پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 276140
ڈاؤنلوڈ: 6129


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 276140 / ڈاؤنلوڈ: 6129
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سنان ابن انس کو قاتلِ امام حسین(ع) بتانا

چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی نے انہیں روایتوں کو شرح نہج البلاغہ جلد اول ص208 ( مطبوعہ مصر) میں کتاب غارات ابن ہلال ثقفی سے نقل کیا ہے، یہاں تک کہ کہتے ہی ایک شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:

" اخبرني‏ بما في‏ رأسي‏ و لحيتي من طاقة شعر "

یعنی میرے سر اور ڈاڑھی کے بالوں کے متعلق مجھ کو خبر دیجئے۔

حضرت نے فرمایا کہ میرے خلیل حضرت رسول خدا(ص) نے مجھ کو خبر دی ہے کہ تیرے سر کے ہر بال کی جڑ میں ایک فرشتہ ہے جو تجھ پر لعنت کرتا ہے اور تیرے ہر بال کی جڑ میں ایک شیطان ہے جو تجھ کو بہکاتا ہے اور تیرے گھر میں ایک گوسالہ ہے جو فرزند رسول کو قتل کریگا یہ شخص انس نخعی تھا جس کا بیٹا سنان اس وقت کم سن تھا اور گھر میں کھیل کود رہا تھا اور پھر سنہ61ہجری میں کربلا پہنچ کر امام حسین علیہ السلام کا قاتل بنا(بعض کا قول ہے کہ سوال کرنے والا سعد ابن ابیوقاص تھا اور اس کا پسر گوسالہ عمر ابن سعد ملعون تھا جو فوج یزید کا سردار اور کربلا کے عظیم سانحےکا برپا کرنے والا تھا) یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں نے دو مختلف جلسوں میں سوال کیا ہو۔

حضرت نے ان روایات کے ذریعے بخوبی سمجھا دیا کہ میرے علم کا سر چشمہ پیغمبر(ص) کی ذات ہے اور م یں امور غیب پر عبور رکھتا ہوں۔

علمداری حبیب بن عمار کی خبر

آپ کے اکابر علمائ جیسے امام احمد حنبل نے مسند میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص208 میں نقل کیا ہے کہ خلافت ظاہری کے زمانہ میں ایک روز آپ مسجد کوفہ میں بیٹھے ہوۓ تھے اور اصحاب چاروں طرف جمع تھے ایک شخص نے کہا خالد ابن عویطہ نے وادی القربی میں انتقال کیا۔ آپ نے فرمایا:

"لَمْ‏ يَمُتْ‏ وَ لَا يَمُوتُ‏ حَتَّى يَقُودَ جَيْشَ ضَلَالَةٍ صَاحِبُ لِوَائِهِ حَبِيبُ بْنُ جَمَّازٍ "

یعنی وہ نہیں مرا ہے اور نہیں مرےگا یہاں تک کہ لشکر ضلالت و گمراہی کا سردار ہو اور اس کا علمدار حبیب ابن عمار ہوگا۔

ایک جوان مجمع سے اٹھا اور اس نے عرض کیا یا امیرالمومنین(ع) حبیب ابن عمار میں ہوں اور آپ کے سچے اور خالص دوستون میں سے ہوں۔ حضرت نے فرمایا یہ میں نے جھوٹ کہا ہے اور نہ کہوں گا، گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ خالد لشکر ضلالت و گمراہی کا سردار ہے اور تو اس کا علمدار ہے، تم لوگ مسجد کے اس دروازے سے ( باب الفیل کی طرف اشارہ( داخل ہوگے اور علم کا پھریرا مسجد کے درواز ے سے لڑکر پھٹ جاۓ گا۔

امیرالمومنین علیہ السلام کی اس پیشن گوئی کو برسوں گزر گئے، یہاں تک کہ یزیز پلید کے دور خلافت میں عبداللہ

۳۲۱

ابن زیاد ملعون کوفہ کا حاکم ہوا اور حضرت سید الشہداء علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لئے بڑی بڑی فوجیں بھیجنا شروع کیں۔ جن لوگوں نے حضرت سے خالد اور حبیب ابن عمار کی پیشین گوئی سنی تھی ان میں سے اکثر افراد ایک روز مسجد میں اکٹھا تھے کہ لشکر والوں کے شور وغل اور نعروں کی آوازیں بلند ہوئیں( چونکہ پہلے اجتماعات کے مرکز مسجد میں ہوا کرتی تھیں۔لہذا فوجی سپاہی اپنی نمائش کے لئے مسجد میں آکر خروج کرتے تھے) ان لوگوں نے دیکھا کہ خالد ابن عویطہ جو لشکر ضلالت اثر کا سردار ہے اور فرزند رسول سے جنگ کرنے کے لئے کربلا جارہا ہے نمائش کے لئے اسی باب الفیل سے داخل ہوا اور حبیب ابن عمار اس کا علمدار ہے۔ مسجد کے اندر داخل ہوتے ہوۓ اس کے علم کا پھریرا دروازے سے لڑکر پھٹ گیا تاکہ حضرت علی علیہ السلام کی سچائی اور علم کی گہرائی منافقین پر ثابت ہوجاۓ۔

آیا وقوع سے قبل ایسی علامت اور شناخت کے ساتھ اس واقعے کی خبر دینا علم غیب کا ثبوت نہیں تھا جو آپ حضرات کو یقین کرنے پر مجبور کرے؟

غیبی خبریں: اگر آپ نہج البلاغہ کو جو حضرت علی(ع) کے خطبات اور کلمات کامجموعہ ہے غور سے پڑھیں تو نظر آئیگا کہ اہم حادثات و فسادات، بڑے بڑے سلاطین کے حالات، صاحب زنج کے خروج، مغلوں کے غلبے چنگیز خان کی سلطنت، خلفاۓ جور کے حالات و واقعات اور شیعوں کے ساتھ ان کےطرز عم کے متعلق حضرت نے بکثرت غیبی خبریں دی ہیں، بالخصوص ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں ص208 سے ص211 تک ان کو تفصیل سے بیان کیا ہے، اور خواجہ بزرگ بلخی حنفی نے بھی ینابیع المودت باب14 کے شروع میں ان سے بعض خطبوں اور پیشین گوئیوں کے ذریعے حضرت کی کثرت علم پر استشہاد کیا ہے۔ ان کے مطالعے سے آپ کے اوپر حقیقت منکشف ہوجاۓ گی۔

معاویہ کے غلبےاور مظالم کی خبر

من جملہ ان کے اہل کوفہ کو ان کے اوپر معاویہ کے غلبے اور حضرت(ع) پر سب وشتم اور لعنت کرنے کا حکم نافذ کرنے کی خبر دی گئی ہے، چنانچہ بعد کو یہ ساری باتیں لفظ بلفظ صحیح اتریں۔ مثلا فرمایا ہے کہ:

"أَمَّا إِنَّهُ سَيَظْهَرُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رَجُلٌ‏ رَحْبُ‏ الْبُلْعُومِ‏ مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ‏ يَأْكُلُ مَا يَجِدُ وَ يَطْلُبُ مَا لَا يَجِدُ فَاقْتُلُوهُ وَ لَنْ تَقْتُلُوهُ أَلَا وَ إِنَّهُ سَيَأْمُرُكُمْ بِسَبِّي وَ الْبَرَاءَةِ مِنِّي فَأَمَّا السَّبُّ فَسُبُّونِي فَإِنَّهُ لِي زَكَاةٌ وَ لَكُمْ نَجَاةٌ وَ أَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَ سَبَقْتُ إِلَى الْإِيمَانِ وَ الْهِجْرَةِ"

۳۲۲

یعنی عنقریب میرے بعد تمہارے اوپر ایک ایسا شخص غالب ہوگا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ نکلا ہوا ہوگا جو پائیگا کھا جاۓ گا اورجو کچھ نہ پائیگا اس کا مطالبہ کرے گا، پس اس کو قتل کر ڈالنا اور تم اس کو ہرگز قتل نہ کرو گے۔ یقینا وہ عنقریب مجھ کو دشنام دینے اور مجھ سے بیزاری اختیار کرنے کے لئے تم کو حکم دے گا، پس دشنام دیئے کے لئے میں تم کو اجازت دیتا ہوں کیونکہ وہ (ایک زبانی چیز ہے لہذا، میرے لئے پاکیزگی اور تمہارے لئے (اس شخص کے ضرر سے( نجات کا باعث ہے لیکن برائت و بیزاری ( چونکہ قلبی چیز ہے) پس مجھ سے بیزاری اختیار نہ کرنا کیونکہ میں فطرت (اسلام و توحید) پر پیدا ہوا ہوں(یہ جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت کے والدین مومن تھے) اور میں نے ایمان و ہجرت کی طرف پیش قدمی کی ہے)(1)

