پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 276110
ڈاؤنلوڈ: 6129


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 276110 / ڈاؤنلوڈ: 6129
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شیخ ابوالقاسم بلخی کے شاگردوں میں سے تھے اور سید رضیکی ولادت سے قبل وفات پاچکے تھے۔ نیز شیخ ابوعبداللہ بن احمد معروف بابن خشاب سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیںمیں نے اس خطبے کو ان کتابوں میں دیکھا ہے جو سید رضی کی پیدائش سے دو سو برس پہلے تصنیف ہوچکی تھیں بلکہ یہ خطبہ میں نے علماۓ اہل ادب کی ان تحریروں میں بھی پایا ہے جو سید رضی کے والد احمد نقیب الطالبین کی ولادت سے قبل لکھی گئی تھیں۔

فیلسوف متبحر اور حکیم محقق کمال الدین میثم بن علی بن میثم بحرانی نے شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ میں نے اس خطبے کو دو جگہ پایا، ایک وزیر بن فرات کی تحریر میں جو سید شریف رضی الدین علیہ الرحمہ کی ولادت سے ساٹھ سال سے زیادہ پہلے لکھی گئی ہے۔ دوسرے شیوخ معتزلہ میں سے ابوالقاسم کے شاگرد ابوجعفر بن قبہ کی کتاب الانصاف میں جو ولادت سید رضی سے قبل ہی وفات پاچکے تھے۔ پس ان دلائل و شواہد سے آپ کے ان متعصب علماۓ متاخرین کی ہٹ دھرمی اور عناد ثابت ہوگیا جنہوں نے بجا طور پر ہاتھ پاؤں مارے ہیں، ان تمام دلائل و شواہد سے قطع نظر اس خطبے کے بارے میں آپ حضرات کا فرضی دعوے اس وقت صحیح ہوسکتا تھا جب کہ حضرت علی علیہ السلام کے دوسرے خطبات و واقعات اور دردِ دل کے نمونے جو خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں( اور جن میں سے بعض کی جانب میں گذشتہ شبوں میں اشارہبھی کرچکا ہوں) عام طور پر پیش نظر نہ ہوتے۔ کیا ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص561 میں حضرت کا یہ خطبہ تفصیل سے نقل نہیں کیا ہے کہ فرماتے ہیں، میں روز اول سے وقت وفات تک رسول اللہ(ص) کے ساتھ رہا۔ یہاں تک کہ آں حضرت(ص) نے میرے ہی سینے پر دم توڑا، میں نے ہی ملائکہ کی مدد سے آپ کوغسل دیا، آپ پر نماز پڑھی اور آپ کو قبر میں اتارا،پس آں حضرت(ص) کی نسبت مجھ سے زیادہ قریب اور حق دار کوئی بھی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ خطبے کے آخر میں اپنے اور مخالفین کے حالات بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:

" فوالّذي‏ لا إله‏ إلّا هو إنّي لعلى جادّة الحقّ، و إنّهم لعلى مزلّة الباطل"

یعنی قسم اس کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں یقینا میں حق کی شاہراہ پر ہوں اور میرے مخالفین قطعا مزلہ باطل یعنی اس منزل پر ہیں جہاں سے قعر ضلالت میں گرجاتے ہیں۔؟

پھر بھی آپ فرماتے کہ علی علیہ السلام اپنے مخالفین کو حق پر سمجھتے تھے اور ان سے رنجیدہ نہیں تھے بلکہ ان کے طرز عمل پر راضی تھے۔ جناب شیخ صاحب حق اور حقیقت اس طرح کی باتوں سے پوشیدہ اورفنا نہ ہوگی۔ اگر آپ سورہ نمبر9( توبہ) کی آیت نمبر(32) پر گہری نظر ڈالئے جس میں ارشاد ہے:

"‏ يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ بِأَفْواهِهِمْ وَ يَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكافِرُونَ‏"

یعنی وہ لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو پھونکیں مار کے بجھا دیں اور خدا نے اس کے برخلاف یہ طے کردیا ہے کہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا چاہے کافروں کو ناگوار ہی ہو۔

تو تصدیق کیجئے گا کہ ؎چراغے را کہ ایزد برفروزدگرابلہ پف زند ریشش بسوزد

شیخ: چونکہ رات کافی گذر چکی ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ بھی بہت خشکی کے ساتھ گفتگو فرمارہے ہیں۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ اب جلسہ برخاست کیا جائے۔ بقیہ مطالب اور جناب عالی کا جواب کل شب پر رہا۔ انشائ اللہ۔

۲۴۱

دسویں نشست

شب یک شنبہ سوم شعبان المعظم سنہ1345 ہجری

(رات ہوتے ہی مولوی صاحبان کافی بڑے مجمع کے ہمراہ تشریف لاۓ، عید ولادت حضرت امام حسین(ع) کی شب تھی لہذا شربت اور شیرینی وغیرہ کی تقسیم ہوئی، اس کے بعد ہم نے چاہا کہ مباحثے کا آغاز ہو کہ اتنے میں نواب عبدالقیوم خان صاحب بھی تشریف لے آۓ اور معمولی صاحب سلامت اور شربت و شیرینی کے بعد بیان کیا)

نواب: قبلہ صاحب میں اپنی جسارت کے لئے معافی چاہتا ہوں لیکن ایک ایسا مسئلہ پیش آگیا ہے کہ اس پر سوال اور گفتگو بہت ضروری ہے اگر اجازت ہو تو جلسے کی کاروائی اور مذاکرہ شروع ہونے سے پہلے اپنا مطلب عرض کروں۔

خیر طلب: ضرور فرمائیے، میں سننے کے لئے بسرو چشم حاضر ہوں۔

عمر کے علمی درجے پر سوال اور اس کا جواب

نواب: آج صبح کو کچھ لوگ غریب خانے پر اکٹھا تھے، سب جناب عالی کا ذکر خیر کر رہے تھے گذشتہ راتوں میں آپ مباحثہ کی تفصیل کے متعلق، اخبارات اور رسائل پڑھے جارہے تھے اور ہم لوگ طرفین کے بیانات پر بحث کر رہے تھے اتنے میں میرے ایک بندہ زادے( عبدالعزیز) نے جو اسلامیہ کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے مجھ سے کہا کہ چند روز ہوۓ درجے میں درس دیتے ہوۓ ہمارے استاد معظم نے اپنی تقریر میں ایک موقع پر کہا کہ مدینہ منورہ میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ صدر اسلام کے سب سے بڑے فقیہوں میں سے تھے۔ آپ کو قرآن کے آیات و مطالب اسلام کے علمی و فقیہی مسائل پر پورا عبور حاصل تھا اور علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ عبداللہ ابن مسعود، عبداللہ ابن عباس، عکرمہ اور زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ عنہم جیسے فقہائ کے درمیان خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ فقیہ اور ممتاز تھے، یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب

۲۴۲

کرم اللہ وجہہ جو علمی مسائل اور فقہی مباحث میں سارے صحابہ سے آگے تھے وہ بھی جب فقہی مشکلات اور حقوق مسلمین میں مجبور پڑتے تھے تو خلیفہ ثانی عمر کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان کی ذہانت اور علم و دانش کا سہارا لیتے تھے اور خلیفہ بھی علی کے علمی مشکلات اور فقہی مسائل کو حل کردیا کرتے تھے اس پر اور سب نے نے بھی تصدیق کی کہ بات بالکل صحیح ہے کیونکہ ہمارے علمائ نے بیان کیا ہے کہ خلیفہ عمر مراتب علم وفضل میں یکتاۓ زمانہ تھے، مجھ کو چونکہ دینی معاملات اور تاریخی حالات سے پوری واقفیت نہیں تھی لہذا سکوت اختیار کیا، بالاخر اپنے احباب اور بالخصوص بندہ زادے سے وعدہ کیا کہ آج را ت کو مناظرہ شروع ہونے سے پہلے میں یہ مسئلہ پیش کروں گا، چونکہ فریقین کے علمائ موجود ہیں لہذا اس اہم مطلب کا کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا جس سے ہم کو صحابہ کے علمی مدارج کا پتہ چل جاۓ گا۔ چنانچہ جسارت کرتے ہوۓ گذارش ہے کہ آپ اس بات کی اچھائی یا برائی کو زیر بحث لائیں تاکہ عام لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں اور ہم ہر ایک صحابی کے علمی معیار کی جانچ کر کے فیصلہ کر سکیں کہ صحابہ میں سے کس کو علمی فوقیت حاصل تھی۔ بندہ زادہ اور احباب بھی نتیجہ معلوم کرنے کے لئے حاضر ہیں۔ ہم کو مستفیض فرمائیے تاکہ بالخصوص بندہ زادہ اگر متزلزل ہو تو ثابت قدم ہوجاۓ۔

