقدار صرف عترتؑ ہے اور عترتؑ کی اطاعت واجب ہے تو عترتؑ کے سردار حضرت علیؑ ہیں اس قول سے کسی کو اختلاف نہیں ہے،جب حدیث ثقلین کی تفسیر آپ کے سامنے پیش کردی گئی تو اس خاص موقعہ پر عترتؑ کا تعارف بھی کرادینا مناسب ہے،دیکھئے حضور سرور کائناتؑ نے جب بھی اپنی عترتؑ پر کوئی نص فرمائی ہے تو عترتؑ سے مراد خاص طور سے یہی پانچ افراد رہے ہیں امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا،اور سبطین کریمین حضرت امام حسن و امام حسین علیہماالسلام۔

ثبوت کے لئے حضرت عائشہ کی حدیث ملاحطہ فرمائیں،عائشہ کہتی ہیں:حضور سرور کارئناتؑ ایک روز روشن میں باہر نکلے آپ کے جسم اقدس پر ایک ادنی یا ریشمی چادر تھی اتنے میں حسنؑ بن علیؑ آئے آپؑ اسی چادر میں داخل ہوگئے پھر حسینؑ ابن علیؑ آئے اور اس چادر میں داخل ہوگئے پھر فاطمہ سلام اللہ علیہا آئیں آپ کو بھی اسی چادر میں لےلیا،پھر علیؑ آئے آپ نے علیؑ کو بھی اسی چادر میں لےلیا پھر فرمایا:

ترجمہ:اے اہل بیت!خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر برائی(رجس)کو دور رکھے اور ایسا پاک و پاکیزہ رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔(1)

ام سلمہ کہتی ہیں کہ آیت تطہیر میرے گھر میں نازل ہوئی،جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو آپ نے علی و فاطمہ،حسن و حسین کو بلا بھیجا اور فرمایا:یہی ہمارے اہل بیتؑ ہیں۔(2)

اس کے علاوہ بھی بہت ساری حدیثیں ہیں اس کثرت سے یہ حدیثیں پائی جاتی ہیں کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح مسلم ج:4ص:1883،کتاب فضائل صحابہ،فضائل اہل بیت نبیؐ کے باب میں تحفۃ الاحوذی ج:9ص:49

(2)مستدرک علی صحیحین ج:3ص:158،کتاب معرفت الصحابہ،اہل رسول اللہ کے مناقب میں

۲۲۳

جب اہل بیتؑ کی لفظ کا استمعال ہوتا ہے یہی حضرات سمجھے جاتے ہیں اور اگر اہل بیت کی لفظ میں عمومیت پیدا کرنا ہے تو پھر تکلف اور خاص توجہ کی ضروت پڑتی ہے۔

مذکورہ بالا صراحتوں میں نبیؐ کے بعد صرف امیرالمومنینؑ کو حق حاصل ہے اور خلافت کا تعین صرف آپ کی مقدس ذات کے لئے ہے اسی لے عباس ابن عبدالمطلب نے آپ کی بیعت کرنی چاہی تھی اور آپ کے دونوں فرزندان امام حسنؑ اور امام حسینؑ آپ کے حکم کی پیروی کرتے تھے بنی ہاشم اور ان کے نقش قدم پر چلنےوالے آپ ہی کا نام پکار رہے تھے ابوبکر کے مقابلے میں صرف آپ ہی کی ایک ہستی تھی جو خلافت کی صلاحیت رکھتی تھی جبکہ انصار کا دعوی ٹھنڈا ہوچکا تھا یہ تمام باتیں حدیث ثقلین سے آپ کی بیعت کو واجب قرار دیتی ہیں،مزید تاکید جب حاصل ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث ثقلین غدیر خم کا مقدمہ ہے،غدیر خم میں امیرالمومنین کو خلافت کے لئے منصوب کیا تھا اور غدیر سے پہلے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی۔

ہاں اگر اس حدیث کو غدیر سے الگ کر بھی دیا جائے تب بھی تنہا یہ حدیث اہل بیتؑ کی اطاعت اور متابعت کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ خلافت کے درمیان ہے اور ان سے خارج نہیں ہوسکتی البتہ یہ حدیث اہل بیتؑ میں کسی خاص شخص کو امام معین نہیں کرتی لیکن گذشتہ ضمیمہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امامت کا تعین امیرالمومنین علی ابن ابیطالبؑ کی ذات کے لئے ہے۔

۲۲۴

سوال نمبر۔7

واقعہ غدیر کے بارے میں شیعوں کا کہنا ہے کہ وہ متواتر ہے لیکن اہل سنت نے اپنی حدیث کی کتابوں میں اس کو نقل نہیں کیا ہے پھر وہ واقعہ متواتر کیسے ہوگیا جبکہ اہل سنت نے کسی کمزور خبر احاد کے طور پر بھی اس کو نہیں لکھا ہے؟

جواب:میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آپ نے اتنی بڑی بات کیسے کہہ دی جبکہ شیعہ سنی دونوں ہی روایت غدیر پر متفق ہیں محدثین،مفسرین اور مورخین نے اس واقعہ کو اسی شان و شوکت سے لکھا ہے جس شان و شوکت سے دنیا کے بڑے اور مشہور واقعات لکھتے ہیں شعرا نے اس واقعہ کو اپنے اشعار میں نظم کیا ہے اور علما نے اس واقعہ کو اپنی کتابوں میں پیش کیا ہے۔

اب تک کسی مورخ نے اس واقعہ سے انکار نہیں کیا ہے اگر کہین ایک دو آدمیوں نے انکار بھی کیا ہے تو اکثریت نے اس کی مخالفت کی ہے۔(1)

