فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 118215
ڈاؤنلوڈ: 5308


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118215 / ڈاؤنلوڈ: 5308
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کرنےوالوں سے لڑتے رہے۔یہاں تک کہ اس کی وجہ سے امت فرقوں میں تقسیم ہوگئی اور مسلمانوں میں ایک پائیدار اختلاف پیدا ہوگیا۔

ایسے مدلل عقیدے کو محض اتحاد کے لئے چھوڑ دینا حقیقت پر ظلم ہی نہیں بلکہ اللہ کے اس امر کی تردید کرنا ہے جو اس نے ہم پر فرض کیا ہے.اللہ کی باتوں کو ہلکا سمجھنا ہے اور اس کے اولیاء کرام کی کوششوں اور قربانیوں کو(جو انہوں نےعقیدے کی حفاظت کے لئے دی ہیں)ضائع کرنا ہے صرف یہی نہیں بلکہ اس سے خدا کے ظالم دشمنوں کے ہدف کو حق ثابت کرنا اور انہیں ان کی کوششوں میں کامیاب کرنا بھی لازم آتا ہے۔

ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں،آپ کو اور تمام مسلمانوں کو دینی حقیقتوں کی تحقیق کی توفیق عنایت فرمائے،مسلمانوں کے درمیان الفت و محبت کو محکم کرے اور ان کے فرقوں میں اتحاد پیدا کرے ان کی بات کو یکجا کرے بیشک وہ سب سے بڑا رحم کرنےوالا ہے۔

غالیوں کے بارے میں شیعوں کا نظریہ

سنیوں کی طرح شیعہ بھی غالیوں کو گمراہ سمجھتے ہیں بلکہ انہیں کافر سمجھتے ہیں لیکن اس وقت جب ان کا غلو توحید کو نقصان پہنچاتا ہو یا مقام نبوت سے آگے بڑھاتا ہو چاہے نبوت کا دعوی حضور سرور کائناتؐ کے بعد کوئی کرتا ہو یا کسی ایسے ضروری حکم کا انکار کرتا ہو،جس کی وجہ سے اللہ کے نازل کردہ احکام کی تردید ہوتی ہو یا اس کے حضورؐ میں تسلیم سے روکتا ہو اگر غلو کی وجہ سے مندرجہ بالا باتیں نہیں پیدا ہوتیں تو پھر نہ وہ کافر ہے نہ گمراہ مثلاً بعض اولیا کے کرامات یا خدا کے نزدیک ان کے مقام بلندی مقصد یہ ہے کہ کسی کو بھی کافر کہنے سے پہلے اس کے کفر کو ٹھوس دلیلوں سے ثابت کرنا بہت ضروری ہے اس کے لئے وافی معقول دلیل چاہئیے ورنہ بہتر ہے کہ خاموش رہے جیسا کہ خداوند عالم نے حکم دیا ہے:

۲۸۱

(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌإِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)(1)

ترجمہ:اور جس چیز کا یقین نہ ہو خواہ مخواہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو کیوں کہ کان آنکھ اور دل ان سب کی قیامت کے دن یقیناً بازپرس ہوگی۔

خداوند عالم دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: (سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ) (2)

ترجمہ:ابھی ان کی شہادت قلم بند کرلی جاتی ہے اور قیامت میں ان سے پوچھا جائےگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ اسراءآیت:36

(2)سورہ زخرف آیت:19

۲۸۲

سوال نمبر۔10

امید کرتا ہوں کہ طالب علم کو آپ اس کتاب کا جواب لکھنے پر آمادہ کریں گے جس کا نام(حتی لاننخدع عبداللہ الموصلی)جس میں اس نے یہ دعوی کیا ہے کہ شیعہ اور ان کے علماء اہل سنت کو کافر کہتے ہیں اور ان کے جان و مال مباح سمجھتے ہیں میں جانتا ہوں کہ آپ کے پاس وقت کم ہے اور آپ بہت مصروف ہیں اسی لئے میں نے آپ کو یہ مشورہ دیا ہے،حالانکہ آپ زیادہ جاننےوالے ہیں۔

