پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 276203
ڈاؤنلوڈ: 6130


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 276203 / ڈاؤنلوڈ: 6130
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

"فَبَشِّرْ عِبادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ‏ أَحْسَنَهُ‏ أُولئِكَ الَّذِينَ هَداهُمُ اللَّهُ وَ أُولئِكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبابِ‏."

یعنی(اے رسول(ص)) بشارت دے دو انبندوں کو جو بات سنتے ہیں پس اس کے بہترین حصے کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور یہی لوگ در حقیقت صاحبان عقل ہیں۔( آیت نمبر19 سورہ نمبر39 ( زمرا))

ایک روایت آپ کے اسلاف نے نقل کی اور آج آپ بھی اپنی عادت او گذشتہ لوگوں کی فریب کاری کا اتباع کرتے ہوئے بغیر عقل کی کسوٹی پر کسے اور جرح و تعدیل کئے ہوئے یہ غیر معقول جملے زبان پر جاری کر رہے ہیں لہذا میں بھی مجبور ہوں کہ مختصر جواب عرض کروں۔

اول تو خود آپ کے علماء نے تصدیق کی ہے ( جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا) کہ علی علیہ السلام آیہ تطہیر میں شامل اور طہارت ذاتی کے حامل ہیں یعنی ہر رجس و کثافت ، لہو ولعب اور اخلاق رذیلہ سے منزا و مبرا ہیں۔

دوسرے یہ کہ آیہ مباہلہ میں خدا نے ان کو بمنزلہ نفس پیغمبر(ص) فرمایا ہے جس کے متعلق ہم گذشتہراتوں میںتفصیل سے بحث کرچکے ہیں اس کے باب علم رسول(ص) تھے لہذا قرآن کے احکام و قوانین سے بخوبی واقف تھے اور جانتے تھے کہ خڈا نے آیت نمبر53 سورہ نمبر33( احزاب) میں فرمایا ہے:

"وَ ما كانَ لَكُمْ أَنْ‏ تُؤْذُوا رَسُولَ‏ اللَّهِ "

یعنی تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں ہے کہ رسول اللہ(ص) کو ( زندگی میں یا بعد از وفات) اذیت پہنچائو۔

پس عقل کیونکر باور کرسکتی ہے کہ آپ کوئی ایسا اقدام کریں کہ آپ کے قول یا فعل سے رسول خدا(ص) آزردہ خاطر اور غضبناک ہوں؟ اور یہ کیونکر سمجھ میں آسکتا ہے کہ مجسمہ خلق عظیم پیغمبر(ص) اس ہستی پر ناراض ہو جو خدا کو محبوب ہو اور وہ بھی ایک مباح کام کے لیے کیونکہ خدائے تعالے نے قرآن مجید میں کوئی استثناء نہیں فرمایا ہے۔ آیت نمبر3 سورہ نمبر4 ( نساء)

"فَانْكِحُوا ما طابَ لَكُمْ مِنَ النِّساءِ مَثْنى‏ وَ ثُلاثَ وَ رُباعَ"

یعنی تم کو جو بہتر معلوم ہو دو تین اور چار عورتون سے نکاح کرسکتے ہو۔

اس حکم سے امر نکاح انبیاء و اوصیاء اور ساری امت میں عمومیت رکھتا ہے اگرفرض کر لیاجائے کہ امیرالمومنین(ع) کوئی ایسا قصد کر بھی رہے تھے تو شرعا جائز تھا اور رسول اکرم(ص) کسی امر مباح کے لیے ہرگز غضبناک نہیں ہوتے تھے اور نہ ایسے کلمات فرماتے تھے۔

چنانچہ ہر عقل مند انسان غور و تحقیق کے بعد سمجھ لیتا ہے کہ ی روایت بنی امیہ والوں کے موضوعات میں سے ہے اور آپ کے اکابر علماء بھی اس حقیقت کے معترف ہیں۔

۱۲۱

عہد معاویہ کی حدیث سازی اور ابو جعفر اسکافی کا بیان

چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص358 میں اپنے شیخ و استاد ابوجعفر اسکافی بغدادی سے اس بارے میں ایک بیان نقل کرتے ہیں کہ معاویہ ابن ابوسفیان نے صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کو معین کیا تھا کہ علی علیہ السلام کی مذمت میں روایتیں وضع کریں اور ان حضرت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنائیں تاکہ لوگ آپ سے بیزاری اختیار کریں۔

من جملہ ان کے ابوہریرہ و عمرو بن عاص ، مغیرہ بن شعبہ اور تابعین میں سے عروہ بن زبیربھی تھے۔ لکھتے ہیں کہ انہوں نے ان لوگوں کی بعض جعلی روایتوں کا بھی تذکرہ کیا ہے، یہاں تک کہ جب ابوہریرہ کا نام آیا تو کہا ابوہریرہ وہ شخص ہے جس نے ایک حدیث اس مفہوم کی روایت کی ہے کہ علی علیہ السلام نے رسول خدا(ص) کی زندگی میں دختر ابوجہل کی خواستگاری کی جس سے آں حضرت(ص) نے ان پر غیظ وغضب کا اظہار کیا اور بالائے منبر فرمایا کہ دوست خدا اور دشمن خدا میں یکجائِ نہیں ہوسکتی ، فاطمہ(ع) میرا پارہ تن ہے جو شخص اس کو اذِیت دے اس نے مجھ کو اذیت دی، جو شخص ابوجہل کی بیٹی کو لانا چاہتا ہے اس کو چاہئیے کہ میری بیٹی سے علیحدہ ہوجائے۔

اس کے بعد ابوجعفر کہتے ہیں " والحدیث مشہور من روایہ الکرابیسی" یعنی یہ حدیث روایت کرابیسی کے نام سے مشہور ہے اس لیے کہ ہر بے بنیاد روایت کو کرابیسی کہتے ہیں۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیحیں بخاری و مسلم میں مسور بن محرمہ الزہر سے مروی ہے۔ اور سید مرتضی علم الہدی ( جو اکابر و مفاخر محققین علمائے شیعہ میں سے ہیں) کتاب تنزیہ الانبیاء و الائمہ میں کہتے ہیں کہ یہ روایت حسین کرابیسی سے منقول ہے جو اہل بیت طاہرین کی مخالفت میں مشہور ہے، یہ اس خاندان جلیل کے سخت دشمنوں اور نواصب میں سے تھا اور اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔ چونکہ خود آپ کی معتبر کتابوں میں مروی اخبار کثیرہ کی بنا پر علی(ع) کا دشمن منافق ہے اور منافق بحکم قرآن مجید جہنمی ہے لہذا اس کی روایت مردود ہے۔

اس کے علاوہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت دینے والوں کی مذمت میں روایتیں صرف کرابیسی کے بیان یا دختر ابوجہل کے گڑھے ہوئے واقعہ میں ابوہریرہ کی نقل سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ اس موضوع میں بکثرت روایات وارد ہیں۔

من جملہ ان کے خواجہ پارسائے بخاری فصل الخطاب میں، امام احمد بن حنبل مسند اورمیر سید ہمدانی شافعی مودۃ القربی مودۃ سیزدہم میں سلمان محمدی سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا۔

"حبّ‏ فاطمة ينفع في مائة من المواطن ايسر تلك المواطن الموت و القبر و الميزان و الصّراط و الحساب فمن رضيت عنه ابنتى فاطمة رضيت عنه و من رضيت عنه

۱۲۲

رضى اللَّه عنه و من غضبت عليه ابنتى فاطمة غضبت عليه و من غضبت عليه غضب اللَّه عليه و ويل لمن يظلمها و يظلم بعلها عليا و ويل لمن يظلم ذرّيّتها و شيعتها"

یعنی فاطمہ(ع) کی محبت سو مقامات پر نفع پہنچاتی ہے۔ جن میں سب سے آسان موت، قبر، میزان، صراط اور حساب ہے پس جس سے میری بیٹی فاطمہ(ع) خوش ہے اس سے میں بھی راضی ہوں اور جس سے میں راضی ہوں اس سے خدا راضی ے اور جس پر میری بیٹی فاطمہ(ع) ناراض ہے اس پر میں بھی ناراض ہوں اور جس پر میں غضبناک ہوں اس پر خدا غضب ناک ہے وائے ہو اس پر جو فاطمہ(ع) پر اور ان کے شوہر علی(ع) پر ظلم کرے اور وائے ہو اس پر جو علی(ع) و فاطمہ(ع) کی اولاد اور ان دونوں کے شیعوں پر ظلم کرے۔

جس قدر روایتیں پیش کی گئیں ثبوت اور نمونے کے لیے اتنی ہی کافی ہیں۔ اب آپ حضرات یہ فرمائیں کہ یہ اخبار صحیحہ جو فریقین کی کتب معتبرہ میں بکثرت سے منقول ہیں ان روایات کے ساتھ جو پہلے عرض کرچکا کہ آپ کے اکابر علماء جیسے بخاری و مسلم وغیرہ نے روایت کی ہے کہ فاطمہ(ع) ابوبکر وعمر پر غضبناک اور ناراض رہیں یہاں تک کہ دنیا سے اٹھ گئیں ، کیونکر جمع کی جاسکتی ہیں؟

