پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 276310
ڈاؤنلوڈ: 6131


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 276310 / ڈاؤنلوڈ: 6131
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کی مسند پر بیٹھے۔

نواب: قبلہ صاحب مدینے میں بلاد مسلمین کے نمائیندوں کا اجماع کیا تعیین خلافت کے لیے تھا؟

خیر طلب: نہیں، ابھی تو خلیفہ سوم ہی مسند خلافت پر موجود تھے، اور اکثر بلاد مسلمین کے سرداران قوم اور بزرگان قبائل کی ایک بہت بڑی جماعت، عرض حال اور اور بنی امیہ وغیرہ کے جابر و ظالم عمال و حاکم اور بار خلافت کے مخصوصین جیسے مروان وغیرہ کے زشتو قبیح حرکاتکی شکایت کرنے کے لیے مدینے میں اکٹھا ہوئی تھی، بالاخر اسی اجماع کا جس میں کبار صحابہ بھی شامل تھے انجام یہ نکلا کہ خود عثمان کی غلط کاریوں اور امیرالمومنین و کبار صاحابہ کی مشفقانہ نصیحتوں پر دھیان نہ دینے کی وجہ سے ان کے قتل کی نوبتآئی۔

اس کے بعد بلاد مسلمین کے ان تمام بزرگان قبائل اور رئوسائے قوم کے ہمراہ جو مدینے میں موجود تھے مدینے والے بصورت اجماع حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں حاجر ہوئے اور آپکو التماس و اصرار کےساتھ مسجد میں لائے، پھر سب نے بالاتفاق اس بزرگوار کی بیعت کی۔ حضرت سے قبل خلفائے ثلاثہ میں سے کسی ایک کی بیعتمیں بھی ایسا کھلا ہوا اجماع واقع نہیںہوا کہ اپنی خواہش اور عزم و اختیار سے سارے اہل مدینہ اور زعمائے ملت نے مل کر ایک مخصوص فرد کی طرف بیعت کا ہاتھ بڑھایا ہو اوراس کو خلیفہ تسلیم کیا ہو۔

لیکن ایسے اجماع اور اجتماع کے باوجود جو امیرالمومنین (ع) کے لیے منعقد ہوا ہم اس کو حضرت کے لیے دلیل خلافت نہیں سمجھتے بلکہ آپ کی خلافت پر ہماری دلیل قرآن مجید اور خدا و رسول خدا(ص) کی نص ہے، جس طرح تمام انبیاء کی سیرت تھی کہ حکم خداوندی سے اپنا وصی اور خلیفہ معین فرما تے تھے۔

تیسرے آپ نے فرمایا کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام اور دوسرے خلفاء کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا، معلوم نہیں آپ جان بوجھ کر ایسا کہہ رہے ہیں یا واقعی غلط فہمی کا شکار ہیں، اس لیے کہ عقلی و نقلی دلائل بلکہ امت کے اجماع سے بھی ثابت ہے کہ علی(ع) اور دوسرے خلفاء بلکہ ساری امت کے درمیان بہت بڑا فرق تھا۔

علی(ع) دوسرے تمام خلفاء سے ممتاز تھے

پہلی خصوصیت جو حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کو حاصل تھی اور اسی جہت سے آپ تمام دوسرے خلفاء سے ممتاز تھے یہ ہے کہ وہ سب صرف مخلوق کی ایک جماعت کے مقرر کئے ہوئے تھے لیکن علی علیہ السلام خدا و رسول(ص) کی طرف سے معین ہوئے ہیں، اور ظاہر ہے کہ خدا اور اس کے پیغمبر(ص) کا مقرر کیا ہوا خلیفہ یقینا ان لوگوں سے افضل ہے جن کو مخلوق نے مقرر کیا ہو۔ ہر عقلمند انسان جانتا ہے کہ خلیفہ منصوص اور خلیفہ غیر منصوص میں بہت فرق ہے اور سب سے بڑی امتیازی صفت جو علی علیہ السلام کو دیگر خلفاء اور ساری امت سے بلند قرار دیتی ہے وہ حضرت کے علم وفضل اور شرف و تقوی کا درجہ ہے، کیونکہ ( تھوڑے سے خوارج و نواصب اور

۱۶۱

بکریین کے علاوہ جن کی حالت سب کو لعلمو ہےجملہ علمائے امت کا اتفاق ہے کہ علی علیہ السلام پیغمبر صلعم کے بعد ساری امت سے اعلم، افضل، اقضی، اشرف اور اتقی تھے۔

چنانچہ میں اس بارے میں قرآن مجید کی تائیدوں کے ساتھ کافی روایتیں حتی کہ ابوبکر وعمر کی زبان سے بھی پچھلی شبوں میں آپکی معتبر کتابوں سے نقل کرچکا ہوں اور اس وقت پھر ایک حدیث یاد آگئی ہے جو پہلے بیان نہیں کی تھی لہذا انکشاف حقیقت کے لیے اس کو بھی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ امام احمد ابن حنبل نے مسند میں ، ابوالموئدموفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی میں، حافظ ابوبکر بیہقی شافعی نے اپنی سنن میں اور دوسرے نے بھی رسول اکرم(ص) سے مختلف الفاظ وعبارات کے ساتھ مکرر نقلکیا ہے کہ فرمایا:

" علی اعلمکم و افضلکم و اقضاکم والرد عليه کالرد علی والرد علی کالرد علی الله وهو علی حد الشرک بالله"

یعنی علی(ع) تم سب سے اعلم ، افضل اور اقضی ہیں، جو شخص ان کے قول و فعل یا رائے کو رد کرے اس ن گویا میری تردید کی اور جس نے میری تردید کی اس نے گویا خدا کی تردید کی اور وہ شخص شرک باللہ کی حد میں ہے۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے جو آپ کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں شرح نہج البلاغہ کی جلدوں میں کئی مقامات پر لکھا ہے کہ تفصیل امیرالمومنین علی علیہ السلام کا قول ایک قدیم قول ہے جس کے بہت سے اصحاب اور تابعین قائل تھے اور بغداد کے شیوخ نے اس حقیقت کی تصدیق کی ہے ( اس موقع پر عشاء کی اذان ہوئی اور مولوی صاحبان نماز کے لیے اٹھ گئے ادائے فریضہ اور چائے نوشی کے بعد خیر طلب نےافتتاح کلام کیا۔)

چوٹی کے فضائل وکمالات کیا ہیں؟

خیر طلب: جب آپ حضرات نماز میں مشغول تھے تو غور کرنے اے ایک موضوع نظر میں آیا ہے جو سوال کے طور پر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

یہ فرمائیے کہ کسی شخص کی ایسی شرافت و فضیلت جس سے اس کو دوسرے افراد کے مقابلے میں فوقیت کا حق حاصل ہو کس چیز سے ہے؟

شیخ : ( تھوڑے سکوت کے بعد) حقیقتا شرافت اور فضیلت کے طریقے بہت ہیں لیکن اول درجے میں جن کو چوٹی کے فضائل و کمالات کہہ سکتے ہیں وہخدا و رسول(ص) پر ایمان کے بعد میرے نزدیک تین چیزیں ہیں۔

1۔ پاکیزہ نسب اور نسل۔ 2۔ علم و دانش۔ 3۔ تقوی و پرہیزگاری۔

خیر طلب: جزاک اللہ، میں بھی انہیں تین طریقوں سے بحث میں قدم رکھتا ہوں جن کو آپ نے بلند ترین فضائل و کمالات

۱۶۲

کے عنون سے انتخاب فرمایا ہے۔ یہ مان لینے کے بعد بھی کہ ہر ایک صحابی چاہے وہ خلیفہ ہو یا نہیں کسی نہ کسی خصوصیت کا حامل تھا عقلی و نقلی قواعد کے روسے یہ مسلم ہے کہ ان میں سے جو فردیں ان بلند خصوصیات اور اعلی فضائل کی جامع تھیں وہ سب سے مقدم اور بالاتر تھیں۔ اگر میں ثابت کردوں کہ ان تینوں خصوصیات میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ہی سب کے سید و سردار تھے تو آپ کو تصدیق کرنا چاہئیے کہ حضرت رسول خدا(ص) سے وارد نصوص کی موجودگی میں یہ بزرگوار امر خلافت میں بھی اولی اور سب سے زیادہ حقدار تھے، اور اگر تخت خلافت سے محروم رہے تو محض ان سیاسی حیلہ سازیوں کی وجہ سے جن کا نام مصلحت رکھ دیا گیا۔

( جیسا کہ شرح نہج البلاغہ جلد اول ص46 میں ابن ابی الحدید کا عقیدہ ہے)

علی علیہ السلام کا پاکیزہ نسب

اولا نسل ونسب کے معاملے میں مسلم ہے کہ ذات خاتم الانبیاء کے بعد شرافت میں کوئی شخص بھی علی علیہ السلام کو نہیں پہنچتا اور حضرت کی اصل و نسل اس قدر پاک و پاکیزہ اور درخشان ہے کہ صاحبان عقل کی عقلیں حیران اور دم بخورد ہیں، یہاں تک کہ آپ کے متعصب اکابر علماء جیسے علاء الدین مولوی علی بن محمد قوشجی ، ابو عثمان عمرو بن بحر جاحظ ناصبی اور سعد الدین مسعودی بن عمر تفتازانی بھیکہتے ہیں کہ ہم علی کرم اللہ وجہہ کے کلمات میں دم بخود اور حیران ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں"نَحْنُ أَهْلَ الْبَيْتِ لَا يُقَاسُ‏ بِنَا أَحَدٌ "

( یعنی ہم اہل بیت رسالت ہیں ہمارے اوپر کسی دوسرے کا قیاس نہیں کیا جاسکتا)

نیز نہج البلاغہ کے دوسرے خطبے میں ہے کہ خلافت ظاہری حاصل ہونے کے بعد حضرت نے فرمایا:

