پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور20%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316750 / ڈاؤنلوڈ: 7968
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

بالصواب عرض کرتا۔ گذارش ہے کہ اب بھی میری درخواست قبول کیجئے اور اس موضوع پر علانیہ گفتگو نہ کیجئے۔ ایک روز صبح کو میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائوں گا اور ہم دونوں اس مسئلے کو حل کر لیں گے۔

حافظ : میں بے قصور ہوں، چونکہ حضرات اہل جلسہ کئی راتوں سے مجھ پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ یہ موضوع زیر بحث لایا جائے۔ لہذا انہیں کی خواہش پر میں نے یہ سوال اٹھایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کی گفتگو سنجیدہ ہوتی ہے۔ لہذا اگر ان کی تسکین خاطر کے لیے کوئی مسکت جواب دے دیجئے تو کوئی ضرر نہ ہوگا یا پھر تصدیق کیجئے کہ حق ہمارے ساتھ ہے۔

نواب : صحیح ہے۔ ہم سب منتظر ہیں کہ معمہ حل ہو۔

خیر طلب :چونکہ آپ حکم دے رہے ہیں لہذا تعمیل کرتا ہوں لیکن آپ کے ایسے محترم فاضل سے مجھ کو یہ امید نہیں تھی کہ ان مفصل تشریحات کے بعد جو میں گذشتہ شبوں میں پیش کرچکا اور کفر کے پہلو واضح کرچکا پھر بھی ملت شیعہ سے کفر کو نسبت دیجئے گا۔ حالانکہ میں آپ کے سامنے پورا ثبوت دے چکا کہ شیعہ اثناعشری محمد و آل محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین کے پیرو ہیں لہذا ہرگز کافر نہیں ہوسکتے چونکہ آپ نے چند مخلوط جملے بیان فرمائے ہیں۔ لہذا میں مجبور ہوں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے علیحدہ جواب عرض کروں تاکہ جملہ حضرات حاضرین و غائبین خود ہی انصاف کے ساتھ فیصلہ کر کے اپنے دلوں سے شبہات کو دور کریں اور جان لیں کہ نہ شیعہ کافر ہیں نہ کفر کے وہ طریقے ہیں جو آپ نے بیان فرمائے۔

صحابہ پر طعن و ایراد موجب کفر نہیں

اوّل آپ نے فرمایا ہے کہ شیعہ صحابہ اور بعض ازواج رسول(ص) پر جو طعن اور تنقید کرتے ہیں وہ موجب کفر ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ بیان کس دلیل و برہان کے رو سے دیا گیا۔ اگر طعن اور تنقید دلیل و برہان سے مضبوط ہو تو قطعا مذموم بھی نہیں ہے۔ نہ یہ کہ اس کو کفر کا سبب بتایا جائے، بلکہ اگر بغیر کسی ثبوت کے محض تہمت ہی تہمت ہو جب بھی باعث کفر نہیں۔

مثلا کسی مومن پر چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو کوئی شخص بلا وجہ بھی طعن اور تنقید یا لعنت کرے۔ تو وہ کافر نہ ہوگا، بلکہ فاسق ہوگا۔ جیسے کہ شراب پینے والا یا زنا کرنے والا۔ بدیہی چیز ہے کہ ہر فسق اور گناہ معافی اور در گذر کے قابل ہوتا ہے۔

چنانچہ ابن حزم ظاہری اندلسی متولد سنہ۴۵۶ہجری کتاب الفصل فی الملل والنحل جز سوم ص۲۲۷ میں کہتے ہیں کہ جو شخص جہالت اور نادانی کی وجہ سے اصحاب رسول(ص) کو گالی دے تو وہ معذور ہے اور اگر جان بوجھ کر دے تو فاسق

۲۱

ہوگا جس طرح کوئی زنا اور چوری جیسے گناہوں میں مشغول ہو۔ البتہ جب اس نیت سے دشنام دے کہ یہ رسول خدا(ص) کے اصحاب ہیں توکافر ہوجائے گا۔ کیوں کہ اس کی انتہا خدا و رسول(ص) کی عداوت اور اہانت پر ہوگی۔

ورنہ صرف صحابہ کو دشنام دینا موجب کفر نہیں ہے، چنانچہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے پیغمبر سےعرض کیا کہ آپ اجازت دیجئے میں حاطب منافق کی گردن ماردوں( باوجودیکہ یہ بزرگان صحابہ، مہاجرین اور اصحاب بدر میں سے تھا) پھر بھی وہ اس گالی اور نفاق کی نسبت دینے سے کافر نہیں ہوئے۔ انتہی کلامہ۔

پس کیونکر ممکن ہے کہ شیعوں کو اس لیے کافر کہہ دیا جائے کہ وہ بعض افراد صحابہ کو دشنام دیتے ہیں۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آپ سچ کہتے ہیں؟ در آنحالیکہ آپ کے اکابر علماء متقدمین اپنی معتبر کتابوں میں از روئے انصاف آپ کے عقیدے کے بر خلاف حق اور حقیقت کی کافی حمایت کرچکے ہیں۔ من جملہ ان کے قاضی عبدالرحمن ریجی شافعی نے مواقف میں ان وجوہ کو تعصب و عناد کا نتیجہ بتاتے ہوئے رد کیا ہے جن کو آپ کے متعصب علماء نے شیعوں کے کفر میں بیان کیا ہے۔

امام محمد غزالی صریحا لکھتے ہیں کہ صحابہ کا سب و شتم ہرگز کفر نہیں ہے، یہاں تک کہ سب شیخین بھی باعث کفر نہیں ملا سعد تفتازانی شرح عقائد نسفی میں کہتے ہیں کہ متعصب لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ صحابہ کو سب وشتم کرنے والے کافر ہیں، تو اس میں اشکال ہے اور ان کا کفر ثابت نہیں، اس لیے کہ بعض علماء نے جو صحابہ سے حسن ظن رکھتے تھے ان کی بد اعمالیوں سے چشم پوشی کی بلکہ ان کی مہمل تاویلیں کیں اور کہا کہ رسول اللہ(ص) کے صحابہ گمراہی اور فسق وفجور سے محفوظ تھے۔ حالانکہ ایسا نہ تھا اور اس کی دلیل وہ لڑائیاں ہیں جو ان کے درمیان واقع ہوئیں۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ گمراہ فاسق اور گنہگار تھے بغض و حسد، اور جاہ طلبی ان کو رے افعال پر مجور کرتی تھی اور یہ حق سے منحرف ہوجاتے تھے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے بزرگ صحابہ بھی اعمال بد سے پاک نہ تھے۔ پس اگر کوئی شخص دلیل کے ساتھ ان کی گرفت اور تنقید کرے تو موجب کفر نہ ہوگا کیونکہ بعض نے محض حسن و ظن کی وجہ سے ان چیزوں پر پردہ ڈالا ہے اور نقل نہیں کیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ان کی حرکتوں کو نقل کر کے ان پر نکتہ چینی کرتے ہیں، ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کافر ہیں اس لیے کہ ہر وہ صحابی جس نے رسول اللہ(ص) کو دیکھا معصوم اور بے گناہ نہیں تھا۔ انتہی۔

ان باتوں کے علاوہ ابن اثیر جزری صاحب جامع الاصول نے شیعوں کو اسلامی فرقوں میں شمار کیا ہے لہذا آپ کیوںکر ان پر کفر عائد کرتے ہیں؟ بعض صحابہ کے اعمال کی وجہ سے ان کو برا کہنے والوں کے عدم کفر کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خلفاء کی زندگی میں کچھ لوگ ان کو سب وشتم کرتے تھے اور رکیک گالیاں دیتے تھے۔ پھر بھی خلفاء انکے کفر اور قتل کا حکم نہیں دیتے تھے۔

چنانچہ حاکم نیشاپوری مستدرک جز چہارم ص۳۳۵ و ص۳۵۴ میں، احمد بن حنبل مسند جز اول ص۹ میں، ذہبی تلخیص مستدرک میں، قاضی عیاض کتاب شفاء جز چہارم باب اول میں اور امام غزالی احیاء العلوم جلد دوم میں نقل کرتے ہیں کہ زمانہ خلافت ابوبکر میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور انکو اس طرح سےفحش باتیں کہیں اور گالیاں دیں کہ حاضرین کو غصہ آگیا، ابوبرزہ سلمی نے کہا کہ خلیفہ کی اجازت ہو تو اس کو قتل کردوں۔ اس لیے کہ یہ کافر ہوگیا ہے۔ ابوبکر نے کہا نہیں ایسا نہیں سوا پیغمبر(ص)

۲۲

کے ایسا حکم نہیں لگا سکتا۔

واقعی حضرت اہل تسنن مدعی سست گواہ چست کے مصداق ہیں۔ خود خلیفہ سب و شتم اور گالیاںسنتے ہیں اور کفر کا فتوی یا قتل کا حکم نہیں دیتے لیکن آپ حضرات ( اپنی فرضی خیالات کی بنا پر) بے خبر عوام کو بہکاتے ہیںکہ شیعہ صحابہ کو سب و شتم کرتے ہیں لہذا کافر ہیں اور ان کا خون حلال ہے۔

اگر سب صحابہ موجب کفر ہے تو آپ حضرات معاویہ اور ان کے پیروئوں کو کس لیے کافرنہیں کہتے ہیں جنہوں نے صحابہ کی فرد اکمل اور خلفاء میں سے افضل امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر سب وشتم اور لعنت کی؟

پس معلوم ہوا کہ آپ کا مقصد کچھ اورہی ہے اور وہ ہے اہل بیت و عترت طاہرہ(ع) اور ان کی پیروی کرنے والوں سے جنگ۔

اگر صحابہ بالخصوص خلفاء راشدین پر سب وشتم کرنا کفر ہے تو آپ حضرات ام المومنین عائشہ پر کس لیے کفر کا فتوی نہیں دیتے جن کے لیے آپ کے تمام علماء و مئورخین نے لکھا ہے کہ ہمیشہ خلیفہ عثمان پر سب وشتم کیا کرتی تھیں اور علانیہ کہتی تھیں۔"اقتلوا انعثلا فقد کفر " یعنی اس فاتر العقل بوڑھے (یعنی عثمان ) کو قتل کر ڈالو کیوںکہ فی الحقیقت یہ کافرہوگیا ہے۔

اگر مظلوم شیعوں میں سے کوئی شخص کہدے کہ اچھا ہوا کہ عثمان مار دالے گئے اس لیے کہ وہ کافر تھے تو آپ حضرات اس کو کافر اور واجب القتل کہدیں گے۔ لیکن خود عثمان کے منہ پر عائشہ ان کو نعثل اور کافر کہتی تھیں تو نہ خلیفہ ان کو منع کرتے تھے نہ صحابہ کی طرف سے کوئی تنبیہ ہوتی تھی اور نہ آپ ہی ان کی ندامت کرتے ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب اس نعثل کے کیا معنی ہیں جس کی طرف نسبت دی گئی؟

خیر طلب : فیروز آبادی جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں۔ " قاموس اللغہ" میں اس کے معنی بیان کرتے ہیں۔ نعثل بے وقوف بوڑھے کو کہتے ہیں، نیز مدینے میں ایک بڑی داڑھی والا یہودی تھا جس سے عثمان کو تشبیہ دیتے تھے اور شارح قاموس علامہ قزوینی یہی معنی بیان کرنے کے بعد مزید کہتے ہیں کہ ابن حجر نے تبصرۃ المنتبہ میں ذکر کیا ہے کہ :

"اننعثليهوديكانبالمدينةهورجللحيانيكانيشبه‏ به‏ عثمان‏ "

یعنی نعثل مدینہ میں ایک لمبی داڑھی والا یہودی تھا جس سے عثمان کو مشابہت تھی۔

سب سے بالاتر یہ کہ اگر صحابہ کو دشنام دینا برا کام ہے اور دشنام دینے والا کافر ہے تو خلیفہ ابوبکر بالائے منبر صحابہ اور جماعت مسلمین کے سامنے سب سے بلند و برتر صحابی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو کیوں گالی دی؟ اس پر آپ کو غصہ نہیں آتا ہے بلکہ ابوبکر کی توصیف و تقدیس ہوتی ہے۔ حالانکہ مذمت ہونا چاہئیے۔

حافظ : کیوں تہمت لگا رہے ہیں؟ کہاں خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ علی کرم اللہ وجہہ کا گالی دی؟

خیر طلب : معاف کیجئے گا ہم تہمت لگانے والوں میں سے نہیں۔ جب تک کسی چیز کی جانچ نہیں کر لیتے نقل

۲۳

نہیں کرتے۔ بہتر ہوگا کہ شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۸۰ میں ملاحظہ فرمائیے کہ ابوبکر نے مسجد میں بر سر منبر امیرالمومنین علیہ السلام پر طعن کرتے ہوئے کہا :

"إنماهوثعالةشهيده‏ ذنبه،مربّلكلفتنة،هوالذييقول: كروهاجذعةبعدماهرمت،يستعينونبالضعفة،ويستنصرونبالنساء،كأمطحالأحبأهله االيهاالبغي"

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ وہ (علی علیہ السلام) ایک لومڑی ہے۔ جس کی گواہ اس کی دم ہے۔ طرح طرح کے نکتے اٹھاتا ہے بڑے بڑے فتنوں کو گھٹا کے بیان کرتا ہے اور لوگوں کو فتنہ و فساد کی ترغیب دیتا ہے۔ ضعیوں سے کمک مانگتا ہے۔ اور عورتوں سے امداد حاصل کرتا ہے وہ ام طحال کے مانند ہے(ابن ابی الحدید تشریح کرتے ہیں کہ یہ زنانہ جاہلیت میں ایک زنا کار عورت تھی) جس سے اس کے گھر والے زنا کرنے کے شائق تھے) ( لیکن دوسری تاریخوں میں اس عبارت کے ساتھ ہے کہ ابوبکر نے کہا "إنماهی ثعالةشهيدهاذنبها "