حافظ : یہ روایتین صحیح ہیں اور ہماری معتبر کتابوں میں بکثرت اور بہت تفصیل سے منقول ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ دختر ابوجہل کے لیے علی کرم اللہ وجہہ کی خواستگاری کے سلسلہ میں حدیث کرابیسی خود میرے دل میں کھٹکتی تھی اور مجھ کو اس پر یقین نہیں آتا تھا، میں بہت ممنون ہوں کہ آج آپ نےاس گتھی کو حل فرما دیا۔

غضب فاطمہ(ع) کے دینی ہونے میں اشکال اور اس کا جواب

دوسری یہ کہ ان احادیث میں غضب سے غضب دینی مراد ہے نہ کہ معمولی دنیاوی غصہ۔ اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما فاطمہ رضی اللہ عنہا کایہ غصہ جو ہماری تمام صحیح کتابوں میں منقول ہے غضب دینی نہیں تھا۔یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا ن شیخین رضی اللہ عنہما پر دینی فرائض کے خلاف کوئی عمل کرنے کی وجہ سے غصہ نہیں کیا البتہ جو شخص فاطمہ(ع) کو دینی غصہ دلائے قطعا اس پر خدا و رسول(ص) کا غضب نازل ہوگا۔

در اصل فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یہ غصہ ان کا حالت میں اس قسم کا تغیر تھا جو ہر حساس انسان میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اپنی مراد اور مقصد کو حاصل نہ کرسکے۔

چونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فدک کی درخواست کی تھی اور خلیفہ نےفدک واپس کرنے سے موافقت نہیں کی لہذا فطری طور پر متاثر ہوئیں اور اس وقت غضبناک ہوئیں لیکن بعد کو یہ معمولی غصہ بھی ان کے دل سے نکل گیا اور خلیفہ کے حکم پر راضی ہوگئیں اور ان جلیل القدر بی بی کی رضامندی کا ثبوت ان کی خاموشی تھی۔

۱۲۳

یہاں تک کہ جب علی کرم اللہ وجہہ کو خلافت ملی تو باوجود ا پنے اس اثر و اقتدار کے فدک کو ضبط نہیں کیا چنانچہ یہ بھی ایک دلیل قاطع ہے کہ آپ سابق خلفاء کے فیصلے پر راضی تھے۔

خیر طلب: آپ نے ایسے مطالب بیان فرمائے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا ایک مفصل جواب ہے چونکہ رات کافی گزر چکی ہے لہذا اگرچہ حضرات سامعین میں کوئی کسل نظر نہیں آتا پھر بھی بہتر ہوگا کہ اگر آپ کی رائے ہو تو جوابات کل شب پر رکھے جائیں۔

و تمام اہل جلسہ بول اٹھےاور کہنے لگے کہ ہم ہرگز رضامند نہیں۔ چونکہ ہم ایک فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکے ہیں لہذا جب تک اس مسئلہ کا نتیجہ معلوم نہ ہوجائے گا نہ جائیں گے۔

خیر طلب : مجھ کو منظور ہے، لیکن وقت کے لحاظسے مفصل جواب ترک کر کے مختصر طور پر عرض کرتا ہوں۔

فاطمہ(ع) کے قلب و جوارح ایمان سے مملو تھے

اول یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ فاطمہ صدیقہ سلام اللہ علیہا کا غصہ دینی نہیں بلکہ نفسانی تھا تو یہ غلط فہمی ہے اور آپ نے بغیر تحقیق اور غور و فکر فرما دیا، اس لیے کہ اصول اخلاق، آیات قرآن اور احادیث رسول(ص) کے مطابق ایک مومن کامل بھی ایسا غصہ نہیں کرتا نہ کہ جناب فاطمہ(ع) جن کی بزرگی آیہ تطہیر، آیہ مباہلہ اور سورہ ہل اتی سے واضح ہے۔

ہماری اور آپ کی معتبر کتابوں میں کثرت سے وارد ہے کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کمال ایمان کے درجہ پر فائز تھیں، اور رسول اکرم(ص) نے خاص طور فرمایا ہے۔

"ان ابنتی فاطمة ملاء الله قلبها و جوارحها ايمانا الی مشاشها"

یعنی یقینا خدا نے میری بیٹی فاطمہ(ع) کے قلب و جوارح کو سرتا قدم ایمان سے بھر دیا ہے۔

فاطمہ(ع) کا غصہ دینی تھا

وہ مومن ومومنہ جن کے ایمان کی علامت حق کوتسلیم کرنا ہو ہرگز ایسا عمل نہیں کرتے کہ جب کوئی حاکم سچا فیصلہ کرے یعنی خدا کا حکم جاری کرے تو اس پر غصہ دکھائیں اور وہ بھی ایسا غصہ جو کینے اور عداوت کے ساتھ ہو، پھر اسی غیض و غضب پر مرتے دم تک قائم رہیں یہاں تک کہ وصیت کر جائیں کہ ان ناحق حکم دینے والوں میں سے کسی کو میرے جنازے پر نماز نہ پڑھنے دینا۔

حق تو یہ ہے کہ وہ فاطمہ(ع) جن کی طہارت کا ثبوت خدا دے رہا ہو قطعا کوئی جھوٹا دعوی ہی نہیں کرسکتیں تاکہ حاکم ان کے خلاف حکم دے۔

۱۲۴

دوسرے اگر بی بی فاطمہ(ع) کا غصہ صرف حالت کا تغیر تھا تو جلد زائل بھی ہوجانا چاہیے تھا، بالخصوص اس عذر خواہی کے بعد تو دل بالکل صاف ہوجانا چاہئیے جو بعد کو ان لوگوں نے کی، کیونکہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے" المومن لیس بحقود " مومن کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ طبیعتا اور ہوائے نفسانی کی بنا رپ دل میں بغض و عداوت نہ رکھتا ہو۔ نیز حدیث میں ارشاد رسول(ص) ہے کہ اگر مومن سے کوئی غلطی ہوجائے تو مومن تین روز سے زیادہ اپنے دل میں عداوت نہیں رکھتا۔ پس صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا(ع) کی ذات جو سرتا پا ایمان میں غرق اور شہادت خداوندی کی بنا پر ہر قسم کے رجس و کثافت اور اخلاق رذیلہ سے پاک و مبرا تھی ہرگز کینہ پرور نہیں ہوسکتی۔ اور دوسری طرف فریقین کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ابوبکر و عمر سے ناراض اور غضبناک دنیا سے گئیں لہذا معلوم ہوا کہ جناب معصومہ کا غصہ دینی تھا کہ جب خدا اور اپنے پدر بزرگوار کے حکم کے خلاف فیصلہ صادر ہوتے دیکھا تو غضب دینی کے ساتھ غضب ناک ہوئیں اور یہی وہ غصہ ہے جو غضب خدا و رسول(ص) کا ذریعہ ہے۔

فاطمہ(ع) کا سکوت رضا مندی کی دلیل نہیں تھا

تیسرے آپ نے فرمایا ہے کہ فاطمہ(ع) کی خاموشی ان معصومہ مظلومہ(ع) کی رضامندی کی دلیل تھی تو اس میں بھی آپ کو دھوکا ہوا ہے۔ ہر سکوت رضامندی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ بعض مواقع پر ظالم کے سخت اقتدار کے سبب سے مظلوم خاموشی پر مجبور ہوجاتا ہے تاکہ ہنگامے اور فساد کے مقابلے میں اپنی آبرو بچائے۔

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا صرف یہی نہیں کہ راضی تھیں بلکہ دنیا سے غضب ناک بھی گئیں جیسا کہ میں خود آپ کے اکابر علماء کے اقوال پیش کرچکا ہوں، بالخصوص آپ کے وہ بزرگ او موثق عالم بخاری و مسلم لکھتے ہیں:

"فغضبت‏ فاطمةعلىأبىبكرفهجرتهولمتكلمهحتّىتوفيت"

یعنی فاطمہ ابوبکر پر غضبناک ہوئیں، پس ان سے دوری اختیار کی اور ان سے بات نہیں کی یہاں تک کہ وفات پائی۔

علی(ع) کو اپنی خلافت میں عمل کی آزادی نہیں تھی

چوتھے آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ علی علیہ السلام نے اپنی خلافت ( ظاہری) کے اقتدار میں چونکہ فدک پر تصرف نہیں کیا اور اس کو اولاد فاطمہ(ع) کے سپردنہیں کیا لہذا یہ فیصلے پر آپ کی رضامندی کی دلیل ہے ،اس میں بھی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے اس لیے کہ حضرت اپنے دور خلافت میں عمل کے لیے آزاد نہیں تھے کہ جو چاہتےاقدام کرتے یا کوئی حق واگذار کرتے یا کوئی بدعت دفع کرتے ۔ آپ جونہی اس قسم کا کوئی قدم اٹھاتے تھے فورا وادیلا مچ جاتی تھی۔

۱۲۵

اگر آپ اولاد فاطمہ(ع) کو فدک واپس کر دیتے تو یقینا مخالفین اور خاص طور سے معاویہ اور انکےچیلو کو موقع ہاتھ آجاتا کہ پہلے والوں نے جو بات کہی تھی کہ علی(ع) اپنے لیے کسب منفعت کررہے ہیں اس کو صحیح ثابت کریں اور یہ پروپیگنڈا کر کے اپنے قدم مضبوط کریں کہ علی(ع) نے ابوبکر کے خلاف عمل کیا۔

