فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ13%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 130302 / ڈاؤنلوڈ: 6755
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

سوال نمبر۔۲

صحابہ کو گالیاں دینا یا ان کی تکفیر کرنا کیا شیعہ حضرات کی طرف مذکورہ بالا عمل کو منسوب کرنا صحیح ہے؟خصوصاً ابوبکر،عمر اور عثمان کی تکفیر،کیا شیعہ ان حضرات کی تکفیر کے قائل ہیں اور اسی طرح عائشہ کے بارے مین بھی مشہور ہے کہ شیعہ انہیں مسلمان نہیں سمجھتے،کیا یہ صحیح ہے؟

جواب:آپ کے سوال میں دو باتوں کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔

۱۔تکفیر:(یعنی کافر قرار دینا)عرض ہے کہ شیعہ صحابہ کی تکفیر کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ تو عام مسلمانوں کی تکفیر کے بھی قائل نہیں ہیں اگر چہ ان کے فرقے الگ الگ ہیں اور ان کا نظریہ اسلام کی حقیقت اور اس کے ارکان کی حدوں کی بنیاد پر ہے پھر ان کے علما کے فتوے اور ان کی تصریحات بھی ایک سبب ہے۔

شیعوں کے نزدیک کفر و اسلام کا معیار

سماعہ کی موثق حدیث ملاحظہ ہو،کہتے ہیں میں نے ابوعبداللہ(جعفر صادق علیہ السلام)سے پوچھا کہ آپ مجھے اسلام اور ایمان کے بارے میں بتائیں کیا یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں؟حضرتؑ نے فرمایا ایمان میں اسلام شریک ہے لیکن اسلام میں ایمان کی مشارکت نہیں ہے میں نے کہا ان کی تعریف کردیں۔

۴۱

فرمایا:وحدانیت پروردگار اور تصدیق رسالت اسلام ہے اسی بنیاد پر خون حرام ہوتا ہے اور نکاح و میراث جاری ہوتے ہیں اور لوگوں کی جماعت اسی طاہری رح پر عامل ہے اور ایمان ہدایت ہے....)(۱)

سفیان بن سمط کی حدیث ملاحطہ ہو:ایک شخص نے ابوعبداللہ سے اسلام اور ایمان کے درمیان فرق کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:اسلام وہ ظاہری رخ ہے جس پر عام لوگ ہیں یعنی لا الہ الا اللہ کی شہادت اور حضور سرور کائنات کی عبدیت اور رسالت،نماز کا قائم کرنا،کو ٰۃ دینا حج کرنا،رمضان کے روزے رکھنا بس یہی سب اسلام ہے۔(۲)

حمران بن اعین کی حدیث میں منقول ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب ابوجعفر یعنی امام محمد باقر علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ ایمان وہ ہے جو دل میں جگہ بنالے اور بندے کو خدا تک پہنچائے اور بندے کا عمل خدا کی اطاعت اور اس کی ذات کے لئے سپردگی کے ذریعہ ایمان کی تصدیق کرتا ہو اور اسلام وہ ہے جو قول اورفعل سے ظاہر ہو،اسلام ہی کی بنیاد پر خون کا تحفظ،نکاح و میراث کا جریان اور نکاح کا جواز حاصل ہوتا ہے جولوگ نماز،زکوٰۃ،روزہ اور حج کی بنیاد پر جمع ہوئے ہیں اور کفر کے دائر سے اسی بنیاد پر الگ سمجھے جاتے ہیں۔(۳) اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمان ہونے کے لئے اقرار توحید و رسالت اور ضروریات دین کا اعتراف کافی ہے اور یہ بھی کہ مسلمانوں کے دورسرے فرقے جو شیعہ نہیں ہیں وہ اسلام سے خارج نہیں ہیں،ان کا خون اور مال حرام ہے مگر یہ کہ وہ حق کے ذریعہ ہو۔البتہ نواصب کی بات دوسری ہے،وہ لوگ ہیں جو اہل بیت اطہار علیہم السلام کے دشمن ہیں،ان کا تفصیلی تعارف ہم اس کتاب میں نہیں پیش کرسکتے اور ضرورت بھی نہیں سمجھتے اس لئے کہ موضوع گفتگو وہ نہیں دوسرے لوگ ہیں بہرحال تمام علمائے شیعہ کفر و اسلام کے مذکورہ بیان پر متفق ہیں ہر دور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)اصول کافی ج:۲ص:۲۵۔کتاب ایمان و کفر،باب ایمان اسلام میں شریک ہے۔

(۲) اصول کافی ج:۲ص:۲۴۔کتاب ایمان و کفر،باب ایمان اسلام میں شریک ہے۔

(۳) اصول کافی ج:۲ص:۲۶۔کتاب ایمان و کفر،باب ایمان اسلام میں شریک ہے۔

۴۲

میں علمائے شیعہ اسی نظریہ کے قائل رہے تھے اور ہیں اگر کوئی شخص اس سلسلے میں شیعوں کی رائے جاننا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ علماء شیعہ کے فتووں کی کتابیں اور عملیہ دیکھے،اس کو یہ اصول ہر کتاب میں جاری و ساری ملے گا،طہارت،نکاح،ذباحۃ،میراث اور قصاص،غرض ہر جگہ مندرجہ بالا معیار کو سامنے رکھ کر فتوے دئیےگئے ہیں اور چونکہ علماء شیعہ اس معاملے میں تقیہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اس لئے انہوں نے اسلام کے ساتھ کہیں کہیں ایمان کی بھی شرط رکھی ہے جس کو دیکھا جاسکتا ہے۔

مذکورہ بالا کفر اسلام کے معیار کو ثابت کرنے کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں شرائع الاسلام کی ایک عبارت آپ کی خدمت میں پیش کردوں۔

شرایع اسلام شیعوں کی مشہورترین فقہی کتاب ہے جو حوزات علمیہ میں پڑھائی جاتی ہے اور بہت سے فقہا نے اس کی شرح لکھی ہے،اس کتاب کی عبارت پر بقیہ مصادر کا قیاس کیا جاسکتا ہے،ملاحظہ ہو،غسل میت کی بحث میں علامہ فرماتے ہیں:

ہر وہ آدمی جو کلمہ شہادتین کا اظہار کرے اسے غسل دینا جائز ہے،سوائے خوارج،غلاۃ اور شہید کے۔(۱)

دوسری جگہ کتاب الحدود میں مرتد کی حد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں،اسلام کا کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے اور اگر اس کلمہ کے ساتھ کوئی یہ بھی کہتا ہے کہ میں اسلام کے علاوہ ہر دین سے بری ہوں تو اس کا اسلام مزید موکد ہوجاتا ہے۔(۲)

نماز میت کے سلسلے میں فرماتے ہیں:ہر اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے جو کلمہ شہادتین کا اظہار کرتا ہو اور اس بچّے کی بھی نماز ہوسکتی ہے جو چھ سال کا ہوا اور حکم اسلام میں داخل ہو(۳)

نجاسات کے سلسلے میں فرماتے ہیں:دسویں نجاست کافر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرایع الاسلام ج:۱ص:۳۷۔

(۲)شرایع الاسلام ج:۴ص:۱۸۵۔۱۸۶۔

(۳)شرایع الاسلام ج:۱ص:۱۰۴۔۱۰۵۔

۴۳

اصول یہ ہے کہ کافر وہ ہے جو اسلام سے خارج ہو یا جو خود کو مسلمان تو کہتا ہو لیکن ضروریات دین کا منکر ہو جیسے خوارج اور غلاۃ۔کتاب نکاح میں عقد کے لواحق کے بارے میں فرماتے ہیں:

مسئلہ نمبر۱:

نکاح میں دونوں کا کفو ہونا شرط ہے،کفو سے مراد یہ ہے کہ دونوں مسلمان ہوں اور نکاح میں ایمان کی شرط ہے یا نہیں تو اس کے بارے میں دور روایتیں ہیں،اظہر یہ ہے کہ محض اسلام پر اکتفا کیا جائے اگر چہ ایمان کا لحاظ رکھنا مستحب موکد ہے خصوصاً زوجہ کی طرف سے ایمان کی شرط زیادہ ضروری ہے اس لئے کہ عورت اپنے شوہر کے مذہب کو اختیار کر لیتی ہے البتہ نکاح ناصبی سے صحیح نہیں ہے۔(۱) جو اعلانیہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمن ہیں اس لئے کہ عداوت اہل بیت علیہم السلام کا ارتکاب دین اسلام کو باطل کردیتا ہے۔(۳) ذباحۃ کے بارے میں فرماتے ہیں:ذبح کرنے والے کا مسلمان ہونا ضروری ہے،بت پرست کا ذبیحہ قبول نہیں ہے،لیکن ایمان کی شرط نہیں ہے ایک قول بعید میں ایمان کی بھی شرط ہے البتہ جو اہل بیت اطہار علیہم السلام سے اعلانیہ دشمنی رکھتا ہو اس کا ذبیحہ صحیح نہیں ہے،جیسے خارجی اگر چہ وہ اسلام کا اظہار کرے۔(۳)

مسائل اللواحق میں فرماتے ہیں:مسلمان بازاروں میں جو ذبیحہ یا گوشت بکتا ہے اس کا خرید ناجائز ہے اور تفحص ضروری نہیں مگر بیچنے والا مسلمان ہو۔(۴)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرایع الاسلام ج:۱ص:۵۳۔

(۲)شرایع الاسلام ج:۲ص:۲۹۹۔

(۳)شرایع الاسلام ج:۳ص:۲۰۶۔

(۴) شرایع الاسلام ج:۳ص:۲۰۶۔

۴۴

کتاب الفرائض میں فرماتے ہیں:(فرائض سے مراد مواریث ہے یعنی میراث کو روکنے والی چیزیں)تیسری بات یہ ہے کہ مسلمان وارث ہوگا چاہے اس کے مذہب میں اختلاف ہو اور کفار،وارث ہوں گے چاہے ان کے گروہوں میں اختلاف ہو۔(۱)

کتاب القصاص میں قصاص کی شرطیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:دوسری شرط دین میں برابر ہونا،مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا چاہے وہ کافر ذمی ہو،مستامن ہو یا کافر حربی۔(۲)

جواز قصاص میں مسلمان اور آزاد ہونا ضروری ہے اور یہ کہ مقتول کے ساتھ زیادتی کی گئی ہو یعنی خون ناحق بہایا گیا ہو۔(۳)

مذکورہ بیانات کی بنیاد پر شیعوں کا نقطہ نظر سمجھ لینا چاہئے،عام صحابہ کے ساتھ بھی شیعوں کا یہی معاملہ ہے لیکن جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا اور حضرت نے ان کے بارے میں حدیث فرمائی تو شیعہ اس حدیث کے مطابق عمل کرتے ہیں ورنہ صحابہ اور عام مسلمانوں کے درمیان اسلام کے معاملے میں شیعوں کی نظر میں کوئی فرق نہیں ہے،شیعہ اس کو مسلمان سمجھتے ہیں جو شہادتین کی گواہی دے، اسلام کا پابند ہو،اعلانیہ اسلام کی دعوت دیتا ہو اور اسلامی فرائض کو پورا کرتا ہو،ان کے درمیان جن بنیادوں پر فرقہ بندی یا اختلاف ہے وہ اسلام کے علاوہ ہیں اور شیعہ ان کا خیال نہیں کرتے بلکہ ان کے دل کے اندر کیا ہے اور پر بھی غور نہیں کرتے بلکہ آپسی معاملات کی بنیاد وہ ان کے ظواہر کو بناتے ہیں اور ظاہر پر عمل کرتے ہیں،اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کا بھی یہ کردار رہا تھا اور ہر دور میں اسی معیار کو مانا گیا ہے،چنانچہ امیرالمومنین علیہ السلام سے ان لوگوں کے بارے میں جو آپ سے جنگ کرنے آئے سوال کیا گیا، آپ نے فرمایا:وہ ہمارے بھائی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرایع الاسلام ج:۴ ص:۱۳

(۲)شرایع الاسلام ج:۴ ص:۲۱۱

(۳)شرایع الاسلام ج:۴ ص:۲۳۴

۴۵

ہیں جنہوں نے ہم سے بغاوت کی ہے،آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ کافر ہیں،آپ نے ان کی عورتوں کو کنیز نہیں بنایا، ان کے مال کو حلال کیا اس لئے کہ وہ اہل قبلہ یعنی مسلمان تھے،بس یہی شیعوں کا بھی طریقہ ہے وہ ظاہر پر اعتبار کرتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اکثر اسلامی فرقے بھی یہی کرتے ہیں۔

کتاب و سنت اور مسلمانوں کی بول چال میں کفر کا اطلاق مزید کچھ افراد پر ہوتا ہے

بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں کتاب و سنت اور مسلمانوں کی گفتگو میں کفر کا اطلاق بعض ان افراد پر بھی ہوتا ہے جو کلمہ شہادتین کے قائل ہیں،کبھی سابقہ کے طور پر تو کبھی اس کے باطن کا لحاظ کرتے ہوئے کہ وہ آدمی اسلام کے کسی تقاضے کو پورا ہی نہیں کرتا صرف کلمہ کا شاہد ہے لیکن عقیدہ اور عمل میں استقامت نہیں رکھتایا اور بندوں سے اللہ نے جن عبادات اور وفائے عہد کا مطالبہ کیا ہے اس کو انجام نہیں دیتا اور کبھی ایسا ہوتا کہ اس کا باطنی عقیدہ اسلام کی دعوت سے مطابقت نہیں رکھتا، ایسے شخص کو نفاق سے مطعون کیا جاتا ہے، ان صورتوں میں قرآن مجید ایک رخ کی وضاحت کرتا ہے کہ

