پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316889 / ڈاؤنلوڈ: 7973
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

بٹھادی تھی _ حتی کہ یہ بھی منقول ہے کہ قریشی جب بھی حضرت علی علیہ السلام کو کسی لشکر یا گروہ میں دیکھ لیتے تو ایک دوسرے کو وصیتیں کرنے لگ جاتے تھے_

ایک مرتبہ جب آپعليه‌السلام نے دشمن کی فوج کو تتر بتر کردیا تو ایک شخص نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھ کر کہا:''مجھے ایسے لگا کہ ملک الموت(موت کا فرشتہ) بھی اسی طرف جاتا ہے جس طرف علیعليه‌السلام جاتا ہے''(۱) _

مشرکین کے مقتولین ، کنوئیں میں:

جنگ ختم ہونے پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں موجود ایک کنوئیں کو مٹی سے بند کراکے مشرکین کی لاشوں کو اس میں ڈالنے کا حکم دیا تو سب لاشیں اس میں ڈال دی گئیں، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ایک مقتول کا نام لے کر پکارتے ہوئے پوچھا _''کیا تم لوگوں نے اپنے خداؤں کے وعدہ کی حقیقت دیکھ لی ہے ؟ میں نے تو اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا ہے _ تم اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بدترین قوم تھے _ تم نے مجھے جھٹلایا لیکن دوسرے لوگوں نے میری تصدیق کی ، تم نے مجھے در بدر کیا لیکن دوسرے لوگوں نے مجھے ٹھکانہ دیا اور تم نے مجھ سے جنگ کی جبکہ دوسروں نے میری مدد کی '' یہاں عمر نے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مرنے والوں سے باتیں کر رہے ہیں؟''_ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' وہ میری باتیں تم لوگوں سے زیادہ سن اور اچھی طرح سمجھ رہے ہیں لیکن وہ میری باتوں کا جواب نہیں دے سکتے''(۲) _ لیکن بی بی عائشہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس بات ''انہوں نے میری باتیں سن لی ہیں''کاانکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''وہ میری باتیں پہلے سے ہی جان چکے تھے''_ اور اپنی مذکورہ بات کی دلیل کے طور پر یہ آیتیں پیش کی ہیں (انک لا تسمع الموتی)ترجمہ : '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مردوں کو کوئی بات نہیں سنا سکتے'' _ اور (و ما انت بمسمع من فی القبور )(۳) ترجمہ : '' اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبر میں لیٹے مردوں کو کوئی بات نہیں

____________________

۱) محاضرات الادبا راغب اصفہانی ج ۲ ص ۱۳۸_ (۲) ملاحظہ ہو : فتح الباری ج ۷ ص ۲۳۴ و ص ۲۳۴ نیز اسی مقام پر حاشیے میں صحیح بخاری ، الکامل ابن اثیر ، ج ۲ ص ۲۹ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۸۶ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۲ و حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۳۳۳ و ص ۳۳۴_

۳) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۲ ، نیز ملاحظہ ہو : مسند احمد ج ۲ ص ۳۱ و ص ۳۸ و دیگر کتب _

۲۸۱

سنا سکتے''_ لیکن بخاری میں قتادہ سے مروی ہے کہ خدا نے ان کی روحوں کو ان کے جسم میں واپس لوٹا دیا جس کی وجہ سے انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتیں سن لیں_ اور بیہقی نے بھی یہی جواب دیا(۱) _

لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر قتادہ کی بات صحیح ثابت ہوجائے تو یہ سردار انبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک معجزہ ہوگا_

البتہ حلبی نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ مردوں کا حقیقت میں سننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیونکہ جب ان کی روحوں کا ان کے جسموں سے مضبوط تعلق پیدا ہوجائے تو ان کے کانوں سے سننے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے _ اس لئے کہ سننے کی یہ حس ان کے اندر باقی رہتی ہے _ اور مذکورہ دو آیتوں میں جس سماع کی نفی کی گئی ہے وہ مشرکوں کو نفع پہنچانے والا سماع ہے _ اس کی طرف سیوطی نے بھی اپنے اشعار میں یوں اشارہ کیا ہے:

سماع موتی کلام الله قاطبة

جاء ت به عندنا الاثار فی الکتب

و آیة النفی معناها سماع هدی

لا یقبلون و لا یصغون للادب

تمام مردوں کے خدا کے کلام کو سننے کے متعلق ہماری کتابوں میں کئی روایتیں منقول ہیں _ اس لئے وہ قابل قبول ہے البتہ آیت میں جس سماع کی نفی کی گئی ہے اس سے مراد ہدایت قبول کرنے والا سماع ہے کیونکہ وہ اپنی بے ادبی کی وجہ سے ہدایت کی ان باتوں پر کان نہیں دھرتے_

اس لئے کہ خدا نے زندہ کافروں کو قبر میں پڑے مردوں سے اس وجہ سے تشبیہ دی ہے کہ وہ نفع بخش اسلام سے کوئی نفع حاصل ہی نہیں کرنا چاہتے(۲) _

____________________

۱) ملاحظہ ہو : بخاری باب غزوہ بدر نیز ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۷۹ میں معتزلی کا بیان _

۲) ملاحظہ ہو : سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۲_

۲۸۲

کیا '' مہجع'' سید الشہداء ہے؟

مؤرخین کہتے ہیں کہ جب جنگ بدر میں دونوں فوجوں کی صفیں منظم ہوگئیں تو سب سے پہلے ''مھجع'' ( عمر کا غلام ) جنگ کرنے نکلا اور مارا گیا _ بعض مشائخ کے بقول '' امت محمدیہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اسے سب سے پہلا شہید کہا گیا'' _ اور اس کے متعلق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمایا کہ مھجع تمام شہیدوں کا سردار ہے(۱) _ لیکن یہ تمام باتیں مشکوک ہیں ، کیونکہ :

۱_ یہاں یہ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ اس امت کا سب سے پہلا شہید مھجع کیوں کہلائے گا اور عمار کے والد جناب یا سریا ان کی والدہ جناب سمیہ اسلام کے پہلے شہید کیوں نہیں کہلائے جاسکتے ؟ حالانکہ یہ دونوں شخصیات جنگ بدر سے کئی برس پہلے شہید ہوئے_ نیز اسی جنگ بدر میں مھجع سے پہلے شہید ہونے والے عبیدہ بن حارث کو ہی اسلام کا سب سے پہلا شہید کیوں نہیں کہا جائے گا؟

۲_ ان کا یہ کہنا کہ صفوں کے منظم ہونے کے بعد وہ سب سے پہلے جنگ کرنے نکلا، ناقابل قبول ہے _ کیونکہ مسلمانوں سے سب سے پہلے حضرت علیعليه‌السلام ، جناب حمزہ اور جناب عبیدہ بن حارث جنگ کے لئے نکلے تھے_

۳_ ''مھجع'' کے سید الشہداء ہونے والی بات کے ساتھ یہ روایت کیسے جڑے گی کہ '' حضرت حمزہ '' سیدالشہداء ہیں ؟(۲) _ اس بات کا ذکر انشاء اللہ غزوہ احد کی گفتگو میں ہوگا_ وہ حضرت علیعليه‌السلام کا یہ شعر بھی خو دہی نقل کرتے ہیں کہ :

محمّد النبی اخی و صهری

و حمزة سیدالشهداء عمی(۳)

____________________

۱) سیرہ حلبیہ ۲ ص ۶۱ نیز ملاحظہ ہو : المصنف ج ۵ ص ۳۵۱_

۲) سیر اعلام النبلاء ج ۱ ص ۱۷۲ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۹۵و ص ۱۹۹ ، تلخیص ذہبی ( مطبوعہ بر حاشیہ مستدرک ) ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۲۶۸ ، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۵۷۱ و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۱۶۴ و ص ۱۶۵_

۳) روضة الواعظین ص ۸۷ ، الصراط المستقیم بیاضی ج ۱ ص ۲۷۷ ، کنز الفوائد کراجکی مطبوعہ دار الاضواء ج ۱ ص ۲۶۶ و الغدیر ج ۶ ص ۲۵ تا ۳۳ از نہایت کثیر منابع _

۲۸۳

نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ( چچا زاد ) بھائی اور میرے سسر ہیں اور سیدالشہدا جناب حمزہ میرے چچا ہیں _

اسی طرح خود حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اور سیدالشہداء حمزہ بھی ہم میں سے ہی ہیں''(۱) _

۴_ ان کی یہ بات کہ'' مھجع مسلمانوں کاپہلا شہید ہے'' اس بات کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں ''کے سب سے پہلے شہید عمیر بن حمام ہیں''(۲) ؟_

حلبی نے اس کی یہ راہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ عمیر انصاری مقتول تھا جبکہ اول الذکر مہاجر تھا _ لیکن پھر اس کا جواب یہ دیا ہے کہ سب سے پہلا انصاری شہید تو حارثہ بن قیس تھا _ لیکن اس جواب کو پھر خود اس نے ہی یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ حارثہ کسی نا معلوم تیر سے مارا گیا تھا اور اس کا قاتل نا معلوم تھا(۳) _

لیکن یہ واضح سی بات ہے کہ یہ صرف لفظوں کا کھیل ہے _ کیونکہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں اسلام کا سب سے پہلا شہید ہے یا بدر میں مسلمانوں کی طرف سے سب سے پہلا شہید ہے تو نہ ہی اس کے آلہ قتل کی کوئی بات ہوتی ہے نہ اس کے شہر یا علاقے کی اور نہ ہی اس کے قوم و قبیلہ کی _ و گرنہ بطور مثال یہ کہا جانا چاہئے تھا کہ فلاں مہاجرین کا سب سے پہلا شہید ہے اور فلاں انصار کا اولین شہید ہے_ یا فلاں سب سے پہلے تیر سے شہید ہوا یا نیزے سے شہید ہو ا یا اس طرح کی دیگر باتیں ہوتیں تو یہ اس کے مطلوب اور مقصود سے زیادہ سازگار ہوتا_ پھر بھی اگر حلبی کی بات صحیح مان لی جائے تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیدالشہداء کا لقب عمیر بن حمام ، عبیدہ یا حارثہ بن قیس کو چھوڑ کر صرف مھجع کو کیوں دیا گیا ؟ اور اسے ایسا لقب کس وجہ سے دیا گیا ؟ کیا اس وجہ سے کہ اس نے اسلام کی ایسی مدد اور حمایت کی تھی کہ دوسرے نہیں کر سکے تھے؟ یا یہ باقی دوسروں سے ذاتی اور اخلاقی فضائل کے لحاظ سے ممتاز حیثیت رکھتا تھا؟ یا صرف اس وجہ سے اسے سید الشہداء کا لقب ملا

____________________

۱) الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۱ ص ۲۷۳ و الاصابہ ج ۱ ص ۳۵۴ ، نیز ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج ۴۴ ص ۱۴۰ و المسترشد ص ۵۷_

۲) الاصابہ ج ۳ ص ۳۱ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۶۱_

۳) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۶۱_

۲۸۴

کہ وہ عمر بن خطاب کا غلام تھا؟ پس اس وجہ سے اس کے پاس ایسی فضیلت ہونی چاہئے جو سیدا لشہداء حضرت حمزہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی ؟ ہمیں تو نہیں معلوم شاید سمجھدار قاریوں کو اس کا علم ہو_

ذوالشمالین:

بدر میں ذوالشمالین بھی رتبہ شہادت پر فائز ہوا ( اسے ذوالشمالین اس لئے کہتے تھے کہ وہ ہر کام اپنے دونوں ہاتھوں سے کیا کرتا تھا ) _ اس کا اصل نام عمیر بن عبد عمر و بن نضلہ بن عمر و بن غبشان تھا(۱) _ البتہ یہاں ( نعوذ باللہ ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھول چو ک اور ذوالشمالین کے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتراض کا ایک لمبا واقعہ مذکور ہے، لیکن چونکہ اسے '' سیرت سے متعلق چند ابحاث '' میں ذکر کریں گے اس لئے یہاں اس کے ذکر سے چشم پوشی کرتے ہیں _پس وہاں مراجعہ فرمائیں_

البتہ جنگ بدرسے متعلق دیگر حالات و واقعات کے بیان سے قبل درج ذیل نکات بیان کرتے چلیں:

الف : جنگ بدر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی خطیر مہم

امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام فرماتے ہیں:'' جنگ بدر کے موقع پر میں کچھ دیر جنگ کرتا اور کچھ دیر جنگ کرنے کے بعد میں یہ دیکھنے کے لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا حال ہے اور کیا کر رہے ہیں_ میں ایک مرتبہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سجدے کی حالت میں '' یا حی یا قیوم ''کا ورد کر رہے ہیں اور اس سے آگے کچھ نہیں فرما رہے ،میں پھر واپس لڑنے کے لئے چلا گیا _ پھر کچھ دیر لڑنے کے بعد واپس آیا تو دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھی تک اسی ورد میں مصروف ہیں اسی لئے میں پھر واپس جنگ کرنے چلاگیا اور اسی طرح بار بار وقفے وقفے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خبرگیری کرتا رہا ، یہاں تک کہ خدا نے ہمیں فتح سے ہمکنار کیا''(۲)

____________________

۱) ملاحظہ ہو : سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۳۷ ، طبری اس کی تاریخ کے ذیل میں ص ۱۵۷، الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۱ ص ۴۹۱، نسب قریش مصعب زبیری ص ۳۹۴ ، الاصابہ ج ۱ ص ۴۸۶ و طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۱۹_

۲) البدایة و النہایہ ج ۳ ص ۲۷۵ و ص ۲۷۶ از بیہقی و نسائی در الیوم واللیلة ، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۵۰۲ از مذکورہ و از کنز العمال ج ۵ ص ۲۶۷ از حاکم، بزار ، ابو یعلی و فریابی_

۲۸۵

البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سرے سے جنگ بدر میں شریک ہی نہیں ہوئے _ ہوسکتا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کے شروع میں مسلمانوں کا دل بڑھانے کے لئے شریک ہوئے ہوں اور جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ مقصد حاصل ہوگیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میدان جنگ سے علیحدہ ہوکر دعاؤں اور راز و نیاز میں مصروف ہوگئے ہوں(۱) _

چند نکات:

۱_ حضرت علی علیہ السلام ان سخت حالات میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسلسل خبرگیری کرتے رہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان جان لیوا گھڑیوں میں بھی ایک لحظہ اور ایک پل کے لئے بھی غافل نہیں ہوئے _ اسی طرح یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام دیگر مقامات اور حالات میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خبرگیری کرتے تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور حمایت کو حضرتعليه‌السلام نے اپنے ذمہ لے لیا تھا _ کیونکہ یحیی سے مروی ہے کہ ہمیں موسی بن سلمہ نے یہ بتایا ہے کہ میں نے جعفر بن عبداللہ بن حسین سے حضرت علیعليه‌السلام ابن ابی طالب علیہما السلام کے (مسجد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں) ستون کی بابت پوچھا تو اس نے کہا :'' باب رسول اللہ کی طرف یہاں ایک حفاظتی چوکی تھی اور حضرت علی علیہ السلام اس میں تربت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رخ کرکے بیٹھتے تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کیا کرتے تھے''(۲) _ سمہودی نے بھی اپنی کتاب میں اس ستون کا ذکر '' اسطوان المحرس '' ( حفاظتی چوکی والا ستون) کے نام سے کیا ہے(۳) _

۲_ ان سخت اور کٹھن گھڑیوں میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعا اور مبداء اعلی یعنی پروردگا ریکتا سے رابطے کا اہتمام قابل ملاحظہ ہے _ کیونکہ وہی اصل طاقت اور کامیابی کا سرچشمہ ہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کو یقین اور صبر

____________________

۱) گذشتہ بات معقول اور مسلم نظر آتی ہے البتہ لگتا یہی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے منہ میں خاک ڈال کر تھوڑی دیر جنگ میں مصروف رہے ہوں گے تا کہ مسلمانوں کی جنگ کے لئے حوصلہ افزائی ہو اور جب وہ جنگ میں مصروف ہوگئے ہوں گے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رن سے نکل کر مصلی میں مصروف دعا ہوگئے ہوں گے_ و اللہ العالم _ از مترجم _

