فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ26%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130293 / ڈاؤنلوڈ: 6754
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بسم الله الرحمن الرحیم

۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

(ترجمہ فی رحاب العقیدۃ)

مولف

آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی حکیم (مد ظلہ العالی)

ترجمہ: مولانا شاہ مظاہر حسین

پہلی جلد

۲

نام کتاب: فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

مولف : آیت اللہ سید محمد سعید الحکیم طباطبائی( مد ظلہ العالی)

مترجم: مولانا شاہ مظاہر حسین

ناشر: انتشارات مرکزجہانی علوم اسلامی (قم ایران)

پہلا ایڈیشن :سنہ ۱۴۲۸ ھ مطابق سنہ ۲۰۰۷ ئ سنہ ۱۳۸۶ ھ شمسی

۳

عرض ناشر

خدا وند متعال کی لامتناہی عنایتوں اور ائمہ معصومین کی لاتعداد توجہات کے سہارے آج ہم دنیا میں انقلاب تغیر مشاہدہ کررہے ہین وہ بھی ایسا بے نظیر انقلاب اور تغیر جو تمام آسمانی ادیان میں صرف دین " اسلام" میں پایا جاتا ہے

گویا عصر حاضر میں اسلام نے اپنا ایک نیا رخ پیش کیا ہے یعنی دنیا کے تمام مسلمان بیدار ہوکر اپنی اصل ،(اسلام)کی طرف واپس ہورہے ہیں اور اپنے اصول وفروع ی تلاش کررہے ہیں-

آخر ایسے انقلاب وتغیر کی وجہ کیا ہوسکتی ہے ؟ سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اس بات پرغور کریں کہ اس وقت اس کے آثار تمام اسلامی ممالک حتی مغربی دنیا میں بھی رونما ہوچکی ہے ۔اور دنیا کے آزاد فکر انسان تیزی کے ساتھ اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیناور اسلامی معارف اور اصول سے واقف اور آگاہ ہونے کے طالب ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اسلام دنیا والوں کو ہرروز کونسا جدید پیغام دے رہا ہے ؟

ایسے حساس اور نازک موقعوں پر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کوکسی قسم کی کمی اور زیادتی کے بغیر واضح الفاظ، قابل درک ، سادہ عبارتوں اورآسان انداز مین عوام بلکہ دنیا والوں کے سامنے پیش کریں اور جو حضرات اسلام اور دیگر مذاہب سے آشنا ہونا چاہتے ہیں ہم اسلام کی حقیقت بیانی سے ان کی صدیوں ی پیاس بجھادیں اور کسی کو اپنی جگہ کوئی بات کہنے یا فیصلہ لینے کا موقع نہ دیں۔

۴

لیکن اس فرق کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ان سے تال میل نہ رکھا جائے یا ان کا نزدیک سے تعاون نہ کیا جائے ہونا تو یہ چایئے کہ تمام مسلمان ایک ہوکر ایک دوسرے کی مدد کریں اور اپنے اس آپسی تعاون اور تال میل کے سہارے مغرب کی ثقافتی حملوں کا جواب دیں اور اپنی حیثیت اور وجود کا اظہار کریں نیز اپنے مخالفین کو ان کے منصوبوں مین بھی کامیاب ہونے نہ دیں

سچ تو یہ ہے کہ ایسی مفاہمت ، تال میل ،مضبوطی اور گہرائی اسی وقت آسکتی ہے جب ہم اصول وضوابط کی رعایت کریں اس سے بھی اہم یہ ہے کہ تمام اسلامی فرقے ایک دوسرے ک معرفت اور شناخت حاصل کریں تاکہ ہر ایک کی خصوصیت دوسرے پر واضح ہو ، کیونکہ صرف معرفت سے ہی سوئے تفاہم ،غلط فہمی اور بدگمانی دورہوجائے گی اور امداد ،تعاون کا راستہ بھی خودبخود کھل جائے گا۔

آپ کے سامنے موجودہ " فی رحاب العقیدہ: نامی کتاب حضرت آیت اللہ العظمی سید محمدسعید حکیم دام ظلہ کی انتھک اور بے لوثکوششوں کا نتیجہ ہے جیسے اپنی مصروفیتوں کے باوجود کافی عرق ریزی کے ساتھ ، حوزہ علمیہ کھجوا بہار کے افاضل جناب مولانا مظاہر حسین صاحب نے ترجمہ سے آراستہ کیا اور حوزہ علمیہ کے ہونہار طالب افاضل نے اپنی بے مثال کوششوں سے نوکپلک سنوارتے ہوئے اس کتاب کی نشر واشاعت میں تعاول کیا ہے لہذا ہم اپنے تمام معاونین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے خداوند منان سے دعا گو ہیں کہ ہو ان تمام حضرات کو اپنے سایہ لطف وکرم میں رکھتے ہوئے روز افزوں ان کی توفیقات میں اضافہ کرے اور لغزشوں کو اپنی عفو وبخشش سے درگزر فرمائے ۔ آمین

مرکز جہانی علوم اسلامی

معاونت تحقیق

۵

فہرست

عرض ناشر۵

پیش لفظ۱۳

سوال نمبر۔۱۱۵

سوال نمبر۔۲۱۶

سوال نمبر۔۳ ۱۶

سوال نمبر۔۴۱۶

سوال نمبر۔۵۱۶

سوال نمبر۔۶۱۷

سوال نمبر۔۷ ۱۷

سوال نمبر۔۸۱۷

سوال نمبر۔۹۱۸

سوال نمبر۔۱۰۱۸

شریعت لڑنے جھگڑنےسے روکتی ہے ۲۰

۶

نتیجہ خیز گفتگو کے لئے مناسب ماحول کا ہونا ضروری ہے ۲۲

سوال نمبر۔۱۲۵

جواب:۲۵

علم حدیث میں شیعوں کی کتابیں ۲۶

شیعوں کی فقہ کی کتابیں ۳۰

فقہ کی استدلالی کتابیں:۳۱

سیرت کے موضوع پر شیعہ تالیفات ۳۳

عقائد شیعوں کی کتابیں ۳۵

فرقہ شیعہ کی طرف سے لکھی ہوئی ہر کتاب متفق علیہ نہیں ہے ۳۸

سوال نمبر۔۲۴۱

شیعوں کے نزدیک کفر و اسلام کا معیار۴۱

مسئلہ نمبر۱:۴۴

کتاب و سنت اور مسلمانوں کی بول چال میں کفر کا اطلاق مزید کچھ افراد پر ہوتا ہے ۴۶

صحابہ خود اپنی نظر میں قابل احترام نہیں تھے۴۹

۷

عثمان کے معاملے میں صحابہ کے کارنامے۵۰

قتل عثمان کے بعد صحابہ کے درمیان کیا ہوا؟۵۸

نبیﷺکے بعد صحابہ کے درمیان کیا ہوا؟۶۱

صحابہ کی سیرت میں وہ انسانی خامیاں جو عام طور سے سب میں پائی جاتی ہیں ۶۴

صحابہ کا انفرادی اور غیرمناسب کردار بھی ان کی تقدیس کی نفی کرتا ہے ۸۲

صحابہ کے بارے میں تابعین اور تبع تابعین کے خیالات اور نظریئے۱۲۲

صحابہ کرام کے بارے میں قرآن مجید کا نظریہ۱۲۹

عام اصحاب کے بارے میں نبی کریمؐ کا نظریہ۱۴۸

ایک تنبیہ اس بات کے لئے کہ صحابہ طبیعت بشری پر تھے اور اس کے تقاضون کو پورا کرنے پر مجبور تھے۱۵۹

