پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316850 / ڈاؤنلوڈ: 7971
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

سوالات

۱_ جس وقت رسول خد ا(ص) نے روميوں سے جنگ كيلئے سپاہ روانہ كرنے كا اقدام كيا تو آنحضرت (ص) كوكيا مشكلات اور دشوارياں پيش آئيں؟

۲_ جب رسول خد ا(ص) نے مسلمانوں كو روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كى دعوت دى تو ان كى طرف سے كيا رد عمل ظاہر ہوا؟

۳_ رسول خد ا(ص) جب غزوہ تبوك پر تشريف لے جارہے تھے تو آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں كسے اپنا جانشين مقرر رفرمايا اور اس شخص كے انتخاب كئے جانے كا كيا سبب تھا؟

۴_ اگر چہ غزوہ تبوك كے موقع پر جنگ تو نہيں ہوئي مگراسلام دشمنوں نے اس سے كچھ سبق ضرور حاصل كئے ان كے بارے ميں لكھئے وہ كيا تھے؟

۵_ غزوہ تبوك كا مسلمانوں كے دل ودماغ پر كيا اثر ہوا ؟

۶_ عزوہ تبوك كے موقع پر منافقين نے جو ريشہ دوانياں كيں اس كے دو نمونے پيش كيجئے_

۷_ غزوہ تبوك كو ''فاضحہ'' كس وجہ سے كہا گيا ؟ وضاحت كيجئے_

۸_ سورہ توبہ كى ابتدائي آيات ہجرت كے كس سال رسول خدا (ص) پر نازل ہوئيں اور آنحضرت (ص) نے كس شخص كے ذريعے انہيں مشركين تك پہنچايا ؟

۹_ سورہ توبہ كے علاوہ بھى كيا رسول خد ا(ص) كى طرف سے كوئي پيغام مشركين كو بھيجا گيا تھا ؟ وہ كيا پيغام تھا اس كے بارے ميں لكھئے_

۱۰_ كيا سورہ توبہ كى ابتدائي آيات اور اس كا مفہوم جو حضرت على (ع) كى جانب سے مشركين كو بھيجا گيا تھا ، ان پر كسى عقيدے كو مسلط كرنے اور ان كى آزادى سلب كرنے كے مترادف ہے يا نہيں ؟، اس كى وضاحب كيجئے_

۲۸۱

حوالہ جات

۱_يہ جگہ ''وادى القري'' اور شام كے درميان واقع ہے مدينہ سے اس جگہ تك بارہ منزل كا فاصلہ ہے ، معجم البلدان ج ۲ ص ۱۴_ ۱۵ ، مسعودى نے اپنى كتاب التنبيہ والاشراف ميں ص ۲۳۵ پر لكھا ہے كہ مذكورہ بارہ منزلوں كا فاصلہ نوے فرسخ ہے (تقريباً ۵۴۰ كلوميٹر)_

۲_يہ جگہ شام اور وادى القرى كے درميان دمشق كے علاقے ميں واقع ہے ، معجم البلدان ج ۱ ص ۴۸۹_

۳_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۹۰_

۴_علامہ ''مفيد'' مرحوم نے اپنى كتاب ''الارشاد'' ميں ص ۸۲ پر لكھتے ہيں كہ ''رسول خدا (ص) '' كو وحى كے ذريعے علم ہوگيا تھا كہ اس سفر ميں جنگ نہيں ہوگى ''اورتلوار چلائے بغير ہى كام آنحضرت (ص) كى مرضى كے مطابق انجام پذير ہوں گے ، سپاہ كو تبوك كى جانب روانہ كئے جانے كا حكم محض مسلمانو ں كى آزمائشے كى خاطر ديا گيا تھا تاكہ مومن ومنافق كى تشخيص ہوسكے، موصوف اپنى كتاب ميں دو صفحات كے بعد لكھتے ہيں كہ اگر اس سفر ميں جنگ واقع ہوتى او ر رسول خد ا(ص) كو مدد كى ضرورت پيش آتى تو خداوند تعالى كى طرف سے يہ حكم نازل نہ ہوتا كہ آپ (ص) حضرت على (ع) كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمائيںبلكہ انہيں مدينہ ٹھہرانے كى آپ(ص) كو اجازت ہى نہيں ملتي_

۵_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۹۹۰_

۶_ايضا ص ۱۰۰۲_

۷_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۱۰_

۸_سورہ توبہ كى ۴۲ سے ۱۱۰ تك كى آيات اسى سلسلے ميں نازل ہوئي ہيں_

۹_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيت ۹۲_

۱۰_ ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت ۸۱_

۱۱_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ آيت ۷۹_

۱۲_ملاحظہ ہو : تفسير برہان ج ۲ ص ۱۴۸_

۱۳_سورہ توبہ آيت ۴۹و ۹۰_

۲۸۲

۱۴_ايضا آيت ۱۱۸_

۱۵_الارشاد ، مفيد ص ۸۲_

۱۶_ايضا ص ۸۳_

۱۷_التنبيہ والاشراف ص ۲۳۵_

۱۸_المغازى ج ۳ ص ۱۰۱۵_

۱۹_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۱۰۳۱ وسيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۹_

۲۰_يہ قلعہ شام كے نواح ميں تھا جس كا فاصلہ دمشق سے پانچ رات (تقريبا ۱۹۰ كلوميٹر) اور مدينہ تك اس كا سفر تقريباً پندرہ يا سولہ رات (تقريباً ۵۷۰ كلوميٹر) كا تھا_ الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۶۲ و وفاء الوفاء ج ۲ ص ۱۲۱۳_

۲۱_ملاحظہ ہو : المغازى ج ۳ ص ۱۰۲۵ والسيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۹

۲۲_محمد بن سعد نے''الطبقات الكبري''كى جلد اول كے صفحات ۳۵ _۲۹۱ميں لكھا ہے كہ تہتر(۷۳) وفد رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے چنانچہ ہر وفد كى اس نے عليحدہ خصوصيات بھى بيان كى ہيں_

۲۳_ملاحظہ ہو: الكامل فى التاريخ ج ۳ ص ۲۸۶_

۲۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۲۰۵_

۲۵_ملاحظ ہو : الطبقات الكبرى ج ۲ ص ۱۶۷ والمغازى ج ۳ ص ۱۰۵۷_

۲۶_ السيرة النبويہ ابن كثير ج ۴ ص ۴۱_۴۲_

۲۷_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۲۹_

۲۸_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۶۰_

۲۹_ملاحظہ ہو :المغازى ج ۳ ص ۹۹۵_

۳۰_ ملاحظہ ہو: تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۰۳_ ۱۰۴ و السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۳۲_

۲۱_بعض كتب ميں ان كى تعداد چودہ اور پندرہ بھى بتائي گئي ہے (السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۴۲_

۳۲_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۱۴۲ والمغازى ج ۳ ص ۱۰۴۲_ ۱۰۴۵_

۲۸۳

۳۳_ملاحظہ ہو : سورہ توبہ كى آيات ۱۰۷ سے ۱۱۰ تك ، خداوند تعالى نے اس مسجد كو مسجد ضرار كے عنوان سے ياد كيا ہے اور اس مركز كے قائم كئے جانے كا سبب مسلمانوں كو زك پہنچانا ' كفر كى بنيادوں كو محكم كرنا اور ' مسلمانوں كى صفوں ميں تفرقہ ڈالنا بيان كيا ہے اور اسے دشمنان رسول خد ا(ص) كے مركز سے تعبير كياہے_

۳۴_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ج ۴ ص ۱۷۳ وبحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۵۲ _ ۲۵۵_

۳۵_سورہ توبہ كى آيات ۴۲ سے ۱۱۰ تك ان منافقين كى خيانت كاريوں اور سازشوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہے جو جنگ تبوك كے دوران اپنى سازشوں ميں سرگرم عمل تھے ، مذكورہ آيات ميں خداوند تعالى كى طرف سے ان كى ذہنى كيفيات و خصوصيات بيان كى گئي ہيں_

۳۶_رسول خد ا(ص) ماہ رمضان ميں مدينہ واپس تشريف لائے ، عبداللہ بن ابى ماہ شوال ميں بيمار ہوا اور ماہ ذى القعدہ ميں مرگيا ، ملاحظہ ہو: المغازى ج ۳ ص ۱۰۵۶_ ۱۰۵۷_

۳۷_لَايُؤَديّ عَنكَ الَّا اَنتَ اَو رَجُلٌ منكَ _

۳۸_ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ' ابن ہشام ج ۴ ص ۱۹۰ _ ۹۱ ۱' بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۶۵ _۲۷۵_

۲۸۴

سبق ۱۶:

حجة الوداع ، جانشين كا تعين اور رحلت پيغمبر(ص) اكرم

۲۸۵

حجة الوداع

اسلام كے ہاتھوں تبوك ميں سلطنت روم كى سياسى شكست، جزيرہ نمائے عرب ميں شرك و بت پرستى كى بيخ كنى(۱) اورمشركين كے نہ صرف مناسك حج ميں شركت كرنے بلكہ مكہ ميں داخل ہونے پر مكمل پابندى كے بعد جب زمانہ حج نزديك آيا تو رسول خد ا(ص) كو مامور كيا گيا كہ آنحضرت (ص) بذات خود ہجرت كے دسويں سال ميں مناسك حج ادا كريں تاكہ اسلام كى طاقت كو اور زيادہ نماياں كرنے كے ساتھ عہد جاہليت كے آداب و رسوم كو ترك كرنے اورسنت ابراہيمى كے اصول كے تحت حج كى بجا آورى بالخصوص مستقبل ميں مسئلہ قيادت اسلام كے بارے ميں براہ راست مسلمانوں كو ہدايت فرمائيں تاكہ سب پر حجت تمام ہوجائے_(۲)

رسول خد ا(ص) كو وحى كے ذريعے اس كام پر مامور كيا گيا كہ آنحضرت(ص) تمام مسلمانوں كو حج بيت اللہ پر چلنے كےلئے آمادہ كريں اور انہيں اس عظیم اسلامى اجتماع ميں شركت كرنے كى دعوت ديں چنانچہ اس بارے ميں خداوند تعالى اپنے نبى (ص) سے خطاب كرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے كہ :

( وَأَذّن فى النَّاس بالحَجّ يَأتُوكَ رجَالًا وَعَلَى كُلّ ضَامر: يَأتينَ من كُلّ فَجّ: عَميق )

''اور لوگوں كو حج كيلئے دعوت عام دو كہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پيدل اور

۲۸۶

سوار ى پر آئيں تاكہ وہ فائدے ديكھيں جو يہاں ان كيلئے ركھے گئے ہيں''(۳) _

جس وقت يہ اعلان كياگيا اگر چہ اس وقت مدينہ اور اس كے اطراف ميں چيچك كى وبا پھيلى ہوئي تھى اور بہت سے مسلمان اس مرض كى وجہ سے اركان حج ادا كرنے كيلئے شركت نہيں كرسكتے تھے(۴) مگر جيسے ہى انہوں نے رسول خد ا(ص) كا يہ پيغام سنا مسلمان دور و نزديك سے كثير تعداد ميں مدينہ كى جانب روانہ ہوگئے تاكہ رسول خدا (ص) كے ساتھ مناسك حج ادا كرنے كا فخر حاصل كرسكيں ، مورخین نے ان كى تعداد چاليس ہزار سے ايك لاكھ چوبيس ہزار تك اور بعض نے اس سے بھى زيادہ لكھى ہے_(۵)

رسول خدا (ص) نے حضرت ابودجانہ كو مدينہ ميں اپنا جانشين مقرر فرمايا اور ہفتہ كے دن بتاريخ پچيس ذى القعدہ(۶) مكہ كى جانب روانہ ہوئے اس سفر ميں مسلمانون كا ذوق وشوق اس قدر زيادہ تھا كہ ان ميں سے كثير تعداد نے مدينہ و مكہ كے درميان كا فاصلہ پيدل چل كر طے كيا _(۷)

يہ قافلہ دس روز بعد منگل كے دن(۸) بتاريخ چہارم ذى الحجہ(۹) مكہ ميں داخل ہوا_(۹) جہاں اس نے عمرہ كے اركان ادا كئے _

آٹھ ذى الحجہ تك مسلمانوں كى دوسرى جماعت بھى مكہ پہنچ گئي جس ميں حضرت على (ع) اور آپ (ع) كے وہ ساتھى بھى شامل تھے جو اس وقت آپ (ع) يمن كے دورے پر تشريف لے گئے تھے_(۱۰)

رسول خدا (ص) نے اس عظیم اسلامى اجتماع ميں سنت ابراہيمى كے مطابق مناسك حج ادا كرنے كى تعليم دينے كے ساتھ يہ بھى ہدايت فرمائي كہ كس طرح صحيح طور پر اركان حج پر عمل پيرا ہوں ، آنحضرت (ص) نے ''مكہ''، ''منى '' اور ميدان ''عرفات '' ميں مختلف مواقع پر خطاب

