فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ13%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130310 / ڈاؤنلوڈ: 6755
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

سوالات

۱_ جس وقت رسول خد ا(ص) نے روميوں سے جنگ كيلئے سپاہ روانہ كرنے كا اقدام كيا تو آنحضرت (ص) كوكيا مشكلات اور دشوارياں پيش آئيں؟

۲_ جب رسول خد ا(ص) نے مسلمانوں كو روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كى دعوت دى تو ان كى طرف سے كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۳_ رسول خد ا(ص) جب غزوہ تبوك پر تشريف لے جارہے تھے تو آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں كسے اپنا جانشين مقرر رفرمايا اور اس شخص كے انتخاب كئے جانے كا كيا سبب تھا؟

۴_ اگر چہ غزوہ تبوك كے موقع پر جنگ تو نہيں ہوئي مگراسلام دشمنوں نے اس سے كچھ سبق ضرور حاصل كئے ان كے بارے ميں لكھئے وہ كيا تھے؟

۵_ غزوہ تبوك كا مسلمانوں كے دل ودماغ پر كيا اثر ہوا ؟

۶_ عزوہ تبوك كے موقع پر منافقين نے جو ريشہ دوانياں كيں اس كے دو نمونے پيش كيجئے_

۷_ غزوہ تبوك كو ''فاضحہ'' كس وجہ سے كہا گيا ؟ وضاحت كيجئے_

۸_ سورہ توبہ كى ابتدائي آيات ہجرت كے كس سال رسول خدا (ص) پر نازل ہوئيں اور آنحضرت (ص) نے كس شخص كے ذريعے انہيں مشركين تك پہنچايا ؟

۹_ سورہ توبہ كے علاوہ بھى كيا رسول خد ا(ص) كى طرف سے كوئي پيغام مشركين كو بھيجا گيا تھا ؟ وہ كيا پيغام تھا اس كے بارے ميں لكھئے_

۱۰_ كيا سورہ توبہ كى ابتدائي آيات اور اس كا مفہوم جو حضرت على (ع) كى جانب سے مشركين كو بھيجا گيا تھا ، ان پر كسى عقيدے كو مسلط كرنے اور ان كى آزادى سلب كرنے كے مترادف ہے يا نہيں ؟، اس كى وضاحب كيجئے_

۲۸۱

حوالہ جات

۱_يہ جگہ ''وادى القري'' اور شام كے درميان واقع ہے مدينہ سے اس جگہ تك بارہ منزل كا فاصلہ ہے ، معجم البلدان ج ۲ ص ۱۴_ ۱۵ ، مسعودى نے اپنى كتاب التنبيہ والاشراف ميں ص ۲۳۵ پر لكھا ہے كہ مذكورہ بارہ منزلوں كا فاصلہ نوے فرسخ ہے (تقريباً ۵۴۰ كلوميٹر)_

۲_يہ جگہ شام اور وادى القرى كے درميان دمشق كے علاقے ميں واقع ہے ، معجم البلدان ج ۱ ص ۴۸۹_

۳_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۹۰_

۴_علامہ ''مفيد'' مرحوم نے اپنى كتاب ''الارشاد'' ميں ص ۸۲ پر لكھتے ہيں كہ ''رسول خدا (ص) '' كو وحى كے ذريعے علم ہوگيا تھا كہ اس سفر ميں جنگ نہيں ہوگى ''اورتلوار چلائے بغير ہى كام آنحضرت (ص) كى مرضى كے مطابق انجام پذير ہوں گے ، سپاہ كو تبوك كى جانب روانہ كئے جانے كا حكم محض مسلمانو ں كى آزمائشے كى خاطر ديا گيا تھا تاكہ مومن ومنافق كى تشخيص ہوسكے، موصوف اپنى كتاب ميں دو صفحات كے بعد لكھتے ہيں كہ اگر اس سفر ميں جنگ واقع ہوتى او ر رسول خد ا(ص) كو مدد كى ضرورت پيش آتى تو خداوند تعالى كى طرف سے يہ حكم نازل نہ ہوتا كہ آپ (ص) حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمائيںبلكہ انہيں مدينہ ٹھہرانے كى آپ(ص) كو اجازت ہى نہيں ملتي_