گذشتہ بیانات کی روشنی میں شیعوں کا صحابہ کے بارے میں نظریہ۱۶۱

خدا کی راہ میں محبت خدا کی راہ میں روشنی۱۶۳

صحبت کا اثر اور اس کی اہمیت ۱۶۶

غیر شیعہ افراد کا شیعوں کے بارے میں مناسب نظریہ۱۶۹

دوسرے فرقوں سے شیعوں کا حسن معاشرت ۱۷۰

۸

سوال نمبر۔۳ ۱۷۳

اہل سنت اور شیعوں کا عدم تحریف قرآن پر عملی اجماع ۱۷۴

شیعہ علما عدم تحریف کے قائل ہیں ۱۷۵

ہم نے اس گفتگو کو طویل دیا اس لئے کہ اس میں دو خاص باتیں ہیں ۱۷۸

قائلین تحریف کے ساتھ کیا کیا جائے؟۱۸۵

عدم تحریف کی تاکید۱۸۶

تحریف قرآن کا موضوع ایک خطرناک موضوع ۱۸۹

سوال نمبر۔۴۱۹۳

دونوں فرقوں(شیعہ اور سنی)کے علاوہ درمیان نظام حکومت کی تعریف ۱۹۵

سرکار حجۃ بن الحسن العسکری المہدیؑ کے سلسلے میں مذہب شیعہ کی حقانیت پر چند دلیلیں ۲۰۳

امام کی معرفت واجب ہے اور اس کے حکم کو بھی ماننا واجب ہے ۲۰۴

بارہ امام قریش سے ہیں ۲۰۶

سوال نمبر۔۵۲۰۹

لطف الہی کے قائد کی شرح اور اس کی تعریف ۲۰۹

۹

لطف الہی کا اصول صرف مذہب امامیہ کا نظریہ ماننے پر ہی ٹوٹےگا۲۱۳

سوال نمبر۔۶۲۱۷

حدیث ثقلین کے کچھ متن حاضر ہیں ۲۱۷

حدیث ثقلین دلالت کرتی ہے کہ عترتؑ کی اطاعت واجب ہے ۲۱۹

عترتؑ کی اطاعت واجب ہونے کا مطلب ان کی امامت ہے ۲۲۲

سوال نمبر۔۷ ۲۲۵

واقعہ غدیر کے موقع پر آیت کا نازل ہونا۲۲۶

آیہ بلغ کا نزول غدیرخم میں ۲۲۸

غدیر میں نبیؐ کا نماز جماعت کے لئے پکارنا۲۳۰

غدیر کے دن حضور اکرمﷺکا خطبہ۲۳۱

واقعہ غدیر میں اکمال کا نزول ۲۴۳

ہادی اعظم نے علیؑ کے سر پر عمامہ باندھا۲۴۶

حاضرین نے غدیرخم میں علیؑ کو مبارک باد دی ۲۴۶

واقعہ غدیر کے دن حسان بن ثابت کا معرکۃ الآراء قصیدہ۲۴۸

۱۰

غدیر کا روزہ۲۴۹

حارث بن نعمان فہری کا واقعہ((سئل سائل بعذاب واقع))۲۵۱

حدیث غدیر مقام احتجاج میں ۲۵۲

رحبہ(کوفہ)میں امیرالمومنینؑ کا حدیث غدیر کےحوالہ سے مناظرہ اور مناشدہ۲۵۴

جس نے غدیر کی گواہی دینے سے منع کیا اس لئے امیرالمومنین حضرت علیؑ کی بددعا۲۵۷

حدیث غدیر کی شہرت اور اشاعت پر اس مناشدہ کا اثر۲۵۸

سنت نبوی کو جامد کرنے اور اس کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کے شواہد۲۵۹

سوال نمبر۔۸۲۶۶

سوال نمبر۔۹۲۷۲

اسلام کی خدمت کے لئے مشترکہ کوشش کرنا ائمہ اہل بیتؑ کی تعلیم ہے ۲۷۴

خدمت اسلام کے لئے متحدہ جد و جہد کے بارے میں شیعہ اور ان کے علما کا نظریہ۲۷۶

حقیقت تک پہونچنے کے لئے میں عملی گفتگو کو خوش آمدید کہتا ہوں ۲۷۸

شیعہ اور اہل سنت کے درمیان عقیدے کے اعتبار سے اتحاد نہیں پیدا ہوسکتا۲۷۹

غالیوں کے بارے میں شیعوں کا نظریہ۲۸۲

۱۱

سوال نمبر۔۱۰۲۸۴

حتی لانںخدع جیسی کتابوں کے بارے میں ہمارا نظریہ۲۸۵

آج کے دور میں شیعوں پر حملے۲۸۷

شیعوں کو اپنے خلاف حملہ کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟۲۸۸

سلفیوں کے واقعات اور ان کے مقاصد۲۹۰

جو آدمی حقیقت پر بحث کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ایک اہم نصیحت ۲۹۳

۱۲

پیش لفظ

الحمد لله علی رب العالمین و الصلاة و السلام علی اشرف الانبیاء و المرسلین وخاتم النبیین و علی آله المعصومین

بے شک خالق کائنات کی معرفت اور دین کی تبلیغ و ترویج انسان کا پہلا فریضہ ہے اور دین اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت عقیدہ کی ہے جس پر انسان کی سعادت و کامیابی اور نجات کا انحصار ہے جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث پیغمبر اعظمؐ سے صاف واضح ہے کہ جنت عقیدہ ہی کی بنیاد پر ملے گی عمل کے ذریعہ نہیں اور ویسے بھی خود عمل کا دار و مدار عقیدہ ہی پر ہے، اسی وجہ سے دین میں عقیدہ اور عمل کی مثال درخت کی جڑ اور شاخوں سے دی جاتی ہے اور یہ بات ہر ذی عقل و شعور پر واضح ہے کہ اگر جڑ میں خرابی آجائے تو شاخیں خودبخود خشک ہوجاتی ہیں اسی بنا پر جڑ کی اہمیت زیادہ ہے اور اس کا تحفظ اور خیال زیادہ رکھا جاتا ہے اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرکز تحقیقات نشر علوم اسلامی امام حسن عسگری علیہ السلام نے جس کی بنیاد ۱۶ جمادی الثانی ۱۴۲۵ ؁ بمطابق ۲۰۰۳ ؁کو رکھی گئی، خدمت دین اور انسانی عقیدہ کی صحت اور پختگی کے لئے عالم جلیل و فاضل و کامل بحرالشریعہ آیۃ اللہ فی العالمین عالم تشیع کے عظیم الشان مرجع حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید

۱۳

محمد سعید حکیم طباطبائی گراں بہا تالیف کا اردو ترجمہ کرایا جسے مرکز جہانی علوم اسلامی نے زیور طبع سے آراستہ کیا تا کہ ہر ایک کے لئے عقیدہ کی اصلاح و پختگی و تکمیل آسان ہوجائے،آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد سعید حکیم طباطبائی دنیائے عالم کے عظیم المرتبت مرجع تشیع سید محسن حکیم طاب ثراہ کے نواسے ہیں جن کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے موصوف کی اس کے علاوہ بھی دیگر کتابیں زیر طبع ہیں جو انشااللہ عنقریب خدا کی توفیق و مدد اور آپ حضرات کی دعا سے منظر عام پر آجائیں گی،ادارہ بصد خلوص شکر گزار ہے آیۃ اللہ کا جنہوں نے اس گراں بہا تالیف کے ذریعہ سے قوم کی بے لوث خدمت کی اور ان محترم و مکرم علمائ و فضلائ مولانا مظاہر شاہ صاحب و مولانا کوثر مظہری صاحب مولانا سید نسیم رضا صاحب کا جنہوں نے اس کتاب کے ترجمہ و تصحیح کے ذریعہ ادارہ کا تعاون فرمایا ہم اس خدمت دین میں آپ حضرات کے نیک مشوروں کے خواہاں ہیں۔

آخر کلام میں خدائے مہربان سے دعاگو ہیں کہ ہمیں خلوص اور صدق نیت کے ساتھ خدمت دین کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔

سید نسیم رضا زیدی

۱۹۔۹۔۸۵ھ ش،۱۷۔ذیقعدہ۱۴۲۷؁

مرکز تحقیقات نشر علوم اسلامی امام حسن عسکریؑ قم المقدسہ ایران

۱۴

بسم الله الرحمن الرحیم

ساری تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے اور دورود و سلام ہو خدا کی سب سے بلند مخلوق سیدالانبیاء اور ان کی پاک آل پر اور سلام کا سلسلہ تا قیامت معزز اصحاب پر جاری رہے۔

اما بعد: مرجع دینی عظیم اور بزرگ علامہ سید محمد سعید الحکیم محترم کی خدمت میں سلام عرض ہو پاک و پاکیزہ اور صاحب کرم آپ پر سلام ہو اللہ کا اور اس کی رحمت و برکت ہو۔

جناب عالی سے امید ہے کہ اس خط میں میں نے جو سوالات کئے ہیں اور جو وضاحتیں مانگی ہیں ان کے جوابات عنایت فرمائیں گے۔انشاءاللہ

سوال نمبر۔۱

میرا خیال ہے کہ تمام عالم اسلام کو(اس میں شیعہ اور سنی کی قید نہیں ہے)ان باتوں سے واقف ہونا بہت ضروری ہے جو ہماری اسلامی میراث ہیں۔

خصوصاً ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اہل سنت پہلے تو خود اپنی علمی میراث سے ناواقف ہیں پھر شیعوں

۱۵

کی علمی میراث سے بھی انہیں کوئی واقفیت نہیں ہے۔

گذارش ہے کہ ان کتابوں کا ایک تعارف پیش کریں جو آپ کی نظر میں عقائد، فقہ، حدیث اور سیرت کے سلسلے میں قابل اعتماد ہوں، خداوند عالم آپ کے فضل و کرم کو ہمیشہ باقی رکھے۔

سوال نمبر۔۲

صحابہ کو گالیاں دینے اور نہیں کافر قرار دینے کے فعل کو شیوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے، خاص طور سے شیعہ ابوبکر،عمر عثمان کو کافر قرار دیتے ہیں،کیا واقعی شیعہ اس بات کے قائل ہیں؟اس طرح عائشہ کو بھی شیعہ کافر قرار دیتے ہیں،کیا یہ بات صحیح ہے؟

سوال نمبر۔۳

کچھ اہل سنت حضرات یہ الزام لگاتے ہیں کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں کیا شیعوں پر یہ الزام صحیح ہے؟حالانکہ میں نے شیخ محمد ابوزہرہ کی کتاب(الامام جعفر الصادقؑ)میں پڑھا ہے کہ محقق طوسی علیہ الرحمہ سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے، آپ کی اس سلسلہ میں کیا رائے ہے؟خداوند عالم آپ کی عمر میں اضافہ کرے.

سوال نمبر۔۴

اہل سنت کے امام مہدیؑ کوئی دوسرے ہیں اور شیعوں کے امام مہدیؑ دوسرے، کیا دونوں باتیں ایک ساتھ صحیح ہونا ممکن ہیں یا نہیں؟اور صحیح نظریہ کس کا ہے سنی یا شیعہ کا۔

سوال نمبر۔۵

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم نے بندوں پر لطف و کرم کرنے کو اپنے اوپر واجب قرار دیا ہے، اس

۱۶

لئے واجب ہے کہ وہی امام کو منصوب و معین کرے، اس نظریہ کے تحت امام عادل کا لوگوں کے درمیان ہمیشہ رہنا واجب ہے، کیا یہ نظریہ آج کے دور میں غلط دکھائی نہین دیتا کیونکہ آج لوگوں کے درمیان امام عادل نہیں ہے جو لوگوں کی نظارت کرسکے،پھر لطف الہی کے ذریعہ نصب امام پر استدلال خودبخود ساقط ہوجاتا ہے۔

سوال نمبر۔۶

ہمارے آقا و مولا و سردار حضرت علی علیہ الاسلام کی امامت پر حدیث عترت سے کیسے استدلال کیا جاسکتا ہے؟کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ حدیث عترت کے ذریعہ سرکار دو عالم اپنے صحابہ کو اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت کررہے ہوں اور انھیں اہل بیت علیہم السلام کی طرف متوجہ کررہے ہوں۔

سوال نمبر۔۷

واقعہ غدیر کے سلسلے میں شیعوں کا خیال ہے کہ اس حدیث کو تواتر حاصل ہے لیکن اہل سنت نے اپنی کتابوں میں نہیں لکھا ہے پھر یہ حدیث متواتر کیسے ہوسکتی ہے جبکہ اہل سنت نے تو اس کا شمار خبر احاد اور ضعیف میں بھی نہیں کیا ہے۔

سوال نمبر۔۸

کیا آپ کے علم میں علامہ ابن تیمیہ کی کتاب((منهاج السنة)) کا جواب کسی شیعہ نے لکھا ہے، یہ کتاب ابن تیمیہ نے علامہ حلی کی کتاب کے جواب میں لکھی تھی، علماء اہل سنت نے بھی اس کتاب کا جواب دیا ہے جن میں ایک شیخ ابوحامد بن مرزوق ہیں پس انھوں نے اپنی کتاب ((براءۃ الاشریں اس کے جواب میں لکھی ہے۔

۱۷

سوال نمبر۔۹

کیا آپ کی رائے میں شیعہ سنی اتحاد کی کوئی گنجائش ہے؟میرا خیال ہے کہ اہل سنت میں خصوصاً اشعری اور ماتریدی فرقے شیعوں کی تفکیر کے قائل نہیں ہیں بلکہ شیعوں کے عقائد کو اپنی کتابوں میں لکھتے بھی ہیں، ان پر بحث بھی کرتے ہیں اگر چہ یہ حضرات کچھ شیعوں کے غلو کی وجہ سے ان کی گمراہی کے قائل ہیں اور اسی طرح کچھ غالی سنیوں کے بھی گمراہ ہونے کےقائل ہیں۔

