پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور20%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316865 / ڈاؤنلوڈ: 7971
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

تو یہ آپ کا جان بوجھ کے انجان بننا ہے، بہتر ہوتا کہ آپ ایسے کسی ایک ہی فتوے کا پتہ دیتے جس میں حضرت کے نام کو اذان و اقامت کا جزئ کہا گیا ہو۔ در آں حالیکہ ساری استدلالی کتابوں اور عملیہ رسالوں میں تمام شیعہ فقہائ نے بالاتفاق یہی بیان کیا ہے کہ ولایت حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شہادت جزئ ایمان نہیں ہے اور اس کو اذان واقامت میں بقصد جزئیت کہنا حرام ہے، اگرنیت کے وقت مجموعی طور پر حضرت کے نام کےساتھ قصد کیا جاۓ تو نہ صرف یہ کہ فعل حرام ہوگا بلکہ عمل بھی باطل ہو جاۓ گا۔ البتہ رسول (ص) خدا کا نام ذکر کرنے کے بعد بغیر قصد جزئیت کے تیمن و تبرک کی نیت سے علی علیہ السلام کا نام لینا مطلوب و مستحسن ہے، اس لئے کہ خدا نے ہر مقام پر پیغمبر(ص) کے نام کے بعد آپ کا نام لیا ہے، جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے۔ پس آپ حضرات بلاوجہ شور و ہنگامہ مچاتے ہیں۔ غالبا اسی قدر کافی ہوگا لہذا ہم پھر اصل مطلب پر آتے ہیں کہ اگر آپ حضرات ذرا گہری نظر ڈالیں تو ثابت ہوگا کہ نسل و نسب کے اعتبار سے صحابہ کبار میں سے ایک بھی امیرالمومنین علی علیہ السلام کا مثل نہیںتھا۔

علی علیہ السلام کا زہد و تقویٰ

رہا زہد و تقوی اور پرہیزگاری کا موضوع تو یہ حضرت کی وہ خصوصیت ہے جس میں عالم کے اندر کوئی دوسرا آپ کی برابری نہیں کہ سکتا، کیونکہ امت کے اندر دوست دشمن سبھی کا اجماع ہے کہ رسول خدا(ص) کے بعد کوئی امیرالمومنین سے زیادہ عابد و زاہد اور متقی شخص نہیں دیکھا گیا، چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور محمد ابن طلحہ شافعی مطالب السئول میں بنی امیہ کی مشہور فرد عمرابن عبدالعزیز سے نقل کرتے ہیں کہ آپ پرہیزگاری میں اپنے زمانے کے سارے انسانوں سے بلند و ممتاز تھے، وہ کہتے ہیں:

"مَا عَلِمْنَا أَحَداً كَانَ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ النَّبِيِّ أَزْهَدَ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ."

یعنی ہم نہیں جانتے کہ رسول خدا(ص) کے بعد اس امت میں کوئی شخص علی ابن ابی طالب سے زیادہ زاہد و پرہیزگار رہا ہو۔

ملا علی توشطی اپنے انتہائی تعصب کے با وجود اپنی کتاب کے اکثر مقامات پر کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کے بارے میں عقلمندوں کی عقلیں مبہوت ہیں کیونکہ آپ نے پچھلے اور اگلے لوگوں کے کارناموں پر خط نسخ کھینچ دیا اور شرح تجرید میں کہتے ہیںکہ انسان علی علیہ السلام کے حالات اور طریقہ زندگی کو سن کر دم بخود ا ور حیران رہ جاتا ہے۔

عبداللہ بن رافع کی روایت

من جملہ عبداللہ رافع کی روایت ہے کہ ایک روز میںافطار کے وقت امیرالمومنین علیہ السلام کے یہاں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت کے سامنے ایک سر بہر کیسہ لایا گیا، جب آپ نے اس کو کھولا تو اس میں بغیر چھنا ہوا آٹا تھا جس میں کافی بھوسی ملی تھی۔

۲۲۱

آپ نے اس میں سے تین مٹھی آٹا لے کرنوش فرمایا اور اوپر سے ایک گھونٹ پانی پی کر شکر خدا بجا لاۓ۔ مین نے عرض کیا کہ یا اباالحسن آپ نے تھیلی کے منہ پر مہرکس لئے لگائی ہے؟ فرمایا اس لئے کہ حسنین (علیہما السلام) چونکہ مجھ سے محبت کرتے ہیں لہذا ہوسکتا ہے کہ اس میں روغن زیتوں یا شیرینی شامل کردیں اور علی کا نفس اس کا کھانے سے لذت حاصل کرے۔

بدیہی چیز ہے کہ دنیا کی مباح لذتوں میں بھی نفس کو آزادی دینے سے رفتہ رفتہ بغاوت وسرکشی پیدا ہوتی ہے جو آدمی کو خدا کی یاد سے غافل کردیتی ہے۔

علی علیہ السلام اپنے نفس کو اسی بنا پر لذیذ غذاؤں سے باز رکھتے تھے تاکہ نفس کا غلبہ نہ ہوجاۓ اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۵۱ میں اس روایت کو احنف بن قیس سے نقل کیا ہے۔

سوید بن غفلہ کی روایت

نیز شیخ نے ینابیع المودت میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں اور طبری نے اپنیتاریخ میں سوید بن غفلہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں میں ایک روز امیرالمومنین کی خدمت میں مشرف ہوا تو دیکھا کہ ایک ایسے کھٹے دودھ کا پیالہ حضرت کے سامنے رکھا ہوا ہے کہ اس کی ترشی کی بو میری ناک تک آرہی تھی اور ایک بھوسی ملی ہوئی سوکھی روٹی دست مبارک میں ہے جو اس قدر خشک ہے کہ توڑے نہیں ٹوٹتی۔ حضرت اس کو زانوۓ مبارک سے دبا کرتوڑتے تھے اور اس کھٹے دودھ میں نرم کر کے تناول فرماتے تھے، مجھ کو کھانے کی دعوت دی تو میں نے عرض کیا کہ میں روزے سے ہوں، فرمایا، میں نے اپنے حبیب حضرت رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ جو شخص روزے سے ہو اور کسی کھانےکی طرف رغبت کرے پھر خدا کے لئے اس کو نہ کھاۓ تو خدا اس کو بہشت کے کھانے کھلاۓ گا۔

سوید کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی حالت پر میرا دل تڑپ اٹھا۔ میں نے حضرت کی خادمہ فضہ سے جو میرے قریب ہی تھیں کہا کہ تم خدا سے نہیں ڈرتیں جو بغیر جو کی بھوسی نکالے ہوۓ روٹی پکاتی ہو؟ فضہ نے کہا خدا کی قسم خود حضرت نے حکم دیا ہے کہ بھوسی نہ نکالی جاۓ۔

حضرت نے فرمایا تم فضہ سے کیا کہہ رہے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ کہا تھا کہ آٹے کی بھوسی کیوں نہیں نکالتیں؟ حضرت نےفرمایا میرے ماں باپ فدا ہوں رسول اللہ(ص) پر کہ آں حضرت(ص) بھوسی الگ نہیں فرماتے تھے اور کبھی تین روز تک برابر گیہوں کی روٹی سے سیر نہیں ہوۓ یہاں تک کہ دنیا سے اٹھ گئے (یعنی میں رسول خدا(ص) کی تاسی کرتا ہوں)

۲۲۲

علی علیہ السلام کا حلوا نہ کھانا

موفق بن احمد خوارزمی اور ابن مغازلی فقیہ شافعی ا پنےمناقب میں نقل کرتے ہیں کہ خلافت ظاہری کے زمانے میں ایک روز علی علیہ السلام کے لئے عمدہ حلوا لایا گیا، آپ نے انگشت مبارک سے تھوڑا سا اٹھا کر سونگھا اور فرمایا کس قدر خوش رنگ اور خوشبودار ہے لیکن علی اس کے مزے سے واقف نہیں( مطلب یہ کہ میں نے اب تک حلوا کھایا ہی نہیں) میں نے عرض کیا یا علی(ع)، کیا حلوا آپ کے لئے حرام ہے؟ فرمایا حلال خدا حرام نہیں کرتا لیکن میں خود اپنا شکم کیوں کر سیر کروں جب کہ ملک میں بہت سے بھوکے پیٹ والے بھی موجود ہیں۔

" ایت بطنا فاوحول الحجاز بطون عوثی و اکباد حرا و کیف ارضی بان اسمی امیرالمومنین ولا اشارکهم فی خشونةالعسروشدائدالضروالبلوی"

