فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 118276
ڈاؤنلوڈ: 5312


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118276 / ڈاؤنلوڈ: 5312
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سے اصحاب پیغمبر کو بلا بھیجا،جیسے عبداللہ،حذیفہ،ابودرداء،ابوذر اور عقبہ بن عامر جب یہ لوگ جمع ہوگئے تو عمر نے ان سے کہا تم لوگ پیغمبرؐ کی کون سی حدیثیں دنیا بھر میں پھیلا رہے ہو اصحاب نے کہا تم ہمیں حدیث پیغمبرؐ کی نشر و اشاعت سے روکتے ہو،عمر بولے نہیں،لیکن اب تم لوگ میرے پاس ہی رہو خدا کی قسم میں تمہیں اپنے سے جدا نہیں کروں گا جب تک زندہ رہوں گا(اس لئے کہ عوام کو حدیثیں لینے کا سلیقہ نہیں ہے)ہم جانتے ہیں کہ کون سی حدیثیں تم سے لینی چاہئے اور کون سی حدیثیں نہیں لینی چاہئے۔(1)

اس کے علاوہ بھی بہت سے تفصیلی شواہد ہیں جن کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سوچئے جب حدیث پیغمبرؐ گو اس طرح چھپانے کی کوششیں کی جارہی تھیں تو حدیث(پیغمبرؐ)غدیر تو حکومت کے خلاف متوجہ کرنےوالی حدیث ہے قرشیوں کے اقتدار کو الٹ دینےوالی حدیث ہے ظاہر ہے کہ اس حدیث کو کم سے کم بیان کیا گیا ہوگا تو اس کی توضیح و تفصیل چھانٹ کر بالکل سرسری طور پر بیان کیا گیا ہوگا اس سلسلے میں مولائے کائنات کا مناشدہ بھی قابل غور ہے جس میں آپ نے حدیث غدیر کی طرف متوجہ کیا ہے اور ان کے سامنے حدیث غدیر کی اہمیت پیش کی ہے،ابھی آپ نے ابوطفیل کی حدیث میں یہ دیکھا کہ بعض سامعین کو حدیث غدیر سے کتنا صدمہ ہو اور اجنبیت کا احساس ہوا اور آپ نے یہ بھی ملاحظہ فرمایا کہ وہ طریقے جو حدیث مناشدہ پر منتہی ہوتے ہیں ان کا نشر حدیث ظہور حدیث اور ان کی شہرت پر خاطر خواہ اثر پڑتا ہے اس لئے کہ یہاں بات حدیث سے نکل کر تاریخ کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے اور یہ نقطہ تاریخ کا مرکز بن جاتا ہے خاص طور سے جب حکومت نے حدیث غدیر کی مخالفت کی تو اس کے روایوں کے لئے خودبخود احترام کا ایک ماحول بن گیا،یعنی محبان اہل بیتؑ کے لئے حدیث غدیر کے ساتھ ان حدیثوں کو بھی عام کیا جائے جس میں سرکار نے اہل بیتؑ کے فضائل و مناقب بیان کئے ہیں نتیجہ میں اہل بیتؑ کے چاہنےوالوں نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ دمشق ج:40ص:501،500،حالات عقبۃ بن عامر عبس بن عمرو،اور اسی طرح کنزل العمال ج:1ص:393،حدیث29479

۲۶۱

ان حدیثوں کی نشر و اشاعت کا ذمہ اپنے سرلے لیا ان کے مدرسوں میں اس طرح کی حدیثیں پڑھائی جانے لگیں،مقام استدلال میں ایسی حدیثوں کو پیش کیا جاتا رہا اور آثار اہل بیتؑ شیرازہ کی ترتیب انہیں حدیثوں کی بنا پر ہوئی ظاہر ہے کہ جب کسی واقعہ کا شدت سے انکار کیا جائے اور اس سے زیادہ دوسری طرف سے اعلان و اشتہار کی کوشش کی جائے تو وہ واقعہ دائرہ تاریخ کا مرکز بن جاتا ہے اور کوشش و اجتہاد کا ایک ماحول خودبخود اسے اپنے احاطہ میں لے لیتا ہے۔

اس سلسلے میں طرفہ کی وہ روایت ہے جس کو شیخ مفید علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب امالی میں نقل کیا ہے شیخ مفید لکھتے ہیں کہ مجھ سے ابوبکر محمد بن عمر جعابی نے بیان کیا پھر راویوں کا ایک سلسلہ ہے ابوالعباس احمد بن محمد بن سعید یعنی ان عقدہ،ان سے علی بن حسین ہیثمی نے نقل کیا انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد ماجد کی کتاب میں یہ تحریر دیکھی..

محمد بن مسلم اشجعی سے محمد بن نوفل عائذ صیرفی نے بیان کیا کہ ہم لوگ ہیثم بن حبیب صیرفی کے پاس تھے اتنے میں ابوحنیفہ نعمان بن ثابت داخل ہوئے تو مولائے کائنات کا تذکرہ ہونےلگا اور غدیرخم کے بارے میں ہمارے درمیان بات ہونےلگی،ابوحنیفہ نے کہا:ہم نے تو اپنے صحابہ کو یہ ہدایت کردی ہے کہ حدیث غدیر مت پڑھا کرو ورنہ تمہارے درمیان جھگڑا ہوجائےگا،یہ سن کے ہیثم ابن حبیب صیرفی کے چہرے کا رنگ بدل گیا وہ بولے وہ کیوں نہ حدیث غدیر پڑھیں نعمان کیا تمہارے پاس وہ حدیث نہیں ہے؟نعمان نے کہا ہمارے پاس وہ حدیث ہے اور ہم نے اس کی روایت بھی کی ہے ہیثم نے کہا تو پھر اس حدیث کا اقرار کیوں نہیں کرتے؟اور مجھ سے حبیب ابن ابی ثابت نے بیان کیا ان سے ابوطفیل نے ان سے زید ابن ارفع نے کہ مولائے کائنات نے مقام رحبہ میں ان لوگوں سے ایک حلف اٹھوایا تھا جنہوں نے یہ حدیث نبی اکرمؐ سے سنی تھی،ابوحنیفہ کہنے لگے کہ تم دیکھ رہے ہو کہ یہ حدیث اتنی زیادہ اختلافی ہوگئی کہ لوگوں سے اس کے لئے حلف اٹھوایا جانےلگا،ابوہیثم نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن کیا ہم علیؑ کی تکذیب کرسکتے ہیں یا انہیں رد کرنے کی ہمت کرسکتے ہیں

