فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ13%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130301 / ڈاؤنلوڈ: 6755
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

امام علیہ السلام سے کہنے لگے : اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے! آپ کہاں جارہے ہیں ! امام علیہ السلام نے انکار کیا اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انھوں نے تازیانہ بلندکر لیا لیکن امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رہے۔ جب امام علیہ السلام کو ان لوگوں نے جاتے ہوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کہا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو جماعت سے نکل کر اس امت کے درمیان

تفرقہ اندازی کررہے ہو ! ان لوگوں کی باتیں سن کر امام علیہ السلام نے قران مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِيْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئْ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ'' ) (١) و(٢)

اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارا عمل ہمارے لئے اور تمہاری کارستانی تمہارے لئے ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔

عبداللہ بن جعفر کاخط

چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیہم السلام) کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے نکل رہے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب(٣) نے ایک خط لکھ کر اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد(٤) کے ہمراہ روانہ کیا جس کی عبارت یہ ہے:

____________________

١۔ سورہ ٔیونس ٤١

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٨٥،ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

٣۔ آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پہنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔(طبری، ج٤، ص٥١٠)آپ کی ذات وہ ہے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ہی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج٤، ص ٥٥٤)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررہے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٤٨)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے (طبری ،ج٥،ص ١٦٠) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونو ں امامو ں کے ہمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٦٥) آپ کے دونو ں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :''واللّه لو شهدته ،لأ حببت الّا أفارقه حتی أقتل معه'' خداکی قسم اگر میں موجود ہوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ہو ں یہا ں تک کہ ان کے ہمراہ قتل ہوجاؤ ں ۔ (طبری ج٥ ، ص ٤٦٦)

٤۔یہ دونو ں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلامیں جام شہادت نوش فرماکرسرفراز ہوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ما ں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ہیں (مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میں شمار ہوتے ہیں ) اور محمد کی ما ں خو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ہیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ہیں ۔

۲۲۱

'' امابعد ، فانّی أسألک باللّه لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجه الذی تتوجه له أن یکون فیه هلاکک واستئصال اهل بیتک ، أن هلکت الیوم طفیٔ نور الارض فانک علم المهتدین ورجاء المؤمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی أثر الکتاب؛ والسلام ''

اما بعد : جب آپ کی نگاہ میرے خط پر پڑے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے ؛کیو نکہ آپ نے جس طرف کا رخ کیا ہے مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلا کت اور آپ کے خاندان کی اسیری ہے اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش ہو جا ئے گا؛ کیوں کہ آپ ہدایت یافتہ افراد کے پر چمدار اور مو منین کی امید ہیں ؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں ۔ میں اس خط کے پہنچتے پہنچتے آپ کی خدمت میں شر فیاب ہو رہا ہوں ۔ والسلام

عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا : حسین (علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا ؤ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمہاری باتوں سے مطمئن ہو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحٰی بن سعید کے ہمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے وہ مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ہو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ہو ئے کہا : تم جو چا ہتے ہو لکھ کر میرے پاس لے آؤ میں اس پر مہر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :

بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ہے ۔

اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ہوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ہے اور جس میں آپ کی ہدایت ہے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ہے ۔

خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحٰبن سعید کوروانہ کررہا ہوں ؛آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس تشریف لے آئیے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بہترین جائیگاہ ہے۔ میں خداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاہوں ۔ والسلام

۲۲۲

خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کہا: اس پر مہر لگاؤ تواس نے فوراًاس پر اپنی مہر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحٰی امام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ کی خدمت میں یحٰی بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللّہ الرحمن الرحیم

امابعد، فانه لم یشاقق الله ورسوله من دعاالی اللّٰه عزَّو جلَّ وعمل صالحاًو قال أنّنی من المسلمین؛وقد دعوت الیٰ الامان والبرّو الصلة فخیرالامان امان الله ولن یؤمّن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا، فنسأل اللّٰه مخافة فی الدنیاتوجب لنا أمانه یو م القیامة فان کنت نویت بالکتاب صلتی و برّی فجُزیتَ خیراًفی الدنیاوالآخرة ۔ والسلام

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، امابعد،ہر وہ شخص جو لوگوں کو خدائے عزّو جلّ کی طرف دعوت دیتاہے اور عمل صالح انجام دیتاہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ خدااور رسول کی مخالفت نہیں کرتا ہے اور تم نے جو مجھے امان ، نیکی اور صلہ رحم کی دعوت دی ہے تو جان لو کہ بہترین امان خداوندمتعال کی امان ہے اور قیامت میں وہ شخص اللہ کی امان میں نہیں ہے جو دنیا میں اللہ سے نہیں ڈرتا ۔میں دنیامیں خدا سے اس خوف کی درخواست کرتا ہوں جو آخرت میں قیامت کے دن ہمارے لئے اما ن کا باعث ہو۔اب اگر تم نے اپنے خط کے ذریعہ میر ے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کی نیت کی ہے تو تم کو دنیاوآخر ت میں اس کی جزا ملے گی۔

۲۲۳

وہ دونوں امام علیہ السلام کا جواب لے کرعمرو بن سعید کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم دونوں نے تمہارے خط کو ان کے سامنے پڑھا اور اس سلسلے میں بڑی کو شش بھی کی لیکن اس سلسلہ میں ان کا عذر یہ تھا کہ وہ فر ما رہے تھے :'' انّی رأیت رؤیاً فیهارسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم وأُمرتُ فیها بأ مرٍأنا ما ضٍ له، علیّ کان أولٰ''

میں نے ایک ملکو تی خواب دیکھا ہے جس میں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم موجو د تھے۔ اس خوا ب میں آپ نے مجھ کو ایک چیز کا حکم دیا گیا ہے۔میں اس پر ضرور عمل کروں گا اور یہ مجھ پر سب سے زیادہ اولیٰ ہے۔

جب ان دونوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ خواب کیا تھا ؟تو آپ نے فر مایا :'' ما حدثت بها أحداً وما أنا محدّ ث بها حتی ألقی ربِّی'' (١) اور(٢) میں یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی میں یہ خواب کسی سے بیان کرنے والا ہوں یہاں تک کہ اپنے رب سے ملا قات کر لوں ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیہما السلام) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٨٨)

٢۔امام علیہ السلام یہ مناسب نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنے سفر کے رازسے سب کو آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا ہے وہ سب بیان نہیں کر دیتا ہے خصوصاً جبکہ انسان ظرف و جودکے لحاظ سے مختلف و متفاوت ہو ں اور امام علیہ السلام پر واجب ہے کہ ہر شخص کو اس کے وجود کی وسعت اور معرفت کی گنجا ئش کے اعتبار سے آشنائی بہم پہنچائی ں ، اسی لئے امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو ایک واقعی جو اب دیدیا کہ''لم یشا قق الله ورسوله من دعا الی اللّٰه وعمل صالحاً ...وخیر الا مان أمان اللّٰه و لن یؤمن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا فنسأل اللّٰه مخافةفی الدنیا تو جب لنا أما نه یوم القیامه ''

اور جب وہ لوگ اس جواب سے قانع نہ ہو ئے تو امام علیہ السلام نے کہہ دیاکہ آپ کو ایک ایسے خواب میں حکم دیا گیا ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے کہ آپ اپنے سفر کو جاری رکھی ں ؛ لیکن آپ نے اس خواب کو بیان نہیں کیا اور یہ کہہ کربات تمام کردی : ''وما أنا محدث لها حتی ألقی ربی ''

شاید یہیں پرا حمد بن اعثم کوفی متوفی ٣١٠ ھ نے امام علیہ السلام کے اس خواب کا تذکر ہ کر دیا ہے جو آپ نے اپنے جد کی قبر پر مد ینہ میں دیکھا تھا لیکن یہ کیسے معلوم کہ یہ خواب وہی ہے ؟ جب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی ملا قات سے قبل میں کسی سے بھی بیان نہیں کرو ں گا یعنی یہ وہی بات ہے جس کا میں نے عہد کیا ہے ۔ واللہ اعلم بہ ، اللہ اس سے بہتر آگاہ ہے۔

۲۲۴

راستہ کی منزلیں

* پہلی منزل: تنعیم

* دوسری منزل : صفاح

*تیسری منزل : حاجر

* چوتھی منزل:چشمۂ آب

* پانچویں منزل : خزیمیہ

* زہیر بن قین کا امام علیہ السلام سے ملحق ہونا

* ایک اور نامہ

* چھٹی منزل :زرود

* ساتویں منزل :ثعلبیہ

* آٹھویں منزل:زبالہ

* نویں منزل : درّہ عقبہ

* دسویں منزل : شراف

* گیارہویں منزل : ذو حسم

* بارہویں منزل : البیضہ

* تیرہویں منزل : عذیب الھجانات

* چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل

* قربان گاہ عشق نینوا

۲۲۵

راستہ کی چودہ (١٤)منزلیں

پہلی منزل :تنعیم(١)

امام حسین علیہ السلام نے اپنے سفرکو جاری رکھااورراستہ میں آپ کا گذرایک ایسی جگہ سے ہوا جسے تنعیم کہتے ہیں ۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک قافلہ سے ہوئی جسے بحیر بن ریسان حمیر ی(٢) نے یزید بن معاویہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ یہ شخص یمن میں یزید کاکار گزار تھا۔ اس قافلہ کے ہمراہ الورس(٣) اور بہت سارے شاہانہ لباس تھے جسے عامل یمن نے یزید کے پاس روانہ کیا تھا۔امام علیہ السلام نے اس کا روان کے سارے بار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور قافلہ والوں سے فرمایا :''لا أکر هکم من أحب أن یمضی معنا الی العراق أوفینا کراء ه وأحسنا صحبته، ومن أحب أن یفارقنا من مکاننا هذا أعطیناه من الکراء علیٰ قدر ماقطع من الارض''

____________________

١۔یہ مکہ سے دوفرسخ پر ایک جگہ ہے جیساکی معجم البلدان ج٢،ص٤١٦پر مرقوم ہے ۔ مکہ کے داہنی جانب ایک پہاڑہے جسے تنعیم کہتے ہیں اور شمالی حصہ میں ایک دوسراپہاڑہے جسے ''ناعم ''کہتے ہیں او راس وادی کو ''نعیمان''کہتے ہیں ۔وہا ں پر ایک مسجد موجود ہے جو قر یب ترین میقات اورحرم سے نزدیک ترین احرام سے باہر آنے کی جگہ ہے آج کل یہ جگہ مکہ کے مرکزی علاقہ سے ٦ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ایک فرسخ ہے نہ کہ دو فرسخ ۔ اس وقت شہر سے لے کر یہا ں تک پورا ایک متصل اور وسیع علاقہ ہے جو مدینہ یا جدہ سے مکہ آنا چاہتا ہے اسے ادھر ہی سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔

٢۔گویایہ وہی شخص ہے جو علم نجوم میں صاحب نظر تھاکیونکہ اس نے عبداللہ بن مطیع کو بتایا تھا کہ جب ابن زبیر قیام کرے گا تو وہ کوفہ کاوالی بنے گا۔(طبری ،ج٦، ص ٩) طاوؤ س یمانی جو بہت معروف ہیں اس شخص کے آقا تھے۔طاوؤ س یمانی نے مکہ میں ١٠٥ھ میں وفات پائی۔(طبری، ج٦، ص٢٩)

٣۔ الورس؛ یہ خاص قسم کی گھاس ہے جو تل کی طرح ہوتی ہے اور رنگ ریزی کے کام آتی ہے اور اس سے زعفران بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ گھاس یمن کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔

ممکن ہے کہ بادی النظر فکر میں کسی کو امام علیہ السلام کا یہ فعل العیاذباللہ نا مناسب لگے کہ آپ نے درمیان سے قافلہ کے بار کو اپنی گرفت میں کیو ں لیا؟ یہ تو غصب ہے لیکن وہ افراد جو تاریخ کی ابجد خوانی سے بھی واقف ہو ں گے وہ بالکل اس کے برعکس فیصلہ کری ں گے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق تو امام علیہ السلام کا کام غلط ہوہی نہیں سکتا، انھو ں نے جو کیا وہی حق ہے لیکن ایک غیر کے لئے تا ریخ کی ورق گردانی کافی ہوگی اور جب وہ تاریخ کے اوراق میں امام حسن علیہ ا لسلام کی صلح کے شرائط پر نگاہ ڈالے گا تو ظاہری اعتبار سے بھی یزید کا تخت حکومت پر براجمان ہونا غلط ثابت ہوگا اور وہ ایک باغی شمار کیا جائے گا جس نے مسلمانو ں کے بیت المال کو غصب کیاہے اور امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ کے خلیفہ قرار پائی ں گے جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرکے اس غاصب و باغی تک اموال مسلمین پہنچنے سے مانع ہو ں پس یمن کے اس قافلہ کو روک کر اموال کو اپنی گرفت میں لینا امام علیہ السلام کا اولین فریضہ تھا لہٰذا ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے قافلہ والو ں سے بڑی دلنشین گفتگو کی جب کہ ظالم وجابر حکومت کی نگاہ میں ایسے افراد لائق گردن زدنی یا قابل قید و بندہوتے ہیں ۔(مترجم)

