پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316863 / ڈاؤنلوڈ: 7971
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' اپنی زبان کو قابو اور اس کی حفاظت کر یہ نفس کے لئے بہترین ہدیہ ہے_ انسان صحیح اور حقیقی ایمان تک نہیں پہنچتا مگر یہ کہ وہ اپنی زبان کی نگاہ داری اور حفاظت کرے_(۴۲۱)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تین چیزیں فہم اور فقہ کی علامت ہیں تحمل اور بردباری _ علم اور سکوت_ ساکت رہنا دانائی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے_ ساکت رہنا محبت کا سبب ہوتا ہے اور ہر نیکی کی دلیل ہے_(۴۲۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جب عقل کامل ہوتی ہے تو گفتگو ہو جاتی ہے_(۴۲۳)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ''کوئی بھی عبادت ساکت رہنے اور خانہ کعبہ کی طرف پیدل جانے سے افضل نہیں ہے_(۴۲۴)

رسول خدا نے جناب ابوذر سے فرمایا کہ '' میں تجھے زیادہ ساکت رہنے کی سفارش کرتا ہوں اس واسطے کہ اس وسیلے سے شیطن تم سے دور ہوجائے گا_ دین کی حفاظت کے لئے ساکت رہنا بہتر مددگار ہے_(۴۲۵)

خلاصہ انسان سالک اور عارف پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پر پوری طرح کنٹرول کرے اور سنجیدہ اور سوچ سمجھ کر بات کرے اور زیادہ اور بیہودہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے دنیاوی امور میں ضرورت کے مطابق باتیں کرے جو اسے زندگی کرنے کے لئے ضروری ہیں اور اس کے عوض اللہ تعالی کا ذکر اور ورد اور علمی مطالب اور فائدہ مند اور اجتماع کے لئے مفید گفتگو کرنے میں مشغول رہے _ ہمارے بزرگاور عارف ربانی استاد علامہ طباطبائی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ساکت رہنے کے گراں قدر آثار مشاہدہ کئے ہیں_ چالیس شب و روز ساکت رہنے کو اختیار کیجئے اور سوائے ضروری کاموں کے باتیں نہ کریں اور فکر اور ذکر خدا میں مشغول رہیں تا کہ تمہارے لئے نورانیت اور صفاء قلب حاصل ہو سکے_

۲۴۱

چھٹی رکاوٹ

اپنی ذات اور اپنے اپ سے محبت ہے اگر عارف انسان نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر اس کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ سامنے آتی ہے اور وہ ہے اس کا جب ذات یعنی اپنی ذات سے محبت کرنا_ وہ متوجہ ہوگا کہ اس کے تمام کام اور حرکات یہاں تک کہ اس کی عبادت و غیرہ کرنا سب کے سب اپنی ذات کی محبت کیوجہ سے انجام پارہے ہیں_ عبادت ریاضت ذکر اور دعا نماز اور روزے اس لئے انجام دے رہا ہے تا کہ اپنے نفس کو کامل کرے اور اسے ان کی اجزاء آخرت میں دی جائے گرچہ اس طرح کی عبادت کرنا بھی انسان کو بہشت اور آخرت کے ثواب تک پہنچا دیتی ہے لیکن وہ ذکر اور شہود کے بلند و بالا مقام اور رتبہ تک نہیں پہنچاتی جب تک اس کا نفس حب ذات کو ترک نہ کرے اور وہ اللہ تعالی کے بے مثال جمال کا مشاہدہ نہیں کر سکے گا جب تک تمام حجاب اور موانع یہاں تک کہ حب ذات کا حجاب اور مانع بھی ترک نہ کرے اس صورت میں وہ انوار الہی کا مرکز بننے کی قابلیت اور استعداد پیدا نہیں کر سکے گا_ لہذا عارف اور سالک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریاضت اور مجاہدہ کر کے اپنے آپ کو حب ذات کی حدود سے باہر نکالے اپنی ذات کی محبت کو خدا کی محبت میں تبدیل کر دے اور تمام کاموں کو صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے بجا لائے اگر غذا کھاتا ہے تو اس غرض سے کھائے کہ اس کے محبوب نے زندہ رہنے کے لئے اسے ضروری قرار دیا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو اسے اس نیت سے بجالائے کہ ذات الہی ہی عبادت اور پرستش کی سزاوار اور مستحق ہے_ اس طرح کا انسان نہ دینا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے اور نہ آخرت کا بلکہ وہ صرف خدا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے_ یہاں تک کہ وہ کشف اور کرامت کا طلبکار بھی نہیں ہوتا اور سوائے حقیقی معبود کے اس کا کوئی اور مطلوب اورمنظور نظر نہیں ہوتا_ اگر کوئی اس مرحلے کو طے کر لے یہاں تک کہ اپنی شخصیت اور ذات کو اپنے آپ سے جدا کردے تو وہ مقام توحید میں

۲۴۲

قدم رکھ لے گا اور شہود اور لقاء اللہ کے بلند اور بالا مقام تک ترقی کر جائیگا اور بارگاہ مقعد صدق عند ملیک مقتدر میں نازل ہوجائیگا_

ساتویں رکاوٹ

کمال اور عرفان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اور شاید یہ سابقہ تمام رکاوٹوں سے بھی زیادہ ہو وہ ہے ارادہ کا ضعیف ہونا_ اور حتمی فیصلے کرنے کی قدرت نہ رکھنا _ یہ رکاوٹ اور مانع انسان کو عمل شروع کرنے سے روک دیتی ہے_ شیطن اور نفس کرتا ہے کہ انسان کو ظاہر ی ذمہ داری اور وظائف شرعی کی بجالانے کو کافی قرار دے گرچہ اس میں حضور قلب اور توجہہ نہ بھی ہو_ شیطن انسان کو کہتا ہے کہ تو صرف انہیں عبادت کے بجالانے کے سوا اور کوئی شرعی وظیفہ نہیں رکھتا تجھے حضور قلب اور توجہہ اور ذکر سے کیا کام ہے؟ اور اگر کبھی انسان اس کی فکر کرنے بھی لگے تو اسے سینکٹروں حیلے اور بہانوں سے روک دیتا ہے اور کبھی اس مطلب کو اس کرے لئے اتنا سخت نمایاں کرتا ہے کہ انسان اس سے مایوس اور نامید ہوجاتا ہے لیکن اس انسان کے لئے جو کمال حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے ضروری ہے کہ وہ شیطن اور نفس امارہ کے ایسے وسوسوں کے سامنے رکاوٹ بنے اور احادیث اور آیات اور اخلاق کی کتابوں کے مطالعے کرنے سے معلوک کرے کہ سیر اور سلوک کے لئے حضور قلب اور ذکر و شہود کی کتنی ضرورت اور اہمیت ہے اور جب اس نے اس کی اہمیت کو معلوم کر لیا اور اپنی ابدی سعادت کو اس میں دیکھ لیا تو پھر حتمی طور سے اس پر عمل کرے گا اور مایوسی اور ناامیدی کو اپنے سے دور کردے گا اور اپنے آپ سے کہے گا کہ یہ کام گرچہ مشکل ہے اور چونکہ اخروی سعادت اس سے وابستہ ہے لہذا ضرور مجھے اس پر عمل کرنا چاہئے_ اللہ تعالی فرماتا ہے جو ہمارے راستے

۲۴۳

میں کوشش اور جہاد کرتے ہیں ہم اس کو اپنے راستوں کی راہنمائی کر دیتے ہی_

و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا (۴۲۶)

ہماری یہ ساری بحث اور کلام تکامل اور تقرب الہی کے پہلے وسیلے اور ذریعے میں تھی یعنی اللہ تعالی کے ذکر میں تھی _ بحث کی طوالت پر ہم معذرت خواہ ہیں_

۲۴۴

دوسرا وسیلہ

فضائل اور مکارم اخلاق کی تربیت

نفس کے کمال تک پہنچنےاور قرب الہی کے حاصل کرنے کے لئے ایک وسیلہ ان اخلاقی کی جو انسان کی فطرت اور سرشت میں رکھ دیئے گئے ہیں پرورش اور تربیت کرنا ہے_ اچھے اخلاق ایسے گران بہا امور ہیں کہ جن کا ربط اور سنخیت انسان کے ملکوتی روح سے ہے ان کی تربیت اور پرورش سے انسان کی روح کامل سے کاملتر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے بلند و بالا مقام قرب تک پہنچتا ہے_ اللہ تعالی کی مقدس ذات تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ ہے_ انسان چونکہ عالم بالا سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنی پاک فطرت سے کمالات انسانی کو کہ جن کی عالم بالا سے مناسبت ہے انہیں خوب پہچانتا ہے اور فطرتا ان کی طرف مائل ہے اسی لئے تمام انسان تمام زمانوں میں نیک اخلاق کو جانتے اور درک کرتے ہیں جیسے عدالت_ ایثار_ سچائی_ امانتداری _ احسان _ نیکی_ شجاعت_ صبر اور استقامت علم خیر خواہی مظلوموں کی مدد شکریہ احسان شناسی سخاوت اور بخشش_ وفا

۲۴۵

عہد_ توکل_ تواضع اور فروتنی_ عفو اور درگزر_ نرمی مزاجی _ خدمت خلق و غیرہ ان تمام کو ہر انسان خوب پہچانتے اور جانتے ہیں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتاہے_ کہ قسم نفس کی اور اس کی کہ اسے نیک اور معتدل بنایا ہے اور تقوی اور منحرف ہوجانے کا راستہ اسے بتلایا ہے کامیاب وہ ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک بنایا اور نقصان میں ہوگا وہ کہ جس نے اپنے نفس کو آلودہ اور ناپاک بنایا_(۴۳۷)

جب اخلاقی کام بار بار انجام دیئے جائیں تو وہ نفس میں راسخ اور ایک قسم کا ملکہ پیدا کر لیتے ہیں وہی انسان کو انسان بنانے اور اپنا نے اور ہوجانے میں موثر اور اثر انداز ہوتے ہیں اسی واسطے اسلام اخلاق کے بارے میں ایک خاص طرح کی اہمیت قرار دیتا ہے_ اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے_ سینکٹروں آیات اور روایات اخلاق کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ قرآن مجید کی زیادہ آیتیں اخلاق کے بارے میں اور اخلاقی احکام پر مشتمل ہیں یہاں تک کہ اکثر قرآن کے قصوں سے غرض اور غایت بھی اخلاقی احکام امور ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید ایک اخلاقی کتاب ہے _ قاعدتا پیغمبروں کے بھیجنے کی ایک بہت بڑی غرض اور غایت بھی نفس کو پاک اور صاف بنانا اور اخلاق کی اور پرورش کرنا ہے_ ہمارے پیغمبر علیہ السلام نے بھی اپنی بعثت اور بھیجے جانے کی غرص اخلاق کی تکمیل کرنا اور نیک اخلاق کی تربیت کرنا بتلائی ہے اور فرمایا ہے کہ '' میں اللہ تعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تا کہ نیک اخلاق کو پورا اور تمام کروں_(۴۲۸)

پیغمبر اسلام لوگوں سے فرماتے تھے کہ '' میں نیک اخلاق کی تمہیں نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۴۲۹)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں اخلاق حسنہ سے کوئی چیز افضل ہو نہیں رکھی جائیگی_(۴۳۰)

۲۴۶

تیسرا وسیلہ

عمل صالح

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد انسان کے تکامل کا وسیلہ اعمال صالح ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان قرب خدا اور درجات عالیہ کو حاصل کر سکتا ہے اور اپنی اخروی زندگی کو پاک و پاکیزہ بنا سکتا ہے_ قرآن مجید میں ہے کہ '' جو شخص نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایمان رکھتا ہو ہم اس کو ایک پاکیزہ میں اٹھائیں گے اور اسے اس عمل سے کہ جسے وہ بجا لایا ہے_ بہتر جزاء اور ثواب دیں گے_(۴۳۱)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے دنیا کی زندگی کے علاوہ ایک اور پاک و پاکیزہ زندگی ہے اور وہ نئی زندگی اس کے ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے_ قرآن فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ خداوند عالم کی طرف لوٹیں یہی وہ لوگ ہیں جو مقامات اور درجات عالیہ پر فائز ہوتے ہیں_(۴۳۲)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو انسان اللہ تعالی کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے نیک عمل بجالانا چاہئے اور عبادت میں خدا کا کوئی شریک قرار نہ دینا چاہئے_(۴۳۳)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو شخص عزت کا طلبکار ہے تو تمام عزت اللہ تعالی کے

۲۴۷

پاس ہے کلمہ طیبہ اور نیک عمل اللہ تعالی کی طرف جاتا ہے_(۴۳۴)

اللہ تعالی اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام عزت اور قدرت اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی کے پاس ہے اور کلمہ طیبہ یعنی موحد انسان کی پاک روح اور توحید کا پاک عقیدہ ذات الہی کی طرف جاتا ہے اور اللہ تعالی نیک عمل کو اپنے پاس لے جاتا ہے_ نیک عمل جب خلوص نیت سے ہو تو انسان کی روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے ترقی اور کمال دیتا ہے_ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ آخرت کی پاک و پاکیزہ زندگی اور اللہ تعالی سے قرب اور القاء کا مرتبہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے حاصل ہوتا ہے_ قرآن مجید نے نیک اعمال کے بجا لانے پر بہت زیادہ زور دیا ہے خدا سعادت اور نجات کا وسیلہ صرف عمل صالح کو جانتا ہے نیک عمل کا معیار اور میزان اس کا شریعت اور وحی الہی کے مطابق ہونا ہوا کرتا ہے_ خداوند عالم جو انسان کی خصوصی غرض سے واقف ہے اس کی سعادت اور تکامل کے طریقوں کو بھی جانتا ہے اور ان طریقوں کو وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام کے سپرد کر دیا ہے تا کہ آپ انہیں لوگوں تک پہنچا دیں اور لوگ ان سے استفادہ حاصل کریں_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں جب خدا اور اس کا رسول تمہیں کسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہیں تو اسے قبول کرو_(۴۳۵)

