پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316860 / ڈاؤنلوڈ: 7971
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

دستاویزات موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ۳ ۱ ھ کو جناب ابوبکر کی وفات کی خبر لشکر تک پہنچنے سے پہلے یا کم از کم ابوعبیدہ جراح کے اس خبر کو ظاہر کرنے سے پہلے دمشق فتح ہوگیا تھا_ اور اہل دمشق کے ساتھ مصالحت کرنے والے بھی اس وقت کے سردار لشکر خالد بن ولید ہی تھے_

حتی کہ اگر اس تحریر کی تاریخ ۱۵ ہجری بھی مان لی جائے تب بھی ہماری مدعا کے لئے نقصان دہ نہیں ہے_ تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت عمر کی حکومت کا واقعہ اس کے بعد یعنی ۱۶ ھ یا ۱۷ ھ میں تھا_

ابوعبیدہ، ابن قتیبہ ، واقدی ، بلاذری(۱) اور دوسرے بہت سے حضرات نے تصریح کی ہے کہ صلح خالد کے ہاتھ پر ہوئی اور اس سے واضح ہے کہ صلح کے وقت لشکر کا امیر وہی تھا_

بلکہ واقدی کا کہناہے کہ ان کے ساتھ خالد کے صلح کرنے کی وجہ سے ابو عبیدہ اور خالد کے درمیان سخت تکرار اور مقابلہ بازی پیش آئی _اس سے ہمارے لئے واضح ہوجاتاہے کہ خالد اپنے موقف میں کس قدر سرسخت تھا اور ابوعبیدہ اس کے مقابلہ میں کس قدر کمزور(۲) _یہی چیز ہمارے اس نظریئےے ساتھ بہت زیادہ ہماہنگی رکھتی ہے کہ لشکر کی قیادت اس وقت خالد کے پاس تھی_

بلکہ بلاذری و غیرہ نے ذکر کیا ہے کہ ابوعبیدہ مشرقی دروازے پر تھا اور قہر و غلبہ سے شہر میں داخل ہوا تو شہر والے خالدکے پاس آئے اور اس سے صلح کرلی_ اس نے ان کے لئے تحریر لکھی اور انھوں نے اس کے لئے دروازہ کھول دیا پھر بلاذری نے ابی مخنف کے قول کو بھی نقل کیا ہے جو مذکورہ واقعہ کے بالکل برعکس ہے_ پھر اس کے بعد کہتاہے کہ پہلا قول نہایت مناسب ہے(۳) _

ہم بھی کہتے ہیں : کہ ہاں یہی قول درست ہے کیونکہ اکثر مورخین بھی اسی کے قائل ہیں، اس بحث کی ابتداء میں مذکور صلح نامہ کی عبارت اور دیگر دستاویزات بھی اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہیں کہ اہل دمشق سے صلح کرنے والا خالد ہی تھا اور وہی امیر لشکر تھا_

____________________

۱) المعارف لابن قتیبة ص ۷۹ ط ۱۳۹۰ بیروت ، فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ۵۹ ، فتوح البلدان ازص ۱۲۸ تا ص ۱۳۱ و دیگر کتب_

۲) فتوح الشام ج۱ ص ۵۸ ، ۶۰_ (۳) فتوح البلدان ص ۱۲۹ ، البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۱_

۶۱

البتہ خالد کی معزولی کا حکم مسلمانوں کو اس وقت پہنچا تھاجب وہ دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے تو ابوعبیدہ نے تقریباً بیس دن تک اسے مخفی رکھا یہاں تک کہ دمشق کو فتح کرلیا گیا تا کہ دشمن کے مقابلے پر ڈٹے رہنے والے مسلمانوں کو خالد کا مسئلہ کمزور نہ کردے(۱)

البتہ واقدی کہتاہے کہ دمشق کی فتح حضرت ابوبکر کی وفات والی رات ہوئی(۲) _

اور زینی دحلان کہتاہے : '' کہا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر کی وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد ۱۳ ھ میں آئی اورحضرت ابوبکر کی وفات اسی رات ہوئی جس رات مسلمان دمشق میں داخل ہوئے اور یہ ۲۲جمادی الثانی ۱۳ ھ کا واقعہ ہے _ اور جو قائل ہیں کہ وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد آئی وہی افراد اس بات کے قائل ہیں کہ یرموک کا واقعہ فتح دمشق کے بعد پیش آیا(۳) _

اور ابن کثیر کہتاہے کہ '' سیف بن عمر کی عبارت کے سیاق سے ظاہر ہوتاہے کہ ۱۳ ھ میں دمشق فتح ہوا لیکن خود سیف عمومی نظریئے کے مطابق تصریح کرتے ہیں کہ ۱۵ رجب ۱۴ ھ کو دمشق فتح ہوا ''(۴) _

اورعبدالرحمن بن جبیر سے منقول ہے کہ ابوعبیدہ خود حضرت ابوبکر کو فتح دمشق کی خوشخبری دینے کے لئے گیا تھا لیکن حضرت ابوبکر پہلے ہی وفات پاچکے تھا او ر حضرت عمر نے اسے لشکر کا امیر بنادیا پھر جب وہ دمشق واپس آیا تو مسلمانوں نے یہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا : '' ایسے شخص کو خوش آمدید جسے ہم نے قاصد بنا کر بھیجا تھا اور وہ ہم پر امیر بن کر واپس آیا ہے''(۵) _

بہرحال یہ صلح نامہ اور تمام گذشتہ دستاویزات گواہ ہیں کہ اکثر مؤرخین کے مطابق خالد نے ہی اہل شام سے صلح کی تھی اور ہم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر فرض کریں کہ یہ تحریر ۱۵ ھ میں بھی لکھی گئی ہو یا یہ دوسری تحریر ہو تب بھی واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے پہلے مقرّر کی جاچکی تھی_

____________________

۱)البدایہ والنہایہ ج۷ ص ۲۳ و فتوح البلدان ص ۱۲۷ و ۱۲۹_

۲) فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ص ۵۹_ (۳) الفتوحات الاسلامیة ج/۱ ص ۴۷_

۴) البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۲_ (۵) البدایة والنھایة ج/۱ ص ۲۴_

۶۲

رہی یہ بات کہ مؤرخین اور راویوں نے اس حقیقت سے روگردانی کیوں کی ؟شاید واقعات و حوادث کاپے درپے واقع ہونا اور ایک دوسرے کے نزدیک ہونا ان کے اشتباہ کا موجب بناہواور ان پر اچھا گما ن کرتے ہوئے (کیونکہ ان کے متعلق اچھا گمان ہی کیا جاسکتاہے) یہی کہہ سکتے ہیں کہ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ حضرت عمر کا دور حکومت عظیم فتوحات ا ور کشور کشائی کادور تھا اور فتح شام بھی چونکہ نہایت اہم معرکہ تھا اس لئے اسے بھی عمر کے دور حکومت میں ہونا چاہئے ، حضرت ابوبکر کے عہد میں نہیں_اور اسی طرح خالد کی شجاعت اور مختلف مواقع میں اس کی قوت و بہادری ثابت اور ظاہر کرناچاہتے تھے اور یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ بلا شرکت غیرے تلوار کا دھنی ہے _ پس اس کا شام پر غلبہ حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ شامیوں سے مصالحت کرنے والا کوئی اور ہو چاہے یہ معاملہ جھوٹ اور مکرو فریب سے ہی حل ہوا ہو _ لیکن کیا یہ مذکورہ باتیں ہی ان لوگوں کی حقیقت سے روگردانی کا حقیقی سبب ہیں _ مجھے تو نہیں معلوم لیکن شاید ذہین و فطین قارئین کو اس کا علم ہوگا_

۸_ سیوطی نے ابن القماح کے ہاتھ سے تحریر شدہ مجموعہ سے ایک بات نقل کی ہے جس میں مذکور ہے کہ ابن الصلاح نے کہا ہے : ''ابوطاہر محمد بن محمش الزیادی نے تاریخ الشروط میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نجران کے نصاری کے لئے تحریر لکھی اس میں ہجرت کی تاریخ قلمبند فرمائی اور علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ یہ عبارت لکھیں '' انہ کتب لخمس من الھجرة'' کہ ہجرت کے پانچویں سال میں لکھی گئی ہے''_ (پھر ) کہتاہے ''ہجرت کے ساتھ تاریخ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت سے لکھی گئی اور تاریخ لکھنے میں حضرت عمر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کی ہے''(۱)

اسی طرح سیوطی کہتاہے '' کہا جاتاہے یہ بات صداقت رکھتی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے پانچویں برس تاریخ لکھی اور پہلی حدیث ( زھری کی گذشتہ روایت) میں تھا کہ ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ پہنچنے کے دن تاریخ لکھی '' اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں کوئی منافات نہیں چونکہ ظرف (یوم قدم المدینة ) فعل (امر)

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ، سیوطی ص ۱۰ نیز التراتیب الاداریہ ج ۱ ص ۱۸۱_

۶۳

سے متعلق نہیں بلکہ مصدر ( التاریخ) سے متعلق ہے تو اصل عبارت اس طرح ہوگی _امربان یورخ بذلک الیوم لا ان الامر کان فی ذلک الیوم یعنی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ اس دن سے تاریخ لکھی جائے نہ یہ کہ یہ فرمان اس دن جاری ہوا'' (یعنی ہوسکتاہے کہ پانچ ہجری کو حکم دیا ہو کہ مدینہ تشریف آوری سے تاریخ شمار کی جائے _از مترجم)(۱) یہ سیوطی کا کلام ہے_

لیکن اس سے واضح تر جواب یہ ہے کہ آپ نے مدینہ پہنچتے ہی تاریخ لکھنے کا حکم دیا اور ربیع الاول کو مبداء قرار دیا اور خودنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب ۵ میں نجران کے نصرانیوں کے لئے تحریر لکھی تو اس وقت اسی تاریخ سے استفادہ کیا_

بہر حال سخاوی کہتاہے کہ '' اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو عمر پیروی کرنے والا ہوگا پہل کرنے والا نہیں''(۲) _

اور عباس مکی کہتاہے کہ '' تاریخ ایک گذشتہ سنت اور پسندیدہ طریقہ ہے کہ جس کا حکم رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نجران کے نصاری کی طرف نامہ لکھتے ہوئے دیا تھا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ اس میں لکھیں (کتب لخمس من الہجرة)(۳) _پھر ابن شہاب کی گذشتہ روایت نقل کی ہے_

۹_ صحیفہ سجادیہ کی خبر سے ظاہر ہوتاہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبدا قرار دینااللہ جلّ شانہ کی منشاء کے مطابق تھاکیونکہ حدیث میں آیاہے کہ جبرائیلعليه‌السلام نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے اسلام کی چکی چلے گی اور دس سال تک چلتی رہے گی اور ہجرت سے پینتیس (۳۵) برس بعد پھراسلام کی چکی چلے گی اور پانچ سال تک چلتی رہے گی''(۴) _

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ ص ۱۰ ، التراتیب الاداریة ج۱ ، ص ۱۸۱_

۲) التراتیب الاداریة ج/۱ ص ۱۸۱_

۳) نرھة الجلیس ج/۱ص ۲۱_

۴) البحار ج/۵۸ ص ۳۵۱ (البتہ صفحات کی تصحیح کرنے کے بعد) سفینة البحار ج/۲ ص ۶۴۱ ، الصحیفة السجادیة ص ۱۰ ، البتہ یہ روایت کئی اور اسناد سے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے بھی وارد ہوئی ہے جنہیں البدایة والنھایة ج۶ ص۲۰۶ ، ۲۰۷ ، ج/۷ ص ۲۱۹ ، ۲۷۵ ، ص ۲۷۶ ، میں ذکر کیا گیا ہے نیز ملاحظہ ہو سنن ابی داؤد مطبوعہ دار الکتاب العربی ج۴ ص ۱۵۹ ، ص ۱۶۰_ و دیگر کتب

۶۴

۱۰ _ ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''میری ہجرت کے ساٹھ (سال) پورے ہونے پر حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کو شہید کیا جائے گا''(۱) _

۱۱ _ انس سے ایک روایت منقول ہے کہ اس نے کہا :' ' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے ہمارے لئے روایت بیان کی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کے (۱۰۰) سال پورے ہونے تک تم میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا''_(۲)

۱۲_ ڈاکٹر سعاد ماہر محمد نے اپنے رسالے (مشہدالامام علیعليه‌السلام فی النجف الاشرف) ص ۱۰۴، ص ۱۰۵ میں اہل حیرہ کے لئے خالد بن ولید کی لکھی ہوئی تحریر کا متن درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یہ عبارت ہے ( اور اگر انہوں نے فعل یا قول کے ساتھ بدعہدی اور خیانت کی تو ہم ان سے بری الذمہ ہوں گے اور ( یہ تحریر) ۱۲ ھ ماہ ربیع الاول میں لکھی گئی) _

اور یہ بات واضح ہے حیرہ کی فتح خالد کے ہاتھوں حضرت ابوبکر کے دور میں ہوئی تھی اس کا معنی یہ ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے بھی پہلے وضع کی جاچکی تھی اور اس سے پہلے سے ہی استعمال بھی ہورہی تھی پس کس طرح حضرت عمر نے ۱۶ ھ میں تاریخ معین کی ؟اور سھیلی و ابن عباس و غیرہ کے کلام سے مذکورہ بات کی تائید ممکن ہے_

۱۳_ حافظ عبدالرزاق نے ابوھریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا: ''ہلاکت ہے عربوں کے لئے اس بدبختی سے جو ساٹھ سال پورے ہونے پر آئے گی _جب امانت کو غنیمت سمجھا جائے گا ...''(۳) _

۱۴_ اسی طرح عبدالرزاق نے ہی ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا :''جب پینتیس برس

____________________

۱) مجمع الزوائد ج۹ ص۱۹۰عن الطبری اوراس کی سند میں کوئی اعتراض نہیں مگر سعد بن طریف میں اور وہ بھی خود ان کی تصریح کے مطابق اس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ہے تاریخ بغدادج/۱ص۱۴۲، الالمام ج/۵ص ۲۹۹، کنزالعمال ج/۱۳ص۱۱۳ط حیدرآباد،میزان الاعتدال ج/۱ص۲۱۲عن الطبرانی وا لخطیب و ابن عساکر ،منتخب کنز العمال (حاشیہ مسنداحمد)ج/۵ ص۱۱۱، مقتل الحسین خوارزمی ج/۱ ص ۱۶۱ ، احقاق الحق ج/۱۱ ص ۳۵۴ از گذشتہ بعض و از مفتاح النجا ص ۱۳۶ قلمی نیز از امعجم الکبیر طبرانی، زندگینامہ امام حسینعليه‌السلام از تاریخ دمشق با تحقیق محمودی ص ۱۸۵_

۲) مجمع الزوائدج/۱ص ۱۹۷ ، عن ابی یعلی ، یہ روایت مختلف الفاظ اور مختلف اسناد سے نقل کی گئی ہے ، لیکن ان میں لفظ ( من الہجرة) نہیں ہے_

۳)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_

۶۵

پورے ہوں گے تو ایک امر عظیم حادث ہوگا پس اگر تم ہلاک ہوگئے تو اس کے لائق ہو گے اور اگر نجات پاگئے تو اس کی امید ہے اور جب ستر برس پورے ہوں گے تو تم انوکھی چیزیں دیکھوگے(۱) _

ابن مسعوداور ابوہریرہ نے اس کا علم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا ہے کیونکہ یہ غیب گوئی ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجری تاریخ مقر ر فرمائی _

