پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 276145
ڈاؤنلوڈ: 6129


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 276145 / ڈاؤنلوڈ: 6129
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بالصواب عرض کرتا۔ گذارش ہے کہ اب بھی میری درخواست قبول کیجئے اور اس موضوع پر علانیہ گفتگو نہ کیجئے۔ ایک روز صبح کو میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائوں گا اور ہم دونوں اس مسئلے کو حل کر لیں گے۔

حافظ : میں بے قصور ہوں، چونکہ حضرات اہل جلسہ کئی راتوں سے مجھ پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ یہ موضوع زیر بحث لایا جائے۔ لہذا انہیں کی خواہش پر میں نے یہ سوال اٹھایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کی گفتگو سنجیدہ ہوتی ہے۔ لہذا اگر ان کی تسکین خاطر کے لیے کوئی مسکت جواب دے دیجئے تو کوئی ضرر نہ ہوگا یا پھر تصدیق کیجئے کہ حق ہمارے ساتھ ہے۔

نواب : صحیح ہے۔ ہم سب منتظر ہیں کہ معمہ حل ہو۔

خیر طلب :چونکہ آپ حکم دے رہے ہیں لہذا تعمیل کرتا ہوں لیکن آپ کے ایسے محترم فاضل سے مجھ کو یہ امید نہیں تھی کہ ان مفصل تشریحات کے بعد جو میں گذشتہ شبوں میں پیش کرچکا اور کفر کے پہلو واضح کرچکا پھر بھی ملت شیعہ سے کفر کو نسبت دیجئے گا۔ حالانکہ میں آپ کے سامنے پورا ثبوت دے چکا کہ شیعہ اثناعشری محمد و آل محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین کے پیرو ہیں لہذا ہرگز کافر نہیں ہوسکتے چونکہ آپ نے چند مخلوط جملے بیان فرمائے ہیں۔ لہذا میں مجبور ہوں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے علیحدہ جواب عرض کروں تاکہ جملہ حضرات حاضرین و غائبین خود ہی انصاف کے ساتھ فیصلہ کر کے اپنے دلوں سے شبہات کو دور کریں اور جان لیں کہ نہ شیعہ کافر ہیں نہ کفر کے وہ طریقے ہیں جو آپ نے بیان فرمائے۔

صحابہ پر طعن و ایراد موجب کفر نہیں

اوّل آپ نے فرمایا ہے کہ شیعہ صحابہ اور بعض ازواج رسول(ص) پر جو طعن اور تنقید کرتے ہیں وہ موجب کفر ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ بیان کس دلیل و برہان کے رو سے دیا گیا۔ اگر طعن اور تنقید دلیل و برہان سے مضبوط ہو تو قطعا مذموم بھی نہیں ہے۔ نہ یہ کہ اس کو کفر کا سبب بتایا جائے، بلکہ اگر بغیر کسی ثبوت کے محض تہمت ہی تہمت ہو جب بھی باعث کفر نہیں۔

مثلا کسی مومن پر چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو کوئی شخص بلا وجہ بھی طعن اور تنقید یا لعنت کرے۔ تو وہ کافر نہ ہوگا، بلکہ فاسق ہوگا۔ جیسے کہ شراب پینے والا یا زنا کرنے والا۔ بدیہی چیز ہے کہ ہر فسق اور گناہ معافی اور در گذر کے قابل ہوتا ہے۔

چنانچہ ابن حزم ظاہری اندلسی متولد سنہ456ہجری کتاب الفصل فی الملل والنحل جز سوم ص227 میں کہتے ہیں کہ جو شخص جہالت اور نادانی کی وجہ سے اصحاب رسول(ص) کو گالی دے تو وہ معذور ہے اور اگر جان بوجھ کر دے تو فاسق

۲۱

ہوگا جس طرح کوئی زنا اور چوری جیسے گناہوں میں مشغول ہو۔ البتہ جب اس نیت سے دشنام دے کہ یہ رسول خدا(ص) کے اصحاب ہیں توکافر ہوجائے گا۔ کیوں کہ اس کی انتہا خدا و رسول(ص) کی عداوت اور اہانت پر ہوگی۔

ورنہ صرف صحابہ کو دشنام دینا موجب کفر نہیں ہے، چنانچہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے پیغمبر سےعرض کیا کہ آپ اجازت دیجئے میں حاطب منافق کی گردن ماردوں( باوجودیکہ یہ بزرگان صحابہ، مہاجرین اور اصحاب بدر میں سے تھا) پھر بھی وہ اس گالی اور نفاق کی نسبت دینے سے کافر نہیں ہوئے۔ انتہی کلامہ۔

پس کیونکر ممکن ہے کہ شیعوں کو اس لیے کافر کہہ دیا جائے کہ وہ بعض افراد صحابہ کو دشنام دیتے ہیں۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آپ سچ کہتے ہیں؟ در آنحالیکہ آپ کے اکابر علماء متقدمین اپنی معتبر کتابوں میں از روئے انصاف آپ کے عقیدے کے بر خلاف حق اور حقیقت کی کافی حمایت کرچکے ہیں۔ من جملہ ان کے قاضی عبدالرحمن ریجی شافعی نے مواقف میں ان وجوہ کو تعصب و عناد کا نتیجہ بتاتے ہوئے رد کیا ہے جن کو آپ کے متعصب علماء نے شیعوں کے کفر میں بیان کیا ہے۔

امام محمد غزالی صریحا لکھتے ہیں کہ صحابہ کا سب و شتم ہرگز کفر نہیں ہے، یہاں تک کہ سب شیخین بھی باعث کفر نہیں ملا سعد تفتازانی شرح عقائد نسفی میں کہتے ہیں کہ متعصب لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ صحابہ کو سب وشتم کرنے والے کافر ہیں، تو اس میں اشکال ہے اور ان کا کفر ثابت نہیں، اس لیے کہ بعض علماء نے جو صحابہ سے حسن ظن رکھتے تھے ان کی بد اعمالیوں سے چشم پوشی کی بلکہ ان کی مہمل تاویلیں کیں اور کہا کہ رسول اللہ(ص) کے صحابہ گمراہی اور فسق وفجور سے محفوظ تھے۔ حالانکہ ایسا نہ تھا اور اس کی دلیل وہ لڑائیاں ہیں جو ان کے درمیان واقع ہوئیں۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ گمراہ فاسق اور گنہگار تھے بغض و حسد، اور جاہ طلبی ان کو رے افعال پر مجور کرتی تھی اور یہ حق سے منحرف ہوجاتے تھے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے بزرگ صحابہ بھی اعمال بد سے پاک نہ تھے۔ پس اگر کوئی شخص دلیل کے ساتھ ان کی گرفت اور تنقید کرے تو موجب کفر نہ ہوگا کیونکہ بعض نے محض حسن و ظن کی وجہ سے ان چیزوں پر پردہ ڈالا ہے اور نقل نہیں کیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ان کی حرکتوں کو نقل کر کے ان پر نکتہ چینی کرتے ہیں، ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کافر ہیں اس لیے کہ ہر وہ صحابی جس نے رسول اللہ(ص) کو دیکھا معصوم اور بے گناہ نہیں تھا۔ انتہی۔

ان باتوں کے علاوہ ابن اثیر جزری صاحب جامع الاصول نے شیعوں کو اسلامی فرقوں میں شمار کیا ہے لہذا آپ کیوںکر ان پر کفر عائد کرتے ہیں؟ بعض صحابہ کے اعمال کی وجہ سے ان کو برا کہنے والوں کے عدم کفر کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خلفاء کی زندگی میں کچھ لوگ ان کو سب وشتم کرتے تھے اور رکیک گالیاں دیتے تھے۔ پھر بھی خلفاء انکے کفر اور قتل کا حکم نہیں دیتے تھے۔

چنانچہ حاکم نیشاپوری مستدرک جز چہارم ص335 و ص354 میں، احمد بن حنبل مسند جز اول ص9 میں، ذہبی تلخیص مستدرک میں، قاضی عیاض کتاب شفاء جز چہارم باب اول میں اور امام غزالی احیاء العلوم جلد دوم میں نقل کرتے ہیں کہ زمانہ خلافت ابوبکر میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور انکو اس طرح سےفحش باتیں کہیں اور گالیاں دیں کہ حاضرین کو غصہ آگیا، ابوبرزہ سلمی نے کہا کہ خلیفہ کی اجازت ہو تو اس کو قتل کردوں۔ اس لیے کہ یہ کافر ہوگیا ہے۔ ابوبکر نے کہا نہیں ایسا نہیں سوا پیغمبر(ص)