"لَا يُقَاسُ‏ بِآلِ‏ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه و آله مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَحَدٌ وَ لَا يُسَوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَيْهِ أَبَداً هُمْ أَسَاسُ الدِّينِ وَ عِمَادُ الْيَقِينِ إِلَيْهِمْ يَفِي‏ءُ الْغَالِي‏ وَ بِهِمْ يُلْحَقُالتَّالِي وَ لَهُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلَايَةِ وَ فِيهِمُ الْوَصِيَّةُ وَ الْوِرَاثَةُ الْآنَ إِذْ رَجَعَ الْحَقُّ إِلَى أَهْلِهِ وَ نُقِلَ إِلَى مُنْتَقَلِهِ‏"

یعنی اس امت کے کسی ایک شخص کا بھی آل محمد صلی الہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ قیاس اور موازنہ نہیں ہوسکتا، جس شخص پر ہمیشہ اہل بیت کی نعمت و مرحمت جاری رہی ہو وہ ان کے برابر کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ دین کی بنیاد اور ایمان و یقین کے ستون ہیں، حد سے آگے بڑھ جانے والا پلٹ کے انہیں کی طرف آ تا ہے او رپیچھے رہ جانے ولا بڑھ کے انہیں سے ملحق ہوتا ہے، حق ولایت و امامت کے خصوصیت انہیں کے لیے ہیں اور ( رسول خدا(ص) کی) وصیت و وراثت انہیں میں ہے۔ اس وقت حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا ہے اور جہاں سے متقل کیا گیا تھا وہیں پھر پہنچ گیا ہے)

امیرالمومنین کے یہ بیانات حق خلافت میں حضرت کے اور خاندان آلِ محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین کے اولی اور مقدم ہونے پر پوری دلالت کرتے ہیں۔

یہ جملے صرف آپ ہی نے نہیں فرمائے ہیں بلکہ مخالفین بھی اس مفہوم کی تصدیق کرتےہیں۔ چنانچہ کسی شب میں عرض کرچکا

۱۶۳

ہوں کہ میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی مودت ہفتم میں ابی وائل سے اور وہ عبداللہ ابن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا، اصحاب پیغمبر(ص) کو شمار کرتے ہوئے ہم نے ابوبکر، عمر اور عثمان کا ذکر کیا تو ایک شخص نے کہا علی(ع) کا نام کہاں گیا؟ ہم نے کہا :

"عَلِيِ‏ مِنْ‏ أَهْلِ‏ البَيْتٍ‏ لَا يُقَاسُ‏ بِهِ أَحَدٌ هوَ مَعَ رَسُول الله ِ صَلیَ اللهُ عَليه وَ آلِهِ فِي دَرَجَتَه"

یعنی علی(ع) اہل بیت نبوت میں سے ہیں ان کے ساتھ کسی اور کا قیاس نہیںکیا جاسکتا،وہ رسول خدا صلعم کے ساتھ انہیں کے درجے میں ہیں۔)

نیز احمد بن محمد کرزی بغدادی سے نقل کرتے ہں کہ عبداللہ بن احمدحنبل نے کہا میں نے اپنے باپ ( امام حنابلہ احمد بن حنبل) سے تفصیل صحابہ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا ابوبکر ،عمر اور عثمان میں نے کہا بابا علی ابن ابی طالب(ع) کیا ہوئے؟ تو کہا "هوَ مِنْ‏ أَهْلِ‏ البَيْتٍ‏ لَا يُقَاسُ‏ بِهِ هَئُولا ءِ " ( یعنی وہ اہل بیت(ع) میں سے ہیں ان کے ساتھ ان لوگوں کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔)

غیر معمولی بات یہ ہے کہ علی علیہ السلام کا نسب دو پہلو رکھتا ہے۔ نورانی اور جسمانی اور اس حیثیت سے رسول خدا(ص) کے بعد حضرت کی ذات منفرد تھی۔

علی(ع) کی نورانی خلقت اور پیغمبر(ص) کےساتھ آپ کی شرکت

جنبہ نورانیت اور حقیقت خلقت کے لحاظ سے تقدم کا حق امیرالمومنین علیہ السلام کےساتھ ہے۔ چنانچہ آپ کے اکابر علماء مثلا امام احمد ابن حنبل اپنی باعظمت کتاب مسند میں، میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی مودۃ القربی میں، ابن مغازلی شافعی مناقب میں اور محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول فی مناقب آل الرسول میں رسول اکرم(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:

"‏ كُنْتُ‏ أَنَا وَ عَلِي ابن ابی طالبِ نُوراً بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ من قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ اللَّهُ آدَمَباربعةِ عَشرَاَلْفِ عَامٍ فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ رَكَّبَ ذَلِكَ النُّورَ فِي صُلْبِهِ فَلَمْ يَزَلْ فِي شَيْ‏ءٍ وَاحِدٍ حَتَّى افْتَرَقْنَا فِي صُلْبِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَفِيَّ النُّبُوَّةُ وَ فِي عَلِيٍّ الْخِلَافَةُ."

یعنی میں اور علی ابن ابی طالب(ع) دونوں خلقت آدم سے چودہ ہزار سال قبل بارگاہ خداوندی میں ایک نور تھے، پس جب خدا نے آدم کو پیدا کیا تو اس نور کو ان کے صلب میں قرار دیا اور ہم برابر ایک نور کی صورت میں رہے یہاں تک کہ عبدالمطلب کے صلب میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے پس مجھ میں نبوت اور علی(ع) میں خلافت آئی۔

میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی نے مودۃ القربی کی مودت ہشتم کو اس عبارت کے ساتھ اسی موضوع سے مخصوص کیا ہے :

"المودة الثامنة فی ان رسول الله و عليا من نورواحد اعطی علی من الخصال مالم يعط احد من العالمين"

یعنی آٹھویں مودت اس باب میں کہ رسول خدا(ص) اور علی(ع) ایک نور سے ہیں، علی(ع) کو ایسی خصلتیں عطا کی گئیں جو عالمین میں کسی کو نہیں ملیں۔

من جملہ ان احادیث کے جو اس مودت میں نقل کی ہیں اور ابن مغازلی شافعی نے بھی ذکر کیا ہے خلیفہ سوم عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"خلقت‏ أنا و علي‏ من نور واحد قبل أن

۱۶۴

یخلق اللّه آدم (عليه السّلام) بأربعة آلاف عام، فركّب ذلك في صلبه فلم يزل شي‏ء واحد حتى افترقنا في صلب عبد المطلب ففی النبوة و فی علی الوصية."اور اسی کے بعد دوسری حدیث میں لکھتے ہیں کہ علی سے خطاب فرمایا :" ففی النبوة والرسالة و فيک الوصية والامانة يا علی."

یعنی میں اور علی خلقت آدم سے چار ہزار برس قبل ایک نور سے پیدا ہوئے پس جب اللہ نے آدم کو پید اکیا تو اس نور کو ان کے صلب میں ودیعت فرمایا پھر ہم برابر ایک نور رہے یہاں تک کہصلب عبدالمطلب میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے، پس مجھ میں نبوت اور علی(ع) میں وصایت قرار پائی۔یا یہ کہ میرے اندر نبوت و رسالت اور اے علی(ع) تمہارے اندر وصیت و امامت آئی۔

نیز اسی حدیث کو ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص450 ( مطبوعہ مصر) میں صاحب کتاب فردوس سے نقل کیا ہے، اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب اول میں جمع الفوائد، مناقب ابن مغازلی شافعی، فردوس دیلمی، فرائد السمطین حموینی اور مناقب خوارزمی سے یہ الفاظ و عبارات کے تھوڑے سے تفاوت لیکن وحدت مفہوم کے ساتھ نقل کیا ہے کہ محمد و علی صلوات اللہ علیہما کی نورانی خلقت کائنات کی خلقت سے ہزاروں سال پہلے ہوئی اور یہ کہ دونوں ایک ہی نور تھے یہاں تک کہ صلب عبد المطلب میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ ایک حصہ صلب عبد اللہ میں قائمہوا جس سے خاتم الانبیاء کی پیدائش ہوئی اور دوسرا حصہ صلب ابوطالب میں پہنچا جس سے علی علیہ السلام کی ولادت ہوئی، محمد صلعم کا نبوت و رسالت کے لیے اور علی علیہ السلام کا وصایت و امامت اور خلافت کے لیے انتخاب ہوا۔ جیسا کہ تمام اخبار میں خود رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے۔ اور ابو الموئد موفق بن احمد خوارزمی مناقب فصل چہاردہم اور مقتل الحسین فصل چہارم میں، سبط ابن جوزی تذکرہ ص28 میں، ابن صباغ مالکی فصول المہمہ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب87 میں پانچ حدیثیں حافظ محدث شام کی سند سے اور حافظ محدث عراق معجم طبرانی سے اپنا اسناد کےساتھ نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا میں اور علی(ع) دونوں ایک نور سے پیدا ہوئے اور ایک ساتھ رہے یہاں تک صلب عبدالمطلب میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ ان میں سے بعض اخبار مفصل اور بہت بلند و مفید ہیں لیکن اختصار کے لحاظ سے میں نے مکمل طور پر ذکر نہیں کیا، (شائقین اصل کتاب کی طرف رجوع فرمائیں)عبارتوں اور لفظوں کا اختلاف اس وجہ سے نہیں ہے کہ آں حضرت(ص) نے ایک ہی موقع پر ارشاد فرمایا اور ہر مادی نے ایک عبارت کےساتھ نقل کردیا ، بلکہ بہت ممکن ہے مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہو جیسا کہ خود حدیثوں کے سیاق سے ظاہر ہو رہاہے۔

علی علیہ السلام کا نسبِ جسمانی

اورجسمانی جنبہ بھی ماں باپ دونوں کی طرف سے بہت بڑی شرافت کا حامل ہے جو حضرت کے مخصوص خصائص و فضائل میں سے ہے۔

