فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۱

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 296

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 118262
ڈاؤنلوڈ: 5312


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 118262 / ڈاؤنلوڈ: 5312
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 1

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ہوئے تھے مذکورہ بالا لوگ اسامہ کی سرداری پر اعتراض کرنے لگے خبر پیغمبرؐ تک پہنچی آپ ممبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا خدا کی قسم اگر تم کو اسامہ کی سرداری پر اعتراض ہے تو کل تم اس کے باپ کی سرداری پر بھی اعتراض کرچکے ہو اگر اس کا باپ سرداری کی صلاحیت رکھتا تھا تو یہ بھی سرداری کی صلاحیت رکھتا ہے۔(1)

پھر آپ نے مرض ہی کی حالت میں اس لشکر کو روانگی کی تاکید فرمائی(2) اور جو اس لشکر سے منھ موڑے اس کو ناطق صادق نے ملعون قرار دیا لیکن صحابہ پہلو تہی کرتے رہے اور لشکر نہیں جاسکا یہاں تک کہ سرکار کی وفات ہوگئی(3)

17۔حضور نے ارادہ کیا کہ آخری وقت میں اپنی امت کے لئے ایک تحریر لکھیں تا کہ لوگ گمراہی سے بچیں لوگوں نے اس میں بھی نبی کی مخالفت کی اور تحریر نہیں لکھنے دی۔

ابن عباس کہتے ہیں جب سرکار کا آخری وقت آیا اس وقت آپ کے حجرے میں کچھ لوگ موجود تھے جس میں عمر بھی تھے نبی نے فرمایا لاؤ میں ایک تحریر لکھ دوں کہ تم لوگ کبھی میرے بعد گمراہ نہیں ہوگے عمر نے کہا خبردار کچھ مت دینا نبی پر درد کا غلبہ ہے تمہارے پاس قرآن موجود ہے اور ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے گھر میں جو لوگ موجود تھے ان میں اختلاف ہوگیا کچھ لوگ کہتے تھے دے دینا چاہئیے کچھ لوگ عمر کی تائید کرنے لگے جب جھگڑا بہت بڑھا تو آپ نے فرمایا تم لوگ یہاں سے اٹھ جاؤ۔

عبیداللہ کہتا ہے کہ ابن عباس کہا کرتے تھے سب سے بڑی مصیبت اس دن آئی جب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(3)طبقات الکبری ج:2ص:249،سیرۃ نبویہ ج:6ص:65

(2)طبقات الکبری ج:4ص:67،صحیح بخاری ج:3ص:1365،کتاب فضائل الصحابہ،باب مناقب زید بن حارث،ج:4ص:1620کتاب المغازی،باب بعثت النبی،مصنف بن ابی شیبۃ،ج:7ص:415،غزوہ موطا،طبقات الکبری،ج:2ص:249،و غیرہ

(3)الملل و النحل(شہرستانی)،ج:1ص:23،چوتھے مقدمہ میں،شرح نہج البلاغہ،ج:6ص:52

۸۱

لوگوں نے نبی کو تحریر نہیں لکھنے دی اور آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔(1)

دوسری حدیث میں ہے کہ مسلمان لڑنے جھگڑنے لگے اور نبی کے پاس لڑائی جھگڑا نبی کی شان کے خلاف ہے مگر مسلمان کہنے لگے پیغمبر معاذ اللہ ہذیان بک رہے ہیں آپ نے فرمایا مجھے چھوڑ دو(2) خدا کی قسم میری حالت تم سے بہت بہتر ہے اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ہوئیں جن کے بیان کی گنجائش نہیں ہے۔

18۔اصحاب کا جنگ احد اور جنگ حنین اور خیبر سے فرار اور جنگ احزاب میں نبی کی مدد سے انکار یہ سب کہانیاں تو بہت مشہور و معروف ہیں۔

19۔اسی طرح بعض اصحاب کا مرتد ہوجانا اس لئے کہ جمہور مسلمین میں صحابی اس کو کہتے ہیں جو پیغمبر کو دیکھے اور ان کی حدیث سن لے،اشعث بن قیس جیسے لوگ جو بعد میں مرتد ہوگئے سب صحابی ہی تھی۔

صحابہ کا انفرادی اور غیرمناسب کردار بھی ان کی تقدیس کی نفی کرتا ہے

دوسری قسم:وہ انفرادی اعمال جو کسی ایک صحابی یا صحابہ سے سرزد ہوئے بہت سے ہیں جن کی حکایت قرآن کرتا ہے۔

1- وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاء إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (٦) وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (٧) وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (٨) وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِن كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ( 9 )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح مسلم ج:3ص:1259۔،کتاب الوصیۃ،باب ترک الوصیۃ

(2)صحیح بخاری ج:3ڈ:1111،کتاب الجہاد و السیر باب یقاتل عن اہل الذمۃ(3)سورہ نور:آیت:9،8،7،6

۸۲

ترجمہ:جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کا گواہ سوائے ان کے اپنے نفس کے کوئی نہیں ہے تو چار بار یہ کہیں گے کہ خدا گواہ ہے کہ وہ سچے ہیں اور پانچویں بار کہیں گے کہ اگر وہ جھوٹے ہیں تو ان پر خدا کی لعنت اور اس عورت کو سزا نہیں دی جائےگی جو اپنے شوہر کے جواب میں چار مرتبہ کہےگی کہ خدا گواہ ہے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں بار کہےگی کہ اگر وہ سچا ہے تو اس(بیوی)پر خدا کا غضب آئے۔

یہ عظیم آیتیں اسی وقت نال ہوئیں جب بعض صحابہ نے اپنی بیویوں پر الزام لگایا کہ ان کی بیوی کے ساتھ ایک مسلمان این ہی کے گھر میں زنا کررہا تھا جب آیتیں نازل ہوئیں تو لعن کا سلسلہ چلا۔(1)

لعان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں اگر لعان کرنے والا اپنے دعوے میں سچا ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ صحابہ نے ایک صحابی کو اپنے گھر میں داخل کیا اور اس صحابی نے اس کے ساتھ زنا کیا پھر وہ صحابیہ اسی پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ چار مرتبہ خدا کو جھوٹی گواہی میں پیش کرتی ہے اور پانچویں بار خود کو خدا کے غضب کے لئے پیش کرتی ہے اور اگر صحابی صاحب جھوٹے ہیں تو ملاحظہ فرمائیے،ان کا کردار اللہ کہہ رہا ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ(1)

ترجمہ:جو لوگ پاک دامن اور مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تفسیر طبری ج:82۔83۔84۔85۔تفسیر ابن کثیر ج:3ص:266۔267۔268،صحیح بخاری ج:4ص:1771،کتاب التفسیر باب تفسیر سورہ نور،صحیح مسلم ج:2ص:1133،کتاب اللسان و غیرہ۔

(2)سورہ نور:آیت:23

۸۳

وہ صحابی صاحب اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ چار مرتبہ اپنے جھوٹ میں خدا کو گواہ بناتے ہیں اور پانچویں بار خود پر خدا کی لعنت گورا کرلیتے ہیں۔

