پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316882 / ڈاؤنلوڈ: 7973
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

مثلا اگر کسی عالم اور فقیہ کا انتقال ہوجاۓ اور چند بازاری لوگ جمع ہوکر ایک جاہل محض یا لسان آدمی کو اس کی جگہ بٹھا کر اس کے علم وفقہ کا ڈنکا پیٹنے لگیں تو کیا تمام انسانوں کا فرض ہوجاۓ گا کہ اس فقیہ نما جاہل یا لسان شخص کی تقلید کریں؟ خصوصا اگر تحقیق اور امتحان کے موقع پر یہ ثابت ہوجاۓ کہ فقاہت کے مسند پر بیٹھنے والا اس علم سے بالکل کورا ہے تو عقل و نقل کے حکم سے اس کی تقلید قطعا حرام ہے، کیونکہ عالم کی موجودگی میں جاہل کو مقدم کرنا جائز نہیں ہے۔

پس جب علاوہ صریحی نصوص کے آپ کے اکابر علمائ کی روایتوں اور قاعدوں کیروسے علی علیہ السلام کا علمی حق ثابت ہوگیا تو امر خلافت میں بھی آپ کا حق محفوظ اور عقل و نقل کے نزدیک مسلم ہے اور باب علم رسول ہونے کے بعد آپ سے انحراف عقلی و نقلی دونوں حیثیتوں سے مذموم ہے۔

البتہ تاریخی واقعات کی حیثیت سے ہم تصدیق کرتے ہیں کہ وفاتِ رسول(ص) کے بعد ابوبکر دو سال تین ماہ پھر عمر دس سال اور ان کے بعد عثمان بارہ سال کی مدت تک مسند خلافت پربیٹھے اور ہر ایک نے اپنے اپنے وقت میں کچھ کام انجام دیئے لیکن یہ تمام باتیں عقل و نقل اور دلیل و برہان کو منسوخ نہیں کرتی ہیں جس سے ہم باب علم رسول(ص) حضرت علی علیہ السلام کو واقعی اور حقیقی طور پر ان سے موخر سمجھ لیں۔ کیونکہ اکابر علمائ جیسے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۳۷ ص۱۱۲ میں سورہ نمبر۳۷(صافات) کی آیت ۲۴"وَ قِفُوهُمْ‏ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ " ( یعنی ان لوگوں کو ( موقف حساب میں) ٹھہراؤ کیونکہ یقینا ان سے باز پرس کی جاۓ گی) کے ذیل میں فردوس دیلمی، ابونعیم اصفہانی، محمدابن اسحاق مطلبی صاحب کتاب مغازلی، حاکم، حموینی، خطیب خوارزمی اور ابن مغازلی سے جن میں سے بعض نے ابن عباس سے بعض نے ابو سعید خدری سے اور بعض نے ابن مسعود سے اور ان سب نے حضرت رسول اکرم صلعم سے نقل کیا ہے کہ:

" إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ‏ عَنْ وَلَايَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ"(یعنی ان لوگوں سے ولایت علی علیہ السلام کا سوال کیا جاۓ)

نیز سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص۱۰ میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۲ میں ابن جریر سے اور انہوں نے ابن عباس سے اسی آیت کے ذیل میں روایت کی ہے کہ اس سے علی علیہ السلام کی ولایت مراد ہے۔

اطاعت علی(ع) کے لئے پیغمبر(ص) کا حکم

علاوہ ان چیزوں کے خداوند عالم آیت۷ سورہ ۵۹ ( حشر) میں حکم دے رہا ہے کہ"و ما أتاكم‏ الرسول‏ فخذوه و ما نهاكم عنه فانتهوا "(یعنی جو کچھ رسول اللہ نے تمہارے سپرد کیا ہے بلاتاخیر اس کو قبول کرو اور جس چیز سے منع کیا ہے اس سے بلاپس و پیش باز رہو۔)

۲۶۱

لہذا مسلمان مجبور ہیں کہ رسول خدا(ص۹ نے جو حکم دیا ہے اس کی اطاعت کریں اور جب ہم آں حضرت(ص) کی ہدایات کی طرف توجہ کرتے ہیں تو( جیسا کہ آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے) ہم کو نظر آتا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے ساری امت میں سے صرف علی علیہ السلام کو اپنا باب علم فرمایا ہے اور آپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ بلکہ آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے وابستہ قرار دیا ہے۔

چنانچہ امام احمد بن حنبل نے مسند میں، امام الحرم نے ذخائر العقبیٰ میں، خوارزمی نے مناقب میں، سلیمان حنفی نے ینابیع المودۃ میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، نیز دیگر علمائ نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"معشر الانصار ألا أدلكم على ما إن تمسکتم عليه لم تضلوا،بعدی ابدا قالوا بلیٰ قالهذا عليّ بن أبي طالب فاحبوه و اکرموه واتبعوه انه مع القرآن والقرآن معه انه یهدیکم الی الهدی ولایدلکم علی الردی، فان‏ جبرئيل‏ أخبرنى‏ بالذی قلته"

یعنی اے جماعت انصار کیا میں تم کو ایسی چیز کی طرف ہدایت نہ کروں کہ اگرتم اسسے تمسک اختیار کرو تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں فرمایئے آں حضرت(ص) نے فرمایا۔ یہ علی(ع) ہیں پس ان کو دوست رکھو، ان کی تعظیم و تکریم کرو اور ان کی پیروی کرو۔ کیونکہ یقینا یہ قرآن کے ساتھ اور قرآن ان کے ساتھ ہے۔ لازمی طور پر یہ تم کو راہ ہدایت کی طرف لے جائیں گے اور ہلاکت میں نہ پھنسائیں گے۔ اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے، حقیقتا جبریل نے مجھ کو اس کی خبر دی ہے۔

نیز آپ ہی کے اکابر علمائ نے یہ روایت ہم تک پہنچائی ہے، جیسا کہ گذشتہ کسی شب میں نے مع اسناد کے عرض کرچکا ہوں کہ رسول اکرم صلعم نے عمار یاسر سے فرمایا:

ان سلک الناس کلهم وادیا وسلک علی وادیا فاسلک وادی علی و خل عن الناس"

یعنی اگر سارے انسان ایک طرف جائیں اور علی(ع) ایک طرف، تو علی(ع) کے راستے پر چلواور لوگوں کا ساتھ چھوڑ دو۔

اور مختلف مقامات اور مختلف اوقات میں بارہاارشاد فرمایا ہے:

" ومن اطاع علیا فقد اطاعنی و من اطاعنی فقد اطاع الله"( یعنی جس نے علی(ع) کی اطاعت کی اس نے درحقیقت میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ہے۔) جو کو میں گذشتہ راتوں میں اسناد کے ساتھ تفصیل سے پیش کرچکا ہوں۔

اس قسم کی حدیثیں آپ کی معتبر کتابوں میں بھری پڑی ہیں اورتواتر معنوی کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں کہ آں حضرت(ص) نے اس کا حکم دیا ہے کہ علی(ع) کے پیرو بنو، علی(ع) کے راستے پر چلو اور دوسروں کا راستہ ترک کرو۔ لیکن اس کے برعکس آپ کی کتابوں میں ایک حدیث بھی ایسی نظر نہیں آئی جسمیں رسول خدا(ص) نے فرمایا ہو کہ میرے بعد راہ ہدایت کے رہبر یا میرے باب علم اور میرے وصی و خلیفہ ابوبکر یا عمر یاعثمان ہیں۔ اگر آپ نے کچھ حدیثیں ایسی دیکھی ہوں جو موضوع ( یک طرفہ اور بکری واموی گروہوں کی گڑھی ہوئی نہ ہوں تو مہربانی کر کے ان کا پتہ دیجئے میں انتہائی ممنون ہوں گا۔

اس صورتِ حال کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ ہم علی علیہ السلام کو جو بارشاد رسول(ص) آں حضرت(ص) کے باب علم، ہادی برحق

۲۶۲

اور پیغمبر(ص) کے وصی وخلیفہ ہیں چوتھے درجے میں رکھیں آں حضرت(ص) نے آپ کی اطاعت و متابعت اور پیروی کے لئے جس قدر تاکید احکام صادر فرماۓ ہیں اور جن سے آپ کی کتابیں پر ہیں ان سب سے چشم پوشی کر کے بھیڑیا دھسان تاریخی عمل در آمد کر کے پیچھے لگ جائیں، اور ان اشخاص کی پیروی کریں جن کے بارے میں متفق علیہ احادیث کے اندر رسول اللہ(ص) کی کوئی ہدایت موجود نہیں ہے۔ آیا یہ ہر ممکن ہے؟ اور اگر ہم اس راستے پر چلیں تو کیا عقل و نقل کے سامنے ہمارا مضحکہ نہ اڑےگا؟ اور خدا کے یہاں ہم سے باز پرس نہ ہوگی؟ آیا آپ کی بات پر عمل کر کے ہم رسول اللہ(ص) اور آں حضرت(ص) کے احکام کی مخالفت میں گرفتار نہ ہوجائیں گے؟ ان امور کا فیصلہ ہم آپ حضرات کے شعور اورجذبہ انصاف پر چھوڑتے ہیں۔

علماۓ اہلِ سنت ہم سے ہم آہنگی نہیں چاہتے

چوتھے آپ نے فرمایا ہے کہ مذاہب اربعہ ( حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی) کے مانند ہم بھی آپ کے ساتھ مل کے رہیں، تو یہ بھی ہونے والا نہیں ہے کیوںکہ آپ لوگ بغیر کسی برہان و دلیل کے شیعوں اور عترت اور اہل بیت رسول(ص) کے پیروؤں پر تہمت و افترا کر کے ان کو رافضی، مشرک اور کافر کہتے ہیں اور بدیہی چیز ہے کہ مشرک اور مومن کے درمیان حقیقی اتحاد ممکن نہیں ورنہ تمام حنفی، حنبلی اور شافعی برادران اہل سنت کےساتھ اتحاد و اتفاق رکھنے اور عملی تعاون کرنے کے لئے ہم دل سے تیار ہیں۔ البتہ شرط یہ ہے کہ استدلال کے ساتھ مذہبی عقائد اور حقائق کو واضح کرنے میں ہم اور آپ سب آزاد ہیں اور ایک دوسرے کی کوئی مزاحمت نہ کریں۔ جس طرح چاروں مذاہب کے پیرو اپنے عمل میں آزاد ہیں اسی طرح عترت پیغمبر(ص) کا اتباع کرنے والے شیعہ بھی اپنے اعمال میں آزاد رہیں لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے مذاہب اربعہ کے اندر اس قدر شدید اختلاف موجود ہیں کہ بعض لوگ ایک دوسرے کو کافر و فاسق تک کہتے ہیں، پھر بھی آپ ان سب کو مسلمان سمجھتے اور عمل کی آزادی دیتے ہیں، لیکن بیچارے شیعوں کو مشرک اور کافر کہہ کے جماعت مسلمین سے نکال باہر کرتے اور عمل و عبادت کی آزادی ان سے چھین لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں اتحاد و موافقت کی کیا امید ہوسکتی ہے؟

خاک پر سجدہ کرنےسے اختلاف

اب یہی دیکھئے کہ خاک پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں آپ کس قدر ہنگامہ اور انقلاب برپا کرتے ہیں کہ خاک اور تربت کو عوام کی نگاہوں میں بت ثابت کرتے ہیں اور موحد و خدا پرست شیعوں کو بت پرست کہتے ہیں حالانکہ ہم خدا و رسول(ص) کے حکم اور اجازت سے خاک پر سجدہ کرتے ہیں، اس لئے کہ قرآن مجید کی آیتوں میں سجدے کا حکم دیا گیا ہے اور آپ خود

۲۶۳

جانتے ہیں کہ سجدے کا مطلب ہے پیشانی زمین پر رکھنا۔ البتہ ہمارے اور آپ کے درمیان سجدے کے طریقے میں اختلاف ہے کہ کس چیز پر سجدہ کرنا چاہیئے۔

شیخ: پھر آپ تمام مسلمانوں کے مانند کس لئے سجدہ نہیں کرتے تاکہ اختلاف پیدا نہ ہو اور یہ بدظنی ختم ہوجاۓ۔

خیر طلب: سب سے پہلے تو یہی بتائیے کہ آپ یعنی حنفی حضرات فروعات بلکہ اصول میں بھی شافعیوں، مالکیوں اور حنبلیوں سے آخر اس قدر اختلاف کیوں رکھتے ہیں کہ کبھی کبھی ایک دوسرے کو فاسق فاجر اور کافر کہنے کی بھی نوبت آجاتی ہے؟ بہتر ہوگا کہ سب مل کر آپس میں ایک عقیدہ پیدا کیجئے تاکہ یہ اختلافات پیدا نہ ہوں۔

شیخ: بات یہ ہے کہ فقہائ کے فتاوی میں اختلاف ہے اور ہم میں سے جو فرقہ امام شافعی، امام اعظم، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم میں سے جس فقیہ کی پیروی کرے اس کو اجر و ثواب حاصل ہوگا۔

تاثر کے ساتھ اعلان حقیقت

خیر طلب: آپ خدا کی قسم اںصاف کیجئے کہ جن فقہاۓ اربعہ کی پیروی پرسوا علم و دانش اور احکام "بلیبرس" کی کورکورانہ" تقلید کے ( جیسا کہ علامہ مقریزی نے خطط میں نقل کیا ہے) اور کوئی دلیل موجود نہ ہو ان کا اتباع تو اجر و ثواب رکھتا ہو( چاہے اصول وفروع میں ان کے درمیان کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو) لیکن وہ ائمہ عترت طاہرہ اور اہل بیت رسالت(ع) جن کے علم و دانش اور فقہ وتقویٰ کے اعلیٰ مدارج پر خود آپ کے اکابر علمائ بھی ایمان رکھتے ہیں اور علاوہ اسکے ان مقدس ہستیوں کے بارے میں حضرت رسول خدا صلعم کے صریحی نصوص و احادیث یہ ثابت کرچکے ہیں کہ یہ حضرات عدیل قرآن ہیں اور ان کی متابعت میں نجات اور مخالفت میں ہلاکت ہے، ان کی اطاعت و پیروی شرک اور کفر بن جاۓ؟ پس آپ کو تصدیق کرنا چاہیئے کہ یہ مخالفتیں باہمی اختلافات کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ عترت و اہل بیت طاہرین علیہم السلام سے بغض و نفرت رکھنے کی وجہ سے ہیں اور یہ اس وقت تک دور نہیں ہوسکتیں جب تک نفس کو اخلاق رذیلہ اور صفات ذمیمہ سے پاک اور دل کو بغض حسد اور کینے سے صاف کر کے اس میں اںصاف کا جذبہ پیدا کیا جاۓ ورنہ آپ کے مذاہب اربعہ کے درمیان تو اصول اور طہارت سے لے کر تا دان و قصاص تک جملہ فروعی احکام کے اندر اس قسم کے اختلافات کثرت سے موجود ہیں، باوجودیکہ آپ کے فقہائ اور ائمہ اربعہ کے اکثر فتوے قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ہیں پھر بھی آپ ان فتوے دینے والوں اور ان پر عمل کرنے والوں سے کوئی بدظنی نہیں رکھتے، لیکن جماعت شیعہ کو جو بحکم قرآن مجید پاک مٹی پر سجدہ کرتی ہے مشرک، کافر اور بت پرست کہتے ہیں۔

شیخ: کس مقام پر فقہاۓ اہل سنت اور ائمہ اربعہ رضی اللہ عنہم نے قرآن مجید کے خلاف فتوی دیا ہے؟ اگر یہ محض زبانی

۲۶۴

باتیں نہیں ہیں بلکہ کچھ حقیقت ہے تو مہربانی کر کے بیان فرمائیے۔

خیر طلب: اکثر مسائل میں ںص صریح بلکہ جمہور امت کے برخلاف حکم دیا گیا ہے جن کی پوری تفصیل پیش کرنے کا وقت نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ خود آپ ہی کے علمائ نے چاروں مذاہب کے درمیان اختلافی مسائل پر کافی کتابیں لکھی ہیں، بہتر ہوگا کہ آپ شیخ الطائفہ ابوجعفر محمد ابن حسن ابن علی ابن طوسی قدس سرہ کی عظیم المرتبت کتاب "مسائل الخلاف فی الفقہ" کا مطالعہ فرمائیے جس میں انہوں نےفقہاۓ اسلام کے سارے اختلافات کو باتطہارت سے لے کر باب دیات تک بغیر کسی تعصب اور جانب داری کے جمع کر کے اہل علم کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ان سب کو نقل کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن نمونے اور مطلب کو صاف کرنے کے لئے تاکہ حضرات اہل جلسہ کو یہ معلوم ہوجاۓ کہ نہ ہم زبانی باتیں کرتے ہیں اور نہ غلط الزامات عائد کرتے ہیں مختصر طور پر ایک مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہوں، جس سے ظاہر ہوجاۓ گا کہ اسی کے اندر قرآن مجید کی نص صریح کےبرخلاف فتوی دیا گیا ہے۔

شیخ: فرمائیے، کون سا مسئلہ ہے جس میں برعکس فتوی دیا گیا ہے؟

پانی نہ ہو تو غسل و وضو کے بدلے تیمم کرنا چاہیئے

خیرطلب: آپ حضرات خود جانتے ہیں کہ باب طہارت کا یہ ایک مسلمہ مسئلہ ہے کہ غسل اور وضو سنتی ہو یا واجب، خالص پانی سے ہونا چاہیئے۔ آیت نمبر۸ سورہ نمبر۵( مائدہ) میں ارشاد ہے:

"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ‏ إِلَى‏ الصَّلاةِ- فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ"

یعنی جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہروں کو اور ہاتھوں کو مع کہنیوں کے دھوؤ۔

مطلب یہ کہ پاک وخالص پانی سے وضو کرو، اورجس موقع پر ایسا پانی دستیاب نہ ہوتو آیت نمبر۴۶ سورہ نمبر۴ ( نسائ) میں حکم ہوتا ہے:

" فَلَمْ‏ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ‏"

یعنی اگرپانی نہ پاؤتو پاک مٹی پر تیمم کرو پس اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرو۔

لہذا خاک پاک سے تیمم کرنا چاہیئے ان دونوں صورتوں کے علاوہ کوئی تیسرا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ پہلے درجے میں وضو کے لئے پانی ضروری ہے اور دوسرے درجے میں جب پانی نہ ملے یا کوئی اور مانع ہو تو سفر میں ہو یا حضر میں اس کے عوض پاک مٹی سے تیمم فرض ہے۔ اور اس حکم میں سارے فقہاۓ اہل اسلام متفق ہیں چاہے وہ شیعہ اثنا عشری جماعت کے ہوں یا مالکی، شافعی اور حنبلی۔