اس واقعہ کو موضوع بنا کر بہت سے لوگوں نے مستقل کتابیں لکھی ہیں،انھیں کتابوں میں ایک کتاب الغدیر بھی ہے اس کتاب کا پورا نام الغدیر فی الکتاب و السنہ و الادب ہے اس کی تالیف شیخ عبدالحسین امینی نے کی ہے۔

یہ کتاب گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے جو چھپ چکی ہے اور میرے علم میں ہے،جو مصادر شیعہ کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الغدیرج:1ص:294۔322

۲۲۵

طور پر پیش کئے جاتے ہیں اور ان کی یہی جلد حدیث غدیر اور ان کے واقع کو اہل بیت کی روایت سے ثابت کیا ہے۔

شیخ امینی نے واقعہ غدیر کو ایک سو دس صحابہ اور چوراسی تابعین کے حوالے سے لکھا ہے تین سو ساٹھ علمائے اہل سنت نے مختلف طبقوں میں اس کی روایت کی ہے اور شیخ امینی نے ہر عالم کی کتاب کا حوالہ دیا ہے ظاہر ہے کہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس مختصر کتاب میں اس کے تمام پہلوؤں کو سمیٹ کے بیان کردینانا ممکن ہے۔اگر تواتر سے آپ کی مراد یہ ہے کہ اس واقعہ کی تفصیل اور خصوصیات میں تواتر چاہئیے تو شیعہ اس تواتر کا دعوی نہیں کرتا بلکہ شیعہ اجمالی تواتر کا دعوی کرتا ہے اگر چہ کچھ کتابوں میں کچھ حادثے اور روایت کے چند طریقے تواتر کی حد تک نہیں کرتا بلکہ شیعہ اجمالی تواتر کا دعوی کرتا ہے اگر چہ کچھ کتابوں میں کچھ حادثے اور روایت کے چند طریقے تواتر کی حد تک نہیں پہونچتے لیکن اس سے شیعوں کا دعوائے تواتر نہیں توٹتا اس لئے کہ تمام حادثات جن کے تواتر کا دعوی کیا جاتا ہے مقام روایت میں سب اسی طرح ہیں جیسے مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کی جفا کشی حضور سرور کائناتؐ کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت آپ کے دور کے غزوات یا واقعات اور حجۃ الوداع و غیرہ...میں سوچتا ہوں کہ غدیر کے سلسلے میں جو اہم باتیں ہیں انہیں زمانے کے تسلسل کے ساتھ یہاں بیان کردینا بہتر ہوگا میں کوشش کروں گا کہ عبارت اس طرح ہو کہ ان چند واقعات و حوادث کے مصادر کا تذکرہ اور ان کے ثبوت کے طریقے پیش کردئے جائیں۔

واقعہ غدیر کے موقع پر آیت کا نازل ہونا

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ(1)

ترجمہ:اے پیغمبر آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ کے اوپر جو کچھ نازل ہوچکا ہے اسے پہونچادیں اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو گویا آپ نے رسالت کا کوئی کام نہیں کیا اور اللہ کو لوگوں کے شر سے بچائےگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مائدہ آیت:67

۲۲۶

یہ آیت امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت کی تبلیغ کے بارے میں نازل ہوئی سرکار دو عالمؐ نےاسی آیت کی وجہ سے غدیر خم میں خطبہ دیا اور ولایت علیؑ کا اعلان کردیا بہت بڑی جماعت نے اس حدیث کو اپنی کتابں میں لکھا ہے۔

1۔حافظ عبدالرحمٰن بن ابی حاتم محمد بن ادریس حنظلی رازی کو وفات327؁میں ہوئی یہ اپنی اسناد کے ساتھ ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں یہ آیت غدیر خم میں علی ابن طالبؑ کے بارے میں نازل ہوئی حافظ عبدالرحمٰن ہی کی کتاب کی بنیاد پر سیوطی(1) اور شوکانی(2) نے بھی یہ روایت کی ہے۔

2۔حافظ ابوبکر احمد بن موسیٰ بن مردویہ اصفہانی ان کی وفات416؁میں ہوئی یہ اپنی اسناد کے ساتھ ابوسعید خدری سے سیوطی اور شوکانی کی روایت نقل کرتے ہیں۔

3۔ابوالحسن ابن احمد بن علی بن متویہ واحدی نیشاپوری متوفی468؁غدیر کی روایت ابوسعید خدری سے نقل کرتے ہیں۔(3)

4۔عبیداللہ بن عبداللہ حاکم نیشابوری جو ابن حداد حسکانی کے نام سے مشہور ہیں ان کی وفات پانچویں صدی ہجری کے آخر میں ہوئی اپنی سند کے ساتھ حدیث غدیر کی روایت ابن عباس اور جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کرتے ہیں۔(4)

5۔حافظ ابوالقاسم علی بن حسن بن ہبۃ اللہ شافعی جو ابن عساکر کے نام سے مشہور ہیں اور لقب ثقہ الدین ہے اپنی اسناد کے ساتھ ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں اور سیوطی(5) و شوکانی کے حوالے سے روایت کرتے ہیں۔(6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الدر المنثورج:2ص:298،آیت کی تفسیر میں(2)فتح القدیرج:2ص:60،آیت کی تفسیر میں

