پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316861 / ڈاؤنلوڈ: 7971
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

دستاویزات موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ ۳ ۱ ھ کو جناب ابوبکر کی وفات کی خبر لشکر تک پہنچنے سے پہلے یا کم از کم ابوعبیدہ جراح کے اس خبر کو ظاہر کرنے سے پہلے دمشق فتح ہوگیا تھا_ اور اہل دمشق کے ساتھ مصالحت کرنے والے بھی اس وقت کے سردار لشکر خالد بن ولید ہی تھے_

حتی کہ اگر اس تحریر کی تاریخ ۱۵ ہجری بھی مان لی جائے تب بھی ہماری مدعا کے لئے نقصان دہ نہیں ہے_ تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت عمر کی حکومت کا واقعہ اس کے بعد یعنی ۱۶ ھ یا ۱۷ ھ میں تھا_

ابوعبیدہ، ابن قتیبہ ، واقدی ، بلاذری(۱) اور دوسرے بہت سے حضرات نے تصریح کی ہے کہ صلح خالد کے ہاتھ پر ہوئی اور اس سے واضح ہے کہ صلح کے وقت لشکر کا امیر وہی تھا_

بلکہ واقدی کا کہناہے کہ ان کے ساتھ خالد کے صلح کرنے کی وجہ سے ابو عبیدہ اور خالد کے درمیان سخت تکرار اور مقابلہ بازی پیش آئی _اس سے ہمارے لئے واضح ہوجاتاہے کہ خالد اپنے موقف میں کس قدر سرسخت تھا اور ابوعبیدہ اس کے مقابلہ میں کس قدر کمزور(۲) _یہی چیز ہمارے اس نظریئےے ساتھ بہت زیادہ ہماہنگی رکھتی ہے کہ لشکر کی قیادت اس وقت خالد کے پاس تھی_

بلکہ بلاذری و غیرہ نے ذکر کیا ہے کہ ابوعبیدہ مشرقی دروازے پر تھا اور قہر و غلبہ سے شہر میں داخل ہوا تو شہر والے خالدکے پاس آئے اور اس سے صلح کرلی_ اس نے ان کے لئے تحریر لکھی اور انھوں نے اس کے لئے دروازہ کھول دیا پھر بلاذری نے ابی مخنف کے قول کو بھی نقل کیا ہے جو مذکورہ واقعہ کے بالکل برعکس ہے_ پھر اس کے بعد کہتاہے کہ پہلا قول نہایت مناسب ہے(۳) _

ہم بھی کہتے ہیں : کہ ہاں یہی قول درست ہے کیونکہ اکثر مورخین بھی اسی کے قائل ہیں، اس بحث کی ابتداء میں مذکور صلح نامہ کی عبارت اور دیگر دستاویزات بھی اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہیں کہ اہل دمشق سے صلح کرنے والا خالد ہی تھا اور وہی امیر لشکر تھا_

____________________

۱) المعارف لابن قتیبة ص ۷۹ ط ۱۳۹۰ بیروت ، فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ۵۹ ، فتوح البلدان ازص ۱۲۸ تا ص ۱۳۱ و دیگر کتب_

۲) فتوح الشام ج۱ ص ۵۸ ، ۶۰_ (۳) فتوح البلدان ص ۱۲۹ ، البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۱_

۶۱

البتہ خالد کی معزولی کا حکم مسلمانوں کو اس وقت پہنچا تھاجب وہ دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے تو ابوعبیدہ نے تقریباً بیس دن تک اسے مخفی رکھا یہاں تک کہ دمشق کو فتح کرلیا گیا تا کہ دشمن کے مقابلے پر ڈٹے رہنے والے مسلمانوں کو خالد کا مسئلہ کمزور نہ کردے(۱)

البتہ واقدی کہتاہے کہ دمشق کی فتح حضرت ابوبکر کی وفات والی رات ہوئی(۲) _

اور زینی دحلان کہتاہے : '' کہا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر کی وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد ۱۳ ھ میں آئی اورحضرت ابوبکر کی وفات اسی رات ہوئی جس رات مسلمان دمشق میں داخل ہوئے اور یہ ۲۲جمادی الثانی ۱۳ ھ کا واقعہ ہے _ اور جو قائل ہیں کہ وفات کی خبر دمشق کی فتح کے بعد آئی وہی افراد اس بات کے قائل ہیں کہ یرموک کا واقعہ فتح دمشق کے بعد پیش آیا(۳) _

اور ابن کثیر کہتاہے کہ '' سیف بن عمر کی عبارت کے سیاق سے ظاہر ہوتاہے کہ ۱۳ ھ میں دمشق فتح ہوا لیکن خود سیف عمومی نظریئے کے مطابق تصریح کرتے ہیں کہ ۱۵ رجب ۱۴ ھ کو دمشق فتح ہوا ''(۴) _

اورعبدالرحمن بن جبیر سے منقول ہے کہ ابوعبیدہ خود حضرت ابوبکر کو فتح دمشق کی خوشخبری دینے کے لئے گیا تھا لیکن حضرت ابوبکر پہلے ہی وفات پاچکے تھا او ر حضرت عمر نے اسے لشکر کا امیر بنادیا پھر جب وہ دمشق واپس آیا تو مسلمانوں نے یہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا : '' ایسے شخص کو خوش آمدید جسے ہم نے قاصد بنا کر بھیجا تھا اور وہ ہم پر امیر بن کر واپس آیا ہے''(۵) _

بہرحال یہ صلح نامہ اور تمام گذشتہ دستاویزات گواہ ہیں کہ اکثر مؤرخین کے مطابق خالد نے ہی اہل شام سے صلح کی تھی اور ہم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر فرض کریں کہ یہ تحریر ۱۵ ھ میں بھی لکھی گئی ہو یا یہ دوسری تحریر ہو تب بھی واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے پہلے مقرّر کی جاچکی تھی_

____________________

۱)البدایہ والنہایہ ج۷ ص ۲۳ و فتوح البلدان ص ۱۲۷ و ۱۲۹_

۲) فتوح الشام ج/۱ ص ۵۸ ، ص ۵۹_ (۳) الفتوحات الاسلامیة ج/۱ ص ۴۷_

۴) البدایة والنھایة ج/۷ ص ۲۲_ (۵) البدایة والنھایة ج/۱ ص ۲۴_

۶۲

رہی یہ بات کہ مؤرخین اور راویوں نے اس حقیقت سے روگردانی کیوں کی ؟شاید واقعات و حوادث کاپے درپے واقع ہونا اور ایک دوسرے کے نزدیک ہونا ان کے اشتباہ کا موجب بناہواور ان پر اچھا گما ن کرتے ہوئے (کیونکہ ان کے متعلق اچھا گمان ہی کیا جاسکتاہے) یہی کہہ سکتے ہیں کہ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ حضرت عمر کا دور حکومت عظیم فتوحات ا ور کشور کشائی کادور تھا اور فتح شام بھی چونکہ نہایت اہم معرکہ تھا اس لئے اسے بھی عمر کے دور حکومت میں ہونا چاہئے ، حضرت ابوبکر کے عہد میں نہیں_اور اسی طرح خالد کی شجاعت اور مختلف مواقع میں اس کی قوت و بہادری ثابت اور ظاہر کرناچاہتے تھے اور یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ بلا شرکت غیرے تلوار کا دھنی ہے _ پس اس کا شام پر غلبہ حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ شامیوں سے مصالحت کرنے والا کوئی اور ہو چاہے یہ معاملہ جھوٹ اور مکرو فریب سے ہی حل ہوا ہو _ لیکن کیا یہ مذکورہ باتیں ہی ان لوگوں کی حقیقت سے روگردانی کا حقیقی سبب ہیں _ مجھے تو نہیں معلوم لیکن شاید ذہین و فطین قارئین کو اس کا علم ہوگا_

۸_ سیوطی نے ابن القماح کے ہاتھ سے تحریر شدہ مجموعہ سے ایک بات نقل کی ہے جس میں مذکور ہے کہ ابن الصلاح نے کہا ہے : ''ابوطاہر محمد بن محمش الزیادی نے تاریخ الشروط میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب نجران کے نصاری کے لئے تحریر لکھی اس میں ہجرت کی تاریخ قلمبند فرمائی اور علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ یہ عبارت لکھیں '' انہ کتب لخمس من الھجرة'' کہ ہجرت کے پانچویں سال میں لکھی گئی ہے''_ (پھر ) کہتاہے ''ہجرت کے ساتھ تاریخ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت سے لکھی گئی اور تاریخ لکھنے میں حضرت عمر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کی ہے''(۱)

اسی طرح سیوطی کہتاہے '' کہا جاتاہے یہ بات صداقت رکھتی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے پانچویں برس تاریخ لکھی اور پہلی حدیث ( زھری کی گذشتہ روایت) میں تھا کہ ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ پہنچنے کے دن تاریخ لکھی '' اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں کوئی منافات نہیں چونکہ ظرف (یوم قدم المدینة ) فعل (امر)

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ، سیوطی ص ۱۰ نیز التراتیب الاداریہ ج ۱ ص ۱۸۱_

۶۳

سے متعلق نہیں بلکہ مصدر ( التاریخ) سے متعلق ہے تو اصل عبارت اس طرح ہوگی _امربان یورخ بذلک الیوم لا ان الامر کان فی ذلک الیوم یعنی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ اس دن سے تاریخ لکھی جائے نہ یہ کہ یہ فرمان اس دن جاری ہوا'' (یعنی ہوسکتاہے کہ پانچ ہجری کو حکم دیا ہو کہ مدینہ تشریف آوری سے تاریخ شمار کی جائے _از مترجم)(۱) یہ سیوطی کا کلام ہے_

لیکن اس سے واضح تر جواب یہ ہے کہ آپ نے مدینہ پہنچتے ہی تاریخ لکھنے کا حکم دیا اور ربیع الاول کو مبداء قرار دیا اور خودنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب ۵ میں نجران کے نصرانیوں کے لئے تحریر لکھی تو اس وقت اسی تاریخ سے استفادہ کیا_

بہر حال سخاوی کہتاہے کہ '' اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو عمر پیروی کرنے والا ہوگا پہل کرنے والا نہیں''(۲) _

اور عباس مکی کہتاہے کہ '' تاریخ ایک گذشتہ سنت اور پسندیدہ طریقہ ہے کہ جس کا حکم رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نجران کے نصاری کی طرف نامہ لکھتے ہوئے دیا تھا _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ اس میں لکھیں (کتب لخمس من الہجرة)(۳) _پھر ابن شہاب کی گذشتہ روایت نقل کی ہے_

۹_ صحیفہ سجادیہ کی خبر سے ظاہر ہوتاہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبدا قرار دینااللہ جلّ شانہ کی منشاء کے مطابق تھاکیونکہ حدیث میں آیاہے کہ جبرائیلعليه‌السلام نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے اسلام کی چکی چلے گی اور دس سال تک چلتی رہے گی اور ہجرت سے پینتیس (۳۵) برس بعد پھراسلام کی چکی چلے گی اور پانچ سال تک چلتی رہے گی''(۴) _

____________________

۱)الشماریخ فی علم التاریخ ص ۱۰ ، التراتیب الاداریة ج۱ ، ص ۱۸۱_

۲) التراتیب الاداریة ج/۱ ص ۱۸۱_

۳) نرھة الجلیس ج/۱ص ۲۱_

۴) البحار ج/۵۸ ص ۳۵۱ (البتہ صفحات کی تصحیح کرنے کے بعد) سفینة البحار ج/۲ ص ۶۴۱ ، الصحیفة السجادیة ص ۱۰ ، البتہ یہ روایت کئی اور اسناد سے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے بھی وارد ہوئی ہے جنہیں البدایة والنھایة ج۶ ص۲۰۶ ، ۲۰۷ ، ج/۷ ص ۲۱۹ ، ۲۷۵ ، ص ۲۷۶ ، میں ذکر کیا گیا ہے نیز ملاحظہ ہو سنن ابی داؤد مطبوعہ دار الکتاب العربی ج۴ ص ۱۵۹ ، ص ۱۶۰_ و دیگر کتب

۶۴

۱۰ _ ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''میری ہجرت کے ساٹھ (سال) پورے ہونے پر حسینعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام کو شہید کیا جائے گا''(۱) _

۱۱ _ انس سے ایک روایت منقول ہے کہ اس نے کہا :' ' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے ہمارے لئے روایت بیان کی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کے (۱۰۰) سال پورے ہونے تک تم میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا''_(۲)

۱۲_ ڈاکٹر سعاد ماہر محمد نے اپنے رسالے (مشہدالامام علیعليه‌السلام فی النجف الاشرف) ص ۱۰۴، ص ۱۰۵ میں اہل حیرہ کے لئے خالد بن ولید کی لکھی ہوئی تحریر کا متن درج کیا ہے اور اس کے آخر میں یہ عبارت ہے ( اور اگر انہوں نے فعل یا قول کے ساتھ بدعہدی اور خیانت کی تو ہم ان سے بری الذمہ ہوں گے اور ( یہ تحریر) ۱۲ ھ ماہ ربیع الاول میں لکھی گئی) _

اور یہ بات واضح ہے حیرہ کی فتح خالد کے ہاتھوں حضرت ابوبکر کے دور میں ہوئی تھی اس کا معنی یہ ہے کہ تاریخ حضرت عمر کی خلافت سے بھی پہلے وضع کی جاچکی تھی اور اس سے پہلے سے ہی استعمال بھی ہورہی تھی پس کس طرح حضرت عمر نے ۱۶ ھ میں تاریخ معین کی ؟اور سھیلی و ابن عباس و غیرہ کے کلام سے مذکورہ بات کی تائید ممکن ہے_

۱۳_ حافظ عبدالرزاق نے ابوھریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا: ''ہلاکت ہے عربوں کے لئے اس بدبختی سے جو ساٹھ سال پورے ہونے پر آئے گی _جب امانت کو غنیمت سمجھا جائے گا ...''(۳) _

۱۴_ اسی طرح عبدالرزاق نے ہی ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا :''جب پینتیس برس

____________________

۱) مجمع الزوائد ج۹ ص۱۹۰عن الطبری اوراس کی سند میں کوئی اعتراض نہیں مگر سعد بن طریف میں اور وہ بھی خود ان کی تصریح کے مطابق اس کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ہے تاریخ بغدادج/۱ص۱۴۲، الالمام ج/۵ص ۲۹۹، کنزالعمال ج/۱۳ص۱۱۳ط حیدرآباد،میزان الاعتدال ج/۱ص۲۱۲عن الطبرانی وا لخطیب و ابن عساکر ،منتخب کنز العمال (حاشیہ مسنداحمد)ج/۵ ص۱۱۱، مقتل الحسین خوارزمی ج/۱ ص ۱۶۱ ، احقاق الحق ج/۱۱ ص ۳۵۴ از گذشتہ بعض و از مفتاح النجا ص ۱۳۶ قلمی نیز از امعجم الکبیر طبرانی، زندگینامہ امام حسینعليه‌السلام از تاریخ دمشق با تحقیق محمودی ص ۱۸۵_

۲) مجمع الزوائدج/۱ص ۱۹۷ ، عن ابی یعلی ، یہ روایت مختلف الفاظ اور مختلف اسناد سے نقل کی گئی ہے ، لیکن ان میں لفظ ( من الہجرة) نہیں ہے_