2-((ولا تجادل عن الذین یختانون انفسهم ان الله لا ٰهب من کان خو انا اثیما))(1)

ترجمہ:آپ ان لوگوں کی طرف سے جنگ نہ کریں جو اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں خدا کسی بھی خیانت کرنے والے اور گنہکار آدمی کو پسند نہیں کرتا۔

یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب ایک صحابی نے دوسرے صحابی کا مال ہڑپ لیا حالانکہ حقیقت کچھ اور تھی پھر نبی کے پاس شکایت پہنچی تو نبی کو مجبور کیا گیا کہ وہ شکایت کرنے والوں کو سزا دیں لیکن آیت نے آکر پول کھول دی اور مظلوم کی نصرت کا پتہ جو شکایت لے کر آیا تھا وہی ظالم تھا۔(2)

3۔دوسری جگہ ارشاد ہوا((یا ایها الذین امنوا ان جاءکم فاسق بنبا فتبیّنوا ان تصیبو قوماً بجهالة فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین)) (3)

ترجمہ:اے ایمان لانے والو!جب کوئی فاسق خبر لے آئے تو فوراً ہی مت یقین کرلیا کرو بلکہ اس خبر کی جانچ پڑتال کرلیا کرو ورنہ تم کسی قوم کے لئے مصیبت بن جاؤگے پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہوگے۔

یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے سنی مسلمانوں کی صحابیت کی تعریف کے دائرے میں یہ بھی آتے ہیں ہوایوں کہ سرکار دو عالم نے ولید بن عقبہ کو قبیلہ نبی مصطلق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ نسائآیت:107

(2)تفسیر قرطبی ج:5ص:375۔376،تفسیر طبری ج:5ص:276۔265266،تفسیر ابن کثیر ج:1ص:553۔552،سنن ترمذی ج:5ص:224

(3)سورہ حجرات:آیت:6

۸۴

میں صدقات وصولنے بھیجا ولید بن عقبہ اس قبیلہ سے کینہ رکھتے تھے آپ وہاں گئے اور پھر خالی ہاتھ واپس آکے خبر دی کہ وہ لوگ تو مرتد ہوگئے ہیں۔

کوشش یہ تھی کہ نبی اور اصحاب نبی اس قبیلہ پر ٹوٹ پڑیں اور انہیں قتل کرڈالیں پس یہ آیت نازل ہوئی تا کہ ولید بن عقبہ کی پول کھل جائے اور قبیلہ نبی مصطلق کی جان بھی بچ جائے(1) یہ صاحب یعنی ولید بن عقبہ ایک بار مولائے کائنات سے مفاخر کرنے لگے مولائے کائنات نے کہا اے فاسق خاموش رہ مولائے کائنات کی تصدیق کرتے ہوئی یہ آیت نازل ہوئی۔

((افن کان مومنا کمن کان فاسقاً لایستوون))(2)

ترجمہ:کیا مومن اور فاسق برابر ہوسکتے ہیں۔

مندرجہ بالا دونوں ہی آیتیں ولید بن عقبہ کے فسق پر دلالت کرتی ہیں اور فسق بہت بڑی بیماری ہے ابھی تو اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں جو ان کے اصحاب کے نقاب کشائی کرتی ہیں جنھیں اہل سنت حضرات صحابی کہتے ہیں اور ان کی بد کرداری کا انکار کرتے ہیں جن کے تذکرہ کی یہاں گنجائیش ہے ویسے آگے چل کے ہم کچھ اور آیتیں بھی مقام مثال میں پیش کریں گے۔

4۔غزوہ بدر کے دن سرکار دو عالمؐ نے اپنے اصحاب کو بتایا تھا کہ بنی ہاشم اور دوسرے قبیلے کے کچھ لوگ جنگ بدر میں کفار قریش کے مجبور کرنے پر ہمارے مقابلے میں آگئے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کو قتل نہ کرنا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تفسیر ابن کثیرج:4ص:210،مجمع الزوائدج:7ص:109۔110۔111،سنن کبری(للبیہقی)ج:9ص:54،کتاب السیر،باب قسمۃ الغنیمۃ فی دارالحرب،مسند اسحاق بن راھوتہ،ج:1ص:118۔119،الاحاد و المثانی،ج:4ص:310،309،معجم الکبیر،ج:3ص:273،طبقات الکبریٰ،ج:2ص:161،الاصابۃ،ج:4ص:561،القمہ بن ناجیہ کے حالات میں

(2)تفسیر قرطبی کی طرف مراجع کریں ج:14ص:105،تفسیر قرطبی ج:21ص:107،تاریخ دمشق،ج:63ص:235،ولید بن عقبہ کے حالات میں،الکامل فی الضعفائ الرجال،ج:6ص:118،محمد بن سائب کلبی کے حالات میں،تایخ بغداد،ج:13ص:321،نوح بن خلو کے حالات میں،فضائل الصحابۃ لابن حنبل،ج:2ص:610

۸۵

بنی ہاشم میں سے اگر تمہارا کسی سے مقابلہ ہو تو اس کو جان سے مت مارنا۔

عباس بن عبدالمطلب جو پیغمبرؐ کے چچا تھے ان کو بھی جنگ میں مارنا نہیں اس لئے کہ وہ آنے پر مجبور کئے گئے ہیں ابوخدیجہ ابن عتبہ ابن ربیعہ نے کہا(کیا خوب انصاف ہے)ہم اپنے باپ،بیٹے،بھائی اور قبیلہ کو قتل کروادیں اور عباس کو چھوڑ دیں خدا کی قسم میں تو نہیں چھوڑوں گا اگر وہ ہمارے سامنے آگئے تو انہیں تلوار کا مزہ ضرور چکھاؤں گا روایت ہے کہ یہ جملہ سن کے عمر نے پیغمبرؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ یہ شخص کافر ہوگیا ہے آپ حکم دیں تو اس کی گردن ماردوں۔(1)

5۔کہتے ہیں کہ ایک آدمی اپنی چچازاد بہن سے جو نبی کی بیوی تھیں بات کرنے لگا،نبی نے اس کو منع کیا کہ آئندہ وہ بات نہ کرے اس نے کہا اب کیا محمد چچازاد بہنوں سے پردہ کرائیں گے،خود تو ان سے نکاح کئے بیٹھے ہیں اگر نبی مرگئے تو ہم ان کی بیوی سے نکاح کریں گے اس سلسلے میں آیت نے آکے ان صحاب کو ڈانٹا،ارشاد ہوا:

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَداً إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيماً(2)

ترجمہ:جب تم ان سے کوئی سامان مانگو(یعنی نبی کی عورتوں سے)تو پردے کے پیچھے سے مانگو اس سے تمہارے دل بھی پاک رہیں گے اور ان کے دل بھی اور تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تم نبی کو اذیت دو اور نہ یہ کہ نبی کے بعد نبی کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو یہ خدا کے نزدیک گناہ عظیم ہوگا۔