۲۶۲

لیکن تم جاننے ہو(کہ اس حدیث کی بناپر)بہت سے لوگ غالی ہوگئے ہیں،ہیثم نے کہا پیغمبرؐ خود اس حدیث کے قائل ہیں آپ نے خطبہ میں یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے پھر ہم کون ہوتے ہیں کہ اس حدیث کو روایت کرنے میں کسی غالی کو غلو سے ڈریں یا کسی قائل کے قول کی پرواہ کریں۔(1)

صورت حال مزید واضح ہوجاتی ہے جب ہم بخاری شریف کو پڑھتے ہیں ابوحنیفہ کے ذیل میں کہا تھا بخاری کی تحریر سے واضخ ہوگیا اس لئے کہ بخاری نے اپنی صحیح میں سرے سے حدیث غدیر کی روایت ہی نہیں کی یعنی حدیث غدیر کو مہمل قرار دیا اور مسلم نے اپنی صحیح میں یہ لکھ دیا کہ یہ حدیث شاذ طریقہ سے آئی ہے میں نے گذشتہ صفحات میں خبطۂ نبیؐ پر گفتگو کرتے وقت مسلم کی طرف آپ کو متوجہ کیا مسلم نے خطبہ غدیر میں جوکاٹ چھانٹ کی ہے اور صرف حدیث ثقلین پر اکتفا کیا ہے وہ بھی قابل توجہ ہے انہوں نے ان تمام طرق حدیث کو مہمل قرار دیا جن میں اعلان ولایت کیا گیا ہے حالانکہ خطبۂ غدیر میں مرکزی کردار اعلان ولایت کو حاصل ہے۔

میرا تو خیال ہے کہ مولائے کائناتؑ نے جو مناشدہ کیا اسی کی وجہ سے لوگ حدیث نبیؐ کی اہمیت کی طرف متوجہ ہوئے اور حدیثوں کے جمع کرنے،اس کے اہتمام کرنے اور حدیثوں کو درس تبلیغ کی بنیاد بنانے کا ایک دروازہ کھل گیا۔اسی کے بعد لوگ حدیثوں کو ایک دوسرے سے بیان کرنے لگے اور حدیثوں کے معانی و مفاہیم کا احاطہ کرنے کی کوشش اور حدیثوں کو ظاہر کرنے کی کوشش دونوں میں ماحول کے اعتبار سے اتار چڑھاؤ ہوتا رہا اس لئے کہ حکومتیں بدلتی رہیں اور حکومتوں کا نظریہ بدلتا رہا۔

کبھی شدت،کبھی نرمی،کبھی فتح،کبھی شکست کا ماحول بنا رہا۔

واقعہ غدیر کے سلسلے میں میں نے آپ سے بہت طویل گفتگو کی اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے سوال میں یہ لکھا ہے کہ اہل سنت واقعہ غدیر کی روایت نہیں کرتے ان کے یہاں احاد اور ضعیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)امالی شیخ مفیدص:24،23،تیسری مجلس

۲۶۳

خبروں میں بھی واقعہ غدیر کا تذکرہ نہیں پایا جاتا آپ نے دیکھا کہ اہل سنت حضرات نے کس شدت سے ہر دور میں واقعہ غدیر کو موضوع بحث بنایا ہے،میں نے تو وقت کی تنگی کا لحاظ کرتے ہوئے بہت سی باتیں چھوڑ دی ہیں،اس لئے کہ گنجائش بھی نہیں تھی اور جو میں ثابت کرنا چاہتا تھا وہ اسی تحریر سے ثابت ہوجاتا ہے۔

میں اللہ سے توفیق اور خدمت کرنے کی دعا کرتا ہوں۔

۲۶۴

سوال نمبر۔8

کیا آپ کے علم میں ابن تیمیہ کی کتاب((منھاج السنۃ))کی رد کسی شیعہ عالم نے پیش کی ہے،منھاج السنۃ علامہ حلیؒ کی کتاب کے جواب میں لکھی گئی ہے حالانکہ اہل سنت نے ابن تیمیہ کی اس کتاب کی رد لکھی ہے اس کا جواب لکھنےوالوں میں شیخ ابوحامد بن مرزوق بھی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب((براءۃ الاشعرین))میں ابن تیمیہ کا جواب دیا ہے۔

جواب:جہاں تک میں جانتا ہوں ان دو کتابوں کے علاوہ کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے

1۔منھاج الشریعہ سید مہدی بن سید صالح قزوینی نے یہ کتاب ابن تیمیہ کی رد میں1315؁میں لکھی اور یہ1318؁میں منظر عام پر آئی۔

2۔اکمال المنۃ فی نقض منھاج السنۃ:یہ کتاب سید سراج الدین حسن بن عیسیٰ یمانی لکھنوی نے جلدی لکھی ہے اس کتاب کا تذکرہ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ کے مصنف نے کیا ہے۔(1)

(تو مستقل کتابوں کا جہاں تک سوال ہے بس یہ دو ہی کتابیں ہیں)لیکن بعض کتابوں میں ضمنی طور پر ابن تیمیہ کے جواب میں عبارتیں پائی جاتی ہیں جیسے شیخ حسن مظفر کی تالف دلائل الصدق جو ابطال باطل کے رد میں لکھی گئی ہے ابطال باطل علامہ حلی کی کتاب نہج الحق کے جواب میں لکھی گئی تھی،ابطال باطل کے مصنف روز بہان میں پھر شیخ عبدالحسین امینی کی کتاب((الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب))میں بھی ابن تیمیہ کی رد لکھی گئی ہے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ج:2ص:283،