۲۲

کے ایسا حکم نہیں لگا سکتا۔

واقعی حضرت اہل تسنن مدعی سست گواہ چست کے مصداق ہیں۔ خود خلیفہ سب و شتم اور گالیاںسنتے ہیں اور کفر کا فتوی یا قتل کا حکم نہیں دیتے لیکن آپ حضرات ( اپنی فرضی خیالات کی بنا پر) بے خبر عوام کو بہکاتے ہیںکہ شیعہ صحابہ کو سب و شتم کرتے ہیں لہذا کافر ہیں اور ان کا خون حلال ہے۔

اگر سب صحابہ موجب کفر ہے تو آپ حضرات معاویہ اور ان کے پیروئوں کو کس لیے کافرنہیں کہتے ہیں جنہوں نے صحابہ کی فرد اکمل اور خلفاء میں سے افضل امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر سب وشتم اور لعنت کی؟

پس معلوم ہوا کہ آپ کا مقصد کچھ اورہی ہے اور وہ ہے اہل بیت و عترت طاہرہ(ع) اور ان کی پیروی کرنے والوں سے جنگ۔

اگر صحابہ بالخصوص خلفاء راشدین پر سب وشتم کرنا کفر ہے تو آپ حضرات ام المومنین عائشہ پر کس لیے کفر کا فتوی نہیں دیتے جن کے لیے آپ کے تمام علماء و مئورخین نے لکھا ہے کہ ہمیشہ خلیفہ عثمان پر سب وشتم کیا کرتی تھیں اور علانیہ کہتی تھیں۔"اقتلوا انعثلا فقد کفر " یعنی اس فاتر العقل بوڑھے (یعنی عثمان ) کو قتل کر ڈالو کیوںکہ فی الحقیقت یہ کافرہوگیا ہے۔

اگر مظلوم شیعوں میں سے کوئی شخص کہدے کہ اچھا ہوا کہ عثمان مار دالے گئے اس لیے کہ وہ کافر تھے تو آپ حضرات اس کو کافر اور واجب القتل کہدیں گے۔ لیکن خود عثمان کے منہ پر عائشہ ان کو نعثل اور کافر کہتی تھیں تو نہ خلیفہ ان کو منع کرتے تھے نہ صحابہ کی طرف سے کوئی تنبیہ ہوتی تھی اور نہ آپ ہی ان کی ندامت کرتے ہیں۔

نواب : قبلہ صاحب اس نعثل کے کیا معنی ہیں جس کی طرف نسبت دی گئی؟

خیر طلب : فیروز آبادی جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں۔ " قاموس اللغہ" میں اس کے معنی بیان کرتے ہیں۔ نعثل بے وقوف بوڑھے کو کہتے ہیں، نیز مدینے میں ایک بڑی داڑھی والا یہودی تھا جس سے عثمان کو تشبیہ دیتے تھے اور شارح قاموس علامہ قزوینی یہی معنی بیان کرنے کے بعد مزید کہتے ہیں کہ ابن حجر نے تبصرۃ المنتبہ میں ذکر کیا ہے کہ :

"اننعثليهوديكانبالمدينةهورجللحيانيكانيشبه‏ به‏ عثمان‏ "

یعنی نعثل مدینہ میں ایک لمبی داڑھی والا یہودی تھا جس سے عثمان کو مشابہت تھی۔

سب سے بالاتر یہ کہ اگر صحابہ کو دشنام دینا برا کام ہے اور دشنام دینے والا کافر ہے تو خلیفہ ابوبکر بالائے منبر صحابہ اور جماعت مسلمین کے سامنے سب سے بلند و برتر صحابی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو کیوں گالی دی؟ اس پر آپ کو غصہ نہیں آتا ہے بلکہ ابوبکر کی توصیف و تقدیس ہوتی ہے۔ حالانکہ مذمت ہونا چاہئیے۔

حافظ : کیوں تہمت لگا رہے ہیں؟ کہاں خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ علی کرم اللہ وجہہ کا گالی دی؟

خیر طلب : معاف کیجئے گا ہم تہمت لگانے والوں میں سے نہیں۔ جب تک کسی چیز کی جانچ نہیں کر لیتے نقل

۲۳

نہیں کرتے۔ بہتر ہوگا کہ شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص80 میں ملاحظہ فرمائیے کہ ابوبکر نے مسجد میں بر سر منبر امیرالمومنین علیہ السلام پر طعن کرتے ہوئے کہا :

"إنماهوثعالةشهيده‏ ذنبه،مربّلكلفتنة،هوالذييقول: كروهاجذعةبعدماهرمت،يستعينونبالضعفة،ويستنصرونبالنساء،كأمطحالأحبأهله االيهاالبغي"

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ وہ (علی علیہ السلام) ایک لومڑی ہے۔ جس کی گواہ اس کی دم ہے۔ طرح طرح کے نکتے اٹھاتا ہے بڑے بڑے فتنوں کو گھٹا کے بیان کرتا ہے اور لوگوں کو فتنہ و فساد کی ترغیب دیتا ہے۔ ضعیوں سے کمک مانگتا ہے۔ اور عورتوں سے امداد حاصل کرتا ہے وہ ام طحال کے مانند ہے(ابن ابی الحدید تشریح کرتے ہیں کہ یہ زنانہ جاہلیت میں ایک زنا کار عورت تھی) جس سے اس کے گھر والے زنا کرنے کے شائق تھے) ( لیکن دوسری تاریخوں میں اس عبارت کے ساتھ ہے کہ ابوبکر نے کہا "إنماهی ثعالةشهيدهاذنبها "

اب ذرا آپ حضرات موازنہ کیجئے کہ خلیفہ ابوبکر نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں جو فحش باتیں کہیں، ان سے اور اس طعن و اعتقاد سے کتنا تفاوت ہے جو ایک شیعہ ان لوگوں کے لیے کرے۔

پس اگر کسی صحابی کو دشنامدینا باعث کفر ہے تو ابوبکر ان کی بیٹی عائشہ معاویہ اور ان کے پیروئوں کو سب سے پہلے کافر ہونا چاہیئے اور اگر سبب کفر نہیں ہے تو آپ اسی بنا پر شیعوں کو بھی کافر نہیں کہہ سکتے۔

آپ کےبڑے بڑے فقہاء اور خلفاء کے فتاوی اور احکام کے مطابق دشنام دینے والے کافر اور واجب القتل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ امام احمد حنبل نے مسند جلد سوم میں، ابن سعد کاتب نے کتاب طبقات جزء پنجم ص670 میں اور قاضی عیاض نے شفاء جز چہارم باب اول میں نقل کیا ہے کہ خلیفہ عمر ابن عبدالعزیز کے عامل نے کوفے سے ان کو لکھا کہ ایک شخص نے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کو سب کیا ہے اور گالی دی ہے، اجازت دیجئے کہ ہم اس کو قتل کردیں۔ انہوں نے جواب میں لکھا کسی مسلمان کو سب و شتم کرنے کی وجہ سے ایک مسلمان کا خون مباح نہیں ہوتا، سوا اس کے کہ کوئی شخص رسول خدا(ص) کو دشنام دے ۔ ان اقوال کے علاوہ خود آپ کے اکابر علماء جیسے ابوالحسن اشعری اور ان کے پیروئوں کے عقائد یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص دل سے مومن ہو اور کفر کا اظہار کرے ( مثلا یہودیت اور نصرانیت وغیرہ) یا رسول اللہ (ص) سے جنگ کرنے اٹھے یا خدا و رسول(ص) کو بلاعذر سخت گالی دے۔ تب بھی وہ کافر نہیں ہوتا اور اس پر کفر کا جاری نہیں کیا جاسکتا، اس لیےکہ ایمان عقیدہ قلبی ہے اور چونکہ کوئی کسی کے قلب سے واقف نہیں ہے لہذا یہ نہیں جان سکتا کہ کفر کا اظہار دل سے تھا یا فقط ظاہری حیثیت سے اور ان مراتب کو دیگر علماء اشعری نے بھی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ خصوصا ابن حزم اندلسی نے کتاب الفضل جز چہارم ص204 و ص406 میں ان عقائد کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔

پس ایسی صورت میں آپ حضرات موحد، پاک نفس، مطیع خدا و رسول(ص) اور شرع انور کے تمام واجب و مستحب احکام پر عمل کرنے والے شیعوں پر کفر کا حکم لگانے کا کیا حق رکھتے ہیں؟ فرض کر لیجئے کہ ( جیسا آپ کا خیال ہے) کوئی شیعہ بعض