نیک اعمال شرعیت اسلام میں واجب اور مستحب ہوا کرتے ہیں_ عارف اور سالک انسان ان کے بجالانے سے اللہ تعالی کی طرف سیر و سلوک کرتے ہوئے قرب الہی کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور یہی تنہا قرب الہی تک پہنچنے کا راستہ ہے اور دوسرے جتنے راستے ہیں وہ عارف کو اس مقصد تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ ٹیڑھے راستے ہیں_ عارف انسان کو مکمل طور سے شرعیت کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اور سیر و سلوک کے لیے شرعیت کے راستے کے علاوہ اور کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے اور ان اذکار اور اوراد اور حرکت سے کہ جس کا شرعیت اسلام میں کوئی مدرک اور

۲۴۸

ذکر موجود نہ ہو اس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہئے نہ صرف وہ مقصد تک نہیں پہنچاتے بلکہ وہ اس کو مقصد سے دور بھی کر دیتے ہیں کیونکہ شرعیت سے تجاوز کرنا بدعت ہوا کرتا ہے_ عارف اور سالک انسان کو پہلے کوشش کرنی جاہئے کہ وہ واجبات اور فرائض دینی کو صحیح اور شرعیت کے مطابق بجالائے کیونکہ فرائض اور واجبات کے ترک کردینے سے مقامات عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا گرچہ وہ مستحبات کے بجالائے اور ورد اور ذکر کرنے میں کوشاں بھی رہے_ دوسرے مرحلے میں مستحبات اور ذکر اور ورد کی نوبت آتی ہے_ عارف انسان اس مرحلے میں اپنے مزاجی استعداد اور طاقت سے مستحبات کے کاموں کا بجا لائے اور جتنی اس میں زیادہ کوشش کرے گا اتنا ہی عالی مقامات اور رتبے تک جا پہنچے گا_ مستحبات بھی فضیلت کے لحاظ سے ایک درجے میں نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض دوسرے بعض سے افضل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بہتر اور جلدی مقام قرب تک پہنچاتے ہیں جیسے احادیث کی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے_ عارف انسان نمازیں دعائیں ذکر اور اوراد کتابوں سے انتخاب کرے اور اس کو ہمیشہ بجا لاتا رہے جتنا زیادہ اور بہتر بجا لائیگا اتنا صفا اور نورانیت بہتر پیدا کرے گا اور مقامات عالیہ کی طرف صعود اور ترقی کرے گا ہم یہاں کچھ اعمال صالح کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور باقی کو کتابوں کی طرف مراجعہ کرنے کا کہتے ہیں لیکن اس کا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ فرائض اور نوافل ذکر اور ورد اس صورت میں عمل صالح ار موجب قرب ہونگے جب انہیں بطور اخلاص بجا لایا جائے_ عمل کا صالح اور نیک اور موجب قرب ہونا اخلاص اور خلوص کی مقدار کے لحاظ سے ہوگا لہذا پہلے ہم اخلاص اور خلوص میں بحث کرتے ہیں پھر کچھ تعداد اعمال صالح کی طرف اشارہ کریںگے_

اخلاص

اخلاص کا مقام اور مرتبہ تکامل اور سیر و سلوک کے اعلی ترین مرتبے میں سے ایک ہے اور خلوص کی کی وجہ سے انسان کی روح اور دل انوار الہی کا مرکز بن جاتا ہے

۲۴۹

اور اس کی زبان سے علم اور حکمت جاری ہوتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خدا کے لئے چالیس دن خالص اور فارغ ہوجائے تو اس کے دل سے حکمت اور دانائی کے چشمے ابلتے اور جاری ہوجاتے ہیں_(۴۳۶)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنے اعمال کو خدا کے لئے خالص بجالاتے ہیں اور اپنے دلوں کو اس لئے کہ اللہ تعالی کی وجہ کا مرکز پاک رکھتے ہیں_(۴۳۷)

حضرت زہراء علیہا السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خالص عبادت اللہ تعالی کی طرف بھیجے اللہ تعالی بھی بہترین مصلحت اس پر نازل فرماتا ہے_(۴۳۸)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے '' بندوں کا پاک دل اللہ تعالی کی نگاہ کا مرکز ہوتا ہے جس شخص نے دل کو پاک کیا وہ اللہ تعالی کا مورد نظر قرار پائیگا_(۴۳۹)

پیغمبر علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور اس نے اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ '' خلوص اور اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جس شخص کو میں دوست رکھتا ہوں اس کے دل میں یہ قرار دے دیتا ہوں_(۴۴۰)

خلوص کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ کم از کم اس کا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی عبادت کو شرک اور ریاء اور خودنمائی سے پاک اور خالص کرے اور عبادت کو صرف خدا کے لئے انجام دے خلوص کی اتنی مقدار تو عبادت کے صحیح ہونے کی شرط ہے اس کے بغیر تو تقرب ہی حاصل نہیں ہوتا عمل کی قیمت اور ارزش اس کے شرک اور ریاء سے پاک اور خالص ہونے پر موقوف ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم تمہاری شکل اور عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے_(۴۴۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں بہترین شریک ہوں جو شخص کسی دوسرے کو عمل میں شریک قرار دے (تو تمام عمل کو اسی

۲۵۰

کے سپرد کر دیتا ہوں) میں سوائے خالص عمل کے قبول نہیں کرتا _(۴۴۲) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم لوگوں کو قیامت میں ان کی نیت کے مطابق محشور کرے گا_(۴۴۳)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خوش نصیب ہے وہ شخص جو عبادت اور دعا کو صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے اور اپنی آنکھوں کو ان میں مشغول نہ کرے جو آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی وجہ سے جو اس سے کان پر پڑتا ہے اللہ تعالی کے ذکر کو فراموش نہ کرے اور جو چیزیں دوسروں کو دی گئی ہیں ان پر غمگین نہ ہو_(۴۴۴)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے_ ''عمل میں خلوص سعادت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے_(۴۴۵) اللہ تعالی کے ہاں وہ عبادت قبول ہوتی ہے اور موجب قرب اور کمال ہوتی ہے جو ہر قسم کے ریاء اور خودپسندی اور خودنمائی سے پاک اور خالص ہو اور صرف اور صرف خدا کے لئے انجام دی جائے عمل کی قبولیت اور ارزش کا معیار خلوص اور اخلاص ہے جتنا خلوص زیادہ ہوگا اتناہی عمل کامل تر اور قیمتی ہوگا_ عبادت کرنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں_

ایک وہ لوگ جو اللہ تعالی کے عذاب اور جہنم کی آگ کے خوف اور ڈر سے عبادت بجا لاتے ہیں_

دوسرے وہ لوگ ہیں جو بہشت کی نعمتوں اور آخرت کے ثواب کے لئے اوامر اور نواہی کی اطاعت کرتے ہیں ان کا اس طرح کا عمل اس کے صحیح واقع ہونے کے لئے تو مضر نہیں ہوتا ان کا ایسا عمل صحیح اور درست ہے اور موجب قرب اور ثواب بھی ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں لوگوں کو راہ حق کی ہدایت اور ارشاد اور تبلیغ کے لئے غالبا انہیں دو طریقوں سے استفادہ کیا گیا ہے بالخصوص پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء اللہ خداوند عالم کے عذاب سے ڈرتے تھے اور جزع اور فزع کیا کرتے تھے اور بہشت اور اس کی نعمتوں کے لئے شوق اور امید کا اظہار کیا کرتے تھے_

۲۵۱

تیسرے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانہ کے لئے اللہ تعالی کی پرستش اور عبادت کیا کرتے ہیں اس طرح کا عمل بجا لانا اسکے منافی نہیں جو عمل کے قبول ہونے میں خلوص شرط ہے اسی واسطے احادیث میں لوگوں کو عمل بجالانے کی ترغیب اور شوق دلانے میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے تا کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالی کے احکام کی اطاعت کریں بلکہ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے عبادت میں انہماک اور کوشش کرنے کا سبب یہ بتلایا ہے کہ کیا ہم اللہ کے شکر گزار بندے قرار نہ پائیں(افلا اکون عبدا شکورا)گر چہ ان تینوں کے اعمال قابل قبول واقع ہوتے ہیں لیکن تیسرے قسم کے لوگ ایک خاص امتیاز اور قیمت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں خلوص زیادہ ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں وہ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم وہ ہے جو آخرت کے ثواب حاصل کرنے کے لئے خدا کی عبادت کرتے ہیں_ ان لوگوں کا کردار تاجروں والا ہے دوسری قسم وہ ہے جو جہنم کے خوف سے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں یہ اطاعت اور عبادت غلاموں اور نوکر والی ہے_ تیسری قسم وہ ہے جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانے کے ادا کرنے کے لئے عبادت کرتے ہیں یہ عبادت آزاد مردوں والی عبادت ہے_(۴۴۶)

چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو نفس کی تکمیل اور روح کی تربیت کے لئے عبادت کرتے ہیں اس طرح کا م قصد بھی اس خلوص کو جو عبادت کے صحیح ہونے میں شرط ضرر نہیں پہنچاتا_

پانچویں قسم اللہ کے ان ممتاز اور مخصوص بندوں کی ہے کہ جنہوں نے خدا کو اچھی طرح پہنچان لیا ہے اور جانتے ہیں کہ تمام کمالات اور نیکیوں کا منع اور سرچشمہ خدا ہے اس کی عبادت کرتا ہے اور چونکہ وہ اللہ کی بے انتہا قدرت اور عظمت کی طرف متوجہ ہیں اور اس ذات کے سوا کسی اور کو موثر نہیں دیکھتے صرف اسی ذات کو پرستش اور عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اسی لئے خدا کو دوست رکھتے ہیں اور اس کی قدرت اور

۲۵۲

عظمت کے سامنے خضوع اور خشوع کرتے ہیں اور یہ اخلاص اور خلوص کا اعلی ترین درجہ اور مرتبہ ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عبادت کرنے والے تین گروہ ہیں_ ایک گروہ ثواب کی امید میں عبادت کرتا ہے یہ عبادت حریص لوگوں کی ہے کہ جن کی غرض طمع ہوتا ہے دوسرا گروہ وہ ہے جو دوزخ کے ڈر سے عبادت کرتا ہے_ یہ عبادت غلاموں کی عبادت ہے کہ خوف اس کا سبب بنتا ہے لیکن میں چونکہ خدا کو دوست رکھتا ہوں اسی لئے اس کی پرستش اور عبادت کرتا ہوں یہ عبادت بزرگوں اور اشراف لوگوں کی ہے اس کا سبب اطمینان اور امن ہے اللہ تعالی فرماتا ہے (و ہم فزع یومئسذ امنون کہ وہ قیامت کے دن امن میں ہیں_ نیز اللہ فرماتا ہے ''قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله و یغفر لکم ذنوبکم _(۴۴۷) امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' اے میرے مالک_ میں تیری عبادت نہ دوزخ کے خوف سے اور نہ بہشت کے طمع میں کرتا ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کے تجھے عبادت اور پرستش کے لائق جانتا ہوں_(۴۴۸)

یہ تمام گروہ مخلص ہیں اور ان کی عبادت قبول واقع ہوگی لیکن خلوص اور اخلاص کے لحاظ سے ایک مرتبے میں نہیں ہیں بلکہ ان میں کامل اور کاملتر موجود ہیں پانچویں قسم اعلی ترین درجہ پر فائز ہے لیکن یہ واضح رہے کہ جو عبادت کے اعلی مرتبہ پر ہیں وہ نچلے درجہ کو بھی رکھتے ہیں اور اس کے فاقد نہیں ہوتے بلکہ نچلے درجے کے ساتھ اعلی درجے کو بھی رکھتے ہیں_ اللہ تعالی کے مخلص اور صدیقین بندے بھی اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں اور ان کے لطف اور کرم کی امید رکھتے ہیں اللہ تعالی کی نعمتوں کے سامنے شکر ادا کرتے ہیں اور معنوی تقرب اور قرب کے طالب ہوتے ہیں لیکن ان کی عبادت کا سبب فقط یہی نہیں ہوتا اور چونکہ وہ خدا کی سب سے اعلی ترین معرفت رکھتے ہیں اسی لئے اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں یہ اللہ تعالی کے ممتاز اور منتخب بندے ہیں مقامات عالیہ کے علاوہ نچلے سارے درجات رکھتے ہیں کیونکہ جو انسان تکامل

۲۵۳

کے لئے سیر و سلوک کرتا ہے جب وہ اعلی درجے تک پہنچتا ہے تو نچلے درجات کو بھی طے کر کے جاتا ہے_

اب تک جو ذکر جو ذکر ہوا ہے وہ عبادت میں خلوص اور اخلاص تھا لیکن خلوص صرف عبادت میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ عارف انسان تدریجا ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ خود اور اس کا دل اللہ تعالی کے لئے خالص ہو جاتا ہے اور تمام غیروں کو اپنے دل سے اس طرح نکال دیتا ہے کہ اس کے اعمال اور حرکات اور افکار خداوند عالم کے ساتھ اختصاص پیدا کر لیتے ہیں اور سوائے اللہ تعالی کی رضایت کے کوئی کام بھی انجام نہیں دیتا اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور خدا کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتا_ اس کی کسی سے دوستی اور دشمنی صرف خدا کے لئے ہوا کرتی ہے اور یہ اخلاص کا اعلی ترین درجہ ہے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کا عمل اور علم محبت اور بغض کرنا اور نہ کرنا بولنا اور ساکت رہنا تمام کا تمام خدا کے لئے خالص ہو_(۴۴۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص کی محبت اور دشمنی خرچ کرنا اور نہ کرنا صرف خدا کے لئے ہو یہ ان انسانوں میں سے ہے کہ جس کا ایمان کامل ہوتا ہے_(۴۵۰) امام جعفر صادق علیہ السلام نے ''فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے جس بندے کے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز نہ رکھی ہو تو اس کو اس سے اور کوئی شریف ترین چیز عطا نہیں کی_(۴۵۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہاں ہے وہ دل جو اللہ تعالی کو بخش دیا گیا ہو اور اس کی اطاعت کا پیمان اور عہد بناندھا گیا ہو_(۴۵۲)