یہ کتاب مصر میں چھپی ہے اور اس کتاب کے چھاپنےوالے ادارہ کا نام(دارالسلامۃ اللنشر و التوزیع)سلفی فرقہ کے بعض لوگ اس کتاب کو پھیلا رہے ہیں اور اس میں جو کچھ لکھا ہے اس پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔

جواب:اس سلسلے میں آپ کو مندرجہ ذیل امور کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔

1۔آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں عرض کیا گیا تھا کہ شیعوں کے نزدیک مسلمان وہ ہے جو کلمہ شہادتیں کا اقرار کرتا ہو،عالم اسلامی فرائض سے انکار نہ کرتا ہو اور اسلام کی طرف اعلانیہ دعوت دیتا ہو اس اسلام کو جو ماننےوالا ہے شیعوں کی نظر میں اس کا خون اور مال(دونوں ہی)محترم ہے۔

۲۸۳

میں نے یہ عرض کیا تھا کہ صحابہ اور غیر صحابہ سبھی اس اصول کے تحت آتے ہیں اور شیعوں کی کتابیں اس فتوے سے بھری پڑی ہیں،میں نے بعض علما کے کلمات بھی مقام مثال میں پیش کئے تھے میرا خیال ہےکہ یہی عبارتیں(حتی لاننخدع)کی تکذیب کرتی ہیں اور شیعوں کو اس الزام سے بری کرتی ہیں۔

حتی لانںخدع جیسی کتابوں کے بارے میں ہمارا نظریہ

اب تک تو مجھے اس کتاب کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے لیکن آپ کی گفتگو سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ آج کل شیعوں کے خلاف بہت سی کتابیں نکل رہی ہیں جن کا اہم ترین مقصد شیعوں کو بدنام کرنا،ان کے بارے میں جھوٹی سچی باتیں پھیلانا اور ان پر الزام تراشی کرنا ہے تا کہ دوسرے لوگوں کے جذبات ان کے خلاف ہوجائیں۔

میرا خیال ہے کہ یہ کتاب انہیں کتابوں میں سے ایک ہے.اس طرح کی کتابوں کی تردید اگر اس لئے کی جائے کہ جواب پڑھ کر اظہار حقیقت کے بعد اپنے نظریوں کو بدل دیں گے تو یہ ناممکن ہے اس لئے کہ وہ لوگ جاہل نہیں ہیں اور اگر جاہل ہیں بھی تو حقیقت تک پہونچنا نہیں چاہتے تا کہ اشکال حل ہوجائے اور وہ اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہوں.بلکہ ان کا ایک خاص مقصد ہے جس کو پانے کے لئے ان کی کوشش جاری ہیں اور وہ اس مقصد کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتے۔

اس کے پہلے بھی میں اس طرح کے تجربوں سے گذرچکا ہوں اور میں نے بہت کچھ سیکھا ہے میں نے یہ معلوم کرلیا کہ ایسے لوگوں سے بحث کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔

اگر آپ مذکورہ کتاب کا جواب دینا اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کتاب کے مرقومات کو پڑھ کر نیک نیت مسلمانوں کے فریب کھا جانے کا امکان ہے،تو یہ امکان اس زمانے میں تھا جب شیعہ کتابیں پوشیدہ تھیں اور لوگ مصادرہ کا مطالبہ نہیں کرتے تھے.ان کی کمیابی یا نایابی کی بنیاد پر آج کا دور تو ایسا ہے کہ شیعہ مصادر عام ہیں اور ان کی کتابیں بہرحال ہر آدمی کے لئے ممکن الحصول ہیں غیر شیعہ

۲۸۴

ان سے جاہل نہیں ہے.اور شیعہ ان کتابوں کی تحریر سے انکار نہیں کرسکتا پھر دھوکا اور فریب کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟

یہ تو انصاف نہیں ہے کہ شیعہ کتابوں کو بغیر پڑھے ہوئے اور ان کے حالات سے بغیر مطلع ہوئے شیعوں کے دشمنوں کی اور شیعوں پر الزام رکھنےوالوں کی تصدیق کردی جائے۔

