فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 118251
ڈاؤنلوڈ: 5310


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118251 / ڈاؤنلوڈ: 5310
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سوال نمبر۔2

صحابہ کو گالیاں دینا یا ان کی تکفیر کرنا کیا شیعہ حضرات کی طرف مذکورہ بالا عمل کو منسوب کرنا صحیح ہے؟خصوصاً ابوبکر،عمر اور عثمان کی تکفیر،کیا شیعہ ان حضرات کی تکفیر کے قائل ہیں اور اسی طرح عائشہ کے بارے مین بھی مشہور ہے کہ شیعہ انہیں مسلمان نہیں سمجھتے،کیا یہ صحیح ہے؟

جواب:آپ کے سوال میں دو باتوں کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔

1۔تکفیر:(یعنی کافر قرار دینا)عرض ہے کہ شیعہ صحابہ کی تکفیر کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ تو عام مسلمانوں کی تکفیر کے بھی قائل نہیں ہیں اگر چہ ان کے فرقے الگ الگ ہیں اور ان کا نظریہ اسلام کی حقیقت اور اس کے ارکان کی حدوں کی بنیاد پر ہے پھر ان کے علما کے فتوے اور ان کی تصریحات بھی ایک سبب ہے۔

شیعوں کے نزدیک کفر و اسلام کا معیار

سماعہ کی موثق حدیث ملاحظہ ہو،کہتے ہیں میں نے ابوعبداللہ(جعفر صادق علیہ السلام)سے پوچھا کہ آپ مجھے اسلام اور ایمان کے بارے میں بتائیں کیا یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں؟حضرتؑ نے فرمایا ایمان میں اسلام شریک ہے لیکن اسلام میں ایمان کی مشارکت نہیں ہے میں نے کہا ان کی تعریف کردیں۔

۴۱

فرمایا:وحدانیت پروردگار اور تصدیق رسالت اسلام ہے اسی بنیاد پر خون حرام ہوتا ہے اور نکاح و میراث جاری ہوتے ہیں اور لوگوں کی جماعت اسی طاہری رح پر عامل ہے اور ایمان ہدایت ہے....)(1)

سفیان بن سمط کی حدیث ملاحطہ ہو:ایک شخص نے ابوعبداللہ سے اسلام اور ایمان کے درمیان فرق کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:اسلام وہ ظاہری رخ ہے جس پر عام لوگ ہیں یعنی لا الہ الا اللہ کی شہادت اور حضور سرور کائنات کی عبدیت اور رسالت،نماز کا قائم کرنا،کو ٰۃ دینا حج کرنا،رمضان کے روزے رکھنا بس یہی سب اسلام ہے۔(2)

حمران بن اعین کی حدیث میں منقول ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب ابوجعفر یعنی امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ ایمان وہ ہے جو دل میں جگہ بنالے اور بندے کو خدا تک پہنچائے اور بندے کا عمل خدا کی اطاعت اور اس کی ذات کے لئے سپردگی کے ذریعہ ایمان کی تصدیق کرتا ہو اور اسلام وہ ہے جو قول اورفعل سے ظاہر ہو،اسلام ہی کی بنیاد پر خون کا تحفظ،نکاح و میراث کا جریان اور نکاح کا جواز حاصل ہوتا ہے جولوگ نماز،زکوٰۃ،روزہ اور حج کی بنیاد پر جمع ہوئے ہیں اور کفر کے دائر سے اسی بنیاد پر الگ سمجھے جاتے ہیں۔(3) اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے اقرار توحید و رسالت اور ضروریات دین کا اعتراف کافی ہے اور یہ بھی کہ مسلمانوں کے دورسرے فرقے جو شیعہ نہیں ہیں وہ اسلام سے خارج نہیں ہیں،ان کا خون اور مال حرام ہے مگر یہ کہ وہ حق کے ذریعہ ہو۔البتہ نواصب کی بات دوسری ہے،وہ لوگ ہیں جو اہل بیت اطہار علیہم السلام کے دشمن ہیں،ان کا تفصیلی تعارف ہم اس کتاب میں نہیں پیش کرسکتے اور ضرورت بھی نہیں سمجھتے اس لئے کہ موضوع گفتگو وہ نہیں دوسرے لوگ ہیں بہرحال تمام علمائے شیعہ کفر و اسلام کے مذکورہ بیان پر متفق ہیں ہر دور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)اصول کافی ج:2ص:25۔کتاب ایمان و کفر،باب ایمان اسلام میں شریک ہے۔

(2) اصول کافی ج:2ص:24۔کتاب ایمان و کفر،باب ایمان اسلام میں شریک ہے۔

(3) اصول کافی ج:2ص:26۔کتاب ایمان و کفر،باب ایمان اسلام میں شریک ہے۔

۴۲

میں علمائے شیعہ اسی نظریہ کے قائل رہے تھے اور ہیں اگر کوئی شخص اس سلسلے میں شیعوں کی رائے جاننا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ علماء شیعہ کے فتووں کی کتابیں اور عملیہ دیکھے،اس کو یہ اصول ہر کتاب میں جاری و ساری ملے گا،طہارت،نکاح،ذباحۃ،میراث اور قصاص،غرض ہر جگہ مندرجہ بالا معیار کو سامنے رکھ کر فتوے دئیےگئے ہیں اور چونکہ علماء شیعہ اس معاملے میں تقیہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اس لئے انہوں نے اسلام کے ساتھ کہیں کہیں ایمان کی بھی شرط رکھی ہے جس کو دیکھا جاسکتا ہے۔

مذکورہ بالا کفر اسلام کے معیار کو ثابت کرنے کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں شرائع الاسلام کی ایک عبارت آپ کی خدمت میں پیش کردوں۔

شرایع اسلام شیعوں کی مشہورترین فقہی کتاب ہے جو حوزات علمیہ میں پڑھائی جاتی ہے اور بہت سے فقہا نے اس کی شرح لکھی ہے،اس کتاب کی عبارت پر بقیہ مصادر کا قیاس کیا جاسکتا ہے،ملاحظہ ہو،غسل میت کی بحث میں علامہ فرماتے ہیں:

ہر وہ آدمی جو کلمہ شہادتین کا اظہار کرے اسے غسل دینا جائز ہے،سوائے خوارج،غلاۃ اور شہید کے۔(1)

دوسری جگہ کتاب الحدود میں مرتد کی حد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں،اسلام کا کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے اور اگر اس کلمہ کے ساتھ کوئی یہ بھی کہتا ہے کہ میں اسلام کے علاوہ ہر دین سے بری ہوں تو اس کا اسلام مزید موکد ہوجاتا ہے۔(2)