۵_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۹۰_

۶_ايضا ص ۱۰۰۲_

۷_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۱۰_

۸_سورہ توبہ كى ۴۲ سے ۱۱۰ تك كى آيات اسى سلسلے ميں نازل ہوئي ہيں_

۹_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيت ۹۲_

۱۰_ ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت ۸۱_

۱۱_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت ۷۹_

۱۲_ملاحظہ ہو : تفسير برہان ج ۲ ص ۱۴۸_

۱۳_سورہ توبہ آيت ۴۹و ۹۰_

۲۸۲

۱۴_ايضا آيت ۱۱۸_

۱۵_الارشاد ، مفيد ص ۸۲_

۱۶_ايضا ص ۸۳_

۱۷_التنبيہ والاشراف ص ۲۳۵_

۱۸_المغازى ج ۳ ص ۱۰۱۵_

۱۹_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۱۰۳۱ وسيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۹_

۲۰_يہ قلعہ شام كے نواح ميں تھا جس كا فاصلہ دمشق سے پانچ رات (تقريبا ۱۹۰ كلوميٹر) اور مدينہ تك اس كا سفر تقريباً پندرہ يا سولہ رات (تقريباً ۵۷۰ كلوميٹر) كا تھا_ الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۶۲ و وفاء الوفاء ج ۲ ص ۱۲۱۳_

۲۱_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۱۰۲۵ والسيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۹

۲۲_محمد بن سعد نے''الطبقات الكبري''كى جلد اول كے صفحات ۳۵ _۲۹۱ميں لكھا ہے كہ تہتر(۷۳) وفد رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے چنانچہ ہر وفد كى اس نے عليحدہ خصوصيات بھى بيان كى ہيں_

۲۳_ملاحظہ ہو: الكامل فى التاريخ ج ۳ ص ۲۸۶_

۲۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۲۰۵_

۲۵_ملاحظ ہو : الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۶۷ والمغازى ج ۳ ص ۱۰۵۷_

۲۶_ السيرة النبويہ ابن كثير ج ۴ ص ۴۱_۴۲_

۲۷_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۲۹_

۲۸_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۰_

۲۹_ملاحظہ ہو :المغازى ج ۳ ص ۹۹۵_

۳۰_ ملاحظہ ہو: تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۰۳_ ۱۰۴ و السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۳۲_

۲۱_بعض كتب ميں ان كى تعداد چودہ اور پندرہ بھى بتائي گئي ہے (السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۴۲_

۳۲_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۴۲ والمغازى ج ۳ ص ۱۰۴۲_ ۱۰۴۵_

۲۸۳

۳۳_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيات ۱۰۷ سے ۱۱۰ تك ، خداوند تعالى نے اس مسجد كو مسجد ضرار كے عنوان سے ياد كيا ہے اور اس مركز كے قائم كئے جانے كا سبب مسلمانوں كو زك پہنچانا ' كفر كى بنيادوں كو محكم كرنا اور ' مسلمانوں كى صفوں ميں تفرقہ ڈالنا بيان كيا ہے اور اسے دشمنان رسول خد ا(ص) كے مركز سے تعبير كياہے_

۳۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۷۳ وبحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۵۲ _ ۲۵۵_

۳۵_سورہ توبہ كى آيات ۴۲ سے ۱۱۰ تك ان منافقين كى خيانت كاريوں اور سازشوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہے جو جنگ تبوك كے دوران اپنى سازشوں ميں سرگرم عمل تھے ، مذكورہ آيات ميں خداوند تعالى كى طرف سے ان كى ذہنى كيفيات و خصوصيات بيان كى گئي ہيں_

۳۶_رسول خد ا(ص) ماہ رمضان ميں مدينہ واپس تشريف لائے ، عبداللہ بن ابى ماہ شوال ميں بيمار ہوا اور ماہ ذى القعدہ ميں مرگيا ، ملاحظہ ہو: المغازى ج ۳ ص ۱۰۵۶_ ۱۰۵۷_

۳۷_لَايُؤَديّ عَنكَ الَّا اَنتَ اَو رَجُلٌ منكَ _

۳۸_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج ۴ ص ۱۹۰ _ ۹۱ ۱' بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۶۵ _۲۷۵_

۲۸۴

سبق ۱۶:

حجة الوداع ، جانشين كا تعين اور رحلت پيغمبر(ص) اكرم

۲۸۵

حجة الوداع

اسلام كے ہاتھوں تبوك ميں سلطنت روم كى سياسى شكست، جزيرہ نمائے عرب ميں شرك و بت پرستى كى بيخ كنى(۱) اورمشركين كے نہ صرف مناسك حج ميں شركت كرنے بلكہ مكہ ميں داخل ہونے پر مكمل پابندى كے بعد جب زمانہ حج نزديك آيا تو رسول خد ا(ص) كو مامور كيا گيا كہ آنحضرت (ص) بذات خود ہجرت كے دسويں سال ميں مناسك حج ادا كريں تاكہ اسلام كى طاقت كو اور زيادہ نماياں كرنے كے ساتھ عہد جاہليت كے آداب و رسوم كو ترك كرنے اورسنت ابراہيمى كے اصول كے تحت حج كى بجا آورى بالخصوص مستقبل ميں مسئلہ قيادت اسلام كے بارے ميں براہ راست مسلمانوں كو ہدايت فرمائيں تاكہ سب پر حجت تمام ہوجائے_(۲)

رسول خد ا(ص) كو وحى كے ذريعے اس كام پر مامور كيا گيا كہ آنحضرت(ص) تمام مسلمانوں كو حج بيت اللہ پر چلنے كےلئے آمادہ كريں اور انہيں اس عظیم اسلامى اجتماع ميں شركت كرنے كى دعوت ديں چنانچہ اس بارے ميں خداوند تعالى اپنے نبى (ص) سے خطاب كرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے كہ :

( وَأَذّن فى النَّاس بالحَجّ يَأتُوكَ رجَالًا وَعَلَى كُلّ ضَامر: يَأتينَ من كُلّ فَجّ: عَميق )

''اور لوگوں كو حج كيلئے دعوت عام دو كہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پيدل اور

۲۸۶

سوار ى پر آئيں تاكہ وہ فائدے ديكھيں جو يہاں ان كيلئے ركھے گئے ہيں''(۳) _

جس وقت يہ اعلان كياگيا اگر چہ اس وقت مدينہ اور اس كے اطراف ميں چيچك كى وبا پھيلى ہوئي تھى اور بہت سے مسلمان اس مرض كى وجہ سے اركان حج ادا كرنے كيلئے شركت نہيں كرسكتے تھے(۴) مگر جيسے ہى انہوں نے رسول خد ا(ص) كا يہ پيغام سنا مسلمان دور و نزديك سے كثير تعداد ميں مدينہ كى جانب روانہ ہوگئے تاكہ رسول خدا (ص) كے ساتھ مناسك حج ادا كرنے كا فخر حاصل كرسكيں ، مورخین نے ان كى تعداد چاليس ہزار سے ايك لاكھ چوبيس ہزار تك اور بعض نے اس سے بھى زيادہ لكھى ہے_(۵)

رسول خدا (ص) نے حضرت ابودجانہ كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمايا اور ہفتہ كے دن بتاريخ پچيس ذى القعدہ(۶) مكہ كى جانب روانہ ہوئے اس سفر ميں مسلمانون كا ذوق وشوق اس قدر زيادہ تھا كہ ان ميں سے كثير تعداد نے مدينہ و مكہ كے درميان كا فاصلہ پيدل چل كر طے كيا _(۷)

يہ قافلہ دس روز بعد منگل كے دن(۸) بتاريخ چہارم ذى الحجہ(۹) مكہ ميں داخل ہوا_(۹) جہاں اس نے عمرہ كے اركان ادا كئے _

آٹھ ذى الحجہ تك مسلمانوں كى دوسرى جماعت بھى مكہ پہنچ گئي جس ميں حضرت على (ع) اور آپ (ع) كے وہ ساتھى بھى شامل تھے جو اس وقت آپ (ع) يمن كے دورے پر تشريف لے گئے تھے_(۱۰)

رسول خدا (ص) نے اس عظیم اسلامى اجتماع ميں سنت ابراہيمى كے مطابق مناسك حج ادا كرنے كى تعليم دينے كے ساتھ يہ بھى ہدايت فرمائي كہ كس طرح صحيح طور پر اركان حج پر عمل پيرا ہوں ، آنحضرت (ص) نے ''مكہ''، ''منى '' اور ميدان ''عرفات '' ميں مختلف مواقع پر خطاب