۲۸۷

فرما كر آخرى مرتبہ مسلمانوں كو پند ونصائح اور ارشادات عاليہ سے نوازا(۱۱) ان تقارير ميں آپ(ص) نے انہيں يہ نصيحت فرمائي كہ لوگوں كے جان ومال كى حفاظت كريں ، قتل نفس كى حرمت كا خيال ركھيں ، سود كى رقم كھانے ، دوسروں كا مال غصب كرنے سے بچیں ، دورجاہليت ميں جو خون بہايا گيا تھا اس سے چشم پوشى كو ہى بہتر سمجھيں ، كتاب اللہ پر سختى سے عمل پيرا ہوں ، ايك دوسرے كے ساتھ برادرانہ سلوك كريں، نيز استقامت و پائيدارى كے ساتھ احكام الہى و قوانين دين مقدس اسلام پر كاربند رہيں ، اس ضمن ميں آنحضرت(ص) نے مزيد ارشاد فرمايا كہ : حاضرين ان لوگوں كو جو يہاں موجود نہيں ہيں يہ پيغام ديں كہ ميرے بعد كوئي نبى و پيغمبر نہيں ہوگا اور تمہارے بعد كوئي امت نہ ہوگي(۱۲) آنحضرت(ص) نے يہ بات تاكيدسے كہى كہ : اے لوگو ميرى بات كو اچھى طرح سے سنو اور اس پر خوب غورو فكر كرو كيونكہ يہ ممكن ہے كہ اس كے بعد يہ موقع نہ ملے كہ ميرى تم سے ملاقات ہوسكے(۱۳) چنانچہ ان الفاظ كے ذريعے آنحضرت (ص) لوگوں كو مطلع كر رہے تھے كہ وقت رحلت نزديك آگيا ہے اور شايد اسى وجہ سے اس حج كو ''حجة الوداع'' كے عنوان سے ياد كيا جاتاہے_

جانشين كا تعين

مناسك حج مكمل ہوگئے اور رسول خدا(ص) واپس مدينہ تشريف لے آرہے تھے ليكن جو فرض آنحضرت (ص) پر واجب تھا وہ ابھى پورا نہيں ہوا تھا، مسلمانوں نے يہ سمجھ كر كہ كام انجام پذير ہوچكا ہے اورہر شخص نے اس سفر سے معنوى فيض كسب كرليا ہے اب ان كے دلوں ميں يہى تمنا تھى كہ جس قدر جلد ہوسكے تپتے ہوئے بے آب وگيا صحرا اورويراں ريگزاروں كو پار كركے واپس اپنے وطن پہنچ جائيں ليكن رسول خد ا(ص) نے چونكہ اپنى عمر عزيز كے تئيس سال ،

۲۸۸

اول سے آخر تك رنج وتكاليف ميں گزار كر آسمانى دين يعنى دين اسلام كى اشاعت و ترويج كے ذريعے انسانوں كو پستى و گمراہى اور جہالت و نادانى كى دلدل سے نكالنے ميں صرف كئے تھے اور آپ (ص) اپنے اس مقصد ميں كامياب بھى ہوئے كہ پراكندہ انسانوں كو ايك پرچم كے نيچے جمع كرليں اورانہيں امت واحد كى شكل ميں لے آئيں انہيںاب دوسرا خيال درپيش تھا ،اب آنحضرت (ص) كے سامنے اسلام كے مستقبل اور قيادت كا مسئلہ تھا بالخصوص اس صورت ميں جبكہ آپ (ص) كے روبرو يہ حقيقت بھى تھى كہ اس پر افتخار زندگى كے صرف چند روز ہى باقى رہ گئے ہيں_

رسول خدا (ص) ہر شخص سے زيادہ اپنے معاشرے كى سياسى ، معاشرتي، اجتماعى اور ثقافتى وضع و كيفيت سے واقف تھے ، آنحضرت(ص) كو اس بات كا بخوبى علم تھا كہ آسمانى تعليمات ، آپ (ص) كى دانشورانہ قيادت و رہبرى اور حضرت على (ع) جيسے اصحاب كى قربانى كے باعث قبائل كے سردار و اشراف قريش اسلام كے زير پرچم جمع ہوگئے ہيں ليكن ابھى تك بعض كے دل و دماغ مكمل طور پر تسليم حق نہیں ہوئے اور وہ ہر وقت اس فكر ميں رہتے ہيں كہ كوئي موقع ملے اور وہ اندر سے اس دين پر ايسى كارى ضرب لگائيں كہ بيروى طاقتوں كيلئے اس پر حملہ كرنے كيلئے ميدان ہموار ہوجائے _

( اَلْيَومُ اَكْمَلْتُ لَكُمْ ديْنَكُمْ ) (۱۴) كے مصداق كوئي ايسا ہى لائق اور باصلاحيت شخص جو آنحضرت (ص) كى مقرر كردہ شرائط كو پورا كرسكے ،دين اسلام كو حد كمال تك پہنچا سكتا ہے نيز امت مسلمہ كى كشتى كو اختلافات كى تلاطم خيز لہروں سے نكال كر نجات كے ساحل كى طرف لے جاسكتاہے_

رسول اكرم (ص) اگر چہ جانتے تھے كہ امت مسلمہ ميں وہ كون شخص ہے جو آپ(ص) كى جانشينى اور

۲۸۹

مستقبل ميں اس امت كى رہبرى كيلئے مناسب وموزوں ہے اور خود آنحضرت (ص) نے كتنى ہى مرتبہ مختلف پيرائے ميں يہ بات لوگوں كے گوش گذار بھى كردى تھى ليكن ان حقائق كے باوجود اس وقت كے مختلف حالات اس امر كے متقاضى تھے كہ جانشينى كيلئے خداوند تعالى كى طرف سے واضح وصريح الفاظ ميں جديد حكم نازل ہو، آنحضرت (ص) يہ بات بھى خوب جانتے تھے كہ اس معاملے ميں اللہ تعالى آنحضرت (ص) كى مدد بھى فرمائے گا_كيونكہ رسالت كى طرح مقام خلافت و امامت بھى ايك الہى منصب ہے اور حكمت الہى اس امر كى متقاضى ہے كہ اس منصب كيلئے كسى لائق شخص كوہى منتخب كياجائے ليكن اس كے ساتھ ہى رسول خدا (ص) كو خدشہ بھى لاحق تھا كہ اگر يہ عظيم اجتماع پراكندہ ہوگيا اور ہر مسلمان اپنے اپنے وطن چلاگيا تو پھر كبھى ايسا موقع نہ مل سكے گا كہ كسى جانشين كے مقرر كئے جانے كا اعلان ہوسكے اور آپ (ص) كا پيغام لوگوں تك پہنچ سكے_

قافلہ اپنى منزل كى جانب رواں دواںتھا كہ بتاريخ ۱۸ ذى الحجہ ''جحفہ '' كے نزديك ''غدير خم'' پر پہنچا اور يہ وہ جگہ ہے جہاں سے مدينہ ،مصر اور عراق كى جانب جانے والى راہيں ايك دوسرے سے جدا ہوتى ہيں ، اس وقت فرشتہ وحى نازل ہو ااوررسول خدا (ص) كو جس پيغام كى توقع تھى اسے اس نے ان الفاظ ميں پہنچاديا :

( يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَهُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس إنَّ الله َ لاَيَهدى القَومَ الكَافرينَ ) (۱۵) _

''اے پيغمبر (ص) جو كچھ تمہارے رب كى طرف سے تم پر نازل كيا گيا ہے اسے لوگوں تك پہنچا

۲۹۰

دو ، اگر تم نے ايسا نہ كيا تو تم نے اس كى پيغمبرى كا حق ادا نہيں كيا اللہ تم كو لوگوں كے شر سے بچائے گااور خدا كافروں كو ہدايت نہيں كرتا'' _

گرمى سخت تھى اور كافى طويل قافلہ زنجير كے حلقوں كى مانند پيوستہ اپنى منزل كى جانب گامزن تھا ، رسول خد ا(ص) كے حكم سے يہ قافلہ رك گيا اور سب لوگ ايك جگہ جمع ہوگئے اور يہ جاننے كے متمنى تھے كہ كون سا اہم واقعہ رونما ہونے والا ہے_

رسو-ل خد ا(ص) نے پہلے تو نماز ظہر كى امامت فرمائي اور اس كے بعد ايك (منبر نما) اونچى جگہ پر جو اونٹ كے كجاوئوں سے بنائي گئي تھى تشريف فرما ہوئے اس موقع پر آپ (ص) نے مختلف مسائل كے بارے ميں تفصيلى خطبہ ديا اور ايك بار پھر لوگوں كو يہ نصيحت فرمائي كہ كتاب اللہ اور اہلبيت رسول (ص) كى پورى ديانتدارى كے ساتھ پيروى كريں كيونكہ يہى دونوں ''متاع گرانمايہ'' يعنى بيش قيمت اثاثے ہيں ، اس كے بعد آنحضرت(ص) نے اصل مقصد كى جانب توجہ فرمائي_

آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) كا دست مبارك اپنے دست مبارك ميں لے كر اس طرح بلند كيا كہ سب لوگوں نے رسول خد ا(ص) نيز حضرت على (ع) كو ايك دوسرے كے دوش بدوش ديكھا چنانچہ انہوں نے سمجھ ليا كہ اس اجتماع ميں كسى ايسى بات كا اعلان كياجائے گا جو حضرت على (ع) كے متعلق ہے_

رسول خد ا(ص) نے مجمع سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا :

''اے مومنو تم لوگوں ميں سے كونسا شخص خود ان سے زيادہ اَولى اور ان كى جانوں كا زيادہ حق دار ہے ؟'' مجمع نے جواب ديا كہ خدا ا ور رسول خدا(ص) ہى بہتر جانتے ہيں _

اس پر رسول خدا (ص) نے فرمايا :'' ميرا مولا خدا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں ميں خود ان

۲۹۱

سے زيادہ اَولى اور ان كى جانوں پر تصرف كا زيادہ حق ركھتا ہوں اور سب پر مجھے فضےلت حاصل ہے اور جس كا مولا ميں ہوںيہ على (ع) بھى اس كے سردار اورمولا ہيں ، اے خدا وندا جو على (ع) كے دوست ہوں انہيں تو عزيز ركھ اور جو على (ع) كے دشمن ہوں تو ان كے ساتھ دشمنى كر ، على (ع) كے دوستوں كو فتح ونصرت عطا فرما اور دشمنان على (ع) كو ذليل وخوار كر''_(۱۶)

رسول خدا (ص) كا خطبہ ختم ہوجانے كے بعد مسلمان حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور رسول خدا (ص) كى طرف سے مقام خلافت و قيادت تفويض كئے جانے پر انہوں نے آپ(ع) كو مبارك باد پيش كى اور آپ (ع) سے امير المؤمنين اور مولائے مسلمين كہہ كر ہمكلام ہوئے ، خداوند تعالى نے بھى حضرت جبرئيل (ع) كو بھيج كر اور مندرجہ ذيل آيت نازل فرما كر لوگوں كو اس نعمت عظمى كى بشارت اور مبارك باد دي_

( اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نعمَتى وَرَضيتُ لَكُم الإسلاَمَ دينًا ) _(۱۷)

''آج ميں نے تمہارے دين كو تمہارے لئے مكمل كرديا ہے اور اپنى نعمت تم پر تمام كردى ہے اور تمہارے لئے اسلام كو دين كى حيثيت سے پسند فرمايا ہے''(۱۸) _

اس روز (۱۸ ذى الحجہ )سے مسلمان اور حضرت على (ع) كے پيروكار ''عيد غدير'' كے نام سے ہر سال جشن مناتے ہيں اور اس عيد كا شمار اسلام كى عظیم عيدوں ميں ہوتا ہے_

رسول خدا(ص) كى آخرى عسكرى كوشش

رسول اكرم (ص) ''حجة الوداع'' سے واپس آنے كے بعد خداوند تعالى كى طرف سے عائد كردہ دو اہم فرائض (فريضہ حج اور حضرت على (ع) كى جانشينى كے اعلان) كو انجام دينے كے

۲۹۲

بعد اگر چہ بہت زيادہ اطمينان محسوس كر رہے تھے ليكن اس كے باوجود آپ (ص) كى دور رس نگاہيں ديكھ رہى تھيں كہ ابھى امت مسلمہ كے سامنے ايسے مسائل ہيں جن كى وجہ سے وہ فتنہ وفساد سے دوچار رہے گى چنانچہ يہى فكر آنحضرت (ص) كيلئے تشويش خاطر كا باعث تھي_

سنہ ۱۱ ہجرى كے اوائل ميں جب كچھ لوگوں نے يہ خبر سنى كہ سفر كى وجہ سے رسول خد ا(ص) كى طبيعت ناساز ہے تو انہوں نے نبوت كا دعوى كركے فتنہ و غوغا برپا كرديا ، چنانچہ ''مُسيلمہ'' نے ''يمامہ'' ميں ''اسود عنسي'' نے ''يمن ''ميں اور ''طليحہ'' نے ''بنى اسد '' كے علاقوںميں لوگوں كو فريب دے كر گمراہ كرنا شروع كرديا _(۱۹)

مسيلمہ نے تو رسول خد ا(ص) كو خط بھى لكھا اور آنحضرت (ص) سے كہا كہ اسے بھى امر نبوت ميں شريك كرلياجائے_(۲۰)

دوسرى طرف ان لوگوں كو ، جو كل تك كافر اور آج منافق تھے اور جن كے دلوں ميں پہلے سے ہى اسلام كے خلاف بغض و كينہ بھرا ہوا تھا ، جب يہ معلوم ہوا كہ رسول خد ا(ص) نے حضرت على (ع) كے پيشوائے اسلام اور جانشين پيغمبر (ص) ہونے كا اعلان كرديا ہے تو ان كا غصہ پہلے سے كہيں زيادہ ہوگا چنانچہ جب انہيں يہ علم ہوا كہ رسول خدا(ص) كى طبيعت ناساز ہے اور آنحضرت (ص) كى رحلت عنقريب ہى واقع ہونے والى ہے تو ان كا جوش و خروش كئي گنا زيادہ ہوگيا_

ان واقعات كے علاوہ مشرقى روم كى مغرور و خود سر حكومت اور اس كى نو آباديات كو مسلمانوں كے ساتھ چند مرتبہ نبرد آزمائي كرنے كے بعد ان كى طاقت كا اندازہ ہوگيا تھا اور ان سے كارى ضربيں كھاچكے تھے اسى لئے ان كا وجود مدينہ كى حكومت كے لئے خطرہ بنا ہوا تھا كيونكہ سياسى عوامل سے قطع نظر اس خاص مذہبى حساسيت كے باعث بھى جو عيسائي

