فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 118258
ڈاؤنلوڈ: 5312


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118258 / ڈاؤنلوڈ: 5312
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امیرالمومنینؑ کی صحابیت میں تو کسی کو شک نہیں سب مانتے ہیں کہ آپ صحابہ میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں لیکن طبری لکھتا ہے کہ نماز صبح کے قنوت میں امیرالمومنینؑ فرماتے تھے پالنے والے لعنت کر معاویہ،عمر وعاص اور عورسلمی،حبیب،عبدالرحمٰن بن خالد،ضحاک بن قیس اور ولید پر،معاویہ اپنی ایک جماعت کے ساتھ قنوت میں علیؑ،حسنؑ،حسینؑ،ابن عباسؑ اور اشترؑ پر لعنت بھیجتا تھا(1) یہاں تک کہ مسلمانوں کے منبروں سے امیرالمومنین علیؑ پر لعنت بھیجنے کا سلسلہ اور آپ کے اہل بیتؑ کے قتل کرنے کا اور آپ کے شیعوں کے قتل کرنے کا سلسلہ بہت دنوں تک اموی بادشاہوں کی سنت بنا رہا جس کی تفصیل بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

نبیﷺکے بعد صحابہ کے درمیان کیا ہوا؟

حق تو یہ ہے کہ صحابہ کے درمیان خلافت کا مسئلہ لے کر وفات پیغمبرؐ کے بعد ہی اختلاف کی ابتدا ہوگئی تھی ایک گروہ قریش کا تھا تو دوسرا انصار کا پھر یہ اختلافات قریش اور اہل بیتؑ کے درمیان بھی پیدا ہوئے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے،ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور وقت کے ساتھ اس میں شدت آتی گئی۔

تاریخی شواہد ملاحظہ ہوں،عمر کہنے لگے خدا سعد بن عبادہ کو قتل کرے(2) یا سعد بن عبادہ کو قتل کردو،خدا اسے قتل کرے(3) یا سعد کو قتل کردو وہ منافق ہے۔(4)

اہل بیتؑ اور قریش میں جو اختلاف ہوا وہ سب کو معلوم ہے میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:3ص:113۔

(2)صحیح بخاری،ج:2ص:2506،کتاب المحاربین،باب رجم الحبلی۔

(3)منصف بن ابی شیبۃ،ج:7ص:432،کتاب المغازی،فتح الباری،ج:7ص:32،ریاض النضرۃ،ج:2ص:208،تیرہویں فصل،تاریخ طبری،ج:2ص:244۔

(4)تاریخ طبری،ج:2ص:244۔

۶۱

البتہ امیرالمومنینؑ کے کچھ خطبے جو آپ نےمناسب مقامات پر ارشاد فرمائے ہیں صورت حال کی سختی اور ماحول کی تنگی کی عکاسی کرتے ہیں کچھ باتیں صدیقہ طاہرہ صلوات اللہ علیھا کے دو خطبوں سے بھی واضح ہوتی ہیں جن کی روایت بلاغات النسائ(1) اور اعلام النسائ(2) جیسی کتابوں میں ہے اس کے علاوہ مورخین نے بھی ماحول کی تصویر کھینچنےکی کوشش کی ہے لکھتے ہیں کہ فتنہ خلافت کے فرو ہونے کی دو وجہ تھی ایک تو یہ کہ انصار کا معاملہ ٹھنڈا پڑگیا اور انہوں نے اپنے نفس پر جبر کیا دوسرے اہل بیت نبیؐ کے قائد سرکار مولائے کائناتؑ نے یہ دیکھا کہ اگر وہ غاصبان خلافت سے بالکل الگ ہوجاتے ہیں اور سخت موقف اختیار کرتے ہیں تو اسلام کو بہت بڑے نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا اور یہ نقصان اس نقصان سے بڑا ہوگا جو آپ کے حق کے فوت ہونے سے آپ کو پہنچا ہے،اس لئے آپ نے محض اتمام حجت کے لئے اپنے مطالبوں کو نرم انداز میں پیش کیا تا کہ لوگ متوجہ ہوجائیں کہ حقدار خلافت کوئی اور ہے جیسا کہ آپ نے ایک عملی نمونہ اس وقت پیش کیا جب لوگ شوری میں عثمان کی بیعت کر رہے تھے اور آپ کا احتجاج اسی نرمی کے ساتھ مناسب مقامات پر جاری رہا مقصد محض اتمام حجت تھا۔

جو یہ سمجھتا ہے کہ حقائق کو جاننا بہت ضروری ہے اس کو چاہئے کہ وہ اپنے دل کی قوت فیصلہ کو آواز دے اور اپنے جذبات و عقائد سے دل کو آذاد کر کے کتابوں کا مطالعہ کرے تو اس کے سامنے حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتے گی اور شک و شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی اس لئے کہ اللہ کی حجت واضح ہے۔

و مان کان الله لیضل قوماً بع اذهداهم حتی یبیّن لهم ما یتقون(3)

ترجمہ:اللہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کرتا یہاں تک کہ ان چیزوں کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری،ج:2،ص:23۔

(2)تاریخ طبری،ج:4ص:116۔128۔

(3)سورہ توبہ آیت:115۔

۶۲

جتادے جس سے وہ پرہیز کریں۔

جب انسان مذکورہ بالا باتوں کا وقت نظر اور اخلاص سےمطالعہ کرے گا تو پھر وہ حصول حق کی ذمہ داری کو ادا کرسکے گا اور خدا کے سامنے اس کو جوابدہ نہیں ہونا پڑے گا قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔

یوم لا یغنی مولی عن مّولی شیئاً و لا هم ینصرون(1)

ترجمہ:اس دن کسی بھی انسان کو اس کا دوست کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا نہ ان کی کوئی مدد کی جاسکے گی۔

یوم ندعو کل اناس بامامهم فمن اوتی کتٰبه بیمینه فاولئک یقرئون کتٰبهم و لا یظلمون فتیلا(2)

ترجمہ:اس دن ہم ہر انسان کو اس کے امام کے حوالے سے پکاریں گے اور جس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ مٰں دیا جائے گا وہ لوگ خوشی خوشی اپنے نامہ اعمال کو پڑھتے ہوں گے اور ان پر ذرا بھی ظلم نہیں ہوگا۔

و من کان فی هذه اعمیٰ فهو فی الاخرة اعمیٰ و اضلُّ سبیلا(3)

ترجمہ:اور جو اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا اور گمراہ کن راستے پر چلنے والا ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بعض صحابہ کوئی بہت بڑی چیز یا عام انسانوں سے اوپر کوئی چیز نہیں تھے بعض صحابہ کی زبان خراب تھی،اخلاقی اصولوں سے نابلد تھے اور ان سے گالی گلوج سرزد ہوتی تھی جو کسی خاص اختلاف یا موقعے کا انتظار نہیں کرتا تھا بلکہ یہ بداخلاقی، بدتمیزی اور بدگوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ دخان آیت:41۔

