فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ26%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130306 / ڈاؤنلوڈ: 6755
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

سوال نمبر۔۲

صحابہ کو گالیاں دینا یا ان کی تکفیر کرنا کیا شیعہ حضرات کی طرف مذکورہ بالا عمل کو منسوب کرنا صحیح ہے؟خصوصاً ابوبکر،عمر اور عثمان کی تکفیر،کیا شیعہ ان حضرات کی تکفیر کے قائل ہیں اور اسی طرح عائشہ کے بارے مین بھی مشہور ہے کہ شیعہ انہیں مسلمان نہیں سمجھتے،کیا یہ صحیح ہے؟

جواب:آپ کے سوال میں دو باتوں کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔

۱۔تکفیر:(یعنی کافر قرار دینا)عرض ہے کہ شیعہ صحابہ کی تکفیر کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ تو عام مسلمانوں کی تکفیر کے بھی قائل نہیں ہیں اگر چہ ان کے فرقے الگ الگ ہیں اور ان کا نظریہ اسلام کی حقیقت اور اس کے ارکان کی حدوں کی بنیاد پر ہے پھر ان کے علما کے فتوے اور ان کی تصریحات بھی ایک سبب ہے۔

شیعوں کے نزدیک کفر و اسلام کا معیار

سماعہ کی موثق حدیث ملاحظہ ہو،کہتے ہیں میں نے ابوعبداللہ(جعفر صادق علیہ السلام)سے پوچھا کہ آپ مجھے اسلام اور ایمان کے بارے میں بتائیں کیا یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں؟حضرتؑ نے فرمایا ایمان میں اسلام شریک ہے لیکن اسلام میں ایمان کی مشارکت نہیں ہے میں نے کہا ان کی تعریف کردیں۔

۴۱

فرمایا:وحدانیت پروردگار اور تصدیق رسالت اسلام ہے اسی بنیاد پر خون حرام ہوتا ہے اور نکاح و میراث جاری ہوتے ہیں اور لوگوں کی جماعت اسی طاہری رح پر عامل ہے اور ایمان ہدایت ہے....)(۱)

سفیان بن سمط کی حدیث ملاحطہ ہو:ایک شخص نے ابوعبداللہ سے اسلام اور ایمان کے درمیان فرق کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:اسلام وہ ظاہری رخ ہے جس پر عام لوگ ہیں یعنی لا الہ الا اللہ کی شہادت اور حضور سرور کائنات کی عبدیت اور رسالت،نماز کا قائم کرنا،کو ٰۃ دینا حج کرنا،رمضان کے روزے رکھنا بس یہی سب اسلام ہے۔(۲)

حمران بن اعین کی حدیث میں منقول ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب ابوجعفر یعنی امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ ایمان وہ ہے جو دل میں جگہ بنالے اور بندے کو خدا تک پہنچائے اور بندے کا عمل خدا کی اطاعت اور اس کی ذات کے لئے سپردگی کے ذریعہ ایمان کی تصدیق کرتا ہو اور اسلام وہ ہے جو قول اورفعل سے ظاہر ہو،اسلام ہی کی بنیاد پر خون کا تحفظ،نکاح و میراث کا جریان اور نکاح کا جواز حاصل ہوتا ہے جولوگ نماز،زکوٰۃ،روزہ اور حج کی بنیاد پر جمع ہوئے ہیں اور کفر کے دائر سے اسی بنیاد پر الگ سمجھے جاتے ہیں۔(۳) اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے اقرار توحید و رسالت اور ضروریات دین کا اعتراف کافی ہے اور یہ بھی کہ مسلمانوں کے دورسرے فرقے جو شیعہ نہیں ہیں وہ اسلام سے خارج نہیں ہیں،ان کا خون اور مال حرام ہے مگر یہ کہ وہ حق کے ذریعہ ہو۔البتہ نواصب کی بات دوسری ہے،وہ لوگ ہیں جو اہل بیت اطہار علیہم السلام کے دشمن ہیں،ان کا تفصیلی تعارف ہم اس کتاب میں نہیں پیش کرسکتے اور ضرورت بھی نہیں سمجھتے اس لئے کہ موضوع گفتگو وہ نہیں دوسرے لوگ ہیں بہرحال تمام علمائے شیعہ کفر و اسلام کے مذکورہ بیان پر متفق ہیں ہر دور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اصول کافی ج:۲ص:۲۵۔کتاب ایمان و کفر،باب ایمان اسلام میں شریک ہے۔

(۲) اصول کافی ج:۲ص:۲۴۔کتاب ایمان و کفر،باب ایمان اسلام میں شریک ہے۔

(۳) اصول کافی ج:۲ص:۲۶۔کتاب ایمان و کفر،باب ایمان اسلام میں شریک ہے۔

۴۲

میں علمائے شیعہ اسی نظریہ کے قائل رہے تھے اور ہیں اگر کوئی شخص اس سلسلے میں شیعوں کی رائے جاننا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ علماء شیعہ کے فتووں کی کتابیں اور عملیہ دیکھے،اس کو یہ اصول ہر کتاب میں جاری و ساری ملے گا،طہارت،نکاح،ذباحۃ،میراث اور قصاص،غرض ہر جگہ مندرجہ بالا معیار کو سامنے رکھ کر فتوے دئیےگئے ہیں اور چونکہ علماء شیعہ اس معاملے میں تقیہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اس لئے انہوں نے اسلام کے ساتھ کہیں کہیں ایمان کی بھی شرط رکھی ہے جس کو دیکھا جاسکتا ہے۔

مذکورہ بالا کفر اسلام کے معیار کو ثابت کرنے کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں شرائع الاسلام کی ایک عبارت آپ کی خدمت میں پیش کردوں۔

شرایع اسلام شیعوں کی مشہورترین فقہی کتاب ہے جو حوزات علمیہ میں پڑھائی جاتی ہے اور بہت سے فقہا نے اس کی شرح لکھی ہے،اس کتاب کی عبارت پر بقیہ مصادر کا قیاس کیا جاسکتا ہے،ملاحظہ ہو،غسل میت کی بحث میں علامہ فرماتے ہیں:

ہر وہ آدمی جو کلمہ شہادتین کا اظہار کرے اسے غسل دینا جائز ہے،سوائے خوارج،غلاۃ اور شہید کے۔(۱)

دوسری جگہ کتاب الحدود میں مرتد کی حد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں،اسلام کا کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے اور اگر اس کلمہ کے ساتھ کوئی یہ بھی کہتا ہے کہ میں اسلام کے علاوہ ہر دین سے بری ہوں تو اس کا اسلام مزید موکد ہوجاتا ہے۔(۲)

نماز میت کے سلسلے میں فرماتے ہیں:ہر اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے جو کلمہ شہادتین کا اظہار کرتا ہو اور اس بچّے کی بھی نماز ہوسکتی ہے جو چھ سال کا ہوا اور حکم اسلام میں داخل ہو(۳)

نجاسات کے سلسلے میں فرماتے ہیں:دسویں نجاست کافر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرایع الاسلام ج:۱ص:۳۷۔

(۲)شرایع الاسلام ج:۴ص:۱۸۵۔۱۸۶۔

(۳)شرایع الاسلام ج:۱ص:۱۰۴۔۱۰۵۔

۴۳

اصول یہ ہے کہ کافر وہ ہے جو اسلام سے خارج ہو یا جو خود کو مسلمان تو کہتا ہو لیکن ضروریات دین کا منکر ہو جیسے خوارج اور غلاۃ۔کتاب نکاح میں عقد کے لواحق کے بارے میں فرماتے ہیں:

مسئلہ نمبر۱:

نکاح میں دونوں کا کفو ہونا شرط ہے،کفو سے مراد یہ ہے کہ دونوں مسلمان ہوں اور نکاح میں ایمان کی شرط ہے یا نہیں تو اس کے بارے میں دور روایتیں ہیں،اظہر یہ ہے کہ محض اسلام پر اکتفا کیا جائے اگر چہ ایمان کا لحاظ رکھنا مستحب موکد ہے خصوصاً زوجہ کی طرف سے ایمان کی شرط زیادہ ضروری ہے اس لئے کہ عورت اپنے شوہر کے مذہب کو اختیار کر لیتی ہے البتہ نکاح ناصبی سے صحیح نہیں ہے۔(۱) جو اعلانیہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمن ہیں اس لئے کہ عداوت اہل بیت علیہم السلام کا ارتکاب دین اسلام کو باطل کردیتا ہے۔(۳) ذباحۃ کے بارے میں فرماتے ہیں:ذبح کرنے والے کا مسلمان ہونا ضروری ہے،بت پرست کا ذبیحہ قبول نہیں ہے،لیکن ایمان کی شرط نہیں ہے ایک قول بعید میں ایمان کی بھی شرط ہے البتہ جو اہل بیت اطہار علیہم السلام سے اعلانیہ دشمنی رکھتا ہو اس کا ذبیحہ صحیح نہیں ہے،جیسے خارجی اگر چہ وہ اسلام کا اظہار کرے۔(۳)

مسائل اللواحق میں فرماتے ہیں:مسلمان بازاروں میں جو ذبیحہ یا گوشت بکتا ہے اس کا خرید ناجائز ہے اور تفحص ضروری نہیں مگر بیچنے والا مسلمان ہو۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرایع الاسلام ج:۱ص:۵۳۔

(۲)شرایع الاسلام ج:۲ص:۲۹۹۔

(۳)شرایع الاسلام ج:۳ص:۲۰۶۔

(۴) شرایع الاسلام ج:۳ص:۲۰۶۔

۴۴

کتاب الفرائض میں فرماتے ہیں:(فرائض سے مراد مواریث ہے یعنی میراث کو روکنے والی چیزیں)تیسری بات یہ ہے کہ مسلمان وارث ہوگا چاہے اس کے مذہب میں اختلاف ہو اور کفار،وارث ہوں گے چاہے ان کے گروہوں میں اختلاف ہو۔(۱)

کتاب القصاص میں قصاص کی شرطیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:دوسری شرط دین میں برابر ہونا،مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا چاہے وہ کافر ذمی ہو،مستامن ہو یا کافر حربی۔(۲)

جواز قصاص میں مسلمان اور آزاد ہونا ضروری ہے اور یہ کہ مقتول کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو یعنی خون ناحق بہایا گیا ہو۔(۳)

مذکورہ بیانات کی بنیاد پر شیعوں کا نقطہ نظر سمجھ لینا چاہئے،عام صحابہ کے ساتھ بھی شیعوں کا یہی معاملہ ہے لیکن جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا اور حضرت نے ان کے بارے میں حدیث فرمائی تو شیعہ اس حدیث کے مطابق عمل کرتے ہیں ورنہ صحابہ اور عام مسلمانوں کے درمیان اسلام کے معاملے میں شیعوں کی نظر میں کوئی فرق نہیں ہے،شیعہ اس کو مسلمان سمجھتے ہیں جو شہادتین کی گواہی دے، اسلام کا پابند ہو،اعلانیہ اسلام کی دعوت دیتا ہو اور اسلامی فرائض کو پورا کرتا ہو،ان کے درمیان جن بنیادوں پر فرقہ بندی یا اختلاف ہے وہ اسلام کے علاوہ ہیں اور شیعہ ان کا خیال نہیں کرتے بلکہ ان کے دل کے اندر کیا ہے اور پر بھی غور نہیں کرتے بلکہ آپسی معاملات کی بنیاد وہ ان کے ظواہر کو بناتے ہیں اور ظاہر پر عمل کرتے ہیں،اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کا بھی یہ کردار رہا تھا اور ہر دور میں اسی معیار کو مانا گیا ہے،چنانچہ امیرالمومنین علیہ السلام سے ان لوگوں کے بارے میں جو آپ سے جنگ کرنے آئے سوال کیا گیا، آپ نے فرمایا:وہ ہمارے بھائی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرایع الاسلام ج:۴ ص:۱۳