۲۴

اصحاب کو دلیل و برہان کےساتھ سب و شتم ہی کرے یا دشنام دے جب بھی تو آپ اپنے بڑے بڑے پیشوائوں کے عقائد اور بیانات کے مطابق اس پر کفر کا حکم نہیں لگا سکتے۔

حالت تو یہ ہے کہ آپ کی معتبر کتابوں میں مثلا مسند احمد حنبل جلد دوم ص236 سیر حلبیہ جلد دوم ص107 صحیح بخاری جلد دوم ص74 ، صحیح مسلم کتاب جہاد اور اسباب النزول واحدی ص108 وغیرہ میں بکثرت روایتیں موجود ہیں کہ پیغمبر(ص) کے سامنے اکثر اصحاب جیسے ابوبکر وغیرہ آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے تھے بلکہ مار پیٹ بھی کرتے تھے اور رسول(ص) مشاہد فرماتے تھے لیکن ان کو کافر نہیں کہتے تھے بلکہ نصیحت فرماتے تھے( البتہ رسول اللہ(ص) کے روبرو اصحاب کی اس قسم کی باہمی جنگ اور نزاع کی روایتیں علماء اہل تسنن ہی کیکتابوں میں ہیں، شیعوں کی کتابوں میں نہیں۔

اس مختصر بیان کے ساتھ آپ نے اپنے پہلے ایراد کا جواب سن لیا کہ کسی صحابی پر لعنت یا دشنام موجب کفر نہیں ہوا کرتی۔

اگر بغیر کسی دلیل و برہان کے سب ولعن کریں تو فاسق ہوجائیں گے، کافر نہ ہوں گے۔ اور ہر عمل بد عفو و مغفرت کے قابل ہوتا ہے۔

صحابہ کے نیک و بد اعمال رسول اللہ(ص) کے پیش نظر تھے

دوسرے آپ نے فرمایا ہے کہ رسول خدا(ص) اصحاب کی توقیر اور تعظیم و تکریم فرماتے تھے تو یہ صحیح ہے میں بھی تصدیق کرتا ہوں اور تمام مسلمان اور صاحبان علم و فضل اس پر متفق ہیں کہ لوگوں کے سارے نیک و بد اعمال پر آنحضرت(ص) کی نظر رہتی تھی اور آپ ہر شخص کے اچھے عمل کی قدر فرماتے تھے۔ چنانچہ نوشیرواں کی عدالت اور حاتم طائی کی سخاوت کا بھی احترام فرماتے تھے۔ لیکن یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ اگر کسی فرد یا جماعت کی توقیر و تکریم فرماتے تھے تومحض اسی نیک عمل کی بنا پر جو اس سے ظاہر ہوتا تھا۔

بدیہی چیز ہے کہ کسی مخصوص عمل پر کسی فرد یا جماعت کی قدر و منزلت قبل اس کے کہ اس سے اس ک برعکس فعل صادر ہو اس کی نیک بختی اور خوش انجامی پر دلالت نہیں کرتی ؟؟؟ ؟؟؟؟ صدور گناہ سے قبل قہر و عقوبت جائز نہیں ہے چاہے یہ معلوم بھی ہو کہ آئندہ اس کی مرتکب ہوگا۔

چنانچہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام باوجودیکہ عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کے عمل و شقاوت اور انجام بد سے آگاہ تھے اور بار بار اس سے فرماتے بھی تھے کہ تو میرا قاتل ہے بلکہ ایک موقع پر صریحا فرمایا کہ

اريدحياته‏ ويريدقتلى‏عذيرك من خليلك من مراد

۲۵
۲۶

۲۷

خیر طلب : یہ آپ نے بے لطفی کی بات کی کہ چند خارجی اور ناصبی ذہنیت والوں کے عقائد کو اپنی بحث کا ماخذ بنایا یہ واقعہ تو اتنا مشہور اور واضح و آشکار ہے کہ خود آپ کے علماء نے اس کی تصدیق کی ہے۔

ملاحظہ فرمائیے حافظ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی شافعی نے جو آپ کے اکابر علماء و فقہاء میں سے ہیں، اپنی کتاب دلائل نبوۃ میں داستان بطن عقبہ کو معتبر سلسلہ روات کے ساتھ، امام احمد بن حنبل نے مسند آخر جلد پنجم میں ابو طفیل سے اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے اور علماء میں مشہور ہے۔ کہ آنحضرت(ص) نے اس رات اصحاب کی ایک جماعت پر لعنت فرمائی۔

واقعہ عقبہ اور قتل رسول(ص) کا ارادہ

نواب : قبلہ صاحب واقعہ کیا تھا اور کون سے لوگ رسول اللہ(ص) کو قتل کرنا چاہتے تھے، گذارش ہے کہ مختصر ہی بیان فرما دیجئے۔

خیر طلب : اکابر فریقین نے لکھا ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں چودہ منافقین نے خفیہ طور پر عقبہ کی گھاٹی میں جو پہاڑ کے دامن میں ایک تنگ راستہ تھا اور جس سے فقط ایک ایک آدمی گذر سکتا تھا رسول خدا(ص) کو قتل کرنے کی سازش کی۔ جب انہوں نے اپنی تجویز کو عملی جامہ پہنانا چاہا تو جبرئیل نے رسول اللہ(ص) کو اس کی خبر دی، آں حضرت(ص) نے حذیفہ نخعی کو بھیجا اور وہ جاکر دامن کوہ میں پوشیدہ ہوگئے۔ جس وقت وہ لوگ آئے اور آپس میں گفتگو کی تو انہوں نے سب کو پہچان لیا۔ چنانچہ ان میں سات نفر بنی امیہ میں سے تھے۔ حذیفہ آں حضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب کے نام بتائے۔ آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ یہ بات راز میں رکھو خدا ہمارا نگہبان ہے۔ اول شب آں حضرت(ص) لشکر کے آگے آگے روانہ ہوئے عمار یاسر اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے تھے۔ اور حذیفہ اس کو پیچھے سے ہانک رہے تھے، جب اس تنگ راستے میں پہنچے تو منافقوں نے اپنے چمڑے کے تھیلے بالوں سے بھر کے ( یا تیل کے کپے) شور مچا کر اونٹ کے سامنے پھینگے تاکہ اونٹ بھڑک کے بھاگے اور آں حضرت(ص) کو گہرے درے میں گرادے لیکن خدائے تعالی نے آپ کی حفاظت فرمائی اور وہ لوگ بھاگ کر مجمع میں چھپ گئے۔

کیا یہ لوگ اصحاب میں سے نہیں تھے؟ تو کیا ان کا یہ عمل نیک تھا اور ان کی پیروی راہ ہدایت تھی۔ آیا یہ مناسب ہے کہ انسان کی خوش عقیدگی اس حد تک بڑھ جائے کہ جس وقت کہا جائے اصحاب رسول(ص) یعنی وہ لوگ جنہوں نے پیغمبر(ص) کو دیکھا ہے یا آں حضرت(ص) سے حدیث نقل کی ہے، تو اپنی آنکھیں بند کر لے، ان کےعیوب اور برائیوں پر نظر نہ ڈالے اور کہے کہ سب کے سب نجات یافتہ ہیں۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک کے پیروئوں کو بھی ناجی بتائے؟

۲۸

پیغمبر(ص) نے جھوٹوں کی پیروی کا حکم نہیں دیا ہے

آیا ابوہریرہ جن کے حالات کی طرف میں پچھلی شبوں میں اشارہ کرچکا ہوں کہ خلیفہ عمر نے ان کو تازیانہ مارا اور کہا کہ یہ پیغمبر(ص) سے جھوٹی حدیثیں بہت نقل کرتا ہے، اصحاب میں سے نہیں تھے اور انہوں نے کثرت سے احادیث نقل نہیں کی ہیں؟ اسی طرح دوسرے اصحاب جیسے سمرۃ بن جندب وغیرہ جو حدیث گڑھتے تھے اصحاب میں سے نہیں تھے؟ آیا رسول خدا(ص) امت کو حکم دے سکتے ہیں کہ جھوٹے اور جعل ساز لوگوں کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پائو؟ اگر یہ حدیث جس کو آپ نے عظمت اصحاب کا سرچشمہ قرار دیا ہے صحیح ہے کہ اصحاب میں سے چاہے جس کی پیروی کریں ہدایت پا جائیں گے تو فرمائیے اگر دو صحابی ایک دوسرے کے خلاف راستہ چلیں تو ہم کس کی پیروی کریں تاکہ ہدایت حاصل ہو؟ یا اگر اصحاب کے دو گروہ باہم ایک دوسرے سے جنگ کریں یا عقیدے میں ایک دوسرے کے مخالف ہوں تو ہم کس گروہ کا ساتھ دیں۔ تاکہ نجات حاصل ہو؟