۲۸۷

فرما كر آخرى مرتبہ مسلمانوں كو پند ونصائح اور ارشادات عاليہ سے نوازا(۱۱) ان تقارير ميں آپ(ص) نے انہيں يہ نصيحت فرمائي كہ لوگوں كے جان ومال كى حفاظت كريں ، قتل نفس كى حرمت كا خيال ركھيں ، سود كى رقم كھانے ، دوسروں كا مال غصب كرنے سے بچیں ، دورجاہليت ميں جو خون بہايا گيا تھا اس سے چشم پوشى كو ہى بہتر سمجھيں ، كتاب اللہ پر سختى سے عمل پيرا ہوں ، ايك دوسرے كے ساتھ برادرانہ سلوك كريں، نيز استقامت و پائيدارى كے ساتھ احكام الہى و قوانين دين مقدس اسلام پر كاربند رہيں ، اس ضمن ميں آنحضرت(ص) نے مزيد ارشاد فرمايا كہ : حاضرين ان لوگوں كو جو يہاں موجود نہيں ہيں يہ پيغام ديں كہ ميرے بعد كوئي نبى و پيغمبر نہيں ہوگا اور تمہارے بعد كوئي امت نہ ہوگي(۱۲) آنحضرت(ص) نے يہ بات تاكيدسے كہى كہ : اے لوگو ميرى بات كو اچھى طرح سے سنو اور اس پر خوب غورو فكر كرو كيونكہ يہ ممكن ہے كہ اس كے بعد يہ موقع نہ ملے كہ ميرى تم سے ملاقات ہوسكے(۱۳) چنانچہ ان الفاظ كے ذريعے آنحضرت (ص) لوگوں كو مطلع كر رہے تھے كہ وقت رحلت نزديك آگيا ہے اور شايد اسى وجہ سے اس حج كو ''حجة الوداع'' كے عنوان سے ياد كيا جاتاہے_

جانشين كا تعين

مناسك حج مكمل ہوگئے اور رسول خدا(ص) واپس مدينہ تشريف لے آرہے تھے ليكن جو فرض آنحضرت (ص) پر واجب تھا وہ ابھى پورا نہيں ہوا تھا، مسلمانوں نے يہ سمجھ كر كہ كام انجام پذير ہوچكا ہے اورہر شخص نے اس سفر سے معنوى فيض كسب كرليا ہے اب ان كے دلوں ميں يہى تمنا تھى كہ جس قدر جلد ہوسكے تپتے ہوئے بے آب وگيا صحرا اورويراں ريگزاروں كو پار كركے واپس اپنے وطن پہنچ جائيں ليكن رسول خد ا(ص) نے چونكہ اپنى عمر عزيز كے تئيس سال ،

۲۸۸

اول سے آخر تك رنج وتكاليف ميں گزار كر آسمانى دين يعنى دين اسلام كى اشاعت و ترويج كے ذريعے انسانوں كو پستى و گمراہى اور جہالت و نادانى كى دلدل سے نكالنے ميں صرف كئے تھے اور آپ (ص) اپنے اس مقصد ميں كامياب بھى ہوئے كہ پراكندہ انسانوں كو ايك پرچم كے نيچے جمع كرليں اورانہيں امت واحد كى شكل ميں لے آئيں انہيںاب دوسرا خيال درپيش تھا ،اب آنحضرت (ص) كے سامنے اسلام كے مستقبل اور قيادت كا مسئلہ تھا بالخصوص اس صورت ميں جبكہ آپ (ص) كے روبرو يہ حقيقت بھى تھى كہ اس پر افتخار زندگى كے صرف چند روز ہى باقى رہ گئے ہيں_

رسول خدا (ص) ہر شخص سے زيادہ اپنے معاشرے كى سياسى ، معاشرتي، اجتماعى اور ثقافتى وضع و كيفيت سے واقف تھے ، آنحضرت(ص) كو اس بات كا بخوبى علم تھا كہ آسمانى تعليمات ، آپ (ص) كى دانشورانہ قيادت و رہبرى اور حضرت على (ع) جيسے اصحاب كى قربانى كے باعث قبائل كے سردار و اشراف قريش اسلام كے زير پرچم جمع ہوگئے ہيں ليكن ابھى تك بعض كے دل و دماغ مكمل طور پر تسليم حق نہیں ہوئے اور وہ ہر وقت اس فكر ميں رہتے ہيں كہ كوئي موقع ملے اور وہ اندر سے اس دين پر ايسى كارى ضرب لگائيں كہ بيروى طاقتوں كيلئے اس پر حملہ كرنے كيلئے ميدان ہموار ہوجائے _