سوال نمبر۔۱۰

جناب عالی سے امید کرتا ہوں کہ طلاب علم کو فائدہ پہنچانے کے لئے عبداللہ موصلی کی کتاب((حتی لانخدع))( ہم منزل سے بھٹک نہ جائیں)کا جواب تحریر فرمائیں گے۔

جس میں شیعہ اور ان کے علمائے حضرات اہل سنت کو کافر سمجھتے ہیں اور ان کی جان اور مال کو مباح جانتے ہیں، مجھے معلوم ہے کہ بے حد مصروفیت کی بنا پر آپ کے پاس وقت نہیں ہے، اسی لئے میں نے جناب کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے ورنہ آپ ان معاملات سے زیادہ واقف ہیں۔

مذکورہ کتاب مصر میں چھپی ہے چھاپنے والے ادارہ کا نام((دارالسلام للنشر و التوزیع)) ہے خاص طور سےبعض مبلغین حضرات اس کتاب کے نشر کرنے میں کوشاں رہتے ہیں اور اس پر اعتماد بھی کرتے ہیں۔

آخر کلام میں امید کرتا ہوں کہ طول کلام کو اور اگر کوئی بے ادبی ہو تو در گذر فرمائیں گے،میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ آپ کو مسلمانوں کی خدمت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے جس میں اس کی رضا و خشنودی ہے اور امید ہے کہ آپ میرے لئے دعا فرمائیں گے۔

(۳۔۱۲۔۱۹۹۹)

اردن عمان

۱۸

بسم الله الرحمن الرحیم

ہر تعریف کا مستحق عالمین کا پروردگار ہے،درود و سلام ہو اس کی اشرف مخلوقات ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی پاک و پاکیزہ آل پر اور اسلام کا سلسلہ معزز اصحاب پر روز قیامت تک جاری رہے۔آمین

اما بعد:بخدمت محترم و معزز،عالم و مرجع دینی علامہ السید الحکیم،خداوند عالم کا سلام ہو اور اس کی رحمتیں و برکتیں آپ پر نازل ہوں۔

جناب عالی سے امید ہے کہ میرے ان چند سوالوں کا جواب جو میرے اس خط میں موجود ہیں مرحمت فرما کے مجھے عزت بخشیں گے۔

جواب عرض ہے:

ساری تعریفوں کا مستحق عالمین کا پروردگار ہے،درود و سلام ہو سید المرسلین اور خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی آل پاک پر اور ان کے دشمنوں پر قیامت تک لعنت ہو۔آمین

میرے معزز بھائی کی خدمت میں، خدا اپنی رضا کی توفیق عنایت فرمائے۔

السلام علیکم و رحمة الله و برکاته

جناب عالی!آپ کا خط ملا،آپ نے جن سوالوں کا جواب مانگا ہے،وہ سوالات ایسے اہم موضوعات سے متعلق ہیں جن پر کافی بحث و نظر کی ضرورت ہے،موضوع گفتگو بہت نفع بخش ہے اور

۱۹

اس بحث سے بہت سے علمی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں مگر یہ کہ موضوعات بہت حساس بھی ہیں،ان پر بحث کرنے کے لئے کامل موضوعیت کے ساتھ وسعت صدر کی بھی ضرورت ہے،اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان موروثی عقائد و مسلمات کی سطح سے کچھ بلند ہو کے سوچے یا غور کرے تا کہ ان حقائق تک پہنچ سکے جن کے بارے میں ہم بحث کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن وسعت صدر اور وسعت نظر کے ساتھ اگر بحث نہیں کی گئی تو پھر بحث برائے بحث ہو کے رہ جائے گی اس لئے کہ موروثی مسلمات و عقائد سے چمٹے رہنا سچائی تک پہنچنے سے محروم کردیتا ہے،جس کو حاصل کرنا ہمارا ہدف ہے بلکہ معاملہ کچھ اور الجھ جائے گا اس لئے کہ موروثی عقائد مسلمات کے خلاف گفتگو انسان کے دل میں کینوں کو جنم دیتی ہے، انسان اس طرح کی باتوں کو فوراً اپنے وقار کا مسئلہ بنا لیتا ہے پھر ہمدردی اور محبت کے جذبات بزرگوں کی حفاظت کے لئے بڑھتے ہیں،بحث جزباتیت کا رخ اپنا لیتی ہے پھر تو آپس میں بغض و حسد اور کینہ پروری جیسی بہت سی برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور فرقہ واریت کی بنیاد پڑتی ہے۔

جبکہ ہم اس طرح کا فساد مناسب نہیں سمجھتے ہیں خصوصاً آج عالم اسلام جس دور سے گذر رہا ہے ایسے دور میں ہمیں نفاق اور فرقہ پردازی سے پرہیز کی سخت ضرورت ہے بلکہ سب سے بہتر یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے عقیدے کی حفاظت کرے اور تمام فرقے آپس میں حسن معاشرت رکھیں اور مل جل کے رہیں جیسا کہ خداوند عالم نے فرمایا:

(قل کل یعمل علی شاکلته فربّکم اعلم بمن هو اهدی سبیلا)(۱)

شریعت لڑنے جھگڑنےسے روکتی ہے

یہی سبب ہے کہ سرور کائنات اور آپ کی آل پاک سے لڑنے جگھڑنے کی نہی وارد ہوئی ہے،مسعدہ ابن صدقہ کی حدیث میں جو امام صادق علیہ السلام سے وارد ہے،سرکار دو عالم نے فرمایا:تین باتیں ایسی ہیں کہ جو ان صفتوں کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرے گا تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے گا:

-------------

۱:- سورہ اسراء آیت ۸۴

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

قریش کے ہاتھ سے لے لیا اور وہیں پھاڑ دیا اور فوراً جناب ابوطالب (ع) کے ساتھ شعب کی طرف روانہ ہوگئے_

اور یوں رسول خدا(ص) کی زندگی میں دعوت اسلام کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہوا_

آیت قرآن

''( انّه من يّتّق و یصبر فانّ الله لا یضیع اجر المحسنین ) ''

جو شخص تقوی اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ تعالی نیکیوں کے اجر کو ہرگز ضائع نہیں کرتا''

سورہ یوسف آیت ۹۰''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر اسلام(ص) اور آپ کے اعزاء و اقارب کتنی مدت شعب میں محصور رہے؟ یہ مدّت ان پر کسی گزری ان تمام سختیوں کو وہ کس مقصد اور غرض کے لئے برداشت کرتے رہے؟

۲)___ قریش کے سرداروں نے جناب ابوطالب (ع) کو دیکھ

۱۶۱

کرکیا سوچا؟ انہوں نے کس لئے صدر مجلس میں جگہ دی___؟

۳)___ جناب ابوطالب (ع) نے جوانوں کے صبر و استقامت کی کس طرح تعریف کی؟

۴)___ مشرکین نے پیغام کے سننے اور صندوق کے کھولنے سے پہلے کیا سوچا تھا؟

۵)___ ابوطالب (ع) کی ملاقات اور پیغام کا کیا نتیجہ نکلا___؟

۱۶۲

انسانوں کی نجات کیلئے کوشش

بعثت کے دسویں سال اقتصادی بائیکات ختم ہوگیا پیغمبر(ص) خدا اور آپ(ص) کے باوفا ساتھی تین سال تک صبر و استقامت سے صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد شعب کے قیدخانہ سے آزاد ہوئے اور اپنے گھروں کی طرف گئے_ خداوند متعال نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ خدا کی راہ میں سعی و کوشش کریں اور صبر و استقامت کا مظاہر کریں تو خدا ان کی مدد کرے گا اور خدا نے اپنا کیا ہوا وعہ پورا کیا_