۲۲۶

میں تم لوگوں پر کوئی زبر دستی نہیں کرتا لیکن تم میں جو یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ساتھ عراق چلے تو ہم اس کو کرایہ سفر بھی دیں گے اور اس کی ہمراہی کو خوش آمدید بھی کہیں گے اور جو ہم سے یہیں سے جدا ہونا چاہتا ہے اسے بھی ہم اتنا کرایہ سفر دے دیں گے کہ وہ اپنے وطن تک پہنچ جائے ۔

امام علیہ السلام کی اس دلنشین گفتار کے بعد جو بھی اس قافلہ نور سے جدا ہوا اسے امام علیہ السلام نے اس کا حق دے دیا اور جس نے رکنا چاہا اسے کرایہ دینے کے علاوہ اما م علیہ السلام نے لباس بھی عطا کیا۔(١)

دوسری منزل : الصفاح(٢)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ پہلی منزل سے چلنے کے بعدہم لوگ امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے ہمراہ دوسری منزل پر پہنچے جسے '' الصفاح '' کہتے ہیں اور وہاں ہماری ملاقات فرزدق بن غالب(٣) شاعر سے ہوئی۔ وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: خدا وند متعال آپ کی حاجت کو پورا کرے اور آ پ کی تمنا و آرزو کو منزل مراد تک پہنچائے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری،ج٥، ص ٣٨٥)

٢۔یہ جگہ حنین اور انصاب الحرم کے درمیان ہے جو بہت آ سانی سے مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔

٣۔ اس شخص کا نام ھمام بن غالب بن صعصہ ہے۔ ان کے دونو ں چچا'' ذھیل'' اور ''زحاف ''بصرہ میں زیاد بن سمیہ کے دیوان میں دو دو ہزار بخشش لیا کرتے تھے ۔انھو ں نے بنی نہشل اور فقیم کی ہجو میں اشعار کہے تو ان دونو ں نے زیاد سے جا کر ان کی

۲۲۷

شکایت کی ۔جب اس نے فرزدق کو طلب کیا تویہ وہا ں سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد نوبت یہ آ گئی جب زیاد بصرہ آتا تھا تو فرزدق کوفہ آجاتے تھے اور جب وہ کوفہ آتا تھا تو فرزدق بصرہ روانہ ہوجاتے تھے۔ واضح رہے کہ زیاد ٦ مہینہ بصرہ رہتا تھااور ٦ مہینہ کوفہ کے امور سنبھالتا تھا۔ اس کے بعد یہ حجاز چلے گئے اور وہیں مکہ ومدینہ میں رہنے لگے۔اس طرح زیاد کی شرارتو ں سے بچ کر سعید بن عاص کی پناہ میں رہنے لگے یہا ں تک کہ زیاد ہلاک ہوگیا(طبری، ج٥، ص ٢٤٢، ٢٥٠)تو انھو ں نے اس کی ہجو میں مرثیہ کہا :

بکیت امرئً امن آ ل سفیان کافراً ککسری علی عدوانہ أو کقیصراً (طبری، ج٥،ص ٢٩٠)میں نے آل سفیان کے ایک مرد پر گریہ کیا جو کافر تھا جیسے قیصر و کسری اپنے دشمن پر روتے ہیں ۔

ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پلٹ گئے اور وہیں رہنے لگے۔ ٦٠ھمیں یہ اپنی ما ں کے ہمراہ حج پر آ رہے تھے جب ان کی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی شاید اسی لئے حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا میں حاضری نہ دے سکے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٨٦) انھو ں نے حجاج کے لئے بھی شعر کہے ہیں ۔(طبری ،ج٦،ص ٣٨٠و ٩٣٩٤) سلیمان بن عبدالملک کے محل میں بھی ان کی آمد ورفت تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٤٨)١٠٢ھ تک یہ شاعر زندہ رہے۔(طبری ،ج٥، ص ٢٤٢ ، ٢٥٠) بنی نہشل کی ہجو میں جب انھو ں نے اشعار کہے تھے تو یہ جوان تھے بلکہ ایک نوجوان اعرابی تھے جو دیہات سے آئے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٤٢) ایسی صورت میں امام علیہ السلام سے ملاقات کے وقت ان کی عمر ٣٠سال سے کم تھی۔

امام علیہ السلام نے اس سے کہا :''بيّن لنا نبأ الناس خلفک'' تم جس شہر اور جہا ں کے لوگو ں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبری ں ہمارے لئے بیان کرو ۔فرزدق نے کہا : آ پ نے واقف کار شخص سے سوال کیا ہے تو سنئے :'' قلوب الناس معک ''لوگو ں کے دل آپ کے ساتھ ہیں ''و سیوفهم مع بنی امیه'' اور ان کی تلواری ں بنی امیہ کے ساتھ ہیں'' والقضاء ینزل من السمائ'' لیکن فیصلہ و قضا تو خدا وند عالم کی طرف سے ہے ''واللّہ یفعل ما یشائ'' اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

۲۲۸

امام حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : تم نے سچ کہا، اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے ؛ہمارے رب کی روزانہ اپنی ایک خاص شان ہے لہٰذا اگر اس کا فیصلہ ایسا ہوا جو ہمیں محبوب ہے تو اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں گے اور شکر کی ادائیگی میں وہ ہمارا مدد گا ر ہے اور اگرفیصلہ الہٰی ہماری امیدوں کے درمیان حائل ہوگیا تب بھی اس شخص کے لئے کچھ نہیں ہے جس کی نیت حق اور جس کی سرشت تقویٰ ہے۔ یہ کہہ کر امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو حرکت دی تو انھوں نے امام کو سلام کیا اور دونوں جدا ہوگئے۔(١) و(٢) جب عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے عراق کی طرف آرہے ہیں تو اس نے اپنی پولس کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو روانہ کیا۔ اس نے مقام قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈالا اور قادسیہ(٣) و خفا ن(٤) کے درمیان اپنی فوج کو منظم کیا اسی طرح قادسیہ اور قطقطانہ(٥) اورلعلع کے درمیان اپنی فوج کو منظم کرکے کمین میں لگادیا۔(٦)

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ ابی جناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨٦) یہ بیان اس بیان سے میل نہیں کھاتا جو ان دونو ں سے عنقریب بیان ہو گا کہ یہ دو نو ں کہتے ہیں کہ ہم لوگ مقام '' زرود میں امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے اور یہ منزل صفاح کے بعد کوفہ کے راستہ میں چندمنازل کے بعد ہے مگر یہ کہا جائے کہ ان کے قول''اقبلنا حتی انتھینا ''کا مطلب یہ ہوکہ ہم لوگ کوفہ سے روانہ ہوکر صفاح تک پہنچے جو مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے پھر مناسک حج انجام دینے کے بعد منزل زرود میں امام علیہ السلام سے دوبارہ ملحق ہوگئے ۔

٢۔طبری نے کہا : ہشام نے عوانہ بن حکم کے حوالے سے، اس نے لبطہ بن فرزدق بن غالب سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس کے باپ نے کہا : میں نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا اور ایام حج میں حرم میں داخل ہو ا تو دیکھا حسین بن علی مکہ سے نکل رہے ہیں میں ان کے پاس آیا اورعرض کی: بأبی أنت و أمی یا بن رسول اللّٰہ! ما اعجلک عن الحج؟ فرزند رسول خدا میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوجائی ں !آپ کو اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ آپ حج چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا : لو لم أعجل لأْ خذت اگر میں جلدی نہ کرتا تو پکڑ لیا جاتا ۔ فرزدق کہتا ہے کہ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ممن أنت ؟تم کہا ں کے رہنے والے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا : میں عراق کا رہنے والا ایک شخص ہو ں ؛ خدا کی قسم !اس سے زیادہ انھو ں نے میرے بارے میں تفتیش نہیں کی ؛ بس اتنا فرمایا : جن لوگو ں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو مجھے ان کی خبر بتاؤ تو میں نے کہا: انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواری ں بنی امیہ کے ہمراہ ہیں اور قضاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔آپ نے مجھ سے فرمایا : تم نے سچ کہا! پھر میں نے نذر اور مناسک حج کے سلسلہ میں کچھ سوالات کئے تو آپ نے اس کے جواب سے مجھے بہرہ مند فرمایا۔(طبری، ج٥، ص ٣٨٦)

٣۔قادسیہ او ر کوفہ کے درمیان ١٥ فرسخ کی مسافت ہے اور اس کے وعذیب کے درمیان ٤میل کا فاصلہ ہے اور اسے دیوانیہ کہتے ہیں ۔ حجاز کے دیہات کی طرف یہ(قادسیہ) عراق کا سب سے پہلا بڑاشہر ہے۔ اسی جگہ پر عراق کی سب سے پہلی جنگ بنام جنگ قادسیہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں ہوئی ہے ۔

٤۔ یہ ایک قریہ ہے جو کوفہ سے نزدیک ہے جہا ں بنی عباس کا ایک پانی کاچشمہ ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٣ ، ص٤٥١ پر موجود ہے ۔

٥۔ قطقطانہ ، رہیمہ سے کوفہ کی طرف تقریباً ٢٠میل کے فاصلہ پرہے۔ (طبری، ج٧ ، ص ١٢٥) یعقوبی کا بیان ہے : جب امام علیہ السلام کومسلم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ قطقطانہ میں تھے۔ (طبری، ج٢، ص ٢٣٠)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یونس بن ابی اسحاق سبیعی نے اس کی روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٤)

۲۲۹

تیسری منزل : حاجر(١)

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوتے ہوئے حاجر بطن رمہ(٢) تک پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قیس بن مسہر صیداوی کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہمراہ اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا :

''بسم اللّه الرحمن الرحیم ! من الحسین بن علی الی اخوانه من المومنین و المسلمین، سلام علیکم : فانّی أحمد الیکم اللّٰه الذی لا اله الا هو ، أما بعد ، فان کتاب مسلم بن عقیل جاء ن یخبرن فیه بحسن رأیکم و اجتماع ملئکم علی نصرنا و الطلب بحقنا فسألت اللّٰه أن یحسن لنا الصنع وأن یثیبکم علی ذالک أعظم الاجر ، وقدشخصت من مکة یوم الثلاثاء لثمان مضین من ذی الحجه یوم التروية فاذا قدم علیکم رسول فا کمشوا أمرکم و جدّ وا، فان قادم علیکم فأیام هٰذه، ان شاء اللّٰه؛ والسلام علیکم ورحمة اللّه وبرکا ته ''

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ! یہ خط حسین بن علی کی جانب سے اپنے مومنین و مسلمین بھائیوں کے نام، سلام علیکم ، میں اس خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔امابعد ، حقیقت یہ ہے کہ مسلم بن عقیل کا خط مجھ تک آچکا ہے، اس خط میں انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ تم لوگوں کی رائے اچھی ہے اور تمہارے بزرگوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے اور ہمارے حق کو ہمارے دشمنوں سے واپس لے لیں گے تو میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے اچھی راہ قرار دے اور اس کے ثواب میں تم لوگوں کو اجرعظیم سے نوازے ۔

____________________

١ ۔حاجرنجد کی بلند وادی کو کہتے ہیں ۔

٢۔ بطن رمہ وہ جگہ ہے جہا ں اہل کو فہ و بصرہ اس وقت یکجا ہوتے تھے جب وہ مدینہ جانے کا ارادہ کرتے تھے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٤،ص ٢٩٠،اور تاج العروس، ج ٣،ص١٣٩پر مرقوم ہے۔

۲۳۰

اس سے تم لوگ آگاہ رہوکہ میں بروز سہ شنبہ ٨ ذی الحجہ یوم الترویہ مکہ سے نکل چکا ہوں لہذا جب میرا نامہ بر تم لوگوں تک پہنچے تو جو کام تم کو کرنا چاہئیے اس کی تدبیر میں لگ جاؤ اور اس مسئلہ میں بھر پور کوشش کرو کیونکہ میں انشا ء اللہ انہی چند دنوں میں تم تک پہنچنے والا ہوں ۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

امام حسین علیہ السلام کا یہ خط لے کر قیس بن مسہر صیداوی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔آپ جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن تمیم نے آپ کو گرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔

ابن زیاد نے آپ سے کہا محل کی چھت پر جاؤ اور کذاب بن کذاب کو گالیاں دو !

