پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور20%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316744 / ڈاؤنلوڈ: 7968
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔

جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں، حافظ ابن مردوویہ نے مناقب میں، حافظ ابونعیم نےحلیتہ الاولیاء میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۲ میں اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اہل تفسیر کی ایک جماعت سے ابن عباس اور مجاہد کی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ:

" الّذيجاءبالصدق‏رسولاللّهصلّىاللّهعليهوآلهوالّذيصدّقبه علی ابن ابی طالب"

یعنی جو شخص سچائی کے ساتھ آیا وہ محمد صلعم ہیں اور جس نے ان کی تصدیق کی وہ علی ابنابی طالب ہیں۔

(۳) آیت نمبر۱۸ سورہ نمبر۷۵( حدید) میں ہے۔

"الَّذِينَآمَنُوابِاللَّهِوَرُسُلِهِأُولئِكَهُمُ‏ الصِّدِّيقُونَ‏ وَالشُّهَداءُعِنْدَرَبِّهِمْ،لَهُمْأَجْرُهُمْوَنُورُهُمْ"

یعنی جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے اور حقیقت میں ہی سب سے سچے اور خدا کے نزدیک شہید ہیں جن کے واسطے ان کے؟؟؟؟؟؟؟؟

احمد ابن حنبل نے مسند میں اور حافظ ابونعیم اصفہانی نے مانزل من القرآن فی علی میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیہ شریفہ علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ آپ صدیقین میں سے ہیں۔

(۴) اور آیت نمبر۷۱ سورہ نمبر۴( نساء) میں ارشاد ہوتا ہے

"وَمَنْ‏ يُطِعِ‏ اللَّهَ‏وَالرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَأَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ- وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِوَالصَّالِحِينَ- وَحَسُنَأُولئِكَ رَفِيقاً"

یعنی جو لوگ اللہ و رسول(ص) کی اطاعت کریں پس وہ انبیاء و صدیقین، شہداء اور صالحین میں سے جن پر خدا نے پوری عنایت و مرحمت فرمائی ہے ان کے ہمراہ محشور ہوں گے، اور یہ لوگ( جنت میں) اچھے رفیق ہوں گے۔

اس آیہ مبارکہ میں بھی صدیقین ہے مراد علی علیہ السلام ہیں جیسا کہ ہمارے اور آپ کے طریقوں سے بکثرت روایتیں وارد ہیں کہ علی علیہ السلام اس امت کے صدیق اور سچےبلکہ صدیقین میں سب سے افضل ہیں۔

علی(ع) افضل صدیقین ہیں

چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں امام ثعلبی نے کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، ابن شیرویہ نے فردوس میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۳۵۱ میں،

۱۰۱

ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں اور ابن حجر مکی نے ان چالیس حدیثوں میں سے جو انہوں نے صواعق محرقہ کے اندر فضائل علی علیہ السلام میں نقل کی ہیں تیسویں حدیث میں بخاری سے اور انہوں نے ابن عباس سے باستثنائے جملہ آخر روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"الصِّدِّيقُونَ‏ ثَلَاثَةٌحِزْقِيلُمُؤْمِنُآلِفِرْعَوْنَوَحَبِيبٌالنَّجَّارُمُؤْمِنُآلِيسوَعَلِيُّبْنُأَبِيطَالِبٍوَهُوَأَفْضَلُهُمْ."

یعنی بہت بڑے سچے تین شخص ہیں حزقیل مومن آل فرعون، حبیب نجار صاحب یس اور علی ابن ابی طالب جو ان سب میں سے افضل ہیں۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ شروع باب۴۲ میں مسند امام احمد بن حنبل، ابونعیم اور مغازلی شافعی سے، اخطب خوارزمی نے مناقب میں، ابو لیلی اور ابو ایوب انصاری سے ، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ کی چالیس حدیثوں میں اکتیسویں حدیث میں، ابو نعیم و ابن عساکر سے اور انہوں نے ابو لیلی سے ، اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۲۴ میں ابو لیلی کی سند سے نقل کیا ہے اور آخر خبر میں کہتے ہیں کہ محدث شام نے اپنی تاریخ میں اور حافظ ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء میں علی علیہ السلام کے حالات بیان کرتے ہوئے رسول خدا(ص) سے روایت کی ہے کہ فرمایا:

"الصِّدِّيقُونَ‏ ثَلَاثَةٌحَبِيبٌ النَّجَّارُمُؤْمِنُ آلِيس الَّذِي ‏قالَ ياقَوْمِ اتَّبِعُواالْمُرْسَلِينَ‏ وَحِزْقِيلُ مُؤْمِنُ آلِ فِرْعَوْنَ الَّذِي قَالَ ‏أَتَقْتُلُونَرَجُلًاأَنْيَقُولَرَبِّيَاللَّهُ ‏ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِيطَالِبٍ [ع‏] الثَّالِثُ وَهُوَأَفْضَلُهُمْ."

یعنی سچے تین شخص ہیں، حبیب نجار مومن آل یاسین جنہوں نے کہا" اے قوم پیغمبروں کی پیروی کرو" حزقیل مومن آل فرعون جنہوںنے کہا۔ آیا تم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو خدا پرست ہے۔ اور علی ابن ابی طالب جو ان سب سے افضل ہیں۔

واقعی ہر عقلمند انسان حیران رہ جاتا ہے کہ آپ حضرات کے علم و انصاف پر عادت اور تعصب کیونکر غالب آگیا ہے باوجودیکہ خود آپ ہی آیات قرآنی کے مطابق متعدد روایتوں سے ثابت کرتے ہیں کہ علی علیہ السلام افضل الصدیقین تھے پھر بھی دوسروں کو صدیق کہتے ہیں در آںحالیکہ انکے صدیق ہونے پر ایک آیت بھی نقل نہیں کی گئی ہے۔

حضرات! خدا کے لیے اپنی عادت سے ہٹ کر ذرا انصاف سے کام لیجئے کہ خدائے تعالی نے جسبزرگوار کو قرآن مجید صدیق فرمایا ہو کہ وہ ہرگز جھوٹ نہیں بول سکتا، نیز قرآن میں حکم دیا ہو کہ اس کی پیروی کرو( جیسا کہ خود آپ کے علماء کا اقرار ہے)اس کی گواہی مسترد کردیں بلکہ اہانت بھی کریں؟ آیا عقل باور کرتی ہے کہ جس کو رسول خدا(ص) نے اس امت کا صدیق فرمایا ہو بلکہ صدیقین سے افضل بنایا ہو اور آیات قرآنی اس کی صداقت رپ شہادت دے رہی ہوں وہ ہوائے نفسانی کی بنا پر جھوٹ بولے گا یہاں تک کہ جھوٹی گواہی بھی دے گا؟

۱۰۲

علی(ع) حق اور قرآن کے ساتھ ہیں

آیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ علی(ع) حق کے ساتھ اور حق علی(ع) کے ساتھ گردش کرتا ہے؟ چنانچہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ جلد چہارم ص۳۲۱ میں، حافظ ابن مردویہ نے مناقب میں، دیلمی نے فردوس میں، حافظ میثمی نے مجمع الزوائد جلد ہفتم ص۲۳۶ میں، ابن قتیبہ نے الامامہ والسیاسہ جلد اول ص۶۸ میں، حاکم ابو عبداللہ نیشاپوری نے مستدرک جلد سوم ص۱۲۴ میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے اوسط میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر جلد اول ص۱۱۱ میں، ابن حجر مکی نے جامع الصغیر جلد دوم ص۷۴، ۷۵، ۱۴۰ میں، اور صواعق محرقہ باب۹ فصل دوم حدیث بیست ویکم درفضائل مولانا امیرالمومنین علیہ السلام میں بروایت ام سلمہ اوسط سے نقل کرتے ہوئے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۲۰ میں جمع الفوائد و اوسط صغیر طبرانی ، فرائد حموینی، مناقب خوارزمی اور ربیع الاول الابرار زمخشری سے بروایت ام سلمہ و ابن عباس نیز ینابیع المودت مطبوعہ اسلامبول باب ۶۵ ص۱۸۵ میں جامع الصغیر جلال الدین سیوطی سے، ان کے علاوہ تاریخ الخلفاء ص۱۱۶ میں، فیض القدیر جلد ۴ ص۳۵۸ میں ابن عباس سے مناقبالسبعین ص۲۳۷حدیث نمبر۴۴ صاحب فردوس سے، صواعق محرقہ باب ۵۹ فصل دوم ص۲۸۳ میں ام سلمہ سے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، بعض نے ام سلمہ سے بعض نے عائشہ سے اور بعض نے محمد بن ابوبکر سے اور انہوں نے رسول خدا(ص) سے روایت کیہے کہ فرمایا:

"عليّ‏ مع‏ القرآن‏ والقرآنمععليلايفترقانحتّىيرداعليالحوض"

یعنی علی(ع) قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں۔

چند حضرات نے اس عبارت کےساتھ نقل کیا ہے کہ:

"الحقّ‏ لن‏ يزال‏مععلىّوعلىّمعالحقّلنيختلفاولنيفترقا"

یعنی حق ہمیشہ کے لیے علی(ع) کے ساتھ اور علی(ع) حق کے ساتھ ہیں، ان دونوں میں ہرگز کبھی کوئی اختلاف نہ ہوگا اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔

ابن حجر صواعق محرقہ باب۹ اواخر فصل دوم ص۷۷ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے مرض الموت میں فرمایا:

"انی مخلف فيکم کتاب الله و عترتی اهل بيتی ثم اخذ بيد علی فرفعها فقال الحقمععليوعلي‏مع‏الحق‏لايفترقانحتىيرداعليّالحوض فاسئلهما ما خلفت فيهما."

یعنی میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑ رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت اور میرے اہل بیت، پھر علی(ع)

۱۰۳

کا ہاتھ پکڑ کے بلند کیا اور فرمایا یہ علی(ع) قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کبارے میرے پاس پہنچ جائیں، میں ان دونوں سے اپنی قائم مقامی کے بارے میں سوال کروں گا۔

نیز بالعموم نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:

"علىّ‏ مع‏ الحقّ‏ والحقّمععلىّيدورمعهحيثمادار"

یعنی علی(ع) حق کےساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے جدھر وہ گردش کرتے ہیں ادھر یہ بھی گردش کرتا ہے۔

سبط ابن جوزی تذکرۃ خواص الامہ ص۲۰ ضمن حدیث غدیر میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"وأدرالحقمعهحيثماداروكيف‏ مادار"

یعنی حق کو علی(ع) کےساتھ گردش دے جہاں اور جس طرح یہ گردش کریں۔

اس کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

"فيهدليلعلىأنهماجرىخلافبينعليعليهالسلاموبينأحدمنالصحابةإلاوالحقمععلي"

یعنی اس حدیث میں دلیل ہے اس بات پرکہ اگر علی(ع) اور کسی صحابی کے درمیان کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو حق یقینا علی(ع) کےساتھ ہوگا۔

علی(ع) کی اطاعت خدا و رسول(ص) کی اطاعت ہے

جن کتابوں کا ذکر کیا گیا ان میں آپ کی دوسری معتبر کتابوں میں منقول ہے کہ خاتم الانبیاء اکثر مقامات اور مختلف عبارتوں کے ساتھ فرماتے رہے۔

"من اطاع عليا فقد اطاعنی ومن اطاعنی فقد اطاع الله و من انکر عليا فقد انکرنی و من انکرنی فقد انکر الله"

یعنی جو شخص علی(ع) کی اطاعت کرے اس نے یقینا میری اطاعت کی اور جو شخص میری اطاعت کرے اس نے در حقیقت خدا کی اطاعت کی، او جو شخص علی(ع) سے انکار کرے اس نے در اصل مجھ سے انکار کیا اور جو شخص مجھ سے انکار کرے قطعی طور پر اس نے خدا سے انکار کیا۔

ابوالفتح محمد بن عبدالکریم شہرستانی ملل و نحل میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم}ص) نے فرمایا:

"لقد کان علی علی الحق فی جميع احواله يدور الحق معه حيث دار"

۱۰۴

یعنی حق یہ ہے کہ علی(ع) ہر حال میں حق پر ہیں اور جس طرف یہ گردش کرتے ہیں حق بھی ان کے ساتھ گردش کرتا ہے۔

آیا باوجود اتنے اخبار صریحہ کے جو خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں علی علیہ السلام کی تردید، آپ سے انکار کے اوپر اعتراض کرنا خدا و رسول(ص) کی شان میں تردید و انکار اور اعتراض کرنا نہیں تھا؟ اور کیا یہ حق و حقیقت سے روگردانی نہیں تھی؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ابوالموید موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں اور ابن الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے صاف صاف فرمایا ہے:

"من اکرم عليا فقد اکرمنی و من اکرمنی فقد اکرم الله و من اهان عليا فقد اهاننی و من اهاننی فقد اهان الله؟

یعنی جس نے علی(ع) کی عزت کی اس نے میری عزت کی اور جس نے میری عزت کی اس نے خدا کی عزت کی، اور جس شخص نے علی(ع) کی توہین کی اس نے میری توہین کی اور جس نےمیری توہین کی اس نے خدا کی توہین کی۔

عدل و اںصاف سے فیصلہ کیجئے

صاحبان اںصاف! مذکورہ واقعات کو ان اخبار احادیث سے جو آپ کی معتبر کتابوں میں بھی منقول ہیں مطابق کر کے ذرا عادلانہ فیصلہ کیجئے اور بے خطا شیعوں سے اس قدر بدظنی اختیار نہ کیجئے!