۱۶۵

دوسروں کے برخلاف آپ کے آبائواجداد ابوالبشر حضرت آدم(ع) تک سب کےسب موحد اورخدا پرست تھے اور کسی ناپاک صلب یا رحم میں یہ پاک نور جاگزین نہیں ہوا۔ یہ فخر صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی حاصل نہیں تھا۔ سلسلہ نسب یہ ہے :

علی1۔ ابن ابی طالب2۔ بن عبدالمطلب3۔ بن ہاشم4۔ بن عبد5۔ مناف بن قصی6۔ بن کلاب7۔ بن 8۔مرہ بن کعب9۔ بن لوی10۔ بن غالب11۔ بن فہر12۔ بن مالک13۔ بن نضر14۔بن کنانہ15۔ بن خزیمہ16۔بن مدرکہ17۔ بن الیاس18۔ بن مضر19۔ بن نزار20۔بن سعد21۔بن عدنان22۔بن ادو23۔ بن الیسع24۔ بن الہمیس25۔ بن نبت26۔ بن سلامان27۔ بن حمل28۔ بن قیدار29۔ بن اسمعیل30۔ بن ابراہیم31۔ خلیل اللہ بن تارخ32۔ بن تاحور33۔ بن شاروع34۔ بن ابرغو 35۔بن تالغ36۔ بن عابر37۔ بن شالع38۔ بن ارفخشد 39۔بن سام 40۔بن نوح41۔ بن ملک42۔ بن متوشلخ43۔ بن اخںوخ44۔ بن یار45۔و بن مہلائل46۔ بن قینان47۔ بن انوش48۔ بن شیث49۔ بن آدم50۔ ابوالبشر علیہم السلام و رسول خدا صلعم کے بعد کسی کو بھی ایسا درخشان نسب نصیب نہیں ہوا۔

شیخ : آپ نے جو یہ فرمایا کہ آدم ابو البشر تک علی کرم اللہ وجہہ کے سبھی آبائو اجدا موحد تھے تو بظاہر اس میں آپ کو دھوکا ہوا ہے کیونکہ در اصل ایسا نہیں ہے۔ ہم بھی ظاہر پر مامور ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان بزرگوار کے آبائو اجداد میں مشرکین اور بت پرست بھی تھے جیسے ابراہیم خلیل کے باپ آزر جن کے لیے آیہ شریفہ میں صاف صاف ارشاد ہے:

"‏ وَ إِذْ قالَ إِبْراهِيمُ لِأَبِيهِ‏ آزَرَ أَ تَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً- إِنِّي أَراكَ وَ قَوْمَكَ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ‏"

یعنی یاد کرو اس وقت کو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ آیا تم بتوں کو اپنا خدا بناتے ہو؟ میں تم کو اور تمہاری قوم کو کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔ سورہ نمبر6 ( انعام) آیت نمبر74۔

اس اشکال کا جواب کہ ابراہیم کا باپ آزر تھا

خیر طلب : بغیر سوچے سمجھے ہوئے آپ کا یہ بیان میری نظر میں عادتا اپنے اسلاف کی پیروی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس لیے کہ آپ کے اگلےاور پچھلے لوگ محض اس عرض سے کہ اپنے بزرگ اور چہیتے صحابیوں کو جن کی طرف قطعی طور سے کفر و شرک کی نسبت موجود ہے پاک قرار دے دیں یعنی یہ نسبی عیب ان سے دور ہوجائے اور ماں باپ کا مشرک ہونا معیوب نہ سمجھا جائے، اس بات پرآمادہ ہوگئے کہ اپنے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) کے آبائو و اجداد میں بھی مشرک کو داخل کردیں اور آں حضرت(ص) کے نسب کو کفر و شرک سے ملا دیں تاکہ اپنے اسلاف اور بزرگان دین کی صفائی پیش کرسکیں۔

واقعی صاحبان عقل و دانش کی طرف سے ایسی مطلب پرستیاں بہت افسوسناک ہیں جن کو سواتعصب و عناد اپنے پیشوائوں کی اندھا دھند محبت اور بے محل ہاتھ پائوں مارنے کے اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ اور آپ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے کی عادت سے مجبور ہو کر ایسے جلسے میں ان باتوں کو دہراتے ہیں۔ حالانکہ آپ خود جانتے ہیں کہ علمائے انساب کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ابراہیم(ع) کے باپ تارخ تھے آزر نہیں تھا۔

شیخ : آپ نص کے مقابلے میں اجتہاد کر رہے ہیں اور علمائے انساب کے عقائد و نظریات کو قرآن کے مقابلے میں لا رہے ہیں

۱۶۶

باوجودیکہ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ حضرت ابراہیم کا باپ آزر بت پرست تھا۔

خیر طلب : میں کبھی نص کے مقابلے میں اجتہاد نہیں کرتا بلکہ قرآنی حقائق کو سمجھنے کے علاوہ چونکہ میرا کوئی اور مقصد نہیں ہے۔ لہذا جب میں قرآن کے عدیل و مفسر یعنیاہل بیتاور عترت رسول(ص) کی رہنمائی میں تھوڑے غور و فکر اور دقت نظر سے کام لیتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اس آیہ شریفہ میں عرف عام کا قاعدہ استعمال ہوا ہے اس لیے کہ عام اصطلاح میں چچا اور ماں کے شوہر کو بھی باپ کہا جاتا ہے۔

اور آزر کے بارے میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ حضرت ابراہیم(ع) کا چچا تھا، اور دوسرا یہ کہ چچا ہونے کے علاوہ اپنے بھائی تارخ یعنی حضرت ابراہیم کے والد کی وفات کے بعد اس نے حضرت کی والدہ کو اپنی زوجیت میں لے لیا تھا لہذا حضرت دو وجہوں سے ہمیشہ اس کو باپ کہہ کر خطاب فرماتے تھے، ایک چچا ہونے کی جہت سے اور دوسرے ماں کا شوہر ہونے کے سبب سے۔

شیخ : ہم قرآن کیصراحت سے چشم پوشی نہیں کرسکتے جب تک خود قرآن ہی میں اس کی دلیل نہ مل جائے کہ چچا یا ماں کے شوہر کو باپ کہا گیا ہو، اور اگر آپ ایسی دلیل پیش نہ کرسکیں ( اور ہرگز پیش نہ کرسکیں گے) تو آپ کا استدلال ناقص اور ناقابل قبول ہے۔

خیر طلب: ایسا حتمی دعوےنہ کیجئے کہ جب اس کے خلاف دلیل قائم کی جائے تو سارا زور بیان ٹوٹ جائے، اس لیے کہ خود قرآن مجید میں ایسی نظیریں موجود ہیں جن میں عرف عام کے قاعدے سے بیان کیا گیا ہے من جملہ ان کے سورہ نمبر2( بقرہ) کی آیت نمبر127 ہے جو میری گذارش کا ثبوت دے رہیہے اور جس میں موت کے وقت حضرت یعقوب کا اپنے بیٹوں کے ساتھ سوال وجواب مذکور ہے ارشاد ہے:

"إِذْ قالَ‏ لِبَنِيهِ‏ ما تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي- قالُوا نَعْبُدُ إِلهَكَ وَ إِلهَ آبائِكَ إِبْراهِيمَ وَ إِسْماعِيلَ وَ إِسْحاقَ إِلهاً واحِداً"

یعنی جس وقت جناب یعقوب(ع) نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم لوگ میرے بعدکس کی پرستش کروگے تو انہوں نے کہا کہ تمہارے خدا اور تمہارے باپوں ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق کی جو یکتا معبود ہے۔

اس آیت میں میرے دعوے کی دلیل لفظ اسماعیل ہے کیونکہ قرآن مجید کی شہادت سے حضرت یعقوب(ع) کے باپ حضرت اسحاق(ع) ہیں اور حضرت اسماعیل(ع) باپ تو نہیں بلکہ چچا ہیں لیکن آپ اصطلاح عام کے قاعدے سے ان کو باپ ہی کہتے تھے۔ چونکہ فرزندان یعقوب(ع) بھی عرفا چچا کو باپ کہتے تھے لہذا اپنے پدر بزرگوار کے جواب میں چچا کو باپ ہی کہا اور خدا نے ان کے سوال و جواب کو اسی طرح سے نقل کیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے چچا اور ماں کے شوہر کو عرفا باپ کہتے تھے لہذا قرآن مجید نے بھی ان کو باپ کہا ورنہ تاریخ اور علم الانساب کی مضبوط دلیل سے یہ مسلم ہے کہ حضرت ابراہیم(ع) کے باپ آزر نہیں بلکہ تارخ تھے۔

۱۶۷

پیغمبر(ص) کے آبائو امہات مشرک نہیں بلکہ سب مومن تھے

اس کی دوسری دلیل کہ پیغمبر(ص) کے آبائو اجداد مشرک اور کافر نہیں تھے۔ سورہ نمبر26،(شعراء) کی آیت نمبر219 ہے جس میں ارشاد ہے

" وَ تَقَلُّبَكَ‏ فِي السَّاجِدِينَ" ( یعنی اور خدا پرستوں میں تمہاری گردش، 12 مترجم)

اس آیہ شریفہ کے معنی میں شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب2 میں نزی آپ کے دورے علماء نے ابن عباس ( جرامت و مفسر قرآن) سے روایت کی ہے کہ :

" تقلبهمن‏ أصلاب‏ الموحّدين‏من موحّدين نبی الى نبی حتى أخرجهمن صلب ابيه من نکاح غير سفاح من لدن آدم"

یعنی خدا نے پیغمبرج(ص) کو پشت آدم(ع) سے ایک نبی کے بعد دوسرے نبی کی طرف اہل توحید کے اصلاب میں منتقل فرمایا، یہاں تک کہ آپ کو اپنے باپ کے صلب سے ظاہر فرمایا بذریعہ نکاح نہ کہ حرام سے۔