خصوصاً اس کتاب میں جو تہمتیں شیعوں پر لگائی گئی ہیں ان کی تکذیب تو شیعوں کے طرز زندگی کا مطالعہ کرکے ہوجاتی ہے اس لئے کہ شیعہ کسی خاص علاقے میں یا کسی کونے میں تو نہیں رہتے کہ ان کی طرز زندگی اور ان کی سماجی زندگی بالکل لوگوں سے پوشیدہ ہے اور وہ چھپ کے اپنے مذہبی مراسم انجام دیتے ہیں،بلکہ شیعہ تو کھلم کھلا تمام مسلمانوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور ان کے ساتھ رہتے سہتے ہیں موسم حج میں جب تمام عالم اسلام کعبہ میں مرتکز ہوتا ہے تو شیعہ بھی اسلام کی شان بڑھانے کے لئے ان میں شامل ہوتے ہیں میرے کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ شیعہ اتنے امانت دار ہوتے ہیں کہ انہیں ان کی امانت داری اور تقویٰ کی وجہ سے پہچانا جاسکتا ہے اور وہ مسلمانوں کے جان مال کا احترام دوسروں سے زیادہ کرتے ہیں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ ان کے اندر دوسروں سے زیادہ خیانت نہیں پائی جاتی اور وہ مسلمانوں کے جان و مال کا دوسروں سے کم احترام نہیں کرتے خصوصاً وہ شیعہ جنھیں متدین سمجھا جاتا ہے اور دین کا پابند سمجھا جاتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب یہ دوسروں سے ملتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ معاشرت کرتے ہیں تو ان کے کردار سے شیعہ مذہب جھلکتا ہے اور دوسرے لوگ ان کو شیعوں کی پہچان مانتے ہیں۔

سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہےکہ آخر شیعہ تہمت اور بہتان تراشی کے جال میں کب تک پھنسے ہیں گے اور صفائیاں پیش کرتے رہیں گے اور لوگ ان تہمتوں کو شیعوں کے بارے میں کس وقت تک سچ مانتے رہیں گے جب تک شیعہ اپنی صفائی نہ پیش کریں جب اصول انصاف یہ ہے کہ جس پر تہمت لگائی جاتی ہے وہ اس وقت تک صاف سمجھا جاتا ہے ب تک جرم ثابت نہ ہوجائے شیعوں کی کتابیں موجود ہیں ان کتابوں میں ان تہمتوں کو دفع کیا گیا ہے۔جو حتی لاننخدع میں شیعوں پر تہمتیں لگائی گئی ہیں کوئی بھی آدمی شیعوں کی کتابوں کو پڑھ کے آسانی سے حقیقت معلوم کرسکتا ہے اور

۲۸۵

اگر شیعہ کتابوں کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی حتی لاننخدع کی تحریروں کو صحیح سمجھتا ہے اور آپ ہم سے اس کتاب کا جواب لکھنے کو کہتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اگر شیعہ مصادر ان الزامات سے آپ کی نظر میں شیعوں کو بری نہیں کرسکتی تو پھر میرے بس سے باہر ہے کہ میں شیعوں کی منشور اور وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی کتابوں کے باوجود اس کتاب کا جواب لکھنے بیٹھ جاؤں۔

آج کے دور میں شیعوں پر حملے

اس دور میں شیعہ الزام تراشی کسی ایک یا دو کتاب میں محدود نہیں ہے بلکہ مختلف سمتوں سے شیعوں پر حملوں کی بھر مار ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس طرح کے حملے شیعوں پر بڑھتے ہی جارہے ہیں مثلاً مصر میں آج سے تقریباً چالیس سال پہلے مذاہب اسلامیہ کو قریب لانے کی ایک کوشش کی گئی تھی جامع ازہر کے شیخ الجامع شیخ محمود شلتوت نے اپنے مشہور فتویٰ میں یہ فرمایا تھا کہ فقہ جعفری کے اصولوں پر عبادت کی جاسکتی ہے اور فقہ جعفری کو تعبد شرعی حاصل ہے لیکن آج مصر ہی میں شیعوں کی شدید مخالفت کی جارہی ہے۔