اس کے علاوہ ایسا حکم دینے کے لیے قدرت اور خودمختاری ضروری تھی حالانکہ لوگوں نے حضرت کے لیے ایسی طاقت اور اختیارات ہی باقی نہیں رکھے تھے کہ سابق خلفاء کے قول و فعل کے خلاف کوئی طریقہ رائج کرسکیں۔ چنانچہ منبر اور تراویح کے قضیہ سے یہ بات صاف ہوگئی۔

چونکہ حضرت سے پہلے دوسرے خلفاء نے منبر کو اس مقام سے ہٹا دیا تھا جہاں پر رسول خدا(ص) نے رکھا تھا لہذا جس وقت آپ کو خلافت ظاہری حاصل ہوئی تو چاہا کہ منبر رسول(ص) کو پھر اس کی اصلی جگہ لے جائیں لیکن لوگوں نے ہنگامہ برپا کر دیا اور اس کے لیے تیار نہیں ہوئے کہ سیرت شیخین کے خلاف عمل کیا جائے چاہے وہ عمل پیغمبر(ص) کے مطابق ہی کیون نہ ہو۔

اسی طرح لوگوں کو نماز تراویح با جماعت سے منع فرمایا تو پھر شور و غوغا بلند ہوا کہ علی خلیفہ عمر کے خلاف چلنا چاہتے ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب ! نماز تراویح کیا تھی کہ علی کرم اللہ وجہہ نے اس کی جماعتسے منع کیا؟

خیر طلب : تراویح لغت میں ترویحہ کی جمع ہے جو در اصل نشست کے معنی میں ہے۔ بعد کو ماہ رمضان ال مبارک کی راتوں مِں چار رکعت نماز کے بعد استراحت کے لیے بیٹھنے کا نام قرار پایا، شبہائے ماہ رمضان میں چار رکعت مستحبی نماز کا( یاتمام شبوں میں بیس رکعت مستحبی نماز کا) نام ہوگیا۔

یہی مسئلہ ہے کہ اسلامی دینیات میں صرف فریضہ اور واجب نمازیں تو جماعت سے پڑھی جاسکتی ہیں لیکنمستحبی نمازیں ممنوع ہیں کیونکہ خود پیغمبر(ص) کا ارشاد ہے۔

" إِنَّ الصَّلَاةَ بِاللَّيْلِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ النَّافِلَةَ فِي‏ جَمَاعَةٍ بِدْعَةٌ وَ صَلَاةَ الضُّحَىمَعْصِيَةٌ أَلَا فَلَا تَجْتَمِعُوا لَيْلًا شَهْر رَمَضَانَ فِيلنَّافِلَةوَ لَا تُصَلُّوا صَلَاةَ الضُّحَى فَإِنَّ قَلِيلا مِنَ السُنَّة خَير مِن کَثِير مِن بِدعةَِ أَلَا وَ إِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ كُلَّ ضَلَالَةٍ سَبِيلُهَا إِلَى النَّارِ "

یعنی در حقیقت شبہائے ماہ رمضان کی نماز نافلہ جماعت سے پڑھنا بدعت ہے اور نماز چاشت پڑھن گناہ ہے لوگو!ماہ رمضان کا نافلہ جماعت سے نہ پڑھو اور نماز چاشت بھی نہ پڑھو بس یقینا تھوڑا سا عمل جو سنت کے مطابق ہو اس بہت سے عمل سے بہتر ہے جو بدعت ہو۔ جان لوگ کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا راستہ آتش جہنم کی طرف ہے۔

ایک رات عمر اپنے دور خلافت کے سنہ14ہحری میں مسجد کے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ چراغ روشن ہیں اور لوگ

۱۲۶

جمع ہیں، پوچھا کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا کہ سب سنتینماز جماعت سے پڑھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ عمر نے کہا: بدعۃ و نعمت البدعۃ یہ عمل بدعت ہے لیکن اچھی بدعت ہے۔

بخاری اپنی صحیح میں عبدالرحمن ابنعبدالقادری سے نقل کرتے ہیں کہ خلیفہ نے جب دیکھا کہ لوگ الگ الگ نماز پڑھ رہے ہیں تو کہا کہ جماعت سے پڑھیں تو بہتر ہے اور ابی بن کعب کو حکم دیا کہ ان کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھائو! دوسری رات مسجد میں آئے تو دیکھا کہ لوگ ان کے حکم کیتعمیل میں جماعت سے پڑھ رہے ہیں کہ کہا نعمت البدعت ہذہ کیا اچھی بدعت ہے یہ بدعت۔

اس زمانہ سے عہد خلافت امیرالمومنین علیہ السلام تک یہ عمل جاری رہا۔ حضرت نے اس کو منع فرمایا کہ رسول خدا صلعم کےزمانے میں چونکہ یہ طریقہ نہیں تھا بلکہا سکی ممانعت تھی لہزا اسے ترک کردینا چاہئیے یہاں تک کہ آپ کوفے میں تشریف لائے تو اہل کوفہ نے درخواست کی کہ ہمارے لیے ایک پیشنماز معین فرمادیجئے تاکہ ہم نافلہ شبہائے رمضان جماعت سے پڑھیں حضرت نے اس سے منع فرمایا لیکن اس کے باوجود چونکہ ان لوگوں کی عادت ہوچکی تھی لہذا باز نہیں آئے اور جو نہی آپ تشریف لےگئے سب نے جمع ہو کر آپس میں ایک شخص کو امام مقرر کیا تاکہ جماعت سے نماز پڑھیں۔ فورا یہ خبر امیرالمومنین علیہ السلام کو پہنچی تو آپ نے اپنے بڑے فرزند امام حسن(ع) کو بلا کر حکم دیا کہ تزیانہ لے کر جائو اور اس مجمع کو نماز نافلہ جماعت کے ساتھ پڑھنے سے روکو! جب لوگوں نے یہ کیفیت دیکھی تو نالہ و فریاد کی آوازیں بلند کیں کہ ہائے علی(ع) تو ہم کو نماز نہیں پڑھنے دیتے۔

باوجودیکہ خود جانتے تھے کہ رسول خدا(ص) کے عہد میں نماز کا یہ طریقہ نہیں تھا بلکہ عمر کے زمانے میں رائج ہوا ہے پھر بھی جضرت علی علیہ السلام کے فرمان اور ہدایت پر عمل پیرا نہیں ہوئے جو حکم رسول کے مطابق تھی۔

پس حضرت فدک کو اولاد فاطمہ(ع) کےسپرد کیونکر کرسکتے تھے؟ اگر ایسا کرتے اور فرماتے کہ اس کو ظلم سے غصب کیا گیا تھا لہذا مظلومہ کے وارثوں کو ملنا چاہئیے ۔ تو فورا لوگ چیخنے لگتے کہ علی ابن ابی طالب(ع) دنیا کی طرف مائل ہیں اور اپنی اولاد کے فائدے کے لیے مسلمانوں کا حق ضبط کر لیا ہے۔ چنانچہ سابق کی طرح آپ نے صبر ہی مناسب سمجھا۔ اور چونکہ اصلی حقدار بھی دنیا سے اٹھ چکا تھا لہذا آپ نے استقرار حق کو ملتوی کردیا تاکہ جب خلائق کو واگزار کرانے کے لیے امام مہدی آخر الزمان عجل اللہ فرجہ تشریف لائیں تو ان کا یہ حق واپس لیں۔

ایسی صورت میں حضرت کی خاموشی بھی فیصلہ پر راضی ہونے کی دلیل نہیں تھی۔ اگر آپ فدک کے معاملے میں سابق خلفاء کے طرز عمل کو حق سمجھتے تو اولا ان کے مقابلے میں استدلال نہ فرماتے۔

دوسرے اپنے درد دل اور ناراضگی کا اظہار نہ کرتے اور خدائے حکیم مطلق کو حکم قرار نہ دیتے۔

چنانچہ نہج البلاغہ میں ہے کہ حضرت نے اپنے عامل بصرہ عثمان ابن حنیف انصاری کے نام ایک خط اپنا دلی صدمہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا :

۱۲۷

" كَانَتْ‏ فِي‏ أَيْدِينَا فَدَكٌ‏ مِنْ كُلِّ مَا أَظَلَّتْهُ السَّمَاءُ فَشَحَّتْ عَلَيْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ وَ سَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ آخَرِينَ وَ نِعْمَ الْحَكَمُ اللَّهُ "

یعنی دنیا کی جن چیزوں پر آسمان نے سایہ ڈالا ہے ان میں سے ہمارے قبضے میں صرف فدک تھا ایک گروہ( خلفائے ماسبق ) نے اس کے لیے بخل دکھایا ( اور ہم سے چھین لیا) اور دوسری جماعت ( فاطمہ(ع) اور ان کی اولاد ) نے بھی اس سے ہاتھ کھینچ لیا اور اللہ سب سے اچھا اور فیصلہ کرنے والا ہے۔

رہا آپ کا یہ فرمانا کہ فاطمہ مظلومہ سلام اللہ علیہا آخر عمر میں ان پر راضی ہوگئیں اور ان لوگوں سے در گذر کی تو یہاں پھر آپ نے سخت دھوکا کھایا کیونکہ ہرگز ایسی صورت پیدا نہیں ہوئی، جیسا کہ ان روایتوں سے جو پہلے عرض کی جاچکیں تم نے ثابت کیا ہے کہ وہ مظلوم بی بی مرتے دم تک ناراض اور غضب ناک رہیں۔

ابوبکر اور عمر کی عیادت فاطمہ(ع)

اب میں خاتمہ کلام پر مزید ثبوت کے لیے ایک روایت اور پیش کرتا ہوں کہ ابومحمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوی متوفی سنہ276 ہجری نے تاریخ الخلفاء الراشدین معروف بہ الامامتہ والسیاستہ جلد اول ص12 میں اور آپ کے دیگر علماء جیسے ابن ابی الحدید وغیرہ نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ:

"فقال عمر لأبي بكر: انطلق بنا إلى فاطمة، فإنّا قد أغضبناها."