۲۶۵

ابوحنیفہ کا فتویٰ کہ مسافر کو پانی نہ ملے تو نبیذ سے غسل و وضو کرے

لیکن آپ کے امام اعظم ابوحنیفہ ( جن کے اکثر فتوے قیاس یعنی بے سوادی کی بنیاد پر ہیں) حکم دیتے ہیں کہ سفر میں اگر پانی نہ ملے تو نبیذ خرما سے غسل اور وضو کیا جاۓ۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیںکہ نبیذ ایک ایسی رقیق چیز ہے جس میں خرمے وغیرہ کا عرق شامل ہوتا ہے اور مضاف شئی سے وضو کرنا چائز نہیں ہے پس یہ دیکھتے ہوۓ کہ قرآن مجید نے نماز کے لئے خالص اور پاک پانی کو اور پانی نہ ملنے کی صورت میں پاک مٹی سے تیمم کو ذریعہ طہارت قرار دیا ہے، جب امام اعظم ابوحنیفہ نے نبیذ سے غسل و وضو کا فتوی دیا تو یہ یقینا ایک حکم صریح اور کھلی ہوئی نص قرآنی کی مخالفت ٹھہری۔ در آںحالیکہ بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب کا عنوان ہی یہ رکھا ہے کہ"لا یجوز الوضوء بالنبیذ والمسکر " ( یعنی نبیذ اور نشے والی چیز سے وضو جائز نہیں)

حافظ : باوجودیکہ میں امام شافعی رضی اللہ عنہ کے مذہب پر ہوں اور آپ کے بیان سے پورے طور پر متفق ہوں کہ اگر پانی نہ ہوتو تیمم کرنا چاہیئے اور ہمارے مذہب میں نبیذ سے طہارت جائز نہیں ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ فتوے صرف شہرت کی بنا پر امام ابوحنیفہ رضی اللہ سے منسوب ہوگیا ہے۔

خیر طلب: قطعا جناب عالی نے اصل حقیقت سے واقف ہونے کے بعد یہ عذر بارز پیش کیا ہے ورنہ یہفتوی امام ابو حنیفہ سے تواتر کے ساتھ منقول ہے چنانچہ فی الحال اس قدر میرے پیش نظر ہے کہ فخرالدین رازیتفسیر مفاتیح الغیب جلد سوم ص۵۵۳ میں بسلسلہ آیت تیمم ( سورہ مائدہ) مسئلہ پنجم میں کہتے ہیں:

" قال الشافعی رحمه الله لایجوزالوضوءبنبیذالتمر و قال ابوحنیفه رحمه الله یجوزذالک فی السفر"

( یعنی شافعی نے کہا ہے کہ وضو نبیذ سے جائز نہیں اور ابوحنیفہ کا قول ہے کہ یہ سفر میں جائز ہے۔)

نیز بہت بڑے فلسفی ابن رشد نے ہدایتہ المجتہد میں ابو حنیفہ کے اس فتوے کو نقل کیا ہے۔

شیخ: آپ کیونکر فرما رہے ہیں کہ نص کے خلاف فتوی دیا ہے، حالانکہ بعض روایتیں صراحت کے ساتھ رسول خدا(ص) کے عمل سے اس کو ثابت کرتی ہیں؟

خیر طلب: ہوسکتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی روایت نظر میں ہوتو بیان فرمائیے۔

شیخ: من جملہ ان کے ایک روایت ہے جس کو عمرو بن حریث کا غلام ابوزید عبداللہ ابن مسعود سے نقل کرتا ہے کہ:

" أنرسول الله (صلّى اللّه عليه و آله) قال فی ليلة الجن عندک طهور قال لا الا شئی من نبیذ فی اداوة قال تمرة طيبة و ماء طهور فتوضا"

یعنی رسول خدا صلعم نے لیلتہ الجن میں اس سے فرمایا کہ تمہارے پاس پانی

۲۶۶

ہے؟ اس نے کہا نہیں، البتہ ظرف آب میں صرف تھوڑی سی نبیذ ہے۔ آں حضرت(ص)نے فرمایا خرما بھی پاک اور پانی بھی پاک یہ کہہ کر آپ نے وضو فرما لیا۔

اور ایک دوسری روایت ہے کہ عباس ابن ولید ابن صبیح الحلال دمشقی نے مران بن محمد طاہری دمشقی سے، اس نے عبیداللہ بن لہیعہ سے، اس نے قیس بن حجاج سے، اس نے خش صنعانی سے، اس نے عبداللہ بن ولید سے اور انہوں نے عبداللہ ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

" أن رسول الله (صلّى اللّه عليه و آله) قال له ليلة الجن معک ماء قال لا الا نبیذا فیسطحة قال رسول الله تمرة طيبة و ماء طهور صب علی قال فصبت علیه فتوضا به"

یعنی رسول اللہ(ص) نے لیلتہ الجن میں ان سے فرمایا کہ تمہارے ساتھ پانی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، البتہ توشہ دان میں نبیذ موجود ہے، رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ پاکیزہ خرما اور پاک پانی ہے، اس کو میرے اوپر گراؤ، پس میں نے آں حضرت(ص) کے اوپر اس کو گرایا اور آپ نے اس سے وضو فرمایا۔

بدیہی چیز ہے کہ رسول خدا(ص) کا عمل ہمارے لئے حجت ہے اور کون سی نص اور دلیل آں حضرت(ص) کے عمل سے بہتر ہوسکتی ہے؟ یہی سبب ہے کہ ہمارے امام اعظم نے عمل پیغمبر(ص) کےروسے اس کے جواز کا فتوی دیاہے۔

خیر طلب: میرا خیال ہے کہ آپ خاموش رہے ہوتے تو ایسا بیان دینے سے بہتر ہوتا۔ اگرچہ میں شکرگذار ہوں کہ آپ نے دلیل قائم فرما دی تاکہ مطلب زیادہ بہتر طریقے سے صاف ہوسکے اور برادران اہل سنت اچھی طرح جان لیں کہ ان کے پیشوا غلط فہمی کے شکار ہیں اور ا نہوں نے بغیر تحقیق کے صرف قیاس کے روسے حکم دیا ہے۔نیز یہ کہ حق ہمارے ساتھ ہے مناسب ہوگا کہ پہلے ہم حدیث کے روات و اسناد کے بارے میں بحث کریں پھر اصل موضوع کے اوپر آئیں۔ اولا ابوزید غلام عمرو بن حریث کا حال معلوم نہیں اور یہ محدثین کے نزدیک مردود ہے جیسا کہ ترمذی وغیرہنے نقل کیا ہے، بالخصوص ذہبی میزان الاعتدال میں کہتے ہیں کہ یہ شخص پہچانا نہیں گیا اور یہ حدیث جو عبداللہ ابن مسعود سے مروی ہے صحیح نہیں ہے۔ حاکم کہتے ہیں کہ اس مجہول آدمی سے سوا اس کے اور کوئی حدیث منقول نہیں ہے، اور بخاری نے اس کو غیر معتبر راویوں میں شمار کیا ہے اسی وجہ سے قسطلاانی اور شیخ زکریا اںصاری جیسے آپ کے اکابر علمائ نے اپنی صحیح بخاری کی شرحوں میں باب لا یجوز الوضوء بالنبیذ ولا المسکر کے ذیل میں اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اور دوسری حدیث بھی کئی طریقوں سے مردود ہے۔

اول یہ کہ اس حدیث کو اس طریق سے سوا ابن ماجہ کے اور کسی عالم نے نقل نہیں کیا ہے۔

دوسرے اس کو اکابر علمائ نے اس وجہ سے اپنے سنن میں نقل نہیں کیا ہے کہ اس کے راویوں کا سلسلہ مجروح و مخدوش اور ناقابل اعتبار ہے۔ چنانچہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں متعدد اقوال نقل کئے ہیں کہ عباس ابن ولید قابل اعتماد نہیں ہے، اسی وجہ سے ارباب جرح ، تعدیل نے اس کو ترک کردیا ہے۔ نیز مروان بن محمد طاہری فرقہ مرجیہ کے گمراہوں میں سے

۲۶۷

تھا۔ جس کو ابن حزم اور ذہبی نے ضعیف ثابت کیا ہے۔ اور اسی طرح عبداللہ بن لہیعہ کو بھی بڑے بڑے علمائ جرح و تعدیل نے ضعیف قرار دیا ہے۔ پس جب کسی حدیث کے سلسلہ روات میں اس قدر ضعف اور فساد موجود ہو کہ خود آپ ہی کے اکابر علمائ اس کو متروک قرار دیں توقطعی طور پر خود بخود وہ حدیث درجہ اعتبار سے ساقط ہوجاتی ہے۔

تیسرے آپ کے علمائ نے جو روایتیں عبداللہ ابن مسعود سے نقل کی ہیں، ان کی بنا پر لیلتہ الجن میں کوئی شخص آں حضرت(ص) کےساتھ تھا ہی نہیں۔ چنانچہ ابوداؤد نے اپنی سنن ( باب الوضوء) میں اور ترمذی نے اپنی صحیح میں علقمہ سے نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود سے پوچھا گیا:

" من كان منكم مع النبي صلى الله عليه و آله ليلة الجن‏؟ فقال: ما كانمعه أحد منا "

یعنی لیلتہ الجن میں رسول اللہ(ص) کے ساتھ آپ لوگوں میں سے کون تھا؟ انہوں نے کہا ہم میں سے کوئی بھی آں حضرت کے ساتھ نہیں تھا۔

چوتھے لیلتہ الجن مکے میں ہجرت سے قبل گزری ہے اور جملہ مفسرین کا اتفاق ہے کہ آیت تیمم مدینے میں نازل ہوئی پس یہ حکم یقینا سابق حکم منسوخ کرتا ہے، اور اسی بنا پر آپ کے بڑے بڑے فقہائ جیسے امام شافعی اور امام مالک وغیرہ نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔

اس کے برعکس مدینے میں اس آیت کے نازل ہونے اور یہ حکم آنے کے بعدکہ سفر ہو یا حضر اگر پانی دستیاب نہ ہو تو حتمی طور پر تیمم کرنا چاہیئے، ایک ایسی جعلی حدیث کی بنیاد پر جس کے راویوں کا سلسلہ بھی مجہول الحال اور ضعیف ہو نبیذ سے وضو کرنے کا فتوی انتہائی تعجب خیز ہے اور اس سے زیادہ عجیب جناب شیخ صاحب کا ارشاد ہے کہ مجہول و ضعیف روایتوں کو قرآن مجید کے مقابلہ میں نص قرار دیتے ہیں اور اسی قاعدے کے روسے نص قرآنی کے خلاف ابوحنیفہ کے اجتہاد کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

نواب: قبل صاحب ! کیا نبیذ خرما سے وہی نشہ آور شراب مراد ہے جس کا پینا حرام ہے؟

خیر طلب: نبیذ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک قسم حلال ہے جس میں نشہ نہیں ہوتا اور یہ وہ پانی ہے جس میں خرمے ڈال دۓ جاتے ہیں تاکہ خوش مزا ہوجاۓ۔ جب وہ تہ نشین ہوجاتے ہیں تو اوپر صاف پانی رہ جاتا ہے جو ایک طرح کا آپ مضاف ہوتا ہے اور اسی کو نبیذ کہتے ہیں یعنی خرمے کا نچوڑا ہوا شربت۔ اور دوسری قسم حرام ہے جس میں نشہ ہوتا ہے اسوقت ہمارا موضوع بحث جس کے جواز کا امام ابوحنیفہ نے فتوی دیا ہے وہ نبیذ جو نشہ آور اور پکائی ہوئی نہ ہو۔ ورنہ نشہ آور شراب سے وضو کرنا تو بالاتفاق حرام ہے۔

چنانچہ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ بخاری نے اپنی صحیحین میں ایک باب ہی اس عنوان سے قائم کیا ہے کہ "لایجوز الوضوء بالنبیذ ولا المسکر " ( یعنی نبیذ اور نشہ آور چیز سے وضو کرنا جائز نہیں۔)

۲۶۸

وضو میں نص کے خلاف پاؤں دھونے کا فتویٰ

من جملہ ان مسلمہ قواعد کے جن کو مذکورہ بالا آیت وضو میں ہدایت کی گئی ہے چہرہ اور ہاتھوں کو دھونے کے بعد سر اور کعبین یعنی پشت قدم کی بلندی تک پاؤں کا مسح کرنا ہے۔ چنانچہ صاف طور پر ارشاد ہے:

" وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلَى‏ الْكَعْبَيْنِ"

یعنی مسح کرو اپنے سروں کا اور پشت قدم کی بلندی تک پاؤں کا۔

لیکن آپ کے سارے فقہائ اس نص صریح کے برخلاف پاؤں دھونے کا فتوی دیتے ہیں۔ حالانکہ دھونے اور مسح کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔

شیخ: بہت سی روایتیں پاؤں کے دھونے پر دلالت کرتی ہیں۔

خیر طلب: اول تو روایتیں اسی وقت قابل قبول ہیں جب نص کے موافق ہوں۔ ورنہ اگر نص کی مخالف ہوں تو قطعا مردود ہیں، بدیہی چیز ہے کہ آیت قرآنی کی نص صریح کو خبر واحد سے منسوخ کرنا جائز نہیں ہے۔ اور آیہ شریفہ کی نص صریح دھونے کا نہیں بلکہ مسح کرنے کا حکم دے رہی ہے۔ ا گر آپ حضرات تھوڑی توجہ سے کام لیں تو سمجھ میں آجاۓ کہ اس آیت کا مضمون خود ہی اس مطلب پر دلالت کر رہا ہے، کیونکہ شروع میں فرماتا ہے"فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ "(یعنی دھوؤ اپنے چہروں اور ہاتھوں کو ۔ پس جس طرح آپ واو عطف کی وجہ سے ایدیکم میں حکم لگاتے ہیں کہ چہرہ دھونے کے بعد ہاتھوں کو بھی دھونا چاہیئے، اسی طرح حکم ثانی میں ارشاد ہے"وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ " جس میں"أَرْجُلَكُمْ "کو "بِرُؤُسِكُمْ " کا معطوف قرار دیا گیا۔ یعنی سر کے مسح کے بعد اپنے پاؤں کا بھی مسح کرو۔ ظاہر ہے کہ دھونا ہرگز مسح کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ پس جس صورت سے وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو دھونا واجب ہے اسی صورت سے سر اور پاؤں کا مسح کرنا بھی واجب ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک مسح کریں اور دوسرے کو دھوئیں کیوں کہ ایسا کرنے سے واو عطف بے کار و بے معنی ہوجاۓ گا۔

علاوہان کھلے ہوۓ، مطالب کے عرف عام کے قاعدے سے اسلام کی شریعت مقدسہ انتہائی سہولتیں لے کر آئی ہے اور اس کے احکام سختی اور مشقت سے محفوظ رکھے گئے ہیں اور ہر عقلمند بہ خوبی سمجھتا ہے کہ پاؤں کو دھونے میں جو مشقت ہے وہ مسح کرنے میں نہیں ہے۔ لہذا قطعی طور پر عمل مسح کے آسان تر ہونے کی وجہ سے شریعت کا حکم اسی کے اوپر جاری ہوا ہے، جیسا کہ آیت کا انداز کلام بھی یہی بتا رہا ہے۔ اور امام فخرالدین رازی نے بھی جو آپ کے اکابر مفسرین میں سے ہیں اسی آیہ شریفہ کے ذیل میں ظاہر کلام کے مطابق مسح کے واجب ہونے پر ایک مفصل بیان دیا ہے۔ جس کو تفصیل سے پیش کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں، آپ خود اس کی طرف رجوع فرمائیں تاکہ آپ کے سامنے حقیقت واضح ہوجاۓ۔

۲۶۹

نص صریح کے خلاف موزے پر مسح کرنے کا فتویٰ

اور پاؤں دھونے سے بھی زیادہ عجیب باختلاف فقہاۓ اہل سنت سفر میں یا حضر میں یا صرف سفر میں موزے اور جراب پر مسح کرنے کا فتوی ہے، یہ حکم علاوہ اس کے کہ قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ہے( کیونکہ قرآن نے موزے اور جراب پر نہیں بلکہ پاؤں پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے)آپ کے پہلے حکم یعنی پاؤں دھونے کے بھی خلاف ہے، اس لئے کہ جب خود پاؤں کا مسح جائز نہیں ہے اور دھونا ضروری ہے تو اس مقام پر کیوں تخفیف کی گئی کہ بجاۓ دھونے کے موزے اورجراب پر مسح کرنا جائز کردیا گیا ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ موزے اور جراب کا مسح پاؤں کا مسح نہیں بن سکتافاعتبروا یا اولی الابصار

شیخ : بہت سی روایتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے موزوں کے اوپر مسح فرمایا ہے لہذا فقہاء نے اسی عمل کو جواز کی دلیل سمجھا۔

خیر طلب: میں باربار اس حقیقت کی طرف اشارہ کرچکا ہوں کہ ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق جو روایت آں حضرت(ص) سے منقول ہو اور قرآن مجید سے مطابقت نہ کرتی ہو وہ مردود ہے، اس لئے کہ جعلساز اور شعبدہ باز لوگوں نے دین میں خلل ڈالنے کے لئے بکثرت روایتیں گڑھ کے آں حضرت سے منسوب کی ہیں، چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علمائ نے بھی ایسی بہت سی روایتوں کو رد کردیا ہے جو پیغمبر(ص) کے نام سے منقول ہیں لیکن معیار پر پوری نہیں اترتیں۔

علاوہ اس کے کہ یہ روایتیں نص صریح کے خلاف ہیں ان کے درمیان غیر معمولی تضاد بھی موجود ہے جس کا اقرار خود آپ کے اکابر علمائ نے بھی کیا ہے۔مثلا حکیم دانش مند ابن رشد اندلسی بدایتہ المجتہد و نہایتہ المقتصد جلد اول ص۱۵،۱۶ میں اختلاف کا تذکرہ کرتے ہوۓ کہتے ہیں:

"سبب اختلافه متعارض الاخبارفی ذالک " ( یعنی ان کے اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس بارے میں روایتیں ایک دوسرے کی معارض ہیں) نیز کہتے ہیں: "السبب فی اختلافهم اختلاف الاثار فی ذالک " ( یعنی ان کے اختلاف کا سبب اسبارے میں روایات کا اختلاف ہے) پس ایسے اخبار و احادیث کے ذریعے استدلال و استناد جو آپس میں ایک دوسرے کی ضد بھی ہوں اور قرآن کی نص صریح کے خلاف بھی، عقلی اور نقلی دونوں حیثیتوں سے مرودو اور ناقابل قبول ہے، کیونکہ آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ جو روایتیں آپس میں ایک دوسرے کی مخالف ہوں ان میں سے صرف وہی روایت قابل قبول ہوتی ہے جو قرآن مجید سے موافقت کرتی ہو، اور اگر ان میں سے کوئی روایت بھی قرآن سے مطابقت نہ رکھتی ہو بلکہ نص صریح کے خلاف ہو تو سب ساقط اور متروک ہیں۔

۲۷۰

نص صریح کے خلاف عمامے پر مسخ کرنے کا حکم

نیز اسی آیہ شریفہ میں صاف طور پر ارشاد ہے" وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَ أَرْجُلَكُمْ " ( یعنی چہرہ اور ہاتھ دھونے کے بعد) اپنے سروں کا مسح کرو) اسی قرآن اصول کی بنیاد پر ائمہ عترت طاہرہ کی پیروی کرتے ہوۓ فقہا شیعہ امامیہ نے اور اسی طرح فقہاۓ شافعی و مالکی و حنفی وغیرہ نے فتوی دیا ہے کہ مسح سر پر ہونا چاہیئے۔ لیکن امام احمد بن حنبل، اسحق،ثوری اور اوزاعی کا فتوی ہےکہ عمامے اور مسح کرنا جائز ہے،جیسا کہ امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں نقل کیا ہے حالانکہ ہر عقلمند سمجھتا ہے کہ عمامے کے اوپر مسح کرنا دوسری شے ہے اور سر کے اوپر مسح کرنا دوسری، کیونکہ سر سے مراد اس کا گوشت وپوست، استخوان اور وہ بال ہیں جو اس سے متصل ہوں اور عمامہ ایک بنا ہوا کپڑا ہے جو سر پر رکھا جاتا ہے۔ ع

ببین تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا

خاص توجہ اور منصفانہ فیصلے کی ضرورت ہے

اسی طریقے سے طہارت سے دیات تک جملہ احکام شروع میں آپ کے فقہائ اور ائمہ اربعہ کے درمیان سخت اختلافات موجود ہیں جن میں سے اکثر آیات قرآن کی نص صریح کے خلاف ہیں پھر بھی آپ ایک دوسرے کے شاکی نہیں ہیں اور سب اپنے اپنے اعمال میں پوری طرح آزاد ہیں۔

نہ آپ ابوحنیفہ اور حںفیوں کو مشرک کہتے ہیں جو اصول شرع کے برخلاف نبیذ سے طہارت اور وضو کا فتوی دیتے ہیں اور نہ دیگر فقہا کے ان فتاوی کو مردود سمجھتے ہیں جوآپس میں ایک دوسرے کے مخالف اور نصوص قرآن کے برعکس ہیں لیکن شیعہ کے اعمال پر جو عترت طاہرہ اور اہل بیت رسالت علیہم السلام سے صادر ہوۓ ہیں نکتہ چینی اور اعتراض کرتے ہیں بلکہ اس جلیل القدر اور عدیل قرآن خاندان کے پیروؤں کو رافضی، مشرک اور کافر بھی کہتے ہیں۔

چنانچہ اسی جلسہ کے اندر گذشتہ راتوں میں آپ نے باربار فرمایا ہے کہ شیعوں کے اعمال ان کے شرک کی دلیل ہیں۔

فرمارہے ہیں کہ مسلمانوں کی طرح نماز کیوں نہیں پڑھتے ہو؟ حالانکہ ہم آپ کے اور تمام مسلمانوں کے ساتھ اصل نماز میں جو صبح کی دو رکعت مغرب کی تین رکعت اور ظہر و عصر و عشائ کی چار رکعت ہے۔ یعنی شب و روز میں کل سترہ(۱۷) رکعتیں فرض ہیں، یکساں طور پر شریک عمل ہیں۔ رہے فروعی اختلافات تو یہ مسلمانوں کے سبھی فرقوں کے درمیان کثرت سے پاۓ جاتے ہیں۔

۲۷۱

جس طرح سے ابوالحسن اشعری اور واصل بن عطا کے درمیان اصول و فروغ میں کھلا ہوا اختلاف موجود ہے نیز آپ کے ائمہ اربعہ( ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل) اور دوسرے بڑے بڑے فقہائ جیسے حسن، داؤد، کثیر، اوزاعی، سفیان ثوری، حسنبصری اور قاسم بن سلام وغیرہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں اسی طرح ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے ارشادات بھی آپ کے فقہائ کے بیانات سے الگ ہیں۔ اگر فقہائ کے فتاوی اور اختلاف آراء پر اعتراض کیا جاسکتا ہے تو یہی اعتراضات آخر اہل سنت کے مختلف فرقوں پر کیوں وارد نہیں ہوتے؟

باوجودیکہ یہ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ زیادہ تر فتوےٰ قرآن کی نص صریح کے خلاف دیتے ہیں۔ واضح نصوص کی پھسپھسی کرتے ہیں اور دوسرے فقہاء ان کے برعکس راۓ دیتے ہیں جیسا کہ میں ایک نمونہ پیش کرچکا ہوں،پھر بھی ان کے فتوی اور عمل کو ان کے شرک اور کفر کی دلیل نہیں سمجھتے۔ لیکن عمل سجدہ کے سلسلے میں دیگر فروعی اختلافات کے مانند ہمارے اور آپ کے درمیان فتوی اور راۓ میں جو اختلاف ہے اس پر آپ یہ شور و غل اور ہنگامہ برپا کرتے ہیں کہ شیعہ بت پرست ہیں۔ ساتھ ہی اپنے یہاں کے اس فتوے کو باکل ںظر انداز کردیتے ہیں کہ سوکھے ہوۓ فضلے اور غلیظ پر سجدہ کرنا جائز ہے۔ حالانکہ اگر نگاہِ انصاف سے جائزہ لیجئے تو ائمہ طاہرین علیہم السلام کی پیروی میں شیعہ فقہا کے فتوی فقہاۓ اہل سنت کے فتاوی سے کہیں زیادہ قرآن مجید کے صریحی نصوص سے قریب ہیں۔ مثلا آپ کے فقہاء اونی، سوتی، ریشمی، چرمی اور موم جامہ وغیرہ کے فروش کو جو زمین پر بچھے ہوۓ ہوں جزئ زمین سمجھتے ہیں، ان پر سجدہ کرتے ہیں اور ان کے جواز کا فتوی دیتے ہیں، حالانکہ کسی قوم و ملت کے صاحبان عقل وعلم سے پوچھئے کہ آیا اون، سوت اور ریشم وغیرہ سے بنے ہوۓ فرش جزئ زمین ہیں اور ان پر زمین کا اطلاق ہوتا ہے؟ تو ان کا جواب نفی میں ہوگا، بلکہ ایسا کہنے والوں کی عقل پر ہنس دیں گے لیکن جب شیعہ قوم ائمہ اہل بیت طاہرین علیہم السلام کے اتباع میں کہتی ہے کہ:

" لا يجوز السجود إلّا على الأرض او على ما انبته الأرضبما لایؤكل ولایلبس‏"

یعنی سوا زمین کے یا اس چیز کے جو زمین سے روئیدہ ہوئی ہو اور کھانے یا پہننے کے کام میں نہ آتی ہو اور کسی چیز پر سجدہ جائزہ نہیں) تو آپ اس پر حملے کرتے ہیں اور اس کو مشرک کہتے ہیں اور دوسری طرف خشک نجاست کے اوپر بھی سجدہ کرنے کو نہیں سمجھتے۔ بدیہی چیز ہے کہ زمین پر سجدہ کرنا( جیسا کہ خدا کا حکم ہے) اور فروش کے اوپر سجدہ کرنا ایک دوسرے سے الگ چیزیں ہیں۔

شیخ: آپ لوگ سجدے کو خاک کربلا کے ٹکڑوں سے مخصوص قرار دیتے ہیں، اس خاک سے بتوں کے مانند تختیاں بناکر اپنی بغلوں میں دباۓ رہتے ہیں اور ان پر سجدہ کرنا واجب جانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ عمل مسلمانوں کے دستور اور طریقے کے خلاف ہے۔

خیر طلب: آپ نے یہ جملہ قطعا اپنی اسی عادت کی بنا پر جو بچپن سے آپ کے دماغ میں راسخ کردی گئی ہے اور وہ آپ کی طبیعت بن چکی ہے بغیر کسی دلیل و برہان کے محض اپنے اسلاف کی پیروی میں فرماۓ ہیں۔ حالانکہ آپ

۲۷۲

جیسے منصف مزاج اور روشن خیال عالم کے اوپر ایسا بیان باکل زیب نہیں دیتا کہ خاک پاک کو بت سے تعبیر کرے یقین رکھیئے کہ آپ کو عدلِ الہی کے دربار میں اس زبردست تہمت اور اہانت کی جواب دہی کرنا پڑے گی اور خاک پاک کو بت اور خدا پرست موحدین کو مشرک و بت پرست کہنے پر سخت باز پرس کی جاۓ گی۔

جناب من! کسی عقیدے پر تنقید اور تبصرہ سند اور دلیل کے ساتھ ہونا چاہیئے، صرف اپنے جذبات کی بنا پر نہیں اگر آپ شیعوں کی فقہی اور استدلالی کتابیں اور عملیہ رسائل کا مطالعہ کیجئے جو عام طور پر ہرجگہ دستیاب ہوتے ہیں تو آپ کو اپنا جواب مل جاۓ گا اور آئندہ ایسے غلط اعتراضات کر کے نا واقف برادران اہل سنت کو بہکا کر شیعہ بھائیوں سے بد ظن نہ کریں گے۔

شیعہ خاک کربلا پر سجدہ کرنا واجب نہیں سمجھتے

اگر تمام استدلالی کتابوں اور عملیہ رسالوں میں آپ ایک روایت یا ایک فتوی بھی ایسا دکھا دیں کہ فقہاۓ امامیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خاک کربلا پر سجدہ کرنے کو واجب قرار دیا ہو تو ہم آپ کے سارے بیانات تسلیم کر لیں گے کیونکہ جملہ فقہی اور استدلال کتابوں اور عملیہ رسائل میں سارے فقہاۓ امامیہ کے یہ احکام و ہدایات موجود ہیں کہ حکم قرآنی کے مطابق سجدہ پاک زمین پر ہونا چاہیئے۔ جس میں خاک، پتھر، ریت، بالو اور گھاس شامل ہے بشرطیکہ کوئی چیز معدنیات میں سے نہ ہو۔ نیز ہر اس چیز پر سجدہ کرسکتے ہیں جو زمین سے اگتی ہے بشرطیکہ وہ کھانے یا پینے کے کام میں نہ آتی ہو ان میں سے اگر ایک چیز نہ ہو تو دوسری پر سجدہ کریں۔

شیخ: پھر آپ کس لئے تختوں کی صورت میں خاک کربلا کے ٹکڑے پابندی سے اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور نماز کے وقت انہیں پر سجدہ کرتے ہیں؟

شیعوں کا سجدہ گاہیں ساتھ رکھنا

خیر طلب: خاک کے ٹکڑے ساتھ رکھنے کا سبب یہ ہے کہ سجدہ پاک زمین پر کرنا واجب ہے اور نماز اکثر گھروں میں اور ایسے مقامات پر پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے جہاں قالین، رومال وغیرہ مختلف قسم کے فرش بچھے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے زمین پر سجدہ نہیں ہوسکتا، اور نماز کے وقت ان کو اٹھانا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اگر ان کو ہٹایا بھی جاۓ تو ان کے نیچے زیادہ تر گچ یا دوسری ایسیچیزوں کا فرش بنا ہوا ہوتا ہے جن پر سجدہ جائز نہیں ہے لہذا اگر ہم پاک مٹی کے ٹکڑے اپنے

۲۷۳

ساتھ رکھتے ہیں تو اس غرض سے کہ نماز کے وقت خاک پر سجدہ کرسکیں۔ ا س کے علاوہ ہم مجبور ہیں کہ فقہاء کی ہدایت کے مطابق پاک زمین پر سجدہ کریں اور ہر موقع پر طاہر زمین نہیں ملتی اس وجہ سے ہم پاک مٹی کے ٹکڑے اپنے پاس رکھتے ہیںتاکہ جس مقام پر یہ زحمت پیش آۓ ہم اس طاہر مٹی سجدہ کرلیں۔

شیخ: ہم دیکھتے ہیں کہ تمام شیعہ مہر کی صورت میں خاکِ کربلا کی تختیاں بنا کر رکھتے ہیں اور انہیں پر سجدہ کرنا واجب و لازم سمجھتے ہیں۔

خاکِ کربلا پر سجدہ کرنے کا سبب

خیر طلب: یہ صحیح ہے کہ ہم کربلا کی خاک پاک پر سجدہ کرتے ہیں لیکن واجب سمجھ کے نہیں جیسا میں پہلے عرض کرچکا ہوں ہم لوگ ان احکام کے مطابق جو فقہی کتابوں میں دئیے گئے ہیں صرف پاک زمین پر سجدہ واجب سمجھتے ہیں۔لیکن ان روایتوں کی بنائ پر جو اہل بیت طاہرین علیہم السلام سے مروی ہیں۔ حسینی تربت پاک پر سجدہ کرنا بہتر اور فضیلت و ثواب کثیر کا باعث ہے، اور وہ حضرات اشیائ کے خصوصیات کو سب سے زیادہ جانتے تھے کتنے افسوس کی بات ہے کہ خوارج و نواصب کے پیرو بازی گروں کی ایک جماعت نے یہ مشہور کر رکھا ہے اور اب بھی برابر کہتے رہتے ہیں کہ شیعہ حسین (ع) پرست ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کیقبر مطہر کی خاک پر سجدہ کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ باتیں ہمارے نزدیک کفر ہیں کیونکہ ہم ہرگز حسین(ع) پرست نہیں ہیں بلکہ علی(ع) پرست اور محمد پرست بھی نہیں ہیں( اور جس شخص کا یہ عقیدہ ہوا اس کو کافر جانتے ہیں) ہم صرف خدا پرست ہیں اور قرآن مجید کے حکم سے فقط پاک مٹی پر سجدہ کرتے ہیں۔ ہمارا سجدہ حسین علیہ السلام کے لئے نہیں ہوتا بلکہ ائمہ عترت طاہرہ کے ارشاد کے مطابق کربلا کی خاک پاک پر سجدہ کرنا زیادتی ثواب اور فضیلت کا سبب ہے، واجب کی حیثیت سے نہیں۔

شیخ: یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ کربلا کی خاک کچھ خصوصیات کی حامل ہے جن کی وجہ سے اس پر خاص توجہ کی جاۓ یہاں تک کہ سجدہ کرنے میں بھی اس کو دوسری ہرخاک پر فوقیت دی جاۓ۔

خاک کربلا کے خصوصیات اور پیغمبر(ص) کے ارشادات

خیر طلب: اولا یہ کہ اشیائ اور زمینوں کے اختلاف اور اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ہر خاک کے کچھ آثار و خصوصیات ہیں جن کو ماہرین فن کے علاوہ عام لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔

دوسرے خاک کربلا ائمہ طاہرین علیہم السلام ہی کے زمانے سے نہیں بلکہ خود رسول اللہ صلعم کے عہد میں بھی حضرت(ص) کے لئے بھی مرکز توجہ تھی، جیسا کہ آپ کے اکابر علمائکی معتبر کتابوں میں درج ہے۔ مثلا خصائص الکبری مولفہ جلال الدین سیوطی مطبوعہ حیدر آباد دکن سنہ۱۳۲۰ھ میں ابونعیم اصفہانی، بیہقی اور حاکم وغیرہ کے ایسے آپ کے اکابر علمائ اور موثق راویوں سے

۲۷۴

خاکِ کربلا کے بارے میں ام المومنین ام سلمہ، ام المومنین عائشہ، ام الفضل، ابن عباس اور انس ابن مالک وغیرہ کی کافی روایتیں نقل ہوئی ہیں، من جملہ ان کے راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا حسین(ع) اپنے نانا رسول خدا(ص) کی گود میں بیٹھے ہوۓ تھے اور آںحضرت(ص) کے ہاتھ میں ایک سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو آپ چوم رہے تھے اور روتے جاتے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کیسی خاک ہے تو فرمایا کہ جبرئیل نے مجھ کو خبر دی ہے کہ میرا یہ حسین(ع) زمین عراق پر قتل کیا جاۓ گا اور اسی زمین سے یہ خاک میرے واسطے لاۓ ہیں۔ لہذا میں اپنے حسین(ع) کے اوپر پڑنے والی مصیبتوں پر گریہ کررہا ہوں۔ پھر وہ خاک ام سلمہ کے سپرد کی اور فرمایا کہ جب تم دیکھنا کہ یہ مٹی خون ہوگئے ہے تو سمجھ لینا کہ میرا حسین(ع) قتل کردیا گیا۔ چنانچہ ام سلمہ نے وہ مٹی ایک شیشی میں رکھی اور اس کی نگرانی کرتی رہیں یہاں تک کہ سنہ۶۱ہجری میں عاشورہ کے روز دیکھا کہ وہ خاک خون آلود ہوگئی ہے اور جان لیا کہ حسین ابن علی علیہما السلام شہید ہوگئے۔ آپ کے اکابر علمائ اور فقہاۓ شیعہ کی معتبر کتابوں میں تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ اس خاک پاک پر حضرت رسولِ خدا صلعم اور عدیل قرآن ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی خاص توجہ تھی اور ریحانہ رسول حضرت سید الشہدائ کی شہادت کے بعد جس نے سب سے پہلے اس خاک کو تبرک سمجھ کر اٹھایا وہ امام چہارم سید الساجدین حضرت زین العابدین علی بن الحسین علیہما السلام تھے۔ جنہوں نے اس خاک پاک کو ایک تھیلی میں محفوظ کیا، آپ اس کے اوپر سجدہ بھی کرتے تھے اور اسی کی تسبیح بنا کر اس پر ذکرِ خدا بھی فرماتے تھے۔

آپ کے بعد تمام ائمہ طاہرین اس خاک کو تبرک سمجھتے رہے، اس کی تسبیح اور سجدہ گاہ بناتے رہے، خود اس پر سجدہ کرتے رہے اورواجب کی نیت سے نہیں بلکہ ثواب عظیم پر فائز ہونے کے لئے شیعوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے رہے یہ حضرات پوری تاکید کے ساتھ حکم دیتے تھے کہ خدا کے لئے صرف پاک زمین پر سجدہ ہونا چاہیئے لیکن حضرت سید الشہدائ کی تربت پر افضل اور زیادتی ثواب کا باعث ہے۔