یعنی کیا میں شکم سیر ہو کر سوؤں حالانکہ اطراف حجاز میں گرسنہ پیٹ اور بھنتے ہوۓ جگر موجود ہیں؟ میں کس طرح رضامند ہوں اس پر کہ میرا نام امیرالمومنین ہو اور عسرت کی سختی اور رنج و بلا کے شدائد میں ان کا شریک نہ بنوں؟

نیز خوارزمی عدی بن ثابت سے نقل کرتے ہیں کہ ایک روز آپ کے لئے فالودہ لایا گیا لیکن آپ نے اپنے نفس کو دبا دیا اور اس کو نوش نہیں فرمایا۔

یہ ہیں حضرت کی خوارک کے نمونے کہ کبھی سرکہ کبھی نمک کبھی تھوڑی سبزی اور کبھی دودھ کے ساتھ جو کی سوکھی ہوئی روٹی تناول فرماتے تھے اور کسی وقت ایک دسترخوان پر دو قسم کی غذائیں مہیا نہیں فرماتے تھے۔ سنہ ۴۰ ہجری میں ماہ رمضان المبارک کی انیسویں شب جس میں عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کے ہاتھ سے حضرت کو ضربت شہادت لگی، آپ افطار کے لئے اپنی بیٹی ام کلثوم کے مہمان تھے دسترخوان پر روٹی و دودھ اور نمک رکھا گیا تو باوجودیکہ اپنی بیٹی ام کلثوم کو انتہائی عزیز رکھتے تھے حضرت نے غصے کے ساتھ فرمایا کہ میں نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ کوئی لڑکی اپنے باپ پرتمہاری طرح جفا کرے۔ام کلثوم نے عرض کیا کہ بابا میں نے کون سی جفا کی ہے؟ فرمایا تم نے کب دیکھا ہے کہ تمہارا باپ ایک دسترخوان پر دو طرح کی غذائیں جمع کرے؟ پھر حکم دیا کہ دودھ اٹھا لیا جاۓ کیوں کہ وہ زیادہ لذیذ تھا، اور روٹی کے چند لقمے نمک کے ساتھ تناول فرماۓ اس کے بعد ارشاد فرمایا:

"في‏ حلال‏ الدنيا حساب و في حرامها عذاب عقاب "

یعنی دنیا کے حلال میں حساب اور اس کے حرام میں عذاب وعقاب ہے۔

علی علیہ السلام کا لباس

حضرت کا لباس بھی بہت سادہ اور کم قیمت ہوتا تھا۔ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، ابن مغازلی فقیہ شافعینے

۲۲۳

مناقب میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ میں اور آپ کے دیگر علمائ نے لکھا ہے:

"و کان علیهإزار غليظ اشتراه بخمسة دراهم، "

یعنی آپ کا لباس موٹے کپڑے کا تھا جو آپنے پانچ درہم میں خریدا تھا۔

جہاں تک ممکن ہوتا تھا آپ اپنے لباس میں پیوند لگاتے رہتے تھے اور زیادہ تر پیوند چمڑے یا خرمے کی چھال کے ہوتے تھے۔ حضرت کی کفش لیف خرما کی ہوتی تھی۔ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے لباس میں اتنے پیوند لگاۓ تھے کہ حضرت کی خلافت و ریاست ظاہری کے زمانے میں اس کو دیکھ کر آپ کے ابن عم عبداللہ ابن عباس کو صدمہ ہوا تو آپ نے فرمایا :

"لقد رفعت مرقعةحتی استحییت من راقعه امالعلی من زینةالدنیاکیف نفرح بلذة تفنی ونعیم لایبقی"

میں نے اس قدر پیوند کے اوپر پیوند لگواۓ ہیں کہ مجھ کو پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے۔ علی کو زینت دنیا سے کیا کام؟ میں کیونکر خوش ہوں اس لذت پر جو مٹ جاۓ گی اور اس نعمت پر جو باقی نہ رہے گی۔

ایک اور شخص نے حضرت پر اعتراض کیا کہ آپ ریاست وخلافت کے زمانے میں بھی کس لئے پیوند دار کپڑے پہنتے ہیں جس سے دشمن آپ کو حقیر سمجھتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ یہ وہ لباس ہے جو دل کو دباتا ہے، غرور کو انسان سے دور کرتا ہے اور مومن اس کی اقتدا کرتا ہے۔

نیز محمد بن طلحہ نے مطالب السئول میں، خوارزمی نے مناقب میں، ابن اثیر نے کامل میں اور سلیمانبلخی نے ینابیع المودۃ میں روایت کی ہے کہ علی علیہ السلام اور ان کے غلام کا لباس یکساں ہوتا تھا۔ آپ ایک نمونے اور ایک ہی قیمت کے دو کپڑے خریدتے تھے۔ ایک خود پہنتے تھے اور دوسرا اپنے غلام قنبر کو دےدیتے تھے۔ یہ تھی حضرت علی علیہ السلام کی خوراک و پوشاک کی مختصر کیفیت جس کو آپ کے علمائ نے بھی درج کیا ہے، اور میں نے وقت جلسہ کے لحاظ سے اختصار کی کوشش کی ہے ورنہ حضرت کے مفصل حالات محیرالعقول ہیں۔ حضرت جو کی خشک روٹی خود کھاتے تھے اور گیہوں کی روٹی شکر شہد اور خرما فقیروں، یتیموں اور محتاجوں کو کھلاتے تھے، خود پیوند دار لباس پہنتے تھے لیکن یتیموں اور بیواؤں کو نفیس کپڑے پہناتے تھے۔

معاویہ سے ضرار کی گفتگو

حضرت کے زہدو تقوی اور دنیا سے بے اعتنائی کے ثبوت میں آپ کا وہ کلام کافی ہے جس کے سامنے دنیاۓ دنی سے کسی اور کا خطاب نہیں ٹھہر سکا۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح النہج البلاغہ میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیائ جلد اول ص۸۴ میں، شیخ عبداللہ بن عامر شیراذی شافعی نے کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص۸ میں، محمد بن طلحہ نے مطالب السئول ص۳۳میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص۱۲۸ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۵۱ میں، سبط ابن جوزی

۲۲۴

نے تذکرۃ الخواص الامہ آخر باب۵ میں اور آپ کے دوسرےبڑے بڑے علمائ مورخین نے ضرار بن ضمرہ کے ساتھ معاویہ کے جو مفصل مذاکرات نقل کئے ہیں ان میں ضرار نے معاویہ کے سامنے آخر گفتگو میں علی علیہ السلام کی تعریف اس طرح کی ہے:

" لقد رأيته‏ في‏ بعض‏ مواقفه و قد أرخى الليل سدوله و غارت نجومه قابض على لحيته يتململ تململ السقيم و يبكي بكاء الحزين و يقول يَا دُنْيَا غُرِّي غَيْرِي أَ بِي تَعَرَّضْتِ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ طَلَّقْتُكِ ثَلَاثاً لَا رَجْعَةَ لِي فِيكِ فَعُمُرُكِ قَصِيرٌ و خطرک کبیر وَ عیشک حَقِيرٌ آهِ مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وَ بُعْدِ السَّفَرِ وَ وَحْشَةِ الطَّرِيقِ فبکی معاوية و قال رحم الله اباالحسن لقد كان و الله كذلك "

یعنی میں نے بعض مواقع پر علی علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی چھائی ہوئی ہے، ستارے چھٹکے ہوۓ ہیں اور آپ اپنی ریش مبارک کو پکڑے ہوۓ مارگزیدہ کے مانند تڑپ رہے ہیں اور بہت کرب کے ساتھ رو رو کر کہہ رہے ہیں کہ اے دنیا میرے علاوہ کسی اور کو فریب دے، کیا تو مجھ سے لپٹتی ہے اور میری طرف راغب ہے؟ تو یہ بات کو سوں دور ہے، میں نے تجھ کو تین طلاق دۓ ہیں جس کے بعد پھر رجوع نہیں ہوسکتا ہے، کیوں کہ تیری عمر کوتاہ، تیرا خطرہ بہت بڑا اور تیرا عیش بہت ذلیل ہے فریاد ہے زاد راہ کی کمی ہے، سفر کی دوری سے اور راستے کی وحشت سے۔ پس معاویہ نے رونا شروع کیا اور کہا خدا رحم کرے ابوالحسن (علی) پر واللہ یقینا وہ ایسے ہی تھے۔

دوسرے مقام پر معاویہ ہی کا قول ہے" عقمت‏ النساء أن يلدن مثل علي ابن ابی طالب" یعنی عورتیں علی ابن ابی طالب ایسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔

زہد کے لئے علی علیہ السلام کو پیغمبر(ص) کی بشارت

امیرالمومنین علیہ السلام کا زہد فیوض ربانی میں سے ایک ایسا فیض ہے جس کی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو بشارت دی ہے۔چنانچہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۴۶ میں عمار یاسر سے ایک روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے حضرت رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ علی علیہ السلام سے فرمایا:

"إن اللّه قد زيّنك‏ بزينة لم يزيّن العباد بزينة أحبّ الى اللّه الزهد في الدنيا و جعلك لا تفال من الدنیا شيئا، و لا تنال الدنیا منک شیئاو وهب لك حبّ المساكين، فرضوا بک اماما و رضیت اتباها فطوبی لمن احبک و صدق فیکو ويل لمن أبغضك و كذب عليك، فأما الذین أحبّوك و صدقوا فيك، فاولئك جيرانك في دارك و رفقائک فی قصرک، وأما الذینأبغضوك و كذبوا عليك، فحقّ على اللّه أن يوقفهم موقف الكذابين یومالقیمة."