(2)سورہ اسرائ :آیت:71۔

(3)سورہ اسرائ :آیت:72۔

۶۳

ان کی تہذیب کا تقاضا بھی اور ان کی ثقافت کا حصہ تھی اور ان کا مزاج عام انسانوں سے مختلف نہیں تھا۔

اپنے گذشتہ بیان کی تصدیق کے لئے میں کچھ مثالین پیش کر رہا ہوں تا کہ آپ کی سمجھ میں آجائے کہ صحابہ پر کچھ لوگوں نے تقدس کا جو ایک خول چڑھا رکھا ہے وہ ان حضرات پر کسی طرح فٹ نہیں ہوتا آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ صحابہ کے کردار کے یہ نمونے ان کے کردار کا ضعف انہیں سمجھتے ہیں بلکہ ان کے معاشرے میں ایک صحابی دوسرے صحابی کے ساتھ نامناسب سلوک کرتا رہتا اور ان کا ضمیر انہیں ملامت۔

صحابہ کی سیرت میں وہ انسانی خامیاں جو عام طور سے سب میں پائی جاتی ہیں

پہلی قسم:وہ کمزوریاں جو عام صحابی میں تھیں اور کسی کی شخصی کمزوری نہیں تھی اس سلسلے میں نمونے کے طور پر چند واقعات حاضر ہیں۔

1۔فدک کا مشہور و معروف واقعہ جس میں ان حضرات نے نبی کی عزت پر براہ راست حملہ کیا تھا اور سرکار کو کافی اذیت پہنچائی تھی،نبی کی عزت سے کھیلا تو گیا چاہے وہ عاتشہ کے سلسلے میں ہو،جن میں بعض صحابہ یہاں تک کہ وہ صاحب بھی تھے جو بدی سپاہی تھے اور حسان بن ثابت و غیرہ کا بھی نام آتا ہے اور چاہے جناب ماریہ کے چچازاد بھائی کی غلطی کا نتیجہ ہیں اور نبی کے بیٹے نہیں ہیں(معاذ اللہ عن ذلک)جیسا کہ عائشہ سے روایت کی گئی ہے بہرحال ماریہ اور عائشہ دونوں نبی کی بیویاں تھیں اور ان پر جنسی بے راہ روی کا الزام خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت پر حملہ تھا، استعمال کیا ان سے نبی کی تشفی بھی ہوگی اور الزام تراشی کرنے والے کی تہدید بھی کردی گئی،ملاحطہ فرمائیں کتنے سخت الفاظ ہیں۔

۶۴

ان الذین جاؤو بالافک عصبه-------------------(1)

جنھوں نے جھوٹی تہمت لگائی وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہے،تم اپنے حق میں اس تہمت کو برا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ان میں سے جس شخص نے جتنا گناہ سمیٹا اس کی سزا کو وہ خود بھکتے گا اور ان میں سے جس شخص نے اس تہمت میں بڑا حصہ لیا اس کو بڑی سزا ملے گی۔

و لو لا فضل الله علیکم و رحمته-------------------(2)

دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ:اگر خدا کا فضل و کرم دنیا و آخرت میں تمہارے شامل نہ ہوتا تو جس بات کی تم نے چرچا کی تھی اس کی وجہ سے تم پر کوئی سخت عتاب آتا اس لئے کہ تم اس گندی بات کو ایک دوسرے سے بیان کئے جارہے تھے اور ایسی بات کہتے تھے جس کا تمہیں علم بھی نہیں تھا اور تم اس بات کو آسان سمجھتے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی سخت بات تھی۔

2۔اس طرح صحابہ سرکار نبوت کی خاندانی شرافت اور نجابت پر بھی حملہ کرنے سے نہیں چوکتے تھے اور بنی ہاشم جو سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قبیلہ تھا اس کو برا بھلا کہہ کے آپ کو تکلیف پہنچاتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے سرکار کو غضب ناک کردیا اور ان کی باتوں کا جواب دینے کے لئے آپ کو منبر پر آنا پڑا،صحابہ کہتے تھے کہ محمدؐ کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ کوڑے پر جیسے کھجور کا درخت نکل آئے(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ نور:آیت:11۔

(2)سورہ نور:آیت:15،14

(3)المستدرک علی صحیحین ج:3ص:275

۶۵

کبھی کہتے کہ محمدؐ تو بنوہاشم میں یوں ہیں جیسے بدبودار کوڑے پر کوئی پھول کھل جائے(1) یا زمین کیچڑ میں گلاب یا کوڑے پر کھجور کا درخت۔(2)

عبدالمطلب بن ربیعہ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگ حضور کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے کہ آپ کی قوم کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ محمد تو کوڑے پر کھجور کا درخت ہیں۔

عبدالمطلب بن ربیعہ کہتے ہیں سرکار نے جب اپنے خاندان کے بارے میں یہ خیالات سنے تو آپ نے صحابہ کی جماعت سے پوچھا اے لوگوں میں کون ہوں؟جواب ملا آپ خدا کے رسول ہیں فرمایا میں محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں میں ایسی باتیں سنتا ہوں جو پہلے نہیں سنی تھیں،سنو!اللہ نے اپنی مخلوقات کو پیدا کر کے دو حصوں میں تقسیم کیا پھر ان کے قبائل بنائے اور مجھے سب سے بہتر قبیلے میں رکھا گھروں میں سب سے بہتر گھرانے میں مجھے قرار دیا دگھرانے اور نفس کے اعتبار سے تم سب لوگوں سے بہتر ہوں۔(3)

بعض روایتوں میں ہے کہ سابقہ خرافات کچھ صحابہ خود سرکار کی صاحب زادی سے کہتے تھے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر دی(4)اور بعض روایتوں میں ہے کہ جناب عباس نے نبیؐ سے شکایت کی تھی کہ لوگ ایسا کہہ رہے ہیں بعض روایتوں میں ہے کہ عمر نے نبی کریمؐ سے کہا:(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)معجم الکبیر،ج:12ص:455،مجمع الزوائدج:8ص:215 ،کتاب علامت النبوۃ ، باب کرامۃ اصلہ،معفت علوم الحدیث،ص:166،الکامل فی الضعفائ،ج:6ص:200۔

(2)فضائل الصحابہ،ج:2ص:937۔

(3)مسند احمد،ج:4ص:165،اور اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ،ج:6ص:303،کتاب فضائل،باب اعطی اللہ محمداً،السنۃ لابن ابی عاصم،ج:2ص:632۔633،باب فی ذکر قریش،ج:20ص:286،مجمع الزوائد،ج:8ص:215۔216،کتاب علامات النبوۃ،فی کرامات صلہ۔

(4)معرفت علوم حدیث:ص:166،الکامل فی الضعفائ،ج:6ص:200،معجم الکبیر،ج:12،ص:455،مجمع الزوائد،ج:8،ص:215،کتاب علامات النبوۃ،باب کرامات اصلہ۔