نماز میت کے سلسلے میں فرماتے ہیں:ہر اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے جو کلمہ شہادتین کا اظہار کرتا ہو اور اس بچّے کی بھی نماز ہوسکتی ہے جو چھ سال کا ہوا اور حکم اسلام میں داخل ہو(3)

نجاسات کے سلسلے میں فرماتے ہیں:دسویں نجاست کافر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرایع الاسلام ج:1ص:37۔

(2)شرایع الاسلام ج:4ص:185۔186۔

(3)شرایع الاسلام ج:1ص:104۔105۔

۴۳

اصول یہ ہے کہ کافر وہ ہے جو اسلام سے خارج ہو یا جو خود کو مسلمان تو کہتا ہو لیکن ضروریات دین کا منکر ہو جیسے خوارج اور غلاۃ۔کتاب نکاح میں عقد کے لواحق کے بارے میں فرماتے ہیں:

مسئلہ نمبر1:

نکاح میں دونوں کا کفو ہونا شرط ہے،کفو سے مراد یہ ہے کہ دونوں مسلمان ہوں اور نکاح میں ایمان کی شرط ہے یا نہیں تو اس کے بارے میں دور روایتیں ہیں،اظہر یہ ہے کہ محض اسلام پر اکتفا کیا جائے اگر چہ ایمان کا لحاظ رکھنا مستحب موکد ہے خصوصاً زوجہ کی طرف سے ایمان کی شرط زیادہ ضروری ہے اس لئے کہ عورت اپنے شوہر کے مذہب کو اختیار کر لیتی ہے البتہ نکاح ناصبی سے صحیح نہیں ہے۔(1) جو اعلانیہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمن ہیں اس لئے کہ عداوت اہل بیت علیہم السلام کا ارتکاب دین اسلام کو باطل کردیتا ہے۔(3) ذباحۃ کے بارے میں فرماتے ہیں:ذبح کرنے والے کا مسلمان ہونا ضروری ہے،بت پرست کا ذبیحہ قبول نہیں ہے،لیکن ایمان کی شرط نہیں ہے ایک قول بعید میں ایمان کی بھی شرط ہے البتہ جو اہل بیت اطہار علیہم السلام سے اعلانیہ دشمنی رکھتا ہو اس کا ذبیحہ صحیح نہیں ہے،جیسے خارجی اگر چہ وہ اسلام کا اظہار کرے۔(3)

مسائل اللواحق میں فرماتے ہیں:مسلمان بازاروں میں جو ذبیحہ یا گوشت بکتا ہے اس کا خرید ناجائز ہے اور تفحص ضروری نہیں مگر بیچنے والا مسلمان ہو۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرایع الاسلام ج:1ص:53۔

(2)شرایع الاسلام ج:2ص:299۔

(3)شرایع الاسلام ج:3ص:206۔

(4) شرایع الاسلام ج:3ص:206۔

۴۴

کتاب الفرائض میں فرماتے ہیں:(فرائض سے مراد مواریث ہے یعنی میراث کو روکنے والی چیزیں)تیسری بات یہ ہے کہ مسلمان وارث ہوگا چاہے اس کے مذہب میں اختلاف ہو اور کفار،وارث ہوں گے چاہے ان کے گروہوں میں اختلاف ہو۔(1)

کتاب القصاص میں قصاص کی شرطیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:دوسری شرط دین میں برابر ہونا،مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا چاہے وہ کافر ذمی ہو،مستامن ہو یا کافر حربی۔(2)

جواز قصاص میں مسلمان اور آزاد ہونا ضروری ہے اور یہ کہ مقتول کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو یعنی خون ناحق بہایا گیا ہو۔(3)

مذکورہ بیانات کی بنیاد پر شیعوں کا نقطہ نظر سمجھ لینا چاہئے،عام صحابہ کے ساتھ بھی شیعوں کا یہی معاملہ ہے لیکن جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا اور حضرت نے ان کے بارے میں حدیث فرمائی تو شیعہ اس حدیث کے مطابق عمل کرتے ہیں ورنہ صحابہ اور عام مسلمانوں کے درمیان اسلام کے معاملے میں شیعوں کی نظر میں کوئی فرق نہیں ہے،شیعہ اس کو مسلمان سمجھتے ہیں جو شہادتین کی گواہی دے، اسلام کا پابند ہو،اعلانیہ اسلام کی دعوت دیتا ہو اور اسلامی فرائض کو پورا کرتا ہو،ان کے درمیان جن بنیادوں پر فرقہ بندی یا اختلاف ہے وہ اسلام کے علاوہ ہیں اور شیعہ ان کا خیال نہیں کرتے بلکہ ان کے دل کے اندر کیا ہے اور پر بھی غور نہیں کرتے بلکہ آپسی معاملات کی بنیاد وہ ان کے ظواہر کو بناتے ہیں اور ظاہر پر عمل کرتے ہیں،اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کا بھی یہ کردار رہا تھا اور ہر دور میں اسی معیار کو مانا گیا ہے،چنانچہ امیرالمومنین علیہ السلام سے ان لوگوں کے بارے میں جو آپ سے جنگ کرنے آئے سوال کیا گیا، آپ نے فرمایا:وہ ہمارے بھائی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرایع الاسلام ج:4 ص:13

(2)شرایع الاسلام ج:4 ص:211

(3)شرایع الاسلام ج:4 ص:234

۴۵

ہیں جنہوں نے ہم سے بغاوت کی ہے،آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ کافر ہیں،آپ نے ان کی عورتوں کو کنیز نہیں بنایا، ان کے مال کو حلال کیا اس لئے کہ وہ اہل قبلہ یعنی مسلمان تھے،بس یہی شیعوں کا بھی طریقہ ہے وہ ظاہر پر اعتبار کرتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اکثر اسلامی فرقے بھی یہی کرتے ہیں۔

کتاب و سنت اور مسلمانوں کی بول چال میں کفر کا اطلاق مزید کچھ افراد پر ہوتا ہے

بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں کتاب و سنت اور مسلمانوں کی گفتگو میں کفر کا اطلاق بعض ان افراد پر بھی ہوتا ہے جو کلمہ شہادتین کے قائل ہیں،کبھی سابقہ کے طور پر تو کبھی اس کے باطن کا لحاظ کرتے ہوئے کہ وہ آدمی اسلام کے کسی تقاضے کو پورا ہی نہیں کرتا صرف کلمہ کا شاہد ہے لیکن عقیدہ اور عمل میں استقامت نہیں رکھتایا اور بندوں سے اللہ نے جن عبادات اور وفائے عہد کا مطالبہ کیا ہے اس کو انجام نہیں دیتا اور کبھی ایسا ہوتا کہ اس کا باطنی عقیدہ اسلام کی دعوت سے مطابقت نہیں رکھتا، ایسے شخص کو نفاق سے مطعون کیا جاتا ہے، ان صورتوں میں قرآن مجید ایک رخ کی وضاحت کرتا ہے کہ