(۲)شرایع الاسلام ج:۴ ص:۲۱۱

(۳)شرایع الاسلام ج:۴ ص:۲۳۴

۴۵

ہیں جنہوں نے ہم سے بغاوت کی ہے،آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ کافر ہیں،آپ نے ان کی عورتوں کو کنیز نہیں بنایا، ان کے مال کو حلال کیا اس لئے کہ وہ اہل قبلہ یعنی مسلمان تھے،بس یہی شیعوں کا بھی طریقہ ہے وہ ظاہر پر اعتبار کرتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اکثر اسلامی فرقے بھی یہی کرتے ہیں۔

کتاب و سنت اور مسلمانوں کی بول چال میں کفر کا اطلاق مزید کچھ افراد پر ہوتا ہے

بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں کتاب و سنت اور مسلمانوں کی گفتگو میں کفر کا اطلاق بعض ان افراد پر بھی ہوتا ہے جو کلمہ شہادتین کے قائل ہیں،کبھی سابقہ کے طور پر تو کبھی اس کے باطن کا لحاظ کرتے ہوئے کہ وہ آدمی اسلام کے کسی تقاضے کو پورا ہی نہیں کرتا صرف کلمہ کا شاہد ہے لیکن عقیدہ اور عمل میں استقامت نہیں رکھتایا اور بندوں سے اللہ نے جن عبادات اور وفائے عہد کا مطالبہ کیا ہے اس کو انجام نہیں دیتا اور کبھی ایسا ہوتا کہ اس کا باطنی عقیدہ اسلام کی دعوت سے مطابقت نہیں رکھتا، ایسے شخص کو نفاق سے مطعون کیا جاتا ہے، ان صورتوں میں قرآن مجید ایک رخ کی وضاحت کرتا ہے کہ

((و من لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الکٰفرون))(۱)

جو اللہ کے نازل کئے ہوئے فیصلہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ کافر ہیں۔

اور دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:

((ولله علی الناس حج البیت من الستطاع الیه سبیلا و من کفر فانّ الله غنی عن العالمین))(۲)

ترجمہ آیت:((اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض خدا کے لئے خانہ کعبہ کا حج کریں، جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو اور جس نے استطاعت کے با وجود حج سے انکار کیا تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ مائدہ آیت:۲۴

(۲)سورہ:آل عمران،آیت:۹۷

۴۶

(یاد رکھئے کہ)خدا سارے سے بےنیاز ہے۔

اس سلسلے میں سرکار دو عالمؐ کا قول بھی شاہد ہے جو بہت سے راویوں سے مروی ہے چنانچہ آپ نے فرمایا:دیکھو میرے بعد کفر کی طرف نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردن کاٹنے لگو(۱)

اور جناب عائشہ کا قول، عثمان کے لئے کہ اس نعثل کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے(۲)

عمر بن خطاب کا حاطب ابن ابی بلتعہ کے بارے میں سرکار سے یہ کہنا کہ اے خدا کے رسول! ان کی گردن ماردینی چاہئے یہ کافر ہوگیا ہے۔(۳)

خدیفہ یمانی کا قول کہ نفاق عہد نبیؐ میں تھا آج تو دوہی چیزیں ہیں یا کفر ہے یا ایمان ہے۔(۴)

ابوشعیب کا یہ جملہ کہ حفص نامی شخص نے شافعی سے مناظرہ کیا،حفص نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے،شافعی نے جواب دیا:تو نے خدا سے کفر کردیا۔(۵)

اور یاسر کی حدیث حضرت ابوالحسن علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:جو اللہ کی تشبیہ دے وہ مشرک ہے اور جو اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کرے جنہیں اس نے منع کیا ہے وہ کافر ہے۔(۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)صحیح بخاری ج:۱،ص:۵۶،کتاب علم باب الانصات للعمائ،ج:۲،ص:۶۱۹،کتاب الحج ایام منیٰ کے خطبہ کے سلسلے میں

(۲)تاریخ طبری،ج:۳،ص:۱۲،اس باب میں کہ جس میں عائشہ نے کہا تھا کہ خدا کی قسم میں عثمان کے خون کا بدلہ ضرور لوں گی۔

(۳)الاحادیث المختارہ ج:۱ص:۲۸۶،جس میں عبداللہ بن عباس نے عمر سے روایت کی اور کہتے ہیں کہ اس کی سند بھی صحیح ہے،مسند عمر بن خطاب،ج:۱،ص:۵۵۔

(۴)صحیح بخاری ج:۶ص:۲۴۰۶،کتاب الفتن،قسم کے باب میں،سیر اعلام النبلا،ج:۱۰،ص:۳۰،امام شافعی کے حالات میں۔

(۵)سنن کبری بیہقی ج:۱۰،ص:۴۳،کتاب الایمان

(۶)عیون اخبار رضا ج:۱،ص:۹۳

۴۷

اباصلت ہروی کی ایک حدیث حضرت امام رضا علیہ السلام سے ہے،آپ نے حضرت سے پوچھا:اے فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس حدیث کا کیا مطلب ہے لا الہ الا اللہ کا ثواب خدا کے چہرے پر نظر کرنے کے ثواب کے برابر ہے،آپ نے فرمایا اے اباصلت! جو اللہ کی تعریف کسی چہرے سے کرتا ہے وہ کافر ہے بلکہ اس کا چہرہ اس کے انبیا،اس کے مرسلین علیہم السلام اور اس کی حجتیں ہیں،یہی وہ حضرات ہیں جن کہ وجہ سے لوگ خدا اور اس کے دین اور اس کی معفت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو انبیا و مرسلین اور خدا کی حجتوں کو قیامت کے دن ان کے درجات پر نظر کرنا ثواب عظیم کا سبب ہے،اسی لئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو ہمارے اہل بیتؑ سے بغض رکھتا ہے قیامت کے دن مجھے نہیں دیکھے گا۔(۱)

اور آپ نے فرمایا:تم میں سے ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو مجھ سے جدا ہونے کے بعد پھر مجھے نہٰیں دیکھیں گے اور اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں۔

لیکن مذکورہ وضاحت اسلام کے اس معنی کے منافی ہے جو اس سے پہلے بیان کیا جاچکا ہے اور نہ احکام کی ترتیب کو روکتی ہیں(یعنی اسلام کا مطلب یہی ہے کہ جو شخص کلمہ شہاتین اور ضروریات دین کا قائل ہے وہ مسلمان ہے)جیسا کہ مسلمانوں کہ فقہ عمومی سے ظاہر ہوتا ہے،مسلمانوں کے تمام فرقے آپس میں معاملات کرتے رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مسلمان ہونے کا برتاؤ کرتے رہے ہیں سوائے بعض خوارج کے یا اسی طرح کے دوسرے فرقوں کے جو شاذ ہیں اور مسلمانوں نے ان سے ہمیشہ سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے،عام شیعہ صحابہ یا عام مسلمانوں کو اسلام کے مذکورہ بالا معنی سے خارج نہیں سمجھتے مگر یہ کہ بعض شیعوں کا یہ مسلک کبھی رہا ہے لیکن فی الحال میں ان کو نہیں جانتا اور ان کے بارے میں معلومات کرنا میرے لئے آسان بھی نہیں ہے، اگر کہیں ایسا پایا بھی جاتا ہے تو ایسا شیعہ اپنے نظریہ میں تنہا اور وہ اپنے قول اور موقف کا خود ہی جواب دہ ہے،ظاہر ہے کہ شیعہ عوام یا شیعہ قوم پر اس کا ایک کے نظریہ کا جواب دینے کی ذمہ داری عائد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)توحید(صدوقؒ)ص:۱۱۸۔۱۱۷

۴۸

نہیں ہوتی چہ جائیکہ یہ خطرناک قول تمام شیعوں پر لاددیا جائے اور ان کی طرف منسوب کردیا جائے۔

سوال:۲۔مجھ سے دو باتوں کے بارے میں پوچھا گیا تھا، ایک تکفیر صحابہ اور دوسرے صحابہ کو گالیاں بکنا۔

آپ کا دوسرا سوال گالی اور طعن سے متعلق ہے۔

اس معاملے میں شیعوں کا طرز عمل بیان کرنا اور کوئی ٹھوس بات کہنا تو بہت مشکل ہے، شیعوں میں بہت سے شعبے پائے جاتے ہیں اور یہ لوگ بھی بہرحال تمام لوگوں کی طرح انسان ہیں، ان کی قوت جذبات کے برداشت کی طاقت عمومی رہن سہن اور دینی ثقافت کسی ایک صحابی یا تمام اصحاب کے بارے میں ان کا مبلغ علم،ان کی اخلاقی اور دینی ضرورتیں،ان کی گھریلو اور سماجی تربیت اور ان کے اپنے دلی جذبات پر حملہ ہونے کے وقت مذاہب کا طریقہ ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں انسانوں کی مختلف مقدار اور مختلف امکانات میں پائی جاتی ہیں اور شیعہ انسان ہیں مقام عمل میں ان تمام باتوں سے متاثر ہوتے ہیں، اس لئے اجتماعی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ شیعوں کا اس سلسلے میں کیا نظریہ ہے،البتہ صحابی کے بارے میں شیعہ یہ نظریہ رکھتے ہیں جس کی انہیں تعلیم دی گئی ہے اور جس پر دلیلیں ان کے پاس موجود ہیں اور صرف صحابہ ہی نہیں بلکہ تابعین اور عام مسلمانوں کے بارے میں بھی ان کا یہی نظریہ ہے۔

صحابہ خود اپنی نظر میں قابل احترام نہیں تھے

اگر جو آدمی صحابہ کی تاریخ کو پڑھے اور بنظر غائر ان حرکات کو دیکھے جو ان سے سرزد ہوئیں ہیں تو یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ تمام صحابہ قابل احترام نہیں ہیں اور ان کے تقدس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ہے جب کہ کچھ لوگوں نے تمام صحابہ کے گرد تقدس کا ایک بے بنیاد دائرہ کھینچ رکھا ہے۔

بلکہ صحابہ کے حالات پر نظر کرنے سے یہ بات بہرحال ثابت ہوجاتی ہے کہ صحبت پیغمبرؐ انہیں گناہوں سے نہیں بچاسکی،ان کے عیب کو دور نہیں کرسکی یہاں تک کہ صحابہ آپس میں ایک دوسرے کو

۴۹

گالی دینے اور لعن و طعن کرنے سے پرہیز کرتے تھے بلکہ بعض صحابہ نے تو بعض صحابہ کو اتنی گالیاں دیں اتنی لعن و لعن کی کہ ان کا یہ کارنامہ مشہور ہوگیا اور صحبت پیغمبر انہیں گالی گلوج سے باز نہیں رکھ سکی۔

عثمان کے معاملے میں صحابہ کے کارنامے

عثمان کے معاملے میں صحابہ کے درمیان کیا کچھ نہیں ہوا تاریخ سے پوشیدہ نہیں ہے،صحابہ آپس میں دشنام طرازی کرتے رہے اور قول ع عمل سے اپنے تہذیبی دیوانے پن کا ثبوت پیش کرتے رہے۔

عثمان کو گالی دینے میں اور ان پر طعن کرنے میں سب سے زیادہ سخت یہ تین نام آتے ہیں،طلحہ،زبیر اور عائشہ،روایت تو یہاں تک ہے کہ طلحہ صاحب نے عثمان پر پانی بند کردیا تھا(۱) اور ان کے پاس لوگوں کی آمد و رفت پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔(۲)

ابن ابی الحدید نے مقتل عثمان نام کی کتاب میں مدائنی سے نقل کیا ہے کہ طلحہ نے تین دن تک عثمان کی میت کو دفن نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ حکیم بن حزام جو بنی اس ابن عبدالعزی کا تھا اور جبیر ابن مطعم ابن حارث بن نوفل نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے گذارش کی کہ عثمان کو قبر ملنی چائے تو طلحہ نے قبرستان کے راستے میں کچھ لوگوں کو پتھر دے کر بٹھا دیا جو عثمان کی میت لیجانے والوں کو پتھر سے مارتے تھے، واقدی کہتے ہیں:جب عثمان قتل ہوئے تو ان کے دفن کے بارے میں بات ہونے لگی طلحہ نے صاف کہہ دیا انہیں دیر سلع یعنی یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔(۳)