اور دوسری بات آپ نے یہ فرمائی ہے کہ خلیفہ شریعت کے ظاہری دستور پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے اس لیے کہ آیت شہادت اپنی عمومیت پر باقی تھی اور شرعی معیار پر گواہ پیش نہ ہونے کی وجہ سے صرف دعوی کی بنیاد پر مسلمانوں کا مال فاطمہ سلام اللہ علیہا کو نہیں دے سکتے تھے ( بلکہ اتنے محتاط تھے کہ خلافِ شرع آپ نے متصرف اور قابض سے گواہ مانگے)

اولا میں پہلے ہی عرض کرچکا کہ یہ مسلمانوں کا مال نہیں بلکہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نحلہ اور زیر تصرف ملکیت تھی۔

دوسرے اگر خلیفہ واقعی قانون شرع کا نفاذ کرنے والے تھے تو ان کا فرض تھا کہ سرمواس کے خلاف نہ کریں۔

پس آخر دو رنگی سے کس لیے کام لیتے تھے کہ دوسرے اشخاص کو تو بغیر اکسی گواہ کے صرف زبانی دعوے پر مسلمانوں کا مال دے دیتے تھے لیکن خاص طور سے امانت رسول(ص) جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کے بارے میں اس قدر شدید اور سخت گیری کے ساتھ حکم دینا ضروری سمجھتے تھے؟

چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۲۵ میں درج کیا ہے کہ میں نے علی ابن ابی الفارقی مدرس مدرسہ عربیبغداد سے سوال کیا کہ" اکانت فاطمہ صادقہ قال نعم" ( آیا فاطمہ صادقہ اور راست گو تھیں ( اپنے دعوی میں)انہوں نے کہا میں نے کہا کہ جب وہ صادقہ اور سچی تھیں تو خلیفہ نے ان کو فدک کیوں واگزار نہیں کیا؟ وہ مسکرائے( حالانکہ کوئی شوخ طبیعت آدمی نہیں تھے اور ایک

۱۰۵

لطیف و دلچسپ بات کہی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر اس روز فاطمہ(ع) کے دعوے پر فدک واگزار کردیتے تو وہ دوسرے روز آکر اپنے شوہر کے لیے خلافت کا دعوی کرتیں اور اس وقت خلیفہ مجبور ہوتے کہ یہ حق بھی واپس کریں کیونکہ اس سے قبل ان کی صداقت تسلیم کرچکے ہوتے۔ انتہی کلامہ

معلوم ہوا کہ آپ کے بڑے بڑے علماء کے نزدیک اصلیت واضح و آشکار تھی اور انہوں نے از روئے اںصاف و حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے کہ روز اول ہی سے حق جناب فاطمہ مظلومہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ تھا لیکن در اصل اپنا منصب بچانے کے لیے سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ جان بوجھ کر جناب معصومہ کو ان کے یقینی حق سے محروم کردیں۔

حافظ : کس شخص کو خلیفہ نے بغیر گواہ کے مسلمانوں کا مال دے دیا؟

جابر(رض) کا واقعہ اور ان کو مال عطا کرنا باعث عبرت ہے

خیر طلب : جس وقت جابر نے دعوی کیا کہ پیغمبر(ص) نے نجرین کے مال سے مجھ کو عطا کرنے کا وعدہ کیا تھا تو بغیر کسی تردید اور گواہ طلب کرنے کے ان کو مسلمانوں کے مال میں سے یعنی بیت المال سے پندرہ سو دینار دے دیئے۔

حافظ : اول تو میں نے یہ روایت دیکھی ہی نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ کی کتابوں میں ہو۔ دوسرے یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ گواہ نہیں مانگے تھے؟

خیر طلب: بہت تعجب ہے کہ آپ نے نہیں دیکھا کیونکہ آپ کے علماء ن اس بات کے ثبوت میں کہ عادل صحابی کو خبر واحد قابل قبول ہے جو دلائل قائم کئے ہیں ان میں سے جابر ابن عبداللہ انصاری کی یہ روایت بھی ہے۔

چنانچہ شیخ الاسلام حافظ ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی فتح الباری فی شرح صحیح البخاری"باب يکفل عن ميت دينا " میں کہتے ہیں:

"ان هذا الخير فيه دلالة علی قبول خير العدل من الصحابة و لو حر ذالک نفعا نفسه لان ابابکر لم يلتمس من جابر شاهد اعلی صحة دعواه"

یعنی یہ خبر عادل صحابی کی روایت قابل قبول ہونے پر دلالت کرتی ہے چاہے اسی کی ذات کو نفع پہنچاتی ہو، اس لیے کہ ابوبکر نے جابر سے ان کے دعوے کی صحت پر گواہ نہیں مانگے۔

اسی روایت کو بخاری نے اپنی صحیح میں مزید تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ باب من یکفل عن میت دینا اور کتاب الخمس فی باب ما قطع النبی من البحرین میں لکھا ہے کہ جس وقت بحرین کا مال مدینہ لایا گیا تو ابوبکر کے منادی نے اعلان کیا کہ جس شخص سے رسول اللہ(ص) نے وعدہ کیا ہو یا آں حضرت(ص) پر کسی کا مطالبہ ہو تو وہ آکر لے جائے۔ جابر آئے اور کہا کہ رسول اکرم(ص) نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب بحرین فتح ہو کر مسلمانوں کے تصرف میں آجائے گا تو وہاں کے مال سے تمہیں دوں گا۔ پس فورا بغیر کسی شاہد کے محض ادعا پر ان کو پندرہ سو دینار دے دیئے۔

۱۰۶

نیز جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء کی فصل خلافت ابوبکر اور اس کے واقعات میں جابر کے اسی قضیے کو نقل کیا ہے۔ صاحبان انصاف !خدا کے لیے بتائیے کیا یہ دو رنگی کا برتائو نہیں تھا؟

اگر کوئی خاص جذبہ کار فرما نہیں تھا تو ابوبکر کے لیے جس طرح یہ جائز ہوگیا تھا کہ آیہ شہادت کے خلاف عمل کر کے بغیر کسی گواہ کے محض ادعا پر جابر کو مسلمانوں کے مال میں سے عطا کردیں اسی طرح ( بقول ان کے ) اگر فرض کر لیا جائے کہ فدک مسلمانوں ہی کا مال تھا( حالانکہ یہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مقبوضہ ملکیت تھی) تب بھی لازم تھاکہ رسالت کی رعایت کرتے ہوئے ودیعہ رسول خدا(ص) جناب فاطمہ صدیقہ(ع) کا دل نہ توڑیں اور ان کا دعوی تسلیم کر کے فدک واپس دے دیں۔

علاوہ اس کے بخاری اپنی صحیح میں اور آپ کے دوسرے علماء وفقہاء عادل صحابی کیخبر واحد کو قبول کرتے ہیں چاہے اس سے ذاتی فائدہ ہی مقصود رہا ہو لیکن علی علیہ السلام کے ادعا اور آپ کے بیان کو اس عذر کے ساتھ نا قابل قبول جانتے ہیں کہ حر النفع الی نفسہ ( یعنی وہ اپنا ذاتی نفع چاہتے تھے ۱۲ مترجم) تو کیا علی علیہ السلام اصحاب کی ایک کامل فرد نہیں تھے؟ اگر آپ اںصاف کے ساتھ غور کیجئے تو تصدیق کیجئے گا کہ یہ حق اور حقیقت کا نفاذ نہیں بلکہ محض دھاندلی تھی۔

حافظ : میرا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جابر سے گواہ اس لیے نہیں مانگے کہ یہ رسول اللہ(ص) کے مقرب اور تربیت یافتہ اصحاب میں سے تھے اور قطعا آں حضرت(ص) سے سن چکے تھے کہ:

"من کذب علی متعمدا فليتبئو مقعده من النار"

جو شخص عمدا مجھ پر جھوٹ باندھے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

لہذا اتنی شدید وعید کے بعد ظاہر ہے کہ ایک مقرب وتربیت یافتہ مومن صحابی ہرگز ایسا غلط اقدام نہیں کرے گا اور اس پست وحقیر دینائے فانی کے لیے رسول اللہ(ص) ی طرفجھوٹا قول منسوب کر کے اپنی عاقبت برباد نہیں کرےگا۔

خیر طلب : آیا جابر رسول اللہ(ص) سے زیادہ قریب تھے یا علی وفاطمہ علیہا السلام، جن کی آں حضرت(ص) نے خاص طورپر تربیت فرمائی تھی۔

حافظ : ظاہر ہے کہ علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما ہر شخص سے زیادہ رسول اللہ(ص) سے قریب تھے کیونکہ بچپن ہی سے آں حضرت (ص) کے زیر تربیت رہے۔

خیر طلب : پس آپ کو ماننا پڑے گا کہ علی و فاطمہ علیہما السلام سب سے بڑھ کے اس کے پابند تھے کہ اس وعید کے بعد قول رسول(ص) کی بنیاد پر کوئی جھوٹا دعوی نہ کریں، اور ان لوگوں پر فرض تھا کہ جناب فاطمہ صدیقہ(ع) کا دعوی تسلیم کریں اس لیے کہ قطعا اور یقینا ان دونوں بزرگواروں کی منزل جابر سے بالاتر تھی( جیسا کہ خود آپ ہی کو بھی اعتراف ہے) بلکہ سارےاصحاب سے بلند۔ کیونکہ آیہ تطہیر کے مصداق اور معصوم تھے۔ اور ان پانچ افراد یعنی محمد(ص)، علی(ع)، فاطمہ(ع)، حسن(ع) اور حسین علیہم الصلوۃ والسلام کے لیے جو آیت تطہیر میں داخل ہے، یہ آیت عصمت و پاکیزگی کی صراحت کر رہی ہے۔

۱۰۷

اس کے علاوہ آپ کے اکابر علماء نے بھی ان حضرات کی صداقت درست گوئی کی تصدیق کی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع) کے متعلق تومیں پہلے ہی عرض کرچکا کہ رسول اکرم(ص) نے آپ کو اس امت کا صدیق اور راست گو فرمایا ہے اور خدا نے بھی قرآن مجید میں آپ کو صادق بتایا ہے۔ لیکن صدیقہ کبری جناب فاطمہ زہر صلوات اللہ علیہا کے بارے میں بھی ایسی روایتیں کثرت سے ہیں۔ من جملہ ان کے حافظ ابونعیم اصفہانی حلیتہ الالیاء، جلد دوم ص۴۲ میں عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

"ما رائيت احدا قط اصدق من فاطمة غير ابيها"

یعنی میں نے ہرگز کسی کو فاطمہ(ع) سے زیادہ سچا نہیں دیکھا سوا ان کے باپ کے۔

آیہتطہیر کی شانِ نزول میں اشکال

حافظ : ان پانچ بزرگوارون کی شان میں آیہ تطہیر نازل ہونے کے بارے میں آپ کا دعوی مسلم نہیں ہے۔ چونکہ ان جلسوں میں ہم لوگوں پر واضح ہوچکا ہے کہ آپ ہماری کتابوں سے پوری واقفیت رکھتے ہیں لہذا تصدیق فرمائیے کہ اس موضوع میں آپ کو دھوکا ہوا۔ اس لیے کہ قاضی بیضاوی اور زمخشری جیسے مفسرین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیہ شریفہ ازواج رسول(ص) میں نازل ہوئی ہے اور اگر کوئی قول ان پانچوں حضرات کے حق میں نازل ہونے کے لیے ہو بھی تو وہقطعا ضعیف ہوگا سبب یہ ہے کہ آیت خود ہی اس مفہوم کے خلاف دلالت کررہی ہے کیونکہ آیہ تطہیر کا سیاق و سباق ازواج سے مربوط ہے اور درمیان حصے کو الگ کر کے دوسرون سے ملحق نہیں کیا جاسکتا۔

جواب اشکال اور اس کا ثبوت کہ آیت ازواج کے حق میں نہیں ہے

خیر طلب: جناب عالی کا یہ ادعا کئی پہلوئوں سے باطل ہے۔ اول یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ سیاق و سباق آیت ازواج سے مربوط ہے لہذا علی(ع) و فاطمہ علیہما السلام شمول آیہ شریفہ سے خارج ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرف عام اکثر ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ اثنائے کلام میں روئے سخن کسی دوسرے کی طرف کر کے خطاب کرتے ہیں اس کے بعد پھر پہلی گفتگو پر آجاتے ہیں عرب کے فصحاء و بلغاء اور ادیبوں کے اشعار میں تو اس کی کافی مثالیں ملتی ہی ہیں۔ خود قرآن کریم میں بھی ایسی نظیر یں بہت ہیں۔ خصوصا اسی سورہ احزاب میں غور فرمائیے کہ ازواج سے خطاب کرتےہوئے روئے سخن مومنین کی طرف موڑ دیا گیا اس کے بعد پھر ان کو مخاطب کیا گیا ہے ، لیکن وقت کے اندر اتنی گنجائش نہیں کہ مزید وضاحت کے لیے مفصل شواہد پیش کئے جائیں۔

دوسرے اگر یہ آیت ازواج رسول کے بارے میں ہوتی تو ان کے لیے ضمیر تانیت استعمال ہوتی۔ اور ارشاد ہوتا ہے " لیذہب

۱۰۸

عنکن الرجس و یطہرکن تطہیرا" لیکن چونکہ ضمیر مذکور ہے لہذا معلوم ہوا کہ ازواج کے لیے نہیں بلکہ عترت و اہل بیت پیغمبر(ص) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

نواب : جب بقول آپ کے فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی اس جماعت میں داخل ہیں تو ان کا لحاظ کیوں نہیں کیا گیا اور تانیث کے ساتھ ان کا ذکر کیوں نہیں ہوا؟