حضرت ابوطالب(ع) کہ جنہوں نے رسول خدا(ص) کی حفاظت کی ذمہ داری کو قبول کیا تھا، کفار کی طاقت اور کثرت سے نہ گھبرائے اور آپ نے پوری قوت کے ساتھ رسول(ص) خدا کا دفاع کیا_

آخر کار خدا کی نصرت آپہنچی اور انہیں اس جہاد میں کامیابی نصیب

۱۶۳

ہوئی اور ان کے احترام، سماجی مرتبے اور عظمت میں اضافہ ہوگیا بنی ہاشم اپنی اس کامیابی پر بہت خوش ہوئے اور تمام تکالیف اور سختیوں کے بعد دوبارہ اپنی زندگی کا آغاز کیا_

بت پرست اور قریش کے سردار اپنی شکست پر بہت پیچ و تاب کھارہے تھے لیکن ان حالات میں بے بس تھے لہذا کسی مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے ان حالات میں پیغمبر اسلام(ص) کو تبلیغ دین کا نہایت نادر موقع ہاتھ آیا وہ بہت خوش تھے کہ اس طرح اپنے چچا کے سماجی رتبہ اور حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت آزادی سے اپنے الہی پیام کو پہنچانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اس لئے آپ(ص) بہت زیادہ لگن سے تبلیغ میں مشغول ہوگئے_

آپ(ص) نے لوگوں سے کہا

اے لوگو

وہ کون ہے جو زمین و آسمان سے تمہارے لئے روزی پہنچاتا ہے؟ کون ہے جس نے تمھیں آنکھ اور کان عنایت فرمائے؟ کون ہے جس کے ارادے سے جہان خلق ہوا اور اس کا نظام چل رہا ہے؟ لوگو تمہارے اس جہان کا پیدا کرنے والا خدا ہے وہی تمہاری اور اس جہان کی پرورش کرتا ہے اور روزی دیتا ہے وہ تمہارا حقیقی پروردگار ہے پس کیوں اس کا شریک قرار دیتے ہو اور اس کے علاوہ کسی اور کی

۱۶۴

اطاعت کرتے ہو؟ صرف خدا کی پرستش کرو اور صرف اسی کی اطلاعت کرو کہ یہی صحیح راستہ ہے اور حق کا ایک ہی راستہ ہے اور اس کے سوا سب گمراہی ہے_ پس جان لو کہ کسی طرف جارہے ہو؟ اے لوگو

جو لوگ نیکی اور حق کا راستہ اختیار کرتے ہیں خدا انہیں بہترین جزا عنایت فرماتا ہے اور زیادہ اور بہتر بھی دیتا ہے نیکوں کے چہرے پر کبھی ذلّت و خواری کی گرد نہیں بیٹھتی، ایسے لوگ جتنی ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے لیکن وہ لوگ جو برائی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں انہیں سخت سزا دی جائے گی''

لیکن افسوس کہ یہ حالات اور آزادنہ تبلیغ و گفتگو کا سلسلہ زیادہ مدت تک برقرار نہ رہ سکا_ ابھی اقتصادی بائیکاٹ کو ختم ہوئے نو ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ حضرت محمد(ص) کے چچا حضرت ابوطالب (ع) وفات پاگئے اور یوں رسول خدا(ص) اپنے بہت بڑے مددگار، مہربان و ہمدرد اور جانثار سے محروم ہوگئے_

مشرکین اس بات سے خوش ہوئے اور پھر مخالفتوں کا سلسلہ شروع کردیا ابھی زیادہ وقت نہ گزار تھا کہ حضرت محمد(ص) کی زوجہ محترمہ جناب خدیجہ کہ جنہوں نے صداقت و وفاداری کے ساتھ حضرت محمد(ص) کے ساتھ

۱۶۵

ایک طویل عرصہ گزارا تھا اور جو کچھ بھی ان کے پاس تھا اسے تبلیغ دین اور اسلام کی مدد پر خرچ کردیا تھا وفات پاگئیں_

اس حساس موقع پر ان دو حادثات کا واقع ہونا پیغمبر خدا(ص) کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور رنج و غم کا باعث تھا آپ نے اس سال کا نام غم و اندوہ کا سال یعنی عام الحزن رکھا_

حضرت ابوطالب(ع) کی وفات کے بعد بنی ہاشم نا اتفاقی کا شکار ہوگئے، اپنے اتحاد کی طاقت کو ہاتھوں سے کھو بیٹھے اور اس کے بعد وہ پہلے کی طرح رسول خدا(ص) کی حمایت نہ کرسکے''

کفار و مشرکین نے جو ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھے رسول خدا(ص) کو تکلیف اور ایذا پہنچانے کا سلسلہ پھر شروع کردیا اور آپ کے کاموں میں مداخلت کرنے لگے_

کوچہ و بازار میں پیغمبر اسلام(ص) کا مذاق اڑاتے اور آپ(ص) کو آزادانہ طور پر قرآن کی آیات کو لوگوں کے سامنے پڑھنے نہ دیتے اور نہ ہی لوگوں سے بات چیت کرنے دیتے اور آپ کو ڈراتے دھمکاتے_

آخر کار نوبت یہاں تک آپہنچی کہ کبھی کبھار آپ کے سر مبارک پر کوڑا کرکٹ ڈال دیتے اور آپ خاک آلودہ ہوکر گھر واپس آتے آپ کی کم عمر صاحبزادی جناب فاطمہ (ص) آپ(ص) کے استقبال کے لئے آگے بڑھتیں_ آپ(ص) کو اس حال میں دیکھ کر ان کا دل دکھتا اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے آپ کے سرمنہ کو صاف کرتیں اور بے اختیار دوپڑتیں لیکن رسول(ص) خدا فاطمہ (ع) سے نہایت شفقت کے ساتھ

۱۶۶

فرماتے''

میری پیاری بیٹی پریشان نہ ہو، خدا کی راہ میں ان مصائب کا برداشت کرنا بہت آسان ہے''

اس طرح جناب ابوطالب (ع) اور حضرت خدیجہ کی وفات سے پیغمبر اسلام(ص) کی اندرونی اور بیرونی زندگی تہ و بالا ہوکر رہ گئی کیوں کہ آپ اپنے سب سے بڑے حامی و مددگار اور جانباز سے جو قریش کے قبیلے کا سردار تھا محروم ہوگئے اس لئے آپ کو اس معاشرے اور اجتماع میں آزادی اور سکون حاصل نہ رہا ہر وقت آپ کی جان خطرے میں رہتی تھی آپ کا گھر بھی ایک جان نثار و وفا شعار، دوست و مددگار اور غم گسار بیوی سے خالی ہوچکا تھا جب آپ ان مصائب اور تکالیف کو جو باہردی جاتی تھیں برداشت کرتے ہوئے گھر واپس لوٹتے تو اپنی بیوی اور ہمسر کا کشادہ اور مسکراتا چہرہ نہ دیکھ پاتے بلکہ چھوٹی سی بچّی کے روتے ہوئے چہرے پر نگاہ پڑتی، وہ آپ کے استقبال کے لئے آتی اور اپنی والدہ کے پوچھتی اور سوال کرتی''