۲) وفاء الوفاء ج ۲ ص ۴۴۸_

۳) ایضاً_

۲۸۶

عطا کرنے اور انہیں خدا کے لطف و عنایات کے شامل حال کرنے کے لئے خدا سے براہ راست رابطہ کئے ہوئے تھے کیونکہ خدا کے لطف و کرم کے بغیر نہ ہی فتح اور کامیابی امکان ہے اور نہ ہی کامیابی ملنے کی صورت میں اس کی کوئی قدر و قیمت ہے_

۳_ اسی طرح اس جنگ میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھانے والے حضرت علیعليه‌السلام کا خضوع و خشوع بھی لائق دید ہے_ انہوں نے پینتیس ۳۵ سے زیادہ آدمیوں کو بذات خود فی النار کیا تھا اور باقی پینتیس ۳۵ کے قتل میں بھی شریک ہوئے تھے ، لیکن ہم انہیں یہ کہتا ہوا دیکھتے ہیں کہ '' خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ سے ہمیں فتح عنایت کی '' یعنی حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کامیابی کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسوب کرتے ہوئے اسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مرہون منت جانتے ہیں اور اس کامیابی میںاپنے سمیت کسی کا بھی کوئی قابل ذکر کردار نہیں سمجھتے تھے_

ب : جنگ فیصلہ کن تھی

یہ بات واضح ہے کہ اس جنگ کو فریقین اپنے لئے فیصلہ کن سمجھتے تھے _ مسلمان خاص کر حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم یہ سوچ رہے تھے کہ اگر وہ خدا نخواستہ شکست کھا گئے تو پھر روئے زمین پر کبھی بھی خدا کی عبادت نہیں ہوگی _ جبکہ مشرکین بھی یہ چاہتے تھے کہ مہاجرین کو اچھی طرح کس کر انہیں اپنی گمراہی کا مزاچکھائیں اور انصاریوں کو بھی نیست و نابود کرکے رکھ دیں تا کہ بعد میں کوئی بھی ان کے دشمن کے ساتھ کبھی اتحاد نہ کر سکے اور نہ ہی کوئی کبھی ان کے تجارتی راستے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ ڈال سکے اور اس کے نتیجے میں پورے خطہ عرب پر ان کی دھاک بیٹھ جائے_ ہاں مال ، دنیا اور جاہ و حشم پر مرمٹنے والے لوگوں کے نزدیک یہ چیزیں نہایت اہم تھیں اور بالکل اسی لئے انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں کو بہت تنگ کیا ، گھروں سے نکال باہر کیا اور ان سے جنگ کیا حالانکہ وہ ان کے اپنے فرزند ، بھائی ، بزرگ اور رشتہ دار تھے_ ان کے لئے سب کچھ دنیا ہی تھی اور نہ اس سے پہلے کوئی چیز تھی اور نہ بعد میں کچھ ہے_ اسی چیز نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی اور انہیں اپنے رشتہ داروں پر جرم و جنایت کے مرتکب ہونے پر اکسا یا جس کی وجہ سے انہوں

۲۸۷

نے اپنوں کو مختلف قسم کے شکنجوں کا نشانہ بنایا، ان کا مذاق اڑایا ، پھر ان کا مال و اسباب لوٹا، انہیں اپنے گھروں سے نکال باہر کیا اور آخر کار انہیں جڑ سے اکھاڑنے اور نیست و نابود کرنے کے لئے ان کے خلاف سخت ترین جنگ لڑی_

ج: شکت ، طاقت کا عدم توازن اور فرشتوں کی امداد

کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ کوئی چھوٹا لشکر کسی بڑی فوج کو شکست دے دیتا ہے _ لیکن یہ اس صورت میں ہوتا ہے کہ اس چھوٹی فوج میں ایسے امتیازات اور ایڈ و انٹیج پائے جاتے ہیں جو بڑے لشکر میں نہیں ہوتے_ مثال کے طور پر اسلحہ با رود کی کثرت ، زیادہ نظم و ضبط ، زیادہ معلومات اور منصوبہ بندی اور کسی خاص معین جنگی علاقے یعنی جغرافیائی لحاظ سے اسٹرٹیجک جگہ پر قبضہ بھی انہی امتیازات میں سے ہیں_

لیکن مسلمانوں اور مشرکوں کا اس جنگ میں معاملہ بالکل ہی الٹ تھا _ کیونکہ جنگی تجربہ ، کثرت تعداد ، اسلحہ کی بھر مار اور جنگی تیاری اورسازو سامان و غیرہ سب کچھ مشرکین کے پاس تھا جبکہ مسلمانوں کے پاس کسی خاص حدود اربعہ میں معین کوئی خاص جنگی علاقہ بھی نہیں تھا_ بلکہ انہیں تو اس جنگ کا سامنا تھا جسے مشرکین نے اپنی مرضی کی جگہ اور وقت پر ان پر مسلط کر دیاتھا_ بلکہ اکثر مشرکین کو اس علاقے میں بھی امتیاز اور برتری حاصل تھی _ جنگی تکنیک اور اسلوب بھی و ہی پرانا تھا، یعنی فریقین کو وہی معروف اور رائج طریقہء کار اپنانا تھا_ اور اس میں بھی قریش کو برتری اس لحاظ سے حاصل تھی کہ اس کے پاس عرب کے ایسے مشہور شہسوار موجود تھے جو اپنے تجربے اور بڑی شہرت کے باعث ان تقلیدی جنگوں میں برتری کے حامل تھے _ پس جنگ کے متوقع نتائج مشرکین کے حق میں تھے_

لیکن جنگ کے حقیقی نتائج ان متوقع نتائج کے الٹ نکلے اور وہ اتنی بڑی تیاری اور کثیر تعداد والے ہر لحاظ سے برتری کے حامل فریق کے بالکل برخلاف تھے_ کیونکہ مشرکوں کو مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ خسارہ اٹھانا پڑا _ اس لئے کہ مسلمانوں کے آٹھ سے چودہ شہیدوں اور مشرکین کے ستر مقتولوں اور ستر قیدیوں کے

۲۸۸

درمیان کونسی نسبت ہے؟ حالانکہ ہر لحاظ سے مشرکوں کاپلڑا مسلمانوں سے بہت بھاری تھا_ کیا آپ لوگ بتاسکتے ہیں کہ اس غیر متوقع نتیجہ کا کیا راز اور سبب ہے؟

اس کا جواب خود خدا نے قرآن مجید میں یوں دیا ہے

( اذ یریکهم الله فی منامک قلیلاً و لو اراکهم کثیراً لفشلتم و لتنازعتم فی الامر ، ولکن الله سلم انه علیم بذات الصدور و اذ یریکموهم اذ التقیتم فی اعینکم قلیلاً و یقللکم فی اعینهم لیقضی الله امراً کان مفعولاً )

'' ( اس وقت کو ) یاد کر و جب خدا نے خواب میں تمہیں ان کی کثیر تعداد کو کم جلوہ گر کیا اور اگر خدا ان کی تعداد زیادہ دکھاتا تو تم تو دل ہار بیٹھتے اور خود جنگ کے معاملے میں ہی آپس میں جھگڑنے لگتے لیکن خدا نے تمہیں اس سے محفوظ رکھا کیونکہ وہ دلوں کے راز بخوبی جانتا ہے_ اور جنگ کے وقت بھی خدا نے تمہاری آنکھوں میں ان کی تعداد گھٹا کر دکھائی نیز انہیں بھی تمہاری تعداد گھٹا کر دکھائی تا کہ خدا کا ہونے والا کام ہو کر رہے''(۱)

نیز ارشاد خداوندی ہے :

( و اذ زین لهم الشیطان اعمالهم لا غالب لکم الیوم من الناس و انی جار لکم ) (۲)

'' اور یاد کرو جب شیطان نے کافروں کے اس برے کام کو اچھا کردکھایا ...لیکن آج وہ لوگ تم پر غلبہ نہیں پا سکتے کیونکہ آج تم میری پناہ میں ہو''

____________________

۱) انفال /۴۳، ۴۴_

۲) انفال /۴۸_

۲۸۹

اسی طرح یہ بھی فرماتا ہے :

( کما اخرجک ربک من بیتک بالحق و ان فریقاً من المؤمنین لکارهون ) (۱)

'' جس طرح خدا نے تمہیں اپنے گھر سے بر حق نکالا ہے لیکن مؤمنوں کے ایک گروہ کو یہ بات ناپسند تھی''

اسی طرح رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھی فرمایا ہے :'' رعب اور دبدبے سے میری مدد اور حمایت کی گئی ہے اور زمین کو بھی میرے لئے سجدہ گاہ اور باعث طہارت بنا یا گیا ہے''(۲)

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں اور مشرکوں کو آپس میں لڑانے کے لئے خدا ئی عنایت ، لطف بلکہ طاقت کار فرماتھی تا کہ بہت سے مسلمانوں کے دل سے مشرکوں کی ہیبت اور دہشت نکل جائے _ کیونکہ جب مسلمان قریش سے لڑلیں گے تو دوسروں سے لڑنے کیلئے وہ اور زیادہ جری اور طاقتور ہوں گے_ اور یہ خدائی مشن درجہ ذیل چیزوں میں خلاصہ ہوتا ہے:

۱_ آیتوں میں مذکور گھٹا نے بڑھا نے والے طریقے سے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی_

۲_ ملائکہ کے ساتھ مسلمانوں کی مدد_

۳_ اسلام دشمنوں کے دل میں رعب اور دہشت بٹھانا_

تشریح : فریقین کے جنگی اہداف ہی مادی اور انسانی خسارے بلکہ تاریخ کے دھارے کو کسی بھی طرف موڑنے کے لحاظ سے جنگ کے نتائج کی تعیین اور اس کا فیصلہ کرتے ہیں اور ہم پہلے بھی کئی بار یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ اس جنگ سے مشرکین کا مقصد مطلوبہ زندگی اور ان امتیازات اور خصوصیات کا حصول تھا جن

____________________

۱) انفال /۵_

۲) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۳۳ ، بخاری ج ۱ ص ۴۶و ص ۵۷، ج ۲ ص ۱۰۷ و ج ۴ ص ۱۳۵ و ص ۱۶۳، سنن دارمی ج ۲ ص ۲۲۴ ، صحیح مسلم ج ۲ ص ۶۳ تا ص ۶۵ ، الجامع الصحیح ج ۴ ص ۱۲۳ ، کشف الاستار ج ۱ ص ۴۴ و ج ۳ ،ص ۱۴۷ ، سنن نسائی ج ۱ ص ۲۰۹و ص ۲۱۰و ج ۶ ص ۳ ، مسند احمد ج ۱ ص ۹۸ و ص ۳۰۱ و ج ۲ ص ۲۲۲ و ص ۲۶۴ ، ص ۲۶۸ ، ص ۳۱۴، ص ۳۶۶ ، ص ۴۱۲ ، ص ۴۵۵ و ص ۵۰۱ ، ج ۳ ص ۳۰۴ ، ج ۴ ص ۴۱۶و ج ۵ ص ۱۴۵ و ص ۱۴۸ و ص ۱۶۲ و ص ۲۴۸ و ص ۲۵۶ ، مجمع الزوائد ج ۶ ص ۶۵ و امالی طوسی ص ۵۶_

۲۹۰

سے وہ اپنی آسودگی ، فرمانروائی اور سرداری کی لمبی لمبی آرزوؤں کی تکمیل کی توقع کر رہے تھے_ پس جب وہ لڑہی اس دنیاوی زندگی کے لئے رہے تھے تو اس مقصد کے لئے ان کا قربانی دنیا کیسے ممکن ہے؟ اس کا مطلب تو پھر ہدف کو کھونا اور مقصد کی مخالفت کرنا ہے_ مؤرخین کی مندرجہ ذیل روایت بھی ہمارے بیانات کی تصدیق کرتی ہے _ وہ کہتے ہیں کہ جب طلیحہ بن خویلد نے اپنے بہت سے ساتھیوں کو رن سے فرار کرتے ہوئے دیکھا تو پکارا'' منحوسو کیوں بھاگ رہے ہو؟''_ تو ان میں سے کسی نے کہا :'' میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم کیوں بھاگ رہے ہیں ہم اس لئے بھاگ رہے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص کی یہی خواہش ہے کہ اس سے پہلے اس کا ساتھی مرے ( یعنی وہ سب سے آخرمیں مرے) حالانکہ ایسے ایسے افراد سے ہمارا سامنا ہے جو اپنے ساتھیوں سے پہلے مرنا چاہتے ہیں''(۱) _ اسی طرح جب جنگ جمل میں زبیر کے پیٹھ دکھا کر بھاگنے کی خبر حضرت علی علیہ السلام تک پہنچی تو آپعليه‌السلام نے فرمایا : '' اگر صفیہ کے بیٹے کو معلوم ہوتا کہ وہ حق پر ہے تو وہ جنگ سے کبھی پیٹھ دکھا کر نہ بھاگتا ...''(۲) _ اور مامون کی فوج کا ایک بہت بڑا جرنیل حمید طوسی کہتا ہے : '' ہم آخرت سے تو مایوس ہوچکے ہیں اب صرف یہی ایک دنیاہی رہتی ہے ، اس لئے خدا کی قسم ہم کسی کو اپنی زندگی مکدّر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے''(۳) _

لیکن تمام مسلمانوں کابلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ قریش کی جڑیں کاٹنے والے حضرت علیعليه‌السلام اور حمزہ جیسے ان بعض مسلمانوں کا مقصد اخروی کامیابی تھا جنہوں نے دشمنوں کو تہہ تیغ کرکے مسلمانوں کی کامیابی میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا_ وہ یہ جانتے تھے کہ انہیں دوبھلائیوں میں سے کوئی ایک ضرور ملے گی_ یا تو وہ جیت جائیں گے اور اس صورت میں انہیں دنیاوی اور اخروی کامیابی نصیب ہوگی یا پھر شہید ہوجائیں گے اور اس صورت میں بھی انہیں حتی کہ دنیاوی کامیابی بھی نصیب ہوگی اور آخرت تو ہے ہی _ اور ایسے لوگ جب موت

____________________

۱) سنن بیہقی ج ۸ ص ۱۷۶و حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۷۷۰ از سنن بیہقی_

۲) المصنف عبدالرزاق ج ۱۱ ص ۲۴۱ اور اس روایت سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ وہ پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہوئے قتل ہوا _ جیسا کہ بعض نے صراحتاً کہا بھی ہے_

۳) نشوار المحاضرات ج ۳ ص ۱۰۰_

۲۹۱

کو فوجی اور ظاہری کامیابی کی طرح ایک کامیابی سمجھتے ہیں اور اپنی جان بچا کر فرار ہونے کو ( چاہے اس فرار سے ان کی جانیں بچ بھی جائیں اور وہ بڑی پرآسائشےں اور پر سکون زندگی اور دنیاوی نعمتوں سے بہرہ مند ہو بھی جائیں پھر بھی اسے) اپنے لئے ذلت ، رسوائی ، تباہی اور مرجانے کا باعث بلکہ مرجانے سے بھی بدتر سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد انہیں اخروی تباہی اور دردناک عذاب کا سامنا کرنا ہوگا_ (جب صورتحال یہ ہو ) تو یہ زندگی ان لوگوں کے لئے ناقابل قبول اور ناپسندیدہ بلکہ مکروہ ہوگی اور اس زندگی سے وہ ایسے بھاگیں گے جیسے مشرکین موت کے ڈر سے بھاگ رہے تھے_ اور طلیحہ بن خویلد کا جواب دینے والے شخص نے بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا جسے ہم بیان کرچکے ہیں_

جب عمیر بن حمام کو پتہ چلا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا شہید ہونے والوں کو جنت کی خوشخبری دے رہے ہیں ( اس وقت عمیر کے ہاتھ میں چند کھجور تھے جنہیں وہ آہستہ آہستہ کھا رہا تھا) تو اس نے کہا :'' واہ بھئی واہ میرے اور جنت میں داخلے میں صرف ان کے قتل کرنے کا ہی فاصلہ ہے''_ یا یہ کہا :'' اگر زندہ رہا تو یہ کھجور آکر کھاؤں گا _ واہ وہ تو ایک لمبی زندگی ہے'' _ پھر وہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی کھجوریں پھینک کر لڑنے چلا گیا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگیا(۱) _

(یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے جانثاروں کے لئے موت کیوں شہد سے بھی زیادہ میٹھی تھی )_بلکہ جب ماؤں کو پتہ چل جاتا کہ ان کے فرزند جنت میں ہیں تو انہیں اپنے فرزند کے بچھڑنے کا کوئی بھی دکھ نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ بسا اوقات خوش بھی ہوتی تھیں_ جب حارثہ بن سراقہ کسی نامعلوم تیر سے ماراگیا تو اس کی ماں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ مجھے حارثہ کے متعلق بتائیں ، اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرلوں گی وگرنہ اتنی آہ و زاری کروں گی کہ ساری خدائی دیکھے گی ''_ ( جبکہ ایک اور روایت کے مطابق اس نے یوں کہا:'' وگرنہ میں حد سے زیادہ گریہ کروں گی'' نیز دیگر روایت میں آیا

____________________

۱) ملاحظہ ہو : الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۶ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۸۰ ، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۹ ، البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۷۷ از مسلم و احمد ، سنن بیہقی ج ۹ ص ۹۹ ، مستدرک حاکم ( با اختصار ) ج ۳ ص ۴۲۶ و حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۴۲۴ از گذشتہ بعض منابع_

۲۹۲

ہے'' تو روؤں گی پیٹوں گی نہیں لیکن اگر وہ دوزخ میں گیا ہے تو میں مرتے دم تک روتی رہوں گی '')_ اور ایک روایت میں ہے کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے بتایا کہ اس کا بیٹا جنت میں ہے تو وہ ہنستے ہوئے واپس پلٹی اور کہنے لگی :'' مبارک ہو حارث مبارک ہو''(۱) _اسی طرح جنگ بدر میں شہید ہونے والے عمیر بن ابی وقاص کو جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے مدینہ میں ٹھہرانا چاہا تو وہ ( فرط جذبات اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد سے محرومی کے احساس سے ) روپڑا(۲) جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ساتھ چلنے کی اجازت دے دی _ اور اس طرح کی مثالیں بہت زیادہ ہیں_جنہیں یہاں بیان کرنے گی گنجائشے نہیں ہے_

گذشتہ تمام باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کو کتنی شدت سے مرجانے یا پھر کامیاب ہونے کا شوق تھا _ اور کافروں کو صحت و سلامتی کے ساتھ زندہ رہنے کی تمنا تھی _ کیونکہ مسلمان تو موت کو ایک پل اور شہادت کو عطیہ اور سعادت سمجھتے تھے لیکن وہ لوگ موت کو خسارہ ، فنا اور تباہی سمجھتے تھے_ ان کی مثال بھی بنی اسرائیل کی طرح تھی_

اور بنی اسرائیل دنیا اور دنیا داری کے لئے بہت زیادہ اہمیت کے قائل تھے اور ان کی سوچوں بلکہ عقیدے میں بھی آخرت کی کوئی جگہ نہیں تھی_ ان کی متعلق خدایوں فرماتا ہے:

( قل ان کانت لکم الدار الاخرة عند الله خالصة من دون الناس فتمنو الموت ان کنتم صادقین و لن یتمنوه ابداً بما قدمت ایدیهم و الله علیم بالظالمین و لتجدنهم احرص الناس علی حیاة و من الذین اشرکوا یود احدهم لو یعمر الف سنة و ما هو بمزحزحه من العذاب ان یعمر و الله بصیر بما یعملون ) (۳)

____________________

۱) ملاحظہ ہو : مستدرک حاکم ج ۳ ص ۲۰۸ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۷۴ از شیخین ، سنن بیہقی ج ۹ ص ۱۶۷ ، حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۶۵۲ تا ص ۶۵۳ از مذکورہ منابع و از کنز العمال ج ۵ ص ۲۷۳ و ۲۷۵ و ج ۷ ص ۷۶ و از ابن سعد ج ۳ ص ۶۸ _

۲) نسب قریش مصعب زبیری ص ۲۶۳ ، الاصابہ ج ۳ ص ۵ ۳،از حاکم ، بغوی ، ابن سعد و واقدی_

۳) بقرہ / ۹۴ تا ۹۶_

۲۹۳

''( اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) ان سے کہہ دیجئے کہ اگر آخرت کا مقام بھی خدا کے نزدیک صرف تمہارا ہی ہے تو ذرا مرنے کی خواہش تو کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو _ لیکن وہ اپنے کر تو توں کی وجہ سے ہرگزموت کی تمنا نہیں کرسکتے اور خدا ہی ظالموں کو سب سے بہتر جانتا ہے _ انہیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ رہنے کا سب سے زیادہ خواہشمند پائیں گے حتی کہ مشرکوں سے بھی _ان کا ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ کاش اسے ہزار سالہ زندگی مل جائے _ وہ جتنی بھی زندگی کرلیں وہ اسے عذاب سے چھٹکار انہیں دلا سکتی _ اور خدا ان کے کردار کو بخوبی جانتا ہے''_

اسی بنا پر جنگ بدر میں ضرورت اس بات کی تھی کہ ابتداء میں خدا مسلمانوں کو ان کی نظر میں گھٹا کر دکھاتا تا کہ وہ اپنی سلامتی اور بقاء کے زیادہ احتمال کی وجہ سے آسانی اور آسودہ خیالی سے اس جنگ میں کود پڑتے _ کم از کم وہ جنگ میں جم کر لڑتے اور فرار کا تصور بھی نہ کرسکتے تا کہ حضرت علی علیہ السلام قریش اور شرک کے بڑے بڑے فرعونوں ، سرپھروں، گروگنڈالوں اور سپاہیوں کو قتل اور قیدی کرلیں_ حضرت بی بی فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی ایک روایت بھی اسی کے مطابق ہے کہ '' جب جنگ کا شعلہ بھڑکا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی اسے بجھایا ، گمراہی بڑھنے لگی یا مشرکوں کا جمگھٹا ہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بھائی کو اس میں جھونک دیا اور وہ اسے اچھی طرح روند کر اور تلوار سے اس کے شعلے بجھا کر ہی وہاں سے واپس لوٹا _ وہ خدا کی ذات میں جذب ( فنا فی اللہ ) ہوچکا تھا ...''(۱) _

لیکن پھر جنگ چھڑنے کے بعد ضروری تھا کہ مشرکین مسلمانوں کی تعداد کی کثرت دیکھیں تا کہ وہ رعب اور دہشت کے مارے نہ لڑسکیں_یہاں خدا نے مسلمانوں کی فرشتوں کے ذریعہ مدد کی _اور ان کے ذریعہ سے ان کی تعداد بڑھائی اور فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ وہ لڑیں اور مشرکین کا سر قلم کریں نیز ان کے دلوں میں رعب ، دہشت اور دھاک بٹھادیں _خدا نے بھی جنگ کے شروع ہونے کے بعد پیش آنے والے اس آخری مرحلہ کا ذکر اس آیت میں یوں کیا ہے:

( اذ یوحی ربک الی الملا ئکة انی معکم فثبتواالذین

____________________

۱) بلاغات النساء ص ۲۵ مطبوعہ النہضة الحدیثہ و اعلام النساء ج ۴ ص ۱۱۷_

۲۹۴

آمنو سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فاضربوا فوق الا عناق و اضربوا منهم کل بنان ) (۱)

''(وہ وقت یادکرو )جب تمہارے پروردگارنے فرشتوں سے کہا کہ میں تمہارا پشت پناہ ہوں (تم جاکر ) مؤمنوں کا دل بڑھا ؤ،میں بھی کافروں کے دل میں دہشت پیدا کردوں گا پھر تم انہیں ہر طرف سے مارکر ان کی گردن ہی ماردو''_

اور یہ بات واضح ہے کہ ڈرپوک اور بزدل دشمن پر چڑھائی چاہے وہ کتنا ہی طاقتور ہو اس کمزور دشمن پر حملہ سے زیادہ آسان ہے جو موت سے بے پروا ہو کر خود ہی حملہ آور ہو_پس یہ معرکہ جنگجوؤںکا سامنا کرنے سے کترانے والے مشرکوں کے حق میں نہیں بلکہ مسلمانوں کے حق میں تھا_ اس بنا پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ خود مشرکین بھی مشرکین کے خلاف لٹررہے تھے اور یہ بات حضرت علیعليه‌السلام کے اس فرمان کی تشریح اور تفسیر ہے کہ ''میرا سامنا جس سے بھی ہوا اس نے اپنے خلاف میری مددکی (اپنے آپ کو میرے حوالہ کردیا)''(۲) اور فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا ایک اور پہلو بھی تھا جس کا ملاحظہ بھی نہایت ضروری ہے _اور وہ یہ ہے کہ چونکہ یہ ممکن تھا کہ بعض مسلمانوں کے ایمان اور یقین کا درجہ بلند نہ ہوتا اور اس جنگ میں ان کا یقین اورمان ٹوٹ جاتا یا کم از کم ان کا ایمان کمزورہو جاتا اس لئے خدا نے مسلمانوں پر لطف و کرم کرتے ہوئے ان کی فرشتوں سے مدد کی تا کہ وہ انہیں جیت کی خوشخبری دیں ،ان کا دل بڑھائیں اور جنگ کے آغاز میں ان کی آنکھوں میں مشرکوںکو گھٹا کرد کھائیںجس سے وہ جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں _اس کے علاوہ خدا کے فضل سے فرشتوں کی مدد کے اور طریقے بھی تھے _ان باتوں سے اس بات کی وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ کیوں مشرکین کے مقتولین کی تعداد شہداء اسلام سے کئی گنا زیادہ تھی اور ان کے ستر افراد بھی قید کر لئے گئے حالانکہ مسلمانوں کا کوئی بھی فردگرفتار نہیں ہوا_اور اس مدد کے نتائج صرف جنگ بدرتک ہی محدودنہیں تھے بلکہ ایمان اور کفر کے درمیان ہر جنگ میں ایسے نتائج ظاہر ہوئے اور واقعہ کربلا بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے _

____________________

۱)انفال/۱۲_

۲)نہج البلا غہ حکمت ۳۱۸_

۲۹۵

د: انصار کے خلاف قریش کا کینہ

۱_ ابوجہل کی گذشتہ باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ قریش انصار کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے تھے حتی کہ ابو جہل نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تھا کہ انصار کو گا جر مولی کی طرح کاٹ کررکھ دو لیکن قریشیوں کی بہ نسبت ان کا موقف مختلف تھا _کیونکہ ابو جہل نے ان کے متعلق کہا تھاکہ ان کی مشکیں اچھی طرح کس کر انہیں مکہ لے جاؤتا کہ وہاںانہیں ان کی گمراہی کا مزہ چکھا یا جائے _شاید مشرکوں نے قریشیوں سے اپنے پرانے تعلقات بحال رکھنے کے لئے ان کے خلاف یہ موقف اپنا یا ہو کیونکہ ہر قریشی مسلمان کا مکہ میں کوئی نہ کوئی رشتہ دار موجود تھا _اور وہ اپنے رشتہ دار کے قتل پر راضی نہیں ہو سکتے تھے چاہے وہ ان کے عقیدے اور مذہب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو _اور یہی قبائلی طرز فکرہی تو تھا جواتنے سخت اور مشکل حالات میں بھی مشرکین کی سوچوں پر حاوی اور ان کے تعلقات اور موقف پر حاکم تھا _

۲_ہم یہ تو جان چکے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور مسلمانوں کو پناہ اور مدد دینے والے انصار کے خلاف قریش کا کینہ نہایت عروج پر تھا اور ان کے کینے کی دیگ بری طرح ابل رہی تھی _اس بات کا تذکرہ ابو جہل نے سعد بن معاذ سے کسی زمانے میں (شاید بیعت عقبہ یا سعد کے حج کرنے کے موقع پر_مترجم)کیا بھی تھا اور اب وہ یثرب والوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے آیاتھا _لیکن ہم یہ بھی ملاحظہ کرتے ہیں کہ ان کے دل میں یہ کینہ کئی دہائیوں تک رہا بلکہ سقیفہ کے غم ناک حادثے میں انصار کی خلافت کے معاملے میں قریش کی مخالفت اوردوسروں کی بہ نسبت حضرت علی علیہ السلام کی طرف انصار کے رجحان نے اس جلتی پر تیل کا کام کیا _اور یہ کینہ مزیدجڑپکڑگیا کیونکہ انہوں نے ہراس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کا ساتھ دیا جس میں قریشی آپ کے مد مقابل تھے(۱) حتی کہ جنگ صفین میں معاویہ کو نعمان بن بشیر اور مسلمہ بن مخلدسے کہنا پڑا:''اوس اور خزرج کی طرف سے پہنچنے والی زک سے مجھے بہت دکھ اور نقصان اٹھانا پڑاہے _وہ اپنی تلواریں گردن میں حمائل کرکے جنگ کا مطالبہ کرنے آکھڑے ہوتے ہیں _حتی کہ انہوں نے میرے شیر

____________________

۱)ملاحظہ ہو :المصنف ج۵ص۴۵۶وص۴۵۸ودیگر کتب_

۲۹۶

کی طرح بہادر ساتھیوں کو بھی چو ہے کی طرح ڈرپوک بنا کرر کھ دیا ہے _حتی کہ خدا کی قسم میں اپنے جس شامی جنگجو کے متعلق بھی پوچھتا ہوں تو مجھے یہ کہا جاتا ہے اسے انصار نے قتل کردیا ہے_اب خدا کی قسم میں ان سے بھر پور جنگ کروں گا ''(۱) اسی طرح نعمان بن بشیر نے انصار کے ساتھ اپنی ایک گفتگو میں کہا ،''جب بھی (حضرت علیعليه‌السلام پر)کوئی مشکل آن پڑی تم لوگوں نے ہی ان کی یہ مشکل آسان کی ہے''(۲) اسی طرح بنی امیہ کے بزرگ عثمان بن عفان کے خلاف انصار کے موقف اور اس کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں ان کے فعال اور مؤثر کردار نے قریش کے ان کے خلاف کینے کو مزید ہوادی _حتی کہ معاویہ نے اس کے غم میں مندرجہ ذیل شعر کہا :(گرچہ یہ واضح ہے کہ عثمان پراس کا رونا دھونا اس کے سیاسی مقاصد کے تحت تھا و گرنہ عثمان سے اسے کوئی بھی ہمدردی نہیں تھی ) _

لاتحسبوا اننی انسی مصیبته

و فی البلاد من الا نصار من احد(۳)

یہ کبھی مت سوچنا کہ روئے زمین پر کسی ایک انصار ی کے ہوتے ہوئے میں عثمان کا غم بھول جاؤ ں گا_

بہر حال معاویہ سے جتنا بھی ہو سکتا تھا اس نے انصار کے خلاف اپنے د ل کی بھڑ اس نکالی لیکن پھر اس کے بعداس نا بکار کے ناخلف یزید نے کربلا میں اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شہید کرنے کے بعد ''واقعہ حرہ'' میںانصار سے نہایت برا اور شرمناک انتقام لیا تھا(۴)

احمد بن حنبل نے بھی ابن عمر کی ایک بات نقل کی ہے جس کے مطابق وہ اہل بدر کے مہاجرین کو ہر موقع پر اہل بدر کے انصار پر ترجیح دیا کرتاتھا البتہ اس بارے میں ''جنگ بدر سے پہلے کی لڑائیاں ''کی فصل میں

____________________

۱) شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج۸ ص ۸۴و ص۸۵نیز ملاحظہ ہو ص ۴۴و ص۸۷)_

۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی ا لحدیدج ۸ص۸۸_

۳)شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج ۸ ص ۴۴_

۴)ملاحظہ ہو تاریخ الامم و الملوک ، الکامل فی التاریخ اور دیگر کتابوں میں واقعہ حرہ _