خیر طلب : ( علماء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آپ حضرات جانتے ہیں اس آیہ شریفہ میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کے باوجود صیغہ تذکیر باعتبار تغلب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس جماعت میں مذکور ومونث دونوں صنفوں کے افراد شامل ہوں وہاں مذکر کو مونث پر غالب قرار دیتے ہیں، اور اس آیت میں صیغہ تذکیر خود دلیل قاطعی ہے کہ یہ قول ضعیف نہیں ہے بلکہ مکمل قوت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ غلبہ تعداد کے لحاظ سے بھی ضمیر مذکر ہونا چاہئیےکیونکہ پنچ تن میں ایک عورت اور چار مرد ہیں۔

اگر یہ آیت ازواج رسول(ص) کے حق میں نازل ہوتی تو جمع مونث میں مذکر کا لفظ بالکل ہی غلط ہوتال۔ علاوہ اس کے خود آپ کی معتبر کتابوں میں روایات صحیحہ کا یہی فیصلہ ہے کہ یہ آیہ مبارکہ آں حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت کے بارے میں ازواج کے واسطے نہیں۔

چنانچہ ابن حجر مکی اپنے انتہائی تعصب کے باوجود صواعق محرقہ میں لکھتے ہیں کہ زیادہ تر مفسرین کا عقیدہ یہی ہے کہ یہ آیت علی(ع) وفاطمہ(ع) اور حسن و حسین ( علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہےلتذکر منمير عنکم ويطهرکم اس لحاظ سے کہعنکم اوريطهرکم میں جمع مذکر کی ضمیریں ہیں۔

ازواج رسول اہل بیت(ع) میں داخل نہیں

ان روشن دلیلوں سے قطع نظر ازواج رسول(ص) تو اہل بیت میں داخل بھی نہیں ہیں۔

چنانچہ صحیح مسلم اور جامع الاصول میں روایت ہے کہ حصین بن سمرہ نے زید ابن ارقم سے پوچھا کہ آیا رسول اللہ(ص) کی بیویاں اہل بیت میں سے ہیں؟ زید نے کہا کہ خدا کی قسم نہیں، اس لیے کہ عورت ایک مدت تک اپنے شوہر کے گھر رہتی ہے لیکن جب وہ طلاق دے دیتا ہے تو یہ اپنے باپ کے گھر جا کر اپنے میکے والوں سے ملحق ہوجاتی ہے اور شوہر سے بالکل الگ ہوجاتی ہے۔

اہلبیت (ع) تو در اصل آں حضرت(ص) کے وہگھر والے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور چاہے جہاں چلے جائیں اہل بیت(ع) سے جدا نہیں ہوتے ۔

تیسرے عترت و اہل بیت طہارت کی روایتوں پر مذہب شیعہ امامیہ کا جو اجماع ہے اس سے ہٹ کے خود آپ کے طریقوں سے بکثرت روایتیں اس نظریے کے خلاف وارد ہیں۔

۱۰۹

اخبار عامہ اس بارے میں کہ آیت تطہیر پنجتن کی شان میں آئی ہے

چنانچہ امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم ص۷۸۳ میں، جلال الدین سیوطی در المنثور جلد پنجم ص۱۹۹ اور خصائص الکبری جلد دوم ص۲۶۴ میں نیشاپوری اپنی تفسیر جلد سوم میں، امام عبدالرزاق الرسعنی تفسیر رموز الکنوز میں، ابن حجر عسقلانی اصابہ جلد چہارم ص۲۰۷ میں، ابن عساکر اپنی تاریخ جلد چہارم ص۲۰۴ و ص۲۰۶ میں، امام احمد بن حنبل مسند جلد اول ص۳۲ میں، محب الدین البری ریاض النفرہ جلد دوم ص۱۸۸ میں، مسلم بن حجاج اپنی صحیح جلد دوم ص۱۳۳۱ اور جلد ہفتم ص۱۴۰ میں، پنہائی شرف المئوید مطبوعہ بیروت ص۱۰ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب ۱۰ میں چھ مسند اخبارکے ساتھ اور شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب۳۳ میں صحیح مسلم اور شواہد حاکم سے بسند ام المومنین عائشہ اور دس (۱۰) روایتیں ترمذی، حاکم علاء الدولہ سمہانی، بیہقی، طبرانی، محمد بن جریر، احمد بن حنبل، ابن ابی شیبہ، ابن منذر، ابن ؟؟؟؟ ، حافظ زرندی اور حافظ ابن مردویہ سے ام المومنین ام سلمہ، عمر بن ابی سلمہ ( ربیب رسول(ص))انس بن مالک، سعد بن ابی وقاص، واثلہ بن اسقع اور ابو سعید خدری کی سندوں کےساتھنقل کرتے ہیں کہ آیت تطہیر پنجتن پاک و آل عبا کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ ابن حجر مکی جیسے سخت و متعصب عالم نے بھی صواعق محرقہ ص۸۵، ص۸۶ سات طریقوں سے ان کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے اس اہم حقیقت کو نقل کیا ہے کہ یہ آیت محمد(ص)، علی(ع)، فاطمہ(ع)، حسن(ع) اور حسین(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے اور صرف یہی پانچ مقدس ہستیاں اس آیہ شریفہ کی طہارت سے مخصوص کی گئی ہیں۔

سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی نے کتاب رشفتہ الصادی من بحر فضائل بنی النبی الہادی مطبوعہ اعلامیہ مصرسنہ۱۳۰۳ھ کے باب ص؟؟؟ ص۱۴تا ص۱۹ میں ترمذی ، ابن جریر، ابن منذر، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی ابن ابی حاتم، طبرانی، احمد بن حنبل، ابن کثیر، مسلم بن حجاج، ابن ابی شیبہ اور سہودی سے آپ کے اکابر علماء کی گہری تحقیقات کے ساتھروایت کی ہے کہ یہ آیہ شریفہ مقدس آل عبا اور پنجتن پاک کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ استدلال کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ تمام اولاد اہل بیت رسول(ص) جن پر صدقہ حرام ہے۔ قیام قیامت تک اس آیہ شریفہ کے مصداق رہیں گے۔

جمع بین الصحاح الستہ موطا امام مالک بن انس الاصبحی و صحاح بخاری ومسلم و سنن ابی دائود رسجستانی و ترمذی، اور جامع الاصول میں، یہاں تک کہ بالعموم آپ کے علماء و فقہاء اور مورخین و محدثین اقرار کرتے ہیں کہ یہ آیت انہیں پنج تن آل عبا(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور یہ آپ کے یہاں تقریبا تواتر کی حد میں ہے۔ اگر بعض اشخاص نے حق کشی اور بعض وعناد کے جذبے میں اس روایت کو ضعیف کہہ دیا ہے تو اس سے اتنی کثیر التعداد اور معتبر روایات پر جو آپ ہی کے اکابر علماء کی معتبر کتب میں درج ہیں کوئی اثر نہیں پڑسکتا ۔

نیست خفاشک عدرے آفتاب او عدوے خویش آمد ور حجاب

۱۱۰

حریرہ فاطمہ(ع) کے بارے میں ام سلمہ (رض) اور نزول آیہ تطہیر

مختصر یہ کہ بعض نے حریرہ والی روایت کےساتھ ذرا تفصیل سے اور بعض نے اختیار کےساتھ نقل کیا ہے۔ من جملہ ان کے انام ثطبی نے اپنی تفسیر میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، اور ابن اثیر نے جامع الاصول میں ترمذی و مسلم سے الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ زوجہ رسول ام المومنین ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ(ص) میرے یہاں صفے میں بیٹھے ہوئے تھے جو آں حضرت(ص) کی خوابگاہ تھی اور پائے مبارک کے نیچے خیبری عبا بچھی ہوئی تھی، میں حجرے میں نماز پڑھ رہی تھی کہ اتنے میں فاطمہ سلام اللہ علیہا آں حضرت(ص)کے لیے ایک ظرف میں حریر لائیں، پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ جائو اپنے شوہر اور اپنے فرزندوں کو بلا لائو! ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ علی اور حسنین علیہم السلام آئے اور حریرہ کھانے میں مشغول ہوئے، اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور آں حضرت(ص) کے سامنے یہ آیت پڑھی۔

"إِنَّمايُرِيدُاللَّهُلِيُذْهِبَعَنْكُمُالرِّجْسَأَهْلَالْبَيْتِوَيُطَهِّرَكُمْتَطْهِيراً"

یعنی سوئے اس کے نہیں ہے کہ خدا یہ ارادہ رکھتا ہے کہ اہل بیت رسول(ص) تم سے ہر گندگی کو دور رکھے اور تم کو اس طرح پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

( آیت نمبر۳۳ سورہ نمبر۳۳ ( احزاب)

ام سلمہ کہتی ہیں میں نے عبا کے اندر اپنا سر بڑھا کر عرض کیا:

"أَنَامَعَكُمْ‏ يَارَسُولَ‏اللَّهِقَالَ: إِنَّكِإِلَىخَيْرٍ،إِنَّكِإِلَىخَيْرٍ."

یا رسول اللہ(ص) میں بھی آپ حضرات کے ساتھ ہوں تو آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ تم نیکی پر ہو( مطلب یہ ہے کہ تم کو میرے اہل بیت(ع) کا درجہ حاصل نہیں ہے اور تم ان میں شامل نہیں ہو البتہ تمہارا انجام بخیر ہے)

پس یہ آیہ مبارکہ اس بات پر پوری دلالت کرتی ہے کہ یہ پانچوں بزرگوار کفر و شقاق، شرک و نفاق، شک و شبہہکذب و ریا اور ہر گناہ صغیرہ و کبیرہ سے معصوم اور پاک ہیں۔

چنانچہ امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں "لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ " یعنی تم سے تمام گناہوں کو زائل کردیا۔ "وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً " یعنی تم کو اپنی کرامت کی خلعتیں پہنائیں۔

واقعی ان بے انصاف علماء پر سخت تعجب ہوتا ہے جو اپنی معتبر کتابوں میں یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ علی(ع) و فاطمہ علیہا السلام آیہ تطہیر میں شامل اور ہر رجس و پلیدی سے معرا و مبرا تھے اور سب سے بڑا رجس جھوٹ بولنا ہے، اور پھر حضرت کے دعوی الامت کی تکذیب بھی کرتے ہیں، جناب فاطمہ(ع) کے حق میں آپ کی شہادت کو غلط قرار دیتے ہیں اور فدک کے بارے میں طاہرہ اور معصومہ بی بی کے بیان کو جھٹلاتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ مدعیان انصاف اس مقام پر کس قاعدے سے فیصلہ کرتے ہیں؟

اب میں اصل مقصد کی طرف آتا ہوں، ذرا اںصاف سے فیصلہ کیجئے کہ آیا یہ مناسب تھا کہ علی(ع) و فاطمہ(ع) کے بیانات کو تو مسترد

۱۱۱

کردیں جن کے لیے خدا گواہی دے رہا ہے کہ تمام ظاہری وباطنی رجس وگندگی سے پاک و منزہ یعنی جملہ صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں، اور اس جلیل القدر خاندان کا مقررہ حقسرے سے غائب ہی کردیں، لیکن جابر کا دعوی بے چون وچرا تسلیم کر لیں جو صرف ایک مرد مسلمان اور معمولی مومن تھے؟

حافظ : یہ ہرگز با ور نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفہ رسول(ص) اور مومن صحابی جن کو پیغمبر(ص) سے انتہائی قربت حاصل ہو جان بوجھ کر فدک کو غصب کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ انسان جو کام کرتا ہے قطعا اس کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے، جس خلیفہ کے تصرف میں مسلمانوں کا سارا بیت المال تھا اس کو فدک کے ایک باغ یا گائوں کی کیا ضرورت تھی جو اس کو غصب کرتا ؟

خیر طلب : کھلی ہوئی بات ہے کہ کسی احتیاج کا سوال نہیں تھا بلکہ اس وقت کے سیاسی طبقے کی نظر میں خاندان رسول اور آں حضرت کی عترت طاہرہ کو تباہ کرنا ضروری تھا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ حضرات چونکہ منصب خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں لہذا ان کو اس قدر پریشانی اور فقر و تہی دستی میں مبتلا کر دیا جائے کہ خلافت کا خیال ہی دل میں نہ لائیں اس لیے کہ دنیا طلب لوگ اسی کی طرف جاتے ہیں جس سے ان کی دنیا سنورتی ہو۔

یہ لوگ سمجھتے تھے کہ جو خاندان جلیل علم و فضل اور ادب و تقوی کے زیور سے مکمل طور پر آراستہ ہے اگر اس کا ہاتھمال دنیا سے بھی پر ہوگا تو یقینا لوگ اس کی طرف رجوع کریں گے۔ لہذا بر بنائے سیاست تنہا فدک ہی غصب نہیں کیا بلکہ ان حضرات پر تمام وہ راستے مسدود کر دیے جن کے ذریعے کوئی مالی منفعت پہنچ سکتی تھی۔

عترتِ رسول(ص) پر خمس کی بندش

من جملہ ان کے ایک مستقل حق خمس کا تھا جس کی قرآن مجید میں بھی تاکید کی گئی تھی۔ چونکہ خدا نے صدقات کو رسول(ص) اور آل علیہم الصلوۃ و السلام پر حرام قرار دیا تھا لہذا باجماع جمہور امت ان کے لیے خمس کا دروازہ کھول دیا۔

چنانچہ آیت نمبر۴۲ سورہ نمبر۸ (ا نفال) میں صریحا فرمایا:

"وَاعْلَمُواأَنَّماغَنِمْتُمْ‏مِنْشَيْ‏ءٍفَأَنَّلِلَّهِخُمُسَهُوَلِلرَّسُولِوَلِذِيالْقُرْبى‏ وَالْيَتامى‏ وَالْمَساكِينِ‏"

یعنی جان لو کہ تم کو جو کچھ غنیمت اور فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ و رسول(ص) ، آنحضرت(ص) کے اقرباء یتیموں مسکینوں اور مجبور مسافروں کے لیے مخصوص ہے( تاکہ پیغمبر(ص) کی عترت قیامت تک خوش حالی اور آسائش میں رہے، اور اپنی رعایا کی محتاج نہ ہو۔