اب ذرا آپ حضرات موازنہ کیجئے کہ خلیفہ ابوبکر نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں جو فحش باتیں کہیں، ان سے اور اس طعن و اعتقاد سے کتنا تفاوت ہے جو ایک شیعہ ان لوگوں کے لیے کرے۔

پس اگر کسی صحابی کو دشنامدینا باعث کفر ہے تو ابوبکر ان کی بیٹی عائشہ معاویہ اور ان کے پیروئوں کو سب سے پہلے کافر ہونا چاہیئے اور اگر سبب کفر نہیں ہے تو آپ اسی بنا پر شیعوں کو بھی کافر نہیں کہہ سکتے۔

آپ کےبڑے بڑے فقہاء اور خلفاء کے فتاوی اور احکام کے مطابق دشنام دینے والے کافر اور واجب القتل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ امام احمد حنبل نے مسند جلد سوم میں، ابن سعد کاتب نے کتاب طبقات جزء پنجم ص۶۷۰ میں اور قاضی عیاض نے شفاء جز چہارم باب اول میں نقل کیا ہے کہ خلیفہ عمر ابن عبدالعزیز کے عامل نے کوفے سے ان کو لکھا کہ ایک شخص نے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کو سب کیا ہے اور گالی دی ہے، اجازت دیجئے کہ ہم اس کو قتل کردیں۔ انہوں نے جواب میں لکھا کسی مسلمان کو سب و شتم کرنے کی وجہ سے ایک مسلمان کا خون مباح نہیں ہوتا، سوا اس کے کہ کوئی شخص رسول خدا(ص) کو دشنام دے ۔ ان اقوال کے علاوہ خود آپ کے اکابر علماء جیسے ابوالحسن اشعری اور ان کے پیروئوں کے عقائد یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص دل سے مومن ہو اور کفر کا اظہار کرے ( مثلا یہودیت اور نصرانیت وغیرہ) یا رسول اللہ (ص) سے جنگ کرنے اٹھے یا خدا و رسول(ص) کو بلاعذر سخت گالی دے۔ تب بھی وہ کافر نہیں ہوتا اور اس پر کفر کا جاری نہیں کیا جاسکتا، اس لیےکہ ایمان عقیدہ قلبی ہے اور چونکہ کوئی کسی کے قلب سے واقف نہیں ہے لہذا یہ نہیں جان سکتا کہ کفر کا اظہار دل سے تھا یا فقط ظاہری حیثیت سے اور ان مراتب کو دیگر علماء اشعری نے بھی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ خصوصا ابن حزم اندلسی نے کتاب الفضل جز چہارم ص۲۰۴ و ص۴۰۶ میں ان عقائد کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔

پس ایسی صورت میں آپ حضرات موحد، پاک نفس، مطیع خدا و رسول(ص) اور شرع انور کے تمام واجب و مستحب احکام پر عمل کرنے والے شیعوں پر کفر کا حکم لگانے کا کیا حق رکھتے ہیں؟ فرض کر لیجئے کہ ( جیسا آپ کا خیال ہے) کوئی شیعہ بعض

۲۴

اصحاب کو دلیل و برہان کےساتھ سب و شتم ہی کرے یا دشنام دے جب بھی تو آپ اپنے بڑے بڑے پیشوائوں کے عقائد اور بیانات کے مطابق اس پر کفر کا حکم نہیں لگا سکتے۔

حالت تو یہ ہے کہ آپ کی معتبر کتابوں میں مثلا مسند احمد حنبل جلد دوم ص۲۳۶ سیر حلبیہ جلد دوم ص۱۰۷ صحیح بخاری جلد دوم ص۷۴ ، صحیح مسلم کتاب جہاد اور اسباب النزول واحدی ص۱۰۸ وغیرہ میں بکثرت روایتیں موجود ہیں کہ پیغمبر(ص) کے سامنے اکثر اصحاب جیسے ابوبکر وغیرہ آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے تھے بلکہ مار پیٹ بھی کرتے تھے اور رسول(ص) مشاہد فرماتے تھے لیکن ان کو کافر نہیں کہتے تھے بلکہ نصیحت فرماتے تھے( البتہ رسول اللہ(ص) کے روبرو اصحاب کی اس قسم کی باہمی جنگ اور نزاع کی روایتیں علماء اہل تسنن ہی کیکتابوں میں ہیں، شیعوں کی کتابوں میں نہیں۔

اس مختصر بیان کے ساتھ آپ نے اپنے پہلے ایراد کا جواب سن لیا کہ کسی صحابی پر لعنت یا دشنام موجب کفر نہیں ہوا کرتی۔

اگر بغیر کسی دلیل و برہان کے سب ولعن کریں تو فاسق ہوجائیں گے، کافر نہ ہوں گے۔ اور ہر عمل بد عفو و مغفرت کے قابل ہوتا ہے۔

صحابہ کے نیک و بد اعمال رسول اللہ(ص) کے پیش نظر تھے

دوسرے آپ نے فرمایا ہے کہ رسول خدا(ص) اصحاب کی توقیر اور تعظیم و تکریم فرماتے تھے تو یہ صحیح ہے میں بھی تصدیق کرتا ہوں اور تمام مسلمان اور صاحبان علم و فضل اس پر متفق ہیں کہ لوگوں کے سارے نیک و بد اعمال پر آنحضرت(ص) کی نظر رہتی تھی اور آپ ہر شخص کے اچھے عمل کی قدر فرماتے تھے۔ چنانچہ نوشیرواں کی عدالت اور حاتم طائی کی سخاوت کا بھی احترام فرماتے تھے۔ لیکن یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ اگر کسی فرد یا جماعت کی توقیر و تکریم فرماتے تھے تومحض اسی نیک عمل کی بنا پر جو اس سے ظاہر ہوتا تھا۔

بدیہی چیز ہے کہ کسی مخصوص عمل پر کسی فرد یا جماعت کی قدر و منزلت قبل اس کے کہ اس سے اس ک برعکس فعل صادر ہو اس کی نیک بختی اور خوش انجامی پر دلالت نہیں کرتی ؟؟؟ ؟؟؟؟ صدور گناہ سے قبل قہر و عقوبت جائز نہیں ہے چاہے یہ معلوم بھی ہو کہ آئندہ اس کی مرتکب ہوگا۔

چنانچہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام باوجودیکہ عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کے عمل و شقاوت اور انجام بد سے آگاہ تھے اور بار بار اس سے فرماتے بھی تھے کہ تو میرا قاتل ہے بلکہ ایک موقع پر صریحا فرمایا کہ

اريدحياته‏ ويريدقتلى‏عذيرك من خليلك من مراد

۲۵
۲۶

۲۷

خیر طلب : یہ آپ نے بے لطفی کی بات کی کہ چند خارجی اور ناصبی ذہنیت والوں کے عقائد کو اپنی بحث کا ماخذ بنایا یہ واقعہ تو اتنا مشہور اور واضح و آشکار ہے کہ خود آپ کے علماء نے اس کی تصدیق کی ہے۔

ملاحظہ فرمائیے حافظ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی شافعی نے جو آپ کے اکابر علماء و فقہاء میں سے ہیں، اپنی کتاب دلائل نبوۃ میں داستان بطن عقبہ کو معتبر سلسلہ روات کے ساتھ، امام احمد بن حنبل نے مسند آخر جلد پنجم میں ابو طفیل سے اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے اور علماء میں مشہور ہے۔ کہ آنحضرت(ص) نے اس رات اصحاب کی ایک جماعت پر لعنت فرمائی۔

واقعہ عقبہ اور قتل رسول(ص) کا ارادہ

نواب : قبلہ صاحب واقعہ کیا تھا اور کون سے لوگ رسول اللہ(ص) کو قتل کرنا چاہتے تھے، گذارش ہے کہ مختصر ہی بیان فرما دیجئے۔

خیر طلب : اکابر فریقین نے لکھا ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں چودہ منافقین نے خفیہ طور پر عقبہ کی گھاٹی میں جو پہاڑ کے دامن میں ایک تنگ راستہ تھا اور جس سے فقط ایک ایک آدمی گذر سکتا تھا رسول خدا(ص) کو قتل کرنے کی سازش کی۔ جب انہوں نے اپنی تجویز کو عملی جامہ پہنانا چاہا تو جبرئیل نے رسول اللہ(ص) کو اس کی خبر دی، آں حضرت(ص) نے حذیفہ نخعی کو بھیجا اور وہ جاکر دامن کوہ میں پوشیدہ ہوگئے۔ جس وقت وہ لوگ آئے اور آپس میں گفتگو کی تو انہوں نے سب کو پہچان لیا۔ چنانچہ ان میں سات نفر بنی امیہ میں سے تھے۔ حذیفہ آں حضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب کے نام بتائے۔ آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ یہ بات راز میں رکھو خدا ہمارا نگہبان ہے۔ اول شب آں حضرت(ص) لشکر کے آگے آگے روانہ ہوئے عمار یاسر اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے تھے۔ اور حذیفہ اس کو پیچھے سے ہانک رہے تھے، جب اس تنگ راستے میں پہنچے تو منافقوں نے اپنے چمڑے کے تھیلے بالوں سے بھر کے ( یا تیل کے کپے) شور مچا کر اونٹ کے سامنے پھینگے تاکہ اونٹ بھڑک کے بھاگے اور آں حضرت(ص) کو گہرے درے میں گرادے لیکن خدائے تعالی نے آپ کی حفاظت فرمائی اور وہ لوگ بھاگ کر مجمع میں چھپ گئے۔

کیا یہ لوگ اصحاب میں سے نہیں تھے؟ تو کیا ان کا یہ عمل نیک تھا اور ان کی پیروی راہ ہدایت تھی۔ آیا یہ مناسب ہے کہ انسان کی خوش عقیدگی اس حد تک بڑھ جائے کہ جس وقت کہا جائے اصحاب رسول(ص) یعنی وہ لوگ جنہوں نے پیغمبر(ص) کو دیکھا ہے یا آں حضرت(ص) سے حدیث نقل کی ہے، تو اپنی آنکھیں بند کر لے، ان کےعیوب اور برائیوں پر نظر نہ ڈالے اور کہے کہ سب کے سب نجات یافتہ ہیں۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک کے پیروئوں کو بھی ناجی بتائے؟

۲۸

پیغمبر(ص) نے جھوٹوں کی پیروی کا حکم نہیں دیا ہے

آیا ابوہریرہ جن کے حالات کی طرف میں پچھلی شبوں میں اشارہ کرچکا ہوں کہ خلیفہ عمر نے ان کو تازیانہ مارا اور کہا کہ یہ پیغمبر(ص) سے جھوٹی حدیثیں بہت نقل کرتا ہے، اصحاب میں سے نہیں تھے اور انہوں نے کثرت سے احادیث نقل نہیں کی ہیں؟ اسی طرح دوسرے اصحاب جیسے سمرۃ بن جندب وغیرہ جو حدیث گڑھتے تھے اصحاب میں سے نہیں تھے؟ آیا رسول خدا(ص) امت کو حکم دے سکتے ہیں کہ جھوٹے اور جعل ساز لوگوں کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پائو؟ اگر یہ حدیث جس کو آپ نے عظمت اصحاب کا سرچشمہ قرار دیا ہے صحیح ہے کہ اصحاب میں سے چاہے جس کی پیروی کریں ہدایت پا جائیں گے تو فرمائیے اگر دو صحابی ایک دوسرے کے خلاف راستہ چلیں تو ہم کس کی پیروی کریں تاکہ ہدایت حاصل ہو؟ یا اگر اصحاب کے دو گروہ باہم ایک دوسرے سے جنگ کریں یا عقیدے میں ایک دوسرے کے مخالف ہوں تو ہم کس گروہ کا ساتھ دیں۔ تاکہ نجات حاصل ہو؟

حافظ : اول تو رسول اللہ(ص) کے اصحاب پاک آپس میں کوئی مخالفت اور جنگ ہرگز کرتے ہی نہیں تھے۔ اور اگر مخالفت کی بھی تو آپ غور و فکر کیجئے ان میں سے جو شخص زیادہ پاک اور جس کی گفتگو زیادہ مدلل ہو اس کیپیروی کیجئے۔

خیر طلب : آپ کے اس بیان کے بنا پر اگر ہم نے غور کیا اور تحقیق کر کے دونوں میں سے ایک کو پاک و برحق سمجھ لیا تو قطعا اصحاب کا مخالف گروہ ناپاک اور باطل پر ہوگا۔

پس یہ حدیث اپنی جگہ پر خود ہی درجہ اعتبار سے گر جاتی ہے۔ کیوںکہ صحابہ میں سے ہر ایک کی اقتدا کر کے ہدایت پا جانا ممکن ہی نہیں۔

سقیفہ میں اصحاب کی مخالفت

اگر یہ حدیث صحیح ہے تو آپ کو شیعوں پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے کیوںکہ انہوں نے اصحاب ہی کے ایک گروہ کی پیروی کی ہے جیسے سلمان، ابوذر، مقداد، عمار یاسر، ابو ایوب اںصاری، حذیفہ نخعی، اور خزیمہ ذوالشہادتین وغیرہ جن کے متعلق میں گذشتہ شبوں میں اشارہ کر چکا ہوں کہ انہوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی بلکہ مخالفت اور احتجاج بھی کرتے رہے؟