۲۹۷

''جنگ میں مہاجرین کو پہلے بھیجنے کی وجوہات ''میں یہ بحث ہو چکی ہے _اس موضوع کے سیر حاصل مطالعہ کے لئے وہاں مراجعہ فرمائیں_

۳_ایک اور پہلو سے اگر دیکھا جائے تو قریش اس جنگ میں انصار کو ایسا یادگار سابق سکھا نا چاہتے تھے کہ وہ پھر کبھی ان کے دشمنوں سے گٹھ جوڑکرنے کا ارادہ بھی نہ کر سکیںقریش کی نظر میں انصار کا یہی جرم ہی کافی تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کو اتنی طاقت اور قوت فراہم کردی تھی کہ وہ ان کے مقابلہ میں آنے کی جرات کربیٹھے_اسی لئے ابو جہل (جسے پہلے اپنی کامیابی کا پورا یقین تھا )نے اپنے سپاہیوں کو انتہائی سخت حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ مکیوں کے ہا تھ سے کوئی بھی (یثربی )انصاری نہ چھوٹنے پائے (اور سب کا قلع قمع کردیا جائے )_آخر میں یہ اضافہ بھی کرتے چلیں کہ مدینہ والے قحطانی نسل کے تھے جبکہ مکہ والے عدنانی نسل کے تھے (اور دیگر تعصبات کے علاوہ اس میں نسلی تعصب بھی شامل تھا )_

پہلے اہل بیتعليه‌السلام کیوں ؟

اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ دیگر تمام لوگوں سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے اہل بیتعليه‌السلام کو جنگ میں بھیجنے کا راز ہماری گذشتہ تمام معروضات ہوسکتی ہیںتا کہ سب سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی اور اپنے اہل بیتعليه‌السلام کی قربانی پیش کریں _ اسی لئے تاریخ ،حضرت علیعليه‌السلام ،حضرت حمزہعليه‌السلام ،حضرت جعفرعليه‌السلام اور اس دین سے نہایت مخلص آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر بہترین صحابیوںکے کرداراور بہادر یوںکو ہرگز فراموش نہیں کر سکتی بلکہ یہ تا ابد یادگار رہیں گی_پس حضرت علیعليه‌السلام اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گھرانہ اسلام کی مضبوط ڈھال تھے اور خدا نے ان کے ذریعہ دین کو بھی بچایا اورانصار کے خلاف قریش (جن کی اکثریت اسلام دشمن تھی )کے کینے کی شدت کو بھی کم کیا _یہ سب کچھ انصار کا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے تھا ،کیونکہ انصار اور اسلام کے خلاف قریش کے کینے نے مستقبل میں ان دونوں پر سخت ، گہرے اور برے اثرات مرتب کئے _

۲۹۸

ھ:حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے گھرانے پر جنگ بدر کے اثرات :

ہم پہلے یہ بتا چکے ہیں کہ اکثر مشرکین ،مہاجرین خاص کر امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے چچا حمزہ کے ہا تھوں واصل جہنم ہوئے _اور یہ بھی بتاچکے ہیں کہ حضرت علیعليه‌السلام نے بذات خود پینتیس سے زیادہ مشرکوں کوفی النار کیا تھا اور باقیوںکو قتل کرنے میں بھی دوسروں کا ہا تھ بٹا یا تھا_

اس بات سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ قریش چاہے جتنا بھی اسلام کا مظاہرہ کرتے رہیں ،اسلام کے ذریعہ جتنا بھی مال و مقام حاصل کرتے رہیں اور چاہے حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے گھرانے سے محبت اور مودت کی جتنی بھی آیات اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے مروی روایات دیکھتے رہیںپھر بھی وہ حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے گھرانے سے کبھی بھی محبت نہیں کر سکتے تھے _

حاکم نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ ایک مرتبہ عباس غضبناک چہرے کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میںآیا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا :''کیا بات ہے ؟''اس سوال پر اس نے کہا :''ہمارا قریش سے کوئی جھگڑاہے کیا؟''_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''تمہارا قریش سے جھگڑا؟''اس نے کہا :''ہاں جب وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑے تپاک سے ملتے ہیں لیکن ہمیں بے دلی سے ملتے ہیں ''_یہ سن کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اتنے سخت غضبناک ہوئے کہ غصہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں کے در میان والی رگ ابھر آئی _پھر جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ ٹھنڈاہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں (حضرت)محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان ہے، جب تک کوئی شخص خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خاطر تم لوگوں سے محبت نہیں کرے گا تب تک اس کے دل میں ایمان داخل ہوہی نہیں سکتا''(۱) اسی طرح حضرت علیعليه‌السلام نے بھی قریش کا شکوہ کرتے ہوئے فرمایا تھا :''انہوں نے ہم سے قطع تعلق اور ہمارے دشمنوں سے گٹھ جوڑ کر لیا ہے ''(۲) انشاء اللہ جنگ احد کی گفتگو میں اس کی طرف بھی اشارہ کریں گے _

____________________

۱)مستدرک حاکم ج ۳ ص ۳۳۳ نیز تلخیص مستدرک ذہبی اسی صفحہ کے حاشیہ پر،مجمع الزوائد ج ۹ص ۲۶۹و حیاة الصحابہ ج ۲ص ۴۸۷و ص ۴۸۸ ازگذشتہ منابع _

۲)البتہ اگر یہ صدمے کسی معصوم رہنما کو سہنے پڑیں تو وہ اپنی تدبیر ،فراست اور خداداد علم ،عقل اور صبرسے انہیں برداشت کر لیتا ہے اور پائیداری دکھاتا ہے _دوسرے لوگ یہ تکلیفیں نہیں جھیل سکتے اور ان کے لئے انہیں جھیلنے اور ان سے سرخرو ہو کر باہر آنے کے لئے کوئی مناسب راہ حل نہیں ہوتا _اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر موقع پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا صرف حضرت علیعليه‌السلام کوہی آگے کرتے اور انہیں قریش کا سامنا کرنے کی پر زور تاکید کرتے تھے_

۲۹۹

ابن عباس سے مروی ہے کہ عثمان نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا :''اگر قریشی تمہیں نا پسند کرتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟تمہی نے تو ان کے ستر جنگجو افراد کو تہہ تیغ کیا ہے جس کی وجہ سے اب ان کے چہرے (غصہ کی وجہ سے )دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح ہو گئے ہیں ''(۱) اس کے علاوہ ،صاحبان احلاف (ابو سفیان پارٹی )بدر اور احد و غیرہ کے اپنے مقتولین کا بدلہ لینے کے لئے ہر وقت موقع اور فرصت کی تلاش میں رہتے تھے _وہ جنگ جمل اور صفین میں تو ناکام ہو گئے لیکن انہیں اپنے زعم باطل میں واقعہ کربلا میں اس کا اچھا موقع مل گیا تھا _پھر تو انہوں نے اہل بیتعليه‌السلام اور ان کے شیعوں پر ظلم و ستم کی انتہا ہی کردی _وہاں ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس موقع پر یزید نابکار اپنے کفر اور مذکورہ جذبات کو نہ چھپا سکا _کیونکہ اس نے یہ جنگ ،بدر کے اپنے بزرگ مقتولین کا بدلہ لینے کے لئے لڑی تھی اور اس میں وہ اپنی خام خیالی میں کامیاب ہوگیا تھا_ وہ اس کے بعد ابن زبعری کے کفریہ اشعار بھی پڑھتا تھا اور اس میں وحی و نبوت کے انکار پر مشتمل اپنے اشعار کا اضافہ بھی کرتا تھا _ وہ نا بکار ،جوانان جنت کے سردار اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نوا سے حضرت امام حسین علیہ السلام کے دندان مبارک پر چھڑی سے وار کرتے ہوئے یہ اشعار کہتا تھا :

لیت اشیاخی ببدر شهدوا

جزع الخزرج من وقع الا سل

لا هلو و استهلوا فرحاً

ثم قالوا یا یزید لا تشل

قد قتلنا القرم من اشیاخهم

و عدلنا ه ببدر فاعتدل

لعبت هاشم بالملک فلا

____________________

۱)معرفة الصحابہ ابو نعیم ورقہ ،۲۲مخطوط در کتابخانہ طوپ قپو سرای کتاب نمبر ۱/۴۹۷و شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج ۹ ص ۲۲_

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

سنان ابن انس کو قاتلِ امام حسین(ع) بتانا

چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی نے انہیں روایتوں کو شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۲۰۸ ( مطبوعہ مصر) میں کتاب غارات ابن ہلال ثقفی سے نقل کیا ہے، یہاں تک کہ کہتے ہی ایک شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:

" اخبرني‏ بما في‏ رأسي‏ و لحيتي من طاقة شعر "

یعنی میرے سر اور ڈاڑھی کے بالوں کے متعلق مجھ کو خبر دیجئے۔

حضرت نے فرمایا کہ میرے خلیل حضرت رسول خدا(ص) نے مجھ کو خبر دی ہے کہ تیرے سر کے ہر بال کی جڑ میں ایک فرشتہ ہے جو تجھ پر لعنت کرتا ہے اور تیرے ہر بال کی جڑ میں ایک شیطان ہے جو تجھ کو بہکاتا ہے اور تیرے گھر میں ایک گوسالہ ہے جو فرزند رسول کو قتل کریگا یہ شخص انس نخعی تھا جس کا بیٹا سنان اس وقت کم سن تھا اور گھر میں کھیل کود رہا تھا اور پھر سنہ۶۱ہجری میں کربلا پہنچ کر امام حسین علیہ السلام کا قاتل بنا(بعض کا قول ہے کہ سوال کرنے والا سعد ابن ابیوقاص تھا اور اس کا پسر گوسالہ عمر ابن سعد ملعون تھا جو فوج یزید کا سردار اور کربلا کے عظیم سانحےکا برپا کرنے والا تھا) یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں نے دو مختلف جلسوں میں سوال کیا ہو۔

حضرت نے ان روایات کے ذریعے بخوبی سمجھا دیا کہ میرے علم کا سر چشمہ پیغمبر(ص) کی ذات ہے اور م یں امور غیب پر عبور رکھتا ہوں۔

علمداری حبیب بن عمار کی خبر

آپ کے اکابر علمائ جیسے امام احمد حنبل نے مسند میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۲۰۸ میں نقل کیا ہے کہ خلافت ظاہری کے زمانہ میں ایک روز آپ مسجد کوفہ میں بیٹھے ہوۓ تھے اور اصحاب چاروں طرف جمع تھے ایک شخص نے کہا خالد ابن عویطہ نے وادی القربی میں انتقال کیا۔ آپ نے فرمایا:

"لَمْ‏ يَمُتْ‏ وَ لَا يَمُوتُ‏ حَتَّى يَقُودَ جَيْشَ ضَلَالَةٍ صَاحِبُ لِوَائِهِ حَبِيبُ بْنُ جَمَّازٍ "

یعنی وہ نہیں مرا ہے اور نہیں مرےگا یہاں تک کہ لشکر ضلالت و گمراہی کا سردار ہو اور اس کا علمدار حبیب ابن عمار ہوگا۔

ایک جوان مجمع سے اٹھا اور اس نے عرض کیا یا امیرالمومنین(ع) حبیب ابن عمار میں ہوں اور آپ کے سچے اور خالص دوستون میں سے ہوں۔ حضرت نے فرمایا یہ میں نے جھوٹ کہا ہے اور نہ کہوں گا، گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ خالد لشکر ضلالت و گمراہی کا سردار ہے اور تو اس کا علمدار ہے، تم لوگ مسجد کے اس دروازے سے ( باب الفیل کی طرف اشارہ( داخل ہوگے اور علم کا پھریرا مسجد کے درواز ے سے لڑکر پھٹ جاۓ گا۔

امیرالمومنین علیہ السلام کی اس پیشن گوئی کو برسوں گزر گئے، یہاں تک کہ یزیز پلید کے دور خلافت میں عبداللہ

۳۲۱

ابن زیاد ملعون کوفہ کا حاکم ہوا اور حضرت سید الشہداء علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لئے بڑی بڑی فوجیں بھیجنا شروع کیں۔ جن لوگوں نے حضرت سے خالد اور حبیب ابن عمار کی پیشین گوئی سنی تھی ان میں سے اکثر افراد ایک روز مسجد میں اکٹھا تھے کہ لشکر والوں کے شور وغل اور نعروں کی آوازیں بلند ہوئیں( چونکہ پہلے اجتماعات کے مرکز مسجد میں ہوا کرتی تھیں۔لہذا فوجی سپاہی اپنی نمائش کے لئے مسجد میں آکر خروج کرتے تھے) ان لوگوں نے دیکھا کہ خالد ابن عویطہ جو لشکر ضلالت اثر کا سردار ہے اور فرزند رسول سے جنگ کرنے کے لئے کربلا جارہا ہے نمائش کے لئے اسی باب الفیل سے داخل ہوا اور حبیب ابن عمار اس کا علمدار ہے۔ مسجد کے اندر داخل ہوتے ہوۓ اس کے علم کا پھریرا دروازے سے لڑکر پھٹ گیا تاکہ حضرت علی علیہ السلام کی سچائی اور علم کی گہرائی منافقین پر ثابت ہوجاۓ۔

آیا وقوع سے قبل ایسی علامت اور شناخت کے ساتھ اس واقعے کی خبر دینا علم غیب کا ثبوت نہیں تھا جو آپ حضرات کو یقین کرنے پر مجبور کرے؟

غیبی خبریں: اگر آپ نہج البلاغہ کو جو حضرت علی(ع) کے خطبات اور کلمات کامجموعہ ہے غور سے پڑھیں تو نظر آئیگا کہ اہم حادثات و فسادات، بڑے بڑے سلاطین کے حالات، صاحب زنج کے خروج، مغلوں کے غلبے چنگیز خان کی سلطنت، خلفاۓ جور کے حالات و واقعات اور شیعوں کے ساتھ ان کےطرز عم کے متعلق حضرت نے بکثرت غیبی خبریں دی ہیں، بالخصوص ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول میں ص۲۰۸ سے ص۲۱۱ تک ان کو تفصیل سے بیان کیا ہے، اور خواجہ بزرگ بلخی حنفی نے بھی ینابیع المودت باب۱۴ کے شروع میں ان سے بعض خطبوں اور پیشین گوئیوں کے ذریعے حضرت کی کثرت علم پر استشہاد کیا ہے۔ ان کے مطالعے سے آپ کے اوپر حقیقت منکشف ہوجاۓ گی۔

معاویہ کے غلبےاور مظالم کی خبر

من جملہ ان کے اہل کوفہ کو ان کے اوپر معاویہ کے غلبے اور حضرت(ع) پر سب وشتم اور لعنت کرنے کا حکم نافذ کرنے کی خبر دی گئی ہے، چنانچہ بعد کو یہ ساری باتیں لفظ بلفظ صحیح اتریں۔ مثلا فرمایا ہے کہ:

"أَمَّا إِنَّهُ سَيَظْهَرُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي رَجُلٌ‏ رَحْبُ‏ الْبُلْعُومِ‏ مُنْدَحِقُ الْبَطْنِ‏ يَأْكُلُ مَا يَجِدُ وَ يَطْلُبُ مَا لَا يَجِدُ فَاقْتُلُوهُ وَ لَنْ تَقْتُلُوهُ أَلَا وَ إِنَّهُ سَيَأْمُرُكُمْ بِسَبِّي وَ الْبَرَاءَةِ مِنِّي فَأَمَّا السَّبُّ فَسُبُّونِي فَإِنَّهُ لِي زَكَاةٌ وَ لَكُمْ نَجَاةٌ وَ أَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَ سَبَقْتُ إِلَى الْإِيمَانِ وَ الْهِجْرَةِ"