یعنی در حقیقت خداوند عالم نے تم کو اس زینت سے آراستہ کیا ہے کہ بندوں میں کسی اور کو ایسی زینت سے نہیں سنوارا جو خدا کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہو، اور وہ ہے زہد فی الدنیا۔ تم کو ایسا بنا دیا کہ نہ تم دنیا سے

۲۲۵

بہرہ اندوز ہوتے ہو نہ دنیا تم کو اپنے سے وابستہ کرسکتی ہے۔ تم کو مسکینوں اور محتاجوں کی محبت عطا کی پس وہ تمہاری امامت پر راضی ہوۓ اور میں بھی ان سے تمہاری پیروی کی وجہ سے رضامند ہوا۔ پس خوشا حالی اس کا جس نے تم کو دوست رکھا اور تمہاری تصدیق کی، اور واۓ ہو اس کے لئے جو تم سے دشمنی رکھے اور تمہاری تکذیب کرے۔ جن لوگوں نے تم سے محبت رکھی اور تمہاری تصدیق کی وہ جنت میں تمہارے پڑوسی اور تمہارے قصر میں تمہارے مصاحب ہوں گے، اور جن لوگوں نے تم کو دشمن رکھا اور تم کو جھٹلایا تو خدا پر لازم ہے کہ قیامت کے روز ان کو جھوٹوں کی منزل پر ٹھہرا کر کیفر کردار کو پہنچاۓ۔

آپ زہد و روع اور پرہیزگاری میں اس قدر کامل تھے کہ دوست و دشمن سبھی آپ کو امام المتقین کہتے تھے۔ اور صرف لوگوں ہی نے آپ کو امام المتفقین کا لقب نہیں دیا تھا بلکہ جس نے سب سے علی(ع) کو اس لقب سے پکارا اور آپ کو باربار اس لقب کے ساتھ امت میں روشناس کرایا وہ حضرت خاتم الانبیائ(ص) کی مقدس ذات تھی، چونکہ وقت تنگ ہے اور تفصیل سے روایتیں پیش کرنے کا موقع نہیں ہے، لہذا صرف نمونے کے لئے چند حدیثوں پر اکتفا کرتا ہوں۔

خدا و رسول(ص) نے علی(ع) کو امام المتقین فرمایا

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۴۵۰ میں، حافظ ابونعیم اصفہانی حلیتہ الاولیائ میں، میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب۵۴ میں انس ابن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اکرم(ص) نے مجھ سے فرمایا اے انس میرے واسطے وضو کا پانی لے آؤ، میں اٹھ کر پانی لایا تو آں حضرت(ص) وضو کر کے دو رکعت نماز بجالاۓ۔ اس کے بعد مجھ سے فرمایا اے انس:

"‏ أول‏ من‏ يدخل‏ من‏ هذا الباب هو إمام المتقين، و سيد المسلمين، و يعسوب المؤمنين، و خاتم الوصيين، و قائد الغر المحجلين"

پہلا جو شخص اس دروازے سے داخل ہو وہ اہلِ تقوے کا امام، مسلمانوں کا سردار، مومنین کا بادشاہ( جس طرح شہد کی مکھیوں کا بادشاہ یعسوب ہوتا ہے) اوصیائ کا خاتم اور روشن چہروں اور ہاتھوں والے لوگوں کو (جنت کی طرف) لے جانے والا ہے۔

انس کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا خداوند اس آنے والے کو اںصار میں سے قرار دے، لیکن اپنی دعا کو پوشیدہ رکھا۔ اتنے میں دیکھا کہ علی(ع) دروازے سے داخل ہوۓ۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کیا علی ابن ابی طالب ہیں پس آنحضرت(ص) نے ہنسی خوشی کے ساتھ اٹھ کر علی(ع) کا استقبال کیا، ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور ان کے چہرے سے پسینہ پونچھا۔ علی(ع) نے عرض کیا رسول اللہ(ص) آج مجھ سے وہ برتاؤ کر رہے ہیں جو پہلے نہیں کرتے تھے؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا کیونکر نہ کروں در آں حالیکہ تم میری جانب سے میری رسالت کو امت والوں تک پہنچاؤگے، میری آواز ان کو سناؤگے اور میرے بعد وہ جس چیز میں اختلاف کریں گے ان کے سامنے اس کی وضاحت کرو گے۔

۲۲۶

نیز ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد دوم میں اور حافظ ابونعیم حلیتہ الاولیائ میں نقل کرتے ہیں کہ ایک روز علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے پاس حاضر ہوۓ تو آں حضرت نے فرمایا :مرحبابسید المسلمین و امام المتقین (یعنی خوش آمدید ہے مسلمانوں کے سردار اور پرہیزگاروں کے امام کو۔ ۱۲ مترجم) پھر فرمایا کہ اس نعمت پر تمہارا شکر کیسا ہے؟ عرض کیا کہ میں حمد کرتا ہوں خدا کی اس نعمت پر جو مجھ کو عنایت کی ہے اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ مجھ کو شکر کیتوفیق عطا فرماۓ اور جو کچھ مجھ پر انعام فرمایا ہے اس میں اضافہ کرے۔ محمد بن طلحہ شافعی بھی مطالب السئول باب اول فصل چہارم کے آخر میں اس حدیث کو نقل کرتے ہیں اور اسی دلیل سے اہل تقوی پر حضرت کی امامت اور برتری کو ثابت کرتے ہیں۔

حاکم مستدرک جزئ سیم ص۱۳۸ میں اور بخاری و مسلم اپنی صحیحیں میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا علی(ع) کے بارے میں مجھ پر تین چیزوں کی وحی ہوئی۔

"انه سيد المسلمين،و إمام المتقين، و يعسوب المؤمنين، و قائد الغر المحجلين"

یعنی در حقیقت وہ مسلمانوں کے سید و آقا، اہل تقوےٰ کے پیشوا اور روشن چہرے اور ہاتھ والوں کو ( بہشت کی طرف) کھینچنے والے ہیں۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۴۵ میں سند کے ساتھ عبداللہ بن اسعد بن زرارہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا، شب معراج جب مجھ کو آسمان پر لے گئے تو موتی کے ایک قصر میں پہنچایا، جس کا فرش چمکتے ہوۓ سونے کا تھا:

" فأوحي إلى في علي بثلاث خصال بأنه سيد المسلمين و إمام المتقين و قائد الغر المحجلين"

یعنی پس میری طرف وحی کی اور مجھ کو علی کے بارے میں تین خصلتوں کی ہدایت کی کہ وہ یقینا مسلمانوں کے سیدو سردار، اہل تقوی کے امام و پیشوا اور روشن چہرے اور ہاتھوں والوں کو ( جنت کی طرف) کھینچنے والے ہیں۔

اور امام احمد بن حنبل مسند میں نقل کرتے ہیں کہ ایک روز رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے خطاب فرمایا:

" يا علي، النظر علی وجهک عبادةانک امام المتقین و سید المؤمنینمن‏ احبك‏ فقد احبني‏، و من احبنيفقد احب اللّه و من ابغضک فقد ابغضني، و من ابغضنيفقد أبغض اللّه "

یعنی اے علی(ع) تمہارے چہرے پر نظر کرنا عبادت ہے یقینا تم صاحبان تقوی کے امام او مومنین کے سردار ہو جو شخص تم کو دوست رکھے اس نے در حقیقت مجھ کو دوست رکھا اور جو شخص مجھ کو دوست رکھے اس نے در اصل خدا کو دوست رکھا۔ اور جو شخص تم سے دشمنی رکھے اس نے حقیقتا مجھ سے دشمنی رکھی اور جس نے مجھ سے دشمنی رکھی اس نے یقینا خدا سے دشمنی رکھی۔