خیر طلب: ( میں نے جناب یوسف علی شاہ کی طرف جو ایک محترم شیعہ فاضل اور اسی کالج میں تاریخ و جغرافیہ اور انگریزی زبان کے مدرس تھے، رخ کر کے پوچھا کہ کیا یہی بات ہے؟ انہوں نے فرمایا، مجھ کو معلوم نہیں کون معلم تھا اور اس نے کیا تقریر کی۔

خیر طلب: ایسا کہنے والا چاہے جو بھی ہو اس کے اوپر سخت تعجب ہے کہ اس نے یہ باتیں کہاں سے پیدا کر لیں۔ عوام کی بات چیت میں تو خیر افراط و تفریط کثرت سے ہوتی ہے لیکن ایک مسلم کی گفتگو کو حلم و منطق کے مطابق ہونا چاہیئے۔ یہ بے علم اور لفاظ معلم جو شخص بھی رہا ہو اس نے ایسا دعوی کیا ہے جو آپ کے علمائ نے اس کو جھٹلا دیا ہے اس کے علاوہ یہ تعریف تو بما لایرضی صاحبہ (یعنی جس پر خود ممدوح بھی راضی نہیں) ہے، کیونکہ خود خلیفہ عمر نے بھی ہرگز کبھی اس کا دعوی نہیں کیا ہے نیز آپ کے علمائ نے کسی کتاب میں اس عقیدے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ جس محدث اور مورخنے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کے حالات میں کچھ لکھا ہے اس نے صرف ان کی چالاکی، ہوشیاری، سخت گیری اور سیاسی مہارت سے بحث کی ہے اور ان کے علم کے موضوع پر اپنی کتابوں میں قطعا کوئی بحث یا نبوت پیش نہیں کیا ہے۔ ورنہ خلیفہ کے حالات کی تشریح میں انہوں نے جو ابواب قائم کئے ہیں انہیں میں ایک باب ان کے علم کے لئےبھی ہونا چاہیئے تھا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس قول کے برخلاف فریقین کی کتابوںمیں پوری صراحت سے درج ہے کہ خلیفہ عمر علمی مسائل کی مہارت اورفقہی مدارج سے کورے تھے اور اس قسم کے اتفاقات اور احتیاج کے مواقع پر علی(ع)، عبداللہ ابن مسعود اور دوسرے فقہاۓ مدینہ کا دامن تھامتے تھے خصوصیت کے ساتھ ابن ابنی الحدید نےنقل کیاہے کہ عبداللہ ابن مسعود مدینے کے فقیہوں میں سے تھے اور خلیفہ عمر کا اصرار تھا کہ عبداللہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں تاکہ جب ضروری موقع اور اہم مراحل در پیش ہوں اور ان سے فقہی سوالات کئے جائیں تو عبداللہ ان کا

۲۴۳
۲۴۴
۲۴۵

ارتکاب نہیں کیا جاسکتا۔ اور ظاہر ہے کہ عورت کے اس مخصوص مال کو جس کی وہ بحکم قرآن اپنے مہر کے عنوان سے مالک ہوچکی ہے چھین کر بیت المال میں داخل کرنا شرعا ہرگز جائز نہیں ہے۔

ان تمام چیزوں سے قطع نظر کسی شخص پر ایسے عمل کے لئے جس میں اس نے کوئی جرم وگناہ نہ کیا ہو حد جاری کرنا فقہ اسلامی کے روسے قطعا جائز نہیں ہے۔ حدود تعزیرات کے باب میں میری نظر سے تو کوئی ایسا مسئلہ گذرا نہیں ہے، اگر آپ جانتے ہوں تو بتادیجئے۔ اور اگر باب حدود میں کوئی ایسی حد موجود نہیں ہے تو آپ کو تصدیق کرنا چاہیئے کہ معلم کا یہ دعوی غلط اور بے جا تھا۔

وفاتِ پیغمبر(ص) سے عمر کا انکار

اتفاق سے خلیفہ کی عادت ہی کچھ ایسی تھی کہ ان کو ہر موقع پر تاؤ آجاتا تھا اور دوسرے شخص کو مرعوب کرنے کے لیے غصہ دکھا کر کہتے تھے کہ میں حد جاری کروں گا۔ چنانچہ امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، طبری نے اپنی تاریخ میں اور آپ کے دوسرے علمائ نے نقل کیا ہے کہ جب رسول خداصلعم نے دنیا سے ( رحلت فرمائی تو عمر ابوبکر کے پاس گئے اور کہا مجھ کو خوف ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو محمد(ص) مرے نہ ہوں بلکہ حیلہ کیا ہو( یعنی اپنے کو مردہ بنا لیا ہو) تاکہ اپنے دوست و دشمن کو پہچان لیں، یا حضرت موسی(ع) کی طرح غائب ہوگئے ہوں اور پھر واپس آکر جس نے ان کی مخالفت کی ہو اور نافرمان بن گیا ہو اس کو سزا دیں۔ پس جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ(ص) مرگئے ہیں میں اس پر حد جاری کروں گا۔ ابوبکر نے جب یہ باتیں سنیں تو ان کے دل میں بھی شک پیدا ہوا اس طرح گفتگو سے لوگوں میں ایک اضطراب پھیل گیا اور آپس میں اختلاف ہونے لگا۔ جب اس کی خبر علی علیہ السلام کو پہنچی گو آپ فرما فورا مجمع کے سامنے تشریف لاۓ اور فرمایا، اے قوم! تم لوگوں نے یہ کیا جاہلانہ شور و غل برپا کر رکھا ہے۔ کیا تم اس آیہ شریفہ کو بھول گئے ہو کہ خداوند عالم نے رسول کی زندگی ہی میں آپ سے دیا تھا۔ انک میت و انہم میتون۔ یعنی یقینا تم کو بھی موت آۓ گی اور تمہاری امت والے بھی مریں گے؟ پس بحکم آیت رسول خدا(ص) نے دنیا سے رحلت فرمائی۔ علی علیہ السلام کا یہ استدلال امت کی سمجھ میں آگیا اور لوگوں نے آں حضرت(ص) کی موت پر یقین کر لیا۔ عمر نے کہا گویا میں نے یہ آیت کبھی سنی ہی نہیں تھی۔

ابن اثیر نے کامل اور نہایہ میں زمخشری نے اساس البلاغہ میں، شہرستانی نے ملل والنحل مقدمہ چہارم میں اور آپ کے دوسرے متعدد علمائ نے لکھا ہے کہ جس وقت عمر چیخ رہے تھے کہ پیغمبر(ص) ہرگز نہیں مرے ہیں، تو ابوبکر ان کے پاس پہنچے اور کہا، کیا خداوند عالم یہ نہیں فرماتا ہے کہانک میت و انهممیتون نیز یہ بھی فرمایا ہے کہافان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ( یعنی اگر وہ ( پیغمبر(ص)) اپنی موت سے مرجائیں یا قتل کردیئے جائیں تو کیا تم پھر اپنے پچھلے کفر وجاہلیت

۲۴۶

پر پلٹ جاؤگے؟) اس وقت عمر خاموش ہوۓ اور کہا، گویا میں نے یہ آیت قطعا سنی ہی نہیں تھی، اب مجھ کو یقین آیا کہ پیغمبر(ص) نے وفات پائی۔

اب آپ خدا کے لئے سچ بتائیے، کیا اس متعصب معلم نے بغیر علم کے بے جا اور غلط دعوی نہیں کیا ہے۔۔

پانچ اشخاص کی سنگساری کا حکم اور حضرت علی(ع) کی تنبیہ

من جملہ اور دلائل کے ایک یہ ہے جس کو حمیدی جمع بین الصحیحین میں نقل کرتے ہیں کہ خلافتِ عمر کے زمانے میں پانچ اشخاص زنا کے جرم میں گرفتار کر کے خلیفہ کے سامنے لاۓ گئے اور اس کا ثبوت بھی گزر گیا کہ ان پانچوں نے فلان عورتوں کے ساتھ زنا کی ہے۔ عمر نے فورا ان کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا، اسی وقت حضرت علی علیہ السلام مسجد میں داخل ہوۓ اور اس حکم سے مطلع ہوکر عمر سے فرمایا کہ اس مقام پر خدا کا حکمتمہارے حکم کے خلاف ہے۔ عمر نے کہا، یا علی زنا ثابت ہے اور ثبوت زنا کے بعد سنگساری کا حکم ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ زنا کے متعلق مختلف صورتوں میں الگ الگ احکام ہیں، چنانچہ اس موقع پر بھی حکم میں اختلاف ہے۔ عمر نے کہا جو خدا و رسول(ص) کا حکم ہو بیان کیجئے کیونکہ میں رسول خدا(ص) سے بارہا سن چکا ہوں کہ آں حضرت نے فرمایا" علی اعلمکم و اقضاکم" یعنی علی تم سب سے زیادہ عالم اور تم سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔ حضرت نے حکم دیا کہ وہ پانچوں اشخاص لاۓ جائیں۔ پہلے ایک شخصحاضر کیا گیا تو :

