پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور10%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316868 / ڈاؤنلوڈ: 7971
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

جملہء شرطیہ میں ”فائے تفریع“

ایک اورنکتہ جو”اولوالامر“کے معنی کو ثابت کرنے کے لئے بہت مؤثرہے وہ جملہئ شرطیہ میں اطیعو اللّٰہ واطیعوالرّسول واولی الامر کے بعد”فائے تفریع“کا پایا جا نا ہے۔

یہ جملہء شرطیہ یوں ایاہے:( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه و رسول ) اختلافی مسائل کوخدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف پلٹانے کاوجوب،خدا،رسولاوراولی الامرکی اطاعت کے وجوب پرمتفرع ہواہے،اوراس بیان سے بخوبی سمجھ میں آتاہے کہ اختلافی مسائل کوخدااوررسول (ص)ی طرف پلٹانے میں اولوالامرکی اطاعت دخالت رکھتی ہے۔یہ تفریع دوبنیادی مطلب کی حامل ہے:

۱ ۔اولوالامرکی عصمت :اس لحاظ سے کہ اگراولوالامرخطااورگناہ کامرتکب ہو گااور اختلافی مسائل میں غلط فیصلہ دے گا تواس کے اس فیصلہ کاکتاب وسنت سے کوئی ربط نہیں ہوگاجبکہ تفریع دلالت کرتی ہے کہ چونکہ اولی الامرکی اطاعت ضروری ہے لہذا چاہیئے کہ،اختلافی مسائل کوخدااوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف پلٹا یا جائے۔

۲ ۔کتاب وسنت کے بارے میں کامل ووسیع معلو مات:اس لحاظ سے اگراولی الامر کتاب وسنت کے ایک حکم سے بھی جاہل ہواوراس سلسلہ میں غلط حکم جاری کرے تواس حکم میں اس کی طرف رجوع کرناگویاکتاب وسنت کی طرف رجوع نہ کرنے کے مترادف ہے۔جبکہ”فائے تفریع“سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اولی الامرکی اطاعت مسلسل اختلافی مسائل کوکتاب وسنت کی طرف پلٹانے کاسبب ہے۔اس لئے آیہء شریفہ میں فائے تفریع، کاوجوداولی الامر کے تعین کے لئے کہ جس سے مرادائمہ معصومین (ع)واضح قرینہ ہے۔

۱۰۱

مذکورہ نکات سے استفادہ کی صورت میں اب تک درج ذیل چندمطالب واضح ہوگئے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں ”اولی الامر“سے مرادجوبھی ہیں ان کاامرونہی کر نے میں گناہ اورخطاسے معصوم ہونا ضروری ہے۔

۲ ۔اولی الامرکا انطباق اہل حل وعقدپر صحیح ودرست نہیں ہے۔)جیساکہ فخررازی کا نظریہ ہے)

۳ ۔اب تک جوکچھ ثابت ہوچکا ہے اس کے پیش نظراگر”اولی الامر“کے بارے میں ہمارے بیان کئے گئے گیارہ اقوال پرنظرڈالیں،توآیہء کریمہ کی روشنی میں ”اولی الامر“سے مراد تنہاشیعہ امامیہ کا نظریہ قابل قبول ہے اوریہ امران کے علاوہ دوسروں کے عدم عصمت پراجماع ہونے کی بھی تاکیدکرتاہے۔

ظالم حکام اولوالامرنہیں ہیں

اولوالامرکے مفہوم میں اشارہ کیاگیاکہ اولوالامرمیں صرف وہ لوگ شامل ہیں،جوامت کی سرپرستی ان کے امور کے مالک ہوں،اوریہ عنوان ان پر بھی صادق ہے کہ جنھیں ظلم اورناحق طریقہ سے امت کی سرپرستی سے علیحدہ کیاگیاہے۔اس کی مثال اس مالک مکان کی جیسی ہے،جس کے مکان پرغاصبانہ قبضہ کرکے اسے نکال باہرکر دیاگیاہو۔

دوسرانکتہ جو”اولوالامر“کے مقام کی عظمت اور اس کے بلند مر تبہ ہونے پر دلالت کرتا ہے وہ”اولوالامر“کاخداورسول (ص)کے او پرعطف ہوناہے۔مطلقاً وجوب اطاعت میں خدا ورسول کے ساتھ یہ اشتراک و مقا رنت ایک ایسا رتبہ ہے جوان کے قدرومنزلت کے لائق افراد کے علاوہ دوسروں کے لئے میسرنہیں ہے۔

۱۰۲

یہ دواہم نکتے)مفہوم”اولوالامر“اوروجوب اطاعت کے سلسلہ میں الوالامرکا خداورسولپرعطف ہونا) خود”اولوالامر“کے دائرے سے ظالم حکام کے خارج ہونے کوواضح کرتا ہے۔

زمخشری کاتفسیرالکشاف(۱) میں اس آیہء شریفہ کے ذیل میں کہناہے:

”خدااوررسول (ص)ظالم حکام سے بیزارہیں اوروہ خداورسول کی اطاعت کے واجب ہونے پرعطف کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ان کے لئے شائستہ ترین نام”اللصوص المتغلبہ“ہے۔یعنی ایسے راہزن کہ جو لو گوں کی سر نوشت پرزبردستی مسلط ہوگئے ہیں۔“

اس بیان سے معروف مفسرقرآن،طبری کے نظریہ کاقابل اعتراض ہوناواضح ہوجاتاہے،جس نے ظالم کام کو بھی اولوالامر کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔

اولوالامرکے بارے میں طبری کا قول

مناسب ہے کہ ہم اس سلسلہ میں طبری کے بیان اورا ستدلال کی طرف اشارہ کریں:

اٴولی الاٴقوال فی ذلک بالصواب قول من قال:”هم الاٴمراؤالو لاةلصحة الاٴخبارعن رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالاٴمربطاعته الاٴئمّة والولاةفیماکان طاعة وللمسلمین مصلحة“

____________________

۱۔الکشاف،ج۱،ص۲۷۷۔۲۷۶،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۳

کالذی حدثنی علی بن مسلم الطوسی قال:ثنا ابن اٴبی فدیک قال:ثنی عبداللّٰه ابن محمدبن عروة،عن هشام بن عروة،عن اٴبی صالح السمان،عن اٴبی هریرة:اٴن النبیّ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وسلم-قال:سیلیکم بعدی ولاة،فیلیکم البرّببرّه،والفاجر بفجوره

فاسمعوالهم واٴطیعوافی کل ماوافق الحق وصلوّاوراء هم!فإن اٴ حسنوا فلکم ولهم،وإن اٴساؤوافلکم وعلیهم!

وحدثنا ابن المثنی قال:ثنا یحیی بن عبیداللّٰه قال:اٴخبرنی نافع،عن عبداللّٰه،عن النبیّ-( ص) -قال:علی المرء المسلم الطا عة فیما اٴحبّ وکره إلاّاٴن یؤمر بمعصیةٍ،فمن اٴمربمعصیة فلا طاعة حدثناابن المثنی قال:ثنی خالدبن عبیداللّٰه،عن نافع،عن اٴبی عمر،عن النبیّ-( ص) -نحوه(۱)

طبری نے تمام اقوال میں سے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ جس میں ”اولوالامر“سے مرادمطلق حکام)نیک وبد)لیا گیاہے۔اوراس سلسلہ میں ان دواحادیث سے استدلال کیا ہے،جن میں حکمران اور فرمانرواؤں کی اطاعت کو مطلق طور پر ضروری جا ناکیا گیا ہے۔

نہ صرف”اولی الامر“کا مفہوم اوراس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونااس نظریہ کو مسترد کرتا ہے،بلکہ ایسی صورت میں طبری کے نظریہ پر چند اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں:

پہلا اعتراض:یہ احادیث قابل اعتبار اورحجت نہیں ہیں،کیونکہ حدیث کی سند میں پہلے ابن ابی فدیک کا نام ہے کہ اہل سنّت کے رجال وحدیث کے ایک امام،ابن سعدکا اس کے بارے میں کہنا ہے:

__________________

۱۔تفسیرطبری،ج۵،ص۹۵،دارالمعرفة،بیروت

۱۰۴

کان کثیرالحدیث ولیس بحجة(۱)

”اس سے کافی احادیث رو ایت ہوئی ہیں اور)اس کی بات) حجت نہیں ہے“

ابن حبان نے اسے خطا اوراشتباہ کرنے والا جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عروة ہے کہ جس کا علم رجال کی معروف کتابوں میں موثق ہونا ثابت نہیں ہے۔

دوسری حدیث کی سند میں بھی بعض ضعیف اور مجہول افراد پائے جاتے ہیں،جیسے یحییٰ بن عبیداللہ،کے متعلق اہل سنت کے ائمہء رجال جیسے ابوحاتم،ابن عیینہ، یحییٰ القطان،ابن معین ،ابن شیبہ،نسائی اوردار قطبنی نے اسے ضعیف اور قابل مذمت قراردیا ہے۔(۳)

دوسرااعتراض:ان احادیث کا آیہء ”اولی الامر“ سے کوئی ربط نہیں ہے اور یہ احادیث اس آیت کی تفسیر نہیں کرتی ہیں۔

تیسرااعترض:طبری کی یہ تفسیرقرآن مجید کی دوسری آیات سے تناقص رکھتی ہے،من جملہ یہ آیہء شریفہ:

( لاتطیعوااٴمرالمسرفین الذین یفسدون فی الاٴرض ولا یصلحون ) (شعراء/ ۱ ۵۲۔۱۵۱)

”اورزیادتی کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو،جوزمین میں فساد برپاکرتے ہیں اوراصلاح کے در پی نہیں ہیں“

علماء بھی اولوالامرنہیں ہیں

”اولوالامر“کا مفہوم سرپرستی اورولایت کو بیان کرتا ہے اورعلماء کا کردار لوگوں کووضاحت اور آگاہی دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ :

___________________

۱۔الطبقات الکبری،ج۵،ص۴۳۷،داربیروت للطباعةوالنشر

۲۔کتاب الثقات،ج۹،ص۴۲،مؤسسةالکتب الثقافیة

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۲۲۱،دارالفکر

۱۰۵

ایک تو،”اولوالامر“کے عنوان سے صاحبان علم وفقہ ذہن میں نہیں آتے ہیں مگریہ کہ خارج سے اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود ہو جس کے روسے علماء اوردانشوروں کو سر پرستی حاصل ہو جائے اوریہ دلالت آیت کے علاوہ ہے جنہوں نے اس قول کو پیش کیاہے،وہ اس لحاظ سے ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں علماء کی اطاعت کرکے ان کی راہنمائی سے استفادہ کریں۔

دوسرے یہ کہ:اس آیہء شریفہ سے قبل والی آیت میں خداوند متعال نے حکام کے فرائض بیان کئے ہیں:

( وإذا حکمتم بین الناس اٴن تحکموا بالعدل )

”جب کوئی فیصلہ کرو توانصاف کے ساتھ کرو“

زیر بحث آیت میں ”اولوالامر“ کی نسبت لوگوں کی ذمہ داریوں کوبیان کیا گیا ہے اوراس سے واضح ہوتا ہے کہ ”اولوالامر“سے مراد مذکورہ صفات کے حامل وہی حکام ہیں،نہ علمائ