چنانچہ شیخ الطائفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسی علیہ الرحمہ مصباح المتہجد میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تھوڑی تربت امام حسین(ع) ایک زرد کپڑے میں رکھے ہوۓ تھے جس کو نماز کے وقت کھول کر سامنے رکھ لیتے تھے اور اسی پر سجدہکرتے تھے۔

شیعہ ایک مدت تک اسی طریقے سے یہ مٹی اپنے پاس رکھتے رہے، پھر اس خیال سے کہ ب ادبی نہ ہو اس کو پانی میں گوندھ کر تختیوں اور ٹکڑوں کی شکل میں لے آۓ جس کو آج مہر کہا جاتا ہے، ہم لوگ اس کو محض تبرکا اور تیمنا اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور نماز کے موقع پر بقصد وجوب نہیں بلکہ زیادتی فضیلت کے لئے اس پر سجدہ کرتے ہیں ورنہ اکثر اوقات جب وہ خاک پاک کی مہر ہمارے ساتھ نہیں تھی ہم نے زمین یا پاک پتھر پر سجدہ کیا ہے۔ اور عمل واجب بھی ادا ہوگیا ہے۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ سنہ۱۳۸۴ہجری میں جب مجھ کو حج بیت اللہ کیتوفیق حاصل ہوئی اور میں ہوائی جہاز کے ذریعے بیروت سے (باقی برصفحہ ۲۷۶)

۲۷۵

آیا یہ مناسب ہے کہ اتنی سادہ اور صاف بات کے لئے آپ لوگ اس قدر طوفان کھڑا کریں، یہاں تک کہ ہم کو کافر و مشرک اور بت پرست بھی بنائیں اور بیچارے ناواقف عوام کو دھوکے میں ڈالیں؟ جس طرح سے کہ آپ لوگ اپنے ائمہ اور فقہائ کے فتاوی پر ( جو اکثر حقیقت سے دور بلکہ آیات قرآن کی صراحت کے برخلاف بھی ہوتے ہیں) عمل کرتے ہیں اور ان کے قول و فعل کو حجت اور اپنا لائحہ عمل قرار دیتے ہیں اسی طرح ہم بھی عترت طاہرہ اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے احکام و ہدایات پر عمل کرتے ہیں البتہ فرق یہ ہے کہ آپ کے پاس پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک حکم بھی ایسا نہیں ہے کہ نعمانی یا محمد یا احمد یا مالک کی

ہدایتوں اور فتوؤں پر عمل کرنا تمہارا فرض ہے، سوا اس کے کہ آپ ان کو فقہاۓ اہل سنت میں سے ایک فقیہ سمجھ سکے ان کی پیروی کرتے ہیں۔

لیکن ہم خود رسول اللہ صلعم کی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں کیونکہ آں حضرت(ص) نے باربار ارشاد فرمایا ہے کہ ہمارے ائمہ عترت اوراہل بیت عدیل قرآن، سفینۃ نجات اور باب حطہ ہیں۔ ان کی اطاعت و پیروی ذریعہ نجات اور ان سے دوری و

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ صفحہ قبل) مدینہ منورہ پہنچا تو غروب آفتاب میں ایک ساعت باقی تھی اور نماز کا وقت تنگ تھا لہذا میں اسی میدان میں نماز کے لئے کھڑا ہوگیا۔ ملا زمین وغیرہ کا ایک بڑا

مجمع میرے قریب اکٹھا ہوگیا اور سب میرے سجدے کرنے کو غور سے دیکھنے لگے۔جب انہوں نے دیکھا کہ میرے پاس سجدہ گاہ نہیں ہے اور میں زمین پر سجدہ کررہا ہوں تو ان کو بہت تعجب ہوا اور جب میں سلام پڑھ چکا تو ان کے بڑے بوڑھے لوگ میرےچاروں طرف جمع ہو کر پوچھنے لگے کہ کیاتم بت پرست شیعوں میں سے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ شیعہ ہونے کا فخر حاصل ہے لیکن ہم لوگ بت پرست ہرگز نہیں ہیں بلکہ موحد اور خدا پرست ہیں آپ لوگوں کا یہ کہنا شیعوں کے اوپر ایک تہمت ہے کیونکہ یہ لوگ سب اہل توحید اور پاک دل ہیں۔ انہوں نے کہا ہم نے اکثر اسی مقام پر ان کیبغلوں سے بتوں کا نکال کر توڑا ہے، تم کیسے شیعہ ہوکہ بت اپنے ساتھ نہیں رکھتے؟ میں نے کہا یہ الفاظ محض اشتباہ اور ایک بہت بڑی تہمت ہیں شیعہ بت اور بت پرستی سے بیزار ہیں، لیکن چونکہ بحکم قرآن ہم اس کے پابند ہیں کہ پاک زمین پر سجدہ کریں لہذا خاک کے ٹکڑے اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ جس مقام پر پاک زمین ممکن نہ ہو وہاں اس خاک پر سجدہ کرلیں چنانچہ اس وقت جب کہ اس میدان کی ساری زمین پاک ہی ہے ہم کو اس خاک پاک کی کوئی احتیاج نہیں ہے اور آپ لوگوں نے دیکھ لیا کہ میں نے اسی زمین پر سجدہ کیا ہے، اس قسم کی تمہتیں صدیوں سے خوارج اور نواصب کی زبانوں پر جاری ہوئیں جو مسلمانوں کے اندر پھوٹ اور تفرقہ ڈالنا چاہتے تھے، یہاں تک کہ آج آپ جیسے براداران اہل سنت بھی ان کے فریب میں مبتلا ہیں اور اور اپنے شیعہ بھائیوں کو مشرک و بت پرست کہتے ہیں۔ غرضیکہ میں نے غروب تک اس بڑے مجمع سے جس میں زیادہ تر وہابی تھے اس طرح گفتگو کیکہ سب کے سب کافی متاثر ہوۓ اور انہوں نے استغفار کیا اس کے بعد مجھ سے مصافحہ اور معانقہ کر کے رخصت ہوۓ۔ فاعتبروا یا اولی الالباب۔

۲۷۶

سرکشی موجب ہلاکت ہے، جیساکہ ہم گذشتہ راتوں میں بعض احادیث کی طرف اشارہ بھی کرچکے ہیں۔ پس ان مقدس ہستیوں کا قول وفعل بحکم رسول(ص) ہمارے لئے حجت ہے اور اسی بنا پر ہم ان کی ہدایتوں کی پیروی کرتے ہوۓ استجابا یہ عمل کرتے ہیں۔

علمائ اہلِ سنت کا عمل تعجب خیز ہے

البتہ تعجب تو آپ کے علمائ پر ہے کہ ائمہ اربعہ اور دوسرے فقہاء کے عجیب و غریب فتوؤں پر قطعا کوئی اعتراض نہیں کرتے یعنی اگر امام اعظم اگر کہہ دییں کہ پانی نہ ملنے پر نبیذ سے وضو کرنا چاہیئے تو شافعی، مالکی اور حنبلی حضرات کو کوئی اعتراض نہیں، اگر امام احمد حنبل خداۓ تعالیٰ کی رؤیت کے قائل ہوجائیں اور عمامے پر مسح کرنے کو جائز سمجھیں تو دوسرے فرقے اس پر کوئی گرفت نہ کریں اور اسی طرح کے دوسرے حیرت انگیز اور نئے نئے فتاوی پر جیسے سفر میں نا بالغ لڑکوں سے نکاح کرنے یا فضلے اور نجاست پر سجدہ کرنے یا کپڑا لپیٹ کر ماؤں سے ہمبستری کرنے اور اسی قسم کے دوسرے مسائل پر کسی کو رد و قدح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔(۱)

لیکن جس وقت یہ کہہ دیا جاۓ کہ ائمہ عترت رسول (ص) نے فرمایا ہے کہ کربلا کی خاک پاک پر سجدہ کرنا

دوسری زمینوں پر سجدہ کرنے سے افضل باعث اضافہ ثواب اور مستحب ہے تو آپ حضرات داد و فریاد اور شور وہنگامہ برپا کردیتے ہیں کہ شیعہ مشرک اور بت پرست ہیں۔ اور اس طرح باہمی نفاق کا بیج بوکر برادر کشی کا فتنہ ابھارتے ہیں اور غیروں کے غلبے اور تسلط کا راستہ کھول دیتے ہیں۔

درد دل بہت ہے جس کو چھوڑ کر آگے بڑھتا ہوں اور پھر اصل مطلب کی طرف آکر آپ کو جواب شروع کرتا ہوں ہماری یہ مظلومانہ فریاد روز قیامت رسول اللہ(ص) کے سامنے اثر دکھاۓ گی۔

پانچویں آپ نے بڑھاپے اور اجماع کے سلسلے میں بیان فرمایا ہے کہ پیرانہ سالی کی وجہ سے ابوبکر کو فوقیت اور تقدم کا حق حاصل تھا۔ تو یہ بھی آپ کی بہت بے لطفی کی بات ہے کہ دس راتوں کے بعد جب کہ میں قطعی طور پر عقلی اور نقلی دلائل سے اجماع او بڑھاپے کی دلیلوں کو باطل ثابت کرچکا، اب پھر آپ از سرِ نو وہی بات دھرا رہےہیں اور چاہتے ہیں کہ مطلب کی تکرار کر کے جلسہ کا وقت لیں۔ باوجودیکہ میں گزشتہ شبوں میں کافی اور مسکت جوابات دے چکا ہوں لیکن اس وقت بھی آپ کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑوں گا۔ آپ نے خلیفہ اول ابوبکر کے حق تقدم کے اوپر سیاسی سوجھ بوجھ اور ورازی سن کی جو دلیل قائم کی ہے اس کےبارے میں عرض ہے کہ یہ کیسی بات ہے کہ اور لوگ تو اس بات کی تہ تک پہنچ گئے کہ بڑے کام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ ملاحظہ ہوں کتب فقیہہ اہل سنت، فتاوی قاضی خان، ہدایتہ اور بحر الرائق شرح کنز الدقائق وغیرہ۱۲۔

۲۷۷

کے لئے انسان کو بوڑھا اور سیاسی ہونا ضروری ہے لیکن خدا اور اس کےرسول(ص) کی سمجھ میں یہ معاملہ نہ آیا اور انہوں نے سورہ برائت کی ابتدائی آیتوں کی تبلیغ میں ابوبکر جیسے بوڑھے اور سیاسی آدمی کو معزول کر کے علی(ع) جیسے جوان شخص کو مقررفرمایا؟

نواب : قبلہ صاحب! معاف فرمائیےگا میں آپ کی گفتگو میں دخل دے رہا ہوں۔ اس قضیے کو مبہم نہ چھوڑیئے پہلے بھی ایک شب میں آپ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ کہاں اور کس کام کےسلسلے میں خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ معزول اور علی کرم اللہ وجہہ معین کئے گئے؟ جب ہم نے ان حضرات ( اپنے علمائ کی طرف اشارہ) سے دریافت کیا تو انہوں نے گول جواب دے دیا کہ کوئی اہم معاملہ نہیں تھا۔ گذارش ہے کہ اس کی وضاحت فرمادیجئے تاکہ یہ معما حل ہوجاۓ۔

تبلیغ سورہ برائت میں ابوبکر کی معزول اور علی(ع) کا تقرر

خیر طلب: جمہور امت اور فریقین (شیعہ و سنی) کے علمائ و مئورخین اس کے قائل ہیں کہ جب سورہ برائت کی ابتدائی آیتیں مشرکین کی مذمت میں نازل ہوئیں تو رسول اللہ(ص) نے ابوبکر کو بلا کر دس (۱۰) آیتیں ان کے سپرد کیں اور ان کو مکہ معظمہ لے جائیں اور موسم حج میں اہل مکہ کے سامنے پڑھیں ابھی یہ چند ہی منزلیں طے کرنے پاۓ تھے کہ جبرئیل امین نازل ہوۓ اور عرض کیا یا رسول اللہ(ص) :

"ان الله یقرئکالسلامیقوللن‏ يؤدّي‏ عنك‏ إلّا أنت أو رجل منك"

یعنی خداۓ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ کی طرف سے ہرگز کوئی شخص تبلیغ رسالت نہیں کرسکتا، سوا آپ کے یا اس مرد کے جو آپ سے ہو۔

چنانچہ پیغمبر(ص) نے علی علیہ السلام کو بلایا اور اس خاص مہم پر مقرر کر کے فرمایا کہ جاؤ جس مقام پر ابوبکر مل جائیں ان سے آیات برائت واپس لے لو۔ اور خود جاکر مشرکین اہل مکہ کے سامنے ان کی تلاوت کرو، علی علیہ السلام فورا روانہ ہوگئے۔ منزل ذوالحلیفہ میں ابوبکر سے ملاقات ہوئی، ان کو رسول اللہ(ص) کا پیغام پہنچایا، ان سے آیتیں واپس لیں اور مکہ معظمہ پہنچ کے مجمع عام کے سامنےان آیات کو پڑھ کے پیغمبر(ص) کی طرف سے تبلیغ رسالت کا فرض انجام دیا۔ اس کے بعد آں حضرت(ص) کی خدمت میں مدینہ منورہ واپس آۓ۔

نواب: کیا ہماری معتبر کتابوں میں بھی یہ واقعہ درج ہے؟

خیر طلب: میں نے تو عرض کیا کہ اس پر امت کا اجماع ہے اور تمام شیعہ وسنی علمائ و مورخین اسلام نے بالاتفاق لکھا ہے کہ یہ واقعہ اسی طرح سے پیش آیا۔ لیکن آپ کے اطمینان قلب کے لئے چند کتابوں کے حوالے جو اس وقت میرے پیش نظر ہیں۔ عرض کئے دیتا ہوں تاکہ جب آپ ان پرغور کریں تو معلوم ہوجاۓ کہ یہ ایک اہم معاملہ تھا۔

بخاری نے اپنی صحیح جزئ چہارم و پنجم میں، عبدی نے جمع بین الصحاص الستہ جزئ دوم میں، بیہقی نے سنن ص۹ ، ص۲۲۴ میں، ترمذی نے جامع جلد دوم ص۱۳۵ میں، ابوداؤد نے سنن میں، خوارزمی نے مناقب میں، شوکانی نے اپنیتفسیر جلد دوم ص۲۱۹میں، ابن مغازلی فقیہہ شافعی نے فضائل میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص۱۷ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے

۲۷۸

ینابیع المودت باب۱۸ میں، روایت و اکابر علماۓ اہل سنت کے مختلف طریقوں سے، محب الدین طبری نے ریاض النضرہ ص۱۴۷ اور ذخائر العقبی ص۶۹ میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ خواص الامہ ص۳۲ میں ( ائمہ صحاح میں سے ایک رکن) امام عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص۱۴ میں اس سلسلے کی چھ حدیثیں، ابن کثیر نے تاریخ کبیر جلد پنجم ص۳۸ اور جلد ہفتم ص۳۵۷ میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد دوم ص۵۰۹ میں، جلال الدین سیوطی نے در المنثور جلد سوم ص۲۰۸ تفسیر آیت اول سورہ برائت میں طبری نے جامع البیان جلد دوم ص۳۲۳ میں، آلوسی نے روح المعانی جلد سوم ص۲۶۸ میں، ابن حجر مکی متعصب نے صواعق محرقہ ص۱۹ میں،ہیثمی نے مجمع الزوائد جلد ہفتم ص۲۹ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۶۲ ص۱۲۵ میں ابوبکر اور حافظ ابونعیم کی سند سے اور یہ روایت ابونعیم مسند حافظ دمشقی سے مختلف طریقوں کے ساتھ، امام احمد ابن حنبل نے مسند جلد اول ص۳، ص۱۵۱ جلد سوم میں ص۲۸۳ اور جلد چہارم ص۱۶۴، ص۱۶۵ میں، حاکم نے مستدرک جلد دوم کتاب مغازی ص۵۱ٍ اور اسی کتاب کی جلد دوم ص۳۳۱ میں، اور مولوی علی نقی نے کنز العمال جلد اول ص۲۴۶ تا ص۲۴۹ اور جلد ششم ص۱۵۴ فضائل علی علیہ السلام میں، غرضیکہ سبھی نے اس قضیے کو تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے اور عام طور سے اس کی صحت کی تصدیق کی ہے۔

سید عبدالحی : جس پیغمبر(ص) کا ہر قول و فعل خدا کی جانب سے تھا اس نے یہ منصب پہلے ہی سے علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کیوں نہیں کیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تبلیغ پر مامور کردیا تاکہ بعد کو خدا کا پیغام پہنچے، علی روانہ ہوں اور بوڑھے ابوبکر کو بیچ راستے سے پلٹائیں۔

ابوبکر کی معزولی اور علی(ع) کے تقرر کا ظاہری سبب

خیر طلب: چونکہ ہماری اور آپ کی کتابوں میں اس کا کوئی اصلی سبب منقول نہیں ہے لہذا ہم اس سے کماحقہ واقفیت نہیں رکھتے، لیکن عقلی طور پر میرا اندازہ ہے کہ اس تبدیلی کا مقصد دوسروں کے اوپر علی علیہ السلام کی برتری اور بزرگ منزلت کو ثابت کرنا تھا کہ تقریبا تیرہ سو چالیس برس کے بعد آج کی رات آپ کے لئے جواب موجود رہے اور آپ یہ نہ کہیں کہ پیرانہ سالی اور سیاسی مہارت کی وجہ سے خلات ابوبکر کو حق تقدم حاصل تھا، اگر ابتدا ہی میں یہ منصب علی علیہ السلام کو دے دیا گیا ہوتا تو یہ ایک معمولی سا معاملہ معلوم ہوتا اور ظاہری طور پر ہمارے لئے ممکن نہ ہوتا کہ اس حدیث کے ذریعے آپ کے مقابلے میں علی علیہ السلام کی فضیلت و کرامت ثابت کرسکیں، کیونکہ آپ نے اپنی یہ عادت بنا رکھی ہے کہ ہر اس حدیث کے لئے جو حضرت کی فضیلت اور منصب خلافت کا اثبات کرتی ہو کوئی نہ کوئی فضول سی تاویل ضرور کرتے ہیں چاہے وہ تاویل دوسری اکثر تاویلات کےمانند مضحکہ خیز ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس طرح سے علی علیہ السلام کی اعلی حیثیت اور باوجود کمسنی کے بوڑھے صحابہ کے اوپر آپ کی ترجیح اور حق تقدم ساری امت پر آج تک مکمل طور پر واضح ہو رہا ہے۔