((و من لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الکٰفرون))(1)

جو اللہ کے نازل کئے ہوئے فیصلہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ کافر ہیں۔

اور دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:

((ولله علی الناس حج البیت من الستطاع الیه سبیلا و من کفر فانّ الله غنی عن العالمین))(2)

ترجمہ آیت:((اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض خدا کے لئے خانہ کعبہ کا حج کریں، جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو اور جس نے استطاعت کے با وجود حج سے انکار کیا تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مائدہ آیت:24

(2)سورہ:آل عمران،آیت:97

۴۶

(یاد رکھئے کہ)خدا سارے سے بےنیاز ہے۔

اس سلسلے میں سرکار دو عالمؐ کا قول بھی شاہد ہے جو بہت سے راویوں سے مروی ہے چنانچہ آپ نے فرمایا:دیکھو میرے بعد کفر کی طرف نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردن کاٹنے لگو(1)

اور جناب عائشہ کا قول، عثمان کے لئے کہ اس نعثل کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے(2)

عمر بن خطاب کا حاطب ابن ابی بلتعہ کے بارے میں سرکار سے یہ کہنا کہ اے خدا کے رسول! ان کی گردن ماردینی چاہئے یہ کافر ہوگیا ہے۔(3)

خدیفہ یمانی کا قول کہ نفاق عہد نبیؐ میں تھا آج تو دوہی چیزیں ہیں یا کفر ہے یا ایمان ہے۔(4)

ابوشعیب کا یہ جملہ کہ حفص نامی شخص نے شافعی سے مناظرہ کیا،حفص نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے،شافعی نے جواب دیا:تو نے خدا سے کفر کردیا۔(5)

اور یاسر کی حدیث حضرت ابوالحسن علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:جو اللہ کی تشبیہ دے وہ مشرک ہے اور جو اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کرے جنہیں اس نے منع کیا ہے وہ کافر ہے۔(6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:1،ص:56،کتاب علم باب الانصات للعمائ،ج:2،ص:619،کتاب الحج ایام منیٰ کے خطبہ کے سلسلے میں

(2)تاریخ طبری،ج:3،ص:12،اس باب میں کہ جس میں عائشہ نے کہا تھا کہ خدا کی قسم میں عثمان کے خون کا بدلہ ضرور لوں گی۔

(3)الاحادیث المختارہ ج:1ص:286،جس میں عبداللہ بن عباس نے عمر سے روایت کی اور کہتے ہیں کہ اس کی سند بھی صحیح ہے،مسند عمر بن خطاب،ج:1،ص:55۔

(4)صحیح بخاری ج:6ص:2406،کتاب الفتن،قسم کے باب میں،سیر اعلام النبلا،ج:10،ص:30،امام شافعی کے حالات میں۔

(5)سنن کبری بیہقی ج:10،ص:43،کتاب الایمان

(6)عیون اخبار رضا ج:1،ص:93

۴۷

اباصلت ہروی کی ایک حدیث حضرت امام رضا علیہ السلام سے ہے،آپ نے حضرت سے پوچھا:اے فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس حدیث کا کیا مطلب ہے لا الہ الا اللہ کا ثواب خدا کے چہرے پر نظر کرنے کے ثواب کے برابر ہے،آپ نے فرمایا اے اباصلت! جو اللہ کی تعریف کسی چہرے سے کرتا ہے وہ کافر ہے بلکہ اس کا چہرہ اس کے انبیا،اس کے مرسلین علیہم السلام اور اس کی حجتیں ہیں،یہی وہ حضرات ہیں جن کہ وجہ سے لوگ خدا اور اس کے دین اور اس کی معفت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو انبیا و مرسلین اور خدا کی حجتوں کو قیامت کے دن ان کے درجات پر نظر کرنا ثواب عظیم کا سبب ہے،اسی لئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو ہمارے اہل بیتؑ سے بغض رکھتا ہے قیامت کے دن مجھے نہیں دیکھے گا۔(1)

اور آپ نے فرمایا:تم میں سے ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو مجھ سے جدا ہونے کے بعد پھر مجھے نہٰیں دیکھیں گے اور اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں۔

لیکن مذکورہ وضاحت اسلام کے اس معنی کے منافی ہے جو اس سے پہلے بیان کیا جاچکا ہے اور نہ احکام کی ترتیب کو روکتی ہیں(یعنی اسلام کا مطلب یہی ہے کہ جو شخص کلمہ شہاتین اور ضروریات دین کا قائل ہے وہ مسلمان ہے)جیسا کہ مسلمانوں کہ فقہ عمومی سے ظاہر ہوتا ہے،مسلمانوں کے تمام فرقے آپس میں معاملات کرتے رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مسلمان ہونے کا برتاؤ کرتے رہے ہیں سوائے بعض خوارج کے یا اسی طرح کے دوسرے فرقوں کے جو شاذ ہیں اور مسلمانوں نے ان سے ہمیشہ سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے،عام شیعہ صحابہ یا عام مسلمانوں کو اسلام کے مذکورہ بالا معنی سے خارج نہیں سمجھتے مگر یہ کہ بعض شیعوں کا یہ مسلک کبھی رہا ہے لیکن فی الحال میں ان کو نہیں جانتا اور ان کے بارے میں معلومات کرنا میرے لئے آسان بھی نہیں ہے، اگر کہیں ایسا پایا بھی جاتا ہے تو ایسا شیعہ اپنے نظریہ میں تنہا اور وہ اپنے قول اور موقف کا خود ہی جواب دہ ہے،ظاہر ہے کہ شیعہ عوام یا شیعہ قوم پر اس کا ایک کے نظریہ کا جواب دینے کی ذمہ داری عائد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)توحید(صدوقؒ)ص:118۔117

۴۸

نہیں ہوتی چہ جائیکہ یہ خطرناک قول تمام شیعوں پر لاددیا جائے اور ان کی طرف منسوب کردیا جائے۔

سوال:2۔مجھ سے دو باتوں کے بارے میں پوچھا گیا تھا، ایک تکفیر صحابہ اور دوسرے صحابہ کو گالیاں بکنا۔