یعنی عمر نے ابوبکر سے کہا کہ آئو ہم فاطمہ(ع)کے پاس چلیں کیونکہ ہم نے یقینا ان کو غضب ناک کیا ہے۔

(اور بعض روایتوں میں ہے کہ ابوبکر نے عمر سے کہا کہ ہمارے ساتھ فاطمہ(ع) کے پاس چلو اور بظاہر یہی ہے)

خلاصہ یہ ہے کہ دونوں ایک ساتھ بی بی فاطمہ(ع) کے دروازے پر گئے لیکن جناب معصومہ(ع) نے ملاقات کی اجازت نہیں دی جب انہوں نے علی علیہ السلام کو واسطہ قرار دیا تو آپ ن سکوت اختیار کیا ۔ حضرت(ص)نے اسی پر اکتفا کر کے ان لوگوں کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے پہنچ کر سلام کیا تو ان مظلومہ ن دیوار کی طرف منہ پھیر لیا ابوبکر نے کہا اے رسول خدا(ص) کی پارہ جگر خدا کی قسم میں رسول اللہ(ص) کے رشتے کو اپنے رشتے سے زیادہ محبوب اور تم کو اپنی بیٹی عائشہ سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں۔ کا شکر میں رسول اللہ(ع) کے بعد ہی مرگیا ہوتا۔ میں تمہاری منزلت اور فضل او شرف کو سب سے زیادہ جانتا ہوں، اگر میں نے تم کو حق وراثت سےمحروم کیا ہے تو یہ آں حضرت ہی کیطرف سے تھا کیونکہ میں نے خود سنا ہے کہ فرمایا " لا نورث ماترکناہ صدقۃ"

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے امیرالمومنین علیہ السلام سے کہا کہ میں رسول اکرم(ص) کی ایک حدیث ان لوگوں کو یاد دلاتی ہوںتم دونوں کو خدا کی قسم دیتی ہوں کیا تم نے آں حضرت(ص) کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ہے کہ:

۱۲۸

"رِضَا فَاطِمَةَ مِنْ رِضَايَ وَ سَخَطُ فَاطِمَةَ مِنْ سَخَطِي وَ مَنْ أَحَبَّ فَاطِمَةَ ابْنَتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي وَ مَنْ أَرْضَى فَاطِمَةَ فَقَدْ أَرْضَانِي وَ مَنْ أَسْخَطَ فَاطِمَةَ فَقَدْ أَسْخَطَنِي"

یعنی فاطمہ(ع) کی خوشنودی میری خوشنودی سے ہے اور فاطمہ(ع) کا غصہ میرے غصے سے ہے۔ پس جوشخص میری بیٹی فاطمہ(ع) کو دوست رکھے اس نے یقینا مجھ کو دوست رکھا، جو شخص فاطمہ(ع) کو خوش رکھے اس نے مجھ کو خوش رکھا اور جو شخص فاطمہ(ع) کو خشمناک کرے اس نے مجھ کو خشمناک کیا۔

" قَالا نَعَمْ سَمِعْنَاهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلی اللهُ علَيهِ وَ سَلَّم "

دونوں نے کہا ہاں ہم نے رسول اللہ(ص) سے یہ کلمات سنے ہیں، اس وقت جناب فاطمہ(ع) نے فرمایا:

" فَإِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ وَ مَلَائِكَتَهُ أَنَّكُمَا أَسْخَطْتُمَانِي وَ مَا أَرْضَيْتُمَانِي وَ لَئِنْ لَقِيتُ النَّبِيَّ ص لَأَشْكُوَنَّكُمَا إِلَيْهِ"

یعنی پس میں اللہ اور اس کے فرشتوں کو گواہ کر کے کہتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھ کو خشمناک کیا ہے اور مجھ کو راضی نہیں رکھا اور اگر میں پیغمبر(ص) سے ملاقات کروں گی تو ضرور بالفرور تم دونوں کی شکایت کروں گی۔

ابوبکر آپ کے ان الفاظ و بیانات سے دل تنگ ہوکر رونے لگے اور کہا میں تمہارے اور آں حضرت(ص) کے غیظ و غضب سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں، اس وقت فاطمہ زہرا(ع) نے نال و فریاد کے ساتھ فرمایا:

" و الله لأدعون عليك في كل صلاة اصليها ثم خرج باکيا."

یعنی خدا کی قسم میں اپنی ہر نماز میں تم پر ضرور بالضرور بدعا اور نفرین کروں گی۔

ابوبکر یہ سن کر روتے ہوئے باہر چلے گئے۔ لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے اور تسلی دینے لگی تو انہوں نے کہا وائے ہو تم پر تم سب تو خوش و خرم اپنے اپنے گھروں اپنی بیویوں کے پاس آرام کرتے ہو، اور میں اس حال میں ہوں "لا حاجة فی بيعتکم اقيلونی بيعتی " مجھے تمہاری بیعت کی کوئی احتیاج نہیں مجھ کو اس سے چھٹکارا دو، خدا کی قسم میں نے جو کچھ فاطمہ(ع) سے سنا اور دیکھا ہے اس کے بعد یہ خواہش نہیں رکھتا کہ کسی مسلمان کی گردن پر میری بیعت رہے۔ انتہی

پس اس قسم کی روایتوں سے جن کو خود آپ کے اکابر علماء نے لکھا ہے معلوم ہوتا ہے کہ مظلوم و مغموم بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا آخری وقت تک ابوبکر و عمر سے ناراض وغضبناک رہیں، غصے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ دنیا سے گئیں اور ہرگز ان سے خوش نہیں ہوئیں۔

۱۲۹

فاطمہ(ع) کو شب میں دفن کیا

امت کے ان وضیع اور ذات شریف لوگوں سے جناب معصومہ کی ناراضگی اور غم و غصہ کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے اپنے شوہر امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے یہ وصیت کی۔

" لَا يَشْهَدَ أَحَدٌ جِنَازَتِي‏ مِنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ ظَلَمُونِي وَ أَخَذُوا حَقِّي فَإِنَّهُمْ عدُوّی وَ عَدو رَسُولِ اللَّهِ ولا تترک أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيَّ أَحَدهمْ وَ لَا مِنْ أَتْبَاعِهِمْ وَ ادْفِنِّي فِي اللَّيْلِ إِذَا هَدَأَتِ الْعُيُونُ وَ نَامَتِ الْأَبْصَارُ"

یعنی ان لوگوں میں سے جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور میرا حق چھینا ہے ایک شخص بھی میرے جنازے پر نہ آئے کیونکہ یقینا یہ لوگ میرے اور رسول اللہ(ص) کے دشمن ہیں۔ ان میں سے اور ان کے پیروئوں میں سے کسی کو میرے جنازہ پر نماز نہ پڑھنے دیجئے گا اور مجھ کو شب میں دفن کیجئے گا جب لوگ سورہے ہوں۔

چنانچہ بخاری اپنی صحیح میں کہتے ہیں کہ علی(ع) نے فاطمہ(ع) کی وصیت پر عمل کیا اور ان کو رات کے وقت دفن کیا، لوگوں نے ہرچند جستجو کی کہ فاطمہ(ع) کو کہا دفن کیا ہے لیکن پتہ نہ پاسکے

فاطمہ(ع) کا درد دل قیامت تک رلائے گا

یہ بات بالاتفاق ثابت ہے کہ فاطمہ طاہرہ سلام اللہ علیہا اپنی وصیت کے موافق ات کو دفن کیا گئیں۔

محترم حضرات!خدا کے لیےانصاف سے کام لیجئے کہ جس پیغمبر(ص) نے امت کی اصلاح و فلاح کے لیے اس قدر صبر آزما زحمتیں پرداشت کی ہوں اور اس امت کے آرام و خوش حالی کے لیے ساری زندگی صرف کردی ہو وہ وقت وفات اپنی یادگار میں صرف ایک بیٹی چھوڑے اور اس کے لیے شب و روز اور خفیہ و علانیہ اس قدر پر زور وصیتیں اور ہدایتیں فرمائے جن سے آپ کے اکابر علماء کی معتبر کتابیں پر ہیں کہ فاطمہ(ع) میرے جسم کا حصہ اور میری و دیعت و امانت ہے، میری ہی طرح اس کا بھی لحاظ رکھنا اور کوئی کام ایسا نہ کرنا جس سے یہ تم پر ناراض ہو، کیونکہ اگر یہناراض ہوگی تو میں بھی تم سے ناراض ہوں گا۔

چنانچہ میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی مودۃ القربی میں کہتے ہیں کہ پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ فاطمہ(ع) کو آزار دیں گے میں قیامت کے روز ان سےسخت مواخذہ کروں گا، اس لیے کہ فاطمہ(ع) کی رضامندی میری رضامندی ہے اور فاطمہ(ع) کا غصہ میرا غصہ ہے وائے ہو اس شخص پر جس سے میں ناراض و غضبناک ہوں۔

۱۳۰

اس کے بعد بھی یہ امت آں حضرت(ع) کی سفارش اور وصیت و ہدایت کی کوئی پروانہ کرے بلکہ آپ کا حق ثابت چھین لے اور اس قدر اذیت پہنچائے اور غم و غصہ دلائے کہ عین عالم شباب میں اپنی ناکامی پر فریاد کریں اور کہیں۔

صُبَّتْ‏عَلَيَ‏مَصَائِبُ‏لَوْ أَنَّهَاصُبَّتْ عَلَى الْأَيَّامِ صِرْنَ لَيَالِيَا.