(3)اسباب النزول واحدی،ص:135،آیت کی تفسیر میں

(4)شواہد التنزیل لقواعد التفصیل و التاویل،ج:1،ص:250۔251،آیت کے نزول میں

(5)در منثورج:2ص:298،آیت کی تفسیر میں(6)فتح القدیرج:2ص:60،آیت کی تفسیر میں

۲۲۷

شیخ امینی نے تو ان کتابوں اور راویوں کی تعداد تیس تک پہونچائی ہے(1) لیکن ان میں سے بعض حضرات کا خیال ہے کہ آیہ بلغ کا ایک رخ واقعہ غدیر بھی ہے۔اور بعض نے ایسے مصادر کا تذکرہ کیا ہے جو اب تک میری نظر سے نہیں گذرے ہیں شیعہ مصادر کا تذکرہ یہاں عمداً چھوڑ رہا ہوں اگر چہ ان مصادر کی صداقت کا قائل ہوں اس کے علاوہ بھی بہت سے مصادر ہیں جو حدیث غدیر سے بھرے پڑے ہیں جیسا کہ ثعلبی کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے پنی تفسیر میں محمد بن علی الباقر علیہ السلام اور ابن عباس سے بھی روایت کی ہے۔(2) آئندہ صفحات میں ہم امام رازی کے کلام پر بھی بات کریں گے جہاں انہوں نے اپنی تفسیر میں مبارک باد کا تذکرہ کیا ہےور اس کو ان دو بزرگواں امام محمد باقرؑ اور ابن عباسؑ کے علاوہ بر ابن عازب کی طرف بھی منسوب ہے۔

آیہ بلغ کا نزول غدیرخم میں

2۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اعلان ولایت کی حدیث کا واقعہ غدیرخم میں ہوا حدیث و تاریخ کی دنیا میں یہ بات اس حد تک ثابت اور مسلم ہے کہ یہ حدیث((حدیث غدیر))کے نام سے مشہور ہوگئی اس کے باوجود اہل سنت و الجماعت کے بہت سے لوگوں نے اس صراحت بھی کردی ہے مثلاً:

1۔ابوالمحاسن یوسف بن موسیٰ حنفی۔(3)

2۔حنبلی فرقہ کے امام احمد بن حنبل شیبانی متوفی241؁(4)

3۔حافظ ابوسعید ہیثم بن کلیب شاشی متوفی335؁(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الغدیرج:1ص:214۔229(2)الغدیرج:1ص:217

(3)معتصر المختصرج:1ص:307،کتاب النکاح فی کراھۃ التزویج علی فاطمۃ ج:2ص:301

(4)مسند احمدج:1ص:84۔118۔152،مسند بن ابی طالب ج:4ص:281،حدیث براء بن عازب ج:1ص:368۔372،حدیث زید بن ارقم

(5)مسند الشاشی ج:2ص:127،حارث بن مالک نے سعد سے روایت کی ہے،ص:166،اس میں عامر بن سعد نے سعد سے روایت کی۔

۲۲۸

4۔حافظ ابوعمر یوسف بن عبداللہ محمد بن عبد البرنمری قرطبی متوفی436؁(1) 5۔حافظ ابوعبدالرحمٰن احمد بن شعیب نسائی متوفی303؁(2) 6۔حافظ ابوالحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان ہیثمی متوفی807؁(3) 7۔ابوبکر عبداللہ بن محمد ابوشیعہ کوفی متوفی235؁(4)

8۔حافظ ضیاء الدین ابوعبداللہ محمد بن عبدالواحد بن احمد حنبلی مقدسی متوفیٰ643؁(5)

9۔حافظ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری(ابن بیع کے نام سے مشہور ہیں)متوفی405؁(6)

10۔حافظ ابوبکر احمد بن عمرو بن ابوالعاصم بن مخلد شیبانی متوفی287؁(7)

اا۔حافظ ابویعلی احمد بن علی بن مثنی موصلی تمیمی متوفی307؁(8)

12۔حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب طبرانی متوفی360؁(9)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)استیعاب ج:3ص:36،علی بن ابی طالب علیہ السلام کے حالات میں

(2)سنن کبری نسائی ج:5ص:45،کتاب مناقب فضائل علی علیہ السلام،ص:132،کتاب خصائص باب قول نبیؐ ص:134،کتاب الخصائص،الترغیب فی مولاۃ علیؑ،و الرھیب فی معاداتہ،و رواہ اسی طرح کتاب خصائص علی ص:93قول نبیؐ،ص:100

(3)مجمع الزوائدج:9،ص:107،106،105،104،کتاب مناقب علی،باب مناقب علی بن ابی طالبؑ

(4)مصنف ابن ابی شیبۃج:6،ص:372،کتاب فضائل علی ابنی ابی طالبؑ

(5)الحادیث المختارۃ ج:2،ص:106،105،روایت سعید بن وھب ہمدانی حضرت علیؑ سے

(6)مستدرک علی صحیحین ج:3،ص:118،کتاب معرفت صحابہ،مناقب علی ابن ابی طالبؑ سے ص:126،کتاب معرفت صحابہ،مناقب علی ابن ابی طالبؑ سے ص:613۔

(7)السنۃ لابن ابی عاصم ج:2،ص:607،باب من کنت مولاہ فعلی مولاہ

(8)مسند ابی یعلی ج:1،ص:429،مسند علی ابنی ابی طالبؑ میں

(9)معجم الصغیرج:1،ص:119،معجم الکبیرج:4ص:16،روایت(حبشی بن جنادہ سلولی)ج:5،ص:170روایت ابوضحیٰ مسلم صبیح نے زید ابن ارقم سےص:171روایت یحییٰ بن جعدہ زید بن ارقم سےص:192،روایت ابواسحاق سبیعی نے زید سے،ص:194،روایت ثویر بن ابی فاختہ نے زید بن ارقم سےص:195روایت عطیہ العوفی نے زید بن ارقم سے

۲۲۹

13۔عزالدین علی بن محمد المعروف ابن اثیر جزری متوفی360؁(1)

14۔حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی دمشقی متوفی774؁و غیرہ(2)