((و من لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الکٰفرون))(۱)

جو اللہ کے نازل کئے ہوئے فیصلہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ کافر ہیں۔

اور دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:

((ولله علی الناس حج البیت من الستطاع الیه سبیلا و من کفر فانّ الله غنی عن العالمین))(۲)

ترجمہ آیت:((اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض خدا کے لئے خانہ کعبہ کا حج کریں، جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو اور جس نے استطاعت کے با وجود حج سے انکار کیا تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ مائدہ آیت:۲۴

(۲)سورہ:آل عمران،آیت:۹۷

۴۶

(یاد رکھئے کہ)خدا سارے سے بےنیاز ہے۔

اس سلسلے میں سرکار دو عالمؐ کا قول بھی شاہد ہے جو بہت سے راویوں سے مروی ہے چنانچہ آپ نے فرمایا:دیکھو میرے بعد کفر کی طرف نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردن کاٹنے لگو(۱)

اور جناب عائشہ کا قول، عثمان کے لئے کہ اس نعثل کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے(۲)

عمر بن خطاب کا حاطب ابن ابی بلتعہ کے بارے میں سرکار سے یہ کہنا کہ اے خدا کے رسول! ان کی گردن ماردینی چاہئے یہ کافر ہوگیا ہے۔(۳)

خدیفہ یمانی کا قول کہ نفاق عہد نبیؐ میں تھا آج تو دوہی چیزیں ہیں یا کفر ہے یا ایمان ہے۔(۴)

ابوشعیب کا یہ جملہ کہ حفص نامی شخص نے شافعی سے مناظرہ کیا،حفص نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے،شافعی نے جواب دیا:تو نے خدا سے کفر کردیا۔(۵)

اور یاسر کی حدیث حضرت ابوالحسن علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:جو اللہ کی تشبیہ دے وہ مشرک ہے اور جو اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کرے جنہیں اس نے منع کیا ہے وہ کافر ہے۔(۶)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)صحیح بخاری ج:۱،ص:۵۶،کتاب علم باب الانصات للعمائ،ج:۲،ص:۶۱۹،کتاب الحج ایام منیٰ کے خطبہ کے سلسلے میں

(۲)تاریخ طبری،ج:۳،ص:۱۲،اس باب میں کہ جس میں عائشہ نے کہا تھا کہ خدا کی قسم میں عثمان کے خون کا بدلہ ضرور لوں گی۔

(۳)الاحادیث المختارہ ج:۱ص:۲۸۶،جس میں عبداللہ بن عباس نے عمر سے روایت کی اور کہتے ہیں کہ اس کی سند بھی صحیح ہے،مسند عمر بن خطاب،ج:۱،ص:۵۵۔

(۴)صحیح بخاری ج:۶ص:۲۴۰۶،کتاب الفتن،قسم کے باب میں،سیر اعلام النبلا،ج:۱۰،ص:۳۰،امام شافعی کے حالات میں۔

(۵)سنن کبری بیہقی ج:۱۰،ص:۴۳،کتاب الایمان

(۶)عیون اخبار رضا ج:۱،ص:۹۳

۴۷

اباصلت ہروی کی ایک حدیث حضرت امام رضا علیہ السلام سے ہے،آپ نے حضرت سے پوچھا:اے فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس حدیث کا کیا مطلب ہے لا الہ الا اللہ کا ثواب خدا کے چہرے پر نظر کرنے کے ثواب کے برابر ہے،آپ نے فرمایا اے اباصلت! جو اللہ کی تعریف کسی چہرے سے کرتا ہے وہ کافر ہے بلکہ اس کا چہرہ اس کے انبیا،اس کے مرسلین علیہم السلام اور اس کی حجتیں ہیں،یہی وہ حضرات ہیں جن کہ وجہ سے لوگ خدا اور اس کے دین اور اس کی معفت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو انبیا و مرسلین اور خدا کی حجتوں کو قیامت کے دن ان کے درجات پر نظر کرنا ثواب عظیم کا سبب ہے،اسی لئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو ہمارے اہل بیتؑ سے بغض رکھتا ہے قیامت کے دن مجھے نہیں دیکھے گا۔(۱)

اور آپ نے فرمایا:تم میں سے ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو مجھ سے جدا ہونے کے بعد پھر مجھے نہٰیں دیکھیں گے اور اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں۔

لیکن مذکورہ وضاحت اسلام کے اس معنی کے منافی ہے جو اس سے پہلے بیان کیا جاچکا ہے اور نہ احکام کی ترتیب کو روکتی ہیں(یعنی اسلام کا مطلب یہی ہے کہ جو شخص کلمہ شہاتین اور ضروریات دین کا قائل ہے وہ مسلمان ہے)جیسا کہ مسلمانوں کہ فقہ عمومی سے ظاہر ہوتا ہے،مسلمانوں کے تمام فرقے آپس میں معاملات کرتے رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مسلمان ہونے کا برتاؤ کرتے رہے ہیں سوائے بعض خوارج کے یا اسی طرح کے دوسرے فرقوں کے جو شاذ ہیں اور مسلمانوں نے ان سے ہمیشہ سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے،عام شیعہ صحابہ یا عام مسلمانوں کو اسلام کے مذکورہ بالا معنی سے خارج نہیں سمجھتے مگر یہ کہ بعض شیعوں کا یہ مسلک کبھی رہا ہے لیکن فی الحال میں ان کو نہیں جانتا اور ان کے بارے میں معلومات کرنا میرے لئے آسان بھی نہیں ہے، اگر کہیں ایسا پایا بھی جاتا ہے تو ایسا شیعہ اپنے نظریہ میں تنہا اور وہ اپنے قول اور موقف کا خود ہی جواب دہ ہے،ظاہر ہے کہ شیعہ عوام یا شیعہ قوم پر اس کا ایک کے نظریہ کا جواب دینے کی ذمہ داری عائد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)توحید(صدوقؒ)ص:۱۱۸۔۱۱۷

۴۸

نہیں ہوتی چہ جائیکہ یہ خطرناک قول تمام شیعوں پر لاددیا جائے اور ان کی طرف منسوب کردیا جائے۔

سوال:۲۔مجھ سے دو باتوں کے بارے میں پوچھا گیا تھا، ایک تکفیر صحابہ اور دوسرے صحابہ کو گالیاں بکنا۔

آپ کا دوسرا سوال گالی اور طعن سے متعلق ہے۔

اس معاملے میں شیعوں کا طرز عمل بیان کرنا اور کوئی ٹھوس بات کہنا تو بہت مشکل ہے، شیعوں میں بہت سے شعبے پائے جاتے ہیں اور یہ لوگ بھی بہرحال تمام لوگوں کی طرح انسان ہیں، ان کی قوت جذبات کے برداشت کی طاقت عمومی رہن سہن اور دینی ثقافت کسی ایک صحابی یا تمام اصحاب کے بارے میں ان کا مبلغ علم،ان کی اخلاقی اور دینی ضرورتیں،ان کی گھریلو اور سماجی تربیت اور ان کے اپنے دلی جذبات پر حملہ ہونے کے وقت مذاہب کا طریقہ ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں انسانوں کی مختلف مقدار اور مختلف امکانات میں پائی جاتی ہیں اور شیعہ انسان ہیں مقام عمل میں ان تمام باتوں سے متاثر ہوتے ہیں، اس لئے اجتماعی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ شیعوں کا اس سلسلے میں کیا نظریہ ہے،البتہ صحابی کے بارے میں شیعہ یہ نظریہ رکھتے ہیں جس کی انہیں تعلیم دی گئی ہے اور جس پر دلیلیں ان کے پاس موجود ہیں اور صرف صحابہ ہی نہیں بلکہ تابعین اور عام مسلمانوں کے بارے میں بھی ان کا یہی نظریہ ہے۔

صحابہ خود اپنی نظر میں قابل احترام نہیں تھے

اگر جو آدمی صحابہ کی تاریخ کو پڑھے اور بنظر غائر ان حرکات کو دیکھے جو ان سے سرزد ہوئیں ہیں تو یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ تمام صحابہ قابل احترام نہیں ہیں اور ان کے تقدس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ہے جب کہ کچھ لوگوں نے تمام صحابہ کے گرد تقدس کا ایک بے بنیاد دائرہ کھینچ رکھا ہے۔

بلکہ صحابہ کے حالات پر نظر کرنے سے یہ بات بہرحال ثابت ہوجاتی ہے کہ صحبت پیغمبرؐ انہیں گناہوں سے نہیں بچاسکی،ان کے عیب کو دور نہیں کرسکی یہاں تک کہ صحابہ آپس میں ایک دوسرے کو

۴۹

گالی دینے اور لعن و طعن کرنے سے پرہیز کرتے تھے بلکہ بعض صحابہ نے تو بعض صحابہ کو اتنی گالیاں دیں اتنی لعن و لعن کی کہ ان کا یہ کارنامہ مشہور ہوگیا اور صحبت پیغمبر انہیں گالی گلوج سے باز نہیں رکھ سکی۔

عثمان کے معاملے میں صحابہ کے کارنامے

عثمان کے معاملے میں صحابہ کے درمیان کیا کچھ نہیں ہوا تاریخ سے پوشیدہ نہیں ہے،صحابہ آپس میں دشنام طرازی کرتے رہے اور قول ع عمل سے اپنے تہذیبی دیوانے پن کا ثبوت پیش کرتے رہے۔

عثمان کو گالی دینے میں اور ان پر طعن کرنے میں سب سے زیادہ سخت یہ تین نام آتے ہیں،طلحہ،زبیر اور عائشہ،روایت تو یہاں تک ہے کہ طلحہ صاحب نے عثمان پر پانی بند کردیا تھا(۱) اور ان کے پاس لوگوں کی آمد و رفت پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔(۲)

ابن ابی الحدید نے مقتل عثمان نام کی کتاب میں مدائنی سے نقل کیا ہے کہ طلحہ نے تین دن تک عثمان کی میت کو دفن نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ حکیم بن حزام جو بنی اس ابن عبدالعزی کا تھا اور جبیر ابن مطعم ابن حارث بن نوفل نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے گذارش کی کہ عثمان کو قبر ملنی چائے تو طلحہ نے قبرستان کے راستے میں کچھ لوگوں کو پتھر دے کر بٹھا دیا جو عثمان کی میت لیجانے والوں کو پتھر سے مارتے تھے، واقدی کہتے ہیں:جب عثمان قتل ہوئے تو ان کے دفن کے بارے میں بات ہونے لگی طلحہ نے صاف کہہ دیا انہیں دیر سلع یعنی یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔(۳)

واقدی کہتے ہیں کہ عثمان کے گھر پر جب حملہ ہوا تھا اس وقت جو لوگ موجود تھے ان سے روایت ہے کہ طلحہ نے اپنا چہرہ نقاب سے چھپائے ہوئے تھا اور عثمان کے گھر پر پتھر برسا رہے تھے یہ اس دن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۳۸۔انساب الاشراف ج:۵ص:۷۱۔

(۲)تاریخ طبری ج:۲ص:۶۶۸۔۶۶۹۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۱۰ص:۶۔۷۔

۵۰

کی بات ہے جس دن عثمان قتل ہوئے،روایت تو یہاں تک ہے کہ جب محاصرہ کرنے والے عثمان کے گھر میں کود گئے اور انہیں قتل کردیا۔

یہ بھی روایت ہے کہ زبیر فرما رہے تھے عثمان کو قتل کردو انہوں نے تمہارا دین بدل دیا ہے ان سے کہا گیا کہ آپ قتل کا فتوی دے رہے ہیں اور آپ کے بیٹے عثمان کے دروازے پر کھڑے ہوئے عثمان کی حمایت کررہے ہیں تو انھوں نے فرمایا کوئی ہرج نہیں ہے میں اس بات کو ناگوار نہیں سمجھتا کہ عثمان قتل ہوجائیں اگر چہ قتل کی ابتدا میرے بیٹے ہی سے ہو،عثمان کل کڑک پر پڑا ہو ایک مردار ہوگا(۱) یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ عائشہ عثمان کے بارے میں کہتی تھیں اس داڑھی والے کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے ایک دن عثمان مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے اور عائشہ اور حفصہ لوگوں کو عثمان کے خلاف بھڑکار رہی تھیں جب عثمان نے سلام پھیرا تو فرمایا یہ دونوں فتنہ پرداز عورتیں لوگوں کی نماز میں رخنہ ڈال رہی ہیں پھر خطاب کر کے فرمایا اگر تم دونوں گالیاں دینے سے باز نہیں آئیں تو میں تمہیں حلال گالیاں دوں گا اور میں تم دونوں کی اصل سے واقف ہوں(۲) اور جب سعد نے عثمان کی مخالفت کی تو عثمان انہیں تکلیف پہنچانے کے ارادے سے جارہے تھے امام علیؑ مسجد میں آرہے تھے عثمان امام سے مسجد کے دروازے پر ٹکرا گئے،سعد عثمان کو حضرت علیؑ کے سامنے ہی گالیاں دینے لگے۔(۳)

ایک جماعت نے جس میں عثمان بھی شامل ہیں طلحہ،زبیر،اور عائشہ پر یہ الزام لگایا ہے کہ ان لوگوں کو عثمان کے خلاف بھڑکایا انہیں گالیاں دیں اور ان کے قتل پر آمادہ کیا۔(۴)