آپ کا دوسرا سوال گالی اور طعن سے متعلق ہے۔

اس معاملے میں شیعوں کا طرز عمل بیان کرنا اور کوئی ٹھوس بات کہنا تو بہت مشکل ہے، شیعوں میں بہت سے شعبے پائے جاتے ہیں اور یہ لوگ بھی بہرحال تمام لوگوں کی طرح انسان ہیں، ان کی قوت جذبات کے برداشت کی طاقت عمومی رہن سہن اور دینی ثقافت کسی ایک صحابی یا تمام اصحاب کے بارے میں ان کا مبلغ علم،ان کی اخلاقی اور دینی ضرورتیں،ان کی گھریلو اور سماجی تربیت اور ان کے اپنے دلی جذبات پر حملہ ہونے کے وقت مذاہب کا طریقہ ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں انسانوں کی مختلف مقدار اور مختلف امکانات میں پائی جاتی ہیں اور شیعہ انسان ہیں مقام عمل میں ان تمام باتوں سے متاثر ہوتے ہیں، اس لئے اجتماعی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ شیعوں کا اس سلسلے میں کیا نظریہ ہے،البتہ صحابی کے بارے میں شیعہ یہ نظریہ رکھتے ہیں جس کی انہیں تعلیم دی گئی ہے اور جس پر دلیلیں ان کے پاس موجود ہیں اور صرف صحابہ ہی نہیں بلکہ تابعین اور عام مسلمانوں کے بارے میں بھی ان کا یہی نظریہ ہے۔

صحابہ خود اپنی نظر میں قابل احترام نہیں تھے

اگر جو آدمی صحابہ کی تاریخ کو پڑھے اور بنظر غائر ان حرکات کو دیکھے جو ان سے سرزد ہوئیں ہیں تو یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ تمام صحابہ قابل احترام نہیں ہیں اور ان کے تقدس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ہے جب کہ کچھ لوگوں نے تمام صحابہ کے گرد تقدس کا ایک بے بنیاد دائرہ کھینچ رکھا ہے۔

بلکہ صحابہ کے حالات پر نظر کرنے سے یہ بات بہرحال ثابت ہوجاتی ہے کہ صحبت پیغمبرؐ انہیں گناہوں سے نہیں بچاسکی،ان کے عیب کو دور نہیں کرسکی یہاں تک کہ صحابہ آپس میں ایک دوسرے کو

۴۹

گالی دینے اور لعن و طعن کرنے سے پرہیز کرتے تھے بلکہ بعض صحابہ نے تو بعض صحابہ کو اتنی گالیاں دیں اتنی لعن و لعن کی کہ ان کا یہ کارنامہ مشہور ہوگیا اور صحبت پیغمبر انہیں گالی گلوج سے باز نہیں رکھ سکی۔

عثمان کے معاملے میں صحابہ کے کارنامے

عثمان کے معاملے میں صحابہ کے درمیان کیا کچھ نہیں ہوا تاریخ سے پوشیدہ نہیں ہے،صحابہ آپس میں دشنام طرازی کرتے رہے اور قول ع عمل سے اپنے تہذیبی دیوانے پن کا ثبوت پیش کرتے رہے۔

عثمان کو گالی دینے میں اور ان پر طعن کرنے میں سب سے زیادہ سخت یہ تین نام آتے ہیں،طلحہ،زبیر اور عائشہ،روایت تو یہاں تک ہے کہ طلحہ صاحب نے عثمان پر پانی بند کردیا تھا(1) اور ان کے پاس لوگوں کی آمد و رفت پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔(2)

ابن ابی الحدید نے مقتل عثمان نام کی کتاب میں مدائنی سے نقل کیا ہے کہ طلحہ نے تین دن تک عثمان کی میت کو دفن نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ حکیم بن حزام جو بنی اس ابن عبدالعزی کا تھا اور جبیر ابن مطعم ابن حارث بن نوفل نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے گذارش کی کہ عثمان کو قبر ملنی چائے تو طلحہ نے قبرستان کے راستے میں کچھ لوگوں کو پتھر دے کر بٹھا دیا جو عثمان کی میت لیجانے والوں کو پتھر سے مارتے تھے، واقدی کہتے ہیں:جب عثمان قتل ہوئے تو ان کے دفن کے بارے میں بات ہونے لگی طلحہ نے صاف کہہ دیا انہیں دیر سلع یعنی یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔(3)

واقدی کہتے ہیں کہ عثمان کے گھر پر جب حملہ ہوا تھا اس وقت جو لوگ موجود تھے ان سے روایت ہے کہ طلحہ نے اپنا چہرہ نقاب سے چھپائے ہوئے تھا اور عثمان کے گھر پر پتھر برسا رہے تھے یہ اس دن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:38۔انساب الاشراف ج:5ص:71۔

(2)تاریخ طبری ج:2ص:668۔669۔

(3)شرح نہج البلاغہ ج:10ص:6۔7۔

۵۰

کی بات ہے جس دن عثمان قتل ہوئے،روایت تو یہاں تک ہے کہ جب محاصرہ کرنے والے عثمان کے گھر میں کود گئے اور انہیں قتل کردیا۔

یہ بھی روایت ہے کہ زبیر فرما رہے تھے عثمان کو قتل کردو انہوں نے تمہارا دین بدل دیا ہے ان سے کہا گیا کہ آپ قتل کا فتوی دے رہے ہیں اور آپ کے بیٹے عثمان کے دروازے پر کھڑے ہوئے عثمان کی حمایت کررہے ہیں تو انھوں نے فرمایا کوئی ہرج نہیں ہے میں اس بات کو ناگوار نہیں سمجھتا کہ عثمان قتل ہوجائیں اگر چہ قتل کی ابتدا میرے بیٹے ہی سے ہو،عثمان کل کڑک پر پڑا ہو ایک مردار ہوگا(1) یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ عائشہ عثمان کے بارے میں کہتی تھیں اس داڑھی والے کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے ایک دن عثمان مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے اور عائشہ اور حفصہ لوگوں کو عثمان کے خلاف بھڑکار رہی تھیں جب عثمان نے سلام پھیرا تو فرمایا یہ دونوں فتنہ پرداز عورتیں لوگوں کی نماز میں رخنہ ڈال رہی ہیں پھر خطاب کر کے فرمایا اگر تم دونوں گالیاں دینے سے باز نہیں آئیں تو میں تمہیں حلال گالیاں دوں گا اور میں تم دونوں کی اصل سے واقف ہوں(2) اور جب سعد نے عثمان کی مخالفت کی تو عثمان انہیں تکلیف پہنچانے کے ارادے سے جارہے تھے امام علیؑ مسجد میں آرہے تھے عثمان امام سے مسجد کے دروازے پر ٹکرا گئے،سعد عثمان کو حضرت علیؑ کے سامنے ہی گالیاں دینے لگے۔(3)