۱۵_ ایک حدیث جس کے راوی موثق ہیں یہ ہے کہ : ہم ساٹھ ہجری سال کے پورے ہونے سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ ۶۰ ھ اور بچوں کی فرمانروائی سے(۲) _

ابوہریرہ سے مروی ہے : '' خدایا مجھے ۶۰ ھ اور بچوں کی حکومت دیکھنا نصیب نہ کر''(۳) _

۱۶_ مالک نے نافع سے اور اس نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ جب ایک سوستر سال پورے ہوجائیں تو جدّہ میں رہائشے پذیر ہونا بہترین اقامت اختیار کرنے میں سے ہوگا(۴) _

خلاصہ بحث:

گذشتہ امور سے واضح ہوجاتاہے کہ لوگوں کے درمیان مشہور یہ بات کہ حضرت عمر نے اسلامی ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی، ناقابل قبول ، بلا دلیل اور بے بنیاد ہے_ البتہ حضرت عمر کے دور میں صرف یہ ہوا کہ ربیع الاّول کی بجائے محرم کو ہجری سال کا مبدا قرار دیا گیا اورایسا انہوں نے یا توخود کیا تھا یا حضرت عثمان کے مشورہ سے _ جبکہ محرم ( جیسا کہ سب کو معلوم ہے) زمانہ جاہلیت میں سال کا مبداء شمار ہوتا تھا(۵) _ بعید نہیں کہ ہجری تاریخ جسے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمائی تھی اور کئی بار لکھی بھی تھی،اس زمانہ میں تاریخ کی ضرورت کم ہونے کی وجہ سے لوگوں میں مشہور نہ ہوسکی ہو اور پھر حضرت عمر نے صحابہ کو اکٹھا کیا ہو تا کہ تاریخ

____________________

۱)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_ (۲) تطہیر الجنان واللسان ص ۶۶ ۱۳۷۰ نیز کنز العمال ج۱۱ ص ۱۱۳_

۳)الاتحاف بحبّ الاشراف ص ۶۵ از ابن ابی شیبہ و غیرہ _ (۴) لسان المیزان ج/۲ ص ۷۹_

۵)البدایة والنہایہ ج۳ ص ۲۰۶ و ص ۲۰۷ نیز السیرة النبویة ابن کثیر ج۲ ص ۲۸۸ و ۲۸۹_

۶۶

پر اتفاق حاصل ہوجائے(۱) لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جن کی غرض یہ تھی کہ جس تاریخ کا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا اور جس تاریخ کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمایا تھا اس کو طاق نسیان میں رکھ دیا جائے _ اس لئے کہ فلاں آدمی رومی تاریخ کا مشورہ دے رہا تھا، یہود یت سے اسلام لانے والے کچھ مسلمان ایسی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں جو سکندر اورہر مزان کے دورکی طرف لوٹتی ہے اور ان لوگوںسے حضرت عمر یہ مشورے لے رہے تھے حالانکہ حضرت عمر ایرانیوں سے شدید نفرت کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ لوگ اسے ایرانی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں کہ جب کوئی بادشاہ ہلاک ہوجاتا تو وہ نئے بادشاہ کی تاج پوشی کے دن سے تاریخ کی ابتدا کرتے تھے_ (یعنی ...؟) کوئی مولد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعنی عام الفیل کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کا مشورہ دیتاہے واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت کے آخری سالوں میں عرب عام الفیل سے تاریخ لکھتے تھے_ اور مسعودی کے الفاظ کے مطابق:

(و کثر منهم القول و طال الخطب فی تواریخ الاعاجم و غیرها) (۲)

عجمیوں و غیرہ کی تاریخوں میں ان کے درمیان اقوال زیادہ ہوگئے اور بحث لمبی ہوگئی_

یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں تو محافظ دین اورحق کے علمبردار حضرت علیعليه‌السلام نے مناسب وقت میں اس ہجری تاریخ کا اعلان کیا جسے خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرّر فرمایا تھا اور خود انہوں نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی حیات طیبہ میں متعدد خطوط اور معاہدوں میں لکھا تھا_

آپعليه‌السلام کی رائے اور نظریہ کو قبول کرنے اور آپعليه‌السلام کے مشورہ کو دل و جان سے مان لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ حق ہے''والحق یعلو ولا یعلی علیه '' _نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یوم ولادت و رحلت کی بجائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کی وجہ ارض شرک سے (جہاں ذلت، گمراہی اور پستی تھی) ارض

____________________

۱) علامہ محقق سید مہدی روحانی نے اپنے مقالہ میں یہ احتمال دیا ہے اور یہ مقالہ ما ہنامہ '' الھادی'' سال اول شمارہ نمبر ۴ ص ۴۸ میں شائع ہوا ہے_

۲) التنبیہ الاشراف ص ۲۵۲_

۶۷

اسلام کی طرف (جہاں عزت ، شرافت اور سربلندی تھی) ہجرت کی اہمیت تھی اور انسانیت اور تاریخ کی تشکیل کے اعتبار سے یہ چیز نہایت اہمیت کی حامل ہے_ اسی طرح آپعليه‌السلام نے اس عمل سے ہرذلت آمیز رائے اور ظالم و جابر اور طاغوتی حکمرانوں سے وابستہ واقعات کو تاریخ کا مبداء قرار دینے سے اجتناب کیا _ اور بہتی گنگا کی لہروں کا دھارا بننے سے بھی پرہیز کیا جبکہ عام لوگوں میں یہ چیز عام ہوتی ہے اور ان کی رگ و پے میں خون اور زندگی کی طرح گردش کررہی ہوتی ہے_

پھر عیسوی تاریخ کیوں؟

اس کے بعد ہم یہاں نہایت افسوس اور گہرے ملال سے یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ اہل مغرب اور غیر مسلم تواپنی تاریخ، تمدن اور واقعات کی حفاظت کرتے ہیں _ اور خواہ وہ کتنے ہی حقیر اور بے اہمیت ہوں کسی طر ح بھی ان سے دستبردار نہیں ہوتے بلکہ انہیں پھیلانے اور دوسری قوموں میں انہیں ترویج دینے اور راسخ کرنے کے درپے ہوتے ہیں _ حتی کہ اسلامی واقعات اور تاریخ کو لکھنا چاہتے ہیں تو ہجری تاریخ کو عیسوی تاریخ سے بدل کر لکھنے پر اصرار کرتے ہیں خواہ ایسا کرنے سے کتنے ہی حقائق مسخ ہوجائیں اور ان میں اشتباہ و غلطی ہوجائے_

لیکن دوسری طرف ہم ترقی ، ترقی یافتہ اور تہذیب و ثقافت و غیرہ جیسے بے وزن اور خوشنما الفاظ اور نعروں کا فریب کھاکے اپنی بہت سی بنیادی اور اساسی چیزوں سے بآسانی دستبردار ہوجاتے ہیں حالانکہ ان نعروں کے پس پردہ ہزاروں خطرات اور بربادیاں چھپی ہوئی ہوتی ہیں _ حتی کہ بعض اسلامی ممالک نے تو عربی رسم الخط کو چھوڑ کر لاطینی اور انگریزی رسم الخط کو اپنا لیا ہے _ بلکہ اپنے رنگ ڈھنگ اور لباس جیسے حیاتی اور ضروری امور کو چھوڑ کر غیروں کے اقدار اپنالئے ہیں_ بالکل یہی صورتحال ہجری تاریخ کے متعلق بھی ہے_

ہم نے کس سہولت سے ہجری تاریخ کو چھوڑ دیا ہے جب کہ یہ ہماری عزت و سربلندی کا سرچشمہ تھی

۶۸

اس سے ہماری تاریخ اور ثقافت قائم تھی ہم نے اس کی جگہ عیسوی تاریخ کو اپنا لیا جو تقریباً چوتھی صدی ہجری میںیعنی اسلامی ہجری تاریخ کے وضع ہونے کے بہت عرصہ بعد ظاہر ہوئی عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کے دن سے نہیں بلکہ ان کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے دن سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں _(۱) بلکہ ایک اور دستاویز کے مطابق جناب سکندر ذوالقرنین کے دور سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں(۲) حتی کہ ابن العبری نے بھی ( جو عیسائیوں کے بہت بڑے پادری شمار ہوتے تھے اور کارڈینال کے درجہ کے برابر ان کا رتبہ تھا اور ۶۸۵ ہجری کو فوت ہوئے انہوں نے بھی) اپنی کتاب میں عیسوی تاریخ کبھی نہیں لکھی بلکہ کئی مقامات پر تاریخ سکندری سے کتاب کو مزین کیا _ پس اگر اس وقت عیسوی تاریخ عام اور معروف ہوتی تو وہ اس سے ہرگز روگردانی نہ کرتے_ اسی طرح ۹۰۲ ہجری کو وفات پانے والے سخاوی کے کلام سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ دسویں صدی ہجری کے اوائل تک بھی میلاد مسیح کی تاریخ رائج نہیں تھی_

لیکن بہت سی ایسی حکومتیں ہمارے سامنے ہیں جو اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے نام سے یاد کرتی ہیں اور بہت سی قومیں جو خود کو اسلام سے منسوب کرتی ہیں انہوں نے صرف عیسوی تاریخ کو اپنا رکھاہے فارسی اور رومی تاریخ کو بھی نہیں اپنایا ہاں انہوں نے صرف تمدن و ترقی کے نام پر اور اس قسم کے دلکش اور پرفریب نعروں کی وجہ سے عیسوی تایخ کو محور نظام بنایا جبکہ اپنی عظمت و سربلندی کی اساس ،تاریخ اور ثقافت کو چھوڑ دیا ہے اس طرح بہت سے عظیم اور اہم امور سے دستبردار ہوچکے ہیں جب کہ ان سے پیچھے ہٹنا نہایت دشوار اور خطرناک ہے_

نکتہ:

ایک روایت کے مطابق حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے پوچھا گیا کہ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کانون (رومی مہینہ) کی چوبیس تاریخ کو ہے (آپعليه‌السلام کیا فرماتے ہیں ؟) جس پر آپعليه‌السلام نے فرمایا: '' وہ

____________________

۱)الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۸۳ _

۲)نزہة الجلیس ج۱ ص ۲۲ نیز ملاحظہ ہو کنز العمال ج ۱۰ ص ۱۹۵ از مستدرک و از کتاب الادب صحیح بخاری_

۶۹

جھوٹ کہتے ہیں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت حزیران (رومی مہینہ) کے نصف میں ہوئی جو گردش ایام کے حساب سے آذر (فارسی مہینہ) کا بھی نصف بنتاہے''(۱) ( جس سے معلوم ہوتاہے کہ فارسی اور رومی مہینے، عیسوی مہینوں سے پہلے اور معروف تھے کہ عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی پیدائشے کو ان تاریخوں سے مطابقت دے رہے ہیں _ اور یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ صحیح مطابقت نہیں دے پائے_ از مترجم)

مخلصانہ اپیل

ہم امت مسلمہ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے امور اور تقویم ( کیلنڈروں ) میںہجری تاریخ کو اپنائیں چونکہ اس طرح ان کا ماضی ان کے حال سے متصل ہوجائے گا اور یہی چیز انہیں ان کی عزت و سربلندی کا راز یاد دلائے گی اور یہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالی نے ان کے لئے اور تمام انسانیت کے لئے اختیار فرمایا ہے_ علاوہ ازیں اگر فرض کریں کہ تاریخ کا مبداء بڑے اور عظیم واقعات ہونے چاہئیں تو پھر کونسا واقعہ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ظہور سے عظیم تر ہے اور کونسا بڑا واقعہ اس عظیم واقعہ کی برابری کرسکتاہے_

علامہ مجلسی (رہ) کا کہنا ہے : (ہجری تاریخ کو اپنانے کی) اصلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ (ہجرت) اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کا ابتدائیہ، دینی احکام کے ظہور کا افتتاحیہ، مشرکوں کی قید سے مسلمانوں کی رہائی کی شروعات اور ہجرت کے بعد دین مبین کے قواعد کی تاسیس جیسے دوسرے اہم کاموں کا ابتدائیہ تھی''(۲) _

میں امت اسلامی خصوصاً عربوں سے گزارش کرتاہوں اگر ہم دینی لحاظ سے بھی اس سے صرف نظر کرلیں تب بھی عرب ہونے کے ناطے اس کو اہمیت دینی چاہئے اور اس مقام پر انہیں سید الشہداء امام حسینعليه‌السلام

____________________

۱)بحارالانوار ج۷۵ ص ۳۶ ، تحف العقول ، مختصر التاریخ ابن کازروفی ص ۶۷ اور مروج الذہب ج۲ ص۱۷۹ و ص ۱۸۰_

۲)بحارالانوار ج۸۵ ص ۳۵۱_

۷۰

کا بہترین قول یاد دلاتاہوں کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا:

(ان لم یکن لکم دین و کنتم لا تخافون المعاد فکونوا احراراً فی دنیاکم هذه و ارجعوا الی احسابکم ان کنتم عرباً کما تزعمون )(۱)

اگر تم کسی دین کے قائل نہیں اور قیامت کا خوف نہیں رکھتے تو کم از کم اپنی اس دنیا کے معاملے میں تو آزاد رہو اور اپنے آبا ء و اجداد کے محاسن ومفاخر کو مدّنظر رکھو اگر تم اپنے آپ کوعرب سمجھتے ہو_

بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ وہ انہیں ان کا بہترین منشور عطا فرمائے او ر اپنی عقول و ضمائرسے راہنمائی حاصل کرنے والوں میںقرار دے_

اگروہ ہر چیز میں دوسروں کی تقلید کرنا چاہتے ہیں تو اس معاملے میں بھی ان کی تقلید کریں یعنی دوسروں کی تقلید اس طرح کریں کہ ہم اپنے عظیم تمدن اور اعلی روایات سے دستبردار نہ ہونے پائیں تا کہ دوسروں کے دست نگر نہ ہوں اور ایسی چیزیں اخذ نہ کریں جن کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ ہو_

''قل هذا سبیلی ادعوا الی الله علی بصیرة اناومن اتبعنی''

۲_ مدینہ میں مسجد کی تعمیر :

مسجد والی جگہ یا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خریدی تھی یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہدیہ کی گئی تھی ، اس بارے میں کہا جاتاہے کہ اس جگہ قبیلہ خزرج کے دو یتیم بچوں کے اونٹوں کا باڑہ تھا اور وہ بچے اسعد بن زرارہ یا کسی اور شخص کے زیر کفالت تھے، ایک قول کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ جگہ دس دینار میں خریدی _

وہاں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کی بنیاد رکھی، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس اپنے اصحاب کے ساتھ مل کر(مدینہ کے

____________________

۱)اللہوف ص۵۰ نیز مقتل الحسین مقرم ص ۳۳۵ ازلہوف_

۷۱

مضافات میں) سیاہ پتھروں پر مشتمل ''حرّہ'' نامی زمین سے پتھر اٹھاکر لاتے تھے، اس کام میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت کی وجہ سے اصحاب اور زیادہ کوشش اورتگ و دو سے کام کرتے تھے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے یہ شعر پڑھا_

لئن قعدنا و النبی یعمل

لذاک منا العمل المضلل

(اگر ہم آرام سے بیٹھ جائیں اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کام میں مشغول رہیں ( تو یہ درست نہیں) لہذا ہم اسی وجہ سے سخت طاقت فرسا کام میں مصروف ہیں)_

مسجد کی تعمیر کے وقت مسلمین یہ رجز پڑھ رہے تھے_

لا عیش الا عیش الآخرة

اللّهم ارحم الانصار والمهاجرة

(زندگی تو صرف آخرت اور جنت کی ہی زندگی ہے، خدایا انصار و مہاجرین پر رحم فرما)