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص 356 (مطبوعہ مصر )میں اورآپ کے دوسرے اکابر تصدیق کرتے ہیں کہ یہ معاویہ ابن ابی سفیان تھے کیونکہ جب ان کا غلبہ ہوا اور ان کی خلافت کی چولیں بیٹھ گئیں تو لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام پر لعنت اور سب وشتم کرنے اور حضرت سے بیزاری اختیار کرنے کا حکم دیا ۔ یہ عمل شنیع مسلمانوں کے اندر اسی سال رائج رہا اور محراب ومنبر اور نماز جمعہ کے خطبے میں برابر حضرت پر سب ولعن کی جاتی رہی ، یہاں تک کہ جب عمر ابن عبد العزیزاموی کا زمانہ آیا تو انہوں نے اپنے حسن تدبیر سے اس بدعت سیئہ کوبرطرف کوبرطرف کیا اور لوگوں کو اس بدترین عمل سے منع کیا -

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ پر خور آدمی سے حضرت نے معاویہ کو مرد لیا ہے، چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص335(مطبوعہ مصر) میں کہتے ہیں کہ اس سے معاویہ پر خور مراد ہیں کیوں کہ تاریخ کے اندر یہ اپنی پر خوری میں مشہور ہیں۔ "وکان یاکل فی الیوم سبع اکلات"( جیسا کہ زمخشری نے ربیع الابرار میں کہا ہے) یعنی ایک دن میں سات مرتبہ کھانا کھاتے تھے اور ہر مرتبہ اس قدر کھاتے تھے کہ دسترخوان کے کنارے لیٹ جاتے تھے اور آ واز دیتے کہ " یا غلام ارفع فواللہ ما شبعت ولکن مللت" یعنی اے غلام کھانا اٹھا لے جا، خدا کی قسم میں کھاتے کھاتے تھک گیا لیکن سیر نہیں ہوا۔ معاویہ کو جوع الکلاب کا مرض تھا( طب قدیم میں بتایا گیا ہے کہ ایسے شخص کے معدے میں ایک ایسی حرارت پیدا ہوجاتی ہے کہ جو غذا معدے میں پہنچتی ہے وہ بخار کی صورت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور اس کا کوئی نفع یا نقصان ظاہر نہیں ہوتا) ان کی پر خوری عرب میں ضرب المثل بن گئی تھی اور ہر زیادہ کھانے والے کو ان سے مثال دی جاتی تھی۔ ایک شاعر نے اپنے ایک ایسے ہی دوست کی کیا پرلطف ہجوکی ہے وہ کہتا ہے۔ ؎

وصاحب‏لي‏بطنه‏كالهاويةكأنفيأمعائه معاوية

یعنی میرا ایک رفیق ہے جس کا شکم مثل معاویہ کے ہے( ہاویہ جہنم کا ایک طبقہ ہے اور جہنم کفار کی کثرت سے سیر نہیں ہوتا جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ جہنم سے کہا جاۓ گا" ہل امتلئت فتقولی ہل من مزید" یعنی کیا تو سیر ہوگئی؟ تو کہے گی کہ آیا اور زیادہ ہے؟ مطلب یہ کہ مجھ کو سیری نہیں ہوسکتی) (اس کی خوراک اتنی زبردست ہے گویا) اس کی آنتوں میں معاویہ جی اترے ہوۓ ہیں۔

۳۲۳

چونکہ اس قبیح و شنیع فعل کی خبر حضرت نے پہلے ہی دے دی تھی لہذا آپ کو بھی اعتراف کرنا چاہیئے کہ امیرالمومنین علیہ السلام عام غیب تھے اور علم لدنی کے ذریعہ آئندہ ہونے والے واقعات سے بخوبی آگاہ تھے۔ حضرت(ع) نے بہترین پیشین گوئیاں فرمائی ہیں جو لوگوں نے برسوں اور صدیوں کے بعد پوری ہوتے دیکھیں۔

قتل ذوالثدیہ کی پیشین گوئی

جنگ نہروان میں لڑائی چھڑنے سے پہلے ہی خوارج اور تزملا معروف بر ذوالثدیہ کے قتل کی خبر دے دی تھی اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ خوارج میں سے دس نفر بھی نہیں بچیں گے اور مسلمانوں میں سے دس نفر بھی قتل نہیں ہوں گے۔ عبارت یہ ہے:

" لا یفلت منه معشرةولایهلک منک معشرة"

چنانچہ ابن ابی الحدید اور خواجہ بزرگ بلخی وغیرہ نے نقل کیا کہ آپ نے جو کچھ فرمایا تھا وہ حروف بحروف پورا ہوا۔ بالخصوص ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول مطبوعہ مصر کے ص425 پر اس روایت کے ذیل میں کہتے ہیں:

"هذاالخبرمن اخبارالتی تکادتکون متواترةلاشتهاره ونقلالناسکافةوهومن معجزاته"

یعنی یہ روایت ان اخبار میں سے ہے جوقریب بہ تواتر ہیں، کیونکہ اس کو کافی شہرت حاصل ہے۔ اور سبھی لوگوں نے اس کو نقل کیا ہے اور یہ حضرت(ص) کے معجزات میں سے ہے۔

آیا یہ باتیں غیب کی پیشینگوئی اور زمانہ آئیندہ کے حالات سے آگاہی کا ثبوت نہیں ہیں تاکہ آپ کا شبہ اور اشکال رفع ہو اور آپ حضرت کے مقام ولایت اور حقیقی منزلت کی معرفت حاصل کر کے انصاف کے ساتھ تصدیق کریں کہ حضرت اور دوسرے خلفائ کے درمیان بڑا فرق تھا؟ اگر حضرت علم لدنی کے حامل نہیں تھے اور ماوراۓ عالم طبیعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے تو ان غیبی امور کی خبر کیوں کر دیتے تھے جو برسوں اور صدیوں کے بعد واقع ہوتے تھے؟

مثلا عبیداللہ ابن زیاد کے ہاتھوں میثم تمار کے قتل ہونے، زیاد کے ہاتھوں جویریہ اور رشید ہجری کے مارنے جانے نیز معاویہ کے یاروں اور مددگاروں کے ہاتھوں عمرو بن حمق کے حادثے اور قتل کی پیشنگوئیاں اور سب سے بڑھ کے اپنے فرزند دلبند حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دینا۔ چنانچہ میں پہلے ہی اشارہ کرچکا ہوں کہ انس اور عمر سعد کو خبر دیتے ہوۓ حضرت نے اس واقعہ شہادت کا باربار ذکر فرمایا ہے، اور طبری، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص208 نیز دوسری کتابوں میں، محمد بن طلحہ شافعی، سیوطی، خطیب خوارزمی اور آپ کے دوسرے اکابر علمائ نے ان تمام روایتوں کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔

۳۲۴

اپنی شہادت اور ابن ملجم کی خبر

انہیں اخبار غیب میں سے یہ بھی ہے کہ اپنی شہادت کی خبر دے دی تھی اور عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کے متعلق اعلان فرمادیا تھا کہ یہ میرا قاتل ہے، حالانکہ وہ ملعون بظاہر آپ سے خلوص و وفاداری کا اظہار کرتا تھا۔ چنانچہ ابن کثیر نے اسد الغابہ جلد چہارم ص25 میں اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے کہ یہ جس وقت حاضر خدمت ہوا تو اصحاب کے سامنے حضرت(ع) کی مدح سرائی شروع کی اور کہا ؎

أَنْتَ‏الْمُهَيْمِنُ‏وَالْمُهَذَّبُ ذُوالنَّدَى‏وَابْنُ الضَّرَاغِمِ فِي الطِّرَازِالْأَوَّلِ‏

اللَّهُ خَصَّكَ يَاوَصِيَّ مُحَمَّدٍوَحَبَاكَ فَضْلًافِي الْكِتَابِ الْمُنْزَلِ‏ الخ

یعنی آپ امام برحق، ہر عیب وریب سے پاک اور صاحب جود وسخا ہیں۔ اور ان شیرو دلیر آباد اجداد کے فرزند ہیں جو ابتدا ہی سے صفت شجاعت میں ممتاز ہیں۔

اے وصی پیغمبر(ص) اللہ نے آپ کو اس مرتبے کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے اور آپ کو وہ فضیلت وبزرگی عطا فرمائی ہے جو قرآن مجید کے اندر موجود ہے۔ تا آخر اشعار۔

تمام اصحاب نے اس کی زبان آوری اور حضرت سے اتنی شدید محبت پر تعجب کیا۔ حضرت نے جواب میں فرمایا:

أَنَاأَنْصَحُكَ‏مِنِّي بِالْوَدَادِمُكَاشَفَةً وَ أَنْتَ مِنَ الْأَعَادِي‏

یعنی میں تجھ کو نصیحت کرتا ہوں کہ مجھ سے کھلی ہوئی محبت کرے حالانکہ تو میرے دشمنوں سے ہے۔

نیز ابن حجر صواعق ص82 میں کہتے ہیں کہ حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا ؎

أُرِيدُ حَيَاتَهُ وَ يُرِيدُ قَتْلِي‏عَذِيرَكَ مِنْ خَلِيلِكَ مِنْ مُرَادٍ.

