پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 275858
ڈاؤنلوڈ: 6129


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 275858 / ڈاؤنلوڈ: 6129
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دینا چاہتا۔

در خانہ اگر کس است یک حرف بس است

میرے خیال میں نمونے کے طور پر اور دماغوں کو روشن کرنے کے لئے ذیل کا ایک ہی واقعہ کافی ہوگا۔ جس سے آپ حضرات سمجھ لیں گے کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں دلیل و برہان کے ساتھ کہتے ہیں۔

جن مواقع پر حضرت کے علم سے پردہ اٹھا ہے اور امت کو معلوم ہوا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام غیب کے عالم ہیں ان میں سے ایک آئیندہ کل کی تاریخ بھی ہے جس میں بعض صحیح اور مشہور روایات کی بنا پر ریحانہ رسول الثقلین حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی ہے۔

ولادت امام حسین(ع) اور تہنیت ملائکہ کی خبر

" إِنَّ النَّاسَ دَخَلُوا عَلَى النَّبِيِّ وَ هَنَّوْهُ‏ بِمَوْلُودِهِ‏ الحُسَيْنِ"

لوگ حضرات رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور آں حضرت کو ولادت حسین علیہ السلام کی تہنیت دی۔

مجمع میں سے ایک شخص نے عرض کیا "بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ " (میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں یا رسول اللہ(ص) ، ہم لوگوں نے آج علی(ع) سے ایک عجیب امر مشاہدہ کیا۔ فرمایا تم نے کیا دیکھا؟ جب ہم تہنیت کے لئے آۓ تو ہم کو یہ عذر بیان کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے سے روک دیا کہ ایک لاکھ بیس ہزار فرشتے تہنیت و مبارکباد کے لئے آسمان سے نازل ہوۓ ہیں اور رسول اللہ(ص) کی خدمت میں موجود ہیں۔ ہم نے تعجب کیا کہعلی کیونکر آگاہ ہوۓ اور کہان سے شمار کر لیا آیا آپ نے ان کو اطلاع دی ہے؟ آں حضرت(ص) نے تبسم فرمایا اور علی سے دریافت کیا کہ تم نے کہاں سے جانا کہ اتنے فرشتے میرے پاس آۓ ہیں؟ آپ نے عرض کیا:بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي" جوفرشتہ آپ کے اوپر نازل ہوتا تھا اور سلام عرض کرتا تھا وہ ایک نئی زبان میں آپ سے گفتگو کرتا تھا۔ جب میں نے شمار کیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک لاکھ بیس ہزار زبانوں میں گفتگو کی ہے۔ لہذا میں نے سمجھ لیا کہ ایک لاکھ بیس ہزار ملائکہ حاضر خدمت ہوۓہیں۔

آں حضرت(ص) نے فرمایا" زَادَكَ اللَّهُ عِلْماً وَ حِلْماً يَا أَبَا الْحَسَنِ. " خدا تمہارے علم و حلم کو اور زیادہ کرے ابوالحسن(علی(ع)) پھر امت کی طرف رخ کر کے فرمایا:

"انا مدینة العلم و علی بابهاوماالله نباءاعظم منه ومالله آیةاکبرمنه هوامام البریةوخیرالخلیفةامین الله وخازن علم الله وهوالراسخ فی العلم وهواهل الذکرالذی

۳۴۱

قال الله تعالی فاسئلوااهل الذکران کنتم لاتعلمون اناخزانةالعلم وعلی مفتاحهافمن ارادالخزانةفلیات المفتاح"

یعنی میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، خدا کے لئے ان سے بڑی کوئی خبر اور ان سے بڑی کوئی آیت نہیں۔ یہ امام ناس، بہترین خلق، خدا کے امین اور اس کے علم کے خزینہ دار ہیں۔ یہ علم میں راسخ اور وہ اہل ذکر ہیں جس کے لئے خدا نے فرمایا کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔ میں علم کا خزانہ ہوں اور علی(ع) اس کی کنجی ہیں۔ پس جو شخص خزانہ چاہتا ہے اس کو کنجی کے پاس آنا چاہیئے۔

منصفانہ فیصلہ

حضرات محترم! اگر آپ اںصاف سے کام لیں، تھوڑی دیر کے لئے اپنی عادت کو چھوڑ دیں اور عادلانہ فیصلہ کریں تو بلا ارادہ فطری طور پر آپ کا دل تصدیقکرے گا کہ ایسی بزرگ شخصیت جو تمام علوم انبیاء اور اسرارغیب کی جامع صفات مرسلین کا مکمل آئینہ، جملہ صفات حمیدہاور اخلاق پسندیدہ کی حامل اور عدالت وتقوی اور عصمت کے مرتبے پر فائز تھی جس کے لئے خود رسول اللہ(ص) نے بھی حکم دیا ہے کہ اس کے دروازے پر جاؤ، نیز اس کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور اس کی مخالفت کو اپنی مخالفت قرار دیا ہے اور جو زہد ورع، پرہیزگاری اور نسل کے لحاظ سے ساری خلقت اور کل کائنات سے اسطرح فائق و برتر تھی کہ رسول اللہ(ص) نے اس کو امام المتقین اور سیدالمرسلین کہہ کے خطاب فرمایا چنانچہ اس سلسلے میں بعض احادیث کی طرف میں گزشتہ شبوں میں اشارہ بھی کرچکا ہوں۔ وہ یقینا منصب خلافت و امامت کے لئے دیگر صحابہ سے اولی و احق تھی۔ اگرچہ یہ بھی اپنی جگہ پر کچھ خصوصیات رکھتے تھے لیکن ہماری بحث تو افضل و اکمل کے بارے میں ہے جو دوسروں پر فوقیت اور حق تقدم رکھتا ہو۔

اگر آپ رسول خدا صلعم کے اصحاب و اقارب میں سے ایسے کسی ایک فرد کا بھی پتہ دے دیجئے۔ جو فضائل و کمالات اور ظاہری وباطنی صفات میں حضرت علی علیہ السلام کیبرابری کرسکتا ہو تو میں سر تسلیم خم کردوں گا اور اگر ایسا کوئی فرد آپ پیش نہ کرسکیں( کیونکہ ایسی ممتاز ہستیصحابہ میں سوا آپ کے اور کوئی تھی ہی نہیں، تو آپ کا ایمانی فریضہ ہوگا کہ حقیقت کو تسلیم کیجئے اور ساری دنیا سے چشم پوشی کر کے حق سےرشتہ قائم کیجئے،( پھر میں نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے عرض کیا) خداوندا! میں تجھ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے حق کا راستہ دکھادیا ہے، بغیر کسی جذبہ محبت کے و عداوت کے اپنا دینی فرض انجام دے دیا ہے۔ حریم تشیع کی طرف سے دفاع کردیا ہے اور دشمنوں کی تہمتوں کے مقابلے میں حقیقت کو ظاہر کردیا ہے) اب تجھ ہی سے اس کا

۳۴۲

اجر اور توفیق چاہتا ہوں اور بس۔

قبول تشیع میں نواب کے بیانات

نواب: قبلہ صاحب! دس راتیں ہو رہی ہیں کہ ہم اس مجلس مذاکرہ کے حاشیہ نشین ہیں ہم نے مقدس انوار ایمانی سے روشنی حاصل کی، بلند علمی اصول و قواعد سے استفادہ کیا اور طرفین کے دلائل کو غور سے سنا۔ ہم چند افراد ایسے ہیں جو تمام راتوں میں انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ جلسے میں حاضر رہے اور ہر روز آپس میں شب کی گفتگوؤں پر بحث و تبصرہ کر کے پوری چھان بین کرتے رہے ہیں خداۓ وحدہ لاشریک کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ کے ذریعہہماری ہدایت کے اسباب مہیا فرمادیئے جس سے ہم لوگوں نے حق کو پہچان لیا اور وہ دلائل سنے جو اب تک کبھی نہیں سنے تھے۔ مخالفین کے غلط اور گندے پروپیگنڈے کے خلاف جیسا کہ انہوں نے ہم کو بتا رکھا تھا کہ شیعہ مشرک غالی، رافضی اور حق سے منحرف ہیں ہمارے اوپر صد فی صد اور باکل یقینی طور سے ثابت ہوگیا ہے کہ فرقہ شیعہ امامیہ اثناء عشریہ کا مذہب حق اور ان کا طریقہ سچا ہے اور ہم نے اچھی طرح سے جان لیا ہے کہ حقیقی اسلام کے حامل یہی لوگہیں۔ صرف ہم چند حاضرین جلسہ ہی نہیں بلکہ اس شہر کے بہت سے بے لوث اور بے غرض اشخاص جو حق اور حقیقت کے طلب گارہیں روزنامہ اخبارات اور رسائل کو پڑھنے اور طرفین کےدلائل کو جانچنے کے بعد حق سے روشناس ہوچکے ہیں۔ البتہ عام مجمعوں میں آمد و رفت اور اپنے خاص مشاغل نیز مخالفین کے ساتھ ربط و ضبطکی وجہ سے اپنے عقائد کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے لہذا انہوں نے خفیہ طور سے ہمارے سامنے شیعیت کا اظہار کیا ہے، اس لئے کہ آپ نے کوئی بات مشکوک نہیں چھوڑی ہے، اور اپنی سادہ اور عام فہم تقریر سےہم سب کے دماغوں میں حقائق کو واضح کر دیا ہے۔

