پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316806 / ڈاؤنلوڈ: 7969
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

خیر طلب : یہ فرمائیے کہ ام المومنین عائشہ کا مرتبہ زیادہ بلند تھا یا ام حبیبہ خواہر معاویہ کا؟

شیخ : اگرچہ دونوں ام المومنین تھیں لیکن عائشہ کا مقام و مرتبہ یقینا سب سے بالاتر تھا۔

محمد ابن ابی بکر علی(ع) کے پیرو تھے اس لیے خال المومنین نہیں کہلائے

خیر طلب : آپ کے اس قاعدے سے تو ازواج رسول(ص) کےسبھی بھائی خال المومنین ہیں۔ پھر آپ محمد بن ابی بکر کو خال المومنین کیوں نہیں کہتے ؟ حالانکہ آپ کے نزدیک ان کے باپ معاویہ کے باپ سے بالاتر اور ان کی بہن بھی معاویہ کی بہن سے جلیل القدر ہیں معلوم ہوا کہ معاویہ کا خال المومنین ہونا کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور اس میں ان کے لیے کوئی شرف بھی نہیں ہےورنہ صفیہ زوجہ رسول(ص) کے باپ حی ابن اخطب یہودی کو بھی صاحب شرف ہونا چاہیے۔

آپ قطعی طور پر سمجھ لیجئے کہ ام المومنین اور خال المومنین ہونے کا کوئی لحاظ نہیں ہے بلکہ در حقیقت خاندان رسول(ص) اور عترت و اہل بیت رسالت(ع) کی ضد اور مخالفت مںظور ہے۔ چونکہ معاویہ نے عترت رسول(ص) سے جنگ کی، امام الموحدین حضرت امیرالمومنین(ع) اور پیغمبر(ص) کے دونوں نواسوں یعنی سرداران جوانان اہل جنت حسن و حسین علیہم السلام پر لعنت اور سبوشتم کرنے کا حکم دیا۔ اور فرزند رسول(ص) امام حسن مجتبی(ع) نیز دوسرے پاکباز صحابہ اور شیعوں کا قتل عام کیا لہذا خال المومنین ہوگئے( چنانچہ ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبین میں، ابن عبدالبر نے استیعاب میں، مسعودی نے اثبات الوصیہ میں اور دوسرے علماء نے نقلکیا ہے کہ اسماء جعدہ نے معاویہ کے حکم اور وعدے پر حضرت ابو محمد حسن ابن علی علیہما السلام کو زہر دیا۔ یہاں تک کہ ابن عبد البر اور محمد بن جریر طبری نے لکھا ہےکہجس وقت ان بزرگوار کی خبر وفات معاویہ کو ملی تو انہوں نےتکبیر کہی اور ان کے سارے حاشیہ نشینوں نے بھی جوش مسرت میں تکبیر کہی) یقینا ایسے ہی ملعون کو آپ کے نزدیک خال المومنین ہونا چاہئیے۔

لیکن جناب محمد ابن ابوبکر چونکہ حضرت امیرالمومنین (ع) کے پروردہ اور اہلبیت طاہرین (ع) کے مخلص شیعوں میں سے تھے جیسا کہ اس جلیل القدر خاندان سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

يابني‏الزهراءأنتم عدتي‏و بكم في الحشر ميزاني رجح‏

و إذا صح ولائي فيكم‏لا ابالي أي كلب قد نبح‏

یعنی اے اولاد فاطمہ(ع) میرے لیے جائے پناہ اور سرپرست ہو اور تمہارے ہی وسیلے سے قیامت کے روز میرے میزان عمل کا پلہ بھاری ہوگا۔ جب میری محبت تمہارے لیے خالص ہوگئی تو میں اس کی پروا نہیں کرتا کہ کوئی میرے گرد بھونکتا رہے۔

لہذا باوجودیکہ خلیفہ اول ابوبکر کے فرزند اور ام المومنین عائشہ کے بھائی تھے پھر بھی خال المومنین نہ کہے جائیں بلکہ ان پر سب ، لعن کی جائے اور باپ کی وراثت سے بھی محروم کردیئے جائیں؟

۱۸۱

یہاں تک کہ جس وقت عمرو بن عاص اور معاویہ بن خدیج نے مصر کو فتح کیا تو جناب محمد ابن ابوبکر پر پانی بندکردیا اور سخت پیاس کے عالم میں ان کو قتل کیا، پھر ایک مرے ہوئے گدھےکے پیٹ میں رکھ کے آگ سے جلا دیا۔ جب معاویہ کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے انتہائی مسرت اور شادمانی کا اظہار کیا۔

آپ ان واقعات کو سن کر تو قطعی متاثر نہیں ہوتے کہ ان ملاعین نے خلیفہ ابوبکر کے بیٹے خال المومنین جناب محمد کے ساتھ کیوں ایسا سلوک کیا اور ان کو اس ذلت و خواری کے ساتھ کیوں شہید کیا۔ لیکن معاویہ پر لعن کی جائے تو ناراض ہوجاتے ہیں، کہ خال المومنین کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا؟

پس آپ کو تصدیق کرنا چاہیئے کہ جنگ در اصل عترت رسول(ص) سے تھی اور ہے۔

محمد ابن ابی بکر چونکہ اہل بیت(ع) کے دوستوں میں سے تھے لہذا نہ آپ ان کو خال المومنین کہتے ہیں نہ ان کے قتل سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور معاویہ چونکہ عترت و اہل بیت رسول(ص) کے پکے دشمن تھے اور ان حضرات پر علانیہ لعنت کرتے تھے لہذا ان کو خال المومنین بھی کہتے ہیں اور ان کی طرف داری بھی کرتے ہیں۔ خدا کی پناہ اس تعصب وعناد اور ہٹ دھرمی سے۔

معاویہ وحی کے نہیں بلکہ خطوط کے کاتب تھے

دوسرے معاویہ کاتب وحی بھی نہیں تھے کیوں کہ یہ ہجرت کے دسویں سال اسلام لائے ہیں جب کہ وحی کے سلسلے میں کوئی چیز باقی ہی نہیں رہ گئی تھی، بلکہ کاتب مراسلات تھے۔ چونکہانہوں نے رسول اللہ(ص) کو بہت اذیتیں پہنچائی تھیں اور آں حضرت(ص) کی بدگوئیاں کی تھیں ، نیز سنہ۸ ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر جب ابوسفیان نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے اپنے باپکو بہت سے خطوط لکھے تھے جن میں تو بیخ و سرزنش کی تھی کہ تم کیوں مسلمان ہوئے؟ لہذا جس وقت جزیرہ عرب میں اور اس سے باہر اسلام کی عام اشاعت کے اثر سے خود بھی مسلمان ہونے پر مجبور ہوئے تو مسلمانوں کے درمیان ان کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ پیغمبر(ص) کے چچا جناب عباس نے آں حضرت(ص) سے درخواست کی کیا معاویہ کو کبھی امتیاز دے نہ دیجئے تاکہ سب کی اور خجالت سے نجات پاجائے آں حضرت(ص) نے اپنے چچا کی رعایت سے ان کو مراسلات کا کاتب مقرر کردیا۔ چنانچہ مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ "ان معاوية يکتب بين يدی النی صلی الله عليه و آله "( یعنی معاویہ پیغمبر(ص) کے سامنے کتابت کرتے تھے اور مدائنی کہتے ہیں:

" كان‏ زيد بن‏ ثابت‏ يكتب الوحي، و كان معاوية يكتب للنبي صلّى اللّه عليه و آله فيما بينه و بين العرب"

یعنی زید بن ثابت وحی لکھتے تھے اور معاویہ آں حضرت(ص) اور عرب کے درمیان خط کتابت کا کام کرتے تھے۔

۱۸۲

معاویہ کے کفر و لعن پر دلائل

تیسرے ان کے کفر اور ان پر لعنت کے ثبوت میں آیات و اخبار اور ان لوگوں کے حرکات سے بکثرت دلیلیں قائم ہیں۔

شیخ : اخبار و آیات کے دلائل سننے کے قابل ہیں۔ التماس ہے کہ انکوبیان کیجئے تاکہ یہ معمہ حل ہو۔

خیر طلب: آپ تعجب نہ کریں، اس میں کوئی معما نہیں ہے بلکہ اتنی کثرت سے دلیلیں موجود ہیں کہ اگر سب کو نقل کروں تو ایک مستقل کتاب بن جائے لیکن یہاں وقت کے لحاظ سے بعض کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔

معاویہ و یزید کی لعن پر آیات و اخبار کی دلالت

۱۔ سورہ نمبر۱۷( بنیاسرائیل) آیت نمبر۶۲ میں ارشاد ہے :

"وَ ما جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْناكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ وَ نُخَوِّفُهُمْ فَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْياناً كَبِيراً"

آپ کے علمائے مفسرین جیسے امام ثعلبی اور امام فخرالدین رازی وغیرہ نے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) نے عالم خواب میں دیکھا کہ بنی امیہ بندروں کے مانند آں حضرت(ص) کے منبر پر چڑھ اتر رہے ہیں اس کے بعد جبرئیل یہ آیت لائے کہ جو کچھ ہم نے تم کو خواب میں دکھایا ہے وہ لوگوںکے لیے فتنہ اور امتحان ہے اور وہ درخت ہے جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے( یعنی شجرہ نسل بنی امیہ) اور ہم ان کو ان آیات عظیم کے ذریعے خدا سے ڈراتے ہیں لیکن اس سے ان کے سوائے کفر اور سخت سرکشی کے اور کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔ پس جب خدائے تعالی نے نسل بنی امیہ کو جن کے راس و رئیس ابوسفیان اور معاویہ تھے قرآن میں شجرہ ملعونہ یعنی لعنت کیا ہوا درخت فرمایا ہے تو معاویہ بھی جو اسی درخت کی ایک مضبوط شاخ ہیںقطعا ملعون ہوئے۔

۲۔ سورہ نمبر۴۷(محمد) آیت نمبر۳۲، ۳۲ میں فرماتا ہے:

"فَهَلْ‏ عَسَيْتُمْ‏ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ‏ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَ تُقَطِّعُوا أَرْحامَكُمْ‏ أُولئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَ أَعْمى‏ أَبْصارَهُمْ‏"

یعنی اے منافقین کیا عنقریب اگر تم حاکم بن جائو تو زمین میں فساد برپا کروگے اور اپنے قرابت کے رشتہ قطع کروگے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے پس (گویا) انکے کانوں کو بہرا اورآنکھوں کو اندھا بنادیا ہے۔

اس آیت میں زمین پر فساد پھیلانے والوں اور قطع رحم کرنے والوں پر کھلی ہوئی لعنت کی گئی ہے اور معاویہ سے زیادہ مفسد کون ہوگا جن کا فساد ان کے دور خلافت میں ز بان زد خاص و عام تھا۔ ان کے علاوہ قاطع ارحام بھی تھے جو ان پر ثبوت لعن کے

۱۸۳

لیے خود ایک دوسری دلیل ہے۔

۳۔ سورہ نمبر۳۳ ( احزاب) آیت نمبر۵۷ میں ارشاد فرمایا ہے:

" إِنَّ الَّذِينَ‏ يُؤْذُونَ‏ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذاباً مُهِيناً."

