پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور20%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316761 / ڈاؤنلوڈ: 7969
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

جناب ابوبکر کی اس حدیث کی تائید کردی ((ص) )_

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس مباحثے میں بھی حضرت زہراء (ع) غالب آئیں اور دلائی و برہان سے ثابت کردیا کہ وہ حدیث جس کا تم دعوی کر رہے ہو وہ صریح قرآنی نصوص کے خلاف ہے اور جو حدیث بھی قرآن کی صریح نص کے خلاف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتی جناب ابوبکر مغلوب ہوئے اور آپ کے پاس اس کے سوا کوئی علاج نہ تھا کہ جناب فاطمہ (ع) کے جواب میں اسی سابقہ جواب کی تکرار کریں_

یہاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہی جناب عائشےہ جنہوں نے اس جگہ اپنے باپ کی بیان کردہ وضعی حدیث کی تائید کی ہے جناب عثمان کی خلافت کے زمانے میں ان کے پاس گئیں اور پیغمبر (ص) کی وراثت کا ادعا کیا_ جناب عثمان نے جواب دیا کیا تم نے گواہی نہیں دی تھی کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے؟ اور اسی سے تم نے جناب فاطمہ (ع) کو وراثت سے محروم کردیا تھا، اب کیسے آپ خود رسول (ص) کی وراثت کا مطالبہ کر رہی ہیں(۲) _

خلیفہ سے وضاحت کا مطالبہ

جناب زہراء (ع) پہلے مرحلہ میں کامیاب ہوئیں اور اپنی منطق اور برہان سے اپنے مد مقابل کو محکوم

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ س ۱۰۴_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۵_

۱۸۱

کردیا قرآن مجید کی آیات سے اپنی حقانیت کو ثابت کیا اور اپنے مد مقابل کو اپنے استدلال سے ناتواں بنادیا، آپ نے دیکھا کہ _ مد مقابل اپنی روش کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کے عمل کو بجالانے کے لئے حتی کہ حدیث بناکر پیش کرنے کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور دلیل و برہان کے مقابلے میں قوت اور طاقت کا سہارا ڈھونڈتا ہے_

آپ نے تعجب کیا اور کہا عجیب انہوں نے میرے شوہر کی خلافت پر قبضہ کرلیا ہے_ یہ آیات قرآن کے مقابل کیوں سر تسلیم خم نہیں کرتے؟ کیوں اسلام کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں؟ کیوں جناب ابوبکر تو مجھے تحریر لکھ کر دیتے ہیں لیکن جناب عمر اسے پھاڑ ڈالتے ہیں؟ اے میرے خدا یہ کسی قسم کی حکومت ہے اور یہ کسی قضاوت ہے؟ تعجب در تعجب: جناب ابوبکر رسول خدا(ص) کی جگہ بیٹھتے ہیں، لیکن حدیث از خود بناتے ہیں تا کہ میرے حق کو پائمال کریں؟ ایسے افراد دین اور قرآن کے حامی ہوسکتے ہیں؟ مجھے فدک اور غیر فدک سے دلچسپی نہیں لیکن اس قسم کے اعمال کو بھی تحمل نہیں کرسکتی بالکل چپ نہ رہوں گی اور مجھے چاہیئے کہ تما لوگوں کے سامنے خلیفہ سے وضاحت طلب کروں اور اپنی حقانیت کو ثابت کروں اور لوگوں کو بتلادوں کہ جس خلیفہ کا تم نے انتخاب کیا ہے اس میں صلاحیت نہیں کہ قرآن اور اسلام کے دستور پر عمل کرے اپنی مرضی سے جو کام چاہتا ہے انجام دیتا ہے_ جی ہان مسجد جاؤں گی اور لوگوں کے سامنے تقریر کروں گی_

یہ خبر بجلی کی طرح مدینہ میں پھیل گئی اور ایک بم کی طرح پورے شہر کو ہلاک رکھ دیا، فاطمہ (ع) جو کہ پیغمبر(ص) کی نشانی ہیں چاہتی ہیں کہ تقریر کریں؟ لیکن

۱۸۲

کس موضوع پر تقریر ہوگی؟ اور خلیفہ اس پر کیا رد عمل ظاہر کرے گا؟ چلیں آپ کی تاریخی تقریر کو سنیں_

مہاجر اور انصار کی جمعیت کا مسجد میں ہجوم ہوگیا، بنی ہاشم کی عورتیں جناب زہراء (ع) کے گھر گئیں اور اسلام کی بزرگ خاتون کو گھر سے باہر لائیں، بنی ہاشم کی عورتیں آپ کو گھیرے میں لئے ہوئے تھیں، بہت عظمت اور جلال کے ساتھ آپ چلیں، پیغمبر(ص) کی طرح قدم اٹھا رہی تھیں، جب مسجد میں داخل ہوئیں تو پردہ آپ کے سامنے لٹکا دیاگیا، باپ کی جدائی اور ناگوار حوادث نے جناب فاطمہ (ع) کو منقلب کردیا کہ آپ کے جگر سے آہ و نالہ بلند ہوا اور اس جلا دینے والی آواز نے مجمع پر بھی اثر کیا اور لوگ بلند آواز سے رونے لگے_

آپ تھوڑی دیر کے لئے ساکت رہیں تا کہ لوگ آرام میں آجائیں اس کے بعد آپ نے گفتگو شروع کی، اس کے بعد پھر ایک دفعہ لوگوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں آپ پھر خاموش ہوگئیں یہاں تک کہ لوگ اچھی طرح ساکت ہوگئے اس وقت آپ نے کلام کا آغاز کیا اور فرمایا:

جناب فاطمہ (ع) کی دہلا اور جلادینے والی تقریر

میں خدا کی اس کی نعمتوں پر ستائشے اور حمد بجالاتی ہوں اور اس کی توفیقات پر شکر ادا کرتی ہوں اس کی بے شمار نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا بجالاتی ہوں وہ نعمتیں کہ جن کی کوئی انتہانہیں اور نہیں ہوسکتا کہ

۱۸۳

ان کی تلافی اور تدارک کیا جاسکے ان کی انتہا کاتصور کرنا ممکن نہیں، خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکریہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالی نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکرہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالی مقامی نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا نے ہم سے حمد و ثنا کو طلب کیا ہے تا کہ وہ اپنی نعمتوں کو ہمارے لئے زیادہ کرے_

میں خدا کی توحید اور یگانگی گواہی دیتی ہوں توحید کا وہ کلمہ کہ اخلاص کو اس کی روح اور حقیقت قرار دیا گیا ہے اور دل میں اس کی گواہی دے تا کہ اس سے نظر و فکر روشن ہو، وہ خدا کہ جس کو آنکھ کے ذریعے دیکھا نہیں جاسکتا اور زبان کے ذریعے اس کی وصف اور توصیف نہیں کی جاسکتی وہ کس طرح کا ہے یہ وہم نہیں آسکتا_ عالم کو عدم سے پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے میں وہ محتاج نہ تھا اپنی مشیئت کے مطابق خلق کیا ہے_ جہان کے پیا کرنے میں اسے اپنے کسی فائدے کے حاصل کرنے کا قصد نہ تھا_ جہان کو پیدا کیا تا کہ اپنی حکمت اور علم کو ثابت کرے اور اپنی اطاعت کی یاد دہانی کرے، اور اپنی قدرت کا اظہار کرے، اور بندوں کو عبادت کے لئے برانگیختہ کرے، اور اپنی دعوت کو وسعت دے، اپنی اطاعت کے لئے جزاء مقرر کی اور نافرمانی کے لئے سزا معین فرمائی_ تا کہ اپنے بندوں کو عذاب سے نجات دے اور بہشت کی طرف لے جائے_

میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمد(ص) اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں، پیغمبری کے لئے بھیجنے سے پہلے اللہ نے ان کو چنا اور قبل

۱۸۴

اس کے کہ اسے پیدا کرے ان کا نام محمّد(ص) رکھا اور بعثت سے پہلے ان کا انتخاب اس وقت کیا جب کہ مخلوقات عالم غیب میں پنہاں اور چھپی ہوئی تھی اور عدم کی سرحد سے ملی ہوئی تھی، چونکہ اللہ تعالی ہر شئی کے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان کے مقدرات کے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے ، خدا نے محمّد(ص) کو مبعوث کیا تا کہ اپنے امر کو آخر تک پہنچائے اور اپنے حکم کو جاری کردے، اور اپنے مقصد کو عملی قرار دے_ لوگ دین میں تفرق تھے اور کفر و جہالت کی آگ میں جل رہے تھے، بتوں کی پرستش کرتے تھے اور خداوند عالم کے دستورات کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے_

پس حضرت محمّد(ص) کے وجود مبارک سے تاریکیاں چھٹ گئیں اور جہالت اور نادانی دلوں سے دور ہوگئی، سرگردانی اور تحیر کے پردے آنکھوں سے ہٹا دیئے گئے میرے باپ لوگوں کی ہدایت کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کو گمراہی سے نجات دلائی اور نابینا کو بینا کیا اور دین اسلام کی طرف راہنمائی فرمائی اور سیدھے راستے کی طرف دعوت دی، اس وقت خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کی مہربانی اور اس کے اختیار اور رغبت سے اس کی روح قبض فرمائی_ اب میرے باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ہیں اور آخرت کے عالم میں اللہ تعالی کے فرشتوں اور پروردگار کی رضایت کے ساتھ اللہ تعالی کے قرب میں زندگی بسر کر رہے ہیں، امین اور وحی کے لئے چتے ہوئے پیغمبر پر درود ہو_

آپ نے اس کے بعد مجمع کو خطاب کیا اور فرمایا لوگو تم اللہ تعالی

۱۸۵

کے امر اور نہی کے نمائندے اور نبوت کے دین اور علوم کے حامل تمہیں اپنے اوپر امین ہونا چاہیئےم ہو جن کو باقی اقوام تک دین کی تبلیغ کرنی ہے تم میں پیغمبر(ص) کا حقیقی جانشین موجود ہے اللہ تعالی نے تم سے پہلے عہد و پیمان اور چمکنے والانور ہے اس کی چشم بصیرت روش اور رتبے کے آرزومند ہیں اس کی پیروی کرنا انسان کو بہشت رضوان کی طرف ہدایت کرتا ہے اس کی باتوں کو سننا نجات کا سبب ہوتا ہے اس کے وجود کی برکت سے اللہ تعالی کے نورانی دلائل اور حجت کو دریافت کیا جاسکتا ہے اس کے وسیلے سے واجبات و محرمات اور مستحبات و مباح اور شریعت کے قوانین کو حاصل کیا جاسکتا ہے_

اللہ تعالی نے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے___ اللہ نے نماز واجب کی تا کہ تکبر سے روکاجائے_ زکوة کو وسعت رزق اور تہذیب نفس کے لئے واجب قرار دیا_ روزے کو بندے کے اخلاص کے اثبات کے لئے واجب کیا_ حج کو واجب کرنے سے دین کی بنیاد کو استوار کیا، عدالت کو زندگی کے نظم اور دلوں کی نزدیکی کے لئے ضروری قرار دیا، اہلبیت کی اطاعت کو ملت اسلامی کے نظم کے لئے واجب قرار دیا اور امامت کے ذریعے اختلاف و افتراق کا سد باب کیا_ امر بالمعروف کو عمومی مصلحت کے ماتحت واجب قرار دیا، ماں باپ کے ساتھ نیکی کو ان کے غضب سے مانع قرار دیا، اجل کے موخر ہونے اور نفوس کی زیادتی کے لئے صلہ رحمی کا دستور دیا_

۱۸۶

قتل نفس کو روکنے کے لئے قصاص کو واجب قرار دیا_ نذر کے پورا کرنے کو گناہوں گا آمرزش کا سبب بنایا_ پلیدی سے محفوظ رہنے کی غرض سے شراب خوری پر پابندی لگائی، بہتان اور زنا کی نسبت دینے کی لغت سے روکا، چوری نہ کرنے کو پاکی اور عفت کا سبب بتایا_ اللہ تعالی کے ساتھ شرک، کو اخلاص کے ماتحت ممنوع قرار دیا_

لوگو تقوی اور پرہیزگاری کو اپناؤ اور اسلام کی حفاظت کرو اور اللہ تعالی کے اوامر و نواحی کی اطاعت کرو، صرف علماء اور دانشمندی خدا سے ڈرتے ہیں_

اس کے بعد آپ نے فرمایا، لوگو میرے باپ محمد(ص) تھے اب میں تمہیں ابتداء سے آخر تک کے واقعات اور امور سے آگاہ کرتی ہوں تمہیں علم ہونا چاہیئےہ میں جھوٹ نہیں بولتی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کرتی_

لوگو اللہ تعالی نے تمہارے لئے پیغمبر(ص) جو تم میں سے تھا بھیجا ہے تمہاری تکلیف سے اسے تکلیف ہوتی تھی اور وہ تم سے محبت کرتے تھے اور مومنین کے حق میں مہربان اور دل سوز تھے_