لیکن ہم چند اشخاص جو اس وقت حاضر ہیں چونکہ کسی کا خوفنہیں رکھتے لہذا پوری جرائت کے ساتھ اعلان کرنے کے لئے تیار ہیں، ہم کئی راتوں سے چاہتے تھے کہ درمیان سے پردہ ہٹادیں اور اپنے کو ظاہر کردیں لیکن موقع نہیں ملا اور حسن اتفاق سے ہر شب ہماری بصیرت میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ہم نے مضبوط سے مضبوط تر دلائل سنے اور اپنے عقیدے میں اور زیادہ راسخ و ثابت قدم ہوگئے۔ وقت گذر رہا ہے لہذا اجازت دیجئے کہ یہ پردہ بر طرف کیا جاۓ ہمارے اقرار و اعتراف کو سن کر ہم کو سر فراز فرمائیے، ہمارے نام مولاۓ کائنات امیرالمومنین علی(ع) اور ائمہ اثناعشریہ علیہم السلام کے شیعوں کی فہرست میں درج فرمائیے اور شیعوں کی جماعت میں اعلان فرما دیجئے کہ وہ ہم کو اپنی برادری میں قبول کریں۔ نیز قیامت کے روز عدل الہی کے دربار میں اور اپ نے جد بزرگوار کے سامنے شہادت

۳۴۳

دیجئے کہ ہم لوگ علم ویقین کے ساتھ آئمہ اثنا عشر اور رسول خدا(ص) کے اوصیائ وخلفاء کی ولایت پر ایمان لاۓ ہیں۔

خیر طلب: مجھ کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہے کہ چند نمایاں اور ممتاز ہستیوں نے چشم بصیرت اور گوش حقیقت کے ساتھ حقائق پر توجہ کی اور نور عقل کی روشنی میں منزول حق کو پہچان کر راہ راست اور صراط مستقیم پر گامزن ہوگئے۔

وہی راستہ جس کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے، چنانچہ اکابر علماۓ اہلِ سنت والجماعت جیسے امام احمد بن حنبل نے مسند میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول میں، ابن مغازلی نے فضائل میں، خوارزمی نے مناقب میں، سلیمان حنفی نے ینابیع المودت میں اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایاصراط علی حق نمسک ه یعنی علی(ع) کا راستہ حق ہے جس سے ہمتمسک کرتے ہیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوسرے اسلامی بھائی بھی عادت اور تعصب سے ہٹ کے غور کریں گے تاکہ ان کی نگاہوں سے پردے ہٹ جائیں اور حق و حقیقت ان پر ظاہر ہوجاۓ۔

نواب: قبلہ صاحب ہم آپ کے الطاف و عنایات کے ممنون ہیں کہ آپ نے خندہ پیشانی اور حسن اخلاق کے ساتھ ہمارے سوالات کے جوابات دے، البتہ ہمارے گوشہ دل میں ابھی ایک مختصر سا اشکال موجود ہے، گذارش ہے کہ اس کو ابھی حل فرمادیجئے تاکہ ہمارے بھائیوں کے لئے مسرت و امتنان اور بصیرت کا باعث ہو نیز ہمارے عقیدے اور ایمان میں مزید استحکام پیدا ہو۔

خیر طلب: میں حاضر ہوں۔ فرمائیے کس چیز میں اشکال ہے تاکہ اس کا جواب عرض کروں۔

نواب: ہمارا اشکال آئمہ اثنا عشر کی امامت اور ان کے ناموں کے بارے میں ہے چونکہ ان راتوں میں صرف امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شخصیت زیربحث رہی، لہذا متمنی ہوں کہ ہم کو بتائیے کہ اولا قرآن مجید میں کوئیایسی آیت ہے جو ہم کو آئمہ اثنا عشر کی امامت کا ثبوت دے یا نہیں؟ دوسرے ہماری کتابوں میں شیعوں کے بارہ اماموں کے نام درج ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو ہمارے اطمینان قلب کے لئےبیان فرمائیے۔

خیرطلب: آپ کا سوال بہت مناسب اور با محل ہے اور اس کا جواب بھی موجود ہے۔ لیکن چونکہ وقت تنگ ہےاور صبح ہونے والی ہے اور اس سوال کا جواب بھی ممکن ہے کچھ طول کھینچے لہذا اگر آپ بھی متفق ہوں تو یا کل شب میںتشریف لے آئیے تاکہ جواب عرض کردوں یا کل صبح بھی ممکن ہے۔

چونکہ کل ریحانہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عید ولادت با سعادت ہے اور اس سلسلے میں ہمارے قزلباش بھائیوں کی طرف سے رسالدارکے امام باڑے میں صبح سے ظہر تک ایک شاندار جشن کا انتظام ہے لہذا یہ بھی ممکن ہے کہ اس موقع پر عیدی کے عنوان سے اس کا جواب پیش کر کے آپ کا

۳۴۴

اشکال حل کردوں۔ انشائ اللہ تعالی۔

نواب: میں انتہا فخر کے ساتھ آپ کی راۓ سے موافقت کرتا ہوں اور اس سے زیادہ آپ کا وقت نہیں لینا چاہتا۔ پس اب اجازت دیجئے کہ جن محترم حضرات نے اس نورانی جلسے کی ضیا پاشیوں سے روشنی حاصل کی ہے ان کا تعارف کرادوں۔

خیر طلب: میں پورے شوق اور مسرتکے ساتھ تیار ہوں کہ ان عزیزان گرامی کو اپنے آغوش محبت میں قبول کروں۔

چھ افراد اہلِ تسنن کا قبول ت تشیع

نواب: اتنےحضرات آج کی شب لواۓ"لا إله‏ إلّا اللّه‏، محمّد رسول اللّه" کے نیچے حضرت علی(ع) اور آپ کی اولاد میں سےگیارہ اماموں کی خلافت وامامت کے اقرار کا شرف حاصل کررہے ہیں۔

1۔ حقیر آپ کا مخلص عبدالقیوم۔ 2۔ سید احمد علی شاہ صاحب۔ 3۔ سیٹھ غلام امامین صاحب۔4۔ سرحد کے سردار غلام حیدر خان صاحب۔5۔ پنجاپ کےبڑے تاجر عبدالاحد خان صاحب۔6۔مشہور رئیس عبدالصمد خان صاحب ( اصل کتاب میں کافی مجمع کے ساتھ ان حضرات کے فوٹوبھی موجود ہیں۔ 12 مترجم)

( یہ حضرات میرے پاس تشریف لاۓ میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور تمام حاضرین جلسہ بھی کھڑے ہوگئے، میں نے ہر ایک سے محبت کے ساتھ بغل گیر ہوکر پیشانی پر بوسہ دیا اس کے بعد سارےاہل مجلس نے ان سے معانقہ کیا۔

میں نے دیکھا کہ برادران اہل سنت بہت اداس ہوگئے چنانچہ ان کی دلجوئی کے لئے کہا کہ آج عید کی شب ہے جس میں اسلامی ہدایات کے مطابق مسلمانوں کے ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کرنے میں بہت بڑا ثواب ہے لہذا بہتر ہوگا کہ ہم سب آپس میں مصافحہ و معانقہ کریں، اس کےبعد میں نے پہلے جناب حافظ صاحب اور شیخ عبدالسلام صاحب سے پھر دوسرے حضرات سےبغل گیر ہوکر سب کی پیشانیوں پربوسہ دیا۔ بعد اس کے جلسے میں شربت اور مختلف قسم کی شیرینی لائی گئی اور ہم نے پرلطف و شیرین باتوں سے مجمع میں ایک تازہ مسرت کی لہر دوڑاکر ان کے چہروں سے افسردگی دور کی۔)