۲۹۳

سربراہوں كے دلوں ميں اسلام كے خلاف تھى شمالى سرحدوں پر ہميشہ ناامنى سايہ فگن تھي_

ان حالات ميں بقول پيغمبر اكرم (ص) ''فتنے وفسادات سياہ رات كى طرح يكے بعد ديگرے اسلامى معاشرے پر چھانے شروع ہوگئے ہيں''_(۲۱)

چنانچہ آنحضرت (ص) نے ان كے خاتمہ كيلئے بعض آخرى اور انتہائي اقداما ت بھى كئے _

رسول خدا (ص) نے ''يمن''اور'' يمامہ'' ميں اپنے گورنروں اور قبيلہ بنى اسد كے درميان موجود اپنے نمائندے كو حكم ديا كہ نبوت كے دعويداروں كى شورش كو دبا دیں، اس كے علاوہ يہ حكم بھى صادر فرمايا كہ''اسامہ بن زيد'' نامى اٹھارہ يا انيس(۲۲) سالہ سپہ سالار كى زير قيادت طاقتور سپاہ تيار كى جائے چنانچہ آنحضرت (ص) نے حضرت اسامہ كى تحويل ميں پرچم دينے كے بعد فرمايا كہ پورى امت مسلمہ كے ساتھ جس ميں مہاجر و انصار شامل ہوں بلاد روم ميں اپنے والد ''زيد بن حارثہ'' كى شہادت گاہ كى جانب روانہ ہوں(۲۳) _

حصرت اسامہ كے سپہ سالار مقرر كرنے كى وجہ ان كى مہارت ولياقت كے علاوہ يہ بھى ہوسكتى تھى كہ :

۱_يہ عمل آنحضرت (ص) كى جانب سے ان خرافات كے خلاف عملى جدو جہد تھى جو دور جاہليت سے بعض صحابہ كے ذہنوں ميں سمائي ہوئي تھيں كيونكہ ان كى نظر ميں كسى مقام ومرتبہ كے حصول كا معيار يہى تھا كہ صاحب جاہ ومرتبہ معمر شخص ہو اور كسى قبيلے كے سردار سے وابستہ شخص ہى اس كا حقدار ہوسكتا ہے_

۲_حضرت زيد ابن حارثہ كى شہادت چونكہ روميوں كے ہاتھوں ہوئي تھى اسى لئے ان كے دل ميں روميوں كے ساتھ جنگ كرنے كا جوش وولولہ بہت زيادہ تھا، رسول خدا (ص) كى يہ كوشش تھى كہ ان كے اس جوش وولولے ميں مزيد شدت اورحدت پيدا ہو چنانچہ

۲۹۴

اسى وجہ سے جب آنحضرت (ص) نے سپہ سالار ى كى ذمہ دارى ان كو دى تو اس كے ساتھ يہ بھى ارشاد فرمايا كہ ''اپنے باپ كى شہادت گاہ كى جانب روانہ ہو ''_(۲۴)

۳_اگر اس وقت كے حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے سپاہ كى قيادت مہاجر و انصار ميں سے كسى معمر شخص كى تحويل ميں دے دى جاتى تو اس بات كا امكان تھا كہ وہ شخص اس عہدے سے سوء استفادہ كرتا اوراسى وجہ سے خود كو پيغمبر اكرم (ص) كا خليفہ و جانشين سمجھنے لگتا ليكن حضرت اسامہ كى يہ حيثيت نہيں تھى اور ان كے خليفہ بننے كا كوئي امكان بھى نہيں تھا_

حضرت اسامہ نے رسول خد ا(ص) كے حكم كے مطابق ''جُرْف''(۲۴) نامى مقام پر خيمے نصب كئے اور ديگر مسلمانوں كى آمد كا انتظار كرنے لگے_

رسول خد ا(ص) نے مسلمانوں بالخصوص مہاجر و انصار كے سرداروں كو حضرت اسامہ كے لشكر ميں شامل كرنے كيلئے بہت زيادہ تاكيد اور اہتمام سے كام ليا اور جو لوگ اس اقدام كے مخالف تھے ان پر آنحضرت (ص) نے لعنت بھى بھيجي_(۲۶)

حضرت اسامہ كى عسكرى طاقت كو تقويت دينے كے علاوہ اس اہتمام كى ايك وجہ يہ بھى تھى كہ آنحضرت(ص) چاہتے تھے كہ وقت رحلت وہ لوگ مدينہ ميں موجود نہ رہيں جو امت ميں اختلاف پيدا كرنے اور منصب خلافت كے حصول كى فكر ميں ہيں تاكہ حضرت على (ع) كى قيادت و پيشوائي كے بارے ميں فرمان خدا و رسول (ص) جارى كئے جانے كيلئے راستہ ہموار رہے_(۲۷)

ليكن افسوس بعض مسلمانوں نے جنہيں رسول خدا(ص) مدينہ سے باہر بھيجنے كيلئے كوشاں تھے يہ بہانہ بناكر كہ حضرت اسامہ بہت كم عمر ہيں مخالفت شروع كردى اور ان كى خميہ گاہ كى

۲۹۵

جانب جانے سے انكار كرديا _(۲۸) نيز يہ ديكھ كر كہ رسول خدا (ص) كى طبيعت ناساز ہے تو انہوں نے حضرت اسامہ كے لشكر كو روم كى طرف جانے سے يہ كہہ كر روكنا چاہا(۲۹) كہ چونكہ اس وقت رسول خدا (ص) بہت عليل ہيں اسى لئے ان حالات كے تحت ہمارے دلوں ميں آپ (ص) سے جدائي كى تاب و طاقت نہيں_(۳۰)

رسول خدا (ص) كو منافقين كے اس رويے سے سخت تكليف پہنچى آپ (ص) طبيعت كى ناسازى كے باوجود مسجد ميں تشريف لے گئے اور مخالفت كرنے والوں سے فرمايا كہ : ''اسامہ كو سپہ سالار مقرر كئے جانے كے بارے ميں ميں يہ كيا سن رہاہوں ، اس سے پہلے جب ان كے باپ كو سپہ سالار مقرر كيا تھا تو اس وقت بھى تم طعن و تشنيع كر رہے تھے خدا گواہ ہے كہ وہ بھى لشكر كى سپہ سالارى كے لئے مناسب تھے اور اسامہ بھى اس قيادت كے اہل اور لائق ہيں''_(۳۱)

رسول خدا(ص) اس وقت بھى جب كہ صاحب فراش تھے تو ان لوگوں سے جو عيادت كيلئے آئے تھے مسلسل يہى فرماتے كہ ''انْفُذوْابَعْثَ اُسَامَةَ ''(۳۲) اسامہ كے لشكر كو تو روانہ كروليكن آنحضرت(ص) كى يہ سعى وكوشش بھى بے سود ثابت ہوئي كيونكہ صحابہ ميں جو سردار تھے انہوں نے اس قدر سستى اورسہل انگارى سے كام ليا كہ آنحضرت(ص) كى رحلت واقع ہوگئي اور سپاہ واپس مدينہ آگئي _

رسول خدا(ص) كى رحلت

رسول خدا(ص) كے مزاج كى ناسازى ميں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا علالت كے دوران آنحضرت (ص) بقيع كى جانب تشريف لے گئے اور جو لوگ وہاں ابدى نيند سو رہے تھے

۲۹۶

ان كى طلب مغفرت كے بعد حضرت على (ع) كى جانب رخ كيا اور فرمايا كہ جبرئيل سال ميں ايك مرتبہ مجھے قرآن پيش كرتے تھے ليكن اس مرتبہ انہوںنے دو مرتبہ پيش كيا اس كى وجہ اس كے علاوہ كچھ اور نہيں ہوسكتى كہ ميرى رحلت قريب ہے ، اس كے بعد آپ (ص) نے فرمايا كہ :

''اے على (ع) مجھے يہ اختيار ديا گيا ہے كہ دنيا كے خزانوں، اس كى جاويدانى زندگى اور بہشت كے درميان ميں سے كسى كا انتخاب كرلوں ميں نے ان ميں سے بہشت اور ديدار پروردگار كو چن لياہے''_(۳۳)

رسول خدا (ص) بسترعلالت پر فروكش اورانتہائي اشتياق كے ساتھ فرمان حق كا انتظار فرما رہے تھے ليكن يہ اشتياق آنحضرت (ص) كو امت كى ہدايت كے خيال اور اس كے درميان اختلاف كى وجہ سے فتنہ پيدا ہونیکے انديشے سے نہ روك سكا، صحابہ ميں سے بعض برگزيدہ حضرت آپ(ص) كى عيادت كيلئے حاضر ہوئے ان سے رسول خد ا(ص) نے يہى ارشاد فرمايا كہ : ''قلم ودوات لے آو تاكہ ميں تمہارے لئے ايسى چيز لكھ دوں جس سے تم كبھى گمراہ نہ ہو گے''_(۳۴) اس پر عمر نے كہا : رسول خدا (ص) پر مرض كا غلبہ ہے قرآن تو ہمارے پاس ہے ہى ہمارے لئے يہى كتاب اللہ كافى ہے ، حاضرين ميں سے بعض نے عمر كے نظريے سے اختلاف كيا اور بعض ان كى جانب دار ہوگئے ، رسول خدا(ص) كيلئے ان كى يہ جسارت و بے باكى سخت پريشانى خاطر كا باعث ہوئي جس پر آپ(ص) نے فرمايا كہ :'' ميرى نظروں سے دور ہوجائو''_(۳۵)

بعض صحابہ كى اعلانيہ مخالفت نے اگر چہ رسول خدا (ص) كو وصيت لكھنے سے باز ركھا ليكن آنحضرت (ص) نے اپنا مدعا دوسرے طريقے سے بيان كرديا اگر چہ مرض كاغلبہ تھا مگر دردو تكليف كے باوجود آنحضرت (ص) مسجد كى جانب روانہ ہوئے اور وہاں منبر پر تشريف فرما ہوكر

۲۹۷

آخرى مرتبہ لوگوں سے خطاب فرمايا جو آنحضرت (ص) كا آخرى خطبہ تھا آپ (ص) نے فرمايا كہ :

''اے لوگو ميں تمہارے درميان دو گرانبہا چيزيں چھوڑے جارہاہوں ، ان ميں سے ايك كلام اللہ ہے اور دوسرے ميرے اہل بيت ''_(۳۶)

بالآخر جد و جہد سے بھر پور تريسٹھ سالہ حيات طيّبہ كے بعد ۲۸ صفر بروز ہفتہ ۱۱ ہجرى كو اس سفير حق كى مقدس روح اس وقت جب كہ آنحضرت (ص) كا سر مبارك حضرت على (ع) كے گود ميں تھا عالم ملكوت كى جانب پرواز كرگئي _(۳۷)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے آپ (ص) كے جسد پاك كو غسل ديا اور كفن پہنايا _(۳۸)

اس كے بعد آپ (ص) كے چہرے مبارك سے كفن مبارك كى گرہوں كو كھول ديا اگر چہ آنكھوں سے آنسو جارى تھے مگر اسى حالت ميں آپ (ع) نے فرمايا كہ :

''يا رسول اللہ (ص) ميرے ماں باپ آپ (ص) پر فدا ہوں ، آپ (ص) كى رحلت كے باعث نبوت ' وحى الہى اور آسمانى پيغامات كى آمد كا سلسلہ منقطع ہوا اگر چہ آپ(ص) نے ہميشہ ہميں صبر كى تلقين اور عجلت و بے تابى سے منع فرمايا مگر آج صبر وتحمل كا يارا نہيں اگر آپ(ص) نے ہميں صبر و تحمل كا حكم نہ ديا ہوتا تو ہم اتنا گريہ و زارى كرتے كہ آنكھوں كے آنسو ہى خشك ہوجاتے(۳۹)

اس كے بعد آپ (ع) نے نماز جنازہ پڑھائي ، حضرت على (ع) كے بعد صحابہ نے يكے بعد ديگرے كئي ٹولياںبنا كر جماعتوں كى صورت ميں نماز ادا كى اس كے بعد اسى حجرے ميں جہاں آنحضرت (ص) كى رحلت ہوئي اس جسد پاك كو سپرد خاك كرديا گيا_(۴۰)

خداوند ، ملائكہ اور كل مومنين كى طرف سے آپ (ص) پر اور خاندان رسالت(ص) پر لاكھوں درودسلام_

۲۹۸

سوالات

۱_حجة الوداع كس سال منعقد ہوا اس ميں كتنے لوگوں نے شركت كى اس كى كيا خصوصيات تھيں؟

۲_ رسول خدا(ص) نے حجة الوداع كے خطبات ميں كن باتوں كو تاكيد سے بيان كيا ؟

۳_سنہ ۱۰ ہجرى كے سياسى ' اجتماعى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے واضح كيجئے كہ رسول خدا(ص) نے جانشين مقرر كرنے كى ضرورت كيوں محسوس كى ؟

۴_''غدير خم'' كے مقام پر كيا اہم واقعہ رونما ہوا ، اس واقعے كى قرآن كى روسے كيا اہميت تھى ؟

۵_ وہ كون سے عوامل تھے جن كے باعث رسول خدا (ص) نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں حضرت اسامہ كے لشكر كو عسكرى اعتبار سے تقويت پہنچانے كى كوشش كى ؟

۶_ رسول خدا (ص) كو كس وجہ سے يہ اصرار تھا كہ حضرت اسامہ كا لشكر روم كى جانب روانہ ہوجائے؟

۷_بعض صحابہ نے كس وجہ سے رسول خدا (ص) كے فرمان كى اطاعت نہيں كى اور حضرت اسامہ كے لشكر ميں شريك ہونے سے انكار كرديا؟_

۸_ رسول خدا (ص) كى رحلت كس روز ہوئي؟ آپ (ص) كو كہاں دفن كيا گيا اور تجہيز و تكفين كے فرائض كس نے انجام ديئے؟