جب کوئی عارف انسان اس مرتبے تک پہنچ جائے تو خدا بھی اس کو اپنے لئے خالص قرار دے دیتا ہے اور اپنی تائید اور فیض اور کرم سے اس کو گناہوں سے محفوظ

۲۵۴

کر دیتا ہے اس طرح کا انسان مخلص پہچانا جاتا ہے اور مخلص انسان اللہ تعالی کے ممتاز بندوں میں سے ہوتے ہیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے خالص قرار دے دیا ہے_(۴۵۳)

قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' یقینا و ہ خالص ہوگیا ہے اور رسول اور پیغمبر ہے_(۴۵۴)

اللہ تعالی کے خالص بندے ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں کہ شیطن ان کو گمراہ کرنے سے ناامید ہوجاتا ہے قرآن کریم شیطن کی زبان نقل کرتا ہے کہ اس نے خداوند عالم سے کہا کہ '' مجھے تیری عزت کی قسم کہ میں تیرے تمام بندوں کو سوائے مخلصین کے گمراہ کروں گا اور مخلصین کے گمراہ کرنے میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے_(۴۵۵) بلکہ اخلاص کے لئے روح اور دل کو پاک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور عبادت کرنے میں کوشش اور جہاد کرنا ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''عبادت کا نتیجہ اور ثمر اخلاص ہوتا ہے_(۴۵۶)

جیسے کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ چالیس دن تک عبادت اور ذکر کو برابر بجا لانا دل کے صفا اور باطنی نورانیت اور مقام اخلاص تک پہنچنے کے لئے سبب اور موثر اورمفید ہوتاہے نہ صرف ایک دفعہ بلکہ تدریجا اور اخلاص کے باطنی مراحل طے کرتے رہنے سے ایسا ہو سکتا ہے_

۲۵۵

کچھ نیک اعمال

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کو تکامل تک پہچانے اور قرب اور ارتقاء کے مقام تک لے جانے کا راستہ صرف اور صرف وحی الہی اور شرعیت کی پیروی کرنے میں منحصر ہے اور یہی وہ راستہ ہے کہ جسے انبیاء علیہم السلام نے بیان کیا ہے او رخود اس پر عمل کیا ہے اور اسے واجبات اور مستحبات سے بیات کیا ہے یہی عمل صالح ہے_ عمل صالح یعنی واجبات اور مستحبات جو اسلام میں بیان کئے گئے ہیں اور انہیں قرآن اور احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں لکھا گیا ہے آپ انہیں معلوم کر سکتے ہیں اور ان پر عمل کر کے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہم یہاں پر ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں_

اول: واجب نمازیں

قرب الہی اور سیر و سلوک معنوی کے لئے نماز ایک بہترین سبب اور عامل ہے_ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر پرہیزگار انسان کے لئے نماز قرب الہی کا وسیلہ ہے_(۴۵۷)

معاویہ بن وھب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ بہترین وسیلہ جو بندوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے اور خدا اسے دوست رکھتا ہے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا

۲۵۶

اللہ کی معرفت کے بعد میں نماز سے بہتر کوئی اور کسی چیز کو وسیلہ نہیں پاتا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی کے نیک بندے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے مجھے جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کی سفارش ہے_(۴۵۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کے نزدیک نماز محبوب ترین عمل ہے_ انبیاء کی آخری وصیت نماز ہے_ کتنا ہی اچھا ہے کہ انسان غسل کرے اور اچھی طرح وضوء کرے اس وقت ایک ایسے گوشہ میں بیٹھ جائے کہ اسے کوئی نہ دیکھے اور رکوع اور سجود میں مشغول ہوجائے جب انسان سجدے میں جائے اور سجدے کو طول دے تو شیطن داد اور فریاد کرتا ہے کہ اس بندے نے خدا کی اطاعت کی اور سجدہ کیا اور میں نے سجدے کرنے سے انکار کر دیا تھا_(۴۵۹)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک بندہ کی خدا کے نزدیک ترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سجدے میں ہوتا اس واسطے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ واسجد و اقترب_(۴۶۰)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو آسمان سے اس پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد ملائکہ گھیرا کر لیتے ہیں ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اگر یہ نماز کی ارزش اور قیمت کو جانتا تو کبھی نماز سے روگردانی نہ کرتا_(۴۶۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے '' جب مومن بندہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خداوند عالم نماز سے فارغ ہونے تک اس کی طرف نگاہ کرتا ہے اور آسمان سے اللہ تعالی کی رحمت اسے گھیر لیتی ہے اور فرشتے اس کے اردگرد گھیرا ڈال دیتے ہیں خداوند اس پر ایک فرشتے کو معین کر دیتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ اے نماز پڑھتے والے اگر تو جان لیتا کہ تو کس کی توجہ کا مرکز ہے اور کس سے مناجات کر رہا ہے تو پھر تو کسی دوسری چیز کی طرف ہرگز توجہ نہ کرتا اور کبھی یہاں سے باہر نہ جاتا_(۴۶۲)

۲۵۷

نماز میں حضور قلب

نماز ایک ملکوتی اور معنوی مرکب ہے کہ جس کی ہر جزو میں ایک مصلحت اور راز مخفی ہے_ اللہ تعالی سے راز و نیاز انس محبت کا وسیلہ اور ارتباط ہے_ قرب الہی اور تکامل کا بہترین وسیلہ ہے_ مومن کے لئے معراج ہے برائیوں اور منکرات سے روکنی والی ہے_ معنویت اور روحانیت کا صاف اور شفاف چشمہ ہے جو بھی دن رات میں پانچ دفعہ اس میں جائے نفسانی آلودگی اور گندگی سے پاک ہو جاتا ہے اللہ تعالی کی بڑی امانت اور اعمال کے قبول ہونے کا معیار اور ترازو ہے_

نماز آسمانی راز و اسرار سے پر ایک طرح کا مرکب ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں روح اور زندگی ہو_ نماز کی روح حضور قلب اور معبود کی طرف توجہہ اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع ہے_ رکوع اور سجود قرات اور ذکر تشہد اور سلام نماز کی شکل اور صورت کو تشکیل دیتے ہیں_ اللہ تعالی کی طرف توجہ اور حضور قلب نماز کے لئے روح کی مانند ہے_ جیسے جسم روح کے بغیر مردہ اور بے خاصیت ہے نماز بھی بغیر حضور قلب اور توجہ کے گرچہ تکلیف شرعی تو ساقط ہو جاتی ہے لیکن نماز پڑھنے والے کو اعلی مراتب تک نہیں پہنچاتی نماز کی سب سے زیادہ غرض اور غایت اللہ تعالی کی یاد اور ذکر کرنا ہوتا ہے_ خداوند عالم پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ '' نماز کو میری یاد کے لئے برپا کر_( ۴۶۴)

قرآن مجید میں نماز جمعہ کو بطور ذکر کہا گیا ہے یعنی '' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو موجب نماز جمعہ کے لئے آواز دی جائی تو اللہ تعالی کے ذکر کی طرف جلدی کرو_(۴۶۵)

نماز کے قبول ہونے کا معیار حضور قلب کی مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز میں حضور قلب ہوگا اتنا ہی نماز مورد قبول واقع ہوگی_ اسی لئے احادیث میں حضور قلب کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے_ جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے ''کبھی آدھی نماز قبول ہوتی ہے اور کبھی تیسرا حصہ اور کبھی چوتھائی اور کبھی پانچواں حصہ

۲۵۸

اور کبھی دسواں حصہ_ بعض نمازیں پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نماز پڑھنے والے کے سرپر مار دی جاتی ہے_ تیری نماز اتنی مقدر قبول کی جائیگی جتنی مقدار تو خدا کی طرف توجہ کرے گا_( ۴۶۶) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا اس کی طرف توجہہ کرتا ہے اور اپنی توجہ کو اس سے نہیں ہٹاتا مگر جب تین دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھی اس سے اعراض اور روگردانی کر لیتا ہے_(۴۶۷)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سستی اور بیہودہ حالت میں نماز نہ پڑھو_ نماز کی حالت میں اپنی فکر میں نہ رہو کیونکہ تم خدا کے سامنے کھڑے ہو_ جان لو کہ نماز سے اتنی مقدار قبول ہوتی ہے جتنی مقدار تیرا دل اللہ کی طرف توجہ کرے گا_(۸ ۴۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو بندہ نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی کی طرف متوجہ ہو تو خدا اس سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے کس کا ارادہ کیا ہے اور کس کو طلب کرتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو خالق اور حفاظت کرنے والا ڈھونڈتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو بخشنے والا طلب کرتے ہو؟ جب کہ میں کریم اور بخشنے والوں سے زیادہ کریم اور بخشنے والا ہوں اور سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہوں میں تمہیں اتنا ثواب دونگا کہ جسے شمار نہیں کیا سکے گا میری طرف توجہ کر کیونکہ میں اور میرے فرشتے تیری طرف توجہ کر رہے ہیں اگر نمازی نے خدا کی طرف توجہ کی تو اس دفعہ اس کے گزرے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہیں اور اس نے دوسری دفعہ خدا کے علاوہ کسی طرف توجہہ کی تو خداوند عالم دوبارہ اسے سابقہ گفتگو کی طرح خطاب کرتا ہے اگر اس نے نماز کی طرف توجہ کر لی تو اس کا غفلت کرنے والا گناہ بخشنا جاتا ہے اور اس کے آثار زائل ہوجاتے ہیں اور اگر تیسری دفعہ نماز سے توجہہ ہٹا لے خدا

۲۵۹

پھر بھی پہلے کی طرح اسے خطاب کرتا ہے اگر اس دفعہ نماز کی توجہ کر لے تو اس دفعہ اس کا غفلت والا گناہ بخش دیا جاتا ہے اور اگر چوتھی دفعہ نماز سے توجہ ہٹا لے تو خدا اور اس کے ملائکہ اس سے توجہ ہٹا لیتے ہیں_ خدا اس سے کہتا ہے کہ تجھے اسی کی طرف چھوڑے دیا ہے کہ جس کی طرف توجہ کر رہا ہے_(۴۶۹)

نماز کی ارزش اور قیمت خدا کی طرف توجہ اور حضور قلب سے ہوتی ہے توجہ اور حضور قلب کی مقدار جتنا اسے باطنی صفا اور تقرب الی اللہ حاصل ہوتا ہے_ بلا وجہ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء کرام نماز کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے_ امیر المومنین علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو آپ کے بدن پر لزرہ طاری ہوجاتا تھا اور آپکے چہرے کا رنگ بدن جاتا تھا_

آپ سے تبدیلی اور اضطراب کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ''کہ اس وقت اس امانت کے ادا کرنے کا وقت آپہنچا ہے جو آسمان اور زمین پر ڈالی گئی تھی لیکن وہ ڈرگئے تھے اور اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن انسان نے اس بڑے امانت کے اٹھانے کو قبول کر لیا تھا میرا خوف اس لئے ہے کہ آیا میں اس امانت کو ادا کر لونگا یا نہ؟(۴۷۰)

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے احوال میں کہا گیا ہے کہ نماز کے وقت ان کے چہرے کا رنگ زرد اور سرخ ہو جاتا تھا اور نماز کی حالت میں اس طرح ہوتے تھے کہ گویا اس گفتگو کر رہے ہیں کہ جسے وہ دیکھ رہے ہیں_(۴۷۱)

امام زین العابدین کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا اور ایک حقیر بندے کی طرح خدا کے سامنے کھڑے ہوتے تھے آپ کے بدن کے اعضاء خدا کے خوف سے لرزتے تھے اور آپ کی نماز ہمیشہ و داعی اور آخری نماز کی طرح ہوا کرتی تھی کہ گویا آپ اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھ سکیں گے_(۴۷۲)

حضرت زہرا علیہا السلام کے بارے میں ہے کہ نماز کی حالت میں سخت خوف کی

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

عِتْرَتِي‏ عَدَدَ نُقَبَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ تِسْعَةٌ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ فَمَنْ تَمَسَّكَ بِهِمْ فَقَدْ تَمَسَّكَ بِحَبْلِ اللَّهِ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ وَ اتَّبِعُوهُمْ فَإِنَّهُمْ مَعَ الْحَقِّ وَ الْحَقَّ مَعَهُمْ "

یعنی میرےبعد میری عترت میں سے امام بنی اسرائیل کے نقیبوں کی تعداد کے مطابق ہوں گے( یعنی بارہ عدد جن میں سے نو عدد حسین کی نسل سے ہوں گے۔ خدا نے ان سب کو میرا علم وفہم عطا فرمایا ہے، بس ان کو تعلیم نہ دو کیونکہ یقینا وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں ان کی پیروی کرو کیونکہ قطعا یہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے۔

یہ ہے ایک مختصر حصہ ان دلائل میں سے جن کو اکابر علماۓ عامہ واہل تسنن نے ہمارے ائمہ اثناعشر علیہم السلام کے علم و عصمت کے ثبوت میں نقل کیا ہے اور جن سے عقلی دلیلوں کو اور بھی قوت پہنچتی ہے۔

اسماۓ آئمہ قرآن میں کیوں نہیں آۓ

بعض بہانہ ساز اور حیلہ جو اشخاص نے ایک شبہ ایجاد کر کے عوام میں پھیلایا ہے کہ اگر شیعوں کے بارہ امام برحق ہیں تو دین کی سند محکم یعنی قرآن مجید کے اندر ان کے نام کیوں نہیں بتاۓ گئے ہیں؟ کل شب کی نشست میں بھی برادران عزیز نے مجھ سے یہی سوال کیا لیکن چونکہ وقت کافی گزر چکاتھا لہذا میں نے جواب آج کے اوپر اٹھا رکھا۔ اب جب کہ آپ حضرات کے اصرار سے منبر پر آگیا ہوں اور موقع بھی مناسب ہے تو پروردگار کیتوفیق و تائید سے یہ اشکال رفع کرتا ہوں۔