حافظ: صاحب ہم نے ان راتوں میں آپ کی ملاقات سے کافی فیض حاصل کیا جس کی لذتیں آخر عمر تک بھلائی نہیں جاسکتیں بالخصوص میری ذات پر تو بڑا احسان ہے جس کا عوض آپ کو آپ کے جد بزرگوار سے

۳۴۵

ملے گا۔ کیونکہ آپ نے بہت حقیقتوں کا انکشاف فرما دیا جیسا کہ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں۔ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں میں قطعا وہ پہلی رات والا آدمی نہیں ہوں اور جو بھی عقلمند اور انصاف پسند انسان آپ کے شک و شبہ سے بالاتر دلائل کو سنے گا وہ یقینا خوابِ غفلت سے بیدار ہوجاۓ گا۔ چنانچہ یہ حقیر امیدوار ہے کہ عترت و اہل بیت رسالت کے طریقہ ولایت پر دینا سے اٹھے اور ر سول اللہ(ص)کے سامنے سرخرو حاضر ہو۔

میری بڑی خواہش تھی کہ اس سے زیادہ مدت تک آپ کے ساتھ رہتا لیکن ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور بہت ذاتی کام در پیش ہیں کیونکہ ہم صرف دو روز کے خیال سے آۓ تھے، یہاں اتفاق سے کافی وقت صرف ہوگیا لہذا اس رات کو ہم آپ حضرات کی اجازت سے شب وداع قرار دیتے ہیں، کل شب کو ہم ریل گاڑی کی ذریعے روانہ ہوجائیں گے۔ اور آپ کو دعوت دۓ جاتے ہیں کہ ہمارے وطن تشریف لائیے۔ تاکہ ہم آپ کی صحبت سے خصوصی فوائد حاصل کرسکیں۔

خیر طلب: آپ حضرات یقین فرمائیے کہ پہلی شب سے جب کہ آپ کی زیارت ہوئی ہے اس وقت تک میں بغیر تعصب و عناد کے پورے خلوص کے ساتھ سرگرم محبت رہا اور آپ حضرات سے ایک خصوصی ربط و انس قائم ہوگیا ہے۔ باوجودیکہ میری جانب سے آپ حضرات کی روانگی میں کوئی مانع نہیں تھا لیکن اب یہ سن کے آپ حضرات واپسی کا قصد رکھتے ہیں اپنے اندر ایک عجیب سا تاثر محسوس کررہا ہوں۔

ایک بزرگ عارف کا قول ہے کہ میں زعام جذبات کے برعکس، انس و ملاقات کا مخالف ہوں۔ کیونکہ وصال کےبعد فراق آتا ہے اور دیوان امیرالمومنین علیہ السلام میں آپ کا ارشاد ہے۔

یقولون ان الموت علی الفتیمفارقه الاحباب والله اصعب

یعنی لوگ کہتے ہیں کہ جوان کے اوپر موت سخت ہوتی ہے، حالانکہ خدا کی قسم دوستوں کی جدائی اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔

حق یہ ہے کہ میں نے ان دس راتوں میں بالعموم آپ حضرات کے اور بالخصوص جناب عالی کے دیدار سے بہت فائدہ اٹھایا ہے جس کو کبھی نہ بھولوں گااگرچہ ان دس راتوں میں بمصداق الکلام یجر الکلام( یعنیبات میں بات نکلتی ہے سلسلہ گفتگو بہت طولانی رہا اور ہر شب میں نے بلا ارادہ چھ سات گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ محترم حاضرین جلسہ کا وقت لیا لیکن چونکہ ہماری نشستوں میں اول سے آخر تک آیات شریفہ قرآنی اور احادیث حضرت رسول خدا صلعم کاتذکرہ رہا اور ہم جاہلانہ تعصب وعناد اور لہو و لعب سے الگ رہے۔ لہذا ہم نے اپنی جگہ خدا کی ایک عبادت انجام دی۔ البتہ اس لحاظ سے کہ انسان سہو دلسان اور غلطی کا مرکز ہے اگر دورانِ گفتگو میں میری طرف سے عمدا نہیں بلکہ سہوا کوئی بے ادبی یا طول کلام کی غلطی سرزد ہوگئی ہو یا آپ حضرات کی نظر میں کوئی بری بات معلوم ہوئی ہو تو عفو و چشم پوشی فرمائیں اور استجابت دعا کر مواقع

۳۴۶

پر اس حقیر و فقیر خیر طلب کو دعا خیر سے فراموش نہ فرمائیں۔

حافظ: آپ کے حسن بیان اور لطف و عنایت کے برتاؤ سے ہم بہت ممنون ہیں اور ہم میں سے کسی کو آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے جس کے لئے آپ معذرت کررہےہیں، کیونکہ جناب عالی کا حسنِ اخلاق اور ادب و لحاظ اس منزل پر ہے کہ اس نے ہمکو مفتون( گرویدہ بنالیا ہے اور طول بیان سے بھی ہرگز ہم کو کوئی افسردگی نہیں ہے بلکہ آپ کی شیرین کلامی اور فصاحت و بلاغت اتنی زبردست ہے کہ میرا خیال ہے چاہے جتنی طولانی تقریر ہو بار خاطر نہ ہوگی۔

خیر طلب: میں آپ حضرات کے مراحم و الطاف کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ اپنے معروضات کے خاتمے پر ایک مطلب عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کل چونکہ حامی امت فرزند رسول الثقلین حضرت امام حسین علیہ السلام کی عید ولادت با سعادت ہے اور محترم حضرات قزلباش نیز آپ کے دیگر شیعہ بھائیوں کی طرف سے رسالدار کے امام باڑے میں ایک شان دار محفل مسرت کی تشکیل کی گئی ہے، لہذا میں جناب عالی اور دیگر حضرات حاضرین جلسہ کو اور آپ کے توسط سے جملہ برادران اہل سنت کو پرخلوص دعودت دیتا ہوں کہ پیغمبر(ص) کی ذات مبارک سے اپنے مخصوص تعلق کے پیش نظر آں حضرت کی روح پرفتوح کی خوشنودی کے لئے ایک بڑے مجمع کے ساتھ کل صبح اس جشن ولادت میں تشریف لائیں، کیونکہ شیعوں کی اس محفل میں اپنی شرکت سے علاوہ اس کے کہ آپ ہم سب کو ممنون و متشکر کریں گے۔ مجھ کو امید ہے کہآپ میرے اس مقصد سے بھی اتفاق کریں گے۔ اس جشن عام میں برادرانِ ایمانی و اسلامی کے دونوں فرقوں کی شرکت سے ہم ایک ایسا متحدہ اسلامی محاذ قائم کریں کہ دشمنان اسلام کو ( جو مسلمانوں میں تفرقہ اور جدائی چاہتے ہیں) حیرت وعبرت میں ڈال دیں۔

( جمادی الثانیہ سنہ1374ہجری میں ترتیب و کتابت سے فراغت ہوئی)

( العبد الفانی محمد الموسوی( سلطان الواعظین شیرازی)

عید میلاد حسینی(ع)

فدت شهر شعبانهاالافهمفمن بنیهایمنه الاشهر

طوی الهمعناوزوالالعناوبشرائهنابیتناینشر

لثالثه فیرقابالانامایادلعمرکلاتنکر

۳۴۷

فصبح الولاء بمیلاد سبطهادیالانام بهم سفر

و باب النجاةالامام الذیذنوب العبادبه تغفر

و غصن الامامةفیه سماجنی هدایته اثمم

و روض النبوةمننورهسن یومن نوره مزهم

لتهنب میلاده شیعهلهم طاب فی حبه عنصر

(یعنی شعبان پر دوسرے مہینے قربان ہیں کیونکہ اس کے اندر سے نمایاں خیر وبرکت حاصل ہوئی ہے ہمارے سارے رنج و غم دور ہوگئے اور ہمارے درمیان خوش خبری پھیل گئی۔ اس کی تیسری تاریخ لوگوں پر پسندیدہ انعام و احسانات کا نزول ہوا، پس صبح دلایت نواسہ رسول(ص) کی ولادت سے روشن ہوئی یہ وہ امام ہے جو نجات کا دروازہ ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ سے بندوں کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ اس سے امامت کی وہ شاخ بلند ہوئی ہے جو ہدایت کے ترو تازہ پھل دیتی ہے۔ نبوت کا باغ اس کے نور سے روشن اور پھلا پھولا ہوا ہے۔ شیعوں کو اس کی پیدائش کی تہنیت دو جو اس کی محبت میں ہر عیب و ریب سے پاک ہیں۔)