اور اسطرح کے دیگر اشعار(۱) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کا طول و عرض تقریباً سوسو ذراع (ہاتھ)قرار دیا(۲) ایک اور قول کے مطابق طول ستر ذراع (ہاتھ)(۳) اور عرض ساٹھ ذراع قرار دیا(۴) ، احتمال ہے کہ یہ دونوں قول صحیح ہوں اور وہ اس طرح کہ پہلی دفعہ تعمیر کرتے وقت آپ نے لمبائی میں ستر اور چوڑائی میں ساٹھ ذراع پر بنیادیں رکھی ہوں جبکہ تعمیر نو کے وقت اس میں توسیع کردی ہو(۵) _

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کے اطراف میں اپنے اور اپنے اصحاب کے گھر بنائے شروع میں ہر گھر کا دروازہ مسجد کے صحن کی طرف کھلتا تھا لیکن بعد میں امیر المؤمنین علیعليه‌السلام کے گھر کے علاوہ باقی تمام دروازے بند کردیئے گئے ، انشاء اللہ بعد میں ہم اس بات کی زیادہ وضاحت کریں گے _ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم یہاں مؤرخین کے بعض اقوال کا جائزہ لیں_

____________________

۱) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ص ۶۴ و ۶۷ و ۷۱_ (۲)یعنی تقریباً ۹۱ میٹر سے کچھ زیادہ طول اور اتنا ہی عرض (مترجم)

۳)یعنی تقریباً ۶۷ میٹر کے لگ بھگ (مترجم) (۴)یعنی تقریباً ۴۹ میٹر سے کچھ کم (مترجم)

۵)وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۴۰ اور اس کے بعد _ نیز ملاحظہ ہو: تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۶۵ و ۳۶۶ اور التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۷۲

الف: حضرت ابوبکر اوردس دینار:

اہل سنت مؤرخین نے لکھا ہے کہ مسجد کی جگہ کو خریدنے کیلئے حضرت ابوبکر نے دس دینار ادا کئے(۱) _

لیکن ہماری نظر میں یہ بات مشکوک ہے اس لئے کہ :

اولاً: حضرت ابوبکر کی مالی حالت اس قدر مستحکم نہ تھی کہ وہ یہ رقم ادا کرسکتے، اگر فرض کریں کہ ان کی مالی حالت بہتر تھی تب بھی ہمیں شک ہے کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہو اور اس کی دلیل ہم واقعہ غار میں ذکر کرچکے ہیں_

ثانیاً:اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو بھی اس کے برعکس کچھ اور روایات بھی موجود ہیں _ جن میں سے ایک روایت کے مطابق اسعد بن زرارہ نے اس زمین کے بدلے میںبنی بیاضہ میں اپنا کھجور کا ایک درخت ان یتیموں کو دیا تھا، جبکہ دوسری روایت میں آیاہے کہ ابوایوب نے کسی طرح انہیں راضی کیا تھا اور تیسری روایت کے بقول معاذ بن عفراء نے یہ کام انجام دیا تھا(۲) _

بعض مؤرخین نے احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے حضرت ابوبکر نے زمین کی قیمت ادا کی ہو جبکہ بعض دیگر صحابہ نے محض اجر و ثواب اور نیکی کے طور پر زمین کی اصل قیمت کے علاوہ ان یتیموں کو یہ سب کچھ دیا ہو(۳) _

لیکن یہ احتمال بھی دیا جاسکتاہے کہ دیگر صحابہ نے زمین کی اصل قیمت ادا کی ہو اور حضرت ابوبکر نے صلہ و نیکی کے طور پر کچھ رقم ادا کی ہو، اس طرح پہلے احتمال کو اس دوسرے احتمال پر ترجیح نہیں دی جاسکتی ، علاوہ ازیں یہ احتمال روایت میں موجود کلمہ ''عوضھما'' کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا اس لئے کہ اس کلمے سے واضح ہوتاہے کہ ایک تو یہ چیز زمین کی قیمت تھی اور دوسرا وہ رقم اس زمین کے بدلے میں تھی نیکی اور صدقہ کے طور پر نہیں تھی_

ثالثاً : صحیح بخاری و غیرہ میں لکھا ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص کو بنی نجار کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۶۵_

۲) البدایة و النہایةج ۳ص۳۱۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص۳۲۳ و ص ۳۲۴، (روایت ابن حجر) ، السیرة الحلبیة ج ۲ص ۶۵_

۳) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۳ ، ۳۲۴_

۷۳

کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس زمین کے محدودے کی قیمت طے کریں_ تو انہوں نے جواب دیا :'' قسم بخدا ہم خدا کے علاوہ کسی اور سے اس زمین کی قیمت وصول نہیں کریں گے''(۱) _

ب: پتھراور خلافت

حاکم نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ مسجد کیلئے سب سے پہلا پتھر خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٹھاکر لائے تھے پھر دوسرا پتھر حضرت ابوبکر (تیسرا حضرت عمر(۲) )اور چوتھا حضرت عثمان اٹھاکر لائے ، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ دیکھ کر میں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کی : ''کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی طر ف نہیں دیکھتے کہ یہ کس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کررہے ہیں ''؟ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''اے عائشہ ، میرے بعد یہ میرے خلیفہ ہوں گے ''یہ حدیث شیخین کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن خود انہوں نے اسے ذکر نہیں کیا(۳) _

اس روایت کے الفاظ میں موجود تضاد و تناقض کے علاوہ درج ذیل امور کی بنا پر اس حدیث کا صحیح ہونا ہرگز ممکن نہیں_

اولاً : ذہبی اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو یہ تینوں خلفاء کی خلافت پر نصّ ہوتی جبکہ یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں ، اس لئے کہ حضرت عائشہ اس وقت ایک کم سن پردہ نشین بچی تھیں اور ابھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہی نہیں ہوئی تھیں ، پس ان سے اس حدیث کو منسوب کرنا، اس حدیث کے جھوٹے ہونے پر دلالت کرتاہے(۴) _البتہ ہم ان کے کم سن ہونے والی بات پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں_

ابن کثیر کہتے ہیں : ''اس سیاق و سباق کے ساتھ یہ حدیث بالکل عجیب وغریب ہے''(۵) _

____________________

۱) صحیح البخاری ج۱ص ۵۷ ، تاریخ الطبری ج۲ص ۱۱۶ ، الکامل لابن اثیرج ۲ ص۱۱۰ وفاء الوفاء ج ۱ص ۳۲۳ _ نیز التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۲) حضرت عمر کا ذکر صرف تلخیص المستدرک کی روایت میں ہوا ہے_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ص۹۶ ، ۹۷ ، وفاء الوفاج ۱ص۳۳۲ ، ۳۳۳ ، ۳۵۱ ، البدایة والنہایة ج۳ ص ۲۱۸ ، اورج ۶ص ۲۰۴ ( انہوں نے وضاحت کی ہے کہ یہ واقعہ مسجدمدینہ کی تعمیر کے وقت پیش آیا) السیرة الحلبیةج ۲ص ۵۶ ، ۶۶ ، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۴ ، ۳۴۳ نیز دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۲۷۲_

۴) تلخیص المستدرک ذہبی ج ۳ص ۹۷ ( مستدرک الحاکم ج۳ ص ۹۷کے حاشیے پرمطبوع )_ (۵) البدایة والنہایة ج۳ص ۲۱۸ _

۷۴

ثانیاً:حدیث سفینہ پر اشکال و اعتراض کرتے ہوئے بخاری نے '' خلافت اور پتھر'' کی حدیث(۱) کے بارے اپنی تاریخ میںلکھا ہے :_

ابن حبان نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا کیونکہ حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علیعليه‌السلام ( البتہ یہ انہی لوگوں کے الفاظ ہیں)کہا کرتے تھے : '' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر نہیں کیا ''(۲) _

یہاں بخاری یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس لحاظ سے یہ حدیث خود اہل سنت کے اس عقیدے سے بھی تضاد رکھتی ہے کہ جس کے مطابق رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہ تو کسی شخص کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا اور نہ ہی خلافت کے بارے میں کوئی وضاحت فرمائی تھی ، اور اسی بناپر اہل سنت حضرت ابوبکر کے ہاتھ آنے والی خلافت کو درست قرار دیتے ہیں_ بلکہ حضرت عائشہ سے یہ روایت بھی منقول ہے : '' اگر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر فرماتے تو (میرے خیال میں) ضرورحضرت ابوبکر و حضرت عمرکوہی خلیفہ مقرر فرماتے'' اس حدیث کو ذہبی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے(۳) _

علامہ امینی علیہ الرحمہ نے اپنی گراں قدر تصنیف '' الغدیر'' (ج/۵ ص ۳۵۷ تا ۳۷۵) میں علمائے اہل سنت کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خلافت ایک انتخابی امر ہے (یعنی معاملہ لوگوں کے انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے) پس یہ حدیث ان کے مذہب کے مطابق بھی جھوٹی ہے اور حقیقت میں بھی جھوٹی ہے اس لئے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کا واضح اعلان فرمایا اور اس بارے میں بے شمار روایات منقول ہیں انہی روایات کے ذریعے امیرالمؤمنینعليه‌السلام ، آپعليه‌السلام کے اصحاب ، اہل بیت ، آپکی اولاد اور آپعليه‌السلام کے شیعہ ، اس وقت سے آج تک آپعليه‌السلام کی خلافت پر استدلال کرتے چلے آرہے ہیں، شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہوکہ جس میں ان بے شمار متواتر روایات یا خبر واحدمیں سے کوئی روایت نقل نہ کی گئی ہو(۴) _

____________________

۱) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۱۳_ (۲) السیرة الحلبیہ ج ۲ص۶۶_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۷۸_

۴)بطور مثال ملاحظہ ہو: الغدیر ج۱ ص ۱۹۵ ا ص ۲۱۳_

۷۵

ثالثاً : اس روایت کے مطابق مسجد کی تعمیر میں سب سے پہلے پتھر رکھنے والوں میں حضرت عثمان بھی شامل تھے لیکن خود اہل سنت کے مؤرخین کے بقول حضرت عثمان اس وقت حبشہ میںتھے اور مدینہ میں موجود نہ تھے جیسا کہ سمہودی نے اس طرف اشارہ کیا ہے اسی وجہ سے سہیلی نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے حضرت عثمان کو حذف کرتے ہوئے اس کے نام کو ذکر نہیں کیا(۱) _

اور جب حاکم کی کتاب طبع ہوئی تو اس روایت میں سے حضرت عثمان کا نام حذف کردیا گیا اس کے پیچھے بھی شاید یہی راز پوشیدہ تھا ، حالانکہ ذہبی نے اپنی تلخیص میں اس روایت کو ذکر کیا ہے _اور اسے تحریف کہا جاتاہے جو دین، امت اور کسی فرقے کے حقائق کے ساتھ خیانت میں شمار ہوتی ہے_

کیونکہ بطور خلاصہ واقعہ یوں ہے کہ حضرت عثمان اگر چہ اہل مکہ کے اسلام لانے کی خبر سن کر مکہ پلٹ آئے تھے لیکن حقیقت حال کا پتہ چلنے پردوبارہ واپس حبشہ چلے گئے تھے ، جیسا کہ خود اہل سنت مؤرخین کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی(۲) عسقلانی کہتے ہیں :'' جب حبشہ میں موجود مسلمانوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کا علم ہوا تو ان میں سے تیس آدمی واپس مکہ لوٹ آئے ، ان میں ابن مسعود بھی تھے ، جو اس وقت مکہ پہنچے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے(۳) (تو پھر عثمان کہاں سے شریک ہوسکتے ہیں؟)_

ج: حضرت عثمان اور حضرت عمار:

مؤرخین لکھتے ہیں : حضرت عثمان بہت صفائی پسند اور صاف ستھرے رہنے والے آدمی تھے، جب مسجد کی تعمیر کیلئے اینٹیں اٹھاتے تو انہیں اپنے کپڑوں سے دور رکھتے تھے اور جب اینٹوں کو مسجد کے پاس رکھتے تو

____________________

۱) وفاء الوفاء ج۱ ص ۲۵۲ _

۲) طبقات ابن سعد ج ۱حصہ اول ص۱۳۸ ، الکامل لابن اثیرج۳ص۱۸۵،البدء والتاریخ ج۱ص۲۲،اس کتاب کی روایت کے مطابق حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کے وقت کشتی میںحضرت عثمان کی زوجہ حضرت رقیہ کا حمل گر گیا تھا _

۳) فتح الباری ج۷ص۱۴۵_

۷۶

اپنی آستینوں کو جھاڑتے اور اپنے کپڑوں کو دیکھتے کہ کہیں ان پر مٹی تو نہیں لگی ، اگر مٹی لگی دیکھتے تو اسے جھاڑ دیتے تھے، حضرت علیعليه‌السلام ابن ابیطالب نے انہیں دیکھ کر یہ اشعار پڑھے_

لا یستوی من یعمر المساجدا

یدأب فیها قائما ً و قاعداً

و من یری عن التراب حائداً

( وہ شخص جو مساجد کی تعمیر میں کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر نہایت کوشش و مشقت سے کام کرتاہے اس شخص کے برابرنہیں ہوسکتا جو مٹی سے دور رہنے کی کوشش کرتاہے)_

جب حضرت عمار یاسر نے یہ اشعار سنے تو انہوں نے ان اشعار کو دہرانا شروع کردیا ، اگر چہ انہیں معلوم نہ تھا کہ ان اشعار سے مراد کون ہے؟ اسی اثناء میں جب وہ حضرت عثمان کے پاس سے گزرے تو حضرت عثمان( جن کے ہاتھ میں اس وقت ایک چھڑی تھی) نے ان سے کہا : ''اے سمیہ کے بیٹے یہ کس کی عیب جوئی کررہے ہو؟'' پھر کہا :'' چپ ہوجاؤ ورنہ (یہی چھڑی) تیرے چہرے پر ماروںگا''_ یہ بات نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سن لی ، اس وقت آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجرہ ام سلمہ کے سائے میں تشریف فرماتھے، یا ایک اور روایت کے مطابق اپنے حجرہ کے سائے میں آرام کررہے تھے، یہ سن کر آنحضرت سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا: ''بے شک عمار بن یاسر میری ناک اور آنکھوں کے درمیان موجود جلد (پیشانی) کی مانند ہیں''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دو آنکھوں کے درمیان اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا: ''جب کوئی شخص اس مقام تک پہنچ جائے تو یہ قربت کی انتہا ہے''_

یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کو انہیں آزار و اذیت پہنچانے سے باز رکھا، پھر لوگوں نے حضرت عمار سے کہا : ''رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی وجہ سے ہمارے ساتھ ناراض اور غضبناک ہوئے ہیں، ہمیں ڈر ہے کہیں ہمارے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہ ہوجائے'' حضرت عمار نے کہا : ''جس طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناراض و غضبناک ہوئے ہیں میں ابھی اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راضی کرتاہوں''_

پھر حضرت عمار نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی : ''یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو مجھ سے کیا

۷۷

دشمنی ہے؟ ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' ان کی طرف سے تمہیں کیا تکلیف پہنچی ہے؟ ''عرض کی :'' وہ میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں ، خود تو ایک ایک اینٹ اٹھاتے ہیں جبکہ میرے اوپر دو دو تین تین اینٹیں لاد دیتے ہیں''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کا ہاتھ پکڑا اور مسجد کے اندر چکر لگایا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بالوں سے خاک جھاڑتے ہوئے فرمایا : ''اے ابن سمیہ تمہیں میرے اصحاب قتل نہیں کریں گے بلکہ تم ایک باغی گروہ کے ہاتھوں قتل ہوگے(۱) ...''_