(2)الغدیرج:3ص:217،148

۲۶۵

اس کتاب کا تذکرہ میں آپ کے پہلے سوال کے جواب میں کرچکا ہوں جہاں میں نے مصادر شیعہ کے بارے میں عرض کیا تھا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ابن تیمیہ کی کتاب منھاج السنۃ جواب کی مستحق نہیں ہے ابن تیمیہ نے اپنی اس کتاب کو گالیوں سے بھر دیا ہے جھوٹ اور زبردستی کی حد کردی ہے بعض بہت ہی شاذ عقائد پیش کئے ہیں جو حدیثیں انہیں اچھی لگی ہیں ان کو صحیح قرار دیا ہے اور جو ان کے خلاف ہیں انہیں ہٹ دھرمی سے رد کردیا ہے۔یہاں تک کہ ابن سبکی جو منھاج الکرامۃ کے مصنف ہیں ان کو آداب علم کے خلاف گالیاں دیتے ہیں اور بن تیمیہ سے بہت خوش ہیں کہ انہوں نے منھاج الکرامہ کا کیا خوب جواب دیا ہے منھاج السنۃ میں ابن تیمیہ کے جواب سبکی کو بہت اچھے لگے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ابن تیمیہ کی غلطیوں کو محسوس کرتے ہوئے ان کو مندرجہ ذیل الزامات میں ماخوذ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں،ابن تیمیہ نے حق و بطال کو خلط و ملط کردیا ہے،بغیر کسی امتیاز کے ہر دلیل پر کچھ نہ کچھ حاشیہ چڑھا ہے،صفات خدا کے بارے میں ہماری طرف سے ایسے عقاید پیش کئے ہیں جو بالکل ہی شاذ یہ تمام باتیں سبکی نے ان اشعار میں نظم کی ہیں جن کے نقل کی میں ضرورت محسوس نہیں کرتا۔(1)

ابن حجر کہتے ہیں کہ میں نے ابن تیمیہ کی منھاج السنۃ پڑھی جیسا کہ سبکی نے لکھا ہے کہ یہ کتاب بھر پور جواب ہے لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ ابن مطہر کی طرف سے وارد شدہ حدیثوں کو رد کرنے میں ابن تیمیہ نے زبردستی اور ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے ابن مطہر کی زیادہ تر حدیثیں تو بیشک واہیات و خرافات ہیں لیکن ان کو رد کرنے کے جوش میں ابن تیمیہ نے بہت سی عمدہ حدیثوں کو بھی رد کردیا ہے ایسی حدیثیں جو مصنف کے گمان میں حاضر نہیں تھیں اسے مصنف نے اگر چہ بہت سی حدیثوں کو یاد کیا ہے لیکن انہیں حدیثوں پر بھروسہ کیا ہے جو اس وقت ان کے حافظے میں موجود تھیں اور انسان جان بوجھ کے بھول جاتا ہے پھر لکھتے ہیں کہ رافضی کے کلام کو ہلکا کرنے کے لئے ابن تیمیہ نے اس قدر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)طبقات الشافعیۃ الکبری،ج:6ص:159۔160،حالات علی بن عبدالکافی،السبکی،الوافی بالوفیات ج:21،ص:262،کتاب ابن تیمیہ سے نقل ہےص:216

۲۶۶

مبالغہ سے کام لیا کہ غلطی سے مولا علی کی تنقیص کرڈالی۔(1)

یہ تو ابن تیمیہ کے ہم مذہب افراد ہیں جن کے خیالات آپ کے سامنے پیش کئے گئے لیکن خود علامہ حلیؒ کی بات بھی قابل غور ہے صاحب منھاج الکرامۃ علامہ حلی کے بارے میں ابن حجر کہتے ہیں ابن مطہر ایک مشہور آدمی ہیں اور خوش اخلاق بھی ہیں جب ان کے سامنے ابن تیمیہ کی کتاب پیش کی گئی تو آپ نے فرمایا اگر یہ شخص میری بات سمجھتا ہوتا تو میں اس کا جواب بھی دیتا۔(2)

شیخ محمد حسن مظفر اپنی کتاب دلائل الصدق کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ میں نے کتاب کو زیادہ فائدہ مند بنانے کے لئے ابن تیمیہ کی کتاب سے بھی کچھ کلمات پیش کردیئے ہیں جو ابن تیمیہ نے منھاج الاکرامۃ کی رد میں لکھے ہیں اگر ابن تیمیہ کی کتاب میں سفلہ پن،قلم کی زبان میں گستاخی اور فحش گوئی نہیں ہوتی،اس نے عبارتوں کو طول نہ دیا ہوتا اور اس کی عبارتوں سے نبی امین اور؟آپ کی آل طاہرینؑ کی عداوت کا اظہار نہ ہوتا تو میں اس سے بحث کرنے کو حق سمجھتا اس لئے کہ میں نے ابھی تک اپنے کس عالم کو اس کا جواب لکھتے ہوئے نہیں پایا لیکن میں نے اپنے قلم کو اس کا جواب دینے سے پاک رکھا جیسا کہ ہمارے علما نے اپنے قلم کو اس کی فحشی گوئی کے جواب سے آلودہ نہیں کیا ہے اور میں نے اس لئے بھی اس کا جواب نہیں دیا کہ میں نے ایک طرح سے اپنے مقدمہ میں اس کا جواب دےدیا ہے۔

میں نے اس مقدمہ میں امامت کے سلسلے میں اور فضائل اہل بیتؑ کے سلسلے میں جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں اس پر بحث کی ہے اور ان کی اسناد پر بھی بحث کی ہے وہ بحث ہی ابن تیمیہ کے سوالوں کا بہترین جواب ہے اگر چہ اجمالی ہے۔(3)

اور مجھے25سال قبل کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جب میں نجف اشرف میں تھا اور محرم کے

-------------------

(1)لسان المیزان ج:6ص:319،حسن بن یوسف بن علی مطہر حلی کے والد حسن کے حالات میں

(2)لسان المیزان ج:2ص:317،حسن بن یوسف بن مطہر کے حالات میں

(3)دلائل الصدق ج:1ص:3

۲۶۷

زمانے میں اپنے گھر پر ایک مجلس حسینؑ برپا کی تھی اس مجلس میں کچھ علما بھی تھے ان میں سے ایک عالم نے مجھ سے کہا کہ((ھل اتیٰ))کی ابتدائی آیتوں کا اہل بیت اطہارؑ کے حق میں ہونے پر ابن تیمیہ کو اعتراض ہے اور وہ کہتا ہے کہ((سورہ ھل اتیٰ))مکی ہے آپ کے پاس کا کیا جواب ہے؟