پس اصحاب کی ان دونوں جماعتوں میں سے جو ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑی تھیں کونسی حق پر تھی؟ قطعی طور پر ایک باطل پر تھی، حالانکہ جو حدیث آپ نے نقل کی ہے وہ بتا رہی ہے کہ اصحاب میں سے جس کی بھی اقتدا کرو ہدایت پا جائو گے۔

۲۹

ابوبکر و عمر سے سعد بن عبادہ کی مخالفت

کیا سعد بن عبادہ انصاری اصحاب میں سے نہیں تھے جنہوں نے ابوبکر و عمر کی بیعت نہیں کی؟ تمام شیعہ و سنی مورخین اسلام کا اتفاق ہے کہ یہ جاکر شام میں رہنے لگے یہاں تک کہ اواسط خلافت عمر میں قتل ہوئے۔

پس ان کی اقتدا کرنا اور ابوبکر کی مخالفت اس حدیث کے حکم سے راہ ہدایت ٹھہری۔

بصرے میں علیعلیہ السلام سے طلحہ و زبیر کا مقابلہ

آیا طلحہ و زبیر اصحاب اور تحت شجرہ بیعت کرنے والوں میں سے نہیں تھے؟ آیا ان کا مقابلہ پیغمبر کے خلیفہ برحق سے نہیں تھا۔ ( جو آپ کے عقیدے میں بھی چوتھے خلیفہ مسلم ہیں) اور یہ دونوں صحابی بے شمار مسلمانوں کا خون بہانے کے باعث نہیں ہوئے؟ اب بتائیے کہ اصحاب کے ان دونوں گروہوں میں سے جو ایک دوسرے کے مقابلے پر آئے کس کی پیروی اور اقتدا سبب ہدایت تھی؟ اگر آپ کہیں کہ دونوں گروہ چونکہ اصحاب کے تابع تھے لہذا حق پر تھے تو آپ غلط راستے پر جا پڑیں گے۔ اس لیے کہ جمع بین الضدین محال ہے یعنی یہ ممکن نہیں کہ ایک دوسرے سے لڑنے والے دوںوں فرقے ہدایت یافتہ اہل جنت ہوں لہذا قطعی طور پر جو اصحاب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف تھے وہ ہدایت یافتہ تھے اور فریق مخالف باطل پر اور یہ خود دوسری دلیل ہے آپ کا یہ قول باطل ہونے کی کہ جتنے اصحاب تحت شجرہ بیعت رضوان میں حاضر تھے وہ سب نجات یافتہ ہیں، کیوںکہ تحت شجرہ بیعت کرنے والوں میں سے دو نفر طلحہ و زبیر بھی تھے جو امام و خلیفہ برحق سے لڑنے کو اٹھے۔ آیا ان کا یہ عمل یعنی خلیفہ رسول(ص) کے مقابلہ پر آنا اور ایسے شخص سے جنگ کرنا جس کے لیے رسول اللہ(ص) نے فرمایا تھا کہحربک حربی ( یعنی اے علی(ع) تم سے جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے۔ بہت بڑا ننگ اور رسول خدا (ص) سے جنگ نہیں تھی؟ پس آپ کیوںکر کہہ سکتے ہیں کہ لفظ اصحاب یا بیعت رضوان میں حاضری مکمل نجات کی ضامن ہے؟

معاویہ اور عمرو عاص علی علیہ السلام کو سب و شتم کرتے تھے

آیا معاویہ اور عمرو بن عاص اصحا بمیں سے نہیں تھے جنہوں نے خلیفہ رسول سے جنگ کی۔ اس کے علاوہ منبروں اور جلسوں میں یہاں تک خطبہ نماز جمعہ میں علی علیہ السلام پر سب و شتم اور لعنت کرتے تھے؟

۳۰

باوجودیکہ آپ ہی کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بار بار فرمایا :

"من‏ سبّ‏ عليافقدسبني،ومنسبنيفقدسبّاللّهعزوجل. "

یعنی جو شخص علی(ع) کو دشنام دے در حقیقت اس نے مجھ کو دشنام دی اور جو شخص مجھ کو سب و دشنام دے در حقیقت اس نے خدا کو سب و دشنام دیا۔

پس اس حدیث کے قاعدے سے جس پر آپ کا دارو مدار ہے، بقول رسول(ص)، ملعون ابن ملعون اشخاص اور علی علیہ السلام کو سب وشتم کرنے والوں کی جو حقیقتا خدا و رسول(ص) کو سب وشتم ( جیسا کہ خود آپ کے علماء نے لکھا ہے) پیروی کرنے والے ہدایت یافتہ اور اہل بہشت ٹھہرے۔ فاضل تفتازانی نے شرح مقاصد میں اس موضوع پر ایک مفصل بیان دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ صحابہ کے درمیان چونکہ سخت لڑائیاں اور عداوتیں واقع ہوئیں لہذا پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ راہ حق سے منحرف ہوگئے اور بعض بغض و حسد، عناد، حب ریاست، اور لذات شہوانی کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے ہر قسم کا ظلم و تعدی کیا۔ بدیہی چیز ہے کہ بہت سے اصحاب چونکہ معصوم نہیں تھے افسوسناک حرکات کے مرتکب ہوئے لیکن بعض علماء نے اپنے حسن ظن کی وجہ سے ان کی بد اعمالیوں کےلیے فضول تاویلیں کی ہیں۔

آپ کی نقل کی ہوئی اس حدیث کی رد میں اس طرح کی واضح دلیلیں بہت ہیں لیکن اس سے زیادہ تفصیل کی وقت میں گنجائش نہیں۔ پس قطعا یہ حدیث گڑھی ہوئی ہے جیسا کہ آپ ہی کے بہت سے علماء نے کتاب الموضوعات میں اس کے سلسلہ اسناد کو مشتبہ بتایا ہے۔

اصحابی کالنجوم کے اسناد ضعیف ہیں

چنانچہ قاضی عیاض شرح الشفاء جلد دوم ص۹۱ میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ دار قطنی نے فضائل میں اور ابن عبدالبر نے انہیں کے طریق سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے اسناد میں کوئی مضبوطی نہیں۔ نیز عبد بن حمید سے اور انہوں نے اپنی مسند میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ بزار اس حدیث کی صحت کا منکر تھا۔

نیز کہتے ہیں کہ ابن عدی نے کامل میں اپنے اسناد کے ساتھ نافع سے اور انہوں نے عبداللہ ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے اسناد ضعیف ہیں۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ بیہقی نے روایت کی ہے کہ اس حدیث کا متن مشہور ہے لیکن اس کے اسناد ضعیف ہیں۔ انتہی۔

چونکہ اس حدیث کے اسناد میں حارث بن غفین مجہول الحال اور حمزہ ابن ابی حمزہ نصیری جو کذب و دروغ گوئی سے متہم ہے موجود ہیں لہذا حدیث کا ضعف ثابت ہے۔

نیز ابن حزم نے کہا ہے کہ یہ حدیث جھوٹی، گڑھی ہوئی اور باطل ہے۔ پس ایسی ضعیف سلسلہ اسناد کی حدیث

۳۱

قابل اعتماد نہیںاور اس کے استدلال کا سہارا نہیں لیا جاسکتا۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تب بھی قطعا اس کی عمومیت منظور نظر نہیں تھی بلکہ نیک بخت اور نیکوکار اصحاب کی اقتدا مراد تھی جنہوں نے حکم رسول(ص) سے کتاب خدا اور عترت طاہرہ(ع) کی اطاعت کی۔

صحابہ معصوم نہیں تھے

اب ان مقدمات کے بعد عرض کئے گئے اگر بعض صحابہ پر تنقید اور نکتہ چینی کی جائے تو قابل مذمت نہ ہوگی۔ اس لیے کہ صحابہ بشری عادتوں کے حامل اور غیر معصوم تھے۔ پس جب وہ معصوم نہ تھے تو ان سے خطا بھی ہوسکتی ہے۔

حافظ : ہم بھی قائل ہیں کہ صحابہ معصوم نہیں تھے لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ سب کے سب عدول تھے اور ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا تھا۔

خیر طلب : یہ آپ کی زیادتی ہے کہ حتمی طور سے ان کو عادل اور گناہوں سے مبرا سمجھ لیا۔ اس لیے کہ خود آپ کے علماء کی معتبر کتابوں میں جو روایتیںمروی ہیں اور اس کے برخلاف حکم دے رہی ہیں کہ بہت سے اکابر صحابہ بھی اپنی پرانی عادت کی بنا پر کبھی کبھی گناہوں کا ارتکاب کیا کرتے تھے۔

حافظ : ہم کو ایسی روایتوں کا علم نہیں ہے۔ اگر آپ کے پیش نظر ہوں تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : قطع نظر ان باتوں سے جو زمانہ جاہلیت میں سرزد ہوئیں تھیں اسلام کی حالت میں بھی اکثر گناہوں کے مرتکب ہوتے تھے جن سے بطور نمونہ میں صرف ایک روایت پر اکتفا کرتا ہوں۔

آپ کے بڑے علماء اپنی معتبر کتابوں میں نقل کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ( سنہ۸ ہجری میں) کبار صحابہ میں سے کچھ لوگ ایک بزم عشرت قائم کئے ہوئے تھے جس میں پوشیدہ طور سے شراب نوشی ہوتی تھی۔

حافظ : قطعی طور پر یہ روایت مخالفین کی گڑھی ہوئی ہے۔ کیونکہ حرام ہوجانے کے بعد شراب پینا تو در کنار، بزرگ صحابہ تو ایسی گندی محفلوں میں شریک بھی نہیں ہوتے تھے۔

خیر طلب : قعطا مخالفین کی گڑھی ہوئی نہیں ہے بلکہ اگر اس کو وضع کیاہے تو آپ ہی کے علماء نے کیا ہے۔

نواب : قبلہ صاحب اگر کوئی ایسی بزم تھی تو یقینا صاحب خانہ اور مدعو اشخاص کے نام بھی ذکر کئے گئے ہوں گے کیا آپ ہم لوگوں کے لیے اس کی وضاحت فرما سکتے ہیں؟

خیر طلب : جی ہاں یہ مطلب آپ کے علماء کے یہاں تشریح سے بیان ہوا ہے۔

نواب : گذارش ہے کہ بیان فرمائیے تاکہ معمہ حل ہو۔

۳۲

خفیہ جلسے میں دس(۱۰) نفر صحابہ کی شراب نوشی

خیر طلب : ابن حجر فتح الباری جلد دہم ص۳۰ میں لکھتے ہیں کہ ابوطلحہ زید بن سہل نے اپنے مکان میں ایک محفل شراب تشکیل دی اور اس میں دس افراد کو دعوت دی، ان سب نے شراب پی اور ابوبکر نے کفار و مشرکین اور کشتگان بدر کے لیے مرثیے کے چند شعر کہے۔

نواب : آیا مدعو اشخاص کے نام بھی ذکر کئے گئے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو بیان فرمائیے تاکہ حقیقت ظاہر ہو۔

خیر طلب : ۱۔ ابوبکر بن ابی قحافہ۔ ۲۔ عمر ابن خطاب۔ ۳۔ ابوعبیدہ جراح۔ ۴۔ ابی بن کعب۔ ۵۔ سہل بن سفیاء۔ ۶۔ ابوایوب اںصاری۔ ۷۔ ابوطلحہ ( دعوت کرنے والا اور صاحب خانہ۔ ۸۔ ابو دجاتہ سماک بن حرشہ ۔ ۹۔ ابوبکر بن شغوب۔ ۱۰۔ و انس بن مالک جو اس وقت ۱۸ سال کے اور ساقی محفل تھے۔ چنانچہ بیہقی نے سنن جلد ہشتم ص۲۹ میں خود انس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں اس وقت سب سے کم سن اور ساقی محفل تھا(جلسہ میں سخت ہمہمہ)

شیخ : ( غصے کےساتھ) قسم پروردگار کی یہ روایت دشمنوں کی بنائی ہوئی ہے۔

خیر طلب : ( تبسم کے ساتھ) آپ تو بہت تیز پڑگئے اور جھوٹی قسم بھی کھالی۔ خطا آپ کی بھی نہیں ہے، آپ کا مطالعہ ہی کم ہے اگر کتابیں دیکھنے کی زحمت برداشت کرتے تو نظر آتا کہ خود آپ ہی کے علماء نے لکھا ہے۔ پس آپ کو استغفار کرنا چاہیئے۔ اب میں آپ حضرات کے سامنے وضاحت کرنے پر مجبور ہوں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ آپ ہی کے علماء کا بیان ہے۔اس واقعہ کے بعض اسناد جو میرے پیش نظر ہیں عرض کرتا ہوں۔

محمد بن اسمعیل بخاری نے اپنی صحیح تفسیر آیہ خمر سورہ مائدہ میں، مسلم ابن حجاج نے اپنی صحیح کتاب اشربہ باب تحریم الخمر میں، امام احمد بن حنبل نے مسند جلد سوم ص۱۸۱ و ص۲۲۷ میں، ابن کثیر نے اپنی تفسیر جلد دوم ص۹۳ و ص۹۴ میں، جلال الدین سیوطی نے درالمنثور جلد دوم ص۳۲۱ میں، طبری نے اپنی تفسیر جلد ہفتم ص۲۴ میں< ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد چہارم ص۲۲ اور فتح الباری جلد دہم ص۳۰ میں، بدر الدین حنفی نے عمدۃ القاری جلد دہم ص۸۴ میں، بیہقی نے سنن ص۲۸۶ وص۲۹۰ میں اور دوسروں نے بھی ان حالات کو شرح و بسط سے نقل کیا ہے۔

