پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 276317
ڈاؤنلوڈ: 6131


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 276317 / ڈاؤنلوڈ: 6131
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حلت متعہ پر دلائل

خیر طلب : اس مطلب پر دلائل کثرت سے ہیں اور محکم آسمانی سند قرآن مجید ہے، چنانچہ آیت نمبر28 سورہ نمبر4 ( نساء) میں صاف صاف فرمایا ہے:

" فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَفَاتُوهُنَ‏ أُجُورَهُنَ‏ فَرِيضَةً."

یعنی جب تم نے ان سے فائدہ اور تمتع حاصل کیا( یعنی متعہ کیا) تو ان کی اجرت ( یعنی مہر معین) ان کو فورا ادا کرو کیونکہ یہ فرض و واجب ہے۔

ظاہر ہے کہ قرآن مجید کا حکم ابد تک واجب العمل ہے جب تک خود قرآن میں اس کا کوئی ناسخ پایا جائے چونکہ اس موضوع مِں کوئی ناسخ نہیں آیا ہے لہذا یہ حکم محکم ہمیشہ کے لے باقی اور برقرار ہے۔

شیخ : یہ آیت نکاح دائمی سے کیوں مربوط نہیں ہے جب کہ انہیں آیتوں کے ذیل میں آئی ہے اور حکم دے رہی ہے کہ ان کی اجرت اور مہر ادا کیا جائے؟

خیر طلب : آپ نے اپنے بیان میں بے لطفی سے کام لیااور اصطلاح کے اندر خلط مبحث کردیا کیونکہ آپ ہی کے بڑے بڑے علماء جیسے طبری نے تفسیر کبیر جزء پنجم میں اور امام فخر الدین رازی نے تفسیر مفاتیح الغیب جز سیم میں نیز اوروں نے اس آیہ مبارکہ کو متعہ کے بارے میں نقل کیا ہے۔

آپ کے علماء و مفسرین کی تصریح کے علاوہ آپ حضرات خود ہی بخوبی جانتے ہیں کہ پورے سورہ نساء میں اسلام کے اندر نکاح و ازدواج کے اقسام بیان کئے گئے ہیں، یعنی عقدد دائمی ، متعہ منقطعہ اور ملک یمین نکاح دائمی کے لیے آیت نمبر3 سورہ نمبر4( نساء) میں ارشاد ہے:

"فَانْكِحُوا ما طابَ لَكُمْ مِنَ النِّساءِ مَثْنى‏ وَ ثُلاثَ وَ رُباعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ"

یعنی عورتوں سے اپنی مرضی کے مطابق دو، تین اور چار تک نکاح کرو، لیکن اگر اس کا ڈر ہو کہ ان کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے تو صرف ایک پر اکتفا کرو یا پھر جو تمہاری کنیز میںہو۔ ملک یمین اور کنیزوں کے بارے میں فرماتا ہے:

"وَ مَنْ‏ لَمْ‏ يَسْتَطِعْ‏ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَناتِ الْمُؤْمِناتِ فَمِنْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ مِنْ فَتَياتِكُمُ الْمُؤْمِناتِ وَ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمانِكُمْ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَ آتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"

یعنی تم میں سے جس شخص کو اتنی قدرت اور استطاعت نہ ہو کہ پارسا اور مومنہ ( آزاد ) عورتوں کے ساتھ نکاح کرسکے تو ان جوان عورتوں میں سے جو تمہاری ملکیت اور کنیزی میں ہوں اپنی زوجیت میں رکھو اللہ تمہارے ایمان کے متعلق سب سے زیادہ جاننے والا ہے تم میں سے ایک دوسرے سے ہےپسان کے مالکوں کی اجازت سے ان کےساتھ نکاح کرو اور ان کے مہر خوبی کے ساتھ ادا کر دو۔

اور متعہ یا عقد منقطع کے سلسلے میں آیت :

"فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَ فَاتُوهُنَ‏ أُجُورَهُنَ‏ فَرِيضَةً."

۲۰۱

نازل ہوئی اگر یہ آیت نکاح دائم سے متعلق ہو تو لازم آتا ہے کہ ایک ہی سورے میں دائمی نکاح کا حکم دو مرتبہ دہرایا گیا ہے اور یہ چیز قاعدے کے خلاف ہوگی اور اگر متعہ کے لیے نازل ہوئی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک مستقل اور جدید حکم ہے۔

دوسرے (صرف شیعہ بھی نہیں بلکہ)تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ عقعد متعہ صدر اسلام میں رائج اور مشروع تھا۔ اور صحابہ کرام خود رسول اللہ(ص) کے زمانے میں اس ہدایت پر عمل کرتے تھے اگر یہ آیت نکاح کے لیے ہے تو آیت متعہ کونسی ہے جس کے عام طور پر مسلمان قائل ہیں؟ پس قطعا آیت متعہ یہی ہے جس کا خود آپ کے مفسرین نے بھی ذکر کیا ہے اور اس کی شرعی حیثیت کو ثابت کیا ہے، نیز یہ کہ اس کے لیے کوئی ناسخ آیت نہیں آئی جیسا کہ خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے۔

حلیت متعہ پر روایات اہل سنت

من جملہ صحیح بخاری اور مسند امام احمد ابن حنبل میں ابورجاءسے بسند عمران ابن حصین منقول ہے کہ انہوں نے کہا:

"نزلت‏ آية المتعة في كتاب اللّه نفعلنا مع رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله لم ينزل قرآن بحرمته و لم ينه عنها رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله حتّى مات قال رجل برأيه ما شاء- قال محمد( يقال انه عمر )"

یعنی آیت متعہ کتب خدا میں نازل ہوئی پس ہم رسول اللہ (ص) کے دور میں اس پر عامل تھے اور اس کی حرمت پر نہ کوئی آیتنازل ہوئی نہ رسول خدا(ص) ہی نے مرتے دم تک اس کی ممانعت کی، صرف ایک شخص نے اپنی خود رائی سے جو چاہا کہہ دیا۔ بخاری کہتے ہیں کہ کہا جاتا ہے یہ شخص عمر تھے۔

صحیح مسلم جزو اول باب نکاح المتعہ ص545 میں ہے کہ :

"حدثنا الحسن الحلوائی قال حدثنا عبد الرزاق قال اخبرنا ابن جريح قال قال عطاء قال قدم جابر بن عبد الله معتمرا فجئناه في منزله فسأله القوم عن أشياء، ثمَ‏ ذكروا المتعة فقال: نعم استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه (و آله) و سلم و أبي بكر و عمر."

یعنی ہم سےبیان کیا حسن حلوائی نے کہ ہم سے بتایا عبدالرزاق نے کہ ہم کو خبر دی ابن جریح نے کہ کہا عطا نے کہ جابر ابن عبداللہ اںصاری عمرہ کے لیے مکے میں آئے تو ہم ان کی قیام گاہ پر گئے، لوگوں نے ان سے مختلف باتیں دریافت کیں۔ یہاں تک کہ متعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہم رسول اللہ(ص) کے زمانے میں ابو بکر و عمر کے عہد میں متعہ کرتے تھے)

نیز اسی کتاب کے جزء اول ص467 باب المتعہ بالحج والعمرہ ( مطبوعہ مصر 1306 ہجری) میں ابونضرہ کی سند سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا، ؟؟؟؟ جابر ابن عبداللہ انصاری کے پاس تھا کہ ایک شخص وارد ہوا۔

" فقال: ابن عباس و ابن الزبير اختلفا في‏ المتعتين‏ فقال جابر فعلناهما مع رسول الله صلى الله عليه (و آله) ثمَّ نهانا عنهما عمر فلم نعد لهما."

یعنی اس نے کہا کہ ابن عباس اور ابن زبیر درمیان دونوں متعوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ ( یعنی متعہ النساء اور متعہ الحج) پس جابر نے کہا کہ ہم رسول اللہ(ص) کے زمان دونوں کو بجا لائے ہیں۔ پھر عمر نے ان کی ممانعتکی جس کےبعد سے نوبت نہیں آئی۔

۲۰۲

اور امام احمد ابن حنبل نے مسند جزء اول ص25 میں روایت ابونضرہ کو دوسرے طریق سے نقل کیا ہے نیز دونوں ایک اور روایت جابر سے نقل کرتے ہیں کہ دوسرے موقع پر کہا :

" كنا نستمتع‏ بالقبضة من التمر و الدقيق الأيام على عهد رسول الله صلى الله عليه (و آله) و أبي بكر و عمر حتى نهى عنه عمر في شأن عمرو بن حريث."