( اَلْيَومُ اَكْمَلْتُ لَكُمْ ديْنَكُمْ ) (۱۴) كے مصداق كوئي ايسا ہى لائق اور باصلاحيت شخص جو آنحضرت (ص) كى مقرر كردہ شرائط كو پورا كرسكے ،دين اسلام كو حد كمال تك پہنچا سكتا ہے نيز امت مسلمہ كى كشتى كو اختلافات كى تلاطم خيز لہروں سے نكال كر نجات كے ساحل كى طرف لے جاسكتاہے_

رسول اكرم (ص) اگر چہ جانتے تھے كہ امت مسلمہ ميں وہ كون شخص ہے جو آپ(ص) كى جانشينى اور

۲۸۹

مستقبل ميں اس امت كى رہبرى كيلئے مناسب وموزوں ہے اور خود آنحضرت (ص) نے كتنى ہى مرتبہ مختلف پيرائے ميں يہ بات لوگوں كے گوش گذار بھى كردى تھى ليكن ان حقائق كے باوجود اس وقت كے مختلف حالات اس امر كے متقاضى تھے كہ جانشينى كيلئے خداوند تعالى كى طرف سے واضح وصريح الفاظ ميں جديد حكم نازل ہو، آنحضرت (ص) يہ بات بھى خوب جانتے تھے كہ اس معاملے ميں اللہ تعالى آنحضرت (ص) كى مدد بھى فرمائے گا_كيونكہ رسالت كى طرح مقام خلافت و امامت بھى ايك الہى منصب ہے اور حكمت الہى اس امر كى متقاضى ہے كہ اس منصب كيلئے كسى لائق شخص كوہى منتخب كياجائے ليكن اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص) كو خدشہ بھى لاحق تھا كہ اگر يہ عظيم اجتماع پراكندہ ہوگيا اور ہر مسلمان اپنے اپنے وطن چلاگيا تو پھر كبھى ايسا موقع نہ مل سكے گا كہ كسى جانشين كے مقرر كئے جانے كا اعلان ہوسكے اور آپ (ص) كا پيغام لوگوں تك پہنچ سكے_

قافلہ اپنى منزل كى جانب رواں دواںتھا كہ بتاريخ ۱۸ ذى الحجہ ''جحفہ '' كے نزديك ''غدير خم'' پر پہنچا اور يہ وہ جگہ ہے جہاں سے مدينہ ،مصر اور عراق كى جانب جانے والى راہيں ايك دوسرے سے جدا ہوتى ہيں ، اس وقت فرشتہ وحى نازل ہو ااوررسول خدا (ص) كو جس پيغام كى توقع تھى اسے اس نے ان الفاظ ميں پہنچاديا :

( يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَهُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس إنَّ الله َ لاَيَهدى القَومَ الكَافرينَ ) (۱۵) _

''اے پيغمبر (ص) جو كچھ تمہارے رب كى طرف سے تم پر نازل كيا گيا ہے اسے لوگوں تك پہنچا

۲۹۰

دو ، اگر تم نے ايسا نہ كيا تو تم نے اس كى پيغمبرى كا حق ادا نہيں كيا اللہ تم كو لوگوں كے شر سے بچائے گااور خدا كافروں كو ہدايت نہيں كرتا'' _

گرمى سخت تھى اور كافى طويل قافلہ زنجير كے حلقوں كى مانند پيوستہ اپنى منزل كى جانب گامزن تھا ، رسول خد ا(ص) كے حكم سے يہ قافلہ رك گيا اور سب لوگ ايك جگہ جمع ہوگئے اور يہ جاننے كے متمنى تھے كہ كون سا اہم واقعہ رونما ہونے والا ہے_

رسو-ل خد ا(ص) نے پہلے تو نماز ظہر كى امامت فرمائي اور اس كے بعد ايك (منبر نما) اونچى جگہ پر جو اونٹ كے كجاوئوں سے بنائي گئي تھى تشريف فرما ہوئے اس موقع پر آپ (ص) نے مختلف مسائل كے بارے ميں تفصيلى خطبہ ديا اور ايك بار پھر لوگوں كو يہ نصيحت فرمائي كہ كتاب اللہ اور اہلبيت رسول (ص) كى پورى ديانتدارى كے ساتھ پيروى كريں كيونكہ يہى دونوں ''متاع گرانمايہ'' يعنى بيش قيمت اثاثے ہيں ، اس كے بعد آنحضرت(ص) نے اصل مقصد كى جانب توجہ فرمائي_

آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) كا دست مبارك اپنے دست مبارك ميں لے كر اس طرح بلند كيا كہ سب لوگوں نے رسول خد ا(ص) نيز حضرت على (ع) كو ايك دوسرے كے دوش بدوش ديكھا چنانچہ انہوں نے سمجھ ليا كہ اس اجتماع ميں كسى ايسى بات كا اعلان كياجائے گا جو حضرت على (ع) كے متعلق ہے_

رسول خد ا(ص) نے مجمع سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا :

''اے مومنو تم لوگوں ميں سے كونسا شخص خود ان سے زيادہ اَولى اور ان كى جانوں كا زيادہ حق دار ہے ؟'' مجمع نے جواب ديا كہ خدا ا ور رسول خدا(ص) ہى بہتر جانتے ہيں _

اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا :'' ميرا مولا خدا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں ميں خود ان

۲۹۱

سے زيادہ اَولى اور ان كى جانوں پر تصرف كا زيادہ حق ركھتا ہوں اور سب پر مجھے فضےلت حاصل ہے اور جس كا مولا ميں ہوںيہ على (ع) بھى اس كے سردار اورمولا ہيں ، اے خدا وندا جو على (ع) كے دوست ہوں انہيں تو عزيز ركھ اور جو على (ع) كے دشمن ہوں تو ان كے ساتھ دشمنى كر ، على (ع) كے دوستوں كو فتح ونصرت عطا فرما اور دشمنان على (ع) كو ذليل وخوار كر''_(۱۶)

رسول خدا (ص) كا خطبہ ختم ہوجانے كے بعد مسلمان حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور رسول خدا (ص) كى طرف سے مقام خلافت و قيادت تفويض كئے جانے پر انہوں نے آپ(ع) كو مبارك باد پيش كى اور آپ (ع) سے امير المؤمنين اور مولائے مسلمين كہہ كر ہمكلام ہوئے ، خداوند تعالى نے بھى حضرت جبرئيل (ع) كو بھيج كر اور مندرجہ ذيل آيت نازل فرما كر لوگوں كو اس نعمت عظمى كى بشارت اور مبارك باد دي_

( اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نعمَتى وَرَضيتُ لَكُم الإسلاَمَ دينًا ) _(۱۷)

''آج ميں نے تمہارے دين كو تمہارے لئے مكمل كرديا ہے اور اپنى نعمت تم پر تمام كردى ہے اور تمہارے لئے اسلام كو دين كى حيثيت سے پسند فرمايا ہے''(۱۸) _

اس روز (۱۸ ذى الحجہ )سے مسلمان اور حضرت على (ع) كے پيروكار ''عيد غدير'' كے نام سے ہر سال جشن مناتے ہيں اور اس عيد كا شمار اسلام كى عظیم عيدوں ميں ہوتا ہے_

رسول خدا(ص) كى آخرى عسكرى كوشش

رسول اكرم (ص) ''حجة الوداع'' سے واپس آنے كے بعد خداوند تعالى كى طرف سے عائد كردہ دو اہم فرائض (فريضہ حج اور حضرت على (ع) كى جانشينى كے اعلان) كو انجام دينے كے

۲۹۲

بعد اگر چہ بہت زيادہ اطمينان محسوس كر رہے تھے ليكن اس كے باوجود آپ (ص) كى دور رس نگاہيں ديكھ رہى تھيں كہ ابھى امت مسلمہ كے سامنے ايسے مسائل ہيں جن كى وجہ سے وہ فتنہ وفساد سے دوچار رہے گى چنانچہ يہى فكر آنحضرت (ص) كيلئے تشويش خاطر كا باعث تھي_

سنہ ۱۱ ہجرى كے اوائل ميں جب كچھ لوگوں نے يہ خبر سنى كہ سفر كى وجہ سے رسول خد ا(ص) كى طبيعت ناساز ہے تو انہوں نے نبوت كا دعوى كركے فتنہ و غوغا برپا كرديا ، چنانچہ ''مُسيلمہ'' نے ''يمامہ'' ميں ''اسود عنسي'' نے ''يمن ''ميں اور ''طليحہ'' نے ''بنى اسد '' كے علاقوںميں لوگوں كو فريب دے كر گمراہ كرنا شروع كرديا _(۱۹)

مسيلمہ نے تو رسول خد ا(ص) كو خط بھى لكھا اور آنحضرت (ص) سے كہا كہ اسے بھى امر نبوت ميں شريك كرلياجائے_(۲۰)