شیخ : شاید حرام ہونے کے بعد نہیں بلکہ پہلے ایسا ہوا ہو۔

خیر طلب : تفسیر و تاریخ کی کتابوں میں جو قواعد درج ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات تحریم نازل ہونے کے بعد بھی بعض مسلمان اور صحابہ شراب حرام استعمال کرتے تھے۔

چنانچہ محمد بن جریر طبری نے اپنی تفسیر کبیر جلد دوم ص۲۰۳ میں ابی القموس زید بن علی کی سند سے نقل کیا ہے کہ انہوں

۳۳

نے کہا ، خدا نے تین مرتبہ آیات خمر یہ نازل فرمائیں۔ پہلی مرتبہ آیت نمبر۲۱۹ سورہ بقرہ:

"يَسْئَلُونَكَ‏ عَنِ‏ الْخَمْرِوَالْمَيْسِرِقُلْفِيهِماإِثْمٌكَبِيرٌوَمَنافِعُلِلنَّاسِوَإِثْمُهُماأَكْبَرُمِنْنَفْعِهِما"

یعنی اے پیغمبر(ص) تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں تو کہہ دو کہ ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے فوائد بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ ہے۔

نازل ہوئی لیکن مسلمان متبہ نہ ہوئے اور شراب پیتے رہے، یہاں تک کہ دو آدمی شراب پی کر مستی کی حالات میں مشغول نماز ہوئے اور بیہودہ باتیں بکیں تو خداوند عالم نے آیت نمبر۴۳ سورہ نمبر۴( نساء) نازل فرمائی کہ :

"ياأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوالاتَقْرَبُواالصَّلاةَوَأَنْتُمْسُكارى‏ حَتَی تَعْلَمُوا مَا تقُولُون"

یعنی اے ایمان لانے والوں نشے کی حالت میں نماز کے پاس نہ جائو یہاں تک کہ اپنی باتیں سمجھنے لگو۔

لیکن پھر بھی شراب نوشی جاری رہی، البتہ نشے کی حالت میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ حتی کہ ایک روز ایک شخص نے شراب پی ( جو روایت بزرو ابن حجر و ابن مردویہ کی بنا پر ابوبکر تھے) اور جنگ بدر میں قتل ہونے والے کافروں کے لیے مرثیےکے چند اشعار کہے، رسول اللہ(ص) نے سنا تو غصے کے عالم میں تشریف لائے اور جو چیز دست مبارک میں لیے ہوئے تھے اس سے مارنا چاہا تو اس نے کہا کہ میں خدا و رسول(ص) کے غصے سے پناہ مانگتا ہوں۔ خدا کی قسم اب نہیں پئیوں گا۔ اس وقت یہ آیت نمبر۹۱ سورہ نمبر۵ ( مائدہ) نازل ہوئی کہ :

"ياأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُواإِنَّمَاالْخَمْرُوَالْمَيْسِرُوَالْأَنْصابُوَالْأَزْلامُرِجْسٌمِنْعَمَلِالشَّيْطانِفَاجْتَنِبُوهُلَعَلَّكُمْتُفْلِحُونَ‏"

یعنی اے ایمان لانے والو شراب ، قمار بازی، بت پرستی اور جوئے کے تیر ( زمانہ جاہلیت کی ایک رسم) یہ سب نجاست و گندگی اور عمل شیطان ہے لہذا اس سے دور رہو تاکہ شاید نجات پائو۔

جو کچھ عرض کیا گیا اس کا مقصد آپ حضرات کو یہ بتانا تھا کہ صحابہ میں بھی دوسرے مومنین ومسلمان کی طرح اچھے اور برے لوگ تھے۔ یعنی ان میں سے جو لوگ احکام خدا و رسول(ص) کی اطاعت میں سعی کرتے تھے وہ سعادتکی بلند منزل پر پہنچے اور جنہوں نے خواہش نفسانی اور فریب شیطانی کا اتباع کیا وہ پست و حقیر ہوئے۔ پس جو لوگ صحابہ پر طعن اور تنقید کرتے ہیں وہ جو کچھ کہتے ہیں منطقی دلائل کے ساتھ کہتے ہیں، صحابہ کے زشت و ناپسندیدہ حالات علاوہ اس کے کہ خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں، آیات قرآنی کے شواہد سے بھی قابل مذمت قرار پاتے ہیں اور شیعہ بھی اسی وجہ سے ان کی گرفت کرتے ہیں۔ لہذا ان منطقی اعتراضات کا اگر کوئی منطقی ہی جواب ہو تو قابل قبول ہوسکتا ہے۔ مذموم صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان بے جا محبت اور دشمنی کا برتائو کرے، یعنی کسی فرد یا افراد سے اپنی محبت اور تعلقات کی بنا پر ان کے سارے حرکات وسکنات اور اقوال و افعال کو نگاہتحسین سے دیکھے اور کہے کہ ان سے ہرگز کوئی بدی عالم وجود میں نہیں آئی۔

حافظ : بہت بہتر، فرمائیے اصحاب کے زشت و ناپسندیدہ اعمال و افعال کس قسم کے تھے؟ اگر دلیل و برہان سے منطبق ہو تو ہم بھی مان لیں گے۔

۳۴

صحابہ کی عہد شکنی

خیر طلب : تعجب ہے کہ ان ساری مذموم صفتوں کے بعد ( جن میں سے مشتے نمونہ از خردار نے پیش کیا گیا) پھر آپ فرماتے ہیں کہ ان کی مذموم صفتیں کیا تھیں۔ اب میں اپنی گذارش کی تائید میں ان زشت و زبوں اعمال میں سے جو ان سے سرزد ہوئے اور فریقین کی تمام کتابوں میں درج ہیں ایک اور نمونہ پیش کرتا ہوں اور وہ ہے ان کی عہد شکنی اور بیعت کی خلاف ورزی کیونکہ خدائے تعالی نے آیت نمبر۲۹ سورہ نمبر۱۶ ( نحل) میں ایفائے وعدہ اور تکمیل عہد کو واجب فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے :

"وَأَوْفُوابِعَهْدِاللَّهِ‏إِذاعاهَدْتُمْوَلاتَنْقُضُواالْأَيْمانَبَعْدَتَوْكِيدِها"

یعنی تم پر واجب ہے کہ جب تم خدا و رسول(ص) سے کوئی عہد و پیمان کرچکے تو اس کو پورا کرو اور قسموں کو مستحکم کرنے کے بعد نہ توڑو۔

اور آیت نمبر۲۵ سورہ نمبر۱۳( رعد) میں عہد توڑنے والوں کو ملعون فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

"وَالَّذِينَ‏ يَنْقُضُونَ‏ عَهْدَاللَّهِ‏مِنْبَعْدِمِيثاقِهِوَيَقْطَعُونَماأَمَرَاللَّهُبِهِأَنْيُوصَلَوَيُفْسِدُونَفِيالْأَرْضِأُولئِكَلَهُمُاللَّعْنَةُوَلَهُمْسُوءُالدَّارِ."

یعنی جو لوگ خدا و رسول(ص) سے عہد و پیمان مضبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور جن رشتوں کو ملانے کے لیے اللہ نے حکم دیا ہے( جیسے صلہ رحم اور محبتو ولایت امیرالمومنین علیہ السلام) ان کو قطع کرتے ہیں اور روئے زمین پر فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں ان کے لیے خاص طور پر لعنت وغضب الہی ہے اور انہیں کے لیے عذاب جہنم ہے۔)

پس آیات الہی اور ان کثیر اخبار و احادیث کے حکم سے جو ہماری اور آپ کی کتابوں میں وارد ہیں عہد توڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ خصوصا خدا اور حکم خدا و رسول(ص) کے ساتھ عہد شکنی جو قطعا آن حضرت(ص) کے اصحاب و اقربا کے لیے تو بد سے بدتر تھی۔

حافظ : کونسا عہد اور کونسی بیعت تھی جو خدا و رسول(ص) کے حکم سے قائم ہوئی اور اصحاب و یاران پیغمبر(ص) نے اس میں عہد شکنی کی جس سے ہم ان کو آیات قراںی کی زد میں لا سکیں؟

میرا خیال ہے کہ اگر آپ توجہ کیجئے تو تصدیق کیجئے گا کہ یہ سب شیعہ عوام کی من گڑہت باتیں ہیں ورنہ صحابہ رسول(ص) ایسی حرکتوں سے مبرا تھے۔

قرآن میں صادقین سے مراد محمد(ص) و علی(ع) ہیں

خیر طلب: میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ شیعہ چونکہ اپنے صادق و مصدق پیشوائوں کی پیروی پر مجبور ہیں ورنہ شیعہ ہی نہیں رہ سکتے لہذا ان کے خواص یا عوام ہرگز کوئی حدیث و روایت نہیں گڑھتے اور جھوٹ نہیں کہتے، اس لئے کہ ان کے ائمہ

۳۵

ہر حیثیت سے صادق ومصدق تھے، چنانچہ قرآن مجید کی سچائی پر گواہی دی ہے۔ جیسا کہ آپ کے بڑے بڑے علماء مثلا امام ثعلبی اور جلال الدین سیوطی نے تفسیر میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے مانزل من القرآن فی علی میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، شیخ سلمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۳۹ میں خوارزمی و حافظ ابونعیم اور حموینی سے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۲ میں پوری سند کے ساتھ نیز تاریخ محدث شام سے، سب نے نقل کیا ہے کہ آیت نمبر۱۲۰ سورہ نمبر۹ ( توبہ) :

"ياأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوااتَّقُوااللَّهَوَكُونُوامَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے ایمان والو خدا ترس بنو اور سچے لوگوں کی پیروی اختیار کرو۔( جو محمد(ص) و علی(ع) اورع ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں) میں صادقین سے مراد محمد(ص) و علی علیہم سلام ہیں، اور ان روایات میں سے بعض میں ہے کہ پیغمبر(ص) اور ائم اہل بیت علیہم السلام والصلوۃ مراد ہیں۔ پس اس جلیل القدر خاندان کے پیرو چاہے عالم ہوں یا جاہل، جھوٹے اور جعل ساز نہیں ہوسکتے۔ کیوںکہ غلط اور من گھڑت باتیں کہنے کی ضرورت تو اسی کو ہوگی جو اپنی حقانیت پر سچے اور مضبوط دلائل نہ رکھتا ہو۔ شیعہ تو وہی کہتے ہیں جو خود آپ کے علماء مورخین تحریر کرچکے ہیں۔ اگر کوئی ایراد ہے تو سب سے پہلے اپنے علماء پر وارد کیجئے کہ انہوں نے لکھا کیوں۔ اگر آپ کے اکابر علماء صحابہ کی عہد شکنی کو اپنی معتبر کتابوں میں درج نہ کرچکے ہوں تو میں ایسے جلسے میں ان باتوں کو ہرگز پیش نہ کرتا۔

حافظ : علماء اہل سنت میں سے کس نے اور کہاں لکھا ہے کہ صحابہ نے عہد شکنی کی اور کیا عہد شکنی کی؟ صرف لفاظی سے تو بات نہیں بنے گی۔

خیر طلب: یہ لفاظی نہیں بلکہ برہان و منطق اور حقیقت ہے اکثر مقامات پر صحابہ نے عہد شکنی کی ہے اورجس بیعت کا حکم رسول اللہ(ص) نے دیا تھا اس کو توڑا ہے چنانچہ ان میں سب سے اہم غدیر کا عہد اور بیعت تھی۔

حدیث غدیر اور اس کی نوعیت

فریقین ( شیعہ و سنی) کےجمہور علماء معترف ہیں کہ ہجرت کے دسویں سال حجتہ الوداع میں مکہ معظمہ سے واپسی کے وقت اٹھارویں ذی حجہ کو رسول اللہ(ص) نے غدیر خم کے میدان میں اپنے تماماصحاب کو جمع کیا، یہاں تک کہ آں حضرت(ص) کے حکم آگے جانے والے لوگ واپس بلائے گئے اور پیچھے رہ جانے والوں کا انتطار کیا گیا۔ چنانچہ آپ کے اکثر بڑے بڑے علماء و مورخین اور شیعوں کی سند سے ستر ہزار اور آپ کے بعض دوسرے علماء کی سند سے جیسا کہ امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ فی معرفۃ الائمہ میں نیز اورروں نے لکھا ہے، ایک لاکھ بیس ہزار مسلمان اکٹھا ہوگئے تھَ۔

حضرت رسول خدا(ص) کے لیے ایک منبر مرتب کیا گیا جس پر آں حضرت تشریف لے گئے اور ایک بہت طولانی خطبہ ارشاد فرمایا جس کا زیادہ تر حصہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب پر مشتمل تھا، جو آیتیں حضرت علی(ع)

۳۶

کی شان میں نازل ہوئی تھیں ان میں سے اکثر کی تلاوت اور یاد دہانی فرمائی اور ساری امت کو ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کے مقدس مرتبے کی طرف بخوبی متوجہ فرمایا۔ اس کے بعد فرمایا :

" معاشر الناسألست‏ أولى‏ بكم‏منأنفسكم؟قالوا: بلى؛قال: منكنتمولاهفهذا عليّمولاه"

یعنی اے جماعت انسانی آیا میںتمہاری جانوں سے زیادہ تم پر اولی بہ تصرف نہیں ہوں؟ ( یہ آیہ شریفہ "النَّبِيُ‏ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ‏" ( یعنی رسول اللہ(ص) تمام مومنین کی جانوں سے زیادہ ان پر تصرف کا حق رکھتے ہیں ۱۲ مترجم، کی طرف اشارہ تھا) لوگوں نے عرض کیا ضرور ایسا ہی ہے۔ اس وقت آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں ( یعنی اس کے امور میں اولی بہ تصرف ہوں) پس یہ علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں)