ایک جماعت نے جس میں عثمان بھی شامل ہیں طلحہ،زبیر،اور عائشہ پر یہ الزام لگایا ہے کہ ان لوگوں کو عثمان کے خلاف بھڑکایا انہیں گالیاں دیں اور ان کے قتل پر آمادہ کیا۔(4)

امیرالمومنینؑ نے فرمایا:میں چار افراد کے ذریعہ گرفتار بلا ہوا ہوں مکارترین اور پست

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:9ص:35۔36،طلحہ و زبیر کے بارے میں کلام امامؑ۔

(2)الجامع(ازدی)ج:11ص:335۔356،باب فتن میں۔

(3)الجامع(ازدی)ج:11ص:356،باب فتن میں۔

(4)تاریخ طبری ج:2 ص:668۔669،قتل عثمان کے بارے میں۔

۵۱

ترین شخص یعنی طلحہ،سب سے بہادر یعنی زبیر،لوگوں کے لئے سب سے زیادہ مرکز اطاعت یعنی عائشہ اور سب سے جلد فتنہ پیدا کرنے والا یعنی ابن امیہ،فرمایا یہ لوگ مجھ سے وہ حق مانگ رہے ہیں جن کو خود ترک کرچکے ہیں،اس خون کا بدلہ مانگ رہے ہیں جسے انہوں نے خود بہایا ہے اور انہوں نے مجھے چھوڑ کے دوسرے کو ولی بنایا ہے اگر میں انکار میں ان کا ساتھ دیتا تو وہ انکار نہیں کرتے اور عثمان کا قصاص سوائے ان کے کسی پر نہیں ہے یہی لوگ باغی گروہ ہیں خدا کی قسم طلحہ و زبیر اور عائشہ یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ میں حق پر ہوں اور وہ لوگ باطل پرست ہیں(1) دوسری جگہ ارشاد فرمایا لیکن انہیں خدا کی قسم ہرگز دعوت نہیں دی گئی تھی وہ خود خون عثمان کا مطالبہ کرتے ہوئے نکلے بخدا وہی لوگ عثمان کے قاتل ہیں۔(2)

محمد بن طلحہ کہتے ہیں کہ عثمان کا خون تین تہائیوں میں تقسیم ہے ایک تہائی صحاب ہودج یعنی عائشہ کے ذمہ ہے ایک تہائی سرخ اونٹ والے کے ذمہ ہے یعنی طلحہ اور ایک تہائی علی بن ابی طالب کے ذمہ ہے۔(3)

سعد بن ابی وقاص سے کسی نے پوچھا کہ عثمان کا قاتل کون ہے انہوں نے کہا میں تمہیں بتاتا ہوں تلوار عائشہ نے کھینچی اس پر صیقل طلحہ نے کی اور اس کو زہرآلودہ علی بن ابی طالب نے کیا زبیر خاموش رہے لیکن ہاتھ سے اشارہ کیا میں روکنا چاہتا ہوں تو ان کی مدافعت کرتا لیکن عثمان نے دین میں بہت سی بتدیلیاں کردی تھیں۔(4)

اسرائیل بن موسی کہتے ہیں کہ میں نے حسن کو یہ کہتے سنا کہ طلحہ اور زبیر بصڑہ پہنچے لوگوں نے پوچھا تم لوگ کیوں آئے ہو کہنے لگے عثمان کا خون طلب کرنے آئے ہیں حسن نے کہا سبحان اللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الاستیعاب ج:2 ص: 213۔214،طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں۔

(2)تاریخ طبری ج: 3 ص: 2،بیعت علیؑ کے ذکر میں۔

(3)تاریخ طبری ج: 3 ص: 16 ۔

(4)الامۃ و السیاسۃ ج: 1ص: 48،اور اسی طرح العقد الفرید،ج:4ص:295،کتاب السجدۃ الثانیہ۔

۵۲

کیا اس قوم کے پاس بالکل ہی سمجھ نہیں ہوتی تو یہ کہتے کہ عثمان کو تمہارے علاوہ علاوہ کسی اور نے قتل کیا۔(1)

یہ کہانی بھی بہت مشہور ہے کہ مروان نے عثمان کے بدلے میں طلحہ کو قتل کردیا(2) بلکہ استعیاب کا مولف لکھتا ہے قابل اعتبار علما کا اس معاملے میں بالکل اختلاف نہیں کہ جنگ جمل میں مروان نے طلحہ کو قتل کیا حالانکہ طلحہ اسی کی فوج میں تھا۔(3)

اسی طرح یہ بھی مشہور ہے کہ طلحہ اور عثمان کے درمیان جو کچھ ہوا اس پر نادم تھے لوگ کہتے ہین کہ طلحہ کے گناہوں کا کفارہ یہی تھا کہ وہ قتل کردئیے جائیں۔(4) عثمان کا انکار کرنے والے اور ان پر طعنہ کرنے والوں میں عمار یاسر بھی تھے عمار اور محمد بن ابی بکر کہا کرتے تھے کہ عثمان ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے ہیں اور انہوں نے منافقت کی ہے(5)اور عمار خون عثمان کو اتنا محترم نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا قصاص لیا جائے۔(6)

باقلانی کہتے ہیں کہ عمار عثمان کے بارے میں صاف کہتے تھے کہ وہ کافر ہوگئے ہیں اور عثمان کے قتل کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم نے عثمان کو قتل کردیا اور جس دن ہم نے قتل کیا وہ کافر ہوچکے تھے شاید کہ عثمان نے عمار کوڈ انٹا تھا،ان کی تادیب کی تھی ان کے اس قول کی بنا پر جو اکثر کہتے تھے کہ ہم نے عثمان کو ہٹا دیا اور ہم اس سے بری ہیں۔(7)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)المستدرک علی صحیحین ج:3ص:128،کتاب معرفۃ الصحابہ

(2)الطبقات الکبری ج:3ص:222۔223،ج:5ص:38،مستدرک صحیحین،ج:3ص:417۔418،کتاب معرفت صحابہ،المعجم الکبیر،ج:1ص:113(اور اس میں ہے کہ مروان نے طلحہ کو قتل کیا)الاستیعاب ج:2ص:213،214،طلحہ بن عبیداللہ کے حالات میں

(3)الاستیعاب ج:2ص:79

(4)الطبقات الکبری ج:3ص:222،الاستیعاب،ج:2ص:213،مستدرک علی صحیحین،ج:3ص:419،کتاب معرفۃ الصحابہ

(5)معجم الکبیر،ج:1ص:79

(6)مجمع الزوائد ج:9ص:97۔98،باب امر عثمان اور ان کی وفات کے سلسلہ میں المعجم الکبیر،ج:1ص:81