یعنی ہم رسول اللہ(ص) اور ابوبکر کے زمانے میں ایک مٹھی خرما اور آٹے پر متعہ کیا کرتے تھے یہاں تک کہ عمر نے عمرو بن حریث کے بارے میں اس کو منع کیا۔

حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں عبداللہ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا ہم لوگ رسول خدا(ص) کے زمانے میں متعہ کرتے تھے، یہاں تک کہ جب عمر کی خلافت قائم ہوئی تو انہوں نے کہا کہ خدائے تعالی اپنے پیغمبر(ص) کے لیے جو چاہتا تھا حلال کردیتا تھا۔ اب ان کی رحلت ہوچکی ہے اور قرآن اپنی جگہ پر باقی ہے پس جب تم حج یا عمرہ شروع کروتو اس طرح ختم کرو جس طرح خدا نے فرمایا ہے اور متعہ سے تو بہ کرو اور جس شخص نے متعہ کیا ہوا اس کو میرے سامنے لائو تو میں اس کو سنگسار کروں گا۔

آپ کی معتبر کتابوں میں ایسے اخبار میں ایسے کثرت سے منقول ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ عہد رسول(ص) میں متعہ عام طور پر رائج اور مشروع تھا اور اصحاب اس پر عمل کرتے تھے یہاں تک کہ عمر نے اس کو اپنی خلافت کے دور میں حرام قرار دیا۔ ان روایتوں میں علاوہ اصحاب وغیرہ کی ایک جماعت جیسے ابی بن کعب، ابن عباس، عبداللہ ابن مسعود، سعید بن جبر اور سدی وغیرہ نے آیت متعہ کو اس طریقے سے پڑھا ہے۔

" فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ‏ بِهِ مِنْهُنَ‏- إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى"( یعنی پس جب تم ان سے متمتع اور بہرہ مند ہوئے یعنی متع کیا اس مدت تک جو مقرر کی گئی تھی۔

چنانچہ جاء اللہ زمخشری نے کشاف میں ابنعباس سے بطریق ارسال مسلمات نقل کیا ہے، نیز محمد بن جریر طبری سے اپنی تفسیر کبیر میں اور امام فخرالدین رازی نے تفسیر مفاتیح الغیب جلد سیم میں اسی آیہ مبارکہ کے ذیل میں ذیل میں اور امام نووی نے شرح صحیح مسلمباب اول نکاح المتعہ میں بازری سے قاضی عیاض کا قول نقل کیا ہے کہ عبد اللہ ابن مسعود ( کاتب وحی) اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے۔"فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ‏ بِهِ مِنْهُنَ‏- إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى " امام فخر الدین رازی نے ابی ابن کعب اور ابن عباس کا قول نقل کرنے کے بعد کہا ہے:

"والامة ما انکروا عليها فی هذه القرائة فکان ذالک اجماعا علی صحة ما ذکرنا"

یعنی امت نے اس قرائت میں ان دونوں کا انکار نہیں کیا ہے۔ پس جو کچھ ہم نے زکر کیا اس کے صحیح ہونےپر اس طرح اجماع قائم ہوچکا ہے۔

پھر بعد والے ورق میں جواب دیتے ہوئے کہتے :

" فان تلک القرائة لا تدل الا علی ان المتعته کانت مشروعة و نحن لا ننازعفيه"

یعنی یہ قرائت یقینا اس پر دلالت کرتی ہے کہ متعہ شرعا جائز تھا اور ہم اس بارے میں کوئی نزاع نہیں رکھتے( کہ متعہ عہد رسول(ص) میں مشروع تھا۔

شیخ : آپ کی دلیل عدم نسخ پر کیا ہے کہ رسول خدا(ص) کے زمانے میں تو جائز تھا لیکن بعد کو منسوخ نہیں ہوا؟

خیر طلب : عدم نسخ اور اس بات کے دلائل بہت ہیں کہ یہ حکم اب بھی اپنے شرعی جواز پر باقی ہے۔ عام عقلوں کے

۲۰۳

لیے ساری دلیلوں سے زیادہ قرین قیاس دلیل جس سے ان کو معلوم ہو جائےکہ متعہ عہد رسول سے لے کر اواسط خلافت عمر تک عام طور پر جائز و مشروع تھا اور یہ حکم منسوخ نہیں ہوا ہے، علاوہ مذکورہ بالا روایات اور صحابہ کرام کی سیرت و عمل کے خود خلیفہ عمر ابن خطاب کا قول ہے جس کو آپ کے علماء نے عمومیت کے ساتھ نقل کیا ہے کہ بالائے منبر کہا:

"متعتان‏ كانتا على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلم و أنا أحرمهما و اعاقب عليهما"

اور بعض اخبار میں ہے"انهی عنهما" (یعنی رسول خدا(ص) کے زمانے میں دو متعے جائز تھے اور میں ان دونوں کو حرام یا منع کرتا ہوں، اور جو شخص ان عامل ہوگا اس کو سزا دوں گا۔(1)

شیخ : آپ کا فرمانا بجا ہے، لیکن میں نے عرض کیا کہ رسول خدا(ص) کے زمانے میں اول اول بہت سے ایسے احکام رائج تھے جو بعد میں منسوخ ہوگئے، چنانچہ یہ متعہ بھی شروع میں جائز تھا لیکن بعد میں منسوخ ہوگیا۔

خیر طلب : چونکہ دین کی بنیاد اور اساس قرآن مجید پر ہے لہذا جو حکم قرآن کے اندر نافذ ہوا ہو اس کا ناسخ بھی قرآن کے اندر اور زبان حضرت خاتم الانبیاء سے موجود ہونا ضروری ہے۔ اب فرمائیے کہ قرآن مجید میں کس مقام پر یہ حکم منسوخ ہوا ہے؟

شیخ : سورہ نمبر 23 ( مومنون کی آیت نمبر6 اس کی ناسخ ہے ارشاد ہوتا ہے :

" إِلَّا عَلى‏ أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ‏ أَيْمانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ "

یعنی سوا اپنی بیویوں کے اور ان کنیزوں کے جن پر مالکانہ قبضہ ہے ( اور کسی پر تصرف جائزنہیں، پس ایسے لوگوں پر کوئی ملامت نہیں ہے)

اس آیت میں حلال ہونے کے دو سبب قرار دیئے گئے ہیں ۔1۔ زوجیت۔ 2۔ اور ملک یمین کے ذریعے قبضہ ۔ لہذا اسی آیت کی دلیل سے کہ متعہ منسوخ ہوچکا ہے۔

خیر طلب : اس آیت میں متعہ کے منسوخ ہونے پر کوئی دلالت نہیں ہے بلکہ اور اس کی تائید ہے، اس لیے کہ متعہ بھی زوجیت کے حکم میں ہے اور ممتوعہ عورت مرد کی حقیقی زوجہ ہے اگر ممتوعہ حقیقتا بیوی نہ ہوتی تو خداوند عالم آیت میں یہ حکم نہ دیتا کہ ان کا حق مہر ادا کرو۔ علاوہ اس مفہوم کے سورہ مومنون مکی ہے اور سورہ نساء مدنی، ظاہر ہے کہ مکی سورتیں مدنی سورتوں پر مقدم ہیں۔ پس یہ آیت ناسخ کیونکر بن سکتی ہے جب کہ آیت متعہ سے قبل نازل ہوئی ہے؟ کیا ناسخ منسوخ سے پہلے ہی آگئی۔"فاعتبروا يا أولي‏ الألباب‏"

اکابر صحابہ و تابعین اور امام مالک کا حکم کہ متعہ منسوخ نہیں

قطع نظر اس سے کہ عبداللہ ابن عباس، عبد اللہ ابن مسعود ( کاتب وحی) جابر ابن عبداللہ انصاری، سلمہ ابن اکوع، ابوذر غفاری،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اس کو سنگسار کروں گا، جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح جزء اول ص467 میں نقل کیا ہےاحکام اسلام کے اندر متعہ کرنے والے کو رجم و سنگسار کرنے کا حکم کہیں نظر سے نہیں گذرا۔ پھر خلیفہ عمر نے ایسا کیوں کیا؟ مجھ کو پتہ نہیں۔

۲۰۴

سبرۃ بن معبد، اکوع بن عبداللہ الالمی، اور عمران بن حصین وغیرہ اکابر صحابہ و تابعین نے اس کے عدم نسخ کا حکم دیا ہے، آپ کےبڑے بڑے علماء نے بھی صحابہ کی پیروی میں اس کے منسوخ نہ ہونے کا فتوی دیا ہے۔ مثلا جار اللہ زمخشری تفیہ کشاف میں جس مقام پر جرامت عبداللہ ابن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ آیت متعہ محکمات قرآن میں سے ہے وہاں یہ بھی کہتے ہیں کہ یعنی منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ نیز امام مالک ابن انس نے متعہ کے مشروع و جائز ہونے اور منسوخ نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

چنانچہ ملا سعد الدین تفتازانی نے شرح مقاصد میں، برہان الدین حنفی نے ہدایہ میں، ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور دوسروں نے بھی مالک کا قول اور فتوی نقل کیا ہے کہ ایک جگہ ہے :