پھر ہاتھوں کا بلند کر کے دعا فرمائی:

"اللهمّوالمنوالاه،وعادمنعاداه،وانصرمننصره،واخذلمنخذله"

یعنی خداوند دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے، اور مدد کر اس کی جو علی(ع) کی مدد کرے اور چھوڑ دے اس کو جو علی(ع) کو چھوڑ دے۔

اس کے بعد رسول اللہ(ص) کے حکم سے ایک خیمہ نصب کیا گیا اور آنحضرت(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو حکم دیا کہ خیمہ کے اندر بیٹھیں اور جتنی امت وہاں موجود تھی سب کو مامور فرمایا کہ جا کر علی(ع) کی بیعت کرو کیونکہ مجھ کو خدا کی طرف سے تاکید ہے کہ میں تم سے علی(ع) کے لیے بیعت لوں۔

"من بايع ذالک اليوم عليا کان عمر ثم ابابکر ثم عثمان ثم طلحة ثم زبير و کانوايبايعون ثلاثةايام متواترة"

یعنی اس روز سب سے پہلے جس شخص نے بیعت علی(ع) کی وہ عمر تھے پھر ابوبکر پھر عثمان پھر طلحہ پھر زبیر اور یہ پانچوں اشخاص متواتر تین روز تک ( جب تک پیغمبر(ص) وہاں فروکش رہے) بیعت کرتے رہے۔

حافظ : بھلا اس بات کا یقین کیا جاسکتا ہے کہ جیسا کہ آپ نے بیان کیا اس قدر اہمیت کے ساتھ حکم دیا گیا ہو اور بڑے بڑے علماء نے اسے نقل نہ کیا ہو۔

خیر طلب : مجھ کو بالکل توقع نہیں تھی کہ آپ ایسی بات کہیں گے۔ در آنحالیکہ غدیر خم کا یہ واقعہ آفتاب نصف النہار کی طرح ظاہر اور روشن ہے اور اس حقیقت سے سوا متعصب اور ہٹ دھرم انسان کے اور کوئی شخص انکار کر کے اپنی فضیحت و رسوائی مول نہیں لے سکتا۔ اس لیے کہ اس اہم واقعہ کو آپکے سارے ثقہ علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے، جن میں سے چند نام جو اس وقت میری نظر میں ہیں پیش کرتا ہوں تاکہ مطلب واضح ہوجائے اور آپ جان لیں کہ آپ کے جمہور اکابر علماء نے اس پر یقین و اعتماد کیا ہے۔

۳۷

علمائے عامہ میں سے حدیث غدیر کے معتبر راوی

۱۔ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر مفاتیح الغیب میں۔ ۲۔ امام احمد ثعلبی تفسیر کشف البیان میں۔

۳۔ جلال الدین سیوطی تفسیردر المنثور میں۔ ۴۔ ابو الحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری اسباب النزول میں۔۵۔ محمد بن جریر طبری تفسیر کبیر میں۔۶۔ حافظ ابونعیم اصفہانی کتاب ما نزل من القرآن فی علی اور حلیتہ الاولیاء میں۔۷۔ محمدبن اسماعیل بخاری اپنی تاریخ جلد اول ص۳۷۵ م میں۔ ۸۔ مسلم بن حجاج نیشاپوری اپنی صحیح جلد دوم ص۳۲۵ میں۔ ۹۔ ابو دائود سجستانی سنن میں۔ ۱۰۔ محمدبن عیسی ترمذی سنن میں۔ ۱۱۔ حافظ ابن عبدہ کتاب الولایہ میں۔ ۱۲۔ ابن کثیر شافعی دمشقی اپنی تاریخ میں۔ ۱۳۔ امام ائمہ حدیث احمد ابن حنبل مسند جلد چہارم ص۲۸۱، ۳۷۱ میں۔ ۱۴۔ ابو حامد محمد بن بن محمد الغزال سر العالمین میں۔ ۱۵۔ ابن عبدالبر الاستیعاب میں۔ ۱۶۔ محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص۱۶ میں۔ ۱۷۔ ابن مغازلی فقیہ شافعی مناقب میں۔ ۱۸ ۔ نور الدین بن صباغ مالکی فصول المہمہ ص۲۴ میں۔ ۱۹۔ حسین بن مسعود نجومی مصابیح السنہ میں۔ ۲۰۔ ابو الموئد موفق بن احمد خطیب خوارزمی مناقب میں۔۲۱۔ مجدد الدین اثیر محمد بن محمد شیبانی جامع الاصول میں۔ ۲۲۔ حافظ ابو عبدالرحمن احمد بن علی نسائی خصائص العلوی اور سنن میں۔ ۲۳۔ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب۴ میں۔ ۲۴۔ شہاب الدین احمد بن حجر مکی صواعق محرقہ اور کتاب المخ الملکیہ میں، بالخصوص صواعق باب اول ص۲۵ میں اپنے انتہائی تعصب کے باوجود کہتے ہیں :

"إنه‏ حديث‏ صحيح‏ لامريةفيه،وقدأخرجه جماعةكالترمذي،والنسائي،وأحمد،وطرقه كثيرةجدا"

یعنی یہ ایک صحیح حدیث ہے جس کی صحت میں کوئی شک نہیں، بتحقیق کہ اس کو ایک جماعت نے مثلا ترمذی، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ اور اگر تلاش کی جائے تو اس کے طرق کثرت سے ہیں۔

۲۵۔ محمد بن یزید حافظ ابن ماجہ قزوینی سنن میں۔ ۲۶۔ حافظ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری مستدرک میں۔ ۲۷۔ حافظ سلیمان بن احمد طبرانی اوسط میں۔ ۲۸۔ ابن اثیر جذری اسد الغابہ میں۔ ۲۹۔ یوسف سبط ابن جوزی تذکرہ خواص الائمہ ص۱۷ میں۔ ۳۰۔ ابو عمر احمد بن عبدریہ عقد الفرید میں۔ ۳۱۔ علامہ سمہودی جواہر العقدین میں۔ ۳۲۔ ابن تیمیہ احمد ابن عبدالحلیم منہاج السنتہ میں۔ ۳۳۔ ابن حجر عسقلانی فتح الباری اور تہذیب التہذیب میں۔ ۳۴۔ ابوالقاسم محمد بن عمر جار اللہ زمخشری ربیع الابرار میں۔

۳۸

۳۵۔ ابو سعید سجستانی کتاب الدرایہ فی حدیث الولایتہ میں۔ ۳۶۔ عبید اللہبن عبداللہ حسکانی دعاۃ الہدی الی ادا حق الموالات میں۔ ۳۷۔ زرین بن معاویتہ العبدری جمع بین الصحاح الستہ میں۔ ۳۸۔ امام فخر الدین رازی کتاب الاربعین میں کہتے ہیں کہ اس حدیث شریف پر تمام امت نے اجماع کیا ہے۔ ۳۹۔ مقبلی احادیث المتواترہ میں۔ ۴۰۔ جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء میں۔ ۴۱۔ میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی میں۔ ۴۲۔ ابوالفتح نظری خصائص العلوی میں۔۴۳۔ خواجہ پارسائے نجاری فصل الخطاب میں۔ ۴۴۔ جماالدین شیرازی کتاب الاربعین میں۔۴۵۔ عبدالرئوف المنادی فیض القدیر فی شرح جامع الصغیر میں۔ ۴۶۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب میں۔ ۴۷۔ یحیی بن شرف النووی کتاب تہذیب الاسماء واللغات میں۔ ۴۸۔ ابراہیم بن محمد حموینی فرائد السمطین میں۔ ۴۹۔ قاضی فضل اللہ بن روز بہمان البطال الباطل میں۔ ۵۰۔ شمس الدین محمد بن احمد شربینی سراج المنیر میں۔ ۵۱۔ ابو الفتح شہرستانی شافعی ملل و نحل میں۔ ۵۲۔ حافظ ابوبکر خطیب بغدادی اپنی تاریخ میں۔ ۵۳۔ حافظ ابن عساکر ابوالقاسم دمشقی تاریخ کبیر میں۔ ۵۴۔ ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ میں۔ ۵۵۔ علائو الدین سمنانی عروۃ الوثقی میں۔ ۵۶۔ ابن خلدون اپنی تاریخ کے مقدمے میں۔ ۵۷۔ مولوی علی متقی ہندی کنزالعمال میں۔۵۸۔ شمس الدین ابوالخیر دمشقی اسنی المطالب میں۔ ۵۹۔ سید شریف جرجانی حنفی شرح مواقف میں۔ ۶۰۔ نظام الدین نیشاپوری تفسیر غرائب القرآن میں۔

طبری، ابن عقدہ اور ابن حداد

غرض کہ جس میرے حافظے میں محفوظ تھا عرض کردیا ورنہ آپ کے تین سو سے زائد اکابر علماء نے مختلف طریقوں سے حدیث غدیر، آیات تبلیغ و اکمال دین اور صحن مسجد کی گفتگو کو سو نفر سے زیادہ اصحاب رسول(ص) کے اسناد سے نقل کیا ہے۔ اگر میں تمام روات اور ان کے اسماء کی فہرست پیش کرنا چاہوں تو ایک مستقل کتاب تیار ہوجائے گی۔ لہذا میرا خیال ہے کہ تواتر کو ثابت کرنے کے لیے نمونےکے طور پر اسی قدر نام کافی ہوں گے۔

آپ کے بعض اکابر علماء نے اس موضوع پر پوری پوری کتابیں لکھی ہیں، جیسے چوتھی صدی کے مشہور مفسر و مورخ جعفر محمد بن جریر طبری متوفی سنہ۳۱۰ہجری نے کتاب الولایتہ میں جو مستقل طور پر حدیث غدیر کے بارے میں لکھی ہے۔ پچھتر طریقوں سے اس کی روایت کی ہے۔

حافظ ابوالعباس احمد بن سعید بن عبدالرحمن الکوفی معروف بابن عقدہ متوفی سنہ۳۳۳ھ نے کتاب الولایتہ میں اس حدیث

۳۹

شریف کو ایک سو پچیس طریقوں سے ایک سو پچیس صحابہ رسول(ص) کے اسناد سے پوری تحقیقات کے ساتھ نقل کیا ہے۔

اور ابن حداد حافظ ابوالقاسم حسکانی متوفی سنہ۴۹۲ ہجری نے کتاب الولایتہ میں واقعہ غدیر کو نزول آیات کے ساتھ تفصیل سے نقل کیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ( سوا تھوڑے سے متعصب مخالفین کے)آپ کے سبھی محققین علماء فضلاء نے سلسلہ روایت کے ساتھ حضرت رسول خدا(ص) سے نقل کیا ہے کہ اس روز ( ۱۸ ذی الحجہ کو) حجتہ الووداع کے سال آنحضرت نے علی علیہ السلام کو منصب ولایت پر نصب فرمایا۔

یہاں تک کہ خلیفہ عمر ابن الخطاب نے تمام اصحاب سے پہلے مسرت کا اظہار فرمایا اور حضرت کا ہاتھ پکڑ کر کہا :

"بخ‏ بخ‏ ياعلي‏أصبحتمولايوم ولى كل مؤمن ومؤمنة."

مبارک ہو۔ مبارک ہو( بخ بخ اسم فعل ہے جو کسی موقع پر مدح اور اظہار مسرت کے لیے کہا جاتا ہے اور اس کی تکرار مبالغے کے لیے ہے) اے علی تم نے ایسی حالت میں صبح کی کہ میرے آقا و مولا اور ہر مومن ومومنہ کے آقا ومولا ہوگئے۔

امور مسلمہ میں سے ہے کہ یہ حدیث شریف فریقین کے نزدیک متواترات میں سے ہے۔

عمر کو جبرئیل کی نصیحت

فقیہ شافعی میر سید علی ہمدانی میں آپ کے موثق فضلا و فقہاء اور علماء میں سے تھے۔ کتاب مودۃ القربی کی مودت پنجم میں لکھتے ہیں کہ صحابہ کی بہت بڑی جماعت نے مختلف مقامات پر خلیفہ عمر ابن خطاب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا "نصب رسول اللهعليا علما " یعنی رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو بزرگ و سردار اور رہنمائے قوم مقرر فرمایا مجمع عام میں ان کی مولائیت کا اعلان فرمایا اور ان کے دوستوں اور دشمنوں کے حق میں دعا و بد دعا کرنے کے بعد عرض کیا"اللهم انت شهيدی عليهم " خداوند تو ان لوگوں پر میرا گواہ ہے( یعنی میں نے تبلیغ رسالت کردی) اس موقع پر ایک جوان رعنا حسن صورت اور لوئے خوش کے ساتھ میرے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔اس نے مجھ سے کہا :"لقد عقد رسول الله عقد الايحله الا المنافق فاحذر ان تحله " ( یعنی بتحقیق رسول اللہ(ص) نے ایسا عہد باندھا ہے کہ سوا منافق کے اور کوئی نہیں توڑے گا۔ پس اے عمر تم بچو اس سے کہ اس کے توڑنے یا کھولنے والے بنو۔ ( مطلب یہ کہ اگر ایسا ہوا تو تمہارا شمار منافقین میں ہوگا۔)

میں نے رسول اللہ(ص) سے عرض کیا کہ جس وقت آپ علی(ع) کے بارے میں تقریر فرمارہے تھے اس وقت میرے پہلو میں ایک خوش رو اور خوشبو جوان بیٹھا ہوا تھا جس نے مجھ سے ایسی بات کہی آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"انه ليس من له آدم لکنه جبرئيل اراد ان يوکد عليکم ما قلته فی علی (عليه السلام )