من جملہ اور دلائل کے ایک مشہور حدیث ہے جس کو آپ کے سبھی علماء نے نقل کیا ہے ، یہاں تک کہ امام ثعلبی جو اصحاب حدیث کے امام ہیں اپنی تفسیر میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب2 میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"اهبطنی الله الی الارض فی صلب آدم و جعلنی فی صلب نوح فی السفينة و قذف بی فی صلب ابراهيم ثم لم يزل الله ينقلبی من الاصلاب الکريمة الی الارحام الطاهرة حتی اخرجنی من بين ابوين لم يلتقيا علی سفاح قط"

یعنی خدا نے مجھ کو زمین کی طرف صلب آدم میں ا تارا اور کشتی کے اندر مجھ کو صلب نوح(ع) میں قرار دیا اور مجھ کو صلب ابراہیم(ع) منفقل کیا اور اللہمجھ کو ہمیشہ بزرگ و محترم اصلاب سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ مجھ کو میرے ماں باپ سے پیدا کیا جنہوں نے ہرگز حرام طریقے سے باہم ملاقات نہیں کی۔

اور دوسری حدیث میں فرمایا" لم یدنسنی بدنس الجاہلیہ "( یعنی مجھ کو جاہلیت کی گندگی سے آلودہ نہیں کیا) اسی باب میں کتاب ابکار الافکار شیخ صلاح الدین بن زین الدین بن احمد معروف بہ ابن الصلاح حلبی اور علاء الدولہ سمنانی کی شرح کبریت احمر میں شیخ عبدالقادر سے بروایت جابر ابن عبداللہ انصاری ایک مفصل حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) سے اول ما خلق اللہ کے متعلق دریافت کیا گیا اور آں حضرت(ص) نے جوابات دیتے ہیں( جن کی تشریح کا وقت نہیں ) یہاں تک کہ آخر حدیث میں فرمایا ہے :

"و هکذا ينتقل الله نوری من طيب الی طيب و من طاهر الی طاهر الی اوصله الله الی صلب ابی عبد الله بن عبد المطلب و منه اوصله الله الی رحم امی آمنة ثم اخرجنی الی الدنيا فجعلنی سيد المرسلين و خاتم النبيين"

یعنی اور اسی طرح خدائے تعالے میرے نور کو طیب وطاہر اور پاک پاکیزہ سے طیب و طاہر اور پاک و پاکیزہ کی طرف منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ میرے باپ عبداللہ ابن عبدالمطلب کے صلب میں ودیعت کیا اور ان سے میری ماں آمنہ کے رحم میں لایا۔ پھر مجھ کو دنیا میں ظاہر کیا اور سید المرسلین و خاتم النبیین قرار دیا۔

۱۶۸

یہ ارشاد کہ میں طیب سے طیب اور طاہر سے طاہر کی طرف منتقل ہوتا رہا، اس بات کا ثبوت ہے کہ آں حضرت(ص) کے آبائو اجداد میں کوئی کافر نہیں تھا، اس لیے کہ قرآن مجید کے حکم انما المشرکین نجس کے مطابق ہر کافر و مشرک نجس ہے پس جب یہ فرمایا کہ" لم يزل انقل من اصلاب الطاهرين الی ارحام الطاهرات " یعنی میں برابر اصلاب طاہرین سے پاک پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوتا رہا تو ثابت ہوا کہ مشرکین چونکہ نجس ہیں لہذا آں حضرت(ص) کے آبائو اجداد مشرک نہیں تھے۔

نیز ینابیع المودت کے اسی باب میں کبیر سے بروایت ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

"ما ولدني‏ في‏ سفاح‏ الجاهلية شي‏ء و ما ولدني إلّا نكاح كنكاح الإسلام"

یعنی میں زمانہ جاہلیت کےکسی حرام طریقے سے پیدا نہیں ہوا بلکہ اسلامی نکاح کے ذریعہ متولد ہوا۔

آیا آپ نے نہج البلاغہ کا خطبہ نمبر105نہیں پڑھا ہے جس میں امیرالمومنین علی علیہ السلام نے رسول اللہ(ص) کے آبائو اجداد کیاس طرح توصیف کی ہے کہ :

"فاستودعهم‏ في‏ أفضل‏ مستودع‏، و أقرهم في خير مستقر، تناسختهم كرائم الأصلاب إلى مطهرات الأرحام، كلما مضى منهم سلف قام منهم بدين اللّه خلف» إلى أن قال: «حتى أفضت كرامة اللّه سبحانه و تعالى إلى محمد صلى اللّه عليه و آله، فأخرجه من أفضل المعادن منبتا، و أعز الأرومات مغرسا، من الشجرة التي صدع منها أنبياءه، و انتجب منها أمناءه"

یعنی خدا نے ان( انبیاء) کو بزرگترین جائے امانت ( یعنی ان کے آبا ئے کرام کے اصلاب) میں امانت رکھا اور ان کو بہترین جائے قیام ( یعنی ان کی امہات کے ارحام طاہرہ) میں قرار دیا، ان کو بزرگ و احترام اصلاب سے پاک پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل فرمایا ، جب ان کے کسی سلف نے رحلت کی تو ایک خلف دین خدا کے ساتھ ان کا قائم مقام ہوا۔ یہاں تک کہ خدائے تعالے کی کرامت (یعنی نبوت و رسالت) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آئی، پس آں حضرتج(ص) کو سب سے افضل معدن پیدائش اور سب سے معزز اصل و بنیاد سے ظاہر فرمایا، ایسے شجرہ طیبہ سے جس سے اپنے انبیاء کو پیدا کیا، اور جس سے اپنے امانت داروں کو برگزیدہ کیا۔

اگر میں چاہوں تو اس طرح کے دلائل جلسے کا وقت ختم ہونے تک برابر پیش کرتا ہوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ مطلب ثابت کرنے کے لیے اور وہ بھی صاحبان اںصاف کے سامنے اسی قدر کافی ہوگا جس سے آپ حضرات سمجھ لیں کہ آدم ابوالبشر تک پیغمبر(ص) کے سارے آبائو اجداد مومن و موحد تھے۔ بدیہی چیز ہے کہ اہل البیت ادری بما فی البیت کے مصداق اہلبیت طہارت اور خاندان رسول (ص) کے افراد اپنےبزرگوں کے حالات سے دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگاہ تھے۔

پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ پیغمبر(ص) کے آبائو اجداد بھی سب کے سب مومن و موحد تھے تو یہ بات خود بخود ثابت ہوجاتی ہے کہ علی علیہ السلام کے آبائو و اجداد بھی سب کےسب مومن اور خدا پرست تھے۔ کیونکہ میں( تواتر اخبار شیعہ کے علاوہ) صرف ان اخبار و احادیث سے جن کو آپ کے علماء نے نقل کیا ہے پہلےہی ثابت کرچکا ہوں کہ محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام ایک نور تھے اور تمام پاک و پاکیزہ اصلاب و ارحام میں ایک ساتھ رہے یہاں تک کہ صلب عبدالمطلب میں ایک دوسرے سے جدا

۱۶۹

ہوئے نورانی اور جسمانی دونوں منزلوں میں جہاں رسول خدا(ص) تھے وہیں علی(ع) بھی تھے( پس ہر عقلمند کی عقل فیصلہ کرلے گی کہ جو بزرگ شخصیت ایسے روشن ومنزہ اور پاک و پاکیزہ نسب اور نسل کی حامل اور تمام اشخاص سے زیادہ رسول اللہ(ص) سے قریب تھی وہی منصب خلافت کے لیے اولی اور سب سے زیادہ حقدار تھی۔

شیخ: اگرچہ آپ نے ذزر اورتارخ کے مسئلے میں کامیابی کا راستہ نکال لیا ہے اور رسول خدا(ص) کے آبائو اجداد کی طہارت ثابت کردی ہے لیکن علی کرم اللہ وجہہ کے لیے اس قسم کا ثبوت ناممکن ہے کیونکہ (چاہے ہم اس کو تسلیم بھی کر لیں کہ عبدالمطلب تک سب موحد تھے لیکن ) علیکرم اللہ وجہہ کے باپ ابوطالب کے بارے میں ہرگز کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ ثابت ہے کہ وہ کفر کی حالت میں دنیا سے اٹھے۔

ایمان ابوطالب میں اختلاف

خیر طلب: میں تصدیق کرتا ہوں کہ جناب ابوطالب کے بارے میں امت کے اندر اختلاف پیدا کردیا گیا، لیکن کہنا چاہئیے کہ :

"اللهم‏ العن‏ أول‏ ظالم ظلم حق محمّد و آل محمّد "(یعنی خداوندا لعنت کر اس پہلے ظالم پر جس نے محمد و آل محمد(ص) کے حق میں ظلم کیا) لعنت ہو خدا کی اس شخص پر جس نے روز اول علی علیہ السلام کو ایذا اور نقصان پہنچانے کے لیے سب و لعن اہانت اور جھوٹی حدیثیں گڑھنے کا وہ طریقہ ایجاد کیا جس پر ایسے مطالب کی بنیاد قائم ہوئی کہ بعد کو خوارج و نواصب جو حضرت سے مخصوص طور پر عداوت رکھتے تھے اور آپ کے چند تنگ نظر اور نا فہم علماء اپنے اسلاف کی پیروی میں عادت اور تعصب کی بناء پر آپ کے اس قول کے قائل ہوگئے اور خیال قائم کر لیا کہ جناب ابوطالب بغیر ایمان کے دنیا سے اٹھے۔

حالانکہ جہمور علمائے شیعہ اور تمام اہل بیت طہارت و خاندن رسالت جن کے اقوال سند اور جن کا اجماع حجت ہے کیونکہ عدیل قرآن ہیں، نیز آپ کے بیشتر محققین و اںصاف پسند علماء جیسے ابن ابی الحدید، جلال الدین سیوطی، ابوالقاسم بلخی، ابوجعفر اسکافی ، فرقہ معتزلہ میں سے ان کے اساتذہ اور امیر سید علی ہمدانی شافعی وغیرہ سب بالاتفاق جناب ابوطالب کے اسلام و ایمان کے قائل ہیں۔