"هو جائز لانه کان مباحا مشروعا واشتهر عن ابن عباس حليتها و تبعه علی ذالک اکثر اهل اليمن و مکة من اصحابه"

یعنی متعہ جائز ہے اس لیے کہ شرعا جائز اور مباح ہے، اور ابن عباس سے اس کی حلت مشہور ہے اور ان کے اصحاب میں سے یمن و مکہ کے زیادہ تر لوگوں نے اس کی متابعت کی ہے۔

اور دوسرے مقام پر کہا ہے "هو لانه کان مباحا فيبقی الی ان يظهر ناسخه " (یعنی متعہ جائز ہے اس لے کہ مباحتھا اور وہ اپنے حلال و مباح ہونے پر قائم ہےجب تک اسی کا ناسخ ظاہر نہ ہو) معلوم ہوتا ہے کہ سنہ179 ہجری تک یعنی جب مالک کا انتقال ہوا ہے اس وقت تک نسخ متعہ کے دلائل ان کے سامنے نہیں آئے تھے اور ظاہر ہوا کہ یہ سب کچھ متاخرین کی ایجاد ہے تاکہ خلیفہ عمر کے قول میں جان پیدا کی جائے۔

اور آپ کے بزرگ مفسرین جیسے زمخشری، بغوی اور امام ثعلبی بھی ابن عباس اور کبار صحابہ کے عقیدے پر گئے ہیں، اور حلت و جواز متعہ کے قائل ہوئے ہیں۔

شیخ : چونکہ ممتوعہ عورت کے لیے وراثت، طلاق، عدہ اورنفقہ کے شرائط زوجیت نہیں ہیں لہذا وہ حقیقی زوجہ نہیں ہوسکتی۔

ممتوعہ عورت میں زوجیت کے سارے آثار موجود ہیں

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے تنفر اور بدظنی کی وجہ سے آپ نے شیعوں کی فقہی کتابوں کا پورا مطالعہ نہیں کیا ہے ورنہ آپ دیکھتے کہ ممتوعہ عورت میں زوجیت کے سارے آثار موجود ہیں، سوا ان چیزوں کے جو دلیل کے ساتھ خارج ہو جائیں اور پھر آپ اس قسم کا اشکال قائم نہ کرتے۔ دوسرے یہ کہ متعہ نکاح مسلم کی ایک قسم ہے جس پر تحقیق کے ساتھ زوجیت صادق آتی ہے البتہ امت کی سہولت و آسانی اور حرام کاری سے محفوظ رکھنے کے لیے از راہ لطف و کرم اس کے بعض شرائط اور تکلفاتحذف کردیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں تک شرائط کا سوال ہے، اول تو یہی ثابت نہیں ہے کہ وراثت کوئی زوجیت کا لازمی جز ہے کیونکہ اکثرعورتیں زوجہ ہونے کے باوجود شوہر کا ورثہ نہیں پاتیں جیسےکتابیہ، ناشزہ( نافرمان) اور اپنے شوہر

۲۰۵

کی قاتل عورت، جو بیوی تو کہلاتی ہے لیکن وراثت سے محروم ہے۔

دوسرے زن ممتوعہ کا حق وراثت سے محروم ہونا بھی قطعی طور سے معلوم نہیں ہے اس لیے کہ فقہا کے فتوی اس بارے میں مختلف ہیں جیسا کہ آپ کے یہاں بھی مسائل اور احکام میں کافی اختلاف ہے۔

تیسرے علمائے امامیہ کا اس پر اجماع ہے کہ ممتوعہ بیوی کو بھی عدہ رکھنا چاہیے اور اس کی کم سے کم مدت پینتالیس روز مقرر کی گئی ہے اور اگر شوہر مرجائے تو چار ماہ دس دن کا عام عدہ وفات رکھے چاہے مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ اور یائسہ ہو یا غیر یائسہ۔

چوتھے حق نفقہ بھی زوجیت کی لازمی شرطوں میں سے نہیں ہے، کیونکہ بہت سی عورتوں ایسی ہیں جو زوجیت کے اندر ہونے کے بعد بھی نفقے کی مستحق نہیں ہوتیں جیسے ناشزہ، کتابیہ اور شوہر کی قاتل۔

پانچوں مدت کا پورا ہوجانا ہی اس کی طلاق ہے، اور اسی طرح اگر درمیان ہی میں شوہر اس کی مدت بخش دے تو، اس کو طلاق ہو جاتی ہے۔

پس یہ جتنے شرائط آپ نے گنوائے ہیں ان میں سے کسی کے اندر کوئی وزن موجود نہیںہے، چنانچہ شیعوں کے مایہ ناز عالم کامل علامہ حلی حسن بن یوسف بن علی بن مطہر جمال الدین قدس سرہ نے آپ کے اکابر علماء کے مقابلے اور ان کیتردید میں انہیں دلائل کو انتہائی مکمل اور مفصل طریقے پر پیش کیا ہے، جن کو میں نے تنگی وقت کی وجہ سے مختصر کردیا (اگر کوئی شخص پوری تفصیل اور تحقیق کا خواہشمند ہو تو وہ علامہ حلی کی کتابمباحثات سنیہ و معارضات نصیریہ اور دوسرے تالیفات کی طرف رجوع کرے)

شیخ : آیہ شریفہ سے قطع نظر حدیثیں بھی کثرت سے وارد ہیں کہ متعہ کا حکم رسول خدا کے زما نے میں منسوخ ہوگیا تھا۔

خیرطلب: مہربانی کر کے بیان فرمائیے کہ حکم نسخ کہاں وارد ہوا ہے؟

شیخ: اختلاف کے ساتھ نقل ہو اہے، بعض کا قول ہے کہ فتح خیبر میں،بعض کہتے ہیں فتح مکہ کے روز، بعض روایتیں ظاہر کرتی ہیں کہ حجتہ الوداع میں، بعض کابیان ہے کہ تبوکمیں اوربعض دوسرےلوگوںنے بتایا ہے کہ حکم نسخ عمرۃ القضا میں نازل ہوا۔

عہد رسول(ص) میں منسوخ نہ ہونے کے دلائل!

خیر طلب: یہی عقیدے کا اختلاف اور روایتوں کا تناقض و تعارض اس بات کی پوری دلیل ہے کہ ایسا کوئی حکم آیا ہی نہیں اور ایسے اخبار پر اعتماد ہو بھی کیسے ہوسکتا ہے جب کہ ان کے برعکس سحاح ستہ،جمع بینالصحیحین،جمع بین الصحاح الستہ ا ور مسند وغیرہ جیسی آپ کی معتبر کتابوں میں کبار صحابہ سے کثرت کےساتھ ایسی روایتیں منقول ہیں جوزمانہ خلافت عمر تک

۲۰۶

اس آیت کے منسوخ ہونے کا ثبوت دے رہی ہیں۔

سارے دلائل سے واضح تر دلیل تو یہی ہے کہ آپ کے شیوخ اکابر علماءنے خود خلیفہ عمر کایہ قول نقل کیا ہے کہ:

"متعتان‏ كانتا على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلم و أنا أحرمهما "

اگر نسخ کا کوئی حکم آیت یا حدیث اور ارشاد پیغمبر کی صورت میں موجود ہوتا تو خلیفہ کو کہنا چاہئیےتھا کہ اسہدایت کے مطابق جو رسول اللہ(ص) دے گئے ہیں اور جس پر قرآن کی آیت دلالت کرتی ہے جو شخص متعہ کرے گا اور اس منسوخ وممنوع اور حرام فعل کا مرتکب ہوگا میں اس کو سزا دوں گا( اور دلوں کو متاثر و مرعوب کرنے کے لیے یقینا اس قسم کا بیان زیادہ کار آمد ہوتا) نہ بجائے اس کے کہتے یہ ہیں کہدو متعے جو رسول خدا کے زمانے میں حلالتھے میں ان کو حرام کرتا ہوں۔اگر آپ کا دعوی صحیح ہو اورکوئی ناسخ اس کا قرآن مجید میں نازل ہوا ہو تو کیونکر ممکن تھا کہ صحابہ رسول (ص) اور آں حضرت کے مکتب و درس گاہ کے شاگرد جیسے عبداللہ ابن عباس ( جر امت) عمران بن حصین،ابوذر غفاری ابن مسعود ( کا تب وحی) جابرابن عبداللہ انصاری، ابوسعید خدری، سلمہ بن اکوعاور دوسرے اصحاب و تابعین اس پر عمل کرتے ؟چنانچہ آپ کےبڑے بڑے محدثین و مورخین یہاں تک کہبخاری اور مسلم نے بھی جن کی کتابوں کو آپ انتہائی اہم سمجھتے ہیں اس کو وزح کیا ہے اور جن میں سے بعض کی طرف اشارہ بھی کرچکا ہوں، یہ سب پورا ثبت ہے اس بات کا کہ رسول اکرم(ص) کے زمانے سے خلافت عمر کے دور تک اصحاب اس پر عامل تھے اور کہتے تھے کہ آں حضرت(ص) کے وقت وفات تک کوئی ایسی چیز جو حکم متعہ کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتی ہو ہم نے نہیں سنی لہذا ہمارا عمل اس پر جاری رہا۔