واقدی کہتے ہیں کہ عثمان کے گھر پر جب حملہ ہوا تھا اس وقت جو لوگ موجود تھے ان سے روایت ہے کہ طلحہ نے اپنا چہرہ نقاب سے چھپائے ہوئے تھا اور عثمان کے گھر پر پتھر برسا رہے تھے یہ اس دن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۳۸۔انساب الاشراف ج:۵ص:۷۱۔

(۲)تاریخ طبری ج:۲ص:۶۶۸۔۶۶۹۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۱۰ص:۶۔۷۔

۵۰

کی بات ہے جس دن عثمان قتل ہوئے،روایت تو یہاں تک ہے کہ جب محاصرہ کرنے والے عثمان کے گھر میں کود گئے اور انہیں قتل کردیا۔

یہ بھی روایت ہے کہ زبیر فرما رہے تھے عثمان کو قتل کردو انہوں نے تمہارا دین بدل دیا ہے ان سے کہا گیا کہ آپ قتل کا فتوی دے رہے ہیں اور آپ کے بیٹے عثمان کے دروازے پر کھڑے ہوئے عثمان کی حمایت کررہے ہیں تو انھوں نے فرمایا کوئی ہرج نہیں ہے میں اس بات کو ناگوار نہیں سمجھتا کہ عثمان قتل ہوجائیں اگر چہ قتل کی ابتدا میرے بیٹے ہی سے ہو،عثمان کل کڑک پر پڑا ہو ایک مردار ہوگا(۱) یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ عائشہ عثمان کے بارے میں کہتی تھیں اس داڑھی والے کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے ایک دن عثمان مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے اور عائشہ اور حفصہ لوگوں کو عثمان کے خلاف بھڑکار رہی تھیں جب عثمان نے سلام پھیرا تو فرمایا یہ دونوں فتنہ پرداز عورتیں لوگوں کی نماز میں رخنہ ڈال رہی ہیں پھر خطاب کر کے فرمایا اگر تم دونوں گالیاں دینے سے باز نہیں آئیں تو میں تمہیں حلال گالیاں دوں گا اور میں تم دونوں کی اصل سے واقف ہوں(۲) اور جب سعد نے عثمان کی مخالفت کی تو عثمان انہیں تکلیف پہنچانے کے ارادے سے جارہے تھے امام علیؑ مسجد میں آرہے تھے عثمان امام سے مسجد کے دروازے پر ٹکرا گئے،سعد عثمان کو حضرت علیؑ کے سامنے ہی گالیاں دینے لگے۔(۳)

ایک جماعت نے جس میں عثمان بھی شامل ہیں طلحہ،زبیر،اور عائشہ پر یہ الزام لگایا ہے کہ ان لوگوں کو عثمان کے خلاف بھڑکایا انہیں گالیاں دیں اور ان کے قتل پر آمادہ کیا۔(۴)

امیرالمومنینؑ نے فرمایا:میں چار افراد کے ذریعہ گرفتار بلا ہوا ہوں مکارترین اور پست

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۳۵۔۳۶،طلحہ و زبیر کے بارے میں کلام امامؑ۔

(۲)الجامع(ازدی)ج:۱۱ص:۳۳۵۔۳۵۶،باب فتن میں۔

(۳)الجامع(ازدی)ج:۱۱ص:۳۵۶،باب فتن میں۔

(۴)تاریخ طبری ج:۲ ص:۶۶۸۔۶۶۹،قتل عثمان کے بارے میں۔

۵۱

ترین شخص یعنی طلحہ،سب سے بہادر یعنی زبیر،لوگوں کے لئے سب سے زیادہ مرکز اطاعت یعنی عائشہ اور سب سے جلد فتنہ پیدا کرنے والا یعنی ابن امیہ،فرمایا یہ لوگ مجھ سے وہ حق مانگ رہے ہیں جن کو خود ترک کرچکے ہیں،اس خون کا بدلہ مانگ رہے ہیں جسے انہوں نے خود بہایا ہے اور انہوں نے مجھے چھوڑ کے دوسرے کو ولی بنایا ہے اگر میں انکار میں ان کا ساتھ دیتا تو وہ انکار نہیں کرتے اور عثمان کا قصاص سوائے ان کے کسی پر نہیں ہے یہی لوگ باغی گروہ ہیں خدا کی قسم طلحہ و زبیر اور عائشہ یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ میں حق پر ہوں اور وہ لوگ باطل پرست ہیں(۱) دوسری جگہ ارشاد فرمایا لیکن انہیں خدا کی قسم ہرگز دعوت نہیں دی گئی تھی وہ خود خون عثمان کا مطالبہ کرتے ہوئے نکلے بخدا وہی لوگ عثمان کے قاتل ہیں۔(۲)

محمد بن طلحہ کہتے ہیں کہ عثمان کا خون تین تہائیوں میں تقسیم ہے ایک تہائی صحاب ہودج یعنی عائشہ کے ذمہ ہے ایک تہائی سرخ اونٹ والے کے ذمہ ہے یعنی طلحہ اور ایک تہائی علی بن ابی طالب کے ذمہ ہے۔(۳)

سعد بن ابی وقاص سے کسی نے پوچھا کہ عثمان کا قاتل کون ہے انہوں نے کہا میں تمہیں بتاتا ہوں تلوار عائشہ نے کھینچی اس پر صیقل طلحہ نے کی اور اس کو زہرآلودہ علی بن ابی طالب نے کیا زبیر خاموش رہے لیکن ہاتھ سے اشارہ کیا میں روکنا چاہتا ہوں تو ان کی مدافعت کرتا لیکن عثمان نے دین میں بہت سی بتدیلیاں کردی تھیں۔(۴)

اسرائیل بن موسی کہتے ہیں کہ میں نے حسن کو یہ کہتے سنا کہ طلحہ اور زبیر بصڑہ پہنچے لوگوں نے پوچھا تم لوگ کیوں آئے ہو کہنے لگے عثمان کا خون طلب کرنے آئے ہیں حسن نے کہا سبحان اللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الاستیعاب ج:۲ ص: ۲۱۳۔۲۱۴،طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں۔

(۲)تاریخ طبری ج: ۳ ص: ۲،بیعت علیؑ کے ذکر میں۔

(۳)تاریخ طبری ج: ۳ ص: ۱۶ ۔

(۴)الامۃ و السیاسۃ ج: ۱ص: ۴۸،اور اسی طرح العقد الفرید،ج:۴ص:۲۹۵،کتاب السجدۃ الثانیہ۔

۵۲

کیا اس قوم کے پاس بالکل ہی سمجھ نہیں ہوتی تو یہ کہتے کہ عثمان کو تمہارے علاوہ علاوہ کسی اور نے قتل کیا۔(۱)

یہ کہانی بھی بہت مشہور ہے کہ مروان نے عثمان کے بدلے میں طلحہ کو قتل کردیا(۲) بلکہ استعیاب کا مولف لکھتا ہے قابل اعتبار علما کا اس معاملے میں بالکل اختلاف نہیں کہ جنگ جمل میں مروان نے طلحہ کو قتل کیا حالانکہ طلحہ اسی کی فوج میں تھا۔(۳)

اسی طرح یہ بھی مشہور ہے کہ طلحہ اور عثمان کے درمیان جو کچھ ہوا اس پر نادم تھے لوگ کہتے ہین کہ طلحہ کے گناہوں کا کفارہ یہی تھا کہ وہ قتل کردئیے جائیں۔(۴) عثمان کا انکار کرنے والے اور ان پر طعنہ کرنے والوں میں عمار یاسر بھی تھے عمار اور محمد بن ابی بکر کہا کرتے تھے کہ عثمان ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے ہیں اور انہوں نے منافقت کی ہے(۵)اور عمار خون عثمان کو اتنا محترم نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا قصاص لیا جائے۔(۶)

باقلانی کہتے ہیں کہ عمار عثمان کے بارے میں صاف کہتے تھے کہ وہ کافر ہوگئے ہیں اور عثمان کے قتل کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم نے عثمان کو قتل کردیا اور جس دن ہم نے قتل کیا وہ کافر ہوچکے تھے شاید کہ عثمان نے عمار کوڈ انٹا تھا،ان کی تادیب کی تھی ان کے اس قول کی بنا پر جو اکثر کہتے تھے کہ ہم نے عثمان کو ہٹا دیا اور ہم اس سے بری ہیں۔(۷)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۲۸،کتاب معرفۃ الصحابہ

(۲)الطبقات الکبری ج:۳ص:۲۲۲۔۲۲۳،ج:۵ص:۳۸،مستدرک صحیحین،ج:۳ص:۴۱۷۔۴۱۸،کتاب معرفت صحابہ،المعجم الکبیر،ج:۱ص:۱۱۳(اور اس میں ہے کہ مروان نے طلحہ کو قتل کیا)الاستیعاب ج:۲ص:۲۱۳،۲۱۴،طلحہ بن عبیداللہ کے حالات میں

(۳)الاستیعاب ج:۲ص:۷۹

(۴)الطبقات الکبری ج:۳ص:۲۲۲،الاستیعاب،ج:۲ص:۲۱۳،مستدرک علی صحیحین،ج:۳ص:۴۱۹،کتاب معرفۃ الصحابہ

(۵)معجم الکبیر،ج:۱ص:۷۹

(۶)مجمع الزوائد ج:۹ص:۹۷۔۹۸،باب امر عثمان اور ان کی وفات کے سلسلہ میں المعجم الکبیر،ج:۱ص:۸۱

(۷)التمہید ص:۲۲۰

۵۳

کلثوم ابن جبر ابوغدبہ جہنی سے روایت کرتا ہے الغاویۃ جو عمار کا قاتل ہے الغٓویۃ کہتا ہے کہ ہم نے وادی عقبہ میں رسولؐ کی بیعت کی اس دن آپ نے فرمایا کہ خبردار ہوجاؤ اے لوگوں کہ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر حرام قرار دیا گیا اس دن تک کے لئے کہ تم اپنے پروردگار سے اسی حرمت کے ساتھ ملاقات کرو یہ حکم اسی دن اسی مہینہ اور اسی شھر میں دیا گیا کیا میں نے حکم خدا پہنچادیا؟ہم نے کہا ہاں تو پھر فرمایا دیکھو ہمارے بعد کا فرمت ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

کلثوم کہتا ہے کہ الغاویۃ جہنی نے کہا ہم عمار یاسر کو شریف آدمی سمجھتے تھے لیکن میں نے ایک دن مسجد قبا میں عمار کو کہتے سنا کہ یہ لمبی داڑھی والا یہودی عثمان اگر میں اس کے خلاف اپنا مددگار پاتا تو اب تک اسے قتل کرچکا ہوتا الغاویہ نے کہا کے پالنے والے اگر تو چاہے تو مجھے عمار پر تمکن دیدے جب صفین کا دن آیا تو وہ فوج کے اگلے حصے میں پیدل آگے بڑھا اتنے میں ایک مرد دکھائی دیا جو نقاب پوش تھا پس اس نے اس مرد کے گھٹنے میں نیزہ مارا جب وہ گرگیا تو اس نے آگے بڑھ کے اس کی پٹی کو ہٹایا پتہ چلا یہ عمار یاسر ہیں اس نے عمارت کا سر کاٹ لیا۔

کلثوم کہتا ہے کہ میں نے اس الغاویہ سے زیادہ گمراہ کسی کو نہیں پایا اس لئے کہ عمار کے قتل کے بارے میں اس نے سرکار دو عالم سے اپنے کانوں سے سنا تھا کہ عمار کا قاتل اور ان کا سامان لوٹنے والے دونوں جہنمی ہیں(۱)

ابھی عرض کیا جاچکا ہے کہ عثمان عمار کو بہت گالیاں دیتے تھے کبھی کہتے اے بہت زیادہ پیشاب کرنے والی کے بیٹے(۲) کبھی کہتے تو جھوٹا ہے اے سمیہ کے بیٹے(۳)کبھی کہتے کہ یا عاض ایرابیہ(۴)اور کبھی فرماتے کہ میری طرف اس کلوٹی کے بیٹے پر وائے ہو۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الطبقاب الکبری ج:۳ص:۲۶۰۔(۲)انساب الاشراف ج: ۵ ص: ۴۸۔