(7)التمہید ص:220

۵۳

کلثوم ابن جبر ابوغدبہ جہنی سے روایت کرتا ہے الغاویۃ جو عمار کا قاتل ہے الغٓویۃ کہتا ہے کہ ہم نے وادی عقبہ میں رسولؐ کی بیعت کی اس دن آپ نے فرمایا کہ خبردار ہوجاؤ اے لوگوں کہ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر حرام قرار دیا گیا اس دن تک کے لئے کہ تم اپنے پروردگار سے اسی حرمت کے ساتھ ملاقات کرو یہ حکم اسی دن اسی مہینہ اور اسی شھر میں دیا گیا کیا میں نے حکم خدا پہنچادیا؟ہم نے کہا ہاں تو پھر فرمایا دیکھو ہمارے بعد کا فرمت ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

کلثوم کہتا ہے کہ الغاویۃ جہنی نے کہا ہم عمار یاسر کو شریف آدمی سمجھتے تھے لیکن میں نے ایک دن مسجد قبا میں عمار کو کہتے سنا کہ یہ لمبی داڑھی والا یہودی عثمان اگر میں اس کے خلاف اپنا مددگار پاتا تو اب تک اسے قتل کرچکا ہوتا الغاویہ نے کہا کے پالنے والے اگر تو چاہے تو مجھے عمار پر تمکن دیدے جب صفین کا دن آیا تو وہ فوج کے اگلے حصے میں پیدل آگے بڑھا اتنے میں ایک مرد دکھائی دیا جو نقاب پوش تھا پس اس نے اس مرد کے گھٹنے میں نیزہ مارا جب وہ گرگیا تو اس نے آگے بڑھ کے اس کی پٹی کو ہٹایا پتہ چلا یہ عمار یاسر ہیں اس نے عمارت کا سر کاٹ لیا۔

کلثوم کہتا ہے کہ میں نے اس الغاویہ سے زیادہ گمراہ کسی کو نہیں پایا اس لئے کہ عمار کے قتل کے بارے میں اس نے سرکار دو عالم سے اپنے کانوں سے سنا تھا کہ عمار کا قاتل اور ان کا سامان لوٹنے والے دونوں جہنمی ہیں(1)

ابھی عرض کیا جاچکا ہے کہ عثمان عمار کو بہت گالیاں دیتے تھے کبھی کہتے اے بہت زیادہ پیشاب کرنے والی کے بیٹے(2) کبھی کہتے تو جھوٹا ہے اے سمیہ کے بیٹے(3)کبھی کہتے کہ یا عاض ایرابیہ(4)اور کبھی فرماتے کہ میری طرف اس کلوٹی کے بیٹے پر وائے ہو۔(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الطبقاب الکبری ج:3ص:260۔(2)انساب الاشراف ج: 5 ص: 48۔

(3)انساب الاشراف ج: 5 ص: 49۔

(4)انساب الشراف:ج: 5 ص: 54۔

(5)تاریخ یعقوبی،ج:2ص:171

۵۴

(صحابی تو عثمان بھی تھے اور جناب عمار یاسر بھی لیکن دونوں کی آپس میں مار پیٹ مشہور ہے)جیسے کہ عثمان نے حکم دیا کو عمار کو پیٹا جائے اس غریب پر اتنی مار پڑی کہ وہ بے ہوش ہوگئے اور کتنی نمازیں چھوٹ گئیں(1) یا ان کے پیر پر مار پڑی یہاں تک کہ چوٹ ان کے خصیوں پر پڑی اور وہ چھٹک(2) یا پھر انہیں کھینچتے ہوئے لائے اور دروازہ پر ڈال دیا گیا(3) عثمان ان کے پیٹ پر کھڑے ہو کے ان کے پیٹ کو ملنے لگے یہاں تک کہ وہ بیہوش ہوگئے(4) بلکہ انہوں نے تو عمار کے قتل کا بھی اردہ کر لیا تھا مگر بنی مخزوم نے عثمان سے بات کی اور ان کو اس اقدام سے باز رکھا۔(5) پھر عثمان اور عبدالرحمٰن بن عوف کے درمیان جو معاملات ہوئے وہ بھی قابل غور ہیں عبدالرحمٰن بن عوف عثمان پر بہت سختی کرتے تھے اور انہوں نے امیرالمومنینؑ سے کہا کہ آپ اپنی تلوار لیں اور میں اپنی تلوار اٹھاتا ہوں، بیشک عثمان نے مجھ سے بدعہدی کی ہے(6) اور عبدالرحمٰن بن عوف نے یہ قسم بھی کھائی کہ تا حیات عثمان سے نہیں بولیں گے(7) جب وہ بیمار پڑے تو عثمان عیادت کو گئے لیکن عبدالرحمٰن نے کوئی توجہ نہیں دی(8) اور ناراضی کی حالت میں مرگئے(9) یہ وصیّت بھی کر کے گئے کہ عثمان ان کے جنازے کی نماز نہیں پڑھیں گے۔(10)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)انساب الاشراف،ج5ص:48۔

(2)انساب الاشراف،ج:5ص:49۔

(3)الامۃ و السیاسۃ،ج:1ص:33۔

(4)مصنف ابن ابی شیبہ،ج:4ص:199،کتاب الامرائ،العقد الفرید،ج:4ص:307،العسجدۃ الثانیہ۔

(5)انساب الاشراف،ج:5ص:54۔55،تاریخ یعقوبی،ج:2ص:73۔

(6)انساب الاشراف،ج:5ص:57۔

(7)انساب الاشراف،ج:5ص:57،تایخ ابی الفدائ،ج:1،ص:166،العقد الفید،ج:4،کتاب العسجدۃ الثانیہ،ص:280،305۔

(8)تاریخ ابی الفدائ،ج:1ص:144،شرح نہج البلاغہ،ج:1ص:196،العقد الفرید،ج:4ص:280،کتاب العسجدۃ الثانیۃ۔

(9)تاریخ ابی الفدائ،ج:1ص:144،شرح نہج البلاغہ،ج:1ص:196،العقد الفرید،ج:4ص:280،کتاب العسجدۃ الثانیۃ۔

(10)انساب الاشراف،ج:5ص:57۔

۵۵

عثمان نے ایک بڑا محل بنایا تھا اس میں جب ولیمہ کیا تو بہت سے لوگوں کے ساتھ عبدالرحمٰن کو بھی بلایا عبدالرحمٰن نے اس محل میں صاف کہہ دیا کہ اے عفان کے بیٹے لوگ تمہارے بارے میں جن باتوں کو جھوٹ سمجھے رہے تھے اسے تم نے سچ کر دکھایا میں تمہاری بیعت سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں یہ سنتے ہی عثمان غضبناک ہوگئے اور غصے میں ایک غلام سے کہا عبدالرحمٰن کو ابھی میری محفل سے نکال دو اور فرمایا کہ خبردار عبدالرحمٰن کے پاس کوئی نہیں بیٹھے(1)