لوگو وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ تمہاری عورت کے باپ، میرے شوہر کے چچازاد بھائی تھے نہ تمہارے مردوں کے بھائی، کتنی عمدہ محمّد(ص) سے نسبت ہے_ جناب محمد(ص) نے اپنی رسالت کو انجام دیا اور مشرکوں کی راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان کی پشت پر سخت ضرب وارد کی ان کا گلا پکڑا اور دانائی اور نصیحت سے خدا کی طرف دعوت دی، بتوں کو توڑا اور ان کے سروں کو سرنگوں کیا کفار نے شکست کھائی اور شکست کھا کر

۱۸۷

بھاگے تاریکیاں دور ہوگئیں اور حق واضح ہوگیا، دین کے رہبر کی زبان گویا ہوئی اور شیاطین خاموش ہوگئے، نفاق کے پیروکار ہلاک ہوئے کفر اور اختلاف کے رشتے ٹوٹ گئے گروہ اہلبیت کی وجہ سے شہادت کا کلمہ جاری کیا، جب کہ تم دوزخ کے کنارے کھڑے تھے اور وہ ظالموں کا تر اور لذیذ لقمہ بن چکے تھے اور آگ کی تلاش کرنے والوں کے لئے مناسب شعلہ تھے_ تم قبائل کے پاؤں کے نیچے ذلیل تھے گندا پانی پیتے تھے اور حیوانات کے چمڑوں اور درختوں کے پتوں سے غذا کھاتے تھے دوسروں کے ہمیشہ ذلیل و خوار تھے اور اردگرد کے قبائل سے خوف و ہراس میں زندگی بسر کرتے تھے_

ان تمام بدبختیوں کے بعد خدا نے محمد(ص) کے وجود کی برکت سے تمہیں نجات دی حالانکہ میرے باپ کو عربوں میں سے بہادر اور عرب کے بھیڑیوں اور اہل کتاب کے سرکشوں سے واسطہ تھا لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑکاتے تھے خدا سے خاموش کردیتا تھا، جب کوئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشرکوں میں سے کوئی بھی کھولتا تو محمد(ص) اپنے بھائی علی (ع) کو ان کے گلے میں اتار دیتے اور حضرت علی (ع) ان کے سر اور مغز کو اپنی طاقت سے پائمال کردیتے اور جب تک ان کی روشن کی ہوئی آگ کو اپنی تلوار سے خاموش نہ کردیتے جنگ کے میدان سے واپس نہ لوٹتے اللہ کی رضا کے لئے ان تمام سختیوں کا تحمل کرتے تھے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتے تھے، اللہ کے رسول کے نزدیک تھے_ علی (ع) خدا دوست تھے، ہمیشہ جہاد کے لئے آمادہ تھے، وہ تبلیغ اور جہاد کرتے تھے اور تم اس حالت میں آرام اور خوشی میں خوش و خرم زندگی گزار

۱۸۸

رہے تھے اور کسی خبر کے منتظر اور فرصت میں رہتے تھے دشمن کے ساتھ لڑائی لڑنے سے ا جتناب کرتے تھے اور جنگ کے وقت فرار کرجاتے تھے_

جب خدا نے اپنے پیغمبر کو دوسرے پیغمبروں کی جگہ کی طرف منتقل کیا تو تمہارے اندرونی کینے اور دوروئی ظاہر ہوگئی دین کا لباس کہنہ ہوگیا اور گمراہ لوگ باتیں کرنے لگے، پست لوگوں نے سر اٹھایا اور باطل کا اونٹ آواز دیتے لگا اور اپنی دم ہلانے لگا اور شیطان نے اپنا سرکمین گاہ سے باہر نکالا اور تمہیں اس نے اپنی طرف دعوت دی اور تم نے بغیر سوچے اس کی دعوت قبول کرلی اور اس کا احترام کیا تمہیں اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمہیں غضبناک ہونے کا حکم دیا اور تم غضبناک ہوگئے_

لوگو وہ اونٹ جو تم میں سے نہیں تھا تم نے اسے با علامت بناکر اس جگہ بیٹھایا جو اس کی جگہ نہیں تھی، حالانکہ ابھی پیغمبر(ص) کی موت کو زیادہ وقت نہیں گزرا ہے ابھی تک ہمارے دل کے زخم بھرے نہیں تھے اور نہ شگاف پر ہوئے تھے، ابھی پیغمبر(ص) کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تم نے فتنے کے خوف کے بہانے سے خلافت پر قبضہ کرلیا، لیکن خبردار رہو کہ تم فتنے میں داخل ہوچکے ہو اور دوزخ نے کافروں کا احاطہ کر رکھا ہے_ افسوس تمہیں کیا ہوگیا ہے اور کہاں چلے جارہے ہو؟ حالانکہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے اور اس کے احکام واضح اور اس کے اوامر و نواہی ظاہر ہیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تمہارا ارادہ ہے کہ قرآن سے اعراض اور روگردانی

۱۸۹

کرلو؟ یا قرآن کے علاوہ کسی اور ذریعے سے قضاوت اور فیصلے کرتا چاہتے تو؟ لیکن تم کو علم ہونا چاہیئے کہ جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیار کرے گا وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا، اتنا صبر بھی نہ کرسکے کہ وہ فتنے کی آگ کو خاموش کرے اور اس کی قیادت آسان ہوجائے بلکہ آگ کو تم نے روشن کیا اور شیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول خدا(ص) کے خاموش کرنے میں مشغول ہوگئے ہو_ کام کو الٹا ظاہر کرتے ہو اور پیغمبر(ص) کے اہلبیت کے ساتھ مکر و فریب کرتے ہو، تمہارے کام اس چھری کے زخم اور نیزے کے زخم کی مانند ہیں جو پیٹ کے اندر واقع ہوئے ہوں_

کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ ہم پیغمبر(ص) سے میراث نہیں لے سکتے، کیا تم جاہلیت کے قوانین کی طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانکہ اسلام کے قانون تمام قوانین سے بہتر ہیں، کیا تمہیں علم نہیں کہ میں رسول خدا(ص) کی بیٹی ہوں کیوں نہیں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب کی طرح یہ روشن ہے_ مسلمانوں کیا یہ درست ہے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم ہوجاؤں؟ اے ابوبکر آیا خدا کی کتاب میں تو لکھا ہے کہ تم اپنے باپ سے میراث لو اور میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رہوں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں کہتا کہ سلیمان داود کے وارث ہوئے_

''ورث سلیمان داؤد''

کیا قرآن میں یحیی علیہ السلام کا قول نقل نہیں ہوا کہ خدا سے انہوں نے عرض کی پروردگار مجھے فرزند عنایت فرما تا کہ وہ میرا وارث

۱۹۰

قرار پائے او آل یعقوب کا بھی وارث ہو_

کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ بعض رشتہ دار بعض دوسروں کے وارث ہوتے ہیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ اللہ نے حکم دیا کہ لڑکے، لڑکیوں سے دوگنا ارث لیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ تم پر مقرر کردیا کہ جب تمہارا کوئی موت کے نزدیک ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے کیونکہ پرہیزگاروں کے لئے ایسا کرنا عدالت کا مقتضی ہے_

کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں باپ سے نسبت نہیں رکھتی؟ کیا ارث والی آیات تمہارے لئے مخصوص ہیں اور میرے والد ان سے خارج ہیں یا اس دلیل سے مجھے میراث سے محروم کرتے ہو جو دو مذہب کے ایک دوسرے سے میراث نہیں لے سکتے؟ کیا میں اور میرا باپ ایک دین پر نہ تھے؟ آیا تم میرے باپ اور میرے چچازاد علی (ع) سے قرآن کو بہتر سمجھتے ہو؟

اے ابوبکر فدک اور خلافت تسلیم شدہ تمہیں مبارک ہو، لیکن قیامت کے دن تم سے ملاقات کروں گی کہ جب حکم اور قضاوت کرنا خدا کے ہاتھ میں ہوگا اور محمد(ص) بہترین پیشوا ہیں_

اے قحافہ کے بیٹھے، میرا تیرے ساتھ وعدہ قیامت کا دن ہے کہ جس دن بیہودہ لوگوں کا نقصان واضح ہوجائے گا اور پھر پشیمان ہونا فائدہ نہ دے گا بہت جلد اللہ تعالی کے عذاب کو دیکھ لوگے آپ اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:

اے ملت کے مددگار جوانو اور اسلام کی مدد کرنے والو کیوں حق

۱۹۱

کے ثابت کرنے میں سستی کر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس سے خواب غفلت میں ہو؟ کیا میرے والد نے نہیں فرمایا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ ہوتا ہے یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولاد کا احترام کیا کرو؟ کتنا جلدی فتنہ برپا کیا ہے تم نے؟ اور کتنی جلدی ہوی اور ہوس میں مبتلا ہوگئے ہو؟ تم اس ظلم کے ہٹانے میں جو مجھ پر ہوا ہے قدرت رکھتے ہو اور میرے مدعا اور خواستہ کے برلانے پر طاقت رکھتے ہو_ کیا کہتے ہو کہ محمد(ص) مرگئے؟ جی ہاں لیکن یہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے کہ ہر روز اس کا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس کا خلل زیادہ ہو رہا ہے_ آنجناب(ص) کی غیبت سے زمین تاریک ہوگئی ہے سورج اور چاند بے رونق ہوگئے ہیں آپ کی مصیبت پر ستارے تتربتر ہوگئے ہیں، امیدیں ٹوٹ گئیں، پہاڑ متزلزل اور ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں پیغمبر(ص) کے احترام کی رعایت نہیں کی گئی، قسم خدا کی یہ ایک بہت بڑی مصیبت تھی کہ جس کی مثال ابھی تگ دیکھی نہیں گئی اللہ کی کتاب جو صبح اور شام کو پڑھی جا رہی ہے آپ کی اس مصیبت کی خبر دیتی ہے کہ پیغمبر(ص) بھی عام لوگوں کی طرح مریں گے، قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ محمد(ص) بھی گزشتہ پیغمبروں کی طرح ہیں، اگر آپ(ص) مرے یا قتل کئے گئے تو تم دین سے پھر جاوگے، جو بھی دین سے خارج ہوگا وہ اللہ پر کوئی نقصان وارد نہیں کرتا خدا شکر ادا کرنے والوں کو جزا عنایت کرتا ہے(۱) _

اے فرزندان قبلہ: آیا یہ مناسب ہے کہ میں باپ کی میراث سے محروم

____________________

۱) سورہ آل عمران_

۱۹۲

رہوں جب کہ تم یہ دیکھ رہے ہو اور سن رہے ہو اور یہاں موجود ہو میری پکار تم تک پہنچ چکی ہے اور تمام واقعہ سے مطلع ہو، تمہاری تعداد زیادہ ہے اور تم طاقت ور اور اسلحہ بدست ہو، میرے استغاثہ کی آواز تم تک پہنچتی ہے لیکن تم اس پر لبیک نہیں کہتے میری فریاد کو سنتے ہو لیکن میری فریاد رسی نہیں کرتے تم بہادری میں معروف اور نیکی اور خیر سے موصوف ہو، خود نخبہ ہو اور نخبہ کی اولاد ہو تم ہم اہلبیت کے لئے منتخب ہوئے ہو، عربوں کے ساتھ تم نے جنگیں کیں سختیوں کو برداشت کیا، قبائل سے لڑے ہو، بہادروں سے پنجہ آزمائی کی ہے جب ہم اٹھ کھڑے ہوتے تھے تم بھی اٹھ کھڑے ہوتے تھے ہم حکم دیتے تھے تم اطاعت کرتے تھے اسلام نے رونق پائی اور غنائم زیادہ ہوئے اور مشرکین تسلیم ہوگئے اور ان کا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگیا اور دین کا نظام مستحکم ہوگیا_

اے انصار متحیر ہوکر کہاں جارہے ہو؟ حقائق کے معلوم ہو جانے کے بعد انہیں کیوں چھپانے ہو؟ کیوں ایمان لے آنے کے بعد مشرک ہوئے ہو؟ برا حال ہو ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے ایمان اور عہد اور پیمان کو توڑا ڈالا ہو اور ارادہ کیا ہو کہ رسول خدا(ص) کو شہر _ بدر کریں اور ان سے جنگ کا آغاز کریں کیا منافقین سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ تمہیں تو صرف خدا سے ڈرنا چاہیئے تھا_ لوگو میں گویا دیکھ رہی کہ تم پستی کی طرف جارہے ہو، اس آدمی کو جو حکومت کرنے کا اہل ہے اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ میں بیٹھ کر عیش اور نوش

۱۹۳

میں مشغول ہوگئے ہو زندگی اور جہاد کے وسیع میدان سے قرار کر کے راحت طلبی کے چھوٹے محیط میں چلے گئے ہو، جو کچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر کردیا ہے اور جو کچھ پی چکے تھے اسے اگل دیا ہے لیکن آگاہ رہو اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کافر ہوجائیں تو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے_