(5)مجمع الزوائد،ج:8ص:216،علامات النبوۃ،باب کرامات اصلہ۔

۶۶

3۔افک کے واقعات کا تتمہ بھی پڑھ لیجئے۔

روایت ہے کہ جب یہ بات نبی تک پہنچی تو آپ منبر پر گئے اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:اے لوگو!تم میں سے کون سزا دے جو جو مجھے تکلیف پہنچا رہا ہے،سعد بن معاذ نے تلوار نکالی اور کہنے لگے خدا کے رسولؐ اگر وہ قبیلہ اوس سے ہے تو میں ابھی اس کا سر آپ کی خدمت میں پیش کروں اور اگر قبیلہ خزرج کا ہے تو آپ جو حکم دیں گے اس پر عمل کیا جائے گا یہ سن کے عبادہ کھڑے ہوئے اور بولے کہ تم جھوٹے ہو خدا کی قسم تم ایس کے قتل پر قدرت نہیں رکھتے تم تو محض ایام جاہلیت کا کینہ نکالنے کے لئے ہمارے قبیلہ کے بارے میں ایسی بات بول رہے ہو پھر دونوں جلال میں آگئے سعد بن معاذ نے آواز دی اے اوس والو!اور سعد بن عبادہ نے پکارا اے خررج والو!پھر اس کے بعد اینٹ پتھر پھینکنے لگے اس پر جنگ مغلوبہ شروع ہوگئی بات ختم کرنے کی نیت سے اسید بن حضیر کھڑے ہوئے انہوں نے پوچھا یہ جھگڑا بیکار ہے یہ پیغمبر خداؐ خدا کے حکم سے ہمیں حکم دینے کا حق رکھتے ہیں چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا۔(1) اس واقعہ کو امام بخاری نے عائشہ کے لفظوں میں بیان کیا ہے،عائشہ کہتی ہیں کہ اس درمیان ایک شخص کھڑا ہوا ام احسان،اس کی بنت عم اس کے قبیلہ سے تھی،کھڑا ہونے والا شخص سعد بن عبادہ تھا جو قبیلہ خزرج کاسردار تھا عائشہ کہتی ہیں پہلے سعد بن عبادہ بہت شریف آدمی تھے لیکن اس وقت قبیلہ کا تعصب ان پر غالب تھا انہوں نے سعد بن معاذ سے کہا تم خدا کی قسم جھوٹے ہو تم اس کو نہیں قتل کرسکتے اگر وہ تمارے قبیلہ سے ہوتا تو تم اس کا قتل ہرگز نہیں چاہتے،اسی وقت اسید بن حضیر جو سعد کے چچا تھے کھڑے ہوئے اور بولے خدا کی قسم اب تو اسے ضرور قتل کریں گے،تم منافق ہو اور منافقوں کی حمایت میں لڑ رہے ہو،یہ سنتے ہی قبیلہ اوس و خزرج جمع ہوگئے اور جنگ پر آمادہ نظر آنے لگے سرکار منبر پر کھڑے تھے اور انہیں ٹھنڈا کر رہے تھے یہاں تک کہ وہ لوگ چپ ہوئے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع الزوائد،ج:9ص:238،کتاب المناقب،باب حدیث الافک،معجم الکبیر،ج:23،ص:127۔

(2)صحیح بخاری ج:4ص:1520۔کتاب مغازی، باب حدیث افک۔

۶۷

4۔بعض حدیثوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مدینہ کے کچھ لوگ نماز مجعہ کو اہمیت نہیں دیتے تھے اور اس میں شرکت سے پہلو تہی کرتے تھے نبی کو یہ بات ناگوار گذری آپ نے انہیں متوجہ کیا اور ڈرایا۔

کعب بن مالک کی حدیث ملاحظہ ہو حضرت ہادی اعظم نے فرمایا:جو لوگ نماز جمعہ کی اذان سنتے ہیں اور جمعہ میں شریک نہیں ہوتے وہ ایسا کرنا چھوڑ دیں ورنہ خدا ان کے دلوں پر مہر لگادے گا اور وہ لوگ غافلوں میں سے ہوجائیں گے۔(1)

5۔سرکار جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ شہر میں ایک قافلہ خواراک لادے ہوئے آیا،مجمع اس قافلے کا شہرہ سنتے ہی نبی کا خطبہ کے چل پڑا اور خطبہ میں صرف بارہ آدمی رہ گئے(2)

حدیث میں ہے کہ جس وقت نبی جمعہ کو چھوڑ کے قافلے کی طرف دوڑا خطبہ میں فقط بارہ آدمی رہ گئے حضرت نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،اگر تم سب چلے جاتے تو وادی مدینہ آگ سے بھر جاتی اس واقعہ کے بارے میں سورہ جمعہ کی یہ آیت نازل ہوئی:

و اذا راو تجارة او لهواً انفضّوا الیها و ترکوک قائماً(3)

ترجمہ:جن انہوں نے مال تجارت یا ڈھول باجا دیکھا تو اس کی طرف بھاگ گئے۔

6۔جب پہل بار روزہ واجب ہوا تھا تو روزہ دار پر افطار کے بعد کھانا پینا اور مباشرت کرنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع الزوائد ج:2ص:193،اسی طرح کتاب الصلوٰۃ،باب فی من ترک الجمعۃ،مسند الشامین،ج:2ص:285،معجم کبیر،ج:19ص:99،الترغیبو الترھیب،ج:1ص:295،

(2)صحیح بخاری ج:1ص:316،کتاب جمعہ،باب الساعۃ......،صحیح بخاری،ج:2ص:590،کتاب الجمعۃ،باب فی قولہ تعالی،((واذا راوا تجارۃ....))

(3)سورہ جمعہ:آیت:11،صحیح بن حبان،ج:15ص:299،مسند ابی یعلی،ج:3ص:486،تفسیر طبری،ج:28ص:104

۶۸

حرام تھا لیکن بعض لوگ مباشرت کرے جب کہ وہ حرام تھی باری تعالیٰ نے اس حرکت پر عتاب فرمایا پھر حکم میں تخفیف کردی قرآن مجید میں اس آیت کا ارشارہ مسلمانوں کی اسی نازیبا حرکت کی طرف ہے۔

اُحل لکم لیلة الصیام الرفث الی نسائکم هنّ لباس لکم و انتم لباس لهن علم الله انّکم----------------(1)

ترجمہ:روزے کی راتوں میں عورتوں سے مباشرت تمہارے لئے حلال کردی گئی ہے وہ تمہارے لئے پردہ ہے اور تم ان کے لئے پردہ ہو،خدا کو معلوم ہوا کہ تم اپنے نفس میں جنابت کرتے ہو تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف کردیا پس تم ان سے مباشرت کرو اور اپنی روزی تلاش کرو،کھاؤ،پیئو ،یہاں تک کہ صبح صادق نمودار ہو۔