یعنی مجھ پر اتنی مصیبتیں ڈالی گئیں کہ اگر وہ دنوں پر ڈالی جائیں تو رات ہوجاتے۔

چنانچہ غم و غصہ اور مصائب و اندوہ کےفشار سے مجبور ہو کر وہ مظلوم و ناکام بی بی اور رسول خدا(ص) کی عزیز و محبوب بیٹیبارگاہ خداوندی میں برابر موت کے لیے دعا کیا کرتی تھی کہ " اللہم عجل وفاقی سریعا" یعنی خداوندا مجھ کو جلد از جلد موت دے دے۔ 12 مترجم۔

آخر کار اس کیوصیت بھی کر جائیں کہ میریمیت رات کے وقت سپرد خاک کیجئے گا اور میرے مخالفین میں سے کسی کو نہ میرے جنازے میں شرکت کرنے دیجئے گا نہ مجھ پر نماز پڑھنے دیجئے گا۔

بزرگان محترم! سچے دل سے فیصلہ کیجئے کہ آیا یہ حالت فاطمہ(ع) مظلومہ سلام علیہا کی خوشنودی مزاج کا نتیجہ تھے یا آپ کے شدید غیظ و غضب کا کھلا ہوا ثبوت؟ پھر ان اخبار کو ایک دوسرے سے ملا کر حقیقت آشکار کا مشاہدہ کیجئے۔

اندر کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است

ان بیانات کے دوران میں سارے حاضرین جلسہ روتے رہے، خصوصا جناب حافظ صاحب جنہوں نے اپنا سر نہوڑا لیا تھا، آنسوئوں کے قطرات ان کے دامن پر گررہے تھے اور کلمات استرجاع و استغفار ان کی زبان پر جاری تھے، چنانچہ اس شب کے بعد پھر انہوں نے بحث نہیں کی۔ معلوم ہو رہا تھا کہ بہت متاثرت ہیں اور چونکہ ایک منصف مزاج عالم تھے لہذا ہمارے منطقی دلائل نے ان کے عقائد میں انقلاب پیدا کردیا ہے ، جیسا کہ آخری شبمیں اشارۃ مذہب شیعہ قبول کرنے کے بعد ہم سے رخصت ہوئے۔

تقریبا پندرہ منٹ تک مجمع پرسکوت و حیرانی اور حزن و اندوہ کی کیفیت طاری رہی، چائے لائی گئی لیکن کسی نے نہیں پی اور تین بجے شب کو اذان صبح کے قریب یہ نشست ختم ہوئی۔

۱۳۱

نویں نشست

شب شنبہ 2 شعبان المعظم سنہ1345 ہجری

غروب آفتاب کے وقت شرکاء میں سے چند سنی حضرات، نواب عبد القیوم خان، غلام امامین مولوی عبدالواحد، غلام حیدر خان اور سید احمد علی شاہ آئے اور رسمی صاحب سلامت کے بعد کہا کہ ان تمام راتوں میں بالخصوص گزشتہ شب ہمارے اوپر حق بالکل ظاہر ہوگیا اور جوکچھ چاہئیے ہم کو معلوم ہوگیا ہے، چونکہ ہم لوگ ضدی اور متعصب نہیں ہیں اور جاہ و منصب کی خواہش بھی نہیں رکھتے ، صرف عادت اور ماحول کے اثرات سے بغیر سمجھے بوجھے اتنی زندگی گمراہی میں بسر کردی لہذا اب جب کہ حق آشکار ہوچکا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ پھر بھی ہم لکیر کے فقیر بنے رہیں۔ چنانچہ ہم نے طے کر لیا ہے کہ آج کی رات تمام حاضرین جلسہ کےسامنے بالاعلان حضرات اہل سنت کے طریقے سے بیزاری کا اظہار کردیں( جیسا کہ آخری شب میں کیا بھی اور با قاعدہ تشیع کا اعلان کردیا)

میں نے تھوڑی اخلاقی گفتگو کے بعد ان حضرات سے خواہش کی کہ جب تک مناظرے کے جلسے ہو رہے ہیں خاموشی سے سنتے رہیں اور ابھی اپنے عقیدے کا اظہار نہ کریں بلکہ انتظار کریں کہ ان کا آخری نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تنہا ہمیں لوگوں پر نہیں بلکہ رسائل و اخبارات کو پڑھنے اور طرفین کے مباحثات اور دلائل کا مطالعہ کرنے کے بعد بہت سے پاک نفس لوگوں پر مطلب واضح اور حقیقت ظاہر ہوگئی ہے اور انہوں نے اپنی شیعیت کا اظہار کیا ہے لیکن دوسرے اشخاص کے دبائو اور خجالت کی وجہ سے وہ آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتے۔ اور انمیں سے بعض افراد تو اپنے ضروریات زندگی اور شہر والوں کے ساتھ معاشرتی پابندیوں کے سبب سے مجبور ہیں کہ اپنے خیالات کو پوشیدہ رکھیں۔

نماز مغرب کے بعد ہی علماء اور دیگر حضرات بھی تشریف لے آئے جن کا باقاعدہ استقبال کیا گیا اور جب مجلس مناظرہ منعقد ہوئی تو شیخ عبدالسلام صاحب ہمارے فریق مقابل قرار پائے۔ حافظ صاحب چونکہ کل شب کے بیانات سے بہت متاثر تھے لہذا وہ صرف طرفین کی گفتگو سنتے رہے۔

شیخ : مولانا صاحب ان جلسوں میں جب سے ہم آپ کی ملاقات سے فیض یاب ہو رہے ہیں علاوہ علم ومنطق کے

۱۳۲

آپ کے حسنِ اخلاق اور بلند تہذیب و ادب نے ہم سب کو مسخر کر لیا ہے آپ کی سامنے اگر کوئی دشمن بھی آجائے سر تسلیم خم کردے، دوستوں کا کیا ذکر۔

آپ ہر مقام پراہل سنت والجماعت کے اعمال و افعال کا تو شکوہ کرتے ہیں لیکن شیعوں کے طرز طریقوں پر کوئی توجہ نہیں کرتے بلکہ برابر ان کی طرف سے دفاع کرتے رہتے ہیں، در آنحالیکہ اہل تشیع کے اعمال قبیحہ اور افعال شیعہ اس قدر گندے ہیں کہان کی اصلاح ممکن نہیں۔

خیر طلب : میں صرف حق کی طرف سے دفاع کرنے کا عادی ہوں وہ چاہے جہاں ہو، اس لیے کہ ہمارے مولا و آقا امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے فرزندوں بالخصوص حسنین علیہما السلام کو جو وصیتیں فرمائی ہیں ان میں ارشاد فرماتے ہیں:

"قولا للحق واعملا للآخرة کونا للظالم خصما وللمظلوم عونا"

یعنی حق بات کہو اور آخرت کے لیے عمل کرو، ظالم کے دشمن رہو اور مظلوم کی مدد کرو۔

اگر میں نے مخالفین کی شکایت یاشیعوں کی طرف سے کوئی دفاع کیا ہے تو حق کی روسے کیا ہے، میں نے جو کچھ شکوہ کیا ہے اس کو عقلی اور منطقی دلیلوں سے ثابت کردیا ہے، اب اس کا ثبوت آپ کے ذمے ہے کہ شیعوں کے وہ کونسےبرے اعمال ہیں جن کی آپ اس قدر سخت مذمت اور تنقید کررہے ہیں کہ ان کی اصلاح ہی نہیں ہوسکتی؟

شیعوں پر اعتراض کہ عائشہ کو زنا کاری کی نسبت دیتے ہیں اور اس کا جواب

شیخ : بدترین حرکت جو شیعوں سے سرزد ہوتی ہے اور عقلی نقلی حیثیت سے مذموم ہے وہیہ ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کوبعض برے کاموں اور زناکاری سے نسبت دیتے ہیں، حالانکہ یہ مسلم ہے کہ آپ نے رسول اللہ(ص) کی ہمبستری کا شرف پایا ہے۔ اور آںحضرت(ص) کی محبوب بیوی تھیں۔ وہ اس کا بھی کوئی لحاظ نہیں کرتے کہ عائشہ پر بدکاری اور زنا کاری کی تہمت کا اثر کہاں تک پہنچتا ہے کہ انہوں نے سورہ نورنہیں پڑھا جس میں خدا فرماتا ہے۔