جب تیسری شعبان المعظم سنہ1345ہجری یعنی عید سعید ولادت با سعادت امام سیم حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ الصلوۃ والسلام کی صبح ہوئی تو محترم حضرات قزلباش کی جانب سے رسالدار کے امام باڑے میں ایک محفل مسرت بہت شان و شکوہ کے ساتھ منعقد ہوئی جس میں مختلف طبقوں کے لوگ سویرے ہی سے کثرت کے ساتھ جمع ہوگئے میںبھی ظہر سے چار گھنٹے قبل ان شیعہ علماء اور رؤسا کے ایک بڑے مجمع کے ہمراہ جو میری قیام گاہ پر آگئے تھے جشن میں شرکت کے لئے امام باڑے گیا۔ حق یہ ہے کہ جلسہ کافی شاندار تھا۔

ہر طبقے کے شیعہ اور سنی افراد کااتنا کثیر مجمع تھا کہ اس قدر طویل و عریض امام باڑے کی کافی وسیع فضا اور دونوں طرف کے تمام بڑے بڑے ووہرے کمرے، یہاں تک کہ شاہراہ عاماور مکانوں کے کوٹھے بھی بھر گئے تھے۔ حضرات علماۓاہل سنت مع جناب حافظ رشید و شیخ عبدالسلام صاحبان بھی تشریف فرما تھے۔ میرے پہنچنےسے محفل میں ایک عجیب جوش وخروش پیدا ہوگیا۔ باوجودیکہ میرے بیٹھنے کے لئے ایک خوبصورت اسٹیج تیار کیا گیا تھا لیکن میں اہل تسنن کے بڑے بڑے علماء کا احترام ملحوظ رکھتے ہوۓ اپنی جگہ سے کترا کے سیدھا انہیں کے پاس چلا گیا میرے اس اکرام و احترام اور پر خلوص انکسارسے وہ حضرات بہت خوش ہوۓ ؟؟؟؟؟ سائقے اور بیٹھ جانے

۳۴۸

کے بعد شربت اور طرح طرح کی شیرینی لائی گئی، اس خاطر تواضعکے بعد دو مداحوں نے اردو اور فارسی زبان میں بہترین قصیدے پڑھے، اس کے بعد سردار عبدالصمد خان صاحب جو پشاور کے نامی شیعہ رئیسوں میں سے تھے۔ چند محترم قزلباش حضرات کے ساتھ آۓ اور مجھ سے فرمائش کی کہ آج چونکہ عید کا دن ہے لہذا اہلِ جلسہ منتظر ہیں کہ آپ اپنی تقریر سے ان کو مسرور و شاد کام فرمائیں۔ میں نے ہر چند انکار کیا لیکن ان کا اصرار بڑھتا گیا۔ بالآخر حافظ صاحب واسطہ بنے اور کہا کہ آج چونکہ یہاں میرے قیام کا آخری دن ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ آپ کی تقریر کی یاد گار اپنے دل میں لے جاؤں مجھ کو بھی چونکہ موصوف سے کافی انسیت ہوگئی تھی۔ لہذا ان کی بات رد نہیں کرسکا اور فرمائش کیتعمیل کرتے ہوۓ منبر پر گیا۔ ظہر کے قریب اپنا بیان ختم کیا۔ پھر نماز جماعت کے بعد سر برآوردہ شیعہ و سنی مخصوصین اور مذہب شیعہ قبول کرنے والے حضرات کا متفقہ طور پر فوٹو لیا گیا۔

( یہ فوٹو اصل کتاب میں موجود ہے۔ 12مترجم)

اس کے بعد ان چھہ عدد جدید شیعوں کے اعزاز میں کھانے کی ایک عام دعوت دی گئی۔

اب اپنیتقریر کے متن کو بھی جسے اخبارات و رسائل کے نامہ نگاروں نے نوٹ کر کے شائع کرایا تھا۔ اصل کتاب میں شامل کرتا ہوں کیونکہ یہ فائدے سے خالی نہیں تھا، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے دس راتوں کے مناظرے اور بیانات کاتکملہ اور تتمہ یہی ہے۔

۳۴۹

آغازِ بیان

(سلطان الواعظین مدظلہ نے ایک فصیح و بلیغ خطبے کے بعد فرمایا :باسم الل ه الرحمنالرحیم قالاللهالحکیمفیکتابهالکریم :"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَ الرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ ذلِكَ خَيْرٌ وَ أَحْسَنُ‏ تَأْوِيلًا"

یعنی خداۓ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ پس اگر تم آپس میں کسی چیز میں نزاع کرو تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پلٹاؤ اگر تم اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ طریقہ کار تمہارے لئے بہت عمدہ اور نتیجے کے لحاظ سے بہترین ہے۔

مجازی اور حقیقی آزادی

ایک اہم موضوع جو مدتوں سے عمومیت کے ساتھ زیر بحث چلا آرہا ہے اور ہر قوم و فرقہ اپنی مطلب براری کے لئے اس کا سہارا لیتا ہے وہ حریتاور آزادی کا موضوع ہے اور جوبالآخر کج فہم و کوتاہ نظر لوگوں کی ایک جماعت کا آلہ کار بن گیا ہے۔ چنانچہ اسی حریت و آزادی کو بنیاد قرار دے کر وہ انبیاۓ کرام کے الہی احکام سے باغی ہو کر دین و شریعت کے دائرے سے خارج ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اتنا ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ پروردگار عالم کی بندگی اس کے شرائع حقہ کے قیود اور مقدس قوانین سے آزادی علم و عقل سے پوری مخالفت رکھتی ہے اور ایسی حریت و آزادی نوع بشر کے سکون و آسائش میں مخل و تباہی اور فتنہ وفساد کا باعث نظام فطرت کی مخالفت اور محققین علمائ و صاحبان عقل کے نزدیک مردود و ناقابل عمل ہے۔ البتہ جو حریت و آزادی بہتر اور ممدوح ہے اس سے مراد ہے مخلوق کی عبودیت، ابنا بشر کی تعظیم و پرستش اور اپنے ہی جیسے ہم جنسوں کی اندھی تقلید سے آزادی، ایسی آزادی انسانیت کا لازمی جز ہے، کیونکہ ای سنجیدہ فہمیدہ انسان جو زیور عقل سے آراستہ اور علم و معرفت کا حامل ہو اس کا فرض ہے کہ اپنے جیسے افراد بشر کی بندگی اور غلامی سے الگ رہے اور کسی ایسے شخص کی کور کورانہ پیروی نہ کرے

۳۵۰

جو اس کو وادی حیرت و ضلالت میں سرگردان بنادے۔ البتہ انسان اشرف المخلوقات کو ایسی ہستی کے سامنے سر اطاعت خم کرنا چاہیئے حواس کی لیاقت و قابلیت رکھتی ہو اور اس پر عقلی و نقلی دلائل قائم ہوں۔

بدیہی چیز ہے کہ ستائش و بندگی صرف خداۓ عزوجل کی ذات لازوال کے لئے مخصوص ہے جو ہمارا آپ کا اور ساری کائنات کا خالق ہے، اور عقلی دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ مخلوق عاجز کو اس خالقِ قادر کے سامنے خاضع و خاشع اور ہمہ تن مطیع و فرمانبردار رہنا چاہیئے جس نے ہر چیز اسی کے لئے پیدا کی ہے اور مخلوقات میں سے کسی کی اطاعت انسان کے لئے جائز نہیں ہے سوا اس شخص کے جس کی اطاعت کا خداۓ تعالی نے حکم دیا ہو۔