7۔بدر کے غزوہ کا مال غنیمت تقسیم ہونے لگا اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ اسلامی فوج کے تین حصے تھے ایک تہائی دشمن سے جنگ کر رہا تھا اور دشمن کو قید کر رہا تھا اور دشمن کے حملے سے آپ کو بچا رہا تھا اب جب مال غنیمت جمع ہوگیا تو اس کی تقسیم میں اختلاف ہوا جمع کرنے والوں نے کہا یہ سب ہمارا ہے،جنگ کرنے والوں اور اسیر کرنے والوں نے کہا تم سے زیادہ ہم حقدار ہیں ہم نے دشمن کا دھیاں تمہاری طرف سے ہٹا دیا تھا اس لئے تم ہم سے زیادہ حقدار نہیں ہو اور جو نبی کی حفاظت کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ ہم دشمن کو قتل بھی کرسکتے تھے اور مال غنیمت بھی لوٹ سکتے تھے ہمیں کوئی روکنے والا نہیں تھا لیکن ہم نے صرف پیغمبرؐ کی حفاظت کی اسی لئے اس کے اصل مستحق ہم ہیں۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ بقرہ آیت:187،صحیح بخاری،ج:4ص:639،کتاب التفسیر،کتاب احل لکم لیلۃ الصیام،تفسیر بن کثیر،ج:1ص:221۔

(2)سنن کبریٰ بیھقی ج:2ص:292،کتاب قسم الفیءوالغنیمۃ،باب بیان مصرف الغنیمۃ،ثقات لابن حبان،ج:1ص:179۔

۶۹

عبادہ ابن صامت کہتے ہیں ہمارے درمیان اختلاف ہوگیا اور ہماری کج خلقی کی وجہ سے خدا نے وہ دولت ہم سے لے لی اور اس کا مالک تنہا کو بنادیا پھر حضرت نے برابری کی بنیاد پر اس مال کو تقسیم کردیا اس میں تقویٰ اور اطاعت خدا کے ساتھ اطاعت رسول اللہؐ اور آپس کی اصلاح پوشیدہ تھی۔

((یسألونک عن الانفال قل الانفال لله و الرسول فاتقوالله و اصلحوا ذات بینکم)(1)

ترجمہ:خدا نے کہا ہے،لوگ آپ سے انفال کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ ان سے کہہ دیں انفال تو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کا حق ہے تم لوگ آپس میں سدھار پیدا کرو۔

8۔صحابہ کو مال غنیمت کی بڑی فکر رہتی تھی بلکہ سب سے زیادہ فکر مال غنیمت ہی کی رہتی تھی،ملاحظہ ہو!حارث بن مسلم اپنے باپ سے روایت کرتا ہے کہ ایک قریہ میں ہم نے کافروں کے ایک قبیلہ پر حملہ کیا تو ہمارے اصحاب نے ہمیں آگے بڑھا دیا ہم نے دیکھا اس کافر قبیلے کے بچے اور عورتیں فریاد کر رہی ہیں ہم نے پوچھا کیا تما پنی جان بچانا چاہتے ہو تو وہ بولے بالکل جان بچ جائے تو کیا کہنا ہم نے کہا جلدی سے کلمہ طیبہ پڑھ لو وہ سب کے سب کلمہ پڑھنے لگے اتنے میں ہمارے ساتھی پہونچنے اور(چونکہ وہ لوٹنے کی نیت سے آئے تھے)پورا واقعہ جان کے ہمیں ملامت کرنے لگے کہ ہمیں تو بہت سا مال غنیمت ملنے والا تھا اس بدھوکی وجہ سے ہم مال غنیمت سے محروم رہ گئے بہرحال ہم لوگ ہادی برحق کی خدمت میں پہنچے آپ نے پوری تفصیل سننے کے بعد فرمایا کہ جس نے بھی سریہ میں شرکت کی ہے قیامت میں اسے اجر ملےگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ انفال:آیت:1،سنن الکبری للبیھقی،ج:6ص:292،کتاب الفیءوالغنیمۃ،باب بیان مصرف الغنیمۃ،حدیث عبادۃ بن صامت،فی ذکر بدر،مجمع الزوائد،ج:7ص:26،کتاب تفسیر سورہ انفال،مسند احمد،ج:5ص:322،تاریخ طبری،ج:2ص:38،سیرۃ نبویۃ،ج:3ص:219۔

(2)المعجم الکبیرج:19ص:433مجمع الزوائد،ج:1ص:26،کتاب الایمان،باب فی مایحرم دم المرئ و مالہ۔

۷۰

ملاحظہ فرمائیے اس واقعہ میں مسلمانوں کی اخلاقی پستی اور ضمیر کی خرابی یہ لوگ اس کا فر قبیلہ کے اسلام پر خوش نہیں ہوئے بلکہ اس بات پر ناراض ہیں کہ انہیں مال نہیں ملا اپنے ساتھی کی ملامت بھی اسی وجہ سے کررہے ہیں۔

9۔ابن عباس کہتے ہیں کہ بدر کے مال غنیمت میں ایک مخملی چادر تھی جو تقسیم کے وقت نہیں مل رہی تھی اصحاب کے دل میں فوراً یہ خیال آیا کہ لگتا ہے ہادی برحق نے دبالی ہے خدا کو یہ بات اتنی بری لگی کہ اس نے اپنے نبی کی صفائی میں آیت نازل کی:

((و ما کان لنبی ان یغلّ و من یغلل یات بما غل یوم القیامة))(1)

ترجمہ:نبی مال نہیں دباتا اور جو مال دبائےگا قیامت میں اسے اسی مال معضوب کے ساتھ لایا جائےگا۔

دوسری روایت میں ہے کہ اصحاب نے کہنے لگتا ہے نبی نے وہ چادر رکھ لی ہے(2) اور یہ بات مشہور ہوگئی طبری ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ اصحاب کہنے لگے کہ نبی نے وہ چار کہیں دبادی ہے(3) ابن کثیر کی تفسیر میں ہے کہ ابن عباس کہتے تھے کہ جب کوئی چیز گم ہوجاتی تھی تو منافقین اس کی چوری کا الزام ہادی برحق پر لگاتے تھے۔(4)

10۔برا ابن عاذب کہتے ہیں احد کے دن حضور نے پچاس تیرا انداز کو ایک درہ پر معین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)آل عمران آیت:161تفسیر ابن کثیرج:1ص:422،تفسیر طبری،ج:4،ص:155،اس آیت کی تفسیر میں،سنن ابن داؤود،ج:4ص:31،سنن ترمذی،ج:5ص:230،کتاب تفسیر القرآن،عن رسول اللہ،مسند ابی یعلی،ج:4ص:327،مسند بن عباس،ج:5ص:60،معجم کبیر،ج:11ص:364۔