(۳)انساب الاشراف ج: ۵ ص: ۴۹۔

(۴)انساب الشراف:ج: ۵ ص: ۵۴۔

(۵)تاریخ یعقوبی،ج:۲ص:۱۷۱

۵۴

(صحابی تو عثمان بھی تھے اور جناب عمار یاسر بھی لیکن دونوں کی آپس میں مار پیٹ مشہور ہے)جیسے کہ عثمان نے حکم دیا کو عمار کو پیٹا جائے اس غریب پر اتنی مار پڑی کہ وہ بے ہوش ہوگئے اور کتنی نمازیں چھوٹ گئیں(۱) یا ان کے پیر پر مار پڑی یہاں تک کہ چوٹ ان کے خصیوں پر پڑی اور وہ چھٹک(۲) یا پھر انہیں کھینچتے ہوئے لائے اور دروازہ پر ڈال دیا گیا(۳) عثمان ان کے پیٹ پر کھڑے ہو کے ان کے پیٹ کو ملنے لگے یہاں تک کہ وہ بیہوش ہوگئے(۴) بلکہ انہوں نے تو عمار کے قتل کا بھی اردہ کر لیا تھا مگر بنی مخزوم نے عثمان سے بات کی اور ان کو اس اقدام سے باز رکھا۔(۵) پھر عثمان اور عبدالرحمٰن بن عوف کے درمیان جو معاملات ہوئے وہ بھی قابل غور ہیں عبدالرحمٰن بن عوف عثمان پر بہت سختی کرتے تھے اور انہوں نے امیرالمومنینؑ سے کہا کہ آپ اپنی تلوار لیں اور میں اپنی تلوار اٹھاتا ہوں، بیشک عثمان نے مجھ سے بدعہدی کی ہے(۶) اور عبدالرحمٰن بن عوف نے یہ قسم بھی کھائی کہ تا حیات عثمان سے نہیں بولیں گے(۷) جب وہ بیمار پڑے تو عثمان عیادت کو گئے لیکن عبدالرحمٰن نے کوئی توجہ نہیں دی(۸) اور ناراضی کی حالت میں مرگئے(۹) یہ وصیّت بھی کر کے گئے کہ عثمان ان کے جنازے کی نماز نہیں پڑھیں گے۔(۱۰)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)انساب الاشراف،ج۵ص:۴۸۔

(۲)انساب الاشراف،ج:۵ص:۴۹۔

(۳)الامۃ و السیاسۃ،ج:۱ص:۳۳۔

(۴)مصنف ابن ابی شیبہ،ج:۴ص:۱۹۹،کتاب الامرائ،العقد الفرید،ج:۴ص:۳۰۷،العسجدۃ الثانیہ۔

(۵)انساب الاشراف،ج:۵ص:۵۴۔۵۵،تاریخ یعقوبی،ج:۲ص:۷۳۔

(۶)انساب الاشراف،ج:۵ص:۵۷۔

(۷)انساب الاشراف،ج:۵ص:۵۷،تایخ ابی الفدائ،ج:۱،ص:۱۶۶،العقد الفید،ج:۴،کتاب العسجدۃ الثانیہ،ص:۲۸۰،۳۰۵۔

(۸)تاریخ ابی الفدائ،ج:۱ص:۱۴۴،شرح نہج البلاغہ،ج:۱ص:۱۹۶،العقد الفرید،ج:۴ص:۲۸۰،کتاب العسجدۃ الثانیۃ۔

(۹)تاریخ ابی الفدائ،ج:۱ص:۱۴۴،شرح نہج البلاغہ،ج:۱ص:۱۹۶،العقد الفرید،ج:۴ص:۲۸۰،کتاب العسجدۃ الثانیۃ۔

(۱۰)انساب الاشراف،ج:۵ص:۵۷۔

۵۵

عثمان نے ایک بڑا محل بنایا تھا اس میں جب ولیمہ کیا تو بہت سے لوگوں کے ساتھ عبدالرحمٰن کو بھی بلایا عبدالرحمٰن نے اس محل میں صاف کہہ دیا کہ اے عفان کے بیٹے لوگ تمہارے بارے میں جن باتوں کو جھوٹ سمجھے رہے تھے اسے تم نے سچ کر دکھایا میں تمہاری بیعت سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں یہ سنتے ہی عثمان غضبناک ہوگئے اور غصے میں ایک غلام سے کہا عبدالرحمٰن کو ابھی میری محفل سے نکال دو اور فرمایا کہ خبردار عبدالرحمٰن کے پاس کوئی نہیں بیٹھے(۱)

عبدالرحمٰن کے سامنے عثمان کا تذکرہ کیا گیا جب وہ مرض موت میں مبتلا تھے تو عبدالرحمٰن نے کہا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں کلافت کے کنویں تک پہنچ چکا ہوں اور اس کا پانی بھی پی لیا ہے لیکن عبدالرحمٰن اس پانی سے محروم رہ گئے(۲) یہی نہیں بلکہ عبدالرحمٰن پر عثمان،نفاق کا الزام رکھتے تھے بلکہ انہیں منافق شمار کرتے تھے(۳) یہاں تک روایت ہے عبدالرحمٰن نے فرمایا کے مجھے جینے کی اب کوئی خواہش نہیں کہ عثمان مجھے منافق کہتے ہیں۔(۴)

عثمان اور ابوذر کے درمیان بھی جو کچھ ہوا وہ کافی مشہور ہے یہاں تک کہ ابوذر کو عثمان نے ربزہ جانے پر مجبور کیا اور ربزہ ہی میں ان کا انتقال بھی ہوگیا۔(۵)

ابواسحاق لکھتے ہیں کہ ایک دن ابوذر عثمان کے دربار پہنچے اور ان کے کسی عیب کی نشاندہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۱۹۶۔

(۲)انساب الشراف ج:۵ص:۵۷۔

(۳)صواعق المحرقہ،ص:۱۱۲،السیرۃ الحلبیۃ،ج:۲ص:۲۷۳،باب مدینہ کی طرف ہجرت۔

(۴)شرح نہج البلاغہ ج:۲۰ص:۲۵۔

(۵)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۵۲،کتاب المغازی والسرایا ص:۳۸۷،کتاب معرفۃ الصحابۃ،مسند احمد،ج:۵ص:۱۴۴،طبقات الکبریٰ،ج:۴ص:۲۲۷،۲۳۴،السنۃ لابی ابی عاصم،ج:۲ص:۵۰۱،شرح ابن ماجہ،للسیوطی،ص:۱۵،باب سننے اور اطاعت کے باب میں،استیعاب، ج:۱ ص:۲۱۵،حالات ابوذر میں،سیر اعلام النبلائ،ج:۲ص:۵۷۔۷۱۔۷۷،حالات ابوذر میں،سیرۃ النبویۃ،ج:۵ص:۲۰۵،جنگ تبوک،تاریخ طبری،ج:۲ص:۱۸۴۔

۵۶

کی پھر ابوذر کھڑے ہوگے مولائے کائناتؑ اپنے عصا کا سہارا لیتے ہوئے عثمان کے پاس آئے عثمان نے ان سے پوچھا کہ اس آدمی کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جو اللہ کے رسول کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے امام نے فرمایا اس کو مومن آل فرعون کی منزل میں رکھئے اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کو جھوٹ کی سزا ملے گی اور اگر سچا ہے تو آپ کو جس بات سے ڈرا رہا ہے وہ آپ کے سامنے مصیبت بن کے آئے عثمان کو مولا علیؑ کی یہ بات بڑی بری لگی،آپؑ غصہ میں فرمایا تیرے منھ میں خاک پڑے جب امام نے فرمایا خاک تمہارے منہ میں پڑے کیا تم ہر کام ہماری رائے سے کرتے ہو جو مجھ سے مشورہ کر رہے ہو۔(۱)

سعید ابن مسیّب کہتے ہیں کہ عثمان نے سرکار دو عالمؐ کے وقف کئے ہوئے کسی کوئیں کو خرید لیا تھا مولائے کائنات نے انہیں روکنا چاہا تو دونوں کے درمیان بات بڑھ گئی یہاں تک کہ عباس آگئے انہوں نے دیکھا کہ عثمان نے مولائے کائناتؑ کو مارنے کے لیے اپنا تازیانہ اٹھایا ہوا ہے اور مولاؑ نے عثمان کو مارنے کے لئے اپنا ڈنڈا اٹھایا ہوا ہے تو عباس نے دونوں کو سمجھا بجھا کے ٹھنڈا کیا۔(۲)

عثمان کے سامنے عبداللہ بن مسعود لائے گئے تو عثمان نے کہا:اب تمہارے سامنے وہ چوپایہ آیا ہے جو اپنے کھانے پر چلتا ہے،پھر قے کرتا ہے اورلید کرتا ہے اور یہ کہ عثمان نے حکم دیا کہ عبداللہ بن مسعود کو زمین پر گرا کر مارا جائے،پس اتنا مارا کہ یہاں تک کہ ان کی پسلی ٹوٹ گئی عثمان عبداللہ بن مسعود پر یہ الزام رکھتے تھے کہ وہ عثمان کا خون حلال سمجھتے ہیں(۳) عثمان نے عبداللہ ابن مسعود کے وظیفہ کو روک دیا(۴) یہاں تک عبداللہ ابن مسعود مرگئے اور عثمان کو خبر تک نہیں ہوئی۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الجامع(ازدی) ج:۱۱ص:۳۴۹،باب الامرائ۔

(۲)مجمع الزوائدج:۷ص:۲۲۶،اور اسی طرح المعجم الاوسط،ج:۷ص:۳۶۷۔

(۳)انساب الاشراف ج:۵ص:۳۶۔

(۴)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۴۷،انساب الاشراف،ج:۵ص:۳۷،تاریخ الخمیس،ج:۲ص:۲۶۸۔

(۵)تاریخ الخمیس ج:۲ص:۲۶۸،انساب الاشراف،ج:۵ص:۳۷۔

۵۷

محمد ابن ابوخدیجہ اور محمد ابن ابی بکر مصر میں عثمان کا عیب کھول کھول کے بیان کرتے تھے اور کہتے تھے کہ عثمان کا خون حلال ہے۔(۱)

مختصر یہ کہ عثمان اور صحابہ کے درمیان منافرت،گالم گلوج اور اختلافات کے اتنے شواہد تاریخ میں موجود ہیں جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا ہے اور اتنے روشن واقعات ہیں جن کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے حد یہ ہوگئی کہ دور عثمان میں ایک صحابی جو مدینہ میں مقیم تھا ایک دوسرے صحابی کو جو مدینہ میں نہیں تھا لکھا کہ تم لوگ مدینہ سے باہر جہاد کے لئے گئے اور چاہتے ہو کہ دین محمدیؐ برباد ہوچکا ہے اور لوگ اس کو چھوڑ چکے ہیں نلدی آگے دین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہاں قائم کرو، اس خط کا اثر یہ ہوا کہ لوگ چاروں طرف سے مدینہ میں آکے جمع ہوگئے اور عثمان کو قتل کرڈالا۔(۲)

قتل عثمان کے بعد صحابہ کے درمیان کیا ہوا؟

قتل عثمان کے بعد صحابہ اور بری حالت ہوگئی صحابہ ایک دوسرے پر گناہ کبیرہ کا الزام لگانے لگے ہر ایک سامنے والے کو دنیا کی محبت میں فتنہ پرور کہنے لگا۔اور انہوں نے سارے عہد و پیمان توڑ ڈالے مولا کائناتؑ نے صاف کہہ دیا کہ طلحہ زبیر اور عائشہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں حق پر ہوں اور وہ باطل پرست لوگ ہیں۔

مولائے کائناتؑ کا کلام ایک جگہ تو گذشتہ بیان سے زیادہ سخت ہے جب آپ نے صحابہ اور تابعین کی جماعت کے سامنے ان کی اور معاویہ کی پول کھولی ہے آپ فرماتے ہیں میں نے فتنہ کی آنکھیں کھول دی ہیں اگر میں نہین ہوتا تو فلاں فلاں اور فلاں سے جنگ نہیں ہوتی اور نہ اہل نہروان سے جنگ کرنی پڑتی اگر تم اس کام کے ذمہ دار نہیں بنتے اور عمل کرنا چھوڑ دیتے تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۲ص:۶۲۰