۳)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_

۶۵

پورے ہوں گے تو ایک امر عظیم حادث ہوگا پس اگر تم ہلاک ہوگئے تو اس کے لائق ہو گے اور اگر نجات پاگئے تو اس کی امید ہے اور جب ستر برس پورے ہوں گے تو تم انوکھی چیزیں دیکھوگے(۱) _

ابن مسعوداور ابوہریرہ نے اس کا علم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حاصل کیا ہے کیونکہ یہ غیب گوئی ہے اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجری تاریخ مقر ر فرمائی _

۱۵_ ایک حدیث جس کے راوی موثق ہیں یہ ہے کہ : ہم ساٹھ ہجری سال کے پورے ہونے سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ ۶۰ ھ اور بچوں کی فرمانروائی سے(۲) _

ابوہریرہ سے مروی ہے : '' خدایا مجھے ۶۰ ھ اور بچوں کی حکومت دیکھنا نصیب نہ کر''(۳) _

۱۶_ مالک نے نافع سے اور اس نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ جب ایک سوستر سال پورے ہوجائیں تو جدّہ میں رہائشے پذیر ہونا بہترین اقامت اختیار کرنے میں سے ہوگا(۴) _

خلاصہ بحث:

گذشتہ امور سے واضح ہوجاتاہے کہ لوگوں کے درمیان مشہور یہ بات کہ حضرت عمر نے اسلامی ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی، ناقابل قبول ، بلا دلیل اور بے بنیاد ہے_ البتہ حضرت عمر کے دور میں صرف یہ ہوا کہ ربیع الاّول کی بجائے محرم کو ہجری سال کا مبدا قرار دیا گیا اورایسا انہوں نے یا توخود کیا تھا یا حضرت عثمان کے مشورہ سے _ جبکہ محرم ( جیسا کہ سب کو معلوم ہے) زمانہ جاہلیت میں سال کا مبداء شمار ہوتا تھا(۵) _ بعید نہیں کہ ہجری تاریخ جسے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمائی تھی اور کئی بار لکھی بھی تھی،اس زمانہ میں تاریخ کی ضرورت کم ہونے کی وجہ سے لوگوں میں مشہور نہ ہوسکی ہو اور پھر حضرت عمر نے صحابہ کو اکٹھا کیا ہو تا کہ تاریخ

____________________

۱)مصنف عبدالرزاق ج/۱۱ ص ۳۷۳ و ۳۷۵_ (۲) تطہیر الجنان واللسان ص ۶۶ ۱۳۷۰ نیز کنز العمال ج۱۱ ص ۱۱۳_

۳)الاتحاف بحبّ الاشراف ص ۶۵ از ابن ابی شیبہ و غیرہ _ (۴) لسان المیزان ج/۲ ص ۷۹_

۵)البدایة والنہایہ ج۳ ص ۲۰۶ و ص ۲۰۷ نیز السیرة النبویة ابن کثیر ج۲ ص ۲۸۸ و ۲۸۹_

۶۶

پر اتفاق حاصل ہوجائے(۱) لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جن کی غرض یہ تھی کہ جس تاریخ کا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا تھا اور جس تاریخ کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر فرمایا تھا اس کو طاق نسیان میں رکھ دیا جائے _ اس لئے کہ فلاں آدمی رومی تاریخ کا مشورہ دے رہا تھا، یہود یت سے اسلام لانے والے کچھ مسلمان ایسی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں جو سکندر اورہر مزان کے دورکی طرف لوٹتی ہے اور ان لوگوںسے حضرت عمر یہ مشورے لے رہے تھے حالانکہ حضرت عمر ایرانیوں سے شدید نفرت کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ لوگ اسے ایرانی تاریخ کا مشورہ دیتے ہیں کہ جب کوئی بادشاہ ہلاک ہوجاتا تو وہ نئے بادشاہ کی تاج پوشی کے دن سے تاریخ کی ابتدا کرتے تھے_ (یعنی ...؟) کوئی مولد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعنی عام الفیل کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کا مشورہ دیتاہے واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت کے آخری سالوں میں عرب عام الفیل سے تاریخ لکھتے تھے_ اور مسعودی کے الفاظ کے مطابق:

(و کثر منهم القول و طال الخطب فی تواریخ الاعاجم و غیرها) (۲)

عجمیوں و غیرہ کی تاریخوں میں ان کے درمیان اقوال زیادہ ہوگئے اور بحث لمبی ہوگئی_

یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ہوئیں تو محافظ دین اورحق کے علمبردار حضرت علیعليه‌السلام نے مناسب وقت میں اس ہجری تاریخ کا اعلان کیا جسے خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرّر فرمایا تھا اور خود انہوں نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی حیات طیبہ میں متعدد خطوط اور معاہدوں میں لکھا تھا_

آپعليه‌السلام کی رائے اور نظریہ کو قبول کرنے اور آپعليه‌السلام کے مشورہ کو دل و جان سے مان لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہ حق ہے''والحق یعلو ولا یعلی علیه '' _نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یوم ولادت و رحلت کی بجائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو تاریخ کا مبداء قرار دینے کی وجہ ارض شرک سے (جہاں ذلت، گمراہی اور پستی تھی) ارض

____________________

۱) علامہ محقق سید مہدی روحانی نے اپنے مقالہ میں یہ احتمال دیا ہے اور یہ مقالہ ما ہنامہ '' الھادی'' سال اول شمارہ نمبر ۴ ص ۴۸ میں شائع ہوا ہے_

۲) التنبیہ الاشراف ص ۲۵۲_

۶۷

اسلام کی طرف (جہاں عزت ، شرافت اور سربلندی تھی) ہجرت کی اہمیت تھی اور انسانیت اور تاریخ کی تشکیل کے اعتبار سے یہ چیز نہایت اہمیت کی حامل ہے_ اسی طرح آپعليه‌السلام نے اس عمل سے ہرذلت آمیز رائے اور ظالم و جابر اور طاغوتی حکمرانوں سے وابستہ واقعات کو تاریخ کا مبداء قرار دینے سے اجتناب کیا _ اور بہتی گنگا کی لہروں کا دھارا بننے سے بھی پرہیز کیا جبکہ عام لوگوں میں یہ چیز عام ہوتی ہے اور ان کی رگ و پے میں خون اور زندگی کی طرح گردش کررہی ہوتی ہے_

پھر عیسوی تاریخ کیوں؟

اس کے بعد ہم یہاں نہایت افسوس اور گہرے ملال سے یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ اہل مغرب اور غیر مسلم تواپنی تاریخ، تمدن اور واقعات کی حفاظت کرتے ہیں _ اور خواہ وہ کتنے ہی حقیر اور بے اہمیت ہوں کسی طر ح بھی ان سے دستبردار نہیں ہوتے بلکہ انہیں پھیلانے اور دوسری قوموں میں انہیں ترویج دینے اور راسخ کرنے کے درپے ہوتے ہیں _ حتی کہ اسلامی واقعات اور تاریخ کو لکھنا چاہتے ہیں تو ہجری تاریخ کو عیسوی تاریخ سے بدل کر لکھنے پر اصرار کرتے ہیں خواہ ایسا کرنے سے کتنے ہی حقائق مسخ ہوجائیں اور ان میں اشتباہ و غلطی ہوجائے_

لیکن دوسری طرف ہم ترقی ، ترقی یافتہ اور تہذیب و ثقافت و غیرہ جیسے بے وزن اور خوشنما الفاظ اور نعروں کا فریب کھاکے اپنی بہت سی بنیادی اور اساسی چیزوں سے بآسانی دستبردار ہوجاتے ہیں حالانکہ ان نعروں کے پس پردہ ہزاروں خطرات اور بربادیاں چھپی ہوئی ہوتی ہیں _ حتی کہ بعض اسلامی ممالک نے تو عربی رسم الخط کو چھوڑ کر لاطینی اور انگریزی رسم الخط کو اپنا لیا ہے _ بلکہ اپنے رنگ ڈھنگ اور لباس جیسے حیاتی اور ضروری امور کو چھوڑ کر غیروں کے اقدار اپنالئے ہیں_ بالکل یہی صورتحال ہجری تاریخ کے متعلق بھی ہے_

ہم نے کس سہولت سے ہجری تاریخ کو چھوڑ دیا ہے جب کہ یہ ہماری عزت و سربلندی کا سرچشمہ تھی

۶۸

اس سے ہماری تاریخ اور ثقافت قائم تھی ہم نے اس کی جگہ عیسوی تاریخ کو اپنا لیا جو تقریباً چوتھی صدی ہجری میںیعنی اسلامی ہجری تاریخ کے وضع ہونے کے بہت عرصہ بعد ظاہر ہوئی عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کے دن سے نہیں بلکہ ان کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے دن سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں _(۱) بلکہ ایک اور دستاویز کے مطابق جناب سکندر ذوالقرنین کے دور سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں(۲) حتی کہ ابن العبری نے بھی ( جو عیسائیوں کے بہت بڑے پادری شمار ہوتے تھے اور کارڈینال کے درجہ کے برابر ان کا رتبہ تھا اور ۶۸۵ ہجری کو فوت ہوئے انہوں نے بھی) اپنی کتاب میں عیسوی تاریخ کبھی نہیں لکھی بلکہ کئی مقامات پر تاریخ سکندری سے کتاب کو مزین کیا _ پس اگر اس وقت عیسوی تاریخ عام اور معروف ہوتی تو وہ اس سے ہرگز روگردانی نہ کرتے_ اسی طرح ۹۰۲ ہجری کو وفات پانے والے سخاوی کے کلام سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ دسویں صدی ہجری کے اوائل تک بھی میلاد مسیح کی تاریخ رائج نہیں تھی_

لیکن بہت سی ایسی حکومتیں ہمارے سامنے ہیں جو اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے نام سے یاد کرتی ہیں اور بہت سی قومیں جو خود کو اسلام سے منسوب کرتی ہیں انہوں نے صرف عیسوی تاریخ کو اپنا رکھاہے فارسی اور رومی تاریخ کو بھی نہیں اپنایا ہاں انہوں نے صرف تمدن و ترقی کے نام پر اور اس قسم کے دلکش اور پرفریب نعروں کی وجہ سے عیسوی تایخ کو محور نظام بنایا جبکہ اپنی عظمت و سربلندی کی اساس ،تاریخ اور ثقافت کو چھوڑ دیا ہے اس طرح بہت سے عظیم اور اہم امور سے دستبردار ہوچکے ہیں جب کہ ان سے پیچھے ہٹنا نہایت دشوار اور خطرناک ہے_

نکتہ:

ایک روایت کے مطابق حضرت امام جعفر صادقعليه‌السلام سے پوچھا گیا کہ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیعليه‌السلام کی ولادت کانون (رومی مہینہ) کی چوبیس تاریخ کو ہے (آپعليه‌السلام کیا فرماتے ہیں ؟) جس پر آپعليه‌السلام نے فرمایا: '' وہ

____________________

۱)الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۸۳ _

۲)نزہة الجلیس ج۱ ص ۲۲ نیز ملاحظہ ہو کنز العمال ج ۱۰ ص ۱۹۵ از مستدرک و از کتاب الادب صحیح بخاری_

۶۹

جھوٹ کہتے ہیں بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت حزیران (رومی مہینہ) کے نصف میں ہوئی جو گردش ایام کے حساب سے آذر (فارسی مہینہ) کا بھی نصف بنتاہے''(۱) ( جس سے معلوم ہوتاہے کہ فارسی اور رومی مہینے، عیسوی مہینوں سے پہلے اور معروف تھے کہ عیسائی حضرت عیسیعليه‌السلام کی پیدائشے کو ان تاریخوں سے مطابقت دے رہے ہیں _ اور یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ صحیح مطابقت نہیں دے پائے_ از مترجم)

مخلصانہ اپیل

ہم امت مسلمہ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے امور اور تقویم ( کیلنڈروں ) میںہجری تاریخ کو اپنائیں چونکہ اس طرح ان کا ماضی ان کے حال سے متصل ہوجائے گا اور یہی چیز انہیں ان کی عزت و سربلندی کا راز یاد دلائے گی اور یہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالی نے ان کے لئے اور تمام انسانیت کے لئے اختیار فرمایا ہے_ علاوہ ازیں اگر فرض کریں کہ تاریخ کا مبداء بڑے اور عظیم واقعات ہونے چاہئیں تو پھر کونسا واقعہ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے ظہور سے عظیم تر ہے اور کونسا بڑا واقعہ اس عظیم واقعہ کی برابری کرسکتاہے_

علامہ مجلسی (رہ) کا کہنا ہے : (ہجری تاریخ کو اپنانے کی) اصلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ (ہجرت) اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کا ابتدائیہ، دینی احکام کے ظہور کا افتتاحیہ، مشرکوں کی قید سے مسلمانوں کی رہائی کی شروعات اور ہجرت کے بعد دین مبین کے قواعد کی تاسیس جیسے دوسرے اہم کاموں کا ابتدائیہ تھی''(۲) _

میں امت اسلامی خصوصاً عربوں سے گزارش کرتاہوں اگر ہم دینی لحاظ سے بھی اس سے صرف نظر کرلیں تب بھی عرب ہونے کے ناطے اس کو اہمیت دینی چاہئے اور اس مقام پر انہیں سید الشہداء امام حسینعليه‌السلام

____________________

۱)بحارالانوار ج۷۵ ص ۳۶ ، تحف العقول ، مختصر التاریخ ابن کازروفی ص ۶۷ اور مروج الذہب ج۲ ص۱۷۹ و ص ۱۸۰_

۲)بحارالانوار ج۸۵ ص ۳۵۱_

۷۰

کا بہترین قول یاد دلاتاہوں کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا:

(ان لم یکن لکم دین و کنتم لا تخافون المعاد فکونوا احراراً فی دنیاکم هذه و ارجعوا الی احسابکم ان کنتم عرباً کما تزعمون )(۱)

اگر تم کسی دین کے قائل نہیں اور قیامت کا خوف نہیں رکھتے تو کم از کم اپنی اس دنیا کے معاملے میں تو آزاد رہو اور اپنے آبا ء و اجداد کے محاسن ومفاخر کو مدّنظر رکھو اگر تم اپنے آپ کوعرب سمجھتے ہو_

بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ وہ انہیں ان کا بہترین منشور عطا فرمائے او ر اپنی عقول و ضمائرسے راہنمائی حاصل کرنے والوں میںقرار دے_

اگروہ ہر چیز میں دوسروں کی تقلید کرنا چاہتے ہیں تو اس معاملے میں بھی ان کی تقلید کریں یعنی دوسروں کی تقلید اس طرح کریں کہ ہم اپنے عظیم تمدن اور اعلی روایات سے دستبردار نہ ہونے پائیں تا کہ دوسروں کے دست نگر نہ ہوں اور ایسی چیزیں اخذ نہ کریں جن کا نقصان ان کے فائدے سے زیادہ ہو_

''قل هذا سبیلی ادعوا الی الله علی بصیرة اناومن اتبعنی''

۲_ مدینہ میں مسجد کی تعمیر :

مسجد والی جگہ یا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خریدی تھی یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہدیہ کی گئی تھی ، اس بارے میں کہا جاتاہے کہ اس جگہ قبیلہ خزرج کے دو یتیم بچوں کے اونٹوں کا باڑہ تھا اور وہ بچے اسعد بن زرارہ یا کسی اور شخص کے زیر کفالت تھے، ایک قول کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ جگہ دس دینار میں خریدی _