اور اشخاص کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہماری سند محکم قرآن مجید ہے۔ جب ہم قرآن مجید اور اس مضبوط آسمانی سند کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ متعدد آیات میں ہم کو اطاعت کی مکمل ہدایت دی گئی ہے کہ عقلی قواعد کے روسے ہم کن اشخاص کی اطاعت و پیروی کریں اور کن افراد کے سامنے سر تعظیم خم کریں۔

خدا اور رسول(ص) اور اولی الامر کی اطاعت واجب ہے

من جملہ ان کے اسی آیہ شریفہ میں جس کو میں نے عنوان کلام قرار دیا ہے۔ صاف طور سے ارشاد ہے:

" أَطِيعُوا اللَّهَ‏ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ‏"

یعنی اطاعت کرو خدا کی اور اطاعت کرو پیغمبر(ص) اور صاحبان امر کی۔

پس بحکم آیت اللہ کی اطاعت کے بعد نوع بشر میں پیغمبر(ص) اور صاحبان امر کی اطاعت واجب ہے۔

پیغمبر خاتم النبیین(ص) کے احکام کی اطاعت میں تو تمام مسلمان بالعموم متفق ہیں اور کسی کو اس حقیقت سے انکار نہیں ہے البتہ اہل اسلام کے اندر جو اختلاف پیدا کیا گیا وہ صرف اولی الامر کے معنی میں ہے، کیونکہ خداۓ تعالی نے اس آیت میں اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کے بعد اولی الامر کی اطاعت واجب قرار دی ہے۔

اولی الامر کے معنی میں اہل سنت کا عقیدہ

براداران عامہ اور اہل تسنن کا عقیدہ ہے کہ آیت میں اولی الامر ےس امراؤ حکام اور افسران لشکر مراد ہیں۔ لہذا سلاطین اور صاحبان حکومت ( ظاہری) اس کے ماتحت آتے ہیں۔

چنانچہ حضرات اہل تسنن بادشاہوں کے احکام کی اطاعت اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں(؟؟؟؟؟؟ وہ علانیہ فسق وفجور اور ظلم و جور کے مرتکب ہی کیوں نہ ہوں) اس دلیل سے کہ یہ لوگ آیہ اولی الامر میں داخل ہیں۔ لہذا ان

۳۵۱

کی اطاعت فرض ہے۔

حالانکہ ایسا عقیدہ عقلی و نقلی دلیلوں سے باطل ہے۔ تنگئی وقت کی وجہ سے یہ مختصر محفل اس کی مقتضی نہیں ہے کہ اس عقیدہ کے بطلان پر سارے دلائل عرض کروں، اس لئے کہ تفصیل پیش کرنے کے لئے کم سے کم ایک مہینے کا موقع درکار ہے پھر بھی بمصداقما لا یدرک کل ه لایترککله " یعنی جو سب کا سب حاصل نہ ہوسکے وہ سب کا سب ترک بھی نہیں کیا جاتا۔

آپ دریا را گر نتواں کشید لیک بہر تشنگی باید چشید

وضاحت مطلب اور اثبات مقصد کے لئے آپ حضرات کی اجازت سے اس موضوع پر مختصر بحث پیش کر رہا ہوں تاکہ اہل انصاف عادلانہ فیصلہ کرسکیں اور حقیقت منکشف ہوسکے۔

صاحبانِ امر کی تین قسمیں

ظاہر ہے کہ اہل عالم پر حکمرانی کرنے والے امراء و سلاطین تین حال سے خالی نہیں ہیں، یا اجماع سے مقرر ہوۓ ہیں، یا طاقت و قدرت سے غالب ہوۓ ہیں یا خدا کی طرف سے منسوب ہیں۔

چنانچہ پہلا طریقہ یعنی یہ کہ اگر مسلمان کسی ایک شخص پر اجماع کر لیں اور اس کو منصب امارت پر مقرر کردیں، تو اس کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت کے مانند واجب ہے، اپنے ثبوت میں کوئی عقلی دلیل نہیں رکھتا جس سے تمام مسلمان کسی ایک کامل اور پاکباز ہستی پر اتفاق کر کے اس کو مسند امارت پر بٹھا سکیں، کیونکہ مسلمان چاہے جس قدر عالی دماغ اور ہوشمند ہوں وہ فقط ظاہری حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں اور لوگوں کے باطنی کیفیات اور دلی عقائدسے با خبر نہیں ہوسکتے۔

جناب موسی(ع) کے چنے ہوۓ بنی اسرائیل نا اہل ٹھہرے

مسلمان چاہے جس قدر عاقل و دانا ہوں اصول اور قاعدے کی بناء پر امر انتخاب میں حضرت موسی کلیم اللہ علی نبینا و آلہ وعلیہ السلام سے جو انبیاۓ اولوالعزم میں سے تھے قطعا زیادہ واقف کار نہیں ہوسکتے اور ان سب کی عقلیں خدا کے بھیجے ہوۓ رسول(ص) کی عقل سے بالاتر نہیں ہوسکتیں۔ حضرت موسی(ع) نے بنی اسرائیل ؟؟ ؟؟؟؟؟؟ ہزاروں عقلا اور دانشمندوں میں سے ظاہری حالات کی بنا پر ستر افراد منتخب فرماۓ( چونکہ انبیاء صرف ظاہری چیزوں پر

۳۵۲

مامور تھے اور اشخاص کےباطنی امور کے پابند نہیں تھے لہذا ان کی ظاہری خوبیوں کو معتبر قرار دیتے تھے) اور ان کو طورسینا پر ساتھ لے گئے لیکن امتحان کے موقع پر سب کے سب ناکارہ ثابت ہوۓ اور ہلاک ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ ان کا دلی عقیدہ پہلے ہے سے درست اور مضبوط نہیں تھا، یہاں تک کہ امتحان کے موقع پر جب پردہ اٹھا تو جو کچھ اندرونی کیفیت تھی وہ ظاہر ہوگئی۔ چنانچہ قرآن مجید کی آیت نمبر154 سورہ نمبر7( اعراف) میں اس کی طرف اشارہ ہے۔

انسان صالح و کامل امیر کے انتخاب پر قادر نہیں

پس جب کلیم اللہ پیغمبر(ص9 کے چنے ہوۓ لوگ اندر سے فاسد اور کافر نکلیں اور صاعقے کے ذریعے عذاب الہی میں گرفتار ہوں تو ظاہر ہے کہ دوسرے افراد بشر بدرجہ اولی صالح و کامل فرماں رواؤں کے انتخاب پر قادر نہیں ہیں اس لئے کہ بہت ممکن ہے ظاہری صلاح و تقوی کی بنا پر منتخب ہونے والے اشخاص حقیقی اور باطنی طور پر کافر یا فاسق ہوں جن کے دکھانے کے دانت اور ہوں کھانے کے اور چنانچہ جب سلطنت و امارت کی مسند پر بیٹھ جائیں، تو ریا کاری کا لبادہ اتار پھینکیں اور اپنے ضمیر کو بروۓ کار لاتے ہوۓ دھیرے دھیرے اپنے ناجائز مقاصد کی تکمیل شروع کردیں۔ جیساکہ بہت سے امراء و سلاطین میں( حتی کہ قومی اسمبلی کے نمائیندوں میں بھی) ایسا دیکھا گیا ہے اور اس طرح کے امیر و بادشاہ کی اطاعت قطعا دین کو مضمحل، حقوق انسانی کو ضائع اورآثار اسلام کو برباد کردے گی۔

سلاطین و امراء اولی الامر نہیں ہوتے

ہرگز عقل قبول نہیں کرتی کہ خداۓ تعالی فاسق و فاجر اور ظالم سلاطین و صاحبان امر کی اطاعت کو اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت میں شامل کرے، پس اس عقیدے کا باطل ہونا ظاہر و آشکار ہے۔ اس کے علاوہ اگر اجماع وقت کو شرعا یہ حق حاصل ہے تو ہر زمانے میں اولی الامر کو تمام ملل اسلامی کے حقیقی انتخاب سے معین ہونا چاہیئے یہ نہیں کہ ایک ملت کو تو موقع دیا جاۓ اور دوسری نطر انداز ہوجاۓ یہ شرعی حق مسلمان قوم کے تمام افراد کے لئے ہے چاہے وہ دنیا کے کسی گوشے اورکنارے پر ہوں، وہ ایک مسلمان ہو یا بہت سے اور شہر میں رہتے ہوں یا دیہات میں ان سب کو اس انتخاب میں راۓ دینا اور صاحب امر کی تعین میں شرکت کرنا چاہیئے نہ یہ کہ کسی ایک شہر یا مملکت میں چند لوگ راۓدے دیں تو ان کو راۓ واجب العمل بن جاۓ اور باقی تمام صاحبان عقل و تمیز اور سربرآوردہ مسلمان اس کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں۔ اگر کسی جماعت کو کچھ اختلاف ہو تو اس کو