۲۷۹

پہلے آں حضرت(ص) مذکورہ آیتیں ابوبکر کو دیتے ہیں، پھر ان کے چند منزل آگے بڑھ جانے کے بعد علی علیہ السلام کو اس وضاحت کےساتھ معین فرماتے ہیں کہ جبرئیل نے من جانب خدا مجھ کو مامور کیا ہے اور صاف صاف کہا ہے کہ "لن‏ يؤدّي‏ عنك‏ إلّا أنت أو رجل منك " (یعنی تمہاری طرف سے پیغام رسالت سوا تمہارے یا اس مرد کے جو تم سے ہو اور کوئی ہرگز نہیں پہنچا سکتا۔

پس ابوبکر کا جانا اور درمیان راہ سے واپس آنا دوسروں پر علی علیہ السلام کی برتری اور فوقیت کا ایک بڑا ثبوت بن جاتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ امر خداوندی کی تبلیغ یعنی نبوت و خلافت کو بڑھاپے اور جوانی سے کوئی ربط نہیں ہے۔ع

ہزار نکتہ باریک ترزمو اینجاست

اگر ابوبکر کا بوڑھا اور سیاسی ہونا ان کی فوقیت اور حق تقدم کو ثابت کرتا تھا تو ان کو ایسے مقدس کام سے قطعا معزول نہ ہونا چاہیئے تھا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پیغام رسالت کا پہنچانا پیغمبر(ص) اور خلیفہ پیغمبر(ص) ہی کا کام ہے۔

سید : بعض روایتوں میں ابوہریرہ سے منقول ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ مکے جائیں، ابوبکر لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دیں اور علی آیات سورہ برائت کی تلاوت کریں، پس اس صورت سے پیغام رسالت پہنچانے میں دونوں باہم مساوی تھے۔

خیر طلب: اول تو یہ روایت بکرئین کی گڑھی ہوئی ہے اس لئے کہ دوسروں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے۔ دوسرے ابوبکر کی معزول اور ابلاغ رسالت کے لئے علی علیہ السلام کے تنہا مکے بھیجا جانے پر ساری امت کا اجماع ہے اور یہ مخالف وموافق مذاہب کی صحاح و مسانید میں معتبر اسناد کے ساتھ تواتر کی حد ثابت ہے۔ دیہی چیز ہے کہ کثیر التعداد صحیح ومستند احادیث سے تمسک کرنے پر جمہور امت کا اتفاق ہے اور اگر کوئی خبر واحد ان صحاح کثیرہ کے خلاف ہو تو آپ خود بہتر جانتے ہیں، کہ محدثین اور اصولیین کے قاعدے سے اس کو ترک اور رد کردینا واجب ہے۔ اگر وہ خبر واحد صحیح بھی ہو تو مظنون ہے اور مظنون کے لئے معلوم کا ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ پس ابوبکر کی معزولی، علی علیہ السلام کی تعیین، ابوبکر کا رنج وغم کی حالت میں مدینے پلٹنا، ان سے پیغمبر(ص) کی گفتگو اور آں حضرت(ص) کا یہ کہہ کے مطمئن فرمانا کہ حکم خدا اسی طرح سے تھا، یہ سب روایئی مسلمات میں سے ہیں۔ نیز اپنی جگہ پر اس کی ایک مکمل دلیل ہے کہ حق تقدم کا کہنہ سالی اور پیری سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ عقلی و نقلی دلائل سے ثابت ہے کہ امت اور جماعت انسانی کے اندر تقدم اور فوقیت کا حق علم و دانش اور تقوی سے حاصل ہوتا ہے۔ افراد بشر میں سے جو فرد علم وفضل اور تقوی کے حیثیت سے برتری رکھتی ہو، قوم کے اندر اسی کو ترجیح اور تقدم کا حق ہوگا کیوں کہ آپ کا ارشاد ہے"الناس موتیٰ واهلالعلماحیائ "( یعنی تمام لوگ مردہ ہیں اور صاحبان علم زندہ ہیں)

اسی بنا پر رسول خدا صلعم نے علی علیہ السلام کو دوسرے صحابہ پر مقدم رکھا اور فرمایا علی میرے علم کا دروازہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ(ص) کا باب علم دوسروں سے مقدم ہوگا اگر چہ پیغمبر(ص) کے جو اصحاب آں حضرت(ص) کی اطاعت پر ثابت قدم رہے وہ بھی

۲۸۰

فضیلتوں کے حامل تھے اور ہم فضائل صحابہ کے منکر نہیں ہیں لیکن ان کے فضائل باب علم پیغمبر(ص) کا مقابلہ ہرگز نہیں کرسکتے۔ کیونکہ آپ کا مقام و مرتبہ سب سے افضل ہے۔

اگر صحابہ میں سے کسی فرد کو حق تقدم اور ترجیح حاصل ہوتی تو رسول اللہ(ص) قطعا امت کو اس کی پیروی کا حکم دیتے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک امر الہی ہے جس کو پیری اور جوانی سے ہرگز ربط نہیں ہے بلکہ خداوند عالم جس شخص کو اس مںصب کے لائق پاتا ہے اسی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے چاہے وہ بوڑھا ہو یا نوجوان۔

پیغمبر(ص) کا علی(ع) کوعہدہ قضاوت پریمن بھیجنا

چنانچہ عام طور پر آپ کے اکابر علمائ نے علی علیہ السلام کو اہل یمن کی ہدایت اور قضاوت کے لئے بھیجے جانے کو تفصیل سے نقل کیا ہے بالخصوص ( ائمہ صحاح ستہ میں سے) امام ابوعبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی کے اندر اس بارے میں چھ حدیثیں درج کی ہیں۔ نیز ابوالقاسم حسین بن محمد راغب اصفہانی نے محاضرات الادبائ جدل دوم ص212 میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے، جس کا خلاصہ مع سلسلہ اسناد یہ ہے کہ جس وقت رسول خدا صلعم نے علی علیہ السلام کو مامور فرمایا کہ قضاوت اور ہدایت خلق کے لئے یمن جائیں تو آپ نے عرض کیا کہ میں جوان ہوں آپ مجھ کو قوم کے بوڑھے لوگوں پر کیوں مقرر فرما رہے ہیں؟ آن حضرت(ص) نے فرمایا

" فان اللّه تعالى يهدي قلبك و يثبت‏ لسانك‏."( یعنی عنقریب خدا ( علم قضا میں) تمہاری رہنمائی کرے گا اور تمہاری زبان کو قائم کرے گا اگر فوقیت کے لئے کمسن ہونا ضروری تھا تو بزرگان صحابہ اور ابوبکر جیسے بوڑھے اور سن رسیدہ اشخاص کی موجودگی میں علی علیہ السلام کو کس لئے یمن والوں کی قضاوت و ہدایت پر مامور فرمایا؟ پس معلوم ہوا کہ امت کا قاضی اور ہادی بننے میں عمر کی کمی و بیشی اور پیری وجوانی کو کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ فقط علم و فضل، تقوی اور خصوصیت کے ساتھ نص کا ہونا لازمی ہے۔

پیغمبر(ص) کے بعد علی(ع) امت کے ہادی تھے

اور ایسی نص قرآن و احادیث میں سوا علی علیہ السلام کے اور کسنی کے لئے نہیں تھی۔ چنانچہ آیت نمبر8 سورہ نمبر13 ( رعد) میں پیغمبر(ص) سے کھلا ہوا خطاب ہو رہا ہے کہ:

"إِنَّما أَنْتَ‏ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ" ( یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تم ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما ہے اور وہ ہادی ورہنما پیغمبر(ص) کے بعد علی(ع) اور عترتِ رسول ہے، جیسا کہ امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، محمد بن جریر طبری ا پنی تفسیر میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالبباب 62 میں اسناد تاریخ

۲۸۱

ابن عساکرسے اور شیخ سلیمان حنفی نیابیع المودت آخر باب 26 میں ثعلبی، حموینی، حاکم ابوالقاسم حسکانی، ابن صباغ مالکی، میر سید علی ہمدانی اور مناقب خوارزمی سے ابن عباس، حضرت امیرالمومنین اورابوبریدہ اسلمی کے اسناد کے ساتھ مختلف الفاظ و عبارات میں گیارہ حدیثیں نقل کی ہیں، اور ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ و آلہ و سلم نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا انا : " أنا المنذر "( یعنی میں ڈرانے والا ہوں) پھر علی علیہ السلام کے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا :

" و انت‏ الهادى‏ بك يا على يهتدى المهتدون من بعدى‏"(یعنی تم ( میرے بعد اس امت کے) ہادی ہو اور تم سے ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔

اگر ایسی کوئی نص دوسروں کے بارے میں بھی آئی ہوتی تو یقینا ہم ان کی پیروی کرتے، لیکن چونکہ یہ خصوصیت صرف علی علیہ السلام کو عطا کی گئی ہے لہذا ہم بھی مجبور ہیں کہ انہیں بزرگوار کی اطاعت کریں اور پیروی و جوانی پر نظر نہ کریں۔

دشمنوں کی سازشیں اور مجازی و حقیقی سیاست میں فرق

اور جو آپ نے یہ فرمایا ہے کہ علی علیہ السلام جوان اورناتجربہ کار تھے لہذا خلافت کی طاقت و قدرت نہیں رکھتے تھے، چنانچہ پچیس سال کے بعد بھی جب مسند خلافت پر آئے تو آپ کی سیاسی ناواقفیت کی وجہ سے اس قدر اس قدر خوں ریزیاں اور انقلابات برپا ہوئے۔ تو میں نہیں جانتا کہ آپ نے یہ بیان عمدا دیا ہے یا سہوا، یا محض اپنے اسلاف کی پیروی مقصود ہے؟ ورنہ ایک نکتہ رس عالم ہرگز ایسے الفاظ منہ سے نہیں نکالے گا۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر آپ حضرات کی نظر میں سیاست کا مطلب کیا ہے؟ اگر جھوٹ بولنا، حیلہ سازی کرنا۔ سازش کر جال بچھانا، حق و باطل کو خلط ملط کردینا اور نفاق پر عمل کرنا مراد ہے( جیسا کہ ہرزمانے کے دنیا دار لوگ اپنے اقتدار اور منصب کو محفوظ رکھنے کے لئے اس پر عامل رہے اور ہیں) تو میں تصدیق کرتا ہوں کہ علی علیہ السلام اس قسم کی سیاست سے بہت دور تھے اورآپ ہرگز اس معنی میں سیاسی انسان نہیں تھے۔ کیونکہ ایسا طریقہ کار و حقیقت سیاست نہیں ہے بلکہ سراپا شرارت، مکاری، فریب کاری، حیلہ جوئی اور جعل سازی ہے جس پر دنیا پرست لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے اور اپنے جاہ و ثروت کا تحفظ کرنے کے لئے عمل پیرا ہوتے ہیں۔

حقیقی سیاست یہ ہے کہ عدل و اںصاف کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے ہرکام کو اس کے صحیح محل پر انجام دیا جاۓ ایسی سیاست ان حق پرست لوگوں کے یہاں نشو ونما پاتی ہے جو فانی جاہ و منصب کے طالب نہیں ہیں بلکہ ان کی خواہش صرف یہ ہے کہ حق کا رواج ہو، لہذا حضرت علی علیہ السلامجو حق و حقیقت، عدالت و اںصاف اور صداقت صلاحیت کے مجسمہ تھے اس طرح کی سیاست سے الگ تھے جس پر دوسرے لوگ کار بند تھے۔

۲۸۲

چنانچہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ جس وقت آپ کو خلافت ظاہری حاصل ہوئی تو فورا تمام پچھلے حکام اور کارندوں کو معزول کردیا۔ عبداللہ ابن عباس(آپ کے ابن عم) اور دوسرے لوگوں نے عرض کیا کہ بہتر ہوگا اگر آپ یہ حکم چند روز کے لئے ملتوی فرمادیں تاکہ ساری ریاستوں اور دلایتوںکے حکام و عمال آپ کے اقتدار خلافت کو تسلیم کرلیں، اس کے بعد آہستہ آہستہ ان کی معزولی کا فرمان نافذ فرمائیں۔

حضرت نے فرمایا، تم نے ظاہری سیاست کا لحاظ کرتے ہوتے یہ مشورہ دیا ہے لیکن یہ بھی جانتے ہو کہ اس ظاہری سیاست کے خیال سے میں جتنے زمانے تک ظالم و جابر حکام کو ان کے عہدوں پر باقی رکھوں گااور ان کی بقا پر راضی رہوں گا چاہے وہ وقتی اور ظاہری حیثیت سے کیوں نہ ہو، خدا کے نزدیک ان کے اعمال کا ذمہ دار قرار پاؤں گا اور موقف حساب میں مجھ کو اس کا جواب دینا پڑے گا؟

قطعی طور پر سمجھ لو کہ علی(ع) سے ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا۔

غرضیکہ عدل و انصاف کی حفاظت کے لئے فورا ان کی معزولی کے احکام روانہ فرماۓ اور یہی فرمان معاویہ اور طلحہ و زبیر وغیرہ کی مخالفت کا باعث ہوا،جنہوںنے علم بغاوت بلند کر کے نفسانی خواہشات اور شیطانی خیالات کی بنا پرانقلاب اور خون ریزی کا بازار گرم کیا۔

طبری نے اپنی تاریخ میں، ابن عبدربہ نے عقد الفرید میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نیز اوروں نے نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام بار بار یہی فرماتے تھے کہ اگر مجھے دین و تقوی نے اور عدل و انصاف کا لحاظ نہ ہوتا تو میں تمام عرب سے زیادہ چالاکی اور مکاری کرسکتا تھا اور میری ہوشیاری سب سے بڑھی ہوئی تھی۔

محترم حضرات! آپ کو دھوکا ہوا ہے اور بغیر تحقیق کے غلط پروپیگنڈے کے شکار ہورہے ہیں جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ حضرت کے زمانہ خلافت کا انقلاب اورلوگوں کی پراگندگی آپ کے سیاست نہ جاننے کے وجہ سے تھی۔ در آں حالیکہ حقیقت یہ نہیں تھی بلکہ کچھ دوسرے ہی وجود و اسباب کام کررہے تھے جن کی پوری تفصیل تو اس تنگ وقت میں پیش نہیں کی جاسکتی لیکن آپ کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتا ہوں تاکہ یہ معما حل ہوجاۓ۔

امیرالمومنین(ع) کے دورِ خلافت میں انقلاب کے اسباب

اولا تو تقریبا پچیس سال تک جن لوگوں کو حضرت سے کینہ اور بغض و عداوت رکھنے کی تربیت دی جاچکی تھی ان کے لئے بہت مشکل تھا کہ دفعتا سب کے سب آپ کی ولایت و خلافت پر رضامند ہوکر آپ کی بلند منزلت کی تصدیق کریں (چنانچہ خلافت کے پہلے ہی روز اس زمانے کے شریف زادوں میں سے ایک صاحب مسجد کے دروازے سے داخل

۲۸۳

ہوۓ اور حضرت کو منبر پر دیکھا تو بآواز بلند کہا کہ اندھی ہوجاۓ وہ آنکھ جو بجاۓ خلیفہ عمر کے علی کو منبر کے اوپر دیکھے)

دوسرے دنیا طلب لوگوں کے لئے حضرت کے عدل و اںصاف کو قبول کرنا ممکن نہیں تھا( بالخصوص خلافت عثمان کے اندر حکومت بنی امیہ کے آخری برسوں میں جب کہ ان کو مکمل آزادی حاصل تھی) لہذا انہوں نے مخالفت کی آواز بلند کی تاکہ کوئی ایسا شخص برسر اقتدار آجاۓ جو ان کی دنیا پرستی اور ہوا و ہوس کے جذبات پورے کرسکے( چنانچہ خلافت معاویہ کے زمانے میں ان کی تمنائیں اور مرادیں بر آئیں اور دنیا طلبی کے مقاصد پورے ہوۓ) اسی بنائ پر طلحہ و زبیر نےپہلے تو بیعت کی لیکن جب حضرت سے حکومت کا تقاضا کیا اور وہ پورا نہیں کیا گیا تو فورا بیعت توڑ دی اور جنگ جمل کا فتنہ اٹھا کر کھڑا کردیا۔

تیسرے بہتر ہوگا کہ تاریخ کو ذرا غور سے پڑھئے اور انصاف کی نظر ڈالئے تو ظاہر ہو کہ ابتداۓ خلافت ہی سے فتنہ و فساد اور انقلاب انگیزی کا بانی کون تھا اور کس شخص نے لوگوں کو تحریص و ترغیب دے کر مخالفت اور بغاوت پر آمادہ کیا جس سے اس کثرت کے ساتھ خون ریزی ہوئی؟ آیا وہ شخص علاوہ ام المومنین عائشہ کے کوئی اور تھا؟ آیا وہ عائشہ ہی نہیں تھیں جو اسلام کے تمام شیعہ و سنی علمائ اور محدثین و مورخین کی شہادت کی روشنی میں اونٹ پر سوار ہوکر خدا و رسول کے اس فرمان کے برخلاف کہ اپنے گھر کے اندر بیٹھو) بصرہ پہنچیں اور انقلاب وفتنہ و فساد کی آگ بھڑکا کر لاتعداد مسلمانوں کا خون بہانے کی ذمہ دار ہوئیں؟

پس حضرت کی سیاسی ناواقفیت انقلاب اور فتنہ و فساد کا سبب نہیں بنی بلکہ پچیس سال تکتربیت پاۓ ہوۓ لوگوں کا طرزِ عمل ام المومنین عائشہ کی عداوت اور کینہ اور دنیا طلب اشخاص کی حرص و ہوس انقلاب اور خون ریزی کی باعث ہوئی۔

چوتھے آپ نے اشارہ کیا ہے کہ اندرونی لڑائیاں اور خون ریزیاں حضرت کی سیاسی کمزوری کی وجہ سے رونما ہوئیں تو یہ بھی ایک بہت بڑا اشتباہ ہے جو آپ نے بغیر تاریخ پر غور کئے بیان کیا ہے۔

اول تو عقل و اںصاف سے جائزہ لینے کے بعد نظر ہی آجاتا ہےکہ ان اندرونی لڑائیوں اور خون ریزیوں کی بانی ام المومنین عائشہ تھیں جو پیغمبر(ص) کی صریحی ممانعت کے باوجود حضرت علی(ع) کے مقابلے پر اٹھ کھڑی ہوئیں اور تمام لڑائیوں اور قتل و خون ریزی کی جڑ ثابت ہوئیں۔ اس لئے کہ اگر عائشہ نے بغاوت نہ کی ہوتی تو اور کسی کو حضرت کے مقابلے پر آنے کی جرات ہی نہ ہوتی جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صاف صاف فرمادیا تھا کہ علی(ع) سے جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے۔ پس جس شخص نے لوگوں کو جرات دلائی اور حضرت سے جنگ کرنے پر تیار کیا وہ عائشہ تھیں،جنہوں نے جنگ جمل کی تشکیل کی اور علی علیہ السلام کے حق میں بیہودہ باتیں کہہ کے میدان جنگ کو گرمایا اور لوگوں کی ہمت بڑھائی۔

۲۸۴

جمل و صفین اور نہروان کے لئے پیغمبر(ص) کی پشین گوئی

دوسرے بصرہ اور صفین و نہروان میں منافقین و مخالفین سے آپ کی لڑائیاں وہی نوعیت رکھتی تھیں جو کفار کے مقابلے میں رسول اللہ(ص) کی جنگیں۔

شیخ: مسلمانون کے مقابلے میں لڑائیاں مشرکین سے لڑائیوں کے مانند کیوکر تھیں؟

خیر طلب: اس صورت سے کہ بنا بر ان اخبار و احادیث کے جن کو آپ کے اکابر علمائ نے مثلا امام احمد حنبل نے مسند میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں، سلیمان بلخی نے ینابیع المودت میں، امام عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، محمد ابن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب37 میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ ( مطبوعہ مصر) جلد اول ص67 میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلعم نے ناکثین و قاسطین و مارقین سے علی علیہ السلام کی جنگوں کی خبر دی ہے۔ جن میں ناکثین سے طلحہ و زبیر اور ان کے ساتھی، قاسطین سے معاویہ اور ان کے پیرو اور مارقین سے نہروان کے خوارج مراد تھے، یہ سب کے سب باغی اور واجب القتل تھے اور خاتم الانبیائ صلعم نے ان لڑائیوں کی خبر دیتے ہوۓ اسی کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ محمد ابن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب37 میں اسناد کے ساتھ ایک حدیث سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس( جرامت) سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ام المومنین ام سلمہ سے فرمایا:

" هذا علي بن أبي طالب لحمه‏ من‏ لحمي‏، و دمه من دمي، و هو مني بمنزلة هارون من موسى غير أنه لا نبي بعدي. و قال: يا أم سلمة اشهدي و اسمعي هذا علي أمير المؤمنين و سيد المسلمين و وعاء علمي، و بابي الذي أوتي منه، و أخي في الدنيا و الآخرة، و معي في السنام الأعلى، يقتل القاسطين و الناكثين و المارقين."