ایمان ابوطالب(ع) پر اجماع شیعہ

اور جماعت شیعہ کا تو اجماعی عقیدہ ہے کہ "انه قد آمن بالنبی فی اول الامر " ( یعنی ابوطالب(ع) در حقیقت شروع ہی میں پیغمبر(ص) پر ایمان لے آئے تھے۔

پھر سب سے بالاتر یہ کہ جناب ابوطالب کا ایمان دیگر بنی ہاشم یا آپ کے بھائی حمزہ اورعباس کے مانند کفر سے نہیں بلکہ

۱۷۰

فطری تھا اور اہل بیت طاہرین کے اتباع میں جماعت شیعہ کامسلمہ مسئلہ ہے کہ" انه لم يعبد صنما قط بل کان من اوصياء ابراهيم " ( یعنی ابوطالب نے قطعا کبھی کسی بت کی پرستش نہیں کی بلکہ آپ حضرت ابراہیم کے اوصیاء میں سے تھے)

اور آپ کے محقق علماء کی معتبر کتابوں میں اس مطلب کی طرف کثرت سے اشارے موجود ہیں۔ من جملہ ان کے ابن اثیر نے جامع الاصول میں کہا ہے:

" و ما اسلم من اعمام النبیغير حمزة والعباس و ابی طالب عند اهل البيت عليهم السلام"

یعنی اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک پیغمبر(ص) کے اعمام میں سے صرف حمزہ، ابن عباس اورابوطالب ایمان لائے۔

بدیہی چیز ہے کہ اہل بیت رسول علیہم السلام کا اجماع ہر مسلمان کے نزدیک حجت ہونا چاہئیے کیونکہ حدیث ثقلین اور ان دیگر احادیث کی بنا پر جن کو میں پچھلی راتوں میں پیش کرچکا ہوں اور جن سے باتفاق فریقین ثابت ہے کہ رسول اللہ(ص) نے ان حضرات کے حق میں وصیتیں اور سفارشیں فرمائی ہیں، یہ ہستیاں عدیل قرآن اور ثقلین میں سے ایک ہیں اور ہم سب مسلمان اس پر مامور ہیں کہ ان کی گفتار و کردار سے تمسک رکھیں تاکہ گمراہ نہ ہوں۔

دوسرے یہ کہ قاعدہ "اهل البيت ادری بما فی البيت" (یعنی گھر کیچیزوں سے گھر والے ہی زیادہ واقف ہوتے ہیں 12 مترجم) کے مطابق یہ جلیل القدر خاندان جو تقوی و پرہیزگاری کامجسمہ تھا اپنے آبائو اجداد اور اعمام کے ایمان و کفر سے مغیرہ بن شعبہ، دیگر نبی امیہ، خوارج و نواصب اور بے خبر لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگاہ تھا۔ واقعی تعجب تو ہوتا ہے آپ کے علماء پر کہ تمام اہل بیت رسالت اور امام المتقین حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا قول تو قبول نہیں کرتےجن کی صداقت و راست گوئی کی تصدیق خود آپ ہی کی معتبر روایتوں کے مطابق خدا و رسول (ص) نے فرمائی ہے اور جو بالاتفاق یہی کہتے ہیں کہ جناب ابوطالب مومن و موحد دنیا سے اٹھے، لیکن امیرالمومنین(ع) کے ایک جانی دشمن، فاسق و فاجر اور جانے بوجھے ہوئے آدمی مغیرہ ملعون اور چند اموی اور خارجی و ناصبی اشخاص کی بات ماننے کےلیے تیار ہیں بلکہ اس پر اصرار اور مقابلہ بھی کرتے ہیں۔

ابن ابی الحدید معتزلی جو آپ کے بزرگ علماء میں سے ہیں شرح نہج البلاغہ جلد 3 میں کہتے ہیں کہ ابوطالب کے اسلام میں اختلاف ہے، جماعت شیعہ امامیہ اور اکثر زیدیہ نے کہا ہے کہ وہ دنیا سے مسلمان اٹھے علاوہ اجماع جمہور علمائے شیعہ کے ہمارے بعض شیوخ علماء بھی جیسے ابوالقاسم بلخی اور ابو جعفر اسکافی وغیرہ بھی اسی عقیدے پر ہیں کہ ابوطالب اسلام لائے، لیکن اپنا ایمان ظاہر نہ کرنے کا مقصد یہتھا کہ پیغمبر(ص) کی پوری اماد کرسکیں اور مخالفین ان کے لحاظ سے آںحضرت(ص) کی مزاحمت نہ کرسکیں۔

حدیث ضحضاح اور اس کا جواب

شیخ : معلوم ہوتا ہے آپ نے حدیث ضحضاح نہیں دیکھی ہے جس میں ارشاد ہے "ان اباطالب فی ضحضاح من نار " (یعنی ابوطالب جہنم کے پانی میں ہیں)

۱۷۱

خیر طلب: یہ حدیث بھی ان دوسری موضوع اور جعلی حدیثوں کے مانند ہے جن کو زمانہ بنی امیہ اور بالخصوص منافقین کے رئیس معاویہ ابن ابو سفیان کے دور خلافت میں آل محمد(ص) اور اہل بیتطہارت علیہم السلام کے چند دشمنوں نے خوشامد اور جذبہ کفر و نفاق کے ماتحت تصنیف کیا تھا، اور بعد کو بنی امیہ اور ان کے پیروئوں نے بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی عداوت میں ان گڑھیہوئی حدیثوں کی تقویت دی اور مشہور کیا، انہوں نے اس کا موقع ہی نہیں دیا کہ جناب حمزہ و عباس کی طرح جناب ابوطالب کا ایمان بھی شہرت پاسکے، بلکہ اس کو قوم کی نگاہ سے بالکل اوجھل ہی کردیا۔

حدیث ضحضاح کی مجہولیت

عجیب تر چیز یہ ہے کہ حدیث ضحضاح کو وضع اور نقل کرنےوالا بھی حضرت امیرالمومنینعلیہ السلام کا فاسق وفاجر دشمنتنہا مغیرہ بن شعبہ ہی تھا جس کے لیے ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص159 تا ص163 میں، مسعودی مروج الذہب میں اور دیگر علماء لکھتے ہیں کہ مغیرہ نے بصرہ میں زنا کی، لیکن جس روز خلیفہ عمر کے سامنے اس کے گواہ پیش ہوئے تو تین آدمیوں نے شہادت دی اور چوتھا شخص بیان دینے آیا تو اس کو ایسا جملہ سکھا دیا گیا کہ گواہی ٹوٹ گئی، چنانچہ ان تیتوں پر حد جاری کی گئی اور مغرہ چھوڑ دیا گیا۔

ایک ایسے فاسق و فاجر زنا کار اور شرابیآدمی نے جس ر شرعی حد جاری ہونے والی تھی اور جو معاویہ ابن ابوسفیان کا جگری دوست تھا اس حدیث کو امیرالمومنینعلیہ السلام کے بغض و عداوت اور معاویہ کی چاپلوسی میں گڑھا اور معاویہ ان کے اتباع اور دیگر اموی افراد نے اس جعلی حدیث کو تقویت دی اور تصدیق کرنے لگے کہ "ان اباطالب فی ضحضاح من نار" ( ترجمہ گزر چکا ہے۔)

نیز جو افراد اس کے سلسلہ روایت میں داخل ہیں جیسے عبدالملک بن عمیر، عبدالعزیز داوردی اور ابوسفیان ثوری وغیرہ وہ بھی آپ کے اکابر علمائے جرح و تعدیل کے نزدیک جیساکہ ذہبی نے میزان الاعتدال جلد دوم میں لکھا ہے ضعیف و مردود اور ناقابل قبول ہیں اور ان میں سے بعض مثلا سفیان ثوری جعلسازوں اور سخت جھوٹے لوگوں میں شمار کئے گئے ہیں لہذا ایسی حدیث پر کیونکر اعتماد کیا جاسکتا ہے جس کو ایسے مشہور معروف ضعیف و کذاب لوگوں نے نقل کیا ہو؟

ایمان ابوطالب(ع) پر دلائل

حقیقت یہ ہے کہ جناب ابوطالب کے ایمان پر کثرت سے دلیلیں موجود ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور ایسے

۱۷۲

واضح دلائل سے صرف وہی بے حس یا متعصب اور ضدی لوگ انکار کرسکتے ہیں جو حق کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔

1۔ رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے کہ : "انا وکافل اليتيم کهاتين فی الجنة " ( یعنی اپنی دونوں انگلیاں ملاکر فرمایا) میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا اندونوں انگلیوں کی طرح جنت ہیں باہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔)

ابن ابی الحدید نے بھی اس حدیث کو شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص312 میں نقل کیا ہے، اور لکھا ہے کہ بدیہی چیز ہے کہ ارشاد رسول(ص) سے ہر یتیم کی کفالت کرنے والا مراد نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اکثر یتیم کےکفیل فاسق و فاجر بلکہ گمراہ و بے دین اور جہنم کے مستحق ہوتے ہیں۔ پس آں حضرت(ص) کی مراد اس سے جناب ابوطالب(ع) اور آپ کے جد بزرگوار جناب عبدالمطلب تھے جو پیغمبر(ص) کے کفیل رہے او خصوصیت کے ساتھ مکہ معظمہ میں آں حضرت(ص) یتیم ابوطالب کے لقب سے مشہور تھے کیوںکہ وفات عبدالمطلب کے بعد آٹھ سال کے سن سے رسول اللہ(ص) کی کفالت اور دیکھ بھال آپ ہی کے ذمہ رہی۔