تیسرے یہ کہ:اگراس سے مراد علماء ہیں توکیا یہ علماء بہ طور عام اور بہ حیثیت مجموعی مراد ہیں یا یہ کہ بہ حیثیت استغراقی،ان میں ہرفرد ولی امر ہے اوراس کی اطاعت واجب ہے؟

اگر پہلا فرض مراد ہے ،تواس پر اعتراض اہل حل وعقد والے قول اورفخررازی کے نظریہ کے سلسلہ میں بیان ہوچکا ہے،اوراگردوسری صورت مراد ہے توآیہء شریفہ میں مطلقا طور پر کس طرح ان کی اطاعت واجب ہو ئی ہے،جبکہ اگرایسا ہے تواس کے ضوابط اورشرائط قرآن وحدیث میں بیان ہونے چاہئے تھے۔

چوتھے یہ کہ: پچھلی آیت میں ”فائے تفریع “کی وضاحت میں آیہء شریفہ کے بعد والے جملہ میں آیاہے:( فإنّ تنازعتم فی شیئٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) یہ جملہ فائے تفریع کے ذریعہ پہلے والے جملہ سے مر بوط ہے کہ اس کے معنی اختلافی صورت میں خدا اوررسول کی طرف رجوع کر ناخدا ورسول نیز اولی الامر کی مطلقاً اطاعت کے وجوب پر متفرع ہے۔ اس جملہ سے واضح ہو جا تاہے کہ اختلافی مسائل میں خدااوررسول کی طرف رجوع کر نا ضروری ہے،یہ رجوع کر نا’اولوالامر“ کی اطاعت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔اوربعد والے جملہ میں لفظ ”اولوالامر“کو نہ لانے کا مقصد بھی اسی مطلب کو واضح کرتا ہے یعنی تنہا”اولوالامر“ ہے جوکتاب وسنت کے معانی و مفاہیم نیز تمام پہلوؤں سے آگاہ ہے لہذا اختلافی مسائل میں اس کی طرف رجوع کر نا درحقیقت خدااوررسولکی طرف رجوع کر نا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مطلقاً یعنی بہ طور کلی علماء ایسے نہیں ہیں سواء ان لو گوں کے کہ جو منجانب اللہ گناہ وخطاء سے محفوظ ہیں۔

۱۰۶

آیہء کریمہ کے بارے میں چند دیگر نکات

اس قول کے بارے میں کہ”اولوالامر“سے مراد علماء ہیں ،مفسرین کے بیانات میں بعض قابل غور باتیں دیکھنے میں آتی ہیں ،شائستہ نکات کو ملحوظ رکھتے ہو ئے آیت میں غور وخوص ان اعتراضات کو واضح کر دیتا ہے پہلا نکتہ: فإنّ تنازعتم میں مخاطبین وہی ہیں جو( یاایّها الذین آمنوا ) میں مخاطبین ہیں۔”آیت میں مخاطب مو منین “کا اولوالامر کے درمیان تقابل کا قرینہ متقاضی ہے کہ”الذین آمنوا“”اولوالامر“ کے علاوہ ہوں کہ جس میں حاکم و فر مانروااولوالامر اور مطیع وفرمانبردارمومنین قرار دیئے جائیں ۔

دوسرانکتہ:اس نکتہ کے پیش نظر،مو منین کے اختلا فات ان کے آپسی ا ختلا فات ہیں نہ ان کے اور اولوالامر کے درمیان کے اختلافات۔

تیسرانکتہ: یہ کہ مو منین سے خطاب مورد توجہ واقع ہو اور اس کو اولی الامر کی طرف موڑ دیا جائے ،یہ سیاق آیت کے خلاف ہے اوراس تو جہ کے بارے میں آیہء شریفہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

۱۰۷

چند نظریات پرتنقید

قرطبی اورجصّاص نے جملہ( فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوه إلی اللّٰه والرّسول ) کواس پر دلیل قراردیا کہ”اولوالامر“ سے مرادعلماء ہیں،اورچونکہ جو علماء نہیں ہیں وہ خدا ورسولکی طرف پلٹانے کی کیفیت کو نہیں جانتے ہیں،اس لحاظ سے خدائے تعالیٰ نے علماء کوخطاب کیا ہے اورانھیں جھگڑے اوراختلاف کی صورت میں حکم دیاہے کہ اختلافی مسئلہ کو خدا اور رسول کی طرف پلٹادیں۔ ۱

ابوالسعود نے اپنی تفسیر میں اس قول کو پیش کیا ہے اورمذکورہ دومفسروں نے جو کچھ کہا ہے،اس کے خلاف ہے:جملہء”فإن تنازعتم“اس کی دلیل ہے کہ اولوالامر سے مراد علماء نہیں ہو سکتے ہیں،کیونکہ مقلد مجتہد کے حکم کے بارے میں اس سے اختلاف نہیں کرسکتا ہے!مگر یہ کہ ہم کہیں کہ جملہ”فإن تنازعتم“کا مقلدین سے کوئی ربط نہیں ہے اوریہ خطاب صرف علماء سے ہے اوراس سلسلہ میں کسی حد تک التفات ملا حظہ کیا گیا ہے لیکن ےہ بھی بعید ہے۔ ۲

قرطبی اورجصّاص کے لئے یہ اعتراض ہے کہ وہ التفات)توجہ) کے قائل ہوئے ہیں اور جملہ ”تنازعتم“ کو علماء سے خطاب جاناہے جبکہ بظاہر یہ ہے کہ’ ’تنازعتم“ کا خطاب تمام مومنین سے ہے اوراس التفات کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

ابوالسعودکا اشکال یہ ہے کہ اس نے آیہء شریفہ میں اختلاف کو ”اولوالامر“سے مراد علماء ہو نے کی صورت میں اختلاف بین علماء اور مقلدین سمجھا ہے ،جبکہ مؤ منین سے خطاب ہے،چونکہ مؤ منین آیہء شریفہ میں اولوالامر کے مقابلہ میں قراردئے گئے ہیں ،لہذاان کے اختلافات ان کے آپسی اختلافات ہوں گے،نہ کہ علماء کے فرض کر نے کی صورت میں اولوالامر

____________________

۱۔جامع احکام القرآن،ج۵،ص۲۶۰،دارالفکر۔احکام القرآن جصاص،ج۲،ص۲۱۰،دارالکناف العربی۔

۲۔ارشاد العقل السلیم ،تفسیر ابوالسعود،ج۲،ص۱۹۳،داراحیائ التراث العربی ،بیروت۔

۱۰۸

کے ساتھ یہاں تک واضح ہوا کہ مذکورہ نکات کے پیش نظر”اولوالامر“سے مرادعلمائنہیں ہوسکتے ہیں۔قرطبی اورجصاص کا نظریہ بھی صحیح نہیں ہے،جنھوں نے التفات کا سہارالے کر اس قول کوصحیح قراردینے کی کوشش کی ہے اورابوالسعود کا نظریہ بھی درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کامستردہونا واضح ہے۔

اصحاب اور تابعین بھی اولوالامر نہیں ہیں۔

آیہء شریفہ میں چند دوسرے ایسے نکات بھی موجود ہیں کہ جن کی روشنی میں اصحاب یا اصحاب وتابعین یا مہا جرین وانصار کا اولوالامر نہ ہوناثابت کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔آیہء شریفہ میں عموماً مؤ منین سے خطاب کیا گیا ہے اور ایسے افراد کہ جن کی اطاعت کرنا مؤمنین کے لئے بطور مطلق واجب ہے،ان کا ذکر ہے لہذا مؤمنین وہ لوگ ہیں کہ جن کی شان اطاعت وفرمانبرداری ہے اورخدا ورسول نیز اولوالامر کی شان مو منین کے اوپر مطلقاًاختیار اور فرمانروائی ہے ،ان دونوں کا)مفہوم)ایک دوسرے کے مد مقابل واقع ہو نا واضح قرینہ ہے کہ مؤ منین ”اولوالامر“کے علاوہ ہیں۔مؤمنین کی حیثیت صرف فرمانبرداری ہے،اوران کے مقابل یعنی خداورسول نیزاولوالامر کی حیثیت فرماں روائی ہے۔

یہ مغایرت جس چیزکی تاکید کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اولوالامرکا تذکرہ خداورسول کے ساتھ ایک سیاق میں واقع ہے اورآیت میں خدا اورسولکی حیثیت سواء مطاع )جس کی اطاعت کی جائے )کے کچھ نہیں ہے،لہذا اولوالامرکی بھی و ہی حیثیت ہو نی چا ہئے۔

اس مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ اولوالامر،اصحاب ،تابعین یا مہاجرین وانصارکے زمرے سے نہیں ہوں گے کیوں کہ ایسی صورت میں مذکورہ مغایرت موجود نہیںر ہے گی،حالانکہ جو مؤ منین آیہء شریفہ کے نزول کے وقت اس کے مخاطب واقع ہوئے ہیں وہ،وہی اصحاب ،مہاجرین اور انصا رہیں۔

۲ ۔دوسرانکتہ یہ ہے کہ اگر اولوالامر کے مصداق اصحاب ہوگے، تو کےا یہ تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی ہیں ےا بنحواستغراقی ؟

مزید واضح لفظوں مےں کیا اصحاب مےں سے ہر ایک فرد بہ طورمستقل اولوالامر ہے او ر قوم کی سرپرستی کا اختیاررکھتاہے، یا تمام اصحاب بہ حیثیت مجموعی اس عہدے کے مالک ہیں؟ فطری بات ہے کہ دوسری صورت کے اعتبار پر سب کا اجماع اور اتفاق ہوگا؟

۱۰۹

دوسرا فرض )یعنی عام بہ حیثیت مجموع) ظاہر کے خلاف ہے، جیسا کہ فخررازی کے بیان میں اس کی وضاحت ہو چکی ہے ، او ر پہلا فرض یعنی اصحاب میں سے ہر ایک بہ طور مستقل صاحب ولایت ہوگا، یہ بھی ظاہر اور اصحاب کی سیرت کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اصحاب کے زمانہ میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ ہر ایک دوسرے کے لئے )وہ بھی مطلقاً) وجوب اطاعت کا مالک ہوا۔

اس کے علاوہ اصحاب علمی اور عملی لحاظ سے ایک دوسرے سے کافی مختلف تھے۔ان میں کافی تعداد میں ایسے افراد بھی تھے جن میں علمی اور اخلاقی صلاحیتوں کا فقدان تھا۔مثال کے طور پر ولیدبن عقبہ(۱) کے فاسق ہو نے کے بارے میں آیت نازلی ہوئی ہے کہ جس کی خبر کی تحقیق واجب وضروری ہے ان حالات کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ” اولوالامر“کے مصداق بہ طور مطلق اصحاب یا مہاجرین و انصار ہوں؟

سریہ کے سردار بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

اسی طرح”اولوالامر“ کے مصداق سریہ(۲) کے کمانڈو بھی نہیں ہیں کیونکہ جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس کے علاوہ ”اولوالامر“ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عطف ہونا، ”اولوالامر“کی مطلق اطاعت کے و اجب ہونے پر دلالت کر تا ہے اور جملہ ”فإن تنازعتم“ کامتفرع ہو نا، خدا و