۳۵۳

رافضی اورمشرک کہیں اور گردن زدنی سمجھیں۔

چنانچہ جب ہم تیرہ سو سال کی تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے بعد کسی زمانے میں بھی ایسا اجماع واقع نہیں ہوا جس میں دنیا کے تمام مسلمانوں نے یا ان کے حقیقی نمایئندوں نے اجتماعی حیثیت سے اپنی راۓ دی ہو۔ پس یہ اجماع کا عقیدہ نہ کسی دور میں عملی پہن سکا ہے اور نہ پہن سکے گا، بالخصوص آج کے زمانے میں جب کہ بلاد مسلمین ٹکڑے ٹکڑے ہوچکے ہیں متعدد اسلامی ممالک ہیں اور ہرایک کا اپنا بادشاہ اور حکمران الگ ہے۔

اگر یہ طے کیا جاۓ کہ ہر ملک کے باشندے اپنے لئے ایک مستقل بادشاہ اور صاحب امر کا انتخاب کریں، تو قطع نظر اس سے کہ ہر زمانے میں متعدد اولی الامر ہوجائیں گے اور کوئی مملکت دوسرے ملک کے بادشاہ یا صاحب امر کی فرمانبرداری نہیں کرے گی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاۓ اور آپس میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں( جیسا کہ تاریخ اسلام میں بارہا ایسے واقعات ہوۓ ہیں) اس وقت مسلمانوں پر کیا ذمہ داری ہوگی؟ کیونکہ مسلمانوں کے دونوں گروہ اپنے اپنے صاحب امر کی اطاعت میں مجبور ہوں گے کہ ایک دوسرے سے دست وگریبان ہوجائیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کریں تو کیا یہ دونوں مسلمان فریق برادر کشی میں ماجور و حق بجانب اور قاتل و مقتول دونوں جنتی ہوں گے؟

خدا جانتا ہے کہ اسلام اور شارع مقدس نے قطعا ایسی کوئی ہدایت نہیں دی ہے اوراسلام جیسا جامع و کامل اور عقلی دین ہرگز ایسا حکم نہیں دیتا جو صاحبان عقل کے نزدیک ناقابل قبول اور ناقابل عمل ہو، نیز اس کی وجہ سے مسلمانوں میں باہمی نزاع اور پھوٹ پیدا ہو۔ پس وہ اولی الامر جن کی اطاعت کے لئے خداوند عالم نے حکم دیا ہے۔ اجماع کے پابند نہیں ہوسکتے، چنانچہ گزشتہ راتوں میں مجلس مناطرہ کے اندر فریقین(شیعہ و سنی) کے علماء اور دانشمندوں کے سامنے عقلی و نقلی حیثیت سے اجماع کا باطل ہونا ثابت ہوچکے ہیں اور اخبارات و رسائل کے صفحات پر اس کی اشاعت بھی ہوچکی ہے۔ یقینا ان حضرات کی نگاہوں سے بھی گزری ہوگی جو ان مجلسوں میں موجود نہیں۔(1)

ہربادشاہ اقتدار کی وجہ سے صاحب امر نہیں ہوجاتا

اور دوسری قسم جو طاقت و اقتدار سے متعلق ہے یعنی جو خونخوار و سفاک اور فاسق و فاجر امیر و سلطان یا خلیفہ قہر و غلبہ، نیزہ و شمشیر اور حیلہ سازی کے ذریعے لوگوں پر مسلط اور حکومت پر قابض ہوجاۓ اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ ص1 ملاحظہ ہوں اسی کتاب کے صفحات۔

۳۵۴

کوئی عقل سلیم کیونکر اس کی ہم آہنگ ہوسکتی ہے اور اس لا یعنی عقیدے کو تسلیم کرسکتی ہے کہ سفاک و بے باک اور فاسق و فاجر امراؤ سلاطین یا خلفائ کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت کے مانند واجب ہو۔ اگر حقیقت اسی طرح ہے تو اہل سنت کے اکابر علماء و مورخین اور ناقدین اپنی کتابوں اور تحریروں میں ظالم و سفاک امراء خلفاء کی مذمت آخر کس لئے کرتے ہیں؟ جیسے معاویہ یزید پلید، زیاد ابن ابیہ، عبیداللہ، حجاج، ابوسلمہ اور مسلم وغیرہ کے لئے۔

اگر واقعا کوئی شخص ہٹ دھرمی کی بناء پر کہنا چاہے کہ اس قسم کے اشخاص جب مسلمانوں پر امیر و حاکم اور سلطان وخلیفہ بن جائیں تو ان کی اطاعت واجب ہے( چنانچہ بعض علماۓ عامہ نے کہا بھی ے تو ایسی اطاعت قطعا قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ہوگی، کیونکہ خداۓ تعالی نے متعدد آیات میں کافروں، فاسقوں اور ظالموں پر لعنت فرمائی ہے اور مسلمانوں کو ان کی اطاعت سے منع فرمایا ہے۔ پس یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اس آیہ مبارکہمیں فاسق و فاجر اور ظالم بلکہ کافر صاحبان امر کی اطاعت کا حکم دے بدیہی چیز ہے کہ پروردگار عالم کی پاک و منزہ ذات سے دو متضاد باتوں کو نسبت دینا انتہائی بری حرکت ہے در آنحالیکہ امام فخرالدین رازی جو اکابر علماۓ عامہ میں سے ہیں اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں صاف صاف کہتے ہیں کہ اولی الامر کوقطعا گناہ سے معصوم ہونا چاہیئےورنہ خداوند عالم ان کی اطاعت کو اپنی اور اپنے پیغمبر(ص) کی اطاعت سے ملحق نہ کرتا۔

اولی الامر کو منجانب اللہ منصوب و منصوص ہونا چاہیئے

جب انہیں مختصر دلیلوں سے ان دونوں عقیدوں کا بطلان ثابت ہوگیا کہ اولی الامر کا اجماع یا غلبے اور اقتدار سے معین ہونا ممکن نہیں ہے تو اب تیسری قسم ثابت ہوگئی کہ حتمی طور سے اولی الامر کو خدا کی طرف سے منصوب ومنصوص ہونا چاہیئے وہو المطلوب۔

یہی ہے شیعہ امامیہ اثناعشریہ فرقے کا عقیدہ جو یہ کہتا ہے کہ جب اولی الامر کو پیغمبر(ص) کے مانند مہذب، جملہ صفات رذیلہ اور اخلاق فاسدہ سے پاک اور ظاہری و باطنی حیثیت سے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم ہونا ضروری ہے اور جب با طنی حالات کا ذاتی اور مستقل علم بھی سوا خداۓ تعالی کےاورکسی کو حاصل نہیں ہے تو لازمہ ہوجاتا ہے کہ اولی الامر کو خدا ہی مقرر فرماۓ جو خدا رسول کو تمام مخلوق سے منتخب کر کے رسالت پر مبعوث فرماتا ہے اسی کی ذاتِ اقدس پر اس کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اولی الامر کا انتخاب کر کے انکو امت سے روشناس کراۓ۔ علاوہ اس قسم کی دلیلوں کے جو الگ سے اس مقصد کو ثابت کرتی ہیں خود آیت کی ظاہری صراحت حکم دے رہی ہے کہ اولی الامر وہی ہوسکتے ہیں جو سوا ان خصوصیات کے جو دلیل سے مستثنی ہیں، یعنی مقام وحی و رسالت کے علاوہ رسول اللہ(ص) کی جملہ صفتوں کے

۳۵۵

حامل ہوں، اور چونکہ تمام انسانی صفات کا عالم سوا ذات پرردگار کے اور کوئی نہیں ہے لہذا حق انتخاب بھی اسی کے لئے مخصوص ہے۔