کیا حضرت عثمان حبشہ میں نہ تھے؟

ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ حضرت عثمان مسجد کی تعمیر کے وقت وہاں موجود نہ تھے اور اس وقت وہ حبشہ میں تھے_

شاید یہی وجہ ہے کہ عسقلانی اور حلبی نے حضرت عثمان بن عفان کی جگہ اس روایت میں عثمان بن مظعون کا نام ذکر کیا ہے(۲) _

ہم اس سوال اور اعتراض کا جواب دینے سے پہلے گذشتہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیں کہ اس کی یہ توجیہ کرنا بھی نامناسب ہے کہ '' رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک سال یا سات ماہ تک ابوایوب کے ہاں قیام پذیر رہے اور اسی دوران آپ اپنے گھر اور مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے، ممکن ہے کہ اس وقت یہ خبر حبشہ میں مہاجرین تک پہنچی ہو اور اس دوران وہ مدینہ آتے رہے ہوں اور شاید حضرت عثمان بھی ان میں سے ایک ہوں وہاں انہوں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا اور مذکورہ واقعہ پیش آیا ہو، اگر چہ مسجد کی بنیاد رکھتے وقت اور خلافت کے پتھر رکھنے میں وہ شریک نہ ہوسکے ہوں''_

بہر حال ہمارے نزدیک یہ بعید ہے کہ مسلمان اتنے طویل عرصہ تک مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے ہوں

____________________

۱) سیرة ابن ھشام ج۲ص۱۴۲، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۵ ، اعلاق النفیسة ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۹ ، السیرة الحلبیة ج۲ص۷۲ ، علامہ امینی نے '' الغدیر'' کی نویں جلد میں (ص ۲۱ سے ۲۷ تک) اس واقعہ کے بہت زیادہ مصادر و منابع ذکر کئے ہیں، ہم نے صرف چند ایک ذکر کئے ہیں ، مزید تحقیق کیلئے '' الغدیر'' ج۹ کی طرف رجوع فرمائیں_

۲) السیرة الحلبیة ج ۲ص۷۱ ، حاشیہ سیرت النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابن ھشام ج ۲ص۱۴۲_ از مواہب اللدنیہ_

۷۸

اس لئے کہ وہ دسیوں کی تعداد میں تھے اور اہل مدینہ میں سے اسی(۸۰) سے زیادہ افرادتو مقام عقبہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بیعت کرچکے تھے_

صحیح بات یہ ہے کہ ظاہراً حضرت عمار اور حضرت عثمان کا مذکورہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے وقت پیش آیا اور یہ جنگ خیبر کے بعد کی بات ہے یعنی ہجرت کے ساتویں سال(۱) اور درج ذیل امور اسی بات کے صحیح ہونے پر دلالت کرتے ہیں:

اولاً: بیہقی نے اپنی کتاب'' الدلائل'' میں روایت کی ہے کہ جب حضرت عمار قتل کردیئے گئے تو عبداللہ بن عمرو بن العاص نے اپنے والد(عمرو بن العاص) سے کہا: ''اس شخص (حضرت عمار) کو ہم نے قتل کیا ہے جبکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا وہ بھی پتاہے''_ اس کے والد نے پوچھا:'' تم کس شخص کی بات کررہے ہو؟ ''تو اس نے جواب دیا : ''عمار یاسر کی'' پھر کہا : ''کیا تمہیں یاد نہیں جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد تعمیر کررہے تھے تو اس وقت ہم ایک ایک اینٹ اٹھاکر لارہے تھے جبکہ عمار یاسر دو دو ا ینٹیں اٹھالاتا تھا چنانچہ اسی دوران جب وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے گزرا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تم دو دو اینٹیں اٹھاکر لارہے ہو حالانکہ تمہارے لئے یہ ضروری نہیں ہے جان لو کہ تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور تم اہل جنت میں سے ہو''_ پھر عمرو معاویہ کے پاس گیا الخ_(۲)

سمہودی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:'' اس بات سے پتہ چلتاہے کہ دوسری بار مسجد کی تعمیرکے وقت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا، اس لئے کہ عمرو نے ہجرت کے پانچویں برس اسلام قبول کیا تھا ''(۳) _

عبدالرزاق و غیرہ سے مروی ہے کہ عمرو بن عاص معاویہ کے پاس گیا اور اس نے معاویہ سے کہا کہ ہم

____________________

۱) وفاء الوفاء ج ۱ص۳۳۸_

۲)تذکرة الخواص ص ۹۳ از طبقات ابن سعد، الفتوح ابن اعثم ج۳ ص ۱۱۹ و ۱۳۰ ، الثقات ابن حبان ج۲ ص ۲۹۱ ، انساب الاشراف ; با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۳۱۳و ص ۳۱۷ ، طبقات ابن سعد ج۳ حصہ اول ص ۱۸۰ و ۱۸۱ المصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۱۶۴ ، حاشیہ انساب الاشراف ج ۲ ص ۳۱۳ ; تحقیق محمودی،المناقب خوارزمی ص ۱۶۰ ، وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱و ۳۳۲_

۳) وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱ و ۳۳۲_

۷۹

نے سنا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمار کے بارے ہیں فرمارہے تھے: ''اسے (عمار کو) ایک باغی گروہ قتل کرےگا''(۱) _

اور معاویہ کے پاس دو آدمی آئے جو حضرت عمار کے سرکے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے ، عبداللہ بن عمرو بن العاص نے انہیں دیکھ کر کہا :'' عمار کے سر کی بابت تمہیں اپنے ساتھی کے لئے راضی ہو جانا چاہئے ، کیونکہ میں نے عمار کے بارے میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : '' عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا _'' اس پر معاویہ نے عمرو سے کہا: ''تو اپنے اس پاگل کو ہم سے دور کیوں نہیں کرلیتا ''(۲) _

اور یہ واضح ہے کہ حضرت عمار کا واقعہ ایک ہی دفعہ اور ایک ہی مناسبت سے پیش آیاہے_

ثانیاً: خود روایت میں قرینہ موجود ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ یہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے دوران پیش آیا تھا، کیونکہ روایت میں ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وقت حضرت ام سلمہ کے حجرے کے سائے میں تشریف فرماتھے اور یہ بات واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے مسجد تعمیر فرمائی تھی اور اس کے بعد اپنے حجرے تعمیر کئے تھے(۳) نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ گھر اکٹھے تعمیر نہیں کئے تھے بلکہ ضرورت کے ساتھ ساتھ انہیں تدریجی طور پر تعمیر کیا تھا، چنانچہ سب سے پہلے حضرت سودہ اور حضرت عائشہ کا حجرہ تعمیر کیا گیا(۴) اور اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائشے نہیں کہ مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہونے کے کافی دیر بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ام سلمہ کیلئے حجرہ تعمیر کیا تھا_

____________________

۱) المصنف ج۱۱ص۲۴۰ ، مجمع الزوائدج ۹ص ۲۹۷ ،ج ۷ص۲۴۲ ، ( امام احمد کی مسند اور طبرانی سے روایت نقل ہوئی ہے)_

۲) انساب الاشراف ج۲ص۳۱۳، مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمرو، مصنف ابن ابی شیبہ اور فتح الباری کے علاوہ دیگر بہت سے مصادر و منابع میں یہ روایت نقل ہوئی ہے_

۳) زاد المعاد ج۱ص۲۵ ، السیرة الحلبیة ج۲ ص۸۷ _

۴) تاریخ الخمیس ج۱ص۳۴۶ ، وفاء الوفا ج ۲ص ۴۵۸ وفاء الوفاء کے صفحہ ۴۶۲ پر ذھبی سے نقل ہواہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے حضرت سودہ کا گھرتعمیر کیا ، پھر جب حضرت عائشہ کیلئے گھر کی ضرورت پڑی تو ان کے لئے گھر تعمیر کردایا، اسی طرح مختلف مواقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باقی گھر تعمیر کروائے_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔

جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں، حافظ ابن مردوویہ نے مناقب میں، حافظ ابونعیم نےحلیتہ الاولیاء میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۲ میں اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اہل تفسیر کی ایک جماعت سے ابن عباس اور مجاہد کی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ:

" الّذيجاءبالصدق‏رسولاللّهصلّىاللّهعليهوآلهوالّذيصدّقبه علی ابن ابی طالب"

یعنی جو شخص سچائی کے ساتھ آیا وہ محمد صلعم ہیں اور جس نے ان کی تصدیق کی وہ علی ابنابی طالب ہیں۔

(۳) آیت نمبر۱۸ سورہ نمبر۷۵( حدید) میں ہے۔

"الَّذِينَآمَنُوابِاللَّهِوَرُسُلِهِأُولئِكَهُمُ‏ الصِّدِّيقُونَ‏ وَالشُّهَداءُعِنْدَرَبِّهِمْ،لَهُمْأَجْرُهُمْوَنُورُهُمْ"

یعنی جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے اور حقیقت میں ہی سب سے سچے اور خدا کے نزدیک شہید ہیں جن کے واسطے ان کے؟؟؟؟؟؟؟؟

احمد ابن حنبل نے مسند میں اور حافظ ابونعیم اصفہانی نے مانزل من القرآن فی علی میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیہ شریفہ علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ آپ صدیقین میں سے ہیں۔

(۴) اور آیت نمبر۷۱ سورہ نمبر۴( نساء) میں ارشاد ہوتا ہے

"وَمَنْ‏ يُطِعِ‏ اللَّهَ‏وَالرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَأَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ- وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِوَالصَّالِحِينَ- وَحَسُنَأُولئِكَ رَفِيقاً"

یعنی جو لوگ اللہ و رسول(ص) کی اطاعت کریں پس وہ انبیاء و صدیقین، شہداء اور صالحین میں سے جن پر خدا نے پوری عنایت و مرحمت فرمائی ہے ان کے ہمراہ محشور ہوں گے، اور یہ لوگ( جنت میں) اچھے رفیق ہوں گے۔

اس آیہ مبارکہ میں بھی صدیقین ہے مراد علی علیہ السلام ہیں جیسا کہ ہمارے اور آپ کے طریقوں سے بکثرت روایتیں وارد ہیں کہ علی علیہ السلام اس امت کے صدیق اور سچےبلکہ صدیقین میں سب سے افضل ہیں۔

علی(ع) افضل صدیقین ہیں

چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں امام ثعلبی نے کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، ابن شیرویہ نے فردوس میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۳۵۱ میں،

۱۰۱

ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں اور ابن حجر مکی نے ان چالیس حدیثوں میں سے جو انہوں نے صواعق محرقہ کے اندر فضائل علی علیہ السلام میں نقل کی ہیں تیسویں حدیث میں بخاری سے اور انہوں نے ابن عباس سے باستثنائے جملہ آخر روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"الصِّدِّيقُونَ‏ ثَلَاثَةٌحِزْقِيلُمُؤْمِنُآلِفِرْعَوْنَوَحَبِيبٌالنَّجَّارُمُؤْمِنُآلِيسوَعَلِيُّبْنُأَبِيطَالِبٍوَهُوَأَفْضَلُهُمْ."

یعنی بہت بڑے سچے تین شخص ہیں حزقیل مومن آل فرعون، حبیب نجار صاحب یس اور علی ابن ابی طالب جو ان سب میں سے افضل ہیں۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ شروع باب۴۲ میں مسند امام احمد بن حنبل، ابونعیم اور مغازلی شافعی سے، اخطب خوارزمی نے مناقب میں، ابو لیلی اور ابو ایوب انصاری سے ، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ کی چالیس حدیثوں میں اکتیسویں حدیث میں، ابو نعیم و ابن عساکر سے اور انہوں نے ابو لیلی سے ، اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۲۴ میں ابو لیلی کی سند سے نقل کیا ہے اور آخر خبر میں کہتے ہیں کہ محدث شام نے اپنی تاریخ میں اور حافظ ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء میں علی علیہ السلام کے حالات بیان کرتے ہوئے رسول خدا(ص) سے روایت کی ہے کہ فرمایا:

"الصِّدِّيقُونَ‏ ثَلَاثَةٌحَبِيبٌ النَّجَّارُمُؤْمِنُ آلِيس الَّذِي ‏قالَ ياقَوْمِ اتَّبِعُواالْمُرْسَلِينَ‏ وَحِزْقِيلُ مُؤْمِنُ آلِ فِرْعَوْنَ الَّذِي قَالَ ‏أَتَقْتُلُونَرَجُلًاأَنْيَقُولَرَبِّيَاللَّهُ ‏ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِيطَالِبٍ [ع‏] الثَّالِثُ وَهُوَأَفْضَلُهُمْ."

یعنی سچے تین شخص ہیں، حبیب نجار مومن آل یاسین جنہوں نے کہا" اے قوم پیغمبروں کی پیروی کرو" حزقیل مومن آل فرعون جنہوںنے کہا۔ آیا تم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو خدا پرست ہے۔ اور علی ابن ابی طالب جو ان سب سے افضل ہیں۔

واقعی ہر عقلمند انسان حیران رہ جاتا ہے کہ آپ حضرات کے علم و انصاف پر عادت اور تعصب کیونکر غالب آگیا ہے باوجودیکہ خود آپ ہی آیات قرآنی کے مطابق متعدد روایتوں سے ثابت کرتے ہیں کہ علی علیہ السلام افضل الصدیقین تھے پھر بھی دوسروں کو صدیق کہتے ہیں در آںحالیکہ انکے صدیق ہونے پر ایک آیت بھی نقل نہیں کی گئی ہے۔

حضرات! خدا کے لیے اپنی عادت سے ہٹ کر ذرا انصاف سے کام لیجئے کہ خدائے تعالی نے جسبزرگوار کو قرآن مجید صدیق فرمایا ہو کہ وہ ہرگز جھوٹ نہیں بول سکتا، نیز قرآن میں حکم دیا ہو کہ اس کی پیروی کرو( جیسا کہ خود آپ کے علماء کا اقرار ہے)اس کی گواہی مسترد کردیں بلکہ اہانت بھی کریں؟ آیا عقل باور کرتی ہے کہ جس کو رسول خدا(ص) نے اس امت کا صدیق فرمایا ہو بلکہ صدیقین سے افضل بنایا ہو اور آیات قرآنی اس کی صداقت رپ شہادت دے رہی ہوں وہ ہوائے نفسانی کی بنا پر جھوٹ بولے گا یہاں تک کہ جھوٹی گواہی بھی دے گا؟

۱۰۲

علی(ع) حق اور قرآن کے ساتھ ہیں

آیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ علی(ع) حق کے ساتھ اور حق علی(ع) کے ساتھ گردش کرتا ہے؟ چنانچہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ جلد چہارم ص۳۲۱ میں، حافظ ابن مردویہ نے مناقب میں، دیلمی نے فردوس میں، حافظ میثمی نے مجمع الزوائد جلد ہفتم ص۲۳۶ میں، ابن قتیبہ نے الامامہ والسیاسہ جلد اول ص۶۸ میں، حاکم ابو عبداللہ نیشاپوری نے مستدرک جلد سوم ص۱۲۴ میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے اوسط میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر جلد اول ص۱۱۱ میں، ابن حجر مکی نے جامع الصغیر جلد دوم ص۷۴، ۷۵، ۱۴۰ میں، اور صواعق محرقہ باب۹ فصل دوم حدیث بیست ویکم درفضائل مولانا امیرالمومنین علیہ السلام میں بروایت ام سلمہ اوسط سے نقل کرتے ہوئے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۲۰ میں جمع الفوائد و اوسط صغیر طبرانی ، فرائد حموینی، مناقب خوارزمی اور ربیع الاول الابرار زمخشری سے بروایت ام سلمہ و ابن عباس نیز ینابیع المودت مطبوعہ اسلامبول باب ۶۵ ص۱۸۵ میں جامع الصغیر جلال الدین سیوطی سے، ان کے علاوہ تاریخ الخلفاء ص۱۱۶ میں، فیض القدیر جلد ۴ ص۳۵۸ میں ابن عباس سے مناقبالسبعین ص۲۳۷حدیث نمبر۴۴ صاحب فردوس سے، صواعق محرقہ باب ۵۹ فصل دوم ص۲۸۳ میں ام سلمہ سے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، بعض نے ام سلمہ سے بعض نے عائشہ سے اور بعض نے محمد بن ابوبکر سے اور انہوں نے رسول خدا(ص) سے روایت کیہے کہ فرمایا:

"عليّ‏ مع‏ القرآن‏ والقرآنمععليلايفترقانحتّىيرداعليالحوض"

یعنی علی(ع) قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں۔

چند حضرات نے اس عبارت کےساتھ نقل کیا ہے کہ:

"الحقّ‏ لن‏ يزال‏مععلىّوعلىّمعالحقّلنيختلفاولنيفترقا"

یعنی حق ہمیشہ کے لیے علی(ع) کے ساتھ اور علی(ع) حق کے ساتھ ہیں، ان دونوں میں ہرگز کبھی کوئی اختلاف نہ ہوگا اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔

ابن حجر صواعق محرقہ باب۹ اواخر فصل دوم ص۷۷ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے مرض الموت میں فرمایا:

"انی مخلف فيکم کتاب الله و عترتی اهل بيتی ثم اخذ بيد علی فرفعها فقال الحقمععليوعلي‏مع‏الحق‏لايفترقانحتىيرداعليّالحوض فاسئلهما ما خلفت فيهما."