یعنی جو لوگ خدا و رسول(ص) کو اذیت پہنچاتے ہیں یقینا اللہ نے ان پر دنیا و آخرت میں کمی کی ہے اور ان کے لیے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

بدیہی چیز ہے ک امیرالمومنین (ع) اور دونوں ریحانہ رسول حسنو حسین علیہم السلام نیز عمار یاسر وغیرہ کے ایسے رسول اللہ(ص) کے خاص صحابہ کو رنج و اذیت پہنچانا در اصل آن حضرت(ص) کو رنج اذیت پہنچانا ہے اور معاویہ نے چونکہ ان مقدس ہستیوں کو رنج و آزار پہنچایا ہے لہذا بصراحت آیت دنیا وآخرت میں ملعون ہوئے۔

۴۔ سورہ نمبر۴۰( مومن) آیت نمبر۵۵ میں فرمایا ہے:

"يَوْمَ‏ لا يَنْفَعُ‏ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوءُ الدَّارِ"

یعنی اس روز ظالمون کو ان کی معذرت اور پشیمانی کوئی فائدہ نہ دے گی، ان کے لیے لعنت اور بری قیام گاہ موجود ہے۔

۵۔ سورہ نمبر۱۱ (ہود) آیت نمبر۲۱ میں ارشاد ہے:

"أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ‏"( یعنی جان لو کہ ظالمون پر خدا کی لعنت ہے۔)

۶۔ سورہ نمبر۷( اعراف) آیت نمبر۴۲ میں ارشاد ہے:

" فَأَذَّنَ‏ مُؤَذِّنٌ‏ بَيْنَهُمْ- أَنْ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ"( یعنی ان کے درمیان ایک منادی نے ندا کی کہ ظالمون پر خدا کی لعنت ہو)

اور اسی طرح کی دوسری آیتوں میں بھی جو ظالمین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ ہر ظالم ملعون ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی اپنا یا غیر معاویہ کے کھلے ہوئے مظالم سے انکار کرے گا۔ پس اسی دلیل سے کہ وہ ظالم تھے لعنت خداوندی کے مستحق قرار پائے اور ایسے صریحی نصوص کی موجودگی میں ہم بھی اس شخص پر لعن کرسکتے ہیں جو خدا کے نزدیک ملعون ہو۔

۷۔ سورہ نمبر۴ ( نساء) آیت نمبر۹۵ میں فرمایا ہے:

"وَ مَنْ‏ يَقْتُلْ‏ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فِيها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظِيماً"

یعنی جو شخص کسی مومن کو عمدا قتل کردے تو اس کا عوض جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ معذب رہے گا۔ خدا اس پر غضب ناک ہے اور اس پر لعنت کرتا ہے اور اس کے لیے زبردست عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

معاویہ کے حکم سے خاص خاص مومنین کا قتل

یہ آیہ شریفہ واضح کررہی ہے کہ جو شخص کسی ایک مومن کو بھی عمدا قتل کردے وہ خدا کا ملعون ہے اور اس کی قیام گاہ جہنم ہے اب آپ حضرات انصاف سے بتائیے کہ آیا معاویہ عام اور خاص مومنین کے قتل میں شریک نہیں تھے؟ آیا حجر ابن عدی اور ان کے سات اصحاب کو انہوں نے اپنے حکم سے عمدا قتل نہیں کرایا؟ اور خصوصیت کے ساتھ کہا عبدالرحمن ابن حسان غزمی کو زندہ درگور نہیں کرایا؟ چنانچہ ابن عساکر اور یعقوب بن سفیان نے اپنیتاریخوں میں، بیہقی نے دلائل میں، ابن عبدالبر نے

۱۸۴

استیعاب میں اور ابن اثیر نے کامل میں نقل کیا ہے کہ حجر ابن عدی کبار وبزرگان صحابہ میں سے تھے جن کو معاویہ نے مع ان کے سات آدمیوں کے بہت سختی کے ساتھ محض اس خطا پر قتل کرایا کہ انہوں نے علی علیہ السلام پر لعن اور آپ سے تبرا کیوں نہیں کیا۔ آیا امام حسن ابن علی ابن ابی طالب علیہما السلام رسول اللہ(ص) کے بڑے نواسے ، اصحاب کساء کی ایک فرد، جوانان اہل جنت کے دو سرداروں میں سے ایک اور اکابر مومنین میں سے نہیں تھے جن ک لیے برابر روایت مسعودی و ابن عبدالبر و ابوالفرج اصفہانی وطبقات محمد بن سعد وتذکرۃ سبط ابنجوزی وغیرہ اکابر علمائے اہل سنت ، معاویہ نے اسماء جعدہ کے پاس ایک زہر بھیجا اور وعدہ کیا کہ اگر تم حسن بن علی(ع) کو مار ڈالو گی تو تم کو ایک لاکھ درہم دوں گااور اپنے بیٹے یزید کے ساتھ عقد کروں گا؟ ( چنانچہ شہادت امام حسن علیہ السلام کے بعد ایک لاکھ درہم تو دے دئیے لیکن یزید کے ساتھ نکاح کرنے سے انکار کردیا) آیا قتل مومن کے علاوہ رسول اللہ(ص) کے پارہ جگر حضرت امام حسن علیہ السلام کو شہید کرنے سے آں حضرت(ص) کو اذیت نہیں پہنچی؟ اور مذکورہ بالا دونوں آیتوں کے بعد بھی آپ کو ملعون ہونے میں تامل ہے؟ آیا صفین میں رسول خدا(ص) کے بزرگ صحابی عمار یاسر کی شہادت معاویہ کے حکم سے نہیں ہوئی ؟ اور کیا باتفاق اکابر علمائے اہل سنت رسول اللہ(ص) نے عمار یاسر سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ "ستقتلک الفئة الباغية "( یعنی عنقریب تم کو ایک باغی اور گمراہ گروہ قتل کرے گا؟

آیا آپ کو اس میں کوئی شک ہے کہ معاویہ کے حکم اور عمال معاویہ کے ہاتھوں سے اتنے بزرگان مومنین قتل ہوئے کہ انکی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے؟ آیا مومن پاک نفس اور بہت بڑے مرد مجاہد مالک اشتر کو معاویہ کے حکم سے زہر نہیں دیا گیا؟ آیا معاویہ کے خاص کارندے عمرو بن عاص اور معاویہ بن خدیج نے مصر میں امیرالمومنین (ع) کے گورنر اور صالح و کامل مومن محمد ابن ابوبکر کو ظلم سے شہید نہیں کیا، یہاں تک کہ بعد کو مردہ گدھے کے پیٹ میں رکھ کے آگے سے جلایا بھی؟ اگر میں چاہوں کہ جس قدر مومنین کو معاویہ اور ان کے عمال نے قتل کرایا ہے سب کی تفصیل بیان کروں تو ایک رات نہیں بلکہ کئی راتیں درکار ہوں گی۔

معاویہ کے حکم سے بسر بن ارطاۃکے ہاتھوں تیس(۳۰) ہزار مومنین کا قتل

ان کا ایک بدترین عمل مومنین اور شیعیان علی کا وہ قتل عام ہے جو معاویہ کے حکم سے خونخوار وسفاک بسر ابن ارطاۃ نے کیا۔ چنانچہ ابوالفرج اصفہانی و علامہ سمہوددی نے تاریخ المدینہ میں، ابن خلکان ، ابن عساکر اورطبری نے اپنی تاریخوں میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں اورآپ کے دوسدرے اکابر علماء نے لکھا ہے کہ معاویہ نے بسر کو حکم دیا کہ اپنا لشکر لے کر مدینے اور مکے سے صنعاء اور یمن کی طرف دھاوا کرو اور ایس طرح کا حکم ضحاک بن قیس فہری وغیرہ کو بھی دیا جس کو الفرج نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ :

" فيقتلوا کل من وجده من شيعتة علی ابن ابی طالب و اصحابه ولا يکفوا ايديهم عن النساء والصبيان"

یعنی علی ابن ابی طالب(ع) کے اصحاب اور شیعوں میں سے جو بھی مل جائے قتل کردیا جائے ، یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں کو بھی نہ چھوڑا

۱۸۵

جائے۔ پس یہ لوگ اس شدید حکم کے ساتھ تین ہزار کاجراد و خونخوار لشکر کے کر روانہ ہوئے اور مدینہ ، صنعاء،یمن ، طائف اور نجران میں نیز راستے کے درمیان اس قدر مومنین و مسلمین حتی کہ عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کیا کہ ان کے اعمال سے تاریخ کے صفحات سیاہ ہوگئے افسوس کہ ان سارے انسانیت سوز حرکات کی تشریح پیش کرنے کا وقت نہیں لیکن مختصر نمونہ یہ ہے کہ جس وقت یمن میں پہنچے تو والی یمن عبیداللہ ابن عباس شہر سے باہر تھے، یہ ان کے گھر میں گھس گئے اور ان کے دو چھوٹے چھوٹے بچوں سلیمان اور دائود کو ماں کی گود میں ذبح کردیا۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۱۲۱ سطر اول میں لکھتے ہیں کہ اس فوج کشی میںجولوگ آگ سے جلا دیئے گئے ان کے علاوہ تیس ہزار افراد قتل کئے گئے۔