چنانچہ آیہ شریفہ میں واجب اور ممکن کا فرق بتانے کے لئے دو اطیعوا لاۓ گئے ہیں۔" اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول" اطاعت کرو خدا کی اس حیثیت سے کہ اس کو واجب الوجود بالذات جانتے ہو کیونکہ اس کی ہستی جن صفات کی مالک ہے جیسے حیات، علم، حکمت اور قدرت وغیرہ وہ خود اسی کی طرف سے اور عین ذات ہیں اور اطاعت کرو پیغمبر(ص) کی اس حیثیت سے کہ ان کو ممکن الوجود عبد صالح اور تمام صفات حمیدہ و اخلاق پسندیدہ کا حامل سمجھتے ہو جو سب کے سب واجب الوجود کی جانب سے ان کو تفویض ہوۓ ہیں لیکن جس وقت اولی الامر کے تذکرے پر پہنچا ہےتو پھر کلمہ اطیعوا نہیں لاتا بلکہ صرف واو عطف کے ساتھ اولی الامر کو پہچنواتا ہے۔ اس داؤ میں نکتہ یہ ہے کہ خداوند عالم روشن ضمیر اور خوش فکر لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہے کہ صاحب امر وہی شخص ہے جو ہر اسصفت کا حامل ہو جس کے حامل رسول خدا(ص) تھے۔ سوا ان چیزوں کے جو بالدلیل مستثنی ہیں جیسے نزول وحی اور عہدہ تبلیغ رسالت وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ جو کچھ رسول اللہ(ص) کے پاس تھا وہی سب اولی الامر کے پاس بھی ہونا چاہیئے سوا مرتبہ نبوت ورسالت کے پس اطاعت اولی الامر اور اطاعت پیغمبر(ص) کی ایک بنیاد ہے۔

بس اولی الامر کی شان یہ ہے کہ احکام دین اور قوانین شرع سید المرسلین(ص) کے نافذ کرنے والے اور ان کے محافظ ہوں لہذا اسی بنا پر جماعت امامیہ کا اعتقاد ہے کہ اولی الامر سے اوہ ائمہ اثنا عشر مراد ہیں جو پیغمبر(ص) کی نسل اور آں حضرت(ص) کی عترت طاہرہ میں سے ہیں یعنی امیرالمومنین علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد میں سے گیارہ بزرگوار اور یہ آیہ مبارکہ دوازدہ امام علیہم الصلوۃ والسلام کی امامت کے اثبات میں مذہب شیعہ اور فرقہ امامیہ کی بہت بڑی دلیل ہے۔

علاوہ اس کے اور بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن سے ہم استدلال کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی رخ سے ہمارے مطلب کو ثابت کرتی ہے۔

مثلا سورہ نمبر2 (بقرہ) آیت نمبر118"قالَ‏ إِنِّي‏ جاعِلُكَ‏ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ‏."

یعنی خداۓ تعالی نے ( ابراہیم سے) فرمایا میں تم کو تمام انسانوں کا امام قرار دیتا ہوں، ابراہیم نے عرض کیا یہ امامت میری اولاد میں بھی رہے گی؟ فرمایا( ہاں لیکن) جو ظالم ہیں ان کو میرا یہعہد نہیں پہنچے گا۔)

سورہ نمبر33 ( احزاب) آیت نمبر6"النَّبِيُ‏ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ أَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ وَ أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى‏ بِبَعْضٍ فِي كِتابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُهاجِرِينَ "

یعنی پیغمبر(ص) مومنین کے لئے اولی اور سزاوارتر ہیں خود ان کے نفوس سے اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور نسبی قرابتدار ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں کتاب خدا میں مومنین و مہاجرین سے)

۳۵۶

سورہ نمبر9(توبہ) آیت نمبر120"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے ایمان لانے والو اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

سورہ نمبر13 (رعد) آیت نمبر8 "إِنَّما أَنْتَ‏ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ " یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تم عذاب الہی سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے( ہماری طرف سے) ایک ہدایت کرنے والا بھی مقرر ہے۔

سور ہنمبر6 ( انعام) آیت نمبر154 " وَ أَنَّ هذا صِراطِي‏ مُسْتَقِيماً فَاتَّبِعُوهُ وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ‏."

(یعنی یہ ہے میرا سیدھا راستہ پس اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کا اتباع نہ کرو جس سے خدا کی راہ ےس بھٹک کر متفرق ہوجاؤ۔)

سورہ نمبر7( اعراف) آیت نمبر180" مِمَّنْ خَلَقْنا أُمَّةٌ يَهْدُونَ‏ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ‏"

یعنی ہماری مخلوق میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو حق کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل سے کام لیتے ہیں( یعنی پیشوایان دین و ائمہ معصومین علیہم السلام۔)

سورہ نمبر3 ( آل عمران) آیت نمبر98"وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَ لا تَفَرَّقُوا"

یعنی سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور ادھر ادھر متفرق نہ ہو۔

سورہ نمبر16( نحل) آیت نمبر45 "فَسْئَلُوا أَهْلَ‏ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ"

(یعنی اہل ذکر ( حاملان قرآن) سے پوچھ لو اگر تم کو نہیں معلوم ہے)

سورہ نمبر33( احزاب) آیت نمبر33 "إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ‏ عَنْكُمُ‏ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً. "

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ اللہ کا یہی ارادہ ہے کہ اے اہل بیت رسالت تم سے ہر رجس گندیگی کو دور رککھے اور تم کو ہر عیب سے کما حقہ پاک و پاکیزہ قرار دے۔

سورہ نمبر3(آل عمران) آیت نمبر30 "إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى‏ آدَمَ‏ وَ نُوحاً وَ آلَ إِبْراهِيمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَى الْعالَمِينَ‏ذریة بعضها من بعض"

یعنی در حقیقت اللہ نے آدم، نوح اولاد ابراہیم اور اولاد عمران کو تمام اہل عالم پر بگرزیدہ فرمایا ہے، اس نسل کے بعض کو بعض سے۔

سورہ نمبر35( فاطر) آیت نمبر29" ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ‏ الَّذِينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا"

یعنی پھر ہم نے اپنے ان بندوں کو کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے چن لیا ہے۔

سورہ نمبر24( نور) آیت نمبر35 "اللَّهُ نُورُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ الزُّجاجَةُ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَ لا غَرْبِيَّةٍ يَكادُ زَيْتُها يُضِي‏ءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نارٌ نُورٌ عَلى‏ نُورٍ

۳۵۷

يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشاءُ ...."

یعنی اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال اس قندیل کے مانند ہے جس میں ایک چراغ روشن ہو وہ چراغ ایک شیشے کے اندر ہو اور وہ شیشہ اس طرح چمکتا ہوگویا ایک بہت درخشان ستارہ ہے۔ وہ زیتون کے اس مبارک درخت سے روشن ہوتا ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی۔ اس کا زیت ہر وقت ضو دینے کے لئے تیار ہے بغیر اس کے کہ آگ اس کو مس کرے، نور بالاۓ نور، خدا جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔

اور بہت سی آیتیں ہیں لیکن محفل کا وقت ان سب کو ذکر کرنے کی گنجائش نہیں رکھتا حتی کہ خطیب خوارزمی کے مناقب میں امام احمد بن حنبل نے مسند میں، حافظ ابونعیم نے مانزل من القرآن فی علی میں اور حافظ ابوبکر شیرازی نے نزول القرآن فی امیرالمومنین میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا قرآن کا چوتھائی حصہ ہم اہل بیت کے حق میں نازل ہوا ہے۔

نیز حافظ ابونعیم ما نزل من القرآن فی علی میں، احمد بن حنبل مسند میں، واحدی اسباب النزول میں محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول میں، ابن عساکر اور محدث شام ا پنی اپنی تاریخ میں، حافظ ابوبکر شیرازی نزول القرآن فی امیرالمومنین میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب شروع باب62 میں اور خواجہ بزرگ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب42 میں طبرانی سے اور وہ ابن عباس( جرامت) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا "نزلت‏ في‏ على‏ أكثر من ثلاث مائة آية في مدحه." (یعنی علی علیہ السلام کی مدح میں تین سو سے زیادہ آیتیں نازل ہوئیں۔)