قیس بن مسہر شجاعت وشہا مت کے ساتھ محل کی چھت پر آئے اور کہا :'' أیھا الناس ! ان الحسین علیہ السلام بن علی خیر خلق اللّٰہ ابن فاطمہ بنت رسول اللہ وأنا رسولہ الیکم وقد فارقتہ بالحاجر فأجیبوہ ثم لعن عبید اللہ بن زیاد وأباہ واستغفر لعلیِّ بن أبی طالب '' اے لوگو ! حسین بن علی خلق خدا میں بہتر ین مخلوق ہیں ، آپ فرزند فاطمہ بنت رسول خدا ہیں اور میں ان کا نامہ بر ہوں ، میں ان کو مقام حاجر میں چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ تم لوگ ان کی عدالت خواہ آواز پر لبیک کہنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ پھر آپ نے عبید اللہ اور اس کے باپ پر لعنت کی اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے لئے طلب مغفرت کی۔عبید اللہ نے حکم دیا کہ انھیں محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔اس طرح آپ شہید ہو گئے ۔] اللہ آپ پر نزول رحمت فر مائے[(١)

چو تھی منزل : چشمۂ آب

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں دواں تھا؛ راستے میں آپ کا قافلہ عرب کے ایک پا نی کے چشمہ کے پاس جا کر ٹھہرا۔ وہاں عبد اللہ بن مطیع عدوی بھی موجود تھے جو پا نی لینے کی غرض سے وہاں اترے تھے۔جیسے ہی عبد اللہ بن مطیع نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا ویسے ہی آپ کی خدمت میں

____________________

١۔ کتاب کے مقدمہ میں شرح احوال موجود ہے۔

۲۳۱

آکر کھڑے ہو گئے اور عرض کی: فرزند رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !کون سا سبب آپ کو یہاں تک لے آیا ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اہل عراق نے خط لکھ کر مجھے اپنی طرف بلا یا ہے۔عبد اللہ بن مطیع نے آپ سے عرض کیا: فرزند رسول اللہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ اس راہ میں آپ اسلام کی ہتک حرمت نہ ہو نے دیں ، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کی حرمت خطرے میں نہ پڑے ،خدا کے لئے عرب کی حرمت خطرے میں نہ ڈالئے۔خدا کی قسم! اگر حق کو بنی امیہ سے واپس لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر ڈالیں گے اور اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کردیا تو آپ کے بعد کسی کو نگا ہ میں نہیں لا ئیں گے ۔(١) خدا کی قسم! اسلام کی حرمت، قریش کی حرمت ہے اورعربوں کی حرمت خاک میں مل جائے گی ،پس آپ ایسا نہ کریں اور کوفہ نہ جائیں اور بنی امیہ سے نہ الجھیں !عبد اللہ بن مطیع نے اپنے نظر یہ کو پیش کیا اور امام علیہ السلام اسے بغور سنتے رہے لیکن اپنے راستے پر چلتے رہے۔

پانچو یں منزل:خزیمیہ(٢)

امام حسین علیہ السلام کا سفر اپنے مقصد کی طرف جاری تھا۔ چلتے چلتے پھر ایک منزل پررکے جو مقام '' زرود'' سے پہلے تھی یہاں پر پانی موجود تھا،(٣) اس جگہ کا نام خزیمیہ ہے ۔

____________________

١۔ امام کے عمل سے نہ تو اسلام کی بے حرمتی ہوئی نہ ہی رسول خدا ، عرب اور قریش کی ہتک حرمت ہوئی بلکہ اسلام دشمن عناصر کی کا رستا نیو ں سے یہ سب کچھ ہوا ۔ابن مطیع نے اپنے اس جملہ میں خطا کی ہے جو یہ کہہ دیا کہولئن قتلوک لا یها بون بعد ک احداابدا کیونکہ امام علیہ السلام کے بعد ان لوگو ں کو جرأ ت ملی جو مکہ ومدینہ وکوفہ میں اس سے پہلے اپنے ہاتھو ں میں چوڑیا ں پہنے بیٹھے تھے انھی ں میں سے خود ایک ابن مطیع بھی ہے جو ابن زبیر کے زمانے میں کوفہ کا والی بنا۔ اگر امام حسین علیہ السلام نے قیام نہ کیا ہوتا تو بنی امیہ کے خلا ف کسی میں جرأ ت پیدا نہ ہوتی اور اسلام کو مٹا نے میں وہ جو چاہتے وہی کرتے ۔

٢۔یہ جگہ مقام زرود سے پہلے ہے اس کے بعدکاراستہ کوفہ جانے والو ں کے لئے ہے جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس کے اورثعلبیہ کے درمیان ٣٢کیلومیٹرکا فاصلہ ہے۔ یہ درحقیقت ثعلبیہ کے بعدحجاج کی پہلی منزل ہے۔

٣۔ طبری ،ج٥،ص ٣٩٤، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت بیان کی ہے ۔شاید یہ قیس بن مسہر کے فرزند ہیں ۔

۲۳۲

زہیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونا

قبیلہء بنی فنرارہ کے ایک مرد کا بیان ہے : ہم زہیر بن قین بجلی کے ہمراہ تھے اور ہم اسی راستے پر چل رہے تھے جس راستہ پر حسین (علیہ السلام) محو سفر تھے لیکن ہمارے لئے سب سے زیادہ نا پسند امر یہ تھا کہ ہم ان کے ہمراہ ایک ساتھ سفر کریں اور ایک منزل پر ٹھہریں لہٰذ ا زہیر کے حکم کے مطا بق حسین جہاں ٹھہر تے تھے ہم وہاں سے آگے بڑھ جا تے اور وہ جہاں پر آگے بڑھتے ہم وہاں پڑاؤ ڈال کر آرام کرتے تھے؛ لیکن راستے میں ہم ایک ایسی منزل پر پہنچے کہ چارو نا چار ہم کو بھی وہیں پر رکنا پڑا جہاں پر امام حسین نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ امام حسین نے ایک طرف اپنا خیمہ لگا یا اور ہم نے اس کے دوسری طرف ؛ ہم لوگ ابھی بیٹھے اپنے خیمے میں کھا نا ہی کھا رہے تھے کہ یکایک حسین کا پیغام رساں حاضر ہوا اور اس نے سلام کیاپھر خیمہ میں داخل ہوا اور کہا : اے زہیر بن قین ! ابو عبد اللہ حسین بن علی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے تا کہ تم ان کے پاس چلو۔ اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ حیرت وتعجب سے جس انسان کے ہاتھ میں جو لقمہ تھا وہ نیچے گر گیا؛ سکوت کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ ہم سب کے سروں پر طائر بیٹھے ہیں ۔(١) زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر کہتی ہے کہ میں نے زہیر سے کہا : فرزند رسول اللہ تمہارے پاس پیغام بھیجے اور تم ان کے پاس نہ جائو !سبحان اللہ! اگر انھوں نے مجھے بلایا ہوتاتو میں ضرور جاتی اور ان کے گہر بار کلام کو ضرور سنتی، پھر میں نے کچھ نہ کہا لیکن زہیر بن قین اٹھے اور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں روانہ ہوگئے ۔ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ واپس آگئے لیکن اب تو بات ہی کچھ اور تھی؛ چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور چہرہ گلاب کی طرح کھلا جارہاتھا۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سدّی نے بنی فزارہ کے ایک جوان کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہم لوگ زہیر بن قیس بجلی کے مکان میں چھپے تھے جہا ں اہل شام داخل نہیں ہو تے تھے تو میں نے فزاری سے پوچھا: ذرا مجھ سے اس واقعہ کو بیان کرو جب تم لوگ حسین بن علی کے ہمراہ، سفر میں تھے تو اس نے یہ روایت بیان کی۔(طبری، ج٥، ص ٣٩٦، ارشاد، ص ٢٢١، خوارزمی، ص٣٢٥)

۲۳۳

اسی عالم میں زہیر نے اپنے ہمراہیوں سے کہا : تم میں سے جو ہمارے ساتھ آناچاہتا ہے آ جائے اور اگر نہیں تو اب اس سے میرا یہ آخری دیدار ہے۔اس کے بعداپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے زہیر نے کہا : میں تم لوگوں سے ایک روایت بیان کرنا چاہتا ہوں ، اسے غور سے سنو !ہم لوگ جب مقام '' بلنجر ''(١) پر لڑنے کے لئے گئے تو خداوندمتعال نے ہم لوگوں کو دشمنوں پر کامیابی عطاکی اور بڑی مقدار میں مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔اس وقت سلمان باہلی(٢) نے ہم لوگوں سے کہا : کیا تم لوگ اس بات پر خوش ہو کہ خدا وند عالم نے تم لوگوں کو فتح و ظفر سے نوازاہے اور کافی مقدار میں مال غنیمت تمہارے ہاتھوں لگاہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں !تواس نے ہم لوگوں سے کہا : جب تم لوگ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی جوانی دیکھو گے تو تمہاری ان کے ساتھ جنگ کی خوشی اس مال غنیمت ملنے کی خوشی سے زیادہ ہو گی اورجہاں تک میری بات ہے تو اب میں تم لوگوں سے خدا حافظی کر تا ہوں ۔

پھر زہیر بن قین نے اپنی زوجہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا : اب میں تم کو طلا ق دے رہا ہوں تاکہ تم آزاد ہو جاؤ اورگھروالوں کے پاس جا کر وہیں زندگی بسر کرو؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔میں تمہارے لئے بہتری چاہتاہوں ۔(٣) و(٤)

____________________

١۔ یہ تاتا ریو ں (یا خزریو ں) کا شہر ہے جو انہیں کے دروازو ں میں سے ایک دروازے کے نزدیک ہے ٣٣ھ عہد عثمان میں سلمان بن ربیعہ باہلی کے ہاتھو ں یہ جنگ فتح کی گئی جیسا کہ معجم البلدان میں یہی موجود ہے ۔

٢۔ طبری ،ج٤، ص ٣٠٥ پر ہے کہ سلمان فارسی اور ابو ہریرہ اس جنگ میں لشکر کے ہمراہ موجود تھے ۔یہ بیان ابن اثیر کی الکامل میں ہے (ج ٤،ص ١٧)پھریہ بیان ہے کہ جس شخصیت نے ان لوگو ں سے یہ گفتگوکی وہ سلمان فارسی ہیں نہ کہ باہلی۔ ابن اثیر نے ا پنی تاریخ الکامل فی التاریخ میں اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ تاریخ طبری کو کامل کری ں لہٰذاوہ اکثرو بیشتر اخبار میں طبری سے ناقل دکھائی دیتے ہیں ۔شیخ مفید نے ارشاد میں اور فتال نے روضة الواعظین میں ص ١٥٣پر ، ابن نمانے مثیر الاحزان میں ص ٢٣پر ، خوارزمی نے اپنے مقتل میں ج١، ص ٢٢٥پر اور البکری نے معجم ج١ ،ص٣٧٦ پر واضح طور سے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ شخص جناب سلمان فارسی ہی تھے جنہو ں نے یہ جملہ کہا تھا۔ اس بات کی تائید طبری نے بھی کی ہے کیونکہ طبری کے بیان کے مطابق جناب سلمان وہا ں موجود تھے ؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ مدائن فتح ہونے کے بعد جناب سلمان فارسی وہیں کے گورنر رہے اور وہیں اپنی وفات تک قیام پذیر رہے اور کسی بھی جنگ کے لئے وہا ں سے نہیں نکلے؛ بلکہ اس جنگ سے قبل عمر کے عہد حکومت میں آپ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبر زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر و نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٦، الارشاد، ص ٢٢١)

٤۔ عنقریب یہ بات کربلامیں زہیر بن قین کے خطبے سے معلوم ہوجائے گی کہ اس سے قبل زہیراس بات پر معاویہ کی مذمت کیا کرتے تھے کہ اس نے زیاد کو کس طرح اپنے سے ملحق کرلیا؛اسی طرح حجر بن عدی کے قتل پر بھی معاویہ سے ناراض تھے ۔

۲۳۴

ایک اور نامہ بر

اسی جگہ سے امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن بقطر حمیری(١) کو بعض راستوں سے مسلم بن عقیل(٢) کی طرف روانہ کیا۔ سپاہ اموی جو حصین بن تمیم کے سربراہی میں کوفہ کے قریب قادسیہ میں چھاؤنی ڈالے راہوں کو مسدود کئے تھی اور آمد و رفت پر سختی سے نظررکھے ہوئی تھی؛ اس نے عبداللہ بن بقطر کوگرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ جب آپ عبیداللہ کے پاس لائے گئے تو اس نے کہا : محل کے اوپر جاؤ اور کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو پھر نیچے اتر آؤ تاکہ میں تمہارے سلسلے میں اپنانظریہ قائم کرسکوں ۔یہ سن کر عبداللہ بن بقطر محل کے اوپر گئے اور جب دیکھا کہ لوگ تماشابین کھڑے ہیں تو آپ نے فرمایا :

'' أیھاالناس انی رسول الحسین علیہ السلام بن فاطمہ بنت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم لتنصروہ و توازروہ علی بن مرجانة بن سمیہ الدعی ! ''

اے لوگومیں حسین فرزند فاطمہ بنت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام رساں ہوں تاکہ تم لوگ ان کی مدد و نصرت کر سکو اور اس مرجانہ بن سمیہ کے بچے جس کی پیدائش کا بستر معلوم نہیں ہے، کے خلاف ان کی پشت پناہی کرو ،یہ سنتے ہی عبیداللہ بن زیادنے حکم دیاکہ انھیں چھت سے پھینک دیاجائے۔ اس کے کارندوں نے آپ کو محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا؛جس کی وجہ سے آ پ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ؛ لیکن ابھی رمق حیات باقی تھی۔عبدالملک بن عمیرلخمی(٣) آپ کے پاس آ یا اور آپ کو ذبح کر کے شہید کر ڈالا۔