"‏الْخَبِيثاتُ‏ لِلْخَبِيثِينَ وَ الْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثاتِ‏ وَ الطَّيِّباتُ لِلطَّيِّبِينَ وَ الطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّباتِ أُولئِكَ مُبَرَّؤُنَ مِمَّا يَقُولُونَ "

یعنی بدکار و ناپاک عورتیں اسی قسم کے مردوں کے لیے اور بدکار و ناپاک مرد اسی طرح کی عورتوں کے لیے مناسب ہیں اور نیک و پاکیزہ عورتیں اسی طریقے کے مردوں کے لیے اور نیک و پاکباز مرد اسی صفت کی عورتوں کے لائق ہیں اور یہ پاک و پاکیزہ افراد ان اتہامات سے مبرا ہیں جو ان پر لوگ عائد کرتے ہیں۔

خیر طلب : اولا آپ نے ام المومنین عائشہ کے بارے میں آوارگی اور زنا کاری کہ تہمت کا جو الزام شیعوں پر لگایا ہے وہ سراسر

۱۳۳

جھوٹ اور زبردست دھوکا ہے۔ حاشا ثم حاشا، شیعوں کی جانب سے بلکہ شیعہ عوام کی طرف سے بھی ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی، آپ کا یہ فرمانا، ایک کھلا ہوا بہتان ہے جو جذبات برانگیختہ کرنے کے لیے صدیوں پہلے چند نواصب اور خوارج کی زبانوں سے نکلا تھا وہ جو کچھ خود کہنا چاہتے تھے اس کو شیعوں کے سرتھوپ کے ان کی زبانیبیان کرنا شروع کیا اور بیچارے شیعوں کوبدنام کیا، پھر کچھ دوسرے لوگ بھی یکے بعد دیگر بغیر جانچ پڑتال کے ان الزامات کو تسلیم کر کے اعتراض پر تل گئے جیسا کہ جناب عالی ایراد اور عجیب جوئی کررہے ہیں۔ آپ اگر علمائے شیعہ کی تمام کتابوں کا ایک ایک ورق الٹ ڈالیں گے تب بھی ہرگز کہیں نظر نہیں آئے گا کہ کسی نے ام المومنین عائشہ پر بدکاری اور زنا کی تہمت لگائی ہو۔ یہ دعوی نرا جھوٹا الزام ہے۔

قضیہ افک اور تہمت زنا سے عائشہ کی بریت

آپ شیعوں کی تفسیروں اور کتب اخبار کا مطالعہ کیجئے تو پتہ چلے کی قضیہ افک میں انہوں نے ام المومنین عائشہ کی طرف سے کیونکر دفاع کیا ہے در آنحالیکہ اگر شیعوں کے ایسے عقائد ہوتے تو ام المومنین عائشہ کی ذات پر حملہ کرنے کے لیے آوارگی و زناکاری کی تہمت لگانے کا سب سے اچھا موقع افک ہی کا معاملہ تھا۔

در حقیقت اس قسم کے اتہامات تو خود رسول اللہ(ص)کے زمانے میں منافقین صحابہ کی ایک جماعت نے عائد کئے تھے، جیسے مسطح بن اثاثہ، حسان بن ثابت اور عبداللہ بن ابی وغیرہ، چنانچہ عائشہ کی برائت ذمہ اور منافقین کی غلط بیانی پر قرآن مجید میں سات آیتیں بھی نازل ہوئیں۔

آپ کی یاد داشت کے لیے عرض کرتا ہوں کہ ہم شیعوں کا عقیدہ اس بات پر ہے کہ جو شخص رسول اللہ(ص) کی بیوی کو چاہے وہ عائشہ اور حفصہ ہی ہوں آوارگی و زناکاری کی نسبت دیے وہ ملحد و کافر اور ملعون ہے اور کا خون و مال حلال ہے، اس لیے کہ ایسی نسبت خود آں حضرت(ص) کے مقدس مرتبے کی شان میں بہت بڑی اہانت ہے۔

اس کے علاوہ شیعوں کو یہ بھی علم ہے کہ کسی مسلمان پر بھی زناکاری اور حرام کاری کی تہمت لگانا حرام ہے نہ کہ حرم رسول (ص) پر چاہے وہ عائشہ اور حفصہ ہی کیوں نہ ہوں۔

شوہر و زوجہ نیکی اور بدی میں ایک دوسرے کے مثل نہیں

دوسرے جو آیہ شریفہ آپ نے تلاوت کی اس کے معنی وہ نہیں ہیں جو آپ سمجھے ہوئے ہیں کہ شوہر و زوجہ کو نیکی او بدی میں ہر پہلو سے ایک دوسرے کا شریک ومماثل ہونا چاہیے ۔ یعنی اگر ان میں سے ایک نیک بخت، مومن اور جنت کا مستحق

۱۳۴

ہوتو دوسرا بھی ایسا ہی ہو۔ یا اگر ایک بدبخت و فاسق یا کافر و مستحق جہنم ہو تو دوسرا بھی اسی کے مثل ہو۔

اگر مطلب یہی ہو جیسا آپ کا خیال ہے تو اس کی زد میں بہت سے لوگ آجائیں گے جن میں شیخ الانبیاء حضرت نوح(ع) اور حضرت لوط علی نبینا و آلہ و علیہما السلام ، ان کی بیویان اور آسیہ وفرعون بھی ہیں۔ کیونکہ آیت نمبر10، 11 سورہ نمبر26 ( تحریم) میں ارشاد ہے۔

"ضَرَبَ‏ اللَّهُ‏ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَ امْرَأَتَ لُوطٍ كانَتا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبادِنا صالِحَيْنِ فَخانَتاهُما فَلَمْ يُغْنِيا عَنْهُما مِنَ اللَّهِ شَيْئاً وَ قِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ‏وَ ضَرَبَ‏ اللَّهُ‏ مَثَلًا لِلَّذِينَ‏ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهِ وَ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ‏."

یعنی خدائے تعالی نے کافروں کے لیے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے جو ہمارے دو صالح بندوں کے تحت میں تھیں پس ان عورتوں نے دونوں کے ساتھ خیانت کی اور یہ دونوں ( نوح و لوط) ان کو قہر خدا سے نہیں بچا سکے ان دونوں عورتوں کے لیے حکم دے دیا گیا کہ دوسرے دو زخمیوں کے ساتھ آگ میں جھونک دی جائیں نیز خدا نے مومنین کے لیے( آسیہ) زن فرعون کی مثال دی ہے جب کہ انہوں نے دعا کی کہ بار الہا میرے لیے جنت میں ایک گھر بنا اور مجھ کو فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور قوم جفا کار سے بچالے۔

نوح(ع) و لوط(ع) کی بیویاں جہنم میں اور فرعون کی زوجہ جنت میں جائیگی

یہ دونوں آیتیں صاف صاف تبارہی ہیں کہ زوجیت طرفین کے لیے ایک ہی قسم کا نتیجہ اور ثمر نہیں دیا کرتی، چنانچہ شیخ الانبیاء حضرت نوح(ع) اور حضرت لوط(ع) کی بیویاں نے اپنے شوہروں کے ساتھ جو خیانت کی اس کی وجہ سے ان دو بزرگ پیغمبروں کی زوجیت نے ان کو کوئی نفع نہیں بخشا۔ دونوں کافر مریں اور جہنم میں جائیں گی جیسا کہ آخری حصہ "قِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ " صراحت کر رہا ہے یعنی حکم دے دیا گیا کہ ان دونوں عورتوں کو دو زخمیوں کے ساتھ آگ میں ڈال دو۔

اور اسی کے برعکس آسیہ زن فرعون کو اپنے کافر شوہر سے کوئی ضرر نہیں پہنچا۔ فرعون جہنم میں اور یہ بہشت میں جائیں گی۔

پس زوجیت کا رشتہ جس کو آپ سبب شرافت سمجھتے ہیں کوئی حقیقت نہیں رکھتا، البتہ یہ تعلق اس وقت اثر انداز ہوگا جب کہ ظاہر و باطن اور اخلاق وسیرت میں ایک دوسرے سے مشابہ ہوں۔ ورنہ کافر ومسلم اور منافق و مومن کو آپس میں ازدواجی سلسلہ کی وجہ سے کوئی نفع یا ضرر نہیں پہنچتا۔ چنانچہ اگر کوئی شخص مومن ہے اور اس کی زوجہ بے دین ہو کر اس کو برا کہے

۱۳۵

اس کے اخلاق کی مذمت کرے تو اس سے شوہر کا کوئی نقصان نہ ہوگا۔ اور اگر لوگ اس عورت کے فاسد اخلاق کی بدگوئی کریں تو اس سے بھی مومن شوہر کی کوئی اہانت نہ ہوگی۔

شیخ : سخت تعجب ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں آپ کے بیان کے اندر کھلا ہوا تضاد نظر آیا۔