یعنی میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑ رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت اور میرے اہل بیت، پھر علی(ع)

۱۰۳

کا ہاتھ پکڑ کے بلند کیا اور فرمایا یہ علی(ع) قرآن کے ساتھ اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کبارے میرے پاس پہنچ جائیں، میں ان دونوں سے اپنی قائم مقامی کے بارے میں سوال کروں گا۔

نیز بالعموم نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:

"علىّ‏ مع‏ الحقّ‏ والحقّمععلىّيدورمعهحيثمادار"

یعنی علی(ع) حق کےساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے جدھر وہ گردش کرتے ہیں ادھر یہ بھی گردش کرتا ہے۔

سبط ابن جوزی تذکرۃ خواص الامہ ص۲۰ ضمن حدیث غدیر میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"وأدرالحقمعهحيثماداروكيف‏ مادار"

یعنی حق کو علی(ع) کےساتھ گردش دے جہاں اور جس طرح یہ گردش کریں۔

اس کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

"فيهدليلعلىأنهماجرىخلافبينعليعليهالسلاموبينأحدمنالصحابةإلاوالحقمععلي"

یعنی اس حدیث میں دلیل ہے اس بات پرکہ اگر علی(ع) اور کسی صحابی کے درمیان کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو حق یقینا علی(ع) کےساتھ ہوگا۔

علی(ع) کی اطاعت خدا و رسول(ص) کی اطاعت ہے

جن کتابوں کا ذکر کیا گیا ان میں آپ کی دوسری معتبر کتابوں میں منقول ہے کہ خاتم الانبیاء اکثر مقامات اور مختلف عبارتوں کے ساتھ فرماتے رہے۔

"من اطاع عليا فقد اطاعنی ومن اطاعنی فقد اطاع الله و من انکر عليا فقد انکرنی و من انکرنی فقد انکر الله"

یعنی جو شخص علی(ع) کی اطاعت کرے اس نے یقینا میری اطاعت کی اور جو شخص میری اطاعت کرے اس نے در حقیقت خدا کی اطاعت کی، او جو شخص علی(ع) سے انکار کرے اس نے در اصل مجھ سے انکار کیا اور جو شخص مجھ سے انکار کرے قطعی طور پر اس نے خدا سے انکار کیا۔

ابوالفتح محمد بن عبدالکریم شہرستانی ملل و نحل میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم}ص) نے فرمایا:

"لقد کان علی علی الحق فی جميع احواله يدور الحق معه حيث دار"

۱۰۴

یعنی حق یہ ہے کہ علی(ع) ہر حال میں حق پر ہیں اور جس طرف یہ گردش کرتے ہیں حق بھی ان کے ساتھ گردش کرتا ہے۔

آیا باوجود اتنے اخبار صریحہ کے جو خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں علی علیہ السلام کی تردید، آپ سے انکار کے اوپر اعتراض کرنا خدا و رسول(ص) کی شان میں تردید و انکار اور اعتراض کرنا نہیں تھا؟ اور کیا یہ حق و حقیقت سے روگردانی نہیں تھی؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ابوالموید موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں اور ابن الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے صاف صاف فرمایا ہے:

"من اکرم عليا فقد اکرمنی و من اکرمنی فقد اکرم الله و من اهان عليا فقد اهاننی و من اهاننی فقد اهان الله؟

یعنی جس نے علی(ع) کی عزت کی اس نے میری عزت کی اور جس نے میری عزت کی اس نے خدا کی عزت کی، اور جس شخص نے علی(ع) کی توہین کی اس نے میری توہین کی اور جس نےمیری توہین کی اس نے خدا کی توہین کی۔

عدل و اںصاف سے فیصلہ کیجئے

صاحبان اںصاف! مذکورہ واقعات کو ان اخبار احادیث سے جو آپ کی معتبر کتابوں میں بھی منقول ہیں مطابق کر کے ذرا عادلانہ فیصلہ کیجئے اور بے خطا شیعوں سے اس قدر بدظنی اختیار نہ کیجئے!

اور دوسری بات آپ نے یہ فرمائی ہے کہ خلیفہ شریعت کے ظاہری دستور پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے اس لیے کہ آیت شہادت اپنی عمومیت پر باقی تھی اور شرعی معیار پر گواہ پیش نہ ہونے کی وجہ سے صرف دعوی کی بنیاد پر مسلمانوں کا مال فاطمہ سلام اللہ علیہا کو نہیں دے سکتے تھے ( بلکہ اتنے محتاط تھے کہ خلافِ شرع آپ نے متصرف اور قابض سے گواہ مانگے)

اولا میں پہلے ہی عرض کرچکا کہ یہ مسلمانوں کا مال نہیں بلکہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نحلہ اور زیر تصرف ملکیت تھی۔

دوسرے اگر خلیفہ واقعی قانون شرع کا نفاذ کرنے والے تھے تو ان کا فرض تھا کہ سرمواس کے خلاف نہ کریں۔

پس آخر دو رنگی سے کس لیے کام لیتے تھے کہ دوسرے اشخاص کو تو بغیر اکسی گواہ کے صرف زبانی دعوے پر مسلمانوں کا مال دے دیتے تھے لیکن خاص طور سے امانت رسول(ص) جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کے بارے میں اس قدر شدید اور سخت گیری کے ساتھ حکم دینا ضروری سمجھتے تھے؟

چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۲۵ میں درج کیا ہے کہ میں نے علی ابن ابی الفارقی مدرس مدرسہ عربیبغداد سے سوال کیا کہ" اکانت فاطمہ صادقہ قال نعم" ( آیا فاطمہ صادقہ اور راست گو تھیں ( اپنے دعوی میں)انہوں نے کہا میں نے کہا کہ جب وہ صادقہ اور سچی تھیں تو خلیفہ نے ان کو فدک کیوں واگزار نہیں کیا؟ وہ مسکرائے( حالانکہ کوئی شوخ طبیعت آدمی نہیں تھے اور ایک

۱۰۵

لطیف و دلچسپ بات کہی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر اس روز فاطمہ(ع) کے دعوے پر فدک واگزار کردیتے تو وہ دوسرے روز آکر اپنے شوہر کے لیے خلافت کا دعوی کرتیں اور اس وقت خلیفہ مجبور ہوتے کہ یہ حق بھی واپس کریں کیونکہ اس سے قبل ان کی صداقت تسلیم کرچکے ہوتے۔ انتہی کلامہ

معلوم ہوا کہ آپ کے بڑے بڑے علماء کے نزدیک اصلیت واضح و آشکار تھی اور انہوں نے از روئے اںصاف و حقیقت کا اعتراف بھی کیا ہے کہ روز اول ہی سے حق جناب فاطمہ مظلومہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ تھا لیکن در اصل اپنا منصب بچانے کے لیے سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ جان بوجھ کر جناب معصومہ کو ان کے یقینی حق سے محروم کردیں۔

حافظ : کس شخص کو خلیفہ نے بغیر گواہ کے مسلمانوں کا مال دے دیا؟

جابر(رض) کا واقعہ اور ان کو مال عطا کرنا باعث عبرت ہے

خیر طلب : جس وقت جابر نے دعوی کیا کہ پیغمبر(ص) نے نجرین کے مال سے مجھ کو عطا کرنے کا وعدہ کیا تھا تو بغیر کسی تردید اور گواہ طلب کرنے کے ان کو مسلمانوں کے مال میں سے یعنی بیت المال سے پندرہ سو دینار دے دیئے۔

حافظ : اول تو میں نے یہ روایت دیکھی ہی نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ آپ کی کتابوں میں ہو۔ دوسرے یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ گواہ نہیں مانگے تھے؟

خیر طلب: بہت تعجب ہے کہ آپ نے نہیں دیکھا کیونکہ آپ کے علماء ن اس بات کے ثبوت میں کہ عادل صحابی کو خبر واحد قابل قبول ہے جو دلائل قائم کئے ہیں ان میں سے جابر ابن عبداللہ انصاری کی یہ روایت بھی ہے۔

چنانچہ شیخ الاسلام حافظ ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی فتح الباری فی شرح صحیح البخاری"باب يکفل عن ميت دينا " میں کہتے ہیں:

"ان هذا الخير فيه دلالة علی قبول خير العدل من الصحابة و لو حر ذالک نفعا نفسه لان ابابکر لم يلتمس من جابر شاهد اعلی صحة دعواه"

یعنی یہ خبر عادل صحابی کی روایت قابل قبول ہونے پر دلالت کرتی ہے چاہے اسی کی ذات کو نفع پہنچاتی ہو، اس لیے کہ ابوبکر نے جابر سے ان کے دعوے کی صحت پر گواہ نہیں مانگے۔

اسی روایت کو بخاری نے اپنی صحیح میں مزید تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ باب من یکفل عن میت دینا اور کتاب الخمس فی باب ما قطع النبی من البحرین میں لکھا ہے کہ جس وقت بحرین کا مال مدینہ لایا گیا تو ابوبکر کے منادی نے اعلان کیا کہ جس شخص سے رسول اللہ(ص) نے وعدہ کیا ہو یا آں حضرت(ص) پر کسی کا مطالبہ ہو تو وہ آکر لے جائے۔ جابر آئے اور کہا کہ رسول اکرم(ص) نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب بحرین فتح ہو کر مسلمانوں کے تصرف میں آجائے گا تو وہاں کے مال سے تمہیں دوں گا۔ پس فورا بغیر کسی شاہد کے محض ادعا پر ان کو پندرہ سو دینار دے دیئے۔

۱۰۶

نیز جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء کی فصل خلافت ابوبکر اور اس کے واقعات میں جابر کے اسی قضیے کو نقل کیا ہے۔ صاحبان انصاف !خدا کے لیے بتائیے کیا یہ دو رنگی کا برتائو نہیں تھا؟

اگر کوئی خاص جذبہ کار فرما نہیں تھا تو ابوبکر کے لیے جس طرح یہ جائز ہوگیا تھا کہ آیہ شہادت کے خلاف عمل کر کے بغیر کسی گواہ کے محض ادعا پر جابر کو مسلمانوں کے مال میں سے عطا کردیں اسی طرح ( بقول ان کے ) اگر فرض کر لیا جائے کہ فدک مسلمانوں ہی کا مال تھا( حالانکہ یہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مقبوضہ ملکیت تھی) تب بھی لازم تھاکہ رسالت کی رعایت کرتے ہوئے ودیعہ رسول خدا(ص) جناب فاطمہ صدیقہ(ع) کا دل نہ توڑیں اور ان کا دعوی تسلیم کر کے فدک واپس دے دیں۔

علاوہ اس کے بخاری اپنی صحیح میں اور آپ کے دوسرے علماء وفقہاء عادل صحابی کیخبر واحد کو قبول کرتے ہیں چاہے اس سے ذاتی فائدہ ہی مقصود رہا ہو لیکن علی علیہ السلام کے ادعا اور آپ کے بیان کو اس عذر کے ساتھ نا قابل قبول جانتے ہیں کہ حر النفع الی نفسہ ( یعنی وہ اپنا ذاتی نفع چاہتے تھے ۱۲ مترجم) تو کیا علی علیہ السلام اصحاب کی ایک کامل فرد نہیں تھے؟ اگر آپ اںصاف کے ساتھ غور کیجئے تو تصدیق کیجئے گا کہ یہ حق اور حقیقت کا نفاذ نہیں بلکہ محض دھاندلی تھی۔

حافظ : میرا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جابر سے گواہ اس لیے نہیں مانگے کہ یہ رسول اللہ(ص) کے مقرب اور تربیت یافتہ اصحاب میں سے تھے اور قطعا آں حضرت(ص) سے سن چکے تھے کہ:

"من کذب علی متعمدا فليتبئو مقعده من النار"

جو شخص عمدا مجھ پر جھوٹ باندھے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

لہذا اتنی شدید وعید کے بعد ظاہر ہے کہ ایک مقرب وتربیت یافتہ مومن صحابی ہرگز ایسا غلط اقدام نہیں کرے گا اور اس پست وحقیر دینائے فانی کے لیے رسول اللہ(ص) ی طرفجھوٹا قول منسوب کر کے اپنی عاقبت برباد نہیں کرےگا۔

خیر طلب : آیا جابر رسول اللہ(ص) سے زیادہ قریب تھے یا علی وفاطمہ علیہا السلام، جن کی آں حضرت(ص) نے خاص طورپر تربیت فرمائی تھی۔

حافظ : ظاہر ہے کہ علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما ہر شخص سے زیادہ رسول اللہ(ص) سے قریب تھے کیونکہ بچپن ہی سے آں حضرت (ص) کے زیر تربیت رہے۔

خیر طلب : پس آپ کو ماننا پڑے گا کہ علی و فاطمہ علیہما السلام سب سے بڑھ کے اس کے پابند تھے کہ اس وعید کے بعد قول رسول(ص) کی بنیاد پر کوئی جھوٹا دعوی نہ کریں، اور ان لوگوں پر فرض تھا کہ جناب فاطمہ صدیقہ(ع) کا دعوی تسلیم کریں اس لیے کہ قطعا اور یقینا ان دونوں بزرگواروں کی منزل جابر سے بالاتر تھی( جیسا کہ خود آپ ہی کو بھی اعتراف ہے) بلکہ سارےاصحاب سے بلند۔ کیونکہ آیہ تطہیر کے مصداق اور معصوم تھے۔ اور ان پانچ افراد یعنی محمد(ص)، علی(ع)، فاطمہ(ع)، حسن(ع) اور حسین علیہم الصلوۃ والسلام کے لیے جو آیت تطہیر میں داخل ہے، یہ آیت عصمت و پاکیزگی کی صراحت کر رہی ہے۔