____________________

١۔ آپ کی ما ں امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیاکرتی تھی ں اسی لئے آپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آ پ حضرت امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی تھے۔طبری نے بقطر ہی لکھا ہے اسی طرح جزری نے الکامل میں بھی بقطر ہی ذکر کیا ہے؛ لیکن ہمارے بزرگو ں نے(ی) کے ساتھ یعنی یقطر لکھاہے جیسا کہ سماوی نے ابصارالعین، ص٥٢پر یہی لکھا ہے ۔

٢۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبرابو علی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٩٨؛ارشاد، ص ٢٢٠) اس خبر کو انھو ں نے قیس بن مسہر صیداوی کی خبرسے خلط ملط کردیا ہے ۔

٣۔ شعبی کے بعد اس نے کوفہ میں قضاوت کا عہدہ سنبھالا۔ ١٣٦ ھ میں وہ ہلاک ہوا ؛اس وقت اس کی عمر ١٠٣ سال تھی جیسا کہ میزان الاعتدال، ج ١، ص ١٥١ ، اور تہذیب الاسمائ، ص٣٠٩ پر تحریرہے۔ عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ پر صیداوی کی شہادت کی خبر سے پہلے امام علیہ السلام کو ابن بقطر کی شہادت کی خبر ملی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیس بن مسہر صیداوی سے پہلے یقطر کو روانہ کیا تھا ۔

۲۳۵

چھٹی منزل: زرود(١)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا :

جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو ہماری ساری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی طرح حسین سے راستے میں ملحق ہو جائیں تاکہ دیکھیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں نے اپنے ناقوں کو سر پٹ دو ڑایا؛ یہاں تک کہ مقام زرود(٢) پر ہم ان سے ملحق ہوگئے۔جب ہم لوگ ان کے قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رہنے والا ایک شخص عراق سے حجاز کی طرف روانہ ہے، جیسے ہی اس نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو لیکن ا مام علیہ السلام وہاں پر کھڑ ے رہے گویا اس کے دیدار کے منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات کے لئے مائل نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔

ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ اس شخص کے پاس چلیں اور اس سے پوچھیں اگر اس کے پاس کوفہ کی خبر ہو گی تووہ ہم کو اس سے مطلع کرے گا ؛یہ کہہ کر ہم لوگ چلے یہاں تک کہ اس تک پہنچ ہی گئے، پہنچ کر ہم نے کہا : السلام علیک ، تو اس نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ۔

پھر ہم لوگوں نے پوچھا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہم قبیلہ بنی اسد سے ہیں ۔

ہم لوگوں نے کہا : ہم لوگ بھی بنی اسد سے متعلق ہیں ؛تمہارا نام کیا ہے ؟

____________________

١۔یہ جگہ خزیمیہ او رثعلبیہ کے درمیان کوفہ کے راستے میں ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج٤،ص ٣٢٧میں یہی موجود ہے۔

٢۔ یہ خبر اس خبر سے منافات ر کھتی ہے جوابھی گذرچکی کہ یہ لوگ منزل صفاح پر مقام زرو د سے چند منزل قبل فر زدق والے واقعے میں موجود تھے کیونکہ اس خبر سے یہی ظاہر ہوتاہے بلکہ واضح ہے کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے زرود میں ملحق ہوئے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ امام کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ حج کی ادائیگی کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ منزل صفاح اوائل میں ہے جبکہ امام علیہ السلام ''یوم الترویہ'' کو مکہ سے نکلے ہیں ۔ اگر یہ لوگ امام علیہ السلام سے منزل صفاح پر ملحق ہوئے ہیں تو پھر حج کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونو ں خبرو ں کا ایک ہی راوی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا؛ نہ ہی ابو جناب ، نہ ابو مخنف اورنہ ہی طبری، مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ حج سے پہلے یہ دونو ں منزل صفاح پر امام علیہ السلام سے ملے اور پھر حج کے بعد منزل زرود پر پہنچ کرامام علیہ السلام سے ملحق ہو گئے ۔

اس نے جواب دیا : بکیر بن مثعبہ، ہم لوگو ں نے بھی اپنا نام بتایا اور پھر اس سے پوچھا : کیا تم ہمیں ان لوگو ں کے بارے میں بتاؤ گے جنہیں تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو؟

اس نے جواب دیا:ہا ں ! میں جب کوفہ سے نکلاتھا تو مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل کئے جا چکے تھے ۔ ہم نے دیکھا ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر انھی ں بازار میں پھرایا جا رہاہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ہم لوگ اس سے جداہوکر اپنے راستے پر چل پڑے یہا ں تک کہ(حسین علیہ السلام) سے ملحق ہوگئے اور ایک دوسری منزل پر ان کے ہمراہ پٹراؤ ڈالا ۔

۲۳۶

ساتویں منزل : ثعلبیہ(١)

شام کا وقت تھا جب امام علیہ السلام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کا نام'' ثعلبیہ'' تھا۔جب آپ کے خیمہ نصب ہوچکے تو ہم لوگوں نے آپ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا ۔آ پ نے سلام کا جواب دیا تو ہم لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ہم لوگوں کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے اعلانیہ بیان کریں اوراگر چاہیں ۔ توخفیہ اور پوشیدہ طور پر بیان کریں ۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''مادون ھولاء سر'' ان لوگوں سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے جو خبر لائے ہو بیان کردو، ہم لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے کل شام اس سوار کو دیکھا تھا جو آپ کے پاس سے گزرا تھا ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! میں اس سے کوفہ کے بارے میں سوال کرناچاہتا تھا۔ ہم نے کہا: ہم نے اس سے آپ کے لئے خبر لے لی ہے اورآپ کے بجائے ہم لوگوں نے کوفہ کے موضوع پر تحقیق کر لی ہے۔ وہ شخص قبیلہ بنی اسد کاایک مرد تھا جو ہمارے ہی قبیلہ سے تھا ۔ وہ صاحب نظر، سچا، اور صاحب عقل و فضل تھا ۔اس نے ہم لوگوں سے بتایا کہ جب وہ وہاں سے نکلا تھا تومسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل ہوچکے تھے حتیٰ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر بازار میں گھسیٹا جارہاہے۔یہ سن کر آپ نے فرمایا :

____________________

١۔ کوفہ سے مکہ جانے کے لئے جو راستہ مڑتا ہے یہ وہی ہے۔ اس کی نسبت بنی اسد کے ایک شخص ثعلبہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ معجم میں تحریر ہے۔

۲۳۷

'' انّاللّہ وانّاالیہ راجعون'' اس جملہ کی آپ نے چند مرتبہ تکرار فرمائی(١) پھر ہم نے عرض کی : آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آ پ اپنے گھر والوں کے ہمراہ یہاں سے واپس لوٹ جائیں ؛کیونکہ اب کوفہ میں آپ کا کوئی ناصر ومدد گا ر نہیں ہے بلکہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سب آپ کے مخالف نہ ہوگئے ہو ں ۔ایسے موقع پر فرزندان عقیل بن ابیطالب اٹھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی(٢) اور کہنے لگے : نہیں خدا کی قسم ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے۔جب تک ہم ان سے اپنا انتقام نہ لے لیں یا وہی مزہ نہ چکھ لیں جس کاذائقہ ہمارے بھائی نے چکھاہے۔(٣) ان دونوں کا بیان ہے: حسین (علیہ السلام) نے ہم لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا : ''لاخیر فی العیش بعد ھولاء !'' ان لوگوں کے بعد زندگی میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ اس جملہ سے ہم نے بخوبی سمجھ لیا کہ سفر کے ارادے میں یہ مصمم ہیں تو ہم نے کہا : خدا کرے خیر ہو ! آپ نے بھی ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا:'' رحمکم اللّہ ''اللہ تم دونوں پر رحمت نازل کرے ۔

رات کا سناٹا چھاچکا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ سپیدہ سحر کے انتظار میں ہیں ؛جیسے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوئی ،آپ نے اپنے جوانوں اور نو جوانوں سے فرمایا :''اکثروا من المائ'' پانی زیادہ سے زیادہ جمع کرلو ، ان لوگوں نے خوب خوب پانی جمع کرلیا اور اپنے سفر پر نکل پڑے یہاں تک کہ ایک دوسری منزل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر یہا ں عام ہوگئی لیکن عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ میں پہنچ کر امام علیہ السلام نے یہ خط لکھ کر اپنے اصحاب کے سامنے اس کا اعلان کیا تھا؛ یہا ں سے امام علیہ السلام کے اس جملے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ'' مادو ں ھولاء سر'' یعنی ان کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے لئے یہ خبر سری ہے اور اسی طرح یہ خبر منزل زبالہ تک پوشیدہ ہی رہی لیکن یعقوبی کا بیان ہے کہ مسلم کی شہادت کی خبر آپ کو مقام'' قطقطانہ'' میں ملی تھی۔ (تاریخ یعقوبی ،ج٦ ، ص ٢٣٠ ،ط، نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے عدی بن حرملہ اسد کے حوالے سے اور اس نے عبداللہ سے اس خبر کو ہمارے لئے بیان کیاہے۔ (طبری ،ج٥، ص٣٩٧) ارشاد میں ،ص ٢٢٢ پر ہے کہ عبداللہ بن سلیمان نے یہ روایت بیان کی ہے۔(ارشاد ، طبع نجف)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمر بن خالد نے یہ خبر بیان کی ہے (لیکن صحیح عمرو بن خالد ہے) اور اس نے زید بن علی بن الحسین سے اور اس نے دائود بن علی بن عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٧ ؛ارشاد، ص٢٢٢، مسعودی ،ج٣ ،ص ٧٠، الخواص ، ص ٢٤٥ ، طبع نجف)

۲۳۸

آٹھویں منزل : زبالہ(١)

یہ نورانی قافلہ اپنے سفرکے راستے طے کرتا ہوا زبالہ(٢) کے علاقے میں پہنچا تو وہاں امام حسین علیہ السلام کو اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن بقطر(٣) کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے ایک نوشتہ نکال کر لوگوں کو آواز دی اور فرمایا :'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم، أمابعد، فقد أتانا خبر فضیع ! قتل ابن عقیل و هانی بن عروةو عبدالله بن یقطر، وقدخذلتنا شیعتنا (٤) فمن أحب منکم الانصراف فلینصرف لیس علیه منا ذمام ''

بسم اللہ الرحمن الرحیم، امابعد،مجھ تک ایک دل دھلانے والی خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر قتل کردئے گئے ہیں اور ہمار ی محبت کا دم بھرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے لہذا اب تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلاجائے، ہماری جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

یہ جملہ سنتے ہی لوگ امام علیہ السلام سے جدا ہونے لگے کوئی داہنی طرف جانے لگاکوئی بائیں طرف؛ نتیجہ یہ ہواکہ فقط وہی ساتھی رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے۔ آپ نے یہ کام فقط اس لئے کیاتھا کہ

____________________

١۔ یہ جگہ کوفہ سے مکہ جاتے وقت مختلف راستے پیداہونے سے قبل ہے۔ یہا ں ایک قلعہ اورجامع مسجد ہے جو بنی اسد کی ہے۔ اس جگہ کا نام عمالقہ کی ایک عورت کے نام پر ہے جیسا کہ معجم البلدان میں یہی ہے ۔

(٢) ابومخنف کا بیان ہے : ابوجناب کلبی نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے میرے لئے یہ خبر بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٨)

٣۔ ان کے شرح احوال گزر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ان کی والدہ امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی ں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی ہیں ۔

٤۔ اس جملہ میں امام علیہ السلام کی تصریح ہے کہ کوفہ کے شیعو ں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کوفہ اور جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں یہ پہلا اعلان ہے اگرچہ اس کی خبر آپ کو اس سے قبل منزل زرود میں مل چکی تھی؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ جو لوگ وہا ں موجود تھے۔ ان کے علاوہ سب پر یہ خبر پوشیدہ تھی کیونکہ یہ امام علیہ السلام کے حکم سے ہوا تھا۔آخر کار آپ نے یہا ں '' زبالہ'' میں تمام حاضرین کے لئے اس خبر کا اعلان کردیا ۔

۲۳۹

باد یہ نشین عرب اس گمان میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے تھے کہ آپ ایسے شہر میں آئیں گے جوظالم حکمرانوں کی حکومت سے پاک ہوگا اور وہاں کے لوگ آپ کے فرمانبردار ہوں گے لہذا امام علیہ السلام نے ناپسند کیا کہ ایسے لوگ آپ کے ہمسفر ہوں ۔امام چاہتے تھے کہ آپ کے ہمراہ صرف وہ رہیں جنہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ جب ان لوگوں پر بات آشکار ہوجائیگی تو کوئی بھی آپ کے ہمراہ نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو عدالت چاہتے ہوں اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہو۔(١) رات اسی منزل پر گزری ،صبح کو آپ نے اپنے جوانوں کو چلنے کا حکم دیاتو انھوں نے سب کو پانی پلاکر اور خوب اچھی طرح پانی بھر کر اپنا سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ درّۂ عقبہ سے آپ کا گزرہوا ۔