امیرالمومنینؑ نے فرمایا:میں چار افراد کے ذریعہ گرفتار بلا ہوا ہوں مکارترین اور پست

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۳۵۔۳۶،طلحہ و زبیر کے بارے میں کلام امامؑ۔

(۲)الجامع(ازدی)ج:۱۱ص:۳۳۵۔۳۵۶،باب فتن میں۔

(۳)الجامع(ازدی)ج:۱۱ص:۳۵۶،باب فتن میں۔

(۴)تاریخ طبری ج:۲ ص:۶۶۸۔۶۶۹،قتل عثمان کے بارے میں۔

۵۱

ترین شخص یعنی طلحہ،سب سے بہادر یعنی زبیر،لوگوں کے لئے سب سے زیادہ مرکز اطاعت یعنی عائشہ اور سب سے جلد فتنہ پیدا کرنے والا یعنی ابن امیہ،فرمایا یہ لوگ مجھ سے وہ حق مانگ رہے ہیں جن کو خود ترک کرچکے ہیں،اس خون کا بدلہ مانگ رہے ہیں جسے انہوں نے خود بہایا ہے اور انہوں نے مجھے چھوڑ کے دوسرے کو ولی بنایا ہے اگر میں انکار میں ان کا ساتھ دیتا تو وہ انکار نہیں کرتے اور عثمان کا قصاص سوائے ان کے کسی پر نہیں ہے یہی لوگ باغی گروہ ہیں خدا کی قسم طلحہ و زبیر اور عائشہ یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ میں حق پر ہوں اور وہ لوگ باطل پرست ہیں(۱) دوسری جگہ ارشاد فرمایا لیکن انہیں خدا کی قسم ہرگز دعوت نہیں دی گئی تھی وہ خود خون عثمان کا مطالبہ کرتے ہوئے نکلے بخدا وہی لوگ عثمان کے قاتل ہیں۔(۲)

محمد بن طلحہ کہتے ہیں کہ عثمان کا خون تین تہائیوں میں تقسیم ہے ایک تہائی صحاب ہودج یعنی عائشہ کے ذمہ ہے ایک تہائی سرخ اونٹ والے کے ذمہ ہے یعنی طلحہ اور ایک تہائی علی بن ابی طالب کے ذمہ ہے۔(۳)

سعد بن ابی وقاص سے کسی نے پوچھا کہ عثمان کا قاتل کون ہے انہوں نے کہا میں تمہیں بتاتا ہوں تلوار عائشہ نے کھینچی اس پر صیقل طلحہ نے کی اور اس کو زہرآلودہ علی بن ابی طالب نے کیا زبیر خاموش رہے لیکن ہاتھ سے اشارہ کیا میں روکنا چاہتا ہوں تو ان کی مدافعت کرتا لیکن عثمان نے دین میں بہت سی بتدیلیاں کردی تھیں۔(۴)

اسرائیل بن موسی کہتے ہیں کہ میں نے حسن کو یہ کہتے سنا کہ طلحہ اور زبیر بصڑہ پہنچے لوگوں نے پوچھا تم لوگ کیوں آئے ہو کہنے لگے عثمان کا خون طلب کرنے آئے ہیں حسن نے کہا سبحان اللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الاستیعاب ج:۲ ص: ۲۱۳۔۲۱۴،طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں۔

(۲)تاریخ طبری ج: ۳ ص: ۲،بیعت علیؑ کے ذکر میں۔

(۳)تاریخ طبری ج: ۳ ص: ۱۶ ۔

(۴)الامۃ و السیاسۃ ج: ۱ص: ۴۸،اور اسی طرح العقد الفرید،ج:۴ص:۲۹۵،کتاب السجدۃ الثانیہ۔

۵۲

کیا اس قوم کے پاس بالکل ہی سمجھ نہیں ہوتی تو یہ کہتے کہ عثمان کو تمہارے علاوہ علاوہ کسی اور نے قتل کیا۔(۱)

یہ کہانی بھی بہت مشہور ہے کہ مروان نے عثمان کے بدلے میں طلحہ کو قتل کردیا(۲) بلکہ استعیاب کا مولف لکھتا ہے قابل اعتبار علما کا اس معاملے میں بالکل اختلاف نہیں کہ جنگ جمل میں مروان نے طلحہ کو قتل کیا حالانکہ طلحہ اسی کی فوج میں تھا۔(۳)

اسی طرح یہ بھی مشہور ہے کہ طلحہ اور عثمان کے درمیان جو کچھ ہوا اس پر نادم تھے لوگ کہتے ہین کہ طلحہ کے گناہوں کا کفارہ یہی تھا کہ وہ قتل کردئیے جائیں۔(۴) عثمان کا انکار کرنے والے اور ان پر طعنہ کرنے والوں میں عمار یاسر بھی تھے عمار اور محمد بن ابی بکر کہا کرتے تھے کہ عثمان ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے ہیں اور انہوں نے منافقت کی ہے(۵)اور عمار خون عثمان کو اتنا محترم نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا قصاص لیا جائے۔(۶)

باقلانی کہتے ہیں کہ عمار عثمان کے بارے میں صاف کہتے تھے کہ وہ کافر ہوگئے ہیں اور عثمان کے قتل کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم نے عثمان کو قتل کردیا اور جس دن ہم نے قتل کیا وہ کافر ہوچکے تھے شاید کہ عثمان نے عمار کوڈ انٹا تھا،ان کی تادیب کی تھی ان کے اس قول کی بنا پر جو اکثر کہتے تھے کہ ہم نے عثمان کو ہٹا دیا اور ہم اس سے بری ہیں۔(۷)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۱۲۸،کتاب معرفۃ الصحابہ

(۲)الطبقات الکبری ج:۳ص:۲۲۲۔۲۲۳،ج:۵ص:۳۸،مستدرک صحیحین،ج:۳ص:۴۱۷۔۴۱۸،کتاب معرفت صحابہ،المعجم الکبیر،ج:۱ص:۱۱۳(اور اس میں ہے کہ مروان نے طلحہ کو قتل کیا)الاستیعاب ج:۲ص:۲۱۳،۲۱۴،طلحہ بن عبیداللہ کے حالات میں

(۳)الاستیعاب ج:۲ص:۷۹

(۴)الطبقات الکبری ج:۳ص:۲۲۲،الاستیعاب،ج:۲ص:۲۱۳،مستدرک علی صحیحین،ج:۳ص:۴۱۹،کتاب معرفۃ الصحابہ

(۵)معجم الکبیر،ج:۱ص:۷۹

(۶)مجمع الزوائد ج:۹ص:۹۷۔۹۸،باب امر عثمان اور ان کی وفات کے سلسلہ میں المعجم الکبیر،ج:۱ص:۸۱

(۷)التمہید ص:۲۲۰

۵۳

کلثوم ابن جبر ابوغدبہ جہنی سے روایت کرتا ہے الغاویۃ جو عمار کا قاتل ہے الغٓویۃ کہتا ہے کہ ہم نے وادی عقبہ میں رسولؐ کی بیعت کی اس دن آپ نے فرمایا کہ خبردار ہوجاؤ اے لوگوں کہ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر حرام قرار دیا گیا اس دن تک کے لئے کہ تم اپنے پروردگار سے اسی حرمت کے ساتھ ملاقات کرو یہ حکم اسی دن اسی مہینہ اور اسی شھر میں دیا گیا کیا میں نے حکم خدا پہنچادیا؟ہم نے کہا ہاں تو پھر فرمایا دیکھو ہمارے بعد کا فرمت ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

کلثوم کہتا ہے کہ الغاویۃ جہنی نے کہا ہم عمار یاسر کو شریف آدمی سمجھتے تھے لیکن میں نے ایک دن مسجد قبا میں عمار کو کہتے سنا کہ یہ لمبی داڑھی والا یہودی عثمان اگر میں اس کے خلاف اپنا مددگار پاتا تو اب تک اسے قتل کرچکا ہوتا الغاویہ نے کہا کے پالنے والے اگر تو چاہے تو مجھے عمار پر تمکن دیدے جب صفین کا دن آیا تو وہ فوج کے اگلے حصے میں پیدل آگے بڑھا اتنے میں ایک مرد دکھائی دیا جو نقاب پوش تھا پس اس نے اس مرد کے گھٹنے میں نیزہ مارا جب وہ گرگیا تو اس نے آگے بڑھ کے اس کی پٹی کو ہٹایا پتہ چلا یہ عمار یاسر ہیں اس نے عمارت کا سر کاٹ لیا۔

کلثوم کہتا ہے کہ میں نے اس الغاویہ سے زیادہ گمراہ کسی کو نہیں پایا اس لئے کہ عمار کے قتل کے بارے میں اس نے سرکار دو عالم سے اپنے کانوں سے سنا تھا کہ عمار کا قاتل اور ان کا سامان لوٹنے والے دونوں جہنمی ہیں(۱)

ابھی عرض کیا جاچکا ہے کہ عثمان عمار کو بہت گالیاں دیتے تھے کبھی کہتے اے بہت زیادہ پیشاب کرنے والی کے بیٹے(۲) کبھی کہتے تو جھوٹا ہے اے سمیہ کے بیٹے(۳)کبھی کہتے کہ یا عاض ایرابیہ(۴)اور کبھی فرماتے کہ میری طرف اس کلوٹی کے بیٹے پر وائے ہو۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الطبقاب الکبری ج:۳ص:۲۶۰۔(۲)انساب الاشراف ج: ۵ ص: ۴۸۔

(۳)انساب الاشراف ج: ۵ ص: ۴۹۔

(۴)انساب الشراف:ج: ۵ ص: ۵۴۔

(۵)تاریخ یعقوبی،ج:۲ص:۱۷۱

۵۴

(صحابی تو عثمان بھی تھے اور جناب عمار یاسر بھی لیکن دونوں کی آپس میں مار پیٹ مشہور ہے)جیسے کہ عثمان نے حکم دیا کو عمار کو پیٹا جائے اس غریب پر اتنی مار پڑی کہ وہ بے ہوش ہوگئے اور کتنی نمازیں چھوٹ گئیں(۱) یا ان کے پیر پر مار پڑی یہاں تک کہ چوٹ ان کے خصیوں پر پڑی اور وہ چھٹک(۲) یا پھر انہیں کھینچتے ہوئے لائے اور دروازہ پر ڈال دیا گیا(۳) عثمان ان کے پیٹ پر کھڑے ہو کے ان کے پیٹ کو ملنے لگے یہاں تک کہ وہ بیہوش ہوگئے(۴) بلکہ انہوں نے تو عمار کے قتل کا بھی اردہ کر لیا تھا مگر بنی مخزوم نے عثمان سے بات کی اور ان کو اس اقدام سے باز رکھا۔(۵) پھر عثمان اور عبدالرحمٰن بن عوف کے درمیان جو معاملات ہوئے وہ بھی قابل غور ہیں عبدالرحمٰن بن عوف عثمان پر بہت سختی کرتے تھے اور انہوں نے امیرالمومنینؑ سے کہا کہ آپ اپنی تلوار لیں اور میں اپنی تلوار اٹھاتا ہوں، بیشک عثمان نے مجھ سے بدعہدی کی ہے(۶) اور عبدالرحمٰن بن عوف نے یہ قسم بھی کھائی کہ تا حیات عثمان سے نہیں بولیں گے(۷) جب وہ بیمار پڑے تو عثمان عیادت کو گئے لیکن عبدالرحمٰن نے کوئی توجہ نہیں دی(۸) اور ناراضی کی حالت میں مرگئے(۹) یہ وصیّت بھی کر کے گئے کہ عثمان ان کے جنازے کی نماز نہیں پڑھیں گے۔(۱۰)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)انساب الاشراف،ج۵ص:۴۸۔

(۲)انساب الاشراف،ج:۵ص:۴۹۔

(۳)الامۃ و السیاسۃ،ج:۱ص:۳۳۔

(۴)مصنف ابن ابی شیبہ،ج:۴ص:۱۹۹،کتاب الامرائ،العقد الفرید،ج:۴ص:۳۰۷،العسجدۃ الثانیہ۔

(۵)انساب الاشراف،ج:۵ص:۵۴۔۵۵،تاریخ یعقوبی،ج:۲ص:۷۳۔

(۶)انساب الاشراف،ج:۵ص:۵۷۔

(۷)انساب الاشراف،ج:۵ص:۵۷،تایخ ابی الفدائ،ج:۱،ص:۱۶۶،العقد الفید،ج:۴،کتاب العسجدۃ الثانیہ،ص:۲۸۰،۳۰۵۔

(۸)تاریخ ابی الفدائ،ج:۱ص:۱۴۴،شرح نہج البلاغہ،ج:۱ص:۱۹۶،العقد الفرید،ج:۴ص:۲۸۰،کتاب العسجدۃ الثانیۃ۔

(۹)تاریخ ابی الفدائ،ج:۱ص:۱۴۴،شرح نہج البلاغہ،ج:۱ص:۱۹۶،العقد الفرید،ج:۴ص:۲۸۰،کتاب العسجدۃ الثانیۃ۔

(۱۰)انساب الاشراف،ج:۵ص:۵۷۔

۵۵

عثمان نے ایک بڑا محل بنایا تھا اس میں جب ولیمہ کیا تو بہت سے لوگوں کے ساتھ عبدالرحمٰن کو بھی بلایا عبدالرحمٰن نے اس محل میں صاف کہہ دیا کہ اے عفان کے بیٹے لوگ تمہارے بارے میں جن باتوں کو جھوٹ سمجھے رہے تھے اسے تم نے سچ کر دکھایا میں تمہاری بیعت سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں یہ سنتے ہی عثمان غضبناک ہوگئے اور غصے میں ایک غلام سے کہا عبدالرحمٰن کو ابھی میری محفل سے نکال دو اور فرمایا کہ خبردار عبدالرحمٰن کے پاس کوئی نہیں بیٹھے(۱)