پہلی گذارش یہ ہےکہ چند کوتاہ فہم لوگوں کو ایک بہت بڑی غلط فہمی دامن گیر ہے کہ ان کے خیال میں جملہ امور کے جزئیات بھی قرآن مجید میں مذکور ہیں، حالانکہ یہ محکم آسمانی کتاب بہت ہی مجمل و مختصر اور خلاصے کے طور پر نازل ہوئی ہے جس میں صرف کلیات امور کا حوالہ دیا گیا ہے اور جزائیات کو اس کے مفسر ومبین یعنی حضرت رسول خدا(ص) کے ذمے چھوڑ دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ نمبر۵۹( حشر) آیت نمبر۷ میں ارشاد ہے:

"وَ ما آتاكُمُ‏ الرَّسُولُ‏ فَخُذُوهُ وَ ما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"

یعنی رسول اللہ(ص) تم کو جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔

لہذا جب ہم طہارت سے دیات تک اسلام کے احکام و قوانین کا جائزہ لیتے ہیں تو ںظر آتا ہے کہ قرآن مجید میں ان کے کلیات کا ذکر تو موجود ہے لیکن ان کی تشریح و تفصیل پیغمبر(ص) نے فرمائی ہے۔

جواب اشکال

اولا جو حضرات اشکال تراشی کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ آئمہ اثناء عشر کے نام اور تعداد قرآن مجید میں نہیں ہے لہذا

۳۶۱

ہم ان کو تسلیم نہیں کرتے اور اطاعت نہیں کرتے۔ ان سے کہنا چاہیئے کہ اگر بات یہی ہو کہ جس چیز کا نام قرآن میں نہ لیا گیا ہو، جس کی صراحت نہ کی گئی ہو، اور جس کے جزئیات کا تذکرہ نہ ہو اس کو ترک کردینا چاہیئے تو آپ حضرات کو خلفاۓ راشدین اور اموی و عباسی وغیرہ خلفاء کی پیروی بھی چھوڑ دینا چاہیئے، اس لئے کہ قرآن مجید کی کسی آیت میں( سوا علی ابن ابی طالب(ع)) کے خلفاۓ راشدین اور خلفاۓ اموی و عباسی کی خلافت،طریقہ اجماع تعیین خلافت میں امت کے اختیار اور ان کے اسماءو تعداد کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں ہے۔ پس آخر کس بنیاد اور کون سے قاعدے کے بنا پر ان کا اتباع کرتے ہوۓ ان کے مخالفین کورافضی، مشرک اور کافر کہا جاتا ہے؟ ان سب سے قطع نظر اگر قاعدہ یہی ہو کہ قرآن مجید میں جس چیز کو وضاحت اور نام موجود نہ ہو اس کو ترک کردینا ضروری ہے تو آپ حضرات کو تمام احکام و عبادات کا تارک بن جانا چاہیئے کیونکہان میں سے کسی ایک کے تفصیلات و جزئیات کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔

قرآن میں نماز کے رکعات و اجزاء کا تذکرہ نہیں

نمونے کے طور پر ہم اس وقت صرف نماز کا جائزہ لیتے ہیں جو فروع دین میں سب سے مقدم اور با تفاق فریقین رسول اللہ(ص) نے اس کے لئے بہت سخت سفارش اور تاکید فرمائی ہے، یہاں تک کہ ارشاد فرمایا:

"الصلاة عمود الدين‏، إن قبلت قبل ما سواها، و إن ردت رد ما سواها."

یعنی نماز دین کا ستون اور محافظ ہے، اگر نماز قبول ہوگئی تو باقی اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر یہ ردکر دی گئی تو دیگر اعمال بھی رد کردۓ جائیں گے۔

ظاہر ہے کہ قرآن مجید میں نمازوں کے رکعات کی تعداد اور حمد و سورہ، رکوع وسجود اور ذکر تشہد وغیرہ کے ساتھ ان کی ادائیگی کے طریقے کا قطعا کوئی ذکر نہیں آیا ہے لہذا جب ان کے اجزائ کا تذکرہ قرآن میں نہیں ہے تو نمازوں کو بھی ترک کردینا چاہیئے۔حالانکہ بات یہ نہیں ہے، قرآن مجید میں صرف کلمہ صلوۃ مجمل طور سے آیا ہے جیسے اقم الصلوۃ اقام الصلوۃ اور اقیموا الصلاۃ ۔ لیکن عدد رکعات کی تعیین اور دوسرے ارکان و واجبات اور مستحبات کی تفصیل اس کے شارح یعنی حضرت رسول خدا(ص) کے بیان سے معلوم ہوتی ہے۔

اسی طرح سے دین کے دوسرے احکام و قوانین ہیں جن کے کلیات تو قرآن مجید میں مذکور ہیں لیکن ان کے جزئیات و شرائط اور دیگر ہدایات پیغمبر(ص) نے بیان فرماۓ ہیں۔

پس جس طرح قرآن مجید میں کلمہ صلوۃ مجمل ہے لیکن اس کے معنی کی تشریح، اعداد رکعات کی تعیین اور دیگر اجزاء ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟کی تو ضیح رسول اللہ(ص) نے فرمائی ہے اور ہم اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں، اسی طرح خاتم الانبیاء کے بعد امامت و خلافت کا بیان بھی قرآن مجید میں مختصر ہے اور ارشاد ہوا ہے و اولی الامر منکم، یعنی اطاعت رسول(ص) کے بعد صاحبان امر کی

۳۶۲

اطاعت کرو۔

بدیہی چیز ہے کہ کہ مسلمان مفسرین چاہے شیعہ ہوں یا سنی اولی الامر کی تفسیر اپنی جانب سے نہیں کرسکتے،جیسے کہ لفظ صلوۃ کا مطلب ا پنی راۓ اور خواہش سے بیان نہیں کرسکتے کیونکہ فریقین کے یہاں معتبر حدیث ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: "من فسر القرآن برانه فمقعده فی النار " یعنی جو شخص اپنی راۓ سے قرآن کیتفسیر کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم کے اندر ہے) لہذا مجبورا ہر صاحب عقل مسلمان کو مبین قرآن یعنی حضرت رسول خدا صلعم کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ آیا آں حضرت(ص) سے اولی الامر کے معنی میں کوئی حدیث مروی ہے یا نہیں اور آں حضرت(ص) سے اس بارے میں کوئی سوال ہوا ہے یا نہیں؟ اگر سوال کیا گیا ہے اور پیغمبر(ص) نے کوئی جواب دیا ہے تو ساری امت پر واجب ہے کہ عادت اور تعصب کو چھوڑ کر آن حضرت(ص) کے بیان اور ارشاد کی اطاعت و پیروی کرے۔میں ایک عرصہ دراز سے فریقین ( شیعہ و سنی) کی تمام تفاسیر اور کتب اخبار کا مطالعہ کررہا ہوں۔ لیکن آج تک مجھ کو کوئی حدیث ایسی نہیں ملی، جس میں رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہو کہ اولی الامر سے امراء و سلاطین مراد ہیں۔ البتہ فریقین کی کتابوں میں اس کے برعکس کافی روایتیں موجود ہیں جن میں نقل کیا گیا ہے کہ رسول خدا(ص) سے اولی الامر کے معنی دریافت کئے گئے تو آں حضرت(ص) نے بہت واضح جوابات دئے اور فرمایا کہ اولی الامر سے مراد علی اور ان کے گیارہ فرزند ہیں۔ میں اس وقت محفل کی گنجائش دیکھتے ہوۓ نمونے کے طور پر چند حدیثیں پیش کررہا ہوں اور آپ کو متوجہ کرتا ہوں کہ اکابر علمائے شیعہ کے طرق سے جو متواتر احادیث و عترت طاہرہ اور اصحاب خاص کے واسطوں سے منقول ہیں ان سے ہرگز استدلال نہیں کروں گا۔ بلکہ مشتے نمونہ از خردار سے صرف انہیں بکثرت حدیثوں میں سے چند کے ذکر پر اکتفا کروں گا جو حضرات اہل سنت والجماعت کے طریقوں سے مروی ہیں اور فیصلہ صاحبان علم وعقل اور اہل اںصاف کے ضمیر صاف اور قلب روشن کے اوپر چھوڑ دوں گا۔

اولی الامر سے علی(ع) اور آئمہ اہل بیت مراد ہیں

۱۔ ابو اسحق شیخ الاسلام حموینی ابراہیم بن محمد فرائد السمطنین میں کہتے ہیں کہ جو کچھ رسول اللہ(ص) سے ہم کو پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ آیہ شریفہ میں اولی الامر سے علی ابن ابی طالب اور اہل بیت رسول(ص) مراد ہیں۔

۲۔ عیسی بن یوسف ہمدانی ابوالحسن اور سلیم بن قیس سے اور وہ امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا میرے شریک وہ لوگ ہیں جن کی اطاعت کو خداۓ تعالی نے اپنی اطاعت سے ملحق قرار دیا ہے اور ان کے حق میں اولی الامر منکم نازل فرمایا ہے تم کو چاہیئے کہ ان کے کلام سے باہر نہ جاؤ، ان کے فرمانبردار ہو اور ان کے احکام و اوامر کی اطاعت کرو۔ جب میں نے یہ ارشاد سنا تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ(ص) مجھ کو خبر دیجئے

۳۶۳

----------- فرمایایاعلی انت اولهم ( یعنی اے علی تم ان سے پہلے ہو۔ مترجم)

۳۔ محمد بن موسی شیرازی جو اجلہ علماۓ اہل سنت میں سے تھے رسالہ اعتقادات میں روایت کرتے ہیں کہ جس وقت رسول خدا(ص) نے امیرالمومنین علیہ السلام کو مدینے میں اپنا خلیفہ بنایا تو آیہ شریفہ اوالی الامر منکم علی ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئی۔

۴۔ خواجہ بزرگ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت کے باب۳۸ میں جس کو اسی آیت کے ساتھ مخصوص کیا ہے مناقب سے نقل کرتے ہیں کہ تفسیر مجاہد میں ہے۔

"ان هذه الآیة نزلت‏ في‏ أمير المؤمنين‏ علی علیه السلام حين‏ خلّفه رسول اللّه صلی الله علیه و آله وسلم بالمدينة "

یعنی یہ آیت امیرالمومنین علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی جس وقت پیغمبر(ص) نے ان کو مدینے میں اپنا خلیفہ قرار دیا۔

آپ نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) آپ مجھ کو عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنا رہے ہیں؟ آں حضرت(ص۹ نے فرمایا : "اما ترضی ان تکون منی بمنزلةهرون من موسی " آیا تم راضی نہیں ہو اس پر کہ تمہاری مجھ سے وہی منزلت ہو جو ہارون کو موسی سے تھی؟ یعنی جس طرح ہارون کو خدا نے موسی کو خلیفہ قرار دیا تھا اسی طرح تم کو میرا خلیفہ قرار دیا۔

۵۔ اور شیخ الاسلام حموینی سے خود انہیں کی سند کے ساتھ سلیم بن قیس ہلالی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا خلافت عثمان کے زمانے میں نے دیکھا کہ مہاجرین و اںصار میں سے کچھ لوگ بیٹھے ہوۓ اپنے اپنے فضائل بیان کررہے ہیں اور علی(ع) ان کے درمیان خاموش بیٹھے ہیں لوگوں نے عرض کیا یا علی(ع) آپ نے بھی کچھ فرمائیے۔ آپ نے فرمایا آیا تم نہیں جانتے ہو کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے اور میرے اہل بیت(ع) سب ایک نور تھے جو خلقت آدم سے چودہ ہزار سال قبل قدرت خداوندی کے درمیان سعی کرتا تھا، پس جب آدم کو خلق فرمایا تو اس نور کو ان کے صلب میں قرار دیا، یہاں تک کہ وہ زمین پر آۓ۔ پھر نوح کی پشت میں رکھا کشتی کے اندر اور ابراہیم کے صلب میں آگ کے درمیان، اسی طرح باپوں اور ماؤں کے پاک اصلاب اور پاکیزہ رحموں میں ودیعت کرتا رہا جن میں سے کسی کی خلقت حرام سے نہیں تھی؟ سابقین بدر احد نے کہا، ہاں ہم نے رسول اللہ(ص) سے یہ جملے سنے ہیں۔ فرمایا تم کو خدا کی قسم کیا تم جانتے ہو کہ خدانے قرآن مجید میں سابق کو مسبوق پر فضیلت دی ہے اور اسلام میں کسی نے مجھ پر سبقت نہیں کی ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں۔ فرمایا میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں، آیا تم جانتے ہو کہ جس وقت آیہ شریفہ" وَ السَّابِقُونَ‏ السَّابِقُونَ‏ أُولئِكَ الْمُقَرَّبُونَ‏ "( یعنی جن لوگوں نے ایمان میں پیش قدمی کی حقیقتا وہی مقربین بارگاہ ہیں۔ سورہ نمبر۵۶(واقعہ) آیت نمبر۱۰ نازل ہوئی تو لوگوں نے رسول اللہ(ص) سے دریافت کیا کہ سابقین کون ہیں اور یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

" أنزلها الله‏ تعالى في الأنبياء و أوصيائهم، فانا أفضل أنبياء الله و رسله و على بن ابى طالب أفضل الأوصياء"

خداۓ عزوجل نے یہ آیت انبیاء اور ان کے اوصیائ کے حق میں نازل فرمائی ہے، پس میں تمام انبیاء و مرسلین سے بہتر ہوں اور علی(ع) میرے وصی