بہت زیادہ حدیثوں میں سے بعض حدیثوں کا ہم تذکرہ کرنےوالے ہیں ان میں روایت ہے کہ یہ واقعہ مقام جحفہ میں پیش آیا ان حدیثوں کا ایک راوی دوسرے کا حوالہ دیتا ہے اس لئے کہ غدیرخم جحفہ کے پاس واقع ہ لسان عرب میں لکھا ہے کہ غدیرخم مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام جحفہ میں ہے ابن درید نے لکھا ہے کہ خم کی(خ)مضموم(پیش کے ساتھ)پڑھی جائےگی اور اس کا تذکرہ حدیثوں میں آیا ہے،ابن اثیر کہتے ہیں کہ غدیر خم مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے جہاں ایک چشمہ پایا جاتا ہے انہیں دونوں شہروں کے درمیان وہاں ایک مسجد بھی ہے جو ہمارے سردار پیغمبر اسلامؐ کی مسجد ہے ظاہر ہے کہ وہاں مسجد واقعہ غدیر کی یادگار کے طور پر بنائی گئی ہے۔

غدیر میں نبیؐ کا نماز جماعت کے لئے پکارنا

3۔تیسری بات یہ ہے کہ اس موقع پر سرکار دو عالمؐ نے نماز جماعت کا اعلان کردیا تا کہ نماز جماعت میں جمع ہو کر مسلمان آپؐ کا خطبہ اور حدیث سنیں۔علما اہل سنت کی ایک بڑی جماعت نے اسے لکھا ہے ملاحظہ ہو۔الف:حافظ ابوالحسن علی ابن ابی بکر بن سلیمان ہیثمی(3) ب:ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابوشیعہ کوفی(4) ج:حنبلی فرقہ کے امام ابوعبداللہ احمد بن حنبل شیبانی(5)

-----------------

(1)اسد الغابہ،ج:3ص:107،حالات عبدالرحمٰن بن عبد رب انصاری میں

(2)البدایۃ و النھایۃج:7ص:349،ہجرت کے چالسویں سال،باب ذکر فضائل علی بن ابی طالبؑ

(3)مجمع الزوائدج:9ص:106،کتاب مناقب،مناقب علی ابن ابی طالبؑ کے باب میں،من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے ذیل میں

(4)مصنف ابن ابی شیبہ ج:6ص:372،کتاب فضائل،فضائل علی بن ابی طالبؑ

(5)مسند احمدج:4،ص:281،حدیث براء بن عازب میں ص:372،حدیث زید بن ارقم میں

۲۳۰

4۔چوتھی بات یہ ہے کہ سرکار دو عالمؐ نے حکم دیا کہ جو آگے بڑھ گئے ہیں وہ واپس آجائیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظار کیا جائے تا کہ آپ کی تبلیغ کو عموم حاصل ہوجائے اور ہر آدمی تک بات پہونچ جائے اس بات کو بھی اہل سنت کے بہت سے علما نے لکھا ہے جیسے

الف:حافظ ابوعبدالرحمن شیعب نسائی(1) ب:حافظ ضیاءالدین ابوعبداللہ محمد بن عبدالواحد بن احمد حنبل مقدسی(2)

غدیر کے دن حضور اکرمﷺکا خطبہ

5۔پانچویں اہم بات یہ ہے کہ اس دن سرکار دو عالم کا خطبہ ہے،بہت سی حدیثوں میں اگر چہ لوگوں نے اس خو خطبہ سے تعبیر نہیں کیا ہے لیکن اس کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے تو((قال))ضرور لکھا ہے یعنی ((خطب))نہیں لکھا ہے بلکہ((قال))لکھا ہے(یعنی حضورؐ نے فرمایا)مگر بعض حضرات نے خطبہ سے بھی تعبیر کیا ہے جیسے مسند احمد(3) اور نسائی کتاب سنن کبریٰ(4) میں خطبہ ہی لکھا ہوا ہے،سنن کبریٰ میں لکھا ہے کہ آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا:

دوسری کتاب میں ہے کہ آپؐ نے حمد و ثنائے الہی کیا اور فرمایا:اور اسی طرح کے الفاظ دوسرے لوگوں نے بھی استمعال کئے ہیں اس لئے کہ پیغمبرؐ کے ساتھ اس وقت بہت سے لوگ تھے۔

مختصر یہ ہے کہ حدیث کے بہت سے طریقے ہیں اور مختلف طریقوں سے کلام نبیؐ کی نقل کی گئی ہے بعض نے اختصار سے کام لیا ہے اور بعض نے تفصیل سے پھر جس نے تفصیل سے کام لیا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سنن کبری نسائی ج:5ص:135،کتاب الخصائص علیؑ سے محبت کی ترغیب اور ان سے دوری کے لئے پرہیز اور اسی طرح کتاب خصائص علیؑ میں بھی روایت کی ہےص:101

(2)احادیث المختارہ ج:3ص:213،عائشہ بنت سعد نے اپنے باپ سے اس کی روایت کی ہے

(3)مسند احمدج:4ص:372،زید بن ارقم کی حدیث

(4)مسند احمدج:5،ص:134،کتاب الخصائص ص:100،علیؑ کی محبت کی ترغیب اور ان سے دوری سے پرہیز

۲۳۱

ان میں کثرت و قلت کا اختلاف ہے ہم یہاں کچھ متن پیش کررہے ہیں.