____________________

۱۔ اصحاب کے بارے میں مصنف کی کتاب ” عدالت صحابہ در میزان کتاب و سنت “ ملاحظہ ہو

۲۔جن جنگوں میں پیغمبراکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے ذاتی طورپر شرکت نہیں کی ہے،انھیں سریہ کہتے ہیں۔

۱۱۰

پیغمبر اور اولوالامرکی مطلق اطاعت نیز”اولوالامر“ کی عصمت پر دلیل ہیں ۔سریہ کے کمانڈ معصوم نہیں ہیں،اس سلسلہ میں اصحاب اورتابعین کی طرف سے کچھ آثار نقل ہوئے ہیں جواس مطلب کی تائید کرتے ہیں۔ہم یہاں پر ان آثار میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں:

۱ ۔ابن عباس سے ایک حدیث میں روایت کی گئی ہے:آیہء”اولی الامر“ایک ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے،کہ جسے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک سریہ میں )سرپرست و سر براہ کے عنوان سے) بھیجا تھا۔(۱) اس حدیث کی سند میں حجاج بن محمد کا نام آیا ہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیّرفی آخر عمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔

اورابن حجر نے کہا ہے کہ اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے(۲) فطری بات ہے کہ اس کیفیت و حالت کے پیش نظر اس کی روایت معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔

۲ ۔ایک دوسری حدیث میں میمون بن مہران سے روایت ہوئی ہے کہ”اولوالامر“ وہ لوگ ہیں جوسریہ)جنگوں) میں شرکت کرتے تھے۔(۳) اس حدیث کی سند میں عنبسة بن سعیدضریس کا نام ہے کہ ابن حبان نے اس کے بارے میں کہا ہے:

”کان یخطی(۴)

”یعنی :وہ مسلسل خطا کا مرتکب ہوتاتھا۔“

____________________

۱۔تفسیر طبری،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تفسیر طبری ،ج۵،ص۹۲،دارالمعرفة،بیروت

۴۔تہذیب التہذیب،ج۸،ص۱۳۸

۱۱۱

طبری نے ایک حدیث میں سدی سے نقل کیا ہے(۱) کہ اس نے آیہء ”اولوالامر“ کو اس قضیہ سے مرتبط جانا ہے کہ ایک سریہ)جنگ) میں خالد بن ولیدکوکمانڈر مقرر کیا گیا تھااورس سریہ میں عماریاسر بھی موجود تھے اور انہوں نے ایک مسلمان کو دئے گئے امان کے سلسلہ میں خالد سے اختلاف رای کا اظہارکیا تھا۔(۲)

یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے،کیونکہ ایک تو یہ مرسل ہے اوردوسرے سدی کے بارے میں یحییٰ بن معین ا ورعقیلی سے نقل ہو ا ہے کہ وہ ضعیف ہے اورجوزجانے اسے کافی جھوٹا بتا یا ہے ۔(۳)

۳ ۔بخاری نے آیہء ”اولوالامر“ کی تفسیر میں جو حدیث ذکر کی ہے وہ یوں ہے:

حدثناصدقة بن الفضل،اٴخبرناحج ابن محمّد،عن ابن جریح،عن یعلی بن مسلم،عن سعید بن جبیرعن ابن عباس رضی اللّٰه عنهما:”اٴطیعوااللّٰه واٴطیعوالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی عبداللّٰه بن حذافة ابن قیس بن عدی اذبعثه النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی سریة ۔(۴)

اس حدیث میں سعیدبن جبیران نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آیہء( اٴطیعوااللّٰه واٴطیعواالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم ) عبداللہ بن حذافہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے،جب رسول خدا (ص)نے اس سے ایک سریہ کے لئے روانہ کیا۔

چونکہ یہ حدیث فتح الباری میں ابن حجر کے کلام سے اخذ کی گئی ہے اس لئے احتمال ہے کہ یہ روایت سنید بن داؤد مصیصی سے روایت ہوئی ہو جیسا کہ ابن سکن سے منقول ہے نہ کہ صدقہ بن

____________________

۱۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفة

۲۔تفسیر طبری ،ص۹۲،دارالمعرفہ

۳۔تہذیب التہذیب،ج۱،ص۲۷۳

۴۔صحیح بخاری،ج۳،ص۳۷۶،کتاب التفسیر،باب قولہ اطیعواللّٰہ۔۔۔ ح۱۰۱۰،دارالقلم ،بیروت

۱۱۲

فضل سے جیسا کہ اکثر نے نقل کیا ہے اور موجودہ صحیح بخاری میں بھی اسی کے حوآلے سے آیا ہے اورسنید بن داؤد کو ابی حاتم ونسائی نے ضعیف جانا ہے۔(۱)

اس بناپر ایک تو یہ بات مسلّم ویقینی نہیں ہے کہ بخاری میں موجود روایت صدقہ بن فضل سے ہوگی،بلکہ ممکن ہے سنید سے ہو جبکہ وہ ضعیف شمار ہو تا ہے۔

دوسرے یہ کہ:اس کی سند میں حجاج بن محمدہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے میں کہا ہے:

کان قد تغیرفی آخرعمره

”یعنی:آخر عمر میں اس کا حافظہ مختل ہوگیا تھا۔“

اور ابن حجر نے کہاہے:اس نے اسی حالت میں روایت کی ہے۔(۲)

ابوبکراورعمربھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں

مذکورہ وجوہ کے پیش نظر واضح ہوگیا کہ ابوبکر اور عمربھی ”اولوالامر“کے مصداق نہیں ہیں نیزان وجوہ کے علاوہ دین وشریعت سے متعلق سوالات کے جوابات میں ان کی لا علمی ناتوانی اوراحکام الٰہی کے خلاف ان کا اظہار نظر بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ جو تاریخ وحدیث کی کتابوں میں کثرت سے درج ہے۔اس سلسلہ میں کتاب الغدیر کی جلد ۶ اور ۷ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے۔

اہل سنت کی بعض کتابوں میں درج یہ حدیث کہ جس میں ان کی اقتداء کرنے کااشارہ ہواہے:”إقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر “کئی جہات سے باعث نزاع ہے۔من جملہ یہ کہ اس کی سند میں عبدالملک بن عمیر ہے کہ تہذیب الکمال(۳) میں احمد بن حنبل

____________________

۱۔فتح الباری،ج۸،ص۲۵۳

۲۔تہذیب التہذیب،ج۲،ص۱۸۱

۳۔تہذیب الکمال،ج۱۸،ص۳۷۳،موسسہ الرسالة

۱۱۳

سے اس کے بارے میں یوں نقل ہوا ہے:عبد الملک بن عمیر بہت زیادہ مضطرب البیان ہے اس سے منقول میں نے ۵۰۰ سو روایتیں دیکھی ہیں کہ جن میں اکثر غلط ہیںعبدالملک بن عمیر مضطرب الحدیث جداًمااٴری له خمساًئة حدیث، وقد غلط فی کثیرمنها “ اور احمد بن خلیل نے بھی اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں اشارہ کیا ہے۔اور ابو حاتم سے نقل کیا ہے:)عبدالملک)لیس بحافظ۔۔۔تغیرحفظہ قبل موتہ“عبدالملک کا حافظ درست نہیں ہے اور موت سے پہلے اس کا حا فظ کھو گیا تھا۔

اورترمذی(۱) کی سند میں سالم بن علاء مرادی ہے کہ ابن معین اور نسائی نے اسے ضعیف جانا ہے۔(۲) اس کے علاوہ ترمذی کی سند میں سعید بن یحییٰ بن سعید الاموی ہے کہ ابن حجر نے صالح بن محمد سے نقل کیا ہے:”إنّه کان یغلط “یعنی:”وہ مسلسل غلطی کرتا تھا۔(۳)

اس کے علاوہ اگر اس قسم کی احادیث ثابت ہوتیں توابو بکر اورعمر سقیفہ میں ان سے استدلال کرتے اورخلافت کے لئے اپنی صلاحیت ثابت کرتے جبکہ اس قسم کی کوئی چیز قطعی طورپر نقل نہیں ہوئی ہے اور یہ قطعی طورپرثابت ہے کہ مذکورہ حدیث صاد ر نہیں ہوئی ہے اور جعلی ہے۔

او لیاء شرعی(باپ)بھی اولوالامر کے مصداق نہیں ہیں:

باپ،دادا و غیرہ کہ جو ولایت شرعی رکھتے ہیں وہ بھی بہ طور مطلق ”اولوالامر“ نہیں ہیں۔گزشتہ موارد میں ذکر شدہ مطالب سے بھی یہ مسئلہ واضح ہو جاتاہے۔

____________________

۱۔سنن ترمذی ،ج۵،ص۵۷۰،ح۳۶۶۳

۲۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۱۲،دارالفکر

۳۔تہذیب التہذیب ،ج۴،ص۸۶

۱۱۴

”اولوالامر“اورحدیث منزلت،حدیث اطاعت اورحدیث ثقلین

حدیث منزلت:

حا کم حسکانی(۱) نے”شواہد التنزیل(۲) “ میں آیہء اولوالامر کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے اوراپنی سند سے مجاہد سے روایت کی ہے:

”واٴُلی الاٴمرمنکم“قال:نزلت فی اٴمیرالمؤمنین حین خلّفه رسول اللّٰه بالمدینة، فقال:اٴتخلفنی علی النساء والصبیان؟ فقال: اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی،حین قال له ”اٴخلفنی فی قومی واٴصلح“فقال اللّٰه: ”واٴُولی الاٴمر منکم“ فقال: هوعلی بن ابی طالب، ولاّه اللّٰه الامر بعد محمد فی حیاته حین خلّفه رسول اللّٰه بالمد ینة،فاٴمراللّٰه العباد بطاعته وترک خلافه

”(آیہء شریفہ کے بارے میں ) ۔۔۔( واٴولی الاٴمرمنکم ) ۔۔۔ مجاہد نے یوں کہا ہے:آیہء شریفہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔اس وقت علی(علیہ السلام)نے کہا :کیامجھے عورتوں اور بچوں پر جانشین قرا ر د ے ر ہے ہیں؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ تمھاری نسبت میرے

____________________

۱۔حاکم حسکانی اہل سنّت کے بڑے محدثین میں سے ہے۔ذہبی اس کے بارے میں کہتاہے:

الحسکانی القاضی المحدث ابوالقاسم عبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ ۔۔۔ محمد بن حساکان القرشی العامری اللنیسا بوری الحنفی الحاکم، و یعرف با بن الحذاء ، شیخ متقن ذو عنایة تامة بعلم الحدیث، حسکانی،قاضی محدث ابوالقاسم عبیداللہ بن عبداللہ محمد بن حسکانی قر شی عامری نیشابوری حنفی مذہب وحاکم ،ابن خداء کے نام سے معروف ہے۔ وہ علم حدیث کے بارے میں قوی اور متقن استاد)شیخ) ہے۔