عبدالرحمٰن کے سامنے عثمان کا تذکرہ کیا گیا جب وہ مرض موت میں مبتلا تھے تو عبدالرحمٰن نے کہا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں کلافت کے کنویں تک پہنچ چکا ہوں اور اس کا پانی بھی پی لیا ہے لیکن عبدالرحمٰن اس پانی سے محروم رہ گئے(2) یہی نہیں بلکہ عبدالرحمٰن پر عثمان،نفاق کا الزام رکھتے تھے بلکہ انہیں منافق شمار کرتے تھے(3) یہاں تک روایت ہے عبدالرحمٰن نے فرمایا کے مجھے جینے کی اب کوئی خواہش نہیں کہ عثمان مجھے منافق کہتے ہیں۔(4)

عثمان اور ابوذر کے درمیان بھی جو کچھ ہوا وہ کافی مشہور ہے یہاں تک کہ ابوذر کو عثمان نے ربزہ جانے پر مجبور کیا اور ربزہ ہی میں ان کا انتقال بھی ہوگیا۔(5)

ابواسحاق لکھتے ہیں کہ ایک دن ابوذر عثمان کے دربار پہنچے اور ان کے کسی عیب کی نشاندہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:196۔

(2)انساب الشراف ج:5ص:57۔

(3)صواعق المحرقہ،ص:112،السیرۃ الحلبیۃ،ج:2ص:273،باب مدینہ کی طرف ہجرت۔

(4)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:25۔

(5)المستدرک علی صحیحین ج:3ص:52،کتاب المغازی والسرایا ص:387،کتاب معرفۃ الصحابۃ،مسند احمد،ج:5ص:144،طبقات الکبریٰ،ج:4ص:227،234،السنۃ لابی ابی عاصم،ج:2ص:501،شرح ابن ماجہ،للسیوطی،ص:15،باب سننے اور اطاعت کے باب میں،استیعاب، ج:1 ص:215،حالات ابوذر میں،سیر اعلام النبلائ،ج:2ص:57۔71۔77،حالات ابوذر میں،سیرۃ النبویۃ،ج:5ص:205،جنگ تبوک،تاریخ طبری،ج:2ص:184۔

۵۶

کی پھر ابوذر کھڑے ہوگے مولائے کائناتؑ اپنے عصا کا سہارا لیتے ہوئے عثمان کے پاس آئے عثمان نے ان سے پوچھا کہ اس آدمی کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جو اللہ کے رسول کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے امام نے فرمایا اس کو مومن آل فرعون کی منزل میں رکھئے اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کو جھوٹ کی سزا ملے گی اور اگر سچا ہے تو آپ کو جس بات سے ڈرا رہا ہے وہ آپ کے سامنے مصیبت بن کے آئے عثمان کو مولا علیؑ کی یہ بات بڑی بری لگی،آپؑ غصہ میں فرمایا تیرے منھ میں خاک پڑے جب امام نے فرمایا خاک تمہارے منہ میں پڑے کیا تم ہر کام ہماری رائے سے کرتے ہو جو مجھ سے مشورہ کر رہے ہو۔(1)

سعید ابن مسیّب کہتے ہیں کہ عثمان نے سرکار دو عالمؐ کے وقف کئے ہوئے کسی کوئیں کو خرید لیا تھا مولائے کائنات نے انہیں روکنا چاہا تو دونوں کے درمیان بات بڑھ گئی یہاں تک کہ عباس آگئے انہوں نے دیکھا کہ عثمان نے مولائے کائناتؑ کو مارنے کے لیے اپنا تازیانہ اٹھایا ہوا ہے اور مولاؑ نے عثمان کو مارنے کے لئے اپنا ڈنڈا اٹھایا ہوا ہے تو عباس نے دونوں کو سمجھا بجھا کے ٹھنڈا کیا۔(2)

عثمان کے سامنے عبداللہ بن مسعود لائے گئے تو عثمان نے کہا:اب تمہارے سامنے وہ چوپایہ آیا ہے جو اپنے کھانے پر چلتا ہے،پھر قے کرتا ہے اورلید کرتا ہے اور یہ کہ عثمان نے حکم دیا کہ عبداللہ بن مسعود کو زمین پر گرا کر مارا جائے،پس اتنا مارا کہ یہاں تک کہ ان کی پسلی ٹوٹ گئی عثمان عبداللہ بن مسعود پر یہ الزام رکھتے تھے کہ وہ عثمان کا خون حلال سمجھتے ہیں(3) عثمان نے عبداللہ ابن مسعود کے وظیفہ کو روک دیا(4) یہاں تک عبداللہ ابن مسعود مرگئے اور عثمان کو خبر تک نہیں ہوئی۔(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الجامع(ازدی) ج:11ص:349،باب الامرائ۔

(2)مجمع الزوائدج:7ص:226،اور اسی طرح المعجم الاوسط،ج:7ص:367۔

(3)انساب الاشراف ج:5ص:36۔

(4)تاریخ یعقوبی ج:2ص:147،انساب الاشراف،ج:5ص:37،تاریخ الخمیس،ج:2ص:268۔

(5)تاریخ الخمیس ج:2ص:268،انساب الاشراف،ج:5ص:37۔

۵۷

محمد ابن ابوخدیجہ اور محمد ابن ابی بکر مصر میں عثمان کا عیب کھول کھول کے بیان کرتے تھے اور کہتے تھے کہ عثمان کا خون حلال ہے۔(1)

مختصر یہ کہ عثمان اور صحابہ کے درمیان منافرت،گالم گلوج اور اختلافات کے اتنے شواہد تاریخ میں موجود ہیں جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا ہے اور اتنے روشن واقعات ہیں جن کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے حد یہ ہوگئی کہ دور عثمان میں ایک صحابی جو مدینہ میں مقیم تھا ایک دوسرے صحابی کو جو مدینہ میں نہیں تھا لکھا کہ تم لوگ مدینہ سے باہر جہاد کے لئے گئے اور چاہتے ہو کہ دین محمدیؐ برباد ہوچکا ہے اور لوگ اس کو چھوڑ چکے ہیں نلدی آگے دین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہاں قائم کرو، اس خط کا اثر یہ ہوا کہ لوگ چاروں طرف سے مدینہ میں آکے جمع ہوگئے اور عثمان کو قتل کرڈالا۔(2)

