پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 276243
ڈاؤنلوڈ: 6131


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 276243 / ڈاؤنلوڈ: 6131
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تو یہ آپ کا جان بوجھ کے انجان بننا ہے، بہتر ہوتا کہ آپ ایسے کسی ایک ہی فتوے کا پتہ دیتے جس میں حضرت کے نام کو اذان و اقامت کا جزئ کہا گیا ہو۔ در آں حالیکہ ساری استدلالی کتابوں اور عملیہ رسالوں میں تمام شیعہ فقہائ نے بالاتفاق یہی بیان کیا ہے کہ ولایت حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شہادت جزئ ایمان نہیں ہے اور اس کو اذان واقامت میں بقصد جزئیت کہنا حرام ہے، اگرنیت کے وقت مجموعی طور پر حضرت کے نام کےساتھ قصد کیا جاۓ تو نہ صرف یہ کہ فعل حرام ہوگا بلکہ عمل بھی باطل ہو جاۓ گا۔ البتہ رسول (ص) خدا کا نام ذکر کرنے کے بعد بغیر قصد جزئیت کے تیمن و تبرک کی نیت سے علی علیہ السلام کا نام لینا مطلوب و مستحسن ہے، اس لئے کہ خدا نے ہر مقام پر پیغمبر(ص) کے نام کے بعد آپ کا نام لیا ہے، جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے۔ پس آپ حضرات بلاوجہ شور و ہنگامہ مچاتے ہیں۔ غالبا اسی قدر کافی ہوگا لہذا ہم پھر اصل مطلب پر آتے ہیں کہ اگر آپ حضرات ذرا گہری نظر ڈالیں تو ثابت ہوگا کہ نسل و نسب کے اعتبار سے صحابہ کبار میں سے ایک بھی امیرالمومنین علی علیہ السلام کا مثل نہیںتھا۔

علی علیہ السلام کا زہد و تقویٰ

رہا زہد و تقوی اور پرہیزگاری کا موضوع تو یہ حضرت کی وہ خصوصیت ہے جس میں عالم کے اندر کوئی دوسرا آپ کی برابری نہیں کہ سکتا، کیونکہ امت کے اندر دوست دشمن سبھی کا اجماع ہے کہ رسول خدا(ص) کے بعد کوئی امیرالمومنین سے زیادہ عابد و زاہد اور متقی شخص نہیں دیکھا گیا، چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور محمد ابن طلحہ شافعی مطالب السئول میں بنی امیہ کی مشہور فرد عمرابن عبدالعزیز سے نقل کرتے ہیں کہ آپ پرہیزگاری میں اپنے زمانے کے سارے انسانوں سے بلند و ممتاز تھے، وہ کہتے ہیں:

"مَا عَلِمْنَا أَحَداً كَانَ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ النَّبِيِّ أَزْهَدَ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ."

یعنی ہم نہیں جانتے کہ رسول خدا(ص) کے بعد اس امت میں کوئی شخص علی ابن ابی طالب سے زیادہ زاہد و پرہیزگار رہا ہو۔

ملا علی توشطی اپنے انتہائی تعصب کے با وجود اپنی کتاب کے اکثر مقامات پر کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کے بارے میں عقلمندوں کی عقلیں مبہوت ہیں کیونکہ آپ نے پچھلے اور اگلے لوگوں کے کارناموں پر خط نسخ کھینچ دیا اور شرح تجرید میں کہتے ہیںکہ انسان علی علیہ السلام کے حالات اور طریقہ زندگی کو سن کر دم بخود ا ور حیران رہ جاتا ہے۔

عبداللہ بن رافع کی روایت

من جملہ عبداللہ رافع کی روایت ہے کہ ایک روز میںافطار کے وقت امیرالمومنین علیہ السلام کے یہاں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت کے سامنے ایک سر بہر کیسہ لایا گیا، جب آپ نے اس کو کھولا تو اس میں بغیر چھنا ہوا آٹا تھا جس میں کافی بھوسی ملی تھی۔

۲۲۱

آپ نے اس میں سے تین مٹھی آٹا لے کرنوش فرمایا اور اوپر سے ایک گھونٹ پانی پی کر شکر خدا بجا لاۓ۔ مین نے عرض کیا کہ یا اباالحسن آپ نے تھیلی کے منہ پر مہرکس لئے لگائی ہے؟ فرمایا اس لئے کہ حسنین (علیہما السلام) چونکہ مجھ سے محبت کرتے ہیں لہذا ہوسکتا ہے کہ اس میں روغن زیتوں یا شیرینی شامل کردیں اور علی کا نفس اس کا کھانے سے لذت حاصل کرے۔

بدیہی چیز ہے کہ دنیا کی مباح لذتوں میں بھی نفس کو آزادی دینے سے رفتہ رفتہ بغاوت وسرکشی پیدا ہوتی ہے جو آدمی کو خدا کی یاد سے غافل کردیتی ہے۔

علی علیہ السلام اپنے نفس کو اسی بنا پر لذیذ غذاؤں سے باز رکھتے تھے تاکہ نفس کا غلبہ نہ ہوجاۓ اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب51 میں اس روایت کو احنف بن قیس سے نقل کیا ہے۔

سوید بن غفلہ کی روایت

نیز شیخ نے ینابیع المودت میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں اور طبری نے اپنیتاریخ میں سوید بن غفلہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں میں ایک روز امیرالمومنین کی خدمت میں مشرف ہوا تو دیکھا کہ ایک ایسے کھٹے دودھ کا پیالہ حضرت کے سامنے رکھا ہوا ہے کہ اس کی ترشی کی بو میری ناک تک آرہی تھی اور ایک بھوسی ملی ہوئی سوکھی روٹی دست مبارک میں ہے جو اس قدر خشک ہے کہ توڑے نہیں ٹوٹتی۔ حضرت اس کو زانوۓ مبارک سے دبا کرتوڑتے تھے اور اس کھٹے دودھ میں نرم کر کے تناول فرماتے تھے، مجھ کو کھانے کی دعوت دی تو میں نے عرض کیا کہ میں روزے سے ہوں، فرمایا، میں نے اپنے حبیب حضرت رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ جو شخص روزے سے ہو اور کسی کھانےکی طرف رغبت کرے پھر خدا کے لئے اس کو نہ کھاۓ تو خدا اس کو بہشت کے کھانے کھلاۓ گا۔

سوید کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی حالت پر میرا دل تڑپ اٹھا۔ میں نے حضرت کی خادمہ فضہ سے جو میرے قریب ہی تھیں کہا کہ تم خدا سے نہیں ڈرتیں جو بغیر جو کی بھوسی نکالے ہوۓ روٹی پکاتی ہو؟ فضہ نے کہا خدا کی قسم خود حضرت نے حکم دیا ہے کہ بھوسی نہ نکالی جاۓ۔

حضرت نے فرمایا تم فضہ سے کیا کہہ رہے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ کہا تھا کہ آٹے کی بھوسی کیوں نہیں نکالتیں؟ حضرت نےفرمایا میرے ماں باپ فدا ہوں رسول اللہ(ص) پر کہ آں حضرت(ص) بھوسی الگ نہیں فرماتے تھے اور کبھی تین روز تک برابر گیہوں کی روٹی سے سیر نہیں ہوۓ یہاں تک کہ دنیا سے اٹھ گئے (یعنی میں رسول خدا(ص) کی تاسی کرتا ہوں)

۲۲۲

علی علیہ السلام کا حلوا نہ کھانا

موفق بن احمد خوارزمی اور ابن مغازلی فقیہ شافعی ا پنےمناقب میں نقل کرتے ہیں کہ خلافت ظاہری کے زمانے میں ایک روز علی علیہ السلام کے لئے عمدہ حلوا لایا گیا، آپ نے انگشت مبارک سے تھوڑا سا اٹھا کر سونگھا اور فرمایا کس قدر خوش رنگ اور خوشبودار ہے لیکن علی اس کے مزے سے واقف نہیں( مطلب یہ کہ میں نے اب تک حلوا کھایا ہی نہیں) میں نے عرض کیا یا علی(ع)، کیا حلوا آپ کے لئے حرام ہے؟ فرمایا حلال خدا حرام نہیں کرتا لیکن میں خود اپنا شکم کیوں کر سیر کروں جب کہ ملک میں بہت سے بھوکے پیٹ والے بھی موجود ہیں۔

" ایت بطنا فاوحول الحجاز بطون عوثی و اکباد حرا و کیف ارضی بان اسمی امیرالمومنین ولا اشارکهم فی خشونةالعسروشدائدالضروالبلوی"