بابا ماں کہاں ہیں؟

رسول خدا(ص) اپنی بیٹی کا چہرہ چومتے اسے پیار کرتے اور اس کے رخساروں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کے قطروں کو صاف کرتے اور فرماتے:

بیٹی رؤومت، تمہاری ماں بہشت میں گئی ہیں اور وہاں جنّت کے پاک فرشتے ان کی مہمان نوازی کر رہے ہیں

اس قسم کے حالات میں پیغمبر اسلام(ص) نے کس طرح اپنی رسالت کے کام کو انجام دیا؟ آیا ممکن تھا کہ حضرت ابوطالب (ع) جیسا کوئی اور شخص تلاش

۱۶۷

کریں کہ جو ان کی تبلیغ اور دعوت کی حمایت کرے؟

کیا اس قسم کے حامی اور مددگار کے بغیر اپنی دعوت اور لوگوں کی ہدایت کا اہم فریضہ انجام دے سکتے تھے؟

طائف کا سفر

جب پیغمبر اسلام(ص) پر وہ وقت آیا کہ آپ مکہ کے لوگوں کی حمایت اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو آپ(ص) نے ارادہ کیا کہ طائف(۱) کا سفر کریں اور وہاں کے لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیں اس امید کے ساتھ کہ وہ اسلام کو قبول کرلیں گے اور قریش کے سرداروں کے مقابلہ میں ان کی حمایت کریں گے_

پیغمبر(ص) خدا نے اپنی بیٹی فاطمہ(ص) کو اپنے عزیزوں میں سے ایک کے سپرد کیا اور تھوڑی سی خوراک اور پانی لے کر خفیہ طور پر مکہ سے باہر نکلے اور بندگان خدا کو ظلم و ستم، شرک و پلیدی اور گناہ سے نجات دلانے اور انہیں اللہ کی اطاعت اور بندگی کی طرف دعوت دینے کی غرض سے طائف کا رخ کیا_

مكّہ اور طائف کا درمیانی راستہ نہایت دشوار گزار اور کٹھن

____________________

۱) طائف ایک ٹھنڈا شہر ہے جو مكّہ سے بارہ فرسخ کے فاصلہ پر واقع ہے اور ثقیف قبیلہ جو قریش کا سب سے بڑا قبیلہ تھا وہاں سکونت پذیر رہا ہے

۱۶۸

تھا آپ خستہ حال لیکن ایمان کامل اور بھر پور امید کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے وہاں آپ بالکل اجنبی اور ناآشنا تھے_

اگر چہ طائف کے اکثر لوگوںنے آپ کا نام اور آپ کے دین کے متعلق تھوڑا بہت سن رکھا تھا لیکن لوگوں نے آپ کو نزدیک سے نہیں دیکھا تھا اور وہ آپ کو نہیں پہچانتے تھے_

آپ شہر میں داخل ہوئے اور گلی کو چوں کا رخ کیا کہ شاید کوئی شناسا مل جائے لیکن آپ کو کوئی شناسا نظر نہین آیا کہ جو شہر کے رؤسا اور بزرگوں کے گھروں تک رہنمائی کرے اور آپ(ص) سے آپ کی مدد کے متعلق دریافت کرے کہ آپ(ص) اس شہر میں کیوں تشریف لائے ہیں؟

آخر کار کوئی صورت آشنا نہ پا کر رسول (ص) خدا نے خود اپنی پہچان کروائی اور اپنے سفر کے مقصد کو بیان کیا:

میں محمد بن عبداللہ، اللہ کا رسول(ص) ہوں، میں اللہ کی طرف سے تمہاری ہدایت و نجات کا پیغام لایا ہوں تم لوگ شرک و بت پرستی اور ظلم و ستم سے ہاتھ اٹھا لو اور خدا کی اطاعت کرو اور تقوی اختیار کرو اور میری پیروی کرو تا کہ تمہیں دنیا و آخرت کی پاکیزہ زندگی اور دائمی و نیک زندگی کی طرف راہنمائی کروں میں تمہیں قیامت کے دن حاضر ہونے سے ڈراتا ہوں اور آخرت کے عذاب سے خوف دلاتا ہوں ڈرو اس وقت سے جب کام تمام ہوجائے اور تم کافر و مشرک

۱۶۹

دنیا سے چلے جاؤ کہ پھر قیامت کے دن حسرت و عذاب میں گرفتار ہوگے میری دعوت کو قبول کرلو تا کہ دنیا و آخرت میں فلاح پاؤ میری اور میری آسمانی دعوت کی حمایت کرو تا کہ میں تمام لوگوں کو دین اسلام کی طرف بلا سکوں''

لیکن قبیلہ ثقیف کے سرداروں کے دل ظلم و ستم کی وجہ سے سخت اور تاریک ہوچکے تھے انہوں نے آپ کی آسمانی ندا کو قبول نہ کیا بلکہ آپ(ص) کے ساتھ بے جا اور ناروا سلوک کیا_ رسول (ص) خدا بہت زیادہ ملول ہونے کہ یہ لوگ کیوں اپنی گمراہی پر اصرار کر رہے ہیں؟ کیوں بتوں کی عبادت کرتے ہیں؟ کیوں ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ ہی وہ ان کو کچھ دے سکتی ہیں؟

کیوں لوگ میرے نور پیغمبر(ص) کی جو اللہ نے مجھے عنایت کیا ہے پیروی نہیں کرتے؟ کیوں خدا کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتے؟

کیوں اپنی برائیوں اور ظلم پر باقی رہنا چاہتے ہیں؟

کیوں یہ لوگ اپنے ان برے اعمال سے دنیا و آخرت کی ذلت و خواری میں اپنے آپ کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟ ...؟

رسول (ص) خدا افسردہ اور بے قرار ہوگئے اور مجبور ہوکر ان کے گھر سے باہر نکل آئے اور دوسرے لوگوں کودعوت دینا شروع کردیں_ تقریباً ایک مہینہ تک آپ(ص) نے اس شہر میں قیام کیا اور لوگوں سے جو کوچہ و بازار سے گزرتے تھے گفتگو اور آخرت کی دنیا____ میں انسانی اعمال کی

۱۷۰

قدر و قیمت اور زندگی کی غرض و غایت اور صحیح راہ و رسم کے بارے میں لوگوں کو بتایا اور انہیں خداپرستی اور خدا دوستی اور اللہ کی اطاعت کی طرف دعوت دی اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا_ لیکن آپ(ص) کے وعظ و نصیحت اور تبلیغ نے ان کے تاریک دلوں پر کوئی زیادہ اثر نہ کیا گو کہ ان میں سے بعض کے دلوں میں کہ جو بہت زیادہ آلودہ نہیں ہوئے تھے ایک نور سا چمک اٹھا تھا اور آہستہ آہستہ تاریکی اور برائی چھٹتی چلی گئی_