حافظ : اول تو رسول اللہ(ص) کے اصحاب پاک آپس میں کوئی مخالفت اور جنگ ہرگز کرتے ہی نہیں تھے۔ اور اگر مخالفت کی بھی تو آپ غور و فکر کیجئے ان میں سے جو شخص زیادہ پاک اور جس کی گفتگو زیادہ مدلل ہو اس کیپیروی کیجئے۔

خیر طلب : آپ کے اس بیان کے بنا پر اگر ہم نے غور کیا اور تحقیق کر کے دونوں میں سے ایک کو پاک و برحق سمجھ لیا تو قطعا اصحاب کا مخالف گروہ ناپاک اور باطل پر ہوگا۔

پس یہ حدیث اپنی جگہ پر خود ہی درجہ اعتبار سے گر جاتی ہے۔ کیوںکہ صحابہ میں سے ہر ایک کی اقتدا کر کے ہدایت پا جانا ممکن ہی نہیں۔

سقیفہ میں اصحاب کی مخالفت

اگر یہ حدیث صحیح ہے تو آپ کو شیعوں پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے کیوںکہ انہوں نے اصحاب ہی کے ایک گروہ کی پیروی کی ہے جیسے سلمان، ابوذر، مقداد، عمار یاسر، ابو ایوب اںصاری، حذیفہ نخعی، اور خزیمہ ذوالشہادتین وغیرہ جن کے متعلق میں گذشتہ شبوں میں اشارہ کر چکا ہوں کہ انہوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی بلکہ مخالفت اور احتجاج بھی کرتے رہے؟

پس اصحاب کی ان دونوں جماعتوں میں سے جو ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑی تھیں کونسی حق پر تھی؟ قطعی طور پر ایک باطل پر تھی، حالانکہ جو حدیث آپ نے نقل کی ہے وہ بتا رہی ہے کہ اصحاب میں سے جس کی بھی اقتدا کرو ہدایت پا جائو گے۔

۲۹

ابوبکر و عمر سے سعد بن عبادہ کی مخالفت

کیا سعد بن عبادہ انصاری اصحاب میں سے نہیں تھے جنہوں نے ابوبکر و عمر کی بیعت نہیں کی؟ تمام شیعہ و سنی مورخین اسلام کا اتفاق ہے کہ یہ جاکر شام میں رہنے لگے یہاں تک کہ اواسط خلافت عمر میں قتل ہوئے۔

پس ان کی اقتدا کرنا اور ابوبکر کی مخالفت اس حدیث کے حکم سے راہ ہدایت ٹھہری۔

بصرے میں علیعلیہ السلام سے طلحہ و زبیر کا مقابلہ

آیا طلحہ و زبیر اصحاب اور تحت شجرہ بیعت کرنے والوں میں سے نہیں تھے؟ آیا ان کا مقابلہ پیغمبر کے خلیفہ برحق سے نہیں تھا۔ ( جو آپ کے عقیدے میں بھی چوتھے خلیفہ مسلم ہیں) اور یہ دونوں صحابی بے شمار مسلمانوں کا خون بہانے کے باعث نہیں ہوئے؟ اب بتائیے کہ اصحاب کے ان دونوں گروہوں میں سے جو ایک دوسرے کے مقابلے پر آئے کس کی پیروی اور اقتدا سبب ہدایت تھی؟ اگر آپ کہیں کہ دونوں گروہ چونکہ اصحاب کے تابع تھے لہذا حق پر تھے تو آپ غلط راستے پر جا پڑیں گے۔ اس لیے کہ جمع بین الضدین محال ہے یعنی یہ ممکن نہیں کہ ایک دوسرے سے لڑنے والے دوںوں فرقے ہدایت یافتہ اہل جنت ہوں لہذا قطعی طور پر جو اصحاب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف تھے وہ ہدایت یافتہ تھے اور فریق مخالف باطل پر اور یہ خود دوسری دلیل ہے آپ کا یہ قول باطل ہونے کی کہ جتنے اصحاب تحت شجرہ بیعت رضوان میں حاضر تھے وہ سب نجات یافتہ ہیں، کیوںکہ تحت شجرہ بیعت کرنے والوں میں سے دو نفر طلحہ و زبیر بھی تھے جو امام و خلیفہ برحق سے لڑنے کو اٹھے۔ آیا ان کا یہ عمل یعنی خلیفہ رسول(ص) کے مقابلہ پر آنا اور ایسے شخص سے جنگ کرنا جس کے لیے رسول اللہ(ص) نے فرمایا تھا کہحربک حربی ( یعنی اے علی(ع) تم سے جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے۔ بہت بڑا ننگ اور رسول خدا (ص) سے جنگ نہیں تھی؟ پس آپ کیوںکر کہہ سکتے ہیں کہ لفظ اصحاب یا بیعت رضوان میں حاضری مکمل نجات کی ضامن ہے؟

معاویہ اور عمرو عاص علی علیہ السلام کو سب و شتم کرتے تھے

آیا معاویہ اور عمرو بن عاص اصحا بمیں سے نہیں تھے جنہوں نے خلیفہ رسول سے جنگ کی۔ اس کے علاوہ منبروں اور جلسوں میں یہاں تک خطبہ نماز جمعہ میں علی علیہ السلام پر سب و شتم اور لعنت کرتے تھے؟

۳۰

باوجودیکہ آپ ہی کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بار بار فرمایا :

"من‏ سبّ‏ عليافقدسبني،ومنسبنيفقدسبّاللّهعزوجل. "

یعنی جو شخص علی(ع) کو دشنام دے در حقیقت اس نے مجھ کو دشنام دی اور جو شخص مجھ کو سب و دشنام دے در حقیقت اس نے خدا کو سب و دشنام دیا۔

پس اس حدیث کے قاعدے سے جس پر آپ کا دارو مدار ہے، بقول رسول(ص)، ملعون ابن ملعون اشخاص اور علی علیہ السلام کو سب وشتم کرنے والوں کی جو حقیقتا خدا و رسول(ص) کو سب وشتم ( جیسا کہ خود آپ کے علماء نے لکھا ہے) پیروی کرنے والے ہدایت یافتہ اور اہل بہشت ٹھہرے۔ فاضل تفتازانی نے شرح مقاصد میں اس موضوع پر ایک مفصل بیان دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ صحابہ کے درمیان چونکہ سخت لڑائیاں اور عداوتیں واقع ہوئیں لہذا پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ راہ حق سے منحرف ہوگئے اور بعض بغض و حسد، عناد، حب ریاست، اور لذات شہوانی کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے ہر قسم کا ظلم و تعدی کیا۔ بدیہی چیز ہے کہ بہت سے اصحاب چونکہ معصوم نہیں تھے افسوسناک حرکات کے مرتکب ہوئے لیکن بعض علماء نے اپنے حسن ظن کی وجہ سے ان کی بد اعمالیوں کےلیے فضول تاویلیں کی ہیں۔

آپ کی نقل کی ہوئی اس حدیث کی رد میں اس طرح کی واضح دلیلیں بہت ہیں لیکن اس سے زیادہ تفصیل کی وقت میں گنجائش نہیں۔ پس قطعا یہ حدیث گڑھی ہوئی ہے جیسا کہ آپ ہی کے بہت سے علماء نے کتاب الموضوعات میں اس کے سلسلہ اسناد کو مشتبہ بتایا ہے۔

اصحابی کالنجوم کے اسناد ضعیف ہیں

چنانچہ قاضی عیاض شرح الشفاء جلد دوم ص91 میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ دار قطنی نے فضائل میں اور ابن عبدالبر نے انہیں کے طریق سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے اسناد میں کوئی مضبوطی نہیں۔ نیز عبد بن حمید سے اور انہوں نے اپنی مسند میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ بزار اس حدیث کی صحت کا منکر تھا۔

نیز کہتے ہیں کہ ابن عدی نے کامل میں اپنے اسناد کے ساتھ نافع سے اور انہوں نے عبداللہ ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے اسناد ضعیف ہیں۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ بیہقی نے روایت کی ہے کہ اس حدیث کا متن مشہور ہے لیکن اس کے اسناد ضعیف ہیں۔ انتہی۔