یعنی کیا میں شکم سیر ہو کر سوؤں حالانکہ اطراف حجاز میں گرسنہ پیٹ اور بھنتے ہوۓ جگر موجود ہیں؟ میں کس طرح رضامند ہوں اس پر کہ میرا نام امیرالمومنین ہو اور عسرت کی سختی اور رنج و بلا کے شدائد میں ان کا شریک نہ بنوں؟

نیز خوارزمی عدی بن ثابت سے نقل کرتے ہیں کہ ایک روز آپ کے لئے فالودہ لایا گیا لیکن آپ نے اپنے نفس کو دبا دیا اور اس کو نوش نہیں فرمایا۔

یہ ہیں حضرت کی خوارک کے نمونے کہ کبھی سرکہ کبھی نمک کبھی تھوڑی سبزی اور کبھی دودھ کے ساتھ جو کی سوکھی ہوئی روٹی تناول فرماتے تھے اور کسی وقت ایک دسترخوان پر دو قسم کی غذائیں مہیا نہیں فرماتے تھے۔ سنہ 40 ہجری میں ماہ رمضان المبارک کی انیسویں شب جس میں عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کے ہاتھ سے حضرت کو ضربت شہادت لگی، آپ افطار کے لئے اپنی بیٹی ام کلثوم کے مہمان تھے دسترخوان پر روٹی و دودھ اور نمک رکھا گیا تو باوجودیکہ اپنی بیٹی ام کلثوم کو انتہائی عزیز رکھتے تھے حضرت نے غصے کے ساتھ فرمایا کہ میں نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ کوئی لڑکی اپنے باپ پرتمہاری طرح جفا کرے۔ام کلثوم نے عرض کیا کہ بابا میں نے کون سی جفا کی ہے؟ فرمایا تم نے کب دیکھا ہے کہ تمہارا باپ ایک دسترخوان پر دو طرح کی غذائیں جمع کرے؟ پھر حکم دیا کہ دودھ اٹھا لیا جاۓ کیوں کہ وہ زیادہ لذیذ تھا، اور روٹی کے چند لقمے نمک کے ساتھ تناول فرماۓ اس کے بعد ارشاد فرمایا:

"في‏ حلال‏ الدنيا حساب و في حرامها عذاب عقاب "

یعنی دنیا کے حلال میں حساب اور اس کے حرام میں عذاب وعقاب ہے۔

علی علیہ السلام کا لباس

حضرت کا لباس بھی بہت سادہ اور کم قیمت ہوتا تھا۔ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، ابن مغازلی فقیہ شافعینے

۲۲۳

مناقب میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ میں اور آپ کے دیگر علمائ نے لکھا ہے:

"و کان علیهإزار غليظ اشتراه بخمسة دراهم، "

یعنی آپ کا لباس موٹے کپڑے کا تھا جو آپنے پانچ درہم میں خریدا تھا۔

جہاں تک ممکن ہوتا تھا آپ اپنے لباس میں پیوند لگاتے رہتے تھے اور زیادہ تر پیوند چمڑے یا خرمے کی چھال کے ہوتے تھے۔ حضرت کی کفش لیف خرما کی ہوتی تھی۔ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے لباس میں اتنے پیوند لگاۓ تھے کہ حضرت کی خلافت و ریاست ظاہری کے زمانے میں اس کو دیکھ کر آپ کے ابن عم عبداللہ ابن عباس کو صدمہ ہوا تو آپ نے فرمایا :

"لقد رفعت مرقعةحتی استحییت من راقعه امالعلی من زینةالدنیاکیف نفرح بلذة تفنی ونعیم لایبقی"

میں نے اس قدر پیوند کے اوپر پیوند لگواۓ ہیں کہ مجھ کو پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے۔ علی کو زینت دنیا سے کیا کام؟ میں کیونکر خوش ہوں اس لذت پر جو مٹ جاۓ گی اور اس نعمت پر جو باقی نہ رہے گی۔

ایک اور شخص نے حضرت پر اعتراض کیا کہ آپ ریاست وخلافت کے زمانے میں بھی کس لئے پیوند دار کپڑے پہنتے ہیں جس سے دشمن آپ کو حقیر سمجھتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ یہ وہ لباس ہے جو دل کو دباتا ہے، غرور کو انسان سے دور کرتا ہے اور مومن اس کی اقتدا کرتا ہے۔

نیز محمد بن طلحہ نے مطالب السئول میں، خوارزمی نے مناقب میں، ابن اثیر نے کامل میں اور سلیمانبلخی نے ینابیع المودۃ میں روایت کی ہے کہ علی علیہ السلام اور ان کے غلام کا لباس یکساں ہوتا تھا۔ آپ ایک نمونے اور ایک ہی قیمت کے دو کپڑے خریدتے تھے۔ ایک خود پہنتے تھے اور دوسرا اپنے غلام قنبر کو دےدیتے تھے۔ یہ تھی حضرت علی علیہ السلام کی خوراک و پوشاک کی مختصر کیفیت جس کو آپ کے علمائ نے بھی درج کیا ہے، اور میں نے وقت جلسہ کے لحاظ سے اختصار کی کوشش کی ہے ورنہ حضرت کے مفصل حالات محیرالعقول ہیں۔ حضرت جو کی خشک روٹی خود کھاتے تھے اور گیہوں کی روٹی شکر شہد اور خرما فقیروں، یتیموں اور محتاجوں کو کھلاتے تھے، خود پیوند دار لباس پہنتے تھے لیکن یتیموں اور بیواؤں کو نفیس کپڑے پہناتے تھے۔

معاویہ سے ضرار کی گفتگو

حضرت کے زہدو تقوی اور دنیا سے بے اعتنائی کے ثبوت میں آپ کا وہ کلام کافی ہے جس کے سامنے دنیاۓ دنی سے کسی اور کا خطاب نہیں ٹھہر سکا۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح النہج البلاغہ میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیائ جلد اول ص84 میں، شیخ عبداللہ بن عامر شیراذی شافعی نے کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص8 میں، محمد بن طلحہ نے مطالب السئول ص33میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص128 میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب51 میں، سبط ابن جوزی

۲۲۴

نے تذکرۃ الخواص الامہ آخر باب5 میں اور آپ کے دوسرےبڑے بڑے علمائ مورخین نے ضرار بن ضمرہ کے ساتھ معاویہ کے جو مفصل مذاکرات نقل کئے ہیں ان میں ضرار نے معاویہ کے سامنے آخر گفتگو میں علی علیہ السلام کی تعریف اس طرح کی ہے:

" لقد رأيته‏ في‏ بعض‏ مواقفه و قد أرخى الليل سدوله و غارت نجومه قابض على لحيته يتململ تململ السقيم و يبكي بكاء الحزين و يقول يَا دُنْيَا غُرِّي غَيْرِي أَ بِي تَعَرَّضْتِ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ طَلَّقْتُكِ ثَلَاثاً لَا رَجْعَةَ لِي فِيكِ فَعُمُرُكِ قَصِيرٌ و خطرک کبیر وَ عیشک حَقِيرٌ آهِ مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وَ بُعْدِ السَّفَرِ وَ وَحْشَةِ الطَّرِيقِ فبکی معاوية و قال رحم الله اباالحسن لقد كان و الله كذلك "

یعنی میں نے بعض مواقع پر علی علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی چھائی ہوئی ہے، ستارے چھٹکے ہوۓ ہیں اور آپ اپنی ریش مبارک کو پکڑے ہوۓ مارگزیدہ کے مانند تڑپ رہے ہیں اور بہت کرب کے ساتھ رو رو کر کہہ رہے ہیں کہ اے دنیا میرے علاوہ کسی اور کو فریب دے، کیا تو مجھ سے لپٹتی ہے اور میری طرف راغب ہے؟ تو یہ بات کو سوں دور ہے، میں نے تجھ کو تین طلاق دۓ ہیں جس کے بعد پھر رجوع نہیں ہوسکتا ہے، کیوں کہ تیری عمر کوتاہ، تیرا خطرہ بہت بڑا اور تیرا عیش بہت ذلیل ہے فریاد ہے زاد راہ کی کمی ہے، سفر کی دوری سے اور راستے کی وحشت سے۔ پس معاویہ نے رونا شروع کیا اور کہا خدا رحم کرے ابوالحسن (علی) پر واللہ یقینا وہ ایسے ہی تھے۔

دوسرے مقام پر معاویہ ہی کا قول ہے" عقمت‏ النساء أن يلدن مثل علي ابن ابی طالب" یعنی عورتیں علی ابن ابی طالب ایسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔

زہد کے لئے علی علیہ السلام کو پیغمبر(ص) کی بشارت

امیرالمومنین علیہ السلام کا زہد فیوض ربانی میں سے ایک ایسا فیض ہے جس کی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو بشارت دی ہے۔چنانچہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب46 میں عمار یاسر سے ایک روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے حضرت رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ علی علیہ السلام سے فرمایا:

"إن اللّه قد زيّنك‏ بزينة لم يزيّن العباد بزينة أحبّ الى اللّه الزهد في الدنيا و جعلك لا تفال من الدنیا شيئا، و لا تنال الدنیا منک شیئاو وهب لك حبّ المساكين، فرضوا بک اماما و رضیت اتباها فطوبی لمن احبک و صدق فیکو ويل لمن أبغضك و كذب عليك، فأما الذین أحبّوك و صدقوا فيك، فاولئك جيرانك في دارك و رفقائک فی قصرک، وأما الذینأبغضوك و كذبوا عليك، فحقّ على اللّه أن يوقفهم موقف الكذابين یومالقیمة."