یعنی میں اس کی زندگی چاہتا ہوں اور یہ میرے قتل کا خواہاں ہے یہ ظاہری دوست قبیلہ مراد سے ہے۔

عبدالرحمن نے عرض کیا کہ شاید آپ نے میرا نام سنا ہے اور میرا نام آپ کو ناگوار ہوا ہے؟ فرمایا۔ ایسا نہیں بلکہ میں بغیر کسی شک اور شبے کے جانتا ہوں کہ تو میرا قاتل ہے اور عنقریب میری اس سفید ڈاڑھی کو میرے سر کے خون سے خضاب کرے گا اس نے عرض کیاکہ اگر ایسا ہے تو آپ مجھے قتل کرا دیجئے۔ اور اصحاب نے بھی یہی اسرار کیا، لیکن حضرت نے فرمایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ میرا دین گناہ سے پہلے قصاص لینے کی اجازت نہیں دیتا۔

میرا علم مجھ کو صاف صاف بتا رہا ہے کہ تو میرا قاتل ہے لیکن احکام دین کا تعلق ظاہری اعمال سے ہے چونکہ ابھی تجھ سے تیری ظاہری حالت کے خلاف کوئی عمل سرزد نہیں ہوا ہے۔ لہذا میں شرعا تجھ پر کوئی حکم جاری نہیں

۳۲۵

کرسکتا۔

انگلینڈ کے مسٹر کارلائل اپنی کتاب الابطال میں کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب(ع) اپنی عدالت کی وجہ سے قتل ہوۓ یعنی اگر عدل و انصاف سے کام نہ لیتے اور گناہ سے قبل ہی قصاص لے لیتے تو قطعا آپ کا جسم محفوظ رہتا۔ چنانچہ دنیا کے سلاطین کوجونہی کسی شخص سے بدظنی پیدا ہوتی تھی چاہے وہ ان کا بیٹا، بھائی، بیوی یا اور کوئی قریب ترین عزیز ہی کیوں نہ ہو فورا اس کو فنا کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔

لیکن علی علیہ السلام وہ یکتا جوان مرد تھے جنہوں نے شریعت و دیانت کے دائرے سے قدم باہر نہیں رکھا باوجودیکہ قطعی اور یقینی طور سے اپنے قاتل کی نشان دہی فرمائی لیکن چونکہ ظاہر بظار اس سے جرم کا ارتکاب نہیں ہوا تھا لہذا قصاص نہیں لیا بلکہ اس کے ساتھ اتنہائی محبت و عنایت کا برتاؤ کرتے رہے یہاں تک کہ اس نے اپنی شقاوت ظاہر کردی اور یہ ثابت کر دکھایا کہ حضرت جملہ امور کے باطنی حقائق اور ان کے نتائج سے بخوبی واقف تھے۔

یہ واقعہ اپنی جگہ پر اس بات کی ایک اور دلیل ہے کہ عالم غیب سوا پیغمبر(ص) یا امام کے جو خطاؤں سے معصوم ہوتا ہے اور کوئی شخص نہیں ہوسکتا ہے، اس لئے کی اگر معصوم نہ ہوتو حقائق امور سے آگاہی رکھنے کی بنا پر اس سے کافی فساد اور فتنہ انگیزی کا امکان ہے۔ البتہ نبی یا امام چونکہ مرتبہ عصمت پر فائز ہوتا ہے( جیسے امیرالمومنین علیہ السلام) لہذا اپنے قاتل کو اچھی طرح جاننے پہچانے کے بعد بھی شرع انور کے حدود سے تجاوز نہیں کرتا اور قبل گناہ قصاص نہیں لیتا۔

آیا اسرار و حالات غیب پر حضرت کے علم و اطلاع کے لئے یہ دلائل کافی نہیں ہیں؟ کہ ایک جوان سفر طے کر کے آیا ہو اور ا نتہائی مسرت و گرم جوشی کے ساتھ دست بوسی کر کے مدح ثنا میں مشغول ہو پھر بھی حضرت فرمائیں کہ تو میرا قاتل ہے؟

بخدااگر کچھ بھی انصاف ہوتو ماننا پڑے گا کہ حضرت علی علیہ السلام علم ظاہر و باطن کے حامل تھے۔

علی علیہ السلام کی اعلمیت و افضلیت

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب14 کے شروع میں در المنظم ابن طلحہ شافعی سے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ؎

لقدحزت‏علم الاوّلين و انّنى‏ظنين بعلم الآخرين كتوم‏

و كاشف اسرار الغيوب بأسرهاو عندى حديث حادث و قديم‏

و انّي لقيّوم على كلّ قيّم‏محيط بكلّ العالمين عليم

۳۲۶

یعنی در حقیقت میں علم اولین پر حاوی ہوں، اور یقینا مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ میں علم آخرین کو چھپاتا ہوں، میں تمام اسرار غیب کا نکشاف کرنے والا ہوں اور میرے پاس ہر جدید و قدیم کی داستان موجود ہے۔ اورقطعا میں تمام موجودات پرفرمانروا ہوں اورمیرا علم ساری کائنات کو گھیرے ہوۓ ہے۔

اس کے بعد حضرت(ع) نے فرمایا:

"لو شئت لاوقرت من‏ تفسير الفاتحة سبعين بعيرا قال النبى انا مدينه العلم و على بابها قال اللَّه تعالى‏ وَ أْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوابِها فمن اراد العلم فعليه بالباب"

یعنی اگر میں چاہوں تو یقینا صرف سورہ فاتحہ کی تفسیر سے ستر اونٹ بار کردوں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے فرمایا ہے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، نیز خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہو۔ پس جو شخص علم کا طلب گار ہے اس کو دروازے سے آںا چاہیئے۔

اگر امیرالمومنین(ع) کی خلافت بلافصل اور دوسروں پر حضرت کی فوقیت کے ثبوت میں کوئی اور دلیل نہ ہوتی(حالانکہ عقل و نقل، کتاب وسنت اور اجماع سے بے شمار دلیلیں قائم ہیں جیسا کہ ہم گذشتہ شبوں میں بعض کی طرف اشارہ کرچکے ہیں) تو صرف یہی دو دلیلیں کافی تھیں۔

ایک حضرت کی اعلمیت و افضلیت ہے کیوں کہ عقل ومنطق کے قاعدے سےکوئی جاہل کسی عالم پر تقدم کا حق نہیں رکھتا اور حضرت کی اعلمیت و افضلیت دوست دشمن سبھی کے نزدیک ظاہر و آشکار ہے، حتی کہ ابن ابی الحدید کتاب کے خطبہ اول کے ضمن میں کہتے ہیں:

"المفضول علی الافضل " یعنی ایک پست انسان کو بلند ترین شخصیت پر فوقیت دی گئی۔

یہ عبارت حضرت کی افضلیت کا کھلا ہوا اقرار و اعتراف ہے، لیکن پھر بھی اپنی عادت اور تعصب کی بنا پر کہتے ہیں کہ خدا نے چاہا کہ ہر حیثیت سے مفضول(یعنی بالکل حقیر و بے مایہ شخص) کو افضل واکمل کے اوپر مقدم رکھے۔

حالانکہ ابن ابی الحدید جیسے عالم انسان کے قلم سے ایسا بیان اچھا نہیں معلوم ہوتا جو صاحبان علم و فضل اور ارباب منطق کے سامنے قابل اعتراض ٹھہرے اور وہ ہر عیب گیری کریں کہ انہوں نے علم و عقل اور منطق کے قاعدوں کے برخلاف عقیدہ ظاہر کیا ہے اور یہ پروردگار عالم کی ذات اقدس پر کھلی ہوئی تہمت ہے، کیونکہ خداۓ علیم و حکیم ہرگز کوئی کام عقل ومنطق کے خلاف نہیں کرتا اور کسی پست و مفضول کو بلند وفاضل پر بھی مقدم نہیں کرتا نہ کہ اعلم و افضل اور بلندترین ہستی پر جو شخص معمولی سا فہم وشعور بھی رکھتا ہے اور علم و منطق سے کچھ بھی بہرہ اندوز ہوتا ہے وہ افضل پر فاضل کو ترجیح دینے پر تیار نہیں ہوسکتا چہ جاۓ کہ افضل پر مفضول کو۔

۳۲۷

یہ کیونکر ممکن ہے کہ خداۓ علیم و حکیم کسی مفضول پر مقدم کرے در آں حالیکہ آیت نمبر14 سورہ نمبر39(زمر) بطریق استفہام انکاری خود ہی ارشاد فرمارہا ہو کہ:

" قُلْ هَلْ‏ يَسْتَوِي‏ الَّذِينَ‏ يَعْلَمُونَ وَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ"

یعنی آیا صاحبان علم و دانش جاہلوں کے برابر ہوسکتے ہیں۔

نیز آیت نمبر36 سورہ نمبر10(یونس) میں فرماتا ہے:

"أَفَمَن‏ يَهْدِي‏ إِلَى الْحَقّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّايَهِدّى إِلَّآ أَن يُهْدَى‏ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ".