چونکہ اس حدیث کے اسناد میں حارث بن غفین مجہول الحال اور حمزہ ابن ابی حمزہ نصیری جو کذب و دروغ گوئی سے متہم ہے موجود ہیں لہذا حدیث کا ضعف ثابت ہے۔

نیز ابن حزم نے کہا ہے کہ یہ حدیث جھوٹی، گڑھی ہوئی اور باطل ہے۔ پس ایسی ضعیف سلسلہ اسناد کی حدیث

۳۱

قابل اعتماد نہیںاور اس کے استدلال کا سہارا نہیں لیا جاسکتا۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تب بھی قطعا اس کی عمومیت منظور نظر نہیں تھی بلکہ نیک بخت اور نیکوکار اصحاب کی اقتدا مراد تھی جنہوں نے حکم رسول(ص) سے کتاب خدا اور عترت طاہرہ(ع) کی اطاعت کی۔

صحابہ معصوم نہیں تھے

اب ان مقدمات کے بعد عرض کئے گئے اگر بعض صحابہ پر تنقید اور نکتہ چینی کی جائے تو قابل مذمت نہ ہوگی۔ اس لیے کہ صحابہ بشری عادتوں کے حامل اور غیر معصوم تھے۔ پس جب وہ معصوم نہ تھے تو ان سے خطا بھی ہوسکتی ہے۔

حافظ : ہم بھی قائل ہیں کہ صحابہ معصوم نہیں تھے لیکن یہ بھی مسلم ہے کہ سب کے سب عدول تھے اور ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا تھا۔

خیر طلب : یہ آپ کی زیادتی ہے کہ حتمی طور سے ان کو عادل اور گناہوں سے مبرا سمجھ لیا۔ اس لیے کہ خود آپ کے علماء کی معتبر کتابوں میں جو روایتیںمروی ہیں اور اس کے برخلاف حکم دے رہی ہیں کہ بہت سے اکابر صحابہ بھی اپنی پرانی عادت کی بنا پر کبھی کبھی گناہوں کا ارتکاب کیا کرتے تھے۔

حافظ : ہم کو ایسی روایتوں کا علم نہیں ہے۔ اگر آپ کے پیش نظر ہوں تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : قطع نظر ان باتوں سے جو زمانہ جاہلیت میں سرزد ہوئیں تھیں اسلام کی حالت میں بھی اکثر گناہوں کے مرتکب ہوتے تھے جن سے بطور نمونہ میں صرف ایک روایت پر اکتفا کرتا ہوں۔

آپ کے بڑے علماء اپنی معتبر کتابوں میں نقل کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ( سنہ8 ہجری میں) کبار صحابہ میں سے کچھ لوگ ایک بزم عشرت قائم کئے ہوئے تھے جس میں پوشیدہ طور سے شراب نوشی ہوتی تھی۔

حافظ : قطعی طور پر یہ روایت مخالفین کی گڑھی ہوئی ہے۔ کیونکہ حرام ہوجانے کے بعد شراب پینا تو در کنار، بزرگ صحابہ تو ایسی گندی محفلوں میں شریک بھی نہیں ہوتے تھے۔

خیر طلب : قعطا مخالفین کی گڑھی ہوئی نہیں ہے بلکہ اگر اس کو وضع کیاہے تو آپ ہی کے علماء نے کیا ہے۔

نواب : قبلہ صاحب اگر کوئی ایسی بزم تھی تو یقینا صاحب خانہ اور مدعو اشخاص کے نام بھی ذکر کئے گئے ہوں گے کیا آپ ہم لوگوں کے لیے اس کی وضاحت فرما سکتے ہیں؟

خیر طلب : جی ہاں یہ مطلب آپ کے علماء کے یہاں تشریح سے بیان ہوا ہے۔

نواب : گذارش ہے کہ بیان فرمائیے تاکہ معمہ حل ہو۔

۳۲

خفیہ جلسے میں دس(10) نفر صحابہ کی شراب نوشی

خیر طلب : ابن حجر فتح الباری جلد دہم ص30 میں لکھتے ہیں کہ ابوطلحہ زید بن سہل نے اپنے مکان میں ایک محفل شراب تشکیل دی اور اس میں دس افراد کو دعوت دی، ان سب نے شراب پی اور ابوبکر نے کفار و مشرکین اور کشتگان بدر کے لیے مرثیے کے چند شعر کہے۔

نواب : آیا مدعو اشخاص کے نام بھی ذکر کئے گئے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو بیان فرمائیے تاکہ حقیقت ظاہر ہو۔

خیر طلب : 1۔ ابوبکر بن ابی قحافہ۔ 2۔ عمر ابن خطاب۔ 3۔ ابوعبیدہ جراح۔ 4۔ ابی بن کعب۔ 5۔ سہل بن سفیاء۔ 6۔ ابوایوب اںصاری۔ 7۔ ابوطلحہ ( دعوت کرنے والا اور صاحب خانہ۔ 8۔ ابو دجاتہ سماک بن حرشہ ۔ 9۔ ابوبکر بن شغوب۔ 10۔ و انس بن مالک جو اس وقت 18 سال کے اور ساقی محفل تھے۔ چنانچہ بیہقی نے سنن جلد ہشتم ص29 میں خود انس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں اس وقت سب سے کم سن اور ساقی محفل تھا(جلسہ میں سخت ہمہمہ)

شیخ : ( غصے کےساتھ) قسم پروردگار کی یہ روایت دشمنوں کی بنائی ہوئی ہے۔

خیر طلب : ( تبسم کے ساتھ) آپ تو بہت تیز پڑگئے اور جھوٹی قسم بھی کھالی۔ خطا آپ کی بھی نہیں ہے، آپ کا مطالعہ ہی کم ہے اگر کتابیں دیکھنے کی زحمت برداشت کرتے تو نظر آتا کہ خود آپ ہی کے علماء نے لکھا ہے۔ پس آپ کو استغفار کرنا چاہیئے۔ اب میں آپ حضرات کے سامنے وضاحت کرنے پر مجبور ہوں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ آپ ہی کے علماء کا بیان ہے۔اس واقعہ کے بعض اسناد جو میرے پیش نظر ہیں عرض کرتا ہوں۔

محمد بن اسمعیل بخاری نے اپنی صحیح تفسیر آیہ خمر سورہ مائدہ میں، مسلم ابن حجاج نے اپنی صحیح کتاب اشربہ باب تحریم الخمر میں، امام احمد بن حنبل نے مسند جلد سوم ص181 و ص227 میں، ابن کثیر نے اپنی تفسیر جلد دوم ص93 و ص94 میں، جلال الدین سیوطی نے درالمنثور جلد دوم ص321 میں، طبری نے اپنی تفسیر جلد ہفتم ص24 میں< ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد چہارم ص22 اور فتح الباری جلد دہم ص30 میں، بدر الدین حنفی نے عمدۃ القاری جلد دہم ص84 میں، بیہقی نے سنن ص286 وص290 میں اور دوسروں نے بھی ان حالات کو شرح و بسط سے نقل کیا ہے۔

شیخ : شاید حرام ہونے کے بعد نہیں بلکہ پہلے ایسا ہوا ہو۔

خیر طلب : تفسیر و تاریخ کی کتابوں میں جو قواعد درج ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات تحریم نازل ہونے کے بعد بھی بعض مسلمان اور صحابہ شراب حرام استعمال کرتے تھے۔

چنانچہ محمد بن جریر طبری نے اپنی تفسیر کبیر جلد دوم ص203 میں ابی القموس زید بن علی کی سند سے نقل کیا ہے کہ انہوں

۳۳

نے کہا ، خدا نے تین مرتبہ آیات خمر یہ نازل فرمائیں۔ پہلی مرتبہ آیت نمبر219 سورہ بقرہ:

"يَسْئَلُونَكَ‏ عَنِ‏ الْخَمْرِوَالْمَيْسِرِقُلْفِيهِماإِثْمٌكَبِيرٌوَمَنافِعُلِلنَّاسِوَإِثْمُهُماأَكْبَرُمِنْنَفْعِهِما"

یعنی اے پیغمبر(ص) تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں تو کہہ دو کہ ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے فوائد بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ ہے۔

نازل ہوئی لیکن مسلمان متبہ نہ ہوئے اور شراب پیتے رہے، یہاں تک کہ دو آدمی شراب پی کر مستی کی حالات میں مشغول نماز ہوئے اور بیہودہ باتیں بکیں تو خداوند عالم نے آیت نمبر43 سورہ نمبر4( نساء) نازل فرمائی کہ :

"ياأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوالاتَقْرَبُواالصَّلاةَوَأَنْتُمْسُكارى‏ حَتَی تَعْلَمُوا مَا تقُولُون"

یعنی اے ایمان لانے والوں نشے کی حالت میں نماز کے پاس نہ جائو یہاں تک کہ اپنی باتیں سمجھنے لگو۔

لیکن پھر بھی شراب نوشی جاری رہی، البتہ نشے کی حالت میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ حتی کہ ایک روز ایک شخص نے شراب پی ( جو روایت بزرو ابن حجر و ابن مردویہ کی بنا پر ابوبکر تھے) اور جنگ بدر میں قتل ہونے والے کافروں کے لیے مرثیےکے چند اشعار کہے، رسول اللہ(ص) نے سنا تو غصے کے عالم میں تشریف لائے اور جو چیز دست مبارک میں لیے ہوئے تھے اس سے مارنا چاہا تو اس نے کہا کہ میں خدا و رسول(ص) کے غصے سے پناہ مانگتا ہوں۔ خدا کی قسم اب نہیں پئیوں گا۔ اس وقت یہ آیت نمبر91 سورہ نمبر5 ( مائدہ) نازل ہوئی کہ :

"ياأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُواإِنَّمَاالْخَمْرُوَالْمَيْسِرُوَالْأَنْصابُوَالْأَزْلامُرِجْسٌمِنْعَمَلِالشَّيْطانِفَاجْتَنِبُوهُلَعَلَّكُمْتُفْلِحُونَ‏"

یعنی اے ایمان لانے والو شراب ، قمار بازی، بت پرستی اور جوئے کے تیر ( زمانہ جاہلیت کی ایک رسم) یہ سب نجاست و گندگی اور عمل شیطان ہے لہذا اس سے دور رہو تاکہ شاید نجات پائو۔

جو کچھ عرض کیا گیا اس کا مقصد آپ حضرات کو یہ بتانا تھا کہ صحابہ میں بھی دوسرے مومنین ومسلمان کی طرح اچھے اور برے لوگ تھے۔ یعنی ان میں سے جو لوگ احکام خدا و رسول(ص) کی اطاعت میں سعی کرتے تھے وہ سعادتکی بلند منزل پر پہنچے اور جنہوں نے خواہش نفسانی اور فریب شیطانی کا اتباع کیا وہ پست و حقیر ہوئے۔ پس جو لوگ صحابہ پر طعن اور تنقید کرتے ہیں وہ جو کچھ کہتے ہیں منطقی دلائل کے ساتھ کہتے ہیں، صحابہ کے زشت و ناپسندیدہ حالات علاوہ اس کے کہ خود آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں، آیات قرآنی کے شواہد سے بھی قابل مذمت قرار پاتے ہیں اور شیعہ بھی اسی وجہ سے ان کی گرفت کرتے ہیں۔ لہذا ان منطقی اعتراضات کا اگر کوئی منطقی ہی جواب ہو تو قابل قبول ہوسکتا ہے۔ مذموم صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان بے جا محبت اور دشمنی کا برتائو کرے، یعنی کسی فرد یا افراد سے اپنی محبت اور تعلقات کی بنا پر ان کے سارے حرکات وسکنات اور اقوال و افعال کو نگاہتحسین سے دیکھے اور کہے کہ ان سے ہرگز کوئی بدی عالم وجود میں نہیں آئی۔

حافظ : بہت بہتر، فرمائیے اصحاب کے زشت و ناپسندیدہ اعمال و افعال کس قسم کے تھے؟ اگر دلیل و برہان سے منطبق ہو تو ہم بھی مان لیں گے۔

۳۴

صحابہ کی عہد شکنی

خیر طلب : تعجب ہے کہ ان ساری مذموم صفتوں کے بعد ( جن میں سے مشتے نمونہ از خردار نے پیش کیا گیا) پھر آپ فرماتے ہیں کہ ان کی مذموم صفتیں کیا تھیں۔ اب میں اپنی گذارش کی تائید میں ان زشت و زبوں اعمال میں سے جو ان سے سرزد ہوئے اور فریقین کی تمام کتابوں میں درج ہیں ایک اور نمونہ پیش کرتا ہوں اور وہ ہے ان کی عہد شکنی اور بیعت کی خلاف ورزی کیونکہ خدائے تعالی نے آیت نمبر29 سورہ نمبر16 ( نحل) میں ایفائے وعدہ اور تکمیل عہد کو واجب فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے :

"وَأَوْفُوابِعَهْدِاللَّهِ‏إِذاعاهَدْتُمْوَلاتَنْقُضُواالْأَيْمانَبَعْدَتَوْكِيدِها"

یعنی تم پر واجب ہے کہ جب تم خدا و رسول(ص) سے کوئی عہد و پیمان کرچکے تو اس کو پورا کرو اور قسموں کو مستحکم کرنے کے بعد نہ توڑو۔

اور آیت نمبر25 سورہ نمبر13( رعد) میں عہد توڑنے والوں کو ملعون فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

"وَالَّذِينَ‏ يَنْقُضُونَ‏ عَهْدَاللَّهِ‏مِنْبَعْدِمِيثاقِهِوَيَقْطَعُونَماأَمَرَاللَّهُبِهِأَنْيُوصَلَوَيُفْسِدُونَفِيالْأَرْضِأُولئِكَلَهُمُاللَّعْنَةُوَلَهُمْسُوءُالدَّارِ."

یعنی جو لوگ خدا و رسول(ص) سے عہد و پیمان مضبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور جن رشتوں کو ملانے کے لیے اللہ نے حکم دیا ہے( جیسے صلہ رحم اور محبتو ولایت امیرالمومنین علیہ السلام) ان کو قطع کرتے ہیں اور روئے زمین پر فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں ان کے لیے خاص طور پر لعنت وغضب الہی ہے اور انہیں کے لیے عذاب جہنم ہے۔)

پس آیات الہی اور ان کثیر اخبار و احادیث کے حکم سے جو ہماری اور آپ کی کتابوں میں وارد ہیں عہد توڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ خصوصا خدا اور حکم خدا و رسول(ص) کے ساتھ عہد شکنی جو قطعا آن حضرت(ص) کے اصحاب و اقربا کے لیے تو بد سے بدتر تھی۔

حافظ : کونسا عہد اور کونسی بیعت تھی جو خدا و رسول(ص) کے حکم سے قائم ہوئی اور اصحاب و یاران پیغمبر(ص) نے اس میں عہد شکنی کی جس سے ہم ان کو آیات قراںی کی زد میں لا سکیں؟

میرا خیال ہے کہ اگر آپ توجہ کیجئے تو تصدیق کیجئے گا کہ یہ سب شیعہ عوام کی من گڑہت باتیں ہیں ورنہ صحابہ رسول(ص) ایسی حرکتوں سے مبرا تھے۔

قرآن میں صادقین سے مراد محمد(ص) و علی(ع) ہیں

خیر طلب: میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ شیعہ چونکہ اپنے صادق و مصدق پیشوائوں کی پیروی پر مجبور ہیں ورنہ شیعہ ہی نہیں رہ سکتے لہذا ان کے خواص یا عوام ہرگز کوئی حدیث و روایت نہیں گڑھتے اور جھوٹ نہیں کہتے، اس لئے کہ ان کے ائمہ

۳۵

ہر حیثیت سے صادق ومصدق تھے، چنانچہ قرآن مجید کی سچائی پر گواہی دی ہے۔ جیسا کہ آپ کے بڑے بڑے علماء مثلا امام ثعلبی اور جلال الدین سیوطی نے تفسیر میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے مانزل من القرآن فی علی میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، شیخ سلمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب39 میں خوارزمی و حافظ ابونعیم اور حموینی سے اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب62 میں پوری سند کے ساتھ نیز تاریخ محدث شام سے، سب نے نقل کیا ہے کہ آیت نمبر120 سورہ نمبر9 ( توبہ) :

"ياأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوااتَّقُوااللَّهَوَكُونُوامَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے ایمان والو خدا ترس بنو اور سچے لوگوں کی پیروی اختیار کرو۔( جو محمد(ص) و علی(ع) اورع ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں) میں صادقین سے مراد محمد(ص) و علی علیہم سلام ہیں، اور ان روایات میں سے بعض میں ہے کہ پیغمبر(ص) اور ائم اہل بیت علیہم السلام والصلوۃ مراد ہیں۔ پس اس جلیل القدر خاندان کے پیرو چاہے عالم ہوں یا جاہل، جھوٹے اور جعل ساز نہیں ہوسکتے۔ کیوںکہ غلط اور من گھڑت باتیں کہنے کی ضرورت تو اسی کو ہوگی جو اپنی حقانیت پر سچے اور مضبوط دلائل نہ رکھتا ہو۔ شیعہ تو وہی کہتے ہیں جو خود آپ کے علماء مورخین تحریر کرچکے ہیں۔ اگر کوئی ایراد ہے تو سب سے پہلے اپنے علماء پر وارد کیجئے کہ انہوں نے لکھا کیوں۔ اگر آپ کے اکابر علماء صحابہ کی عہد شکنی کو اپنی معتبر کتابوں میں درج نہ کرچکے ہوں تو میں ایسے جلسے میں ان باتوں کو ہرگز پیش نہ کرتا۔

حافظ : علماء اہل سنت میں سے کس نے اور کہاں لکھا ہے کہ صحابہ نے عہد شکنی کی اور کیا عہد شکنی کی؟ صرف لفاظی سے تو بات نہیں بنے گی۔

خیر طلب: یہ لفاظی نہیں بلکہ برہان و منطق اور حقیقت ہے اکثر مقامات پر صحابہ نے عہد شکنی کی ہے اورجس بیعت کا حکم رسول اللہ(ص) نے دیا تھا اس کو توڑا ہے چنانچہ ان میں سب سے اہم غدیر کا عہد اور بیعت تھی۔

حدیث غدیر اور اس کی نوعیت

فریقین ( شیعہ و سنی) کےجمہور علماء معترف ہیں کہ ہجرت کے دسویں سال حجتہ الوداع میں مکہ معظمہ سے واپسی کے وقت اٹھارویں ذی حجہ کو رسول اللہ(ص) نے غدیر خم کے میدان میں اپنے تماماصحاب کو جمع کیا، یہاں تک کہ آں حضرت(ص) کے حکم آگے جانے والے لوگ واپس بلائے گئے اور پیچھے رہ جانے والوں کا انتطار کیا گیا۔ چنانچہ آپ کے اکثر بڑے بڑے علماء و مورخین اور شیعوں کی سند سے ستر ہزار اور آپ کے بعض دوسرے علماء کی سند سے جیسا کہ امام ثعلبی نے اپنی تفسیر میں سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ فی معرفۃ الائمہ میں نیز اورروں نے لکھا ہے، ایک لاکھ بیس ہزار مسلمان اکٹھا ہوگئے تھَ۔

حضرت رسول خدا(ص) کے لیے ایک منبر مرتب کیا گیا جس پر آں حضرت تشریف لے گئے اور ایک بہت طولانی خطبہ ارشاد فرمایا جس کا زیادہ تر حصہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب پر مشتمل تھا، جو آیتیں حضرت علی(ع)

۳۶

کی شان میں نازل ہوئی تھیں ان میں سے اکثر کی تلاوت اور یاد دہانی فرمائی اور ساری امت کو ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کے مقدس مرتبے کی طرف بخوبی متوجہ فرمایا۔ اس کے بعد فرمایا :

" معاشر الناسألست‏ أولى‏ بكم‏منأنفسكم؟قالوا: بلى؛قال: منكنتمولاهفهذا عليّمولاه"

یعنی اے جماعت انسانی آیا میںتمہاری جانوں سے زیادہ تم پر اولی بہ تصرف نہیں ہوں؟ ( یہ آیہ شریفہ "النَّبِيُ‏ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ‏" ( یعنی رسول اللہ(ص) تمام مومنین کی جانوں سے زیادہ ان پر تصرف کا حق رکھتے ہیں 12 مترجم، کی طرف اشارہ تھا) لوگوں نے عرض کیا ضرور ایسا ہی ہے۔ اس وقت آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں ( یعنی اس کے امور میں اولی بہ تصرف ہوں) پس یہ علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں)

پھر ہاتھوں کا بلند کر کے دعا فرمائی:

"اللهمّوالمنوالاه،وعادمنعاداه،وانصرمننصره،واخذلمنخذله"

یعنی خداوند دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے، اور مدد کر اس کی جو علی(ع) کی مدد کرے اور چھوڑ دے اس کو جو علی(ع) کو چھوڑ دے۔

اس کے بعد رسول اللہ(ص) کے حکم سے ایک خیمہ نصب کیا گیا اور آنحضرت(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو حکم دیا کہ خیمہ کے اندر بیٹھیں اور جتنی امت وہاں موجود تھی سب کو مامور فرمایا کہ جا کر علی(ع) کی بیعت کرو کیونکہ مجھ کو خدا کی طرف سے تاکید ہے کہ میں تم سے علی(ع) کے لیے بیعت لوں۔

"من بايع ذالک اليوم عليا کان عمر ثم ابابکر ثم عثمان ثم طلحة ثم زبير و کانوايبايعون ثلاثةايام متواترة"

یعنی اس روز سب سے پہلے جس شخص نے بیعت علی(ع) کی وہ عمر تھے پھر ابوبکر پھر عثمان پھر طلحہ پھر زبیر اور یہ پانچوں اشخاص متواتر تین روز تک ( جب تک پیغمبر(ص) وہاں فروکش رہے) بیعت کرتے رہے۔

حافظ : بھلا اس بات کا یقین کیا جاسکتا ہے کہ جیسا کہ آپ نے بیان کیا اس قدر اہمیت کے ساتھ حکم دیا گیا ہو اور بڑے بڑے علماء نے اسے نقل نہ کیا ہو۔

خیر طلب : مجھ کو بالکل توقع نہیں تھی کہ آپ ایسی بات کہیں گے۔ در آنحالیکہ غدیر خم کا یہ واقعہ آفتاب نصف النہار کی طرح ظاہر اور روشن ہے اور اس حقیقت سے سوا متعصب اور ہٹ دھرم انسان کے اور کوئی شخص انکار کر کے اپنی فضیحت و رسوائی مول نہیں لے سکتا۔ اس لیے کہ اس اہم واقعہ کو آپکے سارے ثقہ علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے، جن میں سے چند نام جو اس وقت میری نظر میں ہیں پیش کرتا ہوں تاکہ مطلب واضح ہوجائے اور آپ جان لیں کہ آپ کے جمہور اکابر علماء نے اس پر یقین و اعتماد کیا ہے۔

۳۷

علمائے عامہ میں سے حدیث غدیر کے معتبر راوی

1۔ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر مفاتیح الغیب میں۔ 2۔ امام احمد ثعلبی تفسیر کشف البیان میں۔

3۔ جلال الدین سیوطی تفسیردر المنثور میں۔ 4۔ ابو الحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری اسباب النزول میں۔5۔ محمد بن جریر طبری تفسیر کبیر میں۔6۔ حافظ ابونعیم اصفہانی کتاب ما نزل من القرآن فی علی اور حلیتہ الاولیاء میں۔7۔ محمدبن اسماعیل بخاری اپنی تاریخ جلد اول ص375 م میں۔ 8۔ مسلم بن حجاج نیشاپوری اپنی صحیح جلد دوم ص325 میں۔ 9۔ ابو دائود سجستانی سنن میں۔ 10۔ محمدبن عیسی ترمذی سنن میں۔ 11۔ حافظ ابن عبدہ کتاب الولایہ میں۔ 12۔ ابن کثیر شافعی دمشقی اپنی تاریخ میں۔ 13۔ امام ائمہ حدیث احمد ابن حنبل مسند جلد چہارم ص281، 371 میں۔ 14۔ ابو حامد محمد بن بن محمد الغزال سر العالمین میں۔ 15۔ ابن عبدالبر الاستیعاب میں۔ 16۔ محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص16 میں۔ 17۔ ابن مغازلی فقیہ شافعی مناقب میں۔ 18 ۔ نور الدین بن صباغ مالکی فصول المہمہ ص24 میں۔ 19۔ حسین بن مسعود نجومی مصابیح السنہ میں۔ 20۔ ابو الموئد موفق بن احمد خطیب خوارزمی مناقب میں۔21۔ مجدد الدین اثیر محمد بن محمد شیبانی جامع الاصول میں۔ 22۔ حافظ ابو عبدالرحمن احمد بن علی نسائی خصائص العلوی اور سنن میں۔ 23۔ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب4 میں۔ 24۔ شہاب الدین احمد بن حجر مکی صواعق محرقہ اور کتاب المخ الملکیہ میں، بالخصوص صواعق باب اول ص25 میں اپنے انتہائی تعصب کے باوجود کہتے ہیں :