دوسرى طرف ان لوگوں كو ، جو كل تك كافر اور آج منافق تھے اور جن كے دلوں ميں پہلے سے ہى اسلام كے خلاف بغض و كينہ بھرا ہوا تھا ، جب يہ معلوم ہوا كہ رسول خد ا(ص) نے حضرت على (ع) كے پيشوائے اسلام اور جانشين پيغمبر (ص) ہونے كا اعلان كرديا ہے تو ان كا غصہ پہلے سے كہيں زيادہ ہوگا چنانچہ جب انہيں يہ علم ہوا كہ رسول خدا(ص) كى طبيعت ناساز ہے اور آنحضرت (ص) كى رحلت عنقريب ہى واقع ہونے والى ہے تو ان كا جوش و خروش كئي گنا زيادہ ہوگيا_

ان واقعات كے علاوہ مشرقى روم كى مغرور و خود سر حكومت اور اس كى نو آباديات كو مسلمانوں كے ساتھ چند مرتبہ نبرد آزمائي كرنے كے بعد ان كى طاقت كا اندازہ ہوگيا تھا اور ان سے كارى ضربيں كھاچكے تھے اسى لئے ان كا وجود مدينہ كى حكومت كے لئے خطرہ بنا ہوا تھا كيونكہ سياسى عوامل سے قطع نظر اس خاص مذہبى حساسيت كے باعث بھى جو عيسائي

۲۹۳

سربراہوں كے دلوں ميں اسلام كے خلاف تھى شمالى سرحدوں پر ہميشہ ناامنى سايہ فگن تھي_

ان حالات ميں بقول پيغمبر اكرم (ص) ''فتنے وفسادات سياہ رات كى طرح يكے بعد ديگرے اسلامى معاشرے پر چھانے شروع ہوگئے ہيں''_(۲۱)

چنانچہ آنحضرت (ص) نے ان كے خاتمہ كيلئے بعض آخرى اور انتہائي اقداما ت بھى كئے _

رسول خدا (ص) نے ''يمن''اور'' يمامہ'' ميں اپنے گورنروں اور قبيلہ بنى اسد كے درميان موجود اپنے نمائندے كو حكم ديا كہ نبوت كے دعويداروں كى شورش كو دبا دیں، اس كے علاوہ يہ حكم بھى صادر فرمايا كہ''اسامہ بن زيد'' نامى اٹھارہ يا انيس(۲۲) سالہ سپہ سالار كى زير قيادت طاقتور سپاہ تيار كى جائے چنانچہ آنحضرت (ص) نے حضرت اسامہ كى تحويل ميں پرچم دينے كے بعد فرمايا كہ پورى امت مسلمہ كے ساتھ جس ميں مہاجر و انصار شامل ہوں بلاد روم ميں اپنے والد ''زيد بن حارثہ'' كى شہادت گاہ كى جانب روانہ ہوں(۲۳) _

حصرت اسامہ كے سپہ سالار مقرر كرنے كى وجہ ان كى مہارت ولياقت كے علاوہ يہ بھى ہوسكتى تھى كہ :

۱_يہ عمل آنحضرت (ص) كى جانب سے ان خرافات كے خلاف عملى جدو جہد تھى جو دور جاہليت سے بعض صحابہ كے ذہنوں ميں سمائي ہوئي تھيں كيونكہ ان كى نظر ميں كسى مقام ومرتبہ كے حصول كا معيار يہى تھا كہ صاحب جاہ ومرتبہ معمر شخص ہو اور كسى قبيلے كے سردار سے وابستہ شخص ہى اس كا حقدار ہوسكتا ہے_

۲_حضرت زيد ابن حارثہ كى شہادت چونكہ روميوں كے ہاتھوں ہوئي تھى اسى لئے ان كے دل ميں روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كا جوش وولولہ بہت زيادہ تھا، رسول خدا (ص) كى يہ كوشش تھى كہ ان كے اس جوش وولولے ميں مزيد شدت اورحدت پيدا ہو چنانچہ

۲۹۴

اسى وجہ سے جب آنحضرت (ص) نے سپہ سالار ى كى ذمہ دارى ان كو دى تو اس كے ساتھ يہ بھى ارشاد فرمايا كہ ''اپنے باپ كى شہادت گاہ كى جانب روانہ ہو ''_(۲۴)