یعنی یہ علی ابن ابی طالب ہیں ان کا گوشت میرے گوشت سے اور ان کا خون میرے خون سے ہے اور یہ مجھ سے بمنزلہ ہارون ہیں موسی سے لیکن یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ اے ام سلمہیہ علی مومنین کے امیر مسلمانوں کے سردار، میرے علم کے مخزن، میرے وصی اور میرے علوم کے دروازہ ہیں جو ان سے حاصل ہوتے ہیں یہ دنیا و آخرت میں میرے بھائی اور مقام اعلیٰ میں میرے ساتھ ہیں۔ یہ ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ کریں گے۔

اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد محمد بن یوسف اس پر تبصرہ کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات

۲۸۵

پر پوری دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ نے علی علیہ السلام سے ان تینوں گروہوں کے ساتھ جنگ کا وعدہ کیا اور قطعا آں حضرت(ص) کا ارشاد برحق اور جو وعدہ فرمایا تھا وہ سچا تھا اور یقینا آں حضرت(ص) نے علی کو ان تینوں گروہوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا چنانچہ مخنف بن سلیم کی سند سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا، ابوایوب اںصاری ( جو رسول خدا(ص) کے بزرگ صحابہ میں سے تھے) ایک لشکر کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہوۓ تو میں نے ان سے کہا کہ اے ابوایوب تمہارا معاملہ عجیب ہے، تم وہی ہو جس نے رسول خدا(ص) کے ہمراہ مشرکین سے جنگ کی اور اب مسلمانوں سے جنگ کرنے پر تلے ہوۓ ہو۔ انہوں نے جواب دیا :

"ان رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله امرنى‏ بقتال‏ الناكثين و القاسطين و المارقين."

رسول اللہ(ص) نے مجھ کو تین گروہوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ ناکثین قاسطین اور مارقین ہیں۔

اورجو میں نے یہ عرض کیا کہ اہل بصرہ(جمل) معاویہ ( صفین) اور اہل نہروان سے امیرالمومنین علیہ السلام کی جنگیں اسی طرح کی تھیں جس طرح کفار و مشرکین سے رسول کی جنگ، تو آپ کے اکابر علمائ جیسے امام ابو عبدالرحمن نسائی خصائص العلوی حدیث، ص155 میں ابو سعیدخدری کی سند سے اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب10 ص59 میں جمع الفوائد سے بروایت ابوسعید نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا، ہم صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوۓ رسول اللہ(ص) کے منتظر تھے کہ ا تنے میں آں حضرت(ص) ہماری طرف اس حالت میں تشریف لاۓ کہ آں حضرت(ص) کی نعلین کا تسمہ کٹ گیا تھا۔ اس جوتی کو علیعلیہ السلام کی طرف ڈال دیا اور علی(ع) اس کو سینے میں مشغول ہوگئے، اس وقت آں حضرت(ص) نے فرمایا:

"إنّ‏ منكم‏ من‏ يقاتل‏ على تأويل القرآن كما قاتلت على تنزيله». فقال أبو بكر: أنا ؟ قال: «لا». فقال عمر: أنا ؟ قال: «لا، و لكنّه خاصف النعل"

یعنی یقینا تم میں سے ایک شخص وہہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی ہے۔ پس ابوبکر نے عرض کیا وہ شخص میں ہوں؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا نہیں۔ پھر عمر نے کہا میں ہوں؟ فرمایا نہیں، بلکہ جوتی سینے والا شخص ہے(یعنی علی علیہ السلام)۔

پس یہ حدیث ایک نص صریح ہے اس چیز پر کہ علی علیہ السلام کی جنگیں جہاد برحق اور قرآن مجید کی تاویل اور اس کے حقیقی مفہوم کی حفاظت کے لئے تھیں جیسا کہ رسول اللہ(ص) کی جنگیں قرآن کی تنزیل اور اس کے ظاہری نزول کے لئے تھیں یہ تینوں لڑائیاں جو علی علیہ السلام نے لڑیں ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں تھیں، کیونکہ اگرمسلمانوں سے جنگ ہوتی تو یقینا آں حضرت(ص) اس سے منع فرماتے نہ یہ کہ اس کے لئے حکم دیتے اور مخالفین کو ناکثین و قاسطین و مارقین کے ناموں سے یاد کرتے جو خود اپنی جگہ پر ان لوگوں کے ارتداد اور قرآن سے بغاوت کرنے کی دلیل ہے، جس طرح مشرکین قرآن کے مقابلے پر آچکے تھے معلوم ہوا کہ یہ سارے انقلابات اور لڑائیاں امیرالمومنین علیہ السلام کی سیاسی ناتجربہ کاری سے نہیں بلکہ مخالفین کے بغض و نفاق اور رسول اللہ(ص) کے قواعد و قوانین اور ہدایات پر ان کے توجہ نہ کرنے کے سبب سے تھیں۔ اگر آپ حضرات از روۓ علم و اںصاف اور غیر جانب داری کے ساتھ اس مکمل شرعی حکومت کے طور طریقے

۲۸۶

آپ کی پنج سالہ خلافت اور ان احکام پر جو آپ ولایتوں کے حکام اور فوجی وملکی افسروں کے نام صادر فرماتے تھے غور کیجئے ( مثلا وہ احکام و ہدایات جو حکومت مصر میں مالک اشتر اور محمد ابن ابی بکر کو، بصرے کی حکومت میں عثمان بن حنیف اور عبداللہ ابن عباس کو اور حکومت مکہ میں قثم ابن عباس کو نیز اپنے دوسرے عمال کو ان کی تقرری کے زمانے میں دیئے اور جو نہج البلاغہ کے اندر جمع ہیں) تو تصدیق کیجئے گا کہ رسول اللہ(ص) کے بعد علی علیہ السلام کا ایسا عادل اور قوم پرور سیاست دان چشم روزگار نے نہیں دیکھا، جس کا دوست و دشمن سبھی کواعتراف ہے۔ اس لئے کہ حضرت تقوی و پرہیزگاری میں امام المتقین تھے، علم ودانش میں کتاب اللہ کی تفسیر وتاویل، ناسخ و منسوخ ، محکم و متشابہ اور اس کے مجمل ومفصل کے اور اس کے علاوہ غیب و شہود کے عالم تھے۔

شیخ : میں اس مبہم جملے کے معنی نہیں سمجھا کہ آپ نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو غیب و شہود کا عالم کہہ دیا۔ غیب و شہود کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا، التماس ہے کہ وضاحب کے ساتھ بیان فرمائیے۔

خیر طلب: اس مطلب میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ علم غیب امور عالم کے باطنی حالات سے واقفیت اور کائنات کے پوشیدہ اسرار سے آگاہی کو کہتے ہیں جس کے عالم غیب الغیوب یعنی خداۓ عزوجل کے افاضات سے انبیائ اور ان کے اوصیائ تھے، البتہ ہرایک کو غیبی امور پر اسی حد تک آگاہی ملی جس قدر خداوند عالم نے ان کے لئے مناسب اور ان کے تبلیغات کے واسطے ضروری جانا اور خاتم الانبیائ(ص) کے بعد ایسے علم کی عالم امیرالمومنین علی (ع) کی ذات تھی۔

شیخ: جناب عالی سے مجھ کو یہ توقع نہیں تھی کہ غالی شیعوں کے باطل عقاید کو ( باوجودیکہ ان سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں) بیان کیجئے گا۔

بدیہی چیز ہے کہ یہ ایسی تعریف ہے جس سے خود صاحب تعریف بھی راضی نہیں اس لئے کہ علم غیب ذات باری تعالی کے مخصوص صفات میں سے ہے اور بندوں میں سے کوئی شخص اس میں دخل نہیں رکھتا۔

خیر طلب : آپ کی یہ گفتگو اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے جس میں عمدا یا سہوا آپ کے اسلاف مبتلا رہ چکے ہیں اور اب آپ بھی بغیر سوچے سمجھے اور غور و فکر کے انہیں کی پیروی میں یہ باتیںزبان پر جاری کررہے ہیں۔ اگر آپ تھوڑی دقت نظر سے کام لیتے تو حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے معلوم ہوجاتا کہ انبیاۓ عظام و اوصیاۓ کرام اور خدا کے برگزیدہ بندوں کے لئے علم غیب کا معتقد ہونا ہرگز غلو سے کوئی ربط نہیں رکھتا، بلکہ یہ تو ان کی ایک صفت اور ان کے لئےخالص مقام عبودیت کا اثبات تھا جس پر عقل و نقل اور قرآن مجید کی نص صریح شہادت دے رہے ہیں۔

۲۸۷

علم غیب سواۓ خدا کے کوئی نہیں جانتا

شیخ: یہ بے لطفی کی بات ہے کہ آپ نے قرآن کا حوالہ دیا ہے، حالانکہ قرآن کریم کی نص آپ کے اس بیان کے خلاف وارد ہوئی ہے۔

خیر طلب: میں بہت ممنوں ہوں گا جن آیات کو آپ مخالف بتارہے ہیں ان کی تلاوت فرمائیے۔

شیخ: قرآں کریم کے اندر کئی آیتیں ایسی ہیں جو میری اس گذارش پر گواہ ہیں۔ آیت نمبر59 سورہ6 ( انعام) میں صاف صاف ارشاد ہے:

" وَ عِنْدَهُ‏ مَفاتِحُ‏ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُها إِلَّا هُوَ وَ يَعْلَمُ ما فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ ما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها وَ لا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ وَ لا رَطْبٍ وَ لا يابِسٍ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِينٍ‏."

یعنی خزانہ غیب کی کنجیاں خدا کے پاس ہیں سوا خدا کےآگاہ نہیں ہے، نیز خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے اس سے واقف ہے اور درخت کا کوئی پتا نہیں گرتا ہے لیکن یہ کہ اس کو جانتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے اور نہ کوئی خشک و تر ایسا ہے جو کتاب مبین میں درج نہ ہو۔

یہ آیت دلیل قاطع ہے کہ سوا ذات پروردگار کے کوئی شخص علم غیب کا عالم نہیں ہے اور جو شخص غیر خدا کے لئے علم غیب کا قائل ہو اس نے غلو کیا اور ایک ضعیف بندے کو خدائی کی صفت میں شریک قرار دیا اور آں حالیکہ ذات الہی ذاتی اور مفاتی دونوں حیثیتوں میں شریک سے معرا و مبرا ہے۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ علم غیب سے واقف تھے تو علاوہ اس کے کہ آپ نے ان کو خدا کی مخصوص صفت میں شریک قرار دے دیا، ان کی منزل کو پیغمبر(ص) کی بلند منزل سے بھی اونچا کردیا، کیونکہ خود رسول اللہ(ص) مکرر فرماتے تھے کہ میں تمہارا ایسا ایک انسان ہوں۔ اور علم غیب کا عالم خدا ہے۔ اور آں حضرت(ص) صریحی طور پر علم غیب سے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے تھے۔ کیا آپ نے سورہ نمبر18(کہف) کی آیت 110 نہیں پڑھیں ہے جس میں ارشاد ہے کہ:

"قُل إِنَّما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ‏ يُوحى‏ إِلَيَّ- أَنَّما إِلهُكُمْ إِلهٌ واحِدٌ"( یعنی (اے رسول(ص)) امت سے کہہ دو کہ میں تمہارا ہی ایسا انسان ہوں(صرف فرق اتنا ہے کہ) مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ سوا اس کے نہیں ہے کہ تمہارا معبود خداۓ واحد ہے) ؟ نیز آیت نمبر188 ( اعراف) فرمایا ہے:

"قُلْ لا أَمْلِكُ‏ لِنَفْسِي‏ نَفْعاً وَ لا ضَرًّا إِلَّا ما شاءَ اللَّهُ وَ لَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَ ما مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَ بَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ"

یعنی (اے رسول(ص)) امتسے کہہ دو کہ میں اپنے نفع اور ضرر کا مالک نہیں ہوں سوا اس کے کہ جو خدا نے چاہا ہے۔ اور اگر میں(از خود) غیب کا عالم ہوتا تو اپنے لئے کثیر فائد مہیا کرلیتا اور کبھی نقصان و رنج نہ اٹھاتا میں صرف ایمان لانے والوں کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔

اور آیت نمبر33 سورہ نمبر11( ہود) میں فرماتا ہے:

" وَ لا أَقُولُ‏ لَكُمْ‏ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَ لا أَعْلَمُ الْغَيْبَ ..."

۲۸۸

یعنی میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ خدا کے خزانے میرے پاس ہیں اور نہ میں خود علم غیب سے آگاہ ہوں۔

مزید بر آں آیت 201 سورہ نمبر27( النمل) میں ارشاد ہے:

" قُلْ لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَ ما يَشْعُرُونَ أَيَّانَ‏ يُبْعَثُونَ‏."

یعنی (اے رسول(ص)) کہہ دو کہ آسمانوں اور زمین میں سوا خدا کے کوئی علم غیب سے آگاہ نہیں ہے اور یہ بھی شعور نہیں رکھتے کہ کب محشور ہوں گے۔

ایسی صورت میں کہ خود پیغمبر(ص) ان آیات شریفہ کے کھلے ہوۓ اعلان سے علم غیب نہ جاننے پر یقین رکھتے ہیں اور اس علم کو ذاتِ الہی کے مخصوصات میں سے سمجھتے ہیں، آپ کیونکر علی(ع) کے لئے ایسے علم کے قائل ہیں؟ پس اس عقیدے کا مطلب سوا اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ علی(ع) کی منزل پیغمبر(ص) کی منزل سے بالاتر ثابت کی جاۓ۔ آخر آپ کس قاعدے سے غیر خدا کے لئے علم غیب کے قائل ہیں؟ اگر علی(ع) کو خدا کا شریک قرار دینے والا آپ کا یہ عقیدہ غلو نہیں ہے تو پھر غلو کیا چیز ہے۔

خیر طلب: آپ کے بیانات کے مقدمات صحیح ہیں جو ہمارے لئے قابل قبول ہیں اور یہی ہم سب کا عقیدہ ہے لیکن ان سے آپ نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ ناقص ہے۔

انبیائ(ص) و اوصیائ(ع) کو علم غیب خدا کی طرف سے ملتا ہے

آپ نے فرمایا ہے کہ عالم غیب ذات پروردگار ہے۔ غیب کی کنجیاں خداۓ تعالیٰ کے پاس ہیں اور سورہ کہف کی آخری آیت کے پیش نظر خاتم الانبیائ حضرت رسول خدا صلعم تمام انبیاۓ عظام، اوصیاء کرام اور ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم اجمعین بھی دوسرے انسانوں کے مانند انسان ہیں جو اپنی جسمانی ساخت میں کوئی زیادتی نہیں رکھتے اور ان حضرات کے اجسام طاہرہ بھی اسی طرح پیدا ہوۓ ہیں جس طرح دوسروں کے تو اسمیں ہرگز کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور سارے فرقہ امامیہ کے یہی عقائد ہیں۔ نیز جو آیتیں آپ نے تلاوت کیں وہ سب اپنے اپنے محل پر صحیح ہیں۔ لیکن آپ نے سورہ ہود کی جو آیت پڑھی ہے وہ شیخ الانبیائ حضرت نوح علی نبینا و آلہ و علیہ وسلم کے بارے میں ہے۔ البتہ سورہ نمبر6( انعام) کی آیت نمبر50 ہمارے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) کے لئے مخصوص ہے، کیونکہ جب کفار و مشرکین آں حضرت سے علامتوں کا مطالبہ کرتے تھے کہ ان پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اترتا اور وہ مستقل غیب سے کیوں واقف نہیں ہیں؟ تو ان کے جواب میں یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی:

"

‏ قُلْ‏لا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَ لا أَعْلَمُ الْغَيْبَ- وَ لا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ- إِنْ‏ أَتَّبِعُ‏ إِلَّا ما يُوحى‏ إِلَيَ‏"

یعنی کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں، نہ یہ کہ میں عالم الغیب ہوں اور نہ اس کا مدعی ہوں کہ فرشتہ ہوں( میں فقط اتنا کہتا ہوں کہ ) میں صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جس کی مجھ پر وحی ہوتی ہے۔

اس آیہ مبارکہ کے نزول کا مقصد یہ تھا کہ جاہل لوگوں کی ہوس بازیوں کی روک تھام کی جاۓ تاکہ وہ جان لیں کہ خدائی