(2)تفسیر ابن کثیر ج:1ص:422 تفسیر آیت،((و مان کان لنبی ان یغل))کے ضمن میں،تفسیر طبری،ج:4ص:154،تفسیر سورہ آل عمران میں۔

(3)تفسیر طبری،ج:4ص:155،تفسیر آیت،آل عمران۔

(4)تفسیر ابن کثیر ج:1ص:422تفسیر آیت،سورہ آل عمران میں((و ما کان لنبی ان یغل))کے ضمن میں۔

۷۱

کیا فرمایا:اور کہہ دیا کہ جب تک میرا پیغام نہ پہونچے خبردار یہاں سے مت ہٹنا چاہے ہماری ہار ہو یا جیت اور تھوڑی ہی دیر میں جنگ شروع ہوئی پس کفار پسپا ہوگئے اور ہم خدا کی قسم ان کی عورتوں کی پہاڑوں پر بھاگتے ہوئے دیکھ رہے تھے ان کی پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں اور ان کی پازیبیں دکھائی دے رہی تھیں وہ اپنے لباس کو اٹھا کے بھاگے جارہی تھیں یہ دیکھ کر اس معین درے کے اصحاب اپنے امیر عبداللہ بن جبیر سے کہنے لگے کہ کفار تو بھاگ رہے ہیں اے میری قوم والو مال غنیمت لوٹنے کا موقعہ بھی تو ہاتھ سے نکلا جارہا ہے ہمیں ضرور مال غنیمت لوٹنا ہے قصہ مختصر یہ کہ 38 آدمی وہاں سے ہٹ کے مال غنیمت لوٹنے میں لگ گئے اور صرف کچھ آدمی معینہ جگہ پر رہ گئے بھاگا ہوا لشکر واپس آیا اور انہیں آدمیوں کو ریلتا ہوا مسلمانوں کے لشکر پر پشت سے حملہ کردیا پیغمبرؐ کے پاس صرف بارہ آدمی رہ گئے باقی مسلمان پیغمبر کو چھوڑ کے بھاگ گئے اس دن ستر مسلمان شہید ہوئے۔(1)

خداوند عالم نے مسلمان کی اس کمزوری کی طرف اشارہ کیا:

((ولقس صدقکم الله وعده ا-----))

ترجمہ:خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا جب تم اس کی اجازت سے فتحیاب ہونے ہی والے تھے کہ تم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند احمد،ج:4ص:293،حدیث:البرابن عازب،سنن کبری(نسائی)ج:6ص:315،کتاب تفسیر:قولہ تعالیٰ:(والرسول یدعوکم فی اخراکم)سنن ابی داؤود،ج:3ص:51،کتاب الجہاد،باب فی کمنائ،مسند ابن الجمعد،ص:375،تفسیر ابن کثیر،ج:1،ص:415،معرکہ احد،صحیح بخاری،ج:3ص:1105،کتاب الجھاد و السیر ،باب ما یکرہ من من التنازع و اختلاف،نیز مختصر طور پر روایت کی گئی ہے صحیح بخاری،ج:4ص:1468،کتاب المغازی باب غزوہ احد صحیح بن حبان،ج:11ص:40،باب خروج و کیفیت جہاد،تفسیر ابن کثیر،ج:1ص:414

(2)سورہ آل عمران آیت:152،تفسیر طبری،ج:4ص:128،تفسیر قرطبی،ج:4ص:236۔

۷۲

پھیل گئے اور تم میں اختلاف پیدا ہوگیا مال غنیمت دیکھ کے تم نبی کی نافرمانی کر بیٹھے تم میں سے کچھ لوگ دینا کے مرید تھے کہ تمہیں آزمائے۔

ابن مسعود کہتے ہیں کہ ہمیں یقین نہیں تھا کہ کہ اصحاب پیغمبر بھی دنیا کے مرید ہوسکتے ہیں لیکن اس آیت نے آگے پردہ اٹھایا:

((منکم من یرید الدنیا و منکم من یرید الاخرة))(1)

ترجمہ:تم میں سے کچھ وہ ہیں جو آخرت کےعاشق ہیں اور کچھ دنیا کے شیدا ہیں۔

کہتے ہیں کہ جنگ احد میں انس بن نضر نے سنا کچھ مسلمان کہہ رہے تھے جب انہیں قتل پیغمبر کی خبر ملی کہ کاش ہمارے پاس کوئی پیغمبر،ہوتا جو عبداللہ ابن ابی تک ہماری بات پہونچا دیتا تو وہ ہمیں ابوسفیان سے پناہ دلا دیتا لوگو!محمد تو قتل ہوگئے تم اپنے پہلے مذہب پر پلٹ جاتےقبل اس کے کہ وہ لوگ تمہیں پالیں اور قتل کردیں،انس نے جواب دیا اے قوم!اگر محمد قتل ہوگئے تو محمد کا پروردگار تو قتل نہیں ہوا تم اسی عقیدہ پر جنگ کرو جس پر محمد جنگ کررہے تھے پالنے والے یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے اس سے دور رکھنا میں ان کے قول و فعل سے بری ہوں پھر انھوں نے مضبوطی سے اپنی تلوار پکڑ لی اور جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوئے۔(2)

11۔جب حدیبیہ کے عمرہ میں کفار قریش نے ہادی اعظم کو مکہ میں داخل ہونے سے روکا اور یہ بات طے ہوگئی کہ پیغمبر اپنےاصحاب کے ساتھ مدینہ واپس جائیں گے اور اپنا عمرہ اگلے سال پورا کریں گے پھر صلح نامہ تیار ہونے لگا تو مسلمانوں میں زبردست اختلاف پیدا ہوگیا اور انہوں نےصلح سے انکار کردیا،حدیث میں ہے عمر بن خطاب کہنے لگے کہ جب سے میں مسلمان ہوا اتنا بڑا شک کبھی نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تفسیر ابن کثیرج:1ص:414،سورہ آل عمران کی تفسیر میں معرکہ احد،مجمع الزوائد،ج:6ص:327۔328،کتاب تفسیر قولہ تعالی((منکم من یرید الدنیا))تفسیر طبری،ج:4ص:130،تفسیر قرطبی،ج:4ص:237۔

(2)تاریخ طبری ج:2ص:67،غزوہ احد،تفسیر طبری،ج:4ص:112،((و ما محمد الا رسول))کی تفسیر میں فتح الباری،ج:7ص:351،دوسرے الفاظ میں