بے شمار روایتوں میں بات آئی ہے کہ جس بیوی کا تذکرہ وہ عائشہ ہیں اور جسے روکا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)طبقات الکبری ج:4ص:10۔11،تفسیر ابن کثیر،ج:2ص:327،328،آیہ کریمہ(ما کان لنبی)کی تفسیر میں،سیرہ نبویہ لابن ہشام ج:3ص:177،تاریخ طبری ج:2ص:34،الثقات ج:1ص:161،السنۃ الثانیۃ من الھجرۃ۔

(2)سورہ احزاب:آیت:53

۸۶

ہے وہ صحابی پیغمبر طلحہ ہیں جو عائشہ کے چچازاد بھائی تھے۔(1)

6۔ایک صحابی رسول سنی حضرات کی نیک تعریف کے مطابق ذوالخویصرۃ بھی ہیں ابوسعید حذری سے ان کے بارے میں سنئے ابوسعید حذری کہتے ہیں ہم نبی کے پاس بیٹھے تھے اور آتے ہی کہنے لگا خدا کے رسول انصاف کریں،انصاف کریں پیغمبرؐ نے فرمایا تم پروائے ہو میں انصاف نہیں کروں گا تو کون کرےگا اگر انصاف نہی کروں گا تو ناکام ہوں گا اور گھاٹا اٹھاوں گا،عمر بن خطاب نے کہا سرکار آپ اجازت دیں تو اس بدتمیز کی گردن اڑادوں!آپ نے فرمایا عمر اس کو چھوڑ دو آئندہ زمانے میں اس کے اصحاب کی نمازیں دیکھ کے تم اپنی نمازوں کو حقیر سمجھوگے یہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کی زبان پر ہوگا حلق سے نیچے نہیں اترےگا یہ لوگ اسلام سے یوں نکل چکے ہوں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے(2)

دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کہا خدا کے رسول میں نے آپ کو عادل سمجھا ہی نہیں(3)

7۔یہ سیف اللہ خالد بن ولید ہیں ذرا انہیں بھی پہچانئے،فتح مکہ کے بعد ہادی برحق نے خالد بن ولید کو نبی جذیمہ کے پاس بھیجا سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں خالد ین ولید کو نبی نے بنو جذیمہ کے پاس بھیجا یہاں انہوں نے نبی جذیمہ کو اسلام کی طرف بلادیا وہ بیچارے یہ نہ کہہ سکے کہ ہم اسلام لائے انھوں نے اپنی لغت میں کہا کہ صبانا۔ہم نے شوق کیا با ہم مشتاق ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)فتح القدیر ج:4ص:299،300،وزادالمسیر ج:6ص:416آیت کی تفسیر میں،تفسیر ابن کثیر،ج:3ص:506۔507،روح المعانی،ج:22ص:69،در منشورج:5،ص:214،آیت(وما کان لکم ان توزو)کی تفسیر میں

(2)صحیح مسلم ج:2ص:744،کتاب الزکوٰۃ باب ذکر الخوارج و صفات ہما،صحیح بخاری ج:3ص:1321،کتاب المناقب،باب علاماۃ النبوۃ فی الاسلام،سنن کبریٰ(للبیہقی)ج:8ص:171،کتاب قتال اہل البغی،سنن کبریٰ(نسائی)ج:5ص:159،کتاب الخصائص۔

(3)مجمع الزوائد ج:6ص:228،کتاب قتال اہل البغی،باب ما جائ فی الخوارج،مسند احمد،ج:2ص:219،السنۃ لابن ابی عاصم،ج:2ص:453۔454،باب المعرکۃ و الحروریۃ،السنۃ لعبداللہ بن احمد،ج:2ص:632،تاریخ طبری ج:2ص:176فتح الباری ج:12ص:292،کتاب قتال اہل البغی۔

۸۷

بہرحال خالد بن ولید کو بہانہ مل گیا اور انہوں نے ان مظلوموں کو قتل کرنا شروع کردیا۔

ان کے کہنے سے لوگوں کو گرفتار کر کے ہر مسلمان کو ایک ایک اسیر دیا جب صبح ہوئی تو انھوں نے حکم دیا کہ جس کے حوالے کیا گیا ہے وہ اپنے اسیر کو قتل کرڈالے میں نے کہا(یعنی سالم کے باپ نے)کہ میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور ہمارے کچھ اصحاب نے بھی کہا کہ وہ قیدیوں کو قتل نہیں کریں گے،ہم جب نبی کی خدمت میں پہنچے اور پوری صورت حال بتائی تو نبی نے دو مرتبہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھادئے اور فرمایا مالک!خالد نے جو کچھ کیا میں اس سے بری ہوں۔(1)

یہ واقعہ دوسرے طریقہ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔

وہ یہ کہ خالد بن ولید کو نبی نے بنوجذیمہ کے پاس بھیجا کہ وہ ان سے جنگ کریں بلکہ اسلام کی دعوت دیں بنوجذیمہ نے خالد کے چچا فاکہہ عوف اور ابوعبدالرحمٰن بن عوف کو دعوت دی بنوجذیمہ خالد سے انتقام کے لئے بے چین تھے۔جب یہ اس قبیلہ کے پاس پہنچے تو انہوں تو تلوار اٹھائی خالد نے کہا سب لوگ مسلمان ہوچکے ہیں تم لوگ بھی ہتھیار رکھدو ان لوگوں نے ہتھیار رکھ دئیے اب خالد نے ان تمام لوگوں کو باندھ دیا اور تلوار کی دھار پر رکھدیا اور ان کے بہت سے لوگوں کو مارڈالا جب یہ خبر ہادی برحق کو پہنچی تو آپ نے دعا کے لئے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور فرمایا پالنے والے میں خالد بن ولید کے عمل سے بری ہوں۔(2)

خالد کی اس حرکت پر عاصم صحابہ نے بھی ان کو برا بھلا کہا عبدالرحمن بن عوف اور خالد کے درمیان اس موضوع پر بات ہوئی و عبدالرحمٰن نے خالد سے کہا تم نے جاہلیت کے خون کا انتقام اب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:4ص:1577،کتاب المغازی،باب بعثت النبی،سنن کبریٰ للنسائی ج:3ص:474،کتاب القطاء،سنن کبریٰ بیہقی،ج:9ص:115،کتاب السیر،باب المشرکین لصلمون،المصنف لعبد الرزاق،ج:5ص:221۔222،باب دعاء العدو،صحیح بن حبان،ج:11ص:53،کتاب السیر،مسند احمد،ج:2ص:150

(2)طبقات الکبریٰ ج:2ص:148،سیرہ نبویہ ابن ہشام ج:5ص:94۔98،سیر اعلام النبلاء،ج:1ص:370،371،خالد بن ولید کے حالات میں تاریخ طبری ج:2ص:163(فتح مکہ)

۸۸

لیا یہ غلط ہے تم نے اپنے چچا فاکہہ کے بدلے میں ان لوگوں کو قتل کیا خدا تمہیں قتل کرے عمر نے بھی اعتراض کیا خالد کہنے لگے ہم نے تو تمہارے باپ کے بدلے میں انہیں قتل کیا ہے عبدالرحمٰن قتل کیا ہے عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا تم جھوٹے ہو۔