"امر بضرب عنقه وامر برجم الثانی و قدم الثالث فضربه فقدم الرابع فضربه نصف الحد خمسین جلدة فقدم الخامس فعزره"

یعنی حکم دیا کہ اس کی گردن مار دی جاۓ، دوسرے کو سنگسار کرنے کا حکم دیا، تیسرا آیا تو اس کو سو(100) تازیانے لگواۓ، چوتھے کو نصف حد یعنی پچاس تازیانے اور پانچواں کو حد تعزیر یعنی پچیس تازیانے مارنے کا حکم صادر فرمایا۔

عمر متعجب و متحیر ہوۓ اورکہا" کیف ذالک یا ابالحسن " یہ فیصلہ آپ نے کیونکر کیا؟ حضرت نے فرمایا:

"أَمَّا الْأَوَّلُ فَكَانَ ذِمِّيّاً زَنَى‏ بِمُسْلِمَةٍ فَخَرَجَ عَنْ ذِمَّتِهِ وَ أَمَّا الثَّانِي فَرَجُلٌ مُحْصَنٌ زَنَى فَرَجَمْنَاهُ وَ أَمَّا الثَّالِثُ فَغَيْرُ مُحْصَنٍ فَضَرَبْنَاهُ الْحَدَّ وَ أَمَّا الرَّابِعُ فَعَبْدٌ زَنَى فَضَرَبْنَاهُ نِصْفَ الْحَدِّ وَ أَمَّا الْخَامِسُ فَمَغْلُوبٌ عَلَى عَقْلِهِ مَجْنُونٌ فَعَزَّرْنَاهُ فَقَالَ عُمَرُ لَا عِشْتُ فِي أُمَّةً لَسْتَ فِيهَا يَا أَبَا الْحَسَنِ."

یعنی پہلا شخص کافر ذمی تھا جس نے مسلمان عورت سے زیا کی تھی لہذا وہ ذمہ اسلام سے خارج ہوگیا تھا ( اور اس کے لئے گردن مارنے کا حکم تھا) دوسرا شخص شادی شدہ تھا اس وجہ سے سنگسار کیا گیا۔ تیسرا شخص مجرد تھا پس اس کے اوپر سو(100)تازیانوں کی حد جاری کی گئے چوتھا شخص غلام تھا جس کی حد آزاد کی نصف یعنی پچاس تازیانے ہے، اور پانچواں شخص ابلہ اور کم عقل تھا اس سبب سے اس کو صرف تعزیر دی گئی یعنی پچیس تازیانے مارے گئے۔ پس عمر نے کہا، اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا

۲۴۷

ہوتا۔ میں زندہ نہ رہوں اس امت کے اندر جس میں آپ نہ ہوں۔ ( اے ابوالحسن(ع))

حاملہ عورت کی سنگساری کا حکم اور حضرت علی(ع) کی ممانعت

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب فی مناقب امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) میں، امام احمد بن حنبل مسند میں، بخاری اپنی صحیح میں، حمیدی جمع الصحیحین میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب14 ص75 میں مناقب خوارزمی سے امام فخرالدین رازی اربعین ص466 میں، محب الدین طبری ریاض النضرہ جلد دوم ص196 میں، خطیب خوارزمی مناقب ص48 میں، محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص13 میں اور امام الحرم ذخائر العقبی ص80 میں نقل کرتے ہیں کہ:

" اتي عند عمر بن الخطاب رضیالله عنه امرأة حاملة، فسألها فاعترفت‏ بالفجور فأمر بها بالرجم فقال عليّ لعمر سلطانك عليها فما سلطانك على الذی في بطنها؟ فخلى عمر سبيلها و قال: عجزن النساء أن يلدن عليّا و لو لا علي لهلك عمروقال الله مل اتبقی لمعضلةلیس له اعلی حیا."

یعنی عمر ابن خطاب رضی اللہ نہ کے سامنے ایک حاملہ عورت لائی گئی، پوچھنے پر اس نے زنا کاری کا اقرار کیا، تو انہوں نے سنگسار کرنے کا حکم دیے دیا، پس علی علیہ السلام نے عمر سے فرمایا کہ تمہارا حکم اس عور ت کے اوپر تو نافذ ہے لیکن جو بچہ اس کے شکم کے اندر ہے اس کے اوپر تم کو کوئی اختیار نہیں ہے( کیونکہ وہ بے گناہ ہے اس کا قتل جائز نہیں) اس پر انہوں نے اس عورت کو چھوڑ دیا۔ اور کہا عورتیں علی جیسا انسان پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا۔ پھر کہا خداوندا مجھ کو کسی ایسے پیچیدہ اور مشکل امر کے لئے باقی نہ رکھ جس کو حل کرنے کے لئے علی موجود نہ ہوں۔

مجنون عورت کی سنگساری کا حکم اور حضرت علی(ع) کی روک تھام

نیز امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی نے ذخائر العقبی ص81 میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب14 ص75 میں حسن بصری سے، ابن حجر نے فتح الباری جلد دوازدہم ص101 میں، ابوداؤد نے سنن جلد دوم ص227 میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص87 میں، ابن ماجہ نے سنن جلد دوم ص227 میں، منادی نے فیض القدیر جلد چہارم ص257 میں، حاکم نیشاپوری نے مستدرک جلد دوم ص59 میں، قسطلانی نے ارشاد الساری جلد دہم ص9 میں، بیہقی نے سنن جلد ہشتم ص164 میں، محب الدین طبری نے ریاض النضرہ ص196 میں اور بخاری نے اپنی صحیح بابلا یرجم المجنون والمجنونة میں، غرضیکہ آپ کے اکثر اکابر علمائ نے نقل کیا ہے کہ ایک روز ایک مجنون عورت کو خلیفہ عمر ابن خطاب کے

۲۴۸

سامنے لاۓ جس نے زنا کیا تھا اور اقرار زنا کے بعد خلیفہ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا۔ حضرت امیرالمومنین موجود تھے آپ نے فرمایاتم یہ کیا کر رہے ہو۔

"رفع‏ القلم‏ عن‏ ثلاثة: عن النائم حتّى يستيقظ، و عن المجنون حتّى يفيق، و عن الطفل حتّى يحتلم قال فخلا سبيلها"

یعنی میں نے رسول اللہ(ص) کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ تین قسم کے لوگ مرفوع القلم قرار دیئے گئے ہیں، سوتا ہوا شخص جب تک وہ بیدار نہ ہو، دیوانہ جب تک وہ صحت یاب اور صاحب عقل نہ ہوجاۓ اور بچہ جب تک وہ بالغ نہ ہوجاۓ۔ یہ سن کر خلیفہ نے اس عورت کو رہا کردیا۔

ابن السمان نے کتاب الموافقہ میں اس قسم کی بہت سی روایتیں نقل کی ہیں اور بعض کتابوں میں تو خلیفہ کی غلطی اور اشتباہ کے تقریبا سو مقامات درج ہیں، لیکنجلسے کا وقت اس سے زیادہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میرا خیال ہے کہ نمونے اور اثبات مقصد کے لئے جتنا عرض کیا گیا اسی قدر کافی ہوگا۔ امید ہے کہ اپنے اکابر علمائ کی نقل کی ہوئی یہ روایتیں سننے کے بعد آپ حضرات تسلیم کریں گے کہ جس بے خبرمعلم نے ایسی بات کہی ہے وہ علم سے بالکل بے بہرہ انسان ہے اور اس نے محض تعصب و عناد کے ماتحت یہ بیان دیا ہے قطعا اس سے دلیلکا مطالبہ کرنا چاہیئے( کیونکہ وہ ہرگز اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کرسکتا) جو کچھ فریقین کے نزدیک مسلم ہے وہ یہ ہے کہ سارے اصحابِ رسول کے درمیان کوئی شخص امیرالمومنین علیہ السلام سے زیادہعالم و فقیہ اور کامل نہیں تھا، جیسا کہ نورالدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ فصل سوم ص17 میں، بسلسلہ حالات حضرت علی علیہ السلام لکھا ہے۔

علی علیہ السلام کا علم وفضل اور منصب قضاوت

فصل فی ذکر شئی من علومه فمنهاعلم الفقه الذی هِومرجع الانام و منبع الحلال و الحرام فقد کان علی مطلعهاعلی فوامض احکامهِ منقادالهجامعهِ بزمامه مشهودالهفیه بعلومحله ومقامه ولهذااخصه رسولالله ِصلی الله علیه وسلم لعلم القضائکم اتقلهل امام ابومحمدالحسین بن مسعود البغوی رحمةالله علیه فی کتابه المصابیحم رویاعن انس بن مالک أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص لَمَّا خَصَّصَ جَمَاعَةً مِنَ الصَّحَابَةِ كُلَّ وَاحِدٍ بِفَضِيلَةٍ خَصَّصَ‏ عَلِيّاً بِعِلْمِ‏ الْقَضَاءِ فَقَالَ صلی الله ِعلیه ِوآلهِ وسلم وَ أَقْضَاکُمْ عَلِيٌّ."