اس مطلب کی صراحت وہ روایت بھی کرتی ہےجو امام احمد ابن حنبلنے مسند میں ابوبیار سے اور اس نے عمران ب ن حصین سے نقل کی ہے کہ:

"نزلت‏ آية المتعة في كتاب اللّه، و عملنا بها مع رسول اللّه (ص)، فلم تنزل آية بنسخها و لم ينه عنها النبی (ص) حتى مات"

یعنی آیت متعہ قرآن مجید میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ(ص) کے عہدمیں اس پر عامل تھے۔ پس نہ اس کو منسوخ کرنے کے لیے کوئی آیت اتری اور نہ پیغمبر(ص) نے وقت وفات تک اس سے منع فرمایا۔

نیز عمران بن حصین کی اس روایت میں بھی جو پہلے عرض کرچکا ہوں اس کی وضاحت موجود ہے کہ متعہ کی ممانعت نہ قرآن میں ہے نہ پیغمبر(ص) کی ز بان سے۔

پس جب کتاب و سنت کسی میں نسخ اورممانعت کا ذکر نہیں ہے تو متعہ قطعا اپنی حلیت و مشروعیت پر ابد تک باقی ہے چنانچہ ابوعیسی محمد بن عیسی بن سورة الترمذی نے اپنی سنن میں جو صحاح ستہ میں داخل ہے، امام احمد بن حنبل نے مسند جز دوم ص95 میں اور ابن اثیر نے جامع الاصول میں متعدد اسناد کےساتھ نقل کیا ہے کہ عبداللہ ابن عمر خطاب سے ایک شامی آدمی نے پوچھا کہ آپ متعتہ النساء کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا قطعا حلال ہے۔ اس نے کہا آپ کے باپ خلیفہ صاحب نے تو اس سے منع کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ پیغمبر﴿ ص نے حکم دیا ہے لہذا اگرمیرے باپ نے منع کیا ہےتو یقینامیرے

۲۰۷

باپ کی ممانعت پر پیغمبر{ص} کا حکم مقدم ہے اور میں فرمانِ رسول کا تابع ہوں۔ رہے وہ اخبار جو بقول آپ کے منقول ہیں تو غالبا صحابہ اور تابعین کے بعد والے لوگوں نے خلیفہ عمر کے قول کو درست اور مضبوط کرنےکے لیے کچھی حدیثیں گڑھ کے مشہور کردی ہیں، ورنہ معاملہ اس قدر صاف اور واضح ہے کہ مزید توضیح یا تردید کی گنجایش ہی نہیں ہے اس لیے کہ آپ کے پاس خلیفہ عمر کے قول کے علاوہ ابطال متعہ اور اس کی حرمت پر ایک بھی صحیح سند یا کامل دلیل موجود نہیں ہے۔

شیخ : خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کا قول خود مسلمانوں کے لیے ایک زبردست سند ہے جس کی ان کو پیروی کرنا چاہیے کیونکہ اگرخلیفہ نے رسول خدا سے سنا نہ ہوتا تو نقل نہ کرتے۔

خیر طلب: ایک نکتہ سنج اور انصاف پسند عالم سے بہت بعید ہے کہ {محض خلیفہ عمر کیوالہانہ محبت و عقیدت میں} اس قسم کی تقریر کرنےلگے،اس لیے کہ ہر کام میں غور و فکر کرنا ضروری ہے۔

حضرات! اپنے اس بیان پر کہ خلیفہ کا قول مسلمانوں کے لیے ایسی مضبوط سند ہے کہ اس کی پیروی ضروری ہے ذرا گہری نظر ڈالیے میں نے تو جہاں تک آپ کی صحیح و معتبر کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، ایک روایت بھی ایسی نہیں دیکھی کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہو کہ عمر بن خطاب کا قول سند ہے یا مسلمانوں پر اس کی پیروی لازم ہے۔ البتہ آپ کی معتبر کتابوں میں ایسی متواتر اور معتبر حدیثیں بھری پڑی ہیں کہ عترت طاہرہ رسالت{ع} کی پیروری کرو۔ بالخصوص اس عالی منزلت خاندان کی فرد اکمل امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی، جیسا کہ انمیں سے بعض اخبار کی طرف گزشتہ شبوں میں اشارہ کیا جاچکا ہے، اور ظاہر ہے کہ تمام عترت اور اہل بیت رسالت نے اس کے منسوخ نہ ہونے کا حکم دیا ہے۔

رہا آپ کا یہ فرمانا کہ اگر خلیفہ نے بارگاہ رسالت سے اس کی حرمت کو سنا نہ ہوتا توبیان نہ کرتے، تو اس میں بہت سے اشکال ہیں۔

اول اگرخلیفہ عمر نے رسول خدا{ص} سے ایسے نسخ کو سنا تھا تو ان کو چاہیے تھا کہ آں حضرت(ص) کے زمانے سے لے کر اپنے دورِ حکومت تک کبھی تو کہے ہوتے بالخصوص جس وقت دیکھتے تھے کہ کبار صحابہ اس کے مرتکب ہو رہے ہیں تو نہی عن المنکر کے عنوان سے بھی ان کا فرض تھا کہ جا کر لوگوں کو بتاتے کہ یہ عمل منسوخ ہے لہذا اس کا ارتکاب نہ کرو۔ آخر کیوں نہیں بتایا اور نہی عن المنکر کیوں نہیں کی؟

دوسرے جو حکم رسول(ص) کی ہدایت سے امت میں پھیلا ہو اس کا ناسخ بھی آں حضرت(ص) ہی کے ذریعے شایع ہونا چاہیے چنانچہ علم اصول میں معین ہے کہبیان میں وقت ضرورت سے تاخیر جایز نہیں ہے۔ آیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ حکم ساری امت میں شایع ہوچکا ہو پیغمبر(ص) اس کے منسوخ ہونے کا ذکر سوا عمر کے اور کسی سے نہ کریں اور عمر بھی کسی سے نہ کہیں۔ نہاں تک کہ اپنی خلافت کے آخری دور میں ایک خاص شخص کی مخالفت میں سیاسی طور پر اس کی حرمت کا اعلان کریں؟آیا اس ساری مدت میں جب امت ( بقول آپ کے) اس منسوخ حکم پر عمل پیرا ہو رہی تھی اس کے سر کوئی ذمہ داری نہ تھی؟ اور اس کا یہ طریقہ خلافِ

۲۰۸

شرع نہیں تھا۔

آیا اس منسوخ اور غیر مشروع عمل کے لیے جس کی ممانعت (بقول آپ کے) لوگوں تک نہیں پہنچایی گئی۔ چنانچہ امت اس کو اپنائے رہی، سوا رسول خدا(ص) کے اور کوئی جواب دہ ہوسکتا ہے کہ ایک ناسخ حکم کو جو خدا کی طرف سے ان کے سپرد کیا گیا تھا(بقول آپ کے) امت کو نہیں پہنچایا اور راز داری کے ساتھ تنہا عمر سے کہہ دیا اور عمر نے بھی کسی سے نہیں بتایا یہاں تک کہ اپنی خلافت کے آخری حصے میں صرف ذاتی راۓ کے طور پر اس کی حرمت کا حکم دیا؟ اور خلیفہ ابوبکر نے بھی جن کا مرتبہ یقینا عمر سے بالاتر تھا اپنے سارے عہدِ خلافت میں اس منسوخ حکم کی روک تھام نہیں کی؟ آیا یہ کفر کا کلمہ نہیں ہے اور اس کا ----- کافر نہیں ہے کہ کہا جاۓ رسول اللہ (ص) نے احکام کی تبلیغ میں کوتاہی کی اور امت اپنی جہالت و ناواقفیت کی وجہ سے منسوخ حکم پر عمل کرتی رہی؟

تیسرے اگر متعہ پیغؐمبر کے زمانے میں منسوخ ہوچکا تھا اور عمر نے بھی اس کو آں حضرت (ص) ہی سے سنا تھا تو ضرورت اس کی تھی کہ بیان کرتے وقت اس حکم آں حضرت سے منسوب کرتے اور کہتے کہ میں نے خود پیغؐمبر کو فرماتے ہوۓ سنا کہ عقد متعہ منسوخ ہے اور کوئی شخص اس کا ارتکاب نہ کرے ورنہ اس پر حد جاری ہوگی یا سنگسار ہوگا۔ ظاہر ہے کہ ارشاد پیغمبر(ص) کا حوالہ دینے سے امت پر کافی اثر قائم ہوتا۔ لیکن کہتے یہ ہیں کہ رسول اللہ(ص) کے زمانے میں دو متعے جائز اور مشروع تھے جن کو میں حرام کرتاہوں اور اب ایسا کرنے والوں کو سنگسار کروں گا۔ آیا حلال و حرام اور حدود و قواعد کا مقرر کرنا اس پیغؐمبر کا فرض ہے جس کا تعلق عالم غیب سے ہو یا ایسے خلیفہ کا حق ہے جس کو لوگوں نے معین کردیا ہو؟

ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آسکا اور نہ میری عقل فیصلہ کرسکی کہ عمر نے آخر کس دلیل و برہان سے حلال خدا کو حرام کہا اور کیوںکر یہ کہنے کی جرأ ت کی کہ انا احرمہا ( یعنی میں ان دونوں کو حرام کرتا ہوں) تعجب یہ ہے کہ خود رسول اللہ(ص) تو تبلیغ احکام کے مواقع پر یہ ہیں فرماتے تھے کہ میں نے حلال یا حرام کیا، بلکہ جس وقت کسی حکم کا اعلان فرماتے تھے تو یہی فرماتے تھے کہ مجھ کو اس کی تبلیغ کا حکم خداۓ تعالیٰ نے دیا ہے لیکن خلیفہ عمر انتہائی جسارت اور صراحت کے ساتھ کہتے ہیں۔

"متعتان‏ كانتا على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلم و أنا أحرمهما "

فاعتبروا یا اولی الابصار

مجتہد احکام میں الٹ پھیر کرسکتا ہے

شیخ : یقینا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے چند محقق علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ(ص)چونکہ احکام شرعی میں مجتہد تھے لہذا دوسرا مجتہد بھی اجتہاد کی روسے پہلے حکم کی مخالفت کر کے حلال کو حرام اورحرام کرسکتا ہے چنانچہ اسی بنا پر خلیفہ

۲۰۹

عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔"أنا أحرمهما "

خیر طلب: مجھ کو اس کی امید نہیں تھی کہ آپ حضرات ایک غلطی کو درست کرنے کے لیے دوسری بہت سی غلطیاں بھی کریں گے۔ آپ کو خدا کی قسم سچ بتائیے کیا نص کے مقابلے میں اجتہاد کی بھی کوئی حقیقت ہے؟ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ رسول اکرم(ص) کو اس قدر پست اورخلیفہ عمر کو اس قدر بلند کیجئیے کہ دو مجتہدوں کے مانند دونوں کوبرابر بنادیجئے؟ کیا آپ کا یہ بیان سراسر غلو ا ور آیات قرآنی کا صریحی مخالفت نہیں ہے؟ اگرچہ وقت تنگ ہے لیکن نمونے کے طور پر ایسی کچھ آیتوں کا حوالہ دے دینا ضروری سمجھتا ہوں۔

خداوند عالم آیت١٦ سورہ١ 0) یونس) میں پیغمبر(ص) سے صاف صاف فرماتا ہے:

"قُلْ ما يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ‏ تِلْقاءِ نَفْسِي‏ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا ما يُوحى‏ إِلَيَ‏"

( یعنی ان سے کہہ دو کہ مجھ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں اپنی طرف سے قرآن کو بدل دوں۔ میں صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے)

جس مقام پر خود رسول اکرم(ص) بغیر نزول وحی کے احکام شرع میں اپنی خواہش اور ارادے سے کوئی تغیر و تبدل نہ کرسکتے ہوں، ہاں خلیفہ عمرکو جو حقیقت وحی سے بالکل اجنبی تھے یہ اختیار کہاں سے حاصل ہوگیا کہ احکام میں تصرف کر کے حلال خدا کو حرام کردیں؟

آیت نمبر4 سورہ نمبر53 (نجم) میں ارشاد ہے:

" وَ ما يَنْطِقُ‏ عَنِ الْهَوى‏إِنْهُوَإِلَّاوَحْيٌيُوحى"‏

(یعنی پیغمبر(ص) اپنی خواہش نفس سے ایک بات بھی نہیں کہتے، وہ تو وہی کہتے ہیں جو احی الہی ہوتی ہے)

اور ایت نمبر8 سورہ نمبر46 ( احقاف) میں فرماتا ہے:

"قُلْماكُنْتُ بِدْعاً مِنَ‏الرُّسُلِوَ ما أَدْرِي ما يُفْعَلُ بِي وَ لا بِكُمْإِنْأَتَّبِعُإِلَّامايُوحى‏إِلَيَّوَماأَنَاإِلَّانَذِيرٌمُبِينٌ‏."

(یعنی کہہ دو اے رسول (ص) کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں ہوں اور نہ از خود یہ جانتا ہوں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا برتاؤ ہوگا۔ میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے)

یہ مکمل ثبوت ہے اس بات کا کہ پیغمبر(ص) کی متابعت واجب ہے، پس عمر ہوں یا اور کوئی غیر شخص ہرگز کسی کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ احکام الہی میں تصرف کرے اور حلال خدا کو حرام کرے۔

شیخ : خلیفہ رضی اللہ عنہ نے قوم کی بھلائی اور مصلحت قطعا اسی میں دیکھی کہ حکم کو منسوخ کردیں، اس لئے کہ آج دیکھا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ساعت، ایک ماہ یا ایک سال کی لذت کے لئے کسی عورت سے متعہ کرتے ہیں اور بعد کو حاملہ یا غیر حاملہ اس کو یونہی، چھوڑ دیتے ہیں جس کے سبب سے آوارگی پھیلتی ہے۔

خیر طلب : معاف کیجئے گا جناب! آپ کا یہ بیان ہی مضحکہ خیز اور حیرت انگیز ہے، اس لئے کہ آپ چند شہوت پرست اور لا ابالی اشخاص کے طرز عمل کو احکام کے حلال و حرام میں دخل دے رہے ہیں۔ اگرایسے لوگوں کی نفس پرستی اور بے پروائی ہے سے کوئی حلال حرام ہوجاۓ تو دائمی نکاح بھی حرام ہوجانا چاہئیے۔ کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ

۲۱۰

بعض لوگوں نے مال و جمال یا کسی اور چیز کی وجہ سے شریف لڑکیوں کے ساتھ دائمی نکاح کیا، پھر بغیر خرچ و نفقہ کے ان کو لا وارث چھوڑ کر چل دیئے، لہذا کہنا چاہیئے کہ کچھ اشخاص ایسے حرکات کرتے ہیں اس وجہ سے عقد نکاحبالکل غلط چیز ہے۔

چاہیئے یہ کہ لوگوں میں دیانت کی ترویج کی جاۓ اور ان کو دینی فرائض سے آگاہ کیا جاۓ اگرکوئی شخص دیندار ہے اور دائمی عورت کی ذمہ داری اٹھانے کی اہلیت اپنے میں نہیں پاتا نیز حرام کاری کے قریب بھی جانا نہیں چاہتا تو وہ دستور شریعت کے مطابق کسی عورت کو متعہ اور عقد منقطع کے ذریعہ تصرف میں لانا چاہے گا۔ چنانچہ پہلے شرائط متعہ کی تحقیق کرے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہر حکم کے لئے کچھ شرطیں ہوتی ہیں جن کو پہلے معلوم کر لینا ضروری ہے۔ اس کے بعد عمل کی منزل میں قدم رکھنا چاہیئے لہذا قرار داد کے وقت وہ عورت کا مہر اتنا مقرر کرے گا کہ عدت متعہ تمام ہونے کے بعد وہ اپنے عدہ کے زمانے میں جو صرف پینتالیس روز ہے آسانی سے بسر کرسکے۔

دوسرے یہ کہ علیحدگی کے بعد عدہ کی ساری مدت میں وہ عورت کی دیکھ بھال کرتا رہےگا کہ اگر حاملہ ہوگئی ہے تو بچہ چونکہ اس کا ہے لہذا اس کی نگہداشت کرے تاکہ ولادت کے بعد اپنی اولاد کو حاصل کرسکے۔

اگر کچھ لوگ ان شرطوں کو لحاظ نہ کریں تو اس کا نتیجہ یہ نہیں نکل سکتا کہ آپ جیسے سادہ دل حضرات بغیر سوچے سمجھے ایک طے شدہ حلال حکم کو منسوخ فرض کر لیں۔

علاوہ اس کے اگر آپ کا فرمانا صحیح بھی ہو تو اس امت کی مصلحت اوربھلائی کو خدا و رسول(ص) قطعا عمر سے زیادہ جانتے تھے لہذا انہوں نے سب کو اس کی ممانعت کیوں نہیں کردی تھی؟

اگر پیغمبر(ص) نے منع نہیں کیا ہے تو خلیفہ وامام اور حجتہ منصوص بھی اپنی مصلحت بینی سے حلال خدا کو حرام نہیں کہہ سکتا، پس یہ بہانہ کام نہیں دے گا کہ امت کی بھلائی اسی میں تھی کہ لوگ متعہ نہ کریں۔