لیکن آں حضرت(ص) کی آنکھ بند ہوتے ہی اس رخ سے بھی عترت و اہل بیت(ع) رسول(ص) کو فشار کیا گیا۔ خلیفہ ابوبکر نے اپنے جتھے

۱۱۲

والوں کے اتفاق رائے سے یہ واجبی حق ان حضرات سے سلب کر لیا اور کہا کہ خمس جنگی ساز وسامان ، خریداری اسلحہ اور دیگر ضروریات حرب میں صرف ہونا چاہئیے غرضیکہ ان کو ہر صورت سے بے دست و پا کر دیا گیا ، کیونکہ صدقات تو ان پر حرام تھے ہی خمس کا کھلا ہوا حق بھی روک دیا گیا۔

چنانچہ امام شافعی محمد بن ادریس کتاب الام کے اس بات میں ص۶۹ پر کہتے ہیں۔

"و اما آل محمد الذين جعل لهم الخمس عوضا من الصدقة فلا يعطون من الصدقات المفروضات شيئا قل او کثر لا يحل لهم ان ياخذوها ولا يجزی عمن يعطيهم ؟؟؟ اذا عرفهم "یہاں تک کہ کہتے ہیں"وليس منهم حقهم فی الخمس يحل لهم ماحرم عليهم من الصدقة "

یعنی آلمحمد(ص)کو جن کے لیے خدا نے صدقے کے عوض خمس متعین کیا ہے صدقات واجبہ میں سے کم یا زیادہ کچھ بھی نہیں دیا جاسکتا اور ان کے لیے اس کا لینا جائز نہیں ہے اور جو لوگ جان بوجھ کر ان کو دیں وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوں گے اور ان کے اوپر ان کا حق خمس بند کردینے سے صدقہ جو ان پر حرام ہوچکا ہے حلال نہیں ہوگا۔

عمر ابن خطاب کے دور خلافت میں بھی اس بہانے سے کہ خمس زیادہ ہوچکا ہے لہذا یہ سب ذوی القربی کو نہیں دیا جاسکتا بلکہ سامان جنگ کی تیاری میں صرف ہونا چاہئیے ان کو اپنے اس مسلم اور خدا داد حق سے محروم کیا گیا اور آج تک محروم کئے جاتے ہیں۔

حافظ : امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ خمس پانچ حصوں پر تقسیم ہونا چاہئیے سہم پیغمبر(ص) جو مسلمانوں کے مصارف اور ضروریات میں خرچ ہو، دوسرا حصہ ذوی القربی کے لیے ہو اوربقیہ تین حصے یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے صرف میں آئیں۔

خیر طلب : جمہور مفسرین کا اتفاق ہے کہ زمانہ رسول(ص) میں یہ آیت آں حضرت(ص) کی اولاد و اقارب کی اعانت کے لیے نازل ہوئی تھی اور خمس انہیں حضرات کے صرف میں دیا جاتا تھا پس فقہائے امامیہ کے نزدیک عترت اور ائمہ اطہار کی پیروی میں نیز صراحت آیہ شریفہ کے مطابق خمس چھ حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ سہم خدا، سہم رسول اور سہم ذوی القربی امام کو پہنچتا ہے اور غیبت امام میں نائب امام یعنی مجتہد فقیہ و عادل کو دیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے مناسب ضروریات میں جہاں مصلحت ہوتی ہے صرف کرتا ہے اور بقیہ تین حصے بنی ہاشم اور اولاد رسول(ص) میں سے یتیموں ، محتاجوں اور مسافروں کے لیے مخصوص ہو، لیکن وفات پیغمبر(ص) کے بعد اس حق کو سادات سے سلب کر لیا گیا، چنانچہ آپ کے اکابر علماءجیسے جلال الدین سیوطی درالمنثور جلد سوم میں طبری ، امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، جار اللہ زمخشری کشاف میں، قوشجی شرح تجرید میں، نسائی کتاب الفے میں اور دوسرے حضرات بالاتفاق اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ بدعت رسول خدا(ص) کے بعد چالاک سیاسی لوگوں نے اپنے مقاصد پر قابو پانے کے لیے قائم کی۔

حافظ : آیا آپ کے نزدیک مجتہد کو رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے؟ خلیفہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے قطعا مسلمانوں کی امداد کے لیے اجتہاد کر کے یہ فیصلہ کیا۔

۱۱۳

خیر طلب : ہاں مجتہد کو اپنی رائے قائم کرنے کا حق حاصل ہے لیکن نص کے مقابلے میں نہیں۔ کیا آپ خلیفہ ابوبکر و عمر کی رائے اور فیصلے کو آیت اور عمل رسول(ص) کے مقابلے لاتے ہیں؟ آیا انصافا یہ جائز ہے کہ خدا و رسول(ص) تو کوئی حکم نافذ کریں لیکن خلیفہ پیغمبر(ص) امت کی مصلحت کو ان سے بہتر سمجھتا ہو اور نص کے مقابلے میں اپنے اجتہاد سے کام لے ؟ خدا کے لیے حق و اںصاف سے کہئیے کہ ان کاموں کا کوئی خاص مقصد تھا یا نہیں؟ اگر کوئی عقل مند انسان غیر جانبدار انسان گہری توجہ کے ساتھ نتیجہ نکالے گا تو اس کو اس ترکیب عمل سے قطعی طور سخت سوء ظن پیدا ہوگا اور وہ سمجھ لے گا کہ یہ معاملات معمولی نہیں تھے بلکہ خاندان رسول(ص) کو بے بس بنانا تھا۔

خدا نے علی(ع) کو پیغمبر(ص) کا شاہد قرار دیا ہے

ان چیزوں کے علاوہ خدا نے علی علیہ السلام کو پیغمبر(ص) کا شاہد و گواہ قرار دیا ہےاور آیت نمبر۲۰ سورہ نمبر۱۱ ( ہود) میں صاف طور سے فرماتا ہے :

"أفمن‏ كان‏ على‏بيّنةمنربّهويتلوهشاهدمنه"

یعنی آیا وہ پیغمبر(ص) جو اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل (قرآن ) رکھتا ہے اور اس کے ہمراہ اس کا سچا گواہ ہے۔ (یعنی علیعلیہ السلام جو ہمہ تن صداقت رسالت کے گواہ ہیں۔)

حافظ: جہاں تک مجھ کو علم ہے صاحب بینہ سے مراد رسول خدا(ص) ہیں اور ان کا شاہد قرآن کریم ہے آپ نے کس دلیل و برہان سے شاہد کو علی کرم اللہ وجہہ سے تعبیر کیا ہے۔

خیر طلب : مجھ میں اتنی طاقت و جرات نہیں کہ آیات قرآنی میں تصرف یا تفسیر بالائے کرسکوں۔ ہم کو عترت و اہل بیت(ع) رسول(ص) سے جو عدیل قرآن ہیں یہی تعلیم پہنچی ہے ک شاہد سے مراد علی علیہ السلام ہیں، اور علماء و مفسرین نے اسی طرح نقل کیا ہے۔ چنانچہ تقریبا تیس حدیثیں آپ کے اکابر علماء میں سے امام ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں تین حدیثین جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں ابن مردویہ ، ابن ابی حاتم اور ابونعیم سے ، ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد السمطین میں تین سندوں کے ساتھ، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۲۲ میں ثعلبی ، حموینی ، خوارزمی ، ابونعیم، واقدی اور ابن مغازلی سے ابن عباس اور جابر ابن عبداللہ اںصاری وغیرہ کی سندوں کے ساتھ ، حافظ ابونعیم اصفہانی نے تین طریقوں سے ، طبری نے ابن مغازلی فقیہ شافعی نے، ابن ابی الحدید معتزلی نے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۲ میں نقل کی ہیں۔ اور آپ کے دوسرے بہت سے علماء یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور الفاظ و عبارت کے مختصر سے فرق کے ساتھ لکھتے ہیں کہ اس آیت میں شاہد سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

خطیب خوارزمی مناقب میں کہتے ہیں کہ لوگوں نے ابن عباس سے پوچھا شاہد سے کون مراد ہے؟ انہوں نے کہا : "هو علی يشهد للنبی وهو منه " وہ علی(ع) ہیں جنہوں نے پیغمبر(ص) کی گواہی دی اور وہ پیغمبر(ص) سے ہیں پس ان دلائل و اخبار معتبرہ کی بنا پر جن کی خود آپ کے اکابر علماءتصدیق کرتے ہیں امت پر حضرت کی شہادت قبول کرنا واجب تھا۔ کیونکہ خدا نے آپ کو پیغمبر(ص) پر گواہ قرار دیا ہے۔

۱۱۴

اس طرح سے رسول اکرم(ص) ن خزیمہ بن ثابت کی خصوصیت کا اقرار فرمایا تھا کہ ان کی شہادت دو مسلمانوں کے برابر قرار دی ، اور ذوالشہادتین کا لقب عطا فرمایا، اسی طرح خدائے تعالی نے بھی اس آیت میں مسلمانوں کے درمیان حضرت علی(ع) کی فضیلت کا اظہار فرمایا کہ آپ کو پیغمبر(ص) پر شاہد اورگواہ قرار دیا قطع نظر اس سے کہ بحکم آیہ تطہیر آپ معصوم اور ہر خطا سے مبرا تھے اور اپنی نفع اندوزی کے لیے ہرگز جھوٹی گواہی نہیں دے سکتے تھے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں نے کیونکہ نے اتنی جرات کی اور شرع کے کس اصول سے آپ کی شہادت رد کی بلکہ توہین بھی کی اور گواہی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ علی شہادت قابل قبول نہیں ہے " لانہ یجر النفع الی نفسہ" یعنی چونکہ علی(ع) اس قضیے میں خود کسب منفعت کررہے ہیں لہذا ان کی گواہی مردویہ ہے، علاوہ ان اہانتوں اور بہت سے اشارات و کنایات کے جو مجمع کے اندر آپ کے منہ پر اور پیٹھ پیچھے زبان پرلائے ، اور جن میں سے بعض کی طرف میں بھی اشارہ کرچکا ہوں۔ اب اس سے زیادہ میںاس مطلب کے خزئیات میں نہیں پڑنا چاہتا، البتہ اتنا عرض کروں کہ آیا آپ سننے کے لیے رضامند ہیں کہ مولائے متقیان امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسی بزرگ شخصیت کو جس نے دینا کو تین طلاقین دی ہوں ، جو تمام انسانوں سے زیادہ دولت دنیا کی طرف سے بے پروا ہو اور جس کی رفتار و کردار کو دوست و دشمن بھی مانتے ہوں، دنیا طلب بلکہ اس سے بھیزیادہ سخت الفاظ کہے جائیں جن کو ادا کرنے کی میری زبان میں طاقت نہیں اور جو خود آپ کی کتابوں میں درج ہیں؟

خلاصہ یہ کہ جملہ یجر النفع الی نفسہ استعمال کر کے لوگوں کو یہ فریب دیں کہ علی(ع) چونکہ اس معاملے صاحب نفع ہیں لہذا ممکن ہے کہ اپنے اہل وعیال کے فائدے کے لیے(معاذ اللہ) جھوٹی شہادت دے دیں، اس وجہ سے ان کی گواہی قابل قبول نہیں ہے خدائے تعالی تو آپ کو معتبر قرار دے لیکن چند ترکیبی لوگ اس کو رد کردیں؟

علی علیہ السلام کا دردِ دل

آیا علی(ع) کے بارے میں نزول آیات قرآنی ، منصب ولایت کی توثیق اور رسول اللہ(ص) کی وصیت و سفارش کا یہی نتیجہ تھا کہ آپ کو اس قدر آزاد و آذیت پہنچائیں کہ آپ خطبہ شقشقیہ میں اپنے درد دل کا اس طرح اظہار فرمائیں "صبرت وفی العین قذی و فی الحق شجی "( یعنی میں صبر کیا اس حال میں کہ ؟؟؟؟ میری آنکھ میں خس و خاشاک اور حلق میں ہڈی پھنسی ہوئی ہو۔) حضرت کے یہ جملے شدیدغم وغصہ اندوہ والم اور تلخی صبر کی ترجمانی کررہے ہیں۔

آپ یہ بے خودی میں نہیں فرماتے تھے کہ:

"وَاللَّهِلَابْنُأَبِيطَالِبٍآنَسُبِالْمَوْتِمِنَالطِّفْلِبِثَدْيِ‏ أُمِّهِ‏"

یعنی قسم خدا کی ایک شیر خوار بچے کو جس قدر اپنی اپنی ماں کے پستان سے انس ہوتا ہے اس سے زیادہ فرزند ابوطالب کو موت کا شوق ہے۔

آپ کا قلب اس قدر مجروح اور زندگانی دنیا سے سیر تھا کہ جس وقت اولین و آخرین کے شقی ترین آدمی عبدالرحمان ابن ملجم مرادی

۱۱۵

نے زہر میں بجھائی ہوئی تلوار فرق مبارک پر لگا تو محراب عبادت کے اندر آپ فرماتے تھے فزت و رب الکعبۃ یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا۔

حضرات تاریخ کی شہادت اور آپ کے بزرگ مورخین کے قول کے مطابق ہوا جو نہ ہونا چاہئیے تھا، کیا گیا جو نہ کرنا چاہئیے تھا اور کہا گیا جو نہ کہنا چاہئیے تھا۔ لیکن اب آج کے روز مناسب نہیں ہے کہ آپ جیسے دانشمند علماء خدا و رسول(ص) کے عزیز و محبوب کو مزید اذیت پہنچائیں اور بے خبر لوگوں میں غلط فہمی پھیلائیں در آنحالیکہ خوب واقف ہیں کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ایذا دنیا در حقیقت رسول خدا(ص) کو ایذا دینا ہے۔

علی(ع) کو اذیت دینے والوں کی مذمت میں احادیث

جیسا کہ آپ کے اکابر علماء مثلا امام احمد بن حبنل نے اپنی مسند میں کسی و طریقوں سے امام ثعلبی نے تفسیر میں اور شیخ الاسلام حموینی نے فرائد میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) فرمایا:

"من‏ آذى‏ عليافقدآذاني! ياأيهاالناسمن‏ آذى‏ عليابعثيومالقيامةيهوديّاًأونصرانياً."