لیکن مستکبرین اور سردار کہ جو اپنی قدرت اور منافع کو خطرے میں دیکھ رہے تھے انہوں نے تدریجاً خطرے کا احساس کرلیا اور بعض نادان اور کمینے انسانوں کو ابھارا کہ وہ جناب رسول(ص) خدا کی راہ میں زحمتیں اور روکاوٹیں پیدا کریں آپ(ص) کا مذاق اڑائیں اور آپ کی گفتگو کے درمیان شور و غل مچائیں اور انہیں ناسزا کہیں اور پتھر ماریں_

آخر کار ایک دن جب آپ(ص) لوگوں کے درمیان تقریر فرما رہے تھے کہ اوباش قسم کے انسانوں اور دھوکہ میں آئے ہوئے نادانوں نے کہ جنہیں مستکبرین نے بھڑکایا تھا آپ کے گرد گھیرا ڈالا اور آپ کو پتھر مارنے شروع کردئے اور کہنے لگے کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ_

طائف سے خروج

پیغمبر اسلام(ص) نے مجبور ہوکر شہر سے باہر کا رخ کیا_ بے وقوف اور نادان لوگ اب بھی آپ(ص) کا پیچھا کر رہے تھے اور پتھر مار رہے تھے آپ(ص)

۱۷۱

کا جسم مبارک بری طرح زخمی ہوچکا تھا اور آپ(ص) کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا آپ(ص) تھکے ماندے خون آلود جسم اور غم و اندوہ کے ساتھ طائف سے نکل گئے_

آپ(ص) ان لوگوں کی ہدایت اور نجات کے لئے تنہا اور اجنبی ہوتے ہوئے اس شہر میں داخل ہوئے تھے جو ظلم کے اسیر تھے اور اب زخمی اور خستہ بدن کے ساتھ اس شہر سے باہر جا رہے تھے بالآخر طائف کے احمق اور کمین لوگوں نے آپ(ص) پر پتھر برسانا بند کئے اور آپ(ص) کا پیچھا چھوڑ کر اپنے ظلم اور تاریکی سے مغلوب شہر کی طرف واپس لوٹ گئے_

پیغمبر(ص) جو زخموں سے چور تھے اور تھکن کی وجہ سے مزید چلنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ایک ایسے درخت کے سایہ میں بیٹھ گئے جس کی شاخیں ایک باغ کی دیوار سے باہر نکلی ہوئی تھیں اور اپنے خدا سے یوں مناجات کرنے لگے اے پروردگار میں اپنی کمزوری و ناتوانی اورناتوان لوگوں کے ظلم و ستم کو تیرے سامنے بیان کرتا ہوں اے مہربان خدا اور اے مستصعفین کے پروردگار مجھے کس کے آسرے پر چھوڑا ہے؟ کیا مجھے بیگانوں کے لئے چھوڑدیا ہے؟ تا کہ وہ اپنے سخت اور کرخت چہرے سے مجھے دیکھیں؟ کیا تجھے پسند ہے کہ دشمن مجھ پر مسلط ہوجائے؟

خدایا میں ان تمام مصائب کو تیرے لئے اور تیرے بندوں کی خاطر برداشت کر رہا ہوں_

۱۷۲

باغ کا مالک آپ(ص) کی یہ حالت دور سے دیکھ رہا تھا اس کا دل پیغمبر اسلام(ص) کی اس حالت پر دکھا انگور سے بھری ایک ٹوکری غلام کے حوالہ کی جس کا نام ''عداس'' تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) کو دے آئے_

عداس نے ٹوکری کو اٹھایا اور پیغمبر(ص) خدا کے نزدیک لایا_ پیغمبر(ص) کا تھکا ہوا نورانی چہرہ، زخمی جسم، اور خون میں آلودہ پاؤں اس کے لئے تعجب خیز تھے_ اس نے انگوروں کی ٹوکری پیغمبر(ص) کی خدمت میں پیش کی اور ادب سے بولا:

شوق فرمایئےان انگوروں میں سے کھا لیجئے''

اور خود ایک طرف جاکر کھڑا ہوکیا اور حیرت سے اللہ کے پیغمبر کی جانب دیکھنے لگا_

رسول خدا(ص) نے کہ جو بھوک و پیاس سے نڈھال تھے ایک خوشہ انگور کا اٹھایا اس کے صاف شفاف دانوں پر نظر ڈالنا شروع کردیا_

کتنی بر محل اور موقع کی مناسبت سے رسول خدا(ص) کی مہمانی کی گئی آپ(ص) کا خشک گلاتر ہوگیا''

عداس جو بڑی توجہ سے رسول خدا(ص) کی طرف دیکھ رہا تھا جب اس نے_ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا کلمہ رسول (ص) خدا سے سنا تو سخت تعجب ہوا اور پوچھا:

اس کلمہ سے کیا مراد ہے؟ اس کلمہ کو آپ نے کس سے سیکھا ہے؟

۱۷۳

رسول خدا(ص) نے عداس کی صورت کو محبت آمیزنگاہ سے دیکھا اور پھر اس سے پوچھا:

تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ تمہارا کیا دین ہے؟

اس نے جواب دیا_

نینوا کا رہنے والا ہوں اور مسیحی دین رکھتا ہوں''

اچھا نینوا کے ہو جو اللہ کے نیک بندے یونس (ع) کا شہر ہے_

یونس جو متی کے فرزند ہیں''

عداس کی حیرانی میں اور اضافہ ہوا اور پوچھا کہ:

آپ(ص) یونس (ع) کو کس طرح جانتے ہیں؟ اور ان کے باپ کا نام کس طرح معلوم ہے؟ خدا(ص) کی قسم جب میں نینوا سے باہر نکلا تو اس وقت دس لوگ بھی نہیں تھے جو جناب یونس (ع) کے باپ کو جانتے ہوں آپ(ص) ان کو کس طرح پہچانتے ہیں؟ اور کس طرح ان کے باپ کا نام جانتے ہیں؟ اس خطّے کے لوگ جاہل ہیں اور آپ(ص) نے یونس (ع) کے باپ کا نام کس سے معلوم کیا ہے_

رسول خدا(ص) نے فرمایا:

یونس میرا بھائی اور خدا کا پیغمبر(ص) تھا اور میں بھی خدا کا پیغمبر ہوں خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنے تمام کاموں کا آغاز اس کے نام اور اس مقدس کلمہ ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' سے کروں جانتے ہو کس لئے؟

عداس کہ جس کا دل روشن اور حق کو قبول کرنے پر راغب تھا بہت خوش ہوا اور پیغمبر خدا(ص) کی دعوت اور آپ(ص) کی پیغمبری کے

۱۷۴

متعلق بہت سے سوالات کئے پیغمبر اسلام(ص) باوجود اسکے کہ بہت تھکے ہوئے تھے اس کے تمام سوالات کا بہت صبر و حوصلہ سے جواب دیتے رہے_ عداس کی گفتگو پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ کئی گھنٹوں تک جاری رہی اور آخر کار پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت کی دعوت کی حقیقت اس پر واضح ہوگئی وہ آپ(ص) پر ایمان لے آیا اور مسلمان ہوگیا_

پیغمبر اسلام(ص) بھی اس کے اسلام لانے سے بہت خوش ہوئے اور اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس سفر میں ایک محروم اور ستم رسیدہ انسان کی ہدایت کی _