"إنه‏ حديث‏ صحيح‏ لامريةفيه،وقدأخرجه جماعةكالترمذي،والنسائي،وأحمد،وطرقه كثيرةجدا"

یعنی یہ ایک صحیح حدیث ہے جس کی صحت میں کوئی شک نہیں، بتحقیق کہ اس کو ایک جماعت نے مثلا ترمذی، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ اور اگر تلاش کی جائے تو اس کے طرق کثرت سے ہیں۔

25۔ محمد بن یزید حافظ ابن ماجہ قزوینی سنن میں۔ 26۔ حافظ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری مستدرک میں۔ 27۔ حافظ سلیمان بن احمد طبرانی اوسط میں۔ 28۔ ابن اثیر جذری اسد الغابہ میں۔ 29۔ یوسف سبط ابن جوزی تذکرہ خواص الائمہ ص17 میں۔ 30۔ ابو عمر احمد بن عبدریہ عقد الفرید میں۔ 31۔ علامہ سمہودی جواہر العقدین میں۔ 32۔ ابن تیمیہ احمد ابن عبدالحلیم منہاج السنتہ میں۔ 33۔ ابن حجر عسقلانی فتح الباری اور تہذیب التہذیب میں۔ 34۔ ابوالقاسم محمد بن عمر جار اللہ زمخشری ربیع الابرار میں۔

۳۸

35۔ ابو سعید سجستانی کتاب الدرایہ فی حدیث الولایتہ میں۔ 36۔ عبید اللہبن عبداللہ حسکانی دعاۃ الہدی الی ادا حق الموالات میں۔ 37۔ زرین بن معاویتہ العبدری جمع بین الصحاح الستہ میں۔ 38۔ امام فخر الدین رازی کتاب الاربعین میں کہتے ہیں کہ اس حدیث شریف پر تمام امت نے اجماع کیا ہے۔ 39۔ مقبلی احادیث المتواترہ میں۔ 40۔ جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء میں۔ 41۔ میر سید علی ہمدانی مودۃ القربی میں۔ 42۔ ابوالفتح نظری خصائص العلوی میں۔43۔ خواجہ پارسائے نجاری فصل الخطاب میں۔ 44۔ جماالدین شیرازی کتاب الاربعین میں۔45۔ عبدالرئوف المنادی فیض القدیر فی شرح جامع الصغیر میں۔ 46۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب میں۔ 47۔ یحیی بن شرف النووی کتاب تہذیب الاسماء واللغات میں۔ 48۔ ابراہیم بن محمد حموینی فرائد السمطین میں۔ 49۔ قاضی فضل اللہ بن روز بہمان البطال الباطل میں۔ 50۔ شمس الدین محمد بن احمد شربینی سراج المنیر میں۔ 51۔ ابو الفتح شہرستانی شافعی ملل و نحل میں۔ 52۔ حافظ ابوبکر خطیب بغدادی اپنی تاریخ میں۔ 53۔ حافظ ابن عساکر ابوالقاسم دمشقی تاریخ کبیر میں۔ 54۔ ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ میں۔ 55۔ علائو الدین سمنانی عروۃ الوثقی میں۔ 56۔ ابن خلدون اپنی تاریخ کے مقدمے میں۔ 57۔ مولوی علی متقی ہندی کنزالعمال میں۔58۔ شمس الدین ابوالخیر دمشقی اسنی المطالب میں۔ 59۔ سید شریف جرجانی حنفی شرح مواقف میں۔ 60۔ نظام الدین نیشاپوری تفسیر غرائب القرآن میں۔

طبری، ابن عقدہ اور ابن حداد

غرض کہ جس میرے حافظے میں محفوظ تھا عرض کردیا ورنہ آپ کے تین سو سے زائد اکابر علماء نے مختلف طریقوں سے حدیث غدیر، آیات تبلیغ و اکمال دین اور صحن مسجد کی گفتگو کو سو نفر سے زیادہ اصحاب رسول(ص) کے اسناد سے نقل کیا ہے۔ اگر میں تمام روات اور ان کے اسماء کی فہرست پیش کرنا چاہوں تو ایک مستقل کتاب تیار ہوجائے گی۔ لہذا میرا خیال ہے کہ تواتر کو ثابت کرنے کے لیے نمونےکے طور پر اسی قدر نام کافی ہوں گے۔

آپ کے بعض اکابر علماء نے اس موضوع پر پوری پوری کتابیں لکھی ہیں، جیسے چوتھی صدی کے مشہور مفسر و مورخ جعفر محمد بن جریر طبری متوفی سنہ310ہجری نے کتاب الولایتہ میں جو مستقل طور پر حدیث غدیر کے بارے میں لکھی ہے۔ پچھتر طریقوں سے اس کی روایت کی ہے۔

حافظ ابوالعباس احمد بن سعید بن عبدالرحمن الکوفی معروف بابن عقدہ متوفی سنہ333ھ نے کتاب الولایتہ میں اس حدیث

۳۹

شریف کو ایک سو پچیس طریقوں سے ایک سو پچیس صحابہ رسول(ص) کے اسناد سے پوری تحقیقات کے ساتھ نقل کیا ہے۔

اور ابن حداد حافظ ابوالقاسم حسکانی متوفی سنہ492 ہجری نے کتاب الولایتہ میں واقعہ غدیر کو نزول آیات کے ساتھ تفصیل سے نقل کیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ( سوا تھوڑے سے متعصب مخالفین کے)آپ کے سبھی محققین علماء فضلاء نے سلسلہ روایت کے ساتھ حضرت رسول خدا(ص) سے نقل کیا ہے کہ اس روز ( 18 ذی الحجہ کو) حجتہ الووداع کے سال آنحضرت نے علی علیہ السلام کو منصب ولایت پر نصب فرمایا۔

یہاں تک کہ خلیفہ عمر ابن الخطاب نے تمام اصحاب سے پہلے مسرت کا اظہار فرمایا اور حضرت کا ہاتھ پکڑ کر کہا :

"بخ‏ بخ‏ ياعلي‏أصبحتمولايوم ولى كل مؤمن ومؤمنة."

مبارک ہو۔ مبارک ہو( بخ بخ اسم فعل ہے جو کسی موقع پر مدح اور اظہار مسرت کے لیے کہا جاتا ہے اور اس کی تکرار مبالغے کے لیے ہے) اے علی تم نے ایسی حالت میں صبح کی کہ میرے آقا و مولا اور ہر مومن ومومنہ کے آقا ومولا ہوگئے۔

امور مسلمہ میں سے ہے کہ یہ حدیث شریف فریقین کے نزدیک متواترات میں سے ہے۔

عمر کو جبرئیل کی نصیحت

فقیہ شافعی میر سید علی ہمدانی میں آپ کے موثق فضلا و فقہاء اور علماء میں سے تھے۔ کتاب مودۃ القربی کی مودت پنجم میں لکھتے ہیں کہ صحابہ کی بہت بڑی جماعت نے مختلف مقامات پر خلیفہ عمر ابن خطاب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا "نصب رسول اللهعليا علما " یعنی رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو بزرگ و سردار اور رہنمائے قوم مقرر فرمایا مجمع عام میں ان کی مولائیت کا اعلان فرمایا اور ان کے دوستوں اور دشمنوں کے حق میں دعا و بد دعا کرنے کے بعد عرض کیا"اللهم انت شهيدی عليهم " خداوند تو ان لوگوں پر میرا گواہ ہے( یعنی میں نے تبلیغ رسالت کردی) اس موقع پر ایک جوان رعنا حسن صورت اور لوئے خوش کے ساتھ میرے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔اس نے مجھ سے کہا :"لقد عقد رسول الله عقد الايحله الا المنافق فاحذر ان تحله " ( یعنی بتحقیق رسول اللہ(ص) نے ایسا عہد باندھا ہے کہ سوا منافق کے اور کوئی نہیں توڑے گا۔ پس اے عمر تم بچو اس سے کہ اس کے توڑنے یا کھولنے والے بنو۔ ( مطلب یہ کہ اگر ایسا ہوا تو تمہارا شمار منافقین میں ہوگا۔)

میں نے رسول اللہ(ص) سے عرض کیا کہ جس وقت آپ علی(ع) کے بارے میں تقریر فرمارہے تھے اس وقت میرے پہلو میں ایک خوش رو اور خوشبو جوان بیٹھا ہوا تھا جس نے مجھ سے ایسی بات کہی آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"انه ليس من له آدم لکنه جبرئيل اراد ان يوکد عليکم ما قلته فی علی (عليه السلام )

یعنی وہ اولاد آدم میں سے نہیں تھا۔ بلکہ

۴۰