یعنی جس نے علی(ع) کو ایذا دی اس نے یقینا مجھ کو ایذا دی۔ ایہا الناس! جو شخص علی کو اذیت دے وہ قیامت کے دن یہودی یا نصرانی اٹھے گا۔

ابن حجر مکی باب۹ فصل دوم ص۷۶ حدیث نمبر۱۶ میں سعد ابن ابی وقاص سے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۸ میں سند کے ساتھ رسول اللہ(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا:

"من‏ آذى‏ عليافقدآذاني"

یعنی جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے در حقیقت محمد(ص) کو اذیت دی۔

مجھ کو اس وقت ایک اور حدیث یاد آگئی، اجازت ہو تو عرض کروں اس لیے کہ حدیث رسول(ص) کا بیان کرنا اور سننا عبادت ہے۔ اس حدیث کا بخاری نے اپنی صحیح میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب ما نزل من القرآن فی علی میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں اور حاکم ابوالقاسم حسکانی نے حاکم ابو عبداللہ حافظ سے انہوں نے احمد بن محمد بن ابی دائود حافظ سے انہوں نے علی بن احمد عجلی سے انہوں نے ؟؟؟؟ یعقوبسے انہوں نے ارطاۃ بن حبیب سے انہوں نے ابوخالد واسطی سے انہوں نے زید بن علی علیہ السلام سے ، انہوں نے اپنے باپ علی ابن الحسین علیہما السلام سے آپ نے اپنے باپ حسین بن علی علیہما السلام سے اور آپ نے اپنے پدر بزرگوار علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک راوینے اپنی داڑھی کا بال پکڑ کے کہا کہ رسول اللہ(ص) نے اس

۱۱۶

طرح سے اپنا موئے مبارک ہاتھ میں لے کر فرمایا:

"ياعلي‏ من‏ آذى‏شعرةمنكفقدآذانيومنآذانيفقدآذىاللهومنآذىاللهفعليه لعنة الله"

یعنی اے علی(ع) جو شخص تمہارے ایک بال کو بھی تکلیف پہنچائے اس نے در حقیقت مجھ کو تکلیف پہنچائی۔ اور جو شخص مجھ کو تکلیف پہنچائے اس نے حقیقتا خدا کو تکلیف پہنچائی اور جو خدا کو تکلیف پہنچائے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔

سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی نے کتاب رشفتہ الصاری من بحر فضائل بنی النبی الہادی مطبوعہ مطبع اعلامیہ مصر سنہ۱۳۰۳ باب۴ ص۶۰ میں کبیر طبرانی، صحیح ابن حبان اور حاکم سے صحت حدیث کی تصدیق کے ساتھ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ :

"مَنْ‏ آذَانِي‏ فِي‏ عِتْرَتِي‏فَعَلَيْهِلَعْنَةُاللَّهِ."

یعنی جو شخص مجھ کو میری عترت کے بارے میں اذیت پہنچائے پس اس پر خدا کی لعنت ہو۔

امید ہے کہ میرے سچے معروضات بے اثر نہ ثابت ہوں گےے اور آپ حضرات اب اس سے زیادہ آں حضرت(ص) کی مقدس روح کو آزردہ کرنے پر رضا مند نہ ہوں گے ، کیوںکہ محکمہ عدل الہی میں جواب دہی بہت مشکل ہے۔

( جیسے ک اس ساری مدت میں میں خود بھی رو رو کر بیان کرتا رہا اور اکثر حاضرین کی آںکھوں میں بھی آنسو بھرے رہے بلکہ بعض کے رخساروں پر جاری ہوگئے تھے، یہاں تک کہ جناب حافظ صاحب بھی کبھی کبھی اشکبار ہوجاتے تھے۔)

حضرات! ذرا غائر نظر ڈالئے اور اپنے معرض عمل میں قرار دیجئے تو معلوم ہو کہ جماعت امت کے درمیان ( وہی امت جو دو مہینے قبل حضرت علی علیہ السلام کے پائیں پا بیٹھی ہوتی تھی اور آپ کو پیغمبر(ص) اپنے ہاتھوں پر بلند کئے ہوئے، سب نے آپ کی بیعت کی تھی اور خدا و رسول (ص) کے حکم سے آپ کے سامنےسر تسلیم خم کیا تھا) جس وقت امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت رد کی گئی اور قطعی حکم دے دیا گیا کہ صدیقہ مظلومہ جناب فاطمہ (ع) کی زیر تصرف جائداد اور آپ کے بچوں کی پرورش کا ذریعہ ضبط کر لیا جائے تو اتنی سخت اہانتوں سے پیغمبر(ص) کی ان دوںوں امانتوں پر کیا گزری ہوگی؟ یہاں تک کہ دشمن مسجد رسول سے خوش ہو کر اٹھے۔

یہ غیظ و غضب جناب معصومہ پر ایسا موثر اور مستول ہوا کہ عین عالم شباب میں انتہائی غصے اور درد و الم کے ساتھ دنیا سے اٹھ گئیں۔

حافظ : بدہی چیز ہے کہ بی بی فاطمہ(ع) شروع شروع میں ضرور دل تنگ اور غضب ناک ہوئیں لیکن آخر کار جب دیکھا کہ خلیفہ نے حکم صحیح دیا ہے تو ناراضگی جاتی رہی اور ان لوگوں سے خوش ہوگئیں۔ یہاں تک کہ انتہائی رضا و خوشنودی کے ساتھ دنیا سے گئیں۔

۱۱۷

فاطمہ (ع) مرتے دم تک ابوبکر و عمر سے خوش نہیں تھیں

خیر طلب: اگر یہی بات ہے تو آپ کے بڑے بڑے علماء اس کے برعکس کیوں لکھتے ہیں؟ مثلا دو موثق عالم بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں لکھا ہے۔

"فوجدت(۱) ای فغضبت‏ فاطمةعلى أبى بكرفهجرته فلم تكلمه حتّى توفيت فلماتوفيت دفنهازوجهاعليّ بن أبي طالب ليلاولم يؤذنبهاأبابكريصلى عليها"

یعنی فاطمہ(ع) نے غیظ و غضب کے عالم میں ابوبکر کو ترک کر دیا اور ناراضگی کی وجہ سے مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی یہاں تک کہ جب وفات پائی تو ان کے شوہر علی(ع) نے رات کے وقت دفن کیا اور ابوبکر کو اس کی اجازت نہیں دی کی جنازے میں شریک ہوں اور ان پر نماز پڑھیں۔

چنانچہ بخاری نے اپنی صحیح جلد پنجم باب غزوۃ خیبر ص۹ نیز جلد ہفتم باب قول النبی ، لا نورث ما ترکناہ صدقہ ، ص۸۷ میں نقل کیا ہے کہ :

"فهجرته‏ فاطمةفلم تكلمه حتى ماتت."

یعنی فاطمہ(ع) نے ابوبکر کو چھوڑ دیا اور ان سے کلام نہیں کیا یہاں تک کہ وفات پائی۔(۱۲ مترجم)

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۹۹ میں بھی اسی روایت کو نقل کیا ہے۔ ابومحمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری نے الامامۃ والسیاستہ ص۱۴ میں روایت کی ہے کہفاطمہ سلام اللہ علیہا نے بستر بیماری پر ابوبکر و عمر سے فرمایا:

"انّي اشهداللَّه وملائكته انّكمااسخطانى‏وماارضيتمانى لئن لقيت النّبىّ لأشكون كما"

یعنی میں خدا اور فرشتون کو گواہ کر کے کہتی ہوں کہ تم دونوں ( ابوبکر و عمر) نے مجھ کو غضبناک کیا ہے اور مجھ کو راضی نہیں کیا۔ اگر پیغمبر(ص) سے ملاقات کروں گی تو ضرور بالضرور تم دونوں کی شکایت کروں گی۔

نیز اسی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔

"غضبت‏ فاطمةمن ابی بکر وهجرتهالیماتت"

یعنی فاطمہ(ع) ابوبکر پر خشمناک ہوئیں اور ان کو ترک کردیا یہاں تک کہ اسی حالت میں وفات پائی۔

ان روایتوں کے مقابل آپ کی معتبر کتابوں میں اور بھی بہت سے اخبار و احادیث درج ہیں خیر ذرا آپ حضرات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ وجد لغت میں جیسا کہ فیروز آبادی نے قاموس میں لکھا ہے خشم و غضب کے معنی میں ہے۔ ۱۲

۱۱۸

غیر جانبداری اور عدل و اںصاف کی نظر ڈالیں اور مجھ س ان روایات کے درمیان جمع کرنے کا طریقہ بیان فرمائیں۔

فاطمہ(ع) کی اذیت خدا و رسول(ص) کی اذیت ہے

من جملہ ان کے وہ مشہور حدیث ہے جس کو بالعموم آپ کے علماء جیسے امام احمد بن حنبل مسند میں سلیمان قندوزی ینابیع المودۃ میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی اور بن حجر نے صواعق میں ترمذی اور حاکم وغیرہ سے نقل کرتے ہوئے الفاظ و عبارات کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ درجکیا ہے کہ رسول اللہ(ص) مکرر فرماتے تھے۔

" فاطمة بضعة منی وهی نور عينی و ثمرة فئوادی و روحی التی بين جنبی من آذاها فقد آذانیو من آذانی فقد اذی الله و من اغضبها فقد اغضبنی يوذينی ما اذاها"

یعنی فاطمہ(ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے، یہ میری آنکھوں کا نور، میرا میوہ دل اور میرے دونوں پہلوئون کے درمیان میری روح ہے، جس نے فاطمہ(ع) کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی جس نے فاطمہ(ع) کو غضب ناک کیا اس نے مجھ کو غضب ناک کیا، جس چیز سے فاطمہ(ع) کو تکلیف پہنچتیہے اس سے مجھ کو تکلیف پہنچتی ہے۔

ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں فاطمہ سلام اللہ علیہا ک حالات بیان کرتے ہوئے صحیحین بخاری و مسلم سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

"فاطمة بضعة منیيوذينیمن اذاهاو يريبنی ما ازا بها"

یعنی فاطمہ(ع) میرا پارہ تن ہے جو چیز اس کو اذیت پہنچائے وہ مجھ کو بھی اذیت پہنچاتی ہے اور جو چیز اس کی بزرگی قائم رکھے وہ میری بزرگی بھی قائم رکھتی ہے۔

محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص۶ میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاءجلد دوم ص۴۰ میں اور امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص)نے فرمایا:

"انما فاطمة ابنتی بضعة منی يريبنی ما ارا بها و يوذينی ما آذاها "

یعنیسوائے اس کے نہیں ہے کہ فاطمہ(ع)میری بیٹی میرے بدن کا ٹکڑا ہے، جو اس لیے باعث عزت ہے وہ میرے لیے بھی باعث عزت ہے اور جو اس کے لیے ایذا رساں رہے وہ میرے لیے بھی ایذا رساں ہے۔

ابوالقاسم حسین بن محمد ( راغب اصفہانی) محاضرات الادباء جلد دوم ص۲۰۴ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

۱۱۹

"فاطمة بضعة منیفمن اغضبها فقد اغضبنی"

یعنی فاطمہ(ع) میرے جسم کا حصہ ہے پس جس نے اس کو غصہ دلایا اس نے مجھ کو غصہ دلایا۔

حافظ ابوموسی بن المثنی بصری متوفی س۲۵۲ہجری نے اپنی معجم میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد ۴ ص۳۷۵ میں، ابویعلی موصلی نے سنن میں، طبرانی نے معجم میں حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد سیم ص۱۵۴ میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے فضائل الصحابہ میں، حافظ ابن عساکر نے تاریخ شام میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص۱۷۵ میں، محب الدین طبری نے ذخائر ص۳۹ میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ ص۱۰۵ میں اور ابوالعرفان الصبان نے اسعاف الراغبین ص۱۷۱ میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے اپنی دختر سلام اللہ علیہا سے فرمایا:

" يا فاطمه ان اللهيغضب لغضبک و يرضی لرضاک"

یعنی اے فاطمہ(ع) یقینا تم ناراض ہو تو اللہ بھی ناراض ہوتا ہے اور تم راضی ہوتو خدا بھی راضی ہوتا ہے۔

اور محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح باب مناقب قرابہ رسول اللہ(ع) ص۷۱ میں مسور بنمخزومہ سے نیز ص۷۵ میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

"فاطمة بضعة منیفمن اغضبها فقد اغضبنی"

یعنی فاطمہ(ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے پس جو شخص فاطمہ(ع) کو غصہ میں لایا در حقیقت وہ مجھ کو غصہ میں لایا۔

اسی قسم کی حدیثیں صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو دائود، ترمذی، مسند امام احمد بن حنبل، صواعق محرقہ ابن حجر اور ینابیع المودت شیخ سلیمان بلخی حنفی وغیرہ جیسی آپ کی معتبر کتابوں میں بکثرت سے مروی ہیں، پس ان اخبار کو ان روایات کےساتھ کیونکر جمع کیجئے گا کہ جناب فاطمہ(ع) ان لوگوں سے غضبناک اور ناراج دنیا سے نہ اٹھیں؟