یعنی وہ اولاد آدم میں سے نہیں تھا۔ بلکہ

۴۰

پہلامحور

آیہء مباہلہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ

پہلی بحث یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مباہلہ کے سلسلہ میں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے کن افرادکودعوت دینی چاہئے تھی،اس سلسلہ میں ایہء شریفہ میں غوروخوض کے پیش نظردرج ذیل چندمسائل ضروری دکھائی دیتے ہیں:

الف:”ابنائنا“اور”نسائنا“سے مرادکون لوگ ہیں؟

ب:”انفسنا“کامقصودکون ہے؟

۔۔۔( تعالوا ندع اٴبنائناو اٴبنا ئکم ) ۔۔۔

ابناء ابن کاجمع ہے یعنی بیٹے،اورچونکہ”ابناء کی“ضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“ کی طرف نسبت دی گئی ہے(۱) اوراس سے مرادخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں،اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکم ازکم تین افراد،جوان کے بیٹے شمارہوں،کومباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لاناچاہئے۔

۔۔۔( ونسائنا ونسائکم ) ۔۔۔

”نساء“اسم جمع ہے عورتوں کے معنی میں اورضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“کی طرف اضافت دی گئی ہے۔اس کاتقاضایہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھرانے میں موجود تمام عورتوں(چنانچہ جمع مضاف کی دلالت عموم پرہوتی ہے) یاکم ازکم تین عورتوں کو)جوکم سے

____________________

۱۔اس آیہء شریفہ میں استعمال کئے گئے متکلم مع الغیر والی ضمیریں،معنی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔”ندع“میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورطرف مباہلہ وآنحضرت علیہ السلام یعنی نصاریٰ مقصودہے،اور”ابناء“،”نساء“و”انفس“اس سے خارج ہیں۔اور”ابنائنا،”نسائنا“اور”انفسنا“میں خودپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصودہیں اورطرف مباہلہ اورابناء،نسائ اور انفس بھی اس سے خارج ہیں۔”نبتھل“ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طرف مباہلہ اور ابناء،نساء اورانفس سب داخل ہیں۔

۴۱

کم جمع کی مقدار اور خاصیت ہے)مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے۔

اس بحث میں قابل ذکرہے،وہ”ابنائناونسائناوانفسنا“کی دلالت کااقتضاہے اوربعدوالے جوابات محورمیں جومباہلہ کے ھدف اورمقصدپربحث ہوگی وہ بھی اس بحث کاتکملہ ہے۔

لیکن”ابناء“اور”نساء“کے مصادیق کے عنوان سے کتنے اورکون لوگ مباہلہ میں حاضرہوئے،ایک علیحدہ گفتگوہے جس پرتیسرے محورمیں بحث ہوگی۔

( وانفسنا وانفسکم ) ۔۔۔

انفس،نفس کی جمع ہے اورچونکہ یہلفظ ضمیرمتکلم مع الغیر”نا“(جس سے مقصودخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات ہے)کی طرف مضاف ہے،اس لئے اس پر دلالت کرتاہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو)جمع کے اقتضاکے مطابق)کم ازکم تین ایسے افراد کومباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے جوآپ کے نفس کے زمرے میں آتے ہوں۔ کیا”انفسنا“خودپیغمبراکرم) ص)پرقابل انطباق ہے؟

اگر چہ”انفسنا“ میں لفظ نفس کا اطلاق اپنے حقیقی معنی میں صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نفس مبارک پرہے،لیکن آیہء شریفہ میں موجود قرائن کے پیش نظر”انفسنا“میں لفظ نفس کوخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پراطلاق نہیں کیاجاسکتا ہے اور وہ قرائن حسب ذیل ہیں:

۴۲

۱ ۔”انفسنا“جمع ہے اورہرفرد کے لئے نفس ایک سے زیادہ نہیں ہوتاہے۔

۲ ۔جملہء( فقل تعالواندع ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواس کے حقیقی معنی میں دعوت دینے کاذمہ دارقراردیتا ہے اورحقیقی دعوت کبھی خودانسان سے متعلق نہیں ہوتی ہے،یعنی انسان خودکودعوت دے،یہ معقول نہیں ہے۔

اس بنائ پر،بعض لوگوں نے تصورکیاہے کہ”فطوّعت لہ نفسہ“یا”دعوت نفسی“جیسے استعمال میں ”دعوت“)دعوت دینا )جیسے افعال نفس سے تعلق پیداکرتے ہیں۔یہ اس نکتہ کے بارے میں غفلت کانتیجہ ہے کہ یہاں پریا تو یہ”نفس“خودانسان اوراس کی ذات کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے،یا”دعوت سے مراد “(دعوت دینا)حقیقی نہیں ہے۔بلکہ”فطوّعت لہ نفسہ قتل اخیہ“کی مثال میں نفس کامقصودانسان کی نفسانی خواہشات ہے اوراس جملہ کا معنی یوں ہے ”اس کی نفسانی خواہشات نے اس کے لئے اپنے بھائی کوقتل کرناآسان کردیا“اور”دعوت نفسی“کی مثال میں مقصوداپنے آپ کوکام انجام دینے کے لئے مجبوراورآمادہ کرناہے اوریہاں پردعوت دینا اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ جونفس سے متعلق ہو۔

۳ ۔”ندع“اس جہت سے کہ خودپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرمشتمل ہے اس لئے نفس پردلالت کرتاہے اوریہ ضروری نہیں ہے،کہ دوسروں کودعوت دینے والا خودمباہلہ کا محورہو،اوروہ خودکوبھی دعوت دے دے۔

۴۳

دوسرامحور:

مباہلہ میں اہل بیت رسول (ص)کے حاضر ہونے کامقصد

پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکیوں حکم ہوا کہ مباہلہ کر نے کے واسطے اپنے خاندان کوبھی اپنے ساتھ لائیں،جبکہ یہ معلوم تھاکہ مباہلہ دوفریقوں کے درمیان دعویٰ ہے اوراس داستان میں ایک طرف خودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسری طرف نجران کے عیسائیوں کے نمائندے تھے؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ترین رشتہ داروں کے میدان مباہلہ میں حاضر ہونے کامقصدصرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سچی ہونے اوران کی دعوت صحیح ہونے کے سلسلہ میں لوگوں کواطمینان ویقین دکھلانا تھا،کیونکہ انسان کے لئے اپنے عزیز ترین اشخاص کو اپنے ساتھ لاناصرف اسی صورت میں معقول ہے کہ انسان اپنی بات اوردعویٰ کے صحیح ہونے پرمکمل یقین رکھتاہو۔اوراس طرح کااطمینان نہ رکھنے کی صورت میں گویا اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کوخطرے میں ڈالناہے اورکوئی بھی عقلمند انسان ایسااقدام نہیں کرسکتا۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام رشتہ داروں میں سے صرف چنداشخاص کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کے حوالے سے یہ توجیہ صحیح نہیں ہوسکتی ہے،کیونکہ اس صورت میں اس خاندان کامیدان مباہلہ میں حاضرہونااور اس میں شرکت کرناان کے لئے کسی قسم کی فضیلت اورقدرمنزلت کاباعث نہیں ہوسکتاہے،جبکہ آیہء شریفہ اوراس کے ضمن میں بیان ہونے والی احادیث میں غوروخوض کرنے سے معلوم یہ ہوتاہے کہ اس ماجرامیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جانے والوں کے لئے ایک بڑی فضیلت ہے۔

۴۴

اہل سنت کے ایک بڑے عالم علامہ زمخشری کہتے ہیں:

وفیه دلیل لاشیئ اقویٰ منه علی فضله اصحاب الکساء(۱)

”آیہء کریمہ میں اصحاب کساء)علیہم السلام)کی فضیلت پرقوی ترین دلیل موجود ہے“

آلوسی کاروح المعانی میں کہناہے:

و دلالتها علی فضل آل اللّٰه و رسوله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ممّا لایمتری فیهامؤمن والنصب جازم الایمان(۲)

”آیہ کریمہ میں ال پیغمبر (ص)کہ جو آل اللہ ہیں ان کی فضیلت ہے اوررسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فضیلت،ایسے امور میں سے ہے کہ جن پرکوئی مؤمن شک و شبہ نہیں کر سکتا ہے اور خاندان پیغمبر (ص)سے دشمنی اور عداوت ایمان کونابودکردیتی ہے“

اگرچہ آلوسی نے اس طرح کی بات کہی ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والی سطروں میں اس نے ایک عظیم فضیلت کو خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے موڑ نے کی کوشش کی ہے۔(۳)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال نے کیوں حکم دیاکہ اہل بیت علہیم السلام پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مباہلہ کر نے کے لئے حاضر ہوں؟اس سوال کے جواب کے لئے ہم پھرسے آیہء شریفہ کی طرف پلٹتے ہیں ۔۔۔( فقل تعالوا ندع اٴبناء ناو اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ثمّ نبتهل فنجعل لعنة اللّٰه علی الکاذبین )

آیہء شریفہ میں پہلے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے’ابناء“،”نسا ء“ اور”انفس“کودعوت دینااورپھردعاکرنااورجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردینابیان ہواہے۔

____________________

۱۔تفسیرالکشاف،ج۱،ص۳۷۰،دارالکتاب العربی ،بیروت۔

۲۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،دارئ احیائ التراث العربی ،بیروت۔

۳۔اس کے نظریہ پراعتراضات کے حصہ میں تنقید کریں گے۔

۴۵

آیہء مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کی فضیلت وعظمت کی بلندی

مفسرین نے کلمہ”ابتھال“کودعامیں تضرع یانفرین اورلعنت بھیجنے کے معنی میں لیاہے اوریہ دونوں معنی ایک دوسرے سے منا فات نہیں رکھتے ہیں اور”ابتھال“کے یہ دونوں معافی ہوسکتے ہیں۔

آیہء شریفہ میں دوچیزیں بیان کی گئی ہیں،ایک ابتھال جو”نبتھل“کی لفظ سے استفادہ ہو تاہے اوردوسرے ”ان لوگوں پرخدا کی لعنت قراردیناجواس سلسلہ میں جھوٹے ہیں“( فنجعل لعنةالله علی الکاذبین ) کاجملہ اس پردلالت کرتاہے اوران دونوں کلموں میں سے ہرایک کے لئے خارج میں ایک خاص مفہوم اورمصداق ہے دوسرا فقرہ جوجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردیناہے پہلے فقرے ابتہال پر”فاء“کے ذریعہ کہ جو تفریع اور سببیت کے معنی میں ہے عطف ہے۔

لہذا،اس بیان کے پیش نظرپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کا تضرع)رجوع الی اللہ)ہے اورجھوٹوں پرخداکی لعنت اورعقوبت کامرتب ہونا اس کامعلول ہے،اوریہ ایک بلند مقام ہے کہ خداکی طرف سے کافروں کوہلاک کرنااورانھیں سزادیناپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ انجام پائے۔یہ مطلب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت)علیہم السلام)کی ولایت تکوینی کی طرف اشارہ ہے،جوخداوندمتعال کی ولایت کے برابر ہے۔

اگرکہاجائے کہ:( فنجعل لعنةالله ) میں ”فاء“اگرچہ ترتیب کے لئے ہے لیکن ایسے مواقع پر”فاء“کے بعدوالاجملہ اس کے پہلے والے جملہ کے لئے مفسرقرار پاتاہے اور وہ تر تیب کہ جس پر کلمہ ”فاء“ دلالت کرتا ہے وہ تر تیب ذکری ہے جیسے:

( ونادیٰ نوح ربّه فقال ربّ إنّ ابنی من اٴهلی ) )ہود/۴۵)

”اورنوح نے اپنے پروردگارکو آواز دی کہ پروردگارامیرافرزندمیری اہل سے ہے۔“

۴۶

یہاں پرجملہء”فقال۔۔۔“جملہ ”فنادیٰ“ کوبیان )تفسیر)کرنے والاہے۔جواب یہ ہے:

اولاً:جس پرکلمہ”فاء“دلالت کرتاہے وہ ترتیب وتفریع ہے اوران دونوں کی حقیقت یہ ہے کہ”جن دوجملوں کے درمیان”فاء“نے رابطہ پیداکیاہے،ان دونوں جملوں کا مضمون ہے کہ دوسرے جملہ کامضمون پہلے جملہ پرمترتب ہے“

اوریہ”فاء“کاحقیقی معنی اورتفریع کالازمہ ہے۔یعنی ترتیب ذکری پر”فاء“کی دلالت اس کے خارج میں دومضمون کی ترتیب کے معنی میں نہیں ہے،بلکہ لفظ اور کلام میں ترتیب ہے لہذا اگراس پرکوئی قرینہ مو جودنہ ہوتوکلام کواس پرحمل نہیں کر سکتے۔اس صورت میں ایہء شریفہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کے لئے ایک عظیم مر تبہ پردلالت رہی ہے کیونکہ ان کی دعاپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے برابرہے اورمجموعی طور پریہ دعااس واقعہ میں جھوٹ بولنے والوں پر ہلاکت اورعذاب ا لہٰی نازل ہو نے کا باعث ہے۔