۳۶۴

تمام اوصیاء سے بہتر ہیں؟ اس کے بعد فرمایا تم کو خدا کی قسم آیا جانتے ہو کہ جس وقت آیت"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ‏ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ." (یعنی اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور صاحبان امر کی جوتم میں سے ہیں۔) سورہ نمبر۴(نسائ) آیت نمبر۶۲ اور آیت:

" إِنَّما وَلِيُّكُمُ‏ اللَّهُ‏ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ‏"

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تمہارے امور میں اولیٰ بہ تصرف اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور وہ مومنین ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔ سورہ نمبر۵(مائدہ) آیت نمبر۶۰)( مفسرین خاصہ و عامہ کا اتفاق ہے کہ رکوع میں زکوۃ دینے والے علی علیہ السلام تھے۔

اور آیت "وَ لَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَ لا رَسُولِهِ وَ لَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً "(یعنی انہوں نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے علاوہ کسی کو اپنا ہمراز دوست نہیں بنایا۔ سورہ نمبر۹(توبہ) آیت نمبر۱۶) نازل ہوئی تو خداۓ تعالی نے اپنے پیغمبر(ص) کو حکم دیا کہ اولی الامر کو پہنچوا دیں اور سب کے سب سامنے اسی طرح ولی کی تفسیر کردیں جس طرح نماز و زکوۃ اور حج کی تفسیر کی ہے۔ پس آں حضرت(ص) نے مجھ کو غدیر خم میں لوگوں پر نصب فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ایہاالناس در حقیقت جب خداوند عالم نے مجھ کو رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا تو میں دل تنگ ہو اور خیال کیا کہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے۔ پھر فرمایا:

" أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ مَوْلَايَ وَ أَنَا مَوْلَى الْمُؤْمِنِينَ وَ أَنَا أَوْلَى‏ بِهِمْ‏ مِنْ أَنْفُسِهِمْ"

آیا تم جانتے ہو کہ خداۓ عزوجل میرا مولا اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان پر ان کی جانوں سے زیادہ اولی بتصرف ہوں، سب نے عرض کیا۔ ہاں یا رسول اللہ(ص) پس آں حضرت(ص) نے میرا ہاتھ تھام کے فرمایا:

" مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ هَذَا مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ "

یعنی جس کا میں مولا ہوں پس علی بھی اس کے مولا ہیں۔ خداوند دوست رکھ اس کو جو علی کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے۔

یہ روایت بھی ان اخبار کی موئد ہے جن کو میں گذشتہ راتوں کے خصوصی جلسوں میں پیش کرچکا ہوں کہ لفظ مولیٰ کے معنی اولی بتصرف کے ہیں) سلمان نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ(ص) علی(ع) کی ولایت کیسی ہے؟ "وَلَایة عَلِی كَوَلَايَتِي مَنْ كُنْتُ أَوْلَى بِهِ مِنْ نَفْسِهِ فَعَلِيٌّ أَوْلَى بِهِ مِنْ نَفْسِهِ "(یعنی علی کی ولایت مثل میری ولایت کے ہے جس شخص پر میںاس کے نفس سے اولی بتصرف ہوں پس علی(ع) بھی اس پر اس کے نفس سے اولی بتصرف ہیں۔ پھر آیت ولایت:

" الْيَوْمَ‏ أَكْمَلْتُ‏ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً"

(یعنی آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تمہارے اوپر ا پنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوا) پس پیغمبر(ص) نے فرمایا:"اللَّه اكبر على إكمال الدين، و اتمام النّعمة، و رضا الرّبّ برسالتي، و ولاية عليّ‏ بعدي‏" ( یعنی بزرگ ہے خدا جس نے دین کو کامل اور نعمت کو تمام کیا اور میری رسالت اور میری بعد علی کی ولایت پر راضی ہوا( یہ روایت بھی ان روایتوں کی تائید کرتی ہے جن کو میں گذشتہ شبوں کی خالص نشستوں میں عرض کرچکا ہوں کہ کلمہ مولی اولی بتصرف کے معنی میں ہے) لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے سامنے اپنے اصیاء کو بیان فرمائیے! آں حضرت(ع)

۳۶۵

نے فرمایا :

" عَلِيٌّ أَخِي وَ وَزِيرِي وَ وَارِثِي وَ وَصِيِّي وَ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي وَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِي ثُمَّ ابْنِي الْحَسَنُ ثُمَّ ابْنِي الْحُسَيْنُ ثُمَّ تِسْعَةٌ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ وَاحِدٌ بَعْدَ وَاحِدٍ الْقُرْآنُ مَعَهُمْ وَ هُمْ مَعَ الْقُرْآنِ لَا يُفَارِقُونَهُ‏ وَ لَا يُفَارِقُهُمْ حَتَّى يَرِدُوا عَلَيَّ الحَوْضِ."

یعنی میرے اوصیاء سے مراد علی(ع) ہیں جو میرے بھائی میرے وارث میرے وصی اورمیرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں، پھر میرے فرزند حسن(ع) پھر حسین(ع) کی اولاد سے نو افراد ہیں قرآن ان کے ساتھ ہے اور یہ قرآن کے ساتھ ہیں نہ یہ قرآن سے جدا ہوں گے نہ قرآن ان سے جدا ہوگا یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں۔

اس مفصل روایت کے بعد جس کا ایک حصہ میں نے محفل کا وقت دیکھتے ہوۓ پیش کیا، مناقب؟؟؟؟؟؟ میں روایتیں اور سلیم بن قیس، عیسی بن المسری اور ابن معاویہ کی سندوں سے نقل کرتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد آئمہ اثنا عشر اور اہل بیت طہارت ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اولی الامر کے معنی واضح کرنے کے لئے یہی مذکورہ بالا چند روایتیں کافی ہوں گی۔ رہی آئمہ طاہرین سلام اللہ علیہم اجمعین کی تعداد اور ان کے اسماۓ مقدسہ تو اس سلسلے میں بھی اکابر علماۓ اہل تسنن کے طرق سے مروی چند احادیث کوثبوت میں پیش کرتا ہوں اور ان کثیر و متواتر اخبار و احادیث سے قطع نظر کرتا ہوں جو صرف عترت رسول اور اہل بیت طہارت کے طریق سے منقول ہیں۔

آئمہ اثنا عشر کے اسماء اور تعداد

شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب۷۶ میں فرائد السمطین شیخ الاسلام حموینی سے، وہ مجاہد سے اور وہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ ایک یہودی جس کا نام نعثل تھا، رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اورتوحید کے بارے میں چند مسائل دریافت کئے، آں حضرت(ص) نے ان کے جوابات دۓ( جن کو تنگئی وقت کی وجہ سے نظر انداز کرتا ہوں) تو نعثل اسلام سے مشرف ہوا، اس کے بعد اس نے عرض کیا، یا رسول اللہ(ص) ہر پیغمبر(ص) کا ایک وصی تھا اور ہمارے پیغمبر موسی بن عمران نے یوشع بن نون کے لئے وصیت کی تھی لہذا ہم کو خبر دیجئے کہ آپ کا وصی کون ہے؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

" إنّ وصيي عليّ بن أبي طالب و بعده سبطاي الحسن و الحسين، تتلوه تسعة أئمة من صلب الحسين"

(یعنی میرے وصی علی ابن ابی طالب ہیں ان کے بعد میرے دونوں نواسے حسن(ع) اور حسین(ع) ہیں اور ان کے بعد نو امام حسین(ع) کی نسل سے ہوں گے۔)

نعثل نے عرض کیا، میری التجا ہے کہ ان کے اسماۓ مبارکہ مجھ سے بیان فرمایئے۔ آں حضرت نے فرمایا:

" إذا مضى الحسين‏ فابنه‏ علي‏ فإذا مضى علي فابنه محمد، فإذا مضى محمّد فابنه جعفر، فإذا مضى جعفر فابنه موسى، فإذا مضى موسى فابنه عليّ، فإذا مضى عليّ فابنه محمّد فإذا مضى محمّد فابنه عليّ، فإذا مضى عليّ فابنه الحسن، فإذا مضى الحسن فابنه الحجة محمّد المهديّ فهؤلاء اثنا عشر"

(یعنی حسین(ع) کے بعد ان کے فرزند علی علی کے بعد ان کے فرزند محمد، محمد کے بعد ان کے فرزند جعفر، جعفر کے بعد ان کے فرزند

۳۶۶

علی، علی کے بعد ان کے فرزند حسن(ع) اور حسن(ع) کے بعد ان کے فرزند حجتہ آخر محمد مہدی(عج) ہوں گے۔ پس یہ سب بارہ نفر ہوں گے، باقی نو اماموں کے نام بتانے اور یہ واضح کرنے کے بعد کہ بارہویں امام یعنی حضرت محمد مہدی علیہ السلام تک ہر امام کی وفات کے بعد اس کا بیٹا اپنے باپ کا جانشین اور امام ہوگا، اس روایت میں اور بھی تفصیلات ہیں کہ اس نے ہر ایک کے طریقہ شہادت کے متعلق سوال کیا اور آں حضرت نے جواب دیا۔ اس وقت نعثل نے کہا:

"اشهد ان لا اله الا اللَّه و انّك رسول اللَّه و اشهد انّهم‏ الاوصياء بعدك."

یعنی میں گواہی دیتا ہوں دیتا ہوں کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اور یقینا آپ خدا کے رسول ہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حقیقتا یہ بارہ بزرگوار آپ کے بعد آپ کے اوصیائ ہیں۔ قطعی طور پر جو کچھ آپ نے فرمایا ہے یہی میں نے انبیاۓ ماسبق کی کتابوں میں دیکھا ہے اور حضرت موسی کے وصیت نامے میں بھی یہ سب موجود ہے۔آںحضرت نے فرمایا:

"طُوبَى‏ لِمَنْ‏ أَحَبَّهُمْ‏ وَ طُوبَى لِمَنْ تَمَسَّكَ بِهِمْ وَ وَيْلُ لِمن ابغضهم و خالفهم"

(یعنی بہشت ہے اس کے لئے جو ان حضرات کو دوست رکھے اور ان کی پیروی کرے۔ اور جہنم ہے اس کے لئے جو ان کو دشمن رکھے اور ان کی مخالفت کرے۔ اس موقع پر نعثل نے کچھ اشعار نظم کر کے پڑھے۔ اس نے کہا ؎

صَلَّى الْعَلِيُّ ذُوالْعَلَاعَلَيْكَ يَاخَيْرَالْبَشَرِأَنْتَ النَّبِيُّ الْمُصْطَفَى وَالْهَاشِمِيُّ الْمُفْتَخَرُ

بِكَ اهْتَدَيْنَارُشْدَنَاوَفِيكَ نَرْجُومَاأَمَرَوَ مَعْشَرٍسَمَّيْتَهُمْ أَئِمَّةًاثْنَيْ عَشَرَ

حَبَاهُمُ رَبُّ الْعُلَى ثُمَّ صَفَاهُمْ مِنْ كَدَرٍقَدْفَازَمَنْ وَالاهُمُ وَخَابَ مَنْ عَفَاالْأَثَرَ

آخِرُهُمْ يَشْفِي الظَّمَ أَوَهُوَالْإِمَامُ الْمُنْتَظَرُعِتْرَتُكَ الْأَخْيَارُلِي وَالتَّابِعُونَ مَاأَمَرَ

مَنْ كَانَ عَنْكُمْ مُعْرِضاًفَسَوْفَ يَصْلَى بِسَقَرَ

یعنی درود و رحمت نازل کرے آپ پر خداۓ تعالیٰ اے بہترین افرادبشر۔ آپ برگزیدہ بنی اور قابل عزت و افتخار ہاشمی ہیں۔ آپ حضرات کے ذریعہ خدا نے ہماری ہدایت کی۔ اور آپ کے اور ان بزرگواروں اکے طفیل میں جن کو آپ نے دوازدہ امام بتایا ہے ہم کو احکام الہی حاصل ہوتے ہیں۔ خداۓ عزوجل نے ان کو اپنے فضل و کرم سے ہر عیب وگندگی سے پاک ومنزہ قرار دیا ہے۔ جس نے ان کی محبت اختیار کی وہ یقینا کامیاب ہوا اور جس نے ان سے عداوت رکھی وہ گھاٹے میں رہا ان میں آخر جو امام منتظر ہیں۔ تشنگان علم کو سیراب کریں گے اور آپ کی عترت واہل بیت(ع) میرے اور تمام پیروی کرنے والوں کے لئے باعث و برکت ہیں جو شخص ان سے روگردانی کرے گا وہ عنقریب واصل جہنم ہوگا۔)

نیز خواجہ بزرگ ینابیع المودت باب۷۶ میں مناقب خوارزمی سے وہ واثلہ بن اسقع ابن عمر خاب ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟سے وہ جابر ابن عبداللہ انصاری سے اور ابوالفضل شیبانی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ سے، وہ محمد بن عبداللہ بن ابراہیم شافعی سے اور وہ اپنی سند کے ساتھ جابر انصاری سے وہ رسول اللہ سے اصحاب خاص میں سے تھے، نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک یہودی نے جس کا نام حندل بن مادہ بن جبیر ؟؟؟؟؟؟؟؟ خدمت رسول(ص) میں مشرف ہوکر مسائل توحید دریافت کئے اور شامی جوابات پانے کے بعد کلمہ شہادتین

۳۶۷

زبان پر جاری کر کے مسلمان ہوگیا۔ پھر عرض کیا کہ کل رات میں نے خواب میں موسی بن عمران کی زیارت کی، حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ:

"أسلم‏ على‏ يد محمدخاتم الانبیاء (صلى الله عليه و آله)، و استمسك بالأوصياء من بعده"

یعنی محمد خاتم الانبیاء(ص) کے ہاتھ پر اسلام لا اور ان کے بعد ہونے والے ان کے اوصیائ سے تمسک اختیار کر۔

خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھ کو دین اسلام سے مشرف فرمایا۔ اب یہ بتائیے کہ آپ کے اوصیاء کون ہیں تاکہ ان سے تمسک اختیار کروں؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا، میرے اوصیاء بارہ ہیں۔ اس نے عرض کیا باکل درست ہے میں نے بھی توریت میں اسی طرح پڑھا ہے۔ممکن ہوتو ان کے نام بھی مجھ سے بیان فرمایئے۔