یہ صحیح ہے کہ ذلیل اور بے عقل اور خوشامدی لوگ اور اکثر بے بصیرت اشخاص بعض افراد کا بے جا القاب و آداب اور غلط تعریف و توصیف کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جیسا کہ اکثر سلاطین و امرا اور وزارائ و خلفائ کے بارے میں کہا گیا ہے اور ارباب تواریخ نے بھی اس کو درج کیا ہے لیکن رسول خدا(ص) جیسی ہستی سے جو حق و حقیقت کا مجسمہ تھی ایک لمحے کے لئے بھی اس کی توقع نہیں ہوسکتی کہ آپ کسی شخص کو ایسے لقب یا صفت کے ساتھ یاد کریں گے جو اصلیت سے دور ہو بلکہ صاحب وحی کی زبان مبارک پر جو کچھ بھی جاری ہوجاۓ وہ یقینا عین حقیقت اور بمصداق آیہ شریفہ:

" وَ ما يَنْطِقُ‏ عَنِ الْهَوى‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحى‏"

۲۲۷

یعنی وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ بولتے ہی نہیں، وہ جو کچھ کہتے ہیں خالص وحی الہی ہوتی ہے۔

وحی مطلق، بالخصوص جب خودہی یہ فرمائیں کہ پروردگار نے شب معراج مجھ کو وحی فرمائی اور حکم دیا کہ علی کو امام المتقین کہوں۔

پس امیرالمومنین علی علیہ السلام کی عظمت و فضیلت اور تقوی کی تعریف میں یہی کافی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے خدا کے حکم سے آپ کو ایسی خصوصیت کے ساتھ مخصوص فرمایا جو کسی دوسرے صحابی کو نصیب نہیں ہوئی۔ تمام صحابہ کے نزدیک آپ کو امام المتقین قرار دیا۔ اور باربار اس لقب سے مخاطب فرمایا امام کو قطعا مکمل طور پر متقی ہونا چاہئیے تاکہ اہل تقوی کا پیشوا بن سکے، اس لئے کہ امام کے تقوی کو صاحبان تقوی کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ عمل ہونا چاہیئے۔

اگر میں علی علیہ السلام کے زہد و ورع اور تقوی کے سارے پہلوؤں کو شرح و بسط سے بیان کرنا چاہوں تو پورا دفتر بھی ناکافی ہے۔

شیخ : آپ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں جس قدر فرمائیے کم ہوگا۔ واقعی معاویہ نے سچ ہی کہ ہے کہ دنیا کی عورتیں علی ابن ابی طالب ایسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔

خیر طلب: پس معلوم ہوا کہ کبارصحابہ کے درمیان علی علیہ السلام اہل تقوی کے سرگروہ تھے جن کو رسول اکرم(ص) حضرت خاتم الانبیائ نے خداۓ تعالیٰ کے حکم و ہدایت سے امام المتقین اور پرہیزگاروں کا پیشوا قرار دیا ہے لہذا جس طرح آپ روحانی و جسمانی حیثیت سے نسل و نسب میں ممتاز و مقدم تھے اسی طرح تقوے کی حیثیت سے بھی آپ کو برتری اور حق تقدم حاصل تھا۔

اس جگہ ایک مطلب نظر کے سامنے آگیا ہے، اگر اجازت ہو تو آپ سے ایک بات دریافت کروں؟

شیخ : بہتر ہے، فرمائیے۔

خیر طلب : آیا صحابہ کبار کے درمیان امامت اہل تقوےٰ کی اہلیت رکھنے کے بعد علی علیہ السلام کے لئے آپ نفس پرستی محبت جاہ و منصب اور دنیا طلبی کا شبہ کرتے ہیں؟

شیخ : یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق ایسا خیال پیدا ہو۔ جیسا کہ خود آپ نے فرمایا اور مشہور بھی ہے، جو شخص دنیا کو تین طلاق دے دے اور اس کا اعلان کر کے دنیا سے اپنی بے اعتنائی کو ثابت کر دے وہ کیونکر دنیا کی طرف مائل ہوسکتا ہے؟ اس کے علاوہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا مقام ومرتبہ اس سے بالاتر ہے کہ ہم ان جناب کی طرف ایسی نسبت دیں، بلکہ ایسا کرنا تو درکنار اس چیز کا تصور بھی محال ہے۔

خیر طلب : پس آپ جیسے مجسم تقوی کے سارے اعمال قطعا خدا کے لئے تھے، آپ نے ایک قدم بھی حق کے خلاف نہیں اٹھایا اور جہاں بھی حق نظر آتا تھا آپ بے اختیار اس کا استقبال کرتے تھے۔

شیخ : بدیہی چیز ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ہم کو اس کے خلاف کوئی سراغ نہیں ملتا۔

۲۲۸

حقیقت پسند منصفانہ فیصلہ کریں

خیر طلب: بس اب یہ فرمائیے کہ رسول اللہ صلعم کی وفات کے بعد جب علی علیہ السلام حسب وصیت آں حضرت(ص) کے غسل و کفن اور دفن میں مشغول تھے اور سقیفہ بنی ساعدہ میں چند اشخاص نے جمع ہو کر ابوبکر کی بیعت کر لی اس کے بعد حضرت کو بیعت کے لئے طلب کیا تو آپ نے کس وجہ سے بیعت نہیں کی؟

اگر ابوبکر کا طریقہ خلافت برحق اور مسئلہ اجماع ثابت و مسلم اور حقانیت کی دلیل تھا تو قاعدے کے لحاظ سے اس قدر شدید تقوی و پرہیزگاری کی موجودگی میں علی علیہ السلام کو ہرگز پہلو تہی اور حق سے انحراف نہ کرنا چاہیئے تھا، اس لئے کہ ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق جہاں حق ہو وہیں علی کو بھی ہونا چاہیئے، ایک طرف توتقوی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ متقی انسان حق سے روگردانی نہ کرے اور دوسری طرف وہ احادیث ہیں جو میں گذشتہ راتوں میں پیش کرچکا ہوں کہ رسول اللہ(ص) نےفرمایا:

" علی مع الحق والحق مع علی حیثما دار"( یعنی علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے جدھر وہ گردش کریں اگروہ اقدامات برحق اور منصب خلافت پر ابوبکر کا تعین صحیح تھا تو چاہیئے تھا کہ حضرت انتہائی رغبت اور پوری دلچسپی کے ساتھ ان لوگوں کا استقبال اور تصدیق کرتے نہ یہ کہ الٹی مخالفت کرتے، پس لامحالہ علی علیہ السلام کی مخالفت دو حال سے خالی نہیں تھی۔ یا تو علی کی روش حق کے خلاف تھی اور آپ نے حکم رسول(ص) سے سرتابی کی کہ خلیفہ پیغمبر(ص) سے بیعت نہیں کی۔ یا پھر آپ اس طرز خلافت اور طریقہ اجماع کو مصنوعی، سیاسی اور حق کے برخلاف سمجھتے تھے اس وجہ سے بیعت نہیں فرمائی۔

پہلی صورت تو حدیث پیغمبر(ص) کے پیش نظر کہ علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ گردش کرتا ہے، نیز اس لئے کہ آپ کو امام المتقین فرمایا۔ اور علی علیہ السلام قطعا اہل دنیا میں سے نہیں تھے، جاہ وہ منصب کی خواہش اور ہوا و ہوس کی آپ کے دل میں کوئی گنجائش نہ تھی، دنیا کو تین طلاق دے چکے تھے اور ریاست ظاہری کے طلب گار نہیں تھے، قطعا نا ممکن ہے۔ لہذا لازمی طور پر دوسری ہی صورت تھی کہ آپ چونکہ اس خلافت کو مصںوعی، سیاسی اور خدا و رسول(ص) کی مرضی کے خلاف جانتے تھے اس وجہ سے بیعت نہیں فرمائی۔

شیخ: آپ تو عجیب بات فرمارہے ہیں کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے بیعت نہیں کی حالانکہ ہماری اور آپ کی تمام کتب اخبار و تواریخ سے ثابت ہے کہ سیدنا علی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور اجماع سے اختلاف نہیں کیا۔

خیر طلب: تعجب تو آپ سے ہے کہ پچھلی گفتگو کو بالکل بھول ہی گئے جس میں میں نے آپ کا اکابر علمائ کے اقوال تفصیل سے پیش کئے تھے۔ یہاں تک کہ بخاری اور مسلم نے بھی اپنی صحیحیں میں میں لکھا ہے کہ علی نے اس وقت بیعیت نہیں کی۔ آپ کے علمائ نے عام طور سے اعتراف کیا ہے کہ روز اول جب حضرت کو جبر و اہانت کے ساتھ گھر سے کھینچتے ہوۓ مسجد میں لے گئے