دو سرے یہ کہ:جملہء”فنجعل لعنة اللّٰہ“میں مابعد”فاء“جملہء سابق یعنی ”نبتھل“کے لئے بیّن اورمفسّرہونے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،کیونکہ دعاکرنے والے کا مقصدخداسے طلب کر ناہے نہ جھوٹوں پرلعنت کر نا۔اس صفت کے پیش نظراس کو لعنت قرار دینا )جو ایک تکوینی امر ہے) پہلے پیغمبراسلام (ص)اورآپکے اہل بیت علیہم السلام سے مستندہے اوردوسرے”فاء“تفریع کے ذریعہ ان کی دعاپر متو قف ہے۔گویااس حقیقت کا ادراک خودنجران کے عیسائیوں نے بھی کیاہے۔اس سلسلہ میں ہم فخررازی کی تفسیر میں ذکرکئے گئے حدیث کے ایک جملہ پرتوجہ کرتے ہیں:

۴۷

”۔۔۔فقال اٴسقف نجران: یامعشرالنصاریٰ! إنّی لاٴری وجوهاً لوساٴلو الله اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها فلا تباهلوا فتهلکوا ولایبقی علی وجه الاٴرض نصرانّی إلیٰ یوم القیامة ۔“(۱)

”نجران کے) عسائی)پادریان نورانی چہروں کودیکھ کرانتہائی متائثرہوئے اور بو لے اے نصرانیو!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگروہ خدا سے پہاڑ کے اپنی جگہ سے ٹلنے کا٘ مطالبہ کریں تووہ ضرور اپنی جگہ سے کھسک جا ئیں گے۔اس لئے تم ان سے مباہلہ نہ کرنا،ورنہ ھلاک ہوجاؤگے اورزمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔“

غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آیہء شریفہ کے مضمون میں درج ذیل امورواضح طور پربیان ہوئے ہیں:

۱ ۔پیغمبراکرم (ص)،اپنے اہل بیت علیہم السلام کواپنے ساتھ لے آئے تاکہ وہ آپ کے ساتھ اس فیصلہ کن دعامیں شر یک ہوں اورمباہلہ آنحضرت (ص)اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے مشترک طور پر انجام پائے تاکہ جھوٹوں پرلعنت اورعذاب نازل ہونے میں مؤثرواقع ہو۔

۲ ۔آنحضرت (ص)اورآپکے اہل بیت (ع)کاایمان و یقین نیز آپ کی رسالت اور دعوت کا مقصد تمام لوگوں کے لئے واضح ہوگیا۔

۳ ۔اس واقعہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کا بلند مرتبہ نیز اہل بیت کی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت دنیاوالوں پرواضح ہوگئی۔

اب ہم یہ دکھیں گے کہ پیغمبراسلام)ص)”ابنائنا“)اپنے بیٹوں)”نسائنا“)اپنی عورتوں)اور”انفسنا“)اپنے نفسوں)میں سے کن کواپنے ساتھ لاتے ہیں؟

____________________

۱۔التفسیر الکبیر،فخر رازی،ج۸،ص۸۰،داراحیائ التراث العربی۔

۴۸

تیسرامحور

مباہلہ میں پیغمبر (ص)اپنے ساتھ کس کو لے گئے

شیعہ اور اہل سنّت کااس پراتفاق ہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مباہلہ کے لئے علی، فاطمہ، حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکواپنے ساتھ نہیں لائے۔اس سلسلہ میں چندمسائل قابل غورہیں:

الف:وہ احادیث جن میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کامیدان مباہلہ میں حاضرہونابیان کیاگیاہے۔

ب:ان احادیث کا معتبراورصحیح ہونا۔

ج۔اہل سنّت کی بعض کتابوں میں ذکرہوئی قابل توجہ روایتیں۔

مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کے حاضر ہونے کے بارے میں حدیثیں ۱ ۔اہل سنّت کی حد یثیں:

چونکہ اس کتاب میں زیادہ تر روئے سخن اہل سنّت کی طرف ہے لہذااکثرانھیں کے منابع سے احادیث نقل کی جائیں گی۔نمو نہ کے طورپراس حوالے سے چنداحادیث نقل کی جا رہی ہیں:

پہلی حدیث:

صحیح مسلم(۱) سنن ترمذی(۲) اورمسنداحمد(۳) میں یہ حدیث نقل ہوئی ہےجس کی متفق اور مسلم لفظیں یہ ہیں:

____________________

۱۔صحیح مسلم،ج۵،ص۲۳کتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل علی بن ابیطالب،ح۳۲،موسسئہ عزالدین للطباعةوالنشر

۲۔سنن ترمذی،ج۵،ص۵۶۵ دارالفکر ۳۔مسنداحمد،ج،۱،ص۱۸۵،دارصادر،بیروت

۴۹

”حدثنا قتیبة بن سعید و محمد بن عباد قالا: حدثنا حاتم) و هو ابن اسماعیل) عن بکیر بن مسمار، عن عامر بن سعد بن اٴبی وقاص، عن اٴبیه، قال: اٴمر معاویه بن اٴبی سفیان سعدا ًفقال: ما منعک اٴن تسب اٴبا التراب؟ فقال: اٴماّ ما ذکرتُ ثلاثاً قالهنّ له رسواللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلن اٴسبّه لاٴن تکون لی واحدة منهنّ اٴحبّ إلیّ من حمرالنعم

سمعت رسول للّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول له لماّ خلّفه فی بعض مغازیه فقال له علیّ: یا رسول اللّٰه، خلّفتنی مع النساء والصبیان؟ فقال له رسول اللّٰه( ص) :اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی إلاّ انه لانبوة بعدی؟

و سمعته یقول یوم خیبر: لاٴُعطیّن الرایة رجلاً یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله قال: فتطاولنا لها فقال: اُدعو الی علیاً فاٴُتی به اٴرمد، فبصق فی عینه ودفع الرایة إلیه،ففتح اللّٰه علیه

ولماّنزلت هذه الایة( فقل تعا لواندع ابنائناوابنائکم ) دعا رسول اللّٰه-صلی اللّٰه علیه وسلم –علیاًوفاطمةوحسناًوحسیناً فقال:اللّهمّ هؤلائ اٴهلی“

”قتیبةبن سعید اور محمد بن عبادنے ہمارے لئے حدیث نقل کی،-- عامربن سعدبن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ)سعد بن ابی وقاص)سے کہ معاویہ نے سعدکوحکم دیااورکہا:تمھیں ابوتراب)علی بن ابیطالب علیہ السلام)کودشنام دینے اور برا بھلا کہنے سے کو نسی چیز مانع ہوئی)سعدنے)کہا:مجھے تین چیزیں)تین فضیلتیں)یادہیں کہ جسے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے،لہذامیں انھیں کبھی بھی برابھلا نہیں کہوں گا۔اگرمجھ میں ان تین فضیلتوں میں سے صرف ایک پائی جاتی تووہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے محبوب ترہوتی:

۵۰

۱ ۔میں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انھیں)حضرت علی علیہ السلام)مدینہ میں اپنی جگہ پررکھاتھااورعلی(علیہ السلام)نے کہا:یارسول اللہ!کیاآپمجھے عورتوں اوربچوں کے ساتھ مدینہ میں چھوڑرہے ہیں؟ )آنحضرت (ص)نے) فرمایا:کیاتم اس پرراضی نہیں ہوکہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہوجو ہارون کی)حضرت)موسی)علیہ السلام )کے ساتھ تھی،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں ہو گا؟

۲ ۔میں نے)رسول خدا (ص))سے سنا ہے کہ آپ نے روز خیبر علی کے با رے میں فرمایا:بیشک میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گاجوخدا ورسول (ص)کو دوست رکھتاہے اورخداورسول (ص)اس کو دوست رکھتے ہیں۔)سعدنے کہا):ہم)اس بلندمرتبہ کے لئے)سراٹھاکر دیکھ رہے تھے)کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس امر کے لئے ہمیں مقررفرماتے ہیںیانہیں؟)اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو میرے پاس بلاؤ ۔ علی (علیہ السلام) کو ایسی حالات میں آپکے پاس لایا گیا، جبکہ ان کی آنکھوں میں دردتھا،آنحضرت (ص)نے اپنا آب دہن ان کی آنکھوں میں لگا یااورپرچم ان کے ہاتھ میں تھمادیااورخدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کوفتح عطاکی۔

۳ ۔جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی( : قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ) ۔۔۔ توپیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین) علیہم السلام )کوبلاکرفرمایا:خدایا!یہ میرے اہل بیت ہیں۔“

اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:

۱ ۔حدیث میں جوآخری جملہ آیاہے:”الّٰلہمّ ھٰؤلاء ا ھلی“خدایا!یہ میرے اہل ہیں،اس بات پردلالت کرتاہے”ابناء“”نساء“اور”انفس“جوآیہء شریفہ میں ائے ہیں،وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل ہیں۔

۵۱

۲ ۔”ابناء“”نساء“و”انفس“میں سے ہرایک جمع مضاف ہیں)جیساکہ پہلے بیان کیاگیا)اس کا اقتضایہ ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنے خاندان کے تمام بیٹوں،عورتوں اور وہ ذات جو آپ کا نفس کہلاتی تھی،سب کومیدان مباہلہ میں لائیں،جبکہ آپ نے”ابناء“میں سے صرف حسن وحسیںعلیہما السلام کواور”نساء“سے صرف حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکواور”انفس“سے صرف حضرت علی علیہ السلام کواپنے ساتھ لایا۔اس مطلب کے پیش نظرجوآپ نے یہ فرمایا:”خدایا،یہ میرے اہل ہیں“اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل صرف یہی حضرات ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اس معنی میں اپکے اہل کے دائرے سے خارج ہیں۔

۳ ۔”اہل“اور”اہل بیت“کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہیں جوپنجتن پاک کہ جن کوآل عبااوراصحاب کساء کہاجاتاہے،ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کااطلاق نہیں ہو تاہے۔یہ مطلب،پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی احا دیث سے کہ جو آیہء تطہیر کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بیان کی ہیں گئی بخوبی استفادہ کیا جاسکتاہے۔

دوسری حدیث:

فخررازی نے تفسیرکبیرمیں ایہء مباہلہ کے ذیل میں لکھاہے:

”روی اٴنّه - علیه السلام - لماّ اٴورد الدلائل علی نصاری نجران،ثمّ إنّهم اٴصروا علی جهلهم، فقال - علیه السلام - إنّ اللّٰه اٴمرنی إن لم تقبلوا الحجّة اٴن اٴباهلکم فقالوا: یا اٴبا القاسم، بل نرجع فننظر فی اٴمرنا ثمّ ناٴتیک

فلمّا رجعوا قالوا للعاقب - وکان ذاراٴیهم - :یا عبدالمسیح، ماتری؟ فقال: و اللّٰه لقد عرفتم یا معشر النصاری اٴنّ محمداً نبیّ مرسل و لقد جاء کم بالکلام الحق فی اٴمر صاحبکم و اللّٰه ما باهل قوم نبیاً قط فعاش کبیرهم و لا نبت صغیرهم! و لئن فعلتم لکان الا ستئصال ، فإن اٴبیتم إلاّ الإصرار علی دینکم و الإقامة علی ما اٴنتم علیه فوادعوا الرجل و انصرفوا إلی بلادکم

۵۲

و کان رسول اللّٰه( ص) خرج وعلیه مرط من شعراٴسود، وکان قد احتضن الحسین واٴخذ بید الحسن، و فاطمه تمشی خلفه وعلی - علیه السلام - خلفها، و هو یقول:إذا دعوت فاٴمّنوا فقال اٴسقف نجران: یا معشر النصاری! إنّی لاٴری وجوها ًلو ساٴلوا اللّٰه اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها! فلا تباهلوا فتهلکوا، و لا یبقی علی وجه الاٴض نصرانیّ إلی یوم القیامة ثمّ قالوا: یا اٴبا القاسم! راٴینا اٴن لا نباهلک و اٴن نقرّک علی دینک فقال:- صلوات اللّٰه علیه - فإذا اٴبیتم المباهلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین، و علیکم ما علی المسلمین، فاٴبوا، فقال: فإنیّ اٴُناجزکم القتال، فقالوا مالنا بحرب العرب طاقة، ولکن نصالک علی اٴن لا تغزونا و لاتردّنا عن دیننا علی اٴن نؤدّی إلیک فی کل عام اٴلفی حلّة:اٴلفاٴ فی صفر و اٴلفافی رجب، و ثلاثین درعاً عادیة من حدید، فصالحهم علی ذلکوقال: والّذی نفسی بیده إنّ الهلاک قد تدلّی علی اٴهل نجران، ولولاعنوالمسخوا قردة و خنازیر و لاضطرم علیهم الوادی ناراً ولاستاٴ صل اللّٰه نجران واٴهله حتی الطیر علی رؤس الشجر و لما حالا لحوال علی النصاری کلّهم حتی یهلکوا و روی اٴنّه - علیه السلام -لمّ خرج فی المرط الاٴسود فجاء الحسن -علیه السلام - فاٴدخله، ثمّ جائ الحسین -علیه السلام - فاٴدخله ،ثمّ فاطمة - علیها السلام - ثمّ علی - علیه السلام - ثمّ قال:( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) واعلم اٴنّ هذه الروایة کالمتّفق علی صحّتها بین اٴهل التّفسیر والحدیث“(۱)

”جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پردلائل واضح کردئے اور انہوں نے اپنی نادانی اورجہل پراصرارکیا،تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:خدائے متعال نے مجھے حکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہیں کیا تو تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا۔“)انہوں نے)کہا:اے اباالقاسم!ہم واپس جاتے ہیں تاکہ اپنے کام کے بارے میں غوروفکرکرلیں،پھرآپکے پاس آئیں گے۔