ممانعت متعہ سے آوارگی پھیلی

اگر اچھی طرح سے غور کیجیئے تو حکم متعہ آوارگی پھیلنے کا سبب نہیں ہوا بلکہ ممانعت متعہ نے آوارگی پھیلائی اس لئے کہ ایسے جوان مرد عورت جن کے پاس دائمی نکاح کے وسائل مہیا نہیں ہیں اور متعہ بھی خلیفہ عمر کے حسب الحکم ان کے لئے حرام بلکہ گناہ عظیم ہے، وہاگر اپنی شہوت اور جنسی جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے تو ظاہر ہے کہ سوا اس کے اور کیا کریں گے کہ مجبورا حرام کاری میں مبتلا ہوں؟ اور جب کسی قوم کے اندر زنا کاری کا رواج ہوجاتا ہے تو حرمتوں کے پردے چاک اور شرافت انسانی کی عمارت متزلزل ہوجاتی ہے۔ آتشک اور سوزاک وغیرہ کے ایسے امراض ساریہ کی فرا وانی ہوتی ہے اور خداندان پریشان حال وکمزور ہوجاتے ہیں۔

۲۱۱

چنانچہ امام احمد ثعلبی اور طبری نے اپنی تفسیر میں اور امام احمد حنبل نے مسند میں آیت متعہ کے ذیل میں سند کے ساتھ امیرالمومنین علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

" لو لا ان عمر نهي عن المتعةما زنى‏إلّا شقيّ‏."

(یعنی اگر عمر نے متعہ کو منع نہ کیا ہوتا تو سوا بد بخت کے کوئی زنا نہ کرتا )

نیز ابن جریح اور عمرو بن دینار نے عبداللہ ابن عباس(جرامت) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

"ما كانت المتعة إلا رحمة رحم الله بها أمة محمد صلى الله عليه و آله لو لا نهيه(ای عمر) عنها ما احتاج إلى‏ الزنا إلا شقي‏"

( یعنی متعہ در حقیقت خدا کی رحمت تھا جس کو اس نے امت محمد(ص) پر نازل کیا تھا، اگر عمر نے اس کی ممانعت نہ کی ہوتی تو سوا بدبخت کے کوئی زنا کا محتاج نہ ہوتا)

پس بقول اصحاب پیغمبر(ص) کے زنا کاری پھیلنے کا سبب متعہ کی ممانعت ہے نہ کہ خود عمل متعہ اور حلال و حرام کے جتنے احکام خداوندی پیغمبر اسلام(ص) کے ذریعے امت تک پہنچے ہیں وہ سب کے سب قوم کی بھلائی اور مصلحت پر مبنی تھے اور ہیں اور رہیں گے۔ الی یوم القیامہ۔

اس مقام پر کہنے کے لائق بہت کچھ ہے اور اس عقیدے کے بطلان پر ( کہ دوںوں متعے حرام ہیں) بیشمار شواہد موجود ہیں لیکن ہمارا یہ مختصر جلسہ ان کی تفصیل بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اس کے علاوہ ہماری گفتگو اس موضوع پر تھی بھی نہیں بلکہ آپ کے تقاضے پر میں نے یہ حکم صرف اس غرض سے نقل کر دیا تھا کہ جناب عالی کی استبعاد رفع ہوجائے، کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ پیغمبر(ص) کے زمانے میں کوئی امر جاری اور نافذ رہا ہو لیکن بعد کو وضعی احادیث کی بنا پر اس کے برخلاف ہوجاۓ، میں نے آپ کو بتانا چاہا تھا کہ جس طرح خدا کے احکام بدل دیئے گئے، حلال و حرام میں تصرف کیا گیا، خمس اور دونوں متعوں کے مستقل احکام جو باتفاق فریقین(شیعہ و سنی) حضرت خاتم الانبیائ(ص) کے زمانے سے خلافت عمر کے آخری دور تک امت میں رائج اور کبار صحابہ و تابعین کے اعمال میں داخل تھے، بعد کو جیسا کہ جابر کی روایت سے ثابت ہے عمرو بن حریث کی خاطر سے بغیر کسی دلیل و برہان کے صرف خلیفہ عمرکی ذ اتی خواہش کی بنا پر اس کے ایک جملے سے منسوخ ہوگئے، حلال خدا حرام بن گیا، اور آج کروڑوں مسلمان بغیر ثبوت کے فقط اسلاف کی پیروی میں اسی جملے اور عقیدے پر جملے ہوۓ ہیں، حالانکہ وجوب خمس، متعہ کے دونوں حکم محکم اور عہد رسول میں ان کے منسوخ نہ ہونے پر قرآنی آیات اور حدیثوں کے دلائل خود آپ کی معتبر کتابوں میں اب تک موجود ہیں۔

مزید بر آں ان احکام پر عمل کرنے والوں کو جن کے منسوخ ہونے کی کوئی دلیل نہیںبدعتی اور گمراہ کہا جاتا ہے۔ پس دوسرے محلپر بھی کوئی استبعاد باقی نہیں رہتا کہ جناب ابوطالب کے اسلام و ایمان کو بھی جو عہد پیغمبر(ص) اور صدر اسلام میں مشہور و معروف اور امت کی نظر میں قابل احترام تھا حدیث ضحضاح گڑھ کے برعکس مشہور کیا جاۓ اور پھر نا فہم لوگ اپنی عادت اور تقلید کی بنا پر بغیر کسی تحقیق کے حق و صداقت کو پامال اور نسیا منسیؑا بنا دیں۔

۲۱۲

اب میں تقریر کو اس سے زیادہ طول نہیں دوں گا، کیونکہ ارباب عقل و دانش کے لئے اسی قدر دلائل کافی ہیں اورصاحبان بصیرت کے سامنے روشن ہے کہ ان جناب کے ایمان پر بہت کثرت سے دلیلیں موجود ہیں لیکن میں اختصار کے خیال سے اسی جگہ مطلب تمام کرتا ہوں۔

ورنہ خوارج و نواصب، بنی امیہ اور ان کے پیرو تو اگر دیکھیں کہ جناب ابوطالب زندہ ہو کر خود اپنی زبان سے کلمہ شہادتیں جاری کر رہے ہیں تب بھی عداوت امیرالمومنین(ع) کی وجہ سے اوجھی تاویلیں کر کے ان الفاظ کا کوئی دوسرا مطلب نکالیں گے۔

آپ حضرات سے کوئی صاحب اگر اس بارے میں مزید تفصیلات جاننا چاہتے ہوں تو اپنے اکابر علمائ جیسے جلال الدین سیوطی، ابوالقاسم بلخی، محمد بن اسحاق، ابن سعد، ابن قتیبہ، واقدی، امام موصلی، شوکانی، امام تلمسانی، امام قرطبی، علامہ برزنجی، علی اجہوری، امام شعرانی، امام سجمی اور ابوجعفر اسکافی وغیرہ کی متعبر کتابوں کا مطالعہ کریں، کیونکہ یہ سب رسول خدا صلعم کے ماں باپ اور چچا جناب ابوطالب کے اسلام وایمان کا اعتراف و اعتقاد رکھتے تھے اور اکثر نے اس موضوع پر مشتمل رسالے لکھے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ جو کچھ عرض کیا گیا اس سے معلوم ہوگیا کہ علی علیہ السلام روحانی و جسمانی حیثیت سے اس قدر ممتاز نسب اور پاکیزہ نسل کے مالک تھے کہ صحابہ کبار میں سے ایکبھی ان حضرت کے مقدس مرتبے کو نہیں پہنچتا۔

لقد ظهرت‏ فلا تخفى على أحد إلّا على أكمهَ لا يعرف القمرا

یعنی یقینا یہ بات اس قدر ظاہر ہے کہ کسی کے اوپر مخفی نہیں، سوا اس مادر زاد اندھے کے جو چاند کو نہ دیکھ سکے۔

علی(ع) کا مولد خانہ کعبہ تھا

دوسری خصوصیت جو علی علیہ السلام کو ممتاز کرتی ہے وہ محل و مکان ولادت ہے، کیونکہ آدم سے لے کر خاتم(ص) تک سارے انبیاۓ عظام و اوصیاۓ کرام اور ان کی نیک امتوں میں سے ایک شخص بھی اس خصوصیت عظمی سے سرفراز نہیں ہوا، آپ جس طرح سے نسل و نسب اور جنبہ نورانیت کی حیثیت سے ساری خلقت میں ممتاز تھے اسی طرح جاۓ ولادت کے لحاظ سے بھی ایک نمایاں خصوصیت رکھتے تھے کہ آپ خانہ کعبہ کے اندر متولد ہوۓ اور اس امتیازی شان میں منفرد تھے۔

حضرت عیسی علی نبینا و آلہ و علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر آپ کی مادر گرامی حضرت مریم طاہرہ کو اس غیبی آواز نے بیت المقدس سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا کہ

"اخرجی عن البيت‏ فان هذه بیت العبادة لا بيت الولادة "