۱۰۷

اس کے علاوہ آپ کے اکابر علماء نے بھی ان حضرات کی صداقت درست گوئی کی تصدیق کی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع) کے متعلق تومیں پہلے ہی عرض کرچکا کہ رسول اکرم(ص) نے آپ کو اس امت کا صدیق اور راست گو فرمایا ہے اور خدا نے بھی قرآن مجید میں آپ کو صادق بتایا ہے۔ لیکن صدیقہ کبری جناب فاطمہ زہر صلوات اللہ علیہا کے بارے میں بھی ایسی روایتیں کثرت سے ہیں۔ من جملہ ان کے حافظ ابونعیم اصفہانی حلیتہ الالیاء، جلد دوم ص۴۲ میں عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

"ما رائيت احدا قط اصدق من فاطمة غير ابيها"

یعنی میں نے ہرگز کسی کو فاطمہ(ع) سے زیادہ سچا نہیں دیکھا سوا ان کے باپ کے۔

آیہتطہیر کی شانِ نزول میں اشکال

حافظ : ان پانچ بزرگوارون کی شان میں آیہ تطہیر نازل ہونے کے بارے میں آپ کا دعوی مسلم نہیں ہے۔ چونکہ ان جلسوں میں ہم لوگوں پر واضح ہوچکا ہے کہ آپ ہماری کتابوں سے پوری واقفیت رکھتے ہیں لہذا تصدیق فرمائیے کہ اس موضوع میں آپ کو دھوکا ہوا۔ اس لیے کہ قاضی بیضاوی اور زمخشری جیسے مفسرین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیہ شریفہ ازواج رسول(ص) میں نازل ہوئی ہے اور اگر کوئی قول ان پانچوں حضرات کے حق میں نازل ہونے کے لیے ہو بھی تو وہقطعا ضعیف ہوگا سبب یہ ہے کہ آیت خود ہی اس مفہوم کے خلاف دلالت کررہی ہے کیونکہ آیہ تطہیر کا سیاق و سباق ازواج سے مربوط ہے اور درمیان حصے کو الگ کر کے دوسرون سے ملحق نہیں کیا جاسکتا۔

جواب اشکال اور اس کا ثبوت کہ آیت ازواج کے حق میں نہیں ہے

خیر طلب: جناب عالی کا یہ ادعا کئی پہلوئوں سے باطل ہے۔ اول یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ سیاق و سباق آیت ازواج سے مربوط ہے لہذا علی(ع) و فاطمہ علیہما السلام شمول آیہ شریفہ سے خارج ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرف عام اکثر ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ اثنائے کلام میں روئے سخن کسی دوسرے کی طرف کر کے خطاب کرتے ہیں اس کے بعد پھر پہلی گفتگو پر آجاتے ہیں عرب کے فصحاء و بلغاء اور ادیبوں کے اشعار میں تو اس کی کافی مثالیں ملتی ہی ہیں۔ خود قرآن کریم میں بھی ایسی نظیر یں بہت ہیں۔ خصوصا اسی سورہ احزاب میں غور فرمائیے کہ ازواج سے خطاب کرتےہوئے روئے سخن مومنین کی طرف موڑ دیا گیا اس کے بعد پھر ان کو مخاطب کیا گیا ہے ، لیکن وقت کے اندر اتنی گنجائش نہیں کہ مزید وضاحت کے لیے مفصل شواہد پیش کئے جائیں۔

دوسرے اگر یہ آیت ازواج رسول کے بارے میں ہوتی تو ان کے لیے ضمیر تانیت استعمال ہوتی۔ اور ارشاد ہوتا ہے " لیذہب

۱۰۸

عنکن الرجس و یطہرکن تطہیرا" لیکن چونکہ ضمیر مذکور ہے لہذا معلوم ہوا کہ ازواج کے لیے نہیں بلکہ عترت و اہل بیت پیغمبر(ص) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

نواب : جب بقول آپ کے فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی اس جماعت میں داخل ہیں تو ان کا لحاظ کیوں نہیں کیا گیا اور تانیث کے ساتھ ان کا ذکر کیوں نہیں ہوا؟

خیر طلب : ( علماء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آپ حضرات جانتے ہیں اس آیہ شریفہ میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کے باوجود صیغہ تذکیر باعتبار تغلب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس جماعت میں مذکور ومونث دونوں صنفوں کے افراد شامل ہوں وہاں مذکر کو مونث پر غالب قرار دیتے ہیں، اور اس آیت میں صیغہ تذکیر خود دلیل قاطعی ہے کہ یہ قول ضعیف نہیں ہے بلکہ مکمل قوت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ غلبہ تعداد کے لحاظ سے بھی ضمیر مذکر ہونا چاہئیےکیونکہ پنچ تن میں ایک عورت اور چار مرد ہیں۔

اگر یہ آیت ازواج رسول(ص) کے حق میں نازل ہوتی تو جمع مونث میں مذکر کا لفظ بالکل ہی غلط ہوتال۔ علاوہ اس کے خود آپ کی معتبر کتابوں میں روایات صحیحہ کا یہی فیصلہ ہے کہ یہ آیہ مبارکہ آں حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت کے بارے میں ازواج کے واسطے نہیں۔

چنانچہ ابن حجر مکی اپنے انتہائی تعصب کے باوجود صواعق محرقہ میں لکھتے ہیں کہ زیادہ تر مفسرین کا عقیدہ یہی ہے کہ یہ آیت علی(ع) وفاطمہ(ع) اور حسن و حسین ( علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہےلتذکر منمير عنکم ويطهرکم اس لحاظ سے کہعنکم اوريطهرکم میں جمع مذکر کی ضمیریں ہیں۔

ازواج رسول اہل بیت(ع) میں داخل نہیں

ان روشن دلیلوں سے قطع نظر ازواج رسول(ص) تو اہل بیت میں داخل بھی نہیں ہیں۔

چنانچہ صحیح مسلم اور جامع الاصول میں روایت ہے کہ حصین بن سمرہ نے زید ابن ارقم سے پوچھا کہ آیا رسول اللہ(ص) کی بیویاں اہل بیت میں سے ہیں؟ زید نے کہا کہ خدا کی قسم نہیں، اس لیے کہ عورت ایک مدت تک اپنے شوہر کے گھر رہتی ہے لیکن جب وہ طلاق دے دیتا ہے تو یہ اپنے باپ کے گھر جا کر اپنے میکے والوں سے ملحق ہوجاتی ہے اور شوہر سے بالکل الگ ہوجاتی ہے۔

اہلبیت (ع) تو در اصل آں حضرت(ص) کے وہگھر والے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور چاہے جہاں چلے جائیں اہل بیت(ع) سے جدا نہیں ہوتے ۔

تیسرے عترت و اہل بیت طہارت کی روایتوں پر مذہب شیعہ امامیہ کا جو اجماع ہے اس سے ہٹ کے خود آپ کے طریقوں سے بکثرت روایتیں اس نظریے کے خلاف وارد ہیں۔

۱۰۹

اخبار عامہ اس بارے میں کہ آیت تطہیر پنجتن کی شان میں آئی ہے

چنانچہ امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم ص۷۸۳ میں، جلال الدین سیوطی در المنثور جلد پنجم ص۱۹۹ اور خصائص الکبری جلد دوم ص۲۶۴ میں نیشاپوری اپنی تفسیر جلد سوم میں، امام عبدالرزاق الرسعنی تفسیر رموز الکنوز میں، ابن حجر عسقلانی اصابہ جلد چہارم ص۲۰۷ میں، ابن عساکر اپنی تاریخ جلد چہارم ص۲۰۴ و ص۲۰۶ میں، امام احمد بن حنبل مسند جلد اول ص۳۲ میں، محب الدین البری ریاض النفرہ جلد دوم ص۱۸۸ میں، مسلم بن حجاج اپنی صحیح جلد دوم ص۱۳۳۱ اور جلد ہفتم ص۱۴۰ میں، پنہائی شرف المئوید مطبوعہ بیروت ص۱۰ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب ۱۰ میں چھ مسند اخبارکے ساتھ اور شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب۳۳ میں صحیح مسلم اور شواہد حاکم سے بسند ام المومنین عائشہ اور دس (۱۰) روایتیں ترمذی، حاکم علاء الدولہ سمہانی، بیہقی، طبرانی، محمد بن جریر، احمد بن حنبل، ابن ابی شیبہ، ابن منذر، ابن ؟؟؟؟ ، حافظ زرندی اور حافظ ابن مردویہ سے ام المومنین ام سلمہ، عمر بن ابی سلمہ ( ربیب رسول(ص))انس بن مالک، سعد بن ابی وقاص، واثلہ بن اسقع اور ابو سعید خدری کی سندوں کےساتھنقل کرتے ہیں کہ آیت تطہیر پنجتن پاک و آل عبا کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ ابن حجر مکی جیسے سخت و متعصب عالم نے بھی صواعق محرقہ ص۸۵، ص۸۶ سات طریقوں سے ان کی صحت کا اعتراف کرتے ہوئے اس اہم حقیقت کو نقل کیا ہے کہ یہ آیت محمد(ص)، علی(ع)، فاطمہ(ع)، حسن(ع) اور حسین(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے اور صرف یہی پانچ مقدس ہستیاں اس آیہ شریفہ کی طہارت سے مخصوص کی گئی ہیں۔

سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی نے کتاب رشفتہ الصادی من بحر فضائل بنی النبی الہادی مطبوعہ اعلامیہ مصرسنہ۱۳۰۳ھ کے باب ص؟؟؟ ص۱۴تا ص۱۹ میں ترمذی ، ابن جریر، ابن منذر، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی ابن ابی حاتم، طبرانی، احمد بن حنبل، ابن کثیر، مسلم بن حجاج، ابن ابی شیبہ اور سہودی سے آپ کے اکابر علماء کی گہری تحقیقات کے ساتھروایت کی ہے کہ یہ آیہ شریفہ مقدس آل عبا اور پنجتن پاک کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ استدلال کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ تمام اولاد اہل بیت رسول(ص) جن پر صدقہ حرام ہے۔ قیام قیامت تک اس آیہ شریفہ کے مصداق رہیں گے۔

جمع بین الصحاح الستہ موطا امام مالک بن انس الاصبحی و صحاح بخاری ومسلم و سنن ابی دائود رسجستانی و ترمذی، اور جامع الاصول میں، یہاں تک کہ بالعموم آپ کے علماء و فقہاء اور مورخین و محدثین اقرار کرتے ہیں کہ یہ آیت انہیں پنج تن آل عبا(ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور یہ آپ کے یہاں تقریبا تواتر کی حد میں ہے۔ اگر بعض اشخاص نے حق کشی اور بعض وعناد کے جذبے میں اس روایت کو ضعیف کہہ دیا ہے تو اس سے اتنی کثیر التعداد اور معتبر روایات پر جو آپ ہی کے اکابر علماء کی معتبر کتب میں درج ہیں کوئی اثر نہیں پڑسکتا ۔

نیست خفاشک عدرے آفتاب او عدوے خویش آمد ور حجاب

۱۱۰

حریرہ فاطمہ(ع) کے بارے میں ام سلمہ (رض) اور نزول آیہ تطہیر

مختصر یہ کہ بعض نے حریرہ والی روایت کےساتھ ذرا تفصیل سے اور بعض نے اختیار کےساتھ نقل کیا ہے۔ من جملہ ان کے انام ثطبی نے اپنی تفسیر میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، اور ابن اثیر نے جامع الاصول میں ترمذی و مسلم سے الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ زوجہ رسول ام المومنین ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ(ص) میرے یہاں صفے میں بیٹھے ہوئے تھے جو آں حضرت(ص) کی خوابگاہ تھی اور پائے مبارک کے نیچے خیبری عبا بچھی ہوئی تھی، میں حجرے میں نماز پڑھ رہی تھی کہ اتنے میں فاطمہ سلام اللہ علیہا آں حضرت(ص)کے لیے ایک ظرف میں حریر لائیں، پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ جائو اپنے شوہر اور اپنے فرزندوں کو بلا لائو! ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ علی اور حسنین علیہم السلام آئے اور حریرہ کھانے میں مشغول ہوئے، اسی وقت جبرئیل نازل ہوئے اور آں حضرت(ص) کے سامنے یہ آیت پڑھی۔

"إِنَّمايُرِيدُاللَّهُلِيُذْهِبَعَنْكُمُالرِّجْسَأَهْلَالْبَيْتِوَيُطَهِّرَكُمْتَطْهِيراً"

یعنی سوئے اس کے نہیں ہے کہ خدا یہ ارادہ رکھتا ہے کہ اہل بیت رسول(ص) تم سے ہر گندگی کو دور رکھے اور تم کو اس طرح پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

( آیت نمبر۳۳ سورہ نمبر۳۳ ( احزاب)

ام سلمہ کہتی ہیں میں نے عبا کے اندر اپنا سر بڑھا کر عرض کیا:

"أَنَامَعَكُمْ‏ يَارَسُولَ‏اللَّهِقَالَ: إِنَّكِإِلَىخَيْرٍ،إِنَّكِإِلَىخَيْرٍ."

یا رسول اللہ(ص) میں بھی آپ حضرات کے ساتھ ہوں تو آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ تم نیکی پر ہو( مطلب یہ ہے کہ تم کو میرے اہل بیت(ع) کا درجہ حاصل نہیں ہے اور تم ان میں شامل نہیں ہو البتہ تمہارا انجام بخیر ہے)

پس یہ آیہ مبارکہ اس بات پر پوری دلالت کرتی ہے کہ یہ پانچوں بزرگوار کفر و شقاق، شرک و نفاق، شک و شبہہکذب و ریا اور ہر گناہ صغیرہ و کبیرہ سے معصوم اور پاک ہیں۔

چنانچہ امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں "لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ " یعنی تم سے تمام گناہوں کو زائل کردیا۔ "وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً " یعنی تم کو اپنی کرامت کی خلعتیں پہنائیں۔

واقعی ان بے انصاف علماء پر سخت تعجب ہوتا ہے جو اپنی معتبر کتابوں میں یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ علی(ع) و فاطمہ علیہا السلام آیہ تطہیر میں شامل اور ہر رجس و پلیدی سے معرا و مبرا تھے اور سب سے بڑا رجس جھوٹ بولنا ہے، اور پھر حضرت کے دعوی الامت کی تکذیب بھی کرتے ہیں، جناب فاطمہ(ع) کے حق میں آپ کی شہادت کو غلط قرار دیتے ہیں اور فدک کے بارے میں طاہرہ اور معصومہ بی بی کے بیان کو جھٹلاتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ مدعیان انصاف اس مقام پر کس قاعدے سے فیصلہ کرتے ہیں؟

اب میں اصل مقصد کی طرف آتا ہوں، ذرا اںصاف سے فیصلہ کیجئے کہ آیا یہ مناسب تھا کہ علی(ع) و فاطمہ(ع) کے بیانات کو تو مسترد

۱۱۱

کردیں جن کے لیے خدا گواہی دے رہا ہے کہ تمام ظاہری وباطنی رجس وگندگی سے پاک و منزہ یعنی جملہ صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں، اور اس جلیل القدر خاندان کا مقررہ حقسرے سے غائب ہی کردیں، لیکن جابر کا دعوی بے چون وچرا تسلیم کر لیں جو صرف ایک مرد مسلمان اور معمولی مومن تھے؟

حافظ : یہ ہرگز با ور نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفہ رسول(ص) اور مومن صحابی جن کو پیغمبر(ص) سے انتہائی قربت حاصل ہو جان بوجھ کر فدک کو غصب کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ انسان جو کام کرتا ہے قطعا اس کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے، جس خلیفہ کے تصرف میں مسلمانوں کا سارا بیت المال تھا اس کو فدک کے ایک باغ یا گائوں کی کیا ضرورت تھی جو اس کو غصب کرتا ؟