اے لوگو جو کچھ مجھے کہنا چاہیئے تھا میں نے کہہ دیا ہے حالانکہ میں جانتی ہوں کہ تم میری مدد نہیں کروگے_ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفی نہیں، لیکن کیا کروں دل میں ایک درد تھا کہ جس کو میں نے بہت ناراحتی کے باوجود ظاہر کردیا ہے تا کہ تم پر حجت تمام ہوجائے_ اب فدک اور خلافت کو خوب مضبوطی سے پکڑے رکھو لیکن تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس میں مشکلات اور دشواریاں موجود ہیں اور اس کا ننگ و عار ہمیشہ کے لئے تمہارے دامن پہ باقی رہ جائے گا، اللہ تعالی کا خشم اور غصہ اس پر مزید ہوگا اور اس کی جزا جہنم کی آگ ہوگی اللہ تعالی تمہارے کردار سے آگاہ ہے، بہت جلد ستم گار اپنے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے_ لوگو میں تمہارے اس نبی کی بیٹی ہوں کہ جو تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا تھا_ جو کچھ کرسکتے ہو اسے انجام دو ہم بھی تم سے انتقام لیں گے تم بھی انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں(۱) _

____________________

۱) احتجاج طبرسی، طبع نجف ۱۳۸۶ ھ ج ۱ ۱۳۱_۱۴۱ _ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۱_ کتاب بلاغات النسائ، تالیف احمد بن طاہر، متولد ۲۰۴ ہجری ص ۱۲_ کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۶_

۱۹۴

خلیفہ کا ردّ عمل

حضرت زہرا (ع) نے اپنے آتشین بیان کو ہزاروں کے مجمع میں جناب ابوبکر کے سامنے کمال شجاعت سے بیان کیا اور اپنی مدلل اور مضبوط تقریر میں جناب ابوبکر سے فدک لینے کی وضاحت طلب کی اور ان کے ناجائز قبضے کو ظاہر کیا اور جو حقیقی خلیفہ تھے ان کے کمالات اور فضائل کو بیان فرمایا_

لوگ بہت سخت پریشان ہوئے اور اکثر لوگوں کے افکار جناب زہراء (ع) کے حق میں ہوگئے_ جناب ابوبکر بہت کشمکش__ _ میں گھر گئے تھے، اگر وہ عام لوگوں کے افکار کے مطابق فیصلہ دیں اور فدک جناب زہراء (ع) کو واپس لوٹا یں تو ان کے لئے دو مشکلیں تھیں_

ایک: انہوں نے سوچاگہ اگر حضرت زہراء (ع) اس معاملے میں کامیاب ہوگئیں اور ان کی بات تسلیم کرلی گئی تو ''انہیں اس کا ڈر ہوا کہ'' کل پھر آئیں گی اور خلافت اپنے شوہر کو دے دینے کا مطالبہ کریں گی اور پھر پر جوش تقریر سے اس کا آغاز کریں گے_

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ میں نے علی بن فاروقی سے جو مدرسہ غربیہ بغداد کے استاد تھے عرض کی آیا جناب فاطمہ (ع) اپنے دعوے میں سچی تھیں یا نہ، انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود کہ جناب ابوبکر انہیں سچا جانتے تھے ان کو فدک واپس کیوں نہ کیا؟ استاد ہنسے اور ایک عمدہ جواب دیا اور کہا اگر اس دن فدک فاطمہ (ع) کو واپس کردیتے تو دوسرے دن وہ واپس آتیں اور خلافت کا اپنے شوہر کے لئے مطالبہ کردیتیں اور جناب ابوبکر

۱۹۵

کو خلافت کے مقام سے معزول قرار دے دیتیں کیونکہ جب پہلے سچی قرار پاگئیں تو اب ان کے لئے کوئی عذر پیش کرنا ممکن نہ رہتا(۱) _

دوسرے: اگر جناب ابوبکر جناب فاطمہ (ع) کی تصدیق کردیتے تو انہیں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا اس طرح سے خلافت کے آغاز میں ہی اعتراض کرنے والوں کا دروازہ کھل جاتا اور اس قسم کا خطرہ حکومت اور خلافت کے لئے قابل تحمل نہیں ہوا کرتا_

بہرحال جناب ابوبکر اس وقت ایسے نظر نہیں آرہے تھے کہ وہ اتنی جلدی میدان چھوڑ جائیں گے البتہ انہوں نے اس قسم کے واقعات کے رونما ہونے کی پہلے سے پیشین گوئی کر رکھی تھی آپ نے سوچا اس وقت جب کہ موجودہ حالات میں ملت کے عمومی افکار کو جناب زہراء (ع) نے اپنی تقری سے مسخر کرلیا ہے یہ مصلحت نہیں کہ اس کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے لیکن اس کے باوجود اس کا جواب دیا جانا چاہیئے اور عمومی افکار کو ٹھنڈا کیا جائے، بس کتنا___ اچھا ہے کہ وہی سابقہ پروگرام دھرایا جائے اور عوام کو غفلت میں رکھا جائے اور دین اور قوانین کے اجراء کے نام سے جناب فاطمہ (ع) کو چپ کرایا جائے اور اپنی تقصیر کو ثابت کیا جائے، جناب ابوبکر نے سوچا کہ دین کی حمایت اور ظاہری دین سے دلسوزی کے اظہار سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے ہر چیز کو یہاں تک کہ خود دین کو بھی نظرانداز کرایا جاسکتا ہے_ جی ہاں دین سے ہمدردی کے مظاہرے سے دین کے ساتھ دنیا میں مقابلہ کیا جاتا ہے_

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۸۴_

۱۹۶

جناب ابوبکر کا جواب

رسول اللہ (ص) کی بیٹی کے قوی اور منطقی اور مدلل دلائل کے مقابلے میں جناب ابوبکر نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور کہا کہ اے رسول خدا(ص) کی دختر آپ کے باپ مومنین پر مہربان اور رحیم اور بلاشک محمّد(ص) آپ کے باپ ہیں اور کسی عورت کے باپ نہیں اور آپ کے شوہر کے بھائی ہیں اور علی (ع) کو تمام لوگوں پر ترجیح دیا کرتے تھے، جو شخص آپ کو دوست رکھے گا وہی نجات پائے گا اور جو شخص آپ سے دشمنی کرے گا وہ خسارے میں رہے گا، آپ پیغمبر(ص) کی عترت ہیں، آپ نے ہمیں خیر و صلاح اور بہشت کی طرف ہدایت کی ہے، اے عورتوں میں سے بہترین عورت اور بہتر پیغمبر(ص) کی دختر، آپ کی عظمت اور آپ کی صداقت اور فضیلت اور عقل کسی پر مخفی نہیں ہے_ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ آپ کو آپ کے حق سے محروم کرے، لیکن خدا کی قسم میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان سے تجاوز نہیں کرتا جو کام بھی انجام دیتا ہوں آپ کے والد کی اجازت سے انجام دیتا ہوں قافلہ کا سردار تو قافلے سے جھوٹ نہیں بولتا خدا کی قسم میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ فرما رہے تھے کہ ہم پیغمبر(ص) سوائے علم و دانش اور نبوت کے گھر اور جائیدار و وراثت میں نہیں چھوڑتے جو مال ہمارا باقی رہ جائے وہ مسلمانوں کے خلیفہ کے اختیار میں ہوگا، میں فدک کی آمدنی سے اسلحہ خریدتا ہوں اور کفار سے جنگ کرونگا، مبادا آپ کو خیال ہو کہ میں نے تنہا فدک پر قبضہ کیا ہے بلکہ اس اقدام میں تمام مسلمان میرے

۱۹۷

موافق اور شریک ہیں، البتہ میرا ذاتی مال آپ کے اختیار میں ہے جتنا چاہیں لے لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے والد کے دستورات کی مخالفت کروں؟

جناب فاطمہ (ع) کاجواب

جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر کی اس تقریر کا جواب دیا_ سبحان اللہ، میرے باپ قرآن مجید سے روگردانی نہیں کرسکتے اور اسلام کے احکام کی مخالفت نہیں کرتے کیا تم نے اجماع کرلیا ہے کہ خلاف واقع عمل کرو اور پھر اسے میرے باپ کی طرف نسبت دو؟ تمہارا یہ کام اس کام سے ملتا جلتا ہے جو تم نے میرے والد کی زندگی میں انجام دیا_ کیا خدا نے جناب زکریا کا قول قرآن میں نقل نہیں کیا جو خدا سے عرض کر رہے تھے،

فهب لی یرثنی و یرث من آل یعقوب (۱) _

خدایا مجھے ایسا فرزند دے جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث ہو_ کیا قرآن میں یہ نہیں ہے_

ورث سلیمان داؤد (۲) _

سلیمان داؤد کے وارث ہوئے_ کیا قرآن میں وراثت کے احکام موجود نہیں ہیں؟ کیوں نہیں، یہ تمام مطالب قرآن میں موجود ہیں اور تمہیں بھی اس

____________________

۱) سورہ مریم آیت۶_

۲) سورہ نمل آیت ۱۶_

۱۹۸

کی اطلاع ہے لیکن تمہارا ارادہ عمل نہ کرنے کا ہے اور میرے لئے بھی سواے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں_

جناب ابوبکر نے اس کا جواب دیا کہ خدا رسول (ص) اور تم سچ کہتی ہو، لیکن یہ تمام مسلمان میرے اور اپ کے درمیان فیصلہ کریں گے کیونکہ انہوں نے مجھے خلافت کی کرسی پر بٹھایا ہے اور میں نے ان کی رائے پر فدک لیا ہے(۱) _

جناب ابوبکر نے ظاہرسازی اور عوام کو خوش کرنے والی تقریر کر کے ایک حد تک عوام کے احساسات اور افکار کو ٹھنڈا کردیا اور عمومی افکار کو اپنی طررف متوجہ کرلیا_

جناب خلیفہ کا ردّ عمل

مجلس در ہم برہم ہوگئی لیکن پھر بھی اس مطلب کی سر و صدا خاموش نہ ہوئی اور اصحاب کے درمیان جناب زہراء (ع) کی تقریر کے موضوع پر گفتگو شروع ہوگئی اور اس حد تک یہ مطلب موضوع بحث ہوگیا کہ جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ ملت سے تہدید اور تطمیع سے پیش آئیں_

لکھا ہے کہ جناب زہراء (ع) کی تقریر نے مدینہ کو جو سلطنت اسلامی کا دارالخلافة تک منقلب کردیا_ لوگوں کے اعتراض اور گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں لوگ اتنا روئے کہ اس سے پہلے اتنا کبھی نہ روئے تھے_

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۴۱_

۱۹۹

جناب ابوبکر نے جناب عمر سے کہا تم نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دینے سے مجھے کیوں روکا اور مجھے اس قسم کی مشکل میں ڈال دیا؟ اب بھی اچھا ہے کہ ہم فدک کو واپس کردیں اور اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالیں_

جناب عمر نے جواب دیا _ فدک کے واپس کردینے میں مصلحت نہیں اور یہ تم جان لو کہ میں تیرا خیرخواہ اور ہمدرد ہوں_ جناب ابوبکر نے کہا کہ لوگوں کے احساسات جو ابھرچکے ہیں ان سے کیسے نپٹا جائے انہوں نے جواب دیا کہ یہ احساسات وقتی اور عارضی ہیں اور یہ بادل کے ٹکڑے کے مانند ہیں_ تم نماز پڑھو، زکوة دو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، مسلمانوں کے بیت المال میں اضافہ کرو اور صلہ رحمی بجالاؤ تا کہ خدا تیرے گناہوں کو معاف کردے، اس واسطے کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے، نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں_ حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ جناب عمر کے کندھے پر رکھا اور کہا شاباش تم نے کتنی مشکل کو حل کردیا ہے_

اس کے بعد انہوں نے لوگوں کو مسجد میں بلایا اور ممبر پر جاکر اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد کہا، لوگو یہ آوازیں اور کام کیا ہیں ہر کہنے والا آرزو رکھتا ہے، یہ خواہشیں رسول(ص) کے زمانے میں کب تھیں؟ جس نے سنا ہو کہے اس طرح نہیں ہے بلکہ یہ اس کا مطالبہ اس لومڑی جیسے ہے کہ جس کی گواہ اس کی دم تھی_

اگر میں کہنا چاہوں تو کہہ سکتا ہوں اور اگر کہوں تو بہت اسرار واضح کردوں، لیکن جب تک انہیں مجھ سے کوئی کام نہیں میں ساکت رہوں گا، اب لڑی سے مدد لے رہے ہیں اور عورتوں کو ابھار رہے ہیں_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

۳۰۱

صحت کا حکم کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا:

" أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعلمَ فَلْيَأْتِ الْبَابِ."