یعنی در حقیقت خداوند عالم نے تم کو اس زینت سے آراستہ کیا ہے کہ بندوں میں کسی اور کو ایسی زینت سے نہیں سنوارا جو خدا کے نزدیک اس سے زیادہ محبوب ہو، اور وہ ہے زہد فی الدنیا۔ تم کو ایسا بنا دیا کہ نہ تم دنیا سے

۲۲۵

بہرہ اندوز ہوتے ہو نہ دنیا تم کو اپنے سے وابستہ کرسکتی ہے۔ تم کو مسکینوں اور محتاجوں کی محبت عطا کی پس وہ تمہاری امامت پر راضی ہوۓ اور میں بھی ان سے تمہاری پیروی کی وجہ سے رضامند ہوا۔ پس خوشا حالی اس کا جس نے تم کو دوست رکھا اور تمہاری تصدیق کی، اور واۓ ہو اس کے لئے جو تم سے دشمنی رکھے اور تمہاری تکذیب کرے۔ جن لوگوں نے تم سے محبت رکھی اور تمہاری تصدیق کی وہ جنت میں تمہارے پڑوسی اور تمہارے قصر میں تمہارے مصاحب ہوں گے، اور جن لوگوں نے تم کو دشمن رکھا اور تم کو جھٹلایا تو خدا پر لازم ہے کہ قیامت کے روز ان کو جھوٹوں کی منزل پر ٹھہرا کر کیفر کردار کو پہنچاۓ۔

آپ زہد و روع اور پرہیزگاری میں اس قدر کامل تھے کہ دوست و دشمن سبھی آپ کو امام المتقین کہتے تھے۔ اور صرف لوگوں ہی نے آپ کو امام المتفقین کا لقب نہیں دیا تھا بلکہ جس نے سب سے علی(ع) کو اس لقب سے پکارا اور آپ کو باربار اس لقب کے ساتھ امت میں روشناس کرایا وہ حضرت خاتم الانبیائ(ص) کی مقدس ذات تھی، چونکہ وقت تنگ ہے اور تفصیل سے روایتیں پیش کرنے کا موقع نہیں ہے، لہذا صرف نمونے کے لئے چند حدیثوں پر اکتفا کرتا ہوں۔

خدا و رسول(ص) نے علی(ع) کو امام المتقین فرمایا

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص450 میں، حافظ ابونعیم اصفہانی حلیتہ الاولیائ میں، میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب54 میں انس ابن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اکرم(ص) نے مجھ سے فرمایا اے انس میرے واسطے وضو کا پانی لے آؤ، میں اٹھ کر پانی لایا تو آں حضرت(ص) وضو کر کے دو رکعت نماز بجالاۓ۔ اس کے بعد مجھ سے فرمایا اے انس:

"‏ أول‏ من‏ يدخل‏ من‏ هذا الباب هو إمام المتقين، و سيد المسلمين، و يعسوب المؤمنين، و خاتم الوصيين، و قائد الغر المحجلين"

پہلا جو شخص اس دروازے سے داخل ہو وہ اہلِ تقوے کا امام، مسلمانوں کا سردار، مومنین کا بادشاہ( جس طرح شہد کی مکھیوں کا بادشاہ یعسوب ہوتا ہے) اوصیائ کا خاتم اور روشن چہروں اور ہاتھوں والے لوگوں کو (جنت کی طرف) لے جانے والا ہے۔

انس کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا خداوند اس آنے والے کو اںصار میں سے قرار دے، لیکن اپنی دعا کو پوشیدہ رکھا۔ اتنے میں دیکھا کہ علی(ع) دروازے سے داخل ہوۓ۔ پیغمبر(ص) نے فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کیا علی ابن ابی طالب ہیں پس آنحضرت(ص) نے ہنسی خوشی کے ساتھ اٹھ کر علی(ع) کا استقبال کیا، ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور ان کے چہرے سے پسینہ پونچھا۔ علی(ع) نے عرض کیا رسول اللہ(ص) آج مجھ سے وہ برتاؤ کر رہے ہیں جو پہلے نہیں کرتے تھے؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا کیونکر نہ کروں در آں حالیکہ تم میری جانب سے میری رسالت کو امت والوں تک پہنچاؤگے، میری آواز ان کو سناؤگے اور میرے بعد وہ جس چیز میں اختلاف کریں گے ان کے سامنے اس کی وضاحت کرو گے۔

۲۲۶

نیز ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد دوم میں اور حافظ ابونعیم حلیتہ الاولیائ میں نقل کرتے ہیں کہ ایک روز علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے پاس حاضر ہوۓ تو آں حضرت نے فرمایا :مرحبابسید المسلمین و امام المتقین (یعنی خوش آمدید ہے مسلمانوں کے سردار اور پرہیزگاروں کے امام کو۔ 12 مترجم) پھر فرمایا کہ اس نعمت پر تمہارا شکر کیسا ہے؟ عرض کیا کہ میں حمد کرتا ہوں خدا کی اس نعمت پر جو مجھ کو عنایت کی ہے اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ مجھ کو شکر کیتوفیق عطا فرماۓ اور جو کچھ مجھ پر انعام فرمایا ہے اس میں اضافہ کرے۔ محمد بن طلحہ شافعی بھی مطالب السئول باب اول فصل چہارم کے آخر میں اس حدیث کو نقل کرتے ہیں اور اسی دلیل سے اہل تقوی پر حضرت کی امامت اور برتری کو ثابت کرتے ہیں۔

حاکم مستدرک جزئ سیم ص138 میں اور بخاری و مسلم اپنی صحیحیں میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا علی(ع) کے بارے میں مجھ پر تین چیزوں کی وحی ہوئی۔

"انه سيد المسلمين،و إمام المتقين، و يعسوب المؤمنين، و قائد الغر المحجلين"

یعنی در حقیقت وہ مسلمانوں کے سید و آقا، اہل تقوےٰ کے پیشوا اور روشن چہرے اور ہاتھ والوں کو ( بہشت کی طرف) کھینچنے والے ہیں۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب45 میں سند کے ساتھ عبداللہ بن اسعد بن زرارہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا، شب معراج جب مجھ کو آسمان پر لے گئے تو موتی کے ایک قصر میں پہنچایا، جس کا فرش چمکتے ہوۓ سونے کا تھا:

" فأوحي إلى في علي بثلاث خصال بأنه سيد المسلمين و إمام المتقين و قائد الغر المحجلين"

یعنی پس میری طرف وحی کی اور مجھ کو علی کے بارے میں تین خصلتوں کی ہدایت کی کہ وہ یقینا مسلمانوں کے سیدو سردار، اہل تقوی کے امام و پیشوا اور روشن چہرے اور ہاتھوں والوں کو ( جنت کی طرف) کھینچنے والے ہیں۔

اور امام احمد بن حنبل مسند میں نقل کرتے ہیں کہ ایک روز رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے خطاب فرمایا:

" يا علي، النظر علی وجهک عبادةانک امام المتقین و سید المؤمنینمن‏ احبك‏ فقد احبني‏، و من احبنيفقد احب اللّه و من ابغضک فقد ابغضني، و من ابغضنيفقد أبغض اللّه "

یعنی اے علی(ع) تمہارے چہرے پر نظر کرنا عبادت ہے یقینا تم صاحبان تقوی کے امام او مومنین کے سردار ہو جو شخص تم کو دوست رکھے اس نے در حقیقت مجھ کو دوست رکھا اور جو شخص مجھ کو دوست رکھے اس نے در اصل خدا کو دوست رکھا۔ اور جو شخص تم سے دشمنی رکھے اس نے حقیقتا مجھ سے دشمنی رکھی اور جس نے مجھ سے دشمنی رکھی اس نے یقینا خدا سے دشمنی رکھی۔