یعنی ابن صباغ مالکی کہتے ہیں کہ اس فصل میں علی علیہ السلام کے علوم کا تذکرہہے۔ منجملہ ان کے علم فقہ ہے جو

۲۴۹

لوگوں کا مرجع حلال و حرام کا سرچشمہ ہے۔ پس یقینا علی علیہ السلام اس کے غوامض احکام اور حقائق سے آگاہ تھے، اس کے دشوار مسائل آپ کے لئے آسان اور اس کے بلند مطالب آپ کے پیش نظر تھے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سب کے مقابلے میں علم و فضل سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ(ص) نے صحابہ کی ایک جماعت میں سے ہر ایک کی کسی نہ کسی فضیلت کے ساتھ تخصیص کی تو علی کو علم قضاوت کے ساتھ خصوصیت دی اور فرمایا، علی تم سب لوگوں سے بہتر فیصلہ الاحکم دینے والے ہیں۔

نیز اسی حدیث علی اقضا کم کو محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول فی مناقب آل رسول ص22 میں مخصوص فرمایا جیسا کہ امام ابومحمد حسین بن مسعود بغوی نے کتاب مصابیح میں انس بن مالک سے قاضی بغوی سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

"و قد صدع هذا الحديث بمنطوقه و صرح‏ بمفهومه‏ أن أنواع العلم و أقسامه قد جمعهارسول الله لعلي دون غيره "

یعنی یہ حدیث اپنے مضمون اور مفہوم سے اس بات کی پوری صراحت کررہی ہے کہ رسول خدا صلعم نے علم کے سارے انواع و اقسام کو دوسروں کے علاوہ صرف علی علیہ السلام کے اندر جمع فرمایا ہے اس لئے کہ قضاوت کا حق اسی شخص کو حاصل ہے جو علاوہ کمال عقل، زیادتی تمیز اور ذہانت و زکاوت کے سہو و غفلت سے دور ہو اور جملہ علوم کے کے اندر پوری مہارت رکھتا ہو۔ اور حدیث کے اندر افعل التفضیل کا صیغہ مکمل طور سے اس مقصد کا ثابت کرتا ہے، اس کے بعد بہت سے دلائل تشریح کے ساتھ بیان کئے ہیں کہ علی علیہ السلام تمام امت سے زیادہ عالم اور افضل تھے۔

پس آپ حضرات احادیث منقولہ پر غور کرنے اور اپنے بڑے بڑے محققین علمائ کے بیانات سے اس بے علم معلم کے الفاظ کو مطابق کرنے کے بعد تصدیق کریں گے اس کا دعوی سرتا سر غلط ہے کیونکہ علی علیہ السلام کا مقدس مرتبہ اس سے کہیں بلند ہے کہ صحابہ میں سے کسی کے ساتھ آپ کا موازنہ کیا جاۓ اس معلم صاحب کا تو یہ معاملہ ہے کہ" پیراں نمی پرند مریداں می پرانند" اس لئے کہ خود خلیفہ عمر نے علی علیہ السلام کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کیا ہے اور( جیسا کہ خود آپ کے اکابر علمائ نے اوقات اور مواقع کا حوالہ دیتے ہوۓ نقل کیا ہے) اپنے زمانہ میں خلافت میں ستر مرتبہ کہا ہے"لو لا علي لهلك عمر " ( یعنی اگرعلی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا"وہ ہرگز اس پر تیار نہیں تھے کہ ان کی طرف ایسی فضیلت منسوب کی جاۓ اور اس قسم کیتعریف و توصیف یقینا ان کی مرضی کے خلاف ہے۔

اس متعصب اور بے علم معلم کے مبالغہ آمیز قول کے برخلاف امام احمد بن حنبل مسند میں، اور امام الحرم احمد مکی شافعی ذخائر العقبی میں، جیسا کہ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب56 میں اور محب الدین طبری نے ریاض النضرہ جلد دوم ص195 میں معاویہ کا قول نقل کیا ہے، کہتے ہیں کہ:

"ان عمر بن الخطاب اذا اشکل علیه شئی اخذ من علی "

یعنی جس وقت عمر ابن خطاب کو کوئی مشکل معاملہ پیش آتا تھا تو علی علیہ السلام سے مدد حاصل کرتے تھے۔

یہاں تک کہ ابوالحجاج بلوی اپنی کتاب ( الف با) کی جلد اول ص224 میں نقل کرتے ہیں کہ جس و قت معاویہ کو شہادت علی اسلام کی

۲۵۰

خبر ملی تو کہا"لقد ذهب الفقه والعلم بموت ابن ابیطالب " یعنی علی علیہ السلام کی موت سے فقہ اور حکم جاتا رہا۔

نیز سعید ابن مسیب سے معاویہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ :

"‏ كان عمر رضی الله عنه يتعوذ من‏ معضلة ليس لها أبو حسن."( یعنی عمر رضی اللہ عنہ ایسی دشواری سے پناہ کرتے تھے جس کو د فع کرنے کے لئے ابوالحسن ( علی علیہ السلام) موجود نہ ہوں۔

ابوعبداللہ محمد بن علی الحکیم الترمذی شرح رسالہ فتح المبین میں کہتے ہیں:

"کانت الصحابه رضی الله عنهم یرجعون الیه فی احکام الکتاب و یاخذون عنه الفتاوی کما قال عمر بن الخطاب رضی الله عنه فی عدةمواطنلو لا علي لهلك عمر و قال صلی اللهعلیهوسلمأعلم‏ أمّتي‏ من بعدي عليّ بن أبي طالب."

یعنی پیغمبر(ص) کے اصحاب احاکم قرآن میں علی علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ سے فتوی حاصل کرتے تھے، جیسا کہ عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے متعدد مقامات پر کہا ہے کہ اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا اور رسول خدا صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کے سب سے بڑے عالم علی ابن ابی طالب ہیں۔جو کچھ اخبار و تواریخ کی کتابوں میں ملتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ عمر علمی مراتب اور فقہی مسائل میں اس قدر کورے تھے کہ اکثر عام اور ضروری احکام و مسائل میں ایسا کھلا ہوا دھوکا کھاتے تھے کہ جو صحابی موجود ہوتا تھا وہ ان کو متنبہ اور متوجہ کردیتا تھا۔

شیخ: آپ بہت بے لطفی کی بات کر رہے ہیں کہ خلیفہ کو ایسی نسبت دیتے ہیں آیا یہ ممکن ہے کہ خلیفہ رضی اللہ عنہ دینکے احکام و مسائل میں دھوکا کھا گئے ہوں۔؟

خیر طلب: یہ بے لطفی میری طرف سے نہیں ہے بلکہ خود آپ کے بڑے بڑے علمائ نے حقیقت کا انکشاف کیا ہے اور اپنی معتبر کتابوں میں درج اور شائع کیا ہے۔

شیخ: اگر ممکن ہو تو ذرارہ اشتباہ کے واقعے مع اسناد کے بیان فرمائیے تاکہ سچ اور جھوٹ کا پول کھل جاۓ اورتہمت لگانے والا ذلیل ہو۔

خیر طلب: ان کے اشتباہ کے واقعات بہت ہیں اور ایسے تقریبا سو مواقع کتابوں میں درج ہیں لیکن اس وقت جو میرے پیش نظر ہیں ان میں سے بلحاظ وقت صرف ایک نمونہ عرض کرتا ہوں۔

تیممّ کےبارے میں اشتباہ اور غلط حکم

مسلمابن حجاج نے اپنی صحیح ب اب تیمم میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند جلد چہارم ص90225