۳۲۲

یعنی عنقریب میرے بعد تمہارے اوپر ایک ایسا شخص غالب ہوگا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ نکلا ہوا ہوگا جو پائیگا کھا جاۓ گا اورجو کچھ نہ پائیگا اس کا مطالبہ کرے گا، پس اس کو قتل کر ڈالنا اور تم اس کو ہرگز قتل نہ کرو گے۔ یقینا وہ عنقریب مجھ کو دشنام دینے اور مجھ سے بیزاری اختیار کرنے کے لئے تم کو حکم دے گا، پس دشنام دیئے کے لئے میں تم کو اجازت دیتا ہوں کیونکہ وہ (ایک زبانی چیز ہے لہذا، میرے لئے پاکیزگی اور تمہارے لئے (اس شخص کے ضرر سے( نجات کا باعث ہے لیکن برائت و بیزاری ( چونکہ قلبی چیز ہے) پس مجھ سے بیزاری اختیار نہ کرنا کیونکہ میں فطرت (اسلام و توحید) پر پیدا ہوا ہوں(یہ جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت کے والدین مومن تھے) اور میں نے ایمان و ہجرت کی طرف پیش قدمی کی ہے)(۱)

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص ۳۵۶ (مطبوعہ مصر )میں اورآپ کے دوسرے اکابر تصدیق کرتے ہیں کہ یہ معاویہ ابن ابی سفیان تھے کیونکہ جب ان کا غلبہ ہوا اور ان کی خلافت کی چولیں بیٹھ گئیں تو لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام پر لعنت اور سب وشتم کرنے اور حضرت سے بیزاری اختیار کرنے کا حکم دیا ۔ یہ عمل شنیع مسلمانوں کے اندر اسی سال رائج رہا اور محراب ومنبر اور نماز جمعہ کے خطبے میں برابر حضرت پر سب ولعن کی جاتی رہی ، یہاں تک کہ جب عمر ابن عبد العزیزاموی کا زمانہ آیا تو انہوں نے اپنے حسن تدبیر سے اس بدعت سیئہ کوبرطرف کوبرطرف کیا اور لوگوں کو اس بدترین عمل سے منع کیا -

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ پر خور آدمی سے حضرت نے معاویہ کو مرد لیا ہے، چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۳۳۵(مطبوعہ مصر) میں کہتے ہیں کہ اس سے معاویہ پر خور مراد ہیں کیوں کہ تاریخ کے اندر یہ اپنی پر خوری میں مشہور ہیں۔ "وکان یاکل فی الیوم سبع اکلات"( جیسا کہ زمخشری نے ربیع الابرار میں کہا ہے) یعنی ایک دن میں سات مرتبہ کھانا کھاتے تھے اور ہر مرتبہ اس قدر کھاتے تھے کہ دسترخوان کے کنارے لیٹ جاتے تھے اور آ واز دیتے کہ " یا غلام ارفع فواللہ ما شبعت ولکن مللت" یعنی اے غلام کھانا اٹھا لے جا، خدا کی قسم میں کھاتے کھاتے تھک گیا لیکن سیر نہیں ہوا۔ معاویہ کو جوع الکلاب کا مرض تھا( طب قدیم میں بتایا گیا ہے کہ ایسے شخص کے معدے میں ایک ایسی حرارت پیدا ہوجاتی ہے کہ جو غذا معدے میں پہنچتی ہے وہ بخار کی صورت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور اس کا کوئی نفع یا نقصان ظاہر نہیں ہوتا) ان کی پر خوری عرب میں ضرب المثل بن گئی تھی اور ہر زیادہ کھانے والے کو ان سے مثال دی جاتی تھی۔ ایک شاعر نے اپنے ایک ایسے ہی دوست کی کیا پرلطف ہجوکی ہے وہ کہتا ہے۔ ؎

وصاحب‏لي‏بطنه‏كالهاويةكأنفيأمعائه معاوية

یعنی میرا ایک رفیق ہے جس کا شکم مثل معاویہ کے ہے( ہاویہ جہنم کا ایک طبقہ ہے اور جہنم کفار کی کثرت سے سیر نہیں ہوتا جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ جہنم سے کہا جاۓ گا" ہل امتلئت فتقولی ہل من مزید" یعنی کیا تو سیر ہوگئی؟ تو کہے گی کہ آیا اور زیادہ ہے؟ مطلب یہ کہ مجھ کو سیری نہیں ہوسکتی) (اس کی خوراک اتنی زبردست ہے گویا) اس کی آنتوں میں معاویہ جی اترے ہوۓ ہیں۔

۳۲۳

چونکہ اس قبیح و شنیع فعل کی خبر حضرت نے پہلے ہی دے دی تھی لہذا آپ کو بھی اعتراف کرنا چاہیئے کہ امیرالمومنین علیہ السلام عام غیب تھے اور علم لدنی کے ذریعہ آئندہ ہونے والے واقعات سے بخوبی آگاہ تھے۔ حضرت(ع) نے بہترین پیشین گوئیاں فرمائی ہیں جو لوگوں نے برسوں اور صدیوں کے بعد پوری ہوتے دیکھیں۔

قتل ذوالثدیہ کی پیشین گوئی

جنگ نہروان میں لڑائی چھڑنے سے پہلے ہی خوارج اور تزملا معروف بر ذوالثدیہ کے قتل کی خبر دے دی تھی اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ خوارج میں سے دس نفر بھی نہیں بچیں گے اور مسلمانوں میں سے دس نفر بھی قتل نہیں ہوں گے۔ عبارت یہ ہے:

" لا یفلت منه معشرةولایهلک منک معشرة"

چنانچہ ابن ابی الحدید اور خواجہ بزرگ بلخی وغیرہ نے نقل کیا کہ آپ نے جو کچھ فرمایا تھا وہ حروف بحروف پورا ہوا۔ بالخصوص ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول مطبوعہ مصر کے ص۴۲۵ پر اس روایت کے ذیل میں کہتے ہیں:

"هذاالخبرمن اخبارالتی تکادتکون متواترةلاشتهاره ونقلالناسکافةوهومن معجزاته"

یعنی یہ روایت ان اخبار میں سے ہے جوقریب بہ تواتر ہیں، کیونکہ اس کو کافی شہرت حاصل ہے۔ اور سبھی لوگوں نے اس کو نقل کیا ہے اور یہ حضرت(ص) کے معجزات میں سے ہے۔

آیا یہ باتیں غیب کی پیشینگوئی اور زمانہ آئیندہ کے حالات سے آگاہی کا ثبوت نہیں ہیں تاکہ آپ کا شبہ اور اشکال رفع ہو اور آپ حضرت کے مقام ولایت اور حقیقی منزلت کی معرفت حاصل کر کے انصاف کے ساتھ تصدیق کریں کہ حضرت اور دوسرے خلفائ کے درمیان بڑا فرق تھا؟ اگر حضرت علم لدنی کے حامل نہیں تھے اور ماوراۓ عالم طبیعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے تو ان غیبی امور کی خبر کیوں کر دیتے تھے جو برسوں اور صدیوں کے بعد واقع ہوتے تھے؟

مثلا عبیداللہ ابن زیاد کے ہاتھوں میثم تمار کے قتل ہونے، زیاد کے ہاتھوں جویریہ اور رشید ہجری کے مارنے جانے نیز معاویہ کے یاروں اور مددگاروں کے ہاتھوں عمرو بن حمق کے حادثے اور قتل کی پیشنگوئیاں اور سب سے بڑھ کے اپنے فرزند دلبند حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دینا۔ چنانچہ میں پہلے ہی اشارہ کرچکا ہوں کہ انس اور عمر سعد کو خبر دیتے ہوۓ حضرت نے اس واقعہ شہادت کا باربار ذکر فرمایا ہے، اور طبری، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۲۰۸ نیز دوسری کتابوں میں، محمد بن طلحہ شافعی، سیوطی، خطیب خوارزمی اور آپ کے دوسرے اکابر علمائ نے ان تمام روایتوں کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔

۳۲۴

اپنی شہادت اور ابن ملجم کی خبر

انہیں اخبار غیب میں سے یہ بھی ہے کہ اپنی شہادت کی خبر دے دی تھی اور عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کے متعلق اعلان فرمادیا تھا کہ یہ میرا قاتل ہے، حالانکہ وہ ملعون بظاہر آپ سے خلوص و وفاداری کا اظہار کرتا تھا۔ چنانچہ ابن کثیر نے اسد الغابہ جلد چہارم ص۲۵ میں اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے کہ یہ جس وقت حاضر خدمت ہوا تو اصحاب کے سامنے حضرت(ع) کی مدح سرائی شروع کی اور کہا ؎

أَنْتَ‏الْمُهَيْمِنُ‏وَالْمُهَذَّبُ ذُوالنَّدَى‏وَابْنُ الضَّرَاغِمِ فِي الطِّرَازِالْأَوَّلِ‏

اللَّهُ خَصَّكَ يَاوَصِيَّ مُحَمَّدٍوَحَبَاكَ فَضْلًافِي الْكِتَابِ الْمُنْزَلِ‏ الخ

یعنی آپ امام برحق، ہر عیب وریب سے پاک اور صاحب جود وسخا ہیں۔ اور ان شیرو دلیر آباد اجداد کے فرزند ہیں جو ابتدا ہی سے صفت شجاعت میں ممتاز ہیں۔

اے وصی پیغمبر(ص) اللہ نے آپ کو اس مرتبے کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے اور آپ کو وہ فضیلت وبزرگی عطا فرمائی ہے جو قرآن مجید کے اندر موجود ہے۔ تا آخر اشعار۔

تمام اصحاب نے اس کی زبان آوری اور حضرت سے اتنی شدید محبت پر تعجب کیا۔ حضرت نے جواب میں فرمایا:

أَنَاأَنْصَحُكَ‏مِنِّي بِالْوَدَادِمُكَاشَفَةً وَ أَنْتَ مِنَ الْأَعَادِي‏

یعنی میں تجھ کو نصیحت کرتا ہوں کہ مجھ سے کھلی ہوئی محبت کرے حالانکہ تو میرے دشمنوں سے ہے۔

نیز ابن حجر صواعق ص۸۲ میں کہتے ہیں کہ حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا ؎

أُرِيدُ حَيَاتَهُ وَ يُرِيدُ قَتْلِي‏عَذِيرَكَ مِنْ خَلِيلِكَ مِنْ مُرَادٍ.

یعنی میں اس کی زندگی چاہتا ہوں اور یہ میرے قتل کا خواہاں ہے یہ ظاہری دوست قبیلہ مراد سے ہے۔

عبدالرحمن نے عرض کیا کہ شاید آپ نے میرا نام سنا ہے اور میرا نام آپ کو ناگوار ہوا ہے؟ فرمایا۔ ایسا نہیں بلکہ میں بغیر کسی شک اور شبے کے جانتا ہوں کہ تو میرا قاتل ہے اور عنقریب میری اس سفید ڈاڑھی کو میرے سر کے خون سے خضاب کرے گا اس نے عرض کیاکہ اگر ایسا ہے تو آپ مجھے قتل کرا دیجئے۔ اور اصحاب نے بھی یہی اسرار کیا، لیکن حضرت نے فرمایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ میرا دین گناہ سے پہلے قصاص لینے کی اجازت نہیں دیتا۔

میرا علم مجھ کو صاف صاف بتا رہا ہے کہ تو میرا قاتل ہے لیکن احکام دین کا تعلق ظاہری اعمال سے ہے چونکہ ابھی تجھ سے تیری ظاہری حالت کے خلاف کوئی عمل سرزد نہیں ہوا ہے۔ لہذا میں شرعا تجھ پر کوئی حکم جاری نہیں

۳۲۵

کرسکتا۔

انگلینڈ کے مسٹر کارلائل اپنی کتاب الابطال میں کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب(ع) اپنی عدالت کی وجہ سے قتل ہوۓ یعنی اگر عدل و انصاف سے کام نہ لیتے اور گناہ سے قبل ہی قصاص لے لیتے تو قطعا آپ کا جسم محفوظ رہتا۔ چنانچہ دنیا کے سلاطین کوجونہی کسی شخص سے بدظنی پیدا ہوتی تھی چاہے وہ ان کا بیٹا، بھائی، بیوی یا اور کوئی قریب ترین عزیز ہی کیوں نہ ہو فورا اس کو فنا کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔

لیکن علی علیہ السلام وہ یکتا جوان مرد تھے جنہوں نے شریعت و دیانت کے دائرے سے قدم باہر نہیں رکھا باوجودیکہ قطعی اور یقینی طور سے اپنے قاتل کی نشان دہی فرمائی لیکن چونکہ ظاہر بظار اس سے جرم کا ارتکاب نہیں ہوا تھا لہذا قصاص نہیں لیا بلکہ اس کے ساتھ اتنہائی محبت و عنایت کا برتاؤ کرتے رہے یہاں تک کہ اس نے اپنی شقاوت ظاہر کردی اور یہ ثابت کر دکھایا کہ حضرت جملہ امور کے باطنی حقائق اور ان کے نتائج سے بخوبی واقف تھے۔

یہ واقعہ اپنی جگہ پر اس بات کی ایک اور دلیل ہے کہ عالم غیب سوا پیغمبر(ص) یا امام کے جو خطاؤں سے معصوم ہوتا ہے اور کوئی شخص نہیں ہوسکتا ہے، اس لئے کی اگر معصوم نہ ہوتو حقائق امور سے آگاہی رکھنے کی بنا پر اس سے کافی فساد اور فتنہ انگیزی کا امکان ہے۔ البتہ نبی یا امام چونکہ مرتبہ عصمت پر فائز ہوتا ہے( جیسے امیرالمومنین علیہ السلام) لہذا اپنے قاتل کو اچھی طرح جاننے پہچانے کے بعد بھی شرع انور کے حدود سے تجاوز نہیں کرتا اور قبل گناہ قصاص نہیں لیتا۔

آیا اسرار و حالات غیب پر حضرت کے علم و اطلاع کے لئے یہ دلائل کافی نہیں ہیں؟ کہ ایک جوان سفر طے کر کے آیا ہو اور ا نتہائی مسرت و گرم جوشی کے ساتھ دست بوسی کر کے مدح ثنا میں مشغول ہو پھر بھی حضرت فرمائیں کہ تو میرا قاتل ہے؟

بخدااگر کچھ بھی انصاف ہوتو ماننا پڑے گا کہ حضرت علی علیہ السلام علم ظاہر و باطن کے حامل تھے۔

علی علیہ السلام کی اعلمیت و افضلیت

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۱۴ کے شروع میں در المنظم ابن طلحہ شافعی سے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ؎

لقدحزت‏علم الاوّلين و انّنى‏ظنين بعلم الآخرين كتوم‏

و كاشف اسرار الغيوب بأسرهاو عندى حديث حادث و قديم‏

و انّي لقيّوم على كلّ قيّم‏محيط بكلّ العالمين عليم

۳۲۶

یعنی در حقیقت میں علم اولین پر حاوی ہوں، اور یقینا مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ میں علم آخرین کو چھپاتا ہوں، میں تمام اسرار غیب کا نکشاف کرنے والا ہوں اور میرے پاس ہر جدید و قدیم کی داستان موجود ہے۔ اورقطعا میں تمام موجودات پرفرمانروا ہوں اورمیرا علم ساری کائنات کو گھیرے ہوۓ ہے۔

اس کے بعد حضرت(ع) نے فرمایا:

"لو شئت لاوقرت من‏ تفسير الفاتحة سبعين بعيرا قال النبى انا مدينه العلم و على بابها قال اللَّه تعالى‏ وَ أْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوابِها فمن اراد العلم فعليه بالباب"

یعنی اگر میں چاہوں تو یقینا صرف سورہ فاتحہ کی تفسیر سے ستر اونٹ بار کردوں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے فرمایا ہے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، نیز خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہو۔ پس جو شخص علم کا طلب گار ہے اس کو دروازے سے آںا چاہیئے۔

اگر امیرالمومنین(ع) کی خلافت بلافصل اور دوسروں پر حضرت کی فوقیت کے ثبوت میں کوئی اور دلیل نہ ہوتی(حالانکہ عقل و نقل، کتاب وسنت اور اجماع سے بے شمار دلیلیں قائم ہیں جیسا کہ ہم گذشتہ شبوں میں بعض کی طرف اشارہ کرچکے ہیں) تو صرف یہی دو دلیلیں کافی تھیں۔