۲۲۹

( جیسا کہ پچھلی شبوں میں تفصیل سے عرض کیا جاچکا ہے) تو آپ نے بیعت نہیں کی اور اسی طرح واپس آگئے۔ ابراہیم بن سعد ثقفی متوفی سنہ۲۸۳ھ ابن ابی الحدید اور طبری وغیرہ نے لکھا ہے کہ حضرت کی بیعت چھ مہینے بعد ہوئی( یعنی صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد جیسا کہ گذشتہ شبوں میں تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے)

بفرض محال اگر ہم ان بھی لیں کہ حضرت بیعت کر لی تو کم و بیش چھ ماہ تک کیوں تو ؟؟؟؟ کیا اور بیعت نہیں کی؟ بلکہ اس کے خلاف احتجاج بھی کیا؟ حالانکہ علی(ع) جیسے مجسمہ حق و تقوی فرد کو ایک ساعت کے لئے بھی حق سے منحرف ہونا اور اس کو پسِ پشت ڈال دینا مناسب نہیں تھا۔

شیخ : ضرور کوئی وجہ رہی ہوگی، چنانچہ اس موقع پر وہ خود بہتر سمجھتے تھے کہ کیا کرنا چاہیئے۔ اب ہم کو کیا پڑی ہےکہ بزرگوں کے باہمی معاملات ا ور ان کے اختلاف میں تیرہ سو برص کے بعد دخل دیں؟ ( حاضرین کا زور دار قہقہہ)

خیر طلب: میں بھی آپ کے اسی قدر جواب پر قناعت کرتا ہوں، کیوںکہ جب آپ کو اپنا مطلب ثابت کرنے کے لئے کوئی معقول جواب نہیں ملااور گریز و دفاع کا کوئی راستہ نظر نہ آیا تو اس قسم کے جواب کا سہارا لیا۔ لیکن نیک اور اںصاف پسند اشخاص کے نزدیک بات اس قدر واضحاور روشن ہے کہ کسی دلیل و برہان کی محتاج نہیں۔

رہا آپ کا یہ فرمانا کہ بزرگوں کے معاملات اور اختلافات میں ہم دخل دینے کی ضرورت نہیں، تو یقینا جہاں تک ان کا اور ان کے معاملات کا تعلق ہم سے نہیں ہے آپ کا فرمانا درست ہے اور بزرگوں کے اختلاف آرائ میں ہم کو دخل دینے کا حق نہیں ہے لیکن اس موضوع میں خصوصیت کے ساتھ آپ کو دھوکا ہوا ہے، کیونکہ ہر صاحب عقل مسلمان کا فریضہ ہے کہ تقلیدی نہیں بلکہتحقیقی دین رکھتا ہو۔ اور دین میں تحقیق کا راستہ یہی ہے کہ جب ہم جہمور مسلمین کی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ وفات رسول(ص) کے بعد امت اور صحابہ کبار میں دو فرقے ہوگئے تو ہم کو چھان بین کر کے دیکھنا چاہیئے کہ ان دونوں فرقوں میں سے حق پر کون تھا تاکہ ہم اس کی پیروی کریں نہ یہ کہ بربناۓ عادت اور ماں باپ اور اسلاف کی تقلید میں بغیر کسی جانچ پڑتال کے محض اپنے خیال سے کسی راستے کو حق سمجھ کے اندھا دھند اس پر چلنے لگیں۔

شیخ: آپ یقینا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق نہیں تھی۔ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق نہیں تھی اور یہ منصب علی کرم اللہ وجہہ کا حق تھا تو اپنی مخصوص قوت وشجاعت نیز حق و حقیقت کے نفاذ میں پوری دلچسپی رکھنے کے باوجود جب کہ دوسرے لوگ ان کو ترغیب بھی دے رہے تھے حق کو قائم کرنے کے لیے کیوں نہیں اٹھے یہاں تک کہ بقول آپ کے چھ مہینے کے بعد بیعت(۱) بھی کر لی، نماز میں بھی حاضر ہوتے تھے اور مشورہ طلب مواقع پر خلفائ رضی اللہ عنہم کو صائب رائیں بھی دیا کرتے تھے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ یہ خیال در اصل اہل سنت کا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے بیعت کی ہی نہیں جس کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ خلافت کیتیسری منزل میں جب آپ کے سامنے سیرت شیخیں پر عمل کرنے کی شرط رکھی گئی تو باتفاق فریقین آپ نے خلافت ظاہری سے محروم رہنا گوارا کر لیا لیکن اس شرط کو ٹھکرا دیا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص کسی کی بیعت کرچکا ہو وہ اس کی سیرت پر عمل کرنے سے انکار نہیں کرسکتا اور پھر علی(ع) جیسا اپنے فرض اور عہد کا پابند انسان ۱۲ مترجم عفی عنہ۔

۲۳۰

تنہائی کی وجہ سے انبیائ(ع) کا سکوت اور گوشہنشینی

خیر طلب: پہلی چیز تو یہ کہ انبیائ(ع) ا وصیائ مشیت خداوندی اور ہدایات الہی کے مطابق عمل کرتے تھےاور اپنا ذاتی ارادہ نہیں رکھتے تھے لہذا ان کے اوپر اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ جنگ کے لئے کیوں نہیں اٹھے یا دشمنوں کے مقابلہ میں سکوت و گوشہ نشینی کیوں اختیار کی یا شکست کیوں کھائی؟

اگر انبیاۓ عظام اور اصیاۓ کرام کے تاریخی حالات دیکھیئے تو اس قسم کے واقعات کثرت سے ملیں گے جو آپ کے خیالات سے میل نہیں کھاتے۔ خصوصیت کے ساتھ قرآن مجید نے بھی ان میں سے بعض کاذکر

کیا ہے کہ ان حضرات نے ہمراہی اورمددگار نہ ہونے کی وجہ سے خاموشی اور گوشہ نشینی یا روپوشی اور فرار اختیار کیا چنانچہ آیت نمبر۱۰ سورہ نمبر۵۴(قمر) میں شیخ الانبیائ حضرت نوح(ع) کا قول بیان کرتا ہے: "فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي‏ مَغْلُوبٌ‏ فَانْتَصِرْ "( یعنی پس خدا سے دعا کی کہ بار الہا میں ا پنی قوم سے مغلوب ہوں لہذا میری مدد کر) آیت نمبر۴۸ سورہ نمبر۱۶( مریم) میں حضرت ابراہیم علی نبینا و آلہ و علیہ السلام کے سکوت و کنارہ کشی کی خبر دیتا ہے کہ جس وقت انہوں نے اپنے چچا آزر سے امداد مانگی اور مایوس کن جواب پایا تو فرمایا:

"وَ أَعْتَزِلُكُمْ‏ وَ ما تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَ أَدْعُوا رَبِّي "

یعنی میں تم سے اور ان بتوں سے جن کی تم خدا کے علاوہ پرستش کرتے ہو کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں۔

پس جس مقام پر اپنے چچا سے امداد اور کمک نہ ملنے کی وجہ سے ابراہیم خلیل اللہ عزلت وگوشہ نشینی اختیار کریں، وہاں یار و مددگار نہ ملنے کی وجہ سے علی علیہ السلام کو بدرجہ اولی عزلت و کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیئے۔

شیخ: میرا خیال ہے کہ اس عزلت سے مراد عزلت قلبی ہے کہ ان سے قلبا دوری اور بیزاری اختیار کی نہ کہ عزلت مکانی۔

خیر طلب: اگر جناب عالی فریقین کی تفسریں ملاحظہ فرمائیں تو دیکھیں گے کہ اعتزل سے مراد عزلت مکانی تھی نہ کہ عزلت قلبی مجھ کو یاد ہے کہ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد پنجم ص۸۰۹ میں کہتے ہیں:

" الاعزال للشئی هوالتباعدعنه ولمرادانی افارقکم فی المکان وافارقکم فی طریقتکم"

یعنی کسی چیز سے اعتزال کے معنی ہیں اس سے دوری اختیار کرنا، اور حضرت ابراہیم کی مراد یہ تھی کہ میں تم سے مکانی اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے دوری اور علیحدگی اختیار کرتا ہوں۔

۲۳۱

چنانچہ ارباب سیر نے روایت کی ہے کہ اس قضیے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل سے کوہستان فارس کی طرف ہجرت کر گئے اورسات سال تک انہیں پہاڑوں کے اطراف خلقت سے الگ تھلگ زندگی بسر کی، اس کےبعد بابل واپس آکے اپنی تبلیغ شروع کی اور بتوں کو توڑا۔ اس پر لوگوں نے ان کو گرفتار کر کے آگ میں ڈال دیا۔ خداوند عالم نے آگ کو ان پر سرد و سلامتی بنا دیا اور اس طرح ان کی رسالت کا سکہ بیٹھا۔

آیت نمبر۲۰ سورہ نمبر۲۸ (قصص) میں خوف و ہراس کی وجہ سے حضرت موسی علیہ السلام کے فرار کرنے کا قصہ اس طرح نقل فرمایا ہے:

" فَخَرَجَ‏ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ قالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ‏"

یعنی پسموسی خوف کی حالت میں دشمن کی نگرانی کرتے ہوۓ شہر سے باہر نکلے اور کہا خداوندا مجھ کو قوم ستمگار سے نجات دے۔

سورہ اعراف میں حضرت موسی(ع) کی عدم موجودگی میں سامری کے بہکانے سے بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی، اس کی شعبدہ بازی اور حضرت موسی(ع) کے خلیفہ ہونے کے باوجود حضرت ہارون کی خاموشی کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ آیت ۱۴۹ میں خبر دی کہ:

" وَ أَخَذَ بِرَأْسِ‏ أَخِيهِ‏ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي "

یعنی موسی(ع) غصے میں اپنے بھائی کاسرپکڑ کے اپنی طرف کھینچنے لگے تو انہوں نے کہا اے میری ماں کے فرزند ( میری طرف سے ہدایت میں کوتاہی نہیں ہوئی بلکہ) در حقیقت قوم نے مجھ کو حقیر و کمزور بنا دیا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں۔

امر خلافت میں ہارون(ع) سے علی(ع) کی مشابہت

پس آیات قرآنی کے مطابق حضرت ہارون علیہ السلام نے جو پیغمبر اور حضرت موسی علیہ السلام کے منصوص خلیفہ تھے اپنی تنہائی کی وجہ سے اور اسبنا پر کہ امت نے ان کو ضعیف خوار بنا دیا تھا سامری کے عمل شفیع اور لوگوں کے شرک و گوسالہ پرستی کے مقابلے میں سکوت اختیار کیا اور تلوار نہیں اٹھائی۔

لہذا علی علیہ السلامبھی جن کو رسول اللہ(ص)نے ہارون کی شبیہ اور منزلت ہارونی کا حامل بتایا تھا و جیسا کہ ہم گذشتہ شبوں میں تفصیل سے عرض کرچکے ہیں) اس بات کا پورا حق رکھتے تھے کہ جب ایسی صورت حال پیش آجاۓ آپ تنہارہ جائیں اور دنیا طلبوں اور مخالفین کو دوسری طرف پائیں تو جناب ہارون کی طرحبسر و تحمل اختیار کریں۔ اسی بنا پر آپ کے اکابر علمائ کی روایتوں کے مطابق جو پہلے عرض کی گئیں جس وقت حضرت کو جبرا مسجد میں لاۓ، برہنہ تلوار آپ کے سر پر رکھی اور بیعت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تو آپ نے اپنے کو قبر رسول(ص) تک پہنچایا اور وہی الفاظ دہراۓ جو خدا نے حضرت ہارون کی زبان نقل فرماۓ ہیں کہ انہوں نے حضرت موسی سے کہا تھا:

"ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي "

مطلب یہ تھا، کہ یا رسول اللہ(ص) دیکھئیے امت نے مجھ کو تنہا چھوڑ دیا ہے، مجھ کو حقیر و ضعیف بنا دیا ہے اور چاہتے ہیں کہ مجھ کو قتل کردیں۔تمام

۲۳۲

انبیائ کی سیرتوں سے بالاتر اور سب سے بڑی حجت خود حضرت خاتم الانبیائ(ص) کی سیرت ہےجس پر غور کرنا ہمارے لئے ضروری ہے کہ مکہ معظمہ میں دشمنوں اور امت کی بدعتوں کے مقابل تیرہ سال تک کیوں خاموش رہے، یہاں تک کہ اپنے مرکز بعثت اور وطن مالوف سے رات کے وقت چھپ کر نکل گئے؟

بات صرف یہی تھی کہ آپ کے پاس ناصر و مددگار نہیں تھے لہذا انبیائ نے سلف کے مانند صبر و تحمل اور وہاں ٹھہرنے کے بجاۓ ہٹ جانے کو ترجیح دی، کیونکہ " الفرار مما لا یطاق من سنن المرسلین" یعنی جس چیز کی طاقت نہ ہو اس سے فرار اختیار کرنا پیغمبروں کی سنت۔ ۱۲ مترجم، بلکہ اس سے بڑھ کر کہوں آں حضرت(ص) اپنی قدرت و طاقت کے دور میں بھی قوم سے کماحقہ بدعت کے آثار کو ہر طرف نہیں کرسکے۔

شیخ: یہ کیوں کر یقین کیا جاسکتا ہے کہ آں حضرت(ص) بدعتوں کو برطرف نہیں کرسکے؟

خیر طلب: حمیدی نے جمع بین الصحیحیں میں اور امام احمد ابن حنبل نے مسند میں ام المومنین عائشہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے ان سے فرمایا کہ اگر یہ لوگ عہد کفر اور زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتے اور مجھ کواس کاخوف نہ ہوتا کہ یہ اپنے دلوں سے اس کے منکر ہوجائیں گے تو میں حکم دیتا کہ خانہ کعبہ کو مسمار کردیا جاۓ اور جو کچھ اس میں سے نکال دیا گیا ہے وہ پھر اس میں داخلکیا جاۓ میں اس عمارت کو زمین کے برابر کر کے زمانہ حضرت ابراہیم کی طرح مشرق و مغرب کی جانب اس کے دو دروزے قائم کرتا اور حضرت ابراہیم کی قائم کی ہوئی بنیادوں پر پھر سے اس کی تعمیر کرتا۔

حضرات ذرا اںصاف سے غور کیجئے تو ماننا پڑے گا کہ جہاں رسول اللہ(ص) باوجود اس بلند مرتبے اور الہی منصب کے کہ آپ شرک و کفر اور اس کے آثار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے مبعوث ہوۓ تھے اپنے صحابہ سے مطمئن نہ ہوں( جیسا کہ آپ کے بڑےبڑے علمائ نے لکھا ہے) اور تعمیر ابراہیمی میں داخل کی ہوئی بدعتکر کے اس کو اصلی صورت پر اس لئے نہ لاسکیں کہ کہیں مسلمان اپنی عہد جاہلیت کی عادت کے پیش نظر اس سے انکار نہ کر بیٹھیں، وہاں امیرالمومنین علیہ السلام بھی اس سیرت اور دستور پر عمل کرنے میں حق بجانب تھے، کیونکہ آپ کا سامنا ایک ایسی حاسد اور کینہ پرور قوم سے تھا جو اس چیز کا موقع ہی تلاش کررہی تھی کہ انتقام لینے کے لئے آپ کو بلکہ اصل دین اسلام ہی کو نظم و عداوت کے تیروں کا نشانہ بنائے۔

چنانچہ فقیہ واسطی ابن مغازلی شافعی اور خطیب خوارزمی نے اپنے مناقب میں نقل کیا ہے کہ رسول صلعم نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ امت تمہاری طرف سے دلوں میں کینے رکھتی ہے اور میرے بعد عنقریب یہ لوگ تم کو دھوکا دیں گے اور جو کچھ اپنے دلوں میں چھپاۓ ہوۓ ہیں اس کوظاہر کریں گے۔ میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ اس وقت صبر و تحمل سے کام لینا تاکہ خدا تم کو اس کا اجر اور جزاۓ خیر عنایت فرماۓ۔

۲۳۳

وفاتِ رسول(ص) کے بعد خدا کے لئے علی(ع) کا صبر وسکوت

دوسرے امیرالمومنین علیہ السلام وہ یکتا انسنا کامل تھے جنہوں نے زندگی بھر کبھی اپنی ذات کی طرف نہیں دیکھا بلکہ ہر وقت خدا پر نظر رکھتے تھے، یعنی ہر حیثیت سے فنا فی اللہ کی منزل میں تھے آپ اپنے کو، اپنے متعلقین کو اور امامت وخلافت اور ریاست کو محض خدا اور خدا کے دین کے لئے چاہتے تھے، لہذا آپ کا صبر وتحمل، خاموشی اور اپنا مسلم الثبوت حق حاصل کرنے کے لئے مخالفین سے مقابلہ نہ کرنا بھی صرف خدا کے لئے تھا تاکہ ایسا نہ ہو مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ پڑ جاۓ۔

لوگ اپنے سابق کفر کی طرف پلٹ جائیں۔ چنانچہ اس موقع پر جب حضرت فاطمہ مظلومہ(ع) کا حق چھینا جاچکا اور آپ مظلومی و مایوسی کی حالت میں گھر پلٹیں تو آپ نے امیرالمومنین علیہ السلام کو مخاطب کر کے عرض کیا:

" اشْتَمَلْتَ‏ شَمْلَةَ الْجَنِينِ‏، وَ قَعَدْتَ حُجْرَةَ الظَّنِينِ، نَقَضْتَ قَادِمَةَ الْأَجْدَلِ، فَخَانَكَ رِيشُ الْأَعْزَلِ، هَذَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ يَبْتَزُّنِي نَحِيلَةَ أَبِي وَ بُلْغَةَ ابْنَيَّ، الخ لَقَدْ أَجْهَرَ فِي خِصَامِي، وَ أَلْفَيْتُهُ أَلَدَّ فِي كَلَامِي"

یعنی آپ جنین کے مانند سمٹ کے بیٹھ رہے، ایک متہم انسان کی طرح گوشہ نشینی اختیار کر لی اور اپنے شکاری پرندے والے شہ پر توڑ دیئے۔ پس کمزور پرندے والے پروں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔ یہ ابن قحافہ(ابوبکر) میرے باپ کا عطیہ اورمیرے بچوں کا ذریعہ معاش مجھ سے بجز چھین رہا ہے۔ الخ ۔ در حقیقت ان لوگوں نے مجھ سے کھلی ہوئی دشمنی برتی اور مجھ سے بدکلامی کی۔

آپ کی تقریر طولانی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سارا بیان سنتے رہے۔ یہاں تک کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا خاموش ہوئیں تو ایک مختصر جواب دے کر ان معصومہ کو مطمئن کردیا۔ من جملہ اس کے فرمایا۔ فاطمہ! میں نے امر دین اور احقاق حق میں جہاں تک ممکن تھا کوتاہی نہیں کی آیا تم یہ چاہتی ہو کہ یہ دین مبین باقی اور پائدار رہے اور تمہارے باپ کا نام ابد تک مسجدوں اور اذانوں کے اندر لیا جاتا رہے؟

آپ نے کہا میری سب سے بڑی آرزو اور خواہش یہی ہے۔ حضرت نے فرمایا، پس اس صورت میں تم کوصبر کرنا چاہیئے کیونکہ تمہارے باپ حضرت خاتم الانبیائ(ص) نے مجھ کو اس کے لئے وصیتیں فرمائی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ صبر سے کام لینا چاہیئے ورنہ میں اتنے طاقت رکھتا ہوں کہ دشمنوں کو زیر کر کے تمہارا حق وصول کرلوں، لیکن یہ جان لوکہ پھر دین ختم ہوجاۓ گا لہذا خدا کے لئے اور دین خدا کی حفاظت کے لئے صبر کرو کیونکہ آخرت کا ثواب تمہارے لئے اس حق سے بہتر ہے جو تم سے غصب کر لیا گیا ہے۔

اسی بنا پر حضرت نے صبر کو اپنا لائحہ عمل قرار دیا اور حوزہ اسلام کے تحفظ کی غرض سے ضبط و خاموشی اختیار کی تاکہ پارٹی بندی نہ پیدا ہونے پاۓ، چنانچہ اپنے اکثر خطبات و بیانات میں ان پہلوؤں کی طرف اشارہ بھی فرماتے رہے۔

۲۳۴

وفات رسول(ص) کے بعد خاموشی کی مصلحت پر علی(ع) کے بیانات

من جملہ ان کے ابراہیم بن محمد ثقفی جو ثقاتعلماۓ اہل سنت میں سے ہیں۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور علی بن محمد ہمدانی نقل کرتے ہیں کہ جب طلحہ اور زبیر نے بیعت توڑ دی اور بصرے کی طرف روانہ ہوۓ تو حضرت علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ لوگ مسجد میں جمع ہوں اس کےبعد ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا جس میں حمد و ثناۓ الہی کے بعد فرمایا:

" فإنّ اللّه تبارك و تعالى لمّا قبض نبيّه صلى اللّه عليه و آله و سلّم قلنا: نحن‏ أهل‏ بيته‏ و عصبته، و ورثته، و أوليائه، و أحقّ خلائق اللّه به، لا تنازع حقّه و سلطانه، فبينما نحن على ذلك، إذ نفر المنافقون، فانتزعوا سلطان نبيّنا صلى اللّه عليه و آله و سلّم منّا، و ولّوه غيرنا، فبكت لذلك و اللّه العيون و القلوب منّا جميعا، و خشّنت و اللّه الصدور، و أيم اللّه لو لا مخافة الفرقة بين المسلمين أن يعودوا إلىالكفر، و يعوّر الدين لكنّا قد غيّرنا ذلك ما استطعناه، و قد ولّى ذلك ولاة و مضوا لسبيلهم، و ردّ اللّه الأمر إلينا و قد بايعاني، و قد نهضا إلى البصرة ليفرّقا جماعتكم، و يلقيا بأسكم بينكم"

مطلب یہ کہ وفاتِ رسول(ص) کے بعد ہم نے کہا کہ ہم پیغمبر(ص) کے اہل بیت آپ کے عزیز، آپ کے وارث، آپ کی عترت، آپ کے اولیائ اور اہل عالم میں آپ کی جانب سے سب سے زیادہ حقدار۔ آں حضرت(ص) کے حق اور سلطنتمیں ہمارا کوئی فریق نہیں تھا لیکن منافقین کے ایک گروہ نے گٹھ جوڑ کر کے ہمارے نبی کی حکومت وسلطنت کو ہم سے چھین لیا اور ہمارے غیر کے سپرد کردیا پس خدا کی قسم اس کے لئے ہماری آنکھیں اور ہمارے دل رو دیئے اور خدا کی قسم ہم سب کے سینے غم اور غصے سے لبریز ہوگئے خدا کی قسم اگر مسلمانوں میں تفرقہ پڑجانے کا خوف نہ ہوتا کہ وہ اپنے دین سے پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ تو ہم اس خلافت کا تختہ پلٹ دیتے( لیکن ہم نے سکوت اختیار کیا) وہ لوگ اس مسند پر قابض رہے یہاں تک کہ وہ اپنے ٹھکانے لگ گئے اور خدا نے امر خلافت کو پھر میری طرف پلٹایا چنانچہ ان دونوں(طلحہ و زبیر) نے بھی میری بیعت کی اس کے بعد محض اس لئے بصرے کی طرف کوچ کیا کہ تمہاری جماعت میں پھوٹ ڈال دیں اور تمہارے اندر خانہ جنگی پیدا کردیں۔

نیز آپ کے بڑے علمائ میں سے ابن ابی الحدید اورکلبی نے روایت کی ہے کہ بصرے کی طرف روانہ ہونے کے موقع پر حضرت نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور دوران تقریر میں فرمایا:

" إن الله لما قبض نبيه استأثرت علينا قريش بالأمر و دفعتنا عن حق نحن‏ أحق‏ به‏ من‏ الناس‏ كافة فرأيت أن الصبر على ذلك أفضل من تفريق كلمة المسلمين و سفك دمائهم و الناس حديثو عهد بالإسلام والدین"

یعنی جب رسولخدا(ص) نے رحلت فرمائی تو قریش نے خلافت کے

۲۳۵

۲۳۶

۲۳۷

اور نتیجہ یہ ہوتا کہ اسلام کی عمارت منہدم ہوجاتی۔

چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام حقائق کے عالم ودانا تھے اور رسول اللہ(ص) بھی آپ کو خبر دے چکے تھے۔ لہذا جانتے تھےکہ دین کی ا صل فنا نہ ہوگی اور لوگوںکے درمیان دین کی مثال آفتاب کے مانند ہے جو کچھ مدت تک تو جہل و عناد کی گھٹاؤں میں چھپ سکتا ہے لیکن آخر کار ظاہر و درخشان ہوکر رہے گا(چنانچہ وہی ہوا کہ اس بزرگوار کے نور حقیقت نے عالم کو روشن ومنور کیا۔

پس آپ نے اندازہ کر لیا کہ مصلحت دین کے اقتضا سے اس وقت صبر کر جانا اس سے بہتر ہے کہ مقابلے کے لیے میدان میں آجائیں جس سے گروہ بندی کی تشکیل ہو، مسلمانوں میں پھوٹپڑے اور دشمنوں کو دین کی جڑ کاٹنےکا موقع ملے اگرچہ رسولِ خدا(ص) بقاۓ اسلام کی خبر دے چکے تھے لیکن یہ مسلمانوں کی ذلت و حقارت کا سبب تو بنتا ہی اور ایک زمانے تک کے لئے ان کی ترقی پھر پستی کے غار میں جا پڑتی۔ خلاصہ یہ کہ چھ مہینے تک اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھی، جلسوں اور شبعوں میں کثرت سے مناظرے کر کے حق کو ظاہر فرمایا( جیسا کہ پچھلی شبوں میں عرض کرچکا) بیعت نہیں کی، اور گو کہ جنگ کے لئے نہیں اٹھے لیکن مباحثات اور احتجاجات کے ذریعے اثبات حق کرتے رہے۔