۲۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۰،مؤسسہ الطبع والنشر

۱۱۵

ساتھ وہی ہے جو ہارون کی نسبت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی جب موسیٰ(علیہ السلام)نے اپنی قوم سے کہا( اٴخلفنی فی قومی ) ”میری قوم میں میرے جانشین ہو اوراصلاح کرو“)اس آیہء شریفہ میں )خدا وند متعال نے فرمایا ہے:( واٴولی الاٴمر منکم ) ”اولوالامر“)کامصداق)علی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں کہ خداوند متعال نے انھیں پیغمبر (ص)کی حیات میں اپ کے بعدامت کے لئے سرپرست قرار دیاہے،جب انھیں مدینہ میں اپناجانشین مقرر فرمایا۔لہذا خداوند متعال نے اپنے بندوں کوان کی اطاعت کرنے اوران کی مخالفت ترک کرنے کاحکم دیا ہے۔

اس حدیث میں ،اس مجاہد نامی تابعی دانشور اورمفسرنے آیہء شریفہ”اولی الامر“کی شان نزول کے لئے وہ وقت جانا ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قراردیا تھا۔

اس حدیث میں ہارون کی وہ تمام منزلتین جو وہ موسیٰ کے حوالے سے رکھتے تھے،علی علیہ السلام کے لئے رسول خدا (ص)کے حوالے سے قراردی گئی ہیں۔من جملہ ان میں سے ایک موسیٰ(علیہ السلام)کی نسبت سے ہارون کی جانشینی ہے۔یہ جانشینی،جس کا لازمہ پوری امت کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کا واجب ہونا ہے،علی علیہ السلام کے لئے معین کی گئی ہے۔

یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اس ان نزول سے قطع نظر،حدیث منزلت فریقین )شیعہ وسنی) کے درمیان ثابت اورمسلّم احادیث میں سے ہے،اس طرح کہ حدیث منزلت کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ شان نزول کے سلسلہ میں حاکم حسکانی کا کہنا ہے:

وهذاهوحدیث المنزلة الّذی کان شیخاًابوحازم الحافظ یقول: خرجته بخمسةآلاف إسناد

یہ وہی حدیث منزلت ہے کہ ہمارے شیخ)ہمارے استاد)ابوحازم حافظ)اس کے بارے میں )کہتے ہیں:میں نے اس)حدیث)کو پانچ ہزار اسنادسے استخراج کیا ہے۔“

۱۱۶

لہذا،اس حدیث کے معتبر ہونے کے سلسلے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے۔ ابن عسا کر جیسے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں اسے اصحاب کی ایک بڑی تعدادسے نقل کیا ہے۔(۱)

یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ علی علیہ السلام ،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل اور سب سے اعلم نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اورآپ کی رحلت کے بعد آپ کے جانشین ہیں۔

حدیث اطاعت:

دوسری دلیل جو”اولوالامر“کو علی علیہ السلام پر منتطبق کرنے کی تاکید کرتی ہے،وہ”حدیث اطاعت“ ہے۔یہ حدیث گوناگوں طریقوں سے مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین(۲) میں اسے نقل کیا ہے اورذہبی نے ذیل صفحہ تلخیص کرتے ہوئے اس کے صحیح ہو نے کی تائیدکی ہے۔

حدیث کا متن یوں ہے:

قال رسول اللّٰه- ( ص ) من اٴطاعنی فقداطاع اللّٰه ومن عصانی فقد عصی اللّٰه ومن اٴطاع علیّاً فقد اٴطاعنی ومن عصی علیاًفقدعصانی

”پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرنی)معصیت)کی گویا اس نے خدا کی نافرمانی کی

____________________

۱۔شواہد التنزیل ،ج۲،ص۱۹۵،مؤسسة الطبع والنشر

۲۔المستدرک ،ج۳،ص۱۲۱،دارالمعرفة،بیروت

۱۱۷

ہے۔اور جس نے علی (علیہ السلام) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جو نے علی(علیہ السلام) سے نافرمانی کرے گا اس نے مجھ سے نافرمانی کی ہے۔

اس حدیث میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ نے علی علیہ السلام کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے متلازم قراردیا ہے اوراپنی اطاعت کوخدا کی اطاعت سے متلازم جا ناہے۔اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی سے تعبیر کیا ہے اوراپنی نافرمانی کو خدا کی نافرمانی قراردیا ہے۔

یہ حدیث واضح طور پر علی علیہ السلام کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہونے کی دلیل ہے۔اس کا مضمون آیہء شریفہ” اولوالامر“ کے مضمون کی طرح ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اولوالامر کی اطاعت گویا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت ہے۔حقیقت میں یہ حدیث آیہء شریفہء اولی الامر کے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام پر انطباق کے لئے مفسر ہے۔

اسی طرح یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی عصمت پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اطاعت حکم اورامرپر متفرع ہے کیونکہ جب تک کوئی حکم و امر نہیں ہوگااطاعت موضوع ومعنی نہیں رکھتی ہے اور حکم وامر ارادہ پر مو قو ف ہے،اورارادہ شوق نیزدرک مصلحت در فعل کا معلول ہے۔جب حدیث کے تقاضے کے مطابق علی علیہ السلام کی اطاعت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کے ملازم ،بلکہ اس کا ایک حصہ ہے،تواس کا امر بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا امر اور اس کا ارادہ بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ اوراس کا درک مصلحت بھی عین درک مصلحت پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوگا اوریہ حضرت علی علیہ السلام کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔

۱۱۸

حدیث ثقلین:

ایک اور دلیل جو آیہ شریفہ”اولوالامر“کو پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام (ائمہء معصوم)پرانطباق کی تاکید کرتی ہے،وہ حدیث ثقلین ہے۔یہ حدیث شیعہ وسنی کے نزدیک مسلّم اور قطعی ہے اور بہت سے طریقوں اور اسناد سے احادیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اگر چہ یہ حدیث متعدد مواقع پر مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے ،لیکن اس میں دوجملے مر کزی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ دوجملے حسب ذیل ہیں:

إنی تارک فیکم الثقلین :کتاب اللّٰه وعترتی اهل بیتی ماإن تمسکتم بهما لن تضلّواابداًوإنّهمالن یفترقا حتی یرداعلی الحوض (۱)

”میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں:ایک کتاب خدااور دوسرے میری عترت کہ جواہل بیت (علیہم السلام)ہیں اگر تم انھیں اختیار کئے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثرپرمیرے پاس وارد ہوں گے ۔“

ابن حجر نے اپنی کتاب”الصواق المحر قة(۲) میں اس حدیث کے بارے میں کہاہے:

”ثقلین سے تمسک کرنے کی حدیث کے بارے میں بہت سے طریقے ہیں۔یہ حدیث بیس سے زیادہ اصحاب سے نقل ہوئی ہے۔

ان طریقوں میں سے بعض میں آیاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے اس وقت مدینہ میں ارشاد فرمایا کہ جب آپبسترعلالت پرتھے اوراصحاب آپ کے حجرئہ مبارک میں اپ کے گرد جمع تھے۔بعض دوسرے طریقوں سے نقل ہواہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے غدیر خم میں بیان فرمایا ہے۔بعض دوسرے منابع میں ایاہے کہ آنحضرت (ص)نے اسے طائف سے واپسی

___________________

۱۔صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۲۱۔۶۲۲دارالفکر۔ مسنداحمد، ج۳، ص۱۷و۵۹وج۵، ص۱۸۱و۸۹ ۱دارصادر، بیروت۔مستدرک حاکم ج۳،ص۱۰۹۔۱۱۰،دارالمعرفة،بیروت۔حضائص النسائی ، ص۹۳، مکتبةنینویٰ۔ اس کے علاوہ اس اسلسلہ میں دوسرے بہت سے منا بع کے لئے کتاب اللہ واھل البیت فی حدیث ثقلین“کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۲۔الصواعق المحرقة،ص۱۵۰،مکتبة القاہرة

۱۱۹

کے موقع پر فرمایاہے۔ان سب روایتوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔کیونکہ ممکن ہے قرآن وعترت کی اہمیت کے پیش نظران تمام مواقع اور ان کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہوگا۔

شیعوں کے ایک بہت بڑے عالم،علامہ بحرانی نے اپنی کتاب ”غایةالمرام(۱) میں حدیث ثقلین کو اہل سنت کے ۳۹ طریقوں سے اور شیعوں کے ۸۲ طریقوں سے نقل کیا ہے۔

اس حدیث شریف میں پہلے،امت کوگمراہی سے بچنے کے لئے دوچیزوں)قرآن مجید اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علہیم السلام )سے تمسک اور پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے، جو اس بات پردلالت ہے کہ اگر ان دونوں کی یاان میں سے کسی ایک کی پیروی نہیں کی گئی تو ضلالت وگمراہی میں مبتلا ہو نا یقینی ہے اور یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت) علیہم السلام) اور قرآن مجید ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں اورہرگزایک دوسرے سے جد انہیں ہوں گے۔یہ دو جملے واضح طورپر دلالت کرتے ہیں کہ،اہل بیت علیہم السلام ،جن میں سر فہرست حضرت علی علیہ السلام ہیں ،لوگوں کوچاہیئے وہ قرآن مجید کے مانندان سے متمسک رہیں اوران کے اوامر کی اطاعت کر یں ۔اور یہ کہ وہ قرآن مجید سے کبھی جدا نہیں ہوں گے ،واضح طورپر ان کی عصمت کی دلیل ہے،کیونکہ اگروہ گناہ وخطا کے مرتکب ہو تے ہیں تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوجائیں گے،جبکہ حدیث ثقلین کے مطابق وہ کبھی قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے۔

شیعہ وسنی منابع میں اولوالامر سے متعلق حدیثیں

آیہء شریفہ”اولوالامر“کے علی علیہ السلام اورآپ (ع)کے گیارہ معصوم فرزندوں )شیعوں کے بارہ اماموں)پرانطباق کی دلائل میں سے ایک اوردلیل،وہ حدیثیں ہیں،جو شیعہ و سنی کی حدیث کی کتابوں میں درج ہوئی ہیں اور اولوالامرکی تفسیر علی)علیہ السلام)،اورآپ(ع)کے بعدآپ(ع)کے گیارہ معصوم اماموں کی صورت میں

____________________

۱۔غا یةالمرام،ج۲،ص۳۶۷۔۳۰۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

عِتْرَتِي‏ عَدَدَ نُقَبَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ تِسْعَةٌ مِنْ صُلْبِ الْحُسَيْنِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ فَمَنْ تَمَسَّكَ بِهِمْ فَقَدْ تَمَسَّكَ بِحَبْلِ اللَّهِ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَإِنَّهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ وَ اتَّبِعُوهُمْ فَإِنَّهُمْ مَعَ الْحَقِّ وَ الْحَقَّ مَعَهُمْ "

یعنی میرےبعد میری عترت میں سے امام بنی اسرائیل کے نقیبوں کی تعداد کے مطابق ہوں گے( یعنی بارہ عدد جن میں سے نو عدد حسین کی نسل سے ہوں گے۔ خدا نے ان سب کو میرا علم وفہم عطا فرمایا ہے، بس ان کو تعلیم نہ دو کیونکہ یقینا وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں ان کی پیروی کرو کیونکہ قطعا یہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے۔