یعنی آیا وہ شخص جو لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے پیروی کا زیادہ حق دار ہے یا وہ شخص جو خود ہی اس وقت تک رستہ نہ پاۓ جب تک اس کی ہدایت نہ کی جاۓ۔

پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد امت میں اعلمیت اور افضلیت کے لحاظ سے تقدم کا حق صرف امیرالمومنین علی علیہ السلام کو حاصل تھا اور ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص4 میں اس بات کا صاف صاف اقرار کیا ہے وہ کہتے ہیں:

"فانّه أفضل‏ البشر بعد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و أحقّ بالخلافة من جميع المسلمين"

یعنی در حقیقت علی علیہ السلام حضرت رسول خدا صلعم کے بعد تمام بشر سے افضل اور امر خلافت کے لئے سارے مسلمانوں سے زیادہ اولی و احق تھے۔

اور دوسری جو پہلی دلیل سے مربوط ہے وہ رسول خدا حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے ارشادات ہیں بالخصوص جیسا کہ اس حدیث کے آخر میں فرماتے ہیں:

" من‏ أراد العلم‏ فليأت الباب."یعنی جو شخص علم کا طلبگار ہو اس کو دروازے ( یعنی علی ابن ابی طالب(ع)) کی طرف جانا چاہیئے۔

آپ کو خدا کا واسطہ انصاف سے بتائیے کہ آیا وہ شخص اطاعت کے لئے زیادہ سزاوار و اولی ہے جس کے در پر حاضر ہونے کے لئے پیغمبر(ص) حکم دے رہے ہوں یا وہ شخص جس کو لوگوں نے اپنی راۓ سے خلیفہ بنالیا ہو؟ اول تو یہ پیغمبر(ص) کا حکم ہے جس کی اطاعت واجب ہے، دوسرے آں حضرت تقدم اور فوقیت کا سبب بھی معین فرمارہے ہیں جو وہی عقلی سبب یعنی اعلمیت ہے۔

شیخ: اگراعلمیت اور افضلیت کی جہت سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو حق تقدم تھا تو رسول اللہ(ص) کو ان جناب کے لئے نص کردینا چاہیئے تھا تاکہ امت کو معلوم ہوجاۓ کہ آپ کی پیروی فرض ہے، حالانکہ ایسی کوئی نص ہماری نظر

۳۲۸

سے نہیں گزری۔

خیر طلب: آپ جیسے عالم و فاضل حضرات سے ایسے بیانات سن کر مجھ کو سخت افسوس ہوتا ہے کہ آخر آپ کے اوپر عادت کا اتنا شدید اثر پڑجانے کی کیا وجہ ہے کہ وہ آپ کے علم و دانش اور حق پسندی کو بالکل ہی مقہور و مغلوب کردے۔

جناب محترم! آج مجھ کو دس راتیں ہو رہی ہیں کہ برابر آپ کی معتبر کتابوں سے دلائل و براہین اور نصوص واردہ کو جلسے کے سامنے پیش کرتا رہا ہوں جس پر جملہ حاضرین مجلس اور رسائل واخبارات گواہ ہیں، لیکن آج آپ پھرنئے سر سے بحث کا آغاز کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی نص نہیں دیکھی، در آں حالیکہ آپ کی ساری معتبر کتابیں جلی اور خفی نصوص کی کثرت سے چھلک رہی ہیں۔

باوجوداس کے میں تمام باتوں سے چشم پوشی کرتے ہوۓ آپ سے ایک سوال کرتا ہوں کہ آیا امت رسول اللہ صلعم کے علم و سیرت کی محتاج ہے یا نہیں؟

شیخ: کھلی ہوئی بات ہے کہ تمام صحابہ اور امت کو قیامت تک رسول خدا کے علوم عالیہ اور سیرت متعالیہ کی ضرورت ہے۔

خیر طلب: خدا آپ کوجزاۓ خیر دے۔ اگر خلافت و امامت کے بارے میں سوا اس حدیث مدینہ کے آں حضرت(ص) سے اور کوئی بھی نص صریح وارد نہ ہوتی تو یہ اثبات مقصد کے لئے کافی تھی کیونکہ صریحی طور پر سے فرمایا ہے:

"‏ أنا مدينة العلم و علي بابها و من‏ أراد العلم‏ فليأت الباب."

یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ جو شخص چاہتا ہے وہ اس کے دروازے پر آے۔

بقول پیغمبر(ص) علی(ع) اعلم امت تھے

کونسی نص اس حدیث سے زیادہ صریح و واضح ہوسکتی ہے کہ ارشاد ہوتا ہے جو شخص میرےعلم سے بہرہ اندوز ہونا چاہتا ہے اس کو علی(ع) کے دروازے پر جانا چاہیئے کیونکہ وہ میرے باب علم ہیں؟ اس وقت صبح ہونے والی ہے، ساری رات میں نے اس موضوع پر پوری گرم جوشی کے ساتھ گفتگو کی اور آپ حضرات کا وقت لیا لیکن آخر میں آپ نے میرا سارا ولولہ سرد کردیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اسلاف کے مانند آپ بھی عادتا کسی قاعدے کی بات پر کان نہیں دھرنا چاہتے اسی وجہ سے میری تمام تقریروں کو ان سنی کر کے نص سے انکار کر رہے ہیں۔

کون سی علم کی نص سے بالاتر ہوگی؟ سارے اقوام و مذہب کے اندر کون سے عالم و دانا شخص نے یہ کہا ہے، کہ عالم اور اعلم کے ہوتے ہوۓ بھی لوگوں کو جاہل کی پیروی کرنا چاہیئے؟ اگر دنیا کے اندر کسی علم و منطق میں ایسی بات کہی گئی ہو تو میں آپ کا نظریہ تسلیم کر لوں گا۔

۳۲۹

اور اگر عالم کے کسی گوشے میں اس منطق کا وجود نہ ہو کہ عالم اور اعلم کی موجودگی میں جاہل کی اطاعت فرض ہے تو آپ کو میرا کلیہ ماننا ہوگا جو میرا ہی نہیں بلکہ تمام اربابِ علم و دانش کا کلیہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام چونکہ اعلم امت تھے، لہذا علم و عقل اور منطق کے حکم سے آپ کا اتباع فرض ہے۔

چنانچہ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ آپ کے اکابر علماء جیسے امام احمدحنبل نے مسند میں، ابوالموید خوارزمی نے مناقب میں حافظ ابونعیم اصفہانی نے نزول القرآن فی علی میں، خواجہ بزرگ حنفی نے ینابیع المودت میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں یہاں تک کہ ابن حجر مکی نے صواعق میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکرر فرماتے تھے۔

" اعلمامتی علی ابن ابی طالب")یعنی میری امت میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔

صحابہ میں سے ایک فرد بھی حضرت کے علمی مرتبہ کو نہیں پہنچتے، جیسا کہ ابن مغازلی شافعی مناقب میں، محمد بن طلحہ مطالب السئول میں، حموینی فرائد میں شیخ سلیمان حنفی ینابیع المودت باب14 میں، کلبی سے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن عباس(جرامت) نے کہا:

" علم النّبىّ صلى اللَّه عليه و آله و سلّم من علم اللَّه و علم علىّ من علم النّبىّ و علمى من علم علىّ و ما علمى و علم الصّحابة في علىّ الّا كقطرة بحر في سبعة ابحر".

یعنی رسول اللہ(ص) کا علم خدا کے علم سے، علی کا علم پیغمبر(ص) کے علم سے اور میرا علم علی(ع) کے علم سے ہے، اور میرا اور تمام صحابہ کاعلم علی(ع) کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے ساتوں سمندروں کے مقابلے میں ایک قطرہ۔

نہج البلاغہ خطبہ نمبر108 کے آخرمیں ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:

" نَحْنُ‏ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ وَ مَحَطُّ الرِّسَالَةِ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ وَ مَعَادِنُ الْعِلْمِ وَ يَنَابِيعُ الْحِكَمِ "

ینعی ہم ( ائمہ معصومین علیہم السلام) شجرۃ نبوت، رسالت کی منزل، فرشتوں کی جاۓ آمد و رفت، علم کے معدن اور حکمتوں کے چشمے ہیں۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص236 ( مطبوعہ مصر) میں اس خطبے کی شرح کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ یہ امر حضرت کے اندر قطعی طور سے ثابت اور ظاہر ہے کیونکہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے:

"‏ أنا مدينة العلم و علي بابها و من‏ أراد العلم‏ فليأت الباب."

یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں اور جو شخص شہر کا ارادہ کرے وہ دروازے کے اوپر آۓ۔

۳۳۰

نیز فرمایا: "اقضاکم علی(ع)" یعنی تم سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی(ع) ہیں۔

فیصلہ اور قضا ایک ایسا کام ہے جس کے لئے بہت سے علوم ضروری ہیں، منجملہ ان کے۔

"و بالجملة فحاله‏ في‏ العلم‏ حالة رفيعة جدّا لم يلحقه أحد فيها و لا قاربه، و حقّ له أن يصف نفسه بأنّه معادن العلم، و ينابيع الحكم، فلا أحد أحقّ به منها بعد رسول اللّه- صلى اللّه عليه و آله-".