۲۹۹

حوالہ جات

۱_بعض مورخین نے لكھا ہے كہ جزيرہ نما ئے عرب ميں بت پرستى كا قلع قمع ہجرت كے دسويں سال كے وسط ميں ہوگيا تھا ، ملاحظہ ہو : فروغ ابديت ج ۲ ص ۸۰۹_

۲_شايد اسى وجہ سے اسے''حَجَّةُ البُلاَغ'' كہا گيا ہے_

۳_سورہ حج آيت ۲۷ اس بناپر كہ اس آيت كے مخاطب رسول (ص) خدا ہوںملاحظہ ہو مجمع البيان ج ۷_۸ ص ۸۰_

۴_ملاحظہ ہو : السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۲۵۷_

۵_ يہ تعداد چاليس ہزار ، ستر ہزار نوے ہزار ' ايك لاكھ بيس ہزار اور ايك لاكھ چوبيس ہزار تك درج ہے اور يہ تعداد ان لوگوں كے علاوہ ہے جو رسول خدا (ص) كے ساتھ سفر ميں شامل ہوئے تھے اور ان ميں اہل مكہ بھى شامل نہيں ملاحظہ ہو: السيرة الحلبيہ ج ۳ ص ۲۵۷ و الغدير ج ۱ ص ۹_

۶_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۳۸۴ ، المغازى ج ۳ ص ۱۰۸۹ والارشاد ص ۹۱_

۷_ملاحظہ ہو : الارشاد ص ۹۱_

۸_بحارالانوار ج ۲۱ ص ۳۸۹_ ۳۹۰_

۹_الغدير ج ۱ ص ۱۰_

۱۰_بحار الانوار ج ۱۲، ص ۳۹۱_ الارشاد ص ۹۲_

۱۱_ملاحظہ ہو : السيرة المصطفي(ص) ص ۶۸۸_ ۶۸۹_

۱۲_رسول خدا (ص) كے اس خطبے كے متعلق مزيد معلومات كےلئے ملاحظہ ہوں : بحارالانوار ج ۲۱ ص ۳۸۰ و تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۰۹_ ۱۱۲_

۱۳_السيرة النبويہ ج ۴ ص ۲۵۰_ ۲۵۱_

۱۴_آج ميں نے تمہارے لئے تمہارے دين كو مكمل كرديا ہے سورہ مائدہ آيت ۳_

۱۵_سورہ مائدہ آيت ۶۷_

۱۶_مَنْ كُنْتُ مُوْلَاهُ فَهذَا عَليٌ مَوْلاهُ اَللّهُمَّ وَآل مَنْ وَالَاهُ وَعَاد مَنْ عَادَاهُ وَاَنْصُرُ مَنْ نَصَرُه وَاَخْذُلْ مَنْ خَذَلَه _

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

دینا چاہتا۔

در خانہ اگر کس است یک حرف بس است

میرے خیال میں نمونے کے طور پر اور دماغوں کو روشن کرنے کے لئے ذیل کا ایک ہی واقعہ کافی ہوگا۔ جس سے آپ حضرات سمجھ لیں گے کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں دلیل و برہان کے ساتھ کہتے ہیں۔

جن مواقع پر حضرت کے علم سے پردہ اٹھا ہے اور امت کو معلوم ہوا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام غیب کے عالم ہیں ان میں سے ایک آئیندہ کل کی تاریخ بھی ہے جس میں بعض صحیح اور مشہور روایات کی بنا پر ریحانہ رسول الثقلین حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی ہے۔

ولادت امام حسین(ع) اور تہنیت ملائکہ کی خبر

" إِنَّ النَّاسَ دَخَلُوا عَلَى النَّبِيِّ وَ هَنَّوْهُ‏ بِمَوْلُودِهِ‏ الحُسَيْنِ"

لوگ حضرات رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور آں حضرت کو ولادت حسین علیہ السلام کی تہنیت دی۔

مجمع میں سے ایک شخص نے عرض کیا "بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ " (میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں یا رسول اللہ(ص) ، ہم لوگوں نے آج علی(ع) سے ایک عجیب امر مشاہدہ کیا۔ فرمایا تم نے کیا دیکھا؟ جب ہم تہنیت کے لئے آۓ تو ہم کو یہ عذر بیان کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے سے روک دیا کہ ایک لاکھ بیس ہزار فرشتے تہنیت و مبارکباد کے لئے آسمان سے نازل ہوۓ ہیں اور رسول اللہ(ص) کی خدمت میں موجود ہیں۔ ہم نے تعجب کیا کہعلی کیونکر آگاہ ہوۓ اور کہان سے شمار کر لیا آیا آپ نے ان کو اطلاع دی ہے؟ آں حضرت(ص) نے تبسم فرمایا اور علی سے دریافت کیا کہ تم نے کہاں سے جانا کہ اتنے فرشتے میرے پاس آۓ ہیں؟ آپ نے عرض کیا:بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي" جوفرشتہ آپ کے اوپر نازل ہوتا تھا اور سلام عرض کرتا تھا وہ ایک نئی زبان میں آپ سے گفتگو کرتا تھا۔ جب میں نے شمار کیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک لاکھ بیس ہزار زبانوں میں گفتگو کی ہے۔ لہذا میں نے سمجھ لیا کہ ایک لاکھ بیس ہزار ملائکہ حاضر خدمت ہوۓہیں۔

آں حضرت(ص) نے فرمایا" زَادَكَ اللَّهُ عِلْماً وَ حِلْماً يَا أَبَا الْحَسَنِ. " خدا تمہارے علم و حلم کو اور زیادہ کرے ابوالحسن(علی(ع)) پھر امت کی طرف رخ کر کے فرمایا:

"انا مدینة العلم و علی بابهاوماالله نباءاعظم منه ومالله آیةاکبرمنه هوامام البریةوخیرالخلیفةامین الله وخازن علم الله وهوالراسخ فی العلم وهواهل الذکرالذی

۳۴۱

قال الله تعالی فاسئلوااهل الذکران کنتم لاتعلمون اناخزانةالعلم وعلی مفتاحهافمن ارادالخزانةفلیات المفتاح"

یعنی میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، خدا کے لئے ان سے بڑی کوئی خبر اور ان سے بڑی کوئی آیت نہیں۔ یہ امام ناس، بہترین خلق، خدا کے امین اور اس کے علم کے خزینہ دار ہیں۔ یہ علم میں راسخ اور وہ اہل ذکر ہیں جس کے لئے خدا نے فرمایا کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔ میں علم کا خزانہ ہوں اور علی(ع) اس کی کنجی ہیں۔ پس جو شخص خزانہ چاہتا ہے اس کو کنجی کے پاس آنا چاہیئے۔

منصفانہ فیصلہ

حضرات محترم! اگر آپ اںصاف سے کام لیں، تھوڑی دیر کے لئے اپنی عادت کو چھوڑ دیں اور عادلانہ فیصلہ کریں تو بلا ارادہ فطری طور پر آپ کا دل تصدیقکرے گا کہ ایسی بزرگ شخصیت جو تمام علوم انبیاء اور اسرارغیب کی جامع صفات مرسلین کا مکمل آئینہ، جملہ صفات حمیدہاور اخلاق پسندیدہ کی حامل اور عدالت وتقوی اور عصمت کے مرتبے پر فائز تھی جس کے لئے خود رسول اللہ(ص) نے بھی حکم دیا ہے کہ اس کے دروازے پر جاؤ، نیز اس کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور اس کی مخالفت کو اپنی مخالفت قرار دیا ہے اور جو زہد ورع، پرہیزگاری اور نسل کے لحاظ سے ساری خلقت اور کل کائنات سے اسطرح فائق و برتر تھی کہ رسول اللہ(ص) نے اس کو امام المتقین اور سیدالمرسلین کہہ کے خطاب فرمایا چنانچہ اس سلسلے میں بعض احادیث کی طرف میں گزشتہ شبوں میں اشارہ بھی کرچکا ہوں۔ وہ یقینا منصب خلافت و امامت کے لئے دیگر صحابہ سے اولی و احق تھی۔ اگرچہ یہ بھی اپنی جگہ پر کچھ خصوصیات رکھتے تھے لیکن ہماری بحث تو افضل و اکمل کے بارے میں ہے جو دوسروں پر فوقیت اور حق تقدم رکھتا ہو۔

اگر آپ رسول خدا صلعم کے اصحاب و اقارب میں سے ایسے کسی ایک فرد کا بھی پتہ دے دیجئے۔ جو فضائل و کمالات اور ظاہری وباطنی صفات میں حضرت علی علیہ السلام کیبرابری کرسکتا ہو تو میں سر تسلیم خم کردوں گا اور اگر ایسا کوئی فرد آپ پیش نہ کرسکیں( کیونکہ ایسی ممتاز ہستیصحابہ میں سوا آپ کے اور کوئی تھی ہی نہیں، تو آپ کا ایمانی فریضہ ہوگا کہ حقیقت کو تسلیم کیجئے اور ساری دنیا سے چشم پوشی کر کے حق سےرشتہ قائم کیجئے،( پھر میں نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے عرض کیا) خداوندا! میں تجھ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے حق کا راستہ دکھادیا ہے، بغیر کسی جذبہ محبت کے و عداوت کے اپنا دینی فرض انجام دے دیا ہے۔ حریم تشیع کی طرف سے دفاع کردیا ہے اور دشمنوں کی تہمتوں کے مقابلے میں حقیقت کو ظاہر کردیا ہے) اب تجھ ہی سے اس کا

۳۴۲

اجر اور توفیق چاہتا ہوں اور بس۔

قبول تشیع میں نواب کے بیانات

نواب: قبلہ صاحب! دس راتیں ہو رہی ہیں کہ ہم اس مجلس مذاکرہ کے حاشیہ نشین ہیں ہم نے مقدس انوار ایمانی سے روشنی حاصل کی، بلند علمی اصول و قواعد سے استفادہ کیا اور طرفین کے دلائل کو غور سے سنا۔ ہم چند افراد ایسے ہیں جو تمام راتوں میں انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ جلسے میں حاضر رہے اور ہر روز آپس میں شب کی گفتگوؤں پر بحث و تبصرہ کر کے پوری چھان بین کرتے رہے ہیں خداۓ وحدہ لاشریک کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ کے ذریعہہماری ہدایت کے اسباب مہیا فرمادیئے جس سے ہم لوگوں نے حق کو پہچان لیا اور وہ دلائل سنے جو اب تک کبھی نہیں سنے تھے۔ مخالفین کے غلط اور گندے پروپیگنڈے کے خلاف جیسا کہ انہوں نے ہم کو بتا رکھا تھا کہ شیعہ مشرک غالی، رافضی اور حق سے منحرف ہیں ہمارے اوپر صد فی صد اور باکل یقینی طور سے ثابت ہوگیا ہے کہ فرقہ شیعہ امامیہ اثناء عشریہ کا مذہب حق اور ان کا طریقہ سچا ہے اور ہم نے اچھی طرح سے جان لیا ہے کہ حقیقی اسلام کے حامل یہی لوگہیں۔ صرف ہم چند حاضرین جلسہ ہی نہیں بلکہ اس شہر کے بہت سے بے لوث اور بے غرض اشخاص جو حق اور حقیقت کے طلب گارہیں روزنامہ اخبارات اور رسائل کو پڑھنے اور طرفین کےدلائل کو جانچنے کے بعد حق سے روشناس ہوچکے ہیں۔ البتہ عام مجمعوں میں آمد و رفت اور اپنے خاص مشاغل نیز مخالفین کے ساتھ ربط و ضبطکی وجہ سے اپنے عقائد کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے لہذا انہوں نے خفیہ طور سے ہمارے سامنے شیعیت کا اظہار کیا ہے، اس لئے کہ آپ نے کوئی بات مشکوک نہیں چھوڑی ہے، اور اپنی سادہ اور عام فہم تقریر سےہم سب کے دماغوں میں حقائق کو واضح کر دیا ہے۔

لیکن ہم چند اشخاص جو اس وقت حاضر ہیں چونکہ کسی کا خوفنہیں رکھتے لہذا پوری جرائت کے ساتھ اعلان کرنے کے لئے تیار ہیں، ہم کئی راتوں سے چاہتے تھے کہ درمیان سے پردہ ہٹادیں اور اپنے کو ظاہر کردیں لیکن موقع نہیں ملا اور حسن اتفاق سے ہر شب ہماری بصیرت میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ہم نے مضبوط سے مضبوط تر دلائل سنے اور اپنے عقیدے میں اور زیادہ راسخ و ثابت قدم ہوگئے۔ وقت گذر رہا ہے لہذا اجازت دیجئے کہ یہ پردہ بر طرف کیا جاۓ ہمارے اقرار و اعتراف کو سن کر ہم کو سر فراز فرمائیے، ہمارے نام مولاۓ کائنات امیرالمومنین علی(ع) اور ائمہ اثناعشریہ علیہم السلام کے شیعوں کی فہرست میں درج فرمائیے اور شیعوں کی جماعت میں اعلان فرما دیجئے کہ وہ ہم کو اپنی برادری میں قبول کریں۔ نیز قیامت کے روز عدل الہی کے دربار میں اور اپ نے جد بزرگوار کے سامنے شہادت

۳۴۳

دیجئے کہ ہم لوگ علم ویقین کے ساتھ آئمہ اثنا عشر اور رسول خدا(ص) کے اوصیائ وخلفاء کی ولایت پر ایمان لاۓ ہیں۔

خیر طلب: مجھ کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہے کہ چند نمایاں اور ممتاز ہستیوں نے چشم بصیرت اور گوش حقیقت کے ساتھ حقائق پر توجہ کی اور نور عقل کی روشنی میں منزول حق کو پہچان کر راہ راست اور صراط مستقیم پر گامزن ہوگئے۔