(۲)تاریخ طبری ج:۲ص:۶۶۲

۵۸

تمہارے درمیان وہ خرابی پیدا ہوجاتی جس کی تمہارے نبی نے پیش گوئی کی تھی اس شخص کے لئے جو کسی کو گمراہ دیکھ کے اس سے قتال کرتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ ہم حق پر ہیں۔(۱)

اور دوسرے خطبہ میں ارشاد رفرمایا کہ محمد بن ابی بکر کی آواز آرہی ہے وہ مدد کے لئے پکار رہے ہیں اس لئے کہ نابغہ کا بیٹا خدا کا دشمن اور دشمنان خدا کا سرپرست ان کی طرف چل پڑا ہے دیکھو ایسا نہ ہو کہ گمراہ لوگ اپنے باطل کے لئے طاغوت کے راستے پر بھروسہ کرتے ہوئے تم سے زیادہ جمع ہوجائیں جب کہ تم حق پر ہو۔(۲)

سب کو معلوم ہے کہ مولائے کائناتؑ اور عمرو بن عاص کے درمیان تحکیم کا صلح نامہ لکھنے کے وقت کیا کچھ نہیں ہوا جب اہل شام نے صاف انکار کیا کہ علی کو امیرالمومنین نہ لکھا جائے حضرت نے فرمایا اللہ اکبر،اللہ اکبر،تاریخ اپنے کو دہرا رہی ہے اور ایک مرتبہ یہ واقعہ دوسری صورت میں پیش آچکا ہے خدا کی قسم مجھے صلح حدیبیہ کا صلح نامہ یاد آرہا ہے جب میں ہادی اعظم کے سامنے خود آپ کی ہدایت پر لکھ رہا تھا میں نے جب ہادی اعظم کو رسول لکھا تو کفار قریش بگڑ گئے اور کہنے لگے ہم انہیں خدا کا رسول مانتے تو پھر جھگڑا کس بات کا تھا ہم تو ان کی گواہی نہیں دیتے آپ صرف اپنے نبی کا نام اور ان کے باپ کا نام لکھیں اللہ آپ ہماری کس سے مثال دے رہے ہیں وہ لوگ تو کفار تھے آپ ہمیں کفار سے مشابہ قرار دے رہے ہیں جب کہ ہمارا اور مسلمانوں کا دشمن نہیں رہا تیری مثال تو صرف تیری ماں سے دی جاسکتی ہے جس نے تجھے پیدا کیا عمروعاص یہ سن کے اٹھ گیا اور بولا ہم آج کے بعد آپ کے ساتھ کسی مجلس میں ایک جگہ نہیں ہوں گے امیرالمومنینؑ نے جواب دیا کہ میں بھی خدا سے یہ امید کرتا ہوں کہ وہ میری مجلس مجھ سے بلکہ تیری جیسے لوگوں سے پاک رکھے گا۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مصنف بن ابی شیبہ ج:۷ص:۵۲۸،کتاب السنۃ،لعبداللہ بن احمد،ج:۲ص:۶۲۷،کتاب الفقن،حلیۃ الاولیائ،ج:۴ص:۱۸۶

(۲)تاریخ طبری ج:۳ص:۱۳۴

(۳)تاریخ طبری ج: ۳ ص: ۱۳۴

۵۹

جنگ صفین میں آپ نے عمار کے حادثہ کے بعد ایک خطبہ دیا آپ نے فرمایا:اے لوگو!ہمارے ساتھ ان کی طرف چلو جو خون عثمان کو طلب ر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عثمان مظلوم مارے گئے(سب نہیں)بلکہ انہوں نے دینا کو چکھا اور اس سے محبت کرنے لگے اور اپنا ہدف دنیا ہی کو بنالیا یہ لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر حق پر چلیں گے تو حق ان کے اور دنیا کے درمیان حائل ہوجائے گا جس کے یہ لوگ عادی ہوچکے ہیں اس قوم کا اسلام کی سابقہ تاریخ میں کوئی کارنامہ بھی تو نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ لوگوں سے طلب اطاعت کا حق رکھتے یا ان کے ولی ہوتے اس لئے انہوں نے اپنے پیچھے چلنے والوں کو یہ کہہ کے دھوکا دیا کہ ہمارا رہبر مظلوم مارا گیا تا کہ خون عثمان کے طلب کرنے کے بہانے سے جابر بادشاہ بن سکیں پھر آپ خطاب فرما رہے تھے یہاں تک کہ آپ عمروعاص کے پاس پہنچنے اور فرمایا تو نے اپنے دین کو ملک مصر کے بدلے میں بیچ دیا ہے خدا تجھے ہلاک کرے پھر ہلاک کرے تو بہت دنوں سے اسلام میں کجی پیدا کرتا چلا آرہا ہے۔

امیرالمومنین ہی نے عبیداللہ بن عمر بن خطاب سے فرمایا خدا تجھے غارت کرے تو نے اپنے دین کو دشمن اسلام اور دشمن اسلام کے بیٹے سے بیچ دیا ہے ابن عمر کہنے لگے میں تو عثمان بن عفان کا خون طلب کرنے نکلا ہوں آپ نے فرمایا:جہاں تک میرا علم گوہی دے رہا ہے تو خدا کو طلب کرنے ہرگز نہیں نکلا ہے۔(۱)

معاویہ اور اہل معاویہ بھی امیرالمومنین علیہم السلام اور آپ کے اصحاب کو برا کہنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔

یہی صحابہ ہیں جنھوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا حلال سمجھ لیا تھا جس کے نتیجے میں صفین کی جنگ ہوئی اور دس ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو کھا گئی یہاں تک کہ بات تحکیم تک پہنچی پھر بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۳ص:۹۸

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

کی اس شاہی نسل سے تھا جس کا مورث اعلی منوچہر ہے لیکن حضرت سلمان نے اس بات کو اپنے لئے باعث فخر نہ سمجھا ۔نسبی کرید کو پسند نہ فرماتے تھے ۔ایک مرتبہ کسی نے ان کے نسب سے متعلق سوال کیا تو جواب دیا کہ میں مسلمان فرزند اسلام ہوں ۔میں ایک غلام تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ آزاد کرایا میں بے حیثییت شخص تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ عزت بخشی۔میں ایک فقیر تھا خدا نے مجھے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ غنی کردیا اور یہی میرا حسب نسب ہے ۔صاحب طبقات کے بیان کے مطابق ابن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سلمان نے خود پتہ دیا کہ وہ اصفہان کے گاؤں "حئ " کے رہنے والے تھے ۔آپ کے والد ایک زمیندار تھے اور اپنے فرزند سے بہت محبت رکھتے تھے اور ان کو جدا نہ کرتے تھے ان کو گھر میں اس طرح قید رکھا تھا جس طرح لڑکی کو قید کیا جاتا ہے ۔آپ کے والدین مجوس پر تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ سلمان بالغ ہونے سے قبل اپنے دین کی معرفت حاصل کرے لیکن سلمان کی طبیعت فطرتا مشاہدات قدرت پر غور وفکر کرنے پر مائل تھی اور دین مجوس کے نقائص اکثر ان کے دماغ میں تجسس پیدا کرتے تھے گھر اپنے والد کے احترام میں زبان بند رکھتے تھے ایک دن بوذ خشان اپنے ایک مکان کی بنیاد مرمت کرنے کی غرض سے گھر سے باہر گئے اور سلمان کو اپنی جگہ کھیتوں کے کا م پر روانہ کیا ۔راستے میں آپ کو ایک گرجا دکھائی دیا جہاں لوگ عبادت کررہے تھے اور توحید خداوندی اور رسالت عیسی علیہ السلام علیہ السلام کا ورد کررہے تھے ۔عیسا ئیوں کی یہ عبادت ان کو پسند آئی تحقیق

۱۴۱

کاشوق ہوا عیسائیوں سے مذہبی معلومات کی ۔روایت میں ہے کہ وہ عیسا ئی صحیح دین پر تھے ۔ وہ توحید خداوندی رسالت عیسی علیہ السلام کے اقرار کے ساتھ یہ بھی شہادت دیتے تھے کہ تحقیق محمد اللہ کے حبیب ہیں ۔ مسلمان کے خدا ،عیسی علیہ السلام او رمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا ۔ انھوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی سارے جہاں کا خالق وپروردگار ہے ۔اور عیسی بن مریم علیھما السلام اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ رسول مبشر ہے جو رسالت ونبوت کو ختم کرے گا ۔حضرت سلمان پر ان باتوں کا اثر ہوا اور تین دن متواتر معلومات میں اضافہ کیا ادھر ان کے والد ان کو تلاش کرتے تھے ۔سلمان پر جو نظر پڑی تو پکڑ لیا اور پوچھا کہ کہاں تھے ؟ آپ نے صاف صاف بتا دیا ۔ باپ نے بھانپ لیا کہ لڑکا اپنے آبائی دین سے باغی ہے ۔لہذا تھوڑا تشدد کیا اور انھیں بیڑیاں پہنا کر قید کرلیا ۔مگر تلاش حق کا جذبہ مضبوط ہوگیا ۔بود خشان کا خیال تھا یہ سختی بیٹے کو نئے عقیدے سے دستبردار کردے گی لیکن انھوں نے آزمایا کہ اذیت کی زیادتی ان کے عقیدے کو مزید سخت کررہی ہے لہذا آپ پر اور تشدد کیاجانے لگا ۔حتی کہ کوڑے تک لگائے گئے اپنے والد کے اس ظالمانہ رویہ سے عاجز آگئے ۔آدھی رات کو انھوں نے اپنے خدا واحد کی بارگاہ میں م اپنی حالت زار خضوع وخشوع سے عرض کی اور دعا مانگی کہ "اے خداوند! میرے دل کو شرک وبت پرستی کی کدورت سے پاک رکھ ۔میں تجھے تیرے حبیب کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس حبس سے رہا کر ۔ اپنے حبیب تک پہنچادے " خلوص دل سے دعا فرمائی تھی مستجاب ہوئی ۔ایک غیبی ندا آئی کہ روزبہ اٹھ

۱۴۲

اور قید خانہ سے نکل جا۔ آپ نے تعمیل کی اور اسی گرجا میں آئے ۔ایک عمر رسیدہ راہب چرچ سے باہر آیا اور اس نے خود ہی پوچھا کہ کیا تم ہی روزبہ ہو ؟آپ نے اثبات میں جواب دیا اور وہ بزرگ ان کو گرجا کے اندر لےگئے ۔اگر چہ سلمان دین مجوس کو شروع ہی سے ناقص سمجھتے تھے مگر ڈانوا ڈول تھے ۔اب عیسائیت کی پناہ میں انھیں کچھ قرار محسوس ہوا۔ آپ دن رات عیسائی علماء کی خدمت کرتے اور زہد وتقوی کی تعلیم دل لگا کرحاصل کرتے ۔آپ نے جس بزرگ کو روحانی سرپرست پسند کیا تھا وہ بھی ان کو بہت قریب رکھتے تھے ۔ان کی ذہانت وخدمت کے باعث جب اس کاآخری وقت آیا تو اس نے اپنے شاگرد رشید حضرت سلمان کو بلاکر کہا کہ موت برحق ہے اب میرا انتقال قریب ہے ۔حضرت سلمان نے عاجزانہ عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا لائحہ عمل کی تعلیم فرما جائیں جو مستقبل میں میری رہبری کے لئے مشعل راہ ہو ۔اس بزرگ نے نصیحت کی کہ تم میری ایک لوح لے کر انطاکیہ چلے جاؤ وہاں ایک راہب ہے وہ عموما شہر سے باہر رہتا ہے اس کو تلاش کرو اسے یہ لوح دے دینا اور اس کی خدمت میں میرا سلام پہنچا کر اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہوجانا ۔اور جو وہ تمھیں حکم دیے اس کی تعمیل کرنا ۔اس نصیحت کے بعد راہب کی روح پرواز کرگئی اور سلمان انطاکیہ روانہ ہوگئے ۔

جب سلمان انطاکیہ پہنچے تو انھوں نے تلاش کیا کہ شہر کے باہر ایک "دیر" ہے اس کے دروازے پر ایک بوڑھا بیٹھا ہے شکل ولباس سے راہب دکھائی دیتا ہے ۔سلمان نے قریب ہو کر باآواز بلند فرمایا "لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ ومحمد حبیب اللہ"یا یہ کہا