۲۵۱

میں، بیہقی نے سنن جلد اول ص209 میں، ابو داؤد نے سنن جلد اول ص54 میں، ابن ماجہ نے سنن جلد اول ص20 میں، امام نسائی نے سنن جلد اول ص59 تا ص61 میں اور آپ کے دوسرے اکابر علمائ نے مختلف طریقوں سے الفاظ کے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے کہ خلافت عمر کے زمانے میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا، میں جنب ہوگیا ہوں اور غسل کے لئے پانی نہیں مل سکا ہے، ایسی صورت میں میں نہیں جانتا کہ مجھ کو کیا کرنا چاہیئے۔ خلیفہ نے کہا جب تک پانی نہ ملے اور غسل نہ کر لو اس وقت تک نماز نہ پڑھو۔ صحابہ میں سے عمار یاسر موجود تھے انہوں نے کہا، اے عمر تم کیا بھول گئے ہو کہ ایک سفر میں اتفاق سے مجھ کو اور تم کو غسل کی ضرورت لاحق ہوئی، چونکہ پانی نہیں تھا لہذا تم نے نماز نہیں پڑھی، لیکن میں نے سوچا کہ تیمم بدل غسل کا طریقہ یہ ہے کہ سارے جسم پر مٹی ملی جاۓ لہذا اپنے کل بدن پر خاک مل کے نماز پڑھ لی۔ جب رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوۓ تو آں حضرت(ص) نے مسکراتے ہوۓ فرمایا کہ تیمم کے لئے اسی قدر کافی ہے کہ ہاتھ کی دونوں ہتھیلیوں کو ایک ساتھ زمین پر مار کر دونوں ہتھیلیاں ملا کر پیشانی پر ملی جائیں اس کے بعد بائیں ہتھیلی سے داہنے ہاتھ کی پشت دست پر اور پھر داہنی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی پشت دست پر مسح کیا جاۓ۔ پس اب تم یہ کیوں کہہ رہے ہو کہ نماز نہ پڑھو؟

عمر کو کوئی جواب نہ بن پڑا تو کہا، اے عمار خدا سے ڈرو۔ عمار نے کہا، کیاتم اجازت دیتے ہو کہ یہ حدیث نقل کروں تولیک ماتولیت۔ یعنی جاؤ میں نےتم کو تمہاری مرضی پر چھوڑا؟ اب اگر آپ حضرات اس معتبر روایت پر جس کو آپ کے علمائ نے اپنے معتبر صحاح میں نقل کیا ہے ہر پہلو سے غور کریں تو یقینا بے ساختہ تصدیق کریں گے کہ معلم صاحب کا یہ کہنا بالکل ہی بیجا ہے کہ خلیفہ صحابہ کے درمیان بہت بڑے فقیہ تھے۔

یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایکفقیہ جو شب و روز اور سفر و حضر میں پیغمبر(ص) کے ہمراہ رہا ہو اور آں حضرت(ص) سے سنا بھی ہو کہ پانی نہ ملنے پر کس طرح تیمم کرنا چاہیئے، اس کے علاوہ سورہ نمبر5 ( مائدہ) آیت نمبر9 میں خداوند عالم کا یہ صریحی حکم بھی پڑھ چکے ہو۔"فَلَمْ‏ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً" ( یعنی اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کرو) وہ حکم الہی میں ترمیم کر کے ایک مسلمان آدمی سے کہے کہاگر پانی نہیں ملا ہےتو نماز ہی نہ پڑھو۔ در آنحالیکہ قرآن مجید ایسی صورت میں تیمم کی تاکید کر رہا ہو؟ اتفاق سے تیمم کا مسئلہ مسلمانوں میں اس طرح رائج اور عام طور پر داخل عمل ہے کہ وضو اور غسل کے مانند اس سے ایک جاہل مسلمان بھی واقف ہے نہ کہ پیغمبر(ص) کا صحابی اور خلیفہ جس کے اوپر علاوہ اس کے کہ لوگوں کو تعلیم دینے کی ذمہ داری ہےخود اپنے عمل کے لئے بھی اس کو جاننا فرض ہے۔ یہ تو میں نہیں کہوں گا کہ خلیفہ عمر نے جان بوجھ کر قصدا حکم خدا کو بدلایا وہ دین میں خلل ڈالنا چاہتے تھے لیکن اتنا ضرور ممکن ہے کہ مسائل کی یاد داشت میں ان کا حافظہ کمزور تھا اور احکام کو محفوظرکھنا ان کے لئے مشکل تھا، اور یہی سبب تھا کہ جیسا آپ کے علمائ نے لکھا ہے۔ یہ عبداللہ ابن مسعود جیسے فقیہ صحابی سے کہا کرتے تھے کہ تم میرے ساتھ ہی رہا کرو تاکہ جب مجھ سے کوئی بات پوچھی جاۓ تو تم اس

۲۵۲

کا جواب دے دو۔ اب آپ حضرات پوری توجہ کے ساتھ فیصلہ کیجئے کہ کس قدر فرق ہے ایسے آدمی سے جو اس قدر سادہ دماغ اور سطحی معلومات رکھتا ہوکہ مسائل کو سمجھنے اور احکام کو بیان کرنے سے قاصر ہو، اور اس انسان سے جو جملہ امور کے جزئیات و کلیات پر مکمل عبور رکھتا ہو اور تمام علمی و عملی مسائل ہتھیلی کے مانند اس کی نگاہوں کے سامنے ہوں،

شیخ: سوا رسول خدا(ص) کے اور کون ایسا ہوسکتا ہے جو کہ جملہ امور کے جزئیات وکلیات پر پورا عبور رکھتا ہو؟

خیر طلب: بدیی چیز ہے کہ رسول اکرم حضرت خاتم الانبیائ صلعم کے بعد صحابہ میں سے کسی فرد کو بھی ایسا عبور حاصل نہیں تھا سوا آں حضرت(ص) کے باب علم حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے، جن کے لئے خود پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ علی تم سب سے زیادہ عالم ہیں۔

تمام علوم ہتھیلی کی طرح علی(ع) کے سامنے تھے

چنانچہ اخطب الخطبائ ابوالموئد موفق بن احمد خوارزمی اپنے مناقب میں نقل کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ عمر نے تعجب کے ساتھ علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ آپ سے چاہے جو حکم یا مسئلہ دریافت کیا جاۓ آپ بلاتامل جواب دے دیتے ہیں؟ حضرت نے عمر کے جواب میں ان کے سامنے اپنا دست مبارک کھول دیا اور فرمایا، میرے ہاتھ میں کتنی انگلیاں ہیں؟ انہوں نے فورا کہا، پانچ۔ حضرت نے فرمایا تم نے غور و تامل کیوں نہیں کیا؟ عمر نے جواب دیا کہ غور وتامل کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ پانچوں انگلیاں میری نظر کے سامنے تھیں۔ حضرت نے فرمایا بس اسی طرح تمام مسائل اور احکام اور علوم میری نظر کے سامنے ہیں لہذا بغیر کسی غور و تامل کے فورا سوالات کے جوابات دے دیا کرتا ہوں۔

صاحبان اںصاف ! کیا یہ بے شعوری نہیں ہے کہ محض جانبداری اور بغض وعناد کی بنا پر یہ بے لگام اوربے اںصاف معلم ایک اتنی بڑی درس گاہ میں بغیر کسی دلیل و برہان کے ایسی مہمل باتیں کرے اور نا واقف نوجوانوں کو یہ کہہ کر مغالطہ دے کہ ایسا عالم جو سارے علوم کا جامع اور رسول اللہ صلعم کا باب علم تھا وہ اپنے مشکلات میں خلیفہ عمر کی طرف رجوع کرتا تھا؟

حضرت علی(ع) کی طرف سے معاویہ کا دفاع

اس وقت مجھ کو ایک روایت یاد آگئی ہے جو مزید ثبوت کے لئے پیش کرتا ہوں۔

۲۵۳

ابن حجر مکی جیسے متعصب عالم نے صواعق محرقہ باب11 مقصد پنجم ص110 میں آیت 14 کے ذیل میں لکھا ہے کہ امام احمد بن حبنل نے روایت کی ہے، نیز میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے معاویہ سے کوئی سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ اس کو علی(ع) سے پوچھو کیونکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ عرب نےکہا کہ میں تمہارے جواب کو علی(ع) کے جواب سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔ معاویہ نے کہا تو نے بہت بری بات کہی:

" كرهت‏ رجلا كان رسول اللّه يغره بالعلم غرّا و لقد قال له: أنت منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبيّ بعدي و كان عمر إذا أشكل عليه شي‏ءاخذ منه"

یعنی تو نے اس شخص سے کراہت کی جس کو رسول اللہ(ص) نے علم کی پوری تعلیم دی ہے ا ور یقینی طور پر جس کے لئے فرمایا ہے کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی، سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی بنی نہ ہوگا۔ اور عمر جس وقت کسی مشکل میں پھنسے تھے تو اس کا حل علی ہی سے دریافت کرتے تھے۔