وہی راستہ جس کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے، چنانچہ اکابر علماۓ اہلِ سنت والجماعت جیسے امام احمد بن حنبل نے مسند میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول میں، ابن مغازلی نے فضائل میں، خوارزمی نے مناقب میں، سلیمان حنفی نے ینابیع المودت میں اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایاصراط علی حق نمسک ه یعنی علی(ع) کا راستہ حق ہے جس سے ہمتمسک کرتے ہیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوسرے اسلامی بھائی بھی عادت اور تعصب سے ہٹ کے غور کریں گے تاکہ ان کی نگاہوں سے پردے ہٹ جائیں اور حق و حقیقت ان پر ظاہر ہوجاۓ۔

نواب: قبلہ صاحب ہم آپ کے الطاف و عنایات کے ممنون ہیں کہ آپ نے خندہ پیشانی اور حسن اخلاق کے ساتھ ہمارے سوالات کے جوابات دے، البتہ ہمارے گوشہ دل میں ابھی ایک مختصر سا اشکال موجود ہے، گذارش ہے کہ اس کو ابھی حل فرمادیجئے تاکہ ہمارے بھائیوں کے لئے مسرت و امتنان اور بصیرت کا باعث ہو نیز ہمارے عقیدے اور ایمان میں مزید استحکام پیدا ہو۔

خیر طلب: میں حاضر ہوں۔ فرمائیے کس چیز میں اشکال ہے تاکہ اس کا جواب عرض کروں۔

نواب: ہمارا اشکال آئمہ اثنا عشر کی امامت اور ان کے ناموں کے بارے میں ہے چونکہ ان راتوں میں صرف امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شخصیت زیربحث رہی، لہذا متمنی ہوں کہ ہم کو بتائیے کہ اولا قرآن مجید میں کوئیایسی آیت ہے جو ہم کو آئمہ اثنا عشر کی امامت کا ثبوت دے یا نہیں؟ دوسرے ہماری کتابوں میں شیعوں کے بارہ اماموں کے نام درج ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو ہمارے اطمینان قلب کے لئےبیان فرمائیے۔

خیرطلب: آپ کا سوال بہت مناسب اور با محل ہے اور اس کا جواب بھی موجود ہے۔ لیکن چونکہ وقت تنگ ہےاور صبح ہونے والی ہے اور اس سوال کا جواب بھی ممکن ہے کچھ طول کھینچے لہذا اگر آپ بھی متفق ہوں تو یا کل شب میںتشریف لے آئیے تاکہ جواب عرض کردوں یا کل صبح بھی ممکن ہے۔

چونکہ کل ریحانہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عید ولادت با سعادت ہے اور اس سلسلے میں ہمارے قزلباش بھائیوں کی طرف سے رسالدارکے امام باڑے میں صبح سے ظہر تک ایک شاندار جشن کا انتظام ہے لہذا یہ بھی ممکن ہے کہ اس موقع پر عیدی کے عنوان سے اس کا جواب پیش کر کے آپ کا

۳۴۴

اشکال حل کردوں۔ انشائ اللہ تعالی۔

نواب: میں انتہا فخر کے ساتھ آپ کی راۓ سے موافقت کرتا ہوں اور اس سے زیادہ آپ کا وقت نہیں لینا چاہتا۔ پس اب اجازت دیجئے کہ جن محترم حضرات نے اس نورانی جلسے کی ضیا پاشیوں سے روشنی حاصل کی ہے ان کا تعارف کرادوں۔

خیر طلب: میں پورے شوق اور مسرتکے ساتھ تیار ہوں کہ ان عزیزان گرامی کو اپنے آغوش محبت میں قبول کروں۔

چھ افراد اہلِ تسنن کا قبول ت تشیع

نواب: اتنےحضرات آج کی شب لواۓ"لا إله‏ إلّا اللّه‏، محمّد رسول اللّه" کے نیچے حضرت علی(ع) اور آپ کی اولاد میں سےگیارہ اماموں کی خلافت وامامت کے اقرار کا شرف حاصل کررہے ہیں۔

۱۔ حقیر آپ کا مخلص عبدالقیوم۔ ۲۔ سید احمد علی شاہ صاحب۔ ۳۔ سیٹھ غلام امامین صاحب۔۴۔ سرحد کے سردار غلام حیدر خان صاحب۔۵۔ پنجاپ کےبڑے تاجر عبدالاحد خان صاحب۔۶۔مشہور رئیس عبدالصمد خان صاحب ( اصل کتاب میں کافی مجمع کے ساتھ ان حضرات کے فوٹوبھی موجود ہیں۔ ۱۲ مترجم)

( یہ حضرات میرے پاس تشریف لاۓ میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور تمام حاضرین جلسہ بھی کھڑے ہوگئے، میں نے ہر ایک سے محبت کے ساتھ بغل گیر ہوکر پیشانی پر بوسہ دیا اس کے بعد سارےاہل مجلس نے ان سے معانقہ کیا۔

میں نے دیکھا کہ برادران اہل سنت بہت اداس ہوگئے چنانچہ ان کی دلجوئی کے لئے کہا کہ آج عید کی شب ہے جس میں اسلامی ہدایات کے مطابق مسلمانوں کے ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کرنے میں بہت بڑا ثواب ہے لہذا بہتر ہوگا کہ ہم سب آپس میں مصافحہ و معانقہ کریں، اس کےبعد میں نے پہلے جناب حافظ صاحب اور شیخ عبدالسلام صاحب سے پھر دوسرے حضرات سےبغل گیر ہوکر سب کی پیشانیوں پربوسہ دیا۔ بعد اس کے جلسے میں شربت اور مختلف قسم کی شیرینی لائی گئی اور ہم نے پرلطف و شیرین باتوں سے مجمع میں ایک تازہ مسرت کی لہر دوڑاکر ان کے چہروں سے افسردگی دور کی۔)

حافظ: صاحب ہم نے ان راتوں میں آپ کی ملاقات سے کافی فیض حاصل کیا جس کی لذتیں آخر عمر تک بھلائی نہیں جاسکتیں بالخصوص میری ذات پر تو بڑا احسان ہے جس کا عوض آپ کو آپ کے جد بزرگوار سے

۳۴۵

ملے گا۔ کیونکہ آپ نے بہت حقیقتوں کا انکشاف فرما دیا جیسا کہ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں۔ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں میں قطعا وہ پہلی رات والا آدمی نہیں ہوں اور جو بھی عقلمند اور انصاف پسند انسان آپ کے شک و شبہ سے بالاتر دلائل کو سنے گا وہ یقینا خوابِ غفلت سے بیدار ہوجاۓ گا۔ چنانچہ یہ حقیر امیدوار ہے کہ عترت و اہل بیت رسالت کے طریقہ ولایت پر دینا سے اٹھے اور ر سول اللہ(ص)کے سامنے سرخرو حاضر ہو۔

میری بڑی خواہش تھی کہ اس سے زیادہ مدت تک آپ کے ساتھ رہتا لیکن ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور بہت ذاتی کام در پیش ہیں کیونکہ ہم صرف دو روز کے خیال سے آۓ تھے، یہاں اتفاق سے کافی وقت صرف ہوگیا لہذا اس رات کو ہم آپ حضرات کی اجازت سے شب وداع قرار دیتے ہیں، کل شب کو ہم ریل گاڑی کی ذریعے روانہ ہوجائیں گے۔ اور آپ کو دعوت دۓ جاتے ہیں کہ ہمارے وطن تشریف لائیے۔ تاکہ ہم آپ کی صحبت سے خصوصی فوائد حاصل کرسکیں۔

خیر طلب: آپ حضرات یقین فرمائیے کہ پہلی شب سے جب کہ آپ کی زیارت ہوئی ہے اس وقت تک میں بغیر تعصب و عناد کے پورے خلوص کے ساتھ سرگرم محبت رہا اور آپ حضرات سے ایک خصوصی ربط و انس قائم ہوگیا ہے۔ باوجودیکہ میری جانب سے آپ حضرات کی روانگی میں کوئی مانع نہیں تھا لیکن اب یہ سن کے آپ حضرات واپسی کا قصد رکھتے ہیں اپنے اندر ایک عجیب سا تاثر محسوس کررہا ہوں۔

ایک بزرگ عارف کا قول ہے کہ میں زعام جذبات کے برعکس، انس و ملاقات کا مخالف ہوں۔ کیونکہ وصال کےبعد فراق آتا ہے اور دیوان امیرالمومنین علیہ السلام میں آپ کا ارشاد ہے۔

یقولون ان الموت علی الفتیمفارقه الاحباب والله اصعب

یعنی لوگ کہتے ہیں کہ جوان کے اوپر موت سخت ہوتی ہے، حالانکہ خدا کی قسم دوستوں کی جدائی اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔

حق یہ ہے کہ میں نے ان دس راتوں میں بالعموم آپ حضرات کے اور بالخصوص جناب عالی کے دیدار سے بہت فائدہ اٹھایا ہے جس کو کبھی نہ بھولوں گااگرچہ ان دس راتوں میں بمصداق الکلام یجر الکلام( یعنیبات میں بات نکلتی ہے سلسلہ گفتگو بہت طولانی رہا اور ہر شب میں نے بلا ارادہ چھ سات گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ محترم حاضرین جلسہ کا وقت لیا لیکن چونکہ ہماری نشستوں میں اول سے آخر تک آیات شریفہ قرآنی اور احادیث حضرت رسول خدا صلعم کاتذکرہ رہا اور ہم جاہلانہ تعصب وعناد اور لہو و لعب سے الگ رہے۔ لہذا ہم نے اپنی جگہ خدا کی ایک عبادت انجام دی۔ البتہ اس لحاظ سے کہ انسان سہو دلسان اور غلطی کا مرکز ہے اگر دورانِ گفتگو میں میری طرف سے عمدا نہیں بلکہ سہوا کوئی بے ادبی یا طول کلام کی غلطی سرزد ہوگئی ہو یا آپ حضرات کی نظر میں کوئی بری بات معلوم ہوئی ہو تو عفو و چشم پوشی فرمائیں اور استجابت دعا کر مواقع

۳۴۶

پر اس حقیر و فقیر خیر طلب کو دعا خیر سے فراموش نہ فرمائیں۔

حافظ: آپ کے حسن بیان اور لطف و عنایت کے برتاؤ سے ہم بہت ممنون ہیں اور ہم میں سے کسی کو آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے جس کے لئے آپ معذرت کررہےہیں، کیونکہ جناب عالی کا حسنِ اخلاق اور ادب و لحاظ اس منزل پر ہے کہ اس نے ہمکو مفتون( گرویدہ بنالیا ہے اور طول بیان سے بھی ہرگز ہم کو کوئی افسردگی نہیں ہے بلکہ آپ کی شیرین کلامی اور فصاحت و بلاغت اتنی زبردست ہے کہ میرا خیال ہے چاہے جتنی طولانی تقریر ہو بار خاطر نہ ہوگی۔

خیر طلب: میں آپ حضرات کے مراحم و الطاف کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ اپنے معروضات کے خاتمے پر ایک مطلب عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کل چونکہ حامی امت فرزند رسول الثقلین حضرت امام حسین علیہ السلام کی عید ولادت با سعادت ہے اور محترم حضرات قزلباش نیز آپ کے دیگر شیعہ بھائیوں کی طرف سے رسالدار کے امام باڑے میں ایک شان دار محفل مسرت کی تشکیل کی گئی ہے، لہذا میں جناب عالی اور دیگر حضرات حاضرین جلسہ کو اور آپ کے توسط سے جملہ برادران اہل سنت کو پرخلوص دعودت دیتا ہوں کہ پیغمبر(ص) کی ذات مبارک سے اپنے مخصوص تعلق کے پیش نظر آں حضرت کی روح پرفتوح کی خوشنودی کے لئے ایک بڑے مجمع کے ساتھ کل صبح اس جشن ولادت میں تشریف لائیں، کیونکہ شیعوں کی اس محفل میں اپنی شرکت سے علاوہ اس کے کہ آپ ہم سب کو ممنون و متشکر کریں گے۔ مجھ کو امید ہے کہآپ میرے اس مقصد سے بھی اتفاق کریں گے۔ اس جشن عام میں برادرانِ ایمانی و اسلامی کے دونوں فرقوں کی شرکت سے ہم ایک ایسا متحدہ اسلامی محاذ قائم کریں کہ دشمنان اسلام کو ( جو مسلمانوں میں تفرقہ اور جدائی چاہتے ہیں) حیرت وعبرت میں ڈال دیں۔

( جمادی الثانیہ سنہ۱۳۷۴ہجری میں ترتیب و کتابت سے فراغت ہوئی)

( العبد الفانی محمد الموسوی( سلطان الواعظین شیرازی)

عید میلاد حسینی(ع)

فدت شهر شعبانهاالافهمفمن بنیهایمنه الاشهر

طوی الهمعناوزوالالعناوبشرائهنابیتناینشر

لثالثه فیرقابالانامایادلعمرکلاتنکر

۳۴۷

فصبح الولاء بمیلاد سبطهادیالانام بهم سفر

و باب النجاةالامام الذیذنوب العبادبه تغفر

و غصن الامامةفیه سماجنی هدایته اثمم

و روض النبوةمننورهسن یومن نوره مزهم

لتهنب میلاده شیعهلهم طاب فی حبه عنصر

(یعنی شعبان پر دوسرے مہینے قربان ہیں کیونکہ اس کے اندر سے نمایاں خیر وبرکت حاصل ہوئی ہے ہمارے سارے رنج و غم دور ہوگئے اور ہمارے درمیان خوش خبری پھیل گئی۔ اس کی تیسری تاریخ لوگوں پر پسندیدہ انعام و احسانات کا نزول ہوا، پس صبح دلایت نواسہ رسول(ص) کی ولادت سے روشن ہوئی یہ وہ امام ہے جو نجات کا دروازہ ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ سے بندوں کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ اس سے امامت کی وہ شاخ بلند ہوئی ہے جو ہدایت کے ترو تازہ پھل دیتی ہے۔ نبوت کا باغ اس کے نور سے روشن اور پھلا پھولا ہوا ہے۔ شیعوں کو اس کی پیدائش کی تہنیت دو جو اس کی محبت میں ہر عیب و ریب سے پاک ہیں۔)