وہاں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کی بنیاد رکھی، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس اپنے اصحاب کے ساتھ مل کر(مدینہ کے

____________________

۱)اللہوف ص۵۰ نیز مقتل الحسین مقرم ص ۳۳۵ ازلہوف_

۷۱

مضافات میں) سیاہ پتھروں پر مشتمل ''حرّہ'' نامی زمین سے پتھر اٹھاکر لاتے تھے، اس کام میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت کی وجہ سے اصحاب اور زیادہ کوشش اورتگ و دو سے کام کرتے تھے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے یہ شعر پڑھا_

لئن قعدنا و النبی یعمل

لذاک منا العمل المضلل

(اگر ہم آرام سے بیٹھ جائیں اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کام میں مشغول رہیں ( تو یہ درست نہیں) لہذا ہم اسی وجہ سے سخت طاقت فرسا کام میں مصروف ہیں)_

مسجد کی تعمیر کے وقت مسلمین یہ رجز پڑھ رہے تھے_

لا عیش الا عیش الآخرة

اللّهم ارحم الانصار والمهاجرة

(زندگی تو صرف آخرت اور جنت کی ہی زندگی ہے، خدایا انصار و مہاجرین پر رحم فرما)

اور اسطرح کے دیگر اشعار(۱) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کا طول و عرض تقریباً سوسو ذراع (ہاتھ)قرار دیا(۲) ایک اور قول کے مطابق طول ستر ذراع (ہاتھ)(۳) اور عرض ساٹھ ذراع قرار دیا(۴) ، احتمال ہے کہ یہ دونوں قول صحیح ہوں اور وہ اس طرح کہ پہلی دفعہ تعمیر کرتے وقت آپ نے لمبائی میں ستر اور چوڑائی میں ساٹھ ذراع پر بنیادیں رکھی ہوں جبکہ تعمیر نو کے وقت اس میں توسیع کردی ہو(۵) _

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کے اطراف میں اپنے اور اپنے اصحاب کے گھر بنائے شروع میں ہر گھر کا دروازہ مسجد کے صحن کی طرف کھلتا تھا لیکن بعد میں امیر المؤمنین علیعليه‌السلام کے گھر کے علاوہ باقی تمام دروازے بند کردیئے گئے ، انشاء اللہ بعد میں ہم اس بات کی زیادہ وضاحت کریں گے _ آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم یہاں مؤرخین کے بعض اقوال کا جائزہ لیں_

____________________

۱) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ص ۶۴ و ۶۷ و ۷۱_ (۲)یعنی تقریباً ۹۱ میٹر سے کچھ زیادہ طول اور اتنا ہی عرض (مترجم)

۳)یعنی تقریباً ۶۷ میٹر کے لگ بھگ (مترجم) (۴)یعنی تقریباً ۴۹ میٹر سے کچھ کم (مترجم)

۵)وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۴۰ اور اس کے بعد _ نیز ملاحظہ ہو: تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۶۵ و ۳۶۶ اور التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۷۲

الف: حضرت ابوبکر اوردس دینار:

اہل سنت مؤرخین نے لکھا ہے کہ مسجد کی جگہ کو خریدنے کیلئے حضرت ابوبکر نے دس دینار ادا کئے(۱) _

لیکن ہماری نظر میں یہ بات مشکوک ہے اس لئے کہ :

اولاً: حضرت ابوبکر کی مالی حالت اس قدر مستحکم نہ تھی کہ وہ یہ رقم ادا کرسکتے، اگر فرض کریں کہ ان کی مالی حالت بہتر تھی تب بھی ہمیں شک ہے کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہو اور اس کی دلیل ہم واقعہ غار میں ذکر کرچکے ہیں_

ثانیاً:اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو بھی اس کے برعکس کچھ اور روایات بھی موجود ہیں _ جن میں سے ایک روایت کے مطابق اسعد بن زرارہ نے اس زمین کے بدلے میںبنی بیاضہ میں اپنا کھجور کا ایک درخت ان یتیموں کو دیا تھا، جبکہ دوسری روایت میں آیاہے کہ ابوایوب نے کسی طرح انہیں راضی کیا تھا اور تیسری روایت کے بقول معاذ بن عفراء نے یہ کام انجام دیا تھا(۲) _

بعض مؤرخین نے احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے حضرت ابوبکر نے زمین کی قیمت ادا کی ہو جبکہ بعض دیگر صحابہ نے محض اجر و ثواب اور نیکی کے طور پر زمین کی اصل قیمت کے علاوہ ان یتیموں کو یہ سب کچھ دیا ہو(۳) _

لیکن یہ احتمال بھی دیا جاسکتاہے کہ دیگر صحابہ نے زمین کی اصل قیمت ادا کی ہو اور حضرت ابوبکر نے صلہ و نیکی کے طور پر کچھ رقم ادا کی ہو، اس طرح پہلے احتمال کو اس دوسرے احتمال پر ترجیح نہیں دی جاسکتی ، علاوہ ازیں یہ احتمال روایت میں موجود کلمہ ''عوضھما'' کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا اس لئے کہ اس کلمے سے واضح ہوتاہے کہ ایک تو یہ چیز زمین کی قیمت تھی اور دوسرا وہ رقم اس زمین کے بدلے میں تھی نیکی اور صدقہ کے طور پر نہیں تھی_

ثالثاً : صحیح بخاری و غیرہ میں لکھا ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص کو بنی نجار کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۶۵_

۲) البدایة و النہایةج ۳ص۳۱۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص۳۲۳ و ص ۳۲۴، (روایت ابن حجر) ، السیرة الحلبیة ج ۲ص ۶۵_

۳) السیرة الحلبیة ج۲ص ۶۵ ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۳ ، ۳۲۴_

۷۳

کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس زمین کے محدودے کی قیمت طے کریں_ تو انہوں نے جواب دیا :'' قسم بخدا ہم خدا کے علاوہ کسی اور سے اس زمین کی قیمت وصول نہیں کریں گے''(۱) _

ب: پتھراور خلافت

حاکم نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ مسجد کیلئے سب سے پہلا پتھر خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٹھاکر لائے تھے پھر دوسرا پتھر حضرت ابوبکر (تیسرا حضرت عمر(۲) )اور چوتھا حضرت عثمان اٹھاکر لائے ، حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ دیکھ کر میں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کی : ''کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی طر ف نہیں دیکھتے کہ یہ کس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کررہے ہیں ''؟ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''اے عائشہ ، میرے بعد یہ میرے خلیفہ ہوں گے ''یہ حدیث شیخین کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن خود انہوں نے اسے ذکر نہیں کیا(۳) _

اس روایت کے الفاظ میں موجود تضاد و تناقض کے علاوہ درج ذیل امور کی بنا پر اس حدیث کا صحیح ہونا ہرگز ممکن نہیں_

اولاً : ذہبی اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو یہ تینوں خلفاء کی خلافت پر نصّ ہوتی جبکہ یہ کسی طرح بھی صحیح نہیں ، اس لئے کہ حضرت عائشہ اس وقت ایک کم سن پردہ نشین بچی تھیں اور ابھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہی نہیں ہوئی تھیں ، پس ان سے اس حدیث کو منسوب کرنا، اس حدیث کے جھوٹے ہونے پر دلالت کرتاہے(۴) _البتہ ہم ان کے کم سن ہونے والی بات پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں_

ابن کثیر کہتے ہیں : ''اس سیاق و سباق کے ساتھ یہ حدیث بالکل عجیب وغریب ہے''(۵) _

____________________

۱) صحیح البخاری ج۱ص ۵۷ ، تاریخ الطبری ج۲ص ۱۱۶ ، الکامل لابن اثیرج ۲ ص۱۱۰ وفاء الوفاء ج ۱ص ۳۲۳ _ نیز التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۷۷_

۲) حضرت عمر کا ذکر صرف تلخیص المستدرک کی روایت میں ہوا ہے_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ص۹۶ ، ۹۷ ، وفاء الوفاج ۱ص۳۳۲ ، ۳۳۳ ، ۳۵۱ ، البدایة والنہایة ج۳ ص ۲۱۸ ، اورج ۶ص ۲۰۴ ( انہوں نے وضاحت کی ہے کہ یہ واقعہ مسجدمدینہ کی تعمیر کے وقت پیش آیا) السیرة الحلبیةج ۲ص ۵۶ ، ۶۶ ، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۴ ، ۳۴۳ نیز دلائل النبوة بیہقی ج۲ ص ۲۷۲_

۴) تلخیص المستدرک ذہبی ج ۳ص ۹۷ ( مستدرک الحاکم ج۳ ص ۹۷کے حاشیے پرمطبوع )_ (۵) البدایة والنہایة ج۳ص ۲۱۸ _

۷۴

ثانیاً:حدیث سفینہ پر اشکال و اعتراض کرتے ہوئے بخاری نے '' خلافت اور پتھر'' کی حدیث(۱) کے بارے اپنی تاریخ میںلکھا ہے :_

ابن حبان نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا کیونکہ حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علیعليه‌السلام ( البتہ یہ انہی لوگوں کے الفاظ ہیں)کہا کرتے تھے : '' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر نہیں کیا ''(۲) _

یہاں بخاری یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس لحاظ سے یہ حدیث خود اہل سنت کے اس عقیدے سے بھی تضاد رکھتی ہے کہ جس کے مطابق رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہ تو کسی شخص کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا اور نہ ہی خلافت کے بارے میں کوئی وضاحت فرمائی تھی ، اور اسی بناپر اہل سنت حضرت ابوبکر کے ہاتھ آنے والی خلافت کو درست قرار دیتے ہیں_ بلکہ حضرت عائشہ سے یہ روایت بھی منقول ہے : '' اگر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی شخص کو اپنا خلیفہ مقرر فرماتے تو (میرے خیال میں) ضرورحضرت ابوبکر و حضرت عمرکوہی خلیفہ مقرر فرماتے'' اس حدیث کو ذہبی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے(۳) _

علامہ امینی علیہ الرحمہ نے اپنی گراں قدر تصنیف '' الغدیر'' (ج/۵ ص ۳۵۷ تا ۳۷۵) میں علمائے اہل سنت کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خلافت ایک انتخابی امر ہے (یعنی معاملہ لوگوں کے انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ہے) پس یہ حدیث ان کے مذہب کے مطابق بھی جھوٹی ہے اور حقیقت میں بھی جھوٹی ہے اس لئے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کا واضح اعلان فرمایا اور اس بارے میں بے شمار روایات منقول ہیں انہی روایات کے ذریعے امیرالمؤمنینعليه‌السلام ، آپعليه‌السلام کے اصحاب ، اہل بیت ، آپکی اولاد اور آپعليه‌السلام کے شیعہ ، اس وقت سے آج تک آپعليه‌السلام کی خلافت پر استدلال کرتے چلے آرہے ہیں، شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہوکہ جس میں ان بے شمار متواتر روایات یا خبر واحدمیں سے کوئی روایت نقل نہ کی گئی ہو(۴) _

____________________

۱) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۱۳_ (۲) السیرة الحلبیہ ج ۲ص۶۶_

۳) مستدرک الحاکم ج۳ ص ۷۸_

۴)بطور مثال ملاحظہ ہو: الغدیر ج۱ ص ۱۹۵ ا ص ۲۱۳_

۷۵

ثالثاً : اس روایت کے مطابق مسجد کی تعمیر میں سب سے پہلے پتھر رکھنے والوں میں حضرت عثمان بھی شامل تھے لیکن خود اہل سنت کے مؤرخین کے بقول حضرت عثمان اس وقت حبشہ میںتھے اور مدینہ میں موجود نہ تھے جیسا کہ سمہودی نے اس طرف اشارہ کیا ہے اسی وجہ سے سہیلی نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے حضرت عثمان کو حذف کرتے ہوئے اس کے نام کو ذکر نہیں کیا(۱) _

اور جب حاکم کی کتاب طبع ہوئی تو اس روایت میں سے حضرت عثمان کا نام حذف کردیا گیا اس کے پیچھے بھی شاید یہی راز پوشیدہ تھا ، حالانکہ ذہبی نے اپنی تلخیص میں اس روایت کو ذکر کیا ہے _اور اسے تحریف کہا جاتاہے جو دین، امت اور کسی فرقے کے حقائق کے ساتھ خیانت میں شمار ہوتی ہے_

کیونکہ بطور خلاصہ واقعہ یوں ہے کہ حضرت عثمان اگر چہ اہل مکہ کے اسلام لانے کی خبر سن کر مکہ پلٹ آئے تھے لیکن حقیقت حال کا پتہ چلنے پردوبارہ واپس حبشہ چلے گئے تھے ، جیسا کہ خود اہل سنت مؤرخین کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی(۲) عسقلانی کہتے ہیں :'' جب حبشہ میں موجود مسلمانوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کا علم ہوا تو ان میں سے تیس آدمی واپس مکہ لوٹ آئے ، ان میں ابن مسعود بھی تھے ، جو اس وقت مکہ پہنچے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے(۳) (تو پھر عثمان کہاں سے شریک ہوسکتے ہیں؟)_

ج: حضرت عثمان اور حضرت عمار:

مؤرخین لکھتے ہیں : حضرت عثمان بہت صفائی پسند اور صاف ستھرے رہنے والے آدمی تھے، جب مسجد کی تعمیر کیلئے اینٹیں اٹھاتے تو انہیں اپنے کپڑوں سے دور رکھتے تھے اور جب اینٹوں کو مسجد کے پاس رکھتے تو

____________________

۱) وفاء الوفاء ج۱ ص ۲۵۲ _

۲) طبقات ابن سعد ج ۱حصہ اول ص۱۳۸ ، الکامل لابن اثیرج۳ص۱۸۵،البدء والتاریخ ج۱ص۲۲،اس کتاب کی روایت کے مطابق حبشہ کی طرف پہلی ہجرت کے وقت کشتی میںحضرت عثمان کی زوجہ حضرت رقیہ کا حمل گر گیا تھا _

۳) فتح الباری ج۷ص۱۴۵_

۷۶

اپنی آستینوں کو جھاڑتے اور اپنے کپڑوں کو دیکھتے کہ کہیں ان پر مٹی تو نہیں لگی ، اگر مٹی لگی دیکھتے تو اسے جھاڑ دیتے تھے، حضرت علیعليه‌السلام ابن ابیطالب نے انہیں دیکھ کر یہ اشعار پڑھے_

لا یستوی من یعمر المساجدا

یدأب فیها قائما ً و قاعداً

و من یری عن التراب حائداً

( وہ شخص جو مساجد کی تعمیر میں کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر نہایت کوشش و مشقت سے کام کرتاہے اس شخص کے برابرنہیں ہوسکتا جو مٹی سے دور رہنے کی کوشش کرتاہے)_