(یعنی ( اے مریم) بیت المقدس سے نکل جاؤ کیونکہ یہ عبادت کا گھر ہے زچہ خانہ نہیں ہے۔)لیکن جب علی علیہ السلام کی ولادت

۲۱۳

باسعادت کا وقت آیا تو آپ کی مادر گرامی فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کے اندر بلائی گئیں۔ پھر یہ کوئی اتفاقی بات بھی نہیں تھی کہ جیسے کوئی عورت مسجد میں ہو اور دفعتہ وضع حمل ہوجاۓ بلکہ باقاعدہ دعوت کی صورت میں اس گھر کے اندر لے جائی گئیں جس کا دروازہ مقفل تھا بعض ناواقف لوگ یہ وہم کرتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد مسجد کے اندر تھیں کہ اتنے میں ان کو دردِ زہ عارض ہوا اور وہ باہر نہ جاسکیں مجبورا اسی مسجد میں وضع حمل ہوا۔

حالانکہ یہ صورت نہیں تھی فاطمہ بنت اسد کے وضع حمل کا مہینہ تھا، آپ مسجد الحرام گئیں وہاں دردِ زہ عارض ہوا۔مستجار کعبہ مشغول دعا ہوئیں اور درگاہِ الہی میں فریاد کی کہ خداوندا تجھ کو اپنی عزت وجلال کا واسطہ اس دردِ زہ کو مجھ پر آسان فرما۔ ایک مرتبہ خانہ کعبہ کی دیوار ( جو اس زمانے میں مسجد الحرام کے وسط میں تھی اور اس کا دروازہ زمین کے برابر سے تھا جو ہمیشہ بند اور مقفل رہتا تھا، صرف خاص موسم میں کھولا جاتا تھا) شگافتہ ہوئی یا مقفل دروازہ کھل گیا۔

دوسری روایت میں ہے اور ایک آواز آئی "یا فاطمةادخلیالبیت " اے فاطمہ گھر کے اندر داخل ہوجاؤ بیت اللہ اردگرد بیٹھے ہوۓ مجمع کے سامنے فاطمہ اندر گئیں اور در و دیوار پھر سابق حالت آگئے۔ سب کو بہت تعجب ہوا جناب عباسی بھی موجود تھے، انہوںنے یہ ماجرا دیکھا تو فورا اپنے بھائی جناب ابوطالب کو خبری کیوںکہ دروازے کی کنجی انہیں کے پاس تھی وہ اسی وقت آۓ اور ہر چند کوشش کی لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ تین روز تک فاطمہ بظاہر بغیر کسی دوا و غذا اور تیمار دار کے خانہ کعبہ کے اندر رہیں، مکے کے ہر گھر میں اس غیر معمولی واقعے کا چرچا ہورہا تھا یہاں تک کہ تیسرے روز جہاں سے داخل ہوئی تھیں اسی جگہ پھر راستہ بنا اور فاطمہ باہر آئیں۔ لوگوں نے ہجوم کیا تو دیکھا کہ ان کے ہاتھوں پر ایک چاند سا بیٹا ہے جو آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے۔

اسد اللہ در وجود آمددر پس پردہ ہر چہ بود آمد

یہ خصوصیت اور امتیاز علی علیہ السلام کے لئے مخصوص ہو کے رہ گیا کہ ان کا مولد خانہ کعبہ تھا اور وہ بھی اس خصوصی دعوت کے ساتھ کہ ان کی مادر گرامی گھر کے اندر بلائی گئیں۔

اس مسئلے میں فریقین 0 شیعہ و سنی) کا اتفاق ہے ہے کہ آپ سے قبل یا بعد کسی اور کو یہ شرفِ خاص حاصل نہیں ہوا چنانچہ حاکم مستدرک میں اور نور الدین بن صباغ مالکی فصول المہمہ فصل اول نمبر14 میں کہتے ہیں۔

" و لم‏ يولد في‏ بيت‏ الحرام‏ قبله أحد سواه و هي فضيلة خصه الله تعالى بها إجلالا له و إعلاء لمرتبته و إظهارا لتكریمه "

یعنی علی(ع) سے قبل آپ کے سوا اور کسی کی ولادت خانہ کعبہ میں نہیں ہوئی اور یہ وہ فضیلت ہے جو خداۓ تعالی نے آپ کی عزت افزائی، آپ کا مرتبہ بلند کرنے اور آپ کی تعظیم و تکریم کے اظہار کے لئے آپ کی ذات سے مخصوص کردی۔

۲۱۴

عالم غیب سے علی(ع) کا نام اور ایمان ا بوطالب(ع) پر ایک اور دلیل

دوسری خصوصیت جو اسی سلسلے میں علی علیہ السلام کے لیے ظاہر ہوئی اور آپ کی مزید شرافت و بزرگی کا باعث ہوئی وہ عالم غیب سے حضرت کا نام رکھا جانا ہے۔

شیخ : یہتو آپ نے انوکھی بات کہی گویا، ابوطالب پیغمبر تھے کہ ان کے اوپر وحی نازل ہوئی کہ بچے کا نام علی رکھو۔ آپ کا یہ بیان قطعا ان پروپیگنڈوں میں سے ہے جو شیعوں نے اپنے عشق و محبت میں وضع کئے ہیں، ورنہ اس کی کوئی صورت ہی نہیں کہ خدا بچے کا نام علی رکھنے کے لئے حکم دے۔ علی ایک معمولی نام تھا جو ماں باپ نے اپنی مرضی اور ارادے سے آپ کے لئے تجویز کیا عالم غیب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

خیر طلب: میں نے تو ہرگز کوئی انوکھی بات نہیں کہی جس پر آپ کو تعجب ہوا۔ البتہ آپ کی یہ حیرانی در اصل مرتبہ ولایت سے اجنبیت کی وجہ سے ہے۔

چونکہ آپ نے چندجملے ایک دوسرے سے مخلوط کر کے بیان کئے ہیں لہذا ان کو الگ الگ کر کے ہر ایک کا جواب علیحدہ علیحدہ عرض کرتا ہوں۔

اولا آپ سوچتے ہیں کہ بچے کا نام ولادت کے بعد رکھا گیا، حالانکہ ایسا نہیں بلکہ تمام آسمانی کتابوں میں محمد(ص) و علی علیہما الصلوۃ والسلام کے نام نبوت و امامت کے عنوان سے ذکر ہوۓ ہیں کیونکہ ان دونوں بزرگواروں کے نام خداۓ تعالی نے خلقت سے ہزاروں سال قبل رکھے تھے جو تمام آسمانوں، جنت کے دروازون اور عرش الہی پر لکھ دیئے گئے تھے۔ ابوطالب کے زمانے سے اس کا تعلق نہیں۔

شیخ : آیا آپ کا یہ بیان غلو نہیں ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ کو اس قدر اونچا اٹھائیے کہ خلقت خلائق سے پہلے عالم ملکوت میں پیغمبر(ص) کے نام گرامی کے ساتھ ان کا نام بھی درج کردیجئے حالانکہ پیغمبر(ص) کی ذات کے مانند آپ کا نام بھی سب سےبالاتر ہے اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ آپ حضرات کے اسی قسم کے بیانات کا نتیجہ ہے کہ اذان و اقامت میں آپ کے فقہائ کے فتوے پر نام پیغمبر(ص) کے بعد علی کا نام واجب سمجھ کے لیا جاتا ہے۔

خیر طلب: ( مسکرتے ہوئے) نہیں جناب، میرے اس بیان کو قطعا غلو سے کوئی ربط نہیں ہے۔ اور ملکوت اعلی میں اس نام مبارک کو میں نے لکھا بھی نہین ہے جو آپ مجھ سے منسوب کر رہے ہیں، بلکہ خود خداۓ تعالی نے اپنے اور اپنے رسول کے نام کے ساتھ آپ کا نام لکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کی متعبر کتابوں کے اندر اس بارے میں کافی روایتیں موجود ہیں۔

۲۱۵

شیخ : حیرت ہے کہ آپ نے تو غلو کو ایک درجہ اور بڑھا دیا کہ علی کے نام کو خداۓ عزو جل کے نام سے ملحق کردیا؟ اگر ممکن ہو تو ذرا ان روایتوں میں سے کسی کا حوالہ دیجئے۔

نام خدا و رسول(ص) کے بعد عرش پر علی(ع) کا نام درج ہے

خیر طلب : محمد بن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں بسلسلہ حالات علی علیہ السلام، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب بات62 میں، حافظ ابونعیم نے حلیتہ الاولیائ میں اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ ( مطبوعہ اسلامبول صفحہ238) بات56 حدیث 52 میں ذخائر العقبی امام الحرم احمد بن عبداللہ طبری شافعی سے نقل کرتے ہوۓ ابوہریرہ کی سند سے ( بعض الفاظ کی مختصر الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ) روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"مكتوب‏ على‏ ساق‏ العرش‏: لا إِلهَ إِلَّااللَّهُ وحده لا شريك له، و محمّد عبدي و رسولي أيّدته بعليّ بن ابی طالب"