یعنی آپ کی علمی حیثیت اتنی زیادہ بلند ہے کہ کوئی شخص اس میں آپ کے برابری نہیں کرسکا، بلکہ کوئی شخص آپ کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ اور آپ کو اپنی یہ تعریف و توصیف کرنے کا حق حاصل ہے کہ ہم علم کے معدن اور حکمت کے چشمے ہیں پس رسول اللہ(ص) کے بعد کوئی ایک فرد بھی ان باتوں میں سے زیادہ حق نہیں رکھتا۔ انتہی۔

ابن عبدالبر نے استیعاب جلد سیم ص38 میں، محمد بن طلحہ نے مطالب السئول ص23 میں اور قاضی ایجی نے مواقف ص276 میں روایت کی ہے کہ رسول خدا صلعم نے فرمایا:"اقضاکم علی "

چنانچہ سیوطی نے تاریخ الخلفاء ص115 میں، حافظ ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص65 میں، محمد جزری نے اسنی المطالب ص14 میں، محمد بن سعد نے طبقات ص459 میں، ابن کثیر نے تاریخ کبیر جلد ہفتم ص359 میں ابن عبدالبر نے استیعاب جلد چہارم ص38 میں خلیفہ عمر ابن خطاب سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے علی اقضافا یعنی علی(ع) امر قضاوت میں( جس کا مطلب ہے جملہ علوم و فنون کی مہارت میں) ہم سب سے بہتر اور مقدم ہیں۔

ینابیع المودت ص69 میں نقل کرتے ہیں کہ صاحب در المنظم ابن طلحہ کہتے ہیں:

" اعلم ان جمیع اسرار الکتب السماویةفی القرآن وجمیع مافی القرآن فی الفاتحةوجمیع ما فی الفاتحةفی البسملةوجمیع ما فی البسلمةفی باءالبسملةوجمیع مافی باءالبسلمةفی النقطةالتی هی تحت الباءقال الامام علی کرم الله‏ وجهه‏ اناالنقطةالتی تحت الباء"

یعنی جان لو کہ حقیقتا تمام آسمانی کتابوں کے رموز و اسرار قرآن کے اندر ہیں، اور جو کچھ قرآن میں ہے وہ سب سورہ فاتحہ کے اندر ہے اور جو کچھ سورہ فاتحہ میں ہے وہ سببسم اللہ الرحمن الرحیم کے اندر ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ سب باۓ بسم اللہ کے اندر ہے اور جو کچھ باۓ بسماللہ میں ہے وہ سب اس نقطہ کے اندر سمٹا ہوا ہے جو باۓ بسم اللہ کے نیچے ہے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ میں وہ نقطہ ہوں جو باۓ بسم اللہ کے نیچے ہے۔

نیز سلیمان بلخی ینابیع المودت میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

۳۳۱

" أخذ بيدي الامام علي ليلة فخرج بي الى البقيع و قال: اقرأ يا ابن عباس فقرأت: بسم اللّه الرحمن الرحيم، فتكلم في أسرار الباء الى بزوغ الفجر."

یعنی ایک مرتبہ چاندنی رات میں عشا کے بعد حضرت علی علیہ السلام میرا ہاتھ پکڑ کے قبرستان بقیع کی طرف لے گئے اور فرمایا پڑھو اے عبداللہ، پس میں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کی اور آپ نے طلوع صبح تک مجھ سے باۓ بسم اللہ کے رموز و اسرار بیان فرماۓ۔

اس پر فریقین کا اتفاق ہے کہ اسرار غیب کےعالم اور علوم انبیائ(ع) کے وارث کی حیثیت سے امیرالمومنین علیہ الصلوۃ والسلام تمام صحابہ کے درمیان یکتا اور فرد تھے۔

چنانچہ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں در المنظم ابن طلحہ حلبی سے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے۔

" سلونی عن اسرار الغیوب فانی وارث علوم الانبیاء والمرسلین"

مجھ سے غیبی اسرار دریافت کرو کیوںکہ یقینا میں انبیاء و مرسلین کے علوم کا وارث ہوں۔

نیز امام احمد بن حنبل نے مسند میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور سلیمان بلخی نے ینابیع المودت میں نقل کیا ہے کہ حضرت بالاۓ منبر فرماتے تھے۔

"سلوني قبل أن تفقدوني، اسألوني عن‏ طرق‏ السموات‏، فإنّي أعرف بها مني بطرق الأرض"

یعنی پوچھ لو مجھ سے قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ، مجھ سے آسمانوں کی راہوں کے بارے میں دریافت کرو۔ کیونکہ یقینا میں زمین کی راہوں سے زیادہ ان سے واقف ہوں۔

حضرت(ع) کا یہ دعوی اس زمانے میں جب کہ آج کے مانند آسمانی سیر وسلوک کے وسائل مہیا نہیں تھے۔ غیبی حالات کی آگاہی پر ایک بہت بڑی دلیل ہے، چنانچہ لوگ بارہا اس قسم کےسوالات کرتے تھے اور حضرت آسمانوں اور فضائی کروں کے متعلق خبریں دیتے تھے۔

اس کے علاوہ جس زمانہ میں بطلیموس مصری کے علم ہیئت کا چرچا تھا لوگوں کو آج کی ہیئت جدید کے مطابق جوابات دیتا خود ایک بڑا معجزہ ہے۔

۳۳۲

ہیئت جدید کے مطابق فضائی کرات کی خبر

چنانچہ محقق و محدث شیخ علی ابن ابراہیم قمی قدس سرہ نے جو تیسری صدی ہجری میں ریاست علمی پر فائز تھے تفسیر سورہ والصافات میں، فاضل بغوی شیخ فخر الدین ابن طریح نجفی نے جن کو زہد و تقوی میں شہرت حاصل تھی اپنی مشہور و معروف کتاب لغت مجمع البحرین جو تقریبا تین سو سال قبل تالیف ہوئی ہے لغت کوکب کے ذیل اور علامہ ملا محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ نے بحارالانوار کی جلد 14 " السماء والعالم" میں امیرالمومنین علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا:

"هَذِهِ‏ النُّجُومُ‏ الَّتِي‏ فِي‏ السَّمَاءِ مَدَائِنُ مِثْلُ الْمَدَائِنِ الَّتِي فِي الْأَرْضِ "

یعنی یہ ستارے جو آسمان میں ہیں ان بھی شہر آباد ہیں جس طرح زمین میں شہر موجود ہیں۔

خدا کے لئے انصاف کیجئے کہ ایک ایسے دور میں جب کہ دنیا کے اندر ہیئت جدید کا کوئی ذکر نہیں تھا ہیئت بطلیموسی بھی جس پر اس زمانہ کے صاحبان علم الافلاک کا دارو مدار تھا یہ بتاتی تھی کہ کواکب اور ستارے صرف اجرام نور اور آسمان کی میخیں ہیں اور آج کی رصدگاہیں اور دوربینیں بھی موجود نہیں تھیں جو کروں اور ستاروں کے حالات بتاتیں۔ اگر کوئی فرد بشر آسمانی کیفیات اورفضائی کرات کے متعلق کوئی خبر دے اور وہ بھی اس عل ہیئت کے مطابق جو ایک ہزار برس کے بعد علماء کے نزدیک ثابت ہوتو کیا آپ ایسے خبر دینے والے کو غیب کا عالم نہیں سمجھیں گے اور اس خبر کو اخبار غیب میں شمار نہیں کریں گے؟

اگر آپ اس تعلیم کے اخبار کے لئے جو آپ کے اکابر علماء کی کتابوں میں ائمہ اطہار علیہم السلام سے بکثرت مروی ہیں یہ کہنے کی کوشش کریں کہ یہ علم غیب نہیں ہے تو یہ اتنہائی بے لطفی کی بات ہوگی اور اس سے آپ کا پورا تعصب ظاہر ہوگا کیونکہ خبر خود ہی اس امر عظیم پر دلالت کرتی ہے اگر ملکوت اعلی اور کرات جویہ کے حالات بیان کئے جائیں جن کی کیفیت عام طور پر نگاہوں سے اوجھل تھی( یہاں تک کہ آج بھی جب کہ بہت طاقتیں دوربینیں موجود ہیں بغیر خاص حالات کے اس کو دیکھنا ممکن نہیں ہے) اور علوم جدیدہ بھی تیرہ سوسال بعد اس انکشاف کی حقیقت و نوعیت کی تصدیق کر رہے ہوں تو ماننا پڑے گا کہ یہ عالم غیب کیخبر تھی اور اعتراف کرنا پڑے گا کہ امام المسلمین امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام غیب کے عالم تھے جو بغیر کشف و انکشاف کے ان اسباب و وسائل کے جو اس زمانے میں ایجاد ہوۓ ہیں اپنی معمولی نظر سے عالم الملکوت کے اسرار کا جائزہ لے لیتے تھے۔

قطعی طور پر ایک نقطہ رس انسان ہزار سال کی یہ خبریں سنتے ہی فیصلہ کردے گا کہ خبر دینے والا عالم غیب تھا۔