جب حضرت عمار یاسر نے یہ اشعار سنے تو انہوں نے ان اشعار کو دہرانا شروع کردیا ، اگر چہ انہیں معلوم نہ تھا کہ ان اشعار سے مراد کون ہے؟ اسی اثناء میں جب وہ حضرت عثمان کے پاس سے گزرے تو حضرت عثمان( جن کے ہاتھ میں اس وقت ایک چھڑی تھی) نے ان سے کہا : ''اے سمیہ کے بیٹے یہ کس کی عیب جوئی کررہے ہو؟'' پھر کہا :'' چپ ہوجاؤ ورنہ (یہی چھڑی) تیرے چہرے پر ماروںگا''_ یہ بات نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سن لی ، اس وقت آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجرہ ام سلمہ کے سائے میں تشریف فرماتھے، یا ایک اور روایت کے مطابق اپنے حجرہ کے سائے میں آرام کررہے تھے، یہ سن کر آنحضرت سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا: ''بے شک عمار بن یاسر میری ناک اور آنکھوں کے درمیان موجود جلد (پیشانی) کی مانند ہیں''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی دو آنکھوں کے درمیان اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا: ''جب کوئی شخص اس مقام تک پہنچ جائے تو یہ قربت کی انتہا ہے''_

یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کو انہیں آزار و اذیت پہنچانے سے باز رکھا، پھر لوگوں نے حضرت عمار سے کہا : ''رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی وجہ سے ہمارے ساتھ ناراض اور غضبناک ہوئے ہیں، ہمیں ڈر ہے کہیں ہمارے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہ ہوجائے'' حضرت عمار نے کہا : ''جس طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناراض و غضبناک ہوئے ہیں میں ابھی اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راضی کرتاہوں''_

پھر حضرت عمار نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی : ''یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو مجھ سے کیا

۷۷

دشمنی ہے؟ ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :'' ان کی طرف سے تمہیں کیا تکلیف پہنچی ہے؟ ''عرض کی :'' وہ میرے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں ، خود تو ایک ایک اینٹ اٹھاتے ہیں جبکہ میرے اوپر دو دو تین تین اینٹیں لاد دیتے ہیں''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کا ہاتھ پکڑا اور مسجد کے اندر چکر لگایا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بالوں سے خاک جھاڑتے ہوئے فرمایا : ''اے ابن سمیہ تمہیں میرے اصحاب قتل نہیں کریں گے بلکہ تم ایک باغی گروہ کے ہاتھوں قتل ہوگے(۱) ...''_

کیا حضرت عثمان حبشہ میں نہ تھے؟

ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ حضرت عثمان مسجد کی تعمیر کے وقت وہاں موجود نہ تھے اور اس وقت وہ حبشہ میں تھے_

شاید یہی وجہ ہے کہ عسقلانی اور حلبی نے حضرت عثمان بن عفان کی جگہ اس روایت میں عثمان بن مظعون کا نام ذکر کیا ہے(۲) _

ہم اس سوال اور اعتراض کا جواب دینے سے پہلے گذشتہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیں کہ اس کی یہ توجیہ کرنا بھی نامناسب ہے کہ '' رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک سال یا سات ماہ تک ابوایوب کے ہاں قیام پذیر رہے اور اسی دوران آپ اپنے گھر اور مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے، ممکن ہے کہ اس وقت یہ خبر حبشہ میں مہاجرین تک پہنچی ہو اور اس دوران وہ مدینہ آتے رہے ہوں اور شاید حضرت عثمان بھی ان میں سے ایک ہوں وہاں انہوں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا اور مذکورہ واقعہ پیش آیا ہو، اگر چہ مسجد کی بنیاد رکھتے وقت اور خلافت کے پتھر رکھنے میں وہ شریک نہ ہوسکے ہوں''_

بہر حال ہمارے نزدیک یہ بعید ہے کہ مسلمان اتنے طویل عرصہ تک مسجد کی تعمیر میں مصروف رہے ہوں

____________________

۱) سیرة ابن ھشام ج۲ص۱۴۲، تاریخ الخمیس ج۱ص ۳۴۵ ، اعلاق النفیسة ، وفاء الوفاء ج۱ص ۳۲۹ ، السیرة الحلبیة ج۲ص۷۲ ، علامہ امینی نے '' الغدیر'' کی نویں جلد میں (ص ۲۱ سے ۲۷ تک) اس واقعہ کے بہت زیادہ مصادر و منابع ذکر کئے ہیں، ہم نے صرف چند ایک ذکر کئے ہیں ، مزید تحقیق کیلئے '' الغدیر'' ج۹ کی طرف رجوع فرمائیں_

۲) السیرة الحلبیة ج ۲ص۷۱ ، حاشیہ سیرت النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابن ھشام ج ۲ص۱۴۲_ از مواہب اللدنیہ_

۷۸

اس لئے کہ وہ دسیوں کی تعداد میں تھے اور اہل مدینہ میں سے اسی(۸۰) سے زیادہ افرادتو مقام عقبہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بیعت کرچکے تھے_

صحیح بات یہ ہے کہ ظاہراً حضرت عمار اور حضرت عثمان کا مذکورہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے وقت پیش آیا اور یہ جنگ خیبر کے بعد کی بات ہے یعنی ہجرت کے ساتویں سال(۱) اور درج ذیل امور اسی بات کے صحیح ہونے پر دلالت کرتے ہیں:

اولاً: بیہقی نے اپنی کتاب'' الدلائل'' میں روایت کی ہے کہ جب حضرت عمار قتل کردیئے گئے تو عبداللہ بن عمرو بن العاص نے اپنے والد(عمرو بن العاص) سے کہا: ''اس شخص (حضرت عمار) کو ہم نے قتل کیا ہے جبکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا وہ بھی پتاہے''_ اس کے والد نے پوچھا:'' تم کس شخص کی بات کررہے ہو؟ ''تو اس نے جواب دیا : ''عمار یاسر کی'' پھر کہا : ''کیا تمہیں یاد نہیں جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد تعمیر کررہے تھے تو اس وقت ہم ایک ایک اینٹ اٹھاکر لارہے تھے جبکہ عمار یاسر دو دو ا ینٹیں اٹھالاتا تھا چنانچہ اسی دوران جب وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے گزرا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تم دو دو اینٹیں اٹھاکر لارہے ہو حالانکہ تمہارے لئے یہ ضروری نہیں ہے جان لو کہ تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور تم اہل جنت میں سے ہو''_ پھر عمرو معاویہ کے پاس گیا الخ_(۲)

سمہودی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:'' اس بات سے پتہ چلتاہے کہ دوسری بار مسجد کی تعمیرکے وقت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمار کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا تھا، اس لئے کہ عمرو نے ہجرت کے پانچویں برس اسلام قبول کیا تھا ''(۳) _

عبدالرزاق و غیرہ سے مروی ہے کہ عمرو بن عاص معاویہ کے پاس گیا اور اس نے معاویہ سے کہا کہ ہم

____________________

۱) وفاء الوفاء ج ۱ص۳۳۸_

۲)تذکرة الخواص ص ۹۳ از طبقات ابن سعد، الفتوح ابن اعثم ج۳ ص ۱۱۹ و ۱۳۰ ، الثقات ابن حبان ج۲ ص ۲۹۱ ، انساب الاشراف ; با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۳۱۳و ص ۳۱۷ ، طبقات ابن سعد ج۳ حصہ اول ص ۱۸۰ و ۱۸۱ المصنف ابن ابی شیبہ ، مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۱۶۴ ، حاشیہ انساب الاشراف ج ۲ ص ۳۱۳ ; تحقیق محمودی،المناقب خوارزمی ص ۱۶۰ ، وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱و ۳۳۲_

۳) وفاء الوفاء ج۱ ص ۳۳۱ و ۳۳۲_

۷۹

نے سنا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عمار کے بارے ہیں فرمارہے تھے: ''اسے (عمار کو) ایک باغی گروہ قتل کرےگا''(۱) _

اور معاویہ کے پاس دو آدمی آئے جو حضرت عمار کے سرکے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے ، عبداللہ بن عمرو بن العاص نے انہیں دیکھ کر کہا :'' عمار کے سر کی بابت تمہیں اپنے ساتھی کے لئے راضی ہو جانا چاہئے ، کیونکہ میں نے عمار کے بارے میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : '' عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا _'' اس پر معاویہ نے عمرو سے کہا: ''تو اپنے اس پاگل کو ہم سے دور کیوں نہیں کرلیتا ''(۲) _

اور یہ واضح ہے کہ حضرت عمار کا واقعہ ایک ہی دفعہ اور ایک ہی مناسبت سے پیش آیاہے_

ثانیاً: خود روایت میں قرینہ موجود ہے جس سے واضح ہوتاہے کہ یہ واقعہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کے دوران پیش آیا تھا، کیونکہ روایت میں ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وقت حضرت ام سلمہ کے حجرے کے سائے میں تشریف فرماتھے اور یہ بات واضح ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے مسجد تعمیر فرمائی تھی اور اس کے بعد اپنے حجرے تعمیر کئے تھے(۳) نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ گھر اکٹھے تعمیر نہیں کئے تھے بلکہ ضرورت کے ساتھ ساتھ انہیں تدریجی طور پر تعمیر کیا تھا، چنانچہ سب سے پہلے حضرت سودہ اور حضرت عائشہ کا حجرہ تعمیر کیا گیا(۴) اور اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائشے نہیں کہ مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہونے کے کافی دیر بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ام سلمہ کیلئے حجرہ تعمیر کیا تھا_

____________________

۱) المصنف ج۱۱ص۲۴۰ ، مجمع الزوائدج ۹ص ۲۹۷ ،ج ۷ص۲۴۲ ، ( امام احمد کی مسند اور طبرانی سے روایت نقل ہوئی ہے)_

۲) انساب الاشراف ج۲ص۳۱۳، مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمرو، مصنف ابن ابی شیبہ اور فتح الباری کے علاوہ دیگر بہت سے مصادر و منابع میں یہ روایت نقل ہوئی ہے_

۳) زاد المعاد ج۱ص۲۵ ، السیرة الحلبیة ج۲ ص۸۷ _

۴) تاریخ الخمیس ج۱ص۳۴۶ ، وفاء الوفا ج ۲ص ۴۵۸ وفاء الوفاء کے صفحہ ۴۶۲ پر ذھبی سے نقل ہواہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے حضرت سودہ کا گھرتعمیر کیا ، پھر جب حضرت عائشہ کیلئے گھر کی ضرورت پڑی تو ان کے لئے گھر تعمیر کردایا، اسی طرح مختلف مواقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باقی گھر تعمیر کروائے_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

دینا چاہتا۔

در خانہ اگر کس است یک حرف بس است

میرے خیال میں نمونے کے طور پر اور دماغوں کو روشن کرنے کے لئے ذیل کا ایک ہی واقعہ کافی ہوگا۔ جس سے آپ حضرات سمجھ لیں گے کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں دلیل و برہان کے ساتھ کہتے ہیں۔

جن مواقع پر حضرت کے علم سے پردہ اٹھا ہے اور امت کو معلوم ہوا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام غیب کے عالم ہیں ان میں سے ایک آئیندہ کل کی تاریخ بھی ہے جس میں بعض صحیح اور مشہور روایات کی بنا پر ریحانہ رسول الثقلین حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی ہے۔

ولادت امام حسین(ع) اور تہنیت ملائکہ کی خبر

" إِنَّ النَّاسَ دَخَلُوا عَلَى النَّبِيِّ وَ هَنَّوْهُ‏ بِمَوْلُودِهِ‏ الحُسَيْنِ"

لوگ حضرات رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور آں حضرت کو ولادت حسین علیہ السلام کی تہنیت دی۔

مجمع میں سے ایک شخص نے عرض کیا "بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ " (میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں یا رسول اللہ(ص) ، ہم لوگوں نے آج علی(ع) سے ایک عجیب امر مشاہدہ کیا۔ فرمایا تم نے کیا دیکھا؟ جب ہم تہنیت کے لئے آۓ تو ہم کو یہ عذر بیان کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے سے روک دیا کہ ایک لاکھ بیس ہزار فرشتے تہنیت و مبارکباد کے لئے آسمان سے نازل ہوۓ ہیں اور رسول اللہ(ص) کی خدمت میں موجود ہیں۔ ہم نے تعجب کیا کہعلی کیونکر آگاہ ہوۓ اور کہان سے شمار کر لیا آیا آپ نے ان کو اطلاع دی ہے؟ آں حضرت(ص) نے تبسم فرمایا اور علی سے دریافت کیا کہ تم نے کہاں سے جانا کہ اتنے فرشتے میرے پاس آۓ ہیں؟ آپ نے عرض کیا:بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي" جوفرشتہ آپ کے اوپر نازل ہوتا تھا اور سلام عرض کرتا تھا وہ ایک نئی زبان میں آپ سے گفتگو کرتا تھا۔ جب میں نے شمار کیا تو معلوم ہوا کہ انہوں نے ایک لاکھ بیس ہزار زبانوں میں گفتگو کی ہے۔ لہذا میں نے سمجھ لیا کہ ایک لاکھ بیس ہزار ملائکہ حاضر خدمت ہوۓہیں۔

آں حضرت(ص) نے فرمایا" زَادَكَ اللَّهُ عِلْماً وَ حِلْماً يَا أَبَا الْحَسَنِ. " خدا تمہارے علم و حلم کو اور زیادہ کرے ابوالحسن(علی(ع)) پھر امت کی طرف رخ کر کے فرمایا:

"انا مدینة العلم و علی بابهاوماالله نباءاعظم منه ومالله آیةاکبرمنه هوامام البریةوخیرالخلیفةامین الله وخازن علم الله وهوالراسخ فی العلم وهواهل الذکرالذی

۳۴۱

قال الله تعالی فاسئلوااهل الذکران کنتم لاتعلمون اناخزانةالعلم وعلی مفتاحهافمن ارادالخزانةفلیات المفتاح"

یعنی میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، خدا کے لئے ان سے بڑی کوئی خبر اور ان سے بڑی کوئی آیت نہیں۔ یہ امام ناس، بہترین خلق، خدا کے امین اور اس کے علم کے خزینہ دار ہیں۔ یہ علم میں راسخ اور وہ اہل ذکر ہیں جس کے لئے خدا نے فرمایا کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔ میں علم کا خزانہ ہوں اور علی(ع) اس کی کنجی ہیں۔ پس جو شخص خزانہ چاہتا ہے اس کو کنجی کے پاس آنا چاہیئے۔

منصفانہ فیصلہ

حضرات محترم! اگر آپ اںصاف سے کام لیں، تھوڑی دیر کے لئے اپنی عادت کو چھوڑ دیں اور عادلانہ فیصلہ کریں تو بلا ارادہ فطری طور پر آپ کا دل تصدیقکرے گا کہ ایسی بزرگ شخصیت جو تمام علوم انبیاء اور اسرارغیب کی جامع صفات مرسلین کا مکمل آئینہ، جملہ صفات حمیدہاور اخلاق پسندیدہ کی حامل اور عدالت وتقوی اور عصمت کے مرتبے پر فائز تھی جس کے لئے خود رسول اللہ(ص) نے بھی حکم دیا ہے کہ اس کے دروازے پر جاؤ، نیز اس کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور اس کی مخالفت کو اپنی مخالفت قرار دیا ہے اور جو زہد ورع، پرہیزگاری اور نسل کے لحاظ سے ساری خلقت اور کل کائنات سے اسطرح فائق و برتر تھی کہ رسول اللہ(ص) نے اس کو امام المتقین اور سیدالمرسلین کہہ کے خطاب فرمایا چنانچہ اس سلسلے میں بعض احادیث کی طرف میں گزشتہ شبوں میں اشارہ بھی کرچکا ہوں۔ وہ یقینا منصب خلافت و امامت کے لئے دیگر صحابہ سے اولی و احق تھی۔ اگرچہ یہ بھی اپنی جگہ پر کچھ خصوصیات رکھتے تھے لیکن ہماری بحث تو افضل و اکمل کے بارے میں ہے جو دوسروں پر فوقیت اور حق تقدم رکھتا ہو۔