خیر طلب: صرف ایک نشست میں نہیں بلکہ اول عمر سے آخری دم تک ممکن نہیں ہے کہ میں متضاد گفتگو کروں کیونکہ دینیو مذہبی امور علمی اور عقلی ہیں، ان کا ایک مرتب نقشہ ہے جو ہمارے ہاتھوں میں دیا گیا ہے۔ ہم عقائد میں ذاتی نظریات کو دخل نہیں دیتے، نہ فلاسفہ اور حکماء کے ایسے عقیدے رکھتے ہیں جو برابر بدلتے رہیں ہر ایک ذاتی مضر؟؟؟؟؟ پر کار بند ہو اور اپنے ہی نظریات پر عملدرآمد کرے۔ افلاطون کے نظریے اس کے استاد سقراط سے مطابقت نہیں کرتے اور فیض و فیاض کے خیالات ان کے استاد صدر المتالہین سے میل نہیں کھاتے۔

لیکن مکتب انبیاء کے تربیت یافتہ لوگوں میں بالخصوص حضرت خاتم الانبیاء کے بلند تعلیمات میں جو آں حضرت(ص) کے باب علم حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے وسیلے سے ہم تک پہنچے ہیں کوئی تناقض نہیں ہے۔ لہذا ہم بھی متناقض اور متضاد باتیں نہیں کہتے۔

در پس پردہ کہ طوطی صفتم داشتہ اندآنچہ استاد ازل گفت ہماں می گویم

اگر جناب عالی رسائل واخبارات کی طرف رجوع کریںاو گذشتہ راتوں کے میرے تمام بیانات اور گفتگو پر غور کریں تو نظر آئے گا کہ میں اپنے بزرگان دین حضرت رسول خدا(ص) او ائمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین کے ہدایات و ارشادات سے جو قرآن مجید کی بنیادوں پر قائم ہیں کہیں پر الگ نہیں ہوا اور نہالگ ہوں گا۔ یہ یرے ذاتی نظریات نہیں تھے جو کبھی فراموش ہوجائیں یا نقطہ خیال بدل جائے۔ جو کچھ میں نے اب تک عرض کیا یا آئیندہ کروں گا وہ قرآن مجید اور اقوال بزرگان دین سے استفادہ ہوگا۔ لہذا میرے کلمات اور گفتگو میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب ذرا آپ بیان فرمائیے تاکہ میں بھی دیکھوں کہ وہ کون سے جملے تھے جن میں آپ کو تناقض نطر آیا؟

شیخ : ایک جگہ تو آپ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کو بھی زنا اور حرام کاری کی نسبت دینا حرام ہے اور دوسرے مقام پر یہ فرمایا کہ نوح(ع) و لوط(ع) کی بیویوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی۔کیا یہ دونوں جملے متناقض نہیں ہیں؟ اور آیا آپ کی گفتگو بیجا نہیں ہے کہ انبیاء کی بیویوں پر آوارگی و زناکاری اور خیانت کی تہمت رکھ رہے ہیں؟

خیر طلب : مجھ کو یقین ہے کہ آپ جان بوجھ کر انجان بن رہے ہیں اور بلاوجہ جلسے کا وقت لے رہے ہیں۔ آپ خود جانتے ہیں کہ اس مقام پر آپ نے مغالطہ دیا ہے لیکن مجھ کو آپ جیسے دانشمند عالم سے اس خلط مبحث کی امید نہیں تھی کیونکہ آیہ شریفہ میں خیانت کے معنی آپ کو خود معلوم ہیں۔ ازواج انبیاء کے لیے آپ کی یہ طرفداری قطعا اسی غرض سے ہے کہ ایسا نہ ہو یہ بات آگے بڑھے اور آپ کے مقصد کے خلاف حقیقتوں کا انکشاف ہونے لگے۔

۱۳۶

نوح(ع) و لوط(ع) کی بیویوں کی خیانت کا مطلب

آپ سے تعجب ہے کہ خیانت کو زناکاری سے تعبیر کر رہے ہیں حالانکہ دونوں چیزوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ ابنیاء کی عورتیں آوارگی سے بالکل معر و مبرا تھیں، یہاں تو صرف خیانت کا تذکرہ ہے۔

اول : یہ کہ کسی پیغمبر کی زوجہ ہو اگر وہ اس پیغمبر کی رفتار و گفتار اور ہدایت کے خلاف عمل کرے تو یقینا خائن ہے۔

دوسرے : یہ میرا قول نہیں ہے کہ انہوں نے خیانت کی جس پر آپ غلط فہمی پھیلانے اور اعتراض قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔بلکہ آیہ شریفہ میں صاف صاف ارشاد ہے"فَخانَتاهُما " ( یعنی دونوں عورتوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی 12 مترجم) اور ان کی خیانت زناکاری نہیں تھی جیسا میں عرض کرچکا کہ ازواج انبیاء بالعموم اس قسم کی خیانت سے مبرا تھیں پس ان کی خیانت کا مطلب نافرمانی اور کفر و نفاق تھا۔

حضرت نوح(ع)کی زوجہ اپنے شوہر کی مخالف تھی اور لوگوں سے آپ کی بدگوئی کرتی تھی، کہتی تھی کہ میرا شوہر دیوانہ ہے چونکہ میرا اور اس کا رات دن کا ساتھ ہے لہذا میں اس کے حالات سے بخوبی واقف ہوں، اس کے فریب میں نہ آنا۔ اور حضرت لوط(ع) کی زوجہ آپ کی قوم کو تازہ وارد مہمانوں کی خبر پہنچاتی تھی اور آپ کے دشمنوں اور ظالموں کو شوہر کے گھر کے راز بتا کر فتنہ و فساد برپا کرتی تھی۔

آیہ مبارکہ کے معنی

اور سورہ نور کی جس آیت سے آپ نے اپنے مطلب پر استدلال کیا ہے، بر بنائے تحقیق مفسرین اور بقول معصوم اس کے معنی اس طرح سے ہیں کہ ناپاک عورتیں نا پاک مردوں کے لائق ہیں اور نا پاک مرد ان کی طرف مائل ہیں، اور پاک عورتیں پاک مردوں کے قابل ہیں اور پاک مرد ان کی طرف مائل ہیں، اور اسی سورے میں اس سے قبل کی ایک آیت کے بھی یہی معنی ہیں جس میں ارشاد ہے:

"الزَّانِي‏ لا يَنْكِحُ‏ إِلَّا زانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَ الزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُها إِلَّا زانٍ أَوْ مُشْرِكٌ "

یعنی زناکار مرد صرف زنا کار اور مشرک عورت سے نکاح کرتا ہے اور زنا کار عورت سے صرف زناکار اور مشرک مرد ہی نکاح کرنا چاہتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ آیہ شریفہ"الْخَبِيثاتُ‏ لِلْخَبِيثِينَ" ہرگز آپ کے مدعا کو ثابت نہیں کرتی اور اس کے معنی آپ کے نظریے اور مقصد سے کوئی ربط نہیں رکھتے۔

۱۳۷

حالات عائشہ کی طرف اشارہ

ام المومنین عائشہ پر تنقید کی جاتی ہے تو کسی جانبداری یا تعصب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے غلط طرز عمل کی وجہ سے ہے کہ وہ ساری زندگی سکون سے نہیں بیٹھیں اور برابر ان سے ایسے افعال سرزد ہوتے رہے جو رسول اللہ(ص) کی کسی بیوی سے حتی کہ حفصہ دختر عمر سے بھی سرزد نہیں ہوئے۔ جماعت شیعہ کی تنقید اور تبصرہ انہیں تنقیدوںکے حدود کے اندر ہے جن کو خود آپ کے علما نے نقل کیا ہے کہ اس مضطرب الحال عورت نے اپنی تاریخ زندگی کو داغدار بنایا ہے۔

شیخ : آپ خود اںصاف کیجئے کہ آپ کے سابق بیانات کے پیش نظر کیا آپ جیسےشریف اور متین انسان کے لیے ایسے جملے زبان سے نکالنا مناسب ہے ک ام المومنین نے اپنی تاریخ کو داغدار بنا دیا؟

خیر طلب : رسول اللہ(ص) کی بیویاں سو ام المومنین جناب خدیجہ کے سب سب ہمارے لیے یکسان ہیں۔ ام سلمہ، سودہ، عائشہ، حفصہ، اور میمونہ وغیرہ سبھی امہات المومنین ہیں لیکن عائشہ کی رفتار و گفتار اور اعمال و افعال نے ان کو دوسری عورتوں سے الگ اور ان کی تاریخ کو داغدار کردیا۔ یہ میرا ہی قولنہیں ہے بلکہ خود آپ کے اکابر علماء نے ان کی زندگی کو داغدار لکھا ہے کسی شخص کے نیک و بد افعال چھپے نہیں رہتے، ایک دن حقیقت کھل جاتی ہے۔

اصلیت یہ ہے کہ آپ حضرات اپنی والہانہ محبت کی بنا پر چشم پوشی سے کام لیتے ہوئے بجائے اس کے کہ روایات کی مطابقت کریں ہر بات کو صحت پر محمول کر کے دفاع کرنے لگتے ہیں۔