۳۳۳

فرانسیسی مستشرق موسیوژئن سے گفتگو

موقع کے لحاظ سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرات کی اجازت سے ایک مطلب کی طرف اشارہ کردوں جو اسی سفر میں میرے سامنے آیا جس وقت ہم عراق عرب کے سدحدی شہر بصرہ سے وارملا جہاز میں سوار ہوۓ تو ہم درجہ اول کے جس کیبن میں تھے اس کے اندر سونے کی تین سیٹیں تھیں، اتفاق سے ایک فرانسیسی مستشرق موسیوژوئن بھی اسی درجہ میں تھے جو بڑے شریف و دانش مند اور فاضل و مہذب انسان تھے، باوجویکہ یہ فرانس کے رہنے والے تھے لیکن عربی اورفارسی بہت اچھی جانتے تھے لہذا ہم دونوں آپس میں کافی مانوس ہوگئے اور روزانہ علمی اور دینی گفتگو میں مصروف رہتے تھے۔

البتہ میری پوری کوشش تھی کہ اپنا فرض انجام دیتے ہوۓ ان بزرگوار کو مقدس دین اسلام اور مذہب حقہ، جعفری کے حقائق سے روشناس کراؤں۔

ایک روز دوران گفتگو میں انہوں نے کہا کہ مجھ کو اس کا اعتراف ہے کہ دین اسلام کے اندر کچھ ایسے خصوصیات ہیں جو دوسرے مذاہب میں نہیں ہیں، اس لئے کہ اسلام نے ہر مقام پر اور ہر کام میں اعتدال کو اپنا دستورالعمل بنایا ہے لیکن ساتھ ہی یہ نہ بھولئے کہ علمی انکشافات میں یورپ والے جو حضرت مسیح کے پاک دین کی پیروی کرتے ہیں سب سے آگے ہیں اور انہوں نے اپنی ترقی سے دنیا بھر کو ممنون احسان بنایا ہے۔

خیر طلب: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہل مغرب اور دوسروں نے بھی علمی انکشافات میں سعی بلیغ کی ہے، لیکن دیکھنا یہ چاہیئے کہ ان کے علمی تمدن کا سرچشمہ کہاں ہے اور علوم وفنون میں ان کے استاد و معلم کو ن سے لوگ تھے۔ چونکہ آپ خود ایک عالم و فاضل انسان ہیں اور ہر چیز کی حقیقت پر غور کرچکے ہیں لہذا یقینا آپ تصدیق کریں گے کہ مغرب والوں کے علوم و فنون کا سرچشمہ اسلام اور مسلمان تھے نہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے تعلیمات۔

کیونکہ تاریخی شہادت کے مطابق اہل مغرب آٹھویں صدی عیسوی تک وحشت و بربریت میں غرق تھے در آنحالیکہ اسی دور میں مسلمان علم و ہنر کے علمبردار تھے چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے ارنسٹ رنان فرانسیسی، انگلینڈ کے کارلائل اور جرمنی کے نور مال اس حقیقت کے معترف ہیں۔ اسی سفر میں جب میں زیارت کاظمین سے مشرف ہوا تھا تو ایک رات نواب محمد حسین خان صاحب قزلباش کا مہمان ہوا جو محترم قزلباش خاندان سے اور بہت شریف انسان ہیں برسوں سے کربلا اور کاظمین میں سکونت پذیر ہیں اور فی الحال سارے عراق عرب میںمعاون سفر ہیں۔ اتفاق سے تمدن اسلام کے بارے میں یورپ والوں کے اقرار و اعتراف کا ذکر آگیا تو موصوف نے فرمایا کہ ابھی بھی ایک فرانسیسی عالم کی کتاب کا اردو زبان ترجمہ ہوا ہے جس کی ایک جلد میرے پاس بھی آئی ہے۔ کتاب بہت عمدہ ہے۔ اور

۳۳۴

ہندوستان کے فاضل جلیل مولوی سید علی بلگرامی نے ترجمہ کیا ہے۔

اس کتاب کا نام" تمدن العرب" ہے اور بہت ضخیم مفصل اور استدلالی تالیف ہے۔ اس کے مولف طب اور حقوق و اقتصادیات کے ڈاکٹر اور یورپ کے مشہور عالم" گوسٹادلوبون" ہیں جنہوں نےتقریبا چار سو عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ اہل مغرب نے جس قدر علم و تمدن صنعتیں، حرفتیں، یہاں تک کہ تہذیب و معاشرت کا طریقہ، ملکی، مملکتی، فوجی اور صوبائی اداروں کی تشکیل اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے اصول حاصل کیئے ہیں وہ سب اہلِ عرب کے اعلی تعلیمات کا نتیجہ ہیں۔ ( بدیہی چیز ہے کہ یورپ والوں کے محاورے میں جیسا کہ اس عالم نے اپنی کتاب کا نام " تمدن العرب"رکھا ہے عرب سےمراد مسلمان عرب ہیں ورنہ اعراب قبل اسلام تو ہر علم و ادب سے عاری تھے)

موسیوژئن: ہاں وہ کتاب خود فاضل مولف ڈاکٹر گوسٹالوبون نے، پیرس میں مجھ کو دی تھی اور سچی بات یہ ہے کہ بہت محنت سے لکھی ہے اور خوب لکھی ہے۔

خیر طلب: نواب صاحب نے وہ کتاب مجھ کو عنایت فرمادی لیکن چونکہ میں اردو زبان نہیں جانتا تھا( اب ہندوستان) آنے کے بعد ضرورت رفع کرنے کے لئے کچھ سیکھ لی ہے) لہذا موصوف نے اس مبارک شہر میں میرے قیام کی مدت یعنی صرف دس روز کے اندر خصوصیت کے ساتھ دسویں باب کی دوسری فصل( مغرب میں تمدن اسلام کی تاثیر) کا پورا ترجمہ کر کے مجھ کو عطا فرمایا۔ میں صرف اس محبت سے بہت ممنون(1) ہوا۔ میں نے وہ اوراق کھول کر اپنے ہمسفر فرانسیسی مستشرق صاحب کے سامنے پڑھے اور کہا ملاحظہ فرمایئے یہ آپ

کے ہموطن فرانسیسی عالم اور ڈاکٹر جن کے مرتبے کی بلندی آپ خود تسلیم کرتے ہیں اس فصل میں مذکورہ بالا حقیقت کا اقرار کرتے ہوۓ کیا فرماتے ہیں؟

یورپ میں تمدن اسلام کی تاثیر پر گوسٹاولوبوں کا بیان

تمدن اسلام نے جتنا اثر مشرق کے اوپر ڈالا اسی قدر مغرب بھی اس سے متاثر ہوا اور اسی ذریعہ سے یورپ تمدن میں داخل ہوا۔ اس تمدن نے مغرب کو جتنےاثرات بخشے ہیں اگر ہم ان کی جانچ کرنا چاہیں تو ہم کو دیکھنا ہوگا کہ مذکورہ تمدن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ اب مولوی سید محمد تقی فخر داعی گیلانی نے جو ایک ایرانی عالم ہیں تہران میں اس کتاب کا اردو سے فارسی میں ترجمہ کر کے چھپوا دیا ہے۔ حق یہ ہے کہ موصوف نے اسلامی علوم و معارف کی ایک بڑی خدمت کی ہے۔ کا شکر ہمارے علمائ اور اہل قلم ان سے سبق حاصل کرتے اور بجاۓ ناولوں اور مصر و یورپ وغیرہ کی اخلاق و عقائد کو بگاڑنے والی کابوں کا ترجمہکرنے کے اس قسم کے مفید و کار آمد ترجمے کرتے۔ 12۔

اب میں نے تہران میں جناب فخرداعی کے ترجمے سے اس کی مطابقت بھی کر لی ہے۔12۔

۳۳۵

کے داخل ہونے سے پہلے یورپ کا ماحول اور یورپ والوں کے حالاتِ زندگی کیا تھے۔ نویں اور دسویں عیسوی میں جس وقت تمدن اسلام مملکت اسپین میں اپنی ترقی اور عروج کی آخری منزل پر پہنچا ہوا تھا سارے یورپ میں سوا ان کلیساؤں کے جن پر ایسے جاہل راہبوں کا تصرف تھا جو اپنے کو عالم سمجھتے تھے اور لوگوں کو اپنے مذہبی فضولیات کا عادی بنا رہے تھے، کوئی مہذب خطہ یا علمی مرکز موجود نہیں تھا۔

بارھویں صدی ہجری سے جب کہ بعض حساس اشخاص علم و فہم حاصل کرنے کے درپے تھے، ان کے پاس سوا اسلام اور مسلمانوں کے جن کو یہ ہر حیثیت سے استاد اور سب سے بلند و بہتر سمجھتے تھے اور کوئی علمی ادارہ نہیں تھا۔ چنانچہ یہ لوگ اندلس کے مدرسوں میں جاکر مسلمانوں کےتعلیمات سے فیض یاب ہوتے تھے۔ تمام اہل علم کو مسلمانوں کا ممنون احسان ہونا چاہیئے کیونکہ انہوں نے علم و فن کی بہت بڑی خدمت کی ہے اور سارے عالم میں اس کو رواج دیا ہے۔ عرب کے مسلمانوں کا ہم اہل مغرب کی ترقی یافتہ زندگی پر بہت بڑا حق ہے اور تمدن مغرب کو در اصل تمدن عرب کہنا چاہیئے۔ انتہی۔