ایک حضرت کی اعلمیت و افضلیت ہے کیوں کہ عقل ومنطق کے قاعدے سےکوئی جاہل کسی عالم پر تقدم کا حق نہیں رکھتا اور حضرت کی اعلمیت و افضلیت دوست دشمن سبھی کے نزدیک ظاہر و آشکار ہے، حتی کہ ابن ابی الحدید کتاب کے خطبہ اول کے ضمن میں کہتے ہیں:

"المفضول علی الافضل " یعنی ایک پست انسان کو بلند ترین شخصیت پر فوقیت دی گئی۔

یہ عبارت حضرت کی افضلیت کا کھلا ہوا اقرار و اعتراف ہے، لیکن پھر بھی اپنی عادت اور تعصب کی بنا پر کہتے ہیں کہ خدا نے چاہا کہ ہر حیثیت سے مفضول(یعنی بالکل حقیر و بے مایہ شخص) کو افضل واکمل کے اوپر مقدم رکھے۔

حالانکہ ابن ابی الحدید جیسے عالم انسان کے قلم سے ایسا بیان اچھا نہیں معلوم ہوتا جو صاحبان علم و فضل اور ارباب منطق کے سامنے قابل اعتراض ٹھہرے اور وہ ہر عیب گیری کریں کہ انہوں نے علم و عقل اور منطق کے قاعدوں کے برخلاف عقیدہ ظاہر کیا ہے اور یہ پروردگار عالم کی ذات اقدس پر کھلی ہوئی تہمت ہے، کیونکہ خداۓ علیم و حکیم ہرگز کوئی کام عقل ومنطق کے خلاف نہیں کرتا اور کسی پست و مفضول کو بلند وفاضل پر بھی مقدم نہیں کرتا نہ کہ اعلم و افضل اور بلندترین ہستی پر جو شخص معمولی سا فہم وشعور بھی رکھتا ہے اور علم و منطق سے کچھ بھی بہرہ اندوز ہوتا ہے وہ افضل پر فاضل کو ترجیح دینے پر تیار نہیں ہوسکتا چہ جاۓ کہ افضل پر مفضول کو۔

۳۲۷

یہ کیونکر ممکن ہے کہ خداۓ علیم و حکیم کسی مفضول پر مقدم کرے در آں حالیکہ آیت نمبر۱۴ سورہ نمبر۳۹(زمر) بطریق استفہام انکاری خود ہی ارشاد فرمارہا ہو کہ:

" قُلْ هَلْ‏ يَسْتَوِي‏ الَّذِينَ‏ يَعْلَمُونَ وَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ"

یعنی آیا صاحبان علم و دانش جاہلوں کے برابر ہوسکتے ہیں۔

نیز آیت نمبر۳۶ سورہ نمبر۱۰(یونس) میں فرماتا ہے:

"أَفَمَن‏ يَهْدِي‏ إِلَى الْحَقّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّايَهِدّى إِلَّآ أَن يُهْدَى‏ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ".

یعنی آیا وہ شخص جو لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے پیروی کا زیادہ حق دار ہے یا وہ شخص جو خود ہی اس وقت تک رستہ نہ پاۓ جب تک اس کی ہدایت نہ کی جاۓ۔

پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد امت میں اعلمیت اور افضلیت کے لحاظ سے تقدم کا حق صرف امیرالمومنین علی علیہ السلام کو حاصل تھا اور ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۴ میں اس بات کا صاف صاف اقرار کیا ہے وہ کہتے ہیں:

"فانّه أفضل‏ البشر بعد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و أحقّ بالخلافة من جميع المسلمين"

یعنی در حقیقت علی علیہ السلام حضرت رسول خدا صلعم کے بعد تمام بشر سے افضل اور امر خلافت کے لئے سارے مسلمانوں سے زیادہ اولی و احق تھے۔

اور دوسری جو پہلی دلیل سے مربوط ہے وہ رسول خدا حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے ارشادات ہیں بالخصوص جیسا کہ اس حدیث کے آخر میں فرماتے ہیں:

" من‏ أراد العلم‏ فليأت الباب."یعنی جو شخص علم کا طلبگار ہو اس کو دروازے ( یعنی علی ابن ابی طالب(ع)) کی طرف جانا چاہیئے۔

آپ کو خدا کا واسطہ انصاف سے بتائیے کہ آیا وہ شخص اطاعت کے لئے زیادہ سزاوار و اولی ہے جس کے در پر حاضر ہونے کے لئے پیغمبر(ص) حکم دے رہے ہوں یا وہ شخص جس کو لوگوں نے اپنی راۓ سے خلیفہ بنالیا ہو؟ اول تو یہ پیغمبر(ص) کا حکم ہے جس کی اطاعت واجب ہے، دوسرے آں حضرت تقدم اور فوقیت کا سبب بھی معین فرمارہے ہیں جو وہی عقلی سبب یعنی اعلمیت ہے۔

شیخ: اگراعلمیت اور افضلیت کی جہت سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو حق تقدم تھا تو رسول اللہ(ص) کو ان جناب کے لئے نص کردینا چاہیئے تھا تاکہ امت کو معلوم ہوجاۓ کہ آپ کی پیروی فرض ہے، حالانکہ ایسی کوئی نص ہماری نظر

۳۲۸

سے نہیں گزری۔

خیر طلب: آپ جیسے عالم و فاضل حضرات سے ایسے بیانات سن کر مجھ کو سخت افسوس ہوتا ہے کہ آخر آپ کے اوپر عادت کا اتنا شدید اثر پڑجانے کی کیا وجہ ہے کہ وہ آپ کے علم و دانش اور حق پسندی کو بالکل ہی مقہور و مغلوب کردے۔

جناب محترم! آج مجھ کو دس راتیں ہو رہی ہیں کہ برابر آپ کی معتبر کتابوں سے دلائل و براہین اور نصوص واردہ کو جلسے کے سامنے پیش کرتا رہا ہوں جس پر جملہ حاضرین مجلس اور رسائل واخبارات گواہ ہیں، لیکن آج آپ پھرنئے سر سے بحث کا آغاز کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی نص نہیں دیکھی، در آں حالیکہ آپ کی ساری معتبر کتابیں جلی اور خفی نصوص کی کثرت سے چھلک رہی ہیں۔

باوجوداس کے میں تمام باتوں سے چشم پوشی کرتے ہوۓ آپ سے ایک سوال کرتا ہوں کہ آیا امت رسول اللہ صلعم کے علم و سیرت کی محتاج ہے یا نہیں؟

شیخ: کھلی ہوئی بات ہے کہ تمام صحابہ اور امت کو قیامت تک رسول خدا کے علوم عالیہ اور سیرت متعالیہ کی ضرورت ہے۔

خیر طلب: خدا آپ کوجزاۓ خیر دے۔ اگر خلافت و امامت کے بارے میں سوا اس حدیث مدینہ کے آں حضرت(ص) سے اور کوئی بھی نص صریح وارد نہ ہوتی تو یہ اثبات مقصد کے لئے کافی تھی کیونکہ صریحی طور پر سے فرمایا ہے:

"‏ أنا مدينة العلم و علي بابها و من‏ أراد العلم‏ فليأت الباب."

یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ جو شخص چاہتا ہے وہ اس کے دروازے پر آے۔

بقول پیغمبر(ص) علی(ع) اعلم امت تھے

کونسی نص اس حدیث سے زیادہ صریح و واضح ہوسکتی ہے کہ ارشاد ہوتا ہے جو شخص میرےعلم سے بہرہ اندوز ہونا چاہتا ہے اس کو علی(ع) کے دروازے پر جانا چاہیئے کیونکہ وہ میرے باب علم ہیں؟ اس وقت صبح ہونے والی ہے، ساری رات میں نے اس موضوع پر پوری گرم جوشی کے ساتھ گفتگو کی اور آپ حضرات کا وقت لیا لیکن آخر میں آپ نے میرا سارا ولولہ سرد کردیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اسلاف کے مانند آپ بھی عادتا کسی قاعدے کی بات پر کان نہیں دھرنا چاہتے اسی وجہ سے میری تمام تقریروں کو ان سنی کر کے نص سے انکار کر رہے ہیں۔

کون سی علم کی نص سے بالاتر ہوگی؟ سارے اقوام و مذہب کے اندر کون سے عالم و دانا شخص نے یہ کہا ہے، کہ عالم اور اعلم کے ہوتے ہوۓ بھی لوگوں کو جاہل کی پیروی کرنا چاہیئے؟ اگر دنیا کے اندر کسی علم و منطق میں ایسی بات کہی گئی ہو تو میں آپ کا نظریہ تسلیم کر لوں گا۔

۳۲۹

اور اگر عالم کے کسی گوشے میں اس منطق کا وجود نہ ہو کہ عالم اور اعلم کی موجودگی میں جاہل کی اطاعت فرض ہے تو آپ کو میرا کلیہ ماننا ہوگا جو میرا ہی نہیں بلکہ تمام اربابِ علم و دانش کا کلیہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام چونکہ اعلم امت تھے، لہذا علم و عقل اور منطق کے حکم سے آپ کا اتباع فرض ہے۔

چنانچہ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ آپ کے اکابر علماء جیسے امام احمدحنبل نے مسند میں، ابوالموید خوارزمی نے مناقب میں حافظ ابونعیم اصفہانی نے نزول القرآن فی علی میں، خواجہ بزرگ حنفی نے ینابیع المودت میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں یہاں تک کہ ابن حجر مکی نے صواعق میں نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکرر فرماتے تھے۔

" اعلمامتی علی ابن ابی طالب")یعنی میری امت میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔

صحابہ میں سے ایک فرد بھی حضرت کے علمی مرتبہ کو نہیں پہنچتے، جیسا کہ ابن مغازلی شافعی مناقب میں، محمد بن طلحہ مطالب السئول میں، حموینی فرائد میں شیخ سلیمان حنفی ینابیع المودت باب۱۴ میں، کلبی سے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن عباس(جرامت) نے کہا:

" علم النّبىّ صلى اللَّه عليه و آله و سلّم من علم اللَّه و علم علىّ من علم النّبىّ و علمى من علم علىّ و ما علمى و علم الصّحابة في علىّ الّا كقطرة بحر في سبعة ابحر".

یعنی رسول اللہ(ص) کا علم خدا کے علم سے، علی کا علم پیغمبر(ص) کے علم سے اور میرا علم علی(ع) کے علم سے ہے، اور میرا اور تمام صحابہ کاعلم علی(ع) کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے ساتوں سمندروں کے مقابلے میں ایک قطرہ۔

نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۰۸ کے آخرمیں ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:

" نَحْنُ‏ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ وَ مَحَطُّ الرِّسَالَةِ وَ مُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ وَ مَعَادِنُ الْعِلْمِ وَ يَنَابِيعُ الْحِكَمِ "

ینعی ہم ( ائمہ معصومین علیہم السلام) شجرۃ نبوت، رسالت کی منزل، فرشتوں کی جاۓ آمد و رفت، علم کے معدن اور حکمتوں کے چشمے ہیں۔

ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۲۳۶ ( مطبوعہ مصر) میں اس خطبے کی شرح کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ یہ امر حضرت کے اندر قطعی طور سے ثابت اور ظاہر ہے کیونکہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے:

"‏ أنا مدينة العلم و علي بابها و من‏ أراد العلم‏ فليأت الباب."

یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں اور جو شخص شہر کا ارادہ کرے وہ دروازے کے اوپر آۓ۔

۳۳۰

نیز فرمایا: "اقضاکم علی(ع)" یعنی تم سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی(ع) ہیں۔

فیصلہ اور قضا ایک ایسا کام ہے جس کے لئے بہت سے علوم ضروری ہیں، منجملہ ان کے۔

"و بالجملة فحاله‏ في‏ العلم‏ حالة رفيعة جدّا لم يلحقه أحد فيها و لا قاربه، و حقّ له أن يصف نفسه بأنّه معادن العلم، و ينابيع الحكم، فلا أحد أحقّ به منها بعد رسول اللّه- صلى اللّه عليه و آله-".

یعنی آپ کی علمی حیثیت اتنی زیادہ بلند ہے کہ کوئی شخص اس میں آپ کے برابری نہیں کرسکا، بلکہ کوئی شخص آپ کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ اور آپ کو اپنی یہ تعریف و توصیف کرنے کا حق حاصل ہے کہ ہم علم کے معدن اور حکمت کے چشمے ہیں پس رسول اللہ(ص) کے بعد کوئی ایک فرد بھی ان باتوں میں سے زیادہ حق نہیں رکھتا۔ انتہی۔

ابن عبدالبر نے استیعاب جلد سیم ص۳۸ میں، محمد بن طلحہ نے مطالب السئول ص۲۳ میں اور قاضی ایجی نے مواقف ص۲۷۶ میں روایت کی ہے کہ رسول خدا صلعم نے فرمایا:"اقضاکم علی "

چنانچہ سیوطی نے تاریخ الخلفاء ص۱۱۵ میں، حافظ ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص۶۵ میں، محمد جزری نے اسنی المطالب ص۱۴ میں، محمد بن سعد نے طبقات ص۴۵۹ میں، ابن کثیر نے تاریخ کبیر جلد ہفتم ص۳۵۹ میں ابن عبدالبر نے استیعاب جلد چہارم ص۳۸ میں خلیفہ عمر ابن خطاب سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے علی اقضافا یعنی علی(ع) امر قضاوت میں( جس کا مطلب ہے جملہ علوم و فنون کی مہارت میں) ہم سب سے بہتر اور مقدم ہیں۔

ینابیع المودت ص۶۹ میں نقل کرتے ہیں کہ صاحب در المنظم ابن طلحہ کہتے ہیں:

" اعلم ان جمیع اسرار الکتب السماویةفی القرآن وجمیع مافی القرآن فی الفاتحةوجمیع ما فی الفاتحةفی البسملةوجمیع ما فی البسلمةفی باءالبسملةوجمیع مافی باءالبسلمةفی النقطةالتی هی تحت الباءقال الامام علی کرم الله‏ وجهه‏ اناالنقطةالتی تحت الباء"

یعنی جان لو کہ حقیقتا تمام آسمانی کتابوں کے رموز و اسرار قرآن کے اندر ہیں، اور جو کچھ قرآن میں ہے وہ سب سورہ فاتحہ کے اندر ہے اور جو کچھ سورہ فاتحہ میں ہے وہ سببسم اللہ الرحمن الرحیم کے اندر ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ سب باۓ بسم اللہ کے اندر ہے اور جو کچھ باۓ بسماللہ میں ہے وہ سب اس نقطہ کے اندر سمٹا ہوا ہے جو باۓ بسم اللہ کے نیچے ہے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ میں وہ نقطہ ہوں جو باۓ بسم اللہ کے نیچے ہے۔

نیز سلیمان بلخی ینابیع المودت میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

۳۳۱

" أخذ بيدي الامام علي ليلة فخرج بي الى البقيع و قال: اقرأ يا ابن عباس فقرأت: بسم اللّه الرحمن الرحيم، فتكلم في أسرار الباء الى بزوغ الفجر."