شیعوں کے ساتھ یہ زیادتی کوئی نئی بات نہیں ہے،صرف یہ دور اس سے مخصوص ہے اور اس زیادتی کا مقصد بھی نہیں ہے کہ شیعوں کی کوئی کمزوری جواب تک پوشیدہ تھی عام مسلمانوں پر ظاہر کردی جائے بلکہ یہ زیادتی ان تبدیلیوں کا نتیجہ ہے جو مصر میں ظاہر ہوئی ہیں اور اس میں شیعہ بھی قصور وار ہیں اس لئے کہ انہوں نے عالم اسلام میں اپنی فعالیت تیز کردی ہے جو لوگ ان حملوں کا حقیقی سبب جانتے ہیں وہی اس سے فائدہ بھی اٹھارہے ہیں ان حملوں کے پیچھے ایک بہت بڑی قوت ہے جس کو صاحبان معرفت خوب پہچانتے ہیں۔اگر میں اس طرح کی تہمتوں کا جواب لکھنے بیٹھ جاؤں اور ان کی تکذیب میں خود کو الجھا لوں یا اس طرح کی لاحاصل باتوں کے خلاف کتاب لکھنا شروع کروں تو اس سے ہماری طاقت محدود ہوجائےگی اور محنت ضائع ہوجائےگی اور ایک بےفائدہ کام میں وقت برباد ہوگا اس لئے کہ جھوٹ اور گالی کی زبان بہت لمبی ہوتی ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ ہم ان کو مہمل قرار دیں اور انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے

۲۸۶

وہ خود ان کی حقیقت کا انکشاف کررہا ہے۔

اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے،جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: (كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُوَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ) (1)

ترجمہ:جیسے ایک چٹیل میدان کا چمکتا ہوا بالو کہ پیاسا اس کو دور سے دیکھے تو پانی خیال کرتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آیا تو اس کو کچھ بھی نہ پایا(اور پیاس سے تڑپ کر مرگیا)اور خدا کو اپنے پاس موجود پایا تو اس نے اس کا حساب کتاب پورا پورا چکا دیا۔

شیعوں کو اپنے خلاف حملہ کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟

اس دور میں شیعوں پر واجب ہے کہ وہ ان حالات میں صبر کریں،ایک دوسرے کو تلقین صبر کریں،آپس میں اتحاد رکھیں،اپنے نفس کی طرف متوجہ ہوں اور اللہ سے مضبوط تعلق قائم کریں اور اللہ پر بھروسہ کرکے اپنے حق اور حقیقت کو اپنے افعال اور طرز عمل سے ثابت کریں اور دنیا کو واقعیت کا یقین دلائیں،دنیا کو بتائیں کہ تاریخ ان کی مظلومیت کی شاہد ہے پھر اپنے حق پر دلیلیں دیں اور اپنی اصلی ثقافت کی اس دور کے مطابق مناسب طریقہ سے نشر و اشاعت کریں اور لوگوں کے لئے اپنی حقانیت پر حجت قائم کریں،اس میں کوئی شک نہیں کہ حق کی بہرحال فتح ہوگی جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: (فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءًوَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِكَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ) (2)

ترجمہ:پھین(جھاگ)تو خشک ہو کر غائب ہوجاتا ہے اور جس سے لوگوں کو نفع پہونچتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ نور آیت:39

(2)سورہ رعد:آیت:17

۲۸۷

(پانی)حوض میں ٹھہرا رہتا ہے یوں خدا لوگوں کو سمجھانے کے واسطہ مثالیں بیان فرماتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے کہ:

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ(1)

ترجمہ:تم صبر کرو بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور ایسا نہ ہو کہ جو لوگ تمہاری تصدیق نہیں کرتے تمہیں ہلکا اور خفیف کردیں۔

میرا خیال ہے کہ طعن و تشنیع کے مقابلے میں یہ طریق کار،ایک پائیدار کوشش ہوگی اور دلیلوں کی مزید وضاحت کرےگی اس لئے کہ جب حقائق منکشف ہوجائیں گے اور کذب و افترا کی حقیقت اور حملہ کرنےوالے دلیلوں کے اعتبار سے اتنے مفلس ہیں کہ انہوں نے مجبور ہو کے کذب و بہتان کا سہارا لیا ہے اور طعن و تشنیع پر اتر آئے ہیں اس کے ساتھ ہی حملہ آوروں کی بدنیتی بھی سامنے آجائےگی.اور دنیا ان کے گندے مقاصد کو سمجھ جائےگی.میرے خیال میں شیعیت کی خدمت کے لئے یہی کافی ہے اور شیعوں کے فخر کے لئے یہی کافی ہے اور اس حقیقت کے لئے بھی جو مسلسل حملوں کا نشانہ نبی ہوئی ہے۔