یعنی میں حکمت کا گھر ہوں اور علی(ع) اس کے دروازہ ہیں پس جو شخص حکمت کا طلبگار ہو وہ دروازے کے پاس آۓ۔

محمد بن یوسف گنجی نے کفایت الطالب کے باب۲۱ کو اس حدیث شریف کے لئے مخصوص کردیا ہے۔ اور سلسلہ اسناد کے ساتھ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد اپنا تبصرہ اور بیان بھی درج کیا ہے، یہاں تک کہ کہتے ہیں یہ حدیث بہت بلند و بہتر ہے یعنی خداوند عالم نے حکمت و فلسفہ اشیائ نیز امر ونہی اور حلال وحرام کی جو تعلیم پیغمبر(ص) کودی ہے اس میں سے علی علیہ السلام کو بھی مرحمت فرمایا ہے لہذا آں حضرت(ص) نے ارشاد فرمایا کہ علی میری حکمت کے در ہیں (پس اگر تم میری حکمت سے فیض حاصل کرنا چاہتے ہو تو) ان کی طرف رجوع کرو تاکہ حقائق منکشف ہوں۔

ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اپنے مشائخ سے طرق حدیث کا ذکر کرتے ہوۓ خطیب خوارزمی نے مناقب میں، شیخ الاسلام حموینی نے فرائد میں، دیلمی ن فردوس میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۵۸ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۱۴ میں، اور آپ کے بہت سے اکابر علمائ نے ابن عباس اور جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلعم نے علی علیہ السلام کا بازو پکڑ کے فرمایا۔

" هَذَا أَمِيرُ الْبَرَرَةِ وَ قَاتِلُ الْفَجَرَةِ مَنْصُورٌ مَنْ نَصَرَهُ مَخْذُولٌ مَنْ خَذَلَهُ ثُمَّ مَدَّ بِهَا صَوْتَهُ ثم قَالَأَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ."

یعنی یہ(علی(ع)) نیکو کار انسانوں کا رئیس و سردار اور کافروں کا قاتل ہے، جو شخص اس کی مدد کرے وہ نصرت یافتہ ہے اور جو شخص اس کی تذلیل کرے وہ خود ذلیل و خوار کردیاجاۓ گا۔ پس آں حضرت نے آواز مبارک بلند کی اور فرمایا میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کے دروازہ ہیں پس جو شخص میرے علم کا خواہاں ہو وہ دروازے سے آۓ۔

نیز شافعی نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"انا مدينة العلم‏ و علىّ بابها فمن اراد العلم فليأته من بابه".

یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں اور کوئی شخص گھروں کے اندر داخل نہیں ہوتا لیکن دروازے سے۔

صاحب مناقب فاخرہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کے در ہیں پس جو شخص علم دین چاہتا ہے اس کو اسی درازے سے آنا چاہیئے۔ اس کے بعد فرمایا میں شہر علم ہوں اور تم

۳۰۲

اے علی(ع( اس کے دروازہ ہو۔ جھوٹا ہے وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ بغیر تمہارے ذریعے کے مجھ تک پہنچ جاۓ گا۔

اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں کئی مقامات پر ابواسحق ابراہیم بن سعد الدین محمد حموینی نے فرائد السمطین میں ابن عباس سے، اخطب الخطبائ خوارزمی نے مناقب میں عمرو بن عاص سے، امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی نے ذخائر العقبی میں، امام احمد بن حںبل نے مسند میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں، یہاں تک کہ ابن حجر جیسے متعصب نے صواعق محرقہ باب۹ فصل دوم ص۷۵ میں ان چالیس حدیثوں میں سے جو انہوں نے فضائل علی علیہ السلام میں نقل کی ہیں، نویں حدیث بزاز سے، طبرانی نے اوسط میں جابر ابن عبداللہ انصاری سے، ابن عدی نے عبداللہ ابن عمر سے اور حاکم و ترمذی نے علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا۔

" أنا مدينة العلم‏ و علي بابها، فمن أراد العلم فليأت الباب."

یعنی میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کے در ہیں پس جو شخص علم چاہتا ہو وہ دروازے سے آۓ۔

پھر اسی حدیث کے ذیل میں کہتے ہیں کہ کوتاہ عقل لوگوں نے اس حدیث میں پس و پیش کیا ہے اور ایک جماعت نے کہہ دیا کہ یہ حدیث موضوعات میں سے ہے( جیسے ابن جوزی اور نووی) لیکن حاکم(صاحب مستدرک جن کا قول آپ حضرات کے نزدیک سند ہے) نے جس وقت یہ باتیں سنیں تو کہا:ان الحدیث صحیح ۔ یقینا یہ حدیث صحیح ہے۔ انتہی۔

اس قسم کی حدیثیں آپ کی معتبر کتابوں میں کثرت سے وارد ہوئی ہیں، لیکن جلسے کا وقت اس سے زیادہ نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

حدیث کی توضیح

بدیہی چیز ہے کہ حدیث مبارک میں العلم کا الف و لام ، الف و لام جنس ہے یعنی ظاہری و باطنی اور صوری و معنوی حیثیت سے جس چیز پر بھی علم کا اطلاق ہوتا ہے وہ رسول خدا(ص) کے پاس تھ۔ ان سارے علوم کا دروازہ علی علیہ السلام تھے۔

صاحب عبقات الانوار علامہ سید حامد حسین صاحب مرحوم لکھنوی اعلی اللہ مقامہ نے عبقات الانوار کی دو ضخیم جلدیں اس حدیث شریف کے اسناد اور صحت کے بارے میں تالیف کی ہیں جن میں سے ہر جلد صحیح بخاری کے برابر بلکہ اس سے بھی بڑی ہے۔ اس وقت میرے پیشِ نظر نہیں ہے کہ اس حدیث کا تواتر ثابت کرنے کے لئے انہوں نے صرف اکابر علماۓ اہل سنت کی طرف سے کس قدر اسناد پیش کئے ہیں۔ لیکن اتنا بخوبی یاد ہے کہ

۳۰۳

جب میں اس کتاب کو پڑھتا تھا تو برابر اس بزرگِ شخصیت کی روح پرفتوح کے لئے طلب رحمت کرتا رہتا تھا کہ کس قدر زحمت اٹھائی ہے اور کتنا تبحر حاصل تھا بہتر ہوگا کہ آپ حضرات اس کتاب کو حاصل کر کے مطالعہ فرمائیے تاکہ اس بات کی تصدیق کیجئے کہ اصحاب رسول کے اندر علی علیہ السلام کی ذات بے مثال تھی۔

علی علیہ السلام کی خلافت بلافصل کے ثبوت میں جو کھلی ہوئی دلیلیں موجود ہیں ان میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے اس لئے کہ باتفاق عقل و نقل ہر قوم و ملت کے اندر عالموں کو جاہلوں پر فوقیت اور حق تقدم حاصل ہے بالخصوص ایسی صورت میں جب رسول اللہ(ص) کا فرمان موجود ہو کہ جو شخص میرے علم سے بہر اندوز ہونا چاہتا ہے اس کو چاہیئے کہ علی کے دروازے پر آۓآپ کو خدا کا واسطہ انصاف سے بتائیے کہ آیا یہ مناسب تھا کہ جو باب علم خود پیغمبر(ص) نے امت کے سامنے کھولا تھا لوگ اس کو بند کر کے اپنے حسبِ دل خواہ ایسا دروازہ کھولیں جس کی مراتبِ علمی سے کوئی ربط ہی نہ ہو؟

شیخ: اس حدیث کے بارے میں اور اس موضوع پر کہ یہ حدیث ہمارے علمائ کے نزدیک عام طور سے مبقول ہے کافی بحث ہوچکی، اس میں شبہ نہیں کہ بعض نے اس کو ضعیف اور خبر واحد کہا ہے تو بعضوں کے نزدیک یہ تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے، لیکن اس کو علم لدنی سے اور اس بات سے کیا ربط ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ علم غیب کے عالم اور باطنی امور سے آگاہ تھے؟

علی علیہ السلام عالم غیب تھے

خیر طلب: یا تو آپ میرے معروضات اور دلائل پر توجہ نہیں کرتے یا محض مخالفت کے جذبے میں مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا میں پہلے عرض نہیں کرچکا ہوں کہ جیسا آپ کو خود اعتراف ہے پیغمبر خاتم الانبیاء(ص) سارے خلقت میں مرتضی اور برگزیدہ تھے اور بحکم آیہ مبارکہ:

"عالِمُ‏ الْغَيْبِ‏ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ‏"

یعنی وہ عالم الغیب ہے، پس اپنے غیب سے کسی کو آگاہ نہیں کرتا سوا اس رسول کے جس کو مرتضی اور برگزیدہ کیا ہے۔

خداوند عالم نے آں حضرت(ص) کی نگاہوں کے سامنے سے پردے ہٹا دیے تھے اور بطور استثنائ آں حضرت(ص) کو علوم غیبی عنایت فرماۓتھے؟ پس من جملہ ان علوم کے جو آپ کے شہر وجود میں جمع تھے عالم وجود کے اسرار و غیوب کا علم و وقوف بھی تھا۔ چنانچہ اس خداداد قوت کے اثرت سے جملہ باطنی امور آں حضرت کے پیشِ نظر تھے اور آں حضرت(ص)

۳۰۴

کے ارشاد کے مطابق جس کو ہم اور آپ اور سارے اکابر علماۓاہل سنت جن میں سے بعض کا حوالہ بھی دے چکا ہوں تسلیم کرتے ہیں کہ فرمایا:

"انا مدينة العلم‏ و على بابها، "

( میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کے دروازہ ہیں۔)

لہذا ان تمام علوم میں سے جو آں حضرت(ص) کے شہر وجود میں اکٹھا تھے اور باب علم( علی علیہ السلام) کے ذریعہ ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، حالات غیب پر علم و اطلاع بھی ہے، اور قطعا علی علیہ السلام اسرار کائنات اور امورِ باطنی سے اسی طرح باخبر تھے جس طرح ظاہری احکام و حقائق سے۔

چونکہ اس خاندان جلیل کی بنیاد علم قرآن مجید کے اوپر تھی لہذا رسول خدا(ص) کے بعد قرآن کے ظاہری و باطنی علوم کے جاننے والے بھی علی علیہ السلام تھے، جیسا کہ خود آپ کے اکابر علمائ نے اس حقیقت کی تصدیق کی ہے۔

علی(ع) قرآن کے ظاہر و باطن سے آگاہ تھے

من جملہ ان کے حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص۶۵۶ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۷۴ ؟؟؟؟؟؟؟ میں اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۱۴ ص۷۴ میں فصل الخطاب سے بسند معتبر عبداللہ ابن مسعود کاتب وحی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

"إن‏ القرآن‏ أنزل‏ على سبعة أحرف ما منها إلا و له ظهر و بطن و إن علي بن أبي طالب ع علم الظاهر و الباطن."

یعنی حقیقتا قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے جس کے ہر حرف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اور یقینا علی علیہ السلام کے پاس قرآن کے ظاہر و باطن کا علم ہے۔

پیغمبر(ص) نے سینہ علی(ع) میں علم ک ہزار باب کھولے

آپ کے بڑے بڑے علمائ نے اپنی معتبر کتابوں میں تصدیق کی ہے کہ علی علیہ السلام علمِ لدنی کے حامل تھے ۔ کیونکہ آپ رسول اللہ(ص) کے بعد ساری مخلوق میں مرتضی تھے۔ من جملہ ان کے ابو حامد غزالی نے کتاب بیان علم لدنی میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا، رسول خدا(ص) نے اپنی زبان میرے دہن میں دی۔ پس آں حضرت(ص) کے لعابِ دہن سے مجھ پر علم کے ایک ہزار باب کھل گئے اور ہر باب سے مزید ایک ایک ہزار باب کشادہ ہوۓ۔

۳۰۵

آپ کے بزرگ پیشوا سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب۱۴ میں ص۷۷ میں، اصبع ابن نباتہ سے نقل کرتے ہٰن کہ انہوں نے کہا میں نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے سنا کہ آپ فرماتے تھے:

"إنّ‏ رسول‏ اللّه‏ علّمني‏ ألف باب من الحلال و الحرام، و ممّا كان و ما هو كائن و ممّا يكون إلى يوم القيامة، كلّ يوم يفتح ألف باب، فذلك ألف ألف باب، حتّى علمت المنايا و الوصايا و فصل الخطاب."