میں نے کہا تھا کہ کیا ابن تیمیہ کی باتیں بھی قابل شمار ہیں؟انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ کے اس جملے سے اس کا جواب ہوگیا؟میں نے کہا تھا ٹھیک ہے ہم غور کریں گے پھر میرے سامنے علامہ امینی کی((الغدیر))کی تیسری جلد لائی گئی میں نے اس کے صفحہ169کی عبارت پڑھی جس میں ابن تیمیہ کی حدیث اور علامہ حلیؒ کی گفتگو کا خلاصہ تھا ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ علامہ نے اپنے جھوٹ کا ذکر کیا ہے جو اپنے بولنےوالے کی جہالت پر خود دلیل ہے جیسے ان کا یہ کہنا کہ اہل بیتؑ کے حق میں سورہ ہل اتی نازل ہوا،اس لئے کہ ہل اتی مکی سورہ ہے اس پر علماء کا اتفاق ہے اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا عقد مدینہ میں ہوا اور حسنین علیہما السلام وہیں پیدا ہوئے یہ بات ہجرت کے بعد کی ہے تو اب علامہ حلی کا یہ کہنا کہ ہل اتی اہل بیتؑ کی فضیلت میں نازل ہوئی ایسا جملہ ہے جس کا جھوٹ(اس پر جو نزول قرآن اور حسنین علیہما السلام جیسے بڑے سرداروں کے حال سے واقف ہو)اس پر بالکل پوشیدہ نہیں پھر شیخ امینی ابن تیمیہ کے اس سوال کا کئی رخ سے جواب دیتے ہیں۔

جن میں منہ توڑ جواب یہ ہے کہ علما جمہور ابن تیمیہ کے قول مخالف ہیں ان کے نزدیک((ہل اتیٰ))مدنی سورہ ہے اور علامہ امینی نے ایک بڑی جماعت کے اقوال اپنے اس دعوے کی شہادت میں پیش کئے ہیں پھر اس جواب کو زیادہ مضبوط کرنے کے لئے آج کے دور میں مسلمانوں کے درمیان جو قرآن مجید کے نسخے رائج ہیں ان سب کا حوالہ دیتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ صحیفوں میں ھل اتٰی کو مدنی لکھا گیا ہے حالانکہ بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ سورہ مکہ ہے لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اطعام مسکین و یتیم و اسیر والی آیت اس سورہ میں مدنی ہے۔

آپ خود سوچیں ایک ایسا انسان جو شہرت کے خلاف علماء کے اتفاق کا دعوی کرنے میں ذرا نہیں جھجکتا جبکہ دعوائے اتفاق کے بھروسے پر ہی مسلمان عمل کرتا ہے اور ایسا شخص جو اپنے مخالف کو

۲۶۸

جاہل کہتا ہے اسکی بات کو کیسے قابل شمار سمجھا جائے؟اس کی گفتگو کیسے لائق بحث سمجھی جائے؟خاص طور سے جب کہ وہ آدمی بدگوئی اور کج خلقی میں مشہور ہے.کسی ایک مختصر جماعت کی طرف سے اگر اس کو عالم مجتہد اور شیخ الاسلام بھی کہا جاتا ہے تو کسی ایک جماعت کے تعریف کردینے سے اس کی شان بلند تو نہیں ہوجائےگی نہ قیمت بڑھےگی نہ شیعوں کو یا علامہ حلیؒ کو اس شخص کی دشمنی کوئی نقصان پہنچائےگی اور نہ اس کی زبردستی اور گالی گلوج سے علامہ کی شان میں کوئی کمی آئےگی بلکہ ان کی شان میں اضافہ ہی ہوگا اور اسی طرح ابن تیمیہ کی شان میں کمی آجائےگی اور اس کی جماعت کی توہین بھی ہوگی اس لئے کہ انسان اپنے دوست اور دشمن سے پہچانا جاتا ہے اور((کند ہم جنس با ہم جنس پرواز))کا قول بھی اپنی جگہ صحیح ہے ابن تیمیہ کے اردگرد کا ماحول یا کسی بھی آدمی کا ماحول اس کی حقیقت کی عکاسی اور سیرت کا آئینہ ہوتا ہے اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ابن ابی الحدید معتزلی جو مذہب اہل سنت سے ہیں ہیں ان کا یہ قول پیش کردیا جائے،وہ اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں مولائے کائنات کی سیرت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کی وسعت اخلاق،خندہ پیشانی اور زندہ دلی اور تبسم ضرب المثل تھا یہاں تک کہ آپ کے دشمن آپ کی خوش مزاجی کو عیب کہہ کہ پیش کرتے تھے۔

عمرو ابن عاص نے اہل شام کو یہ سمجھایا تھا کہ حضرت علی بہت تمسخر باز ہیں لیکن مولائے کائنات کی یہ خوش مزاجی آپ کے چاہنےوالوں اور آپ سے محبت کرنےوالوں میں میراث کی طرح منتقل ہوتی رہی جیسے ظلم،بداخلاقی اور بدروئی آپ کے دشمنوں میں منتقل ہوتی رہی جواب بھی ہے جس کے پاس اخلاقیات کا تھوڑا سا بھی علم ہوگا وہ اس بات کو اچھی طرح جان لےگا۔(1)

البتہ اہل سنت کے لئے لازم ہے کہ وہ ابن تیمیہ کا جواب دیں اور اس کے اقوال سے اظہار برائت کریں اس لئے کہ وہ ان کے درمیان بہت محترم ہے اسے سنی کہا بھی جاتا ہے،کثرت سے اس کا تذکرہ بھی ہوتا ہے اور سنیوں کے دعوے کی مدافعت کرتا ہے اس کی کتابوں کو پڑھنےوالا یہی سمجھےگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:26،25

۲۶۹

کہ اس تحریر سنی نظریوں کا عکس پایا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ وہ سنیوں ہی کی کشتی میں سوار ہے تو اس پر جو بھی مصیبت آئےگی وہ تمام اہل کشتی پر آئےگی اور اس کی وجہ سے سنیوں کے دامن پر جودھبے پڑھتے ہیں بغیر اس کی تردید کے اور اس کے قول سے اظہار برائت کے وہ دھلنےوالے بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ ہم اس جیسے آدمیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ابھی بات ختم نہیں ہوئی انشاءاللہ دسویں سوال کے جواب میں بھی کچھ نفع بخش باتیں عرض کی جائیں گی۔