ماضی کے تجربے میری عبرت کے لئے کافی ہیں اور میری بات کی شہادت دیتے ہیں شیعہ قوم شروع ہی سے اپنے عقائد و مسلمات کے لئے جنگ کرتی آئی ہے اور شیعیت ابتدا ہی سے سب و شتم اور کذب و بہتان کا نشانہ بنتی رہی ہے شیعوں کے بارے میں آج کے سلفیوں کے خیالات کل کے امویوں عباسیوں اور عثمانیوں سے کسی طرح ہلکے نہیں ہیں اور وہ بھی جو ان کی مدافعت کرتے ہیں۔

لیکن شیعیت ہر دور میں اپنے حق و حقیقت پر ثابت قدم رہی ہے زلزلوں نے اور وقت کی آندھیوں نے اس کی قوت،ثابت قدمی اور نشر و اشاعت میں اضافہ ہی کیا ہے،سچ فرمایا ہے خداوند عالم نے:

-------------------

(1)سورہ روم آیت:60

۲۸۸

(أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ-تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَاوَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ-وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ-يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِوَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَوَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ)(1)

ترجمہ:(اے رسول)کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے اچھی بات مثلاً کلمہ توحید کی کیسی اچھی مثال بیان کی ہے کہ(اچھی بات)گویا ایک پاکیزہ درخت ہے کہ س کی جڑ مضبوط ہے اور اسکی ٹہنیاں آسمان میں لگی ہوئی ہیں اپنے پروردگار کے حکم سے ہمہ وقت پھلا پھولا رہتا ہے اور خدا لوگوں کے واسطے(اس لئے)مثال بیان فرماتا ہے تا کہ لوگ نصیحت(عبرت)حاصل کریں اور گندی بات جیسے(کلمہ شرک)کی مثال گویا ایک گندے درخت کی سی ہے(جس کی جڑ ایسی کمزور ہے)کہ زمین کے اوپر ہی اکھاڑ پھینکا جائے کیوں کہ اس کی کچھ ٹھہراؤ تو ہے نہیں جو لوگ پکی بات کلمہ توحید پر صدق دل سے ایمان لاچکے ان کو خدا دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدم اور آخرت میں بھی ثابت قدم رکھےگا اور انہیں سوال و جواب میں کوئی دقت نہیں ہوگی اور سرکشوں کو خدا گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور خدا جو چاہتا کرتا ہے۔

سلفیوں کے واقعات اور ان کے مقاصد

جہاں تک سلفیوں کا سوال ہے جو آج کل شیعوں پر مسلسل حملے کررہے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ یہ شیعوں کے خلاف بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کی پہلی شرارت نہیں ہے بلکہ دو صدی یا اس سے کچھ پہلے جب مسلمانوں میں کمزوری آگئی اور مسلم حکومتیں کمزور ہوگئیں تو مغربی کفار،مسلمان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ ابراہیم آیت:24۔27

۲۸۹

شہروں کو لالچ بھری نظروں سے دیکھنے لگے اور مسلمان حکومتوں کو کمزور کرنے کے لئے بلکہ انہیں برباد کرنے کے لئے انہوں نے سلفیوں کو بھیجا اور یہ سمجھا کر بھیجا کہ وہ توحید اور شرک کی انحراف شدہ تفسیریں کرکے مسلمانوں کو گمراہ کریں اور کچھ ایسا کریں کہ عام مسلمانوں پر کفر کی حکومت قائم ہوجائے مسلمانوں کی جان و مال حلال ہوجائے اور ان کی حرمت برباد ہوجائے مغربی حکومتوں نے ایسے گروہ تیار کئے جو مسلمان ملکوں میں جاکے رہیں اور ان کی حکومت کو کمزور کریں ان کا بہت خاص ہدف عثمانی حکومت تھی جو مسلمانوں کی سب سے مضبوط حکومت تھی مسلمانوں کی اکثریت اس حکومت سے اس لئے عقیدت رکھتی تھی کہ عثمانیوں نے اپنی حکومت کو خلافت کا عنوان دیا تھا سلفیوں نے اس حکومت کو دو طرف سے نقصان پہنچایا۔