آیا آپ حضرات کو اب بھی اس حقیقت میں کوئی شک وشبہ ہے کہ معاویہ پر آیات قرآنی کے حکم سے دنیا وآخرت میں خدا و رسول(ص) کی لعنت ہے؟

امیرالمومنین (ع) پر سب وشتم اور آپ کی مذمت میں حدیثیں گھڑنے کےلیے معاویہ کا حکم

معاویہ ک کفر اور قابل لعن ہونے کے ثبوت میں من جملہ دوسرے واضح دلائل کے امیرالمومنین(ع) پر سب وشتم اور لعنت کرنا نیز لوگوں کو نمازوں کے قنوت اور نماز جمعہ کے خطبے وغیرہ میں اس گناہ عظیم کا حکم دینا بھی ہے جس پر ہم آپ جہمور امت یہاں تک کہ غیر اقوام کے مورخین کو بھی اتفاق ہے کہ یہ عمل قبیح اور بدعت کھلم کھلا حتی کہ مبروں کے اوپر بھی رائج تھی اور ایک بڑی جماعت کو لعنت نہ کرنےکے جرم میں قتل کردیا گیا، بالآخر عمر ابن عبدالعزیز نے اپنی خلافت کے زمانے میں اس بدعت کو ختم کیا۔

قطعی چیز ہے کہ جو شخص امام الموحدین برادر رسول(ص) زوج بتول(ص) امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر آپ کی حیات میں یا بعد وفات سب وشتم اور لعن کرے یا اس کا حکم دے وہ ملعون اور کافر ہے اس لیے کہ آپ کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں جیسے امام احمد نے مسند میں، امام ابوعبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں، امام ثعلبی و امام فخرالدین رازی نے اپنی تفسیروں میں، ابن ابی الحدید ن شرح نہج البلاغہ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں، ابن صباغ مالکی ن فصول المہمہ میں، حاکم نے مستدرک میں، خطیب خوارزمی ن مناقب میں، ابراہیم حموینی ن فرائد میں، ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں، امام الحرم ن ذخائر العقبی میں اور ابن حجر نے صواعق میں، غرضیکہ آپ کے سبھی بڑے بڑے علماء نے مختلف الفاظ عبارات کے ساتھ مجمل اور مفصل طور سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا۔ "من سب عليا فقد سبنی ومن سبنی فقد سب الله " ( یعنی جس شخص نے علی(ع) کو سب وشتم کیا اس نے

۱۸۶

یقینا مجھ کو سب وشتم کیا اور جس نے مجھ کو سب وشتم کیا اس نے در حقیقت خدا کو سب وشتم کیا۔)

ان میں سے بعض نے ان اخبار کو نقل کر کے عمومیت دی ہے جو اس چیز پر دلالت کرتے ہیں کہ علی(ع) کو اذیت دینا اذیت دینے والے کے ملعون ہونے کا باعث ہے، مثلا دیلمی نے فردوس میں، سلیمان حنفی نے ینابیع المودت میں مختلف اسناد کے ساتھ نیز اوروںنے نقل کیا ہے اور جس کی طرف میں پچھلی شبوں میں ارشارہبھی کرچکا ہوں کہ فرمایا:

" من آذی عليا فقد آذانی و من اذانی فعليه لعنة الله"

یعنی جو شخص علی(ع) کو اذیت دے اس نے حقیقتا مجھ کو اذیت دی اور جو شخص مجھ کواذیت دے اس پر خدا کی لعنت ہو۔

یہاں تک کہ ابن حجر مکی نے صواعق میں اس سے بالاتر کل عتر و اہل بیت(ع) کے سب ولعن سے متعلق حدیث نقل کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا :

"من سب اهل بيتی فانما يرتد عن الله والاسلام و من اذانی فی عترتی فعليه لعنة الله"

یعنی جو شخص میرے اہل بیت کو سب وشتم کرے تو سوا اس کے نہیں ہے کہ وہ دین خدا اور اسلام سے مرتد ہوگیا اور جس نے میری عترت کے بارے میں مجھ کو ایذا دی پس اس پر خدا کی لعنت ہو۔

پس معاویہ کا ملعون ہونا ثابت ہے کیونکہ جب ابن اثیر نے کامل میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے وہ نماز کے قنوت میں حضرت امیرالمومنین(ع) اور پیغمبر(ص) کے دونوں نواسوں امام حسن و امام حسین علیہم السلام نیز ابن عباس اور مالک اشتر پر لعنتکیا کرتے تھے۔

اور امام احمد ابن حنبل نے مسند میں کئی سلسلوں سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"من اذی عليا بعث يوم القيمة يهوديا او نصرانيا"

یعنی جو شخص علی(ع) کو اذیت دے وہ قیامت کے روز یہودی یا نصرانی محشور ہوگا۔

یقینا خود بہتر جانتے ہیں کہ یہ چیز مقدس دین اسلام کے ضروریات میں سے ہے کہ خدا و رسول(ص) کو سب وشتم کرنا کفر اور نجاست کا باعث ہے اور ایسے آدمی کا قتل واجب ہے۔

اس قسم کے اخبار و احادیث کے حکم سے جوآپ کی معتبر کتابوں میں کثرت سے منقول ہیں اور پچھلی راتوں میں تفصیل سے بیان ہوچکے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا، علی علیہ السلام اور میری عترت و اہل بیت پر سب وشتم اور لعن و دشنام در اصل مجھ پر اور میرے پروردگار پر سب و لعن اور دشنام ہے" معاویہ کا ملعون اور کافر ہونا قطعا ثابت ہے۔

چنانچہ محمد ابن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب دہم میں اپنے اسناد سے نیز دوسروں نے ایک روایت نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبد اللہ ابنعباس اور سعید ابن جہمیر نے زمزم کے کنارے دیکھا کہ اہل شام کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی ہے اور علی علیہ السلام کو سب وشتم کررہی ہے انہوں نے قریب جا کر پوچھا "ايکم السباب لله عزوجل "( تم میں سے کون خدا تعالے کو گالیاں دے رہا تھا؟ ان لوگوں نےکہا ہم میں سے کسی یہ حرکت نہیں کی۔ انہوں نے پوچھا"ايکم السباب رسول لله صلی الله عليه و آله" تم میں سےکون رسول اللہ(ص) کو گالیاں دے رہا تھا؟ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم میں سے کسی نے بھی آں حضرت(ص)کو دشنام نہیں دی، تو انہوں نے فرمایا"ايکم السباب علی ابن ابی طالب" پھر تم میں سے کون شخص علی(ع) ابن ابی طالب کو گالیان دے رہا تھا؟ ان لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ علی(ع) کو دشنام دے رہے تھے انہوں نے کہا کہ تم

۱۸۷

لوگ رسول خدا(ص) پر گواہ رہو کہ میں نے آن حضرت(ص) سے خود سنا ہے کہ آپ نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے فرمایا

" من سبک فقد سبنی ومن سبنی فقدسب الله ومن سب الله اکبه الله علی فحزيه فی النار"

یعنی اے علی(ع) جو شخص تمکو دشنام دے اس نے مجھ کو دشنام دیا اور جس نے مجھ کو دشنام دیا اس نے خدا کو گالی دی اور جس نے خدا کو گالی دی خدا اس کومنہ کے بل آگ میں جھونک دے گا، کسی مسلم یا غیر مسلم عالمکو اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہےکہ یہ زبردست بدعت معاویہ کے حکم سے مسلمانوں میں اس طرح رائج ہوئی کہ جیسا عرض کیا گیا۔ اسی سال تک علانیہ اور بے دھڑک حتی کہ منبروں کے اوپر اور خطبوں کے اندر حضرت امیرالمومنین مظلوم پر لعنت اور دشنام طرازی کی جاتی تھی۔ اور چونکہ صحیح و معتبر احادیث کے مطابق علی علیہ السلام کو دشنام دینا خدا و رسول(ص) کو دشنام دینا ہے اور بدیہی بات ہے کہ خدا و رسول(ص) کوسب وشتم کرنے والا کافر اور ملعون ہے لہذا اسی دلیل سے معاویہ کا کفر واضح اور ان پر خدا کی لعنت ثابت ہے۔

علی(ع) کا دشمن کافر ہے

علاوہ ان دلائل کے آپ کے اکابر علماء کی معتبر کتابوں میں جیسے تفسیر جلال الدین سیوطی ، تفسیر امام ثعلبی، مودۃ القربی میر سید علی ہمدانی مسند امام احمد ابن حنبل، صواعق ابن حجر، مناقب خوارزمی، فضائل ابن مغازلی شافعی، نیابیع المودۃ سلیمان بلخی حنفی ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی، اوسط طبرانی، ذخائر العقبی امام الحرم، خصائص العلوی امام ابوعبدالرحمن نسائی، کفایت الطالب گنجی شافعی، مطالب السئول محمد بن شافعی،تذکرۃ خواص الامہ سبط ابن جوزی اور فصول المہمہ ابن صباغ مالکی وغیرہ میں کثرت کے ساتھ مختلف الفاظ و عبارات میں درج ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا "لا يحب عليا الا مومن ولا يبغضه الا کافر "( اور بعضروایتوں میں ہے الا منافق (یعنی دوست نہیں رکھتا علی کو سوا اس کے جو مومن ہو اور بغض نہیں رکھتا ان سے سوا اس شخص کے جو کافر ہو یا منافق ہو) جیسا کہ پچھلی شبوں میں مفصل عرض کرچکاہوں، بدیہی چیز ہے کہ حدیث میں کافر یا منافق دونوں میں سے جو لفظ بھی ہو اس بات کو پوری دلیل ہے کہ علی(ع) کا دشمن دوزخی ہے کیونکہ خدائے تعالی قرآن مجید میں صاف صافاعلان فرما رہا ہے کہ کفار و منافقین کا ٹھکانا طبقات جہنم ک اندر ہوگا۔

چنانچہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب آخر باب ۳ میں بسند نقل کیا ہے کہ محمد بن منصور طوسی نے کہا ہم امام احمد ابن حنبل کے پاس تھے کہ ایک شخص نے ان سےکہا اے ابو عبداللہ لوگ علی کرم اللہ وجہہ سے جو یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا " انا قسیم النار میں آتش جہنم کا تقسیم کرنے والا ہوں تو اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ احمد ابن حنبل نے کہا" کون ہے جو اس حدیث سے انکار کرے؟ کیا ہم نے رسول خدا(ص) سے روایت نہیں کی ہےکہ آپ نے علی(ع) سے فرمایا"لا يحبک الا مومن ولا يبغضک الا منافق" (یعنی تم کو دوست نہیں رکھتا ہے لیکن مومن اوردشمن نہیں رکھتا ہے۔ لیکن منافق؟ ہم نے کہا آپ کا کہنا درست ہے اس پر احمد بن حنبل نے مطلب کی توجیہ کی اور کہا، پس مومن کہاں ہے ہم نے کہا بہشت میں پھر انہوں نے کہا منافق کہاں ہے؟ ہم نے کہا جہنم میں، انہوں نے کہا پھر تو صحیح ہے کہ علی(ع) جہنم کے تقسیم کرنے والے ہیں۔

۱۸۸

( یعنی علی کا دشمن بارشاد پیغمبر(ص) منافق ہے اور منافق بحکم آیہ نمبر۱۴۴ سورہ نمبر۴ ( نساء) :

"إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي‏ الدَّرْكِ‏ الْأَسْفَلِ‏ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيراً"

یعنی یقینا منافقین جہنم کے سب سے پستطبقے میں ہیں اور تم ان کا ہرگز کوئی یار و مددگار نہیں پائو گے ۔

جہنم کے درک اسفل اور سب سے پست طبقے میں رہے گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ علی(ع) کا دشمن جہنم کے پست ترین طبقے میں معذب ہوگا اور اس آیت کے مطابق منافقین کا عذاب کفار سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔

نیز آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

" من‏ ابغض‏ عليا فقد ابغضنى و من ابغضنى فقد ابغض اللّه "

یعنی جو شخص علی علیہ السلام سے دشمنی رکھے پس یقینا اس نے مجھ کو دشمن رکھا اور جو شخص مجھ کو دشمن رکھے اس نے در حقیقت خدا کو دشمن رکھا، ) اس قسم کے اخبار و احادیث اس کثرت سے ہیں کہ تواتر معنوی کی حد میں آگئے ہیں۔

شیخ : آیا آپ کے ایسے انسان کے لیے یہ مناسب ہے کہ صحابہ رسول(ص) میں سے ایک لائق و فائق ہستی کی شان میں جسارت اور رد و قدح کے الفاظ کہیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ خدا نےآں حضرت(ص) کے اصحاب کی مدح و ثناء میں متعدد آیتیں نازلفرمائی ہیں اور ان کے اندر ان لوگوں کو مغفرت اور خوشنودی کی بشارت دی ہے؟ اور خال المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ تو یقینا بزرگ صحابہ میں سے اور آیات مدح و رضامندی کے مصداق ہیں۔ آیا صحابہ کی اہانت خدا و رسول(ص) کی اہانت نہیں ہے۔

اصحاب رسول(ص) میں اچھے برے سبھی تھے

خیر طلب: غالبا آپ بھولے نہ ہوں گے کہ گذشتہ شبوں میں صحابہ کے موضوع پر میں کافی تشریح کرچکا ہوں اور اس وقت بھی آپ کی تقریر کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑوں گا۔ مختصر عرض ہے کہ صحابہ عظام کی مدح میں آیتوں کے نزول سے کسی نے انکار نہیں ہے لیکن اگر آپ حضرات تھوڑا سا غور کر لیں اور صحابہ یا اصحاب کے لغوی اور اصطلاحی معنی پر توجہ کریں تو خود تصدیق کریں گے کہ مدح صحابہ میں جو آیتیں نازل ہوئی ہیں وہ کلی اطلاق نہیں رکھتی ہیں جن کی روشنی میں ہم جملہ اصحاب کو پاک عادل اور ہر رجس و گندگی سارے صغیرہ و کبیرہ گناہوں اور ارتداد وغیرہ سے منزہ و مبرا سمجھ لیں۔

جناب من آپ بخوبی جانتے ہیں کہ صحبہ لغت میں معاشرت کے معنی رکھتا ہے، چنانچہ فیروز آبادی قاموس میں کہتے ہیں کہ صحبہ بروزن سمعہ یعنی اس کےساتھ زندگی گزاری اور عرف عامہ میں اس پر ملازمت نصرت اور موازرت کا بھی اضافہ کرتے ہیںچاہے مدت میں زیادہ ہو یا کم۔

پس لغت عرب اور قرآن و حدیث کے بہت سے شواہد بتاتے ہیں کہ مصاحب نبی(ص) اس شخص کو کہتے ہیں جو آں حضرت(ص) کےساتھ زندگی گذار چکا ہو چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، اچھا ہو یا برا، پرہیزگار ہو یا بدکار مومن ہو یا منافق۔

جس طرح آپ نے صاحب اور مصاحب نبی کے لفظ کو صرف پاک دامن مومنین کے لیے مخصوص کردیا ہے کہ

۱۸۹

صحابہ سب کے سب جنتی ادور رضائے الہی سے ممتاز تھے تو یہ صحیح نہیں ہے اور عقل و نقل کے خلاف ہے۔ سبب واضح کرنے کے لیے میں مجبور ہوں کہ مذکورہ سابق آیات اور معتبر احادیث و اہل سنت کے علاوہ مختصر طور پرکچھ مزید دلائل پیش کردوں تاکہ آپ حضرات لفظ اصحاب سے مرعوب ہو کر حق سے منحرف نہ ہوں اورجان لیں کہ صحبہ، صحاب، مصاحب اور اصحاب کا اطلاق مسلم، کافر، مومن و منافق اور نیک و بد سب پر ہوتا ہے۔

۱۔ آیتنمبر۲ سورہ نمبر۵۳ ( نجم) میں مشرکین سے خطاب ہے:"‏ ما ضَلَ‏ صاحِبُكُمْ وَ ما غَوى" (یعنیتمہارا صاحب ( محمد(ص)) نہ کبھی گمراہ ہوا نہ بہکا)

۲۔ آیت نمبر۲۵ سورہ نمبر۳۴ ( سبا) میں فرماتا ہے " قُلْ إِنَّما أَعِظُكُمْ‏ بِواحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنى‏ وَ فُرادى‏ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بِصاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ"

یعنیامت سے کہدو کہ میں تم کو ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم لوگ خالص خدا کے لیے دو دو اور ایک ایک کر کے کھڑے ہو پھر غور و فکر کرو کہ تمہارے صاحب و رسول خدا(ص) کو جنون نہیں ہے۔

۳۔ آیت نمبر۳۲ سورہ نمبر۱۸( کہف) میں ارشاد ہے" وَ كانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقالَ لِصاحِبِهِ وَ هُوَ يُحاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ‏ مالًا وَ أَعَزُّ نَفَراً"

( یعنی اس کافر نے ) اپنے مصاحب و رفیق سے ( جو مومن و فقیر تھا) گفتگو اور فخر کے موقع پر کہا کہ میںتم سے دولت اور ثروت میں زیادہ اور حشم و خدم کی حیثیت سے بھی عزت میں بڑھا ہوا ہوں۔

۴۔ اسی سورہ کی آیت نمبر۳۵ میں فرمایا ہے: "قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَ هُوَ يُحاوِرُهُ‏ أَ كَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا "

یعنی (با ایمان اور فقیر) مصاحب و رفیق نے بات چیت اور نصیحت کرتے ہوئے اپنے (کافر) ساتھی سے کہا کہ آیا تم نے اس خدا سے کفر اختیار کر لیا جس نے تم کو اولامٹی سے پھر نطفے سے پیدا کیا اس کے بعد تم کو پورا آدمی بنا کر تیار کردیا ؟

۵۔ آیت نمبر۱۸۳ سورہ نمبر۷( اعراف) میں ارشاد ہوتا ہے: "أَ وَ لَمْ‏ يَتَفَكَّرُوا ما بِصاحِبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ "

یعنی آیا انلوگوں نے غور و فکر سے کام نہیں لیا کہ ان کے صاحب (محمد(ص)) کو جنون نہیں ہے۔

۶۔ آیت نمبر۷۰ سورہ نمبر۶ ( انعام) میں فرمارہا ہے : "قُلْ‏ أَ نَدْعُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَنْفَعُنا وَ لا يَضُرُّنا وَ نُرَدُّ عَلى‏ أَعْقابِنا بَعْدَ إِذْ هَدانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرانَ لَهُ أَصْحابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنا قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدى "

یعنی کہدو اے پیغمبر(ص) کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر کیا اس (بت وغیرہ) کو پکاریں جو نہ ہم کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اور پھر طریقہ جاہلیت کی طرف پلٹ جائیں جب کہ خدا ہم کو ہدایت دے چکا ہے!اس کے کچھ اصحاب ہیں جو ہدایت کے لیے اس کو پکارتے ہیں کہدو کہ ہدایت تو در حقیقت اللہ کی ہدایت ہے۔

۷۔ آیت نمبر۳۹ سورہ نمبر۱۴( یوسف) میں حضرت یوسف(ع) کی زبان سے ان کے دو قید خانے کے کافر، مصاحبوں کو

۱۹۰

خطاب فرماتا ہے "يا صاحِبَيِ‏ السِّجْنِ‏ أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ "

یعنی اے میرے قید خانے کے دونوں رفیقو میں تم سے پوچھتا ہوں کہ بہت سے متفرق خدا بہتر ہیں یا ایک اللہ جو قہار ہے؟

نمونے کے طور پر یہ چند آیتیں پیش کردینے کے بعد ظاہر ہوگیا کہ صرف صحبہ، صاحب، مصاحب اور اصحاب کے ناموں کو بحیثیت لغت مسلم و مومن سے کوئی خصوصیت نہیں ہے بلکہ ان کا استعمال مسلم و کافر مومنو منافق اور نیک و بد سبھی کے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کسی کے ساتھ معاشرت رکھنے والے کو لغت میں مصاحب یا اصحاب کہتے ہیں۔ بدیہی چیز ہے کہ اصحاب رسول(ص) سے وہی لوگ مراد ہیں جو آں حضرت(ص) کے ساتھ معاشرت رکھتے تھے اور آیات مبارکہ اس پر گواہ ہیں۔