نویں منزل : درّہ عقبہ(٢)

یہ نورانی قافلہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتا ہوا درّہ عقبہ تک پہنچا۔وہاں اس قافلہ نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔(٣) بنی عکرمہ کے ایک شخص نے امام سے عرض کیا: آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیے، خداکی قسم !آپ یہاں سے قدم آگے نہیں بڑھائیں گے مگریہ کہ نیزوں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر آگے بڑھیں گے ، جن لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور آپ کوآنے کی دعوت دی تھی اگر یہ لوگ میدان کارزار کی مصیبتیں برداشت کرکے آپ کے لئے راستہ آسان کردیتے تب آپ وہاں جاتے تو آپ کے لئے بہت اچھا ہوتا لیکن ایسی بحرانی حالت میں جس سے آپ خود آگاہ ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کوفہ جانے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھائیں گے۔

____________________

١۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو جانے کی اجازت دی تو آپ کا مقصد کیا تھا؟ امام علیہ السلام کا یہ بیان تمام چیزو ں پر کافی ہے

٢۔واقصہ کے بعد اور قاع سے پہلے مکہ کے راستے میں یہ ایک منزل ہے۔ یہ منزل ان کے لئے ہے جو مکہ جانا چاہتے ہیں ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : ابوعلی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے مجھ سے یہ خبر بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٨ ، ارشاد ،ص ٢٢٢ ،طبع نجف)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

سے اصحاب پیغمبر کو بلا بھیجا،جیسے عبداللہ،حذیفہ،ابودرداء،ابوذر اور عقبہ بن عامر جب یہ لوگ جمع ہوگئے تو عمر نے ان سے کہا تم لوگ پیغمبرؐ کی کون سی حدیثیں دنیا بھر میں پھیلا رہے ہو اصحاب نے کہا تم ہمیں حدیث پیغمبرؐ کی نشر و اشاعت سے روکتے ہو،عمر بولے نہیں،لیکن اب تم لوگ میرے پاس ہی رہو خدا کی قسم میں تمہیں اپنے سے جدا نہیں کروں گا جب تک زندہ رہوں گا(اس لئے کہ عوام کو حدیثیں لینے کا سلیقہ نہیں ہے)ہم جانتے ہیں کہ کون سی حدیثیں تم سے لینی چاہئے اور کون سی حدیثیں نہیں لینی چاہئے۔(۱)

اس کے علاوہ بھی بہت سے تفصیلی شواہد ہیں جن کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سوچئے جب حدیث پیغمبرؐ گو اس طرح چھپانے کی کوششیں کی جارہی تھیں تو حدیث(پیغمبرؐ)غدیر تو حکومت کے خلاف متوجہ کرنےوالی حدیث ہے قرشیوں کے اقتدار کو الٹ دینےوالی حدیث ہے ظاہر ہے کہ اس حدیث کو کم سے کم بیان کیا گیا ہوگا تو اس کی توضیح و تفصیل چھانٹ کر بالکل سرسری طور پر بیان کیا گیا ہوگا اس سلسلے میں مولائے کائنات کا مناشدہ بھی قابل غور ہے جس میں آپ نے حدیث غدیر کی طرف متوجہ کیا ہے اور ان کے سامنے حدیث غدیر کی اہمیت پیش کی ہے،ابھی آپ نے ابوطفیل کی حدیث میں یہ دیکھا کہ بعض سامعین کو حدیث غدیر سے کتنا صدمہ ہو اور اجنبیت کا احساس ہوا اور آپ نے یہ بھی ملاحظہ فرمایا کہ وہ طریقے جو حدیث مناشدہ پر منتہی ہوتے ہیں ان کا نشر حدیث ظہور حدیث اور ان کی شہرت پر خاطر خواہ اثر پڑتا ہے اس لئے کہ یہاں بات حدیث سے نکل کر تاریخ کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے اور یہ نقطہ تاریخ کا مرکز بن جاتا ہے خاص طور سے جب حکومت نے حدیث غدیر کی مخالفت کی تو اس کے روایوں کے لئے خودبخود احترام کا ایک ماحول بن گیا،یعنی محبان اہل بیتؑ کے لئے حدیث غدیر کے ساتھ ان حدیثوں کو بھی عام کیا جائے جس میں سرکار نے اہل بیتؑ کے فضائل و مناقب بیان کئے ہیں نتیجہ میں اہل بیتؑ کے چاہنےوالوں نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ دمشق ج:۴۰ص:۵۰۱،۵۰۰،حالات عقبۃ بن عامر عبس بن عمرو،اور اسی طرح کنزل العمال ج:۱ص:۳۹۳،حدیث۲۹۴۷۹

۲۶۱

ان حدیثوں کی نشر و اشاعت کا ذمہ اپنے سرلے لیا ان کے مدرسوں میں اس طرح کی حدیثیں پڑھائی جانے لگیں،مقام استدلال میں ایسی حدیثوں کو پیش کیا جاتا رہا اور آثار اہل بیتؑ شیرازہ کی ترتیب انہیں حدیثوں کی بنا پر ہوئی ظاہر ہے کہ جب کسی واقعہ کا شدت سے انکار کیا جائے اور اس سے زیادہ دوسری طرف سے اعلان و اشتہار کی کوشش کی جائے تو وہ واقعہ دائرہ تاریخ کا مرکز بن جاتا ہے اور کوشش و اجتہاد کا ایک ماحول خودبخود اسے اپنے احاطہ میں لے لیتا ہے۔

اس سلسلے میں طرفہ کی وہ روایت ہے جس کو شیخ مفید علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب امالی میں نقل کیا ہے شیخ مفید لکھتے ہیں کہ مجھ سے ابوبکر محمد بن عمر جعابی نے بیان کیا پھر راویوں کا ایک سلسلہ ہے ابوالعباس احمد بن محمد بن سعید یعنی ان عقدہ،ان سے علی بن حسین ہیثمی نے نقل کیا انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد ماجد کی کتاب میں یہ تحریر دیکھی..

محمد بن مسلم اشجعی سے محمد بن نوفل عائذ صیرفی نے بیان کیا کہ ہم لوگ ہیثم بن حبیب صیرفی کے پاس تھے اتنے میں ابوحنیفہ نعمان بن ثابت داخل ہوئے تو مولائے کائنات کا تذکرہ ہونےلگا اور غدیرخم کے بارے میں ہمارے درمیان بات ہونےلگی،ابوحنیفہ نے کہا:ہم نے تو اپنے صحابہ کو یہ ہدایت کردی ہے کہ حدیث غدیر مت پڑھا کرو ورنہ تمہارے درمیان جھگڑا ہوجائےگا،یہ سن کے ہیثم ابن حبیب صیرفی کے چہرے کا رنگ بدل گیا وہ بولے وہ کیوں نہ حدیث غدیر پڑھیں نعمان کیا تمہارے پاس وہ حدیث نہیں ہے؟نعمان نے کہا ہمارے پاس وہ حدیث ہے اور ہم نے اس کی روایت بھی کی ہے ہیثم نے کہا تو پھر اس حدیث کا اقرار کیوں نہیں کرتے؟اور مجھ سے حبیب ابن ابی ثابت نے بیان کیا ان سے ابوطفیل نے ان سے زید ابن ارفع نے کہ مولائے کائنات نے مقام رحبہ میں ان لوگوں سے ایک حلف اٹھوایا تھا جنہوں نے یہ حدیث نبی اکرمؐ سے سنی تھی،ابوحنیفہ کہنے لگے کہ تم دیکھ رہے ہو کہ یہ حدیث اتنی زیادہ اختلافی ہوگئی کہ لوگوں سے اس کے لئے حلف اٹھوایا جانےلگا،ابوہیثم نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن کیا ہم علیؑ کی تکذیب کرسکتے ہیں یا انہیں رد کرنے کی ہمت کرسکتے ہیں

۲۶۲

لیکن تم جاننے ہو(کہ اس حدیث کی بناپر)بہت سے لوگ غالی ہوگئے ہیں،ہیثم نے کہا پیغمبرؐ خود اس حدیث کے قائل ہیں آپ نے خطبہ میں یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے پھر ہم کون ہوتے ہیں کہ اس حدیث کو روایت کرنے میں کسی غالی کو غلو سے ڈریں یا کسی قائل کے قول کی پرواہ کریں۔(۱)

صورت حال مزید واضح ہوجاتی ہے جب ہم بخاری شریف کو پڑھتے ہیں ابوحنیفہ کے ذیل میں کہا تھا بخاری کی تحریر سے واضخ ہوگیا اس لئے کہ بخاری نے اپنی صحیح میں سرے سے حدیث غدیر کی روایت ہی نہیں کی یعنی حدیث غدیر کو مہمل قرار دیا اور مسلم نے اپنی صحیح میں یہ لکھ دیا کہ یہ حدیث شاذ طریقہ سے آئی ہے میں نے گذشتہ صفحات میں خبطۂ نبیؐ پر گفتگو کرتے وقت مسلم کی طرف آپ کو متوجہ کیا مسلم نے خطبہ غدیر میں جوکاٹ چھانٹ کی ہے اور صرف حدیث ثقلین پر اکتفا کیا ہے وہ بھی قابل توجہ ہے انہوں نے ان تمام طرق حدیث کو مہمل قرار دیا جن میں اعلان ولایت کیا گیا ہے حالانکہ خطبۂ غدیر میں مرکزی کردار اعلان ولایت کو حاصل ہے۔

میرا تو خیال ہے کہ مولائے کائناتؑ نے جو مناشدہ کیا اسی کی وجہ سے لوگ حدیث نبیؐ کی اہمیت کی طرف متوجہ ہوئے اور حدیثوں کے جمع کرنے،اس کے اہتمام کرنے اور حدیثوں کو درس تبلیغ کی بنیاد بنانے کا ایک دروازہ کھل گیا۔اسی کے بعد لوگ حدیثوں کو ایک دوسرے سے بیان کرنے لگے اور حدیثوں کے معانی و مفاہیم کا احاطہ کرنے کی کوشش اور حدیثوں کو ظاہر کرنے کی کوشش دونوں میں ماحول کے اعتبار سے اتار چڑھاؤ ہوتا رہا اس لئے کہ حکومتیں بدلتی رہیں اور حکومتوں کا نظریہ بدلتا رہا۔

کبھی شدت،کبھی نرمی،کبھی فتح،کبھی شکست کا ماحول بنا رہا۔

واقعہ غدیر کے سلسلے میں میں نے آپ سے بہت طویل گفتگو کی اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے سوال میں یہ لکھا ہے کہ اہل سنت واقعہ غدیر کی روایت نہیں کرتے ان کے یہاں احاد اور ضعیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)امالی شیخ مفیدص:۲۴،۲۳،تیسری مجلس

۲۶۳

خبروں میں بھی واقعہ غدیر کا تذکرہ نہیں پایا جاتا آپ نے دیکھا کہ اہل سنت حضرات نے کس شدت سے ہر دور میں واقعہ غدیر کو موضوع بحث بنایا ہے،میں نے تو وقت کی تنگی کا لحاظ کرتے ہوئے بہت سی باتیں چھوڑ دی ہیں،اس لئے کہ گنجائش بھی نہیں تھی اور جو میں ثابت کرنا چاہتا تھا وہ اسی تحریر سے ثابت ہوجاتا ہے۔

میں اللہ سے توفیق اور خدمت کرنے کی دعا کرتا ہوں۔

۲۶۴

سوال نمبر۔۸

کیا آپ کے علم میں ابن تیمیہ کی کتاب((منھاج السنۃ))کی رد کسی شیعہ عالم نے پیش کی ہے،منھاج السنۃ علامہ حلیؒ کی کتاب کے جواب میں لکھی گئی ہے حالانکہ اہل سنت نے ابن تیمیہ کی اس کتاب کی رد لکھی ہے اس کا جواب لکھنےوالوں میں شیخ ابوحامد بن مرزوق بھی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب((براءۃ الاشعرین))میں ابن تیمیہ کا جواب دیا ہے۔

جواب:جہاں تک میں جانتا ہوں ان دو کتابوں کے علاوہ کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے

۱۔منھاج الشریعہ سید مہدی بن سید صالح قزوینی نے یہ کتاب ابن تیمیہ کی رد میں۱۳۱۵؁میں لکھی اور یہ۱۳۱۸؁میں منظر عام پر آئی۔

۲۔اکمال المنۃ فی نقض منھاج السنۃ:یہ کتاب سید سراج الدین حسن بن عیسیٰ یمانی لکھنوی نے جلدی لکھی ہے اس کتاب کا تذکرہ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ کے مصنف نے کیا ہے۔(۱)