خیر طلب : کھلی ہوئی بات ہے کہ کسی احتیاج کا سوال نہیں تھا بلکہ اس وقت کے سیاسی طبقے کی نظر میں خاندان رسول اور آں حضرت کی عترت طاہرہ کو تباہ کرنا ضروری تھا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ حضرات چونکہ منصب خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں لہذا ان کو اس قدر پریشانی اور فقر و تہی دستی میں مبتلا کر دیا جائے کہ خلافت کا خیال ہی دل میں نہ لائیں اس لیے کہ دنیا طلب لوگ اسی کی طرف جاتے ہیں جس سے ان کی دنیا سنورتی ہو۔

یہ لوگ سمجھتے تھے کہ جو خاندان جلیل علم و فضل اور ادب و تقوی کے زیور سے مکمل طور پر آراستہ ہے اگر اس کا ہاتھمال دنیا سے بھی پر ہوگا تو یقینا لوگ اس کی طرف رجوع کریں گے۔ لہذا بر بنائے سیاست تنہا فدک ہی غصب نہیں کیا بلکہ ان حضرات پر تمام وہ راستے مسدود کر دیے جن کے ذریعے کوئی مالی منفعت پہنچ سکتی تھی۔

عترتِ رسول(ص) پر خمس کی بندش

من جملہ ان کے ایک مستقل حق خمس کا تھا جس کی قرآن مجید میں بھی تاکید کی گئی تھی۔ چونکہ خدا نے صدقات کو رسول(ص) اور آل علیہم الصلوۃ و السلام پر حرام قرار دیا تھا لہذا باجماع جمہور امت ان کے لیے خمس کا دروازہ کھول دیا۔

چنانچہ آیت نمبر۴۲ سورہ نمبر۸ (ا نفال) میں صریحا فرمایا:

"وَاعْلَمُواأَنَّماغَنِمْتُمْ‏مِنْشَيْ‏ءٍفَأَنَّلِلَّهِخُمُسَهُوَلِلرَّسُولِوَلِذِيالْقُرْبى‏ وَالْيَتامى‏ وَالْمَساكِينِ‏"

یعنی جان لو کہ تم کو جو کچھ غنیمت اور فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ و رسول(ص) ، آنحضرت(ص) کے اقرباء یتیموں مسکینوں اور مجبور مسافروں کے لیے مخصوص ہے( تاکہ پیغمبر(ص) کی عترت قیامت تک خوش حالی اور آسائش میں رہے، اور اپنی رعایا کی محتاج نہ ہو۔

لیکن آں حضرت(ص) کی آنکھ بند ہوتے ہی اس رخ سے بھی عترت و اہل بیت(ع) رسول(ص) کو فشار کیا گیا۔ خلیفہ ابوبکر نے اپنے جتھے

۱۱۲

والوں کے اتفاق رائے سے یہ واجبی حق ان حضرات سے سلب کر لیا اور کہا کہ خمس جنگی ساز وسامان ، خریداری اسلحہ اور دیگر ضروریات حرب میں صرف ہونا چاہئیے غرضیکہ ان کو ہر صورت سے بے دست و پا کر دیا گیا ، کیونکہ صدقات تو ان پر حرام تھے ہی خمس کا کھلا ہوا حق بھی روک دیا گیا۔

چنانچہ امام شافعی محمد بن ادریس کتاب الام کے اس بات میں ص۶۹ پر کہتے ہیں۔

"و اما آل محمد الذين جعل لهم الخمس عوضا من الصدقة فلا يعطون من الصدقات المفروضات شيئا قل او کثر لا يحل لهم ان ياخذوها ولا يجزی عمن يعطيهم ؟؟؟ اذا عرفهم "یہاں تک کہ کہتے ہیں"وليس منهم حقهم فی الخمس يحل لهم ماحرم عليهم من الصدقة "

یعنی آلمحمد(ص)کو جن کے لیے خدا نے صدقے کے عوض خمس متعین کیا ہے صدقات واجبہ میں سے کم یا زیادہ کچھ بھی نہیں دیا جاسکتا اور ان کے لیے اس کا لینا جائز نہیں ہے اور جو لوگ جان بوجھ کر ان کو دیں وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوں گے اور ان کے اوپر ان کا حق خمس بند کردینے سے صدقہ جو ان پر حرام ہوچکا ہے حلال نہیں ہوگا۔

عمر ابن خطاب کے دور خلافت میں بھی اس بہانے سے کہ خمس زیادہ ہوچکا ہے لہذا یہ سب ذوی القربی کو نہیں دیا جاسکتا بلکہ سامان جنگ کی تیاری میں صرف ہونا چاہئیے ان کو اپنے اس مسلم اور خدا داد حق سے محروم کیا گیا اور آج تک محروم کئے جاتے ہیں۔

حافظ : امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ خمس پانچ حصوں پر تقسیم ہونا چاہئیے سہم پیغمبر(ص) جو مسلمانوں کے مصارف اور ضروریات میں خرچ ہو، دوسرا حصہ ذوی القربی کے لیے ہو اوربقیہ تین حصے یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے صرف میں آئیں۔

خیر طلب : جمہور مفسرین کا اتفاق ہے کہ زمانہ رسول(ص) میں یہ آیت آں حضرت(ص) کی اولاد و اقارب کی اعانت کے لیے نازل ہوئی تھی اور خمس انہیں حضرات کے صرف میں دیا جاتا تھا پس فقہائے امامیہ کے نزدیک عترت اور ائمہ اطہار کی پیروی میں نیز صراحت آیہ شریفہ کے مطابق خمس چھ حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ سہم خدا، سہم رسول اور سہم ذوی القربی امام کو پہنچتا ہے اور غیبت امام میں نائب امام یعنی مجتہد فقیہ و عادل کو دیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے مناسب ضروریات میں جہاں مصلحت ہوتی ہے صرف کرتا ہے اور بقیہ تین حصے بنی ہاشم اور اولاد رسول(ص) میں سے یتیموں ، محتاجوں اور مسافروں کے لیے مخصوص ہو، لیکن وفات پیغمبر(ص) کے بعد اس حق کو سادات سے سلب کر لیا گیا، چنانچہ آپ کے اکابر علماءجیسے جلال الدین سیوطی درالمنثور جلد سوم میں طبری ، امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، جار اللہ زمخشری کشاف میں، قوشجی شرح تجرید میں، نسائی کتاب الفے میں اور دوسرے حضرات بالاتفاق اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ بدعت رسول خدا(ص) کے بعد چالاک سیاسی لوگوں نے اپنے مقاصد پر قابو پانے کے لیے قائم کی۔

حافظ : آیا آپ کے نزدیک مجتہد کو رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے؟ خلیفہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے قطعا مسلمانوں کی امداد کے لیے اجتہاد کر کے یہ فیصلہ کیا۔

۱۱۳

خیر طلب : ہاں مجتہد کو اپنی رائے قائم کرنے کا حق حاصل ہے لیکن نص کے مقابلے میں نہیں۔ کیا آپ خلیفہ ابوبکر و عمر کی رائے اور فیصلے کو آیت اور عمل رسول(ص) کے مقابلے لاتے ہیں؟ آیا انصافا یہ جائز ہے کہ خدا و رسول(ص) تو کوئی حکم نافذ کریں لیکن خلیفہ پیغمبر(ص) امت کی مصلحت کو ان سے بہتر سمجھتا ہو اور نص کے مقابلے میں اپنے اجتہاد سے کام لے ؟ خدا کے لیے حق و اںصاف سے کہئیے کہ ان کاموں کا کوئی خاص مقصد تھا یا نہیں؟ اگر کوئی عقل مند انسان غیر جانبدار انسان گہری توجہ کے ساتھ نتیجہ نکالے گا تو اس کو اس ترکیب عمل سے قطعی طور سخت سوء ظن پیدا ہوگا اور وہ سمجھ لے گا کہ یہ معاملات معمولی نہیں تھے بلکہ خاندان رسول(ص) کو بے بس بنانا تھا۔

خدا نے علی(ع) کو پیغمبر(ص) کا شاہد قرار دیا ہے

ان چیزوں کے علاوہ خدا نے علی علیہ السلام کو پیغمبر(ص) کا شاہد و گواہ قرار دیا ہےاور آیت نمبر۲۰ سورہ نمبر۱۱ ( ہود) میں صاف طور سے فرماتا ہے :

"أفمن‏ كان‏ على‏بيّنةمنربّهويتلوهشاهدمنه"

یعنی آیا وہ پیغمبر(ص) جو اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل (قرآن ) رکھتا ہے اور اس کے ہمراہ اس کا سچا گواہ ہے۔ (یعنی علیعلیہ السلام جو ہمہ تن صداقت رسالت کے گواہ ہیں۔)

حافظ: جہاں تک مجھ کو علم ہے صاحب بینہ سے مراد رسول خدا(ص) ہیں اور ان کا شاہد قرآن کریم ہے آپ نے کس دلیل و برہان سے شاہد کو علی کرم اللہ وجہہ سے تعبیر کیا ہے۔

خیر طلب : مجھ میں اتنی طاقت و جرات نہیں کہ آیات قرآنی میں تصرف یا تفسیر بالائے کرسکوں۔ ہم کو عترت و اہل بیت(ع) رسول(ص) سے جو عدیل قرآن ہیں یہی تعلیم پہنچی ہے ک شاہد سے مراد علی علیہ السلام ہیں، اور علماء و مفسرین نے اسی طرح نقل کیا ہے۔ چنانچہ تقریبا تیس حدیثیں آپ کے اکابر علماء میں سے امام ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں تین حدیثین جلال الدین سیوطی نے در المنثور میں ابن مردویہ ، ابن ابی حاتم اور ابونعیم سے ، ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد السمطین میں تین سندوں کے ساتھ، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۲۲ میں ثعلبی ، حموینی ، خوارزمی ، ابونعیم، واقدی اور ابن مغازلی سے ابن عباس اور جابر ابن عبداللہ اںصاری وغیرہ کی سندوں کے ساتھ ، حافظ ابونعیم اصفہانی نے تین طریقوں سے ، طبری نے ابن مغازلی فقیہ شافعی نے، ابن ابی الحدید معتزلی نے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۲ میں نقل کی ہیں۔ اور آپ کے دوسرے بہت سے علماء یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور الفاظ و عبارت کے مختصر سے فرق کے ساتھ لکھتے ہیں کہ اس آیت میں شاہد سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

خطیب خوارزمی مناقب میں کہتے ہیں کہ لوگوں نے ابن عباس سے پوچھا شاہد سے کون مراد ہے؟ انہوں نے کہا : "هو علی يشهد للنبی وهو منه " وہ علی(ع) ہیں جنہوں نے پیغمبر(ص) کی گواہی دی اور وہ پیغمبر(ص) سے ہیں پس ان دلائل و اخبار معتبرہ کی بنا پر جن کی خود آپ کے اکابر علماءتصدیق کرتے ہیں امت پر حضرت کی شہادت قبول کرنا واجب تھا۔ کیونکہ خدا نے آپ کو پیغمبر(ص) پر گواہ قرار دیا ہے۔

۱۱۴

اس طرح سے رسول اکرم(ص) ن خزیمہ بن ثابت کی خصوصیت کا اقرار فرمایا تھا کہ ان کی شہادت دو مسلمانوں کے برابر قرار دی ، اور ذوالشہادتین کا لقب عطا فرمایا، اسی طرح خدائے تعالی نے بھی اس آیت میں مسلمانوں کے درمیان حضرت علی(ع) کی فضیلت کا اظہار فرمایا کہ آپ کو پیغمبر(ص) پر شاہد اورگواہ قرار دیا قطع نظر اس سے کہ بحکم آیہ تطہیر آپ معصوم اور ہر خطا سے مبرا تھے اور اپنی نفع اندوزی کے لیے ہرگز جھوٹی گواہی نہیں دے سکتے تھے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں نے کیونکہ نے اتنی جرات کی اور شرع کے کس اصول سے آپ کی شہادت رد کی بلکہ توہین بھی کی اور گواہی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ علی شہادت قابل قبول نہیں ہے " لانہ یجر النفع الی نفسہ" یعنی چونکہ علی(ع) اس قضیے میں خود کسب منفعت کررہے ہیں لہذا ان کی گواہی مردویہ ہے، علاوہ ان اہانتوں اور بہت سے اشارات و کنایات کے جو مجمع کے اندر آپ کے منہ پر اور پیٹھ پیچھے زبان پرلائے ، اور جن میں سے بعض کی طرف میں بھی اشارہ کرچکا ہوں۔ اب اس سے زیادہ میںاس مطلب کے خزئیات میں نہیں پڑنا چاہتا، البتہ اتنا عرض کروں کہ آیا آپ سننے کے لیے رضامند ہیں کہ مولائے متقیان امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسی بزرگ شخصیت کو جس نے دینا کو تین طلاقین دی ہوں ، جو تمام انسانوں سے زیادہ دولت دنیا کی طرف سے بے پروا ہو اور جس کی رفتار و کردار کو دوست و دشمن بھی مانتے ہوں، دنیا طلب بلکہ اس سے بھیزیادہ سخت الفاظ کہے جائیں جن کو ادا کرنے کی میری زبان میں طاقت نہیں اور جو خود آپ کی کتابوں میں درج ہیں؟

خلاصہ یہ کہ جملہ یجر النفع الی نفسہ استعمال کر کے لوگوں کو یہ فریب دیں کہ علی(ع) چونکہ اس معاملے صاحب نفع ہیں لہذا ممکن ہے کہ اپنے اہل وعیال کے فائدے کے لیے(معاذ اللہ) جھوٹی شہادت دے دیں، اس وجہ سے ان کی گواہی قابل قبول نہیں ہے خدائے تعالی تو آپ کو معتبر قرار دے لیکن چند ترکیبی لوگ اس کو رد کردیں؟

علی علیہ السلام کا دردِ دل

آیا علی(ع) کے بارے میں نزول آیات قرآنی ، منصب ولایت کی توثیق اور رسول اللہ(ص) کی وصیت و سفارش کا یہی نتیجہ تھا کہ آپ کو اس قدر آزاد و آذیت پہنچائیں کہ آپ خطبہ شقشقیہ میں اپنے درد دل کا اس طرح اظہار فرمائیں "صبرت وفی العین قذی و فی الحق شجی "( یعنی میں صبر کیا اس حال میں کہ ؟؟؟؟ میری آنکھ میں خس و خاشاک اور حلق میں ہڈی پھنسی ہوئی ہو۔) حضرت کے یہ جملے شدیدغم وغصہ اندوہ والم اور تلخی صبر کی ترجمانی کررہے ہیں۔

آپ یہ بے خودی میں نہیں فرماتے تھے کہ:

"وَاللَّهِلَابْنُأَبِيطَالِبٍآنَسُبِالْمَوْتِمِنَالطِّفْلِبِثَدْيِ‏ أُمِّهِ‏"

یعنی قسم خدا کی ایک شیر خوار بچے کو جس قدر اپنی اپنی ماں کے پستان سے انس ہوتا ہے اس سے زیادہ فرزند ابوطالب کو موت کا شوق ہے۔

آپ کا قلب اس قدر مجروح اور زندگانی دنیا سے سیر تھا کہ جس وقت اولین و آخرین کے شقی ترین آدمی عبدالرحمان ابن ملجم مرادی

۱۱۵

نے زہر میں بجھائی ہوئی تلوار فرق مبارک پر لگا تو محراب عبادت کے اندر آپ فرماتے تھے فزت و رب الکعبۃ یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا۔

حضرات تاریخ کی شہادت اور آپ کے بزرگ مورخین کے قول کے مطابق ہوا جو نہ ہونا چاہئیے تھا، کیا گیا جو نہ کرنا چاہئیے تھا اور کہا گیا جو نہ کہنا چاہئیے تھا۔ لیکن اب آج کے روز مناسب نہیں ہے کہ آپ جیسے دانشمند علماء خدا و رسول(ص) کے عزیز و محبوب کو مزید اذیت پہنچائیں اور بے خبر لوگوں میں غلط فہمی پھیلائیں در آنحالیکہ خوب واقف ہیں کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ایذا دنیا در حقیقت رسول خدا(ص) کو ایذا دینا ہے۔

علی(ع) کو اذیت دینے والوں کی مذمت میں احادیث

جیسا کہ آپ کے اکابر علماء مثلا امام احمد بن حبنل نے اپنی مسند میں کسی و طریقوں سے امام ثعلبی نے تفسیر میں اور شیخ الاسلام حموینی نے فرائد میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) فرمایا:

"من‏ آذى‏ عليافقدآذاني! ياأيهاالناسمن‏ آذى‏ عليابعثيومالقيامةيهوديّاًأونصرانياً."