حذیفہ بن اسید سے روایت ہے کہ جب سرکارؐ حج آخر سے واپس آرہے تھے تو آپؐ نے اپنے اصحاب کو ان درختوں کے پاس روکا جو ایک وادی میں تھے اور وہیں اترنےکا حکم دیا پھر آپؐ نے وہاں کچھ لوگوں کو بھیج کر کانٹے و غیرہ کی صفائی کرائی تا کہ وہاں نماز پڑھی جاسکے پھر آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا:

اے لوگو!مجھے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ ہر نبیؑ اپنے سابق نبیؐ کی آدھی عمر کے برابر زندہ رہتا ہے میں سمجھ رہا ہوں کہ مجھے میرے رب کی طرف سے بلایا جائےگا تو میں داعی اجل کو لبیک کہوں گا،مجھ سے بھی پوچھا جائےگا اور تم سے بھی پوچھا جائےگا تو تم کیا جواب دوگے انہوں نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کی،جہاد کیا اور ہماری خیرخواہی کی خدا آپ کو بہتر جزائے خیر دے۔

آپؐ نے فرمایا کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ خدا کے علاوہ اللہ نہیں محمد اس کا بندہ اور رسول ہے اور یہ کہ خدا کی جنت حق ہے جہنم حق ہے،موت حق ہے،موت کے بعد زندہ کیا جانا حق ہے قیامت آنےوالی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور خدا قبروں سے مردوں کو مبعوث کرےگا انہوں نے کہا ہاں!ہم اس بات کے گواہ ہیں۔آپ نے فرمایا پالنےوالے گواہ رہنا پھر آپ نے فرمایا:اے لوگو!میرا مولا خدا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں،پس میں جس کا مولا ہوں یہ بھی اس کا مولا ہے آپ کی مراد علیؑ سے تھی پالنےوالے اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرےاور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے پھر فرمایا اےلوگو!میں تم سے جدا ہوجاؤں گا اور تم لوگ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوگے حوض کوثر جو صعناء اور بصرہ کے درمیان کی مسافت کے برابر پھیلا ہوا ہےاس میں چاندی کے پیالے،ستاروں کی تعداد کے برابر چمک رہے ہیں وہاں جب تم میرے پاس آؤگے تو میں تم سے ثقلین کے بارے میں پوچھوں گا تو سوچو کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو ثقل اکبر اللہ کی کتاب ہے یہ ایک ایسا وسیلہ ہے جس کا ایک کنارہ اللہ کے

۲۳۲

ہاتھ میں ہے اور دوسرا کنارہ تمہارے ہاتھ میں ہے تم اس کو پکڑے رہو گمراہ مت ہونا بدل مت جانا(اور دوسرا ثقل)ہمارے اہل بیت ہماری عترت ہیں مجھے لطیف و خبیر نے خبری دی ہے کہ یہ دونوں کبھی بھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے۔(1)

اس خطبہ کو دیکھئے بعض حدیثوں میں اس خطبہ میں کچھ اضافہ کے ساتھ وارد ہوئے ہیں بعض میں کچھ تقلیل کی گئی ہے لیکن جن طریقوں سے بھی حدیث وارد ہوئی ہے بہرحال ان تمام حدیثوں میں ایک جملہ اجماع کی حدوں کو چھوتا ہے اور وہ جملہ یہ ہے:جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے یا جس کا میں ولی ہوں اس کا علی ولی ہے یا اسی کے ہم معنی کوئی جملہ۔

ہاں بعض شاذ حدیثوں میں نبی کا اقتصار صرف حدیث ثقلین پر کردیا گیا ہے جسے یزید بن حیان کہتا ہے میں اور حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم زید بن ارقم صحابی کی خدمت میں حاضر ہوئے ہم ان کے پاس بیٹھے تو حصین نے کہا اے زید آپ نے تو خیر کثیر حاصل کیا آپ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آپ نے حدیثیں سنیں اور آپ نے ان کے ساتھ غزوات میں جہاد کیا ور آپ نے پیچھے نماز پڑھنے کا شرف حاصل کیا زید آپ نے تو خیر کثیر حاصل کیا برائے مہربانی ہمیں بھی کچھ حدیثیں سنایئے جو آپ نے پیغمبرؐ سے سنی ہیں زید کہنے لگے بھتیجے اب میں تو بوڑھا ہوگیا ہوں اور پیغمبرؐ نے جو کچھ سنایا تھا اس میں سے کچھ بھول گیا ہوں اس لئے جو حدیث بیان کررہا ہوں اسی پر اکتفا کرو اور مجھے زیادہ تکلف مت دو پھر کہنے لگے کہ ایک دن سرکارؐ ایک چشمہ کے پاس جسے خم کہتے ہیں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے وہ جگہ مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ہے بہرحال آپؐ نے خدا کی حمد و ثنا اور ذکر و وعظ کرتے رہے پھر فرمایا((اما بعد:اے لوگو!میں ایک بشر ہوں اور قریب ہے کہ خدا کا پیغام مجھ تک پہونچے اور میں لبیک میں تمہارے درمیان دو

---------------

(1)معجم کبیرج:2ص:180،حذیفہ بن اسید ابوسرعیۃ الغفاری میں جس میں ابوالطفیل عامر بن واثلہ نے حذیفہ بن اسید سے روایت کی ہے،مجمع الزوائدج:9،ص:163،کتاب المناقب باب فضائل اہل بیتؑ میں،تاریخ دمشق ج:42،ص:219،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں

۲۳۳

چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اول کتاب خدا جس میں ہدایت اور نور ہے پس کتاب خدا کو پکڑے رہو اور اس سے تمسک رکھو پس کتاب خدا کے التزام پر ابھارا پھر فرمایا اور دوسرے میرے اہل بیت کے بارے میں خدا کو یاد رکھنا،میرے اہل بیت کے بارے میں خدا کو یاد رکھنا خدا کو یاد رکھنا،حصین نے پوچھا اہل بیتؑ کون ہیں؟