یعنی در حقیقت رسول خدا(ص) نے مجھ کو ایک ہزار باب تعلیم کئے جن میں ہر باب سے ایک ایک ہزار باب کشادہ ہوتے ہیں، پس یہ ہزار ہزار(یعنی دس لاکھ) باب ہوۓ۔ یہاں تک کہ میں نے جان لیا جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ روز قیامت تک ہونے والا ہے نیز اموات و آفات اور سچے فیصلہ کا علم۔

اور اسی باب میں ابن مغازلی فقیہ شافعی سے انہیں کی سند کے ساتھ ابوالصباح سے، وہ ابن عباس سے اور وہ رسول اکرم صلعم سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:

" فلما صرت بين يدي ربي كلمني‏ و ناجاني‏ فما علمني شيئا إلا علمه عليافهوباب علمی"

یعنی شب معراج جب میں مقام قرب خدا میں پہنچا تو خدا نے مجھ سے کلام اور رازدارانہ گفتگو کی پس جو کچھ بھی مجھ کو معلوم ہوا وہ سب میں نے علی(ع) کو سکھا دیا، پس وہ میرے باب علم ہیں۔

نیز اسی حدیث کو اخطب الخطباء موفق ابن احمد خوارزمی سے اس طریقے پر نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

" أَتَانِي جَبْرَئِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِدُرْنُوكٍ مِنْ دَرَانِيكِ الْجَنَّةِ فَجَلَسْتُ عَلَيْهِ، فَمَا صِرْتُ بَيْنَ يَدَيْ رَبِّي، وَ كَلَّمَنِي‏وَنَاجَانِي‏ بِمَا عَلِمْتُ مِنَ الْأَشْيَاءِ، فَمَا عَلِمْتُ شَيْئاً، إِلَّا عَلَّمْتُهُ ابْنَ عَمِّي عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَهُوَ بَابُ مَدِينَةِ عِلْمِي ثم دعاه الیه فقال یا علی سلمک سلمی و حربک حربی و انت العلم فیما بینی وبین امتی ."

یعنی جبرئیل میرے پاس جنت کی ایک بساط لے کر آۓ پس میں اس کے اوپر بیٹھا یہاں تک کہ اپنے پروردگار کے قرب میں پہنچا تو اس نے مجھ سے کلام کیا اور مجھ سے راز کی با تیں کیں پس میں نے کچھ معلوم کیا سب علی(ع) کو بتادیا، چنانچہ وہ میرے باب علم ہیں۔ اس کے بعد علی(ع) کو بلایا اور کہا اے علی تمہارے ساتھ صلح میرے ساتھ صلح اور تم سے جنگ مجھ سے جنگ کرنا ہے اور تم میرے اور میری امت کے درمیان میرے نشان ہو۔

اس بارے میں امام احمد ابن حنبل، محمد ابن طلحہ شافعی، اخطب الخطباء خوارزمی، ابوحامد غزالی، جلال الدین سیوطی، امام احمد ثعلبی اور میر سید علی ہمدانی وغیرہ آپ کے اکابر علماء سے بکثرت حدیثیں مروی ہیں جن میں مختلف طرق اور الفاظ و عبارات کے ساتھ منقول ہے کہ رسول اکرم(ص) نے علم کے ہزار باب جن کے ہر باب سے اور ایک ایک ہزار باب منکشف ہوتے ہیں علی علیہ السلام کے سینے میں ودیعت فرماۓ۔

۳۰۶

اورحافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیائ میں، مولوی علی متقی نے کنزالعمال جلد ششم نمبر۲۹۴ اور ابو یعلی نے کامل بن طلحہ سے انہوں نے ابن الہیعہ سے انہوں نے حی بن عبد مغافری سےانہوں نے عبدالرحمان جبلی سے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ رسول ِ خدا(ص) نے اپنے مرض الموت میں ارشاد فرمایا:

"ادعوا لي أخي! فجاء أبا بكر، فأعرض عنه!.ثمّ قال: ادعوا لي أخي! فجاء عثمان، فأعرض عنه!ثمّ دعی له عليّ فستره بثوب و أكبّ عليه فلمّا خرج‏ من‏ عنده‏ قيل له: ما قال؟قال: علّمني ألف باب، يفتح لي من كلّ باب ألف باب»

یعنی میرے بھائی کو میرے پاس بلاؤ، پس ابوبکر آۓ تو آں حضرت(ص) نےان کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر فرمایا میرے پاس میرے بھائی کو بلاؤ، پس عثمان آۓ تو آں حضرت(ص) نے ان کی طرف سے بھی منہ پھیر لیا، دوسری روایتوں میں ہے کہ ابوبکر کے بعد عمر آۓ اور ان کے بعدعثمان) پھر علی(ع) بلاۓ گئے تو آں حضرت(ص) نے ان کو اپنے کپڑوں میں چھپا لیا اور ان کے اوپر سر نہوڑالیا۔ جن آپ خدمت رسول سے باہر آۓ تو لوگوں نے پوچھا یا علی(ع) پیغمبر(ص) نے تم سے کیا کہا؟ آپ نے فرمایا مجھ کو علم کے ایک ہزار باب تعلیم کئے جن میں سے ہر ایک باب ایک ایک ہزار باب کھولتا ہے۔

حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی سنہ۴۳۰ہجری نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص۶۵ فضائل علی(ع) میں، محمد جزوی نے اسنی المطالب ص۱۴ میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۲۸ میں اسناد کے ساتھ احمد بن عمران بن سلمہ بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہم رسول اللہ(ص) کے پاس حاضر تھے پس علی ابن ابی طالب(ع) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آں حضرت(ص) نے فرمایا:

"قُسِّمَتِ‏ الْحِكْمَةُ عَشَرَةَ أَجْزَاءٍ فَأُعْطِيَ عَلِيٌّ تِسْعَةَ أَجْزَاءٍ وَ النَّاسُ جُزْءاً وَاحِداً."

یعنی حکمت کے دس حصے کئے گئے جن میں سے نو حصے علی(ع) کو اور باقی ایک تمام انسانوں کو عطا ہوا۔

ابوالموید موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں اور مولوی علی متقی نے کنزالعمال جلد پنجم ص۱۵۶ و ص۴۰۰ میں بہت سے اکابر علمائ سے ابن مغازلی فقیہ شافعی نے فضائل میں اور سلیمان بلخی نے ینابیع المودت باب۱۴ میں انہیں اسناد کے ساتھ(کاتب وحی) عبداللہ ابن مسعود سے اور محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص۲۱ میں حلیتہ اور علقمہ بن عبداللہ سے نقل کرتے ہوۓ روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) سے علی(ع) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آں حضرت(ص) نے فرمایا:

"قسّمت‏ الحكمة عشرة اجزاء فاعطي عليّ تسعة اجزاء و النّاس جزء واحدا و عليّ اعلم بالجزء الواحد منهم) وهواعلم بالعشرالباقی".

یعنی حکمت دس حصوں پر تقسیم کی گئی جن میں سے علی(ع) کو نو حصےعطا ہوۓ اور تمام انسانوں کو ایک حصہ ملا، اور

۳۰۷

علی اس دسویں حصے کے بھی سب سے زیادہ عالم ہیں۔

نیز ینابیع المودت کے اسی باب میں شرح رسالہ" فتح المبین" ابو عبداللہ محمد بن علی الحکیم ترمذی سے بروایت ( امام المفسرین وجہ مت) عبداللہ بن عباس نقل کرتے ہیں کہ:

"العلم‏ عشرة اجزاء،لعلىّ تسعةاجزاء والنّاس عشرةالباقی و هو اعلمه به."

یعنی علم کے دس حصے ہیں نو حصے علی کے لئے اور باقی دسواں حصہ سارے انسانوں کے لئے اور علی(ع) اس ایک جز کے بھی سب سے بڑے عالم ہیں۔

اور متقی ہندی کنزالعمال جلد ششم ص۱۵۳ میں، خطیب خوارزمی مناقب ص۴۹ اور مقتل الحسین جلد اول ص۴۳ میں، دیلمی فردوس الاخبار میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب۱۰ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا:

" اعلم امتی من بعدی علی ابن ابی طالب"

یعنی میرے بعد میری امت میں سب سے زیادہ علم و دانا علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔

علی(ع) کو علمِ رسول(ص) کی تفویض

پا ان مشتے ازخروارے حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ(ص) ساری مخلوق میں مرتضی اور عالم غیب تھے اور ظاہر و باطن کا جو علم مبدا فیاض سے حاصل کیا تھا وہ علی علیہ السلام کو تفویض کردیا تھا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ علی ابن ابی طالب(ع) اور آپ کی اولاد سے گیارہ ائمہ علیہم الصلوۃ و السلام کا ایک پیغمبر(ص) کے مانند پروردگار عالم سے بصورت وحی کوئی مستقل اور براہ راست سلسلہ تھا بلکہ قطعی اور یقینی طور سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ مبدا فیاض کی طرف سے جو فیضان ہوتا تھا اس کا مرکز حضرت خاتم الانبیائ(ص) کی ذات اقدس تھی آں حضرت کی زندگی میں اور بعد وفات تمام موجودات کو اور بالخصوص ہمارے ائمہ اثنا عشریہ علیہم السلام کو جس قدر فیض پہنچایا پہنچ رہا ہے وہ حق تعالی کی جانب سے حضرت رسولِ خدا صلعم کے ذریعے پہنچا ہے۔ غرضی کہ سارے علوم اور گذشتہ و آئندہ زمانے کے اہم واقعات و حالات پیغمبر(ص) کے حیات ہی میں ان حضرت کو خداۓ تعالی کی طرف سے بتاۓ جاتے تھے جن میں سے کچھ باتیں جب آںحضرت(ص) اس دنیا سے رخصت ہونے والے تھے آپ کو تفویض فرمادیا۔ جیسا کہ اس بارے میں(علاوہ شیعوں کے معتبر روایات کے) خود آپ کے اکابر علماء کے طرف سے بکثرت روایتیں منقول ہیں جن میں سے ایک نمونہ پیش کیا گیا۔ چنانچہ آپ کے علماء نے ام المومنین عائشہ سے ایک مفصل حدیث نقل کی ہے جس کے آخر میں کہتیہیں کہ پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو بلایا اور ان کو اپنے سینے سے چپکا لیا اور سر سے چادر اوڑھ لی۔ میں اپنا سرقریب لے گئی اور ہرچند کان لگاۓ لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ جس وقت علی(ع) نے سر اٹھایا تو ان کی پیشانی سے پسینہ جاری تھا۔ لوگوں نے کہا یا علی(ع) پیغمبر(ص) اتنی

۳۰۸

طولانی مدت تک آپ سےکیا کہتے رہے؟ آپ نے کہا:

"قد علّمني‏ رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم ألف‏ باب‏ من العلم يفتح كلّ باب ألف باب."

یعنی در حقیقت رسول خدا(ص) نے مجھ کو علم کے ہزار باب تعلیم فرماۓ جن میں ہر باب سے اور ایک ہزار باب کھلتے ہیں۔

بعثت کی ابتدا ہی میں( جیسا کہ اس کی پوری تفصیل گذشتہ راتوں میں عرض کرچکا ہوں) جب رسول اللہ(ص) نے اپنے عم محترم جناب ابوطالب کے گھر میں اپنے چالیس قریبی اعزہ کی دعوت کی اور ان کو رسالت کا پیغام پہنچایا تو علی علیہ السلام پہلے وہ شخص تھے جنہوں نے اپنا ایمان ظاہر کیا۔ پیغمبر(ص) نے ان کو بغل میں لیا اور اپنا لعاب دہن ان کے منہ میں ڈالا۔ چنانچہ علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسی وقت علوم کے چشمے میرے سینے میں پھوٹ نکلے۔ چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے نقل کیا ہے کہ آپ نے بر سرمنبر خطبہ دیتے ہوۓ اسی مفہوم کی طرف اشارہ کیا ہے کہ فرمایا:

"سلوني‏ قبل‏ أن تفقدوني، فإنما بين جوانحي علم جم"

یعنی مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ۔ کیونکہ سوا، اس کے نہیں ہے کہ میرے سینے کے اندر بے پناہ علم موجود ہے۔

اس کے بعد اپنے شکم مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا:

" هَذَا سَفَطُ الْعِلْمِ هَذَا لُعَابُ‏ رَسُولِ‏ اللَّهِ‏ صلی الله علیه وآله هَذَا مَا زَقَّنِي رَسُولُ اللَّهِ زَقّاً زَقّاً "

یعنی یہ علم کا مخزان ہے۔ یہ رسول اللہ(ص) کالعاب دہن ہے یہ ہے وہ جو رسول خدا(ص) نے مجھ کو دانے کی طرح بھرایا ہے۔

اورآں حضرت(ص) اپنے وقتِ وفات تک مختلف طریقوں سے علی علیہ السلام پر برابر فیض ربانی کا اضافہ فرماتے رہے اور مبدا فیاض غیب الغیوب سے جو کچھ حاصل ہوتا رہا وہ علی علیہ السلام کے سینے میں ودیعت فرماتے رہے۔

نورالدین ابن صباغ مالکی فصول المہمہ میں کہتے ہیں کہ پیغمبر خاتم النبیین(ص) نے بچپن ہی سے علی کو ا پنے آغوشِ محبت میں علمی اور عملی تربیت دی۔

جفر جامعہ اور اس کی کیفیت

جن طریقوں سے من جانب خدا اور خاتم الانبیائ(ص) کے وسیلے سے علی علیہ السلام پر فیوض ربانی کا فیضان ہوا۔ ان میں سے ایک جفر جامعہ تھا جو حروف رمز کے ساتھ علم ماکان وما یکون پر مشتمل ایک صحیفہ اورکتاب تھی۔ جس کے لئے خود

۳۰۹

آپ کے بزرگ علمائ بھی معترف ہیں کہ وہ کتاب اور علم حضرت علی اور ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم اجمعین کے مخصوصات میں سے تھا۔