یعنی ساق عرش پر لکھا ہوا ہے کہ سواۓ وحدہ لاشریک کے کوئی خدا نہیں اور محمد(ص) میرا بندہ اور رسولہے جس کی میں نے علی ابن ابی طالب کے ذریعے تائید کی ہے۔

جلال الدین سیوطی نے خصائص الکبری جلد اول ص10 اور تفسیر درمنثور اوائل سورہ بنی اسرائیل میں ابن عدی اور ابن عساکر سے نقل کیا ہے اور انہوںنے انس ابن مالک سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا، میں نے ساق عرش پر لکھا ہوا دیکھا۔

« لا إله إلّا اللّه محمّد رسول اللّه أيّدته بعليّ"

( یعنی سوا اللہ کے کوئی خدا نہیں) محمد اللہ کے رسول ہیں، میں نے علی(ص) کے ذریعے ان کی حمایت کی ہے۔(مترجم12)

ینابیع المودۃ ص207 میں ذخائر العقبی امام الحرم سے بروایت سیرت ملا منقول ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا، شبِ معراج جب مجھ کو ملکوت اعلی میں لے گئے تو:

" نظرت الی ساق الایمن من العرش فرایت مکتوبا محمد رسول اللّه ایدته بعلی ونصرته به"

یعنی میں نے داہنی جانب ساق عرش پر نظر کی تو دیکھا کہ لکھا ہوا ہے، محمد اللہ کے رسول(ص) ہیں میں نے علی کی ذات سے انکی تائید ونصرت کی ہے۔

نیز ینابیع المودت ص234 حدیث نمبر19 میں کتاب السبعین امام الحرم سے بحوالہ مناقب فقیہ واسطی ابن مغازلی شافعی میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودت القربی مودت ششم میں دو حدیثیں، خطیبخوارزمی نے مناقب میں، ابن شیرویہ نے فردوس میں اور ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں سب نے جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"مكتوب‏ على‏ باب‏ الجنّة، لا إله إلّا اللّه محمّد رسول اللّه، عليّ أخو رسول اللّه قبل أن تخلق السّماوات و الأرض بألفي عام"

یعنی

۲۱۶

۲۱۷

۲۱۸

یعنی پس درخت کے نیچے سے ان کو آواز دی کہ غم نہ کرو کیونکہ خدا نے تمہارے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری کردیا ہے اور اپنی طرف درخت خرما کی شاخ کو حرکت دو تاکہ تمہارے لئے تازہ خرمے گریں پس ان کو کھاؤ اور پانی پیو اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھو، اور اگر کسی آدمی کو دیکھو کہ (اشارے سے) کہو کہ میں نے خدا کے لئے ( خاموشی کے ) روزے کی نذر کی ہے۔ لہذا آج کسی شخص سے بات نہیں کروں گی۔) پس جس طرح وحی یا منادی کی آواز کے ذریعے شہد کی مکھی او نو خابذ مادر حضرت موسی اورمریم مادر حضرت عیسی کو ہدایت دی ہے حالانکہ ان میں سے کوئی پیغمبر نہیں تھا، اسی طرح جناب ابوطالب کو بھی اپنے فرزند کا نام رکھنے کے لیے ہدایت دی۔

نیز کسی نے یہ نہیں کہا کہ جناب ابوطالب پیغمبر تھے یا ان پر وحی نازل ہوئی بلکہ نداۓ آسمانی اور ایک لوح کے نزول سے جس میں نوزائیدہ بچے کا نام رکھنے کی ہدایت درج تھی ان کی رہنمانی کی گئی، چنانچہ خود آپ کے اکابر علمائ نے اس کو اپنی معتبر کتابوں میں تحریر کیا ہے۔

نام علی(ع) کے لئے ابوطالب(ع) پر لوح کا نزول

میر سید علی ہمدانی فقیہ شافعی نے مودۃ القربی کی مودت ہشتم میں بروایت عباس ابن عبدالمطلب جس کو سلیمان بلخی حنفی نے بھی ینابیع المودت باب56 میں نقل کیا ہے، اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے سو100 باب کےبعد باب7 میں الفاظ کے مختصر اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جب علی علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو آپ کی ماں فاطمہ نے اپنے باپ کے نام پر آپ کا نام اسد رکھا۔ جناب ابوطالب اس نام پر راضی نہیں ہوۓ اور فرمایا کہ فاطمہ آؤ آج رات کو ہم لوگ کوہ قبیس پر چلیں ( بعض نے کہا ہے کہ فرمایا مسجد الحرام میں چلیں) اور خدا سے دعا کریں شاید وہ ہم کو اس بچے کے لئے کسی نام کی خبر دے، جب رات ہوئی تو دوںوں کوہ ابوقبیس پر( یا مسجد الحرام میں) پہنچ کر دعا میں مشغول ہوۓ اور جناب ابوطالب نے دعا کو نظم کر کے اس طرح کہا:

يا ربّ‏ هذا الغسق‏ الدجيّ‏ و القمر المبتلج المضيّ‏

بيّن لنا من(عن)امرك الخفی(لمقضيّ)‏ما ذا ترى في اسم ذا الصبيّ؟

لما تسمی لذاک العبی

۲۱۹

یعنی اے اس اندھیرے رات اور روشن ومنور چاند یا صبح کے پروردگار! اپنے امر پہناں یا اپنی مرضی سے ہم پر ظاہر کردے کہ تو اس بچے کا نام کیا تجویز کرتا ہے؟ اس وقت آسمان کی طرف سے ایک آواز آئی، ابوطالب نے سر اٹھایا تو زبرجد سبز کے مانند ایک لوح نظر آئی جس پر چار سطریں لکھی ہوئی تھیں، انہوں نے لوح کو لے کر اپنے سینے سے لگایا اور پڑھا تو یہ اشعار درج تھے:

خُصِّصْتُمَا بِالْوَلَدِ الزَّكِيِ‏ وَ الطَّاهِرِ الْمُنْتَجَبِ الرَّضِيِ‏

واسْمُهُ مِنْ قاهِرِالعَلِيٍ‏ عَلِيٌّ اشْتُقَّ مِنَ الْعَلِيِ‏

یعنی میں نے تم دنوں کو پاک و پاکیزہ اور منتخب و پسندیدہ فرزند کے ساتھ مخصوص کیا۔ اس کا نام خداۓ علی کی جانب سے علی(ع) رکھا گیا ہے جو علی اعلیٰ سے مشتق ہے۔

گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں نقل کیا ہےکہ ایک آواز آئی جس نے ابوطالب کے جواب میں ی دو شعر سناۓ

یا اهلبیت المصطفی النبیخصصتم بالولدالزکی

ان اسمهم نشامخالعلیعلیاشتق من العلی

یعنی اے برگزیدہ پیغمبر کے گھر والوں میں نے ایک پاک و پاکیزہ بچے سے تم کو خصوصیت دی۔ یقینا اس کا نام خداۓ بزرگ و برتر کی طرف سے علی رکھا گیا ہے جو اس کے نام"علی" سے مشتق ہے۔

"سرّ ابوطالب سرورا عظيما وخر ساجد الله تبارک وتعالیٰ"

یعنی پس ابوطالب کو انتہائی مسرت و شادمانی حاصل ہوئی اور خداۓ عزوجل کے لئے سجدے میں گر پڑۓ۔

اس کے بعد اس امر عظیم کے شکرانے میں دس اونٹ قربانی کئے اور اس لوح کو مسجد الحرام میں لٹکا دیا بنی ہاشم اس لوح کی وجہ سے قریش پر فخر کرتے تھے اور وہ اسی طرح رہی یہاں تک کہ عبداللہ ابن زبیر سے حجاج کی جنگ کے زمانے میں غائب ہوگئی۔

یہ روایت بھی مذکورہ بالا روایتوں اور دلیلوں کیتائید کرتی ہے کہ ابوطالب ہمیشہ سے موحد اور با ایمان تھے چنانچہ اسی بنا پر خدا سے نام معین کرنے کا سوال کیا اورجس وقت رحمت الہی کا ایسا فیضان دیکھا تو خاک پر گر پڑے اور خداۓ وحدہ لاشریک کا سجدہ بجالاۓ۔ آیا ایسا شخص جو ایک جدید نعمت سےسر فراز ہوتے ہی خاک پر گر کے خدا کا سجدہ ادا کرے اس کو مشرک کہا جاسکتا ہے؟ خدا کی پناہ اس جاہلانہ تعصب وعناد سے۔

علی(ع) کا نام اذان و اقامت کا جزئ نہیں ہے

آپ نے جو یہ فرمایا کہ شیعہ فقہا کے فتوے سے اذان و اقامت میں علی علیہ السلام کا نام لینا واجب سمجھا جاتا ہے

۲۲۰