جب اس حدیث کے مختلف طریقوں پر غور کیا جاتا ہے تو پھر کوئی شبہ باقی نہیں رہتا ہے کہ حدیث میں کاٹ چھانٹ ہوئی ہے یا خود زید بن ارقم نے اس میں سے کچھ حصہ اڑا دیا یا بعض رجال نے و اس حدیث کے سلسلے میں آئے ہیں اور یہ کاٹ چھانٹ بھی یا تو عمداً کی ہے یا اس لئے کہ خطبہ میں مولائے کائناتؑ کی ولایت کا اعلان ہے اور یہ ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتا ہے یا خوف کی وجہ سے کی ہے اس لئے کہ بنوامیہ کے دور حکومت میں مولائے کائناتؑ سے کھلی دشمنی کی جاتی تھی،اس کی طرف یزید بن حیان کی حدیث اشارہ کرتی ہے۔

راوی اپنے تتمہ کلام میں کہتا ہے کہ یزید بن حیان نے مجھ سے کہا کہ زید بن ارقم نے بیان کیا ہے:ایک بار عبیداللہ بن زیاد نے مجھے بلایا میں اس کے پاس گیا تو وہ بولا زید تو کیسی حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روایت کرتا ہے اور بیان کرتا ہے جن کو ہم کتاب خدا میں نہیں پاتے،تو کہتا ہے کہ جنت میں ایک حوض ہوگا زید نے کہا مجھے یہ بات پیغمبرؐ نے بتائی ہے اور مجھ سے اس حوض کا وعدہ بھی کیا ہے۔عبیداللہ بولا تو جھوٹا ہے بلکہ تو بوڑھا ہوگیا ہے اس لئے خرافات بک رہا ہے زید نے کہا میں نے اپنے کانوں سے یہ بات پیغمبرؐ سے سنی ہے اور میرے دل میں یہ بات اترچکی ہے۔(1)

ظاہر ہے کہ جب حکومت امویہ زید سے منقول حدیث حوض کا انکار کرسکتی ہے تو پھر ان حدیثوں کی کیا گت بنائی گئی ہوگی جن میں مولائے کائناتؑ کی ولایت کا اعلان ہے،بہرحال ایک بات طے ہے کہ طرق حدیث میں نبیؐ کے خطبہ کا کچھ حصہ اڑا دی گیا ہے خاص طور سے وہ حصہ جس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند احمدج:4س:366،زید بن ارقم کی حدیث

۲۳۴

میں ولایت والی بات ہے جیسا کہ بہت سے طرق حدیث میں اس کو شامل رکھا گیا ہے۔

بلکہ غدیر میں اعلان ولایت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اس لئے جب بھی مطلق غدیر کہا جاتا ہے تو محدثین کا ہی نہیں بلکہ عام مسلمان کا ذہن بھی حدیث ولایت کی طرف چلا جاتا ہے اور کانوں میں پیغمبر کا یہ قول گونجنے لگتا ہے((من کنت مولا فعلی مولاہ))جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں یا جس کا میں ولی ہوں اس کے علیؑ ولی ہین یا اس طرح کے جملے کو ایک بڑی جماعت نے صحیح قرار دیا ہے ان میں بعض کا حوالہ ہم ذیل میں عرض کرتے ہیں۔

1۔ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمزی سلمی متوفی279؁(1) 2۔حافظ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم الضبی نیشاپوری۔(2)

3۔حافظ ابوالحسن علی ابن ابی بکر بن سلیمان ہیثمی(3) 4۔ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی852؁(4)

5۔حافظ ابوعمر یوسف بن عبداللہ محمد عبدالبرنمری قرطبی(5)

6۔ابوجعفر محمد بن حریر بن یزید بن خالد الطبری متوفی310؁(6)

7۔ابوالحسن یوسف بن موسیٰ الحنفی(7)

---------------

(1)سنن ترمذی ج:5ص:633،کتاب مناقب رسول اللہؐ،باب مناقب علی بن ابی طالبؐ

(2)مستدرک علی صحیحن ج:3ص:118،119،کتاب معرفت صحابہ،مناقب علی ابی طالبؑ ص:613،کتاب معرفت صحابہ،حالات زید بن ارقم کی روایت میں

(3)مجمع الزوائدج:9ص:104۔105۔106۔107۔108،کتاب مناقب،باب مناقب علی بن ابی طالبؑ اور باب قول رسولؐ،من کنت مولاہ فعلی مولاہ،

(4)فتح الباری ج:7ص:74

(5)الستیعاب ج:3،ص:36،حالات علی بن ابی طالبؑ میں

(6)تھذیب التھذیب ج:7ص:297،حالات امام علی بن ابی طالبؑ میں

(7)معتصر المختصرج:2ص:301،کتاب جامع ممالیس فی موطا،مناقب امام علیؑ میں

۲۳۵

8۔ابوعبداللہ محمد بن احمد بن عثمان بن قائماز ذہبی متوفی748؁(1) انہوں نےابن کثیر سے بھی روایت لی ہے۔(2)

9۔علی بن برہان الدین شافعی الحلبی متوفی1044؁(3)

10۔حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی دمشقی متوفی774؁(4)

11۔حافظ عماد الدین ابوعبداللہ محمد بن عبدالواحد بن احمد حنبلی مقدسی۔(5)

12۔محمد ناصرالدین البانی اور ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ہیں۔(6)

بلکہ ایک جماعت نے صریحاً کہا ہے کہ یہ حدیث متواتر ہے،متواتر ہونے کی صراحت کرنےوالوں میں کچھ علماء کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ابوعبداللہ محمد بن احمد بن عثمان قائماز ذہبی۔(7)

2۔حافظ جلال الدین ابوالفضل عبدالرحمٰن بن ابی بکر سیوطی متوفی911؁ابنحرانی دمشقی(8) اور کتانی نے انہیں کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔(9)

-----------

(1)تذکرۃ الحفاظ ج:3ص:1043،حالات حاکم ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ نیشاپوری