یہ صحیح ہے کہ ذلیل اور بے عقل اور خوشامدی لوگ اور اکثر بے بصیرت اشخاص بعض افراد کا بے جا القاب و آداب اور غلط تعریف و توصیف کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جیسا کہ اکثر سلاطین و امرا اور وزارائ و خلفائ کے بارے میں کہا گیا ہے اور ارباب تواریخ نے بھی اس کو درج کیا ہے لیکن رسول خدا(ص) جیسی ہستی سے جو حق و حقیقت کا مجسمہ تھی ایک لمحے کے لئے بھی اس کی توقع نہیں ہوسکتی کہ آپ کسی شخص کو ایسے لقب یا صفت کے ساتھ یاد کریں گے جو اصلیت سے دور ہو بلکہ صاحب وحی کی زبان مبارک پر جو کچھ بھی جاری ہوجاۓ وہ یقینا عین حقیقت اور بمصداق آیہ شریفہ:

" وَ ما يَنْطِقُ‏ عَنِ الْهَوى‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحى‏"

۲۲۷

یعنی وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ بولتے ہی نہیں، وہ جو کچھ کہتے ہیں خالص وحی الہی ہوتی ہے۔

وحی مطلق، بالخصوص جب خودہی یہ فرمائیں کہ پروردگار نے شب معراج مجھ کو وحی فرمائی اور حکم دیا کہ علی کو امام المتقین کہوں۔

پس امیرالمومنین علی علیہ السلام کی عظمت و فضیلت اور تقوی کی تعریف میں یہی کافی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے خدا کے حکم سے آپ کو ایسی خصوصیت کے ساتھ مخصوص فرمایا جو کسی دوسرے صحابی کو نصیب نہیں ہوئی۔ تمام صحابہ کے نزدیک آپ کو امام المتقین قرار دیا۔ اور باربار اس لقب سے مخاطب فرمایا امام کو قطعا مکمل طور پر متقی ہونا چاہئیے تاکہ اہل تقوی کا پیشوا بن سکے، اس لئے کہ امام کے تقوی کو صاحبان تقوی کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ عمل ہونا چاہیئے۔

اگر میں علی علیہ السلام کے زہد و ورع اور تقوی کے سارے پہلوؤں کو شرح و بسط سے بیان کرنا چاہوں تو پورا دفتر بھی ناکافی ہے۔

شیخ : آپ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں جس قدر فرمائیے کم ہوگا۔ واقعی معاویہ نے سچ ہی کہ ہے کہ دنیا کی عورتیں علی ابن ابی طالب ایسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔

خیر طلب: پس معلوم ہوا کہ کبارصحابہ کے درمیان علی علیہ السلام اہل تقوی کے سرگروہ تھے جن کو رسول اکرم(ص) حضرت خاتم الانبیائ نے خداۓ تعالیٰ کے حکم و ہدایت سے امام المتقین اور پرہیزگاروں کا پیشوا قرار دیا ہے لہذا جس طرح آپ روحانی و جسمانی حیثیت سے نسل و نسب میں ممتاز و مقدم تھے اسی طرح تقوے کی حیثیت سے بھی آپ کو برتری اور حق تقدم حاصل تھا۔

اس جگہ ایک مطلب نظر کے سامنے آگیا ہے، اگر اجازت ہو تو آپ سے ایک بات دریافت کروں؟

شیخ : بہتر ہے، فرمائیے۔

خیر طلب : آیا صحابہ کبار کے درمیان امامت اہل تقوےٰ کی اہلیت رکھنے کے بعد علی علیہ السلام کے لئے آپ نفس پرستی محبت جاہ و منصب اور دنیا طلبی کا شبہ کرتے ہیں؟

شیخ : یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق ایسا خیال پیدا ہو۔ جیسا کہ خود آپ نے فرمایا اور مشہور بھی ہے، جو شخص دنیا کو تین طلاق دے دے اور اس کا اعلان کر کے دنیا سے اپنی بے اعتنائی کو ثابت کر دے وہ کیونکر دنیا کی طرف مائل ہوسکتا ہے؟ اس کے علاوہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا مقام ومرتبہ اس سے بالاتر ہے کہ ہم ان جناب کی طرف ایسی نسبت دیں، بلکہ ایسا کرنا تو درکنار اس چیز کا تصور بھی محال ہے۔

خیر طلب : پس آپ جیسے مجسم تقوی کے سارے اعمال قطعا خدا کے لئے تھے، آپ نے ایک قدم بھی حق کے خلاف نہیں اٹھایا اور جہاں بھی حق نظر آتا تھا آپ بے اختیار اس کا استقبال کرتے تھے۔

شیخ : بدیہی چیز ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ہم کو اس کے خلاف کوئی سراغ نہیں ملتا۔

۲۲۸

حقیقت پسند منصفانہ فیصلہ کریں

خیر طلب: بس اب یہ فرمائیے کہ رسول اللہ صلعم کی وفات کے بعد جب علی علیہ السلام حسب وصیت آں حضرت(ص) کے غسل و کفن اور دفن میں مشغول تھے اور سقیفہ بنی ساعدہ میں چند اشخاص نے جمع ہو کر ابوبکر کی بیعت کر لی اس کے بعد حضرت کو بیعت کے لئے طلب کیا تو آپ نے کس وجہ سے بیعت نہیں کی؟

اگر ابوبکر کا طریقہ خلافت برحق اور مسئلہ اجماع ثابت و مسلم اور حقانیت کی دلیل تھا تو قاعدے کے لحاظ سے اس قدر شدید تقوی و پرہیزگاری کی موجودگی میں علی علیہ السلام کو ہرگز پہلو تہی اور حق سے انحراف نہ کرنا چاہیئے تھا، اس لئے کہ ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق جہاں حق ہو وہیں علی کو بھی ہونا چاہیئے، ایک طرف توتقوی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ متقی انسان حق سے روگردانی نہ کرے اور دوسری طرف وہ احادیث ہیں جو میں گذشتہ راتوں میں پیش کرچکا ہوں کہ رسول اللہ(ص) نےفرمایا:

" علی مع الحق والحق مع علی حیثما دار"( یعنی علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے جدھر وہ گردش کریں اگروہ اقدامات برحق اور منصب خلافت پر ابوبکر کا تعین صحیح تھا تو چاہیئے تھا کہ حضرت انتہائی رغبت اور پوری دلچسپی کے ساتھ ان لوگوں کا استقبال اور تصدیق کرتے نہ یہ کہ الٹی مخالفت کرتے، پس لامحالہ علی علیہ السلام کی مخالفت دو حال سے خالی نہیں تھی۔ یا تو علی کی روش حق کے خلاف تھی اور آپ نے حکم رسول(ص) سے سرتابی کی کہ خلیفہ پیغمبر(ص) سے بیعت نہیں کی۔ یا پھر آپ اس طرز خلافت اور طریقہ اجماع کو مصنوعی، سیاسی اور حق کے برخلاف سمجھتے تھے اس وجہ سے بیعت نہیں فرمائی۔

پہلی صورت تو حدیث پیغمبر(ص) کے پیش نظر کہ علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ گردش کرتا ہے، نیز اس لئے کہ آپ کو امام المتقین فرمایا۔ اور علی علیہ السلام قطعا اہل دنیا میں سے نہیں تھے، جاہ وہ منصب کی خواہش اور ہوا و ہوس کی آپ کے دل میں کوئی گنجائش نہ تھی، دنیا کو تین طلاق دے چکے تھے اور ریاست ظاہری کے طلب گار نہیں تھے، قطعا نا ممکن ہے۔ لہذا لازمی طور پر دوسری ہی صورت تھی کہ آپ چونکہ اس خلافت کو مصںوعی، سیاسی اور خدا و رسول(ص) کی مرضی کے خلاف جانتے تھے اس وجہ سے بیعت نہیں فرمائی۔

شیخ: آپ تو عجیب بات فرمارہے ہیں کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے بیعت نہیں کی حالانکہ ہماری اور آپ کی تمام کتب اخبار و تواریخ سے ثابت ہے کہ سیدنا علی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور اجماع سے اختلاف نہیں کیا۔

خیر طلب: تعجب تو آپ سے ہے کہ پچھلی گفتگو کو بالکل بھول ہی گئے جس میں میں نے آپ کا اکابر علمائ کے اقوال تفصیل سے پیش کئے تھے۔ یہاں تک کہ بخاری اور مسلم نے بھی اپنی صحیحیں میں میں لکھا ہے کہ علی نے اس وقت بیعیت نہیں کی۔ آپ کے علمائ نے عام طور سے اعتراف کیا ہے کہ روز اول جب حضرت کو جبر و اہانت کے ساتھ گھر سے کھینچتے ہوۓ مسجد میں لے گئے

۲۲۹

( جیسا کہ پچھلی شبوں میں تفصیل سے عرض کیا جاچکا ہے) تو آپ نے بیعت نہیں کی اور اسی طرح واپس آگئے۔ ابراہیم بن سعد ثقفی متوفی سنہ283ھ ابن ابی الحدید اور طبری وغیرہ نے لکھا ہے کہ حضرت کی بیعت چھ مہینے بعد ہوئی( یعنی صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد جیسا کہ گذشتہ شبوں میں تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے)