آں حضرت(ص) نے فرمایا

"أوّلهم‏ سيّد الأوصياء أبو الأئمّة علي، ثمّ ابناه الحسن و الحسين "

ان میں سے اول سردار اوصیاء اور پدر ائمہ علی ہیں پھر ان کے دونوں بیٹے حسن(ع) و حسین(ع) ہیں۔

تم ان تینوں ہستیوں سے ملاقات کروگے، پھر جب زین العابدین پیدا ہوں گے تو وہ تمہاری زندگی کا آخری وقت ہوگا۔ اور دنیا سے توشہ دودھ ہوگا۔ پس ان سے تمسک رہنا، کہیں جاہلوں کا جہل تم کو گمراہ نہ کردے اس نے عرض کیا، میں نے توریت اور کتب انبیاء میں علی اور حسن و حسین کے نام ایلیا(ع) اور شبر(ع) و شبیر(ع) دیکھے ہیں، میری تمنا ہے کہ حسین(ع) کے بعد والے اسماء بھیتحریر فرمائیے۔ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

"اذا انقضت‏ مدة الحسين‏ فالإمام ابنه على يلقب بزين العابدين فبعده ابنه محمد يلقب بالباقر فبعده ابنه جعفر يدعى بالصادق فبعده ابنه موسى يدعى الكاظم فبعده ابنه على يدعى بالرضا فبعده ابنه محمد يدعى بالتقى و الزكى فبعده ابنه على يدعى بالتقى و الهادى فبعده ابنه الحسن يدعى بالعسكرى فبعده ابنه محمد يدعى بالمهدى و القائم و الحجة فيغيب ثم يخرج فاذا خرج يملأ الارض قسطا و عدلا كما ملئت جورا و ظلما"

امام حسین علیہ السلام کے بعد نو اماموں کے نام اور القاب بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ان میں کے آخری محمد مہدی قائم وحجت غائب ہوجائیں گے، پھر ظاہر ہوں گے اور ظہور کے بعد زمین کو اسی طرح عدل و داد سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔

"طوبى‏ للصابرين‏ في غيبته، طوبى للمقيمين على محبتهم اؤلئك الذين وصفهم اللَّه في كتابه و قال‏ هُدىً لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ‏ ثم قال اللَّه تعالى ‏أُولئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ‏ الغالبون"

یعنی بہشت ہے ان حضرت کی غیبت میں صبر کرنے والوں کے لئے بہشت ہے ان حضرت کی محبت میں ثابت قدم رہنے والوں کے لئےیہی وہ لوگ ہیں جن کی خداۓ تعالی نے قرآن مجید میںتعریف کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ قرآن ہدایت ہے ان صاحبان تقوی کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ یہی لوگ اللہ کی جماعت والے ہیں آگاہ رہو کہ یقینا اللہ کی جماعت غالب آۓ گی۔

۳۶۸

ابوالموئد موفق بن احمد اخطب الخطبائ خوارزمی مناقب میں اپنیسند کے ساتھابوسلیمان راعی رسول اللہ(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا خداوند عالم نے شب معراج مجھ کو وحی فرمائی کہ اے محمد میں نے اہل زمین کی طرف نظر کی تو ان کے درمیان سے تم کو منتخب کیا اور اپنے ناموں میں سے ایک تمہارے لئے الگ کردیا۔ جس جگہ میرا ذکر کیا جاۓ گا وہاں میرے ساتھ تمہارا بھی ذکر کیا جاۓ گا، میں محمود ہوں اور تم محمد ہو تمہارے بعد میں نے اہل زمین کے درمیان سے علی کو چنا اور اپنے ناموں میں سے ایک نام ان کے لئے علیحدہ کیا، میں اعلیٰ ہوں اور وہ علی ہیں۔ اے محمد(ص) میں نے تم کو، علی(ع) کو، فاطمہ(ع) کو، حسن(ع) اورحسین(ع) کی اولاد میں سے باقی نو اماموں کو اپنے نور سے پیدا کیا اور تم سب کی ولایت کو آسمانوں اور زمینوں کے سامنے پیش کیا، پس جس شخص نے اس کو قبول کیا وہ مومنین میں سے ہے اور جس نے انکار کیا وہ کافروں میں سے ہے۔ اے محمد(ص) کیا تم ان کو دیکھنا چاہیتے ہو؟ میں نے عرض کیا ہاں، تو خطاب ہوا:

" انظر إلى‏ يمين‏ العرش‏ فنظرت فإذا علي و فاطمة و الحسن و الحسين و علي بن الحسين و محمد بن علي و جعفر بن محمد و موسى بن جعفر و علي بن موسى و محمد بن علي و علي بن محمد و الحسن بن علي و محمد المهدي بن الحسن كأنه كوكب دري بينهم "

یعنی عرش ک داہنی جانب دیکھو،جب میں نے دیکھا تو مجھ کو اپنے بارہ جانشینون کے انوار نظر آۓ( آں حضرت(ص) نے نام بنام سب کا ذکر فرمایا، یہاں تک کہ ارشاد فرمایا) اور حسن عسکری کے فرزند محمد مہدی(عج) ان کے اندر ایک چمکتےہوۓ ستارے کے مانند تھے اور اس وقت خداوند عالی نے خطاب فرمایا: "يا محمد هؤلاء حججي على عبادي و هم أوصياؤك "(یعنی اے محمد(ص) یہ سب ہمارے بندوں پر ہماری حجتیں ہیں اور یہی تمہارے اوصیاء ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آئمہ اثنا عشر کے نام اور ان کی تعداد رسول خدا صل اللہ علی و آلہ وسلم سے منقول نہیں ہے ان کے مقابلے میں وقت کو دیکھتے ہوۓ نمونے کے طور پر اکابر علماۓ اہلسنت والجماعت کے معتبر راویوں کی طرف سے یہی روایتیں کافی ہوں گی۔

اور اگر کوئی شخص اس سے زیادہ کا خواہش مند ہو تو کتاب مناقب خوارزمی، ینابیع المودت، سلیمان بلخی حنفی، فرائد السمطین حموینی، مناقب محدث فقیہ ابن مغازلی شافعی، مودۃ القربی، میر سید ہمدانی شافعی، فصول المہمہ مالکی، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی، تذکرۃ سبط ابن جوزی اور دوسرے تمام افاضل و اکابر علماۓ اہل تسنن کی کتابوں کا مطالعہ کرے۔ جن میں رسول اللہ صلعم کے خلفاء اور بارہ اماموں کے بارے میں برادران اہل سنت کے طرق سے سو روایتوں سے زیادہ مروی ہیں علاوہ اخبار و احادیث شیعہ کے جو بیشمار ہیں۔

پیغمبر(ص) کے بعد خلفائ کی تعداد بارہ ہے

میر سید ہمدانی شافعی ہمدانی مودۃ القربی مودت دوازدہم میں عمر ابن قیس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہم ایک

۳۶۹

احاطے کے اندر جس میں عبداللہ ابن مسعود بھی بیٹھے ہوۓ تھے کہ ایک اعرابی آیا اور سئوال کیا کہ تم میں عبداللہ کون ہے؟عبداللہ نے کہا میں ہوں اس نے کہا، اے عبداللہ آیا پیغمبر(ص) نے تم کو اپنے خلفاء کی خبر دی ہے؟ انہوں نے جواب دیا، ہاں پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے: " الخلفاء بعدي اثنا عشر عدد نقباء بني إسرائيل" (یعنی میرے بعد میرے خلفاء بارہ ہوں گے جو نقباۓ بنی اسرائیل کی تعداد تھی۔) نیز شعبی سے انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے عبداللہ شبیہ سے اسی روایت کو نقل کیا ہے اور جریر سے انہوں نے اشعث سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے، نیز عبداللہ ابن عمر سے، انہوں نے جابر ابن سمرہ سے، اور ان سب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا: "الخلفاء بعدي اثنا عشر عدد نقباء بني إسرائيل" اور عبدالملک کی روایت میں ہے کہ فرمایا : کلهم من بنی هاشم ( یعنی جو بارہ خلیفہ میرے بعد نقباۓ بنی اسرائیل کی تعداد کے مطابق ہوں گے وہ سب بنی ہاشم سے ہوں گے، مذکورہ کتابوں کے علاوہ دوسرے بڑے بڑے علماۓ اہل سنت نے بھی اپنی کتابوں میں موقع موقع سے متفرق طور پر اس بارے میں کثرت سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ چنانچہ خواجہ بزرگ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۷۷ کو اسی موضوع سے مخصوص کردیا ہے اور اس سلسلے میں شیخیں ترمذی، ابوداؤد،مسلم، سید علی ہمدانی اور شعبی وغیرہ سے کافی حدیثیں نقل کی ہیں، منجملہ ان کے کہتے ہیں یحیی بن حسن فقیہ نے کتاب عمدہ میں بیس طریقوں سے نقل کیا ہے کہ"ان الخلفاء بعد النبی صلی الله علیه وآله اثناعشرخلیفةکلهم من قریش "( یعنی یقینا رسول خدا صلعم کے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے اور بخاری نے تین سلسلوں سے، مسلم نے نو سلسلوں، ترمذی نے ایک سلسلے سے اور حمیدی نے تین سلسلوں سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا، میرے بعد خلیفہ اور امام بارہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے اور ان میں سے بعض روایتوں میں ہےکلهم من بنی هاشم (یعنی یہ سب بنی ہاشم ہوں گے، یہاں تک کہ ص۴۴۶ میں لکھتے ہیں کہ بعض محققین علماء ( یعنی علماۓ اہلسنت) نے کہا کہ رسول اللہ(ص) کے بعد بارہ خلفاء کی امامت پر دلالت کرنے والی حدیثیں بکثرت طرق کے ساتھ مشہور ہیں جن سے انسان کو پتہ چلتا ہے کہ اپنے خلفاء کی تعداد معین کر کے رسول اللہ(ص) نے اپنے اہلبیت اور عترت میں سے بارہ اماموں کو مراد لیا ہے اور ان احادیث کو اںحضرت(ص) کےبعد ہونے والے خلفاۓ صحابہ سے مطابق کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ پیغمبر(ص) نے بارہ کا عدد معین فرمایا ہے( اور یہ صرف چار ہی تھے) سلاطین بنی امیہ پر بھی ان کا انطباق نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ بارہ نفر سے زیادہ تھے (یعنی تیرہ تھے) علاوہ اس کے وہ سوا عمرابن عبدالعزیز کے سب کے سب ظالم تھے( عمرابن عبدالعزیز کا ظلم ثابت کرنے کے لئے بھی اسی قدر کافی ہے کہ اس نے خلافت غصب کی اور امام وقت علیہ السلام کو خانہ نشین بنایا مولف) اور وہ بنی ہاشم میں سے بھی نہیں تھے جیسا کہ آں حضرت(ص) کا ارشاد ہے"کلهم من بنی هاشم" ترجمہ گذر چکا) اور شاہان بنی عباس پر بھی اطلاق نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کی تعداد بھی بارہ سے کہیں زائد تھی (یعنی پینتیس ہوۓ ہیں) اور انہوں نے عترت رسول کے حق میں ہدایت خداوندی کی بھی قطعا کوئی رعایت نہیں کی، جیسا کہ سورہ ( شوری و آیت ۲۲ میں ارشاد ہے"قُلْ‏ لا أَسْئَلُكُمْ‏ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‏" (یعنی اے رسول اللہ کہہ دو کہ میں تم سے تبلیغ کا کوئی اجر نہیں چاہتا سوا اس کے کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو اور حدیث کسائ بھی۔

۳۷۰

پس لازمی طور پر رسول خدا(ص) سے مروی ان تمام اخبار و احادیث کو عترت رسول اور اہل بیت طاہرین(ع) میں سے بارہ اماموں پر حمل کرنا ہوگا( جیسا کہ فرقیہ امامیہ اثنا عشریہ کا عقیدہ ہے۔

" لانّهم‏ كانوا اعلم‏ اهل زمانهم و اجلّهم و اورعهم و اتقاهم و اعلاهم نسبا و افضلهم حسبا و اكرمهم عند اللَّه و كان علومهم من آبائهم متّصلا بجدّهم و بالوراثة و اللّدنيّة كذا عرفهم اهل العلم و التحقيق و التّوفيق "

یعنی اس لئے کہ یہ حضرات اپنے اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے زیادہ عالم جلیل القدر، متقی و پرہیزگار، نسب میں بالاتر، فضائل و کمالات میں افضل اور اللہ کے نزدیک بزرگ وبرتر تھے، اور ان کے علوم ان کو اپنے آباؤ اجداد سے پہنچے ہیں جن کا سلسلہ ان کے جد(رسول اللہ) سے ملا ہوا ہے۔ یہ علوم کے وارث بھی ہیں اور عالم علم لدنی بھی ارباب علم و تحقیق اور صاحبان کشف و توفیق نے انبزرگواروں کی تعریف اسی طریقے سے کی ہے اور اس عقیدے کی تائید کہ اپنے بعد خلفاء کی تعداد معین کرنے سے پیغمبر(ص) کی مراد آپ کی عترت واہلبیت میں سے دوازدہ امام تھے، حدیث ثقلین بھی کررہی ہے(جو فریقین شیعہ و سنی کے روایات صحیحہ کے مطابق حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے) جس میں آں حضرت(ص) نے فرمایا:

" إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ‏ الثَّقَلَيْنِ‏ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَبَداً"

یعنی حقیقتا میں تمہارے درمیان دو نفیس وبزرگ چیزیں چھوڑتا ہوں، خدا کی کتاب اور ا پنی عترت یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرےپاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں اگر تم لوگ ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو پھر کبھی قطعا گمراہ نہ ہوگے۔