۷۳

ہوا تھا،پھر میں حضور کی خدمت میں آیا اور پوچھا کیا آپ نبی برح نہیں ہیں آپ نے فرمایا بیشک ہوں،پوچھا کیا ہم لوگ حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے سرکار دو عالمؐ نے فرمایا ہم حق پر ہیں، میں نے کہا پھر اتنا جھک کے آپ نے صلح کیوں کر لی اپنے دین میں اتنی پستی کیوں قبول کی؟سرکار نے فرمایا میں خدا کا رسول ہوں اور اپنے مالک کی نافرمانی نہیں کرسکتا ہوں وہی میرا مددگار ہے میں نے کہا آپ نے کہا نہیں تھا کہ ہم جلد ہی کعبہ کا طواف کریں گے آپ نے فرمایا کہا تھا لیکن کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سال کریں گے،میں نے کہا نہیں یہ تو نہیں کہا تھا آپ نے فرمایا پھر تم مکہ بھی آؤگے اور طواف بھی کروگے میں اپنے عودہ پر قائم ہوں،عمر کہتے ہیں پھر میں ابوبکر کے پاس آیا اور پوچھا ابوبکر کیا یہ شخص نبی برحق نہیں ہے انہوں نےکہا ہیں،کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہین ہیں ابوبکر نے کہا بالکل ہیں میں نے کہا پھر اس شخص نے ہمیں دین کے معاملے اور اپنے پروردگار کی نافرمانی نہیں کرنے کا کہہ دیا وہی ان کا مددگار ہے۔تم ان کے ہم رکاب رہو یہاں تک کہ مرجاؤ،میں نے کہا کیا انہوں نے ہم سے نہیں کہا تھا کہ ہم عنقریب کعبہ کی زیارت کریں گے اور اس کا طواف بھی کریں گے ابوبکر نے کہا کہ سرکار نے کہا تو تھا لیکن آج کی قید تو نہیں لگائی تھی میں نے کہا نہیں آج کی شرط نہیں تھی ابوبکر نے کہا پھر وقت آئےگا اور مستقبل میں تم طواف بھی کروگے عمر کہتے ہیں کہ اس دن میں نے اپنی بےآبروئی کے بہت سے کام کئے۔(1)

جب صلح نامہ لکھا جانے لگا تو سرکار اٹھے اور اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ اٹھو قربانی اور تحلیق کرڈالو لیکن مسلمانوں کے کان پر جوں نہ رینگی،سرکار نے تین بار حکم دیا مگر مسلمان ٹس سے مس نہیں ہوئے،بیٹھے رہے آپ شکستہ ہوکے ام المومنین ام سلمہ کے پاس آئے اور مسلمانوں کی نافرمانی کے بارے میں بتایا ام المومنین(ام سلمہؐ)نے عرض کیا خدا کے رسول اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کا حکم مانیں تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔صحیح بن حبان،ج:11ص:224۔225،کتاب السیر اباب الموادعہ و المہادنہ(مصنف عبدالرزاق)،ج:5ص:33،کتاب المغازی،غزوۃ حدیبیہ،صحیح بخاری،ج:2ص:977،کتاب الشروط باب الشروط فی الجھاد و المصالحۃ۔

۷۴

آپ باہر نکلیں کسی سے کچھ نہ کہیں اپنے تحلیق کرنے والے کو بلا کے تحلیق کر لیں اور قربانی کا جانور ذبح کردیں۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ام سلمہؐ کے کہنے کے مطابق باہر نکلے کسی سے کچھ نہیں فرمایا اپنا جانور ذبح کر کے اپنے حالق کو بلایا اور تحلیق کرلی جب مسلمانوں نے یہ دیکھا تو طوعاً کرہاً اٹھے اور پیغمبرؐ کی پیروی میں قربانی ذبح کرکے ایک دوسرے کی تحلیق کرنے لگے۔(1)

واقدی کہتا ہے ابوسعید کہتے تھے کہ عمر نے کہا حدیبیہ کے دن میرے دل میں امر عظیم واقع ہوگیا اور میں نے پیغمبر سے ایسی کج بحثی کی جیسی پہلے کبھی نہیں کی تھی۔(2)

دوسری حدیث میں عمر کہتے ہیں رائے کو دین پر لاددیا گیا تھا،میں پیغمبرؐکی رائے کو رد کر رہا تھا اور حق سے ہٹا نہیں تھا،اسی حدیث میں ہے کہ پیغمبر صلح پر راضی ہوگئے میں نے انکار کیا آخر پیغمبرؐ نے مجھ سے فرمایا عمر میں دیکھتا ہوں کہ میں راضی ہوں اور تم انکار کررہے ہو۔(3)

سہل بن حنیف کہتے ہیں کہ عمر کہتے تھے اے لوگو!اپنی رائے کو دین پر اہمیت دو میں نے صلح حدیبیہ کے دن ابوجندل کو دیکھنے کے بعد یہ سوچا کہ اگر میں پیغمبرؐ کے خلاف کچھ مددگار پاتا تو پیغمبرؐکی بات سے انکار کردیتا۔(4)

ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ ام سلمہ اور نبی کے درمیان یوں گفتگو ہوئی،آپ نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:2ص:978کتاب الشروط،صحیح بن حبان،ج:11ص:225،مصنف لعبدالرزاق،ج:5ص:340،کتاب المغازی

(2)فتح الباری ج:5ص:346،نیل الاوطارج:8ص:200،باب جواز مصالحہ.......

(3)فتح الباری ج:5ص:364،

(4)معجم الکبیرج:6ص:90،اسی طرح دوسرے لفظ میں بھی یہ حدیث نقل ہوئی ہے کہ اگر میں رسول کے حکم کو رد کر پاتا تو رد کر دیتا،معجم الصغیر(للطبرانی)ج:2ص:57،باب المیم(من اسمہ محمد)الفتن نعیم،بن حماد:ج:1ص:93،تاریخ بغدادج:4ص:116،احمد بن حجاج شیبانی کے حالات میں اور تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ تفسیر ابن کثیر،ج:4ص:201،صحیح بخاری ج:3ص:1161،باب الجزیۃ و الموادیہ،باب اسم من عاھد ثم غدر،صحیح مسلم ج:3ص:1412،کتاب الجھاد،والسیر کتاب صلح حدیبیہ

۷۵

فرمایا:ام سلمہ تم دیکھ رہی ہو کہ میں لوگوں کو حکم دے رہا ہوں اور لوگ میری نافرمانی کر رہے ہیں(1)

ابوالملیح کہتے ہیں کہ لوگوں کی نافرمانی پیغمبر کو بری لگی اور آپ ام سلمہؐ کے پاس آئے آپ نے فرمایا کہ مسلمان ہلاک ہوگئے میں نے انہیں حکم دیا کہ وہ سرمنڈائیں اور قربانی کریں لیکن انھوں نے نہیں کیا۔(3)

12۔اس طرح اختلاف اس وقت بھی ہوا جب متعۃ الحج کو شرعی حیثیت دی گئی ہادی اعظم نے فرمایا کہ جو لوگ قربانی کا جانور نہیں لائے ہیں اپنے حج کو عمرہ سے بدل کے احرام کھول دیں پھر حج کے لئے ایام حج میں احرام کی تجدید کریں،یہ حکم اصحاب کو بہت گراں گذرا اور انہوں نے اس کو بڑا گناہ سمجھا(4)جیسا کہ جابر کی حدیث میں ہے کہ یہ عمل ان کی عادت کے خلاف تھا ایام جاہلیت کے عادی مسلمان یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اس عمل سے حج اور مشاعر مقدسہ کی بے حرمتی ہوئی ہے نبی کی بات کو رد کردیا اور آپ کے حکم کی ان سنی کر کے ایام جاہلیت کی طرح حج کرنے لگے یہاں تک کہ نبی کو غصہ آگیا۔