2۔ ایک مشہور حدیث ہے جس کو فریقین ( شیعہ و سنی) نے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے، اور بعض نے اس طریقے سے روایت کی ہے کہآں حضرت صلعم نے فرمایا، جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور ان الفاظ میں مجھ کو بشارت دی کہ:

"ان الله حرم علی النار صلبا انزلک و بطنا حملک و ثديا ارضعک و حجرا کفلک "

یعنی قطعی طور پر اللہ نے آگ پر حرام کردیا ہے اس پشت کو جس سے آپ کا نزول ہوا، اس شکم کو جس نے آپ کو اٹھایا، اس پستان کو جس نے آپ کو دودھ پلایا اور اس گود کو جس نے آپ کی کفالت کی۔

میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور قاضی شوکانی نے حدیث قدسی میں اس طرح روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا، جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور کہا :

"ان الله يقرئک السلام و يقول انی حرمت النار علی صلب انزلک و بطن حملک و حجر کفلک"

یعنی پرورگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ یقینا میں نے حرام کردی ہے آتش جہنم اس پشت پر جس نے آپ کو اتارا، اس شکم کو جس نے آپ کو بار اٹھایا اور اس آغوش کو جس نے آپ کی کفالت کی۔

(صاحب صلب سے جناب عبداللہ، صاحب شکم سے حضرت آمنہ او صاحب آغوش سے جناب عبدالمطلب و ابوطالب مراد تھے۔)

اس قسم کے اخبار و احادیث پیغمبر(ص) کے کفیل جناب عبدالمطلب ، جناب ابوطالب اور ان کی زوجہ فاطمہ بن اسد کے ، نیز آں حضرت صلعم کے باپ اور ماں جناب عبداللہ اور آمنہ بنت وہب اور آں حضرت کی دایہ حلیمہ سعدیہ کے ایمان پر پوری دلالت کرتے ہیں۔

۱۷۳

مدح ابوطالب میں ابن ابی الحدید کے اشعار

من جملہ ان دلائل کے وہ اشعار ہیں جو آپ کے بہت بڑے عالم عزالدین عبد الحمید ابن ابی الحدید معتزلی نےجناب ابوطالب کی مدح میں نظم کئے ہیں اور شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص318 ( مطبوعہ مصر) نیز دوسری کتابوں میں درج ہیں کہتے ہیں:

ولولاأبوطالب‏و ابنه‏لما مثل الدين شخصا فقاما

فذاك بمكّة آوى و حامى‏و هذا بيثرب جس الحماما

تكفل عبد مناف بأمرو أودى فكان عليّ تماما

فقل في ثبير مضى بعد ماقضى ما قضاه و ابقى شماما

فلله ذا فاتحا للهدىو للّه ذا للمعالي ختاما

و ما ضر مجد أبي طالب‏جهول لغا أو بصير تعامى‏

كمالايضرإياةالصباح من ظنّ ضوء النهارالظلاما

مطلب یہ کہ اگر ابوطالب اور ان کے فرزند ( علی ابن ابی طالب(ع)) نہ ہوتے تو دین اسلام کو کوئی امتیاز اور مضبوطی حاصل نہ ہوتی، ابوطالب نے مکے میں آں حضرت(ص) کو پایا اور؟؟؟؟؟ کی اور علی علیہ السلام نے مدینے میں آں حضرت کے لیے جان نثار کی۔ عبدمناف ( ابوطالب) (اپنے پدر بزرگوار عبدالمطلب کے) حکم سے آں حضرت(ص) کی کفالت کرتے رہے اور علی(ع) نے ان خدمات کی تکمیل کی۔

ابوطالب(ع) نے قضائے الہی سے وفات پائی تو اس سے کوئی کمی نہیں ہوئی کیوںکہ انہوں نے اپنی خوشبو ( علی علیہ السلام) کو یاد گار چھوڑا ۔ ابوطالب نے خدا کی راہ میں ہدایت پر چلنے کے لیے ان خدمتوں کی ابتدا کی اور علی علیہ السلام نے اللہ کے لیے ان کو انتہا تک پہنچا کر بلندیاں حاصل کیں۔

ابوطالب کی بزرگی کو کسی نادان کی بکواس یا کسی بینا کی چشم پوشی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جس طرح کوئی دن کی روشنی کو اندھیرا سمجھ لے تو اس سے آثار صبح کا کوئی نقصان نہیں 12 مترجم عفی عنہ)

ابوطالب(ع) کے اشعار ان کے اسلام کی دلیل ہے

اسی طرح خود جناب ابوطالب(ع) نے آں حضرت صلعم کی مدح میں جو اشعار نظم کئے ہیں وہ بھی ان کے ایمان کا کھلا ہوا ثبوت

۱۷۴

ہیں، چنانچہ ان میں سے کچھ شعر ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص316 میں نقل کئے ہیں اور آپ کے بہت سے اکابر علماء جیسے شیخابو القاسم بلخی اور ابوجعفر اسکافی نے انہیں اشعار سے آپ کے ایمان پر استدلال کیا ہے، حق یہ ہے کہ ان جناب نے اپنے ایمان کو ان اشعار کی صورت میں بالکل ظاہر و ہویدا کردیا ہے ، ان کے قصیدے لامیہ کے چند شعر یہ ہیں۔

أعوذبرب‏البيت‏من كل طاعن‏علينا بسوء أو يلوح بباطل‏

و من فاجر يغتابنا بمغيبةو من ملحق في الدين ما لم نحاول

كذبتم و بيت الله يبزى محمدو لما نطاعن دونه و نناضل‏

و ننصره حتى نصرع دونه‏و نذهل عن أبنائنا و الحلائل‏

و حتى نرى ذا الردع يركب ردعه‏من الطعن فعل الأنكب المتحامل

و ينهض قوم في الحديد إليكم‏نهوض الروايا تحت ذات الصلاصل

و إنا و بيت الله من جد جدنالتلتبسن أسيافنا بالأماثل

بكل فتى مثل الشهاب سميدع‏أخي ثقة عند الحفيظة باسل‏

و ما ترك قوم لا أبا لك سيدايحوط الذمار غير نكس مواكل‏

و أبيض يستسقى الغمام بوجهه‏ثمال اليتامى عصمة للأرامل‏

يلوذ به الهلاك من آل هاشم‏فهم عنده في نعمة و فواضل‏

و ميزان صدق لا يخيس شعيرةو وزان صدق وزنه غير عائل

أ لم تعلموا أن ابننا لا مكذب‏لدينا و لا يعبأ بقول الأباطل

لعمري لقد كلفت وجدا بأحمدو أحببته حب الحبيب المواصل

و جدت بنفسي دونه فحميته‏و دافعت عنه بالذرى و الكواهل

فلا زال للدنيا جمالا لأهلهاو شينا لمن عادى و زين المحافل

و أيده رب العباد بنصره‏و أظهر دينا حقه غير باطل.

یعنی پناہ چاہتا ہوں میں رب کعبہ کی طرف ان لوگوں سے جو ہم پر برائی کے ساتھ طعن کرتے ہیں یا ہمکو باطل کے ساتھ نسبت دیتے ہیں اور اس بدکار سے جو ہماری غیبت اوربدگوئی کرتا ہے اورع اس شخص سے جو دین میں ایسی باتیں کرتا ہے جن سے ہم دور ہیں۔ قسم خانہ خدا کی تم نے جھوٹ کہا کہ ہم محمد(ص) کا ساتھ چھوڑ دیں گے، حالانکہ ابھی ہم نے ان کے مخالف سے نیزہ و تیر کے ساتھ جنگ نہیں کی ہے۔ اور ہم ان کی نصرت کریں گے یہاں تک کہ ان کے دشمن کو پچھاڑ دیں اور ایسی جان نثاری کریں گے کہاپنے بیوی بچوں کو بھول جائیں گے۔ ان کی نورانیت ایسی ہے کہ ان کے روئے روشن کے ذریعےباران رحمت طلب کیا جاتا ہے ، وہ یتیموں کے فریادرس اور بیوہ عورتوں کے پناہ دہندہ ہیں۔ بنی ہاشم کے بے بس افراد ان کے پاس پناہ لیتے ہیں اور ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ قسم اپنی جان کی مجھ کی احمد(ص) سے والہانہ محبت ہے اور میں ان کو ایک خالص دوست کی طرح محبوب رکھتا ہوں۔ میں نے اپنے نفس کو اس قابل پایا کہ ان پر فدا ہوجائوں پس میں نے ان کی حمایت کی اور سرو گردن کے ذریعہ ان کی طرف سے دفاع کیا۔ خدا ان کو قائم رکھے کہ وہ اہل دنیا کےلیےجمال، دشمنوں کے لیے مصیبت اور محفلوں کی زینت ہیں۔ پروردگار عالم اپنی نصرت سے ان کی تائید کرے اور ان کے دین کو ظاہر کرے جو برحق ہے اور اس میں باطل کی گنجائش نہیں۔آپ کے جو مخصوص اشعار ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص312 میں نیز اور لوگوں نے نقل کئے ہیںاور جن سے آپ کے ایمان پر استدلال کیا گیا ہےان میں سے قصیدہ میمیہ میں فرماتے ہیں۔