یعنی ایک مرتبہ چاندنی رات میں عشا کے بعد حضرت علی علیہ السلام میرا ہاتھ پکڑ کے قبرستان بقیع کی طرف لے گئے اور فرمایا پڑھو اے عبداللہ، پس میں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کی اور آپ نے طلوع صبح تک مجھ سے باۓ بسم اللہ کے رموز و اسرار بیان فرماۓ۔

اس پر فریقین کا اتفاق ہے کہ اسرار غیب کےعالم اور علوم انبیائ(ع) کے وارث کی حیثیت سے امیرالمومنین علیہ الصلوۃ والسلام تمام صحابہ کے درمیان یکتا اور فرد تھے۔

چنانچہ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ میں در المنظم ابن طلحہ حلبی سے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے۔

" سلونی عن اسرار الغیوب فانی وارث علوم الانبیاء والمرسلین"

مجھ سے غیبی اسرار دریافت کرو کیوںکہ یقینا میں انبیاء و مرسلین کے علوم کا وارث ہوں۔

نیز امام احمد بن حنبل نے مسند میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور سلیمان بلخی نے ینابیع المودت میں نقل کیا ہے کہ حضرت بالاۓ منبر فرماتے تھے۔

"سلوني قبل أن تفقدوني، اسألوني عن‏ طرق‏ السموات‏، فإنّي أعرف بها مني بطرق الأرض"

یعنی پوچھ لو مجھ سے قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ، مجھ سے آسمانوں کی راہوں کے بارے میں دریافت کرو۔ کیونکہ یقینا میں زمین کی راہوں سے زیادہ ان سے واقف ہوں۔

حضرت(ع) کا یہ دعوی اس زمانے میں جب کہ آج کے مانند آسمانی سیر وسلوک کے وسائل مہیا نہیں تھے۔ غیبی حالات کی آگاہی پر ایک بہت بڑی دلیل ہے، چنانچہ لوگ بارہا اس قسم کےسوالات کرتے تھے اور حضرت آسمانوں اور فضائی کروں کے متعلق خبریں دیتے تھے۔

اس کے علاوہ جس زمانہ میں بطلیموس مصری کے علم ہیئت کا چرچا تھا لوگوں کو آج کی ہیئت جدید کے مطابق جوابات دیتا خود ایک بڑا معجزہ ہے۔

۳۳۲

ہیئت جدید کے مطابق فضائی کرات کی خبر

چنانچہ محقق و محدث شیخ علی ابن ابراہیم قمی قدس سرہ نے جو تیسری صدی ہجری میں ریاست علمی پر فائز تھے تفسیر سورہ والصافات میں، فاضل بغوی شیخ فخر الدین ابن طریح نجفی نے جن کو زہد و تقوی میں شہرت حاصل تھی اپنی مشہور و معروف کتاب لغت مجمع البحرین جو تقریبا تین سو سال قبل تالیف ہوئی ہے لغت کوکب کے ذیل اور علامہ ملا محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ نے بحارالانوار کی جلد ۱۴ " السماء والعالم" میں امیرالمومنین علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا:

"هَذِهِ‏ النُّجُومُ‏ الَّتِي‏ فِي‏ السَّمَاءِ مَدَائِنُ مِثْلُ الْمَدَائِنِ الَّتِي فِي الْأَرْضِ "

یعنی یہ ستارے جو آسمان میں ہیں ان بھی شہر آباد ہیں جس طرح زمین میں شہر موجود ہیں۔

خدا کے لئے انصاف کیجئے کہ ایک ایسے دور میں جب کہ دنیا کے اندر ہیئت جدید کا کوئی ذکر نہیں تھا ہیئت بطلیموسی بھی جس پر اس زمانہ کے صاحبان علم الافلاک کا دارو مدار تھا یہ بتاتی تھی کہ کواکب اور ستارے صرف اجرام نور اور آسمان کی میخیں ہیں اور آج کی رصدگاہیں اور دوربینیں بھی موجود نہیں تھیں جو کروں اور ستاروں کے حالات بتاتیں۔ اگر کوئی فرد بشر آسمانی کیفیات اورفضائی کرات کے متعلق کوئی خبر دے اور وہ بھی اس عل ہیئت کے مطابق جو ایک ہزار برس کے بعد علماء کے نزدیک ثابت ہوتو کیا آپ ایسے خبر دینے والے کو غیب کا عالم نہیں سمجھیں گے اور اس خبر کو اخبار غیب میں شمار نہیں کریں گے؟

اگر آپ اس تعلیم کے اخبار کے لئے جو آپ کے اکابر علماء کی کتابوں میں ائمہ اطہار علیہم السلام سے بکثرت مروی ہیں یہ کہنے کی کوشش کریں کہ یہ علم غیب نہیں ہے تو یہ اتنہائی بے لطفی کی بات ہوگی اور اس سے آپ کا پورا تعصب ظاہر ہوگا کیونکہ خبر خود ہی اس امر عظیم پر دلالت کرتی ہے اگر ملکوت اعلی اور کرات جویہ کے حالات بیان کئے جائیں جن کی کیفیت عام طور پر نگاہوں سے اوجھل تھی( یہاں تک کہ آج بھی جب کہ بہت طاقتیں دوربینیں موجود ہیں بغیر خاص حالات کے اس کو دیکھنا ممکن نہیں ہے) اور علوم جدیدہ بھی تیرہ سوسال بعد اس انکشاف کی حقیقت و نوعیت کی تصدیق کر رہے ہوں تو ماننا پڑے گا کہ یہ عالم غیب کیخبر تھی اور اعتراف کرنا پڑے گا کہ امام المسلمین امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام غیب کے عالم تھے جو بغیر کشف و انکشاف کے ان اسباب و وسائل کے جو اس زمانے میں ایجاد ہوۓ ہیں اپنی معمولی نظر سے عالم الملکوت کے اسرار کا جائزہ لے لیتے تھے۔

قطعی طور پر ایک نقطہ رس انسان ہزار سال کی یہ خبریں سنتے ہی فیصلہ کردے گا کہ خبر دینے والا عالم غیب تھا۔

۳۳۳

فرانسیسی مستشرق موسیوژئن سے گفتگو

موقع کے لحاظ سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرات کی اجازت سے ایک مطلب کی طرف اشارہ کردوں جو اسی سفر میں میرے سامنے آیا جس وقت ہم عراق عرب کے سدحدی شہر بصرہ سے وارملا جہاز میں سوار ہوۓ تو ہم درجہ اول کے جس کیبن میں تھے اس کے اندر سونے کی تین سیٹیں تھیں، اتفاق سے ایک فرانسیسی مستشرق موسیوژوئن بھی اسی درجہ میں تھے جو بڑے شریف و دانش مند اور فاضل و مہذب انسان تھے، باوجویکہ یہ فرانس کے رہنے والے تھے لیکن عربی اورفارسی بہت اچھی جانتے تھے لہذا ہم دونوں آپس میں کافی مانوس ہوگئے اور روزانہ علمی اور دینی گفتگو میں مصروف رہتے تھے۔

البتہ میری پوری کوشش تھی کہ اپنا فرض انجام دیتے ہوۓ ان بزرگوار کو مقدس دین اسلام اور مذہب حقہ، جعفری کے حقائق سے روشناس کراؤں۔

ایک روز دوران گفتگو میں انہوں نے کہا کہ مجھ کو اس کا اعتراف ہے کہ دین اسلام کے اندر کچھ ایسے خصوصیات ہیں جو دوسرے مذاہب میں نہیں ہیں، اس لئے کہ اسلام نے ہر مقام پر اور ہر کام میں اعتدال کو اپنا دستورالعمل بنایا ہے لیکن ساتھ ہی یہ نہ بھولئے کہ علمی انکشافات میں یورپ والے جو حضرت مسیح کے پاک دین کی پیروی کرتے ہیں سب سے آگے ہیں اور انہوں نے اپنی ترقی سے دنیا بھر کو ممنون احسان بنایا ہے۔

خیر طلب: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہل مغرب اور دوسروں نے بھی علمی انکشافات میں سعی بلیغ کی ہے، لیکن دیکھنا یہ چاہیئے کہ ان کے علمی تمدن کا سرچشمہ کہاں ہے اور علوم وفنون میں ان کے استاد و معلم کو ن سے لوگ تھے۔ چونکہ آپ خود ایک عالم و فاضل انسان ہیں اور ہر چیز کی حقیقت پر غور کرچکے ہیں لہذا یقینا آپ تصدیق کریں گے کہ مغرب والوں کے علوم و فنون کا سرچشمہ اسلام اور مسلمان تھے نہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے تعلیمات۔

کیونکہ تاریخی شہادت کے مطابق اہل مغرب آٹھویں صدی عیسوی تک وحشت و بربریت میں غرق تھے در آنحالیکہ اسی دور میں مسلمان علم و ہنر کے علمبردار تھے چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے ارنسٹ رنان فرانسیسی، انگلینڈ کے کارلائل اور جرمنی کے نور مال اس حقیقت کے معترف ہیں۔ اسی سفر میں جب میں زیارت کاظمین سے مشرف ہوا تھا تو ایک رات نواب محمد حسین خان صاحب قزلباش کا مہمان ہوا جو محترم قزلباش خاندان سے اور بہت شریف انسان ہیں برسوں سے کربلا اور کاظمین میں سکونت پذیر ہیں اور فی الحال سارے عراق عرب میںمعاون سفر ہیں۔ اتفاق سے تمدن اسلام کے بارے میں یورپ والوں کے اقرار و اعتراف کا ذکر آگیا تو موصوف نے فرمایا کہ ابھی بھی ایک فرانسیسی عالم کی کتاب کا اردو زبان ترجمہ ہوا ہے جس کی ایک جلد میرے پاس بھی آئی ہے۔ کتاب بہت عمدہ ہے۔ اور

۳۳۴

ہندوستان کے فاضل جلیل مولوی سید علی بلگرامی نے ترجمہ کیا ہے۔

اس کتاب کا نام" تمدن العرب" ہے اور بہت ضخیم مفصل اور استدلالی تالیف ہے۔ اس کے مولف طب اور حقوق و اقتصادیات کے ڈاکٹر اور یورپ کے مشہور عالم" گوسٹادلوبون" ہیں جنہوں نےتقریبا چار سو عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ اہل مغرب نے جس قدر علم و تمدن صنعتیں، حرفتیں، یہاں تک کہ تہذیب و معاشرت کا طریقہ، ملکی، مملکتی، فوجی اور صوبائی اداروں کی تشکیل اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے اصول حاصل کیئے ہیں وہ سب اہلِ عرب کے اعلی تعلیمات کا نتیجہ ہیں۔ ( بدیہی چیز ہے کہ یورپ والوں کے محاورے میں جیسا کہ اس عالم نے اپنی کتاب کا نام " تمدن العرب"رکھا ہے عرب سےمراد مسلمان عرب ہیں ورنہ اعراب قبل اسلام تو ہر علم و ادب سے عاری تھے)

موسیوژئن: ہاں وہ کتاب خود فاضل مولف ڈاکٹر گوسٹالوبون نے، پیرس میں مجھ کو دی تھی اور سچی بات یہ ہے کہ بہت محنت سے لکھی ہے اور خوب لکھی ہے۔

خیر طلب: نواب صاحب نے وہ کتاب مجھ کو عنایت فرمادی لیکن چونکہ میں اردو زبان نہیں جانتا تھا( اب ہندوستان) آنے کے بعد ضرورت رفع کرنے کے لئے کچھ سیکھ لی ہے) لہذا موصوف نے اس مبارک شہر میں میرے قیام کی مدت یعنی صرف دس روز کے اندر خصوصیت کے ساتھ دسویں باب کی دوسری فصل( مغرب میں تمدن اسلام کی تاثیر) کا پورا ترجمہ کر کے مجھ کو عطا فرمایا۔ میں صرف اس محبت سے بہت ممنون(۱) ہوا۔ میں نے وہ اوراق کھول کر اپنے ہمسفر فرانسیسی مستشرق صاحب کے سامنے پڑھے اور کہا ملاحظہ فرمایئے یہ آپ

کے ہموطن فرانسیسی عالم اور ڈاکٹر جن کے مرتبے کی بلندی آپ خود تسلیم کرتے ہیں اس فصل میں مذکورہ بالا حقیقت کا اقرار کرتے ہوۓ کیا فرماتے ہیں؟

یورپ میں تمدن اسلام کی تاثیر پر گوسٹاولوبوں کا بیان

تمدن اسلام نے جتنا اثر مشرق کے اوپر ڈالا اسی قدر مغرب بھی اس سے متاثر ہوا اور اسی ذریعہ سے یورپ تمدن میں داخل ہوا۔ اس تمدن نے مغرب کو جتنےاثرات بخشے ہیں اگر ہم ان کی جانچ کرنا چاہیں تو ہم کو دیکھنا ہوگا کہ مذکورہ تمدن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ اب مولوی سید محمد تقی فخر داعی گیلانی نے جو ایک ایرانی عالم ہیں تہران میں اس کتاب کا اردو سے فارسی میں ترجمہ کر کے چھپوا دیا ہے۔ حق یہ ہے کہ موصوف نے اسلامی علوم و معارف کی ایک بڑی خدمت کی ہے۔ کا شکر ہمارے علمائ اور اہل قلم ان سے سبق حاصل کرتے اور بجاۓ ناولوں اور مصر و یورپ وغیرہ کی اخلاق و عقائد کو بگاڑنے والی کابوں کا ترجمہکرنے کے اس قسم کے مفید و کار آمد ترجمے کرتے۔ ۱۲۔

اب میں نے تہران میں جناب فخرداعی کے ترجمے سے اس کی مطابقت بھی کر لی ہے۔۱۲۔

۳۳۵

کے داخل ہونے سے پہلے یورپ کا ماحول اور یورپ والوں کے حالاتِ زندگی کیا تھے۔ نویں اور دسویں عیسوی میں جس وقت تمدن اسلام مملکت اسپین میں اپنی ترقی اور عروج کی آخری منزل پر پہنچا ہوا تھا سارے یورپ میں سوا ان کلیساؤں کے جن پر ایسے جاہل راہبوں کا تصرف تھا جو اپنے کو عالم سمجھتے تھے اور لوگوں کو اپنے مذہبی فضولیات کا عادی بنا رہے تھے، کوئی مہذب خطہ یا علمی مرکز موجود نہیں تھا۔

بارھویں صدی ہجری سے جب کہ بعض حساس اشخاص علم و فہم حاصل کرنے کے درپے تھے، ان کے پاس سوا اسلام اور مسلمانوں کے جن کو یہ ہر حیثیت سے استاد اور سب سے بلند و بہتر سمجھتے تھے اور کوئی علمی ادارہ نہیں تھا۔ چنانچہ یہ لوگ اندلس کے مدرسوں میں جاکر مسلمانوں کےتعلیمات سے فیض یاب ہوتے تھے۔ تمام اہل علم کو مسلمانوں کا ممنون احسان ہونا چاہیئے کیونکہ انہوں نے علم و فن کی بہت بڑی خدمت کی ہے اور سارے عالم میں اس کو رواج دیا ہے۔ عرب کے مسلمانوں کا ہم اہل مغرب کی ترقی یافتہ زندگی پر بہت بڑا حق ہے اور تمدن مغرب کو در اصل تمدن عرب کہنا چاہیئے۔ انتہی۔

یہ ایک مختصر سا خلاصہ تھا اس بیان کا جو آپ کے مشہور فرانسیسی عالم نے درج کتاب کیا ہے۔ جناب عالی بھی چونکہ دوسرے تمام اہل مغرب کے مانند یورپ کے موجود علم و صنعت اور انکشافات پر فخر و مباہات فرمارہے ہیں لہذا بہتر ہوگا کہ یورپ کے پچھلے زمانوں پر ایک نظر ڈالیں اور ساتھ ہی قبل اسلام کے جزیرۃ العرب کی تاریخ اور حالات کاجائزہ لیں تاکہ حقیقت بے نقاب ہوسکے۔

جس زمانہ میں آپ کا یورپ حتی کہ پیرس بھی( جو آج علم وتمدن کا گہوارہ ہے) وحشت و بربریت میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسوقت صرف جزیرۃ عرب سے اسلام اور مسلمین کے قائد اعظم خاتم الانبیائ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی میں عرب مسلمانوں کے توسط سےعلم وہنر اور تمدن کے سرچشمے پھوٹے اور ساری دنیا میں پھیلے۔

میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ماضی کے دور سے ایک پردہ ہٹاؤں تاکہ آپ کو مسلمان عربوں اور یورپ والوں کے تمدن سے روشناس کرسکوں اور حقیقت کماحقہ ظاہر ہوجاۓ۔

ہارون کی طرف سے شارلِمان کو مسلمانوں کی بنائی ہوئی گھڑی کا تحفہ

آپ خود جانتے ہیں کہ ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں فرانس کے شہنشاہ امپراطور شارلمان کے خدمات جلیلہ سے یورپ نے ترقی کی منزلیں طے کیں لیکن اس کے باوجود اسی زمانہ میں جب اس نے بغداد کے اسلامی دربار خلافت سے اپنے روابط مضبوط کئے اور تحف و ہدایا روانہ کئے تو اس کے عوض میں ہارون الرشید عباسی نے جو تحفے اور ہدیے شارلمان کو بھیجے ان میں جواہرات، لباسہاۓ فاخرہ یا مسلمانان عرب کے بنے ہوۓ کپڑوں اور ایک بڑے ہاتھی کے علاوہ جس