۲۷۰

سوال نمبر۔9

کیا آپ کی رائے کے مطابق ممکن ہے کہ شیعہ،سنی آپس میں متحد ہوجائیں اس لئے کہ مجھے معلوم ہے سنیوں میں اشعری اور ماتریدی فرقے شیعوں کی تکفیر نہیں کرتے بلکہ شیعوں کی رائے اور ان کے عقیدوں کو اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں اور ان پر بحث بھی کرتے ہیں اگر چہ بعض غالی اہل سنت کو بھی گمراہ مانتے ہیں۔

جواب:آپ کے اس سوال کے جواب میں چند امور پیش کئے جارہے ہیں.اسلام کی خدمت کے لئے سنی،شیعہ اتحاد کو خوش آمدید کہتا ہوں آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے کہ شیعوں کے نزدیک اسلام کیا کیا مطلب ہے،شیعہ اس آدمی کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں جو کلمہ کا قائل ہے اور بالاعلان ان امور کی طرف دعوت بھی دیتا ہے اسی بنیاد پر شیعہ اور سنی متحد ہیں اور مسلمانوں کو یہ دین عظیم اسی بنیاد پر جمع کرتا ہے وہ دین جو کائنات کا سب سے بلند دین ہے اور خاتم الادیان ہے اور اسی دن کی بنیاد پر مسلمان کی جان اور مال محترم ہے دین کے مشترک اہداف سب کے نزدیک اہم ہیں اور وہ یہ اہداف ہیں،دین کے لئے دعوت دینا،اس کے کلمے کو بلند کرنا،دشمنوں کی سازشوں کی تردید کرنا،مسلمانوں کو چاہئیے کہ ان مقاصد کے لئے متحد ہوجائیں لیکن اس کے ساتھ ہی غیرمسلموں کے ساتھ اس اخلاق حسنہ کا بھی سلوک رکھیں جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب اسلام غیرمسلموں کے ساتھ اخلاق کا حکم دیتا ہے تو پھر مسلمانوں کے ساتھ بدرجہ اولی اخلاق سے

۲۷۱

پیش آنا چاہئے اور آپ کے دوسرے سوال کے جواب کے سلسلے میں اس بات کی طرف توجہ دلائی جاچکی ہے اسی وسعت نظر اور وسعت قلب کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان اسلام کی مصلحتوں کے لئے عمل اتحاد ہوسکتا ہے جب کہ وہ اسلام کے بارے میں اصول و عقائد کی حفاظت کے ساتھ اور احسن طریقہ سے اس کی طرف دعوت دیتے رہنے کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان اتحاد ممکن ہے،البتہ انہیں چاہئے کہ اپنے عقائد کی طرف دعوت دیں تو عملی طریقوں سے اور با مقصد براہین کے ساتھ جس سے غیروں کی رہنمائی ہوسکے،اس سلسلے میں کذب و بہتان سے پرہیز کرنا پڑےگا اور گالی گلوج اور طعن و تشنیع سے بھی پرہیز کرنا ہوگا اس لئے کہ:

پہلی بات تو یہ ہے کہ سب و شتم اور طعن و تشنیع کرنے سے حقیقت ثابت نہیں ہوسکتی اور نہ قیامت کے دن خدا کے سامنے حجت پیش کی جاسکتی ہے قیامت کا وہ دن ہوگا جب لوگ خدا کے سامنے ہوں گے،ارشاد ہوتا ہے: (يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ) (1)

ترجمہ:اور اس دن کو یاد کرو جس دن ہر شخص اپنی ذات کے بارے میں لڑنے کے لئے موجود ہوگا اور ہر نفس کو جو کچھ بھی اس نے کیا تھا اس کا پورا پورا بدلہ ملےگا اور ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائےگا۔

دوسری بات یہ ہے کہ بہتان تراشی اور جھوٹ سے کینہ پروری کو بڑھاوا ملتا ہے امت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے لوگ ایک دوسرے کے خلاف مشغول ہوجاتے ہیں اور اہداف مشترکہ بھول جاتے ہیں اور آپس میں پھوٹ پڑجاتی ہے یہی وہ مقصد ہے جس کے لئے دشمنان اسلام صدیوں سے کوشاں ہیں تا کہ وہ اپنےگندےمقاصد،اسلام میں پھوٹ ڈال کر حاصل کرسکیں،اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور دوسرے فرقے کو نقصان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ نحل آیت:111

۲۷۲

پہچاننے کے لئے اسلام دشمن عناصر سے ہاتھ ملانے سے بھی نہیں چوکتے۔

جب ہدف مشترک ہو تو انسان کبھی کبھی اپنے دشمن سے ہاتھ ملانے سے بھی نہیں چوکتا ہے اس کی مثال ماضی قریب میں ملتی ہے جب کفر و الحاد کے خلاف مسلمانوں نے عیسائیوں سے مل کے جنگ کی تھی اس وقت وہ اپنے مذہبی اختلافات بھول گئے تھے اور مادی مصلحتوں کو طاق نسیاں میں رکھ دیایا تھا محض اس لئے کہ ہدف مشترک تھا اور دشمن مشترک تھا تو جب مسلمان مشترک ہدف کو حاصل کرنے کی لئے غیر مسلموں سے ہاتھ ملاسکتا ہے تو پھر بین اسلامی فرقوں میں آپسی تعاون کا جذبہ کیوں نہیں پیدا ہوتا۔

((علامہ اقبال کے جواب شکوا کا ایک بند میرے جذبات کی ترجماتی کرتا ہے))

ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایکحرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

فائدہ ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایککچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں (مترجم)

اسلامی فرقوں کو دین واحد ایک نقطہ پر جمع کرتا ہے،ان کے اصول مشترکہ ہیں پھر کیا بات ہے کہ اسلام دشمن قوموں کی طاقتیں جیسے جیسے بڑھتی جارہی ہیں مسلمانوں کے درمیان اختلاف بھی ویسے ہی ویسے بڑھتا جارہا ہے اور ایک دوسرے پر لعن و طعن گالی گلوج اور بہتان تراشی میں ترقی جاری ہے۔

اسلام کی خدمت کے لئے مشترکہ کوشش کرنا ائمہ اہل بیتؑ کی تعلیم ہے

ائمہ اہل بیتؑ نے بےحد مشترک بہترین مثالیں قائم کی ہیں ملاحظہ ہو:

یہ علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں کہ جب آپ نے دیکھا کہ حق خلافت غصب کرلیا گیا تو اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے ان دونوں حضرات سے کنارہ کشی اختیار کر لی لیکن جب آپ نے