یہ ہے ایک مختصر حصہ ان دلائل میں سے جن کو اکابر علماۓ عامہ واہل تسنن نے ہمارے ائمہ اثناعشر علیہم السلام کے علم و عصمت کے ثبوت میں نقل کیا ہے اور جن سے عقلی دلیلوں کو اور بھی قوت پہنچتی ہے۔

اسماۓ آئمہ قرآن میں کیوں نہیں آۓ

بعض بہانہ ساز اور حیلہ جو اشخاص نے ایک شبہ ایجاد کر کے عوام میں پھیلایا ہے کہ اگر شیعوں کے بارہ امام برحق ہیں تو دین کی سند محکم یعنی قرآن مجید کے اندر ان کے نام کیوں نہیں بتاۓ گئے ہیں؟ کل شب کی نشست میں بھی برادران عزیز نے مجھ سے یہی سوال کیا لیکن چونکہ وقت کافی گزر چکاتھا لہذا میں نے جواب آج کے اوپر اٹھا رکھا۔ اب جب کہ آپ حضرات کے اصرار سے منبر پر آگیا ہوں اور موقع بھی مناسب ہے تو پروردگار کیتوفیق و تائید سے یہ اشکال رفع کرتا ہوں۔

پہلی گذارش یہ ہےکہ چند کوتاہ فہم لوگوں کو ایک بہت بڑی غلط فہمی دامن گیر ہے کہ ان کے خیال میں جملہ امور کے جزئیات بھی قرآن مجید میں مذکور ہیں، حالانکہ یہ محکم آسمانی کتاب بہت ہی مجمل و مختصر اور خلاصے کے طور پر نازل ہوئی ہے جس میں صرف کلیات امور کا حوالہ دیا گیا ہے اور جزائیات کو اس کے مفسر ومبین یعنی حضرت رسول خدا(ص) کے ذمے چھوڑ دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ نمبر۵۹( حشر) آیت نمبر۷ میں ارشاد ہے:

"وَ ما آتاكُمُ‏ الرَّسُولُ‏ فَخُذُوهُ وَ ما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"

یعنی رسول اللہ(ص) تم کو جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔

لہذا جب ہم طہارت سے دیات تک اسلام کے احکام و قوانین کا جائزہ لیتے ہیں تو ںظر آتا ہے کہ قرآن مجید میں ان کے کلیات کا ذکر تو موجود ہے لیکن ان کی تشریح و تفصیل پیغمبر(ص) نے فرمائی ہے۔

جواب اشکال

اولا جو حضرات اشکال تراشی کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ آئمہ اثناء عشر کے نام اور تعداد قرآن مجید میں نہیں ہے لہذا

۳۶۱

ہم ان کو تسلیم نہیں کرتے اور اطاعت نہیں کرتے۔ ان سے کہنا چاہیئے کہ اگر بات یہی ہو کہ جس چیز کا نام قرآن میں نہ لیا گیا ہو، جس کی صراحت نہ کی گئی ہو، اور جس کے جزئیات کا تذکرہ نہ ہو اس کو ترک کردینا چاہیئے تو آپ حضرات کو خلفاۓ راشدین اور اموی و عباسی وغیرہ خلفاء کی پیروی بھی چھوڑ دینا چاہیئے، اس لئے کہ قرآن مجید کی کسی آیت میں( سوا علی ابن ابی طالب(ع)) کے خلفاۓ راشدین اور خلفاۓ اموی و عباسی کی خلافت،طریقہ اجماع تعیین خلافت میں امت کے اختیار اور ان کے اسماءو تعداد کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں ہے۔ پس آخر کس بنیاد اور کون سے قاعدے کے بنا پر ان کا اتباع کرتے ہوۓ ان کے مخالفین کورافضی، مشرک اور کافر کہا جاتا ہے؟ ان سب سے قطع نظر اگر قاعدہ یہی ہو کہ قرآن مجید میں جس چیز کو وضاحت اور نام موجود نہ ہو اس کو ترک کردینا ضروری ہے تو آپ حضرات کو تمام احکام و عبادات کا تارک بن جانا چاہیئے کیونکہان میں سے کسی ایک کے تفصیلات و جزئیات کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔

قرآن میں نماز کے رکعات و اجزاء کا تذکرہ نہیں

نمونے کے طور پر ہم اس وقت صرف نماز کا جائزہ لیتے ہیں جو فروع دین میں سب سے مقدم اور با تفاق فریقین رسول اللہ(ص) نے اس کے لئے بہت سخت سفارش اور تاکید فرمائی ہے، یہاں تک کہ ارشاد فرمایا:

"الصلاة عمود الدين‏، إن قبلت قبل ما سواها، و إن ردت رد ما سواها."

یعنی نماز دین کا ستون اور محافظ ہے، اگر نماز قبول ہوگئی تو باقی اعمال بھی قبول ہوجائیں گے اور اگر یہ ردکر دی گئی تو دیگر اعمال بھی رد کردۓ جائیں گے۔

ظاہر ہے کہ قرآن مجید میں نمازوں کے رکعات کی تعداد اور حمد و سورہ، رکوع وسجود اور ذکر تشہد وغیرہ کے ساتھ ان کی ادائیگی کے طریقے کا قطعا کوئی ذکر نہیں آیا ہے لہذا جب ان کے اجزائ کا تذکرہ قرآن میں نہیں ہے تو نمازوں کو بھی ترک کردینا چاہیئے۔حالانکہ بات یہ نہیں ہے، قرآن مجید میں صرف کلمہ صلوۃ مجمل طور سے آیا ہے جیسے اقم الصلوۃ اقام الصلوۃ اور اقیموا الصلاۃ ۔ لیکن عدد رکعات کی تعیین اور دوسرے ارکان و واجبات اور مستحبات کی تفصیل اس کے شارح یعنی حضرت رسول خدا(ص) کے بیان سے معلوم ہوتی ہے۔

اسی طرح سے دین کے دوسرے احکام و قوانین ہیں جن کے کلیات تو قرآن مجید میں مذکور ہیں لیکن ان کے جزئیات و شرائط اور دیگر ہدایات پیغمبر(ص) نے بیان فرماۓ ہیں۔

پس جس طرح قرآن مجید میں کلمہ صلوۃ مجمل ہے لیکن اس کے معنی کی تشریح، اعداد رکعات کی تعیین اور دیگر اجزاء ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟کی تو ضیح رسول اللہ(ص) نے فرمائی ہے اور ہم اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں، اسی طرح خاتم الانبیاء کے بعد امامت و خلافت کا بیان بھی قرآن مجید میں مختصر ہے اور ارشاد ہوا ہے و اولی الامر منکم، یعنی اطاعت رسول(ص) کے بعد صاحبان امر کی

۳۶۲

اطاعت کرو۔

بدیہی چیز ہے کہ کہ مسلمان مفسرین چاہے شیعہ ہوں یا سنی اولی الامر کی تفسیر اپنی جانب سے نہیں کرسکتے،جیسے کہ لفظ صلوۃ کا مطلب ا پنی راۓ اور خواہش سے بیان نہیں کرسکتے کیونکہ فریقین کے یہاں معتبر حدیث ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: "من فسر القرآن برانه فمقعده فی النار " یعنی جو شخص اپنی راۓ سے قرآن کیتفسیر کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم کے اندر ہے) لہذا مجبورا ہر صاحب عقل مسلمان کو مبین قرآن یعنی حضرت رسول خدا صلعم کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ آیا آں حضرت(ص) سے اولی الامر کے معنی میں کوئی حدیث مروی ہے یا نہیں اور آں حضرت(ص) سے اس بارے میں کوئی سوال ہوا ہے یا نہیں؟ اگر سوال کیا گیا ہے اور پیغمبر(ص) نے کوئی جواب دیا ہے تو ساری امت پر واجب ہے کہ عادت اور تعصب کو چھوڑ کر آن حضرت(ص) کے بیان اور ارشاد کی اطاعت و پیروی کرے۔میں ایک عرصہ دراز سے فریقین ( شیعہ و سنی) کی تمام تفاسیر اور کتب اخبار کا مطالعہ کررہا ہوں۔ لیکن آج تک مجھ کو کوئی حدیث ایسی نہیں ملی، جس میں رسول اللہ(ص) نے فرمایا ہو کہ اولی الامر سے امراء و سلاطین مراد ہیں۔ البتہ فریقین کی کتابوں میں اس کے برعکس کافی روایتیں موجود ہیں جن میں نقل کیا گیا ہے کہ رسول خدا(ص) سے اولی الامر کے معنی دریافت کئے گئے تو آں حضرت(ص) نے بہت واضح جوابات دئے اور فرمایا کہ اولی الامر سے مراد علی اور ان کے گیارہ فرزند ہیں۔ میں اس وقت محفل کی گنجائش دیکھتے ہوۓ نمونے کے طور پر چند حدیثیں پیش کررہا ہوں اور آپ کو متوجہ کرتا ہوں کہ اکابر علمائے شیعہ کے طرق سے جو متواتر احادیث و عترت طاہرہ اور اصحاب خاص کے واسطوں سے منقول ہیں ان سے ہرگز استدلال نہیں کروں گا۔ بلکہ مشتے نمونہ از خردار سے صرف انہیں بکثرت حدیثوں میں سے چند کے ذکر پر اکتفا کروں گا جو حضرات اہل سنت والجماعت کے طریقوں سے مروی ہیں اور فیصلہ صاحبان علم وعقل اور اہل اںصاف کے ضمیر صاف اور قلب روشن کے اوپر چھوڑ دوں گا۔

اولی الامر سے علی(ع) اور آئمہ اہل بیت مراد ہیں

۱۔ ابو اسحق شیخ الاسلام حموینی ابراہیم بن محمد فرائد السمطنین میں کہتے ہیں کہ جو کچھ رسول اللہ(ص) سے ہم کو پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ آیہ شریفہ میں اولی الامر سے علی ابن ابی طالب اور اہل بیت رسول(ص) مراد ہیں۔

۲۔ عیسی بن یوسف ہمدانی ابوالحسن اور سلیم بن قیس سے اور وہ امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا میرے شریک وہ لوگ ہیں جن کی اطاعت کو خداۓ تعالی نے اپنی اطاعت سے ملحق قرار دیا ہے اور ان کے حق میں اولی الامر منکم نازل فرمایا ہے تم کو چاہیئے کہ ان کے کلام سے باہر نہ جاؤ، ان کے فرمانبردار ہو اور ان کے احکام و اوامر کی اطاعت کرو۔ جب میں نے یہ ارشاد سنا تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ(ص) مجھ کو خبر دیجئے

۳۶۳

----------- فرمایایاعلی انت اولهم ( یعنی اے علی تم ان سے پہلے ہو۔ مترجم)

۳۔ محمد بن موسی شیرازی جو اجلہ علماۓ اہل سنت میں سے تھے رسالہ اعتقادات میں روایت کرتے ہیں کہ جس وقت رسول خدا(ص) نے امیرالمومنین علیہ السلام کو مدینے میں اپنا خلیفہ بنایا تو آیہ شریفہ اوالی الامر منکم علی ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئی۔

۴۔ خواجہ بزرگ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت کے باب۳۸ میں جس کو اسی آیت کے ساتھ مخصوص کیا ہے مناقب سے نقل کرتے ہیں کہ تفسیر مجاہد میں ہے۔