۳۳۶

کو یورپ والوں نے ابھی تک نہیں دیکھا بھی نہیں تھا، ایک بہت بڑی گھڑی بھی جس کو فرانس والوں نے اپنے شاہی محل کے اوپر نصب کیا۔ یہ گھڑی مسلمان عربوں کی ہنرمندی کا نمونہ تھی۔ جس میں چوبیس گھنٹوں کی تقسیم اس طرح کی گئی تھی کی ایک بڑے طلائی پیالے ہیں دھات کی بنی ہوئی گولیوں کے گرنے سے آواز پیدا ہوتی تھی۔

شارلمان کے دربار کے فرانسیسی صاحبان علم وہنر بلکہ تمام باشندگان پیرس ( جو آج کے متمدن یورپ کا پایہ تخت ہے) مل کر بھی اس عظیم صعنت کی حقیقت اور نوعیت کو نہیں سمجھ سکے، جیسا کہ گوسٹاولوبون نے تمدن العرب میں اور دوسرے علماء و مصنفین نے اپنے تالیفات میں درج کیا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یورپ کے تمدن کا مسلمان عربوں کے تمدن سے اور بہتر موازنہ کریں تو شارلمان کے زمانہ کیتاریخ اور مسلمانوں کی بنائی ہوئی گھڑی کا قضیہ ملاحظہ فرمایئے تاکہ حقائق روشن ہوجائیں لکھتے ہیں کہ جب قصر شاہی کے اوپر ایک بڑے برج میں وہ گھڑی نصب کر کے اس کے اوپر سے دھکن ہٹایا گیا اور پیرس کے لوگوں نے اس کی سوئیاں چلتی ہوئی دیکھیں تو لکڑیاں، گزر اور طرح طرح کے حربے لے کر عمارت کے اوپر حملہ کردیا۔ جب شارلمان کو اطلاع دی گئی کہ رعایا نے انتہائی جوش کے ساتھ دھاوابول دیا ہے تو اسنے محل کے دروازے بند کرادئے اور درباری علماء و وزرائ کو تحقیق حال کے لئے بھیجا۔ کافی بات چیت کے بعد پتہ چلا کہ ان کو سطنت سے کوئی مخالفت نہیں ہے بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ برسوں سے پادری لوگ ہم کو بتاتے آۓ ہیں کہ انسانیت کے بڑے دشمن شیطان دور رہنا۔ ہم برابر اس عظیم دشمن کی تاک میں رہتے تھے کہ کہاں اس پر قابو حاصل ہو اور ہم اس کو ختم کر کے اس کے شر سے چھٹکارا پائیں، یہاں تک کہ یہ برج بتایا گیا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ شیطان اس کے اندر داخل ہو کر ہم کو بہکانے کے لئے عجیب عجیب حرکتیں کر رہا ہے، لہذا ہم نے اس برج کو مسمار کرنے اور عالم بشریت کے سب سے بڑے دشمن کو قتل کرنے کے لئے حملہ کیا ہے۔ مجبورا بزرگان قوم کے چھوٹے چھوٹے جتھوں کو برج کے اوپر لے جاکر گھڑی کی ساخت اور مسلمانوں کی ہنرمندی دکھائی گئی اور انہوں نے عوام کےسامنے جاکر اس کی تشریح کی تب وہ لوگ عذر ومعذرت کر کے وہاں سے رخصت ہوۓ پس آپ یہ نہ فرمائیے کہ مسلمان یورپ والوں سے پیچھے تھے۔ یہ لوگ پیچھے تھے نہیں بلکہ اس وقت سے پیچھے رہ گئے ہین جب سے اہلِ مغرب بیدار ہوۓ اور اندلس قرطبہ، اشبیلہ، اسکندریہ اور بغداد وغیرہ میں مسلمانوں کی علم و ہنر کی درس گاہوں سے علوم اور ضایع و بدایع کی تعلیم حاصل کر کے سعی و عمل کے درپے ہوۓ، یہاں تک کہ عروج و ترقی کی چوٹی پر پہنچ گئے اور مسلمان اس طرف مغرور و کاہل اور تن پرست ہوکر بے حسی میں مبتلا ہوگئے لہذا پیچھے رہ گئے اور اس حالت کو پہنچ گئے جو آج ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ ایک دن ہمارے پاس کیا کچھ نہیں تھا لیکن آج ہم ہر چیز کے محتاج ہوچکے ہیں۔ ہمارے حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے ؎

۳۳۷

سالہا وں طلب جام جم آزما می کردآنچہ خود داشت زبیگانہ تمنا می کرد

ان باتوں سے قطع نظر آپ کی علمی اور صنعتی ترقیوں کا تعلق حضرت عیسی علیہ السلام سے نہیں ہے بلکہ یہ سب ( آپ کے عقیدے کے مطابق) حضرت مسیح کو سولی دیئے جانے کے ایک ہزار سال بعد اہل مغرب کی سعی و کوشش کا نتیجہ ہے اور وہ بھی مسلمان عربوں سے فیوض و برکات حاصل کرنے کے بعد غرضیکہ اس موضوع پر کافی دیر تک گفتگو رہی یہاں تک کہ ہم اس منزل پر پہنچے کہ میں نے کہا مسلمانوں کے پیشواؤں اور دنیا کے تمام ارباب علم و دانش کے درمیان فرق یہ ہے کہ یہ لوگ اسباب وآلات کے ذریعہ انکشافات کرتے ہیں اور وہ حضرات ان کے محتاج نہیں تھے۔

چنانچہ میں نے اپنے مقصد کے ثبوت میں آئمہ طاہرین علیہم الصلوۃ والسلام کے چند ارشادات جراثیم وغیرہ کےبارے میں پیش کئے کہ جس زمانے میں خردبینوں اور دور بینوں کا دنیامیں کہیں وجود نہیں تھا( یعنی آج سے تیرہ سو برس پہلے) اسلام کے بزرگ پیشوا بھی ہمارے پیغمبر(ص) کی عترت میں سے آئمہ معصومین(ع) بغیر ظاہری وسائل اور آلات کے اپنی معمولی نظر سے جراثیم کو دیکھ کر ہمیں بتاچکے ہیں اور ان سے پرہیز کرنے کی ہدایت فرماچکے ہیں آپ لوگ آج اس چیز پرفخر ومباہات کرتے ہیں کہ طاقت ور دوربینوں اور رصدگاہوں کے ذریعے فضائی کرات، ہوائی موجودات اور کواکب وسیارات ک مخلوقات سےکسی قدر واقفیت حاصل کر لی ہے۔ لیکن تیرہ سو برس قبل مسلمانوں کے دوسرے پیشوا اور اہل اسلام کے معلم ثانی یعنی امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام بغیر بڑی بڑی دوربینوں رصدگاہوں اور آلات و اسباب کے ہیئت جدید کے مطابق آسمانی کروں کی خبر دے چکے ہیں، اس کے بعد میں نے ان کے سامنے حدیث پیش کی جس کا ابھی آپ کے سامنے حوالہ دے چکا ہوں کہ حضرت نے فرمایا:

"‏هَذِهِ‏ النُّجُومُ‏ الَّتِي‏ فِي‏ السَّمَاءِ مَدَائِنُ مِثْلُ الْمَدَائِنِ الَّتِي فِي الْأَرْضِ "

یعنی آسمان کے ان ستاروں میں بھی شہر شہر آباد ہیں جس طرح زمین میں ہیں۔

موسیوژئن: ( قدرے سکوت اورغور و فکر کے بعد) حدیث کو یاد کر کے کہا کہ میں چاہتا ہوں جن کتابوں میں یہ حدیث درج ہوئی ہے ان کے نام مجھ کو لکھوا دیجئے، چنانچہ میں نے لکھوا دیئے اس کے بعد موصوف نے کہا کہ لندن اور پیرس میں دنیا کے عظیم ترین اور خاص کتب خانے موجود ہیں جن میں ہرکتاب کے قلمی نسخے بھی موجود ہیں، میں پہلے لندن جاؤں گا اس کے بعد پیرس کے کتب خانوں میں ان کتابوں کا گہرا مطالعہ کروں گا اور علماء و مستشرقین سے اس موضوع پر بحث کروں گا۔ اگر دیکھوں گا جو آپ نے حوالہ دیا ہے۔ ان کی تالیف رصدگاہوں اور آسمانی دوربینوں کی ایجاد سے پہلے ہوئی ہے تو میں آپ سے عہد کرتا ہوں اور عیسی علیہ السلام اور محمد صلعم کے خدا کو اپنےاور آپ کے درمیان گواہ قرار دیتاہوں کہ تحقیق اور پورا اطمینان کرنے کے بعد مسلمان ہوجاؤں گا۔ اس لئے کہ بغیر اسباب وسائل کے ایک ہزار سال قبل ایسے خبر دینے والا انسان ہرگز یہ دنیاوی نظر نہیں رکھتا تھا بلکہ یقینا ملکوتی

۳۳۸

چشم و نگاہ کا مالک اور الہی قوت کا حامل تھا۔ پسایسے پیشوا کی موجودگی میں دین اسلام بھی قطعا آسمانی دین ہوگا کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) کا جانشین طاقت بشری سے مافوق ایسی قوت اور علم کا مالک تھا۔ انتہی۔(۱)

محترم حضرات! جس مقام پر اجنبی اور غیر اشخاص بغیر جذبہ محبت و عداوت کے صرف عقلی قاعدے اور علمی اصول کی بنیاد پر ایسا بے لاگ فیصلہ کریں وہاں ہم کو اور آپ کو بدرجہ اولی اس طریقے پر کاربند ہونا چاہیئے۔ چنانچہ انہیں دونوں قاعدوں کے روسے جس کو پیغمبری کے لائق اور شرائط جامع پائیں اس کی پیروی کریں، نیز اسی طرح مقام خلافت اور جانشینی رسول کا چشم انصاف اور نگاہ بصیرت سے جائزہ لیں اور غرض رانی و تعصب سے الگ ہو کر عادت کا لباس اتاردیں تو بخوبی سمجھ لیں گے کہ رسول خدا(ص) کے بعد صحابہ میں سے کسی کو بھی اس کی لیاقت حاصل نہ تھیکہ امیرالمومنین سے زیادہ زہد و اعلم اور افضل ہو اس کے علاوہ نسب میں بھی بالاتر ہو۔

جملہ علوم حضرت علی(ع) تک منتہی ہوتے ہیں

اس لئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد حضرت جملہ فضائل وکمالات کے جامع تھے، علوم اولین و آخرین آپ ک قابو میں تھے اور حکمت، کلام، تفسیر، قرائت، صرف، نحو، فقہ، ہندسہ، طب، نجوم، عدد، جفر، حساب، شعر، خطبہ، موعظہ، بدیع، فصاحب، لغت اور منطق الطیر، غرضیکہ جتنے علوم و فنون خلق میں متعارف ہیں وہ سب کے سب آپ کی ذات تک منتہی ہوتے ہیں۔ ان تمام علوم کے اندر یا تو آپ موجد تھے یا علم کی تشریح فرمائی ہے اور ہر علم میں ایسا خاص کلام ارشاد فرمایا ہے کہ اس علم و فن کے ماہرین نے اس کو مصدر قرار دیا ہے اور بعد کو اس موضوع پر جس قدر گفتگو کی ہے وہ سب حضرت کے کلام کی شرح تھی۔

مثلا علم نحو میں ابوالاسود دوئلی سے فرمایا کہ کلمہ اسم وفعل اور حرف کا نام ہے۔ نیز باب ان، باب اضافہ، باب امالہ، باب نعت اور لطف کا قاعدہ معین فرمایا اور رفع، نصب، جزم پر اعراب کی تقسیم فرمائی۔ یہ وہ بنیادی ہدایت ہے جو عبارتوں میں غلطی سے محفوظ رہنے کے لئے امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف سے صادر ہوئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ سفر سے واپسی کے بعد مجھ کو موصوف کا ایک خط ملا جس میں انہوں نے اس حدیث کی حقیقت اور اس کی غیر معمولی حیثیت کیتصدیق کرنے کے بعد اظہار اسلام، اقرار شہادتین اور حقیقت اسلام کا اعتراف کیا تھا۔

۳۳۹

علی(ع) کے علمی مدارج کے لئے ابن ابی الحدید کا اعتراف

اگر آپ دیباچہ کتاب شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی کےابتدائی صفحات کو غور سے پڑھئے تو انداہ ہوگا کہ اس اںصاف پسند عالم نے کیونکر ان تمام مطالب کی تصدیق اور حضرت کے علمی مرتبہ کی مدح و ستائش کی ہے ص۶ میں صاف صاف کہتے ہیں۔

"و ما أقول في‏ رجل‏ تعزى‏ إليه‏ كل فضيلة، و تنتهي إليه كل فرقة، و تتجاذبه كل طائفة، فهو رئيس الفضائل و ينبوعها، و أبو عذرها، و سابق مضمارها، و مجلّي حلبتها، كل من بزغ فيها بعده فمنه اخذه، و له اقتفى، و على مثاله افتدى"

یعنی میں انسان کے بارے میں کیا کہوں جس کی طرف تمام فضیلتیں منسوب ہیں جو ہر فرقے کے لئے آخری منزل ہے اور جس سے ہر جماعت وابستہ ہونا چاہتی ہے پس وہ فضیلتوں کا راس و رئیس، ان کا سرچشمہ، ان کے حجج و براہین کا مرکز ان کی دوڑ میں سب سے آگے اور ان کے نتائج کو رونق دینے والا ہے۔ اس کے بعد جو شخص بھی ان میں نمایاں ہوا اس نے اسی سے فیض حاصل کیا، اسی کی پیروی کی، اور اسی کے نمونہ عمل پر عامل ہوا۔ انہوں نے فقہاۓ اربعہ ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد حنبلکے علم کو حضرت ہے سے وابستہ بتایا ہے، چنانچہ کہتے ہیں کہ فقہاۓ صحابہ نے فقہ علی(ع) سے سیکھی۔ چونکہ آج کی رات ہماری نشست کافی طور پکڑ چکی ہے لہذا اب اس سے زیادہ کا موقع نہیں ہے کہ آپ کے اس بزرگ عالم کی گفتگو اور بیانات نقل کر کے آپ کا مزید وقت لوں۔

ضرورت اس کی ہے کہ آپ مذکورہ شرح نہج البلاغہ کا دیباچہ ملاحظہ فرمایئے تاکہ اپنے اس مورخ اور منصف عالم کی شہادت تصدیق اور یقین و اعتراف کو دیکھ کر مبہوت ہوجایئے۔ جو کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کا معاملہ بہت عجیب ہے کیونکہ ساری زندگی میں کبھی آپ کی زبان پر کلمہ لا اور ی یعنی میں نہیں جانتا) قطعا جاری نہیں ہوا۔ جملہ علوم ہمیشہ آپ کے پیش نظر رہتے تھے یہاں تک کہ عالم موصوف اپنے جملوں کے آخر میںکہتے ہیں:

" هَذَا يَكَادُ يُلْحَقُ‏ بِالْمُعْجِزَاتِ لِأَنَّ الْقُوَّةَ الْبَشَرِيَّةَ لَا تَفِي بِهَذَا الْحَصْرِ وَ لَا تَنْهَضُ بِهَذَا الِاسْتِنْبَاطِ."

یعنی اس امر کو معجزات میں شامل کیا جاسکتا ہے، کیونکہ بشری طاقت ایسے علمی احاطے پر قادر نہیں ہے اور نہ استنباط کے اس درجے پرفائز ہے۔

اگر میں چاہوں کہ غیب کی جو خبریں حضرت(ع) نے ارشاد فرمائی ہیں اور جو برسوں بلکہ صدیوں کے بعد وقوع پذیر ہوئی ہیں اور جن کو آپ کے اکابر علماء نے نقل کر کے ان کی تصدیق کی ہے۔ ان کی طرف اشارہ کروں تو صبح ہوجاۓ گی اور ان میں سے عشر عشیر بھی پیش نہ کرسکوں گا، لہذا اب اس سے زیادہ زحمت نہیں

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394