یقینا اصحاب اور آں حضرت(ص) کے ساتھرہنے سہنے والوں کے درمیان اچھے اور برے ( یعنی مومن و منافق) بہت سے لوگ تھے اور جو آیتیں اصحاب کی مدح میں نازل ہوئی ہیں ان کا اطلاق عمومیت کے ساتھ سب کے اوپر نہیں بلکہ صرف نیک اصحاب سے تعلق ہے۔ ہم بھی مانتے ہیں کہ آں حضرت(ص) کے بزرگ اصحاب ایسے تھے کہ دیگر انبیاء عظام میں سے کسی کو بھی ویسے اصحاب نہیں ملے۔ مثلا بدر و احد اور حنین کے اصحاب، جنہوں نے پورا امتحان دیا۔ بغیر ہوا و ہوس کے پیغمبر(ص) کی نصرت اور فرمانبرداری میں ثابت قدمرہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی آں حضرت(ص) سے انحراف نہیں کیا لیکن اصحاب کے درمیان بدنفس ، صاحب مکرو فریب ، اہل نفاق اور آں حضرت(ص) نیز اہل بیت طاہرین علیہم السلام کے دشمن بھی کثرت سے موجود تھے جیسے عبداللہ ابن ابو سفیان حکم بن عاص ( یعنی عثمان کا چچا اور طرید رسول) ابو ہریرہ ، ثعلبہ ، یزید بن سفیان، ولید بن عقبہ، حبیب بن مسلمہ، سمرہ بن جندب، عمرو بن عاص، بسر بن ارطاۃ، ( سفاک و خونخوار) مغیرہ بن شعبہ معاویہ بن ابی سفیان اور ذو الثد یہ خارجی وغیرہ جنہوں نے رسول اللہ(ص) کے زمانہ حیات میں اور بعد وفات بھی کافی فتنے اٹھائے ۔ اپنی پچھلی حالت پر الٹے پائوں پلٹ گئے اور بڑے بڑے فسادات پھیلائے چنانچہ انہیں افراد میں سے ایک معاویہ کی ذات بھی ہے جس پر اپنی زندگی میں رسول اللہ(ص) نے لعنت کی تھی اور آںحضرت(ص) کی وفات کے بعد جب مناسب موقع ہاتھ آیا تو خون خواہی عثمان کے نام سے بغاوت کردی اور بے شمار مسلمانوں کی خونریزی کا باعث ہوا۔ خصوصیت کے ساتھ آں حضرت(ص) عمار یاسر جیسے کئی محترم صحابی اس فتنے میں شہید ہوئے، جس کی خبر آں حضرت(ص) خود دے گئے تھے اور ہم گذشتہ شبوں میں ان روایتوں کو نقل کرچکے ہیں۔ لہذا جس طرح سے بزرگان اصحاب اور مومنین صالحین کی تعریف وتوصیف ، فضائل و مناقب اور وعدہ بخشش کے سلسلے میں کافی آیات و اخبار وارد ہوئے ہیں اسیطرح خائن و بدکار اور منافقین صحابہ کے بارے میں بھی وعید شدید اور عذاب کے لیے کثرت سے آیتیں اور حدیثیں موجود ہیں جوثابت کرتی ہیں کہ ان لوگوں نے آں حضرت(ص) کو آپ کی زندگی میں جو اذیتیں پہنچائی تھیں ان کے علاوہ بعد وفات بھی فتنےبرپا کئے، اور مرتد ہوگئے۔

شیخ : تعجب ہے آپ کیونکر فرمارہے ہیں کہ رسول خدا(ص) کے اصحاب مرتد ہوگئے اور انہوں نے فتنہ و فساد برپا کیا؟

۱۹۱

خیر طلب: میں نہیں کہہ رہا ہوں آیتیں اور حدیثیں کہہ رہی ہیں۔ اگر ذرا سنجیدگی سے غور کیجئے تو تعجب رفع ہوجائے اولا خداوند عالم نے آیت نمبر۱۳۸ سورہ نمبر۳( آل عمران) میں ان کے ارتداد کی خبر دی ہے اور فرمایا ہے:

" أَ فَإِنْ‏ ماتَ‏ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلى‏ أَعْقابِكُمْ‏"( یعنی اگر پیغمبر(ص) کو موت آجائے یا قتل ہوجائیں تو کیا تم اپنے پچھلے پائوں (یعنی دین جاہلیت، پر پلٹ جائو گے؟)

اس آیہ شریفہ اور سورہ منافقون نیز دوسرے آیات کے علاوہ خود آپ کے علماء بخاری، مسلم، ابن عساکر، یعقوب بن سفیان احمد ابن حنبل اور عبدالبر وغیرہ ہم کے طرف سے بکثرت اخبار و حدیث اصحاب کی مدح و مذمت ، کفر و ار تداد اور نفاق کے بارے میں انفرادی یا اجتماعی طور سے مروی ہیں۔ چونکہ وقت تنگ ہے لہذا نمونے کے لیے فی الحال دو روایتوں کا حوالہ دےرہا ہوں تاکہ آپ کا تعجب رفع ہوجائے اور سمجھ لیجئے کہ نیک صحابہ کو نیک اور بد کو بد جاننا چاہئیے۔ اور پھر یہ تو فرمائیے کہ منافقین کے سردار، امیرالمومنین علی علیہ السلام ک سب سے بڑے دشمن اور سب و شتم کرنے والے رسول اللہ(ص) کی فدیت طاہرہ اور اصحاب پاک کو قتل کرنے والے اور خدا و رسول(ص) سے باقاعدہ دشمنی کرنے والے کے کفر پر کیا دلیلہے؟

بخاری نے لفظوں کے معمولی فرق کے ساتھ سہل ابن سعد اور عبداللہ ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا:

" انا فرطكم على الحوض و ليرفعن معى رجال منكم حتی اذا هويت لاناولهم اختجلوا دونى فاقول: يا ربّ اصحابى فيقول لا تدرى ما احدثوا بعدك‏؟! "

یعنی میں تمسے پہلے حوض کوثر پر تمہارا مںتظر رہوںگا اور جب تم میں سے ایک گروہ مجھ سے کترائے گا تو عرض کروں گاکہ خداوندا یہ تومیرے اصحاب ہیں؟ ادھر سے جواب آئے گا کہ تم کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے تمہارے بعد کیا کیا بدعتیں پھیلائیں۔

احمد بن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے کبیر میں اور ابونصر سخری نے ابانہ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

"‏ أَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ أَقُولُ اتَّقُوا اللَّهَ اتَّقُوا الْحُدُودَ اتَّقُوا النَّارَ فَإِذَا مِتُ‏ تَرَكْتُكُمْ‏ وَ أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ فَمَنْ تَزَوَّدَ فَقَدْ أَفْلَحَ‏ فَيُوتَی بِاقوَام فَيُؤْخَذُبِهِمْذَاتَ‏ الشِّمَالِ‏ فَأَقُولُ يَارَبِّ أُمَّتي‏فَيُقَالُ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوامُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ و فی روايَة للطبری فی الکبير بعد قوله : يَارَبِّ أُمَّتي‏فَيُقَالُ إِنَّكَ لَاتَدْرِي مَاأَحْدَثُوابَعْدَكَ مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ"

یعنی میں تم کو عذاب دوزخ سے بچانا چاہتا ہوں لہذا کہتا ہوں کہ نار جہنم سے ڈرو اور دین خدا میں کمی بیشی نہ کرو جب میں وفات پا جائوں گا اور تم سے جدا ہوں جائون گا تو تم سے پہلے حوض کوثر پر موجود رہوں گا۔ پس جو شخص وہاں میرے پاس پہنچے وہی ناجی اور کامیاب ہے۔ اس وقت میں بہت سے لوگوں کو عذاب الہی میں گرفتار پائوں گا تو عرض کروں گا کہ خداوندا یہ تو میری امت کےلوگ ہیں۔ جواب ملے گا کہ حقیقتا یہ لوگتمہارے بعد مستقل طور سے اپنے پچھلے دین پر پلٹ گئے اور یا رب امتی کے بعد کبیر میں طبرانی کی روایت ہے کہ پس کہا جائیگا تم نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا بدعت یں پیدا کیں اور اپنے دین جاہلیت پر مرتد ہوگئے۔

واقعی یہ دیکھ کر دل جلتا ہے کہ ایک ایسے ملحد و کافر اور بے دین کو ( جیسا کہ اس سے قبل اس کے کفر وملعونیت کے

۱۹۲

کافی دلائل پیش کرچکا ہوں(۱) اور اس کے دوزخی فرزند یزید پلید کو تو ( جس کا کفر گذشتہ راتوں میں ثابت کرچکا ہوں(۲) آپ مسلم و مومن کہیں ان کے ایمان پر اصرار اور کفر سے انکار کریں،ان کو خلیفہ اور جنتی ثابت کرنے کی کوشش کریں بلکہ ناحق امیرالمومنین کا خطاب بھی دے دیں حالانکہ ان کے کفر آمیز حرکات اور اس کے دلائل خود آپ ہی کی معتبرکتابوں میں مکمل طور سے درج ہیں۔ ( یہاں تک کہ اہل سنت کے انصاف پسند

اکابر علماء نے ان دونوں کے رد میں مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں(۳) لیکن جناب ابوطالب(ع) کے کفر پر شدید اصرار کر کے اس یکتا جوان مرد اور مومن وموحد کا کافر ثابت کرنے کی سعی بلیغ کریں۔

کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ عقیدہ اور اس قسم کی فضول باتیں فحش امیرالمومنین علی علیہ السلام سے بغض و کینہ رکھنے کا نتیجہ ہیں تاکہ ان بیہودہ الفاظ کےذریعے جہاں تک ممکن ہو اس محبوب خدا و رسول امام مظلوم کے زخمی قلب پر برابر ظلم و اذیت کے تیر چلائے جائیں۔ ورنہ معاویہ و یزید ملعون کے کفر ونفاق پر جو محکم دلیلیں قائم ہیں ان پر تو ہزاروں طرح کے حاشیے چڑھا کر ان دونوں کو مجتہد کہیں ان کے اعمال و کفر کو ان کے اجتہاد کا نتیجہ بتائیں اور ان کی صفائی میںانتہائی اوچھے دلائل قائم کریں، اور جناب ابوطالب (ع) کے خدا و رسول(ص) پر ایمان رکھنے کے سلسلے میں واضح دلائل اور آپ کے کھلے ہوئے اعلانات کو جھٹلا کر آپ کا کفر ثابت کریں؟ میں نہیں جانتا کہ خارجی، ناصبی، اموی اور ان کے بچے کھچے دوست اشخاص کب تک اور کہاں تک ہمارے سنی بھائیوں پر حکومت کریں گے۔ عادت اور تعصب کی بنیاد پر ان کو اندھا دھند اپنے عقائد کے پیچھے دوڑاتے رہیں گے اور برادران اہل سنت کو اتنا موقع نہ دیں گے کہ وہ چشم انصاف کھول کے حق و صداقت کا جلوہ دیکھ سکیں۔

ایمان ابوطالب(ع) پرمزید دلائل

آیا پیغمبر(ص) کے اہل بیت(ع) نے جو آں حضرت(ص) کے حسب الایثار عدیل قرآن ہیں جن کا اجماع مسلمانون کے لیے حجت ہے اور جن کے علم زاہد اور ورع و تقوی پر خور آپ کے اکابر علماء کا اتفاق ہے یہ نہیں

کہا ہے کہ جناب ابوطالب(ع) صاحب ایمان تھے اور دنیا سے مومن ہی اٹھے؟

آیا اصبع بن نباتہ نے جو آپ کے علماء رجال کے نزدیک قابل وثوق اور معتمد علیہ تھے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت نہیں کی ہے کہحضرت نے فرمایا :

" والله ما عبد ابی ولا جدی عبد المطلب ولا هاشم ولا عبد مناف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص--- تا ص---

۲۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کی جلد اول ص-- تا ص--

۳۔ جیسے ابوالفرج ابن جوزی اور آخر میں جلیل القدر مصنف عالم سید محمد بن عقیل علوی متوفی سنہ۱۳۵۰ھ نے ایک کتاب نصائح الکافیہ میں تیوسی معاویہ کے نام سے تالیف کی ہے جس کے اب تک دو ایڈیشن ہوچکے ہیں اور آخری بار سنہ۱۳۰۶ ھ میں مطبع النجاح( بغداد میں چھپی)

۱۹۳

صنما قط"یعنی خدا کی قسم میرے باپ ابوطالب میرے دادا عبدالمطلب ہاشم اور عبد مناف نے ہرگز کبھی بت پرستی نہیں کی، مقصد یہ کہ خدائے وحدہ لاشریک کی رو بقبلہ عبادت کی اور دین حضرت ابراہیم کے پیرو رہے۔

کیا یہ حق بجانب ہے کہ آپ علی اور اہل بیتطاہرین علیہم السلام کا قول ترک کر کے مغیرہ ملعون، امویوں ، خارجیوں، ناصبیوں اور امیرالمومنین(ع) کے شدیدترین دشمنوں کے اقوال کے پیچھے دوڑتے پھریں اور جناب ابوطالب(ع) کے صریحی اشعار وکلمات کی اوچھی تاویلیں کرتے رہیں؟ حضرت امیرالمومنین(ع) کے ارشاد کی تائید میں من جملہ دوسرے دلائل کے ام المومنین جناب خدیجہ اور پیغمبر صلعم کے عقد کا وہ خطبہ بھی ہے جس کو سبط ابن جوزی نے تذکرہ خواص الامہ آخر باب ۱۱ ص۱۷۰ میں نقل کیا ہے کہ جس وقت محفل عقد آراستہ ہوئی تو جناب ابوطالب نے ایسی عبارت کے ساتھ خطبہ پڑھا جو کل کی کل ان کے ایمان اور اعتقاد وحدانیت خدا پر دلالت کررہی ہے۔ خطبے کی تمہید اس طرح شروع کی:

"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَنَا مِنْ‏ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ‏ وَ زَرْعِ إِسْمَاعِيلَ وَ جَعَلَ لَنَا بَلَداً حَرَاماً وَ بَيْتاً مَحْجُوجاً وَ جَعَلَنَا الْحُكَّامَ عَلَى النَّاسِ الی آخرها"

یعنی حمد اس خدا کی جس نے ہم کو ابراہیم(ع) کی ذریت اسماعیل (ع) کی اولاد، معدکی اصل اور مضر کے عنصر میں سے قرار دیا ہم کو اپنے گھر کا محافظ اور اپنے حرم کا ذمہ دار بنایا ہمارے لیے ایسا گھر تجویز کیا جس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم مقرر کیا جو امن و امان کی جگہ ہے ہمکو انسانوں پر حاکم معین کیا ۔ الی آخرہ۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۱۴ ص۷۳ ( مطبوعہ اسلامبول) میں موفق بن احمد خوارزمی سے اور انہوں نے محمد بن کعب سے نقل کیا ہے کہ :

رای ابوطالب النبی صلی الله عليه وآله وسلم يتفل فی فم علی ای يدخل لعاب فمه علی فقال ما هذا يابن اخی فقال ايمان وحکته فقال ابوطالب لعلی يا بن انصر ابن عمک وازرة"

یعنی ابوطالب نے دیکھا کہ پیغمبر(ص) اپنا لعاب دہن علی(ع) کے منہ میں ڈال رہے ہیں تو پوچھا کہ اے میرے بھتیجے اس کا کیا مقصد ہے؟ آپ نے فرمایا یہ سب ایمان اور حکمت کا فیضان تھا ۔ پس ابوطالب نے علی سے کہا اے بیٹے ابن عم کے ناصر اور وزیر بنو۔

آیا یہ بیانات جناب ابوطالب کے ایمان کو ثابت نہیں کرتے؟ علاوہ اس کے کہ پیغمبر(ص) کوکوئی روک ٹوک اور ممانعت نہیں کی اور نہ اپنے دوازدہ سالہ فرزند کو باز رکھنے کی کوشش کی، ان کو تاکید بھی کی کہ اپنے پسر عم رسول خدا(ص) کی مدد کریں۔

جعفر طیار(ع) کا باپ کے حکم سے ایمان لانا

نیز آپ کے سبھی علماء نے اپنی کتابوں میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ ایک روز جناب ابوطالبپ(ع) مسجد میں آئے تو دیکھا کہ رسول اکرم(ص) نماز پڑھتے ہیں اور علی(ع) آں حضرت(ص) کے داہنی طرف مشغول

۱۹۴

نماز ہیں انہوں نے اپنے فرزند جعفر (طیار) سے جو ان کے ہمراہ تھے اور ابھی ایمان نہیں لائے تھے کہا " صل جناح ابن عمک" اپنے پسر عم کے پہلو میں کھڑے ہو کر تم بھی ان کے ساتھ نماز پڑھو!جعفر آگے بڑھے اور رسول اللہ(ص) کے بائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، اس وقت جناب ابوطالب نے یہ شعر نظم کئے۔

إِنَّ عَلِيّاً وَ جَعْفَراً ثِقَتِي‏عِنْدَ مُلِمِّ الزَّمَانِ وَ الْكَرْبِ

لَا تَخْذُلَا وَ انْصُرَا ابْنَ عَمِّكُمَاأَخِي لِأُمِّي مِنْ بَيْنِهِمْ وَ أَبِي‏

وَاللَّهِ‏لَاأَخْذُلُ‏النَّبِيَّ وَ لَايَخْذُلُهُ مِنْ بَنِيَّ ذُو حَسَبٍ

یعنی یقینا علی(ع) اور جعفر(ع) رنج و مصیبت کے وقت میرے سہارے اور قوت ہیں۔ اے علی(ع) و جعفر(ع) اپنے چچا کے فرزند اور میرے سگے بھتیجے کاساتھ نہ چھوڑو بلکہ ان کی مدد کرو۔ قسم خدا کی میں نبی(ص) کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا اور کوئی شریف پیغمبر(ص) کا ساتھ چھوڑ بھی سکتا ہے؟

پس آپ کے علماء ومورخین کا اتفاق ہے کہ جعفر کا اسلام و ایمان اور رسول اللہ(ص) کے سات ان کا نماز پڑھنا اپنےباپ جناب ابوطالب کے حکم اور اجازت سے تھا۔

کوئی صاحب عقل کیونکر یقین کر سکتا ہے کہ جو باپ مشرک اور کافر ہو وہ اپنے بھتیجے کو اتنے زبردست دعوے سے منع نہ کرے یہاں تک کہ اپنے بیٹوں کو بھی ایسے شخص پر ایمان لانے سے باز رکھنے کی کوشش نہ کرے جو ایک نیا دین لایا ہو اور اس کے دین کا دشمن ہو؟ اور وہ بھی جناب ابوطالب(ع) کا ایسا با اقتدار و با اثر باپ جو قریش کا سردار تھا؟ بلکہ مزید برآں اپنے فرزند کو حکم دے کہ جائو اور اپنے چچا کے بیٹے پر ایمان لائو اور ان کی اقتداء کرو؟ پھر اپنے سارے جسمانی و روحانی قوی کےساتھ اپنے دین کے سب سے بڑے دشمن کی حمایت و نصرت کرے؟فاعبروا يا اولی الالباب.