انھوں نے کعبہ محترم پر کئی بار حملے کرکے حاجیوں کو قتل کرکے اور ان کا مال لوٹ کے اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی توہین کرکے بہت فساد پھیلایا یہاں تک کہ کئی سال تک لوگ حج سے محروم رہے اس طرح انہوں نے شیعوں پر بھی حملہ کیا اور مشاہد مقدسہ کی توہین کی کئی بار مدینہ اور کربلائے معلیٰ پر بھی حملہ کیا وہ کربلا جو راہ خدا میں قربانی اور شہادت کی ایک علامت ہے اور جہاں نبیؐ کے اہل بیتؑ کا پاک خون بہایا گیا انہوں نے اپنے کچھ حملوں میں ہتک حرمت کی انتہا کردی کربلا کے بہت سے رہنےوالوں کو قتل کردیا سبط نبی سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی قبر کو منہدم کردیا اور روضہ مطہر میں جتنی نفیس چیزیں تھیں سب کو لوٹ کے لے گئے انہوں نے نجف اشرف پر بھی متعدد حملے کئے لیکن چونکہ علماء نے زبردست مدافعت کی اس لئے وہ حضرت علی علیہ السلام کی قبر تک نہیں پہنچ سکے ان کا فساد بلاد اسلامیہ میں بڑھتا چلاگیا یہاں تک کہ مغربی ملکوں کا مقصد حاصل ہوگیا اور حکومت و خلافت عثمانی اپنے انجام کو پہنچ گئی،مغربی ملکوں نے عثمانی حکومت کے شہروں کو آپس میں تقسیم کرلیا اور مسلمانوں کے مشرقی ممالک بھی پہلی جنگ عظیم کے بعد ان کے قبضے میں چلے گئے پھر سلفیوں نے حرمین کی آئمہ اور صالحین کی قبروں کو نشانہ بنایا اور کوشش کی نبیؐ اور اہل بیتؑ کے آثار کو بالکل ہی مٹادیں پھر کچھ دنوں کے لئے ان کی شرارتیں بند ہوگئیں اور طویل مدت تک ان کی تحریکیں معطل رہیں اس لئے کہ اب ان

۲۹۰

کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی یہاں تک کہ پھر مسلمانوں کا نشہ ٹوٹا اور وہ دین کی طرف متوجہ ہوئے مشرقی ملکوں میں کفار مغرب کو اپنی مصلحتیں خطرہ میں پڑتی ہوئی دکھائی دیں اور انہوں نے پھر سلفیوں کو جدید ہتھیار سے لیس کرکے بھیجا وہ مسلمانوں میں نئے موضوع،تحریف شدہ تفسیر اور مغربی ملکوں کے عطا کردہ مادی وسائل لیکے پھر پہنچ گئے تا کہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالیں ان کے شیرازۂ وحدت کو منتشر کردیں ان کے درمیان عداوت اور کینوں کی کاشت کریں تا کہ ان کی طاقت آپس میں لڑنے ہی میں زائل ہوجائے اور وہ دشمن اور دشمن کے ارادوں کی طرف متوجہ نہ ہوسکیں۔