(تو مستقل کتابوں کا جہاں تک سوال ہے بس یہ دو ہی کتابیں ہیں)لیکن بعض کتابوں میں ضمنی طور پر ابن تیمیہ کے جواب میں عبارتیں پائی جاتی ہیں جیسے شیخ حسن مظفر کی تالف دلائل الصدق جو ابطال باطل کے رد میں لکھی گئی ہے ابطال باطل علامہ حلی کی کتاب نہج الحق کے جواب میں لکھی گئی تھی،ابطال باطل کے مصنف روز بہان میں پھر شیخ عبدالحسین امینی کی کتاب((الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب))میں بھی ابن تیمیہ کی رد لکھی گئی ہے۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ج:۲ص:۲۸۳،

(۲)الغدیرج:۳ص:۲۱۷،۱۴۸

۲۶۵

اس کتاب کا تذکرہ میں آپ کے پہلے سوال کے جواب میں کرچکا ہوں جہاں میں نے مصادر شیعہ کے بارے میں عرض کیا تھا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ابن تیمیہ کی کتاب منھاج السنۃ جواب کی مستحق نہیں ہے ابن تیمیہ نے اپنی اس کتاب کو گالیوں سے بھر دیا ہے جھوٹ اور زبردستی کی حد کردی ہے بعض بہت ہی شاذ عقائد پیش کئے ہیں جو حدیثیں انہیں اچھی لگی ہیں ان کو صحیح قرار دیا ہے اور جو ان کے خلاف ہیں انہیں ہٹ دھرمی سے رد کردیا ہے۔یہاں تک کہ ابن سبکی جو منھاج الکرامۃ کے مصنف ہیں ان کو آداب علم کے خلاف گالیاں دیتے ہیں اور بن تیمیہ سے بہت خوش ہیں کہ انہوں نے منھاج الکرامہ کا کیا خوب جواب دیا ہے منھاج السنۃ میں ابن تیمیہ کے جواب سبکی کو بہت اچھے لگے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ابن تیمیہ کی غلطیوں کو محسوس کرتے ہوئے ان کو مندرجہ ذیل الزامات میں ماخوذ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں،ابن تیمیہ نے حق و بطال کو خلط و ملط کردیا ہے،بغیر کسی امتیاز کے ہر دلیل پر کچھ نہ کچھ حاشیہ چڑھا ہے،صفات خدا کے بارے میں ہماری طرف سے ایسے عقاید پیش کئے ہیں جو بالکل ہی شاذ یہ تمام باتیں سبکی نے ان اشعار میں نظم کی ہیں جن کے نقل کی میں ضرورت محسوس نہیں کرتا۔(۱)

ابن حجر کہتے ہیں کہ میں نے ابن تیمیہ کی منھاج السنۃ پڑھی جیسا کہ سبکی نے لکھا ہے کہ یہ کتاب بھر پور جواب ہے لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ ابن مطہر کی طرف سے وارد شدہ حدیثوں کو رد کرنے میں ابن تیمیہ نے زبردستی اور ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے ابن مطہر کی زیادہ تر حدیثیں تو بیشک واہیات و خرافات ہیں لیکن ان کو رد کرنے کے جوش میں ابن تیمیہ نے بہت سی عمدہ حدیثوں کو بھی رد کردیا ہے ایسی حدیثیں جو مصنف کے گمان میں حاضر نہیں تھیں اسے مصنف نے اگر چہ بہت سی حدیثوں کو یاد کیا ہے لیکن انہیں حدیثوں پر بھروسہ کیا ہے جو اس وقت ان کے حافظے میں موجود تھیں اور انسان جان بوجھ کے بھول جاتا ہے پھر لکھتے ہیں کہ رافضی کے کلام کو ہلکا کرنے کے لئے ابن تیمیہ نے اس قدر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)طبقات الشافعیۃ الکبری،ج:۶ص:۱۵۹۔۱۶۰،حالات علی بن عبدالکافی،السبکی،الوافی بالوفیات ج:۲۱،ص:۲۶۲،کتاب ابن تیمیہ سے نقل ہےص:۲۱۶

۲۶۶

مبالغہ سے کام لیا کہ غلطی سے مولا علی کی تنقیص کرڈالی۔(۱)

یہ تو ابن تیمیہ کے ہم مذہب افراد ہیں جن کے خیالات آپ کے سامنے پیش کئے گئے لیکن خود علامہ حلیؒ کی بات بھی قابل غور ہے صاحب منھاج الکرامۃ علامہ حلی کے بارے میں ابن حجر کہتے ہیں ابن مطہر ایک مشہور آدمی ہیں اور خوش اخلاق بھی ہیں جب ان کے سامنے ابن تیمیہ کی کتاب پیش کی گئی تو آپ نے فرمایا اگر یہ شخص میری بات سمجھتا ہوتا تو میں اس کا جواب بھی دیتا۔(۲)

شیخ محمد حسن مظفر اپنی کتاب دلائل الصدق کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ میں نے کتاب کو زیادہ فائدہ مند بنانے کے لئے ابن تیمیہ کی کتاب سے بھی کچھ کلمات پیش کردیئے ہیں جو ابن تیمیہ نے منھاج الاکرامۃ کی رد میں لکھے ہیں اگر ابن تیمیہ کی کتاب میں سفلہ پن،قلم کی زبان میں گستاخی اور فحش گوئی نہیں ہوتی،اس نے عبارتوں کو طول نہ دیا ہوتا اور اس کی عبارتوں سے نبی امین اور؟آپ کی آل طاہرینؑ کی عداوت کا اظہار نہ ہوتا تو میں اس سے بحث کرنے کو حق سمجھتا اس لئے کہ میں نے ابھی تک اپنے کس عالم کو اس کا جواب لکھتے ہوئے نہیں پایا لیکن میں نے اپنے قلم کو اس کا جواب دینے سے پاک رکھا جیسا کہ ہمارے علما نے اپنے قلم کو اس کی فحشی گوئی کے جواب سے آلودہ نہیں کیا ہے اور میں نے اس لئے بھی اس کا جواب نہیں دیا کہ میں نے ایک طرح سے اپنے مقدمہ میں اس کا جواب دےدیا ہے۔

میں نے اس مقدمہ میں امامت کے سلسلے میں اور فضائل اہل بیتؑ کے سلسلے میں جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں اس پر بحث کی ہے اور ان کی اسناد پر بھی بحث کی ہے وہ بحث ہی ابن تیمیہ کے سوالوں کا بہترین جواب ہے اگر چہ اجمالی ہے۔(۳)

اور مجھے۲۵سال قبل کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جب میں نجف اشرف میں تھا اور محرم کے

-------------------

(۱)لسان المیزان ج:۶ص:۳۱۹،حسن بن یوسف بن علی مطہر حلی کے والد حسن کے حالات میں

(۲)لسان المیزان ج:۲ص:۳۱۷،حسن بن یوسف بن مطہر کے حالات میں

(۳)دلائل الصدق ج:۱ص:۳

۲۶۷

زمانے میں اپنے گھر پر ایک مجلس حسینؑ برپا کی تھی اس مجلس میں کچھ علما بھی تھے ان میں سے ایک عالم نے مجھ سے کہا کہ((ھل اتیٰ))کی ابتدائی آیتوں کا اہل بیت اطہارؑ کے حق میں ہونے پر ابن تیمیہ کو اعتراض ہے اور وہ کہتا ہے کہ((سورہ ھل اتیٰ))مکی ہے آپ کے پاس کا کیا جواب ہے؟

میں نے کہا تھا کہ کیا ابن تیمیہ کی باتیں بھی قابل شمار ہیں؟انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ کے اس جملے سے اس کا جواب ہوگیا؟میں نے کہا تھا ٹھیک ہے ہم غور کریں گے پھر میرے سامنے علامہ امینی کی((الغدیر))کی تیسری جلد لائی گئی میں نے اس کے صفحہ۱۶۹کی عبارت پڑھی جس میں ابن تیمیہ کی حدیث اور علامہ حلیؒ کی گفتگو کا خلاصہ تھا ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ علامہ نے اپنے جھوٹ کا ذکر کیا ہے جو اپنے بولنےوالے کی جہالت پر خود دلیل ہے جیسے ان کا یہ کہنا کہ اہل بیتؑ کے حق میں سورہ ہل اتی نازل ہوا،اس لئے کہ ہل اتی مکی سورہ ہے اس پر علماء کا اتفاق ہے اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا عقد مدینہ میں ہوا اور حسنین علیہما السلام وہیں پیدا ہوئے یہ بات ہجرت کے بعد کی ہے تو اب علامہ حلی کا یہ کہنا کہ ہل اتی اہل بیتؑ کی فضیلت میں نازل ہوئی ایسا جملہ ہے جس کا جھوٹ(اس پر جو نزول قرآن اور حسنین علیہما السلام جیسے بڑے سرداروں کے حال سے واقف ہو)اس پر بالکل پوشیدہ نہیں پھر شیخ امینی ابن تیمیہ کے اس سوال کا کئی رخ سے جواب دیتے ہیں۔

جن میں منہ توڑ جواب یہ ہے کہ علما جمہور ابن تیمیہ کے قول مخالف ہیں ان کے نزدیک((ہل اتیٰ))مدنی سورہ ہے اور علامہ امینی نے ایک بڑی جماعت کے اقوال اپنے اس دعوے کی شہادت میں پیش کئے ہیں پھر اس جواب کو زیادہ مضبوط کرنے کے لئے آج کے دور میں مسلمانوں کے درمیان جو قرآن مجید کے نسخے رائج ہیں ان سب کا حوالہ دیتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ صحیفوں میں ھل اتٰی کو مدنی لکھا گیا ہے حالانکہ بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ سورہ مکہ ہے لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اطعام مسکین و یتیم و اسیر والی آیت اس سورہ میں مدنی ہے۔

آپ خود سوچیں ایک ایسا انسان جو شہرت کے خلاف علماء کے اتفاق کا دعوی کرنے میں ذرا نہیں جھجکتا جبکہ دعوائے اتفاق کے بھروسے پر ہی مسلمان عمل کرتا ہے اور ایسا شخص جو اپنے مخالف کو

۲۶۸

جاہل کہتا ہے اسکی بات کو کیسے قابل شمار سمجھا جائے؟اس کی گفتگو کیسے لائق بحث سمجھی جائے؟خاص طور سے جب کہ وہ آدمی بدگوئی اور کج خلقی میں مشہور ہے.کسی ایک مختصر جماعت کی طرف سے اگر اس کو عالم مجتہد اور شیخ الاسلام بھی کہا جاتا ہے تو کسی ایک جماعت کے تعریف کردینے سے اس کی شان بلند تو نہیں ہوجائےگی نہ قیمت بڑھےگی نہ شیعوں کو یا علامہ حلیؒ کو اس شخص کی دشمنی کوئی نقصان پہنچائےگی اور نہ اس کی زبردستی اور گالی گلوج سے علامہ کی شان میں کوئی کمی آئےگی بلکہ ان کی شان میں اضافہ ہی ہوگا اور اسی طرح ابن تیمیہ کی شان میں کمی آجائےگی اور اس کی جماعت کی توہین بھی ہوگی اس لئے کہ انسان اپنے دوست اور دشمن سے پہچانا جاتا ہے اور((کند ہم جنس با ہم جنس پرواز))کا قول بھی اپنی جگہ صحیح ہے ابن تیمیہ کے اردگرد کا ماحول یا کسی بھی آدمی کا ماحول اس کی حقیقت کی عکاسی اور سیرت کا آئینہ ہوتا ہے اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ابن ابی الحدید معتزلی جو مذہب اہل سنت سے ہیں ہیں ان کا یہ قول پیش کردیا جائے،وہ اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں مولائے کائنات کی سیرت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کی وسعت اخلاق،خندہ پیشانی اور زندہ دلی اور تبسم ضرب المثل تھا یہاں تک کہ آپ کے دشمن آپ کی خوش مزاجی کو عیب کہہ کہ پیش کرتے تھے۔

عمرو ابن عاص نے اہل شام کو یہ سمجھایا تھا کہ حضرت علی بہت تمسخر باز ہیں لیکن مولائے کائنات کی یہ خوش مزاجی آپ کے چاہنےوالوں اور آپ سے محبت کرنےوالوں میں میراث کی طرح منتقل ہوتی رہی جیسے ظلم،بداخلاقی اور بدروئی آپ کے دشمنوں میں منتقل ہوتی رہی جواب بھی ہے جس کے پاس اخلاقیات کا تھوڑا سا بھی علم ہوگا وہ اس بات کو اچھی طرح جان لےگا۔(۱)

البتہ اہل سنت کے لئے لازم ہے کہ وہ ابن تیمیہ کا جواب دیں اور اس کے اقوال سے اظہار برائت کریں اس لئے کہ وہ ان کے درمیان بہت محترم ہے اسے سنی کہا بھی جاتا ہے،کثرت سے اس کا تذکرہ بھی ہوتا ہے اور سنیوں کے دعوے کی مدافعت کرتا ہے اس کی کتابوں کو پڑھنےوالا یہی سمجھےگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۲۶،۲۵