عبدالرحمٰن کے سامنے عثمان کا تذکرہ کیا گیا جب وہ مرض موت میں مبتلا تھے تو عبدالرحمٰن نے کہا کہ انہوں نے فرمایا کہ میں کلافت کے کنویں تک پہنچ چکا ہوں اور اس کا پانی بھی پی لیا ہے لیکن عبدالرحمٰن اس پانی سے محروم رہ گئے(۲) یہی نہیں بلکہ عبدالرحمٰن پر عثمان،نفاق کا الزام رکھتے تھے بلکہ انہیں منافق شمار کرتے تھے(۳) یہاں تک روایت ہے عبدالرحمٰن نے فرمایا کے مجھے جینے کی اب کوئی خواہش نہیں کہ عثمان مجھے منافق کہتے ہیں۔(۴)

عثمان اور ابوذر کے درمیان بھی جو کچھ ہوا وہ کافی مشہور ہے یہاں تک کہ ابوذر کو عثمان نے ربزہ جانے پر مجبور کیا اور ربزہ ہی میں ان کا انتقال بھی ہوگیا۔(۵)

ابواسحاق لکھتے ہیں کہ ایک دن ابوذر عثمان کے دربار پہنچے اور ان کے کسی عیب کی نشاندہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۱۹۶۔

(۲)انساب الشراف ج:۵ص:۵۷۔

(۳)صواعق المحرقہ،ص:۱۱۲،السیرۃ الحلبیۃ،ج:۲ص:۲۷۳،باب مدینہ کی طرف ہجرت۔

(۴)شرح نہج البلاغہ ج:۲۰ص:۲۵۔

(۵)المستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۵۲،کتاب المغازی والسرایا ص:۳۸۷،کتاب معرفۃ الصحابۃ،مسند احمد،ج:۵ص:۱۴۴،طبقات الکبریٰ،ج:۴ص:۲۲۷،۲۳۴،السنۃ لابی ابی عاصم،ج:۲ص:۵۰۱،شرح ابن ماجہ،للسیوطی،ص:۱۵،باب سننے اور اطاعت کے باب میں،استیعاب، ج:۱ ص:۲۱۵،حالات ابوذر میں،سیر اعلام النبلائ،ج:۲ص:۵۷۔۷۱۔۷۷،حالات ابوذر میں،سیرۃ النبویۃ،ج:۵ص:۲۰۵،جنگ تبوک،تاریخ طبری،ج:۲ص:۱۸۴۔

۵۶

کی پھر ابوذر کھڑے ہوگے مولائے کائناتؑ اپنے عصا کا سہارا لیتے ہوئے عثمان کے پاس آئے عثمان نے ان سے پوچھا کہ اس آدمی کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جو اللہ کے رسول کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے امام نے فرمایا اس کو مومن آل فرعون کی منزل میں رکھئے اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کو جھوٹ کی سزا ملے گی اور اگر سچا ہے تو آپ کو جس بات سے ڈرا رہا ہے وہ آپ کے سامنے مصیبت بن کے آئے عثمان کو مولا علیؑ کی یہ بات بڑی بری لگی،آپؑ غصہ میں فرمایا تیرے منھ میں خاک پڑے جب امام نے فرمایا خاک تمہارے منہ میں پڑے کیا تم ہر کام ہماری رائے سے کرتے ہو جو مجھ سے مشورہ کر رہے ہو۔(۱)

سعید ابن مسیّب کہتے ہیں کہ عثمان نے سرکار دو عالمؐ کے وقف کئے ہوئے کسی کوئیں کو خرید لیا تھا مولائے کائنات نے انہیں روکنا چاہا تو دونوں کے درمیان بات بڑھ گئی یہاں تک کہ عباس آگئے انہوں نے دیکھا کہ عثمان نے مولائے کائناتؑ کو مارنے کے لیے اپنا تازیانہ اٹھایا ہوا ہے اور مولاؑ نے عثمان کو مارنے کے لئے اپنا ڈنڈا اٹھایا ہوا ہے تو عباس نے دونوں کو سمجھا بجھا کے ٹھنڈا کیا۔(۲)

عثمان کے سامنے عبداللہ بن مسعود لائے گئے تو عثمان نے کہا:اب تمہارے سامنے وہ چوپایہ آیا ہے جو اپنے کھانے پر چلتا ہے،پھر قے کرتا ہے اورلید کرتا ہے اور یہ کہ عثمان نے حکم دیا کہ عبداللہ بن مسعود کو زمین پر گرا کر مارا جائے،پس اتنا مارا کہ یہاں تک کہ ان کی پسلی ٹوٹ گئی عثمان عبداللہ بن مسعود پر یہ الزام رکھتے تھے کہ وہ عثمان کا خون حلال سمجھتے ہیں(۳) عثمان نے عبداللہ ابن مسعود کے وظیفہ کو روک دیا(۴) یہاں تک عبداللہ ابن مسعود مرگئے اور عثمان کو خبر تک نہیں ہوئی۔(۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الجامع(ازدی) ج:۱۱ص:۳۴۹،باب الامرائ۔

(۲)مجمع الزوائدج:۷ص:۲۲۶،اور اسی طرح المعجم الاوسط،ج:۷ص:۳۶۷۔

(۳)انساب الاشراف ج:۵ص:۳۶۔

(۴)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۴۷،انساب الاشراف،ج:۵ص:۳۷،تاریخ الخمیس،ج:۲ص:۲۶۸۔

(۵)تاریخ الخمیس ج:۲ص:۲۶۸،انساب الاشراف،ج:۵ص:۳۷۔

۵۷

محمد ابن ابوخدیجہ اور محمد ابن ابی بکر مصر میں عثمان کا عیب کھول کھول کے بیان کرتے تھے اور کہتے تھے کہ عثمان کا خون حلال ہے۔(۱)

مختصر یہ کہ عثمان اور صحابہ کے درمیان منافرت،گالم گلوج اور اختلافات کے اتنے شواہد تاریخ میں موجود ہیں جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا ہے اور اتنے روشن واقعات ہیں جن کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے حد یہ ہوگئی کہ دور عثمان میں ایک صحابی جو مدینہ میں مقیم تھا ایک دوسرے صحابی کو جو مدینہ میں نہیں تھا لکھا کہ تم لوگ مدینہ سے باہر جہاد کے لئے گئے اور چاہتے ہو کہ دین محمدیؐ برباد ہوچکا ہے اور لوگ اس کو چھوڑ چکے ہیں نلدی آگے دین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہاں قائم کرو، اس خط کا اثر یہ ہوا کہ لوگ چاروں طرف سے مدینہ میں آکے جمع ہوگئے اور عثمان کو قتل کرڈالا۔(۲)

قتل عثمان کے بعد صحابہ کے درمیان کیا ہوا؟

قتل عثمان کے بعد صحابہ اور بری حالت ہوگئی صحابہ ایک دوسرے پر گناہ کبیرہ کا الزام لگانے لگے ہر ایک سامنے والے کو دنیا کی محبت میں فتنہ پرور کہنے لگا۔اور انہوں نے سارے عہد و پیمان توڑ ڈالے مولا کائناتؑ نے صاف کہہ دیا کہ طلحہ زبیر اور عائشہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں حق پر ہوں اور وہ باطل پرست لوگ ہیں۔

مولائے کائناتؑ کا کلام ایک جگہ تو گذشتہ بیان سے زیادہ سخت ہے جب آپ نے صحابہ اور تابعین کی جماعت کے سامنے ان کی اور معاویہ کی پول کھولی ہے آپ فرماتے ہیں میں نے فتنہ کی آنکھیں کھول دی ہیں اگر میں نہین ہوتا تو فلاں فلاں اور فلاں سے جنگ نہیں ہوتی اور نہ اہل نہروان سے جنگ کرنی پڑتی اگر تم اس کام کے ذمہ دار نہیں بنتے اور عمل کرنا چھوڑ دیتے تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۲ص:۶۲۰

(۲)تاریخ طبری ج:۲ص:۶۶۲

۵۸

تمہارے درمیان وہ خرابی پیدا ہوجاتی جس کی تمہارے نبی نے پیش گوئی کی تھی اس شخص کے لئے جو کسی کو گمراہ دیکھ کے اس سے قتال کرتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ ہم حق پر ہیں۔(۱)

اور دوسرے خطبہ میں ارشاد رفرمایا کہ محمد بن ابی بکر کی آواز آرہی ہے وہ مدد کے لئے پکار رہے ہیں اس لئے کہ نابغہ کا بیٹا خدا کا دشمن اور دشمنان خدا کا سرپرست ان کی طرف چل پڑا ہے دیکھو ایسا نہ ہو کہ گمراہ لوگ اپنے باطل کے لئے طاغوت کے راستے پر بھروسہ کرتے ہوئے تم سے زیادہ جمع ہوجائیں جب کہ تم حق پر ہو۔(۲)

سب کو معلوم ہے کہ مولائے کائناتؑ اور عمرو بن عاص کے درمیان تحکیم کا صلح نامہ لکھنے کے وقت کیا کچھ نہیں ہوا جب اہل شام نے صاف انکار کیا کہ علی کو امیرالمومنین نہ لکھا جائے حضرت نے فرمایا اللہ اکبر،اللہ اکبر،تاریخ اپنے کو دہرا رہی ہے اور ایک مرتبہ یہ واقعہ دوسری صورت میں پیش آچکا ہے خدا کی قسم مجھے صلح حدیبیہ کا صلح نامہ یاد آرہا ہے جب میں ہادی اعظم کے سامنے خود آپ کی ہدایت پر لکھ رہا تھا میں نے جب ہادی اعظم کو رسول لکھا تو کفار قریش بگڑ گئے اور کہنے لگے ہم انہیں خدا کا رسول مانتے تو پھر جھگڑا کس بات کا تھا ہم تو ان کی گواہی نہیں دیتے آپ صرف اپنے نبی کا نام اور ان کے باپ کا نام لکھیں اللہ آپ ہماری کس سے مثال دے رہے ہیں وہ لوگ تو کفار تھے آپ ہمیں کفار سے مشابہ قرار دے رہے ہیں جب کہ ہمارا اور مسلمانوں کا دشمن نہیں رہا تیری مثال تو صرف تیری ماں سے دی جاسکتی ہے جس نے تجھے پیدا کیا عمروعاص یہ سن کے اٹھ گیا اور بولا ہم آج کے بعد آپ کے ساتھ کسی مجلس میں ایک جگہ نہیں ہوں گے امیرالمومنینؑ نے جواب دیا کہ میں بھی خدا سے یہ امید کرتا ہوں کہ وہ میری مجلس مجھ سے بلکہ تیری جیسے لوگوں سے پاک رکھے گا۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مصنف بن ابی شیبہ ج:۷ص:۵۲۸،کتاب السنۃ،لعبداللہ بن احمد،ج:۲ص:۶۲۷،کتاب الفقن،حلیۃ الاولیائ،ج:۴ص:۱۸۶

(۲)تاریخ طبری ج:۳ص:۱۳۴

(۳)تاریخ طبری ج: ۳ ص: ۱۳۴

۵۹

جنگ صفین میں آپ نے عمار کے حادثہ کے بعد ایک خطبہ دیا آپ نے فرمایا:اے لوگو!ہمارے ساتھ ان کی طرف چلو جو خون عثمان کو طلب ر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عثمان مظلوم مارے گئے(سب نہیں)بلکہ انہوں نے دینا کو چکھا اور اس سے محبت کرنے لگے اور اپنا ہدف دنیا ہی کو بنالیا یہ لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر حق پر چلیں گے تو حق ان کے اور دنیا کے درمیان حائل ہوجائے گا جس کے یہ لوگ عادی ہوچکے ہیں اس قوم کا اسلام کی سابقہ تاریخ میں کوئی کارنامہ بھی تو نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ لوگوں سے طلب اطاعت کا حق رکھتے یا ان کے ولی ہوتے اس لئے انہوں نے اپنے پیچھے چلنے والوں کو یہ کہہ کے دھوکا دیا کہ ہمارا رہبر مظلوم مارا گیا تا کہ خون عثمان کے طلب کرنے کے بہانے سے جابر بادشاہ بن سکیں پھر آپ خطاب فرما رہے تھے یہاں تک کہ آپ عمروعاص کے پاس پہنچنے اور فرمایا تو نے اپنے دین کو ملک مصر کے بدلے میں بیچ دیا ہے خدا تجھے ہلاک کرے پھر ہلاک کرے تو بہت دنوں سے اسلام میں کجی پیدا کرتا چلا آرہا ہے۔

امیرالمومنین ہی نے عبیداللہ بن عمر بن خطاب سے فرمایا خدا تجھے غارت کرے تو نے اپنے دین کو دشمن اسلام اور دشمن اسلام کے بیٹے سے بیچ دیا ہے ابن عمر کہنے لگے میں تو عثمان بن عفان کا خون طلب کرنے نکلا ہوں آپ نے فرمایا:جہاں تک میرا علم گوہی دے رہا ہے تو خدا کو طلب کرنے ہرگز نہیں نکلا ہے۔(۱)

معاویہ اور اہل معاویہ بھی امیرالمومنین علیہم السلام اور آپ کے اصحاب کو برا کہنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔

یہی صحابہ ہیں جنھوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا حلال سمجھ لیا تھا جس کے نتیجے میں صفین کی جنگ ہوئی اور دس ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو کھا گئی یہاں تک کہ بات تحکیم تک پہنچی پھر بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۳ص:۹۸

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

امام علیہ السلام سے کہنے لگے : اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے! آپ کہاں جارہے ہیں ! امام علیہ السلام نے انکار کیا اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انھوں نے تازیانہ بلندکر لیا لیکن امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رہے۔ جب امام علیہ السلام کو ان لوگوں نے جاتے ہوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کہا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو جماعت سے نکل کر اس امت کے درمیان

تفرقہ اندازی کررہے ہو ! ان لوگوں کی باتیں سن کر امام علیہ السلام نے قران مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِيْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئْ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ'' ) (١) و(٢)

اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارا عمل ہمارے لئے اور تمہاری کارستانی تمہارے لئے ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔

عبداللہ بن جعفر کاخط

چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیہم السلام) کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے نکل رہے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب(٣) نے ایک خط لکھ کر اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد(٤) کے ہمراہ روانہ کیا جس کی عبارت یہ ہے:

____________________

١۔ سورہ ٔیونس ٤١

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٨٥،ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

٣۔ آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پہنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔(طبری، ج٤، ص٥١٠)آپ کی ذات وہ ہے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ہی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج٤، ص ٥٥٤)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررہے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٤٨)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے (طبری ،ج٥،ص ١٦٠) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونو ں امامو ں کے ہمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٦٥) آپ کے دونو ں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :''واللّه لو شهدته ،لأ حببت الّا أفارقه حتی أقتل معه'' خداکی قسم اگر میں موجود ہوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ہو ں یہا ں تک کہ ان کے ہمراہ قتل ہوجاؤ ں ۔ (طبری ج٥ ، ص ٤٦٦)

٤۔یہ دونو ں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلامیں جام شہادت نوش فرماکرسرفراز ہوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ما ں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ہیں (مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میں شمار ہوتے ہیں ) اور محمد کی ما ں خو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ہیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ہیں ۔

۲۲۱

'' امابعد ، فانّی أسألک باللّه لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجه الذی تتوجه له أن یکون فیه هلاکک واستئصال اهل بیتک ، أن هلکت الیوم طفیٔ نور الارض فانک علم المهتدین ورجاء المؤمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی أثر الکتاب؛ والسلام ''

اما بعد : جب آپ کی نگاہ میرے خط پر پڑے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے ؛کیو نکہ آپ نے جس طرف کا رخ کیا ہے مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلا کت اور آپ کے خاندان کی اسیری ہے اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش ہو جا ئے گا؛ کیوں کہ آپ ہدایت یافتہ افراد کے پر چمدار اور مو منین کی امید ہیں ؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں ۔ میں اس خط کے پہنچتے پہنچتے آپ کی خدمت میں شر فیاب ہو رہا ہوں ۔ والسلام

عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا : حسین (علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا ؤ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمہاری باتوں سے مطمئن ہو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحٰی بن سعید کے ہمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے وہ مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ہو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ہو ئے کہا : تم جو چا ہتے ہو لکھ کر میرے پاس لے آؤ میں اس پر مہر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :

بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ہے ۔

اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ہوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ہے اور جس میں آپ کی ہدایت ہے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ہے ۔

خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحٰبن سعید کوروانہ کررہا ہوں ؛آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس تشریف لے آئیے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بہترین جائیگاہ ہے۔ میں خداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاہوں ۔ والسلام

۲۲۲

خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کہا: اس پر مہر لگاؤ تواس نے فوراًاس پر اپنی مہر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحٰی امام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ کی خدمت میں یحٰی بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللّہ الرحمن الرحیم

امابعد، فانه لم یشاقق الله ورسوله من دعاالی اللّٰه عزَّو جلَّ وعمل صالحاًو قال أنّنی من المسلمین؛وقد دعوت الیٰ الامان والبرّو الصلة فخیرالامان امان الله ولن یؤمّن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا، فنسأل اللّٰه مخافة فی الدنیاتوجب لنا أمانه یو م القیامة فان کنت نویت بالکتاب صلتی و برّی فجُزیتَ خیراًفی الدنیاوالآخرة ۔ والسلام

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، امابعد،ہر وہ شخص جو لوگوں کو خدائے عزّو جلّ کی طرف دعوت دیتاہے اور عمل صالح انجام دیتاہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ خدااور رسول کی مخالفت نہیں کرتا ہے اور تم نے جو مجھے امان ، نیکی اور صلہ رحم کی دعوت دی ہے تو جان لو کہ بہترین امان خداوندمتعال کی امان ہے اور قیامت میں وہ شخص اللہ کی امان میں نہیں ہے جو دنیا میں اللہ سے نہیں ڈرتا ۔میں دنیامیں خدا سے اس خوف کی درخواست کرتا ہوں جو آخرت میں قیامت کے دن ہمارے لئے اما ن کا باعث ہو۔اب اگر تم نے اپنے خط کے ذریعہ میر ے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کی نیت کی ہے تو تم کو دنیاوآخر ت میں اس کی جزا ملے گی۔

۲۲۳

وہ دونوں امام علیہ السلام کا جواب لے کرعمرو بن سعید کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم دونوں نے تمہارے خط کو ان کے سامنے پڑھا اور اس سلسلے میں بڑی کو شش بھی کی لیکن اس سلسلہ میں ان کا عذر یہ تھا کہ وہ فر ما رہے تھے :'' انّی رأیت رؤیاً فیهارسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم وأُمرتُ فیها بأ مرٍأنا ما ضٍ له، علیّ کان أولٰ''

میں نے ایک ملکو تی خواب دیکھا ہے جس میں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم موجو د تھے۔ اس خوا ب میں آپ نے مجھ کو ایک چیز کا حکم دیا گیا ہے۔میں اس پر ضرور عمل کروں گا اور یہ مجھ پر سب سے زیادہ اولیٰ ہے۔

جب ان دونوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ خواب کیا تھا ؟تو آپ نے فر مایا :'' ما حدثت بها أحداً وما أنا محدّ ث بها حتی ألقی ربِّی'' (١) اور(٢) میں یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی میں یہ خواب کسی سے بیان کرنے والا ہوں یہاں تک کہ اپنے رب سے ملا قات کر لوں ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیہما السلام) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٨٨)

٢۔امام علیہ السلام یہ مناسب نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنے سفر کے رازسے سب کو آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا ہے وہ سب بیان نہیں کر دیتا ہے خصوصاً جبکہ انسان ظرف و جودکے لحاظ سے مختلف و متفاوت ہو ں اور امام علیہ السلام پر واجب ہے کہ ہر شخص کو اس کے وجود کی وسعت اور معرفت کی گنجا ئش کے اعتبار سے آشنائی بہم پہنچائی ں ، اسی لئے امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو ایک واقعی جو اب دیدیا کہ''لم یشا قق الله ورسوله من دعا الی اللّٰه وعمل صالحاً ...وخیر الا مان أمان اللّٰه و لن یؤمن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا فنسأل اللّٰه مخافةفی الدنیا تو جب لنا أما نه یوم القیامه ''

اور جب وہ لوگ اس جواب سے قانع نہ ہو ئے تو امام علیہ السلام نے کہہ دیاکہ آپ کو ایک ایسے خواب میں حکم دیا گیا ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے کہ آپ اپنے سفر کو جاری رکھی ں ؛ لیکن آپ نے اس خواب کو بیان نہیں کیا اور یہ کہہ کربات تمام کردی : ''وما أنا محدث لها حتی ألقی ربی ''

شاید یہیں پرا حمد بن اعثم کوفی متوفی ٣١٠ ھ نے امام علیہ السلام کے اس خواب کا تذکر ہ کر دیا ہے جو آپ نے اپنے جد کی قبر پر مد ینہ میں دیکھا تھا لیکن یہ کیسے معلوم کہ یہ خواب وہی ہے ؟ جب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی ملا قات سے قبل میں کسی سے بھی بیان نہیں کرو ں گا یعنی یہ وہی بات ہے جس کا میں نے عہد کیا ہے ۔ واللہ اعلم بہ ، اللہ اس سے بہتر آگاہ ہے۔

۲۲۴

راستہ کی منزلیں

* پہلی منزل: تنعیم

* دوسری منزل : صفاح

*تیسری منزل : حاجر

* چوتھی منزل:چشمۂ آب

* پانچویں منزل : خزیمیہ

* زہیر بن قین کا امام علیہ السلام سے ملحق ہونا

* ایک اور نامہ

* چھٹی منزل :زرود

* ساتویں منزل :ثعلبیہ

* آٹھویں منزل:زبالہ

* نویں منزل : درّہ عقبہ

* دسویں منزل : شراف

* گیارہویں منزل : ذو حسم

* بارہویں منزل : البیضہ

* تیرہویں منزل : عذیب الھجانات

* چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل

* قربان گاہ عشق نینوا

۲۲۵

راستہ کی چودہ (١٤)منزلیں

پہلی منزل :تنعیم(١)

امام حسین علیہ السلام نے اپنے سفرکو جاری رکھااورراستہ میں آپ کا گذرایک ایسی جگہ سے ہوا جسے تنعیم کہتے ہیں ۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک قافلہ سے ہوئی جسے بحیر بن ریسان حمیر ی(٢) نے یزید بن معاویہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ یہ شخص یمن میں یزید کاکار گزار تھا۔ اس قافلہ کے ہمراہ الورس(٣) اور بہت سارے شاہانہ لباس تھے جسے عامل یمن نے یزید کے پاس روانہ کیا تھا۔امام علیہ السلام نے اس کا روان کے سارے بار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور قافلہ والوں سے فرمایا :''لا أکر هکم من أحب أن یمضی معنا الی العراق أوفینا کراء ه وأحسنا صحبته، ومن أحب أن یفارقنا من مکاننا هذا أعطیناه من الکراء علیٰ قدر ماقطع من الارض''

____________________

١۔یہ مکہ سے دوفرسخ پر ایک جگہ ہے جیساکی معجم البلدان ج٢،ص٤١٦پر مرقوم ہے ۔ مکہ کے داہنی جانب ایک پہاڑہے جسے تنعیم کہتے ہیں اور شمالی حصہ میں ایک دوسراپہاڑہے جسے ''ناعم ''کہتے ہیں او راس وادی کو ''نعیمان''کہتے ہیں ۔وہا ں پر ایک مسجد موجود ہے جو قر یب ترین میقات اورحرم سے نزدیک ترین احرام سے باہر آنے کی جگہ ہے آج کل یہ جگہ مکہ کے مرکزی علاقہ سے ٦ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ایک فرسخ ہے نہ کہ دو فرسخ ۔ اس وقت شہر سے لے کر یہا ں تک پورا ایک متصل اور وسیع علاقہ ہے جو مدینہ یا جدہ سے مکہ آنا چاہتا ہے اسے ادھر ہی سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔

٢۔گویایہ وہی شخص ہے جو علم نجوم میں صاحب نظر تھاکیونکہ اس نے عبداللہ بن مطیع کو بتایا تھا کہ جب ابن زبیر قیام کرے گا تو وہ کوفہ کاوالی بنے گا۔(طبری ،ج٦، ص ٩) طاوؤ س یمانی جو بہت معروف ہیں اس شخص کے آقا تھے۔طاوؤ س یمانی نے مکہ میں ١٠٥ھ میں وفات پائی۔(طبری، ج٦، ص٢٩)

٣۔ الورس؛ یہ خاص قسم کی گھاس ہے جو تل کی طرح ہوتی ہے اور رنگ ریزی کے کام آتی ہے اور اس سے زعفران بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ گھاس یمن کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔

ممکن ہے کہ بادی النظر فکر میں کسی کو امام علیہ السلام کا یہ فعل العیاذباللہ نا مناسب لگے کہ آپ نے درمیان سے قافلہ کے بار کو اپنی گرفت میں کیو ں لیا؟ یہ تو غصب ہے لیکن وہ افراد جو تاریخ کی ابجد خوانی سے بھی واقف ہو ں گے وہ بالکل اس کے برعکس فیصلہ کری ں گے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق تو امام علیہ السلام کا کام غلط ہوہی نہیں سکتا، انھو ں نے جو کیا وہی حق ہے لیکن ایک غیر کے لئے تا ریخ کی ورق گردانی کافی ہوگی اور جب وہ تاریخ کے اوراق میں امام حسن علیہ ا لسلام کی صلح کے شرائط پر نگاہ ڈالے گا تو ظاہری اعتبار سے بھی یزید کا تخت حکومت پر براجمان ہونا غلط ثابت ہوگا اور وہ ایک باغی شمار کیا جائے گا جس نے مسلمانو ں کے بیت المال کو غصب کیاہے اور امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ کے خلیفہ قرار پائی ں گے جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرکے اس غاصب و باغی تک اموال مسلمین پہنچنے سے مانع ہو ں پس یمن کے اس قافلہ کو روک کر اموال کو اپنی گرفت میں لینا امام علیہ السلام کا اولین فریضہ تھا لہٰذا ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے قافلہ والو ں سے بڑی دلنشین گفتگو کی جب کہ ظالم وجابر حکومت کی نگاہ میں ایسے افراد لائق گردن زدنی یا قابل قید و بندہوتے ہیں ۔(مترجم)