۱۴۳

"اشهد ان لا اله الا الله و ان عیسی روح الله و ان محمد حبیب الله " جب راہب نے سنا تو چونک کر دریافت کیا کہ تم کون ہو ۔سلمان نے نزدیک جک کر لوح اس راہب کے سپرد کردی۔لوح لینے پر راہب نے ان کو اپنے پاس ٹھہرالیا ۔ یہ بزرگ راہب تارک الدنیا اور عبادت گزار بندہ خدا تھا ۔دن رات عبادت الہی یمں مشغول رہتا تھا لہذا سلمان کو اس سے محبت ہوگئی ۔اور وہ ان کی خدمت کرنے لگے ۔ اور ساتھ ساتھ علمی و روحانی پیاس بھی بجھاتے رہے ۔سلمان اس بزرگ سے علمی اور عملی استفادہ حاصل کرنے کا کوئی موقعہ بھی ضائع نہ جانے دیتے تھے یہاں تک کہ اس راہب کا وقت آخر قریب ہوا۔اور اس نے سلمان کو نصیحت کی اب اس جگہ عیسائی کوئی نہیں رہا ہے تم یہ لوح لیکر سکندریہ کے راہب کے پاچلے جانا اور اس کی خدمت میں مشغول ہوجانا ۔چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان سکندریہ آئے اور اس راہب کی خدمت میں کافی عرصہ گزارا ۔مورخین کے بیان کے مطابق اسی طرح راہب در راہب حضرت سلمان جاتے رہے اور لوح منتقل ہوتی رہی ۔یہاں تک کہ آخری راہب تک پہنچے ۔اوراس کے آخری وقت پر اس سے التجا کی میں بہت دروازوں پر جاچکا ہوں اب تو آپ مجھے کسی ایسے کے ہاں روانہ کریں جس کے بعد کسی او رکی حاجت نہ ہو ۔راہیب نے کہا بس اب میری نظر میں کوئی ایسا شخص باقی نہیں ہے جس کے پاس تمھیں روانہ کروں ۔لہذا تمھیں مشورہ دیتا ہوں کہ محمد بن عبد اللہ بن

۱۴۴

عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کا وقت قریب ہے وہ ریگستان میں ظہور کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی ہجرت کرےگا یہ وہ ہی آخری رسول ہے جس کی خبر وبشارت بنی اسرائیل کے نبیوں نے دی ہے ۔اور اس کاذکر کتابوں میں موجود ہے اس کی علامتیں یہ ہیں کہ جو ہدیہ کو قبول کرے گا اور صدقہ کو رد کردے گا ۔ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی تم اس کی خدمت میں حاضر ہوکریہ لوح اسے پیش کردینا ۔

چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان اس نبی مبشر کی تلاش میں ریگستانوں کی خاک چھانتے رہے ۔یہاں تک کہ فقر وفاقے کی نوبت آگئی کہ تنگ آکر کچھ آدمیوں کے ایک مجمع میں اعلان کیا کہ جو شخص بھی میرے اخراجات کو برداشت کرے گا میں اس کی غلامی قبول کرلوں گا ۔ مدینہ میں ایک متمول زمیندار اس بات پر آمادہ ہوگیا مگر اس نے شرط عائد کی میں تمھیں مدینہ لے جاؤں گا اور تم وہاں میرے غلام بنکر میری خدمت کروگے عشق رسول کے سامنے یہ سود ا سلمان کوسستا نظر آیا ۔فورا آمادہ ہوگئے ۔جب دوران سفر لوگوں کو سلمان کے عقیدے اور مقصد سفر کی معلومات ہوئیں تو انھوں نے ان کا تمسخر اڑایا اور تکالیف پہنچا ئیں ۔مگر آتش عشق بجھنے کی بجائے بھڑکتی رہی ۔

سلمان مدینہ پہنچ گئے لیکن انھیں اپنے آقا کی خدمت سے اتنی فرصت وفراغت میسر نہ آسکی وہ خود اس رسول کا پتہ چلا تے ۔ایک دن وہ باغ میں کوئی خدمت انجام دے رہے تھے کہ

۱۴۵

کچھ لوگ باغ کے چشمے کے قریب آکر بیٹھ گئے چونکہ سلمان طبعا مہمان نواز اور تواضع کش تھے لہذا ایک تھا ل میں کچھ کھجوریں لیکر ان کے پاس پہنچے اور عیسائی طریقہ پر سلام کیا اور دعوت طعام کی خواہش فرمائی ۔ انھوں نے سلمان کی دعوت کو قبول کیا اور کھانا شروع کیا مگر ان میں سے ایک صاحب نے ان خرموں کو ہاتھ نہ لگایا ۔سلمان نے وجہ دریافت کی تو جواب پایا کہ "صدقہ مجھ پر اور میرے اہلبیت پر حرام ہے " سلمان نے پوچھا تم کون ہو " جواب دیا میں اللہ کا رسول ہوں " یہ سنکر سلمان واپس ہوئے اور خرمہ کا ایک دوسرا طبق لے کرآئے اور رسول کی خدمت میں ہدیہ کیا ۔آپ نے اس میں تناول فرمایا ۔سلمان کی دلی مراد پوری ہوئی۔پروانہ وار شمع رسالت کا طواف کرتے رہے ۔اور پشت مبارک پر ثبت مہر نبوت کی زیارت کاشرف پاتے ہی قدموں میں گرگئے اور فرمایا " اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد انک رسول اللہ " میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اس کے بعد حضرت سلمان نے راہب کی دی ہوئی لوح رسول خدا کے سپرد کردی ۔حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سلمان کے آقا کے پاس تشریف لےگئے ۔اور سلمان کو خرید کر آزاد کردیا ۔اور ارشاد فرمایا کہ تم "سلمان الخیر "ہو۔

حضرت سلمان کے ابتدا ئی حالات کو کئی طریقوں اور اختلافات سےبیان کیا گیا ہے تاہم ہمارے لئے سرکار خاتم النبین صادق وامین رسول کی زبان وحی بیان کا یہ ارشاد کافی ہے کہ حضور نے فرمایا ۔

"سلمان مجوسی نہیں تھے بلکہ وہ شرک کا اظہار کرتے تھے اور ایمان کو دل میں پوشیدہ کھے ہوئے تھے "

۱۴۶

حضور کی یہ شہادت سلمان کے ابتدائی حالات ایمان کی بحث کو ختم کردینے کے لئے کافی ہے ۔

روایات امامیہ سےیہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت سلمان فارسی کو حضرت عیسی علیہ السلام کے "وصی" ہونے کا روحانی اعزاز حاصل تھا ۔شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت سلمان نے اپنے گھر کی چھت میں ایک تحریر لٹکی ہوئی دیکھی اپنی والدہ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم بھی جب گھر واپس آئے تو اسے ایسے ہی لٹکا پایا ہے ۔تم اس کو مت چھونا ورنہ تمھارے والد تمھیں سزادیں گے ۔حضرت سلمان اس وقت خاموش ہورہے مگر رات کو جب تمام گھر والے سوگئے تو آپ نے اٹھ کر اس کامطالعہ فرمالیا لکھاتھا کہ ۔

"بسم اللہ الرحمان الرحیم ۔

یہ اللہ کاعہد ہے ۔آدم سے کہ وہ ان کے صلب سے ایک نبی خلق کرے گا جس کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا وہ اخلاقی بلندیوں کو حاصل کرنے کا حکم دےگا ۔ اور اصنام کی پر ستش سے منع کرے گا ۔ اے روزبہ ! تم عیسی ابن مریم کے وصی ہو اس لئے ایمان لاؤ اور مجوسیت سے دور رہو ۔اور اس سے بے زاری کا اعلان کرو۔"

اما م جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ عیسی او محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان پانچسو سال کا عرصہ ہے جس میں ڈھائی سو سال ایسے ہیں جن میں نہ تو کوئی نبی تھا اور نہ ظاہری عالم ۔راوی نے عرض کیا پھر لوگ کس دین پر تھے ؟ فرمایا وہ دین عیسوی پر تھے ۔ پوچھا وہ لوگ کیا تھے ؟ فرمایا وہ مومن تھے پھر ارشاد کیا کہ زمین اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک اس میں عالم موجود نہ ہو ۔ شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ جو لوگ حجت خدا کی تلاش میں جگہ بجگہ منتقل ہوتے رہے ان میں سلمان بھی ہیں ۔وہ ایک عالم سے دوسرے عالم اور ایک فقیہ سے دوسرے فقیہ تک پہنچے

۱۴۷

رہے اور اسرار واخبار میں تدبر کرتے رہے اور حضور کے ظہور کے منتظر رہے ۔ پھر لکھا ہے کہ جناب سلمان حضرت عیسی کے وصی کے وصی تھے اسی طرح ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ سلمان حضرت عیسی کے آخری چند اوصیاء میں سے تھے ۔ اس کے ثبوت میں ملا حسین نوری طبرسی نے ایک دلیل پیش کی ہے جو قابل غور ہے ، سلمان کی وفات کے بعد سید الاوصیاء امیر المومنین علیہ السلام نے انھیں غسل دیا حالانکہ بظاہر سلمان مدائن میں تھے اور جناب امیر مدینہ میں تھے کرامت کے ذریعہ اتنی دور تشریف لے جانے کی غالبا وجہ یہی تھی کہ وصی کو نبی یا وصی غسل دے سکتا ہے ۔پھر لوح کا مختلف وسائل کے ذریعے آنحضرت تک پہنچا نا بھی اس بات کا امکانی ثبوت ہے ۔

بہر حال قبل از اسلام کے حالات سے سلمان کو ایک مسلم دینی حیثیت ضرور حاصل تھی اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے ان کو ایک طرف شدائد ومصائب کا مقابلہ کرنا پڑا تو دوسری طرف سنگین دشوار یوں سے دوچار ہوئے ۔یہ تمام آلام اور ناگواریاں انتہائی صبر وتحمل سے برداشت کرنا حضرت سلمان کے جذبہ حب دین ومعرفت الہی کے ذوق اور شوق زیارت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاآئنہ دار ہے ۔حقیقی دین عیسوی سے وابستہ علماء کی صحبت او رفیض ربّانی نے یوں تو حضرت سلمان کو سونا بنا دیا تھا مگر جب آپ کو کائنات کے سب سے بڑے ہادی رحمۃ العالمین کا سایہ رحمت وشفقت نصیب ہوا تو آپ پارس ہوگئے ۔سرور کائنات کی صحبت کا رنگ ایسا پکڑا کہ صحابی سے "منّا اهلبیت " قرار پائے ۔آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر قول وعمل کو اپنی زندگی کا جزو لا ینفک بنائے رکھا ۔سلمان کا منشور زندگی صرف سنت رسول کی پیروی ۔آل رسول (ع) کی محبت واتباع اور کتاب الہی کی مطابقت تھی ۔ اسی وجہ سے

۱۴۸

جو فضائل ان کو نصیب ہوئے کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہ ہوسکے ۔حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں سلمان کے بارے میں کیا کہوں وہ ہماری طینت سے خلق ہوئے ہیں جس کی روح ہماری روح سے ہم آہنگ ہے ۔خداوند تعالی نے سلمان کو علوم اول وآخر اور ظاہر وباطن سے سرفراز کیا ہے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلمان مجلس رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حاضر تھے کہ اچانک ایک عربی آیا ۔ اس نے حضرت سلمان کا ہاتھے پکڑا اور انھیں اٹھا کر ان کی جگہ پر بیٹھ گیا آنحضرت یہ منظر دیکھکر اتنے آزردہ خاطر ہوئے کہ چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا اور پیشانی اقدس پر قطرات عرق نمودار ہوئے اور اس حالت میں ارشاد فرمایا کہ" تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے خدا دوست رکھتا ہے تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے میں دوست رکھتا ہوں تو اس شخص کو مجھ سے دور کر رہے ہو جس کی منزلت یہ کہ جب بھی جبرئیل مجھ پر نازل ہوتا ہے تو خدا کا سلام اس کے لئے لاتا ہے ۔یقینا سلمان مجھ سے ہے ۔خبردار! تم سلمان کے بارے میں غلط خیال نہ قائم کرو ۔خدا نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں سلمان کو لوگوں کی اموات اور بلاوؤں اور ان کے نسب ناموں کا علم دے دوں ۔اور انھیں ان چیزوں سے آگاہ کردوں جو حق وباطل کو جدا کرنے والی ہیں "۔