اس بار انہوں نے نیا چولہ بدلا ہے وہ مسلمانوں کے ہمدرد بن کے آئےہیں اور سمجھا رہے ہیں کہ وہ شیعوں سے دور رہیں اس لئے کہ شیعہ انہیں کافر کہتے ہیں ان کے جان و مال کو حلال سمجھتے ہیں مسلمانوں کو ان سے بچ کے رہنا چاہئیے اور دھوکا نہیں نہیں کھانا چاہئیے وہ خود مسلمانوں کو اپنے تحریف شدہ نظریات سے غافل رکھنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں جبکہ وہ خود مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ان کو شریک سے منسوب کرتے ہیں ان کی حرمت کو ساقط کرتے ہیں ان کا کون بہاتے ہیں اور مال لوٹتے ہیں وہ اپنی ساری کارستانیاں بھول گئے ہیں،وہ بھول گئے کہ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا تھا مسلمانوں کے مشاہد مقدسہ کی کتنی توہین کی تھی میں نے تو ابھی ابھی ان کی تاریخ بیان کی ہے،(مثل مشہور ہے کہ اپنی بیماری کا الزام وہ مجھ پر لگاتے ہیں)(انا اللہ و انا الیہ راجعون)ہر حال میں خدا کی حمد ہے اور وہ بہترین فیصلہ کرنےوالا ہے۔آخر کلام میں عرض ہے کہ میں نے بات کو بہت طول دیا معاف فرمائیں گے.اور اگر کوئی بےادبی ہوگئی ہو تو درگذر کریں گے.میں اللہ سے آپ کے لئے توفیقات کا امیدوار ہوں اور یہ کہ آپ دین اور مسلمانوں کی خدمت کرتے رہیں جو خدا کو محبوب ہے اور اس کا پسندیدہ کام ہے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

2/12/1999

اردن عمان

۲۹۱

۲۹۲

میں نے آپ سے جو بھی کہا ہے اس کے آخر میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہماری گفتگو مقصد اور اس لمبی بحث کا ہدف صرف حقیقتوں کو بیان کرنا ہے وہ حقائق جن کے گردیہ گفتگو گھومتی رہی،میں امید کرتا ہوں کہ ہماری نیت اور ہمارا ارادہ صرف حقیقت تک پہونچنے کا ہے اور آئینہ حقیقت پر جو گرد و غبار چڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اس کو صاف کرنے کا ہے،اس لئے گردآلود حقیقت کو دیکھ کر شرپسند طاقتوں کی ہمت بڑھتی ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ حقیقت کو برباد کردیا جائے۔

جو آدمی حقیقت پر بحث کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ایک اہم نصیحت

بات ختم ہوگئی لیکن ابھی کچھ عرض کرنا ضروری ہے وہ دینی حقائق جن کو اللہ نے اپنے ثواب و عقاب کا معیار قرار دیا ہے انہیں یوں ہی نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ ان کے لئے ٹھوس دلیلیں اور واضح حجتیں قرار دی ہیں: (لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ) (1)

ترجمہ:تا کہ جو ہلاک ہو وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو زندگی پائے وہ دلیل کے ساتھ زندگی پائے۔

اگر صاحب ادراک ان حقیقتوں کو ثابت نہیں کرپاتا تو صرف اس لئے کہ اس کی تلاش و جستجو میں کمی ہے اس نے حق تک پہونچنے کی کوشش ہی نہیں کی یا تو اس لئے کہ وہ ان باتوں کو بہت ہلکا سمجھتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ انفال:آیت:42

۲۹۳

ہے یا اس لئے کہ وہ انہیں نظرانداز کررہا ہے اس کے علاوہ بھی بہت سے اسباب ہیں مثلاً آباء و اجداد کی تقلید،تعصب کی خواہشیں اور موروثی مسلمات یا خود اس کے اپنے جذبات یہ تمام باتیں بہت سی خرابیاں پیدا کرتی ہیں ان کی وجہ سے بحث و مباحثہ اور غیر منطقی جنگ و جدال کے دروازے کھلتے ہیں اور آپسی کشمکش کا ایک ایسا ماحول پیدا ہوجاتا ہے جس کو طبیعی طور پر انسان پسند نہیں کرتا.انسان کو قدرت نے جو قوت مدرکہ دی ہے اپنے ماحول میں وہ مات کھا جاتی ہے جبکہ تعصب و تقلید کو چھوڑ دیا جائے تو انسان فوراً حقیقت کا ادراک کرلیتا ہے۔

مذکورہ بالا خرابیاں خدا کے سامنے حجت نہیں بن سکتیں اور تعصب و تقلید کا عذر کرکے انسان خدا کے سامنے بری نہیں ہوسکتا اس لئے کہ خداوند عالم بندوں پر جو حقیقت فرض کی ہے اس کے لئے دلائل اور روشن حجت کا قیام پہلے کردیا ہے۔