میں تو اپنے باپ کے قاتل کو اپنے ہاتھ سے قتل کرچکا ہوں اور اگر انہیں قتل کیا تو بھی تمہیں حق نہیں تھا کہ تم مسلمان قوم کو میرے اس باپ کے بدلے میں قتل کرو جو جاہلیت کے دور میں تھا۔خالدنے کہا یہ کس نے کہا کہ وہ مسلمان ہوچکے تھے عبدالرحمٰن نے کہا اہل سر یہ(لشکر والوں)نے بتایا خالد بولے مجھے تو پیغمبرؐ نے حکم دیا تھا کہ ان پر غارت گری کروں،سومیں نے کردی یہ سن کے عبدالرحمٰن نے کہا کہ تو رسولؐ پر جھوٹ کیوں باندھتا ہے اور نبی نے بھی اس سے منھ موڑلیا اور غضبناک ہوئے۔(1)

8۔مذکورہ واقعہ پر میں خالد بن ولید اور عبدالرحمٰن بن عوف میں اچھی خاصی گالی گلوج ہوئی۔(2)

9۔عمار یاسر اور خالد میں بھی کافی گالیاں بکی گئیں(3) خالد کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبرؐ سے عرض کیا حضور آپ نے ہوتے تو سمیہ کے بیٹے کی مجال نہیں تھی کہ مجھے گالی دیدتا آپ نے فرمایا خالد کو جو عمار کو گالی دے خدا اس کو گالی دےگا اور جو عمار کو حقیر سمجھے ہیں اللہ اس کو حقیر کرےگا۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سیرہ اعلام نبلاءج:1ص:370،۔371،خالد بن ولید کے حالات میں،سیرہ نبویہ ابن ہشام ج:5ص:97،تاریخ طبری ج:2ص:164۔165،تاریخ دمشق ج:16ص:234،خالد بن ولید کے حالات میں

(2)صحیح مسلم ج:4ص:1967،کتاب فضائل الصحابہ،باب تحریم سب الصحابہ،صحیح بن حبان،ج:15ص:455،فتح الباری ج:7ص:34۔35،عون المعبود،ج:12ص:269،مسند ابی یعلی، ج:2ص:396،مسند ابی سعید خدری،ص:228،باب الادب،البیان و التعریف،ج:2ص:278،(حرف لا)تحفۃ الاحوزی،ج:10،ص:245،باب فی سب اصحاب النبی،تغلیق التعلیق،ج:4ص:59۔

(3)تفسیر طبری،ج:5ص:148،سورہ نسائ آیہ(اطیعوا اللہ.....)کی تفسیر میں،ابن کثیر،ج:1ص:519،سورہ نسائ آیہ(اطیعوا اللہ.....)

(1)المعجم الکبیرج:4ص:113،مجمع الزوائد،ج:9ص:294،کتاب المناقب باب فی فضائل عمار بن یاسر و اہل بیتہ،المستدرک علی صحیحین،ج:3ص:441،کتاب معرفۃ الصحابۃ ذکر مناقب عمار بن یاسر

۸۹

10۔بنی یربوع کا وقعہ بھی کوئی چھپی بات نہیں ہے خالد نے مالک بن نویرہ کو قتل کر کے ان کی بیوی سے اسی شب میں نکاح کیا اور ان سے جب معافی مانگنے اور توبہ کرنے کو کہا گیا تو وہ تیار نہیں ہوئے صحابہ کی ایک جماعت اس بات پر بہت غضب ناک ہوئی اب اس درندگی کا مختصر تذکرہ ابوفتادہ سے سنئے،وہ تمام واقعات کے عینی شاہد ہین ابوفتادہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ خالد کی سرکردگی میں اصحاب ردہ تک پہنچے اس وقت سورج ڈوب رہا تھا اس نے پوچھا بھائی آپ لوگ کون ہیں ہم نے کہا ہم سب خدا کے بندے ہیں وہ بولے اسی خدا کے بندے تم ہم بھی ہیں لیکن خالد بن ولید نے انہیں قید کرلیا اور رات بھر باندھے رکھا صبح کے وقت حکم دیا کہ سب کی گردنیں ماردی جائیں میں نے کہا خالد خدا سے ڈرو ان کا خون تمہارے لئے حلال نہیں ہے خالد نے کہا چپ بیٹھو تم کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے،راوی کہتا ہے کہ ابوفتادہ نے اس کے بعد قسم کھائی کہ وہ کسی غزوے میں خالد کے ساتھ شریک نہٰں ہوں گے۔(1)

اس واقعہ پر عمر بن خطاب نے ابوبکر سے بہت بحث کی اور صاف کہہ دیا کہ خالد کو سزا ملنی چاہئے لیکن ابوبکر نے کہا انہوں نے(خالد)تاویل میں غلطی کی ہے مالک ابن نویرہ کا خوں بہا دیا جائے اور ان کی عورتوں کو آزاد کردیا جائے۔

خالد جب یہ کارنامہ انجام دے کے پہنچے تو مسجد نبوی میں عمر بھی موجود تھے خالد اس شان سے پہنچے کہ ان کے جسم پر ایک قبا تھی اور اپنے عمامے میں تیز کھونسے ہوئے تھے عمر اٹھ کے ان کے عمامے سے تیز نکال کے چل دئیے اور پھر بری طرح ڈانٹا کہ تو ایک مسلمان کو قتل کر کے اور اس کی بیوی سے زنا کرکے آرہا ہے خدا کی قسم میں تجھے سنگسار کروں گا لیکن عمر آخر تک خالد کا کچھ نہیں بگاڑسکے،اس لئے کہ ابوبکر مسلسل ان کی جانبداری کررہے تھے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)المصنف لعبد الرزاق ج:10ص:173،کفر بعد الایمان

(2)تاریخ طبری ج:2ص:272،اعلام النبلاءج:1ص:378،خالد کے حالات میں،الاصابۃ،ج:5ص:755،مالک بنن نویرہ کے حالات میں

۹۰

11۔جب ابوبکر کی وفات ہوگئی تو عمر ان کی جگہ تخت حکومت پر بیٹھے انہوں نے اپنی خلافت کا سب سے اہم کام خالد کو معزول کرنا سمجھا اور یہ کہہ دیا کہ ہماری طرف سے خالد کو کبھی کوئی ذمہ داری نہیں دی جائے گی عمر نے ابوعبیدہ کو لکھا کہ اگر خالد خود کو جھٹلائیں تو ان کی امارت نبی رہےگی ورنہ تم ان سے امارت لے لینا ان کا عمامہ اتار لینا اور ان کا مال تقسیم کردینا ابوعبیدہ نے مرکز کا حکم پرھ کے خالد کو سنایا تو خالد نے اپنی بہن فاطمہ سے جو حارث بن ہشام کی بیوی تھیں مشورہ کیا بہن نے کہا بھائی آپ کو معلوم ہے کہ عمر آپ کو شروع سے ناپسند کرتے ہیں ان کا ارادہ صرف یہ ہے کہ آپ اپنا گناہ قبول کرلیں پھر وہ آپ کو معزول کردیں گے خالد نے فاطمہ کے سر کا بوسہ لیا اور کہا نہیں تم ٹھیک کہتی ہو پس خالد نے خود کو جھٹلانے سے انکار کیا ابوعبیدہ نے ان کا عمامہ اتار لیا اور ان کا مال تقسیم کردیا۔(1)