۲۷۳

محسوس کیا کہ ان کے دور خلافت میں اسلام اور اہل اسلام کو خطرہ ہوسکتا ہے اور اسلام کو عموماً نقصان پہونچ سکتا ہے تو آپ نے فوراً ان کے امور میں مداخلت شروع کردی اور ان کا ساتھ دینا شروع کردیا تا کہ اسلام کی عموماً حفاظت ہوسکے اس صورت حال کو آپ نے اپنے ایک خطبہ میں بہت وضاحت سے پیش کردیا ہے،فرماتے ہیں:میں نے اپنے ہاتھ روک لئے اور یہ دیکھتا رہا کہ لوگوں کا رجحان کیا ہے؟لوگ دین سے منہ موڑچکے تھے اور دین محمدؐ کو مٹانے کی دعوت دےرہے تھے تو میں ڈرا کہ اگر میں نے اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہیں کی تو دین اسلام میں ایسا شگاف پڑجائےگا یا دین کا ایسا ستون گرجائےگا جس کے نتیجے میں ملنےوالی مصیبت تمہاری حکومت کے میرے ہاتھوں سے نکل جانے سے بڑی ہوگی حکومت تو ایک ایسی پونجی ہے جس کی مدت بہت قلیل ہے اور سراب کی طرح زائل ہوجانےوالی ہے یایوں گذرجانےوالی ہے جیسے بادل،لیکن دین ایک پائیدار چیز ہے اس لئے میں ان حادثوں کا مقابلہ کر نیکے لئے کھڑا ہوگیا یہاں تک کہ باطل مٹ گیا اور زائل ہوگیا اور دین مطمئن ہوکے بےفکر ہوگیا اور گنگنانےلگا۔(1)

تاریخ بتاتی ہے کہ آپؑ مسلمان حکومتوں کو مسلسل اپنی تدبیروں اور اچھے مشوروں سے نوازتے رہتے یہاں تک کہ اسلام کی عظمت بڑھی اور اس کا پرچم بلند ہوگیا اور اس کی دعوت عام ہوگئی۔

دوسری مثال اموی دور حکومت میں ابوجعفر محمد بن علی الباقر علیہ السلام نے قائم کی،سب جانتے ہیں کہ بنوامیہ کا دور آئمہ اہل بیتؑ اور ان کے شیعوں کیلئے تاریک ترین دور تھا لیکن اس کے باوجود امام نے اپنی معتمد رائے دینے میں بخالت نہیں کی،جب آپ نے محسوس کیا کہ اس وقت اموی حکومت کو مضبوط کرنے سے اسلام کو تقویت ملےگی تو آپ نے اپنی مضبوط رائے سے اسلام کی مدد کی یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب اموی بادشاہ کو درہم و دینار کے معاملے میں شاہ روم کی طرف سے دھمکایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ:ص:547،مالک اشتر کے نام اپنے ایک خط میں

۲۷۴

گیا تھا اس وقت امامؑ نے ہدایت فرمائی کہ اسلامی طرز پر سکے ڈھالے جائیں،تا کہ شاہ روم جو مسلمانوں سے اپنی شرطیں منوایا چاہتا اس کا راستہ بند ہوجائے۔(1) امام محمد باقر علیہ اسلام کے بزرگوں نے ایسے وقت میں جب سلطان جائر کے حکم سے قتال حرام تھا تاکید کی کہ اسلام کی حفاظت کے لئے جہاد مشروع ہے حاکم جور کے بھی دور میں اگر اسلام کو خطرہ در پیش ہو تو جہاد کی جاسکتا ہے چنانچہ امام صادق علیہ السلام سے حدیث ہے کہ:اپنے نفس کے لئے مدافعت کرے اور حکم خدا و رسول کے تحت قتال کرے لیکن حاکم جور کے حکم سے قتال ان کے طریقہ پر ہو تو یہ حلال نہیں ہے۔(2)

دوسری حدیث میں امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ((مسلمان کو چاہئے کہ لگاؤ رکھے لیکن قتل نہ کرے اور اس بات کا خوف ہو کہ اسلام کو نقصان پہنچےگا تو قتال بھی کرے اس لئے کہ اس کا قتال اب اپنے نفس کے لئے ہوگا نہ کہ سلطان جائر کے لئے اس لئے کہ اسلام کے دروس میں محمدؐ کے ذکر کا درس بھی شامل ہے۔(3)

اسی طرح آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے اپنے شیعوں کو تاکید کی دوسروں سے حسن معاشرت رکھیں میل جول بڑھائیں ان کے حقوق کی رعایت کریں ان کی طرف محبت اور دوستی کا ہاتھ بڑھائیں آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں،میں اس سلسلے میں کچھ حدیثیں بھی پیش کرچکا ہوں۔

خدمت اسلام کے لئے متحدہ جد و جہد کے بارے میں شیعہ اور ان کے علما کا نظریہ

تاریخ شاہد ہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے شیعہ ہر موڑ پر کفر کے خلاف عام مسلمانوں کے ساتھ رہے اور ان سےگھل مل کر ایک ایسے سماج کی تخلیق کرتے رہے جو ملت اسلام کی حفاظت کرتا رہے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)حیاۃ الحیوان دمیری ج:1ص:114