وہ عرب (ممکن ہے کہ وہ صحابی حضرت عمر ہو) صحابی جس نے حضرت سلمان کو اپنے زعم میں سمجھ کر اٹھایا تھا ۔ارشاد ات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سنکر گھبراگیا اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )میں یہ گمان بھی نہ کرسکتا تھا کہ سلمان ان مراتب جلیلہ پر فائز ہے ۔

۱۴۹

کیا وہ مجوسی نہیں جو بعد میں مسلمان ہوا ۔ حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میں تو خدا کی نظر میں سلمان کے درجے کوبیان کررہا ہوں اور تم خیال کررہے ہوکہ وہ مجوسی تھا ۔وہ (ہرگز ) مجوسی نہ تھا ۔ صرف اس کا اظہار کرتا تھا (تقیہ میں تھا)اور ایمان اس کے دل میں پوشیدہ تھا "

علمی مقام:-

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا میں نے ایک روز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سلمان کے بارے میں سوال کیا حضور نے فرمایا ۔

"سلمان دریائے علم میں کوئی اس کی تھاہ تک نہیں پہنچ سکتا اس کو اول وآخر کے علم سے مخصوص کیا گیا ہے خدا اسے دشمن رکھے جو سلمان کو دشمن رکھتا ہے اور خدا اس کو دوست رکھے جو سلمان کو دوست رکھتا ہے "

اما م محمد باقر علیہ السلام نے فضیل بن یسار سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ سلمان اوّل وآخر علم کو جانتے تھے اس سے کیا مطلب ہے ؟۔فضیل نے جواب دیا یعنی وہ علم بنی اسرائیل اور علم رسالت مآب سے آگاہ ہوگئۓ تھے ۔ امام معصوم نے فرمایا نہیں یہ مطلب نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ علم پیغمبر اور امیر المومنین اور آنحضرت اور امیر المومینین کے عجیب وغریب امور سے آگاہ تھے ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام س ے مروی ہے سلمان نے علم اوّل اور علم آخر معلوم کیا اور وہ دریا علم تھے کہ جن کا علم ختم ہونے والا نہ تھا اور وہ ہم اہل بیت سے ہیں ۔ان کا علم اس درجہ پر پہنچا ہوا تھا کہ ایک روز ان کا گزر ایک شخص کی طرف ہوا جو ایک مجمع میں کھڑا تھا ۔سلمان نے اس شخص سے کہا اے بندہ خدا !پروردگار

۱۵۰

عالم سے توبہ کر اس فعل سے جو کل رات تو نے اپنے مکان میں کیا ہے یہ کہکر سلمان چلے گئے ۔لوگوں نے اس شخص کو ابھارنا چاہا کہ سلمان نے تم پر ایک بدی کی تہمت باندھی ہے اور تونے بھی اس کی تردید نہ کی اس نے جواب دیا کہ سلمان نے مجھے اس امر سے آگاہ کیا ہے جس کو میرے اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا ۔(علمائے کے نزدیک یہ شخص اول خلیفہ اہلسنت حضرت ابو صدیق تھے )۔

روایت ہے کہ جب سلمان ایک اونٹ کو دیکھتے (جس کو لوگ عسکر کہتے تھے اور حضرت عائشہ جمل کے دن اس پر سوار ہوکر تازیانہ مارتی تھیں )تو اس اونٹ سے اظہار نفرت کرتے تھے لوگوں نے "سلمان " سے کہا کہ اس جانور سے آپ کو کیا پرخاش ہے ۔آپ نے جواب دیا یہ جانور نہیں بلکہ عسکر پسر کنعان جنی ہے ۔ جس نے یہ صورت اختیار کی ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے ۔پھر اس اورنٹ کے مالک اعرابی س کہا کہ تیرا یہ اونٹ یہاں بے قدر ہے ۔اس جو "حواب" کی سرحد پر لے جا ۔اگر وہاں لے جائے گا تو جو قیمت چاہے گا مل جائے گی ۔امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ لشکر عائشہ نے اس اونٹ کو سات سو درہم میں خرید کیا ۔جبکہ وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کے لئے جارہے تھے ۔یہ واقعہ بھی حضرت سلمان کے علمی کی تائید کرتا ہے کہ جنگ جمل سے برسوں قبل اس کی اطلاع کردی ۔

امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ سلمان فارسی حکیم لقمان کے مانند ہیں ۔

ابن بابویہ نے بسند معتبر امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک روز جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں کون ہے جو تمام سال روزہ رکھتا ہے ۔سلمان

۱۵۱

نے کہا میں ہوں ۔حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھرمایا تم میں کون ہے جو ہمیشہ شب بیدار رہے ؟۔ سلمان نے عرض کی میں ہوں ۔پھر حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا تم میں کون ہے جوہر روز ایک قرآن ختم کرتا ہے ۔سلمان نے کہا میں ہوں ۔یہ سنکر حضرت عمر بن خطاب کو غصہ آیا اور بولے یہ شخص فارس کا رہنے والا یہ چاہتا ہے کہ ہم قریشیوں پر فخر کرے ۔ یہ جھوٹ بولتاہے اکثر دنوں کو روزہ سے نہیں تھا ۔اکثر راتوں کو سویا کرتا ہے ۔اور اکثر دن اس نے تلاوت نہیں کی ۔ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا وہ لقمان حکیم کے مانند ومثل ہے ۔تم اس سے پوچھو وہ جواب دیں گے ۔ حضرت عمر نے پوچھا تو حضرت سلمان نے جواب دیک کہ تمام سال روزہ کے بارے میں یہ ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھتا ہوں ۔اور خدا فرماتا ہے کہ جو شخص ایک نیکی کرتا ہے تو اس کو دس گنا ثواب دیتا ہوں ۔اس لئے یہ تمام سال کے روزوں کے برابر ہوا ۔باوجود اس کے ماہ شعبان میں بھی روزے رکھتا ہوں ۔اور ماہ مبارک رمضان سے ملا دیتا ہوں ۔اور ہر رات شب بیداری کے یہ معنی ہیں کہ ہر رات با وضو سوتا ہوں ۔اور میں نے حضور سے سنا ہے کہ جو شخص باوضو سوتا ہے ایسا ہے کہ تمام رات عبادت میں بسر کی اور ہر روز ختم قرآن کے بارے میں یہ ہے کہ ہرروز میں تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لیتا ہوں اور میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا کہ اے علی تمھاری مثال میری امت میں "قل ھو اللہ احد " کی مثال ہے جس نے سورہ قل ھو اللہ ایک مرتبہ پڑھا ایسا ہے کہ اس نے ثلث (ایک تہائی )قرآن کی تلاوت کی جس نے دومر تبہ پڑھا تو اس نے دوتہائی کی تلاوت کی اور جس نے تین مرتبہ پڑھا تو ایسا ہے کہ اس نے قرآن ختم کرلیا ہے اور اے علی (ع) جو شخص تم کو زبان سے دوست رکھتا ہے اس کو

۱۵۲

ثلث(ایک تہائی)ایمان حاصل ہوتا ہے ۔اورجو شخص زبان اور دل سے تمھیں دوست رکھتا ہے اس کو دو ثلث ایمان مل گیا ۔اور جو شخص زبان ودل سے تم کو دوست رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے تمھاری مدد کرتا ہے تو تمام ایمان اس کو حاصل ہوگیا ۔اے علی اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ۔اگر تم اہل زمین بھی اسی طرح دوست رکھتے جس طرح اہل اسمان دوست رکھتے ہیں تو خدا کسی قسم جہنم میں عذاب نہ کرتا ۔یہ سنکر حضرت عمر خاموش ہوگئے جیسے ان کے منہ میں خاک بھر گئی ہو۔

حضرت یعقوب کلینی نے امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان اور ابوذر کے درمیان صیغہ اخوت پڑھا تھا اور ابوذر پر یہ شرط عائد کی تھی وہ کبھی سلمان کی مخالفت نہ کریں گے اس لئے کہ سلمان کو ان علوم میں دسترس حاصل ہے جن کا ابوذر کو علم نہیں ۔

روایت ہے کہا ایک روز حضرت ابوذر اپنے بھائی حضرت سلمان کےگھر آئے ۔سلمان کا پیالہ شوربہ اور چربی سے بھر ہوا تھا دوران گفتگو یہ پیالہ الٹا ہوگیا مگر اس میں سے کچھ نہ گرا ۔سلمان نے اسے سیدھا کیا اور پھر مصروف گفتگو ہوئے ۔ابوذر کو یہ دیکھکر حیرت ہوئی اچانک پیالہ پھر اوندھا ہوا ۔لیکن پھر شوربا وغیرہ نہ گرا۔ اس سے ابوذر کا تعجب دہشت میں تبدیل ہوگیا ۔وہان سے اٹھے اور غور کرنے لگے کہ اچانک وہاں امیر المومنین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ جناب امیر (علیہ السلام ) نے ابوذر سے پوچھا کہ تم سلمان کے ہاں سے واپس کیوں آگئے اور گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟ ابوذر نے ماجرا بیان کیا حضرت امیر (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا "اے ابوذر ! اگر سلمان تم کو وہ امور

۱۵۳

بتادیں جو وہ جانتے ہیں تو یقینا تم کہوگے کہ سلمان کےقاتل پر خدا رحمت نہ کرے ۔اے ابوذر بے شک سلمان زمین میں خدا کی درگاہ ہیں جو ان کو پہچانے وہ مومن ہے ۔جو ان سے انکار کرے وہ کافر ہے بے شک سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں ۔

شیخ مفید لکھتے ہیں کہ جناب امیر حضرت سلمان کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا کہ اے سلمان اپنے مصاحب کے ساتھ مدارات کرو اور ان کے سامنے وہ امور ظاہر نہ کرو جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے "

حضرت امام باقر سے روایت ہے کہ علی علیہ السلام محدث تھے اور سلمان محدث یعنی ملائکہ دونوں حضرات سے باتیں کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ سلمان کا محدث ہونا یہ کہ ان کے امام ان سے حدیث بیان کرتے اور اپنے اسرار ان کو تعلیم کرتے تھے نہ یہ کہ براہ راست خدا کی جانب سے ان کو کلام پہنچتا تھا ۔ کیوں کہ حجت خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو خدا کی جانب سے کوئی بات نہیں پہنچتی ۔علامہ مجلسی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ یہاں جس امر سے نفی کی گئی ہے ممکن ہے وہ خداکا بے واسطہ ملک کلام کرنا ہو اور فرشتے جناب سلمان سے گفتگو کرتے تھے ۔

چنانچہ ایک مقام پر حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت سلمان کے محدث ہونے کا مطلب یہ کہ ایک فرشتہ ان کے کان میں باتیں کرتا تھا دوسری جگہ ہے کہ ایک بڑا فرشتہ ان سے باتیں کرتا تھا ۔ ایک شخص نے تعجب سے دریافت کیا کہ جب سلمان ایسے تھے تو پھر امیر المومنین علیہ السلام کیسے رہے ہونگے ۔حضرت نے جواب دیا اپنے کام سے سروکار رکھو اور ایسی باتوں سے غرض مت رکھو (یعنی کرید نہ کرو)ایک موقعہ

۱۵۴

پر فرمایا کہ ایک فرشتہ ان کے دل میں ایسا اور ویسا نقش کرتا تھا ۔ایک حدیث میں ہے ک سلمان متمو سمین میں سے تھے کہ لوگوں کے احوال فراست سے معلوم کرلیا کرتے تھے ۔ایک حدیث معتبر میں ہے کہ امام صادق نے ارشاد فرمایا کہ سلمان اسم اعظم جانتے تھے ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام کے سامنے تقیہ کا ذکر آیا ۔جناب امیر نےفرمایا اگر ابوذر سلمان کے دل میں جوکچھ جان لیتے تو یقینا ان کو قتل کردیتے ۔حالانکہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا تھا ۔پھر دیگر تمام لوگوں کے بارے میں کیا گمان کرتے ہو۔