12۔غزوہ ذات السلاسل میں ابوعبیدہ نے لشکر کی سرداری عمروبن عاص کو دےدی یہ بات عمر کو بہت گراں گذری عمر نے ابوعبیدہ سے کہا کیا تم ابن نابغہ کی اطاعت کروگے؟اور اس کو خود پر،مجھ پر اور ابوبکر پر امیر بنادوگے یہ تو اچھی رائے نہیں ہے۔(2)

13۔مسروق عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ عائشہ کو یہ بتایا گیا کہ علی علیہ السلام نے ذوالثدیہ کو قتل کردیا۔

عائشہ نے کہا جب میں کوفے پہنچوں تو کوجہ میں جن لوگوں کو تم جانتے ہو ان میں سے کچھ لوگوں کی اس واقعہ پر گواہی لکھ لینا جب میں کوفہ پہنچا تو بہت سے لوگوں کو ملا کر میں نے ہر گروہ میں سے دس دس آدمیوں کی گواہی لکھی اور عائشہ نے کہا خدا لعنت کرے عمر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:2ص:357۔356،الکامل فی التاریخ،ج:2ص:427،تاریخ دمشق،ج:16ص:268،خالد بن ولید بن مغیرہ کے حالات میں

(2)المصنف لعبد الرزاق ج:5ص:453۔454،کتاب المغازی،غزوہ ذات السلاسل،تاریخ دمشق ج:2ص:25

۹۱

بن عاص پر اس نے ہمیں بتایا تھا کہ اس نے دوالثدیہ کو مصر میں مارا ہے۔(1)

14۔عمر کے دور خلافت میں زبیر نے جہاد پر نکلنے کی اجازت چاہی عمر نے منع کیا اور کہا کہ آپ تو پیغمبر کی سرداری میں جہاد کر ہی چکے ہیں یہ سن کے زبیر غصہ ہوئے اور منھ پھلایا عمر نے کہا اگر میں نہ بند کروں تو امت محمد ہلاک کردے۔(2)

15۔عمان بن حنیف اور عمر میں بحث ہو رہی تھی حالانکہ عثمان بن حنیف عمر کے گورنر تھے عمر کو غصہ آیا اور انہوں نے ایک مٹھی کنکر اٹھا کے عثمان کے منھ پر پھینکا جس سے ان کی پیشانی زخمی ہوگئی اور داڑھی خون آلودہ ہوگئی عمر یہ دیکھ کے پچھتانے لگے اور بولے آؤ میں تمہارا خون صاف کروں عثمان نے کہا امیرالمؤمنین اتنا خون گرنے سے میں ہلاک نہیں ہوجاؤں گا مجھے اتنا افسوس تو یہ ہے کہ آپ نے جس عوام کا ولی مجھے بنایا اس نے مجھے اتنا ذلیل نہیں کیا جتنا میں نے آپ کو ذلیل کیا عمر کو یہ بات اچھی لگی اور عمر ان کے بھلائی میں پیسہ اضافہ کرتےچلے گئے۔(3)

16۔حضور کی موجودگی میں عمر اور ابوبکر میں جھگڑا ہورہا تھا عمر کہہ رہے تھے کہ اقرع بن حابس کو امیر بنایا جائے ابوبکر کہہ رہے تھے دوسرے کو پھر عمر نے ابوبکر سے کہا تم ہمیشہ ہماری مخالفت کرتے ہو مطلب یہ تھا کہ تم جو مشورہ دے رہے ہو وہ خدا ور رسول کی خیرخواہی میں نہیں بلکہ میری ضد میں بول رہے ہو عمر نے کہا اس سے تمہاری مخالفت مقصود نہیں اتنی بحث ہوئی کہ پیغمبر کے سامنے ہی دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں اور دونوں لڑنے لگے باری تعالی نے سرکار کی موجودگی میں یہ گستاخی برداشت نہیں کی اور آیت نے آکے دونوں کو راستہ دکھایا:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)المستدرک علی صحیحین ج:4ص:14،کتاب معرفۃ الصحابۃ،سیرہ اعلام النبلاءج:2ص:200،عائشہ ام المومنین کے حالات میں

(2)تاریخ بغداد ج:7ص:453،حرف یامن آبائ الحسین،حسن بن یزید بن ماجہ قزوینی کے حالات میں،تاریخ دمشق،ج:18ص:403،زھیر بن عوام کے حالات میں

(3)الجامع(ازدی)ج:11ص:332،باب السمع و الطاعۃ،معجم الکبیرج:9ص:29،مجمع الزوائد،ج:9ص:371،کتاب المناقب،عثمان بن حنیف کے باب میں

۹۲

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ)(1)

ترجمہ:اے ایمان لانےوالو اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور نبی کے سامنے چیخ کے نہ بولو جیسا کہ تم آپس میں کرتے ہو ورنہ تمہارے اعمال ضبط ہوجائیں گے اور تم سمجھ نہیں پاؤگے۔

17۔دونوں حضرات(عمر اور ابوبکر)کے ساتھ ایک خادم تھا انہوں نے اس کو کسی کام سے جگایا تو وہ نہیں اٹھا دونوں حضرات اس خادم کی غیبت کرنے لگے جب وہ جگا تو اس کو نبی کے پاس بھیجا کہ جاکے کچھ سالن نبی سے مانگ لائے نبی نے کہا تم نےابھی گوشت کھایا ہے انہوں نے پوچھا ہم نے کس چیز کا گوشت کھایا ہے فرمایا اپنے بھائی کا گوشت اور بخدا میں تمہارے دانتوں میں اس گوشت کے ریشے پھنسے ہوئے دیکھ رہا ہوں یہ لوگ کہنے لگے،خدا کے رسول ہماری بخشش کے لئے دعا کریں آپ نے فرمایا اسی سے کہو کہ تمہارے لئے استغفار کرے۔(2)

18۔مقدام بن معدیکرب کہتے ہیں کہ عقیل بن ابی طالب اور ابوبکر میں خوب گالم گلوج ہوئی۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ حجرات:آیت:2،صحیح بخاری،ج:4ص:1833،کتاب تفسیر،باب(لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی)،ص:1834،کتاب تفسیر،باب(انّ الذین ینادوک منورائ الحجرات...)اور اسی طرح ص:1587،کتاب المغازی،باب وفد بنی تمیم،ج:6ص:2662،کتاب الاعتصام بالکتاب و النسۃ،باب یکرہ من التعمیق و التنازع فی العلم و الغلو فی الدین و البدع،تفسیر قرطبی،ج:16ص:303۔304،مسند احمد،ج:4ص:6،تفسیر ابن کثیر،ج:4ص:206۔207،آیت(یا ایھا الذین آمنوا لاترفعوا اصواتکم)کی تفسیر میں۔