اگر آپ رسول خدا صلعم کے اصحاب و اقارب میں سے ایسے کسی ایک فرد کا بھی پتہ دے دیجئے۔ جو فضائل و کمالات اور ظاہری وباطنی صفات میں حضرت علی علیہ السلام کیبرابری کرسکتا ہو تو میں سر تسلیم خم کردوں گا اور اگر ایسا کوئی فرد آپ پیش نہ کرسکیں( کیونکہ ایسی ممتاز ہستیصحابہ میں سوا آپ کے اور کوئی تھی ہی نہیں، تو آپ کا ایمانی فریضہ ہوگا کہ حقیقت کو تسلیم کیجئے اور ساری دنیا سے چشم پوشی کر کے حق سےرشتہ قائم کیجئے،( پھر میں نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے عرض کیا) خداوندا! میں تجھ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے حق کا راستہ دکھادیا ہے، بغیر کسی جذبہ محبت کے و عداوت کے اپنا دینی فرض انجام دے دیا ہے۔ حریم تشیع کی طرف سے دفاع کردیا ہے اور دشمنوں کی تہمتوں کے مقابلے میں حقیقت کو ظاہر کردیا ہے) اب تجھ ہی سے اس کا

۳۴۲

اجر اور توفیق چاہتا ہوں اور بس۔

قبول تشیع میں نواب کے بیانات

نواب: قبلہ صاحب! دس راتیں ہو رہی ہیں کہ ہم اس مجلس مذاکرہ کے حاشیہ نشین ہیں ہم نے مقدس انوار ایمانی سے روشنی حاصل کی، بلند علمی اصول و قواعد سے استفادہ کیا اور طرفین کے دلائل کو غور سے سنا۔ ہم چند افراد ایسے ہیں جو تمام راتوں میں انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ جلسے میں حاضر رہے اور ہر روز آپس میں شب کی گفتگوؤں پر بحث و تبصرہ کر کے پوری چھان بین کرتے رہے ہیں خداۓ وحدہ لاشریک کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ کے ذریعہہماری ہدایت کے اسباب مہیا فرمادیئے جس سے ہم لوگوں نے حق کو پہچان لیا اور وہ دلائل سنے جو اب تک کبھی نہیں سنے تھے۔ مخالفین کے غلط اور گندے پروپیگنڈے کے خلاف جیسا کہ انہوں نے ہم کو بتا رکھا تھا کہ شیعہ مشرک غالی، رافضی اور حق سے منحرف ہیں ہمارے اوپر صد فی صد اور باکل یقینی طور سے ثابت ہوگیا ہے کہ فرقہ شیعہ امامیہ اثناء عشریہ کا مذہب حق اور ان کا طریقہ سچا ہے اور ہم نے اچھی طرح سے جان لیا ہے کہ حقیقی اسلام کے حامل یہی لوگہیں۔ صرف ہم چند حاضرین جلسہ ہی نہیں بلکہ اس شہر کے بہت سے بے لوث اور بے غرض اشخاص جو حق اور حقیقت کے طلب گارہیں روزنامہ اخبارات اور رسائل کو پڑھنے اور طرفین کےدلائل کو جانچنے کے بعد حق سے روشناس ہوچکے ہیں۔ البتہ عام مجمعوں میں آمد و رفت اور اپنے خاص مشاغل نیز مخالفین کے ساتھ ربط و ضبطکی وجہ سے اپنے عقائد کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے لہذا انہوں نے خفیہ طور سے ہمارے سامنے شیعیت کا اظہار کیا ہے، اس لئے کہ آپ نے کوئی بات مشکوک نہیں چھوڑی ہے، اور اپنی سادہ اور عام فہم تقریر سےہم سب کے دماغوں میں حقائق کو واضح کر دیا ہے۔

لیکن ہم چند اشخاص جو اس وقت حاضر ہیں چونکہ کسی کا خوفنہیں رکھتے لہذا پوری جرائت کے ساتھ اعلان کرنے کے لئے تیار ہیں، ہم کئی راتوں سے چاہتے تھے کہ درمیان سے پردہ ہٹادیں اور اپنے کو ظاہر کردیں لیکن موقع نہیں ملا اور حسن اتفاق سے ہر شب ہماری بصیرت میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ہم نے مضبوط سے مضبوط تر دلائل سنے اور اپنے عقیدے میں اور زیادہ راسخ و ثابت قدم ہوگئے۔ وقت گذر رہا ہے لہذا اجازت دیجئے کہ یہ پردہ بر طرف کیا جاۓ ہمارے اقرار و اعتراف کو سن کر ہم کو سر فراز فرمائیے، ہمارے نام مولاۓ کائنات امیرالمومنین علی(ع) اور ائمہ اثناعشریہ علیہم السلام کے شیعوں کی فہرست میں درج فرمائیے اور شیعوں کی جماعت میں اعلان فرما دیجئے کہ وہ ہم کو اپنی برادری میں قبول کریں۔ نیز قیامت کے روز عدل الہی کے دربار میں اور اپ نے جد بزرگوار کے سامنے شہادت

۳۴۳

دیجئے کہ ہم لوگ علم ویقین کے ساتھ آئمہ اثنا عشر اور رسول خدا(ص) کے اوصیائ وخلفاء کی ولایت پر ایمان لاۓ ہیں۔

خیر طلب: مجھ کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہے کہ چند نمایاں اور ممتاز ہستیوں نے چشم بصیرت اور گوش حقیقت کے ساتھ حقائق پر توجہ کی اور نور عقل کی روشنی میں منزول حق کو پہچان کر راہ راست اور صراط مستقیم پر گامزن ہوگئے۔

وہی راستہ جس کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے، چنانچہ اکابر علماۓ اہلِ سنت والجماعت جیسے امام احمد بن حنبل نے مسند میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول میں، ابن مغازلی نے فضائل میں، خوارزمی نے مناقب میں، سلیمان حنفی نے ینابیع المودت میں اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایاصراط علی حق نمسک ه یعنی علی(ع) کا راستہ حق ہے جس سے ہمتمسک کرتے ہیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوسرے اسلامی بھائی بھی عادت اور تعصب سے ہٹ کے غور کریں گے تاکہ ان کی نگاہوں سے پردے ہٹ جائیں اور حق و حقیقت ان پر ظاہر ہوجاۓ۔

نواب: قبلہ صاحب ہم آپ کے الطاف و عنایات کے ممنون ہیں کہ آپ نے خندہ پیشانی اور حسن اخلاق کے ساتھ ہمارے سوالات کے جوابات دے، البتہ ہمارے گوشہ دل میں ابھی ایک مختصر سا اشکال موجود ہے، گذارش ہے کہ اس کو ابھی حل فرمادیجئے تاکہ ہمارے بھائیوں کے لئے مسرت و امتنان اور بصیرت کا باعث ہو نیز ہمارے عقیدے اور ایمان میں مزید استحکام پیدا ہو۔

خیر طلب: میں حاضر ہوں۔ فرمائیے کس چیز میں اشکال ہے تاکہ اس کا جواب عرض کروں۔

نواب: ہمارا اشکال آئمہ اثنا عشر کی امامت اور ان کے ناموں کے بارے میں ہے چونکہ ان راتوں میں صرف امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شخصیت زیربحث رہی، لہذا متمنی ہوں کہ ہم کو بتائیے کہ اولا قرآن مجید میں کوئیایسی آیت ہے جو ہم کو آئمہ اثنا عشر کی امامت کا ثبوت دے یا نہیں؟ دوسرے ہماری کتابوں میں شیعوں کے بارہ اماموں کے نام درج ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو ہمارے اطمینان قلب کے لئےبیان فرمائیے۔

خیرطلب: آپ کا سوال بہت مناسب اور با محل ہے اور اس کا جواب بھی موجود ہے۔ لیکن چونکہ وقت تنگ ہےاور صبح ہونے والی ہے اور اس سوال کا جواب بھی ممکن ہے کچھ طول کھینچے لہذا اگر آپ بھی متفق ہوں تو یا کل شب میںتشریف لے آئیے تاکہ جواب عرض کردوں یا کل صبح بھی ممکن ہے۔

چونکہ کل ریحانہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عید ولادت با سعادت ہے اور اس سلسلے میں ہمارے قزلباش بھائیوں کی طرف سے رسالدارکے امام باڑے میں صبح سے ظہر تک ایک شاندار جشن کا انتظام ہے لہذا یہ بھی ممکن ہے کہ اس موقع پر عیدی کے عنوان سے اس کا جواب پیش کر کے آپ کا

۳۴۴

اشکال حل کردوں۔ انشائ اللہ تعالی۔

نواب: میں انتہا فخر کے ساتھ آپ کی راۓ سے موافقت کرتا ہوں اور اس سے زیادہ آپ کا وقت نہیں لینا چاہتا۔ پس اب اجازت دیجئے کہ جن محترم حضرات نے اس نورانی جلسے کی ضیا پاشیوں سے روشنی حاصل کی ہے ان کا تعارف کرادوں۔

خیر طلب: میں پورے شوق اور مسرتکے ساتھ تیار ہوں کہ ان عزیزان گرامی کو اپنے آغوش محبت میں قبول کروں۔

چھ افراد اہلِ تسنن کا قبول ت تشیع

نواب: اتنےحضرات آج کی شب لواۓ"لا إله‏ إلّا اللّه‏، محمّد رسول اللّه" کے نیچے حضرت علی(ع) اور آپ کی اولاد میں سےگیارہ اماموں کی خلافت وامامت کے اقرار کا شرف حاصل کررہے ہیں۔

۱۔ حقیر آپ کا مخلص عبدالقیوم۔ ۲۔ سید احمد علی شاہ صاحب۔ ۳۔ سیٹھ غلام امامین صاحب۔۴۔ سرحد کے سردار غلام حیدر خان صاحب۔۵۔ پنجاپ کےبڑے تاجر عبدالاحد خان صاحب۔۶۔مشہور رئیس عبدالصمد خان صاحب ( اصل کتاب میں کافی مجمع کے ساتھ ان حضرات کے فوٹوبھی موجود ہیں۔ ۱۲ مترجم)

( یہ حضرات میرے پاس تشریف لاۓ میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور تمام حاضرین جلسہ بھی کھڑے ہوگئے، میں نے ہر ایک سے محبت کے ساتھ بغل گیر ہوکر پیشانی پر بوسہ دیا اس کے بعد سارےاہل مجلس نے ان سے معانقہ کیا۔

میں نے دیکھا کہ برادران اہل سنت بہت اداس ہوگئے چنانچہ ان کی دلجوئی کے لئے کہا کہ آج عید کی شب ہے جس میں اسلامی ہدایات کے مطابق مسلمانوں کے ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کرنے میں بہت بڑا ثواب ہے لہذا بہتر ہوگا کہ ہم سب آپس میں مصافحہ و معانقہ کریں، اس کےبعد میں نے پہلے جناب حافظ صاحب اور شیخ عبدالسلام صاحب سے پھر دوسرے حضرات سےبغل گیر ہوکر سب کی پیشانیوں پربوسہ دیا۔ بعد اس کے جلسے میں شربت اور مختلف قسم کی شیرینی لائی گئی اور ہم نے پرلطف و شیرین باتوں سے مجمع میں ایک تازہ مسرت کی لہر دوڑاکر ان کے چہروں سے افسردگی دور کی۔)

حافظ: صاحب ہم نے ان راتوں میں آپ کی ملاقات سے کافی فیض حاصل کیا جس کی لذتیں آخر عمر تک بھلائی نہیں جاسکتیں بالخصوص میری ذات پر تو بڑا احسان ہے جس کا عوض آپ کو آپ کے جد بزرگوار سے

۳۴۵

ملے گا۔ کیونکہ آپ نے بہت حقیقتوں کا انکشاف فرما دیا جیسا کہ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں۔ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں میں قطعا وہ پہلی رات والا آدمی نہیں ہوں اور جو بھی عقلمند اور انصاف پسند انسان آپ کے شک و شبہ سے بالاتر دلائل کو سنے گا وہ یقینا خوابِ غفلت سے بیدار ہوجاۓ گا۔ چنانچہ یہ حقیر امیدوار ہے کہ عترت و اہل بیت رسالت کے طریقہ ولایت پر دینا سے اٹھے اور ر سول اللہ(ص)کے سامنے سرخرو حاضر ہو۔

میری بڑی خواہش تھی کہ اس سے زیادہ مدت تک آپ کے ساتھ رہتا لیکن ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور بہت ذاتی کام در پیش ہیں کیونکہ ہم صرف دو روز کے خیال سے آۓ تھے، یہاں اتفاق سے کافی وقت صرف ہوگیا لہذا اس رات کو ہم آپ حضرات کی اجازت سے شب وداع قرار دیتے ہیں، کل شب کو ہم ریل گاڑی کی ذریعے روانہ ہوجائیں گے۔ اور آپ کو دعوت دۓ جاتے ہیں کہ ہمارے وطن تشریف لائیے۔ تاکہ ہم آپ کی صحبت سے خصوصی فوائد حاصل کرسکیں۔

خیر طلب: آپ حضرات یقین فرمائیے کہ پہلی شب سے جب کہ آپ کی زیارت ہوئی ہے اس وقت تک میں بغیر تعصب و عناد کے پورے خلوص کے ساتھ سرگرم محبت رہا اور آپ حضرات سے ایک خصوصی ربط و انس قائم ہوگیا ہے۔ باوجودیکہ میری جانب سے آپ حضرات کی روانگی میں کوئی مانع نہیں تھا لیکن اب یہ سن کے آپ حضرات واپسی کا قصد رکھتے ہیں اپنے اندر ایک عجیب سا تاثر محسوس کررہا ہوں۔

ایک بزرگ عارف کا قول ہے کہ میں زعام جذبات کے برعکس، انس و ملاقات کا مخالف ہوں۔ کیونکہ وصال کےبعد فراق آتا ہے اور دیوان امیرالمومنین علیہ السلام میں آپ کا ارشاد ہے۔

یقولون ان الموت علی الفتیمفارقه الاحباب والله اصعب

یعنی لوگ کہتے ہیں کہ جوان کے اوپر موت سخت ہوتی ہے، حالانکہ خدا کی قسم دوستوں کی جدائی اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔

حق یہ ہے کہ میں نے ان دس راتوں میں بالعموم آپ حضرات کے اور بالخصوص جناب عالی کے دیدار سے بہت فائدہ اٹھایا ہے جس کو کبھی نہ بھولوں گااگرچہ ان دس راتوں میں بمصداق الکلام یجر الکلام( یعنیبات میں بات نکلتی ہے سلسلہ گفتگو بہت طولانی رہا اور ہر شب میں نے بلا ارادہ چھ سات گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ محترم حاضرین جلسہ کا وقت لیا لیکن چونکہ ہماری نشستوں میں اول سے آخر تک آیات شریفہ قرآنی اور احادیث حضرت رسول خدا صلعم کاتذکرہ رہا اور ہم جاہلانہ تعصب وعناد اور لہو و لعب سے الگ رہے۔ لہذا ہم نے اپنی جگہ خدا کی ایک عبادت انجام دی۔ البتہ اس لحاظ سے کہ انسان سہو دلسان اور غلطی کا مرکز ہے اگر دورانِ گفتگو میں میری طرف سے عمدا نہیں بلکہ سہوا کوئی بے ادبی یا طول کلام کی غلطی سرزد ہوگئی ہو یا آپ حضرات کی نظر میں کوئی بری بات معلوم ہوئی ہو تو عفو و چشم پوشی فرمائیں اور استجابت دعا کر مواقع

۳۴۶

پر اس حقیر و فقیر خیر طلب کو دعا خیر سے فراموش نہ فرمائیں۔

حافظ: آپ کے حسن بیان اور لطف و عنایت کے برتاؤ سے ہم بہت ممنون ہیں اور ہم میں سے کسی کو آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے جس کے لئے آپ معذرت کررہےہیں، کیونکہ جناب عالی کا حسنِ اخلاق اور ادب و لحاظ اس منزل پر ہے کہ اس نے ہمکو مفتون( گرویدہ بنالیا ہے اور طول بیان سے بھی ہرگز ہم کو کوئی افسردگی نہیں ہے بلکہ آپ کی شیرین کلامی اور فصاحت و بلاغت اتنی زبردست ہے کہ میرا خیال ہے چاہے جتنی طولانی تقریر ہو بار خاطر نہ ہوگی۔

خیر طلب: میں آپ حضرات کے مراحم و الطاف کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ اپنے معروضات کے خاتمے پر ایک مطلب عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کل چونکہ حامی امت فرزند رسول الثقلین حضرت امام حسین علیہ السلام کی عید ولادت با سعادت ہے اور محترم حضرات قزلباش نیز آپ کے دیگر شیعہ بھائیوں کی طرف سے رسالدار کے امام باڑے میں ایک شان دار محفل مسرت کی تشکیل کی گئی ہے، لہذا میں جناب عالی اور دیگر حضرات حاضرین جلسہ کو اور آپ کے توسط سے جملہ برادران اہل سنت کو پرخلوص دعودت دیتا ہوں کہ پیغمبر(ص) کی ذات مبارک سے اپنے مخصوص تعلق کے پیش نظر آں حضرت کی روح پرفتوح کی خوشنودی کے لئے ایک بڑے مجمع کے ساتھ کل صبح اس جشن ولادت میں تشریف لائیں، کیونکہ شیعوں کی اس محفل میں اپنی شرکت سے علاوہ اس کے کہ آپ ہم سب کو ممنون و متشکر کریں گے۔ مجھ کو امید ہے کہآپ میرے اس مقصد سے بھی اتفاق کریں گے۔ اس جشن عام میں برادرانِ ایمانی و اسلامی کے دونوں فرقوں کی شرکت سے ہم ایک ایسا متحدہ اسلامی محاذ قائم کریں کہ دشمنان اسلام کو ( جو مسلمانوں میں تفرقہ اور جدائی چاہتے ہیں) حیرت وعبرت میں ڈال دیں۔

( جمادی الثانیہ سنہ۱۳۷۴ہجری میں ترتیب و کتابت سے فراغت ہوئی)

( العبد الفانی محمد الموسوی( سلطان الواعظین شیرازی)

عید میلاد حسینی(ع)

فدت شهر شعبانهاالافهمفمن بنیهایمنه الاشهر

طوی الهمعناوزوالالعناوبشرائهنابیتناینشر

لثالثه فیرقابالانامایادلعمرکلاتنکر

۳۴۷

فصبح الولاء بمیلاد سبطهادیالانام بهم سفر

و باب النجاةالامام الذیذنوب العبادبه تغفر

و غصن الامامةفیه سماجنی هدایته اثمم

و روض النبوةمننورهسن یومن نوره مزهم

لتهنب میلاده شیعهلهم طاب فی حبه عنصر

(یعنی شعبان پر دوسرے مہینے قربان ہیں کیونکہ اس کے اندر سے نمایاں خیر وبرکت حاصل ہوئی ہے ہمارے سارے رنج و غم دور ہوگئے اور ہمارے درمیان خوش خبری پھیل گئی۔ اس کی تیسری تاریخ لوگوں پر پسندیدہ انعام و احسانات کا نزول ہوا، پس صبح دلایت نواسہ رسول(ص) کی ولادت سے روشن ہوئی یہ وہ امام ہے جو نجات کا دروازہ ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ سے بندوں کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ اس سے امامت کی وہ شاخ بلند ہوئی ہے جو ہدایت کے ترو تازہ پھل دیتی ہے۔ نبوت کا باغ اس کے نور سے روشن اور پھلا پھولا ہوا ہے۔ شیعوں کو اس کی پیدائش کی تہنیت دو جو اس کی محبت میں ہر عیب و ریب سے پاک ہیں۔)

جب تیسری شعبان المعظم سنہ۱۳۴۵ہجری یعنی عید سعید ولادت با سعادت امام سیم حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ الصلوۃ والسلام کی صبح ہوئی تو محترم حضرات قزلباش کی جانب سے رسالدار کے امام باڑے میں ایک محفل مسرت بہت شان و شکوہ کے ساتھ منعقد ہوئی جس میں مختلف طبقوں کے لوگ سویرے ہی سے کثرت کے ساتھ جمع ہوگئے میںبھی ظہر سے چار گھنٹے قبل ان شیعہ علماء اور رؤسا کے ایک بڑے مجمع کے ہمراہ جو میری قیام گاہ پر آگئے تھے جشن میں شرکت کے لئے امام باڑے گیا۔ حق یہ ہے کہ جلسہ کافی شاندار تھا۔

ہر طبقے کے شیعہ اور سنی افراد کااتنا کثیر مجمع تھا کہ اس قدر طویل و عریض امام باڑے کی کافی وسیع فضا اور دونوں طرف کے تمام بڑے بڑے ووہرے کمرے، یہاں تک کہ شاہراہ عاماور مکانوں کے کوٹھے بھی بھر گئے تھے۔ حضرات علماۓاہل سنت مع جناب حافظ رشید و شیخ عبدالسلام صاحبان بھی تشریف فرما تھے۔ میرے پہنچنےسے محفل میں ایک عجیب جوش وخروش پیدا ہوگیا۔ باوجودیکہ میرے بیٹھنے کے لئے ایک خوبصورت اسٹیج تیار کیا گیا تھا لیکن میں اہل تسنن کے بڑے بڑے علماء کا احترام ملحوظ رکھتے ہوۓ اپنی جگہ سے کترا کے سیدھا انہیں کے پاس چلا گیا میرے اس اکرام و احترام اور پر خلوص انکسارسے وہ حضرات بہت خوش ہوۓ ؟؟؟؟؟ سائقے اور بیٹھ جانے

۳۴۸

کے بعد شربت اور طرح طرح کی شیرینی لائی گئی، اس خاطر تواضعکے بعد دو مداحوں نے اردو اور فارسی زبان میں بہترین قصیدے پڑھے، اس کے بعد سردار عبدالصمد خان صاحب جو پشاور کے نامی شیعہ رئیسوں میں سے تھے۔ چند محترم قزلباش حضرات کے ساتھ آۓ اور مجھ سے فرمائش کی کہ آج چونکہ عید کا دن ہے لہذا اہلِ جلسہ منتظر ہیں کہ آپ اپنی تقریر سے ان کو مسرور و شاد کام فرمائیں۔ میں نے ہر چند انکار کیا لیکن ان کا اصرار بڑھتا گیا۔ بالآخر حافظ صاحب واسطہ بنے اور کہا کہ آج چونکہ یہاں میرے قیام کا آخری دن ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ آپ کی تقریر کی یاد گار اپنے دل میں لے جاؤں مجھ کو بھی چونکہ موصوف سے کافی انسیت ہوگئی تھی۔ لہذا ان کی بات رد نہیں کرسکا اور فرمائش کیتعمیل کرتے ہوۓ منبر پر گیا۔ ظہر کے قریب اپنا بیان ختم کیا۔ پھر نماز جماعت کے بعد سر برآوردہ شیعہ و سنی مخصوصین اور مذہب شیعہ قبول کرنے والے حضرات کا متفقہ طور پر فوٹو لیا گیا۔

( یہ فوٹو اصل کتاب میں موجود ہے۔ ۱۲مترجم)

اس کے بعد ان چھہ عدد جدید شیعوں کے اعزاز میں کھانے کی ایک عام دعوت دی گئی۔

اب اپنیتقریر کے متن کو بھی جسے اخبارات و رسائل کے نامہ نگاروں نے نوٹ کر کے شائع کرایا تھا۔ اصل کتاب میں شامل کرتا ہوں کیونکہ یہ فائدے سے خالی نہیں تھا، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے دس راتوں کے مناظرے اور بیانات کاتکملہ اور تتمہ یہی ہے۔

۳۴۹

آغازِ بیان

(سلطان الواعظین مدظلہ نے ایک فصیح و بلیغ خطبے کے بعد فرمایا :باسم الل ه الرحمنالرحیم قالاللهالحکیمفیکتابهالکریم :"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْ‏ءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَ الرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ ذلِكَ خَيْرٌ وَ أَحْسَنُ‏ تَأْوِيلًا"

یعنی خداۓ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ پس اگر تم آپس میں کسی چیز میں نزاع کرو تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پلٹاؤ اگر تم اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ طریقہ کار تمہارے لئے بہت عمدہ اور نتیجے کے لحاظ سے بہترین ہے۔

مجازی اور حقیقی آزادی

ایک اہم موضوع جو مدتوں سے عمومیت کے ساتھ زیر بحث چلا آرہا ہے اور ہر قوم و فرقہ اپنی مطلب براری کے لئے اس کا سہارا لیتا ہے وہ حریتاور آزادی کا موضوع ہے اور جوبالآخر کج فہم و کوتاہ نظر لوگوں کی ایک جماعت کا آلہ کار بن گیا ہے۔ چنانچہ اسی حریت و آزادی کو بنیاد قرار دے کر وہ انبیاۓ کرام کے الہی احکام سے باغی ہو کر دین و شریعت کے دائرے سے خارج ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اتنا ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ پروردگار عالم کی بندگی اس کے شرائع حقہ کے قیود اور مقدس قوانین سے آزادی علم و عقل سے پوری مخالفت رکھتی ہے اور ایسی حریت و آزادی نوع بشر کے سکون و آسائش میں مخل و تباہی اور فتنہ وفساد کا باعث نظام فطرت کی مخالفت اور محققین علمائ و صاحبان عقل کے نزدیک مردود و ناقابل عمل ہے۔ البتہ جو حریت و آزادی بہتر اور ممدوح ہے اس سے مراد ہے مخلوق کی عبودیت، ابنا بشر کی تعظیم و پرستش اور اپنے ہی جیسے ہم جنسوں کی اندھی تقلید سے آزادی، ایسی آزادی انسانیت کا لازمی جز ہے، کیونکہ ای سنجیدہ فہمیدہ انسان جو زیور عقل سے آراستہ اور علم و معرفت کا حامل ہو اس کا فرض ہے کہ اپنے جیسے افراد بشر کی بندگی اور غلامی سے الگ رہے اور کسی ایسے شخص کی کور کورانہ پیروی نہ کرے

۳۵۰

جو اس کو وادی حیرت و ضلالت میں سرگردان بنادے۔ البتہ انسان اشرف المخلوقات کو ایسی ہستی کے سامنے سر اطاعت خم کرنا چاہیئے حواس کی لیاقت و قابلیت رکھتی ہو اور اس پر عقلی و نقلی دلائل قائم ہوں۔

بدیہی چیز ہے کہ ستائش و بندگی صرف خداۓ عزوجل کی ذات لازوال کے لئے مخصوص ہے جو ہمارا آپ کا اور ساری کائنات کا خالق ہے، اور عقلی دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ مخلوق عاجز کو اس خالقِ قادر کے سامنے خاضع و خاشع اور ہمہ تن مطیع و فرمانبردار رہنا چاہیئے جس نے ہر چیز اسی کے لئے پیدا کی ہے اور مخلوقات میں سے کسی کی اطاعت انسان کے لئے جائز نہیں ہے سوا اس شخص کے جس کی اطاعت کا خداۓ تعالی نے حکم دیا ہو۔

اور اشخاص کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہماری سند محکم قرآن مجید ہے۔ جب ہم قرآن مجید اور اس مضبوط آسمانی سند کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ متعدد آیات میں ہم کو اطاعت کی مکمل ہدایت دی گئی ہے کہ عقلی قواعد کے روسے ہم کن اشخاص کی اطاعت و پیروی کریں اور کن افراد کے سامنے سر تعظیم خم کریں۔

خدا اور رسول(ص) اور اولی الامر کی اطاعت واجب ہے

من جملہ ان کے اسی آیہ شریفہ میں جس کو میں نے عنوان کلام قرار دیا ہے۔ صاف طور سے ارشاد ہے:

" أَطِيعُوا اللَّهَ‏ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ‏"

یعنی اطاعت کرو خدا کی اور اطاعت کرو پیغمبر(ص) اور صاحبان امر کی۔

پس بحکم آیت اللہ کی اطاعت کے بعد نوع بشر میں پیغمبر(ص) اور صاحبان امر کی اطاعت واجب ہے۔

پیغمبر خاتم النبیین(ص) کے احکام کی اطاعت میں تو تمام مسلمان بالعموم متفق ہیں اور کسی کو اس حقیقت سے انکار نہیں ہے البتہ اہل اسلام کے اندر جو اختلاف پیدا کیا گیا وہ صرف اولی الامر کے معنی میں ہے، کیونکہ خداۓ تعالی نے اس آیت میں اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کے بعد اولی الامر کی اطاعت واجب قرار دی ہے۔

اولی الامر کے معنی میں اہل سنت کا عقیدہ

براداران عامہ اور اہل تسنن کا عقیدہ ہے کہ آیت میں اولی الامر ےس امراؤ حکام اور افسران لشکر مراد ہیں۔ لہذا سلاطین اور صاحبان حکومت ( ظاہری) اس کے ماتحت آتے ہیں۔

چنانچہ حضرات اہل تسنن بادشاہوں کے احکام کی اطاعت اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں(؟؟؟؟؟؟ وہ علانیہ فسق وفجور اور ظلم و جور کے مرتکب ہی کیوں نہ ہوں) اس دلیل سے کہ یہ لوگ آیہ اولی الامر میں داخل ہیں۔ لہذا ان

۳۵۱

کی اطاعت فرض ہے۔

حالانکہ ایسا عقیدہ عقلی و نقلی دلیلوں سے باطل ہے۔ تنگئی وقت کی وجہ سے یہ مختصر محفل اس کی مقتضی نہیں ہے کہ اس عقیدہ کے بطلان پر سارے دلائل عرض کروں، اس لئے کہ تفصیل پیش کرنے کے لئے کم سے کم ایک مہینے کا موقع درکار ہے پھر بھی بمصداقما لا یدرک کل ه لایترککله " یعنی جو سب کا سب حاصل نہ ہوسکے وہ سب کا سب ترک بھی نہیں کیا جاتا۔