شیخ : یہ روایتیں صحیح ہیں لیکن علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ جب انہوں نے ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ عقد کا پیغام دینا چاہا تو رسول خدا(ص) ان پر غضبناک ہوئے فرمایا کہ جو شخص فاطمہ(ع) کو آزار دے اس نے مجھ کو آزار دیا اور جو شخص مجھ کو آزار دے وہ مغضوب خدا ہے اور اس سے مراد علی(ع) تھے۔

دختر ابوجہل کے لیے پیغام دینے کا جواب

خیر طلب : انسان اور دوسرے حیوانات میں بہت فرق ہے۔ انسان کو جو امتیازی خصوصیات حاصل ہیں ان میں سب سے اہم عقل و غور و فکر کی قوت ہے جو اس کے دماغ میں ودیعت کی گئی ہے یعنی حیوان پر اسی آدمی کو برتری حاصل ہے جو زندگی کی تمام منزلوں میں عقل کیہدایت پر عمل کر لے۔ اس طریقے سے کہ جو کچھ سنے اس فورا آنکھ بند کر کے قبول نہ کر لے بلکہ اس کے ہر پہلو پر گہری نظر ڈالے ، اگر عقل اس کیو قبول کرے تو مان لے ورنہ رد کردے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' اپنی زبان کو قابو اور اس کی حفاظت کر یہ نفس کے لئے بہترین ہدیہ ہے_ انسان صحیح اور حقیقی ایمان تک نہیں پہنچتا مگر یہ کہ وہ اپنی زبان کی نگاہ داری اور حفاظت کرے_(۴۲۱)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تین چیزیں فہم اور فقہ کی علامت ہیں تحمل اور بردباری _ علم اور سکوت_ ساکت رہنا دانائی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے_ ساکت رہنا محبت کا سبب ہوتا ہے اور ہر نیکی کی دلیل ہے_(۴۲۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جب عقل کامل ہوتی ہے تو گفتگو ہو جاتی ہے_(۴۲۳)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ''کوئی بھی عبادت ساکت رہنے اور خانہ کعبہ کی طرف پیدل جانے سے افضل نہیں ہے_(۴۲۴)

رسول خدا نے جناب ابوذر سے فرمایا کہ '' میں تجھے زیادہ ساکت رہنے کی سفارش کرتا ہوں اس واسطے کہ اس وسیلے سے شیطن تم سے دور ہوجائے گا_ دین کی حفاظت کے لئے ساکت رہنا بہتر مددگار ہے_(۴۲۵)

خلاصہ انسان سالک اور عارف پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پر پوری طرح کنٹرول کرے اور سنجیدہ اور سوچ سمجھ کر بات کرے اور زیادہ اور بیہودہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے دنیاوی امور میں ضرورت کے مطابق باتیں کرے جو اسے زندگی کرنے کے لئے ضروری ہیں اور اس کے عوض اللہ تعالی کا ذکر اور ورد اور علمی مطالب اور فائدہ مند اور اجتماع کے لئے مفید گفتگو کرنے میں مشغول رہے _ ہمارے بزرگاور عارف ربانی استاد علامہ طباطبائی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ساکت رہنے کے گراں قدر آثار مشاہدہ کئے ہیں_ چالیس شب و روز ساکت رہنے کو اختیار کیجئے اور سوائے ضروری کاموں کے باتیں نہ کریں اور فکر اور ذکر خدا میں مشغول رہیں تا کہ تمہارے لئے نورانیت اور صفاء قلب حاصل ہو سکے_

۲۴۱

چھٹی رکاوٹ

اپنی ذات اور اپنے اپ سے محبت ہے اگر عارف انسان نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر اس کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ سامنے آتی ہے اور وہ ہے اس کا جب ذات یعنی اپنی ذات سے محبت کرنا_ وہ متوجہ ہوگا کہ اس کے تمام کام اور حرکات یہاں تک کہ اس کی عبادت و غیرہ کرنا سب کے سب اپنی ذات کی محبت کیوجہ سے انجام پارہے ہیں_ عبادت ریاضت ذکر اور دعا نماز اور روزے اس لئے انجام دے رہا ہے تا کہ اپنے نفس کو کامل کرے اور اسے ان کی اجزاء آخرت میں دی جائے گرچہ اس طرح کی عبادت کرنا بھی انسان کو بہشت اور آخرت کے ثواب تک پہنچا دیتی ہے لیکن وہ ذکر اور شہود کے بلند و بالا مقام اور رتبہ تک نہیں پہنچاتی جب تک اس کا نفس حب ذات کو ترک نہ کرے اور وہ اللہ تعالی کے بے مثال جمال کا مشاہدہ نہیں کر سکے گا جب تک تمام حجاب اور موانع یہاں تک کہ حب ذات کا حجاب اور مانع بھی ترک نہ کرے اس صورت میں وہ انوار الہی کا مرکز بننے کی قابلیت اور استعداد پیدا نہیں کر سکے گا_ لہذا عارف اور سالک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریاضت اور مجاہدہ کر کے اپنے آپ کو حب ذات کی حدود سے باہر نکالے اپنی ذات کی محبت کو خدا کی محبت میں تبدیل کر دے اور تمام کاموں کو صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے بجا لائے اگر غذا کھاتا ہے تو اس غرض سے کھائے کہ اس کے محبوب نے زندہ رہنے کے لئے اسے ضروری قرار دیا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو اسے اس نیت سے بجالائے کہ ذات الہی ہی عبادت اور پرستش کی سزاوار اور مستحق ہے_ اس طرح کا انسان نہ دینا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے اور نہ آخرت کا بلکہ وہ صرف خدا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے_ یہاں تک کہ وہ کشف اور کرامت کا طلبکار بھی نہیں ہوتا اور سوائے حقیقی معبود کے اس کا کوئی اور مطلوب اورمنظور نظر نہیں ہوتا_ اگر کوئی اس مرحلے کو طے کر لے یہاں تک کہ اپنی شخصیت اور ذات کو اپنے آپ سے جدا کردے تو وہ مقام توحید میں

۲۴۲

قدم رکھ لے گا اور شہود اور لقاء اللہ کے بلند اور بالا مقام تک ترقی کر جائیگا اور بارگاہ مقعد صدق عند ملیک مقتدر میں نازل ہوجائیگا_

ساتویں رکاوٹ

کمال اور عرفان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اور شاید یہ سابقہ تمام رکاوٹوں سے بھی زیادہ ہو وہ ہے ارادہ کا ضعیف ہونا_ اور حتمی فیصلے کرنے کی قدرت نہ رکھنا _ یہ رکاوٹ اور مانع انسان کو عمل شروع کرنے سے روک دیتی ہے_ شیطن اور نفس کرتا ہے کہ انسان کو ظاہر ی ذمہ داری اور وظائف شرعی کی بجالانے کو کافی قرار دے گرچہ اس میں حضور قلب اور توجہہ نہ بھی ہو_ شیطن انسان کو کہتا ہے کہ تو صرف انہیں عبادت کے بجالانے کے سوا اور کوئی شرعی وظیفہ نہیں رکھتا تجھے حضور قلب اور توجہہ اور ذکر سے کیا کام ہے؟ اور اگر کبھی انسان اس کی فکر کرنے بھی لگے تو اسے سینکٹروں حیلے اور بہانوں سے روک دیتا ہے اور کبھی اس مطلب کو اس کرے لئے اتنا سخت نمایاں کرتا ہے کہ انسان اس سے مایوس اور نامید ہوجاتا ہے لیکن اس انسان کے لئے جو کمال حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے ضروری ہے کہ وہ شیطن اور نفس امارہ کے ایسے وسوسوں کے سامنے رکاوٹ بنے اور احادیث اور آیات اور اخلاق کی کتابوں کے مطالعے کرنے سے معلوک کرے کہ سیر اور سلوک کے لئے حضور قلب اور ذکر و شہود کی کتنی ضرورت اور اہمیت ہے اور جب اس نے اس کی اہمیت کو معلوم کر لیا اور اپنی ابدی سعادت کو اس میں دیکھ لیا تو پھر حتمی طور سے اس پر عمل کرے گا اور مایوسی اور ناامیدی کو اپنے سے دور کردے گا اور اپنے آپ سے کہے گا کہ یہ کام گرچہ مشکل ہے اور چونکہ اخروی سعادت اس سے وابستہ ہے لہذا ضرور مجھے اس پر عمل کرنا چاہئے_ اللہ تعالی فرماتا ہے جو ہمارے راستے

۲۴۳

میں کوشش اور جہاد کرتے ہیں ہم اس کو اپنے راستوں کی راہنمائی کر دیتے ہی_

و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا (۴۲۶)

ہماری یہ ساری بحث اور کلام تکامل اور تقرب الہی کے پہلے وسیلے اور ذریعے میں تھی یعنی اللہ تعالی کے ذکر میں تھی _ بحث کی طوالت پر ہم معذرت خواہ ہیں_

۲۴۴

دوسرا وسیلہ

فضائل اور مکارم اخلاق کی تربیت

نفس کے کمال تک پہنچنےاور قرب الہی کے حاصل کرنے کے لئے ایک وسیلہ ان اخلاقی کی جو انسان کی فطرت اور سرشت میں رکھ دیئے گئے ہیں پرورش اور تربیت کرنا ہے_ اچھے اخلاق ایسے گران بہا امور ہیں کہ جن کا ربط اور سنخیت انسان کے ملکوتی روح سے ہے ان کی تربیت اور پرورش سے انسان کی روح کامل سے کاملتر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے بلند و بالا مقام قرب تک پہنچتا ہے_ اللہ تعالی کی مقدس ذات تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ ہے_ انسان چونکہ عالم بالا سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنی پاک فطرت سے کمالات انسانی کو کہ جن کی عالم بالا سے مناسبت ہے انہیں خوب پہچانتا ہے اور فطرتا ان کی طرف مائل ہے اسی لئے تمام انسان تمام زمانوں میں نیک اخلاق کو جانتے اور درک کرتے ہیں جیسے عدالت_ ایثار_ سچائی_ امانتداری _ احسان _ نیکی_ شجاعت_ صبر اور استقامت علم خیر خواہی مظلوموں کی مدد شکریہ احسان شناسی سخاوت اور بخشش_ وفا

۲۴۵

عہد_ توکل_ تواضع اور فروتنی_ عفو اور درگزر_ نرمی مزاجی _ خدمت خلق و غیرہ ان تمام کو ہر انسان خوب پہچانتے اور جانتے ہیں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتاہے_ کہ قسم نفس کی اور اس کی کہ اسے نیک اور معتدل بنایا ہے اور تقوی اور منحرف ہوجانے کا راستہ اسے بتلایا ہے کامیاب وہ ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک بنایا اور نقصان میں ہوگا وہ کہ جس نے اپنے نفس کو آلودہ اور ناپاک بنایا_(۴۳۷)

جب اخلاقی کام بار بار انجام دیئے جائیں تو وہ نفس میں راسخ اور ایک قسم کا ملکہ پیدا کر لیتے ہیں وہی انسان کو انسان بنانے اور اپنا نے اور ہوجانے میں موثر اور اثر انداز ہوتے ہیں اسی واسطے اسلام اخلاق کے بارے میں ایک خاص طرح کی اہمیت قرار دیتا ہے_ اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے_ سینکٹروں آیات اور روایات اخلاق کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ قرآن مجید کی زیادہ آیتیں اخلاق کے بارے میں اور اخلاقی احکام پر مشتمل ہیں یہاں تک کہ اکثر قرآن کے قصوں سے غرض اور غایت بھی اخلاقی احکام امور ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید ایک اخلاقی کتاب ہے _ قاعدتا پیغمبروں کے بھیجنے کی ایک بہت بڑی غرض اور غایت بھی نفس کو پاک اور صاف بنانا اور اخلاق کی اور پرورش کرنا ہے_ ہمارے پیغمبر علیہ السلام نے بھی اپنی بعثت اور بھیجے جانے کی غرص اخلاق کی تکمیل کرنا اور نیک اخلاق کی تربیت کرنا بتلائی ہے اور فرمایا ہے کہ '' میں اللہ تعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تا کہ نیک اخلاق کو پورا اور تمام کروں_(۴۲۸)

پیغمبر اسلام لوگوں سے فرماتے تھے کہ '' میں نیک اخلاق کی تمہیں نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۴۲۹)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں اخلاق حسنہ سے کوئی چیز افضل ہو نہیں رکھی جائیگی_(۴۳۰)

۲۴۶

تیسرا وسیلہ

عمل صالح

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد انسان کے تکامل کا وسیلہ اعمال صالح ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان قرب خدا اور درجات عالیہ کو حاصل کر سکتا ہے اور اپنی اخروی زندگی کو پاک و پاکیزہ بنا سکتا ہے_ قرآن مجید میں ہے کہ '' جو شخص نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایمان رکھتا ہو ہم اس کو ایک پاکیزہ میں اٹھائیں گے اور اسے اس عمل سے کہ جسے وہ بجا لایا ہے_ بہتر جزاء اور ثواب دیں گے_(۴۳۱)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے دنیا کی زندگی کے علاوہ ایک اور پاک و پاکیزہ زندگی ہے اور وہ نئی زندگی اس کے ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے_ قرآن فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ خداوند عالم کی طرف لوٹیں یہی وہ لوگ ہیں جو مقامات اور درجات عالیہ پر فائز ہوتے ہیں_(۴۳۲)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو انسان اللہ تعالی کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے نیک عمل بجالانا چاہئے اور عبادت میں خدا کا کوئی شریک قرار نہ دینا چاہئے_(۴۳۳)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو شخص عزت کا طلبکار ہے تو تمام عزت اللہ تعالی کے

۲۴۷

پاس ہے کلمہ طیبہ اور نیک عمل اللہ تعالی کی طرف جاتا ہے_(۴۳۴)