(2)تفسیر ابن کثیرج:4ص:217،سورہ حجرات،آیت،(ایجب احدکم ان یاکم لحم اخی ه ) کی تفسیر میں،درمنشورج:6ص:96،آیت(ولا یغتب لعلکم بعضاً )کی تفسیر میں،الاحادیث المختار،ج:5ص:71۔72

(3)تاریخ الخلفاءص:54،ریاض النضرہ ج:2ص:18،الفصل التاسع الخصائص الکبری ج:2ص:86،ابب لم یعنونہ تاریخ دمشق ج:30ص:110،ابوبکر کے حالات میں

۹۳

19۔سلیمان بن صرد کہتے ہیں کہ دو صحابی نبی کے سامنے ایک دوسرے کو گالیاں بکنے لگے جس میں ایک اتنا غصہ ہوا کہ اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور جبڑے پھول گئے ہادی عالم نے فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ بتا رہا ہوں جو تمہارے غصہ کو ختم کردےگا۔

جب غصہ آئے تو کہہ لیا کرو،(اعوذ بالله من الشیطان الرجیم)

ایک شخص نے کہا کیا آپ ہم میں جنون کی کیفیت پاتے ہیں(1)

20۔صفوان بن عبداللہ نے عمیہ سلمہ بن امیہ اور یعلی ابن امیہ سے روایت کی ہے دونوں کہتے ہیں کہ ہم پیغمبرؐ کے ساتھ غزوہ تبوک میں جارہے تھے کہ ایک ساتھی نے ایک مسلمان آدمی سے لڑنا شروع کردیا اس نے اس کے ہاتھ پر منہ مارا اور اچھا خاصا گوشت اس کے ہاتھ سے کاٹ لیا۔

اب مجروح پیغمبرؐ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا حضورؐ مجھے میرے ساتھی نے کاٹ لیا ہے ہر جانہ دلوائیاے حضور نے فرمایا کہ تم اپنے بھائی سے الجھے اور اس نے نروانٹ کی طرح تمہیں بھنوڑ ڈالا،پھر میرے پاس ہر جانہ لینے پہونچ گئے اس عمل کا کوئی ہرجانہ نہیں پس نبی نے اس عمل کو باطل قرار دیا۔(2)

21۔پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں کو جیش اسامہ کی روانگی کا خیال آیا ابوبکر نے عمر اور کچھ انصار کو مشورہ کرنے کے لئے بلایا کہ کیا لشکر کا سردار اب بدل جائے؟عمر نے کہا بدل جائے پس ابوبکر نے اچھل کے ان کی داڑھی پکڑ لی اور بولے اے خطاب کے بیٹے!تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے اور خدا کرے تو مرجائے پیغمبرؐ نے اسامہ کو لشکر کا سردار بنایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح مسلم ج:4ص:2015،کتاب البر و الصلہ و الاداب،باب فضل بن یملک نفسہ عند الغضب...سنن ابی داؤودج:4ص:249،کتاب الاداب،معجم الکبیرج:7ص:99،صحیح بخاری،ج:5ص:2248،سنن ابی داؤود،ج:4ص:249

(2)سنن کبری نسائی ج:4ص:255،کتاب القسامۃ اور اسی طرح ص:224پر بھی باب الرجل یدفع عن نفسہ،سنن دارقطنی ج:4ص:222،صحیح مسلم ج:2ص:1301،کتاب القسامۃ،باب الصائل علی نفس الانسان....،معجم الکبیر،ج:7ص:55

۹۴

ہے اور تو کہا ہے اس کو ہٹا دیا جائے عمر اسی حال میں محفل سے باہر نکلے اور لوگوں سے کہنے لگے۔لوگو!تمہاری ماں تمہارے ماتم میں بیٹھے دیکھو تمہاری وجہ سے مجھے کیا جھیلنا پڑرہا ہے۔(1)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ صحابہ شروع ہی سے آپس میں لڑتے جھگڑتے،گالی گلوج کرتے رہے اور ایک دوسرے کو نوچ کھسوٹ،بلکہ کاٹنے بھبھوڑنے سے باز نہیں آئے۔

22۔عبدالرحمٰن بن ابی بکر سے سنئے وہ کہتے ہیں کہ ابوبکر کچھ مہمان لے کے اپنے گھر آئے اور انہیں چھوڑ کے نبی کے پاس چلے گئے۔

کافی رات کو واپس آئے تو میری ماں نے کہا آپ اپنے مہمانوں کو چھوڑ کے چلے گئے تھے انہوں نے پوچھا تم نے انہیں کیا کھلایا ماں نے کہا میں نے کھانا پیش کیا تھا لیکن انہوں نے(میزبان کی غیر موجودگی میں)کھانے سے انکار کیا یہ سن کے ابوبکر کو غصہ آیا وہ مہمانوں کو گالیاں دینے لگے اور قسم کھائی کہ ان کو کھانا نہیں دیں گے۔(2)

23۔ابوبکر اپنے دور خلافت میں اکثر فرماتے کہ جب تم دیکھو کہ میں سیدھا چل رہا ہوں تو میرے پیچھے چلو اور جب دیکھو کہ میں ٹیڑھا ہوگیا ہوں تو سیدھا کردینا یہ سمجھ لو کہ میرا ایک شیطان ہے جو مجھ کو بہکاتا رہتا ہے جب تم مجھے غصہ میں دیکھو تو دور رہو اس لئے کہ اس وقت میں تمہارے سمجھانے بجھانے پر کوئی دھیاں نہیں دوں گا۔(3)

24۔ابوبکر نے ایک طائر کو درخت پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور اپنے دل کا درد بیان کرنے لگے بولے اے طائر تو کتنا اچھا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:2ص:232،اسی طرح تاریخ دمشق ج:2ص:50،باب ذکر بعثت النبیؐ اسامۃ قبل الموت...

(2)صحیح بخاری ج:5ص:2274،کتاب الادب باب قول الضعیف لصاحبہ

(3)الطبقات الکبری ج:3ص:213،اسی طرح الجامع(ازدی)،ج:11ص:332،باب الاطاعۃ فی معصیۃ اللہ،تاریخ طبری،ج:2ص:245،ریاض النضرۃ،ج:2ص:231،مجمع الزوائد،ج:5ص:183،کتاب الخلافۃ،باب الخلافۃ،تاریخ دمشق،ج:30ص:303،صفوۃ الصفوۃ،ج:1ص:261،ابوبکر کے حالات میں

۹۵

کاش میں بھی تیرے ہی جیسا ہوتا تو درخت کے پھلوں کو کھاتا ہے اور اڑجاتا ہے لیکن خوف حساب سے آزاد ہے خدا کی قسم میری تمنا ہے کہ میں راستے کے کنارے کا درخت ہوتا ور کوئی اونٹ راستے چلتے ہوئے مجھے کھا جاتا اور گھونٹ جاتا اور ہضم کرنے کے بعد مجھے اپنا فضلہ بنا کے باہر نکال دیتا کاش کہ میں انسان نہ ہوتا۔(1)

ابوبکر کی یہ تمنا اس بات کی شاہد کی وہ بھی عام آدمی کی طرح کود کو خطرے میں محسوس کررہے تھے اور انہیں یقین تھا کہ صحابیت آخرت میں کام نہیں آئےگی اور یہ کہ صحابیت کامیابی کا ثبوت ہے کہ سلامتی کا سبب۔