جابر سےدوسری حدیث میں مندرجہ ذیل باتیں نقل کی گئی ہیں،ہم لوگ حج کے ارادے سے نکلے تھے تو ماہ ذی الحجہ میں صرف چار دین باقی تھے جب ہم طواف کعبہ کر کے سعی اور رمی جمرات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)فتح الباری ج:5ص:347

(2)فتح الباری ج:5ص:347

(3)فتح الباری ج:5ص:346،نیل الاوطارج:8ص:200،باب جواز مصالحۃ المشرکین

(4)صحیح مسلم ج:2ص:883،سنن کبری بیھقی ج:4ص:356،کتاب الحج،باب المتع فی العمرۃ،سنن کبریٰ(للنسائی)ج:2ص:417،کتاب الحج،مسند احمد ج:3ص:302

۷۶

بھی کرچکے تو سرکار نے حکم دیا کہ اب احرام کھول دو اور عورتوں کو حلال سمجھو،ہم نے کہا یا رسول اللہؐ اب تو عرفہ کا دن صرف پانچ دن کے فاصلے پر ہے کیا ہم حج کے لئے اس حال میں نکلیں گے کہ منی ہمارے عضو ذکر سے ٹپکتی ہوگی حضرت نے فرمایا میں تم لوگوں سے زیادہ نیک اور سچا ہوں اگر میرے پاس بھی قربانی ہوتی تو میں بھی احرام کھول دیتا،سراقہ بن مالک نے پوچھا یہ حکم صرف اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے آپ نے فرمایا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔(1)

برابن عاذب کی حدیث میں ہے کہ سرکار اپنے اصحاب کے ساتھ نکلے ہم نے حج کا احرام باندھا جب ہم مکہ میں پہنچے تو سرکار نے فرمایا اپنے حج کو عمرہ سے بدل دو ہم نے کہا سرکار ہم نے حج کا احرام باندھا ہے اس کو عمرہ سے کیسے بدل دیں فرمایا وہ کردو جو میں کہہ رہا ہوں اصحاب نے آپ کی بات ماننے سے انکار کیا آپ کو غصہ آگیا عائشہ کے پاس آئے،عائشہ نے کہا آپ کو کس نے غضبناک کیا خدا اس کو غضبناک کرے آپ نے فرمایا مجھے کیوں نہ غصہ آئے میں لوگوں کو حکم دیتا ہوں اور لوگ میرا حکم نہیں مانتے۔(2)

پیغمبر کے حکم کے خلاف ان کے دل میں گرہ پڑگئی یہاں تک کہ جب پیغمبر کی وفات ہوگئی اور عمر صاحب تخت سلطنت پر آئے تو ایام جاہلیت کی یہ رسم جاری کردی اور بالا علان رسول کی مخالفت کرنے لگے عمر نے ((متعتہ الحج اور متعتہ النسائ))دونوں کو حرام قرار دیا عثمان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سنن ابن ماجہ ج:2ص:992،کتاب المناسک الحج کے باب میں،اسی طرح صحیح بن جبان ج:9ص:232،باب تمتع،شرح معانی الآثار ج:2ص:192،اسکے علاوہ بھی بہت سی کتابوں میں۔

(2)مسند احمد ج:4ص:286،حدیث برائ بن عازب اور اسی طرح مسند ابی یعلی ج:3ص:233،مسند برائ بن عازب،مجمع الزوائد ج:3ص:233،کتاب الحج باب فسخ الحج الی العمرہ تذکرۃ الحفاظ ج:1ص:115۔116،ابی اسحاق کے حالات میں،سیر اعلام نبلائ ج:5ص:400،ابی بکر بن عیاش کے حالات میں مصباح الزجاجۃ ج:3ص:199،سنن الکبری للنسائی ج:6ص:56،کتاب عمل الیوم و الیلۃ،سنن بن ماجہ ج:2ص:993،کتاب المناسک باب فتح الحج،عمل الیوم و الیلۃ ج:3ص:199،شرح نووی علی صحیح مسلم ج:1ص:115۔116،نیل الاوطار،ج:5ص:62،اور دیگر کتابوں میں بھی۔

۷۷

اور بعد کے بادشاہ بھی سنت عمر پر عمل کرتے رہے یہاں تک کہ خدا کی شریعت تقریباً برباد ہوگئی۔

محمد بن عبداللہ بن نوفل بن عبدالمطلب کی حدیث میں ہے کہ معاویہ کے ساتھ لوگ ایک سال حج کر رہے تھے تو ضحاک نے کہا اسے نہیں بنایا مگر اس شخص نے جو اللہ کے حکم سے جاہل ہے،سعد بن وقاص نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے تو نے یہ بات غلط کہی ضحاک نے کہا نہیں حج تمتع ہوتا تھا پیغمبر اسلامؐ خود کرتے تھے اور لوگوں کو حکم دیتے تھے عمر نے اپنے دور میں اس کو منع کردیا ورنہ ہم پیغمبرؐ کے ساتھ حج تمتع کرچکے ہیں۔(1)

مطرف کہتے ہیں کہ مجھے عمران بن حصین نے اپنے آخری وقت میں بلایا اور پھر کہا کہ میں تم سے کچھ باتیں کہہ رہا تم کو میرےہوں جو خدا کی طرف سے فائدہ پہونچائیں گی اگرم یں زندہ رہا تو اس کو کسی کے سامنے مت کہنا اگر میں مرگیا تو ان بتوں کو دوسروں کو بتاسکتے ہو بات یہ ہے کہ سرکار نے حج اور عمرہ کو جمع کیا تھا اور اس کے بعد کتاب خدا میں کوئی آیت اس کی ممانعت کی نہیں اتری اور نہ نبی نے منع کیا،اس کو ایک آدمی نے اپنی رائے سے حرام کیا ہے۔(2)

13۔اصحاب کی زبان پر اکثر جاہلیت کے دور کی باتیں جاری ہوجاتی تھیں۔

ابواقدلیثی کہتا ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو سرکارؐ ہمارے ساتھ ہوازن کی طرف بڑھے یہاں تک کہ ہم لوگ ایک بیر کے درخت کے پاس پہونچے یہ وہ درخت تھا جس کی کفار عبادت کرتے تھے اور اس کو ذات انواط ہمارے لئے بھی ہونا چاہئے رسولؐ نے فرمایا اللہ اکبر یہ تو وہی بات ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے کہی تھی کہ ہمارے لئے بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بن حبان ج:9ص:246حج و عمرہ کے باب میں،اور اسی طرح سنن الترمذی ج:3ص:185،کتاب الھج عن رسول اللہؐ ص:1،باب ما جائ فی التمتع،سنن الکبریٰ للبیہقی ج:5ص:16کتاب الحج جماع ابواب الاختیار فی افرادالحج و التمتع با عمرہ،باب من اختار التمتع،مسند الشافعی ص:218موطا مالک ج:1ص:344،کتاب الحج باب ماجائ فی التمتع مسند الشاشی ج:1ص:210،مسند احمد ج:1ص:173،مسند ابی اسحاق سعد بن ابی وقاص،مسند ابی یعلی ج:2ص:130،مسند سعد بن وقاص و غیرہ میں