(2)البدایۃ و النھایۃ ج:5ص:209،فصل فی ایراد الحدیث الدال علی انہ علیہ السلام خطب بمکان بین مکۃ و المدینۃ من حجۃ الوداع

(3)السیرۃ الحلبیۃج:3ص:308،حجۃ الوداع میں

(4)البدایۃ و النھایۃ ج:5ص:210،فصل فی ایراد الحدیث الدال علی انہ علیہ السلام خطب بمکان بین مکۃ و المدینۃ من حجۃ الوداع

(5)الاحادیث المختارۃج:2ص:105،روایت سعید بن وھب ہمدانی حضرت علیؑ سےج:3ص:139

(6)صحیح سنن ابن ماجہ ج:1ص:26،باب فضائل اصحاب رسول اللہؐ

(7)سیرہ اعلام النبلاءج:8،ص:335،فی آخر حالات المطلب بن زیاد

(8)البیان و التعریف ج:2،ص:230،حدیث1577

(9)نقلہ عن المنادی فی نظم المتناثرص:195

۲۳۶

3۔ابوعبداللہ محمد بن جعفر کتانی۔(1)

جناب شیخ امینی نے اتنی بڑی جماعت کے کلمات نقل کئے ہیں کہ کسی طرح حد تواتر سے کم نہیں ہیں۔(2)

اور بڑی جماعت نے اس حدیث کے متعلق مستقل کتابیں لکھی ہیں ان مؤلفین میں سے چند کے نام ملاحظہ ہوں۔

1۔ابوجعفر محمد بن حریر بن یزید بن خالد طبری یہ صاحب تاریخ ہیں ان کے حوالہ سے ایک بڑی جماعت ناقل ہے جن میں ابن حجر(3) اور ذہبی بھی ہیں۔تذکرہ حفاظ کے مولف لکھتے ہیں کہ میں نے ابن حریر کی ایک کتاب دیکھی جس میں حدیث کے سلسلہ رواۃ کو دیکھ کر مجھے دہشت ہونےلگی۔(4) اعلام النبلا کے مصنف کہتے ہیں کہ ابن حریر نے غدیرخم کے روایوں اور سلسلہ رواۃ کو چار جلدوں میں جمع کیا ہے میں نے کچھ حصوں کا مطالعہ کیا تو مجھے ان کی وسعت علم پر حیرت ہونےلگی اور مجھے یقین ہوگیا کہ غدیر کا واقعہ بہرحال ہوا تھا(5) ابن جریر کے معترفین میں ابن کثیر بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس حدیث کی طرف ابوجعفر محمد بن جریر طبری نے متوجہ کیا جو صاحب تاریخ و تفسیر ہیں،علامہ طبری نے اس موضوع پر دو کتابیں لکھی ہیں،طرق اور الفاظ دونوں کتابوں میں وارد کئے ہیں اسی طرح ابوالقاسم بن عساکر نے اس خطبہ غدیر کے بارے میں بہت سی حدیثیں وارد کی ہیں ہم تو اس موضوع کی صرف نمایاں باتوں کو وارد کررہے ہیں۔(6)

---------------

(1)نظم المتناثر،ص:194،عند ذکر الحدیث

(2)الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب ج:1،ص:294۔313

(3)تھذیب التھذیب ج:7،ص:297،حالات امیرالمومنینؑ میں

(4)تذکرہ الحفاظ ج:2،ص:713،حالات محمد بن جریر طبری

(5)سیر اعلام النبلاءج:14،ص:277،حالات محمد بن جریر الطبری میں

(6)البدایۃ و النھایۃ ج:5،ص:208،فصل فی ایراد الحدیث الدال علی انہ علیہ السلام خطب بمکان بین مکۃ و المدینۃ من حجۃ الوداع

۲۳۷

2۔ابوالعباس احمد بن محمد بن سعید ہمدانی جو ابن عقدہ کے نام سے مشہور ہیں متوفی33؁ان سے ایک جماعت نے ذکر کیا ہے جن میں ابن حجر بھی ہیں۔

ابن حجر اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں کہ ابوعباس بن عقدہ نے حدیث غدیر کو صحیح قرار دیا ہے اور اس کے طریقوں کو جمع کیا ہے انہوں نے اسی حدیث غدیر کو صحیح قرار دیا ہے اور اس کے طریقوں کو جمع کیا ہے،انہوں نے اسی حدیث کی روایت یا اس سے زیادہ صحابیوں سے نقل کی ہے۔(1)

فتح باری کے مولف لکھتے ہیں کہ جہاں تک حدیث((من کنت مولاه فهذا علی مولاه)) کا سوال ہے تو اس کو نسائی اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور بھی بہت سے طریقوں سے روایت کی ہے ابن عقدہ نے اس حدیث کے طریقوں کو ایک الگ کتاب میں جمع کیا ہے اس کی زیادہ تر اسناد یا تو صحیح ہیں یا حسن اور میں امام احمد سے روایت کرتا ہوں کہ جتنے فضائل مولائے کائنات کے ہم تک پہونچے ہیں کسی صحابی کے نہیں پہونچے۔(2)

ابوعبداللہ محمد بن احمد بن عثمان بن قائماز ذہبی جیسا کہ انہوں نے حاکم نیشاپوری کے حالات میں لکھا ہے کہ حدیث طیر کے بہت سے راوی ہیں میں نے ایک کتاب میں الگ سے جمع کیا ہے اور راویوں کے اس مجموعہ کو دیکھ کر یہ ماننا پڑتا ہے کہ حدیث طیر کی اصل ہے لیکن حدیث((من کنت مولاہ((تو اس کے بھی بہت سے راوی ہیں اور اس کے لئے بھی میں نے الگ کتاب لکھی ہے۔(3) لیکن خطبہ کے باقی کے فقروں کے راوی مختلف ہیں اس خطبہ میں سرکار دو عالمؐ نے حدیث میں تقدیم کرنے کے لئے یہ جملہ بھی ارشاد فرمایا تھا۔کیا میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ صاحب اختیار نہیں ہوں؟یا یہ فرمایا تھا کہ:

----------------

(1)تھذیب التھذیب ج:7،ص:297،حالات امیرالمومنینؑ

(2)فتح الباری ج:7ص:73

(3)تذکرۃ الحفاظ ج:3ص:1042۔1043

۲۳۸

میں مومنین کے نفسوں سے اولیٰ ہوں ان کے لئے؟))اس فقرہ کا بھی کثیر طریقوں سے ذکر کیا گیا ہے یہاں تک کہ بات حد تواتر تک پہونچی ہے بلکہ کچھ اس سے بھی زیادہ حدیث کی کتابوں میں یہ جملہ موجود ہے اور ایک جماعت نے اس کا ذکر کیا ہے ان میں۔

1۔امام حنابلہ ابوعبداللہ احمد بن حنبل شیبانی ہیں(1) 2۔حافظ ابوسعید ہیثم بن کلیب شاشی ہیں(2) 3۔حافظ عبدالرحمٰن احمد بن شعیب نسائی ہیں(3) 4۔حافظ ابوالحسن علی بن ابوبکر بن سلیمان ہیثمی ہیں(4) 5۔حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی دمشقی ہیں(5) 6۔ابن اثیر جزری کے نام سے مشہور عزالدین علی بن محمد ہیں(6) 7۔ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابوبکر شیبہ کوفی ہیں(7)

8۔ابوالمحسن یوسف بن موسیٰ الحنفی(8) 9۔حافظ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ تمیمی بیشاپوری(9)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند احمدج:1ص:119،مسند علی بن ابی طالبؑ ج:4ص:281،حدیث براءبن عازب ص:368۔372،حدیث زید بن ارقم

(2)مسند الشاشی ج:2ص:127،روایت حارث بن مالک نے سعید سے

(3)سنن کبریٰ نسائی ج:5ص:45،کتاب مناقب،فضائل علیؑ ص:130۔131،کتاب الخصائص،باب قول نبیؐ،ص:134،کتاب خصائص:الترغیب فی موالاۃ علیؑ و الترھیب فی معاداتہ،اور اسی طرح روایت کی کتاب خصائص علیؑ میں ص:101۔100

(4)مجمع الزوائدج:9ص:104۔105۔107،کتاب مناقب،باب مناقب علی ابن ابی طالبؑ

(5)البدایۃ و النھایۃج:5ص:209،حدیث:غدیر خم کے میدان میں جو فرمائی:ج:7ص:349

(6)اسد الغابۃج:4ص:28،حالات علی بن ابی طالبؑ

(7)مصنف ابن ابی شیبہ ج:6ص:372،کتاب الفضائل،فضائل علی ابن ابی طالبؑ

(8)معتصر المختصرج:2ص:301،کتاب جامع ممالیس فی الموطا:مناقب علیؑ

(9)مستدرک علی صحیحین ج:3ص:118،کتاب معرفت صحابہ،مناقب امیرالمومنین علیؑ ص:616

۲۳۹

10۔حافظ ابوبکر احمد بن عمرو بن عمرو بن ابوعاصم الضحاک بن مخلد شیبانی(1)

11۔حافظ ابویعلی احمد بن علی بن مثنی موصلی تمیمی(2)

12۔حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب طبرانی(3)

13۔ابوالحسن علی بن عمر بن احمد دارقطنی متوفی367؁کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ:

من کنت مولاہ))کے بعد حضرت نے فرمایا:(4) اللھم وآل من ولاہ و عاد من عادہ(مالک تو اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس کو دشمن رکھ جو علیؑ کو دشمن رکھے)اہل سنت کی ایک جماعت نے اس کا ذکر کیا کیا ہے اور بہت سے طریقوں سے وارد کیا ہے اہل سنت نے اس جملہ کو اپنی کتابوں میں شامل کیا ہے ان لوگوں کے چند نام مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ابوالمحاسن یوسف بن موسیٰ حنفی(5) 2۔امام حنابلہ ابوعبداللہ احمد بن حنبل شیبانی(6) 3۔حافظ ابوسعید ہیثم بن کلیب شاشی(7)

4۔حافظ ابوعمر یوسف بن عبداللہ محمد بن عبدالبرنمری قرطبی(8) 5۔حافظ ابوعبدالرحمٰن بن شعیب نسائی(9)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)السنۃ لابن ابی عاصم ج:2ص:606،605،باب من کنت مولاہ فعلی مولاہ

(2)مسند ابی یعلی ج:1ص:429،مسند بن ابی طالبؑ

(3)معجم الکبیرج:5ص:194،ص:195،روایت عطیہ عوفی نے زید بن ارقم سے

(4)جزء ابی طاہر ص:50

(5)معتصر المختصرج:1ص:307،کتاب النکاح:فی کراھۃ التزویج علی فاطمہ،اسی طرح،ج:2ص:301،کتاب جامع ممالیس فی الموطا

(6)مسند احمدج:1ص:118۔119،مسند علی بن ابی طالبؑ میں ج:4ص:281،حدیث براءبن عاذبص:372،حدیث زید بن ارقم،ج:5ص:370

(7)مسند الشاشی ج:2ص:166

(8)الاستیعاب ج:3ص:36،حالات علی بن ابی طالبؑ

(9)سنن کبری نسائی ج:5ص:45،کتاب مناقب،فضائل علیؑ ص:132،کتاب خصائص:باب قول نبیؐ اور اسی طرح روایت کتاب خصائص علی ص:93،قول نبیؐ ص:100،الترغیب فی مولاتہ و الترھیب عن معاداتہ

۲۴۰