یہ حدیث بھی جناب سلمان کے بلند مرتبہ عملی کی تائید میں ہے کہ جناب ابوذر پر جناب سلمان کی علمی فوقیت ثابت کرتی ہے کہ حضرت ابوذر ان علوم واسرار الہی کے متحمل نہیں ہوسکتے جو کہ سلمان پر منکشف تھے ۔

شیخ طوسی نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلمان کے اصحاب میں سے ایک صاحب بیمار ہوئے چند روز تک اس سے ملا قات نہ ہوئی تو اس کا حال دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے ۔لوگوں نے بتایاوہ بیمار ہے ۔سلمان نے فرمایا چلو اس کی عیادت کریں ۔غرض لوگ ان کے ہمراہ چلے اور اس شخص کے گھر پر پہنچے ۔اس وقت وہ عالم جان کنی میں تھا ۔جناب سلمان رحمۃ اللہ علیہ نے ملک الموت سے خطاب کیا کہ خدا کے دوست کے ساتھ نرمی اور مہربانی کرو ملک الموت نے جواب دیا جسے تمام حاضرین نے سنا کہ اے ابو عبداللہ

۱۵۵

میں تمام مومنین کے ساتھ نرمی کرتا ہوں اور اگر کسی کے سامنے اس طرح آؤں گا کہ وہ مجھے دیکھے تو بے شک وہ تم ہوگے ۔

ایک روز سلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں داخل ہوئے ۔صحابہ نے ان کی تعظیم فرمائی اور ان کو اپنے اوپر مقدم کرکے صدر مجلس میں ان کے حق کو بلند کیا او ران کی پیروی وتعظیم کی ۔برائے اختصاص جو ان کو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آل سے تھا ۔ جگہ دی پھر حضرت عمر آئے اور دیکھا کہ وہ صدر مجلس میں بٹھائے گئے ہیں ۔یہ دیکھ کر وہ بولے یہ عجمی کون ہے ؟ جو عربوں کے درمیان صدر مجلس میں بیٹھاہے یہ سنکر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشریف لے گۓ ۔اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ حضرت آدم کے زمانہ سے اس وقت تک کہ تما آدمی کنگھی کے دندانوں کف مثل برابر ہیں کوئی فضلیت نہیں ہے عربی کو عجمی پر ،نہ کسی سرخ وسفید کو کسی سیاہ پر مگر تقوی او رپرہیزگاری کے سبب سے ۔

سلمان ایک دریا ہے جو ختم نہیں ہوتا اور ایک خزانہ ہے جو تما م نہیں ہوتا ۔سلمان ہم اہلبیت سے ہیں سلمان حکمت عطاکرتے ہیں اور حق کی دلیلیں ظاہر کرتے ہیں ۔

استیعاب میں معرفۃ الاصحاب میں ہے کہ حضور نے فرمایا " اگر دین ثریا میں ہوتا تو سلمان یقینا وہاں تک پہنچ کر اسے حاصل کرلیتا"

جہاد:-

حضرت سلمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ کی قبل از اسلام زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی طبیعت روحانیت ۔زہد عبادت اور معرفت کی طرف مائل رہی ۔ اور جنگ وجدل یا سپاہ گری سے ان کا کسی طرح سےبھی کوئی تعلق نہ رہا انھوں نے کسی جنگ یا

۱۵۶

لڑائی میں شرکت نہ کی بلکہ گھر س ے نکل کر عبادت خانوں میں گوشہ نشین یا تارک الدنیا بنکر اپنی روح کو مفرح ومنور کرنے کی کوشش میں مصروف رہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے پر چم تلے آتے ہی وہ ایک ممتاز مجاہد اور کہنہ مشق سپاہی ثابت ہوتے ہیں ۔ آپ کی اسلامی زندگی میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان نے نہ صرف جہادوں میں شرکت ہی کی بلکہ بعض موقعوں پر ان کو سپہ سالار مقرر کیا گیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو خاص علم وتفضل کی بدولت فنون حرب اور علم معرکہ آرائی سے بخوبی واقفیت اور کامل دسترس حاصل تھی بدر واحد کی لڑائیوں میں سلمان شریک نہ ہوئے ۔مگر سنہ ۵ ھجری میں جنگ خندق میں آپ کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہوئی ۔ حضرت سلمان پہلی مرتبہ جنگ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے ۔اس جنگ میں پورا عرب مسلمانوں کے مقابلہ میں آیا تھا اور شہر مدینہ کا محاصرہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہا تھا ۔ شہر کی نہ ہی کوئی شہرپناہ تھی اور نہ ہی فصیل ۔لشکر کی تعداد بھی قلیل تھی جبکہ دشمن کی فوج کے غول سرپر منڈلا رہے تھے مسلمانوں کی نبض ڈوبی ہوئی تھیں اور کافر متکبر انہ آواز یں کس رہے تھے حضور کو حضرت سلمان نے مشورہ دیا کہ ایرانی طرز کی ایک خندق کھودلی جائے اسے قبول کر لیاگیا اور بمطابق وحی حضور نے خندق کھودنے کا حکم زیر نگرانی حضرت سلمان صادر فرمایا ۔اس خندق کا کھودنا کفار کے ارادوں کو دفن کرنے کی تعبیر ثابت ہوا ۔جب انھوں نے یہ نئی چیز دیکھی تو ششدر رہ گئے ۔عمرہ بن عبدود جیسے بہادر جس کا نام سنکر حضرت عمر جیسے بہادر کا دل ڈوب جاتا تھا ۔خندق کے کنارے ڈھاریں

۱۵۷

مارتا اور دیگر پہلوان باتیں بنارہے تھے کہ مسلمانوں نس یہ ایسا حیلہ کیا ہے کہ ہم عرب اس سے قطعی ناواقف ہیں انھوں نے بائیس روز سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح مدینہ تک پہنچ سیکیں لیکن ایک نہ چلی آخر تنگ آکرطعن وتشیع پر اتر آئے حضور کو گستاخانہ طریقوں سے مبارزہ طلبی کی ۔آخر حضرت علی علیہ السلام نے عمروبن عبدود کو واصل جہنم کیا اور یہ فوج کثیر دم دبا کر طائف کی طرف بھگ گئی ۔جنگ فتح ہوئی ‏غزوہ خندق کے بعد کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ شریک نہ ہوئے ۔پیران سالی کے باوجود آپ نس ہرلڑائی یمں داد شجاعت دی ۔

جب جنگ احزاب کے موقعہ پر خندق کھودی جارہی تھی تو مسلمان مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر کام کر رہے تھے ۔خود سرورکائینات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دست مبارک سے کھدائی کا کام کررہے تھے آپ کا جسم مبارک مٹی سےاٹا ہوا تھا اور آپ کی زبان وحی بیان پر رجز جاری تھا سلمان ضعیف العمری کے باوجود تنومند اور قوی الجثہ تھے ۔ انصارو مہاجرین دونوں ان کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند تھے مہاجر کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہے ۔جب اس بات کا چرچا حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہونچا تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سلمان کا ہاتھ تھام کر فرمایا "سلمان منا اھل البیت " سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ اس موقعہ کے بعد متعدد بار یہ جملہ ارشاد فرمایا ۔

اہل سنۃ کے جلیل القدر امام محی الدین ابن عربی نے اس حدیث سے حضرت سلمان کی عصمت وطہارت پر استلال کیا ہے اور کہتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک بندہ خاص ومخلص تھے اس لئے اللہ نے ان کے اہل بیت کی ایسی تطہیر کی جو تطہیر کا حق تھا ۔ اور ان سے رجس

۱۵۸

اور ہرعیب کودوررکھا اور رجس عربی زبان میں گندگی کو کہا جاتا ہے پھر آیت تطہیر "انما یرید اللہ لیذھب ۔۔الخ" کے بعد کہا کہ جس شخص کو بھی اہلبیت کی طرف نسبت دی جائے گی ۔اس کا مظہر ہونا ضروری ہے اس کے بعد تحریر کیا کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سلمان کو اہلبیت میں شامل کرنا انکی طہارت ۔خدائی حفاظت اور عصمت کی گواہی دیتا ہے ۔"

علامہ مجلسی نے بصائر الدرجات سے فضل بن عیسی کی ایک روایت حیات القلوب میں نقل کیا ہے کہ فضل کہتے ہیں ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔میرے والد بزرگوار نے عرض کی کیا ہے صحیح ہے جناب رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہر کہ سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ امام نے فرمایا ہاں ۔میرے والد نے پوچھا کیا وہ عبد المطلب کی اولاد میں سے ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا وہ اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے والد نے عرض کیا کہ کیا وہ ابوطالب (علیہ السلام )کی اولاد میں ہیں ؟ حضرت نے فرمایا کہ وہ ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے پدر بزرگوار نے کہا کہ میں سرکار کا مطلب نہیں سمجھ سکا ۔ حضرت صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں ہے ۔جیسا کہ تم نے سمجھا ہے ۔بے شک خدا نے ہماری طینت علیین سے خلق فرمائی اور ہمارے شیعوں کی طینت اس سے ایک درجہ پست خلق فرمائی لہذا وہ ہم میں سے ہیں اور ہمارے دشمنوں کی طینت سجین سے خلق فرمائی اور ان کے دوستوں کی طینت ان سے ایک درجہ پست خلق کی لہذا وہ لوگ ان سے ہیں اور سلمان حضرت لقمان سے بہتر ہیں ۔

اسلامی نقطہ نظر سے جب قتال ناگزیر ہوتو اہل کتاب سے لڑائی کرنے سے قبل دعوت اسلام دی جاتی ہے اگر وہ مسلمان ہونا

۱۵۹

پسند نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کرکے آمادہ جنگ ہوجائیں تو تلوار ہاتھ میں لینا پڑتا ہے ۔چنانچہ چنگ خیبر کے موقعہ پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو یہی ہدایت کی تھی کہ ہم پہلے انھیں خدا کی توحید اور اور میری رسالت کی دعوت دینا بصورت انکار مطالبہ جزیہ کرنا اور اگر وہ پھر بھی لڑائی پر مصر رہیں تو ان سے جنگ کرنا ۔چنانچہ حضرت سلمان ان جنگی اخلاق سے بخوبی واقف تھے ۔ لہذا ہمیشہ اس پرعامل رہے ۔ چنانچہ ایک موقعہ پر وہ ایک لشکر کے امیر مقرر کئے گئے اور ان کو فارس کے ایک قلعہ کو فتح کرنے کی مہم پر مامور کیا گیا ۔جب آپ اپنی سپاہ کے ساتھ قلعہ کے نزدیک گئے تو تامل فرمایا ۔لوگوں نے پوچھا کیا آپ اس قلعہ پر حملہ نہیں کریں گے فرمایا نہیں جس طرح رسول خدا پہلے دعوت اسلام دیتے تھے اسی طرح میں بھی ان کو دعوت دوں گا پھر سلمان ان کے پاس تشریف لےگئے اور کہا کہ میں بھی تمھاری طرح فارس کا باشندہ ہوں تم دیکھ سکتے ہو کہ عرب میری اطاعت کر رہے ہیں اگر تم دل سے اسلام لےآؤ گے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو ہم تم پر کوئی زبردستی نہیں کریں گے صرف تم سے جزطلب کریں گے ۔اور اگر پھر بھی تم بر سر جنگ نظر آؤگے تو پھر میرے لئۓ جنگ ضروری ہوگی ۔اہل قلعہ نے جواب دیا کہ نہ ہی ہم تمھارا دین قبو ل کریں گے اور نہ ہی کوئی جزیہ دینا منظور کریں گے بلکہ تمھارا مقابلہ کریں گے ۔ اس پر لشکر سلمان نے حملہ کرنے کا اذن طلب کیا مگر آپ نے جواب دیا نہیں ابھی رک جاؤ ۔ان کو غور کرنے کا موقعہ دو ۔ آپ نے تین روز انتظار کیا اور پھرچوتھے دن حملے کا حکم دیا ۔اور قلعہ فتح کیا ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296