یہ ایک مختصر سا خلاصہ تھا اس بیان کا جو آپ کے مشہور فرانسیسی عالم نے درج کتاب کیا ہے۔ جناب عالی بھی چونکہ دوسرے تمام اہل مغرب کے مانند یورپ کے موجود علم و صنعت اور انکشافات پر فخر و مباہات فرمارہے ہیں لہذا بہتر ہوگا کہ یورپ کے پچھلے زمانوں پر ایک نظر ڈالیں اور ساتھ ہی قبل اسلام کے جزیرۃ العرب کی تاریخ اور حالات کاجائزہ لیں تاکہ حقیقت بے نقاب ہوسکے۔

جس زمانہ میں آپ کا یورپ حتی کہ پیرس بھی( جو آج علم وتمدن کا گہوارہ ہے) وحشت و بربریت میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسوقت صرف جزیرۃ عرب سے اسلام اور مسلمین کے قائد اعظم خاتم الانبیائ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی میں عرب مسلمانوں کے توسط سےعلم وہنر اور تمدن کے سرچشمے پھوٹے اور ساری دنیا میں پھیلے۔

میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ماضی کے دور سے ایک پردہ ہٹاؤں تاکہ آپ کو مسلمان عربوں اور یورپ والوں کے تمدن سے روشناس کرسکوں اور حقیقت کماحقہ ظاہر ہوجاۓ۔

ہارون کی طرف سے شارلِمان کو مسلمانوں کی بنائی ہوئی گھڑی کا تحفہ

آپ خود جانتے ہیں کہ ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں فرانس کے شہنشاہ امپراطور شارلمان کے خدمات جلیلہ سے یورپ نے ترقی کی منزلیں طے کیں لیکن اس کے باوجود اسی زمانہ میں جب اس نے بغداد کے اسلامی دربار خلافت سے اپنے روابط مضبوط کئے اور تحف و ہدایا روانہ کئے تو اس کے عوض میں ہارون الرشید عباسی نے جو تحفے اور ہدیے شارلمان کو بھیجے ان میں جواہرات، لباسہاۓ فاخرہ یا مسلمانان عرب کے بنے ہوۓ کپڑوں اور ایک بڑے ہاتھی کے علاوہ جس

۳۳۶

کو یورپ والوں نے ابھی تک نہیں دیکھا بھی نہیں تھا، ایک بہت بڑی گھڑی بھی جس کو فرانس والوں نے اپنے شاہی محل کے اوپر نصب کیا۔ یہ گھڑی مسلمان عربوں کی ہنرمندی کا نمونہ تھی۔ جس میں چوبیس گھنٹوں کی تقسیم اس طرح کی گئی تھی کی ایک بڑے طلائی پیالے ہیں دھات کی بنی ہوئی گولیوں کے گرنے سے آواز پیدا ہوتی تھی۔

شارلمان کے دربار کے فرانسیسی صاحبان علم وہنر بلکہ تمام باشندگان پیرس ( جو آج کے متمدن یورپ کا پایہ تخت ہے) مل کر بھی اس عظیم صعنت کی حقیقت اور نوعیت کو نہیں سمجھ سکے، جیسا کہ گوسٹاولوبون نے تمدن العرب میں اور دوسرے علماء و مصنفین نے اپنے تالیفات میں درج کیا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یورپ کے تمدن کا مسلمان عربوں کے تمدن سے اور بہتر موازنہ کریں تو شارلمان کے زمانہ کیتاریخ اور مسلمانوں کی بنائی ہوئی گھڑی کا قضیہ ملاحظہ فرمایئے تاکہ حقائق روشن ہوجائیں لکھتے ہیں کہ جب قصر شاہی کے اوپر ایک بڑے برج میں وہ گھڑی نصب کر کے اس کے اوپر سے دھکن ہٹایا گیا اور پیرس کے لوگوں نے اس کی سوئیاں چلتی ہوئی دیکھیں تو لکڑیاں، گزر اور طرح طرح کے حربے لے کر عمارت کے اوپر حملہ کردیا۔ جب شارلمان کو اطلاع دی گئی کہ رعایا نے انتہائی جوش کے ساتھ دھاوابول دیا ہے تو اسنے محل کے دروازے بند کرادئے اور درباری علماء و وزرائ کو تحقیق حال کے لئے بھیجا۔ کافی بات چیت کے بعد پتہ چلا کہ ان کو سطنت سے کوئی مخالفت نہیں ہے بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ برسوں سے پادری لوگ ہم کو بتاتے آۓ ہیں کہ انسانیت کے بڑے دشمن شیطان دور رہنا۔ ہم برابر اس عظیم دشمن کی تاک میں رہتے تھے کہ کہاں اس پر قابو حاصل ہو اور ہم اس کو ختم کر کے اس کے شر سے چھٹکارا پائیں، یہاں تک کہ یہ برج بتایا گیا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ شیطان اس کے اندر داخل ہو کر ہم کو بہکانے کے لئے عجیب عجیب حرکتیں کر رہا ہے، لہذا ہم نے اس برج کو مسمار کرنے اور عالم بشریت کے سب سے بڑے دشمن کو قتل کرنے کے لئے حملہ کیا ہے۔ مجبورا بزرگان قوم کے چھوٹے چھوٹے جتھوں کو برج کے اوپر لے جاکر گھڑی کی ساخت اور مسلمانوں کی ہنرمندی دکھائی گئی اور انہوں نے عوام کےسامنے جاکر اس کی تشریح کی تب وہ لوگ عذر ومعذرت کر کے وہاں سے رخصت ہوۓ پس آپ یہ نہ فرمائیے کہ مسلمان یورپ والوں سے پیچھے تھے۔ یہ لوگ پیچھے تھے نہیں بلکہ اس وقت سے پیچھے رہ گئے ہین جب سے اہلِ مغرب بیدار ہوۓ اور اندلس قرطبہ، اشبیلہ، اسکندریہ اور بغداد وغیرہ میں مسلمانوں کی علم و ہنر کی درس گاہوں سے علوم اور ضایع و بدایع کی تعلیم حاصل کر کے سعی و عمل کے درپے ہوۓ، یہاں تک کہ عروج و ترقی کی چوٹی پر پہنچ گئے اور مسلمان اس طرف مغرور و کاہل اور تن پرست ہوکر بے حسی میں مبتلا ہوگئے لہذا پیچھے رہ گئے اور اس حالت کو پہنچ گئے جو آج ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ ایک دن ہمارے پاس کیا کچھ نہیں تھا لیکن آج ہم ہر چیز کے محتاج ہوچکے ہیں۔ ہمارے حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے ؎

۳۳۷

سالہا وں طلب جام جم آزما می کردآنچہ خود داشت زبیگانہ تمنا می کرد

ان باتوں سے قطع نظر آپ کی علمی اور صنعتی ترقیوں کا تعلق حضرت عیسی علیہ السلام سے نہیں ہے بلکہ یہ سب ( آپ کے عقیدے کے مطابق) حضرت مسیح کو سولی دیئے جانے کے ایک ہزار سال بعد اہل مغرب کی سعی و کوشش کا نتیجہ ہے اور وہ بھی مسلمان عربوں سے فیوض و برکات حاصل کرنے کے بعد غرضیکہ اس موضوع پر کافی دیر تک گفتگو رہی یہاں تک کہ ہم اس منزل پر پہنچے کہ میں نے کہا مسلمانوں کے پیشواؤں اور دنیا کے تمام ارباب علم و دانش کے درمیان فرق یہ ہے کہ یہ لوگ اسباب وآلات کے ذریعہ انکشافات کرتے ہیں اور وہ حضرات ان کے محتاج نہیں تھے۔

چنانچہ میں نے اپنے مقصد کے ثبوت میں آئمہ طاہرین علیہم الصلوۃ والسلام کے چند ارشادات جراثیم وغیرہ کےبارے میں پیش کئے کہ جس زمانے میں خردبینوں اور دور بینوں کا دنیامیں کہیں وجود نہیں تھا( یعنی آج سے تیرہ سو برس پہلے) اسلام کے بزرگ پیشوا بھی ہمارے پیغمبر(ص) کی عترت میں سے آئمہ معصومین(ع) بغیر ظاہری وسائل اور آلات کے اپنی معمولی نظر سے جراثیم کو دیکھ کر ہمیں بتاچکے ہیں اور ان سے پرہیز کرنے کی ہدایت فرماچکے ہیں آپ لوگ آج اس چیز پرفخر ومباہات کرتے ہیں کہ طاقت ور دوربینوں اور رصدگاہوں کے ذریعے فضائی کرات، ہوائی موجودات اور کواکب وسیارات ک مخلوقات سےکسی قدر واقفیت حاصل کر لی ہے۔ لیکن تیرہ سو برس قبل مسلمانوں کے دوسرے پیشوا اور اہل اسلام کے معلم ثانی یعنی امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام بغیر بڑی بڑی دوربینوں رصدگاہوں اور آلات و اسباب کے ہیئت جدید کے مطابق آسمانی کروں کی خبر دے چکے ہیں، اس کے بعد میں نے ان کے سامنے حدیث پیش کی جس کا ابھی آپ کے سامنے حوالہ دے چکا ہوں کہ حضرت نے فرمایا:

"‏هَذِهِ‏ النُّجُومُ‏ الَّتِي‏ فِي‏ السَّمَاءِ مَدَائِنُ مِثْلُ الْمَدَائِنِ الَّتِي فِي الْأَرْضِ "

یعنی آسمان کے ان ستاروں میں بھی شہر شہر آباد ہیں جس طرح زمین میں ہیں۔

موسیوژئن: ( قدرے سکوت اورغور و فکر کے بعد) حدیث کو یاد کر کے کہا کہ میں چاہتا ہوں جن کتابوں میں یہ حدیث درج ہوئی ہے ان کے نام مجھ کو لکھوا دیجئے، چنانچہ میں نے لکھوا دیئے اس کے بعد موصوف نے کہا کہ لندن اور پیرس میں دنیا کے عظیم ترین اور خاص کتب خانے موجود ہیں جن میں ہرکتاب کے قلمی نسخے بھی موجود ہیں، میں پہلے لندن جاؤں گا اس کے بعد پیرس کے کتب خانوں میں ان کتابوں کا گہرا مطالعہ کروں گا اور علماء و مستشرقین سے اس موضوع پر بحث کروں گا۔ اگر دیکھوں گا جو آپ نے حوالہ دیا ہے۔ ان کی تالیف رصدگاہوں اور آسمانی دوربینوں کی ایجاد سے پہلے ہوئی ہے تو میں آپ سے عہد کرتا ہوں اور عیسی علیہ السلام اور محمد صلعم کے خدا کو اپنےاور آپ کے درمیان گواہ قرار دیتاہوں کہ تحقیق اور پورا اطمینان کرنے کے بعد مسلمان ہوجاؤں گا۔ اس لئے کہ بغیر اسباب وسائل کے ایک ہزار سال قبل ایسے خبر دینے والا انسان ہرگز یہ دنیاوی نظر نہیں رکھتا تھا بلکہ یقینا ملکوتی

۳۳۸

چشم و نگاہ کا مالک اور الہی قوت کا حامل تھا۔ پسایسے پیشوا کی موجودگی میں دین اسلام بھی قطعا آسمانی دین ہوگا کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) کا جانشین طاقت بشری سے مافوق ایسی قوت اور علم کا مالک تھا۔ انتہی۔(1)

محترم حضرات! جس مقام پر اجنبی اور غیر اشخاص بغیر جذبہ محبت و عداوت کے صرف عقلی قاعدے اور علمی اصول کی بنیاد پر ایسا بے لاگ فیصلہ کریں وہاں ہم کو اور آپ کو بدرجہ اولی اس طریقے پر کاربند ہونا چاہیئے۔ چنانچہ انہیں دونوں قاعدوں کے روسے جس کو پیغمبری کے لائق اور شرائط جامع پائیں اس کی پیروی کریں، نیز اسی طرح مقام خلافت اور جانشینی رسول کا چشم انصاف اور نگاہ بصیرت سے جائزہ لیں اور غرض رانی و تعصب سے الگ ہو کر عادت کا لباس اتاردیں تو بخوبی سمجھ لیں گے کہ رسول خدا(ص) کے بعد صحابہ میں سے کسی کو بھی اس کی لیاقت حاصل نہ تھیکہ امیرالمومنین سے زیادہ زہد و اعلم اور افضل ہو اس کے علاوہ نسب میں بھی بالاتر ہو۔

جملہ علوم حضرت علی(ع) تک منتہی ہوتے ہیں

اس لئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد حضرت جملہ فضائل وکمالات کے جامع تھے، علوم اولین و آخرین آپ ک قابو میں تھے اور حکمت، کلام، تفسیر، قرائت، صرف، نحو، فقہ، ہندسہ، طب، نجوم، عدد، جفر، حساب، شعر، خطبہ، موعظہ، بدیع، فصاحب، لغت اور منطق الطیر، غرضیکہ جتنے علوم و فنون خلق میں متعارف ہیں وہ سب کے سب آپ کی ذات تک منتہی ہوتے ہیں۔ ان تمام علوم کے اندر یا تو آپ موجد تھے یا علم کی تشریح فرمائی ہے اور ہر علم میں ایسا خاص کلام ارشاد فرمایا ہے کہ اس علم و فن کے ماہرین نے اس کو مصدر قرار دیا ہے اور بعد کو اس موضوع پر جس قدر گفتگو کی ہے وہ سب حضرت کے کلام کی شرح تھی۔

مثلا علم نحو میں ابوالاسود دوئلی سے فرمایا کہ کلمہ اسم وفعل اور حرف کا نام ہے۔ نیز باب ان، باب اضافہ، باب امالہ، باب نعت اور لطف کا قاعدہ معین فرمایا اور رفع، نصب، جزم پر اعراب کی تقسیم فرمائی۔ یہ وہ بنیادی ہدایت ہے جو عبارتوں میں غلطی سے محفوظ رہنے کے لئے امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف سے صادر ہوئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ سفر سے واپسی کے بعد مجھ کو موصوف کا ایک خط ملا جس میں انہوں نے اس حدیث کی حقیقت اور اس کی غیر معمولی حیثیت کیتصدیق کرنے کے بعد اظہار اسلام، اقرار شہادتین اور حقیقت اسلام کا اعتراف کیا تھا۔

۳۳۹

علی(ع) کے علمی مدارج کے لئے ابن ابی الحدید کا اعتراف

اگر آپ دیباچہ کتاب شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی کےابتدائی صفحات کو غور سے پڑھئے تو انداہ ہوگا کہ اس اںصاف پسند عالم نے کیونکر ان تمام مطالب کی تصدیق اور حضرت کے علمی مرتبہ کی مدح و ستائش کی ہے ص6 میں صاف صاف کہتے ہیں۔

"و ما أقول في‏ رجل‏ تعزى‏ إليه‏ كل فضيلة، و تنتهي إليه كل فرقة، و تتجاذبه كل طائفة، فهو رئيس الفضائل و ينبوعها، و أبو عذرها، و سابق مضمارها، و مجلّي حلبتها، كل من بزغ فيها بعده فمنه اخذه، و له اقتفى، و على مثاله افتدى"

یعنی میں انسان کے بارے میں کیا کہوں جس کی طرف تمام فضیلتیں منسوب ہیں جو ہر فرقے کے لئے آخری منزل ہے اور جس سے ہر جماعت وابستہ ہونا چاہتی ہے پس وہ فضیلتوں کا راس و رئیس، ان کا سرچشمہ، ان کے حجج و براہین کا مرکز ان کی دوڑ میں سب سے آگے اور ان کے نتائج کو رونق دینے والا ہے۔ اس کے بعد جو شخص بھی ان میں نمایاں ہوا اس نے اسی سے فیض حاصل کیا، اسی کی پیروی کی، اور اسی کے نمونہ عمل پر عامل ہوا۔ انہوں نے فقہاۓ اربعہ ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد حنبلکے علم کو حضرت ہے سے وابستہ بتایا ہے، چنانچہ کہتے ہیں کہ فقہاۓ صحابہ نے فقہ علی(ع) سے سیکھی۔ چونکہ آج کی رات ہماری نشست کافی طور پکڑ چکی ہے لہذا اب اس سے زیادہ کا موقع نہیں ہے کہ آپ کے اس بزرگ عالم کی گفتگو اور بیانات نقل کر کے آپ کا مزید وقت لوں۔

ضرورت اس کی ہے کہ آپ مذکورہ شرح نہج البلاغہ کا دیباچہ ملاحظہ فرمایئے تاکہ اپنے اس مورخ اور منصف عالم کی شہادت تصدیق اور یقین و اعتراف کو دیکھ کر مبہوت ہوجایئے۔ جو کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کا معاملہ بہت عجیب ہے کیونکہ ساری زندگی میں کبھی آپ کی زبان پر کلمہ لا اور ی یعنی میں نہیں جانتا) قطعا جاری نہیں ہوا۔ جملہ علوم ہمیشہ آپ کے پیش نظر رہتے تھے یہاں تک کہ عالم موصوف اپنے جملوں کے آخر میںکہتے ہیں:

" هَذَا يَكَادُ يُلْحَقُ‏ بِالْمُعْجِزَاتِ لِأَنَّ الْقُوَّةَ الْبَشَرِيَّةَ لَا تَفِي بِهَذَا الْحَصْرِ وَ لَا تَنْهَضُ بِهَذَا الِاسْتِنْبَاطِ."

یعنی اس امر کو معجزات میں شامل کیا جاسکتا ہے، کیونکہ بشری طاقت ایسے علمی احاطے پر قادر نہیں ہے اور نہ استنباط کے اس درجے پرفائز ہے۔

اگر میں چاہوں کہ غیب کی جو خبریں حضرت(ع) نے ارشاد فرمائی ہیں اور جو برسوں بلکہ صدیوں کے بعد وقوع پذیر ہوئی ہیں اور جن کو آپ کے اکابر علماء نے نقل کر کے ان کی تصدیق کی ہے۔ ان کی طرف اشارہ کروں تو صبح ہوجاۓ گی اور ان میں سے عشر عشیر بھی پیش نہ کرسکوں گا، لہذا اب اس سے زیادہ زحمت نہیں

۳۴۰