یقینا ان میں سے ہر ایک آیت ک بارے میں کم سے کم کئی کئی گھنٹے تقریر کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن وقت نہ ہونے کی وجہ سے میں نے فہرست کے طور پر ان میں سے بعض کی تلاوت کردی ہے تاکہ صاحبان علم و فن اکابر علماۓ عامہ کی معتبر کتب مثلا تفسیر امام فخر الدین رازی، تفسیر امام ثعلبی، تفسیر زمخشری، تفسیر جلال الدین سیوطی، تفسیر طبری، تفسیر نیشاپوری، تفسیر واحدی، کتاب فرائد السمطینحموینی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، جمع بین الصحیحین حمیدی، مسند امام احمد بن حنبل، صواعق ابن حجر، شرف المصطفی خرگوشی، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، حلیتہ الاولیاء حافظ ابونعیم، مفاتیح الاسرار شہرستانی، مناقب خوارزمی، فصول المہمہ مالکی، شواہد التنزیل حاکم ابوالقاسم، استیعاب ابن عبدالبر، سقیفہ جوہری، ینابیع المودۃ خواجہ بزرگ حنفی، مودۃ القربی ہمدانی، مانزل من القرآن فی علی اصفہانی، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی، نہایہ ابن اثیر، کفایت الطالب گنجی شافعی، نزول القرآن فی امیرالمومنین ابوبکر شیرازی، اور رشفتہ الصادی سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی، وغیرہ کی طرف رجوع کر کے نگاہ تحقیق سے جائزہلیں جس سے ان پر حقیقت کا انکشاف ہوسکے۔

بہتر ہوگا کہ بیان کو زیادہ طول نہ دوں اور اسی آیت کا تذکرہ کروں جس کو عنوان کلام قرار دیا ہے اور سب سے بڑی دلیل بتایا ہے۔

میں نے عرض کیا تھا کہ شیعہ امامیہ فرقے کا عقیدہ یہ ہے کہ آیہ مبارکہ میں عقلی و نقلی دلائل و براہین کی روشنی میں اولی الامر سے آئمہ عشر سلام اللہ علہیم اجمعین مراد ہیں۔

۳۵۸

چنانچہ اس مطلب پر عقلی دلیلیں اتنی زیادہ ہیں کہ محفل کا وقت ان سب کو بیان کرنے کے لئے کافی نہیں ہے لیکن قرینہ خود ثابت کررہا ہے کہ ان اولی الامر کو یقینا گناہ و خطا سے معصوم ہونا چاہیئے جن کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت سے وابستہ ہے۔

چنانچہ امام فخرالدین رازی نے بھی اپنی تفسیر میں اس مفہوم کا اقرار کیا ہے کہ اگر کہا جاۓ اولی الامر معصوم نہیں ہیں تو اجتماع ضدین لازم آۓ گا اور یہ محال ہے۔

دوسرےیہ کہ اولی الامر کو ہر فرد بشر سے اعلم و افضل، اورع و اثقی اور اکمل ہونا چاہیے تاکہ وہ صفات پیغمبر(ص) کے حامل بنیں اور ہر حیثیت سے ان کی اطاعت واجب ٹھہرے۔

یہ صفات ساری امت میں(بتصدیق اکابر علماء اہل سنت) سوا آئمہ اثناء عشر علیہم السلام ک اور کسی کے لئے بیان نہیں کئے گئے ہیں۔ ان کا درجہ عصمت اس قدر بلند ہے کہ خدا نے آیت تطہیر میں اس کی شہادت دی ہے۔ اس جلیل القدر خاندان کی عصمت کے بارے میں اکابر علماۓ اہل تسنن کی معتبر کتابوں کے اندر کثرت سے حدیثیں مروی ہیں جن میں سے چند خبریں نمونے ک طور پر پیش کررہا ہوں۔

طرق عامہ سے آئمہ کے لئے اخبارِ عصمت

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب 77 ص345 میں اور شیخ الاسلام حموینی نے فرائد السمطین میں ابن عباس سے روایت کیہے کہ انہوں نے کہا:

"سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ‏ أَنَا وَ عَلِيٌّ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ تِسْعَةٌ مِنْ‏ وُلْدِ الْحُسَيْنِ‏ مُطَهَّرُونَ‏ مَعْصُومُونَ."

یعنی میں نے سنا کہ رسول اللہ صلعم فرماتے تھے میں اور علی اور حسن و حسین اور حسین کی اولاد میں سے نو افراد سب کے سب پاک و پاکیزہ اور معصوم ہیں۔

سلمان فارسی نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے حسین علیہ السلام کے شانے پر ہاتھ رکھ کے فرمایا:

" الإمام ابن الإمام تسعة من صلبه أئمّة أبرار امناء معصومون‏"

یعنی قطعی طور پر یہ امام اور امام کے فرزند ہیں، ان کی نسل سے نو عدد امام، نیکوکار، امین اور معصوم ہوں گے۔

زید ابن ثابت سے روایت کی ہے کہ آں حضرت نے فرمایا:

"‏ وَ إِنَّهُ لَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ ع أَئِمَّةٌ أَبْرَارٌ أُمَنَاءُ مَعْصُومُونَ‏ قَوَّامُونَ بِالْقِسْطِ "

یعنی یقینا حسین(ع) کے صلب سے نیکوکار، امین، معصوم اور عدل و انصاف کو قائم رکھنے والے امام پیدا ہوں گے۔

اور عمران ابن حصین سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں نے رسول خدا صلعم سے سنا کہ آں حضرت نے

۳۵۹

علی علیہ السلام سے فرمایا:

" أَنْتَ‏ وَارِثُ‏ عِلْمِي‏ وَ أَنْتَ الْإِمَامُ وَ الْخَلِيفَةُ بَعْدِي تُعَلِّمُ النَّاسَ بَعْدِي مَا لَا يَعْلَمُونَ وَ أَنْتَ أَبُو سِبْطَيَّ وَ زَوْجُ ابْنَتِي مِنْ ذُرِّيَّتِكُمُ الْعِتْرَةُ الْأَئِمَّةُ الْمَعْصُومِينَ "

یعنی تم میرے علم کے وارث ہو اور تم امام اور میرے بعد خلیفہ ہو۔ تم لوگوں کو وہ باتیں بتاؤ گے جو وہ نہیں جانتے، تم میرے نواسوں کے باپ اور میری بیٹی کے شوہر ہو، اور تمہاری اولاد میں سے عترت اور معصوم امام ہیں۔

اس قسم کے اخبار و احادیث اکابر علماۓ اہل سنت کے طرق سے بکثرت مروی ہیں جن میں سے اس مختصر وقت میں نمونے کے لئے اسی قدر کافی ہیں۔

ان حضرات کے علم کے بارے میں بھی طرق اہل سنت سے بکثرت اخبار منقول ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ راتوں کی خصوصی نشستوں میں ہم اس موضوع پر تفصیلی بحث کرچکے ہیں اور جو یقینا رسائل و اخبارات میں آپ حضرات کی نظر سے گزری ہوگی۔ نمونے کے طور پر آج بھی چند حدیثیں نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

عترت و اہلِ بیت(ع) کا علم

ابواسحق شیخ الاسلام حموینی فرائد السمطین میں، حافظ ابونعیم اصفہانی حلیتہ الاولیاء میں اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا میری عترت میری طینت سے پیدا کی گئی ہے اور خداۓ تعالی نے ان افراد کو علم وفہم کرامت فرمایا ہے راۓ ہو اس شخص پر جو ان کو جھٹلاۓ۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور صاحب کتاب سیر الصحابہ نے حذیفہ ابن اسید سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلعم نے ایک مفصل خطبہ اور حمد و ثناۓ الہی فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا:

"إنّي‏ تارك‏ فيكم‏ الثّقلين كتاب اللّه و عترتي ان تمسکتم بهما فقد نجوتم"اور طبرانی اتنے اضافے کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ فرمایا: " فلا تقدموهما فتهلكوا و لا تقصروا عنهما فتهلكوا و لا تعلموهم فانهم أعلم منكم. "

یعنی میں تمہارے اندر دو نفس وبزرگ چیزیں چھوڑتا ہوں، خدا کی کتاب اور میری عترت، اگر تم ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو ضرور نجات پاؤ گے۔

پھر فرمایا کہ ان سے پیش قدمی نہ کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے، ان افراد سے تقصیر و کوتاہی نہ کرو ورنہ ہلاک ہوگے اور ان کو سکھانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ یقینا یہ تم سے زیادہ عالم ہیں۔

نیز دوسری روایت میں حذیفہ بن اسید سے نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

" الْأَئِمَّةُ بَعْدِي‏ مِنْ‏

۳۶۰