جب تیسری شعبان المعظم سنہ۱۳۴۵ہجری یعنی عید سعید ولادت با سعادت امام سیم حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ الصلوۃ والسلام کی صبح ہوئی تو محترم حضرات قزلباش کی جانب سے رسالدار کے امام باڑے میں ایک محفل مسرت بہت شان و شکوہ کے ساتھ منعقد ہوئی جس میں مختلف طبقوں کے لوگ سویرے ہی سے کثرت کے ساتھ جمع ہوگئے میںبھی ظہر سے چار گھنٹے قبل ان شیعہ علماء اور رؤسا کے ایک بڑے مجمع کے ہمراہ جو میری قیام گاہ پر آگئے تھے جشن میں شرکت کے لئے امام باڑے گیا۔ حق یہ ہے کہ جلسہ کافی شاندار تھا۔

ہر طبقے کے شیعہ اور سنی افراد کااتنا کثیر مجمع تھا کہ اس قدر طویل و عریض امام باڑے کی کافی وسیع فضا اور دونوں طرف کے تمام بڑے بڑے ووہرے کمرے، یہاں تک کہ شاہراہ عاماور مکانوں کے کوٹھے بھی بھر گئے تھے۔ حضرات علماۓاہل سنت مع جناب حافظ رشید و شیخ عبدالسلام صاحبان بھی تشریف فرما تھے۔ میرے پہنچنےسے محفل میں ایک عجیب جوش وخروش پیدا ہوگیا۔ باوجودیکہ میرے بیٹھنے کے لئے ایک خوبصورت اسٹیج تیار کیا گیا تھا لیکن میں اہل تسنن کے بڑے بڑے علماء کا احترام ملحوظ رکھتے ہوۓ اپنی جگہ سے کترا کے سیدھا انہیں کے پاس چلا گیا میرے اس اکرام و احترام اور پر خلوص انکسارسے وہ حضرات بہت خوش ہوۓ ؟؟؟؟؟ سائقے اور بیٹھ جانے

۳۴۸

کے بعد شربت اور طرح طرح کی شیرینی لائی گئی، اس خاطر تواضعکے بعد دو مداحوں نے اردو اور فارسی زبان میں بہترین قصیدے پڑھے، اس کے بعد سردار عبدالصمد خان صاحب جو پشاور کے نامی شیعہ رئیسوں میں سے تھے۔ چند محترم قزلباش حضرات کے ساتھ آۓ اور مجھ سے فرمائش کی کہ آج چونکہ عید کا دن ہے لہذا اہلِ جلسہ منتظر ہیں کہ آپ اپنی تقریر سے ان کو مسرور و شاد کام فرمائیں۔ میں نے ہر چند انکار کیا لیکن ان کا اصرار بڑھتا گیا۔ بالآخر حافظ صاحب واسطہ بنے اور کہا کہ آج چونکہ یہاں میرے قیام کا آخری دن ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ آپ کی تقریر کی یاد گار اپنے دل میں لے جاؤں مجھ کو بھی چونکہ موصوف سے کافی انسیت ہوگئی تھی۔ لہذا ان کی بات رد نہیں کرسکا اور فرمائش کیتعمیل کرتے ہوۓ منبر پر گیا۔ ظہر کے قریب اپنا بیان ختم کیا۔ پھر نماز جماعت کے بعد سر برآوردہ شیعہ و سنی مخصوصین اور مذہب شیعہ قبول کرنے والے حضرات کا متفقہ طور پر فوٹو لیا گیا۔

( یہ فوٹو اصل کتاب میں موجود ہے۔ ۱۲مترجم)

اس کے بعد ان چھہ عدد جدید شیعوں کے اعزاز میں کھانے کی ایک عام دعوت دی گئی۔

اب اپنیتقریر کے متن کو بھی جسے اخبارات و رسائل کے نامہ نگاروں نے نوٹ کر کے شائع کرایا تھا۔ اصل کتاب میں شامل کرتا ہوں کیونکہ یہ فائدے سے خالی نہیں تھا، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے دس راتوں کے مناظرے اور بیانات کاتکملہ اور تتمہ یہی ہے۔

۳۴۹

آغازِ بیان

(سلطان الواعظین مدظلہ نے ایک فصیح و بلیغ خطبے کے بعد فرمایا :باسم الل ه الرحمنالرحیم قالاللهالحکیمفیکتابهالکریم :"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَ الرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ ذلِكَ خَيْرٌ وَ أَحْسَنُ‏ تَأْوِيلًا"

یعنی خداۓ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ پس اگر تم آپس میں کسی چیز میں نزاع کرو تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پلٹاؤ اگر تم اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ طریقہ کار تمہارے لئے بہت عمدہ اور نتیجے کے لحاظ سے بہترین ہے۔

مجازی اور حقیقی آزادی

ایک اہم موضوع جو مدتوں سے عمومیت کے ساتھ زیر بحث چلا آرہا ہے اور ہر قوم و فرقہ اپنی مطلب براری کے لئے اس کا سہارا لیتا ہے وہ حریتاور آزادی کا موضوع ہے اور جوبالآخر کج فہم و کوتاہ نظر لوگوں کی ایک جماعت کا آلہ کار بن گیا ہے۔ چنانچہ اسی حریت و آزادی کو بنیاد قرار دے کر وہ انبیاۓ کرام کے الہی احکام سے باغی ہو کر دین و شریعت کے دائرے سے خارج ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اتنا ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ پروردگار عالم کی بندگی اس کے شرائع حقہ کے قیود اور مقدس قوانین سے آزادی علم و عقل سے پوری مخالفت رکھتی ہے اور ایسی حریت و آزادی نوع بشر کے سکون و آسائش میں مخل و تباہی اور فتنہ وفساد کا باعث نظام فطرت کی مخالفت اور محققین علمائ و صاحبان عقل کے نزدیک مردود و ناقابل عمل ہے۔ البتہ جو حریت و آزادی بہتر اور ممدوح ہے اس سے مراد ہے مخلوق کی عبودیت، ابنا بشر کی تعظیم و پرستش اور اپنے ہی جیسے ہم جنسوں کی اندھی تقلید سے آزادی، ایسی آزادی انسانیت کا لازمی جز ہے، کیونکہ ای سنجیدہ فہمیدہ انسان جو زیور عقل سے آراستہ اور علم و معرفت کا حامل ہو اس کا فرض ہے کہ اپنے جیسے افراد بشر کی بندگی اور غلامی سے الگ رہے اور کسی ایسے شخص کی کور کورانہ پیروی نہ کرے

۳۵۰

جو اس کو وادی حیرت و ضلالت میں سرگردان بنادے۔ البتہ انسان اشرف المخلوقات کو ایسی ہستی کے سامنے سر اطاعت خم کرنا چاہیئے حواس کی لیاقت و قابلیت رکھتی ہو اور اس پر عقلی و نقلی دلائل قائم ہوں۔

بدیہی چیز ہے کہ ستائش و بندگی صرف خداۓ عزوجل کی ذات لازوال کے لئے مخصوص ہے جو ہمارا آپ کا اور ساری کائنات کا خالق ہے، اور عقلی دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ مخلوق عاجز کو اس خالقِ قادر کے سامنے خاضع و خاشع اور ہمہ تن مطیع و فرمانبردار رہنا چاہیئے جس نے ہر چیز اسی کے لئے پیدا کی ہے اور مخلوقات میں سے کسی کی اطاعت انسان کے لئے جائز نہیں ہے سوا اس شخص کے جس کی اطاعت کا خداۓ تعالی نے حکم دیا ہو۔

اور اشخاص کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہماری سند محکم قرآن مجید ہے۔ جب ہم قرآن مجید اور اس مضبوط آسمانی سند کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ متعدد آیات میں ہم کو اطاعت کی مکمل ہدایت دی گئی ہے کہ عقلی قواعد کے روسے ہم کن اشخاص کی اطاعت و پیروی کریں اور کن افراد کے سامنے سر تعظیم خم کریں۔

خدا اور رسول(ص) اور اولی الامر کی اطاعت واجب ہے

من جملہ ان کے اسی آیہ شریفہ میں جس کو میں نے عنوان کلام قرار دیا ہے۔ صاف طور سے ارشاد ہے:

" أَطِيعُوا اللَّهَ‏ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ‏"

یعنی اطاعت کرو خدا کی اور اطاعت کرو پیغمبر(ص) اور صاحبان امر کی۔

پس بحکم آیت اللہ کی اطاعت کے بعد نوع بشر میں پیغمبر(ص) اور صاحبان امر کی اطاعت واجب ہے۔

پیغمبر خاتم النبیین(ص) کے احکام کی اطاعت میں تو تمام مسلمان بالعموم متفق ہیں اور کسی کو اس حقیقت سے انکار نہیں ہے البتہ اہل اسلام کے اندر جو اختلاف پیدا کیا گیا وہ صرف اولی الامر کے معنی میں ہے، کیونکہ خداۓ تعالی نے اس آیت میں اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کے بعد اولی الامر کی اطاعت واجب قرار دی ہے۔

اولی الامر کے معنی میں اہل سنت کا عقیدہ

براداران عامہ اور اہل تسنن کا عقیدہ ہے کہ آیت میں اولی الامر ےس امراؤ حکام اور افسران لشکر مراد ہیں۔ لہذا سلاطین اور صاحبان حکومت ( ظاہری) اس کے ماتحت آتے ہیں۔

چنانچہ حضرات اہل تسنن بادشاہوں کے احکام کی اطاعت اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں(؟؟؟؟؟؟ وہ علانیہ فسق وفجور اور ظلم و جور کے مرتکب ہی کیوں نہ ہوں) اس دلیل سے کہ یہ لوگ آیہ اولی الامر میں داخل ہیں۔ لہذا ان

۳۵۱

کی اطاعت فرض ہے۔

حالانکہ ایسا عقیدہ عقلی و نقلی دلیلوں سے باطل ہے۔ تنگئی وقت کی وجہ سے یہ مختصر محفل اس کی مقتضی نہیں ہے کہ اس عقیدہ کے بطلان پر سارے دلائل عرض کروں، اس لئے کہ تفصیل پیش کرنے کے لئے کم سے کم ایک مہینے کا موقع درکار ہے پھر بھی بمصداقما لا یدرک کل ه لایترککله " یعنی جو سب کا سب حاصل نہ ہوسکے وہ سب کا سب ترک بھی نہیں کیا جاتا۔

آپ دریا را گر نتواں کشید لیک بہر تشنگی باید چشید

وضاحت مطلب اور اثبات مقصد کے لئے آپ حضرات کی اجازت سے اس موضوع پر مختصر بحث پیش کر رہا ہوں تاکہ اہل انصاف عادلانہ فیصلہ کرسکیں اور حقیقت منکشف ہوسکے۔

صاحبانِ امر کی تین قسمیں

ظاہر ہے کہ اہل عالم پر حکمرانی کرنے والے امراء و سلاطین تین حال سے خالی نہیں ہیں، یا اجماع سے مقرر ہوۓ ہیں، یا طاقت و قدرت سے غالب ہوۓ ہیں یا خدا کی طرف سے منسوب ہیں۔

چنانچہ پہلا طریقہ یعنی یہ کہ اگر مسلمان کسی ایک شخص پر اجماع کر لیں اور اس کو منصب امارت پر مقرر کردیں، تو اس کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت کے مانند واجب ہے، اپنے ثبوت میں کوئی عقلی دلیل نہیں رکھتا جس سے تمام مسلمان کسی ایک کامل اور پاکباز ہستی پر اتفاق کر کے اس کو مسند امارت پر بٹھا سکیں، کیونکہ مسلمان چاہے جس قدر عالی دماغ اور ہوشمند ہوں وہ فقط ظاہری حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں اور لوگوں کے باطنی کیفیات اور دلی عقائدسے با خبر نہیں ہوسکتے۔

جناب موسی(ع) کے چنے ہوۓ بنی اسرائیل نا اہل ٹھہرے

مسلمان چاہے جس قدر عاقل و دانا ہوں اصول اور قاعدے کی بناء پر امر انتخاب میں حضرت موسی کلیم اللہ علی نبینا و آلہ وعلیہ السلام سے جو انبیاۓ اولوالعزم میں سے تھے قطعا زیادہ واقف کار نہیں ہوسکتے اور ان سب کی عقلیں خدا کے بھیجے ہوۓ رسول(ص) کی عقل سے بالاتر نہیں ہوسکتیں۔ حضرت موسی(ع) نے بنی اسرائیل ؟؟ ؟؟؟؟؟؟ ہزاروں عقلا اور دانشمندوں میں سے ظاہری حالات کی بنا پر ستر افراد منتخب فرماۓ( چونکہ انبیاء صرف ظاہری چیزوں پر

۳۵۲

مامور تھے اور اشخاص کےباطنی امور کے پابند نہیں تھے لہذا ان کی ظاہری خوبیوں کو معتبر قرار دیتے تھے) اور ان کو طورسینا پر ساتھ لے گئے لیکن امتحان کے موقع پر سب کے سب ناکارہ ثابت ہوۓ اور ہلاک ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ ان کا دلی عقیدہ پہلے ہے سے درست اور مضبوط نہیں تھا، یہاں تک کہ امتحان کے موقع پر جب پردہ اٹھا تو جو کچھ اندرونی کیفیت تھی وہ ظاہر ہوگئی۔ چنانچہ قرآن مجید کی آیت نمبر۱۵۴ سورہ نمبر۷( اعراف) میں اس کی طرف اشارہ ہے۔