نیز اور بہت سی حدیثیں جو اس کتاب میں درج کی گئی ہیں اسی مطلب کی موئد ہیں( ینابیع المعودۃ کا حوالہ تمام ہوا۱۲)

یہ تھا علماۓ عامہ و اہل تسنن کے عقائد ونظریات کا مختصر سا اظہار تا کہ لوگ آپ کےسامنے حقیقت کو مشتبہ نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ شیعہ رافضی ہیں اور غلو کرتے ہیں، بلکہ آپ حضرات سمجھ لیجئے کہ علم اور انصاف اگر دونوں مل جائیں تو شیعہ ہو یا سنی نتیجے میں سب کو یہی پاکیزہ نظریات قائم کرنا پڑیں گے۔ علاوہ ان اخبار کثیرہ کے جو ان حضرات آئمہ اثنا عشر سلام اللہ علیہم اجمعین کے منصب امامت کے ثبوت میں نقل کئے ہیں خود ان کے خالص نظریات بھی آپ کی رہنمائی کریں گے، جس سے حضرات حاضرین بزم اور اسی طرح ان حضرات کو جو اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں معلوم ہوجاۓ گا کہ شیعہ قوم قرآن مجید کے حک اور رسول خدا کے فرمان سے عترت واہلبیت پیغمبر(ص) میں سے آئمہ اثنا عشر کی اطاعت و پیروی کرتی ہے اور ان ذوات مقدسہ کے اسماۓ گرامی، بارہ کی تعداد اور ان کےبلندصفات شیعوں ہی کے اخبار و احادیث میں تواتر کے ساتھ منقول نہیں ہیں بلکہ بڑے بڑے علماۓ اہل سنت کی معتبر کتابوں میں بھی مختلف مقامات پر کثرت سے درج کئے گئے ہیں۔

جاہلانہ عادت اور تعصب اختیار حق سے مانع ہے

البتہ ہمارے اور علماۓ عامہ کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ حضرات اخبار و احادیث کو نقل کرتے ہیں جو آیتیں اس جلیل القدر خاندان کی شان میں نازل ہوئی ہیں ان کو اور ان کی تفسیر کو درج کرتے ہیں اور ان پر اظہار بھی کرتے ہیں لیکن عادت کے ماتحت

۳۷۱

بغیر دلیل و برہان کے اپنے اسلاف کی پیروی کئے جاتے ہیں۔

اور بعض کو تعصب زبان سے تصدیق نہیں کرنے دیتا۔ لہذا بے محل نہ ہوگا کہا جاۓ کہ ان کاعلمی عروج و ارتقاء باکل بے نتیجہ رہا۔ اور عادت وتعصب کا جذبہ ان کی قوت عاقلہ پر غالب آگیا بلکہ کبھی کبھیتو رسول خدا صلعم سے منقول حدیثوں کی ایسی بار وتاویلیں کرتے ہیں جو برودت میں برف سے بھی بدرجہا بڑھی ہوئی ہوتی ہیں اور جن کو دیکھ کر صاحبان عل و تحقیق حیرت میں پڑجاتے ہیں۔

طلب حق میں جاحظ کا بیان

اگر حقیقت اور واقعیت سے تعصب و عناد کا پردہ ہٹا دیا جاۓ تو علم وعقل اور اںصاف کی رہنمائی میں( باوجود تعصب کے حق واضح اور آشکار نظر آۓ گا۔ چنانچہ صاحب کتاب البیان والتبیین ابوعثمان عمرو بن بحر جاحظ بصری معتزلی متوفی سنہ۲۵۵ جو اہل سنتکے علماۓ محققین اور اعیان متعصبین متقدمین میں سے ہیں) انہیں حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور خواجہ بزرگ حنفی نے ینابیع المودۃ باب۵۲ میں ان کے بعض کلمات کو درج کیا ہے۔ کہتے ہیں:

" ان الخصومات نقصت العقول السلیمةوافسدت الاخلاق الحسنةمن المنازعةفی فضل اهل البیت علی غیرهم فالواجب علیناطلب الحق واتباعةوطلب مرادالله فی کتابه وترکالتعصب والهوی وطرح تقلید السلف والاساتید والاٰباء"

یعنی در حقیقت اہل بیت کے اوپر دوسروں کو فضیلت دینے میں نزاع کرنے کی وجہ سے خصومتوں نے سلیم عقلوں کو ناقص اور اچھے اخلاق کو فاسد بنادیا ہے۔ پس ہم پر طلبحق اور اس کا اتباع، قرآن مجید میں خدا کی مراد معلوم کرنا۔ تعصب اور ہواۓ نفسانی کوترک کرنا اور اپنے اسلاف و اساتذہ و آباؤ اجداد کیتقلید سے دور رہنا واجب ہے۔

لیکن افسوس کا مقام ہے کہ باوجودیکہ ایسے نظریات بے اختیار ان کے قلم سے جاری ہوتے رہتے ہیں پھر بھی عادت اور تعصب ان کے علم و عقل پر غالب ہے اور اپنے اسلاف کی پیروی میں حقیقت کے برخلاف راستہ اختیار کر کے ارباب عقل کو حیرت اورتعجب کا موقع دیتے ہیں اپنی عادت اور تعصب و عناد کے زیر اثر نزاع و مخاصمت پر آمادہ رہتے ہیں ہواۓ نفسانی کی بنا پر ناحق دوسروں کو اہل بیت طہارت پر مقدم کرکے نصوص قرآنی اور احادیث معتبرہ کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور بغیر کسی مضبوط دلیل و برہان کے آنکھ بند کر کے اسلاف کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں۔

مثلا محض جہالت اور تعصب کی بناء پر ابوحنیفہ یا مالک یا دوسرے فقہاء اور عالم نما اشخاص کی پیروی تو کرتے ہیں جو صرف قیاس و راۓ کے حامل اور علم سے بے بہرہ تھے لیکن فقیہہاہل بیت طہارت(ع) حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے۔ حالانکہ خود حضرت اہلتسنن کے اکابر علماء جیسے ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ یہ لوگ رسول اللہ کے نمایندگان خاص یعنی اہل بیت عصمت وطہارت کے خرمن علم و دانش کے خوشہ چین تھے( جیسا کہ اسی کتاب میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے)

۳۷۲

شیعوں کا مںصفانہ اقرار

لیکن ہم شیعہ چونکہ خداۓ قادر و یکتا سے ڈرتے ہیں اور موت و روز قیامت پر یقین رکھتے ہیں لہذا جب ہم دلائل و براہین دیکھتے ہیں جن کو اکابر علماۓ اہل سنت والجماعت نے بھی اپنی معتبرکتابوں میں درج کیا ہے تو عادت اور جانبداری پر غالب آکے جو کچھ رسول اللہ(ص) نے ارشاد فرمایا ہے اور جو کچھ خدا نے حکم دیا ہے قلب وزبان سے اس کا اقرار اعتراف کرتے ہیں نیز اسی کتاب مقدس اور عترت طاہرہ کی پیروی کرتے ہیں جس کو آں حضرت(ص) نے ہمارے سپرد کیا ہے اور امید کرتے ہیں کہ اسیذریعے سے ہم سعادت ابدی پر فائز ہوں گے، کیونکہ رسول اللہ(ص) نے ابدی سعادت اور ںجات اسی جلیل القدر خاندان کی محبت اور متابعت میں اقرار دی ہے چنانچہ حافظ ابن عقدہ احمد بن محمد کوفی ہمدانی جو علماۓ عامہ میں سے ہیں اپنے علماۓ مشائخ سے اور وہ عبدالقیس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا، میں نے بصرہ میں ابوایوب اںصاری سے ایک مفصل حدیث سنی، یہاں تک کہ انہوں نے کہا، میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ فرمایا، میں نے شب معراج ساق عرش پر نظر کی تودیکھا ہوا ہے"لا إله إلّا اللّه محمّد رسول اللّه- صلّى اللّه عليه و آله- أيّده‏ بعليّ‏ و نصرتهبه "(یعنی نہیں ہے کوئی معبود سوا للہ کے، محمد اللہ کے رسول ہیں جن کی تائید ونصرت میں نے علی کے ذریعے کی ہے، اس کے بعد لکھا ہوا تھا" الحسن والحسین وعلی و علی وعلی ومحمد و محمدوجعفر و موسی والحسن والحجہ " ( یعنی حسن وحسین، تین علی، و محمد، جعفر، موسی، حسن اور حضرت حجۃ۔) میں نے عرض کیا خداوندا یہ کون ہیں؟ وحی ہوئی یہ تمہارےبعدتمہارے اوصیاء ہیں"فطوبى‏ لمحبّهم‏ و الويل لمبغضهم" ( یعنی بہشت ہے ان کے دوستوں کے لئے اور جنہم ہے ان کے دشمنوں کے لئے۔( اس موقع پر میں نے نواب صاحب سے مخاطب ہو کے کہا جناب نواب صاحب! آپ کے کل رات والے اشکال کا جواب ہوگیا اور آپ مطمئن ہوگئے یا ابھی اور اضافہ کروں؟)

نواب: ہم آپ کے انتہائی ممنون ہیں کہ ہم نے پورا پورا فیض حاصل کیا اور روشن ضمیر لوگوں کے دلوں میں اب کوئی شبہ اور اشکال باقی نہیں ہے۔ خدا آپ کو اور ہم کو جزاۓ خیر عطا فرماۓ۔ سب نے مل کے آمین کہی اور خود میں نے بھی پورےخلوص کے ساتھ آمین کہی کیونکہ میں صرف خداۓ تعالی ہی سے اجر اور جزا کی امید رکھتا ہوں کہ محمد وآل محمد سلام اللہ علیہم اجمعین ک طفیل میں ہم پر لطف و عنایت کی نظر فرماۓ اور امید ہے کہ جس طرح آج تک ہم کو اپنے بے شمار مراحم و الطاف سے فیض یاب رکھا ہے اسی طرح روز قیامت تک رہے گا۔

بقیہ تقریر کا خلاصہ

اس کے بعد سلطان الواعظین مدظلہم نے مسلمانوں کے باہمی اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر زور دیا ہے اور آپس میں لڑائیوں اور شیعوں کے خلاف نفرت و بدگمانی پھیلانے والوں کی رشیہ دوانیوں سے بچنے اور ہوشیار رہنے کی تلقین کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اہم اخلاقی تعلیم کو قبول کرنے سے کسی ہوشمند اور سلیم الطبع انسان کو انکار نہیں ہوسکتا لہذا بنظر اختصار تفصیل کو نظر انداز کر کے ترجمے کو تمام کرتا ہوں اور بارگاہ مجیب الدعوات

۳۷۳

میں دست بدعا ہوں کہ بطفیل محمد و آل محمد علیہم الصلوۃ والسلام میری اس دینی خدمت کو شرف قبولیت عطا فرماۓ، مولف و ناشر اور خاکسار مترجم کو اجر جزیل عنایت فرماۓ اور ہمارے برادران اسلامی کو توفیق کرامت عطا فرماۓ کہ اس حقیقت نما کتاب کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں اور غور کریں۔

این دعا از من و از جملہ جہان آیین بادوَ السَّلامُ عَلى‏ مَنِ‏ اتَّبَعَ‏ الْهُدى .

ادم الحجاج والزائر ین عاصی محمد باقر الباقری الجوراسی عفی عنہ

قصبہ جوراس۔ ضلع بارہ بنکی۔ ( یو۔ پی)

وہ کتابیں جن سے حوالے دے گئے

قرآن مجید۔نہج البلاغہ۔

تفسیر کبیر مفاتیح الغیب، امام فخرالدین رازی، تفسیر کشاف جار اللہ زمخشری، تفسیر انوار لتنزیل، قاضی بیضاوی، تفسیر اتقان جلال الدین سیوطی، تفسیر درالمنثور، جلال الدین سیوطی۔ تفسیر نظام الدین نیشاپوری۔ تفسیر رموز لاکنوز امام عبدالرزاق الرسعی۔ تفسیر کبیر محمد بن جریر الطبری۔ تفسیر کشف البیان، امام احمد ثعلبی، تفسیر القرآن ، فاضل نیشاپوری ۔ تفسیر اسباب المنزول، واحدی۔ تفسیر نزول القرآن۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، تفسیر کشف البیان، امام احمد ثعلبی، تفسیر عرائب القرآن، فاضل نیشاپوری تفسیر اسباب المنزول ، واحدی، تفسیر نزول القرآن، حافظ ابونعیم اصفہانی، تفسیر شواہد التنزیل، حاکم ابوالقاسم حسکانی، تفسیر التبصرہ کواشی، تفسیر مانزل من القرآن فی علی، حافظ ابوبکر شیرازی، تفسیر روح المعانی سید شہاب الدین آلوسی۔ تفسیر فتح القدیر ، قاضی شوکانی، اثبات الوصیہ علی بن الحسین مسعودی، الامامۃ والسیاسۃ ، محمد بن مسلم بن قتیبہ اسد الغابہ، ابن اثیر جزری۔ استیعاب ، حافظ ابن عبدالبر قرطبی احیاء العلوم، امام غزالی، امالی حافظ ابو عبداللہ۔ اربعین۔ سید جمال الدین شیرازی، اوسط ، طبرانی، اعتقادات، محمد بن مومن شیرازی۔ اسنی المطالب، محمد حوت بیروتی۔ اسعاف الراغبین محمد علی الصبان المعری، ابطال الباطل قاضی روز بہان شیرازی۔ احیاء المیت بفضائل اہل البیت ، جلال الدین سیوطی۔ اربعین طوال ، محدث شام۔ اخبار الزمان، مسعودی ازالہ الخفاء۔ جلال الدین سیوطی، اوسط مسعودی۔ ارشاد الساری، شہاب الدین قسطلانی، الف باء ابو الحاج اندلسی، اسنی المطالب ، محمد بن محمد جزری، اصابہ، ابن حجر عسقلانی، احادیث المتواترہ مقبلی، بعیتہ الوعاظ فی طبقات اللغویین،جلال الدین سیوطی،بحر الاسانید، حافظ ابومحمد سمرقندی، تاریخ المدینہ علامہ سمہودی، تاریخ الخلفاء، جلال الدین سیوطی، تاریخ بغداد، ابوبکر خطیب بغدادی، تاریخ الامم و الملوک طبری، تاریخ کبیر، ابن کثیر دمشقی، تاریخ ابن خلدون، تاریخ ابن خلکان، تاریخ یعقوبی، تاریخ ۔ اعثم کوفی، تاریخ۔ نکارستان ،تاریخ بلادزی، تاریخ، واقدی، تاریخ حافظ ابرو۔ تاریخ، روضتہ الصفا، محمد خاوند شاہ۔ تاریخ ابوالفداء ۔ تاریخ ابن مردویہ۔ کامل التاریخ ۔ ابن اثیر تلخیص الستدرک ، مذہبی۔ تذکرہ الموضوعات، مقدسی، تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی تہذیب الاسماء واللغات، یحی بن شرف النودی۔ تاویل مختلف الحدیث۔ ابن قتیبہ دینوری توضیح الدلائل علی ترجیح الفضائل ، سید شہاب الدین۔ تذکرہ خواص الامہ سبط ابن جوزی۔ تذکرۃ الحفاظ، ذہبی، جواہر المفضیہ فی طبقات الحنفیہ ، عبدالقادر قریشی ۔ جمع بین الصحیحین ، حمیدی، جمع بین الصحاح الستہ، عبدی، جامع الاصول، ابن اثیر جزری، جامع الصغیر، وجمع الجوامع ، سیوطی ۔ جواہر العقیدین، نورالدین سمہودی۔ حلیتہ الاولیاء۔ حافظ ابونعیم