خطبہ شقشقیہ

چنانچہ خطبہ شقشقیہ کی ابتدا ہی سے اس مقصد کی طرف اشارہ فرمایا ہے فرماتے ہیں:

" أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَ إِنَّهُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُ‏ الْقُطْبِ‏ مِنَ‏ الرَّحَى‏ يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ فَسَدَلْتُ دُونَهَا ثَوْباً وَ طَوَيْتُ عَنْهَا كَشْحاً وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ وَ يَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ وَ يَكْدَحُ مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّهُ فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى وَ فِي الْحَلْقِ شَجاً أَرَى تُرَاثِي نَهْباً حَتَّى مَضَى الْأَوَّلُ لِسَبِيلِهِ فَأَدْلَى بِهَا إِلَى فُلَانٍ بَعْدَهُ الخ"

یعنی قسم خدا کی فلان شخص(ابوبکر) نے قمیص خلافت کو زبردستی پہن لیا حالانکہ یقینا وہ جانتا تھا کہ خلافت کے لئے میری حیثیت چکی کی میخ کی مانند ہے۔میرے سرچشمہ فیض سے علوم و معارف کا سیلاب امنڈتا ہے اور میرے علم و دانش کی بلندیوں میں کوئی پرندہ نہیں مارسکتا۔ پس میں نے اپنے اور اس جامہ خلافت کے درمیان پردہ ڈال دیا۔ اس سے پہلو تہی کی اور اس معاملہ میں غور کرنا شروع کیا آیا اس بریدہ اور شکستہ ہاتھوں سے(یعنی بغیر تاخیر و مددگار کے) اس پر حملہ کردوں یا ظلمت وتا ریکی ضلالت پر صبر کروں۔ یہ وہ مصیبت تھی جس کے صدمے سے بوڑھا ضعیف ہوجاۓ، خوردسال بوڑھا ہوجاۓ اور مومن رنج و غم میں مبتلا ہو۔ یہاں تک کہ اپنے

۲۳۸

پروردگار سے ملاقات کرے، اس وقت میں نے دیکھا کہ اس واقعے پر صبرکرنا ہی بہتر ہے اورع عقلمندی ہے۔ پس میں نے صبرکیا، در آنحالیکہ آنکھوں میں غبار اندوہ اور خار الم کی خلش تھی اور حلق میں غم و غصہ کا پھندا پڑ رہاتھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ میری میراث کس طرح تاخت و تاراج ہو رہی ہے، یہاں تک کہ پہلا تو اپنے راستے چلا گیا لیکن اپنے بعد خلافت کا تحفہ فلان ( عمر) کی گود میں ڈال گیاالخ۔

یہ سارا خطبہ حضرت کے درد دل سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن وقت اس سے زیادہ زحمت دینے کی اجازت نہیں دے رہے ہے۔ میرا خیال ہے کہ اثبات مقصد اور حضرت کے دلی تاثرات کو ظاہر کرنے کے لئے اسی قدر کافی ہے۔

خطبہ شقشقیہ میں اشکال اور اس کا جواب

شیخ: اول تو یہ خطبہ ان حضرت کی رنجیدگی کی دلیل نہیں ہے، دوسرے اس خطبے کا حضرت سے تعلق ہی نہیں ہے بلکہ ہو تو سیدشریف رضی الدین کی تصنیف ہے جس کو انہوں نے حضرت کے خطبات میں شامل کردیا ہے۔ ورنہ ان جناب کو خلفائ رضی اللہ عنہم سے کوئی شکایت نہ تھی بلکہ انتہائی خوشی تھی اور ان کے عمل درآمد سے بھی راضی تھے۔

خیر طلب: آپ کا یہ بیان سخت تعصب کا نتیجہ ہے ورنہ خلافت کے بارے میں حضرت کے بیانات اور شکایات کا پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے، اور حضرت کی رنجیدگی و آزردگی کچھ اسی خطبے سے مخصوص نہیں کہ آپ اس پر اشکال تراشی کریں آپ کے اس اشکال پر کہ یہ خطبہ ایک عابد و پرہیزگار اور بزرگوار عالم سید رضی الدین رضوان اللہ علیہ کی تصنیف ہے میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ آپ بغض و عناد کے باعث حد اعتدال سے آگے بڑھ گئے ہیں اور بغیر کسی دلیل کے آخری دور کے اپنے بعض متعصب اسلاف کی پیروی کی ہے۔ البتہ اتنا کہوں گا کہ آپ کا مطالعہ گہرا نہیں ہے ورنہ سمجھ میں آجاتا کہ یقینی اور قطعی طور پر یہ خطبہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے کیونکہ آپ کے بڑے بڑے علمائ متقدمین ومتاخرین مثلا عزالدین عبدالحمید ابن ابی الحدید، شیخ محمد عبدہ، مفتی مصر اور شیخ محمد خصری نے محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ ص۱۱۷ میں شہادت دی ہے اور اعتراف کیا ہے کہ یہ خطبہ حضرت ہی کا ہے، نیز اس کی شرح بھی کی ہے۔ صرفچند آخری دور کے متعصب لوگوں نے اپنے فساد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے شبہات پیدا کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے ہیں ورنہ ان چالیس نفر سے زیادہ شیعہ و سنی اکابر علمائ میں سے جنہوں نے نہج البلاغہ کی شرحیں لکھی ہیں کسی ایک نے بھی ایسی بات نہیں کہی ہے۔

۲۳۹

سید رضیؒ کے حالات

اس کے علاوہ جلیل القدر عالم ربانی سید رضی الدین علیہ الرحمہ کی پرہیزگاری اور تقدس کا درجہ اس سے کہیںبلند ہے کہ ان پر خطبہ تصنیف کر کے حضرت علی علیہ السلام کی طرف اس کی جھوٹی نسبت دینے کا الزام لگایا جاۓ۔ اس کے ماسوا عربی ادب کے جن ماہرین نے نہج البلاغہ کے خطبوں پر غور کیا ہے انہوں نے ان کی فصاحت و بلاغت، قدرت الفاظ، بلندی مطالب اور ان کے اندر سموۓ ہوۓ علم و حکمت کے بیشبہاخزاںوں کے پیش ںظریہ طے کردیا ہے کہ سید رضی ہی نہیں بلکہ کسی فرد بشر کے لئےبھی ایسا کلام پیش کرنا ممکن نہیں ہے جب تک اس کا تعلق عالم غیب سے نہ ہو چنانچہ آپ کے اکابر علمائ جیسے عبدلحمید ابن ابی الحدید معتزلی نے اور متاخرین میں سے شیخ محمد عبد و مفتی مصر نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ حضرت کے خطبات وبیانات میں جو خوبصورت الفاظ، بلند مطالب اور نادر انداز کلام استعمال ہوا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کلمات کلام رسول(ص) کے بعد کلام خالق سے پست اور کلام مخلوق سے بلند ہیں۔

عالم جلیل القدر سید رضی رضوان اللہ علیہ کے نظم ونثر کلمات وخطبات اور رسائل شیعہ وسنی صاحبان علم کے تالیفات میں موجود ہیں جن کی نہج البلاغہ کے خطبوں سے مطابقت کرنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ دوںوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

چہ نسبت خاک را با عالم پاک

چنانچہ ابن ابی الحدید نقل کرتے ہیں کہ مصدق بن شبیب نے ابن الخشاب جیسے مشہور و معروف شخص سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا، نہ رضی نہ غیر رضیکسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے کہ ایسے نادر اسلوب کے ساتھ ایسا کلام پیش کرسکے۔ ہم نے کلمات رضی کو دیکھاہے، ان کو اس مقدس خطبات سے ہرگز کوئی رابطہ نہیں ہے۔

خطبہ شقشقیہ سید رضیؒ کی ولادت سے پہلے درج کتب تھا

علمی قواعد اور عقل اصول سے قطع نظر فریقین ( شیعہ وسنی)کے اہل علم اور اصحاب حدیث و تاریخ کے بڑی جماعت نے عالم گزرگوار سید رضی الدین اور ان کے پدر مرحوم ابو احمد نقیب الطالبین کی ولادت سے قبل اس خطبے کی روایت کی ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں کہتے ہیں کہ اس خطبہ شریفہ کو میں نے اپنے شیخ ابوالقاسم بلخی امام معتزلہ کی تصانیف میں کثرت سے پایا ہے۔ جو مقتدر باللہ عباسی کے زمانے میں تھے، اور ظاہر ہے کہ سید رضی کی ولادت اس کے مدتوں بعد ہوئی ہے۔اس کے علاوہ میں نے اس کو مشہور متکلم ابوجعفر بن قبہ کی کتاب الانصاف میں بھی بارہا دیکھا ہے جو

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394