آپ دریا را گر نتواں کشید لیک بہر تشنگی باید چشید

وضاحت مطلب اور اثبات مقصد کے لئے آپ حضرات کی اجازت سے اس موضوع پر مختصر بحث پیش کر رہا ہوں تاکہ اہل انصاف عادلانہ فیصلہ کرسکیں اور حقیقت منکشف ہوسکے۔

صاحبانِ امر کی تین قسمیں

ظاہر ہے کہ اہل عالم پر حکمرانی کرنے والے امراء و سلاطین تین حال سے خالی نہیں ہیں، یا اجماع سے مقرر ہوۓ ہیں، یا طاقت و قدرت سے غالب ہوۓ ہیں یا خدا کی طرف سے منسوب ہیں۔

چنانچہ پہلا طریقہ یعنی یہ کہ اگر مسلمان کسی ایک شخص پر اجماع کر لیں اور اس کو منصب امارت پر مقرر کردیں، تو اس کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت کے مانند واجب ہے، اپنے ثبوت میں کوئی عقلی دلیل نہیں رکھتا جس سے تمام مسلمان کسی ایک کامل اور پاکباز ہستی پر اتفاق کر کے اس کو مسند امارت پر بٹھا سکیں، کیونکہ مسلمان چاہے جس قدر عالی دماغ اور ہوشمند ہوں وہ فقط ظاہری حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں اور لوگوں کے باطنی کیفیات اور دلی عقائدسے با خبر نہیں ہوسکتے۔

جناب موسی(ع) کے چنے ہوۓ بنی اسرائیل نا اہل ٹھہرے

مسلمان چاہے جس قدر عاقل و دانا ہوں اصول اور قاعدے کی بناء پر امر انتخاب میں حضرت موسی کلیم اللہ علی نبینا و آلہ وعلیہ السلام سے جو انبیاۓ اولوالعزم میں سے تھے قطعا زیادہ واقف کار نہیں ہوسکتے اور ان سب کی عقلیں خدا کے بھیجے ہوۓ رسول(ص) کی عقل سے بالاتر نہیں ہوسکتیں۔ حضرت موسی(ع) نے بنی اسرائیل ؟؟ ؟؟؟؟؟؟ ہزاروں عقلا اور دانشمندوں میں سے ظاہری حالات کی بنا پر ستر افراد منتخب فرماۓ( چونکہ انبیاء صرف ظاہری چیزوں پر

۳۵۲

مامور تھے اور اشخاص کےباطنی امور کے پابند نہیں تھے لہذا ان کی ظاہری خوبیوں کو معتبر قرار دیتے تھے) اور ان کو طورسینا پر ساتھ لے گئے لیکن امتحان کے موقع پر سب کے سب ناکارہ ثابت ہوۓ اور ہلاک ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ ان کا دلی عقیدہ پہلے ہے سے درست اور مضبوط نہیں تھا، یہاں تک کہ امتحان کے موقع پر جب پردہ اٹھا تو جو کچھ اندرونی کیفیت تھی وہ ظاہر ہوگئی۔ چنانچہ قرآن مجید کی آیت نمبر۱۵۴ سورہ نمبر۷( اعراف) میں اس کی طرف اشارہ ہے۔

انسان صالح و کامل امیر کے انتخاب پر قادر نہیں

پس جب کلیم اللہ پیغمبر(ص۹ کے چنے ہوۓ لوگ اندر سے فاسد اور کافر نکلیں اور صاعقے کے ذریعے عذاب الہی میں گرفتار ہوں تو ظاہر ہے کہ دوسرے افراد بشر بدرجہ اولی صالح و کامل فرماں رواؤں کے انتخاب پر قادر نہیں ہیں اس لئے کہ بہت ممکن ہے ظاہری صلاح و تقوی کی بنا پر منتخب ہونے والے اشخاص حقیقی اور باطنی طور پر کافر یا فاسق ہوں جن کے دکھانے کے دانت اور ہوں کھانے کے اور چنانچہ جب سلطنت و امارت کی مسند پر بیٹھ جائیں، تو ریا کاری کا لبادہ اتار پھینکیں اور اپنے ضمیر کو بروۓ کار لاتے ہوۓ دھیرے دھیرے اپنے ناجائز مقاصد کی تکمیل شروع کردیں۔ جیساکہ بہت سے امراء و سلاطین میں( حتی کہ قومی اسمبلی کے نمائیندوں میں بھی) ایسا دیکھا گیا ہے اور اس طرح کے امیر و بادشاہ کی اطاعت قطعا دین کو مضمحل، حقوق انسانی کو ضائع اورآثار اسلام کو برباد کردے گی۔

سلاطین و امراء اولی الامر نہیں ہوتے

ہرگز عقل قبول نہیں کرتی کہ خداۓ تعالی فاسق و فاجر اور ظالم سلاطین و صاحبان امر کی اطاعت کو اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت میں شامل کرے، پس اس عقیدے کا باطل ہونا ظاہر و آشکار ہے۔ اس کے علاوہ اگر اجماع وقت کو شرعا یہ حق حاصل ہے تو ہر زمانے میں اولی الامر کو تمام ملل اسلامی کے حقیقی انتخاب سے معین ہونا چاہیئے یہ نہیں کہ ایک ملت کو تو موقع دیا جاۓ اور دوسری نطر انداز ہوجاۓ یہ شرعی حق مسلمان قوم کے تمام افراد کے لئے ہے چاہے وہ دنیا کے کسی گوشے اورکنارے پر ہوں، وہ ایک مسلمان ہو یا بہت سے اور شہر میں رہتے ہوں یا دیہات میں ان سب کو اس انتخاب میں راۓ دینا اور صاحب امر کی تعین میں شرکت کرنا چاہیئے نہ یہ کہ کسی ایک شہر یا مملکت میں چند لوگ راۓدے دیں تو ان کو راۓ واجب العمل بن جاۓ اور باقی تمام صاحبان عقل و تمیز اور سربرآوردہ مسلمان اس کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں۔ اگر کسی جماعت کو کچھ اختلاف ہو تو اس کو

۳۵۳

رافضی اورمشرک کہیں اور گردن زدنی سمجھیں۔

چنانچہ جب ہم تیرہ سو سال کی تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے بعد کسی زمانے میں بھی ایسا اجماع واقع نہیں ہوا جس میں دنیا کے تمام مسلمانوں نے یا ان کے حقیقی نمایئندوں نے اجتماعی حیثیت سے اپنی راۓ دی ہو۔ پس یہ اجماع کا عقیدہ نہ کسی دور میں عملی پہن سکا ہے اور نہ پہن سکے گا، بالخصوص آج کے زمانے میں جب کہ بلاد مسلمین ٹکڑے ٹکڑے ہوچکے ہیں متعدد اسلامی ممالک ہیں اور ہرایک کا اپنا بادشاہ اور حکمران الگ ہے۔

اگر یہ طے کیا جاۓ کہ ہر ملک کے باشندے اپنے لئے ایک مستقل بادشاہ اور صاحب امر کا انتخاب کریں، تو قطع نظر اس سے کہ ہر زمانے میں متعدد اولی الامر ہوجائیں گے اور کوئی مملکت دوسرے ملک کے بادشاہ یا صاحب امر کی فرمانبرداری نہیں کرے گی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاۓ اور آپس میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں( جیسا کہ تاریخ اسلام میں بارہا ایسے واقعات ہوۓ ہیں) اس وقت مسلمانوں پر کیا ذمہ داری ہوگی؟ کیونکہ مسلمانوں کے دونوں گروہ اپنے اپنے صاحب امر کی اطاعت میں مجبور ہوں گے کہ ایک دوسرے سے دست وگریبان ہوجائیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کریں تو کیا یہ دونوں مسلمان فریق برادر کشی میں ماجور و حق بجانب اور قاتل و مقتول دونوں جنتی ہوں گے؟

خدا جانتا ہے کہ اسلام اور شارع مقدس نے قطعا ایسی کوئی ہدایت نہیں دی ہے اوراسلام جیسا جامع و کامل اور عقلی دین ہرگز ایسا حکم نہیں دیتا جو صاحبان عقل کے نزدیک ناقابل قبول اور ناقابل عمل ہو، نیز اس کی وجہ سے مسلمانوں میں باہمی نزاع اور پھوٹ پیدا ہو۔ پس وہ اولی الامر جن کی اطاعت کے لئے خداوند عالم نے حکم دیا ہے۔ اجماع کے پابند نہیں ہوسکتے، چنانچہ گزشتہ راتوں میں مجلس مناطرہ کے اندر فریقین(شیعہ و سنی) کے علماء اور دانشمندوں کے سامنے عقلی و نقلی حیثیت سے اجماع کا باطل ہونا ثابت ہوچکے ہیں اور اخبارات و رسائل کے صفحات پر اس کی اشاعت بھی ہوچکی ہے۔ یقینا ان حضرات کی نگاہوں سے بھی گزری ہوگی جو ان مجلسوں میں موجود نہیں۔(۱)

ہربادشاہ اقتدار کی وجہ سے صاحب امر نہیں ہوجاتا

اور دوسری قسم جو طاقت و اقتدار سے متعلق ہے یعنی جو خونخوار و سفاک اور فاسق و فاجر امیر و سلطان یا خلیفہ قہر و غلبہ، نیزہ و شمشیر اور حیلہ سازی کے ذریعے لوگوں پر مسلط اور حکومت پر قابض ہوجاۓ اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ ص۱ ملاحظہ ہوں اسی کتاب کے صفحات۔

۳۵۴

کوئی عقل سلیم کیونکر اس کی ہم آہنگ ہوسکتی ہے اور اس لا یعنی عقیدے کو تسلیم کرسکتی ہے کہ سفاک و بے باک اور فاسق و فاجر امراؤ سلاطین یا خلفائ کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت کے مانند واجب ہو۔ اگر حقیقت اسی طرح ہے تو اہل سنت کے اکابر علماء و مورخین اور ناقدین اپنی کتابوں اور تحریروں میں ظالم و سفاک امراء خلفاء کی مذمت آخر کس لئے کرتے ہیں؟ جیسے معاویہ یزید پلید، زیاد ابن ابیہ، عبیداللہ، حجاج، ابوسلمہ اور مسلم وغیرہ کے لئے۔

اگر واقعا کوئی شخص ہٹ دھرمی کی بناء پر کہنا چاہے کہ اس قسم کے اشخاص جب مسلمانوں پر امیر و حاکم اور سلطان وخلیفہ بن جائیں تو ان کی اطاعت واجب ہے( چنانچہ بعض علماۓ عامہ نے کہا بھی ے تو ایسی اطاعت قطعا قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ہوگی، کیونکہ خداۓ تعالی نے متعدد آیات میں کافروں، فاسقوں اور ظالموں پر لعنت فرمائی ہے اور مسلمانوں کو ان کی اطاعت سے منع فرمایا ہے۔ پس یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ اس آیہ مبارکہمیں فاسق و فاجر اور ظالم بلکہ کافر صاحبان امر کی اطاعت کا حکم دے بدیہی چیز ہے کہ پروردگار عالم کی پاک و منزہ ذات سے دو متضاد باتوں کو نسبت دینا انتہائی بری حرکت ہے در آنحالیکہ امام فخرالدین رازی جو اکابر علماۓ عامہ میں سے ہیں اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں صاف صاف کہتے ہیں کہ اولی الامر کوقطعا گناہ سے معصوم ہونا چاہیئےورنہ خداوند عالم ان کی اطاعت کو اپنی اور اپنے پیغمبر(ص) کی اطاعت سے ملحق نہ کرتا۔

اولی الامر کو منجانب اللہ منصوب و منصوص ہونا چاہیئے

جب انہیں مختصر دلیلوں سے ان دونوں عقیدوں کا بطلان ثابت ہوگیا کہ اولی الامر کا اجماع یا غلبے اور اقتدار سے معین ہونا ممکن نہیں ہے تو اب تیسری قسم ثابت ہوگئی کہ حتمی طور سے اولی الامر کو خدا کی طرف سے منصوب ومنصوص ہونا چاہیئے وہو المطلوب۔

یہی ہے شیعہ امامیہ اثناعشریہ فرقے کا عقیدہ جو یہ کہتا ہے کہ جب اولی الامر کو پیغمبر(ص) کے مانند مہذب، جملہ صفات رذیلہ اور اخلاق فاسدہ سے پاک اور ظاہری و باطنی حیثیت سے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معصوم ہونا ضروری ہے اور جب با طنی حالات کا ذاتی اور مستقل علم بھی سوا خداۓ تعالی کےاورکسی کو حاصل نہیں ہے تو لازمہ ہوجاتا ہے کہ اولی الامر کو خدا ہی مقرر فرماۓ جو خدا رسول کو تمام مخلوق سے منتخب کر کے رسالت پر مبعوث فرماتا ہے اسی کی ذاتِ اقدس پر اس کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اولی الامر کا انتخاب کر کے انکو امت سے روشناس کراۓ۔ علاوہ اس قسم کی دلیلوں کے جو الگ سے اس مقصد کو ثابت کرتی ہیں خود آیت کی ظاہری صراحت حکم دے رہی ہے کہ اولی الامر وہی ہوسکتے ہیں جو سوا ان خصوصیات کے جو دلیل سے مستثنی ہیں، یعنی مقام وحی و رسالت کے علاوہ رسول اللہ(ص) کی جملہ صفتوں کے

۳۵۵

حامل ہوں، اور چونکہ تمام انسانی صفات کا عالم سوا ذات پرردگار کے اور کوئی نہیں ہے لہذا حق انتخاب بھی اسی کے لئے مخصوص ہے۔

چنانچہ آیہ شریفہ میں واجب اور ممکن کا فرق بتانے کے لئے دو اطیعوا لاۓ گئے ہیں۔" اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول" اطاعت کرو خدا کی اس حیثیت سے کہ اس کو واجب الوجود بالذات جانتے ہو کیونکہ اس کی ہستی جن صفات کی مالک ہے جیسے حیات، علم، حکمت اور قدرت وغیرہ وہ خود اسی کی طرف سے اور عین ذات ہیں اور اطاعت کرو پیغمبر(ص) کی اس حیثیت سے کہ ان کو ممکن الوجود عبد صالح اور تمام صفات حمیدہ و اخلاق پسندیدہ کا حامل سمجھتے ہو جو سب کے سب واجب الوجود کی جانب سے ان کو تفویض ہوۓ ہیں لیکن جس وقت اولی الامر کے تذکرے پر پہنچا ہےتو پھر کلمہ اطیعوا نہیں لاتا بلکہ صرف واو عطف کے ساتھ اولی الامر کو پہچنواتا ہے۔ اس داؤ میں نکتہ یہ ہے کہ خداوند عالم روشن ضمیر اور خوش فکر لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہے کہ صاحب امر وہی شخص ہے جو ہر اسصفت کا حامل ہو جس کے حامل رسول خدا(ص) تھے۔ سوا ان چیزوں کے جو بالدلیل مستثنی ہیں جیسے نزول وحی اور عہدہ تبلیغ رسالت وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ جو کچھ رسول اللہ(ص) کے پاس تھا وہی سب اولی الامر کے پاس بھی ہونا چاہیئے سوا مرتبہ نبوت ورسالت کے پس اطاعت اولی الامر اور اطاعت پیغمبر(ص) کی ایک بنیاد ہے۔

بس اولی الامر کی شان یہ ہے کہ احکام دین اور قوانین شرع سید المرسلین(ص) کے نافذ کرنے والے اور ان کے محافظ ہوں لہذا اسی بنا پر جماعت امامیہ کا اعتقاد ہے کہ اولی الامر سے اوہ ائمہ اثنا عشر مراد ہیں جو پیغمبر(ص) کی نسل اور آں حضرت(ص) کی عترت طاہرہ میں سے ہیں یعنی امیرالمومنین علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد میں سے گیارہ بزرگوار اور یہ آیہ مبارکہ دوازدہ امام علیہم الصلوۃ والسلام کی امامت کے اثبات میں مذہب شیعہ اور فرقہ امامیہ کی بہت بڑی دلیل ہے۔

علاوہ اس کے اور بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن سے ہم استدلال کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی رخ سے ہمارے مطلب کو ثابت کرتی ہے۔

مثلا سورہ نمبر۲ (بقرہ) آیت نمبر۱۱۸"قالَ‏ إِنِّي‏ جاعِلُكَ‏ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِي قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ‏."