اسی کو کہتے ہیں کہ "الفضل ما شهدت بهالاعدائ " ( یعنی فضیلت وہی ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں) علی علیہ السلام کی شان میں آپ کے سب سے بڑے دشمن معاویہ ہی کی شہادت کافی ہے اور اس مقصد کو ثابت کرنے کے لئے یہی کیا کم ہے جس کو عام طور سے آپ کے اکابر علمائ نے اپنی معتبر کتابوں میں مثلا نورالدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، امام احمد بن حنبل نے مسند میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور دوسروں نے لکھا ہے کہ خلیفہ عمر ابن خطاب نے ستر مرتبہ کہا"لو لا علي لهلك عمر " ( یعنی اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا) بلکہ صاف صاف اقرار کیا کہ اگر مشکلات اور مصائب میں نیز دشوار مسائل کا جواب دینے کے لئے علی موجود نہ ہوں تو کام نہیں چل سکتا۔ اور اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا۔ ( ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص---)

اپنے عجز اور علی(ع) کی مشکل کشائی کے لئے عمر کا اعتراف

نیز نورالدین مالکی نے فصول المہمہ فصل اول کی فصل سوم ص18 میں روایت کی ہے کہ لوگ ایک شخص کو خلیفہ عمر کے پاس لاۓ اور مجمع کے سامنے اس سے پوچھا کیف اصبحت تم نے کس حال میں صبح کی؟ اس نے کہا:

" اصحبت احب الفتنةواکره الحق واصدق الیه ودوالنصاری واؤمن بمالماره واقربم الم یخلق "

یعنی میں نے اس حالت میں صبح کی ہے کہ فتنے کو دوست رکھتا ہوں، حق سے کراہت رکھتا ہوں، یہود و نصاری کی تصدیق کرتا ہوں، بن دیکھی چیز پر ایمان رکھتا ہوں اور جو چیز خلق نہیں ہوئی اس کا اقرار کرتا ہوں۔

عمر نے حکم دیا

۲۵۴

کہ جاکر علی علیہ السلام کو بلا لاؤ۔ جس وقت امیرالمومنین(ع) تشریف لاۓ تو یہ قضیہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپ نے فرمایا، اس نے صحیح کہا ہے۔ اس نے جو یہ کہا کہ فتنے کو دوست رکھتا ہوں تو اس سے مال واولاد مراد ہے، کیونکہ خداوند عالم نے فرمایا ہے"إِنَّما أَمْوالُكُمْ‏ وَ أَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ " ( یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تمہارے اموال، اولاد فتنہ اور ذریعہ معاش ہیں۔ سورہ نمبر8 انفال آیت نمبر28۔

حق سے کراہت کرنے میں اس کی مراد موت ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے" وَ جاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ‏ بِالْحَقِ‏ " یعنی موت کی سختی اور بے ہوشی حق و حقیقت کے ساتھ آپہنچی۔ سورہ نمبر50( ق) آیت نمبر18۔ یہود و نصاری کی تصدیق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

" وَ قالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ‏ النَّصارى‏ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ وَ قالَتِ النَّصارى‏ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ "

یعنی یہود نے کہا نصاری حق پر نہیں ہیں اور ںصاری نے کہا کہ یہود حق پر نہیں ہیں۔

یعنی دونوں فرقے ایک دوسرے کی تکذیب کرتے ہیں لہذا یہ عرب کہتا ہے کہ میں دونوں فرقوں کو تصدیق کرتا ہوں۔ یعنی دونوں کی تکذیب کرتا ہوں۔ یہ کہنے کا مقصد کہ بن دیکھی چیز پر ایمان رکھتا ہوں۔ یہ ہے کہ خدا کی ذات پر ایمان رکھتا ہوں۔

رہا یہ کہنا کہ ایسی چیز کا اقرار کرتا ہوں جو خلق نہیں ہوئی ہے تو اس سے قیامت مراد ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے عمر نے کہا "اعوذ باللهمن معضلةلا علی لها " ( یعنی خداکی پناہ چاہتا ہوں اس مشکل امر سے جس کے لئے علی (ع) نہ ہوں)

اسی قضیہ کو بعض علمائ نے جیسے محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب57 میں دوسرے طریقے سے مزید تفصیل کے ساتھ بروایت حذیفہ بن الیمان خلیفہ عمر سے نقل کیا ہے۔

اس قسم کے مراحل ابوبکر و عمر کے زمانہ خلافت میں کثرت سے پیش آۓ ہیں جن میں ابوبکر وعمر جواب سے عاجز رہے اور علی(ع) نے جوابات دئیے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ جس وقت علمائ یہود و ںصاری مادئیں اور نیچری لوگ آتے تھے اور مشکل مسائل دریافت کرتے تھے تو صرف حضرت علی(ع) ہی تھے جو ان لی گھتیوں کو حل فرماتے تھے۔

غرضیکہ آپ کے اکابر علمائ کے اقرار کے مطابق جیسا کہ بخاری و مسلم نے اپنی صحیحیں میں، نیشاپوری نے اپنی تفسیر میں، ابن مغازلی فقیہ شافعی نے مناقب میں، محمد بن طلحہ نے مطالب السئول باب4 میں ص18 میں، حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی سنہ852ھ نے تہذیب التہذیب(مطبوعہ حیدر آباددکن) ص338 میں، قاضی فضل اللہ بن روزبہان شیرازی نے ابطال الباطل میں، محب الدین طبری نے ریاض النضرہ جلد دوم ص84 میں، ابن اثیر جزری متوفی سنہ360ھ نے اسد الغابہ جلد چہارم ص22 میں، ابن عبد البر قرطبی متوفی سنہ463ھ نے استیعاب جلد دوم ص474 اور جلد سوم ص39 میں، ابن کثیر نے اپنی تاریخ جلد ہفتم ص369 میں، ابن قتیبہ دینوری متوفی سنہ276ھ نے تاویل مختلف الحدیث( مطبوعہ مصر) ص201 و 204 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ658ھ نے کفایت الطالب باب57 مین، جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفائ ص66 میں، سید مومن شبلنجی نے نور الابصار ص73 میں، نورالدین علی بن عبداللہ سمہودی متوفی سنہ911ھ نے جواہر القصدین میں،

۲۵۵

حاج احمد آفندی نے ہدایۃ المرتاب ص146 و ص152 میں، محمد بن علی الصبان نے اسحاف الراغبین ص52 میں، یوسف سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ باب6 ص87 میں، ابن ابی الحدید متوفی سنہ655ھ نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص6 میں، مولوی علی قوشجی نے شرح تجرید ص407 میں، اخطب الخطبائ خوارزمی نے مناقب ص48 ، ص60 میں، حتی کہ ابن حجر مکی جیسے متعصب متوفی سنہ973ھ نے صواعق محرقہ ص78 میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد دوم ص509 میں اور علامہ ابن قیم جوزیہ نے طرق الحکیمہ ص47، ص53 میں ایسے بہت سے واقعات نقل کئے ہیں کہ خلیفہ عمر نے مشکل مراحل و مسائل میں، بالخصوص بادشاہ روم کے سخت و دشوار سوالات میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف رجوع کیا ہے، یہاں تک کہ یہ بات تقریبا تواتر کو پہنچ گئی ہے کہ خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب نے ایسے متعدد مواقع پر جب کہ علی علیہ السلام نے مشکلات کو حل کیا ہے اور ان کے جوابات دیئے ہیں باربار کبھی یہ کہا ہے کہ ""اعوذ باللهمن معضلةلیس فیها ابوالحسن" ( یعنی میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس دشواری سے جس میں ابوالحسن ( علی علیہ السلام) موجود نہ ہوں) کبھی کہتے تھے" لو لا علي لهلك عمر " یعنی اگر علی نہ ہوتے تو قریب تھا کہ پسر خطاب(عمر) ہلاک ہوجاۓ) اس بے خبر اور بے لحاظ معلم کی تقریر کے بر خلاف ابن مغازلی شافعی مناقب میں اور حمیدی جمع بین الصحیحین میں لکھتے ہیں کہ خلفائ تمام مراحل میں علی سے مشورہ کرتے تھے اور دین و دنیا کے امور میں مرکز فتوی علی علیہ السلام تھے۔ خلفائ آپ کے الفاظ اور ہدایات کو توجہ سے سنتے تھے ان پر عمل کرتے تھے اور فائدہ اٹھاتے۔ جیسا کہ مختصر طور پر عرض کیا گیا۔

پس ہر صاحب بصیرت پر ظاہر و آشکار ہے کہ دیگر کمالات اور نصوص و احادیث سے قطع نظر خود یہی منقول قضایا اور احکام و ارشادات جو ان حضرت سے صادر ہوۓ ہیں آپ کی امامت و ولایت اور دوسروں کے اوپر آپ کے حق تقدم کے لئے دلیل کامل ہیں۔