۱۷۵

يرجون‏مناخطة دون نيلهاضراب و طعن بالوشيج المقوم‏

يرجون أن نسخى بقتل محمدو لم تختضب سمر العوالي من الدم‏

كذبتم و بيت الله حتى تفلقواجماجم تلقى بالحطيم و زمزم‏

و ظلم نبي جاء يدعو إلى الهدى‏و أمر أتى من عند ذي العرش قيم‏

خلاصہ یہ کہ لوگ ہم سے دین اسلام کے خلاف نیزہ و شمشیر سے جنگ کر نے کی امید کرتے ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ ہم محمد(ص) کو قتل کر کے اس کو منسوخ کردیں، حالانکہ ابھی ان کی نصرت میں چہرے خون سے رنگیننہیں ہوئے۔ خانہ خدا کی قسم تم نے جھوٹ کہا، یہاں تک کہ تم مصیبت میں پڑ جائو اور اور حطیم و زمزم کٹے ہوئے سروں سے پٹ جائیں۔ اور اس نبی پر جوہدایت خلق کے لیےمبعوث ہوا ہے اور اس کتاب پر جو مالک عرش نے نازل کی ہے ظلم ہورہا ہے) من جملہ ان واضح دلائل کے جن سے حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے اور ان جناب کے ایمان کا کھلا ہوا ثبوت ملتا ہے۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص315 میں آپ کا یہ کلام نقل کیا ہے۔

ياشاهدالله‏علي فاشهدانی علی دين النبی أحمد

من ضل في الدين فإني مهتدي‏

یعنی اے اللہ کی گواہی دینے والے گواہ رہو کہ میں یقینا پیغمبر خدا(ص) احمد کے دین پر ہوں۔ اگر کوئی دین میں گمراہ ہے تو میں ہدایت یافتہ ہوں۔

حضرات ! خدا کے لیے انصاف کیجئے، کیا ایسے اشعار کہنے والے کو کافر کہا جاسکتا ہے جو صاف صاف اقرار کر رہا ہے کہمیں محمد صلعم کےدین پر ہوں اور ایسے برحق پیغمبر(ص) کی نصرت کرتا ہوں جس کے یہاں باطل کی کوئی گنجائش ہی نہیں؟

شیخ : یہ اشعار دو وجہوں سے قابل قبول و استدلال نہیں ہیں۔ اول یہ کہ ان میں کوئی تواتر نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی مقام پر یہ نہیں دیکھا گیا کہ ابوطالب نے اسلام و ایمان کا اقرار اور شہادتیں کا اعتراف کیا ہو، لہذا چند شعر نقل کردینے سے ان پر اسلام کا حکم جاری نہیں کیا جاسکتا۔

خیر طلب: تواتر کے بارے میں آپ کا ایراد عجیب ہے، جہاں آپ کا دل چاہتا ہے وہاں تو خبر واحد کو حجت سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں لیکن جہاں آپ کے مرضی کے خلاف ہو وہان فورا عدم تواتر کا حربہ استعمال کرنے لگتے ہیں۔

اگر آپ حضرات تھوڑا سا غور کر لیں تو بخوبی سمجھ میں آجائے کہ یہ اشعار اگرفردا فردا متواتر نہ ہوں تب بھی یہ سب مجموعی طور پر اس ایک امر پر متواتر حیثیت سے دلالت کرتے ہیں کہ جناب ابوطالب با ایمان اورخاتم الانبیاء(ص) کی نبوت و رسالت کے معتقد تھے، اکثر امور ایسے ہیں جن کا تواتر اسی طریقے سے معین ہوتا ہے۔ مثلا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی جنگیں اور غزوات میں آپ کی شجاعتیں اور حملے سبھی خبر واحد ہیں لیکن ان کے مجموعے سے معنوی تواتر پیدا ہوجاتا ہے جس سے حضرت کی بہادری کا

۱۷۶

ضروری علم حاصل ہوتا ہے۔ اور حاتم کی سخاوت یا نوشیروانکے عدل وغیرہ کی بھی یہی صورت ہے۔

علاوہ اس کے آپ جو تواتر کے اس قدر دل دادہ ہیں، یہ فرمائیے کہ گڑھی ہوئی حدیث ضحضاح کا تواتر کہاں سے ثابت کیجئے گا۔

آخری وقت ابوطالب(ع) کا اقرار وحدانیت

رہا آپ کا دوسرا اشکال تو اس کا جواب بالکل ظاہر ہے ، اس لیے کہ توحید ونبوت کا اقرار اور مبدائ و معاد کا اعتراف ضروری نہیں ہے کہ نثر ہی میں ہو، مثلا کہے:

"اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد رسول الله " بلکہ اگر کوئی غیر شخص ایسے شعر کہے جو وحدانیت خدا اور رسالت خاتم الانبیاء(ص) کے اقرار و اعتراف کے قائم مقام ہوں تو قطعا کافی ہے۔ پس جس وقت جناب ابوطالب نے فرمایا:

ياشاهدالله‏علي فاشهدانی علی دين النبی أحمد

تو اس کا بھی وہی حکم ہوگا جو نثر میں اقرار کرنےکا ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ موت کے وقت نثر میں بھی اقرار کیا ہے۔ چنانچہ سید محمد رسولی بزنجی ، حافظ ابونعیم اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ ابوجہل اور عبداللہ ابن ابی امیہ وغیرہ سرداران قریش کی ایک جماعت مرض الموت میں جناب ابوطالب کی عیادت کے لیے گئی، اس موقع پر رسول اللہ (ص) نے اپنے چچا ابوطالب(ع) سے فرمایا کہ کہئیے"لا اله الا الله" تاکہ میں خدائے تعالی کے سامنے اس پر گواہی دوں !فورا ابوجہل اور ابن ابی امیہ نے کہا، اے ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کی ملت سے پلٹ جائو گے؟ اور بار بار ان الفاظ کو دہرایا، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا تم لوگ جان لو کہ ابوطالب عبدالمطلب ہی کی ملت پر ہے، چنانچہ وہ لوگ خوش خوش چلے گئے،ادھر ان جناب پر موت کے آثار طاری ہوئے تو ان کے بھائی عباس نے ( جو سرہانے بیٹھے ہوئے تھے) دیکھا کہ آپ کے ہونٹ جنبش کر رہے ہیں ، کان قریب لے گئے تو سنا کہ کہہ رہے ہیں"لا اله الا الله" عباس نے رسول اللہ(ص) کی طرف رخ کر کے عرض کیا کہ اے بھتیجے" والله لقد قال اخی الکلمة التی امرته بها" خدا کی قسم میرے بھائی (ا بوطالب) نے وہی بات کہی ہے جس کا تم نے حکم دیا تھا۔ لیکن چونکہ اس و قت تک عباس اسلام نہیں لائے تھے۔ لہذا کلمہ شہادت کو خود اپنی زبان پر جاری نہیںکیا۔ انتہی۔

جب کہ ہم اس سے قبل ثابت کرچکے ہیں کہ پیغمبر(ص) کےآبائو اجداد کے سب موحد ومومن تھے تو آپ کو سمجھ لینا چاہئیے کہ ابوطالب نے مصلحتا یہ جملہ فرمایا تھا کہ میں عبدالمطلب کی ملت پر ہوں، کیونکہ بظاہر تو ان لوگوں کو خوش اور مطمئن کردیا لیکن بباطن توحید کا اقرار بھی کیا، اس لیے کہ جناب عبدالمطلب ملت ابراہیم پر اور موحد تھے، مزید برآں یہ کہ صریحی طور پر کلمہ طیبہ"لا اله الا الله" بھی زبان پر جاری کیا۔ اگر آپ حضرات تھوڑی دیر کے لیے اپنی عادت سے ہٹ کے جناب ابوطالب کے تاریخی

۱۷۷

حالات کا اںصاف سے مطالعہ کر لیں تو بے ساختہ ان کے ایمان کی تصدیق کریں گے۔

ابتدائے بعثت میں ابوطالب(ع) سے پیغمبر(ص)کی گفتگو

اگر جناب ابوطالب کافر و مشرک اور بت پرست تھے تو پہلے ہی روز جب پیغمبر(ص) مبعوث برسالت ہوئے اور اپنے چچا عباس کے ہمراہ ابوطالب کے پاس جاکر فرمایا:

"ان الله قد امرنی باظهار امری وقد انبائی و استنبانی فما عندک يا عم"

یعنی بہ تحقیق اللہ نے مجھ کو اپنا امر ظاہر کرنے کاحکم دیا ہے اور قطعی طور پر مجھ کو اپنا نبی بنایا ہے پس آپ میرے ساتھ کیا سلوک کریںگے؟

تو قریش کے سردار ، بنی ہاشم کے رئیس اہل مکہ کے نزدیک مقبول القول اور پیغمبر(ص) کے کفیل زندگی ہونے کے بعد یہ دیکھتے ہوئے کہ آں حضرت(ص) ہمارے دین کے خلاف ایک نیا دین پیش کررہے ہیں قاعدے کے موافق اور اس تعصب کے پیش نظر جو اہل عرب اپنے دین میں رکھتے تھے )چاہئیے تو یہ تھا کہ فورا مخالفت پر آمادہ ہوجاتےاور آن حضرت(ص) کو سختی کے ساتھ اس اقدام سے روکنے کی کوشش کرتے اور اگر اس طرح کام نہ چلتا تو چونکہ ان کے عقیدے کے برخلاف نبوت کا دعوی کر کے مدد مانگنے آئے تھے۔ از آں حضرت(ص) کو نظر بند کردیتے یا کم از کم اپنے پاس سے نکال ہی دیتے اور نصرت و حمایت کا وعدہنہ کرتے تاکہ اس عظیم ارادے سے باز رہیں، جس سے اپنا مذہب بھی محفوظ رہے اور اپنے ہم مشرب لوگ ممنوں احسان بھی ہوجائیں۔ جس طرح آزر نے اپنے بھتیجے حضرت ابراہیم(ع) کو جھڑکا اور دھتکارا تھا۔

بعثت ابراہیم(ع) اور آزر سے آپ کی گفتگو

چنانچہ سورہ نمبر19 (مریم) کی آیت نمبر44 میں خدائے تعالی حضرت ابراہیم(ع) کی بعثت کا تذکرہ فرماتا ہے کہ جب آپ رسالت پر مبعوث ہوئے تو اپنے چچا آزر کے پاس گئے اور کہا :

"إِنِّي‏ قَدْ جاءَنِي‏ مِنَ الْعِلْمِ ما لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِراطاً سَوِيًّا. قالأَ راغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يا إِبْراهِيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَ اهْجُرْنِي مَلِيًّا"