۳_اگر اس وقت كے حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے سپاہ كى قيادت مہاجر و انصار ميں سے كسى معمر شخص كى تحويل ميں دے دى جاتى تو اس بات كا امكان تھا كہ وہ شخص اس عہدے سے سوء استفادہ كرتا اوراسى وجہ سے خود كو پيغمبر اكرم (ص) كا خليفہ و جانشين سمجھنے لگتا ليكن حضرت اسامہ كى يہ حيثيت نہيں تھى اور ان كے خليفہ بننے كا كوئي امكان بھى نہيں تھا_

حضرت اسامہ نے رسول خد ا(ص) كے حكم كے مطابق ''جُرْف''(۲۴) نامى مقام پر خيمے نصب كئے اور ديگر مسلمانوں كى آمد كا انتظار كرنے لگے_

رسول خد ا(ص) نے مسلمانوں بالخصوص مہاجر و انصار كے سرداروں كو حضرت اسامہ كے لشكر ميں شامل كرنے كيلئے بہت زيادہ تاكيد اور اہتمام سے كام ليا اور جو لوگ اس اقدام كے مخالف تھے ان پر آنحضرت (ص) نے لعنت بھى بھيجي_(۲۶)

حضرت اسامہ كى عسكرى طاقت كو تقويت دينے كے علاوہ اس اہتمام كى ايك وجہ يہ بھى تھى كہ آنحضرت(ص) چاہتے تھے كہ وقت رحلت وہ لوگ مدينہ ميں موجود نہ رہيں جو امت ميں اختلاف پيدا كرنے اور منصب خلافت كے حصول كى فكر ميں ہيں تاكہ حضرت على (ع) كى قيادت و پيشوائي كے بارے ميں فرمان خدا و رسول (ص) جارى كئے جانے كيلئے راستہ ہموار رہے_(۲۷)

ليكن افسوس بعض مسلمانوں نے جنہيں رسول خدا(ص) مدينہ سے باہر بھيجنے كيلئے كوشاں تھے يہ بہانہ بناكر كہ حضرت اسامہ بہت كم عمر ہيں مخالفت شروع كردى اور ان كى خميہ گاہ كى

۲۹۵

جانب جانے سے انكار كرديا _(۲۸) نيز يہ ديكھ كر كہ رسول خدا (ص) كى طبيعت ناساز ہے تو انہوں نے حضرت اسامہ كے لشكر كو روم كى طرف جانے سے يہ كہہ كر روكنا چاہا(۲۹) كہ چونكہ اس وقت رسول خدا (ص) بہت عليل ہيں اسى لئے ان حالات كے تحت ہمارے دلوں ميں آپ (ص) سے جدائي كى تاب و طاقت نہيں_(۳۰)

رسول خدا (ص) كو منافقين كے اس رويے سے سخت تكليف پہنچى آپ (ص) طبيعت كى ناسازى كے باوجود مسجد ميں تشريف لے گئے اور مخالفت كرنے والوں سے فرمايا كہ : ''اسامہ كو سپہ سالار مقرر كئے جانے كے بارے ميں ميں يہ كيا سن رہاہوں ، اس سے پہلے جب ان كے باپ كو سپہ سالار مقرر كيا تھا تو اس وقت بھى تم طعن و تشنيع كر رہے تھے خدا گواہ ہے كہ وہ بھى لشكر كى سپہ سالارى كے لئے مناسب تھے اور اسامہ بھى اس قيادت كے اہل اور لائق ہيں''_(۳۱)

رسول خدا(ص) اس وقت بھى جب كہ صاحب فراش تھے تو ان لوگوں سے جو عيادت كيلئے آئے تھے مسلسل يہى فرماتے كہ ''انْفُذوْابَعْثَ اُسَامَةَ ''(۳۲) اسامہ كے لشكر كو تو روانہ كروليكن آنحضرت(ص) كى يہ سعى وكوشش بھى بے سود ثابت ہوئي كيونكہ صحابہ ميں جو سردار تھے انہوں نے اس قدر سستى اورسہل انگارى سے كام ليا كہ آنحضرت(ص) كى رحلت واقع ہوگئي اور سپاہ واپس مدينہ آگئي _

رسول خدا(ص) كى رحلت

رسول خدا(ص) كے مزاج كى ناسازى ميں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا علالت كے دوران آنحضرت (ص) بقيع كى جانب تشريف لے گئے اور جو لوگ وہاں ابدى نيند سو رہے تھے

۲۹۶