بفرض محال اگر ہم ان بھی لیں کہ حضرت بیعت کر لی تو کم و بیش چھ ماہ تک کیوں تو ؟؟؟؟ کیا اور بیعت نہیں کی؟ بلکہ اس کے خلاف احتجاج بھی کیا؟ حالانکہ علی(ع) جیسے مجسمہ حق و تقوی فرد کو ایک ساعت کے لئے بھی حق سے منحرف ہونا اور اس کو پسِ پشت ڈال دینا مناسب نہیں تھا۔

شیخ : ضرور کوئی وجہ رہی ہوگی، چنانچہ اس موقع پر وہ خود بہتر سمجھتے تھے کہ کیا کرنا چاہیئے۔ اب ہم کو کیا پڑی ہےکہ بزرگوں کے باہمی معاملات ا ور ان کے اختلاف میں تیرہ سو برص کے بعد دخل دیں؟ ( حاضرین کا زور دار قہقہہ)

خیر طلب: میں بھی آپ کے اسی قدر جواب پر قناعت کرتا ہوں، کیوںکہ جب آپ کو اپنا مطلب ثابت کرنے کے لئے کوئی معقول جواب نہیں ملااور گریز و دفاع کا کوئی راستہ نظر نہ آیا تو اس قسم کے جواب کا سہارا لیا۔ لیکن نیک اور اںصاف پسند اشخاص کے نزدیک بات اس قدر واضحاور روشن ہے کہ کسی دلیل و برہان کی محتاج نہیں۔

رہا آپ کا یہ فرمانا کہ بزرگوں کے معاملات اور اختلافات میں ہم دخل دینے کی ضرورت نہیں، تو یقینا جہاں تک ان کا اور ان کے معاملات کا تعلق ہم سے نہیں ہے آپ کا فرمانا درست ہے اور بزرگوں کے اختلاف آرائ میں ہم کو دخل دینے کا حق نہیں ہے لیکن اس موضوع میں خصوصیت کے ساتھ آپ کو دھوکا ہوا ہے، کیونکہ ہر صاحب عقل مسلمان کا فریضہ ہے کہ تقلیدی نہیں بلکہتحقیقی دین رکھتا ہو۔ اور دین میں تحقیق کا راستہ یہی ہے کہ جب ہم جہمور مسلمین کی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ وفات رسول(ص) کے بعد امت اور صحابہ کبار میں دو فرقے ہوگئے تو ہم کو چھان بین کر کے دیکھنا چاہیئے کہ ان دونوں فرقوں میں سے حق پر کون تھا تاکہ ہم اس کی پیروی کریں نہ یہ کہ بربناۓ عادت اور ماں باپ اور اسلاف کی تقلید میں بغیر کسی جانچ پڑتال کے محض اپنے خیال سے کسی راستے کو حق سمجھ کے اندھا دھند اس پر چلنے لگیں۔

شیخ: آپ یقینا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق نہیں تھی۔ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت برحق نہیں تھی اور یہ منصب علی کرم اللہ وجہہ کا حق تھا تو اپنی مخصوص قوت وشجاعت نیز حق و حقیقت کے نفاذ میں پوری دلچسپی رکھنے کے باوجود جب کہ دوسرے لوگ ان کو ترغیب بھی دے رہے تھے حق کو قائم کرنے کے لیے کیوں نہیں اٹھے یہاں تک کہ بقول آپ کے چھ مہینے کے بعد بیعت(1) بھی کر لی، نماز میں بھی حاضر ہوتے تھے اور مشورہ طلب مواقع پر خلفائ رضی اللہ عنہم کو صائب رائیں بھی دیا کرتے تھے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یہ خیال در اصل اہل سنت کا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے بیعت کی ہی نہیں جس کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ خلافت کیتیسری منزل میں جب آپ کے سامنے سیرت شیخیں پر عمل کرنے کی شرط رکھی گئی تو باتفاق فریقین آپ نے خلافت ظاہری سے محروم رہنا گوارا کر لیا لیکن اس شرط کو ٹھکرا دیا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص کسی کی بیعت کرچکا ہو وہ اس کی سیرت پر عمل کرنے سے انکار نہیں کرسکتا اور پھر علی(ع) جیسا اپنے فرض اور عہد کا پابند انسان 12 مترجم عفی عنہ۔

۲۳۰

تنہائی کی وجہ سے انبیائ(ع) کا سکوت اور گوشہنشینی

خیر طلب: پہلی چیز تو یہ کہ انبیائ(ع) ا وصیائ مشیت خداوندی اور ہدایات الہی کے مطابق عمل کرتے تھےاور اپنا ذاتی ارادہ نہیں رکھتے تھے لہذا ان کے اوپر اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ جنگ کے لئے کیوں نہیں اٹھے یا دشمنوں کے مقابلہ میں سکوت و گوشہ نشینی کیوں اختیار کی یا شکست کیوں کھائی؟

اگر انبیاۓ عظام اور اصیاۓ کرام کے تاریخی حالات دیکھیئے تو اس قسم کے واقعات کثرت سے ملیں گے جو آپ کے خیالات سے میل نہیں کھاتے۔ خصوصیت کے ساتھ قرآن مجید نے بھی ان میں سے بعض کاذکر

کیا ہے کہ ان حضرات نے ہمراہی اورمددگار نہ ہونے کی وجہ سے خاموشی اور گوشہ نشینی یا روپوشی اور فرار اختیار کیا چنانچہ آیت نمبر10 سورہ نمبر54(قمر) میں شیخ الانبیائ حضرت نوح(ع) کا قول بیان کرتا ہے: "فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي‏ مَغْلُوبٌ‏ فَانْتَصِرْ "( یعنی پس خدا سے دعا کی کہ بار الہا میں ا پنی قوم سے مغلوب ہوں لہذا میری مدد کر) آیت نمبر48 سورہ نمبر16( مریم) میں حضرت ابراہیم علی نبینا و آلہ و علیہ السلام کے سکوت و کنارہ کشی کی خبر دیتا ہے کہ جس وقت انہوں نے اپنے چچا آزر سے امداد مانگی اور مایوس کن جواب پایا تو فرمایا:

"وَ أَعْتَزِلُكُمْ‏ وَ ما تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَ أَدْعُوا رَبِّي "

یعنی میں تم سے اور ان بتوں سے جن کی تم خدا کے علاوہ پرستش کرتے ہو کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں۔

پس جس مقام پر اپنے چچا سے امداد اور کمک نہ ملنے کی وجہ سے ابراہیم خلیل اللہ عزلت وگوشہ نشینی اختیار کریں، وہاں یار و مددگار نہ ملنے کی وجہ سے علی علیہ السلام کو بدرجہ اولی عزلت و کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیئے۔

شیخ: میرا خیال ہے کہ اس عزلت سے مراد عزلت قلبی ہے کہ ان سے قلبا دوری اور بیزاری اختیار کی نہ کہ عزلت مکانی۔

خیر طلب: اگر جناب عالی فریقین کی تفسریں ملاحظہ فرمائیں تو دیکھیں گے کہ اعتزل سے مراد عزلت مکانی تھی نہ کہ عزلت قلبی مجھ کو یاد ہے کہ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد پنجم ص809 میں کہتے ہیں:

" الاعزال للشئی هوالتباعدعنه ولمرادانی افارقکم فی المکان وافارقکم فی طریقتکم"

یعنی کسی چیز سے اعتزال کے معنی ہیں اس سے دوری اختیار کرنا، اور حضرت ابراہیم کی مراد یہ تھی کہ میں تم سے مکانی اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے دوری اور علیحدگی اختیار کرتا ہوں۔

۲۳۱

چنانچہ ارباب سیر نے روایت کی ہے کہ اس قضیے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل سے کوہستان فارس کی طرف ہجرت کر گئے اورسات سال تک انہیں پہاڑوں کے اطراف خلقت سے الگ تھلگ زندگی بسر کی، اس کےبعد بابل واپس آکے اپنی تبلیغ شروع کی اور بتوں کو توڑا۔ اس پر لوگوں نے ان کو گرفتار کر کے آگ میں ڈال دیا۔ خداوند عالم نے آگ کو ان پر سرد و سلامتی بنا دیا اور اس طرح ان کی رسالت کا سکہ بیٹھا۔

آیت نمبر20 سورہ نمبر28 (قصص) میں خوف و ہراس کی وجہ سے حضرت موسی علیہ السلام کے فرار کرنے کا قصہ اس طرح نقل فرمایا ہے:

" فَخَرَجَ‏ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ قالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ‏"

یعنی پسموسی خوف کی حالت میں دشمن کی نگرانی کرتے ہوۓ شہر سے باہر نکلے اور کہا خداوندا مجھ کو قوم ستمگار سے نجات دے۔

سورہ اعراف میں حضرت موسی(ع) کی عدم موجودگی میں سامری کے بہکانے سے بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی، اس کی شعبدہ بازی اور حضرت موسی(ع) کے خلیفہ ہونے کے باوجود حضرت ہارون کی خاموشی کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ آیت 149 میں خبر دی کہ:

" وَ أَخَذَ بِرَأْسِ‏ أَخِيهِ‏ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي "

یعنی موسی(ع) غصے میں اپنے بھائی کاسرپکڑ کے اپنی طرف کھینچنے لگے تو انہوں نے کہا اے میری ماں کے فرزند ( میری طرف سے ہدایت میں کوتاہی نہیں ہوئی بلکہ) در حقیقت قوم نے مجھ کو حقیر و کمزور بنا دیا اور قریب تھا کہ مجھ کو قتل کر ڈالیں۔

امر خلافت میں ہارون(ع) سے علی(ع) کی مشابہت

پس آیات قرآنی کے مطابق حضرت ہارون علیہ السلام نے جو پیغمبر اور حضرت موسی علیہ السلام کے منصوص خلیفہ تھے اپنی تنہائی کی وجہ سے اور اسبنا پر کہ امت نے ان کو ضعیف خوار بنا دیا تھا سامری کے عمل شفیع اور لوگوں کے شرک و گوسالہ پرستی کے مقابلے میں سکوت اختیار کیا اور تلوار نہیں اٹھائی۔

لہذا علی علیہ السلامبھی جن کو رسول اللہ(ص)نے ہارون کی شبیہ اور منزلت ہارونی کا حامل بتایا تھا و جیسا کہ ہم گذشتہ شبوں میں تفصیل سے عرض کرچکے ہیں) اس بات کا پورا حق رکھتے تھے کہ جب ایسی صورت حال پیش آجاۓ آپ تنہارہ جائیں اور دنیا طلبوں اور مخالفین کو دوسری طرف پائیں تو جناب ہارون کی طرحبسر و تحمل اختیار کریں۔ اسی بنا پر آپ کے اکابر علمائ کی روایتوں کے مطابق جو پہلے عرض کی گئیں جس وقت حضرت کو جبرا مسجد میں لاۓ، برہنہ تلوار آپ کے سر پر رکھی اور بیعت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تو آپ نے اپنے کو قبر رسول(ص) تک پہنچایا اور وہی الفاظ دہراۓ جو خدا نے حضرت ہارون کی زبان نقل فرماۓ ہیں کہ انہوں نے حضرت موسی سے کہا تھا:

"ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي "

مطلب یہ تھا، کہ یا رسول اللہ(ص) دیکھئیے امت نے مجھ کو تنہا چھوڑ دیا ہے، مجھ کو حقیر و ضعیف بنا دیا ہے اور چاہتے ہیں کہ مجھ کو قتل کردیں۔تمام

۲۳۲

انبیائ کی سیرتوں سے بالاتر اور سب سے بڑی حجت خود حضرت خاتم الانبیائ(ص) کی سیرت ہےجس پر غور کرنا ہمارے لئے ضروری ہے کہ مکہ معظمہ میں دشمنوں اور امت کی بدعتوں کے مقابل تیرہ سال تک کیوں خاموش رہے، یہاں تک کہ اپنے مرکز بعثت اور وطن مالوف سے رات کے وقت چھپ کر نکل گئے؟

بات صرف یہی تھی کہ آپ کے پاس ناصر و مددگار نہیں تھے لہذا انبیائ نے سلف کے مانند صبر و تحمل اور وہاں ٹھہرنے کے بجاۓ ہٹ جانے کو ترجیح دی، کیونکہ " الفرار مما لا یطاق من سنن المرسلین" یعنی جس چیز کی طاقت نہ ہو اس سے فرار اختیار کرنا پیغمبروں کی سنت۔ 12 مترجم، بلکہ اس سے بڑھ کر کہوں آں حضرت(ص) اپنی قدرت و طاقت کے دور میں بھی قوم سے کماحقہ بدعت کے آثار کو ہر طرف نہیں کرسکے۔

شیخ: یہ کیوں کر یقین کیا جاسکتا ہے کہ آں حضرت(ص) بدعتوں کو برطرف نہیں کرسکے؟

خیر طلب: حمیدی نے جمع بین الصحیحیں میں اور امام احمد ابن حنبل نے مسند میں ام المومنین عائشہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے ان سے فرمایا کہ اگر یہ لوگ عہد کفر اور زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتے اور مجھ کواس کاخوف نہ ہوتا کہ یہ اپنے دلوں سے اس کے منکر ہوجائیں گے تو میں حکم دیتا کہ خانہ کعبہ کو مسمار کردیا جاۓ اور جو کچھ اس میں سے نکال دیا گیا ہے وہ پھر اس میں داخلکیا جاۓ میں اس عمارت کو زمین کے برابر کر کے زمانہ حضرت ابراہیم کی طرح مشرق و مغرب کی جانب اس کے دو دروزے قائم کرتا اور حضرت ابراہیم کی قائم کی ہوئی بنیادوں پر پھر سے اس کی تعمیر کرتا۔

حضرات ذرا اںصاف سے غور کیجئے تو ماننا پڑے گا کہ جہاں رسول اللہ(ص) باوجود اس بلند مرتبے اور الہی منصب کے کہ آپ شرک و کفر اور اس کے آثار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے مبعوث ہوۓ تھے اپنے صحابہ سے مطمئن نہ ہوں( جیسا کہ آپ کے بڑےبڑے علمائ نے لکھا ہے) اور تعمیر ابراہیمی میں داخل کی ہوئی بدعتکر کے اس کو اصلی صورت پر اس لئے نہ لاسکیں کہ کہیں مسلمان اپنی عہد جاہلیت کی عادت کے پیش نظر اس سے انکار نہ کر بیٹھیں، وہاں امیرالمومنین علیہ السلام بھی اس سیرت اور دستور پر عمل کرنے میں حق بجانب تھے، کیونکہ آپ کا سامنا ایک ایسی حاسد اور کینہ پرور قوم سے تھا جو اس چیز کا موقع ہی تلاش کررہی تھی کہ انتقام لینے کے لئے آپ کو بلکہ اصل دین اسلام ہی کو نظم و عداوت کے تیروں کا نشانہ بنائے۔

چنانچہ فقیہ واسطی ابن مغازلی شافعی اور خطیب خوارزمی نے اپنے مناقب میں نقل کیا ہے کہ رسول صلعم نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ امت تمہاری طرف سے دلوں میں کینے رکھتی ہے اور میرے بعد عنقریب یہ لوگ تم کو دھوکا دیں گے اور جو کچھ اپنے دلوں میں چھپاۓ ہوۓ ہیں اس کوظاہر کریں گے۔ میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ اس وقت صبر و تحمل سے کام لینا تاکہ خدا تم کو اس کا اجر اور جزاۓ خیر عنایت فرماۓ۔

۲۳۳

وفاتِ رسول(ص) کے بعد خدا کے لئے علی(ع) کا صبر وسکوت

دوسرے امیرالمومنین علیہ السلام وہ یکتا انسنا کامل تھے جنہوں نے زندگی بھر کبھی اپنی ذات کی طرف نہیں دیکھا بلکہ ہر وقت خدا پر نظر رکھتے تھے، یعنی ہر حیثیت سے فنا فی اللہ کی منزل میں تھے آپ اپنے کو، اپنے متعلقین کو اور امامت وخلافت اور ریاست کو محض خدا اور خدا کے دین کے لئے چاہتے تھے، لہذا آپ کا صبر وتحمل، خاموشی اور اپنا مسلم الثبوت حق حاصل کرنے کے لئے مخالفین سے مقابلہ نہ کرنا بھی صرف خدا کے لئے تھا تاکہ ایسا نہ ہو مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ پڑ جاۓ۔

لوگ اپنے سابق کفر کی طرف پلٹ جائیں۔ چنانچہ اس موقع پر جب حضرت فاطمہ مظلومہ(ع) کا حق چھینا جاچکا اور آپ مظلومی و مایوسی کی حالت میں گھر پلٹیں تو آپ نے امیرالمومنین علیہ السلام کو مخاطب کر کے عرض کیا:

" اشْتَمَلْتَ‏ شَمْلَةَ الْجَنِينِ‏، وَ قَعَدْتَ حُجْرَةَ الظَّنِينِ، نَقَضْتَ قَادِمَةَ الْأَجْدَلِ، فَخَانَكَ رِيشُ الْأَعْزَلِ، هَذَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ يَبْتَزُّنِي نَحِيلَةَ أَبِي وَ بُلْغَةَ ابْنَيَّ، الخ لَقَدْ أَجْهَرَ فِي خِصَامِي، وَ أَلْفَيْتُهُ أَلَدَّ فِي كَلَامِي"

یعنی آپ جنین کے مانند سمٹ کے بیٹھ رہے، ایک متہم انسان کی طرح گوشہ نشینی اختیار کر لی اور اپنے شکاری پرندے والے شہ پر توڑ دیئے۔ پس کمزور پرندے والے پروں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔ یہ ابن قحافہ(ابوبکر) میرے باپ کا عطیہ اورمیرے بچوں کا ذریعہ معاش مجھ سے بجز چھین رہا ہے۔ الخ ۔ در حقیقت ان لوگوں نے مجھ سے کھلی ہوئی دشمنی برتی اور مجھ سے بدکلامی کی۔

آپ کی تقریر طولانی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سارا بیان سنتے رہے۔ یہاں تک کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا خاموش ہوئیں تو ایک مختصر جواب دے کر ان معصومہ کو مطمئن کردیا۔ من جملہ اس کے فرمایا۔ فاطمہ! میں نے امر دین اور احقاق حق میں جہاں تک ممکن تھا کوتاہی نہیں کی آیا تم یہ چاہتی ہو کہ یہ دین مبین باقی اور پائدار رہے اور تمہارے باپ کا نام ابد تک مسجدوں اور اذانوں کے اندر لیا جاتا رہے؟

آپ نے کہا میری سب سے بڑی آرزو اور خواہش یہی ہے۔ حضرت نے فرمایا، پس اس صورت میں تم کوصبر کرنا چاہیئے کیونکہ تمہارے باپ حضرت خاتم الانبیائ(ص) نے مجھ کو اس کے لئے وصیتیں فرمائی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ صبر سے کام لینا چاہیئے ورنہ میں اتنے طاقت رکھتا ہوں کہ دشمنوں کو زیر کر کے تمہارا حق وصول کرلوں، لیکن یہ جان لوکہ پھر دین ختم ہوجاۓ گا لہذا خدا کے لئے اور دین خدا کی حفاظت کے لئے صبر کرو کیونکہ آخرت کا ثواب تمہارے لئے اس حق سے بہتر ہے جو تم سے غصب کر لیا گیا ہے۔

اسی بنا پر حضرت نے صبر کو اپنا لائحہ عمل قرار دیا اور حوزہ اسلام کے تحفظ کی غرض سے ضبط و خاموشی اختیار کی تاکہ پارٹی بندی نہ پیدا ہونے پاۓ، چنانچہ اپنے اکثر خطبات و بیانات میں ان پہلوؤں کی طرف اشارہ بھی فرماتے رہے۔

۲۳۴

وفات رسول(ص) کے بعد خاموشی کی مصلحت پر علی(ع) کے بیانات

من جملہ ان کے ابراہیم بن محمد ثقفی جو ثقاتعلماۓ اہل سنت میں سے ہیں۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور علی بن محمد ہمدانی نقل کرتے ہیں کہ جب طلحہ اور زبیر نے بیعت توڑ دی اور بصرے کی طرف روانہ ہوۓ تو حضرت علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ لوگ مسجد میں جمع ہوں اس کےبعد ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا جس میں حمد و ثناۓ الہی کے بعد فرمایا:

" فإنّ اللّه تبارك و تعالى لمّا قبض نبيّه صلى اللّه عليه و آله و سلّم قلنا: نحن‏ أهل‏ بيته‏ و عصبته، و ورثته، و أوليائه، و أحقّ خلائق اللّه به، لا تنازع حقّه و سلطانه، فبينما نحن على ذلك، إذ نفر المنافقون، فانتزعوا سلطان نبيّنا صلى اللّه عليه و آله و سلّم منّا، و ولّوه غيرنا، فبكت لذلك و اللّه العيون و القلوب منّا جميعا، و خشّنت و اللّه الصدور، و أيم اللّه لو لا مخافة الفرقة بين المسلمين أن يعودوا إلىالكفر، و يعوّر الدين لكنّا قد غيّرنا ذلك ما استطعناه، و قد ولّى ذلك ولاة و مضوا لسبيلهم، و ردّ اللّه الأمر إلينا و قد بايعاني، و قد نهضا إلى البصرة ليفرّقا جماعتكم، و يلقيا بأسكم بينكم"

مطلب یہ کہ وفاتِ رسول(ص) کے بعد ہم نے کہا کہ ہم پیغمبر(ص) کے اہل بیت آپ کے عزیز، آپ کے وارث، آپ کی عترت، آپ کے اولیائ اور اہل عالم میں آپ کی جانب سے سب سے زیادہ حقدار۔ آں حضرت(ص) کے حق اور سلطنتمیں ہمارا کوئی فریق نہیں تھا لیکن منافقین کے ایک گروہ نے گٹھ جوڑ کر کے ہمارے نبی کی حکومت وسلطنت کو ہم سے چھین لیا اور ہمارے غیر کے سپرد کردیا پس خدا کی قسم اس کے لئے ہماری آنکھیں اور ہمارے دل رو دیئے اور خدا کی قسم ہم سب کے سینے غم اور غصے سے لبریز ہوگئے خدا کی قسم اگر مسلمانوں میں تفرقہ پڑجانے کا خوف نہ ہوتا کہ وہ اپنے دین سے پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ تو ہم اس خلافت کا تختہ پلٹ دیتے( لیکن ہم نے سکوت اختیار کیا) وہ لوگ اس مسند پر قابض رہے یہاں تک کہ وہ اپنے ٹھکانے لگ گئے اور خدا نے امر خلافت کو پھر میری طرف پلٹایا چنانچہ ان دونوں(طلحہ و زبیر) نے بھی میری بیعت کی اس کے بعد محض اس لئے بصرے کی طرف کوچ کیا کہ تمہاری جماعت میں پھوٹ ڈال دیں اور تمہارے اندر خانہ جنگی پیدا کردیں۔

نیز آپ کے بڑے علمائ میں سے ابن ابی الحدید اورکلبی نے روایت کی ہے کہ بصرے کی طرف روانہ ہونے کے موقع پر حضرت نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور دوران تقریر میں فرمایا:

" إن الله لما قبض نبيه استأثرت علينا قريش بالأمر و دفعتنا عن حق نحن‏ أحق‏ به‏ من‏ الناس‏ كافة فرأيت أن الصبر على ذلك أفضل من تفريق كلمة المسلمين و سفك دمائهم و الناس حديثو عهد بالإسلام والدین"

یعنی جب رسولخدا(ص) نے رحلت فرمائی تو قریش نے خلافت کے

۲۳۵

۲۳۶

۲۳۷

اور نتیجہ یہ ہوتا کہ اسلام کی عمارت منہدم ہوجاتی۔

چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام حقائق کے عالم ودانا تھے اور رسول اللہ(ص) بھی آپ کو خبر دے چکے تھے۔ لہذا جانتے تھےکہ دین کی ا صل فنا نہ ہوگی اور لوگوںکے درمیان دین کی مثال آفتاب کے مانند ہے جو کچھ مدت تک تو جہل و عناد کی گھٹاؤں میں چھپ سکتا ہے لیکن آخر کار ظاہر و درخشان ہوکر رہے گا(چنانچہ وہی ہوا کہ اس بزرگوار کے نور حقیقت نے عالم کو روشن ومنور کیا۔

پس آپ نے اندازہ کر لیا کہ مصلحت دین کے اقتضا سے اس وقت صبر کر جانا اس سے بہتر ہے کہ مقابلے کے لیے میدان میں آجائیں جس سے گروہ بندی کی تشکیل ہو، مسلمانوں میں پھوٹپڑے اور دشمنوں کو دین کی جڑ کاٹنےکا موقع ملے اگرچہ رسولِ خدا(ص) بقاۓ اسلام کی خبر دے چکے تھے لیکن یہ مسلمانوں کی ذلت و حقارت کا سبب تو بنتا ہی اور ایک زمانے تک کے لئے ان کی ترقی پھر پستی کے غار میں جا پڑتی۔ خلاصہ یہ کہ چھ مہینے تک اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھی، جلسوں اور شبعوں میں کثرت سے مناظرے کر کے حق کو ظاہر فرمایا( جیسا کہ پچھلی شبوں میں عرض کرچکا) بیعت نہیں کی، اور گو کہ جنگ کے لئے نہیں اٹھے لیکن مباحثات اور احتجاجات کے ذریعے اثبات حق کرتے رہے۔