انسان صالح و کامل امیر کے انتخاب پر قادر نہیں

پس جب کلیم اللہ پیغمبر(ص۹ کے چنے ہوۓ لوگ اندر سے فاسد اور کافر نکلیں اور صاعقے کے ذریعے عذاب الہی میں گرفتار ہوں تو ظاہر ہے کہ دوسرے افراد بشر بدرجہ اولی صالح و کامل فرماں رواؤں کے انتخاب پر قادر نہیں ہیں اس لئے کہ بہت ممکن ہے ظاہری صلاح و تقوی کی بنا پر منتخب ہونے والے اشخاص حقیقی اور باطنی طور پر کافر یا فاسق ہوں جن کے دکھانے کے دانت اور ہوں کھانے کے اور چنانچہ جب سلطنت و امارت کی مسند پر بیٹھ جائیں، تو ریا کاری کا لبادہ اتار پھینکیں اور اپنے ضمیر کو بروۓ کار لاتے ہوۓ دھیرے دھیرے اپنے ناجائز مقاصد کی تکمیل شروع کردیں۔ جیساکہ بہت سے امراء و سلاطین میں( حتی کہ قومی اسمبلی کے نمائیندوں میں بھی) ایسا دیکھا گیا ہے اور اس طرح کے امیر و بادشاہ کی اطاعت قطعا دین کو مضمحل، حقوق انسانی کو ضائع اورآثار اسلام کو برباد کردے گی۔

سلاطین و امراء اولی الامر نہیں ہوتے

ہرگز عقل قبول نہیں کرتی کہ خداۓ تعالی فاسق و فاجر اور ظالم سلاطین و صاحبان امر کی اطاعت کو اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت میں شامل کرے، پس اس عقیدے کا باطل ہونا ظاہر و آشکار ہے۔ اس کے علاوہ اگر اجماع وقت کو شرعا یہ حق حاصل ہے تو ہر زمانے میں اولی الامر کو تمام ملل اسلامی کے حقیقی انتخاب سے معین ہونا چاہیئے یہ نہیں کہ ایک ملت کو تو موقع دیا جاۓ اور دوسری نطر انداز ہوجاۓ یہ شرعی حق مسلمان قوم کے تمام افراد کے لئے ہے چاہے وہ دنیا کے کسی گوشے اورکنارے پر ہوں، وہ ایک مسلمان ہو یا بہت سے اور شہر میں رہتے ہوں یا دیہات میں ان سب کو اس انتخاب میں راۓ دینا اور صاحب امر کی تعین میں شرکت کرنا چاہیئے نہ یہ کہ کسی ایک شہر یا مملکت میں چند لوگ راۓدے دیں تو ان کو راۓ واجب العمل بن جاۓ اور باقی تمام صاحبان عقل و تمیز اور سربرآوردہ مسلمان اس کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں۔ اگر کسی جماعت کو کچھ اختلاف ہو تو اس کو

۳۵۳

رافضی اورمشرک کہیں اور گردن زدنی سمجھیں۔

چنانچہ جب ہم تیرہ سو سال کی تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے بعد کسی زمانے میں بھی ایسا اجماع واقع نہیں ہوا جس میں دنیا کے تمام مسلمانوں نے یا ان کے حقیقی نمایئندوں نے اجتماعی حیثیت سے اپنی راۓ دی ہو۔ پس یہ اجماع کا عقیدہ نہ کسی دور میں عملی پہن سکا ہے اور نہ پہن سکے گا، بالخصوص آج کے زمانے میں جب کہ بلاد مسلمین ٹکڑے ٹکڑے ہوچکے ہیں متعدد اسلامی ممالک ہیں اور ہرایک کا اپنا بادشاہ اور حکمران الگ ہے۔

اگر یہ طے کیا جاۓ کہ ہر ملک کے باشندے اپنے لئے ایک مستقل بادشاہ اور صاحب امر کا انتخاب کریں، تو قطع نظر اس سے کہ ہر زمانے میں متعدد اولی الامر ہوجائیں گے اور کوئی مملکت دوسرے ملک کے بادشاہ یا صاحب امر کی فرمانبرداری نہیں کرے گی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاۓ اور آپس میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں( جیسا کہ تاریخ اسلام میں بارہا ایسے واقعات ہوۓ ہیں) اس وقت مسلمانوں پر کیا ذمہ داری ہوگی؟ کیونکہ مسلمانوں کے دونوں گروہ اپنے اپنے صاحب امر کی اطاعت میں مجبور ہوں گے کہ ایک دوسرے سے دست وگریبان ہوجائیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کریں تو کیا یہ دونوں مسلمان فریق برادر کشی میں ماجور و حق بجانب اور قاتل و مقتول دونوں جنتی ہوں گے؟

خدا جانتا ہے کہ اسلام اور شارع مقدس نے قطعا ایسی کوئی ہدایت نہیں دی ہے اوراسلام جیسا جامع و کامل اور عقلی دین ہرگز ایسا حکم نہیں دیتا جو صاحبان عقل کے نزدیک ناقابل قبول اور ناقابل عمل ہو، نیز اس کی وجہ سے مسلمانوں میں باہمی نزاع اور پھوٹ پیدا ہو۔ پس وہ اولی الامر جن کی اطاعت کے لئے خداوند عالم نے حکم دیا ہے۔ اجماع کے پابند نہیں ہوسکتے، چنانچہ گزشتہ راتوں میں مجلس مناطرہ کے اندر فریقین(شیعہ و سنی) کے علماء اور دانشمندوں کے سامنے عقلی و نقلی حیثیت سے اجماع کا باطل ہونا ثابت ہوچکے ہیں اور اخبارات و رسائل کے صفحات پر اس کی اشاعت بھی ہوچکی ہے۔ یقینا ان حضرات کی نگاہوں سے بھی گزری ہوگی جو ان مجلسوں میں موجود نہیں۔(۱)

ہربادشاہ اقتدار کی وجہ سے صاحب امر نہیں ہوجاتا

اور دوسری قسم جو طاقت و اقتدار سے متعلق ہے یعنی جو خونخوار و سفاک اور فاسق و فاجر امیر و سلطان یا خلیفہ قہر و غلبہ، نیزہ و شمشیر اور حیلہ سازی کے ذریعے لوگوں پر مسلط اور حکومت پر قابض ہوجاۓ اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ ص۱ ملاحظہ ہوں اسی کتاب کے صفحات۔

۳۵۴

کوئی عقل سلیم کیونکر اس کی ہم آہنگ ہوسکتی ہے اور اس لا یعنی عقیدے کو تسلیم کرسکتی ہے کہ سفاک و بے باک اور فاسق و فاجر امراؤ سلاطین یا خلفائ کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت کے مانند واجب ہو۔ اگر حقیقت اسی طرح ہے تو اہل سنت کے اکابر علماء و مورخین اور ناقدین اپنی کتابوں اور تحریروں میں ظالم و سفاک امراء خلفاء کی مذمت آخر کس لئے کرتے ہیں؟ جیسے معاویہ یزید پلید، زیاد ابن ابیہ، عبیداللہ، حجاج، ابوسلمہ اور مسلم وغیرہ کے لئے۔

اگر واقعا کوئی شخص ہٹ دھرمی کی بناء پر کہنا چاہے کہ اس قسم کے اشخاص جب مسلمانوں پر امیر و حاکم اور سلطان وخلیفہ بن جائیں تو ان کی اطاعت واجب ہے( چنانچہ بعض علماۓ عامہ نے کہا بھی ے تو ایسی اطاعت قطعا قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ہوگی، کیونکہ خداۓ تعالی نے متعدد آیات میں کافروں، فاسقوں اور ظالموں پر لعنت فرمائی ہے اور مسلمانوں کو ان کی اطاعت سے منع فرمایا ہے۔ پس یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اس آیہ مبارکہمیں فاسق و فاجر اور ظالم بلکہ کافر صاحبان امر کی اطاعت کا حکم دے بدیہی چیز ہے کہ پروردگار عالم کی پاک و منزہ ذات سے دو متضاد باتوں کو نسبت دینا انتہائی بری حرکت ہے در آنحالیکہ امام فخرالدین رازی جو اکابر علماۓ عامہ میں سے ہیں اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں صاف صاف کہتے ہیں کہ اولی الامر کوقطعا گناہ سے معصوم ہونا چاہیئےورنہ خداوند عالم ان کی اطاعت کو اپنی اور اپنے پیغمبر(ص) کی اطاعت سے ملحق نہ کرتا۔

اولی الامر کو منجانب اللہ منصوب و منصوص ہونا چاہیئے

جب انہیں مختصر دلیلوں سے ان دونوں عقیدوں کا بطلان ثابت ہوگیا کہ اولی الامر کا اجماع یا غلبے اور اقتدار سے معین ہونا ممکن نہیں ہے تو اب تیسری قسم ثابت ہوگئی کہ حتمی طور سے اولی الامر کو خدا کی طرف سے منصوب ومنصوص ہونا چاہیئے وہو المطلوب۔

یہی ہے شیعہ امامیہ اثناعشریہ فرقے کا عقیدہ جو یہ کہتا ہے کہ جب اولی الامر کو پیغمبر(ص) کے مانند مہذب، جملہ صفات رذیلہ اور اخلاق فاسدہ سے پاک اور ظاہری و باطنی حیثیت سے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم ہونا ضروری ہے اور جب با طنی حالات کا ذاتی اور مستقل علم بھی سوا خداۓ تعالی کےاورکسی کو حاصل نہیں ہے تو لازمہ ہوجاتا ہے کہ اولی الامر کو خدا ہی مقرر فرماۓ جو خدا رسول کو تمام مخلوق سے منتخب کر کے رسالت پر مبعوث فرماتا ہے اسی کی ذاتِ اقدس پر اس کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اولی الامر کا انتخاب کر کے انکو امت سے روشناس کراۓ۔ علاوہ اس قسم کی دلیلوں کے جو الگ سے اس مقصد کو ثابت کرتی ہیں خود آیت کی ظاہری صراحت حکم دے رہی ہے کہ اولی الامر وہی ہوسکتے ہیں جو سوا ان خصوصیات کے جو دلیل سے مستثنی ہیں، یعنی مقام وحی و رسالت کے علاوہ رسول اللہ(ص) کی جملہ صفتوں کے

۳۵۵

حامل ہوں، اور چونکہ تمام انسانی صفات کا عالم سوا ذات پرردگار کے اور کوئی نہیں ہے لہذا حق انتخاب بھی اسی کے لئے مخصوص ہے۔

چنانچہ آیہ شریفہ میں واجب اور ممکن کا فرق بتانے کے لئے دو اطیعوا لاۓ گئے ہیں۔" اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول" اطاعت کرو خدا کی اس حیثیت سے کہ اس کو واجب الوجود بالذات جانتے ہو کیونکہ اس کی ہستی جن صفات کی مالک ہے جیسے حیات، علم، حکمت اور قدرت وغیرہ وہ خود اسی کی طرف سے اور عین ذات ہیں اور اطاعت کرو پیغمبر(ص) کی اس حیثیت سے کہ ان کو ممکن الوجود عبد صالح اور تمام صفات حمیدہ و اخلاق پسندیدہ کا حامل سمجھتے ہو جو سب کے سب واجب الوجود کی جانب سے ان کو تفویض ہوۓ ہیں لیکن جس وقت اولی الامر کے تذکرے پر پہنچا ہےتو پھر کلمہ اطیعوا نہیں لاتا بلکہ صرف واو عطف کے ساتھ اولی الامر کو پہچنواتا ہے۔ اس داؤ میں نکتہ یہ ہے کہ خداوند عالم روشن ضمیر اور خوش فکر لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہے کہ صاحب امر وہی شخص ہے جو ہر اسصفت کا حامل ہو جس کے حامل رسول خدا(ص) تھے۔ سوا ان چیزوں کے جو بالدلیل مستثنی ہیں جیسے نزول وحی اور عہدہ تبلیغ رسالت وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ جو کچھ رسول اللہ(ص) کے پاس تھا وہی سب اولی الامر کے پاس بھی ہونا چاہیئے سوا مرتبہ نبوت ورسالت کے پس اطاعت اولی الامر اور اطاعت پیغمبر(ص) کی ایک بنیاد ہے۔

بس اولی الامر کی شان یہ ہے کہ احکام دین اور قوانین شرع سید المرسلین(ص) کے نافذ کرنے والے اور ان کے محافظ ہوں لہذا اسی بنا پر جماعت امامیہ کا اعتقاد ہے کہ اولی الامر سے اوہ ائمہ اثنا عشر مراد ہیں جو پیغمبر(ص) کی نسل اور آں حضرت(ص) کی عترت طاہرہ میں سے ہیں یعنی امیرالمومنین علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد میں سے گیارہ بزرگوار اور یہ آیہ مبارکہ دوازدہ امام علیہم الصلوۃ والسلام کی امامت کے اثبات میں مذہب شیعہ اور فرقہ امامیہ کی بہت بڑی دلیل ہے۔

علاوہ اس کے اور بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن سے ہم استدلال کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی رخ سے ہمارے مطلب کو ثابت کرتی ہے۔

مثلا سورہ نمبر۲ (بقرہ) آیت نمبر۱۱۸"قالَ‏ إِنِّي‏ جاعِلُكَ‏ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ‏."