____________________

۱۔تفسیرکبیرفخر رازی،ج۸،ص،۸،داراحیائ التراث العربی۔

۵۳

جب وہ)اپنی قوم کے پاس)واپس چلے گئے،انھوں نے اپنی قوم کے ایک صاحب نظر کہ جس کا نام”عاقب“تھا اس سے کہا:اے عبدالمسیح!اس سلسلہ میں آپ کانظریہ کیا ہے؟اس نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!تم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوپہنچانتے ہواورجانتے ہووہ ا للہ کے رسول ہیں۔اورآپ کے صاحب)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام)کے بارے میں حق بات کہتے ہیں۔خداکی قسم کسی بھی قوم نے اپنے پیغمبرسے مباہلہ نہیں کیا،مگر یہ کہ اس قوم کے چھوٹے بڑے سب ہلاک ہو گئے ۔چنانچہ اگرتم نے ان سے مباہلہ کیاتو سب کے سب ہلاک ہوجاؤگے۔ اس لئے اگراپنے دین پرباقی رہنے کے لئے تمھیں اصرار ہے توانہیں چھوڑکراپنے شہر واپس چلے جاؤ۔پیغمبراسلام (ص))مباہلہ کے لئے)اس حالت میں باہرتشریف لائے کہ حسین(علیہ السلام)آپکی آغوش میں تھے،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے تھے،فاطمہ (سلام اللہ علیہا)آپکے پیچھے اورعلی(علیہ السلام)فاطمہ کے پیچھے چل رہے تھے۔آنحضرت (ص)فرماتے تھے:”جب میں دعامانگوں تو تم لوگ آمین کہنا“نجران کے پادری نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگرخداسے دعا کریں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ۔لہذاان کے ساتھ مباہلہ نہ کرنا،ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤگے اور روی زمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اب جبکہ مباہلہ نہیں کررہے ہوتومسلمان ہوجاؤتاکہ مسلمانوں کے نفع ونقصان میں شریک رہو۔انہوں نے اس تجویزکوبھی قبول نہیں کیا۔

۵۴

آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس صورت میں تمھارے ساتھ ہماری جنگ قطعی ہے۔انہوں نے کہا:عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔لیکن ہم آپ کے ساتھ صلح کریں گے تاکہ آپ ہمارے ساتھ جنگ نہ کریں اورہمیں اپنادین چھوڑنے پرمجبورنہ کریں گے،اس کے بدلہ میں ہم ہرسال آپ کودوہزارلباس دیں گے،ایک ہزار لباس صفرکے مہینہ میں اورایک ہزارلباس رجب کے مہینہ میں اورتیس ہزارآ ہنی زرہ اداکریں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس تجویزکوقبول کر لیااس طرح ان کے ساتھ صلح کرلی۔اس کے بعدفرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اہل نجران نابودی کے دہانے پرپہو نچ چکے تھے،اگرمباہلہ کرتے توبندروں اورسوروں کی شکل میں مسنح ہوجاتے اورجس صحرامیں سکونت اختیار کر تے اس میں آگ لگ جاتی اورخدا وندمتعال نجران اوراس کے باشندوں کو نیست و نابود کر دیتا،یہاں تک کہ درختوں پرموجودپرندے بھی ہلاک ہوجاتے اورایک سال کے اندراندرتمام عیسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔روایت میں ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے)اپنے بیٹے)حسن(علیہ السلام)کوبھی اس میں داخل کر لیا،اس کے بعدحسین(علیہ السلام) آگئے انہیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعدعلی و فاطمہ )علیہما السلام) تشریف لائے اس کے بعد فرمایا:( إنّمایریداللّه ) ۔۔۔ ”پس اللہ کاارادہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر طرح کی کثافت وپلیدی سے دوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے میں کہا ہے کہ تمام علماء تفسیر و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق علیہ ہے۔“

۵۵

حدیث میں قابل استفادہ نکات:

اس حدیث میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

۱ ۔اس حدیث میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت کاحضور اس صورت میں بیان ہواہے کہ خودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آگے آگے)حسین علیہ السلام)کوگود میں لئے ہوئے ،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے جوحسین(علیہ السلام)سے قدرے بڑے ہیں اورآپکی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہاآپکے پیچھے اوران کے پیچھے(علیہ السلام) ہیں۔یہ کیفیت انتہائی دلچسپ اور نمایاں تھی۔کیو نکہ یہ شکل ترتیب آیہء مباہلہ میں ذکرہوئی تر تیب و صورت سے ہم آہنگ ہے۔اس ہماہنگی کا درج ذیل ابعادمیں تجزیہ کیاجاسکتاہے:

الف:ان کے آنے کی ترتیب وہی ہے جوآیہء شریفہ میں بیان ہوئی ہے۔یعنی پہلے ”ابناء نا“اس کے بعد”نسائنا“اورپھرآخرپر”ا نفسنا“ہے۔

ب:یہ کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چھوٹے فرزندحسین بن علی علیہماالسلام کوآغوش میں لئے ہوئے اوراپنے دوسرے فرزندخورد سال حسن بن علی علیہماالسلام کاہاتھ پکڑے ہوئے ہیں،یہ آیہء شریفہ میں بیان ہوئے”بناء نا“ کی عینی تعبیرہے۔

ج۔بیچ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کاقرارپانااس گروہ میں ”نساء نا“کے منحصربہ فردمصداق کے لئے آگے اورپیچھے سے محافظ قرار دیا جا نا،آیہء شریفہ میں ”نساء نا“کی مجسم تصویر کشی ہے۔

۲ ۔اس حدیث میں پیغمبراکرم (ص)نے اپنے اہل بیت علیہم السلام سے فرمایا:اذادعوت فاٴ منوا “یعنی:جب میں دعاکروں توتم لوگ آمین(۱) کہنااوریہ وہی

____________________

۱۔دعا کے بعد آمین کہنا،خدا متعال سے دعا قبول ہونے کی درخواست ہے۔

۵۶

چیزہے جوآیہء مباہلہ میں ائی ہے:( نبتهل فنجعل لعنةالله علی الکاذبین )

یہاں پر”ابتھال“)دعا)کوصرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت دی گئی ہے،بلکہ”ابتھال“پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعاکی صورت میں اورآپ کے ہمراہ آئے ہوئے اعزّہ واقر باکی طرف سے آمین کہنے کی صورت میں محقق ہونا چاہئے تاکہ )اس واقعہ میں )جھوٹوں پرہلاکت اورعقوبت الہٰی واقع ہونے کاسبب قرارپائے،جیساکہ گزر چکا ہے۔

۳ ۔گروہ نصارٰی کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی عظمت وفضیلت کا اعتراف یہاں تک کہ ان کے نورانی و مقدس چہروں کو دیکھنے کے بعد مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔

تیسری حدیث:

ایک اورحدیث جس میں ”ابنائنا“،”نسائنا“اور”انفسنا“کی لفظیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام پر صادق آتی ہیں،وہ حدیث”مناشد یوم الشوری“ہے۔اس حدیث میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام،اصحاب شوریٰ)عثمان بن عفان،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیراورسعدبن ابی وقاص) سے کہ جس دن یہ شورٰی تشکیل ہوئی اورعثمان کی خلافت پرمنتج و تمام ہوئی،اپنے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتے ہیں۔اس طرح سے کہ ان تمام فضیلتوں کو یاد دلاتے ہوئے انہیں خداکی قسم دیتے ہیں اور ان تمام فضیلتوں کو اپنی ذات سے مختص ہونے کاان سے اعتراف لیتے ہیں۔حدیث یوں ہے:

۵۷

”اٴخبر نا اٴبو عبد اللّٰه محمد بن إبرهم، اٴنا ابوالفضل اٴحمد بن عبدالمنعم بن اٴحمد ابن بندار، اٴنا اٴبوالحسن العتیقی، اٴنا اٴبوالحسن الدارقطنی، اٴنا اٴحمد بن محمد بن سعید، اٴنا یحی بن ذکریا بن شیبان، اٴنا یعقوب بن سعید، حدثنی مثنی اٴبو عبداللّٰه،عن سفیان الشوری، عن اٴبن إسحاق السبیعی، عن عاصم بن ضمرةوهبیرة و عن العلاء بن صالح، عن المنهال بن عمرو، عن عبادبن عبداللّٰه الاٴسدی و عن عمروبن و اثلة قالوا: قال علیّ بن اٴبی طالب یوم الشوری: واللّٰه لاٴحتجنّ علیهم بمالایستطیع قُرَشیّهم و لا عربیّهم و لا عجمیّهم ردّه و لا یقول خلافه ثمّ قال لعثمان بن عفان ولعبدالرحمن بن عوف و الزبیر و لطلحة وسعد - و هن اٴصحاب الشوری و کلّهم من قریش، و قد کان قدم طلحة - اُنشدکم باللّٰه الذی لا إله إلّاهو، اٴفیکم اٴحد وحّد اللّٰه قبلی؟ قالوا:اللّهمَّ لا قال: اٴنشدکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴخو رسول اللّٰه - صلی اللّٰه علیه وسلم - غیری، إذ آخی بین المؤمنین فاٴخی بینی و بین نفسه و جعلنی منه بمنزلة هارون من موسی إلّا اٴنی لست بنبیً؟قالوا:لاقال:اٴنشدکم باللّٰه،اٴفیکم مطهَّرغیری،إذسدّ رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴبوابکم و فتح بابی و کنت معه فی مساکنه ومسجده؟ فقام إلیه عمّه فقال: یا رسول اللّٰه، غلّقت اٴبوابنا و فتحت باب علیّ؟ قال: نعم، اللّٰه اٴمر بفتح با به وسدّ اٴبوابکم !!! قالوا:اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴحب إلی للّٰه و إلی رسوله منّی إذ دفع الرایة إلیّ یوم خیر فقال : لاٴعطینّ الرایة إلی من یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله، و یوم الطائر إذ یقول: ” اللّهمّ ائتنی باٴحب خلقک إلیک یاٴکل معی“، فجئت فقال: ” اللّهمّ و إلی رسولک ، اللّهمّ و إلی رسولک“

۵۸

غیری؟(۱) قالوا:اللّهمّ لا قال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد قدم بین یدی نجواه صدقة غیری حتی رفع اللّٰه ذلک الحکم؟ قالوا: اللّهمّ لاقال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم من قتل مشرکی قریش و العرب فی اللّٰه و فی رسوله غیری؟ قالوا:اللّهمّ لاقال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد دعا رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فیالعلم و اٴن یکون اُذنه الو اعیة مثل ما دعالی؟ قالوا: اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، هل فیکم اٴحد اٴقرب إلی رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الرحم و من جعله و رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نفسه و إبناء اٴنبائه وغیری؟ قالوا:اللّٰهم لا“(۲)

اس حدیث کومعاصم بن ضمرةوہبیرةاورعمروبن وائلہ نے حضرت )علی علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے شوریٰ کے دن یوں فرمایا:

”خداکی قسم بیشک میں تمہارے سامنے ایسے استدلال پیش کروں گا کہ اھل عرب و عجم نیز قریش میں سے کوئی شخص بھی اس کومستردنہیں کرسکتااورمذھبی اس کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے۔میں تمھیں اس خداکی قسم دلاتاہوں جس کے سوا کوئی خدانہیں ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ایسا ہے جس نے مجھ سے پہلے خدائے واحدکی پرستش کی ہو۔؟ انہوں نے کہا: خدا شاہد ہے! نہیں۔ آپ(ع)نے فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہو،جب)آنحضرت (ص)نے)مؤمنین کے درمیان اخوت اوربرادری برقرارکی،اورمجھے اپنا بھائی بنایااور میرے بارے

____________________

۱۔شائدمقصودیہ ہوکہ”خداوندا!تیرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے نزدیک بھی محبوب ترین مخلوق علی)علیہ السلام ہیں۔“

۲۔تاریخ مدینہ دمشق،ج۴۲،ص۴۳۱،دارالفکر

۵۹

میں یہ ارشاد فر ما یا کہ:” تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی جیسے ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میں نبی نہیں ہوں “۔

انہوں نے کہا:نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دے کر کہتاہوں کہ کیامیرے علاوہ تم لوگوں میں کوئی ایساہے جسے پاک وپاکیزہ قراردیاگیاہو،جب کہ پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمھارے گھروں کے دروازے مسجدکی طرف بندکردئیے تھے اورمیرے گھرکادروازہ کھلارکھا تھااورمیں مسکن ومسجدکے سلسلہ میں انحضرت (ص)کے ساتھ )اور آپ کے حکم میں )تھا،چچا)حضرت)عباس اپنی جگہ اٹھے اورکہا:اے اللہ کے رسول !ہمارے گھروں کے دروازے بند کر دئیے اورعلی) علیہ السلام )کے گھرکاادروازہ کھلارکھا؟

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:یہ خدائے متعال کی طرف سے ہے کہ جس نے ان کے دروازہ کوکھلارکھنے اورآپ لوگوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا؟

انہوں نے کہا:خداشاہدہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیا تمہارے درمیان کوئی ہے جسے خدااوررسول مجھ سے زیادہ دوست رکھتے ہوں،جبکہ پیغمبر (ص)نے خیبرکے دن علم اٹھاکرفرمایا”بیشک میں علم اس کے ہاتھ میں دونگاجوخداورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کودوست رکھتاہے اورخدااوررسول اس کودوست رکھتے ہیں“اورجس دن بھنے ہوئے پرندہ کے بارے میں فرمایا:”خدایا!میرے پاس اس شخص کو بھیج جسے توسب سے زیادہ چاھتا ہے تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے۔“اوراس دعاکے نتیجہ میں ،میں اگیا۔میرے علاوہ کون ہے جس کے لئے یہ اتفاق پیش آیا ہو؟

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394