(2)صحیح مسلم ج:2ص:899کتاب حج،باب جواز التمتع اور اسی طرح طبقات الکبریٰ ج:4ص:290،حالات عمران بن حصین میں،مسند احمد ج:4ص:428،حدیث عمران بن حصین

۷۸

ایک خدا بنادے جیسا کافروں کے لئے خدا ہے موسیؑ نے جواب دیا تھا تم جاہل لوگ ہو،رسولؐ نے فرمایا یا تم لوگ اپنے سابق لوگوں کے طریقوں پر ضرور چلوگے۔(1)

در منشور میں ہے ہم لوگ ایک درخت سے ہوکے گذرے جو بیرکا تھا اور کفار قریش اپنے ہتھیار اس پر لٹکایا کرتے تھے اسی لئے اسے ذات انواط کہتے تھے اس درخت کی کفار خدا کو چھوڑ کے پرستش بھی کرتے تھے جب سرکار ادھر سے گذرے تو آپ نے اس کو چھوڑ کے اس سے کم سایہ دار جگہ پر بیٹھے،حالانکہ دن بہت گرم تھا اسی وقت ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط ہوتا جیسا کفار کے لئے ہے۔(2)

ابوعاصم کے الفاظ ہیں پیغمبرؐ کے ساتھ حنین کی طرف جارہے تھے اور ہم لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اصل میں ہم لوگ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے تھے پس ہم ایک درخت سے ہوکے گذرے تو ہم نے کہا۔(3)

14۔جب سرکار ھوازن کے اسیروں کو واپس کرچکے اور اپنی سواری پر بیٹھے تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور کہنے لگے مال غنیمت میں ہمارا حصہ دیجئے لوگ پیغمبر کو کھینچ کے ایک ببوک کے نیچے لے گئے اتنا ہجوم ہوا کہ ردا آپ کے دوش مبارک سے گرگئی حضرت نے تنگ آکے فرمایا اے لوگو!ہماری ردا تو واپس کرو خدا کی قسم اگر تہامہ کے درختوں کے تعداد کے برابر بھی ہو تو اس کو میں تقسیم کروں گا اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بن حبان ج:15ص:94،اس باب میں کہ یہ امت اپنے پہلے والوں کا اتباع کرے گی۔

(2)در منشور:ج:3ص:114ابن ابی حاثم و ابن مدوبۃ اور طبرانی کی تفسیر آیت((و جاوزنا بنی اسرائیل))میں بیان کیا گیا ہے

(3)سنن بن ابی عاصم ج:1ص:37،باب فیما اخبربہ النبی ان امتہ ستفترق علی اثنتین و سبعین فرقۃ و ذمہ الفرق کلھا،اور تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ،سنن الکبریٰ نسائی:ج:6ص:346،کتاب تفسیر سورہ اعراف(فاتو علی قوم)کے ذیل میں،سنن ترمذی ج:4ص:475،باب ما جائ لترکبن سنن من کان قبلکم،مصنف ابن ابی شیبۃ ج:7ص:479،کتاب الفقن،باب من کرہ الخروج فی الفتنۃ...،مسند الحمیدی ج:2ص:375،الجامع(ازری)ج:11ص:369،باب سنن من کان قبلکم،مسند احمد ج:5ص:218،ابی الواقد لیثی کی حدیث میں۔

۷۹

نہ بخالت کروں گا نہ ڈروں گا اور نہ ہی جھوٹ بولوں گا پھر آپ اپنے اونٹ کے قریب گئے اور اس کی پیشانی سے ایک بال اکھیڑا اسے آپ نے اپنے بیچ کی انگلی اور برکت کی انگلی کے درمیان رکھ کے مجمع کو دکھایا پھر فرمایا اے لوگو!مال میں میرا تو اس بال کے برابر بھی حصہ نہیں ہے یہ صرف خمس ہے اور وہ خمس بھی میں تم کو واپس کر رہا ہوں۔(1)

15۔جب حنین کا مال تقسیم ہونے لگا تو آپ نے قریش کے نئے مسلمانوں کا دل جیتنے کے لئے کچھ زیادہ مال دیدیا اس بات پر انصار بگڑ گئے اور آپس میں باتیں کرنے لگے حضرت کو غصہ آگیا آپ انصار کے درمیان تشریف لے گئے اور خطبہ دیا پھر آپ نے انہیں اپنے اخلاق اور اپنی دل پذیر باتوں سے راضی کرلیا۔(2)

16۔آخر عمر میں سرکار نے اسامہ بن زید کی سرداری میں ایک لشکر ترتیب دیا جس میں مہاجرین و انصار شامل تھے۔(4)

ہشام بن عروہ کہتا ہے:جیش اسامہ کے ساتھ نمایاں افراد اور بہترین لوگ مدینہ سے باہر نکل گئے۔(4)

اسی جیش اسامہ میں ابوبکر عمر اور ابوعبیدہ بن جراج بھی شامل تھے اور ان کے والد شہید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند احمدج:2ص:184،سنن کبریٰ(للنسائی)ج:4ص:120،کتاب الھبہ،سیرہ نبویہ(لابن ہشام)ج:5ص:168،مجمع الزوائد ج:5ص:338۔339،کتاب الجھاد ما جائ فی الغلول،تاریخ طبری ج:2ص:174۔175،سنن کبری(للبیہقی)ج:6ص:336،باب التسویۃ فی الغنیمۃ

(2)مصنف ابن ابی شیبۃ ج:7ص:418۔419،کتاب المغازی غزوہ حنین،مجمع الزوائد ج:10ص:29۔30۔31،کتاب المناقب فضائل انصار میں،معجم الکبیر ج:7ص:151،جامع(ازدی)ج:11ص:64،باب فضائل انصار و غیرہ،اور مختصر طور پر ذکر ہوا ہے،صحیح بخاری ج:4ص:1573،کتاب المغازی باب غزوہ الطائف،صحیح مسلم ج:2ص:738،کتاب الزکوٰۃ باب اعطائ المولفۃ سنن الکبری(للبیھقی)ج:6ص:339،باب سہم اللہ

(3)طبقات الکبری ج:2ص:249،

(4)طباقات الکبری ج:4ص:67۔68،تاریخ دمشق ج:8ص:62،اسامہ بن زید کے حالات میں

۸۰