۲۲۶

میں تم لوگوں پر کوئی زبر دستی نہیں کرتا لیکن تم میں جو یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ساتھ عراق چلے تو ہم اس کو کرایہ سفر بھی دیں گے اور اس کی ہمراہی کو خوش آمدید بھی کہیں گے اور جو ہم سے یہیں سے جدا ہونا چاہتا ہے اسے بھی ہم اتنا کرایہ سفر دے دیں گے کہ وہ اپنے وطن تک پہنچ جائے ۔

امام علیہ السلام کی اس دلنشین گفتار کے بعد جو بھی اس قافلہ نور سے جدا ہوا اسے امام علیہ السلام نے اس کا حق دے دیا اور جس نے رکنا چاہا اسے کرایہ دینے کے علاوہ اما م علیہ السلام نے لباس بھی عطا کیا۔(١)

دوسری منزل : الصفاح(٢)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ پہلی منزل سے چلنے کے بعدہم لوگ امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے ہمراہ دوسری منزل پر پہنچے جسے '' الصفاح '' کہتے ہیں اور وہاں ہماری ملاقات فرزدق بن غالب(٣) شاعر سے ہوئی۔ وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: خدا وند متعال آپ کی حاجت کو پورا کرے اور آ پ کی تمنا و آرزو کو منزل مراد تک پہنچائے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری،ج٥، ص ٣٨٥)

٢۔یہ جگہ حنین اور انصاب الحرم کے درمیان ہے جو بہت آ سانی سے مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔

٣۔ اس شخص کا نام ھمام بن غالب بن صعصہ ہے۔ ان کے دونو ں چچا'' ذھیل'' اور ''زحاف ''بصرہ میں زیاد بن سمیہ کے دیوان میں دو دو ہزار بخشش لیا کرتے تھے ۔انھو ں نے بنی نہشل اور فقیم کی ہجو میں اشعار کہے تو ان دونو ں نے زیاد سے جا کر ان کی

۲۲۷

شکایت کی ۔جب اس نے فرزدق کو طلب کیا تویہ وہا ں سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد نوبت یہ آ گئی جب زیاد بصرہ آتا تھا تو فرزدق کوفہ آجاتے تھے اور جب وہ کوفہ آتا تھا تو فرزدق بصرہ روانہ ہوجاتے تھے۔ واضح رہے کہ زیاد ٦ مہینہ بصرہ رہتا تھااور ٦ مہینہ کوفہ کے امور سنبھالتا تھا۔ اس کے بعد یہ حجاز چلے گئے اور وہیں مکہ ومدینہ میں رہنے لگے۔اس طرح زیاد کی شرارتو ں سے بچ کر سعید بن عاص کی پناہ میں رہنے لگے یہا ں تک کہ زیاد ہلاک ہوگیا(طبری، ج٥، ص ٢٤٢، ٢٥٠)تو انھو ں نے اس کی ہجو میں مرثیہ کہا :

بکیت امرئً امن آ ل سفیان کافراً ککسری علی عدوانہ أو کقیصراً (طبری، ج٥،ص ٢٩٠)میں نے آل سفیان کے ایک مرد پر گریہ کیا جو کافر تھا جیسے قیصر و کسری اپنے دشمن پر روتے ہیں ۔

ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پلٹ گئے اور وہیں رہنے لگے۔ ٦٠ھمیں یہ اپنی ما ں کے ہمراہ حج پر آ رہے تھے جب ان کی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی شاید اسی لئے حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا میں حاضری نہ دے سکے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٨٦) انھو ں نے حجاج کے لئے بھی شعر کہے ہیں ۔(طبری ،ج٦،ص ٣٨٠و ٩٣٩٤) سلیمان بن عبدالملک کے محل میں بھی ان کی آمد ورفت تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٤٨)١٠٢ھ تک یہ شاعر زندہ رہے۔(طبری ،ج٥، ص ٢٤٢ ، ٢٥٠) بنی نہشل کی ہجو میں جب انھو ں نے اشعار کہے تھے تو یہ جوان تھے بلکہ ایک نوجوان اعرابی تھے جو دیہات سے آئے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٤٢) ایسی صورت میں امام علیہ السلام سے ملاقات کے وقت ان کی عمر ٣٠سال سے کم تھی۔

امام علیہ السلام نے اس سے کہا :''بيّن لنا نبأ الناس خلفک'' تم جس شہر اور جہا ں کے لوگو ں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبری ں ہمارے لئے بیان کرو ۔فرزدق نے کہا : آ پ نے واقف کار شخص سے سوال کیا ہے تو سنئے :'' قلوب الناس معک ''لوگو ں کے دل آپ کے ساتھ ہیں ''و سیوفهم مع بنی امیه'' اور ان کی تلواری ں بنی امیہ کے ساتھ ہیں'' والقضاء ینزل من السمائ'' لیکن فیصلہ و قضا تو خدا وند عالم کی طرف سے ہے ''واللّہ یفعل ما یشائ'' اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

۲۲۸

امام حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : تم نے سچ کہا، اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے ؛ہمارے رب کی روزانہ اپنی ایک خاص شان ہے لہٰذا اگر اس کا فیصلہ ایسا ہوا جو ہمیں محبوب ہے تو اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں گے اور شکر کی ادائیگی میں وہ ہمارا مدد گا ر ہے اور اگرفیصلہ الہٰی ہماری امیدوں کے درمیان حائل ہوگیا تب بھی اس شخص کے لئے کچھ نہیں ہے جس کی نیت حق اور جس کی سرشت تقویٰ ہے۔ یہ کہہ کر امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو حرکت دی تو انھوں نے امام کو سلام کیا اور دونوں جدا ہوگئے۔(١) و(٢) جب عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے عراق کی طرف آرہے ہیں تو اس نے اپنی پولس کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو روانہ کیا۔ اس نے مقام قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈالا اور قادسیہ(٣) و خفا ن(٤) کے درمیان اپنی فوج کو منظم کیا اسی طرح قادسیہ اور قطقطانہ(٥) اورلعلع کے درمیان اپنی فوج کو منظم کرکے کمین میں لگادیا۔(٦)

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ ابی جناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨٦) یہ بیان اس بیان سے میل نہیں کھاتا جو ان دونو ں سے عنقریب بیان ہو گا کہ یہ دو نو ں کہتے ہیں کہ ہم لوگ مقام '' زرود میں امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے اور یہ منزل صفاح کے بعد کوفہ کے راستہ میں چندمنازل کے بعد ہے مگر یہ کہا جائے کہ ان کے قول''اقبلنا حتی انتھینا ''کا مطلب یہ ہوکہ ہم لوگ کوفہ سے روانہ ہوکر صفاح تک پہنچے جو مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے پھر مناسک حج انجام دینے کے بعد منزل زرود میں امام علیہ السلام سے دوبارہ ملحق ہوگئے ۔

٢۔طبری نے کہا : ہشام نے عوانہ بن حکم کے حوالے سے، اس نے لبطہ بن فرزدق بن غالب سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس کے باپ نے کہا : میں نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا اور ایام حج میں حرم میں داخل ہو ا تو دیکھا حسین بن علی مکہ سے نکل رہے ہیں میں ان کے پاس آیا اورعرض کی: بأبی أنت و أمی یا بن رسول اللّٰہ! ما اعجلک عن الحج؟ فرزند رسول خدا میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوجائی ں !آپ کو اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ آپ حج چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا : لو لم أعجل لأْ خذت اگر میں جلدی نہ کرتا تو پکڑ لیا جاتا ۔ فرزدق کہتا ہے کہ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ممن أنت ؟تم کہا ں کے رہنے والے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا : میں عراق کا رہنے والا ایک شخص ہو ں ؛ خدا کی قسم !اس سے زیادہ انھو ں نے میرے بارے میں تفتیش نہیں کی ؛ بس اتنا فرمایا : جن لوگو ں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو مجھے ان کی خبر بتاؤ تو میں نے کہا: انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواری ں بنی امیہ کے ہمراہ ہیں اور قضاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔آپ نے مجھ سے فرمایا : تم نے سچ کہا! پھر میں نے نذر اور مناسک حج کے سلسلہ میں کچھ سوالات کئے تو آپ نے اس کے جواب سے مجھے بہرہ مند فرمایا۔(طبری، ج٥، ص ٣٨٦)

٣۔قادسیہ او ر کوفہ کے درمیان ١٥ فرسخ کی مسافت ہے اور اس کے وعذیب کے درمیان ٤میل کا فاصلہ ہے اور اسے دیوانیہ کہتے ہیں ۔ حجاز کے دیہات کی طرف یہ(قادسیہ) عراق کا سب سے پہلا بڑاشہر ہے۔ اسی جگہ پر عراق کی سب سے پہلی جنگ بنام جنگ قادسیہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں ہوئی ہے ۔

٤۔ یہ ایک قریہ ہے جو کوفہ سے نزدیک ہے جہا ں بنی عباس کا ایک پانی کاچشمہ ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٣ ، ص٤٥١ پر موجود ہے ۔

٥۔ قطقطانہ ، رہیمہ سے کوفہ کی طرف تقریباً ٢٠میل کے فاصلہ پرہے۔ (طبری، ج٧ ، ص ١٢٥) یعقوبی کا بیان ہے : جب امام علیہ السلام کومسلم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ قطقطانہ میں تھے۔ (طبری، ج٢، ص ٢٣٠)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یونس بن ابی اسحاق سبیعی نے اس کی روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٤)

۲۲۹

تیسری منزل : حاجر(١)

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوتے ہوئے حاجر بطن رمہ(٢) تک پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قیس بن مسہر صیداوی کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہمراہ اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا :

''بسم اللّه الرحمن الرحیم ! من الحسین بن علی الی اخوانه من المومنین و المسلمین، سلام علیکم : فانّی أحمد الیکم اللّٰه الذی لا اله الا هو ، أما بعد ، فان کتاب مسلم بن عقیل جاء ن یخبرن فیه بحسن رأیکم و اجتماع ملئکم علی نصرنا و الطلب بحقنا فسألت اللّٰه أن یحسن لنا الصنع وأن یثیبکم علی ذالک أعظم الاجر ، وقدشخصت من مکة یوم الثلاثاء لثمان مضین من ذی الحجه یوم التروية فاذا قدم علیکم رسول فا کمشوا أمرکم و جدّ وا، فان قادم علیکم فأیام هٰذه، ان شاء اللّٰه؛ والسلام علیکم ورحمة اللّه وبرکا ته ''

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ! یہ خط حسین بن علی کی جانب سے اپنے مومنین و مسلمین بھائیوں کے نام، سلام علیکم ، میں اس خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔امابعد ، حقیقت یہ ہے کہ مسلم بن عقیل کا خط مجھ تک آچکا ہے، اس خط میں انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ تم لوگوں کی رائے اچھی ہے اور تمہارے بزرگوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے اور ہمارے حق کو ہمارے دشمنوں سے واپس لے لیں گے تو میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے اچھی راہ قرار دے اور اس کے ثواب میں تم لوگوں کو اجرعظیم سے نوازے ۔

____________________

١ ۔حاجرنجد کی بلند وادی کو کہتے ہیں ۔

٢۔ بطن رمہ وہ جگہ ہے جہا ں اہل کو فہ و بصرہ اس وقت یکجا ہوتے تھے جب وہ مدینہ جانے کا ارادہ کرتے تھے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٤،ص ٢٩٠،اور تاج العروس، ج ٣،ص١٣٩پر مرقوم ہے۔

۲۳۰

اس سے تم لوگ آگاہ رہوکہ میں بروز سہ شنبہ ٨ ذی الحجہ یوم الترویہ مکہ سے نکل چکا ہوں لہذا جب میرا نامہ بر تم لوگوں تک پہنچے تو جو کام تم کو کرنا چاہئیے اس کی تدبیر میں لگ جاؤ اور اس مسئلہ میں بھر پور کوشش کرو کیونکہ میں انشا ء اللہ انہی چند دنوں میں تم تک پہنچنے والا ہوں ۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

امام حسین علیہ السلام کا یہ خط لے کر قیس بن مسہر صیداوی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔آپ جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن تمیم نے آپ کو گرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔

ابن زیاد نے آپ سے کہا محل کی چھت پر جاؤ اور کذاب بن کذاب کو گالیاں دو !