(2)وسائل الشیعہ ج:11ص:21،20چھٹا باب،دشمن سے جہاد،حدیث3

(3)وسائل الشیعہ ج:11ص:20،19چھٹا باب،دشمن سے جہاد،حدیث2

۲۷۵

یہاں تک کہ ماضی قریب کی تاریخ بھی اس کی شہادت دیتی ہے۔

بیسویں صدی کے شروع میں اسلام پر برا وقت پڑا تھا جب برطانوی فوجوں نےعراق پر چڑھائی کی تھی ان کی جنگ عثمانیوں سے تھی اور سب جانتے ہیں کہ ترکستان کی عثمانی خلافت میں شیعہ کس سختی کے دور سے گذر رہے تھے شیعہ علماء کے ساتھ قساوت کا مظاہرہ کیا جاتا تھا ظلم اور تشدد کا ایک سلسلہ جاری تھا شیعوں سے تجاہل برتا جاتا تھا حد تو یہ ہے کہ ان کی فقہ کو بھی حکومت فقہ ماننے پر تیار نہیں تھی شیعوں کے دینی طلبہ کو فوجی خدمات اس وقت تک نہیں دی جاتی جب تک ان کا فقہ حنفی میں امتحان نہیں لیا اس لئے کہ مذہب حنفی حکومت کا مذہب تھا لیکن شیعہ علما نے ان تمام باتوں سے چشم پوشی برتی،جب انھوں نے دیکھا کہ بات ملت اسلام پر آرہی ہے تو عثمانیوں کی مدد کی اور ان کے ساتھ جہاد کا فتوی دےدیا،خود علماء کرام میدان جہاد میں نکل پڑے اور شعیبۃ اور رکوت میں بنفس نفیس جہاد کیا ار جہاد کے سلسلے میں جو بھی مصیبتیں آئیں وہ جھیل گئے محض اس لئے کہ بیضہ اسلام کی حفاظت ہوا وردین کے دشمنوں سے دین کو بچایا جاسکے اسی طرح فلسطین کے معاملے میں بھی شیعہ علما نے مختلف مرحلوں میں یہی موقف اختیار کیا اور فلسطین کے معاملے کو اسلام کا معاملہ قرار دیا تا کہ اسلام کی سرزمین سے دشمن اسلام کو دفع کیا جاسکے۔

بیسویں صدی کے آخر میں بھی عراق میں یہی سب کچھ دیکھنے میں آیا جب شیعہ علما نے دیکھا کہ عراق پر کمیونزم قبضہ کررہا ہے تو ان لوگوں نے مرجعیت کے دروازے کھول دیئے اور آقائے حکیم طاب ثراہ کی قیادت میں سنیوں سے ہاتھ ملا لیا اور انہیں خوش آمدید کہا تا کہ کلمہ توحید کی حفاظت ہوسکے اور اس موقف کا سب بھی وہی تھا یعنی عالم اسلام کی حفاظت اور بس۔

یہ تمام باتیں اس لئے ہوئیں کہ شیعوں کی نظر میں اسلام کی حفاظت اور فلاح مذہبی اختلافات سے بالاتر ہے اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی بات میں متحد رہیں اور جب یہ محسوس کریں کہ دشمن طاقتوں نے اسلام کو برباد کرنا اپنا ہدف بنایا ہے تو اپنے اختلافات کو بھول جائیں تا کہ یہ نظریہ ہمیں

۲۷۶

عبرت دے سکے اور مسلمان عملی طور پر ایک ہو کے دشمنان اسلام کو دفع کرسکیں اور ان دشمنوں کے راستے بند کرسکیں جو اسلام پر مصیبتیں آنے کے انتظار میں ہیں اور اسلام کی کمزوریاں تلاش کرتے رہتے ہیں۔

حقیقت تک پہونچنے کے لئے میں عملی گفتگو کو خوش آمدید کہتا ہوں

جس طرح میں یہ چاہتا ہوں کہ مسلم فرقوں کے درمیان عملی مناظرہ ہوتا رہے اور ایسی گفتگو جاری رہے جو مقصد آفرین ہو،لیکن عناد اور تعصب سے پاک،لڑائی فساد سے دور ہوتا کہ ہر ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ سکے اور علمی طریقوں سے دوسرے سے گفتگو کرسکے،تا کہ کوئی بھی کسی پر اپنے مسائل اور عقائد کو لادنے کی کوشش نہ کرے.گفتگو اور مناظرہ کا مقصد صرف حقیقت تک پہونچنا اور سامنےوالے کی دلیلوں کو سمجھ کے کوئی فیصلہ کرنا ہو،اس کئے لئے مندرجہ ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے۔

1۔دین کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہونا،بصیرت کا کامل ہونا،یہ عقلی اور شرعی اعتبار سے بہت ضروری ہے۔

2۔ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آنا اور آپسی محبت کو برقرار رکھنا،ان تمام چیزوں کو جن سے رکاوٹ اور وحشت پیدا ہوتی ہے جن کی وجہ سے آپسی تعلقات منقطع ہوجاتے ہیں دور رکھنا،اس لئے کہ ایسی باتوں کا نتیجہ دلوں میں شیک پیدا کرتا ہے اور آپسی اختلافات سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔

3۔ہر دو فریق پر واجب ہے کہ وہ سامنےوالے کے عقیدے سے واقف ہو اور اس کی طرف سے دی ہوئی دلیلوں کے نتائج پر نظر رکھتا ہو.جھوٹ،بہتان تراشی،مبالغہ،بدگوئی اور بےکار گفتگو سے پرہیز کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

4۔ہر دو فریق پر واجب ہے کہ جب سامنےوالے کی دلیل اور حجتوں میں وزن کا احساس کرے اور یہ سمجھ لے کہ اس کے پاس کسی بھی عقیدہ ےکو ماننے کے لئے ٹھوس دلیلیں موجود ہیں تو اس کو چھوڑ دینے پر اصرار نہ کرے اور دشمنی اور تعصب سے کام نہ لے۔

۲۷۷

5۔ہم دلیلوں کی بنیاد پر عقیدوں میں اتفاق پیدا کرسکتے ہیں.ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی دلیلوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور موضوع کے اوپر غائرانہ نظر کی جائے،ان تمام باتوں کے ابوجود اگر دوسرے کا عقیدہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا تو ہمیں اپنے عقیدے کی حفاظت بھی کرنا چاہئے اور دوسرے کا احترام بھی کرنا چاہئے۔

شیعہ اور اہل سنت کے درمیان عقیدے کے اعتبار سے اتحاد نہیں پیدا ہوسکتا

تیسری بات اگر آپ شیعہ،سنی اتحاد کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ایک ہوجائے یعنی شیعہ بعض سنی عقائد کے قائل ہوجائیں اور سنی بعض شیعہ عقائد کے۔اور ہر ایک اپنی ان دلیلوں سے تجاہل برتے جن پر وہ شروع سے اعتماد کرتا آیا ہے تو یہ دعوت غیر عملی دعوت ہوگی یعنی عملی طور پر اس دعوت اتحاد پر عمل نہیں ہوپائےگا۔

اس کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں۔

1۔اس لئے کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف میں اضافہ ہوگا ظاہر ہے کہ اس نظریہ کو سب لوگ تو مانیں گے نہیں،نہ ہر سنی مانےگا اور نہ ہر شیعہ مانےگا اور جب کچھ شیعہ مانیں گے تو ایک فرقہ سنیوں کی طرف سے عالم وجود میں آئےگا اور ایک شیعوں کی طرف سے،نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم فرقوں کو ملانے کی کوشش میں دو فرقے اور پیدا کردیں گے.یعنی اب تک سنی،شیعہ دو فرقے تھے اب چار فرقے ہوجائیں گے۔

شیعہ،سنی اتحاد کے چکر میں عقیدوں کی ایک عجیب سی شکل سامنے آئےگی حالانکہ عقیدہ ہی ایک ایسی چیز ہے ہر ایک مسلمان کو سب سے عزیز ہے.