یعنی خداۓ تعالی نے ( ابراہیم سے) فرمایا میں تم کو تمام انسانوں کا امام قرار دیتا ہوں، ابراہیم نے عرض کیا یہ امامت میری اولاد میں بھی رہے گی؟ فرمایا( ہاں لیکن) جو ظالم ہیں ان کو میرا یہعہد نہیں پہنچے گا۔)

سورہ نمبر۳۳ ( احزاب) آیت نمبر۶"النَّبِيُ‏ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ أَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ وَ أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى‏ بِبَعْضٍ فِي كِتابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُهاجِرِينَ "

یعنی پیغمبر(ص) مومنین کے لئے اولی اور سزاوارتر ہیں خود ان کے نفوس سے اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور نسبی قرابتدار ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں کتاب خدا میں مومنین و مہاجرین سے)

۳۵۶

سورہ نمبر۹(توبہ) آیت نمبر۱۲۰"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا مَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے ایمان لانے والو اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

سورہ نمبر۱۳ (رعد) آیت نمبر۸ "إِنَّما أَنْتَ‏ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ " یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تم عذاب الہی سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے( ہماری طرف سے) ایک ہدایت کرنے والا بھی مقرر ہے۔

سور ہنمبر۶ ( انعام) آیت نمبر۱۵۴ " وَ أَنَّ هذا صِراطِي‏ مُسْتَقِيماً فَاتَّبِعُوهُ وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ‏."

(یعنی یہ ہے میرا سیدھا راستہ پس اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں کا اتباع نہ کرو جس سے خدا کی راہ ےس بھٹک کر متفرق ہوجاؤ۔)

سورہ نمبر۷( اعراف) آیت نمبر۱۸۰" مِمَّنْ خَلَقْنا أُمَّةٌ يَهْدُونَ‏ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ‏"

یعنی ہماری مخلوق میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو حق کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل سے کام لیتے ہیں( یعنی پیشوایان دین و ائمہ معصومین علیہم السلام۔)

سورہ نمبر۳ ( آل عمران) آیت نمبر۹۸"وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَ لا تَفَرَّقُوا"

یعنی سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور ادھر ادھر متفرق نہ ہو۔

سورہ نمبر۱۶( نحل) آیت نمبر۴۵ "فَسْئَلُوا أَهْلَ‏ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ"

(یعنی اہل ذکر ( حاملان قرآن) سے پوچھ لو اگر تم کو نہیں معلوم ہے)

سورہ نمبر۳۳( احزاب) آیت نمبر۳۳ "إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ‏ عَنْكُمُ‏ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً. "

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ اللہ کا یہی ارادہ ہے کہ اے اہل بیت رسالت تم سے ہر رجس گندیگی کو دور رککھے اور تم کو ہر عیب سے کما حقہ پاک و پاکیزہ قرار دے۔

سورہ نمبر۳(آل عمران) آیت نمبر۳۰ "إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى‏ آدَمَ‏ وَ نُوحاً وَ آلَ إِبْراهِيمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَى الْعالَمِينَ‏ذریة بعضها من بعض"

یعنی در حقیقت اللہ نے آدم، نوح اولاد ابراہیم اور اولاد عمران کو تمام اہل عالم پر بگرزیدہ فرمایا ہے، اس نسل کے بعض کو بعض سے۔

سورہ نمبر۳۵( فاطر) آیت نمبر۲۹" ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ‏ الَّذِينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا"

یعنی پھر ہم نے اپنے ان بندوں کو کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے چن لیا ہے۔

سورہ نمبر۲۴( نور) آیت نمبر۳۵ "اللَّهُ نُورُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ الزُّجاجَةُ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَ لا غَرْبِيَّةٍ يَكادُ زَيْتُها يُضِي‏ءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نارٌ نُورٌ عَلى‏ نُورٍ

۳۵۷

يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشاءُ ...."

یعنی اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال اس قندیل کے مانند ہے جس میں ایک چراغ روشن ہو وہ چراغ ایک شیشے کے اندر ہو اور وہ شیشہ اس طرح چمکتا ہوگویا ایک بہت درخشان ستارہ ہے۔ وہ زیتون کے اس مبارک درخت سے روشن ہوتا ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی۔ اس کا زیت ہر وقت ضو دینے کے لئے تیار ہے بغیر اس کے کہ آگ اس کو مس کرے، نور بالاۓ نور، خدا جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔

اور بہت سی آیتیں ہیں لیکن محفل کا وقت ان سب کو ذکر کرنے کی گنجائش نہیں رکھتا حتی کہ خطیب خوارزمی کے مناقب میں امام احمد بن حنبل نے مسند میں، حافظ ابونعیم نے مانزل من القرآن فی علی میں اور حافظ ابوبکر شیرازی نے نزول القرآن فی امیرالمومنین میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا قرآن کا چوتھائی حصہ ہم اہل بیت کے حق میں نازل ہوا ہے۔

نیز حافظ ابونعیم ما نزل من القرآن فی علی میں، احمد بن حنبل مسند میں، واحدی اسباب النزول میں محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول میں، ابن عساکر اور محدث شام ا پنی اپنی تاریخ میں، حافظ ابوبکر شیرازی نزول القرآن فی امیرالمومنین میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب شروع باب۶۲ میں اور خواجہ بزرگ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب۴۲ میں طبرانی سے اور وہ ابن عباس( جرامت) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا "نزلت‏ في‏ على‏ أكثر من ثلاث مائة آية في مدحه." (یعنی علی علیہ السلام کی مدح میں تین سو سے زیادہ آیتیں نازل ہوئیں۔)

یقینا ان میں سے ہر ایک آیت ک بارے میں کم سے کم کئی کئی گھنٹے تقریر کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن وقت نہ ہونے کی وجہ سے میں نے فہرست کے طور پر ان میں سے بعض کی تلاوت کردی ہے تاکہ صاحبان علم و فن اکابر علماۓ عامہ کی معتبر کتب مثلا تفسیر امام فخر الدین رازی، تفسیر امام ثعلبی، تفسیر زمخشری، تفسیر جلال الدین سیوطی، تفسیر طبری، تفسیر نیشاپوری، تفسیر واحدی، کتاب فرائد السمطینحموینی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، جمع بین الصحیحین حمیدی، مسند امام احمد بن حنبل، صواعق ابن حجر، شرف المصطفی خرگوشی، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، حلیتہ الاولیاء حافظ ابونعیم، مفاتیح الاسرار شہرستانی، مناقب خوارزمی، فصول المہمہ مالکی، شواہد التنزیل حاکم ابوالقاسم، استیعاب ابن عبدالبر، سقیفہ جوہری، ینابیع المودۃ خواجہ بزرگ حنفی، مودۃ القربی ہمدانی، مانزل من القرآن فی علی اصفہانی، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی، نہایہ ابن اثیر، کفایت الطالب گنجی شافعی، نزول القرآن فی امیرالمومنین ابوبکر شیرازی، اور رشفتہ الصادی سید ابوبکر بن شہاب الدین علوی، وغیرہ کی طرف رجوع کر کے نگاہ تحقیق سے جائزہلیں جس سے ان پر حقیقت کا انکشاف ہوسکے۔

بہتر ہوگا کہ بیان کو زیادہ طول نہ دوں اور اسی آیت کا تذکرہ کروں جس کو عنوان کلام قرار دیا ہے اور سب سے بڑی دلیل بتایا ہے۔

میں نے عرض کیا تھا کہ شیعہ امامیہ فرقے کا عقیدہ یہ ہے کہ آیہ مبارکہ میں عقلی و نقلی دلائل و براہین کی روشنی میں اولی الامر سے آئمہ عشر سلام اللہ علہیم اجمعین مراد ہیں۔

۳۵۸

چنانچہ اس مطلب پر عقلی دلیلیں اتنی زیادہ ہیں کہ محفل کا وقت ان سب کو بیان کرنے کے لئے کافی نہیں ہے لیکن قرینہ خود ثابت کررہا ہے کہ ان اولی الامر کو یقینا گناہ و خطا سے معصوم ہونا چاہیئے جن کی اطاعت خدا و رسول کی اطاعت سے وابستہ ہے۔

چنانچہ امام فخرالدین رازی نے بھی اپنی تفسیر میں اس مفہوم کا اقرار کیا ہے کہ اگر کہا جاۓ اولی الامر معصوم نہیں ہیں تو اجتماع ضدین لازم آۓ گا اور یہ محال ہے۔

دوسرےیہ کہ اولی الامر کو ہر فرد بشر سے اعلم و افضل، اورع و اثقی اور اکمل ہونا چاہیے تاکہ وہ صفات پیغمبر(ص) کے حامل بنیں اور ہر حیثیت سے ان کی اطاعت واجب ٹھہرے۔

یہ صفات ساری امت میں(بتصدیق اکابر علماء اہل سنت) سوا آئمہ اثناء عشر علیہم السلام ک اور کسی کے لئے بیان نہیں کئے گئے ہیں۔ ان کا درجہ عصمت اس قدر بلند ہے کہ خدا نے آیت تطہیر میں اس کی شہادت دی ہے۔ اس جلیل القدر خاندان کی عصمت کے بارے میں اکابر علماۓ اہل تسنن کی معتبر کتابوں کے اندر کثرت سے حدیثیں مروی ہیں جن میں سے چند خبریں نمونے ک طور پر پیش کررہا ہوں۔

طرق عامہ سے آئمہ کے لئے اخبارِ عصمت

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب ۷۷ ص۳۴۵ میں اور شیخ الاسلام حموینی نے فرائد السمطین میں ابن عباس سے روایت کیہے کہ انہوں نے کہا:

"سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ‏ أَنَا وَ عَلِيٌّ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ تِسْعَةٌ مِنْ‏ وُلْدِ الْحُسَيْنِ‏ مُطَهَّرُونَ‏ مَعْصُومُونَ."

یعنی میں نے سنا کہ رسول اللہ صلعم فرماتے تھے میں اور علی اور حسن و حسین اور حسین کی اولاد میں سے نو افراد سب کے سب پاک و پاکیزہ اور معصوم ہیں۔

سلمان فارسی نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے حسین علیہ السلام کے شانے پر ہاتھ رکھ کے فرمایا:

" الإمام ابن الإمام تسعة من صلبه أئمّة أبرار امناء معصومون‏"

یعنی قطعی طور پر یہ امام اور امام کے فرزند ہیں، ان کی نسل سے نو عدد امام، نیکوکار، امین اور معصوم ہوں گے۔

زید ابن ثابت سے روایت کی ہے کہ آں حضرت نے فرمایا:

"‏ وَ إِنَّهُ لَيَخْرُجُ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ ع أَئِمَّةٌ أَبْرَارٌ أُمَنَاءُ مَعْصُومُونَ‏ قَوَّامُونَ بِالْقِسْطِ "

یعنی یقینا حسین(ع) کے صلب سے نیکوکار، امین، معصوم اور عدل و انصاف کو قائم رکھنے والے امام پیدا ہوں گے۔

اور عمران ابن حصین سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں نے رسول خدا صلعم سے سنا کہ آں حضرت نے

۳۵۹

علی علیہ السلام سے فرمایا:

" أَنْتَ‏ وَارِثُ‏ عِلْمِي‏ وَ أَنْتَ الْإِمَامُ وَ الْخَلِيفَةُ بَعْدِي تُعَلِّمُ النَّاسَ بَعْدِي مَا لَا يَعْلَمُونَ وَ أَنْتَ أَبُو سِبْطَيَّ وَ زَوْجُ ابْنَتِي مِنْ ذُرِّيَّتِكُمُ الْعِتْرَةُ الْأَئِمَّةُ الْمَعْصُومِينَ "

یعنی تم میرے علم کے وارث ہو اور تم امام اور میرے بعد خلیفہ ہو۔ تم لوگوں کو وہ باتیں بتاؤ گے جو وہ نہیں جانتے، تم میرے نواسوں کے باپ اور میری بیٹی کے شوہر ہو، اور تمہاری اولاد میں سے عترت اور معصوم امام ہیں۔

اس قسم کے اخبار و احادیث اکابر علماۓ اہل سنت کے طرق سے بکثرت مروی ہیں جن میں سے اس مختصر وقت میں نمونے کے لئے اسی قدر کافی ہیں۔

ان حضرات کے علم کے بارے میں بھی طرق اہل سنت سے بکثرت اخبار منقول ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ راتوں کی خصوصی نشستوں میں ہم اس موضوع پر تفصیلی بحث کرچکے ہیں اور جو یقینا رسائل و اخبارات میں آپ حضرات کی نظر سے گزری ہوگی۔ نمونے کے طور پر آج بھی چند حدیثیں نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

عترت و اہلِ بیت(ع) کا علم

ابواسحق شیخ الاسلام حموینی فرائد السمطین میں، حافظ ابونعیم اصفہانی حلیتہ الاولیاء میں اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا میری عترت میری طینت سے پیدا کی گئی ہے اور خداۓ تعالی نے ان افراد کو علم وفہم کرامت فرمایا ہے راۓ ہو اس شخص پر جو ان کو جھٹلاۓ۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور صاحب کتاب سیر الصحابہ نے حذیفہ ابن اسید سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلعم نے ایک مفصل خطبہ اور حمد و ثناۓ الہی فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا:

"إنّي‏ تارك‏ فيكم‏ الثّقلين كتاب اللّه و عترتي ان تمسکتم بهما فقد نجوتم"اور طبرانی اتنے اضافے کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ فرمایا: " فلا تقدموهما فتهلكوا و لا تقصروا عنهما فتهلكوا و لا تعلموهم فانهم أعلم منكم. "

یعنی میں تمہارے اندر دو نفس وبزرگ چیزیں چھوڑتا ہوں، خدا کی کتاب اور میری عترت، اگر تم ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو ضرور نجات پاؤ گے۔

پھر فرمایا کہ ان سے پیش قدمی نہ کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے، ان افراد سے تقصیر و کوتاہی نہ کرو ورنہ ہلاک ہوگے اور ان کو سکھانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ یقینا یہ تم سے زیادہ عالم ہیں۔

نیز دوسری روایت میں حذیفہ بن اسید سے نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

" الْأَئِمَّةُ بَعْدِي‏ مِنْ‏

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394