۳۷۴

اصفہانی۔ حیاۃ الحیوان، دمیری ،خصایص العلوی، امام نسائی خصائص العلویہ ابوالفتح نطتری، خصایص الکبری، سیوطی، خطط ، مقریزی درالمنظم، ابن طلحہ حلبی، دلائل النبوۃ، حافظ ابوبکر بیہقی، ذخیرۃ المعاد، عبدالقادر عجیلی، ذخائر لعقبی، امام الحرم حلبی، رسالۃ الاظہار المتناثرہفی الاحادیث المتواترہ، سیوطی ، ریاض النضرہ۔ محب الدین طبری، ریاض المنضرہ الذہبی۔ روضتہ المناظرفی اخبار الادائل والاواخر و ربیعر الابرار ذمخشری، زاد المعاد فی ہدی خیر العباد، ابن القیم۔ الزینیہ ، ابوحاتم رازی ۔زین الفتی۔ شرح سورہ ہل اتی ، و سنن و دلائل بہیقی سنن، ابن ماجہ قزوینی، سفر السعادات ، فیروز آبادی، سیرۃ الحلبیہ ، علی ابن برہان الدین شافعی سر العالمین، امام غزالی ۔ سیرۃ النبویہ ابو محمد عبدالملک بن ہشام، سبل الہدی ولرشاد، محمد بن یوسف شامی، سراج المنیر ، شرح جامع الصغیر و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید شرح دیوان ، میبدی۔ شرف النبی، خرگوشی، شرح عقایدنسفی، ملا سعد تفتازانی ۔ شرح التجرید ۔ مولوی علی قوشجی ۔ شرح صحیح بخاری، کرمانی،شرح صحیح مسلم، نودی شرح الشفاء قاضی عیاض، شرح المقاصد، فاضل تفتازانی۔ شرح المواقف سید علی شریف جرجانی، شرح الدائرۃ ، صلاح الدین ۔ شفا الصدور، ابن سبع مغربی، شرف المصطفی، حافظ ابوسعید ، شرف الموئد، شیخ یوسف بنہانی بیرونی ۔ صحیح بخاری ، صحیح مسلم، صحیح ترمذی، صحیح ابوداؤد، صحیح ابن عقدہ، صواعق محرقہ، ابن حجر مکی، طبقات ، محمد بن سعد،طبقات الکبیر،واقدی، طرق الحکمۃ ابن قیم جوزیہ، طبقات المشائخ ۔ عبدالرحمن سلمی، عقد الفرید، ابن عبدویہ ، عروۃ الوثقی، علائ الدولہ، عمدۃ القاری، بدرالدین حنفی، الغدیر، حافظ ابو حاتم رازی، فصول المہمہ ، ابن صباغ مالکی، فرائد السمطین، شیخ الاسلام حموینی الفصل فی الملل و الںحل، ابن حزم اندلسی، فتح الباری، ابن حجر عسقلانی، فرقتہ الناجیہ، قطیفی فصل الخطاب، خواجہ پارسا، فردوس الاخبار، ابن شیرویہ ، فیض القدیر، عبدالرؤف المنادی، فضائل العترۃ الطاہرہ، ابوالسعادات ، فواید المجموعتہ فی الاحادیث الموضوعہ، قاضی محمد شوکانی۔ قرۃ العینین جلال الدین سیوطی، قاموس اللغہ،فیروزآبادی، کنزالاعمال، محمد بن جریر طبری، کنوز الدقائق ، منادی مصری، کنزالعمال ،مولوی علی متقی ہندی، کنز البراہین، خضری، کفایت الطالب، محمد گنجی شافعی، کشف الغیوب ، قطب الدین شیرازی، کشفہ اللغمہ ، قاضی روزبہان، کوکب منیز شرح جامع الصغیر شمس الدین علقمی، کتاب الامتاع فی احکام السماع ، جعفر بن ثعلب شافعی۔ کتاب الدرایہ فی حدیث الولایہ، ابوسعید سجستانی، کتاب الغرر، ابن خزانہ، کتاب الامر، محمد بن ادریس شافعی ، کتاب الاسلام فی العم والآباء سید الانام، علامہ سید محمد بن سید رسول بزرنجی، کتاب الموافقہ ، ابن السمان، کتاب الاتحاف یجب الاشراف، شبرادی شافعی، کتاب الولایہ، ابن عقدہ حافظی، الآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ، سیوطی، لسان المیزان، ابن حجر عسقلانی، مودۃ القربی، میر سید علی ہمدانی، مطالب السئوال محمد بن طلحہ شافعی، مسند الہمام احمد ابن حنبل، مستدرک ، حاکم ابوعبداللہ نیشاپوری،ملل و نحل ، شہرستانی، مناقب ، خطیب خوارزمی، مناقب ابن مغازلی شافعی، مروج الذہب ، مسعودی، مواقف ، قاضی عبدالرحمن لاسچی شافعی، مرقاۃ شرح بر مشکوۃ ، ملا علی قاری ہروی ،معالم العترۃ النبوۃ، حافظ عبدالعزیز، مفتاح النجا، شیخ محمد بدخشانی،معجم البلدان یاقوت حموی، المجاس، نصر بن محمد سمرقندی، مصابیح السنہ، حسین بن مسعود بغوی، الموضوعات، ابوالفرج ابنجوزی، مرج البحرین، ابوالفرج اصفہانی،معجم الکبیر، سلیمان بن احمد طبرانی المنظم، ابن جوزی، المخ الملکیہ، ابن حجر، منحول فی علم الاصول ابوحامد غزالی،

۳۷۵

منہاج الاصول، قاضی بیضاوی ، مہناج السنہ، ابن تیمیہ، میزان الاعتدال ، ذہبی، معرفتہالصحابہ حافظ ابونعیم اصفہانی، مقتل الحسین، خطیب خوارزمی، مجمع الزوائد، حافظ علی ہیثیم، مقاصد الحسنہ، شمس الدین سخاوی، محاضرات تاریخ الامم السلامیہ شیخ محمد حضرمی نہایت اللغہ ، ابن اثیر، صلاح الدین صفدی، ہدایت لمرتاب، حاج احمد آفندی، ہدایت السعدائ، شہاب الدین دولت آبادی، ہدایہ ، برہان الدین حنفی۔

تفسیر علی بن ابراہیم قمی، مجمع البحرین، شیخ فخرالدین طریحی ۔ اصول کافی، محمد بن یعقوب کلینی، تاریخ حبیب السیر غیاث الدین خواند میر، عیون اخبار الرضا، صدوق ابن بابویہ قمی، تاریخ روضہ لصفانا مری، رضاقلی خان، ہدایت بحر الانساب، سید محمد عمیدی الدین نجفی، سفارت نامہ خوارزم، ہدایت ، احتجاج ، احمد بن علی طبری، مصباح المتہجد شیخ طوسی، تاریخ ؟؟؟ العجم، فرصت الددولہ شیرازی، عمدۃ المطالب فیک انساب آل ابی طالب و ہزار مزار شیرازی، دائرۃ المعارف قرن نوزدہم فرانس ، تمدن العرب، ڈاکٹر گوسادلولون فرانسیی الابطال، مسٹر کارلائل انگلستانی سیاستہ الحسینیہ، ڈاکٹر جوزف فرانسیسی ۔ دیوان لاناٹور۔کامیل ۔ فلاماریون فرانسیسی ۔ مرگ و اسرار۔فلامادیون۔

فقط

بالخیر

۳۷۶

فہرست

شروع حصہ دوم۲

آٹھویں نشست ۲

شب جمعہ یکم شعبان المعظم سنہ۱۳۴۵ھ ۲

اسلام اور ایمان میں فرق ۳

مراتب ایمان ۴

اہل سنت قرآنی قواعد کے خلاف شیعوں کو مطعون کرتے ہیں ۶

شیعہ علی(ع) اور اہلبیت(ع) کی پیروی کیوں کرتے ہیں اور ائمہ اربعہ کی تقلید کیوں نہیں کرتے ۷

بحکم رسول(ص) امت کو عترت کا اتباع کرنا چاہیئے۷

انسان کو اندھی تقلید مناسب نہیں ۱۱

انسان کو علم و عقل کا پیرو ہونا چاہئیے۱۲

پیغمبر(ص) نے خلفا کی تعداد بارہ بتائی ہے ۱۳

امام جعفر صادق علیہ السلام کے مراتب ۱۵

مذہب جعفری کا ظہور۱۶

عظیم درد دل اور عترت سے بے اعتنائی۱۸

تاثر بالائے تاثر۱۹

شیعہ صحابہ اور ازواج رسول(ص) پر طعن کیوں کرتے ہیں؟۲۰

۳۷۷

صحابہ پر طعن و ایراد موجب کفر نہیں ۲۱

صحابہ کے نیک و بد اعمال رسول اللہ(ص) کے پیش نظر تھے۲۵

واقعہ عقبہ اور قتل رسول(ص) کا ارادہ۲۸

پیغمبر(ص) نے جھوٹوں کی پیروی کا حکم نہیں دیا ہے ۲۹

سقیفہ میں اصحاب کی مخالفت ۲۹

ابوبکر و عمر سے سعد بن عبادہ کی مخالفت ۳۰

بصرے میں علی علیہ السلامسے طلحہ و زبیر کا مقابلہ۳۰

معاویہ اور عمرو عاص علی علیہ السلام کو سب و شتم کرتے تھے۳۰

اصحابی کالنجوم کے اسناد ضعیف ہیں ۳۱

صحابہ معصوم نہیں تھے۳۲

خفیہ جلسے میں دس(۱۰) نفر صحابہ کی شراب نوشی۳۳

صحابہ کی عہد شکنی۳۵

قرآن میں صادقین سے مراد محمد(ص) و علی(ع) ہیں ۳۵

حدیث غدیر اور اس کی نوعیت ۳۶

علمائے عامہ میں سے حدیث غدیر کے معتبر راوی ۳۸

طبری، ابن عقدہ اور ابن حداد۳۹

عمر کو جبرئیل کی نصیحت ۴۰

۳۷۸

اقتدائے اصحاب کی حدیث غیر معتبر ہے ۴۱

بعض صحابہ ہوائے نفس کے تابع اور حق سے منحرف ہوگئے۴۱

صحابہ کی عہد شکنی پر امام غزالی کا قول ۴۲

سرّ العالمین امام غزالی کی کتاب ہے ۴۴

ابن عقدہ کی حالت ۴۴

طبری کی موت ۴۵

امام نسائی کا قتل ۴۵

لفظ مولیٰ میں اشکال ۴۶

اولی بہ تصرف کے معنی اور آیہ بلغ۴۷

غدیر خم میں ۴۸

آیہ اکملت لکم دینکم۴۸

مولی کے معنی میں سبط ابن جوزی کا عقیدہ۵۰

مولیٰ کے معنی میں ۵۱

ابن طلحہ شافعی کا نظریّہ۵۱

رحبہ میں حدیث غدیر سے علی(ع) کا احتجاج ۵۲

چوتھا قرینہ۵۳

الست اولی بکم من انفسکم۵۳

۳۷۹

رسول اللہ(ص) کے سامنے حسان کے اشعار۵۵

صحابہ کی وعدہ شکنی۵۷

احد حنین اور حدیبہ میں صحابہ کی عہد شکنی۵۷

اںصاف سے فیصلہ کرنا چاہئیے۵۸

حدیبیہ میں صحابہ کا فرار۵۹

خدا جانتا ہے کہ میں کٹ حجتی نہیں کرتا۶۱

حقیقت فدک اور اس کا غصب ۶۲

آیہ و آت ذا القربیٰ حقہ کا نزول ۶۲

حدیث لا نورث سے استدلال اور اس کا جواب ۶۳

حدیث لا نورث کے رد میں جناب فاطمہ(ع) کے دلائل ۶۵

ابوبکر سے علی(ع) کا احتجاج ۶۷

بالائے منبر ابوبکر کی بدکلامی اور علی(ع) و فاطمہ(ع) کو گالی دینا۶۸

منصفانہ فیصلہ ضروری ہے ۶۸

ابوبکر کی باتوں پر ابن ابی الحدید کا تعجب ۶۹

علی(ع) کو ایذا دینا پیغمبر(ص) کو ایذا دینا ہے ۷۰

علی(ع) کو دشنام دینا پیغمبر(ص) کو دشنام دینا ہے ۷۱

علی(ع) باب علم وحکمت ہیں ۷۲

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394