اگر ہم دعوت اتحاد دینے کے لئے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیں کہ وہ اپنے عقیدوں کو چھوڑ دیں تو اس سے خود دعوت بدنام ہوجائےگی،بہت سے سوالات پیدا ہوں گے.اور لوگا س دعوت کا مقابلہ کرنے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے اس لئے کہ وہ جاننا چاہیں گے کہ نئی شریعت کا سبب کیا ہے اور آیا یہ مشروع

۲۷۸

ہے بھی یا نہیں؟اس لئے کہ یہ شریعت بعض لوگوں کی نظر میں بالکل نئی ہوگی ان اسباب کی وجہ سے یا تو دعوت اتحاد مشکل ہوگی یا معطل ہوجائےگی۔

میرا خیال ہے کہ ہر دو فریق یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ ان کی یہ دعوت اسی وقت مکمل ہوگی جب وہ عالم اسلامی سماج سے ہٹ جائیں اور اس کی وجہ سے اختلاف کی خلیج کچھ اور وسیع ہوجائےگی،یعنی دعوت کا الٹا اثر ہوگا مسلمانوں کا شیرازہ وحدت پارہ پارہ ہوجائےگی ان کی بات میں پھوٹ پڑجائےگی اور ان کے مسائل میں اضافہ ہوجائےگی ہماری یہ بات دعوت کے متضاد ہوگی جس میں ہم نے محض کلمہ اسلام کی رفعت کے لئے اور اہداف مشترکہ کو حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان عملی اتحاد کی دعوت دی تھی میں نے عرض کیا تھا کہ یا تو ہر فرقہ اپنے عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہے،یا بہتر طریقے سے اپنے عقیدے کی طرف دوسروں کو دعوت دے،میری اس گذارش کا مقصد تمام مسلمانوں کو عملی اعتبار سے ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا اور حقیقت تک پہونچنے کے لئے دلیلوں کی چھان بین کرنی تھی۔

میں نے دو باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی اور دونوں ہی باتوں کا مقصد بہت بلند ہے اور نتیجہ بہت اطمینان بخش ہے ان کو چھوڑنے کی وجہ نہیں دکھائی دیتی بلکہ ہر مسلمان پر(جس کے اندر ذرا بھی غیرت اسلام پائی جاتی ہے)واجب ہے کہ اس دعوت کو قبول کرلے اور اس وقت تک نہ چھوڑے جب تک یہ شبہ نہ ہو کہ اس سے اسلام کو نقصان پہونچ سکتا ہے لیکن شیعہ سنی کے درمیان عقیدے کے اعتبار سے اتحاد کی دعوت کو قبول کرنے سے اسلام کو بھی نقصان پہنچےگا اور اس نقصان کی اصلاح بھی ناممکن ہے اس لئے بہتر یہ ہے کہ ایسی دعوت کو مہمل قرار دیا جائے اوراس سے تجاہل برتا جائے۔

ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ:(يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ) (1)

------------

(1)سورہ توبہ:آیت:47

۲۷۹

ترجمہ آیت:اگر یہ لوگ تم میں نکلتے بھی تو بس تم میں فساد ہی برپا کردیتے اور تمہارے حق میں فتنہ انگیزی کی غرض سے تمہارے درمیان اِدھر اُدھر گھوڑے دوڑاتے پھرتے اور تم میں سےان کے جاسوس بھی ہیں جو تمہاری باتیں ان سے بیان کرتے ہیں اور اللہ شریروں سے خوب واقف ہے۔اور اللہ ان لوگوں سے بےنیاز ہے۔

ارشاد ہوتا ہے: (إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ) (1)

ترجمہ:بےشک اللہ بےنیاز اور قابل تعریف ہے۔

2۔دوسری بات دینی حقائق کا اعتقاد اسی وقت واجب ہے جب اس پر تھوس دلیلیں قائم ہوں اور حجت تمام ہوچکی ہو لیکن وہ امور جو سنیوں کے لئے ہوں یا شیعوں کے لئے بغیر دلیل اگر عقیدے کی شکل میں اختیار کرگئے ہیں تو ان کا ماننا حرام ہے،چاہے دونوں فرقےاس پر متفق ہوں یا مختلف،ہاں اگر ان میں سے ایک فرقہ کسی بات پر خاموش ہو اور اس پر مستحکم دلیلیں حاصل ہوچکی ہوں تو ایسی صوررت میں اس کا اعتقاد واجب ہے پھر آپ سوچیں(غور کریں)کہ محض اتحاد کے لئے کوئی اپنے واجب شرعی کو کیسے چھوڑسکتا ہے۔

3۔اگر کوئی(چاہے وہ سنی ہو یا شیعہ)آپ کے اتحاد کے لئے اپنے مدلل عقیدے کو چھوڑ دیتا ہے تو یہ حقیقت پر ظلم ہی ہوگا۔بلکہ شریعت اور وجدان اس بات کو ہرگز قبول نہیں کریں گے کہ ایک مسلمان چاہے وہ سنی ہو یا شیعہ ایسے عقیدے کو چھوڑ دے جس کو ماننا اللہ نے اس پر فرض کیا ہے اور جس کے حق میں حجت تمام ہوچکی بلکہ جس عقیدے کے لئے اس کے دوستوں نے اللہ کے چاہنےوالوں نے اور اسکے نیک بندوں نے امر الہی کو تسلیم کرتے ہوئے اور اس کی رضا کو طلب کرتے ہوئے عظیم قربانیاں دی ہیں اور خدا کے ظالم دشمنوں سے،اسلام میں تفرقہ پیدا کرنےوالوں سے علوم اسلامی کو ضائع کرنےوالے دشمنوں سے،اسلام میں تفرقہ پیدا کرنےوالوں سے علوم اسلامی کو ضائع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ لقمان:آیت26

۲۸۰