چنانچہ حجتہ الاسلام ابوحامد غزالی نے لکھا ہے کہ امام المتقین علی ابن ابی طالب(ع) کے لئے ایک کتاب ہے جس کا نام ہے جفر جامع الدنیا والاخرۃ اور وہ کتاب تمام علوم و حقائق، وقائق و اسرار حالات غیب، خواصِ اشیائ اثراتِ مافی العالم اور خواص اسماء و حروف پر مشتمل ہے جس سے سوا آپ کے اور آپ کے ان گیارہبزرگوار فرزندوں کے جو بنص رسول خدا(ص) امامت و ولایت کے منصب پر فائز ہیں اور کوئی شخص آگاہی نہیں رکھتا، کیونکہ یہ چیز ان حضرات کو وراثت میں ملی ہے۔ اسی طرح سلیمان بلخی نے ینابیع المودت ص۴۰۳ میں درالنظم محمد بن طلحہ حلبی شافعی سے اس بارے میں ایک مبسوط تشریح نقل کی ہے کہ جفر جامع مفاتیح علوم کے سلسلہ میں ایک ہزار سات سو صفحات پر مشتمل اور امام علی ابن ابی طالب(ع) سےمخصوص ہے۔ لہذا ایک مشہور شاعر نے ان بزرگوا کی مدح میں کہا ہے۔

من مثله کان ذا جفرو جامعة له قدون سر الغیب تدوینا

یعنی کون ہے ان کے مانند جو جفر جامعہ کے حامل تھے۔ اس کتاب میں اسرار غیب کی تدوین کی گئی ہے۔

نیز تاریخ نگارستان میں شرح مواقف سے نقل کرتے ہیں۔

" ان‏ الجفر و الجامعة كتابان لعلى عليه السلام قد ذكر فيهما على طريقة علم الحروف الحوادث الى انقراض العالم و كان الأئمّة المعروفون من أولاده يعرفونها و يحكمون بها "

یعنی حقیقتا جفر اور جامعہ دو کتابین ہیں جو علی(ع) کے لئے مخصوص ہیں، ان میں علم حروف کے طریقہ پر اختتام عالم تک سارے حادثات کا ذکر ہے۔ اور آپ کی اولاد انہیں کتابوں کے ذریعہ حکم کرتی ہے۔( مطلب یہ کہ ان کتابوں کے رموز و علوم کے حامل صرف علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد ہے۔)

نواب: قبلہ صاحب کتاب جفر جس کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے علمائ بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں کیا چیز ہے اور کیسی ہے۔ گذارش ہے کہ اگر مناسب ہوتو اس کی کیفیت بیان فرمائیے۔

خیر طلب: وقت تنگ ہے اس وجہ سے اس علم اور کتاب کی تشریح اور تفصیل سے معذور ہوں۔

نواب: جس قدر ممکن ہو مفصل تشریحات کا خلاصہ ہی بیان فرمادیجئے۔

خیر طلب: ہجرت کے دسویں سال حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد جبرئیل امین آۓ اور رسول اللہ(ص) کو موت کی خبر دی کہ اب آپ کی عمر ختم ہور ہی ہے۔ آں حضرت(ص) نے درگارہ واہب العطایا میں دستِ مبارک بلند کئے اور عرض کیا۔

"اللَّهُمَّ وعدتک التی وَعَدْتَنی إِنَّكَ‏ لا تُخْلِفُ‏ الْمِيعادَ."

۳۱۰

خداوندا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اور تو ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

خدا کی طرف سے خطاب ہوا کہ علی(ع) کو لے جائیے اور کوہ احد پر پشت بقبلہ بیٹھ کر صحرائی جانوروں کو آواز دیجئے وہ آپ کی آواز پر لبیک کہیں گے، ان میں ایک سرخ رنگ کی بڑی بکری ہے جس کے سینگ تھوڑے تھوڑے ابھرے ہیں، علی(ع) کو حکم دیجئے کہ اس کو ذبح کر کے گردن کی طرف سے اس کی کھال اتاریں اور اس کو الٹ دیں۔ تو وہ دباغت کی ہوئی ملے گی، اس وقت جبرئیل دوات و قلم اور روشنائی لے کر آئیں گے جو زمین کی روشنائی سے الگ ہوگی، جو کچھ جبرئیل کہیں آپ علی(ع) سے کہئے کہ اس کو لکھ لیں، وہ تحریر اور کھال اسی طرح باقی رہے گی اور ہرگز بوسیدہ نہ ہوگی، وہ ہمیشہ محفوظ رہے گی اور جس وقت کھولی جاۓ گی تازہ ہوجاۓ گی۔

رسولِ خدا صلعم نے کوہ احد پر اسی ہدایت کے مطابق عمل فرمایا، جبرئیل آۓ اور آں حضرت(ص) کے سامنے قلم دوات پیش کی، آں حضرت(ع) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ عمل کے لئے مستعد ہوجائیں، اس کے بعد جبرئیل خداوند جلیل کی جانب سے عالم کی جزو کل اہم واقعات پیغمبر(ص) کے سامنے بیان کرتے جاتے تھے اور پیغمبر(ص) علی(ع) سے فرماتے تھے آپ اس کھال پر لکھتے جاتے تھے، یہاں تک کہ ہاتھوں اور پاوؤں کی باریک کھال پر بھی لکھا اور اس نوشتے میں درج ہوگیا۔

"کلمَا كَانَ وَ مَا هُوَ كَائِنٌ‏ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "

یعنی جو کچھ ہوچکا تھا اور جو کچھ ہونےوالا تھا روز قیامت تک۔

آپ نے ہرچیز لکھ دی حتی کہ اپنی اولاد و احفاد اور ان کے دوستوں اور دشمنوں کے نام اور ہر ایک کے اوپر روز قیامت تک جو کچھ گزرنے والا تھا سب ہی کچھ اس کتاب میں درج کردیا۔

پھر خاتم الانبیاء(ص) نے وہ مکتوب اور علم جفر علی علیہ السلام کو دیا اور وہ اسباب وراثت اور ولایت و امامت کا ایک جزئ قرار دیا۔ چنانچہ جو امام دنیا سے جاتا ہے وہ اس کو اپنے ہونے والے امام معلوم کے سپرد کر کے جاتا ہے یہ وہی کتاب ہے جس کے متعلق ابوحامد غزالی کہتے ہیں کہ جفر جامعہ ایک کتاب ہے جو علی(ع) اور آپ کے گیارہ فرزندوں کے لئے مخصوص ہے اور اس میں ہرچیز موجود ہے۔

" من‏ علم‏ المنايا و البلايا والقفایا و فصل الخطاب."

یعنی علم اموات و بلایا، احکام اور برحق باتیں۔

نواب: یہ کیونکر ممکن ہے کہ روز قیامت تک کے سارے واقعات اور علوم بکری کی ایک کھال پر لکھ دیئے گئے ہوں؟

خیرطلب: اول تو اس روایت کا اندازہ بتاتا ہے کہ بکری کوئی معمولی نہیں تھی بلکہ بہت بڑی اور اسی مقصد کے لئے پیدا کی گئی تھی۔ دوسرے کتابوں اور رسالوں کے طریقے سے نہیں لکھا گیا بلکہ حروف رمز و اشارات کی صورت میں تحریر کیا گیا۔ چنانچہ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہصاحب تاریخ نگارستان نے شرح مواقف سے نقل کیا ہے کہ "قدذکر فیهما علی طریقة علم الحروف " یعنی جفر اور جامعہ میں علم الحروف کے طریقے

۳۱۱

پر ذکر کیا گیا ہے۔

اس کے بعد اس رمز کی مفتاح اور کنجی رسول اکرم صلعم نے علی علیہ السلام کو عطا فرمائی اور آپ نے آں حضرت(ص) کے حکم سے اپنےبعد آنے والے آئمہ کو دی۔

جس شخص کے پاس وہ کلید ہو وہی اس کتاب سے اسرار و حوادث کا استخراج کرسکتا ہے ورنہ مجبور و عاجز رہے گا۔ جس طرح کوئی بادشاہ اپنے وزیر یا والیان و حکام، سرداران لشکر اور افسران فوج کو جنہیں صوبوں اور ریاستوں کی طرفبھیجتا ہے، حروف یا اعداد کی صورت میں ایک خفیہ تحریر سپرد کرتا ہے اور اس مکتوب کی مفتاح وکلید صرف بادشاہ اور اس وزیر یا والی و حاکم اور سردار فوج ہی کےپاس ہوتی ہے، کیونکہ وہ تحریر بغیر کلید کے اگر کسی کے ہاتھ آبھی جاۓ تو وہ اس سے کچھ معلوم نہیں کرسکتا ۔ اسی طرح سے کتاب جفر جامعہ ہے جس سے امیرالمومنین علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد میں سے گیارہ اماموں کے علاوہ اور کوئی شخص مطلب کا استخراج نہیں کرسکتا۔

چنانچہ ایک روز حضرت امیرعلیہ السلام نے جب آپ کے سارے فرزند اکٹھا تھے وہ جلد اپنے فرزند محمد حنفیہ کو دی لیکن وہ ( باوجودیکہ بہت عالم و دانا تھے) اس میں سے کچھ بھی نہیں سمجھ سکے۔(۱)

اکثر احکام اور اہم واقعات جن کی خبر آئمہ معصومین علیہم السلام دیا کرتے تھے، اسی کتاب سے تھے یہ حضرات کلیات وجزئیات امور سے با خبر تھے اور اپنے اور اپنے اہلبیت(ع) اور شیعوں کے اوپرپڑنے والے مصائب و آلام کو اسی کتاب سے استخراج فرماتے تھے، جیسا کہ کتب اخبار میں مکمل اور مفصل طریقے سے درج ہے۔

عہد نامہ ماموں امام رضا(ع)کا اپنی موت کی خبر دینا

شرح مواقف میں مامون الرشید عباسی اور امام ہشتم حضرت علی رضا علیہ السلام کے عہد نامے کاقضیہ درج ہے کہ جب مامون نے امام رضا علیہ السلام کو چھ مہینے کی خط و کتابت اور دھمکی دینے کے بعد اپنے ولی عہدی قبولکرنے پر مجبور کیا تو ایک عہدنامہ لکھا گیا اور مامون نے اس کے اس مضمون پر دسخط کیا کہ اس کے مرنے کے بعد خلافت حضرت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ۔ چونکہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام علم خدا داد سے جانتے تھے کہ میرے بعد چند بازیگر لوگ میرے آزاد کردہ غلام کیسانی کے بہکانے سے میرے فرزند محمدحنفیہ کی امامت کے قائل ہوجائیں گے، لہذا گویا آپ نے اس امتحان کے ذریعہ پہلے ہی یہ ثابت کردینا چاہا کہ محمد حںفیہ منصب امامتکے اہل نہیں ہیں۔ یعنی اگر امامت پرفائز ہوۓتو ان کے پاس کتاب جفر کی کلید کا ہونا ضروری تھا۔

۳۱۲

رضا علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگی۔ جب کاغذ امام رضا علیہ السلام کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے اپنے دستخط سے مندرجہ ذیل عبارت تحریر فرمائی۔

" أَقُولُ وَ أَنَا عَلِيُّ بْنُ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَضَدَهُ‏ اللَّهُ‏ بِالسَّدَادِ وَ وَفَّقَهُ لِلرَّشَادِ عَرَفَ مِنْ حَقِّنَا مَا جَهِلَهُ غَيْرُهُ فَوَصَلَ أَرْحَاماً قُطِعَتْ وَ آمَنَ أَنْفُساً فَزِعَتْ بَلْ أَحْيَاهَا وَ قَدْ تَلِفَتْ وَ أَغَنْاهَا إِذِ افْتَقَرَتْ مُبْتَغِياً رِضَا رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا يُرِيدُ جَزَاءً مِنْ غَيْرِهِ‏ وَ سَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ‏ وَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ‏ فَإِنَّهُ جَعَلَ إِلَيَّ عَهْدَهُ وَ الْإِمْرَةَ الْكُبْرَى إِنْ بَقِيتُ بَعْدَهُ "

یعنی میں علی ابن موسی جعفر(علیہم السلام) کہتا ہوں کہ مومنین کے فرمانبردار(مامون الرشید) نے خدا اس کو راستی پر قائم رکھے اور اس کو ر شید و ہدایت کی توفیق دے، ہمارے اس حق کو پہچانا جس کو دوسروں نے نہیںپہچانا، پس ان رشتوں کو جوڑا جن کو قطع کردیا گیا تھا اور ان نفوس کو امن و اطمینان دیا جو خوف زدہ تھے بلکہ ان کو زندگی بخشی جب وہ گویا فنا گھاٹ اترچکے تھے اور ان کو خوش حال بے نیاز بنایا جب وہ پریشان حال تھے تاکہ پروردگار کی رضامندی حاصل ہو۔ اور عنقریب خدا شکر گذاروں کو جزا عنایت کرے گا اور وہ نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ یقینا اس نے مجھ کو اپنا ولی عہد بنایا ہے اور زبردت امارت سپرد کی ہے بشرطیکہ میں اس کے بعد زندہ رہوں۔

یہاں تک کہ اس مضمون کے آخر میں تحریر فرمایا:

"ولکنالجفر و الجامعة يدلان على ضد ذلك او «ما أَدْرِي ما يُفْعَلُ بِي وَ لا بِكُمْ‏ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَيْرُ الْفاصِلِينَ."