ہم بھی وہی کہتے ہیں جو آپ کے اکابر علماء کہتے ہیں البتہ حیرت تو اس پر ہے کہ اگر سنی علماء مورخین لکھیں اور کہیں تو کوئی قباحت نہیں اور نہ آپ ان کو کوئی گرفت کرتے ہیں، لیکن گر بیچارہ کوئی شیعہ وہی بات لکھدے یا کہدے تو آپ اس پر ہزاروں عیب اور تہمتیں لگا کر اعتراضات کی بھرمار کردیتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایراد و اعتراض ہے تو سب سے پہلے اپنے علماء پر وارد کیجئے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھا کیوں؟

شیخ : یقینا بات یہ ے کہ انہوں نے چونکہ علی کرم اللہ وجہہ کی مخالفت کی ہے اس وجہ سے آپ خردہ بینی کرتے ہیں۔

خیر طلب : اولا ہمارے یہاں خردہ بینی نہیں بلکہ کلی بینی ہے۔ امیرالمومنین، امام حسن اور اہل بیت طہارت علیہم السلام کی مخالفت تو اپنی جگہ پر ایک مستقل چیز ہی ہے، لیکن ام المومنین عائشہ کی بدنما تاریخ زندگی کی داغ بیل تو خود رسول اللہ(ص) کے زمانے میں پڑچکی تھی جب کہ وہ فطرت اور ذاتی خصلتوں کی بنا پر خود پیغمبر(ص) کو اذیت و آزار پہنچاتی رہتی تھیں دوسروں کا کیا تذکرہ اور ہمیشہ آں حضرت(ص) کی نافرمانی پر کمر بستہ رہتی تھیں۔

شیخ : تعجب ہے کہ ام المومنین اور رسول خدا(ص) کی محبوبہ کو آپ اس قدر پست سمجھتے ہیں کہ یہاں تک کہنے پر تیار ہوگئے کہ وہ آںحضرت(ص)

۱۳۸

کو اذیت پہنچاتی تھیں۔ آپ کا یہ دعوی کیونکر تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ در آنحالیکہ ام المومنین نے قطعا قرآن کریم کر پڑھا تھا اور آیہ شریفہ :

" إِنَ‏ الَّذِينَ‏ يُؤْذُونَ‏ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ- وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهِيناً"

یعنی جو لوگ خدا و رسول(ص) کو ( نافرمانی اور مخالفت وغیرہ سے) آزار و اذیت پہنچاتے ہیں یقینا خدا نے ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لیے ذلت و خواری کے ساتھ عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

ان کی نظر سے گذر چکی تھی لہذا کیسے ممکن تھا کہ آں حضرت(ص) کو اذیت و آزار دے کر دنیا و آخرت میں خدا کی ملعون بنیں او آخرت میں اپنےلیے ذلت و خواری کے ساتھ عذاب سخت مہیا کریں؟ پس قطعا یہ مضمون خالص جھوٹ اور شیعوں کی لگائی ہوئی تہمتوں میں سے ہے۔

خیر طلب: میری درخواست ہے کہ اس قدر گندی باتیں نہ کہئے کیونکہ میں کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ شیعہ تہمت طراز اور افترا پرواز نہیں ہیں، اس لیے کے ان کےہاتھوں میں ایسی واضح دلیلیں ہیں جن کے بعد ان کو کسی جعلسازی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

رہا آیئہ شریفہ کا معاملہ تو میں بھی تصدیق کرتا ہوں کہ تنہا ام المومنین عائشہ ہی نے اس آیت کو نہیں دیکھا تھا بلکہ ان کے باپ ابوبکر اور کبار صحابہ سبھی نے دیکھا تھا۔ اس کے بعد ان اخبار و احادیث کی مطابقت سے جو میں گذشتہ شبوں میں پیش کرچکا ہوں بہت سی حقیقتوں کا انکشاف بھی ہوتا ہے۔ بشرطیکہ انصاف سے کام لیا جائے۔

پیغمبر(ص) کو عائشہ کی ایذا رسانی

اور رسول اللہ(ص) کو عائشہ کی ایذا رسانی کا مضمون صرف علمائے شیعہ ہی کی کتابوں میں نہیں ہے بلکہ آپ کے اکابر علماء بڑے بڑے مورخین نے بھی لکھا ہے کہ انہوں نے بار بار آں حضرت(ص) کو تکلیف پہنچائی اور رنجیدہ خاطر کیا۔

چنانچہ امام غزالی نے احیاء العلوم جزء دوم باب 3 کتاب آداب النکاح ص135 میں عائشہ کی مذمت میں کئی روایتیں نقل کی ہیں، من جملہ ان کے رسول خدا(ص) سے ان کا مقابلہ اور ابوبکر کا فیصلہ ہے ک جس کو مولوی علی متقی ہندی نے کنزالعمال جلد ہفتم ص116 میں ابویعلی نے مسند میں اور ابو الشیخ نے کتاب امثال میں بھی روایت کیا ہےکہ :

ابوبکر اپنی بیٹی عائشہ سے ملنے گئے تو وہاں پیغمبر(ص) اور عائشہ کے درمیان رنجش ہوگئی تھی جس کا فیصلہ ابوبکر کے اوپر رکھا گیا عائشہ اپنی گفتگو میں توہین آمیز الفاظ کہہ رہی تھیں، چنانچہ اسی سلسلہ میں آں حضرت(ص) سے کہا کہ اپنی بات چیت اور طرز عمل میں اںصاف کا طریقہ اختیار کرو، اس گستاخانہ کلام سے ابوبکر کو اتنا غصہ آیا کہ ا پنی بیٹی کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ رسید کردیا جس سے خون ان کے کپڑوں پر بہہ نکلا۔

نیز امام غزالی نے اسی باب نکاح میں اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے کہ :

۱۳۹

ابوبکر اپنی بیٹی کے گھر پہنچے تو ان کو معلوم ہوا کہ رسول اللہ(ص) عائشہ سے ناراض ہیں، انہوں نے کہا کہ تمہارے درمیان جو قضیہ ہو اس کو بیان کرو تاکہ میں فیصلہ کردوں پیغمبر(ص) نے عائشہ سے فرمایا " تکلمین او اتکلم" تم کہو گی یا میں بیان کروں؟ انہوں نے جواب دیا " بل تکلم ولا تقل الا حقا" تم ہی بتائو لیکن بات سچ ہی کہنا( جھوٹ نہ بولنا) اور اپنے دوسرے جملہ میں آں حضرت(ص) سے کہا:

" انت الذی تزعم انک نبی الله"( تم تو وہ ہو کہ اپنے کو واقعی خدا کا نبی سمجھ بیٹھے ہو۔)

آیا ان جملوں سے مقام نبوت پر حملہ نہیں ہوا؟ معلوم تو یہ ہوتا ہے کہ شاید عائشہ رسول خدا(ص) کو برحق پیغمبر(ص) ہی نہیں سمجھتی تھیں اور جب تو آں حضرت(ص) کی شان میں ایسے فقرے استعمال کرتی تھیں۔

اس قسم کی اہانتیں آپ کی کتابوں میں کثرت سے منقول ہیں جو سب کی سب آں حضرت(ص) کے آزار و اذیت اور دلی رنجش کا باعث تھیں۔

آخر فریقین کے علماء و مورخین بلکہ غیروں نے بھی تاریخ اسلام میں دوسرے ازواج رسول(ص) کے لیے کوئی بات کیوں نہیں لکھی؟ اور کوئی تنقید کیوں نہیں کی؟ حتی کہ حفصہ دختر عمر کے لیے بھی اس قسم کے ایرادات نہیں کئے، فقط عائشہ ہی کے طور طریقے ان کی بدنامی کا سبب بنے اور ہم بھی عائشہ کے بارے میں وہی کہتے ہیں جو خود آپ کے کابر علماء نے کہا ہے آیا آپ نے امام غزالی کی کتابیں، تاریخ طبری، مسعودی اور ابن اعثم کوفی وغیرہ کا مطالعہ نہیں کیا ہے آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان کو احکام خدا و رسول(ص) کےمقابلہ میں سرکش اور نافرمان قرار دیا ہے؟ آیا اللہ اور اس کے رسول(ص) کے حکم سے انحراف نیک بختی اور سعادت کی دلیل ہے؟ اس کے بعد بھی آپ اس کی شکایت کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین کی تاریخ زندگی کو داغدار کیوں کہا؟ خدا و رسول(ص) کے احکام سے سرکشی، خلیفہ رسول(ص) کے مقابلے میں بغاوت اور آں حضرت(ص) کے مسلم الثبوت وصی سے جنگ کرنے سے بڑھ کے اور کونسا تاریخی داغ ہوسکتا ہے؟

حالانکہ آیت نمبر33 سورہ نمبر33( احزاب) میں خدا آں حضرت(ص) کی تمام بیویوں سے خطاب فرماتا ہے۔

"وَ قَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَ لا تَبَرَّجْنَ‏ تَبَرُّجَ الْجاهِلِيَّةِ الْأُولى‏"

یعنی اپنے اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھو اور پہلے زمانہ جاہلیت کی طرح بنائو سنگار نہ دکھائو۔

چنانچہ آں حضرت(ص) کی دوسری بیویوں نے اس حکم کی پابندی بھی کی اور بخیر کسی ضروری کام کے گھر سے باہر قدم نہیں رکھتی تھیں یہاں تک کہ اعمش نے بھی اس کی روایت کی ہے۔

۱۴۰