آپ(ص) نے عداس کو خداحافظ کہا اور مكّہ کی طرف روانہ ہوگئے اس مكّہ کی جانب کہ جسکے رہنے والے مشرکین تلواریں نکالے آپ(ص) کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے راستہ بہت سخت اور دشوار تھا_ لیکن اللہ کی طرف سے ذمہ داری اور ماموریت اور سول (ص) خدا کا ہدف زیادہ اہم تھا آپ(ص) نے چلنا شروع کیا آپ(ص) کے پاک و پاکیزہ خون کے قطرے آپ کے ایمان راسخ اور خدا کے بندوں کی ہدایت کی راہ میں_ استقامت کو راستے کے سخت پتھروں پر نقش کی صورت میں چھوڑ رہے تھے_

آیت قرآن

( لقد جاء کم رسول مّن انفسکم عزیز علیه ما عنتّم حریص

۱۷۵

علیکم بالمؤمنین رء وف رّحیم)

سورہ توبہ آیت ۱۲۸''

تم میں سے رسول ہدایت کے لئے آیا ہے تمہاری پریشانی اور رنج اس پر سخت ہے وہ تمہاری ہدایت کے لئے حریص و دلسوز ہے اور مومنین پر مہربان اور رحیم ہے''

سوچئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر خدا(ص) اپنی تبلیغ و گفتگو میں لوگوں کو کن اصولوں کی طرف دعوت دیتے تھے؟

۲)___ حضرت ابوطالب (ع) کی وفات نے پیغمبر اسلام(ص) کی تبلیغ اور دعوت پر کیا اثر ڈالا؟

۳)___ پیغمبر(ص) نے طائف کا سفر کس غرض سے کیا تھا؟ کتنی مدّت طائف میں رہے اور اس مدّت میں آپ(ص) کی تبلیغ کا کیا پروگرام تھا؟

۴)___ شہر کے بزرگوں اور سرداروں نے کس طرح پیغمبر(ص) کی تبلیغ کی مزاحمت کی؟ اور کیوں؟

۵)___ رسول خدا(ص) نے طائف کے شہر سے نکلنے کے بعد اللہ سے کیسی مناجات کی اور خدا سے کیا کہا؟

۶)___ اس حالت میں کس نے آپ(ص) کی مہمان نوازی کی؟

۱۷۶

۷)___ عداس نے کس چیز کے سبب تعجب کیا؟ اور رسول (ص) سے کیا سوال کیا؟

۸) کس چیز کو سن کر عداس کے تعجب میں اضافہ ہوا؟

۹)___ عداس کس طرح مسلمان ہوا پیغمبر اسلام(ص) عداس کے مسلمان ہونے سے کیوں خوش ہوئے؟

۱۷۷

پیغمبر اکرم(ص) کی بیعت

حج کے ایام میں بہترین اور مناسب موقع تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) مشرکین کے کسی دباؤ کے بغیر لوگوں سے گفتگو کرسکیں اور انہیں اسلام کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دے سکیں اور اسلام و ایمان کے نور کو لوگوں کے دلوں میں روشن کرسکیں_

اس مرتبہ پیغمبر اسلام (ص) خزرج قبیلہ کے چھ آدمیوں سے گفتگو کر رہے تھے اپنے دل نشین اور آسمانی آہنگ میں لوگوں کے لئے قرآن مجید کی ان آیات کی تلاوت فرما رہے تھے جو خداپرستی کی تائید اور شرک و بت پرستی کی نفی کے بارے میں تھیں اور بعض آیات عقل و دل کو بیدار کرنے کے بارے میں تھیں_

ان آیات میں سے چند ایک بطور نمونہ یہاں تحریر کی جاتی ہیں جن

۱۷۸

کا تعلق سورہ نحل سے ہے''

خدا آسمان سے بارش برساتا ہے اور مردہ کو زندہ کرنا ہے، البتہ اس میں واضح اور روشن نشانی ہے اس گروہ کے لئے جو بات سننے کے لئے حاضر ہو تمہیں چوپایوں کی خلقت سے عبرت حاصل کرنا چاہئے_ خون اور گوبر کے درمیان سے پاکیزہ اور خوش مزہ دودھ تمہیں پلاتے ہیں کھجور اور انگور کے درخت کے پھولوں کو دیکھو کہ جس سے شراب بناتے ہو اور اس سے پاک و پاکیزہ روزی حاصل کرتے ہو اس میں عقلمندوں کے لئے واضح علامت موجود ہے تیرے خدا نے شہد کی مكّھی کو وحی کی ہے کہ وہ پہاڑوں او ردرختوں میں گھر بنائیں اور تمام میوے کھائیں اور تیرے اللہ کے راستے کو تواضع سے طے کریں اور دیکھو کہ ہم کس طرح شہد کی مکھی سے اس طرح کا مزیدار شربت مختلف رنگوں میں باہر لاتے ہیں کہ جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے اور اس میں سوچنے والوں کے لئے واضح نشانی موجود ہے خدا ہی ہے جس نے تمہیں خلق کیا اور وہی ہے جو تمہیں موت دے گا تم میں سے کچھ لوگ ضعیفی اور بڑھا پے کی عمر کو پہنچ جائیں گے کہ کچھ بھی نہیں سمجھ پائیں گے البتہ خدا علیم و قدیر ہے

پس کیوں غیر خدا کی پرستش کرتے ہیں وہ چیزیں کہ

۱۷۹

جن کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی روزی نہیں ہے، کچھ نہیں اور نہ ہی ان کے ذمہ کوئی کام ہے

قرآن مجید کی آیات کے معنی اور پیغمبر(ص) کی حکیمانہ اور دل نشین اور محبت بھری گفتگو نے ان لوگوں پر بہت اچھا اثر کیا اور انہیں اسلام کا گرویدہ بنادیا اس کے علاوہ انہوں نے یہودیوں سے سن رکھا تھا کہ حضرت موسی (ع) نے اپنی آسمان کتاب میں خبر دی ہے کہ ایک پیغمبر مکہ سے اٹھے گا جو وحدانیت او رتوحید پرستی کی ترویج کرے گا_ غرض پیغمبر خدا(ص) کی اس تمہیدی گفتگو ان کی روح پرور باتیں سن کر اور ان کا محبت بھرا انداز دیکھ کر ان میں ایک نئی روح پیدا ہوئی اور انہوں نے اسی مجلس میں اسلام قبول کرلیا،

جب وہ لوگ پیغمبر(ص) سے جدا ہونے لگے تو کہنے لگے کہ:

ایک طویل عرصہ سے ہمارے اور اس قبیلے کے درمیان جنگ جاری ہے امید ہے کہ خداوند عالم آپ(ص) کے مذہب اور دین کے وسیلے سے اس جنگ کا خاتمہ کردے گا اب ہم اپنے شہر یثرب کی طرف لوٹ کرجائیں گے تو آپ کے آسمانی دین اسلام کو لوگوں سے بیان کریں گے_

یثرب کے لوگوں نے تھوڑا بہت حضرت محمّد اور آپ کے دین کے متعلق ادھر ادھر سے سن رکھا تھا لیکن ان چھ افراد کی تبلیغ نے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے ایک مناسب فضا پیدا کردی اور اسلام کے لئے حالات سازگار بنادئے اور یوں کافی تعداد میں لوگ

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296