پس صاحب عقل اور سمجھدار آدمی کو چاہئیے کہ اپنے نفس کے لئے احتیاط برتے اس لئے کہ اس کی جان اس کے لئے تمام جانوں سے عزیز ہے وہ اپنی جان کو دائمی ہلاکت میں نہ ڈالے اور ہمیشہ کے عذاب سے بچائے اور یہ جب وہ حقیقت کو جذبات اور تقلید کی عینک سے نہ دیکھے بلکہ اس عقل و وجدان کا استعمال کرے جو خدا نے اس کے لئے حجت قرار دیا ہے حقیقت تک پہونچنے کی بہرحال کوشش کرے چاہے وہ جہاں بھی ہو اور جیسے بھی ہو نیت امر الہٰی کی تسلیم اور اسکے حکم کی پیروی ہونی چاہئیے تا کہ وہ اپنے نظریوں کو بصیرت کی بنیاد پر حاصل کرے اور اپنے پروردگار کے سامنے عذر پیش کرسکے اور خدا سے دعا کرے کہ وہ اس کو مضبوطی عنایت فرمائے اور گمراہی سے بچائے اور صراط مستقیم کی ہدایت کرے اس لئے کہ اسی کے ہاتھ میں توفیق کے اسباب بھی ہیں اور خذلان کے بھی۔

(وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌوَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ)(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ نحل آیت:9

۲۹۴

ترجمہ:اور سیدھی راہ ہدایت تو خدا ہی کے ذمہ ہے اور بعض راستے ٹیڑھے ہیں اگر خدا چاہتا تو تم سب کو منزل مقصود تک پہونچا دیتا.

خداوند عالم مخلص افراد کے لئے اور دعا کرنےوالوں کے لئے اپنی توفیقات میں بخالت نہیں کرتا،وہ اپنی رضا تک پہونچنے کے لئے وسیع عنایتیں پیش کرتا ہے۔

ارشاد ہوتا ہے: (وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاوَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ)( 1)

ترجمہ:اور جن لوگوں نے ہماری راہ خدا میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے اور اس میں شک نہیں کہ خدا نیکوکاروں کا ساتھی ہے۔

اور ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنی رحمت و لطف و کرم سے ہماری دعائیں قبول کرے ہمیں اپنے راستے کا مجاہد بنائے ہمارے لئے ایسے اسباب توفیق پیدا کرے کہ ہم اس کےنور و ہدایت سے فائدہ اٹھائیں اور اس شریعت پر چلتے رہیں جو اس کی بنائی ہوئی ہے اس دین حق کو اپنا شعار بنائیں جس سے وہ راضی ہے بےشک وہ سب سے زیادہ رحم کرنےوالا اور مومنین کا سرپرست ہے،بیشک وہ سب سے بہتر وکیل،بہترین سرپرست اور بہترین مددگار ہے،ہم صرف اللہ سے توفیق چاہتے ہیں اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے امید رکھتے ہیں،آخر میں ہماری یہ آواز ہے کہ ساری تعریفیں رب العالمین کے لئے ہیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ آپ تفصیلی جواب سے عزت بخشیں گے ایسا جواب جس کی توثیق مراجع نے کی ہو۔

شکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ عنکبوت آیت:69

۲۹۵

میں نے بھرپور کوشش کی ہے کہ آپ کے سوالوں کا اور آپ کی طلب کا جواب دے سکوں،اگر چہ اس سلسلے میں میں نے ایک طویل وقت اور بڑی محنت کی ہے میری محنت ضائع نہیں ہوگی(انشاءاللہ)مجھے اس بات کا احساس ہے کہ بحث کا پورا حق تو ادا نہیں ہوسکا لیکن یہ کہ جو میسر ہے اس کو چھوڑ کر جو مشکل ہے اس کے لئے کوشش نہیں کی جاتی میں آپ کا شکرگذار ہوں کہ آپ نے ایسی گفتگو کا دروازہ کھولا ہے جو بہت نتیجہ خیز ہے اللہ کی توفیق اور اس کی رعایت سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے.

والسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

۲۹۶