یعنی جس نے علی(ع) کو ایذا دی اس نے یقینا مجھ کو ایذا دی۔ ایہا الناس! جو شخص علی کو اذیت دے وہ قیامت کے دن یہودی یا نصرانی اٹھے گا۔

ابن حجر مکی باب۹ فصل دوم ص۷۶ حدیث نمبر۱۶ میں سعد ابن ابی وقاص سے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۸ میں سند کے ساتھ رسول اللہ(ص) سے نقل کیا ہے کہ فرمایا:

"من‏ آذى‏ عليافقدآذاني"

یعنی جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے در حقیقت محمد(ص) کو اذیت دی۔

مجھ کو اس وقت ایک اور حدیث یاد آگئی، اجازت ہو تو عرض کروں اس لیے کہ حدیث رسول(ص) کا بیان کرنا اور سننا عبادت ہے۔ اس حدیث کا بخاری نے اپنی صحیح میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے کتاب ما نزل من القرآن فی علی میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں اور حاکم ابوالقاسم حسکانی نے حاکم ابو عبداللہ حافظ سے انہوں نے احمد بن محمد بن ابی دائود حافظ سے انہوں نے علی بن احمد عجلی سے انہوں نے ؟؟؟؟ یعقوبسے انہوں نے ارطاۃ بن حبیب سے انہوں نے ابوخالد واسطی سے انہوں نے زید بن علی علیہ السلام سے ، انہوں نے اپنے باپ علی ابن الحسین علیہما السلام سے آپ نے اپنے باپ حسین بن علی علیہما السلام سے اور آپ نے اپنے پدر بزرگوار علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک راوینے اپنی داڑھی کا بال پکڑ کے کہا کہ رسول اللہ(ص) نے اس

۱۱۶

طرح سے اپنا موئے مبارک ہاتھ میں لے کر فرمایا:

"ياعلي‏ من‏ آذى‏شعرةمنكفقدآذانيومنآذانيفقدآذىاللهومنآذىاللهفعليه لعنة الله"

یعنی اے علی(ع) جو شخص تمہارے ایک بال کو بھی تکلیف پہنچائے اس نے در حقیقت مجھ کو تکلیف پہنچائی۔ اور جو شخص مجھ کو تکلیف پہنچائے اس نے حقیقتا خدا کو تکلیف پہنچائی اور جو خدا کو تکلیف پہنچائے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔

سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی نے کتاب رشفتہ الصاری من بحر فضائل بنی النبی الہادی مطبوعہ مطبع اعلامیہ مصر سنہ۱۳۰۳ باب۴ ص۶۰ میں کبیر طبرانی، صحیح ابن حبان اور حاکم سے صحت حدیث کی تصدیق کے ساتھ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ :

"مَنْ‏ آذَانِي‏ فِي‏ عِتْرَتِي‏فَعَلَيْهِلَعْنَةُاللَّهِ."

یعنی جو شخص مجھ کو میری عترت کے بارے میں اذیت پہنچائے پس اس پر خدا کی لعنت ہو۔

امید ہے کہ میرے سچے معروضات بے اثر نہ ثابت ہوں گےے اور آپ حضرات اب اس سے زیادہ آں حضرت(ص) کی مقدس روح کو آزردہ کرنے پر رضا مند نہ ہوں گے ، کیوںکہ محکمہ عدل الہی میں جواب دہی بہت مشکل ہے۔

( جیسے ک اس ساری مدت میں میں خود بھی رو رو کر بیان کرتا رہا اور اکثر حاضرین کی آںکھوں میں بھی آنسو بھرے رہے بلکہ بعض کے رخساروں پر جاری ہوگئے تھے، یہاں تک کہ جناب حافظ صاحب بھی کبھی کبھی اشکبار ہوجاتے تھے۔)

حضرات! ذرا غائر نظر ڈالئے اور اپنے معرض عمل میں قرار دیجئے تو معلوم ہو کہ جماعت امت کے درمیان ( وہی امت جو دو مہینے قبل حضرت علی علیہ السلام کے پائیں پا بیٹھی ہوتی تھی اور آپ کو پیغمبر(ص) اپنے ہاتھوں پر بلند کئے ہوئے، سب نے آپ کی بیعت کی تھی اور خدا و رسول (ص) کے حکم سے آپ کے سامنےسر تسلیم خم کیا تھا) جس وقت امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت رد کی گئی اور قطعی حکم دے دیا گیا کہ صدیقہ مظلومہ جناب فاطمہ (ع) کی زیر تصرف جائداد اور آپ کے بچوں کی پرورش کا ذریعہ ضبط کر لیا جائے تو اتنی سخت اہانتوں سے پیغمبر(ص) کی ان دوںوں امانتوں پر کیا گزری ہوگی؟ یہاں تک کہ دشمن مسجد رسول سے خوش ہو کر اٹھے۔

یہ غیظ و غضب جناب معصومہ پر ایسا موثر اور مستول ہوا کہ عین عالم شباب میں انتہائی غصے اور درد و الم کے ساتھ دنیا سے اٹھ گئیں۔

حافظ : بدہی چیز ہے کہ بی بی فاطمہ(ع) شروع شروع میں ضرور دل تنگ اور غضب ناک ہوئیں لیکن آخر کار جب دیکھا کہ خلیفہ نے حکم صحیح دیا ہے تو ناراضگی جاتی رہی اور ان لوگوں سے خوش ہوگئیں۔ یہاں تک کہ انتہائی رضا و خوشنودی کے ساتھ دنیا سے گئیں۔

۱۱۷

فاطمہ (ع) مرتے دم تک ابوبکر و عمر سے خوش نہیں تھیں

خیر طلب: اگر یہی بات ہے تو آپ کے بڑے بڑے علماء اس کے برعکس کیوں لکھتے ہیں؟ مثلا دو موثق عالم بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں لکھا ہے۔

"فوجدت(۱) ای فغضبت‏ فاطمةعلى أبى بكرفهجرته فلم تكلمه حتّى توفيت فلماتوفيت دفنهازوجهاعليّ بن أبي طالب ليلاولم يؤذنبهاأبابكريصلى عليها"

یعنی فاطمہ(ع) نے غیظ و غضب کے عالم میں ابوبکر کو ترک کر دیا اور ناراضگی کی وجہ سے مرتے دم تک ان سے بات نہیں کی یہاں تک کہ جب وفات پائی تو ان کے شوہر علی(ع) نے رات کے وقت دفن کیا اور ابوبکر کو اس کی اجازت نہیں دی کی جنازے میں شریک ہوں اور ان پر نماز پڑھیں۔

چنانچہ بخاری نے اپنی صحیح جلد پنجم باب غزوۃ خیبر ص۹ نیز جلد ہفتم باب قول النبی ، لا نورث ما ترکناہ صدقہ ، ص۸۷ میں نقل کیا ہے کہ :

"فهجرته‏ فاطمةفلم تكلمه حتى ماتت."

یعنی فاطمہ(ع) نے ابوبکر کو چھوڑ دیا اور ان سے کلام نہیں کیا یہاں تک کہ وفات پائی۔(۱۲ مترجم)

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۹۹ میں بھی اسی روایت کو نقل کیا ہے۔ ابومحمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری نے الامامۃ والسیاستہ ص۱۴ میں روایت کی ہے کہفاطمہ سلام اللہ علیہا نے بستر بیماری پر ابوبکر و عمر سے فرمایا:

"انّي اشهداللَّه وملائكته انّكمااسخطانى‏وماارضيتمانى لئن لقيت النّبىّ لأشكون كما"

یعنی میں خدا اور فرشتون کو گواہ کر کے کہتی ہوں کہ تم دونوں ( ابوبکر و عمر) نے مجھ کو غضبناک کیا ہے اور مجھ کو راضی نہیں کیا۔ اگر پیغمبر(ص) سے ملاقات کروں گی تو ضرور بالضرور تم دونوں کی شکایت کروں گی۔

نیز اسی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔

"غضبت‏ فاطمةمن ابی بکر وهجرتهالیماتت"

یعنی فاطمہ(ع) ابوبکر پر خشمناک ہوئیں اور ان کو ترک کردیا یہاں تک کہ اسی حالت میں وفات پائی۔

ان روایتوں کے مقابل آپ کی معتبر کتابوں میں اور بھی بہت سے اخبار و احادیث درج ہیں خیر ذرا آپ حضرات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ وجد لغت میں جیسا کہ فیروز آبادی نے قاموس میں لکھا ہے خشم و غضب کے معنی میں ہے۔ ۱۲

۱۱۸

غیر جانبداری اور عدل و اںصاف کی نظر ڈالیں اور مجھ س ان روایات کے درمیان جمع کرنے کا طریقہ بیان فرمائیں۔

فاطمہ(ع) کی اذیت خدا و رسول(ص) کی اذیت ہے

من جملہ ان کے وہ مشہور حدیث ہے جس کو بالعموم آپ کے علماء جیسے امام احمد بن حنبل مسند میں سلیمان قندوزی ینابیع المودۃ میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی اور بن حجر نے صواعق میں ترمذی اور حاکم وغیرہ سے نقل کرتے ہوئے الفاظ و عبارات کی مختصر کمی و بیشی کے ساتھ درجکیا ہے کہ رسول اللہ(ص) مکرر فرماتے تھے۔

" فاطمة بضعة منی وهی نور عينی و ثمرة فئوادی و روحی التی بين جنبی من آذاها فقد آذانیو من آذانی فقد اذی الله و من اغضبها فقد اغضبنی يوذينی ما اذاها"

یعنی فاطمہ(ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے، یہ میری آنکھوں کا نور، میرا میوہ دل اور میرے دونوں پہلوئون کے درمیان میری روح ہے، جس نے فاطمہ(ع) کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی جس نے فاطمہ(ع) کو غضب ناک کیا اس نے مجھ کو غضب ناک کیا، جس چیز سے فاطمہ(ع) کو تکلیف پہنچتیہے اس سے مجھ کو تکلیف پہنچتی ہے۔

ابن حجر عسقلانی نے اصابہ میں فاطمہ سلام اللہ علیہا ک حالات بیان کرتے ہوئے صحیحین بخاری و مسلم سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :

"فاطمة بضعة منیيوذينیمن اذاهاو يريبنی ما ازا بها"

یعنی فاطمہ(ع) میرا پارہ تن ہے جو چیز اس کو اذیت پہنچائے وہ مجھ کو بھی اذیت پہنچاتی ہے اور جو چیز اس کی بزرگی قائم رکھے وہ میری بزرگی بھی قائم رکھتی ہے۔

محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص۶ میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاءجلد دوم ص۴۰ میں اور امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص)نے فرمایا:

"انما فاطمة ابنتی بضعة منی يريبنی ما ارا بها و يوذينی ما آذاها "

یعنیسوائے اس کے نہیں ہے کہ فاطمہ(ع)میری بیٹی میرے بدن کا ٹکڑا ہے، جو اس لیے باعث عزت ہے وہ میرے لیے بھی باعث عزت ہے اور جو اس کے لیے ایذا رساں رہے وہ میرے لیے بھی ایذا رساں ہے۔

ابوالقاسم حسین بن محمد ( راغب اصفہانی) محاضرات الادباء جلد دوم ص۲۰۴ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

۱۱۹

"فاطمة بضعة منیفمن اغضبها فقد اغضبنی"

یعنی فاطمہ(ع) میرے جسم کا حصہ ہے پس جس نے اس کو غصہ دلایا اس نے مجھ کو غصہ دلایا۔

حافظ ابوموسی بن المثنی بصری متوفی س۲۵۲ہجری نے اپنی معجم میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد ۴ ص۳۷۵ میں، ابویعلی موصلی نے سنن میں، طبرانی نے معجم میں حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد سیم ص۱۵۴ میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے فضائل الصحابہ میں، حافظ ابن عساکر نے تاریخ شام میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص۱۷۵ میں، محب الدین طبری نے ذخائر ص۳۹ میں، ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ ص۱۰۵ میں اور ابوالعرفان الصبان نے اسعاف الراغبین ص۱۷۱ میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے اپنی دختر سلام اللہ علیہا سے فرمایا:

" يا فاطمه ان اللهيغضب لغضبک و يرضی لرضاک"

یعنی اے فاطمہ(ع) یقینا تم ناراض ہو تو اللہ بھی ناراض ہوتا ہے اور تم راضی ہوتو خدا بھی راضی ہوتا ہے۔

اور محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح باب مناقب قرابہ رسول اللہ(ع) ص۷۱ میں مسور بنمخزومہ سے نیز ص۷۵ میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

"فاطمة بضعة منیفمن اغضبها فقد اغضبنی"

یعنی فاطمہ(ع) میرے جسم کا ٹکڑا ہے پس جو شخص فاطمہ(ع) کو غصہ میں لایا در حقیقت وہ مجھ کو غصہ میں لایا۔

اسی قسم کی حدیثیں صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابو دائود، ترمذی، مسند امام احمد بن حنبل، صواعق محرقہ ابن حجر اور ینابیع المودت شیخ سلیمان بلخی حنفی وغیرہ جیسی آپ کی معتبر کتابوں میں بکثرت سے مروی ہیں، پس ان اخبار کو ان روایات کےساتھ کیونکر جمع کیجئے گا کہ جناب فاطمہ(ع) ان لوگوں سے غضبناک اور ناراج دنیا سے نہ اٹھیں؟

شیخ : یہ روایتیں صحیح ہیں لیکن علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ جب انہوں نے ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ عقد کا پیغام دینا چاہا تو رسول خدا(ص) ان پر غضبناک ہوئے فرمایا کہ جو شخص فاطمہ(ع) کو آزار دے اس نے مجھ کو آزار دیا اور جو شخص مجھ کو آزار دے وہ مغضوب خدا ہے اور اس سے مراد علی(ع) تھے۔

دختر ابوجہل کے لیے پیغام دینے کا جواب

خیر طلب : انسان اور دوسرے حیوانات میں بہت فرق ہے۔ انسان کو جو امتیازی خصوصیات حاصل ہیں ان میں سب سے اہم عقل و غور و فکر کی قوت ہے جو اس کے دماغ میں ودیعت کی گئی ہے یعنی حیوان پر اسی آدمی کو برتری حاصل ہے جو زندگی کی تمام منزلوں میں عقل کیہدایت پر عمل کر لے۔ اس طریقے سے کہ جو کچھ سنے اس فورا آنکھ بند کر کے قبول نہ کر لے بلکہ اس کے ہر پہلو پر گہری نظر ڈالے ، اگر عقل اس کیو قبول کرے تو مان لے ورنہ رد کردے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394