یعنی یقینا میرے پاس ( وحی کے ذریعہ ) وہ علم آیا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا، پس تم میری پیروی کرو تاکہ تم کو راہ راست کی ہدایت کروں آزر نے جواب میں کہا، کیا تم میرے خدائوں سے منحرف ہوگئے ہو؟ اگر تم اپنے عقیدے سے دست بردار نہ ہوگے تو میں تم کو سنگ سار کردوں گا، اور تم میرے پاس سے عرضہ دراز کے لیے دور ہوجائو۔

لیکن اس کے برعکس جب حضرت خاتم الانبیاء(ص) نے جناب ابوطالب سے اعانت طلب کی تو آپ نے کہا:

۱۷۸

" اخْرُجْ يَا ابْنَ أَخِي فَإِنَّكَ الْمَنِيعُ كَعْباً وَ الْمَنِيعُ حِزْباً وَ الْأَعْلَى أَباً وَ اللَّهِ لَا يَسْلُقُكَ‏ لِسَانٌ‏ إِلَّا سَلَقَتْهُ أَلْسُنٌ حِدَادٌ وَ اجْتَذَبَتْهُ سُيُوفٌ حِدَادٌ وَ اللَّهِ لَتُذَلَّلَنَّ لَكَ الْعَرَبُ ذُلَّ الْبُهَمِ لِحَاضِنِهَا "

یعنی اےمیرے بھتیجے خروج کرو کیوںکہ تم یقینا مرتبے میں بلند قبیلے اور گروہ کے لحاظ سے مضبوط اور نسل کے اعتبار سے سب سے بزرگ و برتر ہو۔ قسم خدا کی جو زبان تم کو سخت وسست کہے گی میں تیز و تند زبانوںاور تیز دھار والی تلواروں سے اس کا جواب دوں گا۔ قسم خدا کی سارا عرب تمہارے سامنے اس طرح گھٹنے ٹیک دے گا۔ جس طرح جانور اپنے مالک کے آگے ذلیل رہتے ہیں۔

اس کے بعد مندرجہ ذیل اشعار سے جن کو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص306 (مطبوعہ مصر) میں اور سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص5 میں درج کیا ہے۔ پیغمبر(ص) کو خطاب کیا۔

وَاللَّهِ‏لَنْ‏يَصِلُواإِلَيْكَ بِجَمْعِهِمْ‏حَتَّى أُوَسَّدَ فِي التُّرَابِ دَفِيناً

فَاصْدَعْ بِأَمْرِكَ مَا عَلَيْكَ غَضَاضَةٌوَ انْشُرْ بِذَاكَ وَ قَرَّ مِنْكَ عُيُوناً

وَ دَعَوْتَنِي وَ زَعَمْتَ أَنَّكَ نَاصِحٌ‏فَلَقَدْ صَدَقْتَ وَ كُنْتَ قَبْلُ أَمِيناً

وَ عَرَضْتَ دِيناً قَدْ عَرَفْتُ بِأَنَّهُ‏مِنْ خَيْرِ أَدْيَانِ الْبَرِيَّةِ دِيناً

لَوْ لَا الْمَخَافَةُ أَنْ يَكُونَ مَعَرَّةٌلَوَجَدْتَنِي سَمِحاً بِذَاكَ مُبِيناً

یعنی قسم خدا کی وہ وگ اپنی جماعت کے ساتھ تم تک نہیں پہنچ سکتے، یہاں تک کہ میں ان کو قبروں کے اندر سلادوں۔ پس تم بیخوف ہوکر اپنا فرض اداکرو میں تم کو کامیابی کی خوشخبری دیتا ہوں ، تم اس کے ذریعے آنکھوں میں خنکی پیدا کرو۔ تم نے مجھ کو اپنے دین کی طرف دعوت دی اور میں یقین کرتا ہوں کہ تم نےمجھ کو صحیح راستےکی ہدایت کی، تم یقینا سچے اور ہمیشہ سےامانت دار ہو۔ تم نے ایسا دین پیش کیا ہے جس کے لیے مجھ کو معلوم ہے کہ دنیا کے تمام ادیان سے بہتر ہے۔ اگر مجھ کو ملامت اور بدگوئی کا خوف نہ ہوتا تو تم مجھ کو باعلان اس کا ہمنوا پاتے۔

خلاصہ یہ کہ پیغمبر(ص) سے ناراض ہونے اور آں حضرت(ص) کو اس ارادے سے باز رکھنے یا قتل و اسیری اور گھر سے نکال دینے کی دھمکی دینے کے عوض اس قسم کے ہمت بڑھانے والے اشعار اور ہمدردانہ گفتگو سے آپ کی حوصلہ افزائی اور ترغیب کی کہ کھلم کھلا اپنا فرض ادا کرو تمہارے لیے کسی ذلت و رسوائی یا نقصان کا خوف نہیں ہے۔ تم اپنے عقیدے کا اعلان کرو تاکہ اس سے لوگوں کی آںکھیں روشن ہوں۔ تم نے مجھ کو دعوت دی ہے اور میں بھی جانتا ہوں کہ تم ہادی برحق اور سچے ہو، اور جس طرح پہلےسے امانتدار ہو اس دعوی میں بھی صادق ہو۔ میں نے اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے کہ در حقیقت یہ دین سارے ادیان عالم سے بہتر ہے۔

جس قدر میں نے پیش کیا ہے اس کے علاوہ ایسے اشعار بہت ہیں جن کو اس موضوع پر ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد سوم میں، نیز دوسرے علماء نے نقل کیا ہے لیکن ان سب کو پیش کرنے کا وقت نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ نمونے کے لیے

۱۷۹

اسی قدر کافی ہوگا۔

اب آپ حضرات خدا کو حاضر و ناظر جان کر انصاف سے بتائیے کہ ایسے جملے اور اشعار کہنے والے کو مشرک اور کافر کہا جائے گا یا مومن وموحد اور سچا خدا پرست مانا جائے گا؟چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی اس حقیقت کی بے ساختہ تصدیق کی ہے۔

ینابیع المودت شیخ سلیمان بلخی باب52 کو ملاحظہ فرمائیے جس میں ابوعثمان عمرو بن بحر جاحظ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے جناب ابوطالب کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے:

" و حامي‏ النّبي‏ و معينه و محبه أشدّ حبّا و كفيله و مربيه و المقر بنبوته و المعترف برسالته و المنشد في مناقبه أبياتا كثيرة، و شيخ قريش أبو طالب"

یعنی ابوطالب پیغمبر(ص) کے حامی، مددگار، انتہائی چاہنے والے، کفیل زندگی، مربی، آں حضرت(ص) کی نبوت کا اقرار کرنے والے، رسالت کے معترف، آں حضرت(ص) کی مدح وثنا میں کثرت سے اشعار کہنے والےاور قریش کے رئیس و بزرگ تھے۔

تھوڑے سے غور وتامل کے بعد ہر منصف مزاج عقلمند اور غیر جانب دار انسان جناب ابوطالب کے ایمان کی گواہی دیگا۔ البتہ جوبنی امیہ اپنے خلیفہ معاویہ کے حسب الحکم اسی سال تک سید الموحدین حضرت امیرالمومنین (ع) اور پیغمبر(ص) کے دونوں جان سے زیادہ عزیز نواسوں حسن و حسین علیہم السلام پر لعنت اور سب وشتم کے لیے لوگوں کو آمادہ کرتے رہے اور حضرت کافر اٹھے اور اہل جہنم سے ہیں تاکہ جس طرح ہر پہلو سے امیرالمومنین(ع) کے قلب کو اذیتیں پہنچائیں اسی طرح اس رخ سے بھی حضرت کو رنج و تکلیف میں مبتلا کریں۔ چنانچہ اس جعلی حدیث کا راوی بھی میرہ بن شعبہ ملعون ہے جو حضرت علی علیہ السلام کا دشمن اور معاویہ کا جگری دوست تھا۔ ورنہ جناب ابوطالب کا ایمان فریقین کے صاحبان عقل کے نزدیک اظہر من الشمس ہے، اور صرف خوارج و نواصب اور ان دونوں گمراہ فرقوں کے بچے کچے افراد ہی اب تک ہر دور اور ہر زمانے میں جناب ابوطالب کے کفر کا عقیدہ پھیلاتے اور اس پر زور دیتے رہے جس کو بے خبر اور سادہ لوح لوگوں نے بر بنائے عادت صحیح سمجھ لیا سب سے زیادہ تعجب خیز اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ ابوسفیان ، معاویہ اور یزید لعنت اللہ علیہم کوتو مومن و مسلمان بلکہ خلیفہ رسول سمجھ لیا حالانکہ ان کے کفر پر بیشمار واضح دلائل موجود ہیں لیکن جناب ابوطالب کو آپ کے ایمان پرایسی کھلی ہوئی دلیلوں کے باوجود کافر ومشرک کہتے ہیں۔

شیخ : آیا یہ مناسب ہے کہ آپ خال المومنین معاویہ بن ابی سفیان کو کافر کہیں اور ہمیشہ ان پر لعنت کریں آخر معاویہ ابن ابی سفیان و یزید رضی اللہ عنہما کے کفر و لعن پر آپ کے پاس دلیل کیا ہے جبکہ یہ دونوں ہر بزرگ خلفاء میں سے ہیں اور بالخصوص معاویہ رضی اللہ عنہ تو خال المومنین اور کاتب وحی بھی تھے؟

خیر طلب: پہلے آپ یہ فرمائیے کہ معاویہ خال مومنین کس صورت سے ہیں؟

شیخ :ظاہر ہے کہ معاویہ کہ بہن ام حبیبہ چونکہ رسول اللہ(ص) کی زوجہ اور ام المومنین تھیں لہذا قطعا ان کے بھائی معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خال المومنین ہوئے۔

۱۸۰