قتل عثمان کے بعد صحابہ کے درمیان کیا ہوا؟

قتل عثمان کے بعد صحابہ اور بری حالت ہوگئی صحابہ ایک دوسرے پر گناہ کبیرہ کا الزام لگانے لگے ہر ایک سامنے والے کو دنیا کی محبت میں فتنہ پرور کہنے لگا۔اور انہوں نے سارے عہد و پیمان توڑ ڈالے مولا کائناتؑ نے صاف کہہ دیا کہ طلحہ زبیر اور عائشہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں حق پر ہوں اور وہ باطل پرست لوگ ہیں۔

مولائے کائناتؑ کا کلام ایک جگہ تو گذشتہ بیان سے زیادہ سخت ہے جب آپ نے صحابہ اور تابعین کی جماعت کے سامنے ان کی اور معاویہ کی پول کھولی ہے آپ فرماتے ہیں میں نے فتنہ کی آنکھیں کھول دی ہیں اگر میں نہین ہوتا تو فلاں فلاں اور فلاں سے جنگ نہیں ہوتی اور نہ اہل نہروان سے جنگ کرنی پڑتی اگر تم اس کام کے ذمہ دار نہیں بنتے اور عمل کرنا چھوڑ دیتے تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:2ص:620

(2)تاریخ طبری ج:2ص:662

۵۸

تمہارے درمیان وہ خرابی پیدا ہوجاتی جس کی تمہارے نبی نے پیش گوئی کی تھی اس شخص کے لئے جو کسی کو گمراہ دیکھ کے اس سے قتال کرتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ ہم حق پر ہیں۔(1)

اور دوسرے خطبہ میں ارشاد رفرمایا کہ محمد بن ابی بکر کی آواز آرہی ہے وہ مدد کے لئے پکار رہے ہیں اس لئے کہ نابغہ کا بیٹا خدا کا دشمن اور دشمنان خدا کا سرپرست ان کی طرف چل پڑا ہے دیکھو ایسا نہ ہو کہ گمراہ لوگ اپنے باطل کے لئے طاغوت کے راستے پر بھروسہ کرتے ہوئے تم سے زیادہ جمع ہوجائیں جب کہ تم حق پر ہو۔(2)

سب کو معلوم ہے کہ مولائے کائناتؑ اور عمرو بن عاص کے درمیان تحکیم کا صلح نامہ لکھنے کے وقت کیا کچھ نہیں ہوا جب اہل شام نے صاف انکار کیا کہ علی کو امیرالمومنین نہ لکھا جائے حضرت نے فرمایا اللہ اکبر،اللہ اکبر،تاریخ اپنے کو دہرا رہی ہے اور ایک مرتبہ یہ واقعہ دوسری صورت میں پیش آچکا ہے خدا کی قسم مجھے صلح حدیبیہ کا صلح نامہ یاد آرہا ہے جب میں ہادی اعظم کے سامنے خود آپ کی ہدایت پر لکھ رہا تھا میں نے جب ہادی اعظم کو رسول لکھا تو کفار قریش بگڑ گئے اور کہنے لگے ہم انہیں خدا کا رسول مانتے تو پھر جھگڑا کس بات کا تھا ہم تو ان کی گواہی نہیں دیتے آپ صرف اپنے نبی کا نام اور ان کے باپ کا نام لکھیں اللہ آپ ہماری کس سے مثال دے رہے ہیں وہ لوگ تو کفار تھے آپ ہمیں کفار سے مشابہ قرار دے رہے ہیں جب کہ ہمارا اور مسلمانوں کا دشمن نہیں رہا تیری مثال تو صرف تیری ماں سے دی جاسکتی ہے جس نے تجھے پیدا کیا عمروعاص یہ سن کے اٹھ گیا اور بولا ہم آج کے بعد آپ کے ساتھ کسی مجلس میں ایک جگہ نہیں ہوں گے امیرالمومنینؑ نے جواب دیا کہ میں بھی خدا سے یہ امید کرتا ہوں کہ وہ میری مجلس مجھ سے بلکہ تیری جیسے لوگوں سے پاک رکھے گا۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مصنف بن ابی شیبہ ج:7ص:528،کتاب السنۃ،لعبداللہ بن احمد،ج:2ص:627،کتاب الفقن،حلیۃ الاولیائ،ج:4ص:186

(2)تاریخ طبری ج:3ص:134

(3)تاریخ طبری ج: 3 ص: 134

۵۹

جنگ صفین میں آپ نے عمار کے حادثہ کے بعد ایک خطبہ دیا آپ نے فرمایا:اے لوگو!ہمارے ساتھ ان کی طرف چلو جو خون عثمان کو طلب ر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عثمان مظلوم مارے گئے(سب نہیں)بلکہ انہوں نے دینا کو چکھا اور اس سے محبت کرنے لگے اور اپنا ہدف دنیا ہی کو بنالیا یہ لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر حق پر چلیں گے تو حق ان کے اور دنیا کے درمیان حائل ہوجائے گا جس کے یہ لوگ عادی ہوچکے ہیں اس قوم کا اسلام کی سابقہ تاریخ میں کوئی کارنامہ بھی تو نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ لوگوں سے طلب اطاعت کا حق رکھتے یا ان کے ولی ہوتے اس لئے انہوں نے اپنے پیچھے چلنے والوں کو یہ کہہ کے دھوکا دیا کہ ہمارا رہبر مظلوم مارا گیا تا کہ خون عثمان کے طلب کرنے کے بہانے سے جابر بادشاہ بن سکیں پھر آپ خطاب فرما رہے تھے یہاں تک کہ آپ عمروعاص کے پاس پہنچنے اور فرمایا تو نے اپنے دین کو ملک مصر کے بدلے میں بیچ دیا ہے خدا تجھے ہلاک کرے پھر ہلاک کرے تو بہت دنوں سے اسلام میں کجی پیدا کرتا چلا آرہا ہے۔

امیرالمومنین ہی نے عبیداللہ بن عمر بن خطاب سے فرمایا خدا تجھے غارت کرے تو نے اپنے دین کو دشمن اسلام اور دشمن اسلام کے بیٹے سے بیچ دیا ہے ابن عمر کہنے لگے میں تو عثمان بن عفان کا خون طلب کرنے نکلا ہوں آپ نے فرمایا:جہاں تک میرا علم گوہی دے رہا ہے تو خدا کو طلب کرنے ہرگز نہیں نکلا ہے۔(1)

معاویہ اور اہل معاویہ بھی امیرالمومنین علیہم السلام اور آپ کے اصحاب کو برا کہنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔

یہی صحابہ ہیں جنھوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا حلال سمجھ لیا تھا جس کے نتیجے میں صفین کی جنگ ہوئی اور دس ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو کھا گئی یہاں تک کہ بات تحکیم تک پہنچی پھر بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:3ص:98

۶۰