قیس بن مسہر شجاعت وشہا مت کے ساتھ محل کی چھت پر آئے اور کہا :'' أیھا الناس ! ان الحسین علیہ السلام بن علی خیر خلق اللّٰہ ابن فاطمہ بنت رسول اللہ وأنا رسولہ الیکم وقد فارقتہ بالحاجر فأجیبوہ ثم لعن عبید اللہ بن زیاد وأباہ واستغفر لعلیِّ بن أبی طالب '' اے لوگو ! حسین بن علی خلق خدا میں بہتر ین مخلوق ہیں ، آپ فرزند فاطمہ بنت رسول خدا ہیں اور میں ان کا نامہ بر ہوں ، میں ان کو مقام حاجر میں چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ تم لوگ ان کی عدالت خواہ آواز پر لبیک کہنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ پھر آپ نے عبید اللہ اور اس کے باپ پر لعنت کی اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے لئے طلب مغفرت کی۔عبید اللہ نے حکم دیا کہ انھیں محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔اس طرح آپ شہید ہو گئے ۔] اللہ آپ پر نزول رحمت فر مائے[(١)

چو تھی منزل : چشمۂ آب

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں دواں تھا؛ راستے میں آپ کا قافلہ عرب کے ایک پا نی کے چشمہ کے پاس جا کر ٹھہرا۔ وہاں عبد اللہ بن مطیع عدوی بھی موجود تھے جو پا نی لینے کی غرض سے وہاں اترے تھے۔جیسے ہی عبد اللہ بن مطیع نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا ویسے ہی آپ کی خدمت میں

____________________

١۔ کتاب کے مقدمہ میں شرح احوال موجود ہے۔

۲۳۱

آکر کھڑے ہو گئے اور عرض کی: فرزند رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !کون سا سبب آپ کو یہاں تک لے آیا ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اہل عراق نے خط لکھ کر مجھے اپنی طرف بلا یا ہے۔عبد اللہ بن مطیع نے آپ سے عرض کیا: فرزند رسول اللہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ اس راہ میں آپ اسلام کی ہتک حرمت نہ ہو نے دیں ، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کی حرمت خطرے میں نہ پڑے ،خدا کے لئے عرب کی حرمت خطرے میں نہ ڈالئے۔خدا کی قسم! اگر حق کو بنی امیہ سے واپس لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر ڈالیں گے اور اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کردیا تو آپ کے بعد کسی کو نگا ہ میں نہیں لا ئیں گے ۔(١) خدا کی قسم! اسلام کی حرمت، قریش کی حرمت ہے اورعربوں کی حرمت خاک میں مل جائے گی ،پس آپ ایسا نہ کریں اور کوفہ نہ جائیں اور بنی امیہ سے نہ الجھیں !عبد اللہ بن مطیع نے اپنے نظر یہ کو پیش کیا اور امام علیہ السلام اسے بغور سنتے رہے لیکن اپنے راستے پر چلتے رہے۔

پانچو یں منزل:خزیمیہ(٢)

امام حسین علیہ السلام کا سفر اپنے مقصد کی طرف جاری تھا۔ چلتے چلتے پھر ایک منزل پررکے جو مقام '' زرود'' سے پہلے تھی یہاں پر پانی موجود تھا،(٣) اس جگہ کا نام خزیمیہ ہے ۔

____________________

١۔ امام کے عمل سے نہ تو اسلام کی بے حرمتی ہوئی نہ ہی رسول خدا ، عرب اور قریش کی ہتک حرمت ہوئی بلکہ اسلام دشمن عناصر کی کا رستا نیو ں سے یہ سب کچھ ہوا ۔ابن مطیع نے اپنے اس جملہ میں خطا کی ہے جو یہ کہہ دیا کہولئن قتلوک لا یها بون بعد ک احداابدا کیونکہ امام علیہ السلام کے بعد ان لوگو ں کو جرأ ت ملی جو مکہ ومدینہ وکوفہ میں اس سے پہلے اپنے ہاتھو ں میں چوڑیا ں پہنے بیٹھے تھے انھی ں میں سے خود ایک ابن مطیع بھی ہے جو ابن زبیر کے زمانے میں کوفہ کا والی بنا۔ اگر امام حسین علیہ السلام نے قیام نہ کیا ہوتا تو بنی امیہ کے خلا ف کسی میں جرأ ت پیدا نہ ہوتی اور اسلام کو مٹا نے میں وہ جو چاہتے وہی کرتے ۔

٢۔یہ جگہ مقام زرود سے پہلے ہے اس کے بعدکاراستہ کوفہ جانے والو ں کے لئے ہے جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس کے اورثعلبیہ کے درمیان ٣٢کیلومیٹرکا فاصلہ ہے۔ یہ درحقیقت ثعلبیہ کے بعدحجاج کی پہلی منزل ہے۔

٣۔ طبری ،ج٥،ص ٣٩٤، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت بیان کی ہے ۔شاید یہ قیس بن مسہر کے فرزند ہیں ۔

۲۳۲

زہیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونا

قبیلہء بنی فنرارہ کے ایک مرد کا بیان ہے : ہم زہیر بن قین بجلی کے ہمراہ تھے اور ہم اسی راستے پر چل رہے تھے جس راستہ پر حسین (علیہ السلام) محو سفر تھے لیکن ہمارے لئے سب سے زیادہ نا پسند امر یہ تھا کہ ہم ان کے ہمراہ ایک ساتھ سفر کریں اور ایک منزل پر ٹھہریں لہٰذ ا زہیر کے حکم کے مطا بق حسین جہاں ٹھہر تے تھے ہم وہاں سے آگے بڑھ جا تے اور وہ جہاں پر آگے بڑھتے ہم وہاں پڑاؤ ڈال کر آرام کرتے تھے؛ لیکن راستے میں ہم ایک ایسی منزل پر پہنچے کہ چارو نا چار ہم کو بھی وہیں پر رکنا پڑا جہاں پر امام حسین نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ امام حسین نے ایک طرف اپنا خیمہ لگا یا اور ہم نے اس کے دوسری طرف ؛ ہم لوگ ابھی بیٹھے اپنے خیمے میں کھا نا ہی کھا رہے تھے کہ یکایک حسین کا پیغام رساں حاضر ہوا اور اس نے سلام کیاپھر خیمہ میں داخل ہوا اور کہا : اے زہیر بن قین ! ابو عبد اللہ حسین بن علی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے تا کہ تم ان کے پاس چلو۔ اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ حیرت وتعجب سے جس انسان کے ہاتھ میں جو لقمہ تھا وہ نیچے گر گیا؛ سکوت کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ ہم سب کے سروں پر طائر بیٹھے ہیں ۔(١) زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر کہتی ہے کہ میں نے زہیر سے کہا : فرزند رسول اللہ تمہارے پاس پیغام بھیجے اور تم ان کے پاس نہ جائو !سبحان اللہ! اگر انھوں نے مجھے بلایا ہوتاتو میں ضرور جاتی اور ان کے گہر بار کلام کو ضرور سنتی، پھر میں نے کچھ نہ کہا لیکن زہیر بن قین اٹھے اور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں روانہ ہوگئے ۔ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ واپس آگئے لیکن اب تو بات ہی کچھ اور تھی؛ چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور چہرہ گلاب کی طرح کھلا جارہاتھا۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سدّی نے بنی فزارہ کے ایک جوان کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہم لوگ زہیر بن قیس بجلی کے مکان میں چھپے تھے جہا ں اہل شام داخل نہیں ہو تے تھے تو میں نے فزاری سے پوچھا: ذرا مجھ سے اس واقعہ کو بیان کرو جب تم لوگ حسین بن علی کے ہمراہ، سفر میں تھے تو اس نے یہ روایت بیان کی۔(طبری، ج٥، ص ٣٩٦، ارشاد، ص ٢٢١، خوارزمی، ص٣٢٥)

۲۳۳

اسی عالم میں زہیر نے اپنے ہمراہیوں سے کہا : تم میں سے جو ہمارے ساتھ آناچاہتا ہے آ جائے اور اگر نہیں تو اب اس سے میرا یہ آخری دیدار ہے۔اس کے بعداپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے زہیر نے کہا : میں تم لوگوں سے ایک روایت بیان کرنا چاہتا ہوں ، اسے غور سے سنو !ہم لوگ جب مقام '' بلنجر ''(١) پر لڑنے کے لئے گئے تو خداوندمتعال نے ہم لوگوں کو دشمنوں پر کامیابی عطاکی اور بڑی مقدار میں مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔اس وقت سلمان باہلی(٢) نے ہم لوگوں سے کہا : کیا تم لوگ اس بات پر خوش ہو کہ خدا وند عالم نے تم لوگوں کو فتح و ظفر سے نوازاہے اور کافی مقدار میں مال غنیمت تمہارے ہاتھوں لگاہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں !تواس نے ہم لوگوں سے کہا : جب تم لوگ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی جوانی دیکھو گے تو تمہاری ان کے ساتھ جنگ کی خوشی اس مال غنیمت ملنے کی خوشی سے زیادہ ہو گی اورجہاں تک میری بات ہے تو اب میں تم لوگوں سے خدا حافظی کر تا ہوں ۔

پھر زہیر بن قین نے اپنی زوجہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا : اب میں تم کو طلا ق دے رہا ہوں تاکہ تم آزاد ہو جاؤ اورگھروالوں کے پاس جا کر وہیں زندگی بسر کرو؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔میں تمہارے لئے بہتری چاہتاہوں ۔(٣) و(٤)

____________________

١۔ یہ تاتا ریو ں (یا خزریو ں) کا شہر ہے جو انہیں کے دروازو ں میں سے ایک دروازے کے نزدیک ہے ٣٣ھ عہد عثمان میں سلمان بن ربیعہ باہلی کے ہاتھو ں یہ جنگ فتح کی گئی جیسا کہ معجم البلدان میں یہی موجود ہے ۔

٢۔ طبری ،ج٤، ص ٣٠٥ پر ہے کہ سلمان فارسی اور ابو ہریرہ اس جنگ میں لشکر کے ہمراہ موجود تھے ۔یہ بیان ابن اثیر کی الکامل میں ہے (ج ٤،ص ١٧)پھریہ بیان ہے کہ جس شخصیت نے ان لوگو ں سے یہ گفتگوکی وہ سلمان فارسی ہیں نہ کہ باہلی۔ ابن اثیر نے ا پنی تاریخ الکامل فی التاریخ میں اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ تاریخ طبری کو کامل کری ں لہٰذاوہ اکثرو بیشتر اخبار میں طبری سے ناقل دکھائی دیتے ہیں ۔شیخ مفید نے ارشاد میں اور فتال نے روضة الواعظین میں ص ١٥٣پر ، ابن نمانے مثیر الاحزان میں ص ٢٣پر ، خوارزمی نے اپنے مقتل میں ج١، ص ٢٢٥پر اور البکری نے معجم ج١ ،ص٣٧٦ پر واضح طور سے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ شخص جناب سلمان فارسی ہی تھے جنہو ں نے یہ جملہ کہا تھا۔ اس بات کی تائید طبری نے بھی کی ہے کیونکہ طبری کے بیان کے مطابق جناب سلمان وہا ں موجود تھے ؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ مدائن فتح ہونے کے بعد جناب سلمان فارسی وہیں کے گورنر رہے اور وہیں اپنی وفات تک قیام پذیر رہے اور کسی بھی جنگ کے لئے وہا ں سے نہیں نکلے؛ بلکہ اس جنگ سے قبل عمر کے عہد حکومت میں آپ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبر زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر و نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٦، الارشاد، ص ٢٢١)

٤۔ عنقریب یہ بات کربلامیں زہیر بن قین کے خطبے سے معلوم ہوجائے گی کہ اس سے قبل زہیراس بات پر معاویہ کی مذمت کیا کرتے تھے کہ اس نے زیاد کو کس طرح اپنے سے ملحق کرلیا؛اسی طرح حجر بن عدی کے قتل پر بھی معاویہ سے ناراض تھے ۔

۲۳۴

ایک اور نامہ بر

اسی جگہ سے امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن بقطر حمیری(١) کو بعض راستوں سے مسلم بن عقیل(٢) کی طرف روانہ کیا۔ سپاہ اموی جو حصین بن تمیم کے سربراہی میں کوفہ کے قریب قادسیہ میں چھاؤنی ڈالے راہوں کو مسدود کئے تھی اور آمد و رفت پر سختی سے نظررکھے ہوئی تھی؛ اس نے عبداللہ بن بقطر کوگرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ جب آپ عبیداللہ کے پاس لائے گئے تو اس نے کہا : محل کے اوپر جاؤ اور کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو پھر نیچے اتر آؤ تاکہ میں تمہارے سلسلے میں اپنانظریہ قائم کرسکوں ۔یہ سن کر عبداللہ بن بقطر محل کے اوپر گئے اور جب دیکھا کہ لوگ تماشابین کھڑے ہیں تو آپ نے فرمایا :

'' أیھاالناس انی رسول الحسین علیہ السلام بن فاطمہ بنت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم لتنصروہ و توازروہ علی بن مرجانة بن سمیہ الدعی ! ''

اے لوگومیں حسین فرزند فاطمہ بنت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام رساں ہوں تاکہ تم لوگ ان کی مدد و نصرت کر سکو اور اس مرجانہ بن سمیہ کے بچے جس کی پیدائش کا بستر معلوم نہیں ہے، کے خلاف ان کی پشت پناہی کرو ،یہ سنتے ہی عبیداللہ بن زیادنے حکم دیاکہ انھیں چھت سے پھینک دیاجائے۔ اس کے کارندوں نے آپ کو محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا؛جس کی وجہ سے آ پ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ؛ لیکن ابھی رمق حیات باقی تھی۔عبدالملک بن عمیرلخمی(٣) آپ کے پاس آ یا اور آپ کو ذبح کر کے شہید کر ڈالا۔

____________________

١۔ آپ کی ما ں امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیاکرتی تھی ں اسی لئے آپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آ پ حضرت امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی تھے۔طبری نے بقطر ہی لکھا ہے اسی طرح جزری نے الکامل میں بھی بقطر ہی ذکر کیا ہے؛ لیکن ہمارے بزرگو ں نے(ی) کے ساتھ یعنی یقطر لکھاہے جیسا کہ سماوی نے ابصارالعین، ص٥٢پر یہی لکھا ہے ۔

٢۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبرابو علی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٩٨؛ارشاد، ص ٢٢٠) اس خبر کو انھو ں نے قیس بن مسہر صیداوی کی خبرسے خلط ملط کردیا ہے ۔