"ان هذه الآیة نزلت‏ في‏ أمير المؤمنين‏ علی علیه السلام حين‏ خلّفه رسول اللّه صلی الله علیه و آله وسلم بالمدينة "

یعنی یہ آیت امیرالمومنین علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی جس وقت پیغمبر(ص) نے ان کو مدینے میں اپنا خلیفہ قرار دیا۔

آپ نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) آپ مجھ کو عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنا رہے ہیں؟ آں حضرت(ص۹ نے فرمایا : "اما ترضی ان تکون منی بمنزلةهرون من موسی " آیا تم راضی نہیں ہو اس پر کہ تمہاری مجھ سے وہی منزلت ہو جو ہارون کو موسی سے تھی؟ یعنی جس طرح ہارون کو خدا نے موسی کو خلیفہ قرار دیا تھا اسی طرح تم کو میرا خلیفہ قرار دیا۔

۵۔ اور شیخ الاسلام حموینی سے خود انہیں کی سند کے ساتھ سلیم بن قیس ہلالی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا خلافت عثمان کے زمانے میں نے دیکھا کہ مہاجرین و اںصار میں سے کچھ لوگ بیٹھے ہوۓ اپنے اپنے فضائل بیان کررہے ہیں اور علی(ع) ان کے درمیان خاموش بیٹھے ہیں لوگوں نے عرض کیا یا علی(ع) آپ نے بھی کچھ فرمائیے۔ آپ نے فرمایا آیا تم نہیں جانتے ہو کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے اور میرے اہل بیت(ع) سب ایک نور تھے جو خلقت آدم سے چودہ ہزار سال قبل قدرت خداوندی کے درمیان سعی کرتا تھا، پس جب آدم کو خلق فرمایا تو اس نور کو ان کے صلب میں قرار دیا، یہاں تک کہ وہ زمین پر آۓ۔ پھر نوح کی پشت میں رکھا کشتی کے اندر اور ابراہیم کے صلب میں آگ کے درمیان، اسی طرح باپوں اور ماؤں کے پاک اصلاب اور پاکیزہ رحموں میں ودیعت کرتا رہا جن میں سے کسی کی خلقت حرام سے نہیں تھی؟ سابقین بدر احد نے کہا، ہاں ہم نے رسول اللہ(ص) سے یہ جملے سنے ہیں۔ فرمایا تم کو خدا کی قسم کیا تم جانتے ہو کہ خدانے قرآن مجید میں سابق کو مسبوق پر فضیلت دی ہے اور اسلام میں کسی نے مجھ پر سبقت نہیں کی ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں۔ فرمایا میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں، آیا تم جانتے ہو کہ جس وقت آیہ شریفہ" وَ السَّابِقُونَ‏ السَّابِقُونَ‏ أُولئِكَ الْمُقَرَّبُونَ‏ "( یعنی جن لوگوں نے ایمان میں پیش قدمی کی حقیقتا وہی مقربین بارگاہ ہیں۔ سورہ نمبر۵۶(واقعہ) آیت نمبر۱۰ نازل ہوئی تو لوگوں نے رسول اللہ(ص) سے دریافت کیا کہ سابقین کون ہیں اور یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

" أنزلها الله‏ تعالى في الأنبياء و أوصيائهم، فانا أفضل أنبياء الله و رسله و على بن ابى طالب أفضل الأوصياء"

خداۓ عزوجل نے یہ آیت انبیاء اور ان کے اوصیائ کے حق میں نازل فرمائی ہے، پس میں تمام انبیاء و مرسلین سے بہتر ہوں اور علی(ع) میرے وصی

۳۶۴

تمام اوصیاء سے بہتر ہیں؟ اس کے بعد فرمایا تم کو خدا کی قسم آیا جانتے ہو کہ جس وقت آیت"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ‏ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ." (یعنی اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور صاحبان امر کی جوتم میں سے ہیں۔) سورہ نمبر۴(نسائ) آیت نمبر۶۲ اور آیت:

" إِنَّما وَلِيُّكُمُ‏ اللَّهُ‏ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ‏"

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تمہارے امور میں اولیٰ بہ تصرف اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور وہ مومنین ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔ سورہ نمبر۵(مائدہ) آیت نمبر۶۰)( مفسرین خاصہ و عامہ کا اتفاق ہے کہ رکوع میں زکوۃ دینے والے علی علیہ السلام تھے۔

اور آیت "وَ لَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَ لا رَسُولِهِ وَ لَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً "(یعنی انہوں نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے علاوہ کسی کو اپنا ہمراز دوست نہیں بنایا۔ سورہ نمبر۹(توبہ) آیت نمبر۱۶) نازل ہوئی تو خداۓ تعالی نے اپنے پیغمبر(ص) کو حکم دیا کہ اولی الامر کو پہنچوا دیں اور سب کے سب سامنے اسی طرح ولی کی تفسیر کردیں جس طرح نماز و زکوۃ اور حج کی تفسیر کی ہے۔ پس آں حضرت(ص) نے مجھ کو غدیر خم میں لوگوں پر نصب فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ایہاالناس در حقیقت جب خداوند عالم نے مجھ کو رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا تو میں دل تنگ ہو اور خیال کیا کہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے۔ پھر فرمایا:

" أَ تَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ مَوْلَايَ وَ أَنَا مَوْلَى الْمُؤْمِنِينَ وَ أَنَا أَوْلَى‏ بِهِمْ‏ مِنْ أَنْفُسِهِمْ"

آیا تم جانتے ہو کہ خداۓ عزوجل میرا مولا اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان پر ان کی جانوں سے زیادہ اولی بتصرف ہوں، سب نے عرض کیا۔ ہاں یا رسول اللہ(ص) پس آں حضرت(ص) نے میرا ہاتھ تھام کے فرمایا:

" مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ هَذَا مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ "

یعنی جس کا میں مولا ہوں پس علی بھی اس کے مولا ہیں۔ خداوند دوست رکھ اس کو جو علی کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے۔

یہ روایت بھی ان اخبار کی موئد ہے جن کو میں گذشتہ راتوں کے خصوصی جلسوں میں پیش کرچکا ہوں کہ لفظ مولیٰ کے معنی اولی بتصرف کے ہیں) سلمان نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ(ص) علی(ع) کی ولایت کیسی ہے؟ "وَلَایة عَلِی كَوَلَايَتِي مَنْ كُنْتُ أَوْلَى بِهِ مِنْ نَفْسِهِ فَعَلِيٌّ أَوْلَى بِهِ مِنْ نَفْسِهِ "(یعنی علی کی ولایت مثل میری ولایت کے ہے جس شخص پر میںاس کے نفس سے اولی بتصرف ہوں پس علی(ع) بھی اس پر اس کے نفس سے اولی بتصرف ہیں۔ پھر آیت ولایت:

" الْيَوْمَ‏ أَكْمَلْتُ‏ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً"

(یعنی آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تمہارے اوپر ا پنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام سے راضی ہوا) پس پیغمبر(ص) نے فرمایا:"اللَّه اكبر على إكمال الدين، و اتمام النّعمة، و رضا الرّبّ برسالتي، و ولاية عليّ‏ بعدي‏" ( یعنی بزرگ ہے خدا جس نے دین کو کامل اور نعمت کو تمام کیا اور میری رسالت اور میری بعد علی کی ولایت پر راضی ہوا( یہ روایت بھی ان روایتوں کی تائید کرتی ہے جن کو میں گذشتہ شبوں کی خالص نشستوں میں عرض کرچکا ہوں کہ کلمہ مولی اولی بتصرف کے معنی میں ہے) لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے سامنے اپنے اصیاء کو بیان فرمائیے! آں حضرت(ع)

۳۶۵

نے فرمایا :

" عَلِيٌّ أَخِي وَ وَزِيرِي وَ وَارِثِي وَ وَصِيِّي وَ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي وَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِي ثُمَّ ابْنِي الْحَسَنُ ثُمَّ ابْنِي الْحُسَيْنُ ثُمَّ تِسْعَةٌ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ وَاحِدٌ بَعْدَ وَاحِدٍ الْقُرْآنُ مَعَهُمْ وَ هُمْ مَعَ الْقُرْآنِ لَا يُفَارِقُونَهُ‏ وَ لَا يُفَارِقُهُمْ حَتَّى يَرِدُوا عَلَيَّ الحَوْضِ."

یعنی میرے اوصیاء سے مراد علی(ع) ہیں جو میرے بھائی میرے وارث میرے وصی اورمیرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں، پھر میرے فرزند حسن(ع) پھر حسین(ع) کی اولاد سے نو افراد ہیں قرآن ان کے ساتھ ہے اور یہ قرآن کے ساتھ ہیں نہ یہ قرآن سے جدا ہوں گے نہ قرآن ان سے جدا ہوگا یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں۔

اس مفصل روایت کے بعد جس کا ایک حصہ میں نے محفل کا وقت دیکھتے ہوۓ پیش کیا، مناقب؟؟؟؟؟؟ میں روایتیں اور سلیم بن قیس، عیسی بن المسری اور ابن معاویہ کی سندوں سے نقل کرتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد آئمہ اثنا عشر اور اہل بیت طہارت ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اولی الامر کے معنی واضح کرنے کے لئے یہی مذکورہ بالا چند روایتیں کافی ہوں گی۔ رہی آئمہ طاہرین سلام اللہ علیہم اجمعین کی تعداد اور ان کے اسماۓ مقدسہ تو اس سلسلے میں بھی اکابر علماۓ اہل تسنن کے طرق سے مروی چند احادیث کوثبوت میں پیش کرتا ہوں اور ان کثیر و متواتر اخبار و احادیث سے قطع نظر کرتا ہوں جو صرف عترت رسول اور اہل بیت طہارت کے طریق سے منقول ہیں۔

آئمہ اثنا عشر کے اسماء اور تعداد

شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب۷۶ میں فرائد السمطین شیخ الاسلام حموینی سے، وہ مجاہد سے اور وہ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ ایک یہودی جس کا نام نعثل تھا، رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اورتوحید کے بارے میں چند مسائل دریافت کئے، آں حضرت(ص) نے ان کے جوابات دۓ( جن کو تنگئی وقت کی وجہ سے نظر انداز کرتا ہوں) تو نعثل اسلام سے مشرف ہوا، اس کے بعد اس نے عرض کیا، یا رسول اللہ(ص) ہر پیغمبر(ص) کا ایک وصی تھا اور ہمارے پیغمبر موسی بن عمران نے یوشع بن نون کے لئے وصیت کی تھی لہذا ہم کو خبر دیجئے کہ آپ کا وصی کون ہے؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

" إنّ وصيي عليّ بن أبي طالب و بعده سبطاي الحسن و الحسين، تتلوه تسعة أئمة من صلب الحسين"

(یعنی میرے وصی علی ابن ابی طالب ہیں ان کے بعد میرے دونوں نواسے حسن(ع) اور حسین(ع) ہیں اور ان کے بعد نو امام حسین(ع) کی نسل سے ہوں گے۔)

نعثل نے عرض کیا، میری التجا ہے کہ ان کے اسماۓ مبارکہ مجھ سے بیان فرمایئے۔ آں حضرت نے فرمایا:

" إذا مضى الحسين‏ فابنه‏ علي‏ فإذا مضى علي فابنه محمد، فإذا مضى محمّد فابنه جعفر، فإذا مضى جعفر فابنه موسى، فإذا مضى موسى فابنه عليّ، فإذا مضى عليّ فابنه محمّد فإذا مضى محمّد فابنه عليّ، فإذا مضى عليّ فابنه الحسن، فإذا مضى الحسن فابنه الحجة محمّد المهديّ فهؤلاء اثنا عشر"

(یعنی حسین(ع) کے بعد ان کے فرزند علی علی کے بعد ان کے فرزند محمد، محمد کے بعد ان کے فرزند جعفر، جعفر کے بعد ان کے فرزند

۳۶۶

علی، علی کے بعد ان کے فرزند حسن(ع) اور حسن(ع) کے بعد ان کے فرزند حجتہ آخر محمد مہدی(عج) ہوں گے۔ پس یہ سب بارہ نفر ہوں گے، باقی نو اماموں کے نام بتانے اور یہ واضح کرنے کے بعد کہ بارہویں امام یعنی حضرت محمد مہدی علیہ السلام تک ہر امام کی وفات کے بعد اس کا بیٹا اپنے باپ کا جانشین اور امام ہوگا، اس روایت میں اور بھی تفصیلات ہیں کہ اس نے ہر ایک کے طریقہ شہادت کے متعلق سوال کیا اور آں حضرت نے جواب دیا۔ اس وقت نعثل نے کہا:

"اشهد ان لا اله الا اللَّه و انّك رسول اللَّه و اشهد انّهم‏ الاوصياء بعدك."