لیکن جفر اور جامعہ اس بات کے خلاف دلالت کرتے ہیں (یعنی میں اس کے بعد تک زندہ نہیں رہوں گا) اور میں خود سے نہیں جانتا کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا برتاؤ ہوگا، حکم دینا تو صرف اللہ کا کام ہے جو بالکل سچا حکم دیتا ہے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

اور سعد بن مسعود بن عمر تفتازانی شرح مقاصد الطالبین فی علم اصول الدین میں عہد نامے کے اندر حضرت کے قلم سے نکلے ہوۓ جفر جامعہ کے جملے پر اپنے مفصل بیان میں اشارہ کرتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ علم جفر و جامعہ کے مطابق اپنے عہد پر قائم نہیں رہے گا۔ چنانچہ ہم نے دیکھ لیا کہ جو کچھ ہونا تھا ہوا اور اس پیغمبر(ص) کے فرزند پارہ جگر کو زہر جفا سے شہید کردیا۔ حضرت کی صداقت اور علم کی سچائی ظاہر ہوگئی اور سب کو معلوم ہوگیا کہ یہ جلیل القدر خاندان تمام ظاہری و باطنی امور سےبا خبر ہے۔

۳۱۳

جبرئیل کا وصی رسول(ص) کے لئے ایک مہر کی ہوئی کتاب لانا

رسول اللہ(ص) کے ذریعہ جن طریقوں سے علی علیہ السلام کو فیوض حاصل ہو ۓ ان میں ایک مہر کی ہوئی کتاب بھی ہے جو جبرئیل حضرت کے لئے لاۓ تھے۔

چنانچہ مقبول فریقین محقق و مورخ علامہ ابوالحسن علی بن الحسین مسعودی کتاب اثبات الوصیہ ص۹۲ میں تفصیل سے نقل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے۔

" أنزل اللّه جل و علا إليه من السماء كتابا مسجّلا نزل به جبرئيل عليه السّلام مع امناء الملائكة "

یعنی جبرئیل امناء ملائکہ کے ہمراہ خداۓ عزوجل کی جانب سے ایک مہر شدہ کتاب پیغمبر(ص) کے پاس لاۓ اور عرض کیا کہ جو لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں وہ علاوہ آپ کے وصی کے یہاں سے باہر چلے جائیں تاکہ میں کتاب وصیت کو پیش کروں۔

"فأمر رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله من كان عنده في البيت بالخروج ما خلا أمير المؤمنين‏ عليه السّلام و فاطمة و الحسن و الحسين عليهم السّلام فقال جبرئيل: يا رسول اللّه ان اللّه يقرأ عليك السلام و يقول لك: هذا كتاب بما كنت عهدت و شرطت عليك و اشهدت عليك ملائكتي و كفى بي شهيدا.فارتعدت مفاصل سيّدنا محمّد صلّى اللّه عليه و آله فقال: هو السلام و منه السلام و إليه يعود السلام"

یعنی پس رسول اللہ نے امیرالمومنین فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کے علاوہ جملہ حاضرین کو گھر سے باہر جانے کا حکم دیا جبرئیل نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) خدا آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ وہ تحریر ہے جس پر میں نے تم سے یہ عہد و پیمان کیا ہے اور اپنے ملائکہ کو گواہ بنایا ہے اور میں بھی گواہ ہوں۔ پس حضرت رسول خدا(ص) کا جسم کانپنے لگا اور آں حضرت(ص) نے فرمایا وہی ہے سلام اور اسی کی طرف سے سلام ہے اور اسی کی طرف بازگشت ہے سلام کی۔

اس کے بعد وہکتاب جبرئیل سے لے کر پڑھی اور علی(ع) کو دے کر فرمایا یہ میری طرف میرے پروردگار کا عہد اور اس کی امانت ہے جس کو میں نے یقینا ادا کردیا اور خدا کا پیغام پہنچا دیا۔

امیرالمومنین(ع) نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوجائیں میں بھی اس تبلیغ و نصیحت کی اور جو کچھ آپ نے فرمایا ہے۔ اس کی سچائی پر گواہی دیتا ہوں اور اس حقیقت پر میرے کان، آنکھ، گوشت اور خون سبھی گواہ ہیں۔

۳۱۴

اس وقت آں حضرت(ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا، لو یہ پروردگار کی جانب سے میری وصیت ہے اس کو قبول کرواور خداۓ تعالی کے لئے اس کی ضمانت کرو۔ اورمیرے لئے اس پر دعا کرنا فرض ہے علی نے عرض کیا میںنے اس کی ضمانت قبول کی اور یہ خدا کے ذمے ہے کہ میری مدد فرماۓ اس کتاب میں امیرالمومنین علیہ السلام سے ان چیزوں کا عہد لیا گیا ہے۔

"الموالاة لأولياء اللّه‏ و المعاداة لأعداءاللّه و البراءة منهم، و الصبر على الظلم، و كظم الغيظ، و أخذ حقّك منك و ذهاب خمسك و انتهاك حرمتك، و على أن تخضب لحيتك من رأسك بدم عبيط.فقال أمير المؤمنين عليه السّلام: قبلت و رضيت و ان انتهكت الحرمة و عطلت السنن و مزّق الكتاب و هدمت الكعبة و خضبت لحيتي من رأسي صابرا محتسبا."

یعنی خدا کے دوستوں سے دوستی، خدا کے دشمنوں سے دشمنی اور ان سے بیزاری، ظلم کے اوپر صبر، ا پنا حق چھینے جانے اپنے خمس پر تصرف کئے جانے، اپنی حرمت کے ضائع کئے جانے اور بے خطا اپنے سر کے خون سے اپنی ڈاڑھی رنگین کئ جانے پر ضبط و تحمل اور غصے کو پی جانا۔ پس امیرالمومنین(ع) نے کہا میں نے قبول کیا اور راضی ہوا۔ اگر میری حرمت ضائع کی جاۓ، سنتوں کو معطل کردیا جاۓ احکام کتاب پارہ پارہ کردیئے جائیں کعبہ ڈھا دیا جاۓ اور میری ڈاڑھی میرے خون سے رنگین کی جاۓ تب بھی صبرو تحمل سے کام لیا۔

اس کےبعد جبرئیل و میکائیل اور ملائکہ مقربین کو امیرالمومنین پر گواہ قرار دیا۔ اور حسن و حسین و فاطمہ صلوات اللہ علیہم اجمعین کو بھی اسی طرح ذمہ داری سپرد کی اور ان حضرات کو پیش آنے والے تمام واقعات کی تفصیل بیان کی پھر اس وصیت نامے پربغیر تپاۓ ہوۓ سونے کی مہرین لگائیں اور علی علیہ السلام کو دے دیا۔

"و في‏ الوصية سنن‏ اللّه‏ جلّ و علا و سنن رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و خلاف من يخالف و يغيّر و يبدّل و شي‏ء شي‏ء من جميع الأمور و الحوادث بعده صلّى اللّه عليه و آله و هو قول اللّه عز و جل‏ « وَ كُلَّ شَيْ‏ءٍ أَحْصَيْناهُ فِي إِمامٍ مُبِينٍ"_ انتهی"

یعنی اس وصیت نامے کے اندر خداۓ عزوجل کی سنتیں، رسول خدا(ص) کی سنتیں، جو لوگ مخالف اور احکام خداوندی میں تغیر و تبدل کرنے والے ہیں ان کی مخالفت اور آں حضرت(ص) کے بعد واقع ہونے والے جملہ امور و حادثات کے تذکرے موجود ہیں۔ اور یہ وہی چیز ہے جو خداوند عالم فرماتا ہے کہ امام مبین(علی ابن ابی طالب(ع)) کو ہم نے ہر شئی کا علم عطا کیا ہے۔

خلاصہ یہ کہ امیرالمومنین(ع) اور آپ اولاد وعترت رسول(ص) میں سے ائمہ معصومین علیہم السلام کو جو کچھ ملا تھا وہ

۳۱۵

رسول خدا(ص) سے ملا تھا اور آں حضرت(ص) کے تمام علوم ان حضرات کے پاس تھے۔ اگر اس کے خلاف ہوتا تو آں حضرت(ص) علی(ع) کو اپنا باب علم نہ فرماتے اور یہ حکم نہ دیتے کہ اگر تم میرے علم سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو علی ابن ابی طالب(ع) کے دروزے پر جاؤ۔ اور اگر آپ رسول اللہ(ص) کے علوم خاص کے حامل نہ ہوتے اور آپ کے سارے علوم پر قابو حاصل نہ ہوتا تو دوست و دشمن سب ہی کے سامنے یہ اعلان نہ فرماتے کہ"سلونی قبل ان تفقدونی " یعنی مجھ سے جو چاہو پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ۔

اس لئے کہ اس پر فریقین کا اتفاق ہے کہ سوا امیرالمومنین کے اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس نے سلونی کی آواز دی ہو اور آپ کی اس مخصوص منزلت کا دعوی کیا ہو اور پھر علوم ظاہری و باطنی کے متعلق لوگوں کے سوالات کے مقابلے میں لاجواب نہ ہوگیا ہو۔ آپ کے علاوہ جس نے بھی ایسا اعادہ کیا وہ ذلیل و رسوا ہوکررہا۔ چنانچہ حافظ ابن عبدالبر مغربی اندلسی کتاب استیعاب فی معرفتہ الاصحاب میں کہتے ہیں:

"ان کلمةسلونی قبل ان تفقدونی ماقال لهااحدغیرعلی ابن ابی طالب الاکان کاذبا"

یعنی کلمہ سلونی قبل ان تفقدونی کو سوا علی ابن ابی طالب(ع) کے اور جس شخص نے زبان سے نکالا وہ جھوٹا تھا۔

چنانچہ ابوالعباس احمد بن مسکان شافعی نے وفیات میں اور خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ جلد سیزدہم ص۱۶۳ میں نقل کیا ایک روز مقاتل بن سلیمان نے جو آپ کے بزرگ علمائ میں سے اور ہر مسئلے میں بہت حاضر جواب تھے عام مجمع کے سامنے برسر منبر کہا" سلونی عما دون العرش" یعنی عرش کے نیچے جو کچھ بھی ہے اس کے متعلق مجھ سے پوچھ لو۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ جب حضرت آدم فریضہ حج بجالاۓ تو حلق و تقصیر کے موقع پر ان کے سر کے بال کس نے کاٹے؟ مقاتل پریشان اور لاجواب ہوکر خاموش ہوگئے۔ دوسرے نے پوچھا کہ چیونٹی معدے کی نلی سے غذا جذب کرتی ہے یا کسی اور ذریعہ سے؟ اگر معدے کا ذریعہ ہے تو اس کے جسم میں معدہ اور آنتیں کس مقام پر ہیں؟ مقاتل پھر حیرت میں پڑ گئے کہ کیا جواب دیں۔ مجبور ہوکر کہا کہ یہ سوالتمہارے دل میں خدا نے ڈالا ہے تاکہ زیادتی علم کی بنا پر میرے دل میں جو غرور پیدا ہوگیا تھا اور میں اپنی حد سے تجاوز کر گیا تھا اس کی وجہ سے میں ذلیل و رسوا ہوجاؤں۔

بدیہی چیز ہے کہ یہ دعوی اسی شخص کو کرنا چاہیئے جو ہر سوال کے جواب پر کما حقہ، قدرت رکھتا ہو اور قطعی و یقینی امت کے اندر سوا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) کے اور کوئی بھی اس منزل پر فائز نہیں تھا۔

آپ چونکہ رسول اللہ(ص) کے باب علم تھے لہذا آں حضرت(ص) ہی کے مانند تمام ظاہری و باطنی امور پر حاوی اور علوم اولین و آخرین سے آگاہ تھے۔ اسی بنا پر پوری قدرت کے ساتھ سلونی کی آواز دیتے تھے اور ہر سوال کا شافی جواب عنایت فرماتے تھے۔ جس کی تفصیل پیش کرنے کا وقت نہیں ہے۔

۳۱۶

علاوہ امیرالمومنین علی علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے بھی کسی نے ایسا اعلان نہیں کیا۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل نے مسند میں، موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں، خواجہ بزرگ حنفی نے ینابیع المودۃ میں، بغوی نے معجم میں محب الدین طبری نے ریاض النضرہ جلد دوم ص۱۹۸ میں اور ابن حجر نے صواعق ص۷۶ میں، سعید ابن مسیب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نےکہا"لم یکن من الصحابه یقول سلونی الاعلی ابن ابی طالب(ع)" یعنی صحابہ میں سے علی ابن ابی طالب(ع) کے سوا اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھ سے جو چاہو پوچھ لو۔