٣۔ شعبی کے بعد اس نے کوفہ میں قضاوت کا عہدہ سنبھالا۔ ١٣٦ ھ میں وہ ہلاک ہوا ؛اس وقت اس کی عمر ١٠٣ سال تھی جیسا کہ میزان الاعتدال، ج ١، ص ١٥١ ، اور تہذیب الاسمائ، ص٣٠٩ پر تحریرہے۔ عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ پر صیداوی کی شہادت کی خبر سے پہلے امام علیہ السلام کو ابن بقطر کی شہادت کی خبر ملی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیس بن مسہر صیداوی سے پہلے یقطر کو روانہ کیا تھا ۔

۲۳۵

چھٹی منزل: زرود(١)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا :

جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو ہماری ساری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی طرح حسین سے راستے میں ملحق ہو جائیں تاکہ دیکھیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں نے اپنے ناقوں کو سر پٹ دو ڑایا؛ یہاں تک کہ مقام زرود(٢) پر ہم ان سے ملحق ہوگئے۔جب ہم لوگ ان کے قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رہنے والا ایک شخص عراق سے حجاز کی طرف روانہ ہے، جیسے ہی اس نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو لیکن ا مام علیہ السلام وہاں پر کھڑ ے رہے گویا اس کے دیدار کے منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات کے لئے مائل نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔

ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ اس شخص کے پاس چلیں اور اس سے پوچھیں اگر اس کے پاس کوفہ کی خبر ہو گی تووہ ہم کو اس سے مطلع کرے گا ؛یہ کہہ کر ہم لوگ چلے یہاں تک کہ اس تک پہنچ ہی گئے، پہنچ کر ہم نے کہا : السلام علیک ، تو اس نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ۔

پھر ہم لوگوں نے پوچھا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہم قبیلہ بنی اسد سے ہیں ۔

ہم لوگوں نے کہا : ہم لوگ بھی بنی اسد سے متعلق ہیں ؛تمہارا نام کیا ہے ؟

____________________

١۔یہ جگہ خزیمیہ او رثعلبیہ کے درمیان کوفہ کے راستے میں ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج٤،ص ٣٢٧میں یہی موجود ہے۔

٢۔ یہ خبر اس خبر سے منافات ر کھتی ہے جوابھی گذرچکی کہ یہ لوگ منزل صفاح پر مقام زرو د سے چند منزل قبل فر زدق والے واقعے میں موجود تھے کیونکہ اس خبر سے یہی ظاہر ہوتاہے بلکہ واضح ہے کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے زرود میں ملحق ہوئے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ امام کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ حج کی ادائیگی کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ منزل صفاح اوائل میں ہے جبکہ امام علیہ السلام ''یوم الترویہ'' کو مکہ سے نکلے ہیں ۔ اگر یہ لوگ امام علیہ السلام سے منزل صفاح پر ملحق ہوئے ہیں تو پھر حج کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونو ں خبرو ں کا ایک ہی راوی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا؛ نہ ہی ابو جناب ، نہ ابو مخنف اورنہ ہی طبری، مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ حج سے پہلے یہ دونو ں منزل صفاح پر امام علیہ السلام سے ملے اور پھر حج کے بعد منزل زرود پر پہنچ کرامام علیہ السلام سے ملحق ہو گئے ۔

اس نے جواب دیا : بکیر بن مثعبہ، ہم لوگو ں نے بھی اپنا نام بتایا اور پھر اس سے پوچھا : کیا تم ہمیں ان لوگو ں کے بارے میں بتاؤ گے جنہیں تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو؟

اس نے جواب دیا:ہا ں ! میں جب کوفہ سے نکلاتھا تو مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل کئے جا چکے تھے ۔ ہم نے دیکھا ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر انھی ں بازار میں پھرایا جا رہاہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ہم لوگ اس سے جداہوکر اپنے راستے پر چل پڑے یہا ں تک کہ(حسین علیہ السلام) سے ملحق ہوگئے اور ایک دوسری منزل پر ان کے ہمراہ پٹراؤ ڈالا ۔

۲۳۶

ساتویں منزل : ثعلبیہ(١)

شام کا وقت تھا جب امام علیہ السلام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کا نام'' ثعلبیہ'' تھا۔جب آپ کے خیمہ نصب ہوچکے تو ہم لوگوں نے آپ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا ۔آ پ نے سلام کا جواب دیا تو ہم لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ہم لوگوں کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے اعلانیہ بیان کریں اوراگر چاہیں ۔ توخفیہ اور پوشیدہ طور پر بیان کریں ۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''مادون ھولاء سر'' ان لوگوں سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے جو خبر لائے ہو بیان کردو، ہم لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے کل شام اس سوار کو دیکھا تھا جو آپ کے پاس سے گزرا تھا ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! میں اس سے کوفہ کے بارے میں سوال کرناچاہتا تھا۔ ہم نے کہا: ہم نے اس سے آپ کے لئے خبر لے لی ہے اورآپ کے بجائے ہم لوگوں نے کوفہ کے موضوع پر تحقیق کر لی ہے۔ وہ شخص قبیلہ بنی اسد کاایک مرد تھا جو ہمارے ہی قبیلہ سے تھا ۔ وہ صاحب نظر، سچا، اور صاحب عقل و فضل تھا ۔اس نے ہم لوگوں سے بتایا کہ جب وہ وہاں سے نکلا تھا تومسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل ہوچکے تھے حتیٰ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر بازار میں گھسیٹا جارہاہے۔یہ سن کر آپ نے فرمایا :

____________________

١۔ کوفہ سے مکہ جانے کے لئے جو راستہ مڑتا ہے یہ وہی ہے۔ اس کی نسبت بنی اسد کے ایک شخص ثعلبہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ معجم میں تحریر ہے۔

۲۳۷

'' انّاللّہ وانّاالیہ راجعون'' اس جملہ کی آپ نے چند مرتبہ تکرار فرمائی(١) پھر ہم نے عرض کی : آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آ پ اپنے گھر والوں کے ہمراہ یہاں سے واپس لوٹ جائیں ؛کیونکہ اب کوفہ میں آپ کا کوئی ناصر ومدد گا ر نہیں ہے بلکہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سب آپ کے مخالف نہ ہوگئے ہو ں ۔ایسے موقع پر فرزندان عقیل بن ابیطالب اٹھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی(٢) اور کہنے لگے : نہیں خدا کی قسم ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے۔جب تک ہم ان سے اپنا انتقام نہ لے لیں یا وہی مزہ نہ چکھ لیں جس کاذائقہ ہمارے بھائی نے چکھاہے۔(٣) ان دونوں کا بیان ہے: حسین (علیہ السلام) نے ہم لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا : ''لاخیر فی العیش بعد ھولاء !'' ان لوگوں کے بعد زندگی میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ اس جملہ سے ہم نے بخوبی سمجھ لیا کہ سفر کے ارادے میں یہ مصمم ہیں تو ہم نے کہا : خدا کرے خیر ہو ! آپ نے بھی ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا:'' رحمکم اللّہ ''اللہ تم دونوں پر رحمت نازل کرے ۔

رات کا سناٹا چھاچکا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ سپیدہ سحر کے انتظار میں ہیں ؛جیسے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوئی ،آپ نے اپنے جوانوں اور نو جوانوں سے فرمایا :''اکثروا من المائ'' پانی زیادہ سے زیادہ جمع کرلو ، ان لوگوں نے خوب خوب پانی جمع کرلیا اور اپنے سفر پر نکل پڑے یہاں تک کہ ایک دوسری منزل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر یہا ں عام ہوگئی لیکن عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ میں پہنچ کر امام علیہ السلام نے یہ خط لکھ کر اپنے اصحاب کے سامنے اس کا اعلان کیا تھا؛ یہا ں سے امام علیہ السلام کے اس جملے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ'' مادو ں ھولاء سر'' یعنی ان کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے لئے یہ خبر سری ہے اور اسی طرح یہ خبر منزل زبالہ تک پوشیدہ ہی رہی لیکن یعقوبی کا بیان ہے کہ مسلم کی شہادت کی خبر آپ کو مقام'' قطقطانہ'' میں ملی تھی۔ (تاریخ یعقوبی ،ج٦ ، ص ٢٣٠ ،ط، نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے عدی بن حرملہ اسد کے حوالے سے اور اس نے عبداللہ سے اس خبر کو ہمارے لئے بیان کیاہے۔ (طبری ،ج٥، ص٣٩٧) ارشاد میں ،ص ٢٢٢ پر ہے کہ عبداللہ بن سلیمان نے یہ روایت بیان کی ہے۔(ارشاد ، طبع نجف)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمر بن خالد نے یہ خبر بیان کی ہے (لیکن صحیح عمرو بن خالد ہے) اور اس نے زید بن علی بن الحسین سے اور اس نے دائود بن علی بن عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٧ ؛ارشاد، ص٢٢٢، مسعودی ،ج٣ ،ص ٧٠، الخواص ، ص ٢٤٥ ، طبع نجف)

۲۳۸

آٹھویں منزل : زبالہ(١)

یہ نورانی قافلہ اپنے سفرکے راستے طے کرتا ہوا زبالہ(٢) کے علاقے میں پہنچا تو وہاں امام حسین علیہ السلام کو اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن بقطر(٣) کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے ایک نوشتہ نکال کر لوگوں کو آواز دی اور فرمایا :'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم، أمابعد، فقد أتانا خبر فضیع ! قتل ابن عقیل و هانی بن عروةو عبدالله بن یقطر، وقدخذلتنا شیعتنا (٤) فمن أحب منکم الانصراف فلینصرف لیس علیه منا ذمام ''

بسم اللہ الرحمن الرحیم، امابعد،مجھ تک ایک دل دھلانے والی خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر قتل کردئے گئے ہیں اور ہمار ی محبت کا دم بھرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے لہذا اب تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلاجائے، ہماری جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

یہ جملہ سنتے ہی لوگ امام علیہ السلام سے جدا ہونے لگے کوئی داہنی طرف جانے لگاکوئی بائیں طرف؛ نتیجہ یہ ہواکہ فقط وہی ساتھی رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے۔ آپ نے یہ کام فقط اس لئے کیاتھا کہ

____________________

١۔ یہ جگہ کوفہ سے مکہ جاتے وقت مختلف راستے پیداہونے سے قبل ہے۔ یہا ں ایک قلعہ اورجامع مسجد ہے جو بنی اسد کی ہے۔ اس جگہ کا نام عمالقہ کی ایک عورت کے نام پر ہے جیسا کہ معجم البلدان میں یہی ہے ۔

(٢) ابومخنف کا بیان ہے : ابوجناب کلبی نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے میرے لئے یہ خبر بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٨)

٣۔ ان کے شرح احوال گزر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ان کی والدہ امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی ں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی ہیں ۔

٤۔ اس جملہ میں امام علیہ السلام کی تصریح ہے کہ کوفہ کے شیعو ں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کوفہ اور جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں یہ پہلا اعلان ہے اگرچہ اس کی خبر آپ کو اس سے قبل منزل زرود میں مل چکی تھی؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ جو لوگ وہا ں موجود تھے۔ ان کے علاوہ سب پر یہ خبر پوشیدہ تھی کیونکہ یہ امام علیہ السلام کے حکم سے ہوا تھا۔آخر کار آپ نے یہا ں '' زبالہ'' میں تمام حاضرین کے لئے اس خبر کا اعلان کردیا ۔

۲۳۹

باد یہ نشین عرب اس گمان میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے تھے کہ آپ ایسے شہر میں آئیں گے جوظالم حکمرانوں کی حکومت سے پاک ہوگا اور وہاں کے لوگ آپ کے فرمانبردار ہوں گے لہذا امام علیہ السلام نے ناپسند کیا کہ ایسے لوگ آپ کے ہمسفر ہوں ۔امام چاہتے تھے کہ آپ کے ہمراہ صرف وہ رہیں جنہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ جب ان لوگوں پر بات آشکار ہوجائیگی تو کوئی بھی آپ کے ہمراہ نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو عدالت چاہتے ہوں اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہو۔(١) رات اسی منزل پر گزری ،صبح کو آپ نے اپنے جوانوں کو چلنے کا حکم دیاتو انھوں نے سب کو پانی پلاکر اور خوب اچھی طرح پانی بھر کر اپنا سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ درّۂ عقبہ سے آپ کا گزرہوا ۔

نویں منزل : درّہ عقبہ(٢)

یہ نورانی قافلہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتا ہوا درّہ عقبہ تک پہنچا۔وہاں اس قافلہ نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔(٣) بنی عکرمہ کے ایک شخص نے امام سے عرض کیا: آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیے، خداکی قسم !آپ یہاں سے قدم آگے نہیں بڑھائیں گے مگریہ کہ نیزوں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر آگے بڑھیں گے ، جن لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور آپ کوآنے کی دعوت دی تھی اگر یہ لوگ میدان کارزار کی مصیبتیں برداشت کرکے آپ کے لئے راستہ آسان کردیتے تب آپ وہاں جاتے تو آپ کے لئے بہت اچھا ہوتا لیکن ایسی بحرانی حالت میں جس سے آپ خود آگاہ ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کوفہ جانے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھائیں گے۔

____________________

١۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو جانے کی اجازت دی تو آپ کا مقصد کیا تھا؟ امام علیہ السلام کا یہ بیان تمام چیزو ں پر کافی ہے

٢۔واقصہ کے بعد اور قاع سے پہلے مکہ کے راستے میں یہ ایک منزل ہے۔ یہ منزل ان کے لئے ہے جو مکہ جانا چاہتے ہیں ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : ابوعلی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے مجھ سے یہ خبر بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٨ ، ارشاد ،ص ٢٢٢ ،طبع نجف)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296