۲۶۹

کہ اس تحریر سنی نظریوں کا عکس پایا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ وہ سنیوں ہی کی کشتی میں سوار ہے تو اس پر جو بھی مصیبت آئےگی وہ تمام اہل کشتی پر آئےگی اور اس کی وجہ سے سنیوں کے دامن پر جودھبے پڑھتے ہیں بغیر اس کی تردید کے اور اس کے قول سے اظہار برائت کے وہ دھلنےوالے بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ ہم اس جیسے آدمیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ابھی بات ختم نہیں ہوئی انشاءاللہ دسویں سوال کے جواب میں بھی کچھ نفع بخش باتیں عرض کی جائیں گی۔

۲۷۰

سوال نمبر۔۹

کیا آپ کی رائے کے مطابق ممکن ہے کہ شیعہ،سنی آپس میں متحد ہوجائیں اس لئے کہ مجھے معلوم ہے سنیوں میں اشعری اور ماتریدی فرقے شیعوں کی تکفیر نہیں کرتے بلکہ شیعوں کی رائے اور ان کے عقیدوں کو اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں اور ان پر بحث بھی کرتے ہیں اگر چہ بعض غالی اہل سنت کو بھی گمراہ مانتے ہیں۔

جواب:آپ کے اس سوال کے جواب میں چند امور پیش کئے جارہے ہیں.اسلام کی خدمت کے لئے سنی،شیعہ اتحاد کو خوش آمدید کہتا ہوں آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے کہ شیعوں کے نزدیک اسلام کیا کیا مطلب ہے،شیعہ اس آدمی کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں جو کلمہ کا قائل ہے اور بالاعلان ان امور کی طرف دعوت بھی دیتا ہے اسی بنیاد پر شیعہ اور سنی متحد ہیں اور مسلمانوں کو یہ دین عظیم اسی بنیاد پر جمع کرتا ہے وہ دین جو کائنات کا سب سے بلند دین ہے اور خاتم الادیان ہے اور اسی دن کی بنیاد پر مسلمان کی جان اور مال محترم ہے دین کے مشترک اہداف سب کے نزدیک اہم ہیں اور وہ یہ اہداف ہیں،دین کے لئے دعوت دینا،اس کے کلمے کو بلند کرنا،دشمنوں کی سازشوں کی تردید کرنا،مسلمانوں کو چاہئیے کہ ان مقاصد کے لئے متحد ہوجائیں لیکن اس کے ساتھ ہی غیرمسلموں کے ساتھ اس اخلاق حسنہ کا بھی سلوک رکھیں جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب اسلام غیرمسلموں کے ساتھ اخلاق کا حکم دیتا ہے تو پھر مسلمانوں کے ساتھ بدرجہ اولی اخلاق سے

۲۷۱

پیش آنا چاہئے اور آپ کے دوسرے سوال کے جواب کے سلسلے میں اس بات کی طرف توجہ دلائی جاچکی ہے اسی وسعت نظر اور وسعت قلب کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان اسلام کی مصلحتوں کے لئے عمل اتحاد ہوسکتا ہے جب کہ وہ اسلام کے بارے میں اصول و عقائد کی حفاظت کے ساتھ اور احسن طریقہ سے اس کی طرف دعوت دیتے رہنے کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان اتحاد ممکن ہے،البتہ انہیں چاہئے کہ اپنے عقائد کی طرف دعوت دیں تو عملی طریقوں سے اور با مقصد براہین کے ساتھ جس سے غیروں کی رہنمائی ہوسکے،اس سلسلے میں کذب و بہتان سے پرہیز کرنا پڑےگا اور گالی گلوج اور طعن و تشنیع سے بھی پرہیز کرنا ہوگا اس لئے کہ:

پہلی بات تو یہ ہے کہ سب و شتم اور طعن و تشنیع کرنے سے حقیقت ثابت نہیں ہوسکتی اور نہ قیامت کے دن خدا کے سامنے حجت پیش کی جاسکتی ہے قیامت کا وہ دن ہوگا جب لوگ خدا کے سامنے ہوں گے،ارشاد ہوتا ہے: (يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ) (۱)

ترجمہ:اور اس دن کو یاد کرو جس دن ہر شخص اپنی ذات کے بارے میں لڑنے کے لئے موجود ہوگا اور ہر نفس کو جو کچھ بھی اس نے کیا تھا اس کا پورا پورا بدلہ ملےگا اور ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائےگا۔

دوسری بات یہ ہے کہ بہتان تراشی اور جھوٹ سے کینہ پروری کو بڑھاوا ملتا ہے امت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے لوگ ایک دوسرے کے خلاف مشغول ہوجاتے ہیں اور اہداف مشترکہ بھول جاتے ہیں اور آپس میں پھوٹ پڑجاتی ہے یہی وہ مقصد ہے جس کے لئے دشمنان اسلام صدیوں سے کوشاں ہیں تا کہ وہ اپنےگندےمقاصد،اسلام میں پھوٹ ڈال کر حاصل کرسکیں،اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور دوسرے فرقے کو نقصان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ نحل آیت:۱۱۱

۲۷۲

پہچاننے کے لئے اسلام دشمن عناصر سے ہاتھ ملانے سے بھی نہیں چوکتے۔

جب ہدف مشترک ہو تو انسان کبھی کبھی اپنے دشمن سے ہاتھ ملانے سے بھی نہیں چوکتا ہے اس کی مثال ماضی قریب میں ملتی ہے جب کفر و الحاد کے خلاف مسلمانوں نے عیسائیوں سے مل کے جنگ کی تھی اس وقت وہ اپنے مذہبی اختلافات بھول گئے تھے اور مادی مصلحتوں کو طاق نسیاں میں رکھ دیایا تھا محض اس لئے کہ ہدف مشترک تھا اور دشمن مشترک تھا تو جب مسلمان مشترک ہدف کو حاصل کرنے کی لئے غیر مسلموں سے ہاتھ ملاسکتا ہے تو پھر بین اسلامی فرقوں میں آپسی تعاون کا جذبہ کیوں نہیں پیدا ہوتا۔

((علامہ اقبال کے جواب شکوا کا ایک بند میرے جذبات کی ترجماتی کرتا ہے))

ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایکحرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

فائدہ ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایککچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں (مترجم)

اسلامی فرقوں کو دین واحد ایک نقطہ پر جمع کرتا ہے،ان کے اصول مشترکہ ہیں پھر کیا بات ہے کہ اسلام دشمن قوموں کی طاقتیں جیسے جیسے بڑھتی جارہی ہیں مسلمانوں کے درمیان اختلاف بھی ویسے ہی ویسے بڑھتا جارہا ہے اور ایک دوسرے پر لعن و طعن گالی گلوج اور بہتان تراشی میں ترقی جاری ہے۔

اسلام کی خدمت کے لئے مشترکہ کوشش کرنا ائمہ اہل بیتؑ کی تعلیم ہے

ائمہ اہل بیتؑ نے بےحد مشترک بہترین مثالیں قائم کی ہیں ملاحظہ ہو:

یہ علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں کہ جب آپ نے دیکھا کہ حق خلافت غصب کرلیا گیا تو اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے ان دونوں حضرات سے کنارہ کشی اختیار کر لی لیکن جب آپ نے

۲۷۳

محسوس کیا کہ ان کے دور خلافت میں اسلام اور اہل اسلام کو خطرہ ہوسکتا ہے اور اسلام کو عموماً نقصان پہونچ سکتا ہے تو آپ نے فوراً ان کے امور میں مداخلت شروع کردی اور ان کا ساتھ دینا شروع کردیا تا کہ اسلام کی عموماً حفاظت ہوسکے اس صورت حال کو آپ نے اپنے ایک خطبہ میں بہت وضاحت سے پیش کردیا ہے،فرماتے ہیں:میں نے اپنے ہاتھ روک لئے اور یہ دیکھتا رہا کہ لوگوں کا رجحان کیا ہے؟لوگ دین سے منہ موڑچکے تھے اور دین محمدؐ کو مٹانے کی دعوت دےرہے تھے تو میں ڈرا کہ اگر میں نے اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہیں کی تو دین اسلام میں ایسا شگاف پڑجائےگا یا دین کا ایسا ستون گرجائےگا جس کے نتیجے میں ملنےوالی مصیبت تمہاری حکومت کے میرے ہاتھوں سے نکل جانے سے بڑی ہوگی حکومت تو ایک ایسی پونجی ہے جس کی مدت بہت قلیل ہے اور سراب کی طرح زائل ہوجانےوالی ہے یایوں گذرجانےوالی ہے جیسے بادل،لیکن دین ایک پائیدار چیز ہے اس لئے میں ان حادثوں کا مقابلہ کر نیکے لئے کھڑا ہوگیا یہاں تک کہ باطل مٹ گیا اور زائل ہوگیا اور دین مطمئن ہوکے بےفکر ہوگیا اور گنگنانےلگا۔(۱)

تاریخ بتاتی ہے کہ آپؑ مسلمان حکومتوں کو مسلسل اپنی تدبیروں اور اچھے مشوروں سے نوازتے رہتے یہاں تک کہ اسلام کی عظمت بڑھی اور اس کا پرچم بلند ہوگیا اور اس کی دعوت عام ہوگئی۔

دوسری مثال اموی دور حکومت میں ابوجعفر محمد بن علی الباقر علیہ السلام نے قائم کی،سب جانتے ہیں کہ بنوامیہ کا دور آئمہ اہل بیتؑ اور ان کے شیعوں کیلئے تاریک ترین دور تھا لیکن اس کے باوجود امام نے اپنی معتمد رائے دینے میں بخالت نہیں کی،جب آپ نے محسوس کیا کہ اس وقت اموی حکومت کو مضبوط کرنے سے اسلام کو تقویت ملےگی تو آپ نے اپنی مضبوط رائے سے اسلام کی مدد کی یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب اموی بادشاہ کو درہم و دینار کے معاملے میں شاہ روم کی طرف سے دھمکایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)نہج البلاغہ:ص:۵۴۷،مالک اشتر کے نام اپنے ایک خط میں

۲۷۴

گیا تھا اس وقت امامؑ نے ہدایت فرمائی کہ اسلامی طرز پر سکے ڈھالے جائیں،تا کہ شاہ روم جو مسلمانوں سے اپنی شرطیں منوایا چاہتا اس کا راستہ بند ہوجائے۔(۱) امام محمد باقر علیہ اسلام کے بزرگوں نے ایسے وقت میں جب سلطان جائر کے حکم سے قتال حرام تھا تاکید کی کہ اسلام کی حفاظت کے لئے جہاد مشروع ہے حاکم جور کے بھی دور میں اگر اسلام کو خطرہ در پیش ہو تو جہاد کی جاسکتا ہے چنانچہ امام صادق علیہ السلام سے حدیث ہے کہ:اپنے نفس کے لئے مدافعت کرے اور حکم خدا و رسول کے تحت قتال کرے لیکن حاکم جور کے حکم سے قتال ان کے طریقہ پر ہو تو یہ حلال نہیں ہے۔(۲)

دوسری حدیث میں امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ((مسلمان کو چاہئے کہ لگاؤ رکھے لیکن قتل نہ کرے اور اس بات کا خوف ہو کہ اسلام کو نقصان پہنچےگا تو قتال بھی کرے اس لئے کہ اس کا قتال اب اپنے نفس کے لئے ہوگا نہ کہ سلطان جائر کے لئے اس لئے کہ اسلام کے دروس میں محمدؐ کے ذکر کا درس بھی شامل ہے۔(۳)

اسی طرح آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے اپنے شیعوں کو تاکید کی دوسروں سے حسن معاشرت رکھیں میل جول بڑھائیں ان کے حقوق کی رعایت کریں ان کی طرف محبت اور دوستی کا ہاتھ بڑھائیں آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں،میں اس سلسلے میں کچھ حدیثیں بھی پیش کرچکا ہوں۔

خدمت اسلام کے لئے متحدہ جد و جہد کے بارے میں شیعہ اور ان کے علما کا نظریہ

تاریخ شاہد ہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے شیعہ ہر موڑ پر کفر کے خلاف عام مسلمانوں کے ساتھ رہے اور ان سےگھل مل کر ایک ایسے سماج کی تخلیق کرتے رہے جو ملت اسلام کی حفاظت کرتا رہے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)حیاۃ الحیوان دمیری ج:۱ص:۱۱۴