۲۸۹

کارخانہ اور نبوت و رسالت کی منزل اس سے بالاتر ہے کہ شعبدہ بازی کے اسٹیج کے مانند ان کو خوش کرنے اور ان کے مطالبات پورے کرنے کا ذریعہ بنے۔ رہا وہ علم غیب جس کے ہم انبیاء اور ان کے اوصیائ کے لئےقائل ہیں، وہ وہ خدائی کی صفت میں شریک نہیں ہے بلکہوحی والہام کا ایک حصہ ہے جو من جانب خدا ن حضرات پر نازل ہو کر ان کے سامنے سے پردے اٹھاتا تھا اورحقائق کو ان پر ظاہر کرتا تھا۔ بہتر ہوگا کہ ہم اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ مطالب کی تشریح کریں تاکہ حقیقت کھل جاۓ اور دھوکا دینے والے لوگ شیعوں کے عقائد میں بے جا دخل اندازی نہ کریں، ان پر تہمتیں نہ لگائیں اور یہ نہ کہیں کہ شیعہ اپنے اماموں کا علم خداوندی میں شریک سمجھتے ہیں لہذا مشرک ہیں۔

علم کی دو قسمین ہیں، ذاتی اور عرضی

ہماری شیعہ امامیہ جماعت کا اعتقاد یہ ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں ذاتی اور عرضی۔

علم ذاتی وہ ہے جس میں الگ سے قطعا کوئی چیز عارض نہیں ہوتی اور ایک فرد اکمل پر اس کا اطلاق انحصار ہے۔ یہ خداۓ عزوجل کی ذات سے مخصوص ہے اور ہم سوا اس اجمال اقرار کے اس کی حقیقت کا کوئی تصور کرنے سے قاصر ہیں ہم اس کی جو بھی تعبیر یا اندازہ کریں وہ چند محدود الفاظ سے زیادہ نہ ہوگا۔ ورنہ علم بالذات کی انسان عاجز کا احاطہ عقل و خیال میں سمائی نہیں ہوسکتی۔

اور علم عرضی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان پیغمبر(ص) ہو یا امت میں سے امام ہو ماموم، ذاتی طور پر علم کا مالک نہیں ہوتا بلکہ بعد کو اس سے مستفیض ہوتا ہے، اور اس کی بھی دو قسمیں ہیں، تحصیلی اور لدنی۔ یہ دونوں قسمیں خداوند عالم کے فیضان قدرت سے تعلق رکھتی ہیں۔ پہلی قسم میں جو طالب العلم تحصیل علم کرتا ہے اس کی کوششیں اس وقت تک بار آور نہیں ہوسکتیں جب تک فیضاں الہی اس کی تائید نہ کرے۔ اور چاہے جس قدر زحمت برداشت کرے عالم نہیں بن سکتا، سوا اس کے اسباب تعلیم یعنی مدرسہ جانے اور استاد کے آگے زانوۓ ادب تہ کرنے کے ساتھ ساتھ توفیق خداوندی بھی شاملِ حال ہو ایسی صورت میں جتنی مدت تک اور جس قدر مشقت برداشت کرے گا کسب فیض کرتا رہے گا۔

رہی دوسری قسم یعنی علم لدنی تو اس میں انسان بلا واسطہ کسب فیض کرتا ہے اور بغیر حروف و الفاظ کی تحصیل و تعلیم کے مبدا فیاض مطلق سے براہِ راست افاضہ ہوتا ہے جس سے وہ عام ہو جاتا ہے چنانچہ آیت نمبر64 سورہ نمبر18( کہف) میں ارشاد ہے:"وَ عَلَّمْناهُ مِنْ‏ لَدُنَّا عِلْماً "(یعنی ہم نے ان کو اپنے پاس سے علم لدنی ( اور اسرار غیب) کی غیب تعلیم دی۔)

کسی ایک شیعہ نے بھی اس کا دعوی نہیں کیا ہے کہ غیبی امور کا علم پیغمبر(ص) یا امام کا جزئ ذات تھا یعنی رسول اللہ(ص) اور ائمہ(ع) ذاتی حیثیت سے اسی طرح علم غیب کے عالم تھے جس طرح خداۓ تعالی عالم الغیب ہے۔البتہ جو ہم کہتے ہیں

۲۹۰

اور جو ہمارا عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ خداۓ بزرگ و برتر کی ذات مجبور اور محدود نہیں ہے بلکہ جو اس کی مشیت ہو اس میں سب سے زیادہ خود مختار اور قادر مطلق ہے اور جن مواقع پر اس کی مشیت و مصلحت کا تعلق ہو وہ اپنی کسی بھی مخلوق کو حسب ضرورت اور مناسب علم و قدرت دینے پر قادر و توانا ہے۔چنانچہ کبھی تو بشری معلم کے واسطے اور ذریعے سے اور کبھی بلا واسطہ اپنے فیض کا افاضہ فرماتا ہے اور اسی کو بلا واسطہ علم لدنی اور علم غیب سے تعبیر کرتے ہیں جس میں بغیر مکتب میں یا استاد کے پاس حاضری کے فیض حاصل کیا جاتا ہے۔ بقول شاعر؎

نگار من کہ بہ مکتب نہ رفت و خط نہ نوشتبغمزہ مسئلہ آموزِ صدر مدرس شد

شیخ : آپ کا مقدماتی بیان درست ہے لیکن مشیت خداوندی ایسے غیر فطری امر سے متعلق نہیں ہوتی کہ بغیر معلم اور مدرس کے اپنے علم غیب کا اضافہ کرے۔

خیر طلب: آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اسی مقام پر دھوکاہوا ہے کیونکہ کہ تھوڑے سے غور و فکر سے کام نہیںلیتے یہاں تک کہ اپنے اکثرمحققین علمائ کے برخلاف گفتگو کرتے ہیں، ورنہ مطلب اس قدر صاف اور واضح ہے کہ اس میں بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس حقیقت میں کہ خداۓ تعالی نے تمام انبیائ اور ان کے اوصیائ کو جو اس کے برگزیدہ بندے ہیں جس قدر ہر ایک کی استعداد اور حلقہ عمل کے لحاظ سے ضروری تھا علم غیب کا افاضہ فرمایا ہے۔ کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

شیخ : قرآن مجید کی ان منفی آیتوں کے مقابلے میں جو صریحی طور سے جملہ افراد بشر سے علم غیب کی نفی کر رہی ہیں۔ آپ کے پاس اپنے دعوے کے ثبوت میں کیا دلیل ہے؟

خیر طلب: ہم قرآن مجید کی منفی آیتوں کے مخالف نہیں ہیں، اس لئے کہ قرآن کی آیت ایک مخصوص امر کے لئے نازل ہوئی ہے جو صورتِ حال کے لحاظ سے کبھی منفی اورکبھی مثبت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے بزرگوں کا قول ہے کہ "آیات القرآن یشددد بعضها بعضا " یعنی آیات قرآن میں سے ایک آیت دوسرے کو مضبوط کرتی ہے۔ در اصل کفار مشرکین کے تقاضے کے مقابلے میں جو برابر آں حضرت سے علامات اور نشانیاں طلب کرتے رہتے تھے اور در حقیقت چاہتے یہ تھے کہ منصب نبوت کو اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنادیں) یہ منفی آیتیں نازل ہوتی تھیں لیکن اصل مقصد کو ثابت کرنے کے لئے مثبت آیات کا بھی نزول ہوا تاکہ حقیقت کا انکشاف ہوجاۓ۔ رہے قرآن مجید اخبار صحیحہ اور تاریخ کے دلائل جن کا آپ کے علمائ کو بھی اعتراف ہے حتی کہ غیروں نے بھی تصدیق کی ہے بکثرت ہیں۔

۲۹۱

انبیائ(ص) و اوصیائ(ع) کے علمِ غیب پر قرآنی دلائل

شیخ: سخت تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں دلیل مثبت قرآن کریم کے اندر ہے مہربانی کر کے وہ آیتیں پڑھئے۔

خیر طلب: تعجب نہ فرمائیے، آپ خود بھی واقف ہیں لیکن اقرار کرنا آپ کی مصلحت کے خلاف ہے،کیونکہ اس طرح آپ کو اپنے عقیدے کے مطابق خلافت کا ثبوت دینے میں بہت زحمت ہوجاۓ گی یا پھر اپنے اسلاف کی پیروی نے آپ کو تعجب پر مجبور کیا ہے۔ ارشاد الہی ہے :

"عالِمُ‏ الْغَيْبِ‏ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ‏ الخ".(سورہ جن آیت26 ( وہی اللہ) غیب داں ہے اور اپنی غیب کی بات کسی پر ظاہر نہیں کرتا مگر جس کو پسند فرماۓ تو اس کے آگے اور پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے تاکہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچا دئیے یہ آیت بتاتی ہے کہ حق تعالیٰ کے برگزیدہ مرسلین اس بارے میں مستثنی ہیں جن کو وہ علم غیب کا فیض پہنچاتا ہے۔

دوسرے یہی سورہ آل عمران کی آیت جس کا کچھ حصہ آپ نے پڑھا اور باقی چھوڑ دیا ہے، میرے دعوے اور مقصد ثابت کررہی ہے۔ پوری آیت یہ ہے:

"وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ‏ عَلَى‏ الْغَيْبِ‏ وَ لكِنَ‏ اللَّهَ‏ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشاءُ ‏ فَآمِنُوا بِاللَّهِ ‏ وَ تَتَّقُوا ‏ فَلَكُمْ‏ أَجْرٌ عَظِيمٌ‏"

یعنی اللہ تم سب کو علم غیب سے آگاہ نہیں کرتا لیکن اس کے لئے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے۔ یہ دونوں آیتیں صاف صاف بتارہی ہیں کہ چند برگزیدہ ہستیاں جو خدا کی طرف سے رسالت پر مبعوث ہوئی ہیں امر الہی سے علم غیب پر فائز ہیں۔ اور اگر ذات خداندی کے علاوہ کسی اور کو علم غیب حاصل نہ ہوتا تو لفظ الا کے ساتھ الا من ارتضی من رسول کا جملہ استثنائیہ مہمل ہوجاتا۔ ظاہر ہے کہ اس مقام پر کوئی استثنا ضرور موجود ہے اور ان صاحبان استثناء کو معین بھی فرمایا کہ وہ اس کے رسول اور پیغام رساں یعنی انبیاۓ عظام اور اوصیاۓ کرام تھے۔ (چنانچہ سورہ ہود )میں فرمااتا ہے:

"تِلْكَ‏مِنْ‏ أَنْباءِ الْغَيْبِ‏ نُوحِيها إِلَيْكَ ما كُنْتَ تَعْلَمُها أَنْتَ وَ لا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هذا"

یعنی یہ خبر اخبار غیب میں سے ہے جو میں تمہاری طرف وحی کے ذریعے بھیج رہا ہوں۔ اس سے قبل نہ تم اس سے واقف تھے نہ تمہاری قوم۔

اور سورہ شوری میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

" وَ كَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ‏ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ وَ لَا الْإِيمانُ وَ لكِنْ جَعَلْناهُ نُوراً نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشاءُ مِنْ عِبادِنا "

یعنی اور اسی طرح ہم نے روح یعنی ایک بزرگ فرشتے کو اپنے فرمان سے وحی کے لئے تمہاری طرف بھیجا تم ( علم تحصیلی سے ) یہنہیں جانتے تھے کہ کتاب خدا کیا چیز ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔ لیکن ہم نے اس کو نور علم دیا۔ جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں۔

کہ دنیا علم غیب کا افاضہ نہ ہوتا تو انبیائ(ع)

۲۹۲

کیونکر باطنی امور کی خبر دیتے اور لوگوں کو ان کے باطنی حالات سے مطلع کرتے؟ حضرت بنی اسرائیل سے فرماتے :"وَ أُنَبِّئُكُمْ بِما تَأْكُلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ‏ فِي بُيُوتِكُمْ" ( یعنی میں تم کو علم غیب سے اس کی خبر دیتا ہوں کہ تم اپنے گھروں میں کھایا کرتے ہو اور ذخیرہ کرتے ہو) آیا لوگوں کے اندرونی معاملات کی خبر دینا علم غیب سے تعلق نہیں رکھتا؟ اگر میں قرآن مجید کی وہ تمام آیتیں پیش کرنا چاہوں جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں تو جلسے کا وقت کافی نہ ہوگا میرا خیال ہے کہ ثبوت کے لئے اس قدر کافی ہوگا۔

شیخ: آپ لوگوں کے اسی قسم کے بیانات اور عقاید سے قوم کے اندر یایوں، جفاروں، نجومیوں، زائچہ بنانے والوں اسی طرح کے دوسرے فریب کاروں کے گروہ پیدا ہوگئے جو ناواقف لوگوں کو بیوقوف بنا کر اپنی جیبیں بھرتے اور خلق خدا کو گمراہی اور حق و حقیقت سے دوری کی طرف لے جاتے ہیں۔

سچے ذرائع سے علمِ غیب کے مدعی جھوٹے ہیں

خیر طلب : سچے عقائد بدبختی کے باعث نہیں ہوتے، یہ قوموں کی جہالت اور نادانی ہے جو ان کو ہر کس و ناکس کے دروازے پر کھینچ کے لے جاتی ہے، ورنہ مسلمان اگر عقل سے کام لیتے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاکیدی ہدایتوں کے مطابق علم اور عالم کی پیروی کرتے، بالخصوص قرآن کی معرفت حاصل کرتے اور روز اول ہی سے باب علم کو مسدود نہ کرتے تو ایرے غیرے اور خود غرض اشخاص کے پیچھے نہ دوڑتے، ہر شغال و روباہ کے شکار نہ بنتے اورسمجھ لیتے کہ قرآن صریحی اعلان کررہا ہے کہ" الا من ارتضی من رسول" خصوصیت کے ساتھ لفظ رسول نے تو شعبدہ بازوں اور بازیگروں کا راستہ باکل ہی بند کردیا ہے کیونکہ یہ لفظ اس چیز کی پوری وضاحت کررہا ہے کہ بغیر اسباب و ذرائع اور وسائل تحصیل علم کے مخصوص خداوندی علم غیب کے عالم صرف خدا کے بھیجے ہوۓ برگزیدہ افراد ہیں۔

اگر کوئی شخص جنبہ رسالت نہ رکھتا ہو یعنی پیغمبر یا امام نہ ہو پھر بھی رمل یا جفر یا قیافہ شناسی یا صوفیت یا مجذوبیت یا زائچہ بنانے یا ہتھیلی دیکھنے یا فال نکالنےیا اسی قسم کی دوسری ترکیبوں کے ذریعہ اللہ کے مخصوص علم سے متعلق غیبی خبریں دینے کا مدعی ہوتو وہ قطعا جھوٹا ہے اور قرآن مجید کے سمجھنے اور پیروی کرنے والے سچے مسلمان نہ ان کو حق پر سمجھتے ہیں نہ ان کی طرف دوڑتے ہیں اور ان کے فریب میں آتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ اچھی طرح سمجھ بوجھ چکے ہیں کہ سوا قرآن مجید اور حاملین ومفسرین قرآن یعنی محمد و آل محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین کے جو عدیل قرآن ہیں اور کسی کی پیروی نہ کرنا چاہیئے۔

خلاصہ کلام یہ کہ بجز پیغمبر(ص) اور آن حضرت(ص) کے اوصیاۓ طاہرین(ع) کے جو خدا کے برگزیدہ بندے ہیں اس امت میں جو شخص بھی غیب دانی کا دعوی کرے اور کہے کہ میں غیب کی خبر دیتا ہوں وہ لازمی اور مسلمہ حیثیت سے کذاب و شعبدہ باز ہے چاہے جو وسیلہ اور طریقہ اختیار کرے۔

۲۹۳

شیخ: انبیاء چونکہ نزول وحی کے مرکز تھے لہذا بقول آپ کے غیبی امور پر علم و اطلاع حاصل کرتے تھے لیکن کیا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ بھی پیغمبر تھے۔ یا امررسالت میں شریک تھے جس سے غیب کی باتوں پر آگاہی رکھتے تھے، جیسا کہ آپ ان کے لئے اس منزلت کو ثابت کررہے ہیں۔

انبیائ(ع) و اصیائ(ع) عالم غیب تھے

خیر طلب: اول یہ کہ آپ نے فرمایا ہے بقول آپ کے "تو آخر آپ قصدا سہو کر کےمغالطہ کیوں دے رہے ہیں؟ اور بقول آپ کے فرمانے کے عوض یہ کیون نہیں فرماتے کہ" بقول خداۓ تعالی"؟ میں نہ اپنی طرف سے کوئی چیز ایجاد کرتا ہوں نہ اپنی مرضی سے کوئی عقیدہ اور دعوی پیشکرتا ہوں بلکہ قرآن مجید کا حکم نقل کر کے مبین قرآن حضرت رسول خدا صلعم کے ارشادات سے اس کے حقائق کا انکشاف کررہا ہوں۔

ایک تو جیسا میں نے آیات قرآںی کے شواہد سے بتایا ہے کہ انبیائ ومرسلین حق تعالی کے برگزیدہ اور علم غیب کےعالم ہیں، خود آپ کے اکابر علمائ نے بھی اس مطلب کی تصدیق کی ہے اور حضرت خاتم الانبیاء(ص) سے اخبار غیبیہ نقل کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے۔

من جملہ ان کے ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص67( مطبوعہ مصر) میں رسول اللہ(ص) سے ایک حدیث نقل کرنے کےبعد کہ آں حضرت نے علی(ع) سے فرمایا:

" سَيُقَاتِلُ‏ بَعْدِيَ‏ النَّاكِثِينَ وَ الْقَاسِطِينَ وَ الْمَارِقِينَ "

یعنی عنقریب تم میرے بعد ناکثین و قاسطین و مارقین سے جنگ کروگے۔

کہتے ہیں ک یہ حدیث آں حضرت کے دلائل نبوت میں سے ہے، اس لئے کہ اس میں صریحی طور سے غیب کی خبر دی گئی ہے جس کے اندر ہرگز کسی شک اور شبے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اپنےبعد کے لئے جن واقعات کی خبر دی ہے وہ تقریبا تیس سال کے بعدبعینہ اسی طرح سے رونما ہوۓ۔ آں حضرت(ص) نے فرمایا تھا کہ تم ان تین گروہوں سے جنگ کرو گے جن میں ناکثین سے اہل جمل مراد تھے جنہوں نے طلحہ و زبیر کے اغوا سے عائشہ کی قیادت میں حضرت علی(ع) سے جنگ کی، قاسطین سے اہل صفین یعنی معاویہ کے پیرو مقصود تھے اور مارقین خوارج نہروان تھے جو دین سے خارج ہوگئے تھے انتہی( جیسا کہ پہلے تشریح کے ساتھ عرض کرچکا ہوں)۔