فریقین کے سارے اکابر علماء نے نقل کیا ہے کہ جب قریش اور مکے کے باشندوں نے بنی ہاشم کی اقتصادی ناکہ بندی کی تو جناب ابوطالب(ع) سارے خاندان کے ساتھ رسول اللہ(ص) کی حمایت پر کمر بستہ ہوگئے اور چار سالم تک شعب ابوطالب(ع) میں آں حضرت(ص) کی حفاظت و نگہبانی کی ، یہاں تک کہ اس ساری مدت کے اندر جس مقام پر شب کے پہلے حصے میں رسول اللہ(ص) سوتے تھے، ایک ساعتکے بعد جناب ابوطالب(ع) آکر آں حضرت(ص) کو بیدار کرتے تھے اور اس سے محفوظ جگہ لے جاتے تھے اور اپنے فرزند دل بن علی علیہ السلام کو آپ کے بستر پر سلادیتے تھے تاکہ اگر کسی دشمن نے آں حضرت(ص) کو ابتدائے شب میں وہاں دیکھا ہو اور آپ کے متعلق کوئی بری نیت رکھتا ہو تو علی(ع) آپ پر قربان ہوجائیں اور آپ کا وجود مسعود امن و آسائش اور حفاظت و اطمینان میں رہے۔

آپ کو خدا کی قسم یہ بتائیے کہ آیا کوئی مشرک کسی ایسے موحد کے لیے جو نبوت کا مدعی اورمشرکین کو کفر و گمراہی میں مبتلا جانتا ہو اس قدر ہمدردی اور کوشش کرسکتا ہے؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ پس معلوم ہوا کہ یہ ساری جانفشانی اور فداکاری ایمان کامل کا نتیجہ تھی۔

۱۹۵

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ میں طبقات محمد بن سعد سے اور انہوں نے واقدی سے نیز علامہ سید محمد بن سید رسول برزنجی نے کتاب الاسلام فی العم وآباء سید الانام میں ابن مسعد اور ابن عساکر وغیرہ سے اور انہوں نے صحیح اسناد کے ساتھ محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا جب ابوطالب نے وفات پائی تو میں نے رسول اللہ(ص) کو خبر دیفبکی بکاء شديدا! پس آں حضرت(ص) نے شدید گریہ فرمایا پھر مجھ کو حکم دیا کہ "اذهب فغسنله و کفنه ووازرة غفر الله له و رحمه " جاو ان کو غسلوکفن دو اور دفن کرو، خدا ان کی مغفرت کرے اور ان پر رحمت نازل فرمائے۔

خدا کے لیے انصاف کیجئے کہ اسلام میں کافر کو غسل و کفن دینے کی اجازت دی گئی ہے ؟ کیا ہمارے لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ رسول خدا(ص) نے کافر و مشرک کے لیے مغفرت طلب کی، یہاں تک کہ لکھتے ہیں"و جعل الله يستغرله اياما لا يخرج من بيته " یعنی رسول خدا(ص) کئی روز تک گھر سے باہر نہیں نکلے اور جناب ابوطالب(ع) کے لیے استغفار اور دعائے بخشش کرتے رہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ آں حضرت(ص) نے اپنے قرآن میں سورہ نمبر۴(نساء) کی آیت نمبر۵۱، ۱۱۶ نہ دیکھی ہو کہ خدائے تعالی نے فرمایا ہے:

" إِنَ‏ اللَّهَ‏ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَ يَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشاءُ"

یعنی خدا اس کو ہرگز نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ دوسرے گناہوں کو بخشے گا۔

پروردگار عالم کے اس صریحی اعلان کے باوجود کہ ہم مشرک ہو نہیں بخشیں گے۔ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ رسول اکرم(ص) ایک مشرک کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کریں؟ در آنحالیکہ اس کے لیے طلب رحمت و مغفرت حرام ہے اسی طرح جسم میت کو غسل و کفن دینا بھی مسلمان کے لیے مخصوص ہے اور کفار کے لیے ہزگز جائز نہیں۔ پس یہی رسول اللہ(ص) کا جناب ابوطالب کے لیے استغفار کرنا اور علی علیہ السلام ک وحکم دینا کہ جائو اپنے باپ کوغسل و کفن دو، جناب ابوطالب کے ایمان کی ایک واضح دلیل ہے دیدہ حق میں اور نگاہ انصاف سے تذکرہ سبط ابن جوزی ص۶ کا مطالعہ کیجئے اور دیکھیئے کہ امیرالمومنین(ع) نے اپنے باپ کے لیے کیونکر مرثیہ کہا ہے۔ فرماتے ہیں:

أبا طالب عصمة المستجيروغيث‏المحول‏و نور الظلم‏

لقد هدّ فقدك أهل الحفاظفصلّى عليك ولي النعم‏

و لقاك ربك رضوانهفقد كنت للطهر من خير عم

یعنی اے ابوطالب آپ پناہ چاہنے والے کو پناہ، افتادہ زمینوں کے لیے بارانِ رحمت اور تااریکیوں کے لیے وشنی تھے۔ آپ کی موت سے اراکان حفاظت تباہ ہوگئے، پس آپ پر منعم حقیقی نے اپنی رحمت نازل کی اور پروردگار نے آپ کو اپنیبارگاہ کرم سے لحق کر لیا۔ آپ یقینا پیغمبر کے بہترین چچا تھے۔

آیا یقین کیا جاسکتا ہے کہ ایسی بزرگ شخصیت جس کے لیے مجسمہ توحید پرستی ( علی علیہ السلام) نے اس قسم کا مرثیہ

۱۹۶

کہا ہو وہ دنیا سے کافر اٹھی ہو؟

یہ ساری دلیلیں ثابت کرتی ہیں کہ جناب ابوطلب دنیا سے مومن گئے ورنہ رسول اکرم(ص) نہ ان کو غسل و کفن دیتے اور نہ دفن کرنے کے لیے ایک معصوم امام کو مامور فرماتے اور نہ ا ن کے لیے دعائے رحمت ہی کرتے اس لیے کہ آں حضرت(ص) حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کا مکمل نمونہ تھے آپ کی دوستی اور دشمنی محض خدا کے لیے تھی، خواہش نفس کی وجہ سے نہیں کہ ابوطالب(ع) چونکہ میرے چچا ہیں لہذا چاہے وہ مشرک ہی ہوں اور حکم خدا کے خلاف ہی کرنا پڑے لیکن میں ان کے واسطے شدید گریہ بھی کروں گا اور استغفار دعائےرحمت بھی۔

شیخ : اگرابوطالب(ع) مومن و موحد تھے تو کس وجہ سے اپنا ایمان پوشیدہ رکھا اور اپنے بھائی عباس و حمزہ کی طرح علانیہ اظہار ایمان نہیں کیا۔

خیر طلب: بدیہی چیز ہے کہ عباس و حمزہ اور جناب ابوطالب(ع) کے درمیان کافی تفاوت اور فرق تھا کیونکہ جناب حمزہ اس قدر شجاع ، نڈر اور شہزور تھے کہ سارے اہل مکہ ان سے دبتے تھے لہذا ان کا اسلام لانا اور ایمان کا اعلانکرنا پیغمبر(ص) کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوا۔

عباس(رض) کا اسلام پوشیدہ تھا!

لیکن جناب عباس نے بھی فورا ا پنا اسلام ظاہر نہیں کیا، چنانچہ ابن عبدالبر استیعاب میں نقل کرتے ہیں کہ عباس مکہ ہی میں ایمان لے آئے تھے لیکن لوگوں سے پوشیدہ رکھتے تھے، یہاں تک کہ جب رسول خدا(ص) نے ہجرت کی تو انہوں نے بھی آں حضرت(ص) کے ساتھ روانہ ہونا چاہا حضرت نے ان کو لکھا کہ آپ کا مکے میں ٹھہرنا میرے لیے مفیدہے۔ چنانچہ یہ مکے کی خبریں آں حضرت(ص) کو پہنچاتے تھے، بدرکبری کی جنگ میں کفار کو اپنے ہمراہ لائے کافروں کی شکست کے بعد آپ اسیر ہوگئے اور فتح خیبر کے روز مناسب موقع ہاتھ آیا تو، اپنے ایمان کو ظاہر کیا۔

نیز شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۵۶ ص۲۲۶ ( مطبوعہ اسلامبول) میں ذخائر العقبی امام الحرم ابوجعفر احمد بن عبداللہ طبری شافعی سے اور انہوں نے فضائل ابوالقاسم الہی سے کیا ہے کہ اہل علم جانتےہیں کہ عباس پہلے ہی اسلام لے آئے تھے لیکن اس کو چھپاتے تھے جب جنگ بدر میں کفار کے لشکر کے ہمراہ آئے تو پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ جو شخص عباس سے ملاقات کرے وہ ان کو قتل نہ کرے اس لیے کہ انہوں نے کراہت کے ساتھ کافروں کی ہمراہی اختیار کی ہے، وہ ہجرت پر تیار تھے لیکن میں نے ان کو لکھا کہ وہیں رہ کر مشرکین کی خبریں مجھ کو پہنچائیں جس روز ابو رافع نے آں حضرت(ص) کو عباس کے اظہار اسلام کی خبر دی تو آں حضرت(ص) نے اس کو آزاد فرما دیا۔

۱۹۷

ابوطالب(ع) نے اپنا ایمان کس لیے چھپایا

اور اگر جناب ابوطالب اپنا ایمان ظاہر کردیتے تو معاملہ یک طرفہ ہوجاتا یعنی تبلیغ اسلام کی ابتداء میں جب کہ ابھی رسول اکرم(ص) کے ساتھ اور ناصر و مددگار نہیں تھے۔ سار قریشاور پورا عرب متحد ہو کر بنی ہاشم کے مقابلے پر اٹھ کھڑا ہوتا اور نبوت کو نبیخ رین سے اکھاڑ پھینکتا۔ لہذا جناب ابوطالب نے مصلحتا اپنے ایمان کا اعلان نہیں کیا تاکہ بظاہر ایک ہم مشرب کی حیثیت سے قریش اور دیگر دشمنوں کی روکتھام کر سکیں اور وہ لوگ بھی محض جناب ابوطالب کے احترام اور لحاظ کی وجہ سے زیادہ شدید اقدامات نہ کریں جس سے آں حضرت کو اپنے مقصد کی اشاعت کا پورا موقع ملتا رہے۔ چنانچہ جب تک آپ زندہ رہے یہی صورت حال رہی اور رسول خدا(ص) پوری لگن کے ساتھ اپنا جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا"اخرج‏ عن‏ مكّة فما لك بها ناصر بعد أبى طالب. " ( اب آپ مکے سے چلے جائیے کیونکہ ابوطالب کے بعد اب یہاں آپ کا کوئی حمایتی نہیں ہے۔

شیخ: آیا رسول خدا(ص) کے زمانے میں ابو طالب کا اسلام مشہور تھا اور امت اس کی قائل تھی نہیں۔