خطبہ شقشقیہ

چنانچہ خطبہ شقشقیہ کی ابتدا ہی سے اس مقصد کی طرف اشارہ فرمایا ہے فرماتے ہیں:

" أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَ إِنَّهُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُ‏ الْقُطْبِ‏ مِنَ‏ الرَّحَى‏ يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ فَسَدَلْتُ دُونَهَا ثَوْباً وَ طَوَيْتُ عَنْهَا كَشْحاً وَ طَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ وَ يَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ وَ يَكْدَحُ مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّهُ فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَى فَصَبَرْتُ وَ فِي الْعَيْنِ قَذًى وَ فِي الْحَلْقِ شَجاً أَرَى تُرَاثِي نَهْباً حَتَّى مَضَى الْأَوَّلُ لِسَبِيلِهِ فَأَدْلَى بِهَا إِلَى فُلَانٍ بَعْدَهُ الخ"

یعنی قسم خدا کی فلان شخص(ابوبکر) نے قمیص خلافت کو زبردستی پہن لیا حالانکہ یقینا وہ جانتا تھا کہ خلافت کے لئے میری حیثیت چکی کی میخ کی مانند ہے۔میرے سرچشمہ فیض سے علوم و معارف کا سیلاب امنڈتا ہے اور میرے علم و دانش کی بلندیوں میں کوئی پرندہ نہیں مارسکتا۔ پس میں نے اپنے اور اس جامہ خلافت کے درمیان پردہ ڈال دیا۔ اس سے پہلو تہی کی اور اس معاملہ میں غور کرنا شروع کیا آیا اس بریدہ اور شکستہ ہاتھوں سے(یعنی بغیر تاخیر و مددگار کے) اس پر حملہ کردوں یا ظلمت وتا ریکی ضلالت پر صبر کروں۔ یہ وہ مصیبت تھی جس کے صدمے سے بوڑھا ضعیف ہوجاۓ، خوردسال بوڑھا ہوجاۓ اور مومن رنج و غم میں مبتلا ہو۔ یہاں تک کہ اپنے

۲۳۸

پروردگار سے ملاقات کرے، اس وقت میں نے دیکھا کہ اس واقعے پر صبرکرنا ہی بہتر ہے اورع عقلمندی ہے۔ پس میں نے صبرکیا، در آنحالیکہ آنکھوں میں غبار اندوہ اور خار الم کی خلش تھی اور حلق میں غم و غصہ کا پھندا پڑ رہاتھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ میری میراث کس طرح تاخت و تاراج ہو رہی ہے، یہاں تک کہ پہلا تو اپنے راستے چلا گیا لیکن اپنے بعد خلافت کا تحفہ فلان ( عمر) کی گود میں ڈال گیاالخ۔

یہ سارا خطبہ حضرت کے درد دل سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن وقت اس سے زیادہ زحمت دینے کی اجازت نہیں دے رہے ہے۔ میرا خیال ہے کہ اثبات مقصد اور حضرت کے دلی تاثرات کو ظاہر کرنے کے لئے اسی قدر کافی ہے۔

خطبہ شقشقیہ میں اشکال اور اس کا جواب

شیخ: اول تو یہ خطبہ ان حضرت کی رنجیدگی کی دلیل نہیں ہے، دوسرے اس خطبے کا حضرت سے تعلق ہی نہیں ہے بلکہ ہو تو سیدشریف رضی الدین کی تصنیف ہے جس کو انہوں نے حضرت کے خطبات میں شامل کردیا ہے۔ ورنہ ان جناب کو خلفائ رضی اللہ عنہم سے کوئی شکایت نہ تھی بلکہ انتہائی خوشی تھی اور ان کے عمل درآمد سے بھی راضی تھے۔

خیر طلب: آپ کا یہ بیان سخت تعصب کا نتیجہ ہے ورنہ خلافت کے بارے میں حضرت کے بیانات اور شکایات کا پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے، اور حضرت کی رنجیدگی و آزردگی کچھ اسی خطبے سے مخصوص نہیں کہ آپ اس پر اشکال تراشی کریں آپ کے اس اشکال پر کہ یہ خطبہ ایک عابد و پرہیزگار اور بزرگوار عالم سید رضی الدین رضوان اللہ علیہ کی تصنیف ہے میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ آپ بغض و عناد کے باعث حد اعتدال سے آگے بڑھ گئے ہیں اور بغیر کسی دلیل کے آخری دور کے اپنے بعض متعصب اسلاف کی پیروی کی ہے۔ البتہ اتنا کہوں گا کہ آپ کا مطالعہ گہرا نہیں ہے ورنہ سمجھ میں آجاتا کہ یقینی اور قطعی طور پر یہ خطبہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے کیونکہ آپ کے بڑے بڑے علمائ متقدمین ومتاخرین مثلا عزالدین عبدالحمید ابن ابی الحدید، شیخ محمد عبدہ، مفتی مصر اور شیخ محمد خصری نے محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ ص117 میں شہادت دی ہے اور اعتراف کیا ہے کہ یہ خطبہ حضرت ہی کا ہے، نیز اس کی شرح بھی کی ہے۔ صرفچند آخری دور کے متعصب لوگوں نے اپنے فساد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے شبہات پیدا کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے ہیں ورنہ ان چالیس نفر سے زیادہ شیعہ و سنی اکابر علمائ میں سے جنہوں نے نہج البلاغہ کی شرحیں لکھی ہیں کسی ایک نے بھی ایسی بات نہیں کہی ہے۔

۲۳۹

سید رضیؒ کے حالات

اس کے علاوہ جلیل القدر عالم ربانی سید رضی الدین علیہ الرحمہ کی پرہیزگاری اور تقدس کا درجہ اس سے کہیںبلند ہے کہ ان پر خطبہ تصنیف کر کے حضرت علی علیہ السلام کی طرف اس کی جھوٹی نسبت دینے کا الزام لگایا جاۓ۔ اس کے ماسوا عربی ادب کے جن ماہرین نے نہج البلاغہ کے خطبوں پر غور کیا ہے انہوں نے ان کی فصاحت و بلاغت، قدرت الفاظ، بلندی مطالب اور ان کے اندر سموۓ ہوۓ علم و حکمت کے بیشبہاخزاںوں کے پیش ںظریہ طے کردیا ہے کہ سید رضی ہی نہیں بلکہ کسی فرد بشر کے لئےبھی ایسا کلام پیش کرنا ممکن نہیں ہے جب تک اس کا تعلق عالم غیب سے نہ ہو چنانچہ آپ کے اکابر علمائ جیسے عبدلحمید ابن ابی الحدید معتزلی نے اور متاخرین میں سے شیخ محمد عبد و مفتی مصر نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ حضرت کے خطبات وبیانات میں جو خوبصورت الفاظ، بلند مطالب اور نادر انداز کلام استعمال ہوا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کلمات کلام رسول(ص) کے بعد کلام خالق سے پست اور کلام مخلوق سے بلند ہیں۔

عالم جلیل القدر سید رضی رضوان اللہ علیہ کے نظم ونثر کلمات وخطبات اور رسائل شیعہ وسنی صاحبان علم کے تالیفات میں موجود ہیں جن کی نہج البلاغہ کے خطبوں سے مطابقت کرنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ دوںوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

چہ نسبت خاک را با عالم پاک

چنانچہ ابن ابی الحدید نقل کرتے ہیں کہ مصدق بن شبیب نے ابن الخشاب جیسے مشہور و معروف شخص سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا، نہ رضی نہ غیر رضیکسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے کہ ایسے نادر اسلوب کے ساتھ ایسا کلام پیش کرسکے۔ ہم نے کلمات رضی کو دیکھاہے، ان کو اس مقدس خطبات سے ہرگز کوئی رابطہ نہیں ہے۔

خطبہ شقشقیہ سید رضیؒ کی ولادت سے پہلے درج کتب تھا

علمی قواعد اور عقل اصول سے قطع نظر فریقین ( شیعہ وسنی)کے اہل علم اور اصحاب حدیث و تاریخ کے بڑی جماعت نے عالم گزرگوار سید رضی الدین اور ان کے پدر مرحوم ابو احمد نقیب الطالبین کی ولادت سے قبل اس خطبے کی روایت کی ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں کہتے ہیں کہ اس خطبہ شریفہ کو میں نے اپنے شیخ ابوالقاسم بلخی امام معتزلہ کی تصانیف میں کثرت سے پایا ہے۔ جو مقتدر باللہ عباسی کے زمانے میں تھے، اور ظاہر ہے کہ سید رضی کی ولادت اس کے مدتوں بعد ہوئی ہے۔اس کے علاوہ میں نے اس کو مشہور متکلم ابوجعفر بن قبہ کی کتاب الانصاف میں بھی بارہا دیکھا ہے جو

۲۴۰