یعنی خداۓ تعالی نے ( ابراہیم سے) فرمایا میں تم کو تمام انسانوں کا امام قرار دیتا ہوں، ابراہیم نے عرض کیا یہ امامت میری اولاد میں بھی رہے گی؟ فرمایا( ہاں لیکن) جو ظالم ہیں ان کو میرا یہعہد نہیں پہنچے گا۔)

سورہ نمبر۳۳ ( احزاب) آیت نمبر۶"النَّبِيُ‏ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ أَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ وَ أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى‏ بِبَعْضٍ فِي كِتابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُهاجِرِينَ "

یعنی پیغمبر(ص) مومنین کے لئے اولی اور سزاوارتر ہیں خود ان کے نفوس سے اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور نسبی قرابتدار ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں کتاب خدا میں مومنین و مہاجرین سے)

۳۵۶

سورہ نمبر۹(توبہ) آیت نمبر۱۲۰"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے ایمان لانے والو اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

سورہ نمبر۱۳ (رعد) آیت نمبر۸ "إِنَّما أَنْتَ‏ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ " یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تم عذاب الہی سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے( ہماری طرف سے) ایک ہدایت کرنے والا بھی مقرر ہے۔

سور ہنمبر۶ ( انعام) آیت نمبر۱۵۴ " وَ أَنَّ هذا صِراطِي‏ مُسْتَقِيماً فَاتَّبِعُوهُ وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ‏."

(یعنی یہ ہے میرا سیدھا راستہ پس اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کا اتباع نہ کرو جس سے خدا کی راہ ےس بھٹک کر متفرق ہوجاؤ۔)

سورہ نمبر۷( اعراف) آیت نمبر۱۸۰" مِمَّنْ خَلَقْنا أُمَّةٌ يَهْدُونَ‏ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ‏"

یعنی ہماری مخلوق میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو حق کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل سے کام لیتے ہیں( یعنی پیشوایان دین و ائمہ معصومین علیہم السلام۔)

سورہ نمبر۳ ( آل عمران) آیت نمبر۹۸"وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَ لا تَفَرَّقُوا"

یعنی سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور ادھر ادھر متفرق نہ ہو۔

سورہ نمبر۱۶( نحل) آیت نمبر۴۵ "فَسْئَلُوا أَهْلَ‏ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ"

(یعنی اہل ذکر ( حاملان قرآن) سے پوچھ لو اگر تم کو نہیں معلوم ہے)

سورہ نمبر۳۳( احزاب) آیت نمبر۳۳ "إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ‏ عَنْكُمُ‏ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً. "

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ اللہ کا یہی ارادہ ہے کہ اے اہل بیت رسالت تم سے ہر رجس گندیگی کو دور رککھے اور تم کو ہر عیب سے کما حقہ پاک و پاکیزہ قرار دے۔

سورہ نمبر۳(آل عمران) آیت نمبر۳۰ "إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى‏ آدَمَ‏ وَ نُوحاً وَ آلَ إِبْراهِيمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَى الْعالَمِينَ‏ذریة بعضها من بعض"

یعنی در حقیقت اللہ نے آدم، نوح اولاد ابراہیم اور اولاد عمران کو تمام اہل عالم پر بگرزیدہ فرمایا ہے، اس نسل کے بعض کو بعض سے۔

سورہ نمبر۳۵( فاطر) آیت نمبر۲۹" ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ‏ الَّذِينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا"

یعنی پھر ہم نے اپنے ان بندوں کو کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے چن لیا ہے۔

سورہ نمبر۲۴( نور) آیت نمبر۳۵ "اللَّهُ نُورُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ الزُّجاجَةُ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَ لا غَرْبِيَّةٍ يَكادُ زَيْتُها يُضِي‏ءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نارٌ نُورٌ عَلى‏ نُورٍ

۳۵۷

يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشاءُ ...."

یعنی اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال اس قندیل کے مانند ہے جس میں ایک چراغ روشن ہو وہ چراغ ایک شیشے کے اندر ہو اور وہ شیشہ اس طرح چمکتا ہوگویا ایک بہت درخشان ستارہ ہے۔ وہ زیتون کے اس مبارک درخت سے روشن ہوتا ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی۔ اس کا زیت ہر وقت ضو دینے کے لئے تیار ہے بغیر اس کے کہ آگ اس کو مس کرے، نور بالاۓ نور، خدا جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔

اور بہت سی آیتیں ہیں لیکن محفل کا وقت ان سب کو ذکر کرنے کی گنجائش نہیں رکھتا حتی کہ خطیب خوارزمی کے مناقب میں امام احمد بن حنبل نے مسند میں، حافظ ابونعیم نے مانزل من القرآن فی علی میں اور حافظ ابوبکر شیرازی نے نزول القرآن فی امیرالمومنین میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا قرآن کا چوتھائی حصہ ہم اہل بیت کے حق میں نازل ہوا ہے۔

نیز حافظ ابونعیم ما نزل من القرآن فی علی میں، احمد بن حنبل مسند میں، واحدی اسباب النزول میں محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول میں، ابن عساکر اور محدث شام ا پنی اپنی تاریخ میں، حافظ ابوبکر شیرازی نزول القرآن فی امیرالمومنین میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب شروع باب۶۲ میں اور خواجہ بزرگ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب۴۲ میں طبرانی سے اور وہ ابن عباس( جرامت) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا "نزلت‏ في‏ على‏ أكثر من ثلاث مائة آية في مدحه." (یعنی علی علیہ السلام کی مدح میں تین سو سے زیادہ آیتیں نازل ہوئیں۔)

یقینا ان میں سے ہر ایک آیت ک بارے میں کم سے کم کئی کئی گھنٹے تقریر کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن وقت نہ ہونے کی وجہ سے میں نے فہرست کے طور پر ان میں سے بعض کی تلاوت کردی ہے تاکہ صاحبان علم و فن اکابر علماۓ عامہ کی معتبر کتب مثلا تفسیر امام فخر الدین رازی، تفسیر امام ثعلبی، تفسیر زمخشری، تفسیر جلال الدین سیوطی، تفسیر طبری، تفسیر نیشاپوری، تفسیر واحدی، کتاب فرائد السمطینحموینی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، جمع بین الصحیحین حمیدی، مسند امام احمد بن حنبل، صواعق ابن حجر، شرف المصطفی خرگوشی، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، حلیتہ الاولیاء حافظ ابونعیم، مفاتیح الاسرار شہرستانی، مناقب خوارزمی، فصول المہمہ مالکی، شواہد التنزیل حاکم ابوالقاسم، استیعاب ابن عبدالبر، سقیفہ جوہری، ینابیع المودۃ خواجہ بزرگ حنفی، مودۃ القربی ہمدانی، مانزل من القرآن فی علی اصفہانی، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی، نہایہ ابن اثیر، کفایت الطالب گنجی شافعی، نزول القرآن فی امیرالمومنین ابوبکر شیرازی، اور رشفتہ الصادی سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی، وغیرہ کی طرف رجوع کر کے نگاہ تحقیق سے جائزہلیں جس سے ان پر حقیقت کا انکشاف ہوسکے۔

بہتر ہوگا کہ بیان کو زیادہ طول نہ دوں اور اسی آیت کا تذکرہ کروں جس کو عنوان کلام قرار دیا ہے اور سب سے بڑی دلیل بتایا ہے۔

میں نے عرض کیا تھا کہ شیعہ امامیہ فرقے کا عقیدہ یہ ہے کہ آیہ مبارکہ میں عقلی و نقلی دلائل و براہین کی روشنی میں اولی الامر سے آئمہ عشر سلام اللہ علہیم اجمعین مراد ہیں۔

۳۵۸

چنانچہ اس مطلب پر عقلی دلیلیں اتنی زیادہ ہیں کہ محفل کا وقت ان سب کو بیان کرنے کے لئے کافی نہیں ہے لیکن قرینہ خود ثابت کررہا ہے کہ ان اولی الامر کو یقینا گناہ و خطا سے معصوم ہونا چاہیئے جن کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت سے وابستہ ہے۔

چنانچہ امام فخرالدین رازی نے بھی اپنی تفسیر میں اس مفہوم کا اقرار کیا ہے کہ اگر کہا جاۓ اولی الامر معصوم نہیں ہیں تو اجتماع ضدین لازم آۓ گا اور یہ محال ہے۔

دوسرےیہ کہ اولی الامر کو ہر فرد بشر سے اعلم و افضل، اورع و اثقی اور اکمل ہونا چاہیے تاکہ وہ صفات پیغمبر(ص) کے حامل بنیں اور ہر حیثیت سے ان کی اطاعت واجب ٹھہرے۔

یہ صفات ساری امت میں(بتصدیق اکابر علماء اہل سنت) سوا آئمہ اثناء عشر علیہم السلام ک اور کسی کے لئے بیان نہیں کئے گئے ہیں۔ ان کا درجہ عصمت اس قدر بلند ہے کہ خدا نے آیت تطہیر میں اس کی شہادت دی ہے۔ اس جلیل القدر خاندان کی عصمت کے بارے میں اکابر علماۓ اہل تسنن کی معتبر کتابوں کے اندر کثرت سے حدیثیں مروی ہیں جن میں سے چند خبریں نمونے ک طور پر پیش کررہا ہوں۔

طرق عامہ سے آئمہ کے لئے اخبارِ عصمت

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۷۷ ص۳۴۵ میں اور شیخ الاسلام حموینی نے فرائد السمطین میں ابن عباس سے روایت کیہے کہ انہوں نے کہا:

"سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ‏ أَنَا وَ عَلِيٌّ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ تِسْعَةٌ مِنْ‏ وُلْدِ الْحُسَيْنِ‏ مُطَهَّرُونَ‏ مَعْصُومُونَ."

یعنی میں نے سنا کہ رسول اللہ صلعم فرماتے تھے میں اور علی اور حسن و حسین اور حسین کی اولاد میں سے نو افراد سب کے سب پاک و پاکیزہ اور معصوم ہیں۔

سلمان فارسی نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے حسین علیہ السلام کے شانے پر ہاتھ رکھ کے فرمایا:

" الإمام ابن الإمام تسعة من صلبه أئمّة أبرار امناء معصومون‏"

یعنی قطعی طور پر یہ امام اور امام کے فرزند ہیں، ان کی نسل سے نو عدد امام، نیکوکار، امین اور معصوم ہوں گے۔

زید ابن ثابت سے روایت کی ہے کہ آں حضرت نے فرمایا:

"‏ وَ إِنَّهُ لَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ ع أَئِمَّةٌ أَبْرَارٌ أُمَنَاءُ مَعْصُومُونَ‏ قَوَّامُونَ بِالْقِسْطِ "

یعنی یقینا حسین(ع) کے صلب سے نیکوکار، امین، معصوم اور عدل و انصاف کو قائم رکھنے والے امام پیدا ہوں گے۔

اور عمران ابن حصین سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں نے رسول خدا صلعم سے سنا کہ آں حضرت نے

۳۵۹

علی علیہ السلام سے فرمایا:

" أَنْتَ‏ وَارِثُ‏ عِلْمِي‏ وَ أَنْتَ الْإِمَامُ وَ الْخَلِيفَةُ بَعْدِي تُعَلِّمُ النَّاسَ بَعْدِي مَا لَا يَعْلَمُونَ وَ أَنْتَ أَبُو سِبْطَيَّ وَ زَوْجُ ابْنَتِي مِنْ ذُرِّيَّتِكُمُ الْعِتْرَةُ الْأَئِمَّةُ الْمَعْصُومِينَ "

یعنی تم میرے علم کے وارث ہو اور تم امام اور میرے بعد خلیفہ ہو۔ تم لوگوں کو وہ باتیں بتاؤ گے جو وہ نہیں جانتے، تم میرے نواسوں کے باپ اور میری بیٹی کے شوہر ہو، اور تمہاری اولاد میں سے عترت اور معصوم امام ہیں۔

اس قسم کے اخبار و احادیث اکابر علماۓ اہل سنت کے طرق سے بکثرت مروی ہیں جن میں سے اس مختصر وقت میں نمونے کے لئے اسی قدر کافی ہیں۔

ان حضرات کے علم کے بارے میں بھی طرق اہل سنت سے بکثرت اخبار منقول ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ راتوں کی خصوصی نشستوں میں ہم اس موضوع پر تفصیلی بحث کرچکے ہیں اور جو یقینا رسائل و اخبارات میں آپ حضرات کی نظر سے گزری ہوگی۔ نمونے کے طور پر آج بھی چند حدیثیں نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

عترت و اہلِ بیت(ع) کا علم

ابواسحق شیخ الاسلام حموینی فرائد السمطین میں، حافظ ابونعیم اصفہانی حلیتہ الاولیاء میں اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا میری عترت میری طینت سے پیدا کی گئی ہے اور خداۓ تعالی نے ان افراد کو علم وفہم کرامت فرمایا ہے راۓ ہو اس شخص پر جو ان کو جھٹلاۓ۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور صاحب کتاب سیر الصحابہ نے حذیفہ ابن اسید سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلعم نے ایک مفصل خطبہ اور حمد و ثناۓ الہی فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا:

"إنّي‏ تارك‏ فيكم‏ الثّقلين كتاب اللّه و عترتي ان تمسکتم بهما فقد نجوتم"اور طبرانی اتنے اضافے کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ فرمایا: " فلا تقدموهما فتهلكوا و لا تقصروا عنهما فتهلكوا و لا تعلموهم فانهم أعلم منكم. "

یعنی میں تمہارے اندر دو نفس وبزرگ چیزیں چھوڑتا ہوں، خدا کی کتاب اور میری عترت، اگر تم ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو ضرور نجات پاؤ گے۔

پھر فرمایا کہ ان سے پیش قدمی نہ کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے، ان افراد سے تقصیر و کوتاہی نہ کرو ورنہ ہلاک ہوگے اور ان کو سکھانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ یقینا یہ تم سے زیادہ عالم ہیں۔

نیز دوسری روایت میں حذیفہ بن اسید سے نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

" الْأَئِمَّةُ بَعْدِي‏ مِنْ‏

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394