25۔صحیح مسلم میں عائشہ سے حدیث ہے کہ جس میں نبی کی ازواج نے عدل کا مطالبہ کیا ہے وہ بھی نبی سے عائشہ کہتی ہیں کہ ازواج نبی نے جناب زینب حجش کو نبی کے پاس بھیجا یہ زینب بنت حجش وہ ہیں جو نبی کی عورتوں میں آپ کے نزدیک میرے مقابلے کی تھیں میں نے زینب سے زیادہ دیندار سچّی صلہ رحم کرنے والی صدقہ دینے والی اپنے نفس کو تقرب خدا کے لئے پیش کرنے والی عورت نہیں دیکھا بہرحال انہوں نے سرکار کی خدمت پیغمبر میں عرض کی سرکار آپ کی ازواج نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ میں آپ سے عائشہ کے بارے میں عدل کا مطالبہ کروں اس وقت عائشہ زینب کے پیچھے چھپی تھیں اور انہوں نے ان کو چھپا رکھا تھا عائشہ کہتی ہیں میں نبی کی نگرانی کررہی تھی کہ حضورؐ اس سلسلے میں بات کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں بہرحال زینب بنت حجش نے نبی کا دامن اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میں نے یہ جان لیا کہ نبی میری مدد کرنے کو ناگوار نہیں سمجھتے جب میں نے نبی کی مرضی لی تو زینب کے پیچھے تھوڑا ساجھکی رسولؐ نے مسکرا کے فرمایا میں نے پہنچان لیا تمہارے پیچھے ابوبکر کی بیٹی ہیں،راویوں کے نام سلسلے سے یوں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مصنف بن ابی شیبہ ج:7ص:91،کتاب الزھد،شعب الایمان ج:1ص:485،باب خوف من اللہ،تاریخ دمشق ج:30ص:330،ابوبکر کے حالات میں،الزھد لھناد بن السری،ج:1ص:258،باب من قال لیتنی لم اخلق

۹۶

محمد بن عبداللہ بن قہر زاد سے عبداللہ عثمان نے ان کے بعد سعد بن مبارک نے انھوں نے یونس سے انھوں نے یونس انہوں نے زہری سے بھی اسی طرح کی روایت کی ہے صرف ایک جملہ کا فرق ہے (میں ان سے چمٹی نہیں کہ کہیں وہ گرنہ جائیں۔(1)

26۔معاذ جبل نے ایک بار نماز جماعت میں نماز کو اچھا خاصہ طول دیا نتیجہ میں ایک نوجوان نےدرمیان نماز فردای کی نیت کرلی اور نماز مکمل کی جب معاذ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ نوجوان آگے بڑھا اور معاذ کو گالیاں دینے لگا اور برا بھلا کہنے لگا۔معاذ نے اس دن خدمت نبی میں شکایت کی اس نوجوان نے نبی سے عرض کیا کہ سرکار میں کار و باری آدمی ہوں اور مجھے بہت س کام کرنے تھے معاذ نماز کو لمبی کئے جارہے تھے میں کیا کرتا؟سرکار دو عالم نے معاذ کی طول صلوٰۃ پر ملامت فرمائی۔(2)

27۔ابوہریرہ نے ایک مسلمان کو ماں کی گالی دی اس کی ماں ایام جاہلیت ہی میں مرگئی تھی،بہرحال اس آدمی نے ابوہریرہ کی شکایت خدمت پیغمبر میں کی آپ نے ابوہرہ سے فرمایا:ابھی تمہارے اندر کفر کا شعبہ باقی ہے ابوہریرہ نے قسم کھائی کہ آئندہ کسی مسلمان کو گالی نہیں دیں گے۔(3)

28۔واقعہ بدر کا مطالعہ کریں عبدالرحمٰن عوف نے بلال کو غلام سمجھ کے گالی دی تھی۔

29۔ابن مسعود کا کچھ قرض سعد کے ذمہ تھا،ابن مسعود نے سعد سے کہا بھئی میرا مال ادا کرو،سعد نے کہا کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سے کچھ برائی پہنچ جائے تم ابن مسعود اور ہذیل کے غلام کے علاوہ بھی کچھ ہو ابن مسعود نے ترکی جواب دیا تم بھی تو حمنہ کے بیٹے ہو یہ بات ہاشم بن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح مسلم ج:4ص:1891۔1892،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضل عائشہ اور اسی طرح سنن کبریٰ بیہقی ج:7ص:299،کتاب القسم و النشوز قول خداوند عالم(لن تسطیعوا ان تعدلوا)کے باب میں،سنن کبری للنسائی ج:5ص:281 کتاب عشرہ النساءحب النساء

(2)المصنف لعبد الرزاق ج:2ص:365،کتاب الصلاۃ،باب تخفیف الامام

(3)مجمع الزوائدج:8ص:86،کتاب الادب باب فی من یعیر بالنسب(وغیرہ)

۹۷

عتبہ کے سامنے ہورہی تھی انہوں نے سمجھایا کہ بھائی آپ لوگ اصحاب پیغمبر ہیں لوگ آپ کے اندر سیرت پیغمبرؐ کا عکس دیکھنا چاہتے ہیں۔(1)

30۔جب ہادی برحق فتح مکہ کے لئے چلے تو چاہا کہ اس ارادے کو قریش اور اہل مکہ سے پوشیدہ رکھیں لیکن حاطب بن ابی بلتعہ نے ایک خط کے ذریعہ جاسوسی کردی اس نے کسی عورت کے ہاتھ سے اہل مکہ کو پیغمبر کے ارادے سے باخبر کردیا سرکار کو یہ بات معلوم ہوگئی اور آپ نے ایک آدمی کو بھیجا جو اس عورت سے خط واپس لے آیا اس سلسلے میں عمر کا یہ قول پہلے گذرچکا ہے کہ اے رسول مجھے اجازت دیں کہ(حاطب کی گردن ارادوں یہ کافر ہوگیا ہے)(2)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاء تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ(3)

ترجمہ:اور اپنے دشمن سے دوستی نہ کرو تم لوگ ان سے محبت سے پیش آرہے ہو۔

31۔ابوبرزہ اسلمی کہتے تھے کہ مروان اور ابن زبیر دنیا کے لئے جنگ کرتے ہیں۔(4) حالانکہ یہ دونوں یا ان میں سے کم سے کم ایک(ابن زبیر)تو بہر حال اصطلاحی صحابی تھے۔

32۔عمر بن خطاب کو خبر دی گئی کہ سمرہ بن جنوب نے شراب خریدی ہے عمر نے کہا خدا سمرہ کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع الزوائدج:9ص:154،کتاب المناقب،باب مناقب سعد بن ابی وقاص،معجم الکبیرج:1ص:139،تاریخ طبری ج:2ص:595،سیر اعلام النبلاء،ج:1ص:114،سعد بن ابی وقاص کے حالات میں،تاریخ دمشق،ج:20،ص:343۔344،سعد بن ابی وقاص کے حالات میں