علی(ع) منصب خلافت کے لئے اولیٰ و احق تھے

کیونکہ اعلمیت خود ہی اولویت کی بہت بڑی دلیل ہے، بالخصوص جب کہ اس کے ساتھ دوسرے صفات کمالیہ بھی وابستہ ہوں، چنانچہ سورہ10 ( یونس) کی آیت 36 میں صاف صاف ارشاد ہے۔

" أَ فَمَنْ يَهْدِي إِلَى‏ الْحَقِ‏ أَحَقُ‏ أَنْ يُتَّبَعَ- أَمَّنْ لا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدى‏- فَما لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ‏"

یعنی آیا جو شخص حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ پیروی کا زیادہ حق دار ہے یا وہ شخص ہو جو خود ہی ہدایت نہیں پاتا جب تک دوسرا اس کو ر اہ نہ دکھاۓ؟ پس تم کو کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسے حکم لگاتےہو؟

یعنی جو شخص طریقہ ہدایت کا عالم ہو قطعا وہ لوگوں کا حاکم اور رہنما بننے کے لئے اولی اور سب سے زیادہ مستحق ہے نہ کہ وہ شخص جو راہ ہدایت سے جاہل اور اس کا محتاج ہو، کہ

۲۵۶

دوسرا اس کی ہدایت و رہنمائی کرے۔ یہ آیہ شریفہ اس بات کی ایک مضبوط دلیل ہے کہ افضل کے اوپر مفضول کو مقدم کرنا جائز نہیں ہے اور امر خلافت و امامت دینی و دنیوی ریاست عامہ اورجانشینی رسول(ص) بھی اس عقلی ق اعدے کے ماتحت ہے۔ چنانچہ آیت 13 سورہ 29 ( زمر) میں استفہام تقریری و انکاری کے طور پر ارشاد ہے۔

" قُلْ هَلْ‏ يَسْتَوِي‏ الَّذِينَ‏ يَعْلَمُونَ وَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ"

یعنی آیا صاحبان علم و دانش ( جیسے علی علیہ السلام) اور جاہل ونادان لوگ برابر ہیں؟ ( ہرگز نہیں)

انصاف سے فیصلہ ہونا چاہیئے

حضرات! آپ کو خدا کاواسطہ عادت اور تعصب کو چھوڑ یئے اور منصفانہ فیصلہ کیجئے۔

کیا یہ انصاف تھا کہا یک ایسی بزرگ ہستی کو جس کا ہر شے کے ظاہری و باطنی حالات پر علمی عبور اظہر من الشمس ہے اور اس پر تمام علماۓ فریقین بلکہ غیروں کا بھی اتفاق ہے اور جس کے لئے رسول خدا صلعم نے وصیتیں فرمائیں تھیں بالکل بر طرف کردیا جاۓ؟ آیا حضرت کو برطر کرنے اور آپ سے کنارہ کشی کرنے میں سازشیں اور سیاست کام نہیں کررہی تھی؟ اگر آپ امت رسول اور صحابہ کبار میں سے کوئی فرد ایسا ڈھونڈھ کر نکال سکتے ہوں جس کو پیغمبر(ص) نے اپنا باب علم امام المتقین اور سید الوصیین فرمایا ہو تو امر خلافت میں ضرور اس کو مقدم کیجئے۔ اور اگر سوا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ان بلند صفات کا حامل کوئی دوسرا نہ مل سکے جو بعد رسول(ص) سب سے بڑا عالم، اور ساری امت سے زیادہ عابد و زاہد اور متقی و پرہیزگار ہو تو بحکم عقل آپ کو تصدیق کرنا ہوگا کہ علی امام برحق، رسول اللہ(ص) کے وصی اور خلیفہ اور تمام امت سے زیادہ اس بزرگ منصب کے لائق تھے اور ہیں اورقطعا ایسی بلند شخصیت کا محروم اور الگ کردیا جانا محض سیاسی داؤں پیچ کا نتیجہ تھا۔

شیخ: سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے جو علمی و عملی فضائل و مناقب جناب نے بیان کئے ان پر سب کو اتفاق ہے اور سوا چند ہٹ دھرمی اور تعصب و عناد سے کام لینے والے جاہل خارجیوں کے کسی نے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا ہے لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ سیدنا علی نے خود ہی بہ رضا و رغبت خلفائ رضی اللہ عنہم کی خلافت کو قبول کیا اور ان کے مرتبے کی برتری اور حق تقدم کو ماں لیا، لہذا ہم کو کیا پڑی ہے کہ بقول آپ کے مدعی سست و گواہ چست کے مصداق بنیں اور تیرہ سو سال کے بعد غم وغصہ دکھائیں اور آپس میں لڑیں کہ اجماع امت نے ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو کیوں پسند کیا اور علی پر کیوں مقدم رکھا؟

کیا قباحت ہے اگر ہم لوگ آپس میں صلح و صفائی کے ساتھ رہیں اور جس چیز کی تاریخ نے خبر دی ہے اور جس کی آپ کے علمائ بھی عام طور پر تصدیق کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) کے بعد ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم یکے بعد دیگرے مسند خلافت پر بیٹھے، ہم بھی برادرانہ طریقے سے آپس میں علی کرم اللہ وجہہ کے مرتبے کی برتری، علمی و عملی افضلیت اور رسول اللہ(ص) کے ساتھ

۲۵۷

آپ کی قرابت کا لحاظ رکھتے ہوۓ ایک دوسرے کے ساتھ عملی تعاون کریں اور جس طرح ہمارے چاروں مذاہب باہم متحد ہیں اسی طرح شیعہ مذہب بھی اتحاد رکھے؟

ہم سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے علم و عمل کی عظمت سے قطعا انکار نہیں کرتے لیکن آپ خود تصدیق کریں گے کہ سن کی بزرگی، سیاسی سوجھ بوجھ، ہوشیاری اور دشمنوں کے مقابل تحمل و بردباری کی حیثیت سے یقینا ابوبکر رضی اللہ عنہ مقدم تھے اور اسی وجہ سے اجماع اس کے زریعے مسند خلافت پر متمکن ہوۓ، کیونکہ علی کرم اللہ وجہہ ابھی نو عمر جوان تھے اور خلافت کی قدرت و طاقت نہیں رکھتے تھے، چنانچہ پچیس سال کے بعد بھی جب خلیفہ ہوۓ تو سیاست نہ جاننے کی وجہ سے اس قدر خونریزیاں اور ساری باف برپا ہوۓ۔

خیر طلب: آپ نے کئی جملے ایک دوسرے سے ملاکر ارشاد فرماۓ لہذا ضرورت ہے کہ اپنی تیار کی ہوئی اس یاد داشت کی رو سے ہر ایک کو الگ الگ کر کے جواب عرض کروں۔

راہزن اور زوؔار کی مِثل

اول آپ نے فرمایا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے خواہش و رغبت سے سر تسلیم خم کیا اور خلفاۓ ثلاثہ کی خلافت پر راضی ہوۓ اس مقام پر مجھ کو ایک واقعہ یاد آگیا جس کو مثال کے طور پر پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے سابق زمانے میں جب ایران کے راستوں اور گزرگا ہوں میں بدامنی پھیلی ہوئی تھی اور زائرین عتبات عالیات کو آمد و رفت میں سخت زحمت پیش آتی تھی،زائرین کا ایک قافلہ واپسی میں رہزنوں کے چنگل میں پھنس گیا۔ وہ لوگ ان کو گرفتار کر کے اور ان کا مال و متاع لوٹ کے آپس میں تقسیم کر رہے تھے کہ اتنے میں کسی زائر کا ایک عدد کفن ایک بوڑھے قزاق کے ہاتھ میں پڑا، اس نے کہا حضرات زائرین یہ کفن کس کا ہے؟ زائر نے کہا میرا سارا مال تمہارا لیکن یہ کفن مجھ کو واپس کر دو کیونکہ میری زندگی کا آخری زمانہ ہے اور میں نے اپنا یہ لباس آخرت بڑی زحمت سے مہیا کیا ہے۔ یہ میری تمناؤں کا سرمایہ ہے۔ قزاق نے ہرچند اصرار کیا لیکن زائر نے یہی کہا کہ میں اپنا یہ حق کسی کو نہیں بخشوں گا۔ لٹیرے نے تازیانہ نکال کے زائر کے سر اور چہرے پر مارنا شروع کیا اور کہا کہ میں یہاں تک ماروں گا کہ تم مجھ کو یہ کفن بخش دو اور کہہ دو کہ حلال ہے۔ بیچارے بوڑھے کو اس قدر مارا کہ وہ بے بس ہو کر چیخنے لگا، جناب، حلال، حلال، حلال،ماں کے دودھ سے بھی زیادہ حلال( حاضرین جلسہ کا قہقہہ)