علی علیہ السلام کی نداۓ سلونی اور اخبار اہلِ سنت

لہذا خود آپ کے اکابر علمائ مثلا ابن کثیر نے اپنی تفسیر جلد چہارم میں، ابن عبدالبر نے استیعاب میں، سلیمنا بلخی حنفی نے ینابیع المودت میں، موید الدین خوارزمی نے مناقب میں، امام احمد نے مسند میں، حموینی نے فرائد میں، ابن طلحہ نے در المنظوم میں، میر سید علی شافعی نے مودۃ القربی میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور آپ کے دیگر محققین نے مختلف الفاظ و عبارات کے ساتھ متعدد و مقامات پر عامرین واثلہ، ابن عباس، ابی سعید البحری، انس ا بن مالک اور عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے بالاۓ منبر فرمایا:

" يا أيها الناس سلوني قبل أن تفقدوني، فإن‏ بين‏ جوانحي‏ لعلما جما، سألوني فان عندی علم الاولین والاخرین"

یعنی لوگو مجھ سے (جو چاہو پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ) کیونکہ در حقیقت میرے سینے میں علم بھرا پڑا ہے۔ مجھ سے دریافت کر لو کیونکہ یقینا میرے پاس اولین و آخرین کا علم موجود ہے۔

ابوداؤدنے سنن ص۳۵۶ میں، امام احمد حنبل نے مسند جلد اول ص۲۷۸ میں، بخاری نے اپنی صحیح جلد اول ص۴۶ اور جلد دہم ص۲۴۱ میں سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا:

"سَلُونِي‏ عَمَّا شِئْتُمْ‏ وَ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْ‏ءٍ إِلَّا أَنْبَأْتُكُمْ بِهِ "

یعنی جس چیز کے بارے میں چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جس کے متعلق تم دریافت کرو اور میں اس کی خبر نہ دوں۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب۱۴ ص۷۴ میں موفق بن احمد خوارزمی سے اور شیخ الاسلام حموینی نے اپنی سند کے ساتھ ابوسعید بختری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

۳۱۷

" رَأَيْتُ عَلِيّاً ع صَعِدَ الْمِنْبَرَ بِالْكُوفَةِ وَ عَلَيْهِ مِدْرَعَةٌ كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ ص مُتَقَلِّداً بِسَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ ص مُتَعَمِّماً بِعِمَامَةِ رَسُولِ اللَّهِ ص فِي إِصْبَعِهِ خَاتَمُ رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَ كَشَفَ عَنْ بَطْنِهِ فَقَالَ سَلُونِي مِنْ قَبْلِ أَنْ تَفْقِدُونِي فَإِنَّمَا بَيْنَ‏ الْجَوَانِحِ‏ مِنِّي‏ عِلْمٌ جَمٌّ هَذَا سَفَطُ الْعِلْمِ هَذَا لُعَابُ رَسُولِ اللَّهِ ص هَذَا مَا زَقَّنِي رَسُولُ اللَّهِ زَقّاً مِنْ غَيْرِ وَحْيٍ أُوحِيَ إِلَيَّ فَوَ اللَّهِ لَوْ ثُنِيَتْ لِي وِسَادَةٌ فَجَلَسْتُ عَلَيْهَا لَأَفْتَيْتُ لِأَهْلِ التَّوْرَاةِ بِتَوْرَاتِهِمْ وَ لِأَهْلِ الْإِنْجِيلِ بِإِنْجِيلِهِمْ حَتَّى يُنْطِقَ اللَّهُ التَّوْرَاةَ وَ الْإِنْجِيلَ فَتَقُولَ صَدَقَ عَلِيٌّ قَدْ أَفْتَاكُمْ بِمَا أُنْزِلَ فِيَ‏ وَ أَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتابَ أَ فَلا تَعْقِلُونَ‏."

یعنی میں نے حضرت علی(ع) کو منبر کوفہ پر اس صورت سے دیکھا کہ پیغمبر(ص) کی اونی چادر اوڑھے ہوۓ، آں حضرت(ص) کیتلوار باندھے ہوۓ اور آں حضرت(ص) کاعمامہ سر پر رکھے ہوۓ تھے پس منبر پر بیٹھے اور اپنا شکم مبارککھول کر فرمایا کہ مجھ سے پوچھ لو( جو چاہو) قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ، کیونکہ سواۓ اس کے نہیں ہے کہ میرے سینے میں کثیر علم موجود ہے۔ یہ میرا شکم علم کا مخزن ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لعاب دہن ( یعنی اس کا اثر) ہے یہ وہ چیز ہے جسے رسول خدا(ص) نے مجھ کو دانے کی طرح بھرایا ہے۔ پس قسم خدا کی اگر میرے لئے مسند بچھا دی جاۓ اور میں اس کے اوپر تمسکن ہوں تو یقینا توریت والوں کو ان کی توریت سے اور انجیل والوں کو ان کی انجیل سے فتوی یہاں تک کہ خدا توریت و انجیل کو گویا کردے اور گواہی دی کہ علی(ع) نے سچ کہا اور جو کچھ خدانے ہمارے اندر نازل کیا ہے اسی کے مطابق تم کو فتوی دیا ہے اور تم لوگ کتاب کی تلاوت کرتے ہو تو کیا اتنا بھی نہیں سمجھتے۔

شیخ الاسلام حموینی فرائد میں اور موئد الدین خوارزمی مناقب میں نقل کرتے ہیں کہ آپ نے بالاۓ منبر فرمایا:

" سلونيقبل ان تفقدونی فو الذیفلق الحبةوبرالنسمةلا تسألوني من آية من كتاب اللَّه إلّا حدثتكم عنها متى‏ نزلت‏ [ظ] بليل أو بنهار أو في مقام أو فی میسر في سهل أو في جبل، و فيمن نزلتفي مؤمن أو منافق و ما عنى بها أم عام او خاصّ "

یعنی پوچھ لو مجھ سے قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ پس قسم اس خدا کی جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور آدمی کو پیدا کیا کہ مجھ سے کتاب خدا کی کسی آیت کے بارے میں سوال نہ کروگے مگر یہ کہ میں تم کو اس کے متعلق بتاؤں گا کہ کس وقت نازل ہوئی، رات کو یا دن کو، منزل میں راستے میں، زمین ہموار میں یا پہاڑ میں، اور کس کے بارے میں نازل ہوئی، مومن کے حق میں یا منافق کے اور خدا نے اس سے کیا مراد لیا ہے یہ آیت عام ہے یا خاص۔

ابن کوا خارجی اٹھا اور اس نے کہا:

۳۱۸

" أخبرني عن قول الله جل و عز- الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ أولئك نحن و أتباعنا يوم القيامة غرا محجلين رواء مرويين يعرفون‏ بسيماهم‏"

یعنی مجھ کو خداۓ تعالی کے اس قول کا مطلب بتائیے کہ " جو لوگ ایمان لاۓ اور عمل صالح بجالاۓ وہی لوگ تمام انسانوں سے بہتر ہیں" آپ نے فرمایا وہ ہم اور ہمارے پیرو ہیں جن کے چہرے اور ہاتھ پاؤں قیامت کے روز چمکتے ہوں گے اور اپنی پیشانیوں سے پہچانے جائیں گے۔

امام احمد بن حنبل مسند میں اور شیخ سلیمان بلخی ینابیع المودت باب۱۴ ص۷۴ میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ علی(ع) نے بالاۓ منبر فرمایا:

" سَلُونِي‏ عَنْ‏ كِتَابِ‏ اللَّهِ‏ تَعَالَى وَ مَا مِنْ آيَةٍ إِلَّا وَ أَعْلَمُ حَيْثُ أُنْزِلَتْ بِحَضِيضِ جَبَلٍ أَوْ سَهْلِ أَرْضٍ وَ سَلُونِي عَنِ الْفِتَنِ وَ مَا مِنْ فِتْنَةٍ إِلَّا وَ قَدْ عَلِمْتُ كَبْشَهَا وَ مَنْ يُقْتَلُ فِيهَا."

یعنی دریافت کر لو جو مجھ سے قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ اور کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے متعلق سب سے زیادہ نہ جانتا ہوں کہ وہ کیونکہ نازل ہوئی ہے، پہاڑ کے دامن یا زمین ہموار میں اور پوچھو مجھ سے فتنوں کے بارے میں پس کوئی فتنہ ایسا نہیں ہے جس کے لئے میں نہ جانتا ہوں کہ کس نے اس کو اٹھایا ہے اور کون اس میں قتل ہوگا۔

ابن سعد نے طبقات میں، ابو عبداللہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے باب۵۲ میں جس کو اسی موضوع کے لئے مخصوص کیا ہے، اور حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص۶۸ میں معتبر اسناد کے ساتھ امیرالمومنین علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

" وَ اللَّهِ‏ مَا نَزَلَتْ‏ آيَةٌ إِلَّا وَ قَدْ عَلِمْتُ فِيمَا نَزَلَتْ- وَ أَيْنَ نَزَلَتْ وَ عَلَى مَنْ نَزَلَتْ- إِنَّ رَبِّي تَعَالَى وَهَبَ لِي قَلْباً عَقُولًا وَ لِسَاناً طَلْقاً."

یعنی خدا کی قسم کوئی آیت نازل نہیں ہوئی لیکن یہ کہ میں قطعا جانتا ہوں کہ کس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہاں نازل ہوئی ہے اور کس پر نازل ہوئی ہے یقینا خدا نے مجھ کو فہم و ادراک رکھنے والا اور فصیح و گویا زبان عطا کی ہے۔

نیز انہیں کتابوں میں نقل کرتے ہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:

"سلوني‏ عن‏ كتاب‏ اللّه‏ فانه ليس من آية إلا و قد عرفت بليل نزلت أم بنهار، في سهل نزلت أم في جبل."

۳۱۹

یعنی مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں سوال کرو کیونکہ کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے متعلق مجھ کو معلوم نہ ہو کہ رات میں نازل ہوئی ہے یا دن میں، پہاڑ میں نازل ہوئی ہے یا ہموار زمین میں۔

مناقب خوارزمی میں اعمش سے اور انہوں نے عبایہ بن ربعی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

" كَانَ عَلِيٌّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع كَثِيراً مَا يَقُولُ سَلُونِي قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِي فَوَ اللَّهِ مَا مِنْ‏ أَرْضٍ‏ مُخْصِبَةٍ وَ لَا مُجْدِبَةٍ وَ لَا فِئَةٌ تُضِلُّ مِائَةً أَوْ تَهْدِي مِائَةً إِلَّا وَ أَنَا أَعْلَمُ قَائِدَهَا وَ سَائِقَهَا وَ نَاعِقَهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ."

یعنی علی علیہ السلام کثرت سے یہفرماتے تھے کہ مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ، پس خدا کی قسم کوئی سرسبز خطہ اور بے آب و گیاہ زمین اور کوئی ایسا گروہ جو سو آدمیوں کو گمراہ کرے یا سو آدمیوں کی ہدایت کرے۔ ایسا نہیں ہے جس کی قیادت کرنے والے اور جس کو پیچھے سے چلانے والے اور جس کو ابھارنے والے کو روز قیامت تک میں سب سے بہتر نہ جانتا ہوں۔

اور جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء ص۱۲۴ میں بدرالدین حنفی عمدۃ القاری میں، محب الدین طبری ریاض النضرہ جلد دوم ص۱۹۸ میں، سیوطی تفسیر اتقان جلد دوم ص۳۱۹ میں، اور ابن حجر عسقلانی فتح الباری جلد ہشتم ص۴۸۵ میں، نیز تہذیب التہذیب جلد ہفتم ص۳۳۸ میں نقل کرتے ہیں کہ علی علیہ السلام نے فرمایا:

"سلوني فو اللّه لا تسالوني عن شي‏ء يكون الى يوم القيامة الا حدثتكم، سلوني‏ عن‏ كتاب‏ اللّه‏ فو اللّه ما من آية الا انا اعلم ابليل نزلت ام بنهار ام في سهل ام في جبل"

یعنی سوال کرو مجھ سے روز قیامت تک ہونے والی جس چیز کے متعلق بھی پوچھو گے میں تم کو اس کی خبر دوں گا اور کتاب خدا کے بارے میں مجھ سے دریافت کرو، پس خدا کی قسم کوئی آیت ایسی نہیں جس کے متعلق میں سب سے زیادہ نہ جانتا ہوں کہ رات میں نازل ہوئی ہے یا دن میں، زمین ہموار میں یا پہاڑ میں۔

آیا ان بیانات میں علم غیب کا دعوی نہیں ہے؟ اور سوا علم غیب جاننے والے کے کوئی دوسرا شخص دوست دشمن سب کے سامنے ایسا اعلان کرسکتا ہے؟ اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے اپنی عادت کو چھوڑ دیں اور انصاف کی نظرسے دیکھیں تو صاف ظاہر ہوجاۓ گا کہ حضرت علم غیب کے عالم تھے جس کا عملی طور سے اظہار بھی فرماتے تھے اور غیبی باتوں کی خبر دیا کرتے تھے۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394