(2)الاحادیث المختارۃ،ج:1ص:286،

(3)سورہ ممتحنہ آیت:1،صحیح بخارری،ج:4ص:1557،کتاب المغازی،ص:1885،کتاب التفسیر،باب لاتتخزوا عدوی و عدوکم اولیاءصحیح مسلم،ج:4ص:1941،کتاب فضائل الصحابہ باب من فضل اہل بدر،سنن کبری بیھقی،ج:9ص:146،کتاب السیر،جماع ابواب السیر باب یدل المشرکین علی عورۃ المسلمین،وغیرھا،

(4)صحیح بخاری،ج:6ص:2603،کتاب الفقن،باب اذا قال عند قوم شئی،المستدرک علی صحیحین،ج:4ص:517،کتاب الفتن و الملاحم۔

۹۸

قتل کرے کیا اس کو معلوم نہیں ہے کہ شراب حرام کردی گئی تھی لیکن وہ اس کو بیچتے اور خریدتے تھے(1)

33۔سمرہ نے معاویہ اور زیاد کی حکومت میں بہت سی ناشائستہ حرکتیں انجام دی یہاں تک کہ جب معاویہ نے ان کو معزول کردیا تو کہا کہ خدا کی قسم اگر خدا کی اطاعت اس شان سے کم ہوتی جس شان سے معاویہ کی اطاعت کی ہے تو وہ مجھے ہرگز عذاب نہ دیتا(2) آخر کار زمہریر کے مرض میں وہ بہت بری موت مرا۔(3)

34۔ایک صحابی حنین یا خبیر کے دن مرگیا پیغمبرؐ نے اس کی نماز جنازہ سے منع کردیا اس لئے کہ اس نے راہ خدا میں دھوکا دیا جب اس کے اسباب کا جائزہ لیا گیا تو یہودی جس میں جونک رہتی ہے ایک ہارملا جس کی قیمت دو درہموں سے زیادہ نہیں تھی۔(4)

35۔ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ہم پیغمبر کے ساتھ جنگ خبیر میں شریک تھے،آپ نے ایک آدمی کے بارے میں جو اسلام کے دعویدار تھا فرمایا یہ اہل نار میں سے ہے،جب جنگ شروع ہوئی تو اس شخص نے سخت جنگ کی اور خود بھی بہت سے زخم کھائے اور زمین پر گرگیا پیغمبرؐ کے پاس آئے اور کہا سرکار آپ تو فرمارہے تھے کہ وہ جہنمی ہے اس نے تو راہ خدا میں زبردست جنگ کی اور کثیر زخا کھائے آپ نے فرمایا لیکن وہ جہنمی ہے اب قریب تھا کہ لوگوں کے دل میں شک پیدا ہو کہ اس شخص کو زخمی کی وجہ سے درد ہونے لگا اور اس نے اپنے ترکش سے ایک تیر کھینچ کے خود کو ذبح کرلیا لوگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح مسلم ج:3ص:1207،کتاب المسافات،باب تحریم بیع الخمر و المیۃ و الخنزیر والصنام اور اسی طرح مسند احمد ج:1ص:25،مسند عمر بن خطاب،سنن کبریٰ نسائی ج:3ص:87،کتاب فرع و العتیرۃ،فی(نھی عن الانتفاع بما حرمہ اللہ تبارک و تعالی)ج:6ص:342،کتاب تفسیر،سورہ انعام فی قولہ تعالی،(و علی الذین ھادوا حمنا...)سنن کبریٰ بیہقی ج:6ص:12،کتاب البیوع جمع ابواب بیوع الکلاب،المصنف لعبد الرزاق،ج:6ص:75،کتاب اہل الکتاب،صحیح ابن حبان،ج:14ص:146،کتاب التاریخ،المسند للحمیدی،ج:1ص:9مسند ابی یعلی،ج:1ص:178،مسند عمر بن الخطاب۔

(2)تاریخ طبری،ج:3ص:240

(3)تاریخ طبری،ج:3ص:240

(4)مستدرک علی صحیحین ج:2ص:139،آخر کتاب الجھاد،مسند احمدج:4ص:114،بقیہ احادیث زید بن خالد جہنی عن النبی

۹۹

بھاگے ہوئے پھر خدمت پیغمبرؐ میں پہنچنے اور کہنے لگے یا رسول اللہؐ خدا نے آپ کی تصدیق کردی اس شخص نے خود کو اپنے ہاتھ سے مار ڈالا آپ نے فرمایا اے بلال اٹھو اور اعلان کردو کہ (جنت میں صرف مومن جائے گا رہا اس دین کی مدد کرنا تو کیا اللہ اس دین کی مدد بد کردار شخص کے ذریعہ کرے گا۔)(1)

36۔ابوفراس جو نو مسلم تھے ان سے روایت ہے کہ ایک دن پیغمبر نے فرمایا تم مجھ سے جو پوچھنا چاہو پوچھو ایک شخص کھڑا ہوا اور پوچھا یا رسول اللہ میرا باپ کون ہے فرمایا وہی ہے جس کا دعوی کرتے ہو اور جس کے نام سے تم پکارے جاتے ہو ایک آدمی نے پوچھا حضور میں جنت میں جاؤنگا؟آپ نے فرمایا ہاں ایک اور آدمی نے پوچھا حجور میں جنت میں جاؤں گا؟فرمایا جہنم میں جاؤگے اتنے میں عمر کھڑے ہوئے اور کہا بس ہم اس بات پر راضی ہیں کہ اللہ ہمارے پروردگار ہے۔(2)

37۔عمر کے دور خلافت میں قدامہ بنی مظعون نے شراب پی عمر نے ان کو تازیانے لگائے ابن مظعون عمر سے ناراض ہوگئے اور بات چبت کرنا چھوڑدی،کچھ دن بعد پھر خود ہی بولنے لگے اور ان کے لئے استغفار کیا۔(3)

ابوایوب کہتے ہیں کہ بدری صحابیوں میں سواء قدامہ بن مظعون کے کسی کی شراب خواری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:6ص:2436،کتاب القدر،باب العمل بالخواتیم،اور اسی طرح ج:4ص:1530،کتاب المغازی،باب غزوہ خیبر،سنن کبریٰ بیہقی،ج:8ص:197،کتاب المرتد،باب ما یحرم بہ الدم من الاسلام زندیقاً کان،مجمع الزوائد ج:7ص:213،کتاب القدر،باب الاعمال بالخواتیم،مسند احمد،ج:2ص:309،معجم الکبیر،ج:9ص:83،باب لم یعونہ

(2)معجم الکبیرج:5ص:60،فیما رواہ ربیعۃ بن کعب الاسلمی یکنی ابافرس،مجمع الزوائدج:1ص:161،کتاب العلم،باب قول العالم سلونی

(3)الاصابۃ ج:5ص:424۔425،قدمۃ بن مظعون بن حبیب کے حالات میں،سنن کبریٰ بیہقی،ج:8ص:315،کتاب الاشربۃ،والحد فیھا،باب من وجد منہ ریح شراب اولقی سکران،المصنف لعبد الرزاق،ج:9ص:421،

۱۰۰