یقین ہے کہآپ معاف فرمائیں گے کیونکہ مثل میں کوئی عیب نہیں ہے اور اس کا مقصد صرف دماغوں کو متوجہ کرنا اور مطلب کی وضاحت ہوا کرتا ہے۔ آپ حضرات گویا گذشتہ راتوں کے بیانات بالکل بھول ہی گئے جن میں میں نے مضبوط

۲۵۸

تاریخی دلائل اور ابن ابی الحدید، جوہری، طبری، بلاذری، ابن قتیبہ اور مسعودی وغیرہ کے ایسے آپ کے اکابر علمائ کی شہادتوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے گھر پر آگ لے گئے آپ کو ننگے سر اور بغیر ردا کے جبرا کھینچتے ہوۓ مسجد میں لے گئے اور آپ کے سامنے برہنہ تلوار کھینچ کر کہا بیعت کرو ورنہ تمہاری گردن ماردیں گے۔

خدا کے لئے اںصاف سے بتائیے،کیا رضا ورغبت کے معنی یہی ہیں؟ اگر شور و غل اور ہنگامہ و فساد برپا کر کے، گھر میں آگ لگا کر، ضرب شمشیر کے زور سے اور قتل کی دھمکی دے کر بجبربیعت لینے ہی کا مطلب اپنی خواہش اور رضامندی سے بیعت کرنا ہوتا ہے تو پھر جبر و اکراہ اور زبردستی کی بیعت کیسی ہوتی ہے؟

انشائ اللہ گھر واپس جانے کے بعد اگرآپ رسائل و اخبارات کے صفحات نگاہ انصاف سے پڑھیں گے اور گذشتہ شبوں میں ہم نے مکرر جو دلائل پیش کئے ہیں ان پر غور کریں گے تو قطعی طور پر تصدیق کریں گے کہ رضا ورغبت کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ ہان یہ ہوسکتا ہے کہ اسی قزاق کی طرح مار مار کے زبردستی ہم سے کہلا لیجیئے کہ ہاں راضی تھے۔

دوسرے آپ نے فرمایا ہے کہ ہم کو کیا پڑی ہے کہ تیرہ سو سال کےبعد اس مسئلے پر غور کریں اور آپس میں لڑائی جھگڑا کریں۔ تو اول تو ہم نے کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا ہے اور نہ ایسا کریں گے بلکہ حملوں اور اعتراضات کے جواب میں مجبورا دفاع سے کام لیتے ہیں۔ یہ حضرات اہل سنت ہی ہیں جو ہم شیعوں کی جان کو اٹکے ہوۓ ہیں اور ہماری جان و مال کو مباح سمجھتے ہیں۔ جس وقت وہ ناواقف عوام کے سامنے ہم کو مشرک، کافر اور بدعتی کہہ کے غلط فہمی پھیکلاتے ہیں تو ہم بھی مجبورا مقابلے پر آکے ثابت کرتے ہیں کہ ہم مشرک اور کافر نہیں ہیں بلکہ مومن اور موحد خالص ہیں اور اپنے اس پاکیزہ عقیدہ توحید پر فخر کرتے ہیں۔

دین کا اندھا سودا نہ کرنا چاہیئے

دوسرے میں قبل کی راتوں میں عرض کرچکا ہوں کہ دینی عقائد تقلیدی نہیں ہوتے ہیں کہ جیسا تاریخ بتارہی ہے خلفاۓ اربعہ جس طریقے سے کہ آپ نے بیان کیا جب حاکم بن گئے تو ہم بھی آںکھ بند کر کے اسلاف کے عادات اور طریقوں کے پابند ہو کر سرتسلیم خم کردیں۔ حالانکہ عقلی و نقلی دلیلوں سے بالکل ثابت و محقق ہے کہ اصول عقائد کو تقلیدی نہیں بلکہ تحقیقی ہونا چاہیئے میں پھر عرض کرتا ہوں کہ جب ہمارے اور آپ کے اور جمہور امت کے مورخین یہ لکھ چکے ہیں کہ وفات رسول(ص) کے بعد امت دو گروہوں میں بٹ گئی، ایک فرقہ کہتا تھا کہ ابوبکرکی پیروی کرنا چاہیے اور ایک جماعت کا قول کہ حق علی(ع) کے ساتھ ہے، اور جب رسول اللہ(ص) مسلمانوں سے حضرت علی(ع) کے لئے بیعت لے چکے ہیں اور یہ فرماچکے ہیں کہ علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے۔ اور علیکی مخالفت میری مخالفت ہے تو آں حضرت(ص) کے حسب الحکم علی علیہ السلام کی اطاعت و پیروی فرض ہے۔ ہماری

۲۵۹

اور آپ کی ہر فرد کا یہ فریضہ ہے کہ طرفین کی دلیلیں سنے اور جانچ پڑتال کرے، اس کے بعد جو طریقہ حق نظر آۓ اس کی پیروی کرے۔ اور یقینا برحق طریقہ وہی ہے جس پر عقلی و نقلی اور منطقی دلائل قائم ہوں۔

میں نے اپنا مذہب تحقیق کے ذریعے قبول کیا ہے

آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں نے اپنے اسلاف اور آباء اجداد کی تقلید میں شیعہ مذہب کو اندھا دھند محض عادتا قبول کرلیا ہے لیکن خدا کی قسم ایسا نہیں ہے بلکہ جب سے میں نے عقل و تمیز حاصل کی براہ راہ حق کی جستجو میں رہا۔ پہلے ذات وحدہ لاشریک کی معرفت میں غور و خوض کرتا رہا اور مادیین اور دوسرے فرقوں کے عقائد کا مطالعہ کیا یہاں تک کہ بحمد اللہ خالص توحید کے عقیدے پر قائم ہوا، پھر انبیائ کی رسالتوں اور دیگر بانیاں مذاہب کی تبلیغ کے طریقوں کا جائزہ لیا۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے علاوہ ہر قوم کے علمائ سے مناظرے اور مباحثے کئے اور کافی تحقیقات کی، یہاں تک بالآخر مجھ پر مقدس دین اسلام کی حقانیت ثابت ہوگئی اور میں نے اپنے جد امجد حضرت رسول خدا محمد بن عبداللہ علیہو آلہ وسلم کو دلیل و برہان کے ساتھ خاتم الانبیائ مانا اسی طرح بعد پیغمبر(ص) کے طریقے میں اپنے اسلاف اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید نہیں کی بلکہ فریقین ( شیعہ و سنی) کے دلائل کی باریک بینی اورغیر جانب داری کے ساتھ جانچ کی اور اہل خلاف کی صدہا کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا۔ میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی حقیقت ولایت و خلافت کو عاقلانہ غور وفکر کے ساتھ بڑے بڑے علمائ اہل سنت کی معتبر کتابوں سے اخذ کیا ہے۔ اور منصب امامت و خلافت کے سلسلے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس بارے میں جس قدر سنی علمائ کی خاص خاص کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اتنا شیعہ علمائ کی کتابوں پرغور نہیں کیا۔ اس لئے کہ اثبات امامت میں جو دلیلیں علماۓ شیعہ کی کتابوں میں درج ہیں وہ اکابر علماۓ اہل سنت کی کتابوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

بات در اصل یہ ہے کہ آپ حضرات آیات و اخبار کے دلائل کا سطحی مطالعہ کرتے ہیں، لیکن ہم گہری نظر ڈالتے ہیں آپ کے علمائ اپنے بزرگوں کی پیروی میں ہر آیت اور حدیث کی جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ثبوت میں ںص صریح ہے مضحکہ انگیز تاویلیں کر کے اس کو ایک فرضی مطلب پہ محمول کرتے ہیں۔ حالانکہ جو شخص بھی بڑے بڑے سنی علمائ کی کتابوں کا غائر مطالعہ کرے وہ ہماری طرح بے اختیار کہہ اٹھے گا کہ:

" أشهد أنّ‏ عليّا وليّ‏ اللّه‏و خلیفة رسوله و حجته‏على‏خلقه"

تیسرے آپ کا ارشاد ہے کہ بہتر یہ ہے کہ ہم مورخین کے بیان کی پابندی کرتے ہوۓ ابوبکر، عمر اور عثمان کو علی علیہ السلام پر مقدم سمجھیں، تو یہ عمل عقلی و نقلی قواعد کے روسے غیر ممکن ہے۔ کیونکہ انسان کو حیوان کے مقابلے میں عقل وعلم اور غور وفکر ہی کی قوتوں سے امتیاز ہے، اور آنکھ بند کر کے اسلاف کی پیروی نہیں کی جاسکتی۔

۲۶۰