اللہ تعالی اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام عزت اور قدرت اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی کے پاس ہے اور کلمہ طیبہ یعنی موحد انسان کی پاک روح اور توحید کا پاک عقیدہ ذات الہی کی طرف جاتا ہے اور اللہ تعالی نیک عمل کو اپنے پاس لے جاتا ہے_ نیک عمل جب خلوص نیت سے ہو تو انسان کی روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے ترقی اور کمال دیتا ہے_ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ آخرت کی پاک و پاکیزہ زندگی اور اللہ تعالی سے قرب اور القاء کا مرتبہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے حاصل ہوتا ہے_ قرآن مجید نے نیک اعمال کے بجا لانے پر بہت زیادہ زور دیا ہے خدا سعادت اور نجات کا وسیلہ صرف عمل صالح کو جانتا ہے نیک عمل کا معیار اور میزان اس کا شریعت اور وحی الہی کے مطابق ہونا ہوا کرتا ہے_ خداوند عالم جو انسان کی خصوصی غرض سے واقف ہے اس کی سعادت اور تکامل کے طریقوں کو بھی جانتا ہے اور ان طریقوں کو وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام کے سپرد کر دیا ہے تا کہ آپ انہیں لوگوں تک پہنچا دیں اور لوگ ان سے استفادہ حاصل کریں_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں جب خدا اور اس کا رسول تمہیں کسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہیں تو اسے قبول کرو_(۴۳۵)

نیک اعمال شرعیت اسلام میں واجب اور مستحب ہوا کرتے ہیں_ عارف اور سالک انسان ان کے بجالانے سے اللہ تعالی کی طرف سیر و سلوک کرتے ہوئے قرب الہی کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور یہی تنہا قرب الہی تک پہنچنے کا راستہ ہے اور دوسرے جتنے راستے ہیں وہ عارف کو اس مقصد تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ ٹیڑھے راستے ہیں_ عارف انسان کو مکمل طور سے شرعیت کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اور سیر و سلوک کے لیے شرعیت کے راستے کے علاوہ اور کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے اور ان اذکار اور اوراد اور حرکت سے کہ جس کا شرعیت اسلام میں کوئی مدرک اور

۲۴۸

ذکر موجود نہ ہو اس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہئے نہ صرف وہ مقصد تک نہیں پہنچاتے بلکہ وہ اس کو مقصد سے دور بھی کر دیتے ہیں کیونکہ شرعیت سے تجاوز کرنا بدعت ہوا کرتا ہے_ عارف اور سالک انسان کو پہلے کوشش کرنی جاہئے کہ وہ واجبات اور فرائض دینی کو صحیح اور شرعیت کے مطابق بجالائے کیونکہ فرائض اور واجبات کے ترک کردینے سے مقامات عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا گرچہ وہ مستحبات کے بجالائے اور ورد اور ذکر کرنے میں کوشاں بھی رہے_ دوسرے مرحلے میں مستحبات اور ذکر اور ورد کی نوبت آتی ہے_ عارف انسان اس مرحلے میں اپنے مزاجی استعداد اور طاقت سے مستحبات کے کاموں کا بجا لائے اور جتنی اس میں زیادہ کوشش کرے گا اتنا ہی عالی مقامات اور رتبے تک جا پہنچے گا_ مستحبات بھی فضیلت کے لحاظ سے ایک درجے میں نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض دوسرے بعض سے افضل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بہتر اور جلدی مقام قرب تک پہنچاتے ہیں جیسے احادیث کی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے_ عارف انسان نمازیں دعائیں ذکر اور اوراد کتابوں سے انتخاب کرے اور اس کو ہمیشہ بجا لاتا رہے جتنا زیادہ اور بہتر بجا لائیگا اتنا صفا اور نورانیت بہتر پیدا کرے گا اور مقامات عالیہ کی طرف صعود اور ترقی کرے گا ہم یہاں کچھ اعمال صالح کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور باقی کو کتابوں کی طرف مراجعہ کرنے کا کہتے ہیں لیکن اس کا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ فرائض اور نوافل ذکر اور ورد اس صورت میں عمل صالح ار موجب قرب ہونگے جب انہیں بطور اخلاص بجا لایا جائے_ عمل کا صالح اور نیک اور موجب قرب ہونا اخلاص اور خلوص کی مقدار کے لحاظ سے ہوگا لہذا پہلے ہم اخلاص اور خلوص میں بحث کرتے ہیں پھر کچھ تعداد اعمال صالح کی طرف اشارہ کریںگے_

اخلاص

اخلاص کا مقام اور مرتبہ تکامل اور سیر و سلوک کے اعلی ترین مرتبے میں سے ایک ہے اور خلوص کی کی وجہ سے انسان کی روح اور دل انوار الہی کا مرکز بن جاتا ہے

۲۴۹

اور اس کی زبان سے علم اور حکمت جاری ہوتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خدا کے لئے چالیس دن خالص اور فارغ ہوجائے تو اس کے دل سے حکمت اور دانائی کے چشمے ابلتے اور جاری ہوجاتے ہیں_(۴۳۶)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنے اعمال کو خدا کے لئے خالص بجالاتے ہیں اور اپنے دلوں کو اس لئے کہ اللہ تعالی کی وجہ کا مرکز پاک رکھتے ہیں_(۴۳۷)

حضرت زہراء علیہا السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خالص عبادت اللہ تعالی کی طرف بھیجے اللہ تعالی بھی بہترین مصلحت اس پر نازل فرماتا ہے_(۴۳۸)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے '' بندوں کا پاک دل اللہ تعالی کی نگاہ کا مرکز ہوتا ہے جس شخص نے دل کو پاک کیا وہ اللہ تعالی کا مورد نظر قرار پائیگا_(۴۳۹)

پیغمبر علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور اس نے اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ '' خلوص اور اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جس شخص کو میں دوست رکھتا ہوں اس کے دل میں یہ قرار دے دیتا ہوں_(۴۴۰)

خلوص کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ کم از کم اس کا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی عبادت کو شرک اور ریاء اور خودنمائی سے پاک اور خالص کرے اور عبادت کو صرف خدا کے لئے انجام دے خلوص کی اتنی مقدار تو عبادت کے صحیح ہونے کی شرط ہے اس کے بغیر تو تقرب ہی حاصل نہیں ہوتا عمل کی قیمت اور ارزش اس کے شرک اور ریاء سے پاک اور خالص ہونے پر موقوف ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم تمہاری شکل اور عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے_(۴۴۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں بہترین شریک ہوں جو شخص کسی دوسرے کو عمل میں شریک قرار دے (تو تمام عمل کو اسی

۲۵۰

کے سپرد کر دیتا ہوں) میں سوائے خالص عمل کے قبول نہیں کرتا _(۴۴۲) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم لوگوں کو قیامت میں ان کی نیت کے مطابق محشور کرے گا_(۴۴۳)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خوش نصیب ہے وہ شخص جو عبادت اور دعا کو صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے اور اپنی آنکھوں کو ان میں مشغول نہ کرے جو آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی وجہ سے جو اس سے کان پر پڑتا ہے اللہ تعالی کے ذکر کو فراموش نہ کرے اور جو چیزیں دوسروں کو دی گئی ہیں ان پر غمگین نہ ہو_(۴۴۴)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے_ ''عمل میں خلوص سعادت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے_(۴۴۵) اللہ تعالی کے ہاں وہ عبادت قبول ہوتی ہے اور موجب قرب اور کمال ہوتی ہے جو ہر قسم کے ریاء اور خودپسندی اور خودنمائی سے پاک اور خالص ہو اور صرف اور صرف خدا کے لئے انجام دی جائے عمل کی قبولیت اور ارزش کا معیار خلوص اور اخلاص ہے جتنا خلوص زیادہ ہوگا اتناہی عمل کامل تر اور قیمتی ہوگا_ عبادت کرنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں_

ایک وہ لوگ جو اللہ تعالی کے عذاب اور جہنم کی آگ کے خوف اور ڈر سے عبادت بجا لاتے ہیں_

دوسرے وہ لوگ ہیں جو بہشت کی نعمتوں اور آخرت کے ثواب کے لئے اوامر اور نواہی کی اطاعت کرتے ہیں ان کا اس طرح کا عمل اس کے صحیح واقع ہونے کے لئے تو مضر نہیں ہوتا ان کا ایسا عمل صحیح اور درست ہے اور موجب قرب اور ثواب بھی ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں لوگوں کو راہ حق کی ہدایت اور ارشاد اور تبلیغ کے لئے غالبا انہیں دو طریقوں سے استفادہ کیا گیا ہے بالخصوص پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء اللہ خداوند عالم کے عذاب سے ڈرتے تھے اور جزع اور فزع کیا کرتے تھے اور بہشت اور اس کی نعمتوں کے لئے شوق اور امید کا اظہار کیا کرتے تھے_

۲۵۱

تیسرے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانہ کے لئے اللہ تعالی کی پرستش اور عبادت کیا کرتے ہیں اس طرح کا عمل بجا لانا اسکے منافی نہیں جو عمل کے قبول ہونے میں خلوص شرط ہے اسی واسطے احادیث میں لوگوں کو عمل بجالانے کی ترغیب اور شوق دلانے میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے تا کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالی کے احکام کی اطاعت کریں بلکہ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے عبادت میں انہماک اور کوشش کرنے کا سبب یہ بتلایا ہے کہ کیا ہم اللہ کے شکر گزار بندے قرار نہ پائیں(افلا اکون عبدا شکورا)گر چہ ان تینوں کے اعمال قابل قبول واقع ہوتے ہیں لیکن تیسرے قسم کے لوگ ایک خاص امتیاز اور قیمت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں خلوص زیادہ ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں وہ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم وہ ہے جو آخرت کے ثواب حاصل کرنے کے لئے خدا کی عبادت کرتے ہیں_ ان لوگوں کا کردار تاجروں والا ہے دوسری قسم وہ ہے جو جہنم کے خوف سے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں یہ اطاعت اور عبادت غلاموں اور نوکر والی ہے_ تیسری قسم وہ ہے جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانے کے ادا کرنے کے لئے عبادت کرتے ہیں یہ عبادت آزاد مردوں والی عبادت ہے_(۴۴۶)

چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو نفس کی تکمیل اور روح کی تربیت کے لئے عبادت کرتے ہیں اس طرح کا م قصد بھی اس خلوص کو جو عبادت کے صحیح ہونے میں شرط ضرر نہیں پہنچاتا_

پانچویں قسم اللہ کے ان ممتاز اور مخصوص بندوں کی ہے کہ جنہوں نے خدا کو اچھی طرح پہنچان لیا ہے اور جانتے ہیں کہ تمام کمالات اور نیکیوں کا منع اور سرچشمہ خدا ہے اس کی عبادت کرتا ہے اور چونکہ وہ اللہ کی بے انتہا قدرت اور عظمت کی طرف متوجہ ہیں اور اس ذات کے سوا کسی اور کو موثر نہیں دیکھتے صرف اسی ذات کو پرستش اور عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اسی لئے خدا کو دوست رکھتے ہیں اور اس کی قدرت اور

۲۵۲

عظمت کے سامنے خضوع اور خشوع کرتے ہیں اور یہ اخلاص اور خلوص کا اعلی ترین درجہ اور مرتبہ ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عبادت کرنے والے تین گروہ ہیں_ ایک گروہ ثواب کی امید میں عبادت کرتا ہے یہ عبادت حریص لوگوں کی ہے کہ جن کی غرض طمع ہوتا ہے دوسرا گروہ وہ ہے جو دوزخ کے ڈر سے عبادت کرتا ہے_ یہ عبادت غلاموں کی عبادت ہے کہ خوف اس کا سبب بنتا ہے لیکن میں چونکہ خدا کو دوست رکھتا ہوں اسی لئے اس کی پرستش اور عبادت کرتا ہوں یہ عبادت بزرگوں اور اشراف لوگوں کی ہے اس کا سبب اطمینان اور امن ہے اللہ تعالی فرماتا ہے (و ہم فزع یومئسذ امنون کہ وہ قیامت کے دن امن میں ہیں_ نیز اللہ فرماتا ہے ''قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله و یغفر لکم ذنوبکم _(۴۴۷) امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' اے میرے مالک_ میں تیری عبادت نہ دوزخ کے خوف سے اور نہ بہشت کے طمع میں کرتا ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کے تجھے عبادت اور پرستش کے لائق جانتا ہوں_(۴۴۸)

یہ تمام گروہ مخلص ہیں اور ان کی عبادت قبول واقع ہوگی لیکن خلوص اور اخلاص کے لحاظ سے ایک مرتبے میں نہیں ہیں بلکہ ان میں کامل اور کاملتر موجود ہیں پانچویں قسم اعلی ترین درجہ پر فائز ہے لیکن یہ واضح رہے کہ جو عبادت کے اعلی مرتبہ پر ہیں وہ نچلے درجہ کو بھی رکھتے ہیں اور اس کے فاقد نہیں ہوتے بلکہ نچلے درجے کے ساتھ اعلی درجے کو بھی رکھتے ہیں_ اللہ تعالی کے مخلص اور صدیقین بندے بھی اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں اور ان کے لطف اور کرم کی امید رکھتے ہیں اللہ تعالی کی نعمتوں کے سامنے شکر ادا کرتے ہیں اور معنوی تقرب اور قرب کے طالب ہوتے ہیں لیکن ان کی عبادت کا سبب فقط یہی نہیں ہوتا اور چونکہ وہ خدا کی سب سے اعلی ترین معرفت رکھتے ہیں اسی لئے اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں یہ اللہ تعالی کے ممتاز اور منتخب بندے ہیں مقامات عالیہ کے علاوہ نچلے سارے درجات رکھتے ہیں کیونکہ جو انسان تکامل