دوسرے فرقہ امامیہ اور شیعوں میں سے ایک شخص نے بھی امیرالمومنینعلی ابن ابی طالب(ع) اور ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم اجمعین کے لئے نبوت کا دعوی نہیں کیا ہے۔ بلکہ ہم خود مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خاتم النبیین اور بلاشرکت غیر کے امر نبوت میں مستقل جانتے ہیں اور مذکورہ بالا امر باطل کے مدعی اور معقد کو کافر سمجھتے ہیں۔ البتہ حضرت کو اور حضرت کی

۲۹۴

نسل سے گیارہ اماموں کو ائمہ برحق اور رسول اللہ(ص) کے منصوص اوصیائ خلفائ جانتے ہیں جن کو خداوند عالم نے آں حضرت(ع) کے واسطے اور ذریعے سے اسرار و غیوب پر آگاہ مطلع فرمایا ہے۔ ہمارا اعتقاد ہے اہل عالم کی نگاہوں کے سامنے جو ایک پردہ کھنچا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا کے اندر صرف انہیں چیزوں کو دیکھتے ہیں جو ظاہر و نمایاں ہیں وہی پردہ انبیائ(ع) و اصیائ(ع) کے سامنے بھی ہے لیکن وقت اور موقع کے لحاظ سے خداۓ عالم الغیب نے جو ہر قسم کے اضافے پر پوری قدرت رکھتا ہے جسقدر ضروری اور مصلحت کے مطابق تھا یہ حجاب ان کی نگاہوں سے ہٹا دیا جس سے وہ حالات پس پردہ کا بھی مطالعہ کرتے تھے اور اسی وجہ سے غیب کی خبریں دیتے تھے اور جس وقت مصلحت نہیں ہوتی تھی پردہ پڑا رہتا تھا اور یہ حضرات بھی بے خبر رہتے تھے۔( اسی بنا پر بعض روایتوں میں ہے کہ کبھی کبھی اپنی ناواقفیت کا اظہار کرتے تھے) چنانچہ ارشاد ہے:

"‏ وَ لَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ‏ الْغَيْبَ‏ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ "

یعنی اگر میں عالم الغیب ہوتا تو یقینا اپنی خوبیوں میں اضافہ کرلیتا۔

مطلب یہ کہ میںبذاتِ خود مستقل طور پر غیب سے آگاہی نہیں رکھتا جب تک پردہ نہ اٹھے اور فیضان الہی شامل حال نہ ہو۔

شیخ: کہاں اور کس مقام پر پیغمبر(ص) نے امت والوں کو اس قسم کی خبریں دیہیں جس سے لوگ پوشیدہ حقائق پر آگاہ ہوۓ ۔

خیر طلب: آیا قرآنی آیتوں کی روشنی میں جن میں سے بعض کی جانب اشارہ کیا جاچکا ہے۔ آپ خاتم الانبیائ حضرت رسول خدا صلعم کومرتضی برگزیدہ خلائق اور خدا کا رسول برحق سمجھتے ہیں یا نہیں؟

شیخ: آپ نے یہ عجیب سوال کیا۔ بدیہی چیز ہے کہ آں حضرت(ص) مرتضی اور خاتم الانبیائ تھے۔

خیر طلب: بس آیہ شریفہ :"عالِمُ‏ الْغَيْبِ‏ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ‏ " کے حکم سے پیغمبر(ص)خاتم علم غیب کے عالم تھے کیونکہ اس آیت میں ارشاد ہے کہ خداۓ عالم الغیب اپنے علم غیب سے صرف رسول مرتضی و برگزیدہ کو آگاہ کرتا ہے۔

شیخ: اگر فرض کر لیا جاۓ کہ آں حضرت(ص) غیب کے مالک تھے تو اس چیز کو اس چیز سے کیا ربط ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ بھی ضرور عالم غیب ہوں؟

خیر طلب: اگر آپ حضرات جمود اور تقلید اسلاف سے ہٹ کے دل و دماغ کو ذرا وسعت دیں اور اخبار صحیحہ اور حالات رسول اللہ صلعم پر غور کریں تو مطلب خود بخود واضح و آشکار ہوجاۓ۔

شیخ: اگر ہماری عقل محدود ہے ماشائ اللہ آپ کا دماغ تو کشادہ ہے اور زبان بھی روان ہے۔ فرمائیے کونسی حدیث ہے جو سیدنا علی اکرم اللہ وجہہ کے لئے علم غیب کو ثابت کرتی ہے؟

اگر عل غیب پیغمبر(ص) کے اوصیائ وخلفائ کے لئے ضروری ہو تو استثناء کے کوئی معنی نہیں اور لازمی طور پر سارے

۲۹۵

خلفائ بالخصوص خلفاۓ راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عالم غیب ہونا چاہیئے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی ایک خلیفہ نے بھی ایسا دعوی نہیں کیا بلکہ خود پیغمبر(ص) کے مانند اپنے عجز کا اظہار کرتے تھے۔ پھر آپ تنہا علی کرم اللہ وجہہ کو کیونکر مستثنی کررہے ہیں۔

خیر طلب: اولا میں پیغمبر(ص) کے اظہار عجز کے سلسلے میں پہلے ہی آپ کو جواب دے چکا ہوں کہ آں حضرت غیبی امور کی آگاہی میں بذات خود استقلال اور قدرت نہیں رکھتے تھے بلکہ ذاتِ علام الغیوب کے افاضے سے حقائق پر مطلع ہوتے تھے۔ جس مقام پر یہ فرماتے ہیں کہ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنی خوبیاں بڑھا لیتا وہاں اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ میں خداۓ تعالی کے مانند علم حضوری کا حامل نہیں ہوں۔ یعنی جس وقت ادھر سے فیضان ہوتا تھا اور پردہ دار عالم الغیب آں حضرت(ص) کے سامنے سے حجات اٹھالیتا تھا تو آپ پر پوشیدہ حقیقتیں منکشف ہوجاتی تھیں اور آپ غیب کی خبریں دیا کرتے تھے۔

ائمہ طاہرین(ع) خلفاۓ برحق اور عالمِ غیب تھے

دوسرے آپ نے فرمایا کہ اگر علم غیب تھا تو خلفائ کے درمیان استثنائ نہ ہونا چاہیئے۔ آپ نے یہ ایک صحیح اور مضبوط بات کہی ہے ہم بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور یہیں سے ہمارا اور آپ کا اختلاف بھی شروع ہوتا ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ خلفاۓ رسول کو آں حضرت(ص) کے مانند امور ظاہری و باطنی کا علم ہونا چاہیئے بلکہ سوا مقام نبوت و رسالت اور نبوت کی خاص شرطوں کے (جن سے وحی اور کتاب و احکام کا نزول مراد ہے) جملہ صفات میں خلفائ و اوصیائ کو آں حضرت کا نمونہ ہونا چاہیئے۔ البتہ آپ مخلوق کے چنے ہوۓ خلفائ یعنی ان لوگوں کو جنہیں چند اشخاص نے اکٹھا ہو کر خلیفہ کہہ دیا ہو چاہے پیغمبر(ص)نے ان پر لعنت ہی کی ہو( جیسے معاویہ وغیرہ) خلیفہ رسول(ص) کہتے ہیں۔

لیکن ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) کے خلفائ و اوصیائ وہ حضرات ہیں جن کی خلافت پر خود آں حضرت نے نص فرمائی ہو جس طرح انبیاۓ ماسلف کے نصوص ان کے اوصیائ کے لئے وارد ہوۓ ہیں۔ قطعی طور پر وہ خلفائ و اوصیائ جن کے لئے رسول اکرم صلعم نے نص فرمائی ہے بلا استثنا آں حضرت(ص) کے صفات کے مکمل نمونے تھے اور اسی جہت سے علم غیب اور باطنی امور کے عالم بھی تھے۔

وہ منصوص اور برحق خلفائ بارہ نفر تھے جن کی تعداد اور نام آپ کے اخبار و احادیث میں بھی منقول ہیں اور شیعوں کے وہبارہ برحق امام عترت و اہل بیت رسالت(ع) میں سے امیرالمومنین علی علیہ السلام اور آپ کے گیارہ بزرگوار فرزند ہیں اور اس بات کی دلیل کہ دوسرے لوگ رسول اللہ صلعم کے منصوص خلیفہ نہیں تھے، خود آپ ہی کا وہقول ہے جس کی آپ کے جملہ اکابر علمائ نے بھی تصدیق کی ہے کہ یہ لوگ برابر معمولی علم سے بھی اپنی عاجزی کا اظہار کرتے رہتے تھے علم غیب اور باطنی حالات سے آگاہی کا کیا ذکر۔

۲۹۶

تیسرے آپ نے فرمایا ہے کہ کس حدیث سے امیرالمومنین علی علیہ السلام ک لئے علم غیب ثابت ہوتا ہے تو اس بارے میں حضرت رسول خدا صلعم سے بکثرت حدیثیں مروی ہیں۔ من جملہ ان کے ایک خاص حدیث ہے جو مختلف مقامات و اوقات میں باربار آں حضرت(ص) کی زبان مبارک پر جاری ہوئی ہے اور احادیث کے درمیان اس کو حدیث مدینہ کے نام سے شہرت حاصل ہے نیز تقریبا فریقین ( شیعہ و سنی) کے متواترات میں سے ہے کہ آںحضرت(ص) نے انحصار کے ساتھ صرف علی علیہ السلام کو اپنے علم و حکمت کا دروازہ بتایا اور یہ الفاظ ارشاد فرماۓ:

"‏أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ‏ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا- فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ."

یعنی میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کے در ہیں پس جو شخص علم کا خواہاں ہو وہ دروازے کے پاس آۓ۔

شیخ: یہ حدیث ہمارے علمائ کے نزدیک ثابت نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو خبر واحد ہے یا ضعیف حدیثوں میں سے ہوگی۔

حدیث مدینہ کے ناقلین و روات

خیر طلب: افسوس کی بات ہے کہ ایسی محکم اور متواتر حدیث کو آپ نے خبر واحد اور ضعیف احادیث میں شمار کیا حالانکہ آپ کے اکابر علمائ اس کی صحت کیتصدیق کرچکے ہیں۔

بہتر ہوگا کہ آپ جمع الجامع سیوطی، تہذیب الاثار محمد بن جریرطبری، تذکرۃ الابرار سید محمد بخاری مستدرک حاکم نیشاپوری، نقدالصحیح فیروز آبادی، کنزالعمال متقی ہندی، کفایت الطالب گنجی شافعی اور تذکرۃ الوضورات جمال الدین ہندی جیسی اپنی معتبر کتابوں کی طرف رجوع کیجئے جن میں کہتے کہ " فمن حکم بکذبہ فقد خطائ" یعنی جو شخص اس حدیث کو جھٹلاۓ وہ یقینا غلطی پر ہے نیز روضتہ الندایہ امیرمحمد کافی بحرالاسانید و حافظ ابو محمد سمرقندی اور مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی وغیرہ میں عام طور سے اس حدیث شریف کی صحت کا حکم دیا ہے۔

اس لئے کہ یہ با عظمت حدیث متفاوت اور مختلف طرق و اسناد کے ساتھ بکثرت اصحاب و تابعین سے مثلا صحابہ عظام میں سے حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام ، سبط اکبر ابومحمد حسن بن علی علیہما السلام، امام المفسرین( جرامت) عبداللہ ابن عباس، جابر ابن عبداللہ انصاری، عبداللہ ابن مسعود، حذیفہ بن الیمان، عبداللہ ابن عمر، انس ابن مالک اور عمرو بن عاص تھے۔

تابعین میں سے امام زین العابدین علی الحسین اور امام محمد ابن علی الباقر علیہم السلام، اصبغ ابن نباتہ، جریر الضبی، حارث بن عبداللہ ہمدانی کوفی، سعدبن طریف الحنظلی کوفی، سعید بن جبیر اسدی کوفی، سلمہ بن کہیل حضرمی کوفی، سلیمان بن مہران اعمش کوفی، عاصم بن حمزہ سلولی کوفی، عبداللہ بن عثمان بن خیثم القاری المکی، عبدالرحمن ابن عثمان بن عیلتہ المرادی

۲۹۷

ابو عبداللہ صنابحی اور مجاہد ابو الحاج المخزرمی المکی سے مروی ہے۔

اور ( علاوہ جمہور علماۓ شیعہ کے خود آپ ہی کے کثیر التعداد علماۓ اعلام، محدثیں عظام اور مورخین کرام اس کے ناقل ہیں، چنانچہ جہاں تک میں نے دیکھا ہے آپ کے تقریبا دوسو علماء اور بزرگان دین نے اس حدیث مبارک کو نقل کیا ہے۔ اس وقت جس قدر میرے پیش نظر ہیں ان میں سے چند اقوال کا حوالہ پیش کرتا ہوں تاکہ شیخ صاحب زیادہ شرمندہ نہ ہوں اور سمجھ لیں کہ انہوں نے محض عادتا اور اپنے اسلاف کی پیروی میں اس حدیث کی سند میں شک وارد کیا ہے ورنہ بالعموم سب کے نزدیک مطلب بالکل صاف اور واضح ہے۔

منجملہ اکابر علماۓ اہل سنت

1۔ تیسرے صدی کے مفسر و مورخ محمد بن جریر طبری متوفی سنہ310 ہجری تہذیب الآثار میں۔

2۔ حاکم نیشاپوری متوفی سنہ405 ہجری مستدرک جلد سیم صفحہ 126و 128و 226 میں،

3۔ ابو عیسی محمد بن ترمذی متوفی سنہ289ہجری اپنی صحیح میں،

4۔ جلال الدین سیوطی متوفی سنہ911 ہجری جمع الجوامع میں اور جامع الصغیر جلد اول ص374 میں،

5۔ ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی سنہ360 ہجری کبیر اور اوسط میں،

6۔ حافظ ابو محمد حسن سمرقندی متوفی سنہ491 ہجری بحرالاسانید میں،

7۔ حافظ ابو نعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی سنہ430ہجری معرفتہ الصحابہ میں،

8۔ حافظ ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر قرطبی متوفی سنہ463 ہجری استیعاب جلد دوم ص461 میں،

9۔ ابوالحسن فقیہ شافعی علی بن محمد بن طبیب الجلابی ابن مغازلی متوفی سنہ483 ہجری مناقب میں،

10۔ ابو شجاع شیرویہ ہمدانی دیلمی متوفی سنہ509 ہجری فردوس الاخبار میں،

11۔ ابو الموید خطیب خوارزمی متوفی سنہ568 ہجری مناقب ص49 اور مقتل الحسین جلد اول ص93 میں،

12۔ ابو القاسم ابن عساکر علی بن حسن دمشقی متوفی سنہ571ہجری تاریخ کبیر میں،

13۔ ابو الحجاج یوسف بن محمد آندلسی متوفی سنہ605 ہجری" الف باء" جلد اول ص222 میں،

14۔ ابوالحسن علی بن محمد بن اثیر جزری متوفی سنہ630 ہجری اسد الغابہ جلد چہارم ص22 میں،

15۔ محب الدین احمد بن عبداللہ طبری شافعی متوفی سنہ694ہجری ریاض النفرہ جلد اول ص129 اور ذخائر العقطی ص77 میں،

16۔ شمس الدین محمد بن احمد ذہبی شافعی متوفی سنہ478ہجری تذکرۃ الحفاظ جلد چہارم ص28 میں،

۲۹۸

17۔ بدر الدین محمد زرکشی مصری شافعی متوفی سنہ749 ہجری فیض القدر جدل سیم ص47 میں،

18۔ حافظ علی بن ابی بکر ہیثمی متوفی سنہ807 ہجری مجمع الزوائد جدل نہم ص114 میں،

19۔ کمال الدین محمد بن موسی و میری متوفی سنہ808 ہجیر حیات الحیوان جلد اول ص55 میں،

20۔ شمس الدین محمد بن محمد جزری متوفی سنہ833ہجری اسنی المطالب ص14 میں،

21۔ شہاب الدین ابن حجر بن علی عسقلانی متوفی سنہ852ہجری تہذیب التہذیب جلد ہفتم ص337 میں،

22۔ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی سنہ855ہجری عمدۃ القاری جلد ہفتم ص631 میں،

23۔ علی بن حسام الدین متفقی ہندی متوفی سنہ975 ہجری کنز العمال جلد ششم ص156 میں،

24۔ عبدالرؤف المنادی شافعی متوفی سنہ1031ہجری فیض القدیر شرح جامع الصغیر جلد سیم ص46 میں،

25۔ حافظ علی بن احمد عزیزی شافعی متوفی سنہ1070 ہجری سراج المنیر جامع الصغیر جلد دوم ص63 میں،

26۔ محمد بن یوسف شافعی متوفی سنہ942 ہجری سبل الہدی والرشاد فی اسمائ خیر العباد میں،

27۔ محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی سنہ817ہجری نقد الصحیح میں،

28۔ امام احمد بن حنبل متوفی سنہ241ہجری مکرر مجلدات مناقب مسند میں،

29۔ ابوسالم محم بن طلحہ شافعی متوفی سنہ652ہجری مطالب السئول میں،

30۔ شیخ الاسلام ابراہیم بن محمد حموینی متوفی سنہ722ہجری فرائد السمطین میں،

31۔ شہاب الدین دولت آبای متوفی سنہ849ہجری ہدایت السعدائ میں،

32۔ علامہ سہودی سید نور الدینشافعی متوفی سنہ911ہجری جواہر العقدین میں،

33۔ قاضی فضل بن رزبہان شیرازی ابطال الباطل میں،

34۔ نور الدین بن صباغمالکی متوفی سنہ955 ہجری فصول المہمہ ص18 میں،

35۔ شہاب الدین ابن حجر مکی( متعصب عنید) متوفی سنہ974ہجری صواعق محرقہ ص73 میں،

36۔ جمال الدین عطا اللہ محدث شیرازی متوفی سنہ1000ہجری اربعین میں،

37۔ علی قاری ہروی متوفی سنہ1014 ہجری مرقاۃ شرح مشکوۃ میں،

38۔ محمد بن علی الضبان متوفی سنہ1205 ہجری اسعاف الراغبین ص156 میں،

39۔ قاضی محمد بن شوکانی متوفی سنہ1250ہجری فوائد المجموعہ الاحادیث الموضوعہ میں،

40۔ شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی متوفی سنہ1270ہجری تفسیر روح المعانی میں،

41۔ امام غزالی احیائ العلوم میں،

۲۹۹

دو صفحے نہیں ہیں

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394