(۲)وسائل الشیعہ ج:۱۱ص:۲۱،۲۰چھٹا باب،دشمن سے جہاد،حدیث۳

(۳)وسائل الشیعہ ج:۱۱ص:۲۰،۱۹چھٹا باب،دشمن سے جہاد،حدیث۲

۲۷۵

یہاں تک کہ ماضی قریب کی تاریخ بھی اس کی شہادت دیتی ہے۔

بیسویں صدی کے شروع میں اسلام پر برا وقت پڑا تھا جب برطانوی فوجوں نےعراق پر چڑھائی کی تھی ان کی جنگ عثمانیوں سے تھی اور سب جانتے ہیں کہ ترکستان کی عثمانی خلافت میں شیعہ کس سختی کے دور سے گذر رہے تھے شیعہ علماء کے ساتھ قساوت کا مظاہرہ کیا جاتا تھا ظلم اور تشدد کا ایک سلسلہ جاری تھا شیعوں سے تجاہل برتا جاتا تھا حد تو یہ ہے کہ ان کی فقہ کو بھی حکومت فقہ ماننے پر تیار نہیں تھی شیعوں کے دینی طلبہ کو فوجی خدمات اس وقت تک نہیں دی جاتی جب تک ان کا فقہ حنفی میں امتحان نہیں لیا اس لئے کہ مذہب حنفی حکومت کا مذہب تھا لیکن شیعہ علما نے ان تمام باتوں سے چشم پوشی برتی،جب انھوں نے دیکھا کہ بات ملت اسلام پر آرہی ہے تو عثمانیوں کی مدد کی اور ان کے ساتھ جہاد کا فتوی دےدیا،خود علماء کرام میدان جہاد میں نکل پڑے اور شعیبۃ اور رکوت میں بنفس نفیس جہاد کیا ار جہاد کے سلسلے میں جو بھی مصیبتیں آئیں وہ جھیل گئے محض اس لئے کہ بیضہ اسلام کی حفاظت ہوا وردین کے دشمنوں سے دین کو بچایا جاسکے اسی طرح فلسطین کے معاملے میں بھی شیعہ علما نے مختلف مرحلوں میں یہی موقف اختیار کیا اور فلسطین کے معاملے کو اسلام کا معاملہ قرار دیا تا کہ اسلام کی سرزمین سے دشمن اسلام کو دفع کیا جاسکے۔

بیسویں صدی کے آخر میں بھی عراق میں یہی سب کچھ دیکھنے میں آیا جب شیعہ علما نے دیکھا کہ عراق پر کمیونزم قبضہ کررہا ہے تو ان لوگوں نے مرجعیت کے دروازے کھول دیئے اور آقائے حکیم طاب ثراہ کی قیادت میں سنیوں سے ہاتھ ملا لیا اور انہیں خوش آمدید کہا تا کہ کلمہ توحید کی حفاظت ہوسکے اور اس موقف کا سب بھی وہی تھا یعنی عالم اسلام کی حفاظت اور بس۔

یہ تمام باتیں اس لئے ہوئیں کہ شیعوں کی نظر میں اسلام کی حفاظت اور فلاح مذہبی اختلافات سے بالاتر ہے اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی بات میں متحد رہیں اور جب یہ محسوس کریں کہ دشمن طاقتوں نے اسلام کو برباد کرنا اپنا ہدف بنایا ہے تو اپنے اختلافات کو بھول جائیں تا کہ یہ نظریہ ہمیں

۲۷۶

عبرت دے سکے اور مسلمان عملی طور پر ایک ہو کے دشمنان اسلام کو دفع کرسکیں اور ان دشمنوں کے راستے بند کرسکیں جو اسلام پر مصیبتیں آنے کے انتظار میں ہیں اور اسلام کی کمزوریاں تلاش کرتے رہتے ہیں۔

حقیقت تک پہونچنے کے لئے میں عملی گفتگو کو خوش آمدید کہتا ہوں

جس طرح میں یہ چاہتا ہوں کہ مسلم فرقوں کے درمیان عملی مناظرہ ہوتا رہے اور ایسی گفتگو جاری رہے جو مقصد آفرین ہو،لیکن عناد اور تعصب سے پاک،لڑائی فساد سے دور ہوتا کہ ہر ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ سکے اور علمی طریقوں سے دوسرے سے گفتگو کرسکے،تا کہ کوئی بھی کسی پر اپنے مسائل اور عقائد کو لادنے کی کوشش نہ کرے.گفتگو اور مناظرہ کا مقصد صرف حقیقت تک پہونچنا اور سامنےوالے کی دلیلوں کو سمجھ کے کوئی فیصلہ کرنا ہو،اس کئے لئے مندرجہ ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے۔

۱۔دین کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہونا،بصیرت کا کامل ہونا،یہ عقلی اور شرعی اعتبار سے بہت ضروری ہے۔

۲۔ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آنا اور آپسی محبت کو برقرار رکھنا،ان تمام چیزوں کو جن سے رکاوٹ اور وحشت پیدا ہوتی ہے جن کی وجہ سے آپسی تعلقات منقطع ہوجاتے ہیں دور رکھنا،اس لئے کہ ایسی باتوں کا نتیجہ دلوں میں شیک پیدا کرتا ہے اور آپسی اختلافات سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔

۳۔ہر دو فریق پر واجب ہے کہ وہ سامنےوالے کے عقیدے سے واقف ہو اور اس کی طرف سے دی ہوئی دلیلوں کے نتائج پر نظر رکھتا ہو.جھوٹ،بہتان تراشی،مبالغہ،بدگوئی اور بےکار گفتگو سے پرہیز کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

۴۔ہر دو فریق پر واجب ہے کہ جب سامنےوالے کی دلیل اور حجتوں میں وزن کا احساس کرے اور یہ سمجھ لے کہ اس کے پاس کسی بھی عقیدہ ےکو ماننے کے لئے ٹھوس دلیلیں موجود ہیں تو اس کو چھوڑ دینے پر اصرار نہ کرے اور دشمنی اور تعصب سے کام نہ لے۔

۲۷۷

۵۔ہم دلیلوں کی بنیاد پر عقیدوں میں اتفاق پیدا کرسکتے ہیں.ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی دلیلوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور موضوع کے اوپر غائرانہ نظر کی جائے،ان تمام باتوں کے ابوجود اگر دوسرے کا عقیدہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا تو ہمیں اپنے عقیدے کی حفاظت بھی کرنا چاہئے اور دوسرے کا احترام بھی کرنا چاہئے۔

شیعہ اور اہل سنت کے درمیان عقیدے کے اعتبار سے اتحاد نہیں پیدا ہوسکتا

تیسری بات اگر آپ شیعہ،سنی اتحاد کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ایک ہوجائے یعنی شیعہ بعض سنی عقائد کے قائل ہوجائیں اور سنی بعض شیعہ عقائد کے۔اور ہر ایک اپنی ان دلیلوں سے تجاہل برتے جن پر وہ شروع سے اعتماد کرتا آیا ہے تو یہ دعوت غیر عملی دعوت ہوگی یعنی عملی طور پر اس دعوت اتحاد پر عمل نہیں ہوپائےگا۔

اس کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں۔

۱۔اس لئے کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف میں اضافہ ہوگا ظاہر ہے کہ اس نظریہ کو سب لوگ تو مانیں گے نہیں،نہ ہر سنی مانےگا اور نہ ہر شیعہ مانےگا اور جب کچھ شیعہ مانیں گے تو ایک فرقہ سنیوں کی طرف سے عالم وجود میں آئےگا اور ایک شیعوں کی طرف سے،نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم فرقوں کو ملانے کی کوشش میں دو فرقے اور پیدا کردیں گے.یعنی اب تک سنی،شیعہ دو فرقے تھے اب چار فرقے ہوجائیں گے۔

شیعہ،سنی اتحاد کے چکر میں عقیدوں کی ایک عجیب سی شکل سامنے آئےگی حالانکہ عقیدہ ہی ایک ایسی چیز ہے ہر ایک مسلمان کو سب سے عزیز ہے.

اگر ہم دعوت اتحاد دینے کے لئے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیں کہ وہ اپنے عقیدوں کو چھوڑ دیں تو اس سے خود دعوت بدنام ہوجائےگی،بہت سے سوالات پیدا ہوں گے.اور لوگا س دعوت کا مقابلہ کرنے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے اس لئے کہ وہ جاننا چاہیں گے کہ نئی شریعت کا سبب کیا ہے اور آیا یہ مشروع

۲۷۸

ہے بھی یا نہیں؟اس لئے کہ یہ شریعت بعض لوگوں کی نظر میں بالکل نئی ہوگی ان اسباب کی وجہ سے یا تو دعوت اتحاد مشکل ہوگی یا معطل ہوجائےگی۔

میرا خیال ہے کہ ہر دو فریق یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ ان کی یہ دعوت اسی وقت مکمل ہوگی جب وہ عالم اسلامی سماج سے ہٹ جائیں اور اس کی وجہ سے اختلاف کی خلیج کچھ اور وسیع ہوجائےگی،یعنی دعوت کا الٹا اثر ہوگا مسلمانوں کا شیرازہ وحدت پارہ پارہ ہوجائےگی ان کی بات میں پھوٹ پڑجائےگی اور ان کے مسائل میں اضافہ ہوجائےگی ہماری یہ بات دعوت کے متضاد ہوگی جس میں ہم نے محض کلمہ اسلام کی رفعت کے لئے اور اہداف مشترکہ کو حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان عملی اتحاد کی دعوت دی تھی میں نے عرض کیا تھا کہ یا تو ہر فرقہ اپنے عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہے،یا بہتر طریقے سے اپنے عقیدے کی طرف دوسروں کو دعوت دے،میری اس گذارش کا مقصد تمام مسلمانوں کو عملی اعتبار سے ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا اور حقیقت تک پہونچنے کے لئے دلیلوں کی چھان بین کرنی تھی۔

میں نے دو باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی اور دونوں ہی باتوں کا مقصد بہت بلند ہے اور نتیجہ بہت اطمینان بخش ہے ان کو چھوڑنے کی وجہ نہیں دکھائی دیتی بلکہ ہر مسلمان پر(جس کے اندر ذرا بھی غیرت اسلام پائی جاتی ہے)واجب ہے کہ اس دعوت کو قبول کرلے اور اس وقت تک نہ چھوڑے جب تک یہ شبہ نہ ہو کہ اس سے اسلام کو نقصان پہونچ سکتا ہے لیکن شیعہ سنی کے درمیان عقیدے کے اعتبار سے اتحاد کی دعوت کو قبول کرنے سے اسلام کو بھی نقصان پہنچےگا اور اس نقصان کی اصلاح بھی ناممکن ہے اس لئے بہتر یہ ہے کہ ایسی دعوت کو مہمل قرار دیا جائے اوراس سے تجاہل برتا جائے۔

ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ:(يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ) (۱)

------------

(۱)سورہ توبہ:آیت:۴۷

۲۷۹

ترجمہ آیت:اگر یہ لوگ تم میں نکلتے بھی تو بس تم میں فساد ہی برپا کردیتے اور تمہارے حق میں فتنہ انگیزی کی غرض سے تمہارے درمیان اِدھر اُدھر گھوڑے دوڑاتے پھرتے اور تم میں سےان کے جاسوس بھی ہیں جو تمہاری باتیں ان سے بیان کرتے ہیں اور اللہ شریروں سے خوب واقف ہے۔اور اللہ ان لوگوں سے بےنیاز ہے۔

ارشاد ہوتا ہے: (إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ) (۱)

ترجمہ:بےشک اللہ بےنیاز اور قابل تعریف ہے۔

۲۔دوسری بات دینی حقائق کا اعتقاد اسی وقت واجب ہے جب اس پر تھوس دلیلیں قائم ہوں اور حجت تمام ہوچکی ہو لیکن وہ امور جو سنیوں کے لئے ہوں یا شیعوں کے لئے بغیر دلیل اگر عقیدے کی شکل میں اختیار کرگئے ہیں تو ان کا ماننا حرام ہے،چاہے دونوں فرقےاس پر متفق ہوں یا مختلف،ہاں اگر ان میں سے ایک فرقہ کسی بات پر خاموش ہو اور اس پر مستحکم دلیلیں حاصل ہوچکی ہوں تو ایسی صوررت میں اس کا اعتقاد واجب ہے پھر آپ سوچیں(غور کریں)کہ محض اتحاد کے لئے کوئی اپنے واجب شرعی کو کیسے چھوڑسکتا ہے۔

۳۔اگر کوئی(چاہے وہ سنی ہو یا شیعہ)آپ کے اتحاد کے لئے اپنے مدلل عقیدے کو چھوڑ دیتا ہے تو یہ حقیقت پر ظلم ہی ہوگا۔بلکہ شریعت اور وجدان اس بات کو ہرگز قبول نہیں کریں گے کہ ایک مسلمان چاہے وہ سنی ہو یا شیعہ ایسے عقیدے کو چھوڑ دے جس کو ماننا اللہ نے اس پر فرض کیا ہے اور جس کے حق میں حجت تمام ہوچکی بلکہ جس عقیدے کے لئے اس کے دوستوں نے اللہ کے چاہنےوالوں نے اور اسکے نیک بندوں نے امر الہی کو تسلیم کرتے ہوئے اور اس کی رضا کو طلب کرتے ہوئے عظیم قربانیاں دی ہیں اور خدا کے ظالم دشمنوں سے،اسلام میں تفرقہ پیدا کرنےوالوں سے علوم اسلامی کو ضائع کرنےوالے دشمنوں سے،اسلام میں تفرقہ پیدا کرنےوالوں سے علوم اسلامی کو ضائع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ لقمان:آیت۲۶

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296