۲۵۳

کے لئے سیر و سلوک کرتا ہے جب وہ اعلی درجے تک پہنچتا ہے تو نچلے درجات کو بھی طے کر کے جاتا ہے_

اب تک جو ذکر جو ذکر ہوا ہے وہ عبادت میں خلوص اور اخلاص تھا لیکن خلوص صرف عبادت میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ عارف انسان تدریجا ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ خود اور اس کا دل اللہ تعالی کے لئے خالص ہو جاتا ہے اور تمام غیروں کو اپنے دل سے اس طرح نکال دیتا ہے کہ اس کے اعمال اور حرکات اور افکار خداوند عالم کے ساتھ اختصاص پیدا کر لیتے ہیں اور سوائے اللہ تعالی کی رضایت کے کوئی کام بھی انجام نہیں دیتا اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور خدا کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتا_ اس کی کسی سے دوستی اور دشمنی صرف خدا کے لئے ہوا کرتی ہے اور یہ اخلاص کا اعلی ترین درجہ ہے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کا عمل اور علم محبت اور بغض کرنا اور نہ کرنا بولنا اور ساکت رہنا تمام کا تمام خدا کے لئے خالص ہو_(۴۴۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص کی محبت اور دشمنی خرچ کرنا اور نہ کرنا صرف خدا کے لئے ہو یہ ان انسانوں میں سے ہے کہ جس کا ایمان کامل ہوتا ہے_(۴۵۰) امام جعفر صادق علیہ السلام نے ''فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے جس بندے کے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز نہ رکھی ہو تو اس کو اس سے اور کوئی شریف ترین چیز عطا نہیں کی_(۴۵۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہاں ہے وہ دل جو اللہ تعالی کو بخش دیا گیا ہو اور اس کی اطاعت کا پیمان اور عہد بناندھا گیا ہو_(۴۵۲)

جب کوئی عارف انسان اس مرتبے تک پہنچ جائے تو خدا بھی اس کو اپنے لئے خالص قرار دے دیتا ہے اور اپنی تائید اور فیض اور کرم سے اس کو گناہوں سے محفوظ

۲۵۴

کر دیتا ہے اس طرح کا انسان مخلص پہچانا جاتا ہے اور مخلص انسان اللہ تعالی کے ممتاز بندوں میں سے ہوتے ہیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے خالص قرار دے دیا ہے_(۴۵۳)

قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' یقینا و ہ خالص ہوگیا ہے اور رسول اور پیغمبر ہے_(۴۵۴)

اللہ تعالی کے خالص بندے ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں کہ شیطن ان کو گمراہ کرنے سے ناامید ہوجاتا ہے قرآن کریم شیطن کی زبان نقل کرتا ہے کہ اس نے خداوند عالم سے کہا کہ '' مجھے تیری عزت کی قسم کہ میں تیرے تمام بندوں کو سوائے مخلصین کے گمراہ کروں گا اور مخلصین کے گمراہ کرنے میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے_(۴۵۵) بلکہ اخلاص کے لئے روح اور دل کو پاک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور عبادت کرنے میں کوشش اور جہاد کرنا ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''عبادت کا نتیجہ اور ثمر اخلاص ہوتا ہے_(۴۵۶)

جیسے کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ چالیس دن تک عبادت اور ذکر کو برابر بجا لانا دل کے صفا اور باطنی نورانیت اور مقام اخلاص تک پہنچنے کے لئے سبب اور موثر اورمفید ہوتاہے نہ صرف ایک دفعہ بلکہ تدریجا اور اخلاص کے باطنی مراحل طے کرتے رہنے سے ایسا ہو سکتا ہے_

۲۵۵

کچھ نیک اعمال

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کو تکامل تک پہچانے اور قرب اور ارتقاء کے مقام تک لے جانے کا راستہ صرف اور صرف وحی الہی اور شرعیت کی پیروی کرنے میں منحصر ہے اور یہی وہ راستہ ہے کہ جسے انبیاء علیہم السلام نے بیان کیا ہے او رخود اس پر عمل کیا ہے اور اسے واجبات اور مستحبات سے بیات کیا ہے یہی عمل صالح ہے_ عمل صالح یعنی واجبات اور مستحبات جو اسلام میں بیان کئے گئے ہیں اور انہیں قرآن اور احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں لکھا گیا ہے آپ انہیں معلوم کر سکتے ہیں اور ان پر عمل کر کے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہم یہاں پر ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں_

اول: واجب نمازیں

قرب الہی اور سیر و سلوک معنوی کے لئے نماز ایک بہترین سبب اور عامل ہے_ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر پرہیزگار انسان کے لئے نماز قرب الہی کا وسیلہ ہے_(۴۵۷)

معاویہ بن وھب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ بہترین وسیلہ جو بندوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے اور خدا اسے دوست رکھتا ہے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا

۲۵۶

اللہ کی معرفت کے بعد میں نماز سے بہتر کوئی اور کسی چیز کو وسیلہ نہیں پاتا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی کے نیک بندے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے مجھے جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کی سفارش ہے_(۴۵۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کے نزدیک نماز محبوب ترین عمل ہے_ انبیاء کی آخری وصیت نماز ہے_ کتنا ہی اچھا ہے کہ انسان غسل کرے اور اچھی طرح وضوء کرے اس وقت ایک ایسے گوشہ میں بیٹھ جائے کہ اسے کوئی نہ دیکھے اور رکوع اور سجود میں مشغول ہوجائے جب انسان سجدے میں جائے اور سجدے کو طول دے تو شیطن داد اور فریاد کرتا ہے کہ اس بندے نے خدا کی اطاعت کی اور سجدہ کیا اور میں نے سجدے کرنے سے انکار کر دیا تھا_(۴۵۹)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک بندہ کی خدا کے نزدیک ترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سجدے میں ہوتا اس واسطے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ واسجد و اقترب_(۴۶۰)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو آسمان سے اس پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد ملائکہ گھیرا کر لیتے ہیں ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اگر یہ نماز کی ارزش اور قیمت کو جانتا تو کبھی نماز سے روگردانی نہ کرتا_(۴۶۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے '' جب مومن بندہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خداوند عالم نماز سے فارغ ہونے تک اس کی طرف نگاہ کرتا ہے اور آسمان سے اللہ تعالی کی رحمت اسے گھیر لیتی ہے اور فرشتے اس کے اردگرد گھیرا ڈال دیتے ہیں خداوند اس پر ایک فرشتے کو معین کر دیتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ اے نماز پڑھتے والے اگر تو جان لیتا کہ تو کس کی توجہ کا مرکز ہے اور کس سے مناجات کر رہا ہے تو پھر تو کسی دوسری چیز کی طرف ہرگز توجہ نہ کرتا اور کبھی یہاں سے باہر نہ جاتا_(۴۶۲)

۲۵۷

نماز میں حضور قلب

نماز ایک ملکوتی اور معنوی مرکب ہے کہ جس کی ہر جزو میں ایک مصلحت اور راز مخفی ہے_ اللہ تعالی سے راز و نیاز انس محبت کا وسیلہ اور ارتباط ہے_ قرب الہی اور تکامل کا بہترین وسیلہ ہے_ مومن کے لئے معراج ہے برائیوں اور منکرات سے روکنی والی ہے_ معنویت اور روحانیت کا صاف اور شفاف چشمہ ہے جو بھی دن رات میں پانچ دفعہ اس میں جائے نفسانی آلودگی اور گندگی سے پاک ہو جاتا ہے اللہ تعالی کی بڑی امانت اور اعمال کے قبول ہونے کا معیار اور ترازو ہے_

نماز آسمانی راز و اسرار سے پر ایک طرح کا مرکب ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں روح اور زندگی ہو_ نماز کی روح حضور قلب اور معبود کی طرف توجہہ اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع ہے_ رکوع اور سجود قرات اور ذکر تشہد اور سلام نماز کی شکل اور صورت کو تشکیل دیتے ہیں_ اللہ تعالی کی طرف توجہ اور حضور قلب نماز کے لئے روح کی مانند ہے_ جیسے جسم روح کے بغیر مردہ اور بے خاصیت ہے نماز بھی بغیر حضور قلب اور توجہ کے گرچہ تکلیف شرعی تو ساقط ہو جاتی ہے لیکن نماز پڑھنے والے کو اعلی مراتب تک نہیں پہنچاتی نماز کی سب سے زیادہ غرض اور غایت اللہ تعالی کی یاد اور ذکر کرنا ہوتا ہے_ خداوند عالم پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ '' نماز کو میری یاد کے لئے برپا کر_( ۴۶۴)

قرآن مجید میں نماز جمعہ کو بطور ذکر کہا گیا ہے یعنی '' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو موجب نماز جمعہ کے لئے آواز دی جائی تو اللہ تعالی کے ذکر کی طرف جلدی کرو_(۴۶۵)

نماز کے قبول ہونے کا معیار حضور قلب کی مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز میں حضور قلب ہوگا اتنا ہی نماز مورد قبول واقع ہوگی_ اسی لئے احادیث میں حضور قلب کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے_ جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے ''کبھی آدھی نماز قبول ہوتی ہے اور کبھی تیسرا حصہ اور کبھی چوتھائی اور کبھی پانچواں حصہ

۲۵۸

اور کبھی دسواں حصہ_ بعض نمازیں پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نماز پڑھنے والے کے سرپر مار دی جاتی ہے_ تیری نماز اتنی مقدر قبول کی جائیگی جتنی مقدار تو خدا کی طرف توجہ کرے گا_( ۴۶۶) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا اس کی طرف توجہہ کرتا ہے اور اپنی توجہ کو اس سے نہیں ہٹاتا مگر جب تین دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھی اس سے اعراض اور روگردانی کر لیتا ہے_(۴۶۷)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سستی اور بیہودہ حالت میں نماز نہ پڑھو_ نماز کی حالت میں اپنی فکر میں نہ رہو کیونکہ تم خدا کے سامنے کھڑے ہو_ جان لو کہ نماز سے اتنی مقدار قبول ہوتی ہے جتنی مقدار تیرا دل اللہ کی طرف توجہ کرے گا_(۸ ۴۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو بندہ نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی کی طرف متوجہ ہو تو خدا اس سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے کس کا ارادہ کیا ہے اور کس کو طلب کرتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو خالق اور حفاظت کرنے والا ڈھونڈتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو بخشنے والا طلب کرتے ہو؟ جب کہ میں کریم اور بخشنے والوں سے زیادہ کریم اور بخشنے والا ہوں اور سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہوں میں تمہیں اتنا ثواب دونگا کہ جسے شمار نہیں کیا سکے گا میری طرف توجہ کر کیونکہ میں اور میرے فرشتے تیری طرف توجہ کر رہے ہیں اگر نمازی نے خدا کی طرف توجہ کی تو اس دفعہ اس کے گزرے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہیں اور اس نے دوسری دفعہ خدا کے علاوہ کسی طرف توجہہ کی تو خداوند عالم دوبارہ اسے سابقہ گفتگو کی طرح خطاب کرتا ہے اگر اس نے نماز کی طرف توجہ کر لی تو اس کا غفلت کرنے والا گناہ بخشنا جاتا ہے اور اس کے آثار زائل ہوجاتے ہیں اور اگر تیسری دفعہ نماز سے توجہہ ہٹا لے خدا

۲۵۹

پھر بھی پہلے کی طرح اسے خطاب کرتا ہے اگر اس دفعہ نماز کی توجہ کر لے تو اس دفعہ اس کا غفلت والا گناہ بخش دیا جاتا ہے اور اگر چوتھی دفعہ نماز سے توجہ ہٹا لے تو خدا اور اس کے ملائکہ اس سے توجہ ہٹا لیتے ہیں_ خدا اس سے کہتا ہے کہ تجھے اسی کی طرف چھوڑے دیا ہے کہ جس کی طرف توجہ کر رہا ہے_(۴۶۹)

نماز کی ارزش اور قیمت خدا کی طرف توجہ اور حضور قلب سے ہوتی ہے توجہ اور حضور قلب کی مقدار جتنا اسے باطنی صفا اور تقرب الی اللہ حاصل ہوتا ہے_ بلا وجہ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء کرام نماز کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے_ امیر المومنین علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو آپ کے بدن پر لزرہ طاری ہوجاتا تھا اور آپکے چہرے کا رنگ بدن جاتا تھا_

آپ سے تبدیلی اور اضطراب کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ''کہ اس وقت اس امانت کے ادا کرنے کا وقت آپہنچا ہے جو آسمان اور زمین پر ڈالی گئی تھی لیکن وہ ڈرگئے تھے اور اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن انسان نے اس بڑے امانت کے اٹھانے کو قبول کر لیا تھا میرا خوف اس لئے ہے کہ آیا میں اس امانت کو ادا کر لونگا یا نہ؟(۴۷۰)

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے احوال میں کہا گیا ہے کہ نماز کے وقت ان کے چہرے کا رنگ زرد اور سرخ ہو جاتا تھا اور نماز کی حالت میں اس طرح ہوتے تھے کہ گویا اس گفتگو کر رہے ہیں کہ جسے وہ دیکھ رہے ہیں_(۴۷۱)

امام زین العابدین کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا اور ایک حقیر بندے کی طرح خدا کے سامنے کھڑے ہوتے تھے آپ کے بدن کے اعضاء خدا کے خوف سے لرزتے تھے اور آپ کی نماز ہمیشہ و داعی اور آخری نماز کی طرح ہوا کرتی تھی کہ گویا آپ اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھ سکیں گے_(۴۷۲)

حضرت زہرا علیہا السلام کے بارے میں ہے کہ نماز کی حالت میں سخت خوف کی

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394