خیر طلب : ہاں پوری شہرت رکھتا تھا اور ساری امت ان جناب کا نام تعظیم کے ساتھ لیتی تھی۔

شیخ : یہ کیونکر ممکن ہے کہ پیغمبر(ص) کے زمانے میں تو ایک معاملہ طشت ازبام اور پوری طرح مشہور ہو لیکن تقریبا تیس(۳۰) سال کے بعد ( بقول آپ کے) ایک حدیث گڑھ دینے سے حق اور حقیقت کے برخلاف اس طرح سے شہرت پا جائے کہ سابقہ حقیقت کالعدم ہی ہوجائے؟

خیر طلب:ليس هذا بأوّل قارورة كسرت في الإسلام. ( یعنی یہ کوئی (اصلیت کا) پہلا شیشہ نہیں ہے جو اسلام میں توڑا گیا)

یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کہ رسول اللہ(ص) کے زمانے میںکوئی اصلیت مشہور رہی ہو لیکن برسوکے بعد کوئی حدیث گڑھنے کی وجہ سے اس کی پہلی صورت ختم ہوگئی ہو۔

بہت سے امور بلکہ دینی احکام بھی ایسے ہیں جو صاحب شریعت حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے عہد میں رائج و نافذ اوعر جائز بلکہ عمل و رامد کے اندر تھے) لیکن چند سال گزرنے کے بعد لوگوں کے دبائو اور اثرات کے نتیجے میں ان کی حقیقت ہی بدل گئی اور ایک صورت قائم ہوگئی۔

شیخ : ممکن ہو تو جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں ان بہت سے امور میں سے ایک ہی نمونہ بیان کیجئے۔

۱۹۸

خیر طلب : شواہد تو اتنے زیادہ ہیں کہ جلسے کا وقت ان سب کو پیش کرنے کی گنجائش ہی نہیں رکھتا، لیکن نمونے کے طور پر ان میں سے ایک ایسی مثال پیش کرتا ہوں جو سب سے زیادہ اہم اور واضح نیز قرآن مجید کی دلالت اور جمہور مسلمین کے اتفاق سے بالکل مستحکم ہے اور وہ ہیں متعہ کے دو مستقل حکم یعنی منقطع اور حج نساء بحکم قرآن اور باتفاق فریقین ( شیعہ و سنی) زمانہ رسول(ص) میں یہ دونوں عمل عام شہرت اور رواج کے مالک تھے، یہاں تک کہ پوری خلافت ابوبکر اور خلافت عمر ابن خطاب کے ایک حصے میں بھی امت کے اندر جاری رہے، لیکن خلیفہ عمر کے صرف ایک جملے سے کایا پلٹ ہوگئی، انہوں نے کہا:

"متعتان‏ كانتا على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلم و أنا أحرمهما و اعاقب عليهما"

یعنی دو متعے جو رسول اللہ(ص) کے زمانے میں رائج تھے میں ان دونوں کو حرام کرتا ہوں اور جو کوئی ان پر عمل کرے گا اس کو سزادوں گا۔

یعنی تیرہ سو سال سے زیادہ ہوگئے حلال خدا حرام ہوچکا ہےعمر کے اس قول پر ان کے زمانہ خلافت میں اور اس کے بعد اس قدر زور دیا گیا اور بغیر کسی دلیل کے قرآن مجید کی نص صریح اور عمل رسول(ص) و اصحاب رسول(ص) کے برخلاف اس طرح سے اس کی اندھی اور بھیڑیا دھسان تقلید کی گئی کہ سابقہ حقیقت بالکل فراموش ہوگئی اب تک عام طور پر برادران اہل سنت کے کروڑوں لوگ اس متعہ کو جو حلال خدا اور پیغمبر(ص) کی روش سنت ہے شیعوں کی ایک بدعت سمجھتے ہیں اور اگر ہم دلائل کے ساتھ بیان کریں تب بھی تسلیم نہیں کرتے کہ پیغمبر(ص) اور ابوبکر و عمر کے زمانے میں یہ دونوں متعے شائع اور حلالتھے، صرف خلیفہ عمر کے کہنے سے ان کے اواسطخلافت میں یہ حلال خدا حرام بن گیا۔ جس جگہ اللہ کا وہ محکم حکم جس کی گواہی قرآن دے رہا ہو۔ رسول اللہ(ص) اور پاک صحابہ کی سیرت جس کی تصدیق کر رہی ہو، جس کو شیخیں ابوبکر و عمر کی تائید حاصل ہو اور جس کی حلت پر قرآن مجید نیز اہل سنت کی معتبر کتابوں میں واضح دلیلیں موجود ہوں، تنہا عمر کے اس اعلان سے جس کو آیات و احادیث کی قطعا کوئی حمایت حاصل نہ ہو حرام و بدعت ہوجائے وہاں آپ چاہتے ہیں کہ جناب ابوطالب(ع) کا اسلام و ایمان کفر سے مبدل نہ ہو۔

شیخ : یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا کے کروڑوں مسلمان صدیوں سے قرآن مجید اور سنت رسول(ص) کے خلاف عمل کرتے آرہے ہیں حالانکہ سارا عالم ہم کو سنی کہتا ہے، یعنی ہم سنت رسول(ص) کے پیرو ہیں، اور شیعوں کو رافضی کہا جاتا ہے، یعنی انہوں نےرسول(ص) کی سنت سے انحراف کیا۔

سنی درحقیقت رافضی اور شیعہ اہل سنت ہیں

خیر طلب : بظاہر آپ لوگ اپنے کو سنی اور شیعوں کو رافضی کہتےحالانکہ اگر عادت اور تعصب سے ہٹ کے اںصاف سے جائزہ لیجئے تو نظرآئے گا کہ بباطن اور در حققیت شیعہ سنی یعنی قرآن و سنت رسول(ص) کے تا بع اور احکام پیغمبر(ص) کے فرمانبردار ہیں اور آپ لوگ رافضی یعنی قرآن سنت اور احکام رسول(ص) سے منحرف ہیں۔

۱۹۹

شیخ : یہ خوب رہی۔ آپ نے کروڑوں خالص مسلمانوں کو رافضی کیسے بنادیا؟ کیا دلیل ہے۔ آپ کے پاس اس مقصد پر؟

خیر طلب: اسی طرح جیسے آپ لوگ یعنی سنی حضرات دس کروڑ پاک نفس شیعوں اور عترت و اہل بیت رسول(ص) کے پیروئوں کو رافضی کافر اور مشرک کہتے ہیں میں گذشتہ راتوں میں کافی دلائل کےساتھ عرض کرچکا ہوں کہ رسول اکرم(ص) نے ہدایت فرمائی ہے کہ میرے بعد قرآن اورمیری عترت کی پیروی کرنا لیکن آپ لوگ جان بوجھ کر عترت(ع) سے منہ موڑ کر دوسرون کے پیرو بنے پیغمبر(ص) کی سیرت اورسنت کو جس کی آں حضرت(ص) بحکم قرآن اپنی زندگی میں برابر عملی تاکید فرماتے رہےپامال کردیا، شیخین کے حکم سےا ن حضرات کاسات ھ چھوڑ دیا اور پھر سنت و سیرت رسول(ص) پر عمل کرنے والوں کو رافضی بلکہ مشرک اور کافر تک کہہ دیا۔

من جملہ ان احکام کے آیت ۴۲ سورہ ۸ ( انفال) میں صریحا ارشاد ہے کہ:

"وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ‏ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى الخ"

یعنی جان لو کہ جو کچھ تم کو غنیمت اور فائدہ حاصل ہو اس میں سے خمس یعنی پانچواں حصہ خدا و رسول(ص) اور قرابتداروں کے لیے مخصوص ہے۔الخ

چنانچہ آں حضرت(ص) اپنی زندگی میں اس حکم پر عمل فرماتے رہے اور خمس غنائم کو اعزہ و اقارب میں تقسیم فرمادیتے تھے لیکن آپ لوگوں نے اس سے مخالفت اور روگردانی کی۔(۱)

اگر میں سب کی فہرست پیش کرنا چاہوں تو رشتہ کلام بہت طولانی ہوجائے گا۔

البتہ سب سے بڑی دلیل اس مطلب پر کہ ہم شیعہ رسول اللہ(ص) کی سنت و سیرت کے تابع اور آپ لوگ رافضی، رسول خدا(ص) اور صحابہ کرام کی سنت و سیرت کے تارک اور اس سے منحرف ہیں۔ یہی متعہ کا موضوع بہ حکم خدا، سنت رسول(ص) اور عمل صحابہ کی بنا پر خود آں حضرت( ص) کے عہد پورے زمانہ خلافت ابوبکر میں، اور خلافت عمر کے درمیان تک حلال اور زیر عمل تھا۔ لیکن عمر کے صرف فقرے سے جو انہوں نے از رو ئے سیاست اور ایک خاص مقصد کے تحت کہا تھا آپ لوگوں نےحلال خدا کو حرام اور سنت رسول(ص) کو بیکار سمجھ کر ترک کر دیا اس کے باوجود اپنے کو سنی اور ہم شیعوں کو جو قرآن اورسنت پیغمبر(ص) کے تابع ہیں راضی کہتے ہیں اور بے خبر لوگوں کو یہ سبق اس طرح سے رٹایا ہے کہ چودہ سو برس کے قریب ہو رہے ہیں وہ ہم کو رافضی اور مشرک ہی کہتے ہیں۔

حیرت یہ ہے کہ آپ یعنی برادران اہل سنت بالکل مدعی سست گواہ چست کا نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ خود خلیفہ عمر نے تو اپنی بات کے ثبوت میں کوئی دلیل و برہان پیش نہیں کی لیکن سنی علماء نے اپنی کتابوں میں یہ ثابت کرنے کے لیے دسیوں پھسپسی دلیلیں اکٹھا کی ہیں کہ خلیفہ عمر کا کلام حق ہے چاہے قرآن و سنت رسول}ص) اور سیرت صحاب باطل و بے بنیاد ٹھہر جائے۔

شیخ : حلت متعہ و عقد انقطاع پر آپ کی دلیل کیا ہے؟ کہاں سے اور کس دلیل سے آپ کہہ رہے ہیں کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے قول خدا اور سنت رسول(ص) کے خلاف عمل کیا۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394