یعنی میں گواہی دیتا ہوں دیتا ہوں کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اور یقینا آپ خدا کے رسول ہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ حقیقتا یہ بارہ بزرگوار آپ کے بعد آپ کے اوصیائ ہیں۔ قطعی طور پر جو کچھ آپ نے فرمایا ہے یہی میں نے انبیاۓ ماسبق کی کتابوں میں دیکھا ہے اور حضرت موسی کے وصیت نامے میں بھی یہ سب موجود ہے۔آںحضرت نے فرمایا:

"طُوبَى‏ لِمَنْ‏ أَحَبَّهُمْ‏ وَ طُوبَى لِمَنْ تَمَسَّكَ بِهِمْ وَ وَيْلُ لِمن ابغضهم و خالفهم"

(یعنی بہشت ہے اس کے لئے جو ان حضرات کو دوست رکھے اور ان کی پیروی کرے۔ اور جہنم ہے اس کے لئے جو ان کو دشمن رکھے اور ان کی مخالفت کرے۔ اس موقع پر نعثل نے کچھ اشعار نظم کر کے پڑھے۔ اس نے کہا ؎

صَلَّى الْعَلِيُّ ذُوالْعَلَاعَلَيْكَ يَاخَيْرَالْبَشَرِأَنْتَ النَّبِيُّ الْمُصْطَفَى وَالْهَاشِمِيُّ الْمُفْتَخَرُ

بِكَ اهْتَدَيْنَارُشْدَنَاوَفِيكَ نَرْجُومَاأَمَرَوَ مَعْشَرٍسَمَّيْتَهُمْ أَئِمَّةًاثْنَيْ عَشَرَ

حَبَاهُمُ رَبُّ الْعُلَى ثُمَّ صَفَاهُمْ مِنْ كَدَرٍقَدْفَازَمَنْ وَالاهُمُ وَخَابَ مَنْ عَفَاالْأَثَرَ

آخِرُهُمْ يَشْفِي الظَّمَ أَوَهُوَالْإِمَامُ الْمُنْتَظَرُعِتْرَتُكَ الْأَخْيَارُلِي وَالتَّابِعُونَ مَاأَمَرَ

مَنْ كَانَ عَنْكُمْ مُعْرِضاًفَسَوْفَ يَصْلَى بِسَقَرَ

یعنی درود و رحمت نازل کرے آپ پر خداۓ تعالیٰ اے بہترین افرادبشر۔ آپ برگزیدہ بنی اور قابل عزت و افتخار ہاشمی ہیں۔ آپ حضرات کے ذریعہ خدا نے ہماری ہدایت کی۔ اور آپ کے اور ان بزرگواروں اکے طفیل میں جن کو آپ نے دوازدہ امام بتایا ہے ہم کو احکام الہی حاصل ہوتے ہیں۔ خداۓ عزوجل نے ان کو اپنے فضل و کرم سے ہر عیب وگندگی سے پاک ومنزہ قرار دیا ہے۔ جس نے ان کی محبت اختیار کی وہ یقینا کامیاب ہوا اور جس نے ان سے عداوت رکھی وہ گھاٹے میں رہا ان میں آخر جو امام منتظر ہیں۔ تشنگان علم کو سیراب کریں گے اور آپ کی عترت واہل بیت(ع) میرے اور تمام پیروی کرنے والوں کے لئے باعث و برکت ہیں جو شخص ان سے روگردانی کرے گا وہ عنقریب واصل جہنم ہوگا۔)

نیز خواجہ بزرگ ینابیع المودت باب۷۶ میں مناقب خوارزمی سے وہ واثلہ بن اسقع ابن عمر خاب ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟سے وہ جابر ابن عبداللہ انصاری سے اور ابوالفضل شیبانی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ سے، وہ محمد بن عبداللہ بن ابراہیم شافعی سے اور وہ اپنی سند کے ساتھ جابر انصاری سے وہ رسول اللہ سے اصحاب خاص میں سے تھے، نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک یہودی نے جس کا نام حندل بن مادہ بن جبیر ؟؟؟؟؟؟؟؟ خدمت رسول(ص) میں مشرف ہوکر مسائل توحید دریافت کئے اور شامی جوابات پانے کے بعد کلمہ شہادتین

۳۶۷

زبان پر جاری کر کے مسلمان ہوگیا۔ پھر عرض کیا کہ کل رات میں نے خواب میں موسی بن عمران کی زیارت کی، حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ:

"أسلم‏ على‏ يد محمدخاتم الانبیاء (صلى الله عليه و آله)، و استمسك بالأوصياء من بعده"

یعنی محمد خاتم الانبیاء(ص) کے ہاتھ پر اسلام لا اور ان کے بعد ہونے والے ان کے اوصیائ سے تمسک اختیار کر۔

خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھ کو دین اسلام سے مشرف فرمایا۔ اب یہ بتائیے کہ آپ کے اوصیاء کون ہیں تاکہ ان سے تمسک اختیار کروں؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا، میرے اوصیاء بارہ ہیں۔ اس نے عرض کیا باکل درست ہے میں نے بھی توریت میں اسی طرح پڑھا ہے۔ممکن ہوتو ان کے نام بھی مجھ سے بیان فرمایئے۔

آں حضرت(ص) نے فرمایا

"أوّلهم‏ سيّد الأوصياء أبو الأئمّة علي، ثمّ ابناه الحسن و الحسين "

ان میں سے اول سردار اوصیاء اور پدر ائمہ علی ہیں پھر ان کے دونوں بیٹے حسن(ع) و حسین(ع) ہیں۔

تم ان تینوں ہستیوں سے ملاقات کروگے، پھر جب زین العابدین پیدا ہوں گے تو وہ تمہاری زندگی کا آخری وقت ہوگا۔ اور دنیا سے توشہ دودھ ہوگا۔ پس ان سے تمسک رہنا، کہیں جاہلوں کا جہل تم کو گمراہ نہ کردے اس نے عرض کیا، میں نے توریت اور کتب انبیاء میں علی اور حسن و حسین کے نام ایلیا(ع) اور شبر(ع) و شبیر(ع) دیکھے ہیں، میری تمنا ہے کہ حسین(ع) کے بعد والے اسماء بھیتحریر فرمائیے۔ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

"اذا انقضت‏ مدة الحسين‏ فالإمام ابنه على يلقب بزين العابدين فبعده ابنه محمد يلقب بالباقر فبعده ابنه جعفر يدعى بالصادق فبعده ابنه موسى يدعى الكاظم فبعده ابنه على يدعى بالرضا فبعده ابنه محمد يدعى بالتقى و الزكى فبعده ابنه على يدعى بالتقى و الهادى فبعده ابنه الحسن يدعى بالعسكرى فبعده ابنه محمد يدعى بالمهدى و القائم و الحجة فيغيب ثم يخرج فاذا خرج يملأ الارض قسطا و عدلا كما ملئت جورا و ظلما"

امام حسین علیہ السلام کے بعد نو اماموں کے نام اور القاب بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ان میں کے آخری محمد مہدی قائم وحجت غائب ہوجائیں گے، پھر ظاہر ہوں گے اور ظہور کے بعد زمین کو اسی طرح عدل و داد سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔

"طوبى‏ للصابرين‏ في غيبته، طوبى للمقيمين على محبتهم اؤلئك الذين وصفهم اللَّه في كتابه و قال‏ هُدىً لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ‏ ثم قال اللَّه تعالى ‏أُولئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ‏ الغالبون"

یعنی بہشت ہے ان حضرت کی غیبت میں صبر کرنے والوں کے لئے بہشت ہے ان حضرت کی محبت میں ثابت قدم رہنے والوں کے لئےیہی وہ لوگ ہیں جن کی خداۓ تعالی نے قرآن مجید میںتعریف کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ قرآن ہدایت ہے ان صاحبان تقوی کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ یہی لوگ اللہ کی جماعت والے ہیں آگاہ رہو کہ یقینا اللہ کی جماعت غالب آۓ گی۔

۳۶۸

ابوالموئد موفق بن احمد اخطب الخطبائ خوارزمی مناقب میں اپنیسند کے ساتھابوسلیمان راعی رسول اللہ(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا خداوند عالم نے شب معراج مجھ کو وحی فرمائی کہ اے محمد میں نے اہل زمین کی طرف نظر کی تو ان کے درمیان سے تم کو منتخب کیا اور اپنے ناموں میں سے ایک تمہارے لئے الگ کردیا۔ جس جگہ میرا ذکر کیا جاۓ گا وہاں میرے ساتھ تمہارا بھی ذکر کیا جاۓ گا، میں محمود ہوں اور تم محمد ہو تمہارے بعد میں نے اہل زمین کے درمیان سے علی کو چنا اور اپنے ناموں میں سے ایک نام ان کے لئے علیحدہ کیا، میں اعلیٰ ہوں اور وہ علی ہیں۔ اے محمد(ص) میں نے تم کو، علی(ع) کو، فاطمہ(ع) کو، حسن(ع) اورحسین(ع) کی اولاد میں سے باقی نو اماموں کو اپنے نور سے پیدا کیا اور تم سب کی ولایت کو آسمانوں اور زمینوں کے سامنے پیش کیا، پس جس شخص نے اس کو قبول کیا وہ مومنین میں سے ہے اور جس نے انکار کیا وہ کافروں میں سے ہے۔ اے محمد(ص) کیا تم ان کو دیکھنا چاہیتے ہو؟ میں نے عرض کیا ہاں، تو خطاب ہوا:

" انظر إلى‏ يمين‏ العرش‏ فنظرت فإذا علي و فاطمة و الحسن و الحسين و علي بن الحسين و محمد بن علي و جعفر بن محمد و موسى بن جعفر و علي بن موسى و محمد بن علي و علي بن محمد و الحسن بن علي و محمد المهدي بن الحسن كأنه كوكب دري بينهم "

یعنی عرش ک داہنی جانب دیکھو،جب میں نے دیکھا تو مجھ کو اپنے بارہ جانشینون کے انوار نظر آۓ( آں حضرت(ص) نے نام بنام سب کا ذکر فرمایا، یہاں تک کہ ارشاد فرمایا) اور حسن عسکری کے فرزند محمد مہدی(عج) ان کے اندر ایک چمکتےہوۓ ستارے کے مانند تھے اور اس وقت خداوند عالی نے خطاب فرمایا: "يا محمد هؤلاء حججي على عبادي و هم أوصياؤك "(یعنی اے محمد(ص) یہ سب ہمارے بندوں پر ہماری حجتیں ہیں اور یہی تمہارے اوصیاء ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آئمہ اثنا عشر کے نام اور ان کی تعداد رسول خدا صل اللہ علی و آلہ وسلم سے منقول نہیں ہے ان کے مقابلے میں وقت کو دیکھتے ہوۓ نمونے کے طور پر اکابر علماۓ اہلسنت والجماعت کے معتبر راویوں کی طرف سے یہی روایتیں کافی ہوں گی۔

اور اگر کوئی شخص اس سے زیادہ کا خواہش مند ہو تو کتاب مناقب خوارزمی، ینابیع المودت، سلیمان بلخی حنفی، فرائد السمطین حموینی، مناقب محدث فقیہ ابن مغازلی شافعی، مودۃ القربی، میر سید ہمدانی شافعی، فصول المہمہ مالکی، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی، تذکرۃ سبط ابن جوزی اور دوسرے تمام افاضل و اکابر علماۓ اہل تسنن کی کتابوں کا مطالعہ کرے۔ جن میں رسول اللہ صلعم کے خلفاء اور بارہ اماموں کے بارے میں برادران اہل سنت کے طرق سے سو روایتوں سے زیادہ مروی ہیں علاوہ اخبار و احادیث شیعہ کے جو بیشمار ہیں۔

پیغمبر(ص) کے بعد خلفائ کی تعداد بارہ ہے

میر سید ہمدانی شافعی ہمدانی مودۃ القربی مودت دوازدہم میں عمر ابن قیس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہم ایک

۳۶۹

احاطے کے اندر جس میں عبداللہ ابن مسعود بھی بیٹھے ہوۓ تھے کہ ایک اعرابی آیا اور سئوال کیا کہ تم میں عبداللہ کون ہے؟عبداللہ نے کہا میں ہوں اس نے کہا، اے عبداللہ آیا پیغمبر(ص) نے تم کو اپنے خلفاء کی خبر دی ہے؟ انہوں نے جواب دیا، ہاں پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے: " الخلفاء بعدي اثنا عشر عدد نقباء بني إسرائيل" (یعنی میرے بعد میرے خلفاء بارہ ہوں گے جو نقباۓ بنی اسرائیل کی تعداد تھی۔) نیز شعبی سے انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے عبداللہ شبیہ سے اسی روایت کو نقل کیا ہے اور جریر سے انہوں نے اشعث سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے، نیز عبداللہ ابن عمر سے، انہوں نے جابر ابن سمرہ سے، اور ان سب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا: "الخلفاء بعدي اثنا عشر عدد نقباء بني إسرائيل" اور عبدالملک کی روایت میں ہے کہ فرمایا : کلهم من بنی هاشم ( یعنی جو بارہ خلیفہ میرے بعد نقباۓ بنی اسرائیل کی تعداد کے مطابق ہوں گے وہ سب بنی ہاشم سے ہوں گے، مذکورہ کتابوں کے علاوہ دوسرے بڑے بڑے علماۓ اہل سنت نے بھی اپنی کتابوں میں موقع موقع سے متفرق طور پر اس بارے میں کثرت سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ چنانچہ خواجہ بزرگ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب۷۷ کو اسی موضوع سے مخصوص کردیا ہے اور اس سلسلے میں شیخیں ترمذی، ابوداؤد،مسلم، سید علی ہمدانی اور شعبی وغیرہ سے کافی حدیثیں نقل کی ہیں، منجملہ ان کے کہتے ہیں یحیی بن حسن فقیہ نے کتاب عمدہ میں بیس طریقوں سے نقل کیا ہے کہ"ان الخلفاء بعد النبی صلی الله علیه وآله اثناعشرخلیفةکلهم من قریش "( یعنی یقینا رسول خدا صلعم کے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے اور بخاری نے تین سلسلوں سے، مسلم نے نو سلسلوں، ترمذی نے ایک سلسلے سے اور حمیدی نے تین سلسلوں سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا، میرے بعد خلیفہ اور امام بارہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے اور ان میں سے بعض روایتوں میں ہےکلهم من بنی هاشم (یعنی یہ سب بنی ہاشم ہوں گے، یہاں تک کہ ص۴۴۶ میں لکھتے ہیں کہ بعض محققین علماء ( یعنی علماۓ اہلسنت) نے کہا کہ رسول اللہ(ص) کے بعد بارہ خلفاء کی امامت پر دلالت کرنے والی حدیثیں بکثرت طرق کے ساتھ مشہور ہیں جن سے انسان کو پتہ چلتا ہے کہ اپنے خلفاء کی تعداد معین کر کے رسول اللہ(ص) نے اپنے اہلبیت اور عترت میں سے بارہ اماموں کو مراد لیا ہے اور ان احادیث کو اںحضرت(ص) کےبعد ہونے والے خلفاۓ صحابہ سے مطابق کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ پیغمبر(ص) نے بارہ کا عدد معین فرمایا ہے( اور یہ صرف چار ہی تھے) سلاطین بنی امیہ پر بھی ان کا انطباق نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ بارہ نفر سے زیادہ تھے (یعنی تیرہ تھے) علاوہ اس کے وہ سوا عمرابن عبدالعزیز کے سب کے سب ظالم تھے( عمرابن عبدالعزیز کا ظلم ثابت کرنے کے لئے بھی اسی قدر کافی ہے کہ اس نے خلافت غصب کی اور امام وقت علیہ السلام کو خانہ نشین بنایا مولف) اور وہ بنی ہاشم میں سے بھی نہیں تھے جیسا کہ آں حضرت(ص) کا ارشاد ہے"کلهم من بنی هاشم" ترجمہ گذر چکا) اور شاہان بنی عباس پر بھی اطلاق نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کی تعداد بھی بارہ سے کہیں زائد تھی (یعنی پینتیس ہوۓ ہیں) اور انہوں نے عترت رسول کے حق میں ہدایت خداوندی کی بھی قطعا کوئی رعایت نہیں کی، جیسا کہ سورہ ( شوری و آیت ۲۲ میں ارشاد ہے"قُلْ‏ لا أَسْئَلُكُمْ‏ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‏" (یعنی اے رسول اللہ کہہ دو کہ میں تم سے تبلیغ کا کوئی اجر نہیں چاہتا سوا اس کے کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو اور حدیث کسائ بھی۔

۳۷۰

پس لازمی طور پر رسول خدا(ص) سے مروی ان تمام اخبار و احادیث کو عترت رسول اور اہل بیت طاہرین(ع) میں سے بارہ اماموں پر حمل کرنا ہوگا( جیسا کہ فرقیہ امامیہ اثنا عشریہ کا عقیدہ ہے۔

" لانّهم‏ كانوا اعلم‏ اهل زمانهم و اجلّهم و اورعهم و اتقاهم و اعلاهم نسبا و افضلهم حسبا و اكرمهم عند اللَّه و كان علومهم من آبائهم متّصلا بجدّهم و بالوراثة و اللّدنيّة كذا عرفهم اهل العلم و التحقيق و التّوفيق "

یعنی اس لئے کہ یہ حضرات اپنے اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے زیادہ عالم جلیل القدر، متقی و پرہیزگار، نسب میں بالاتر، فضائل و کمالات میں افضل اور اللہ کے نزدیک بزرگ وبرتر تھے، اور ان کے علوم ان کو اپنے آباؤ اجداد سے پہنچے ہیں جن کا سلسلہ ان کے جد(رسول اللہ) سے ملا ہوا ہے۔ یہ علوم کے وارث بھی ہیں اور عالم علم لدنی بھی ارباب علم و تحقیق اور صاحبان کشف و توفیق نے انبزرگواروں کی تعریف اسی طریقے سے کی ہے اور اس عقیدے کی تائید کہ اپنے بعد خلفاء کی تعداد معین کرنے سے پیغمبر(ص) کی مراد آپ کی عترت واہلبیت میں سے دوازدہ امام تھے، حدیث ثقلین بھی کررہی ہے(جو فریقین شیعہ و سنی کے روایات صحیحہ کے مطابق حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے) جس میں آں حضرت(ص) نے فرمایا:

" إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ‏ الثَّقَلَيْنِ‏ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَبَداً"

یعنی حقیقتا میں تمہارے درمیان دو نفیس وبزرگ چیزیں چھوڑتا ہوں، خدا کی کتاب اور ا پنی عترت یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرےپاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں اگر تم لوگ ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو پھر کبھی قطعا گمراہ نہ ہوگے۔

نیز اور بہت سی حدیثیں جو اس کتاب میں درج کی گئی ہیں اسی مطلب کی موئد ہیں( ینابیع المعودۃ کا حوالہ تمام ہوا۱۲)

یہ تھا علماۓ عامہ و اہل تسنن کے عقائد ونظریات کا مختصر سا اظہار تا کہ لوگ آپ کےسامنے حقیقت کو مشتبہ نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ شیعہ رافضی ہیں اور غلو کرتے ہیں، بلکہ آپ حضرات سمجھ لیجئے کہ علم اور انصاف اگر دونوں مل جائیں تو شیعہ ہو یا سنی نتیجے میں سب کو یہی پاکیزہ نظریات قائم کرنا پڑیں گے۔ علاوہ ان اخبار کثیرہ کے جو ان حضرات آئمہ اثنا عشر سلام اللہ علیہم اجمعین کے منصب امامت کے ثبوت میں نقل کئے ہیں خود ان کے خالص نظریات بھی آپ کی رہنمائی کریں گے، جس سے حضرات حاضرین بزم اور اسی طرح ان حضرات کو جو اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں معلوم ہوجاۓ گا کہ شیعہ قوم قرآن مجید کے حک اور رسول خدا کے فرمان سے عترت واہلبیت پیغمبر(ص) میں سے آئمہ اثنا عشر کی اطاعت و پیروی کرتی ہے اور ان ذوات مقدسہ کے اسماۓ گرامی، بارہ کی تعداد اور ان کےبلندصفات شیعوں ہی کے اخبار و احادیث میں تواتر کے ساتھ منقول نہیں ہیں بلکہ بڑے بڑے علماۓ اہل سنت کی معتبر کتابوں میں بھی مختلف مقامات پر کثرت سے درج کئے گئے ہیں۔

جاہلانہ عادت اور تعصب اختیار حق سے مانع ہے

البتہ ہمارے اور علماۓ عامہ کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ حضرات اخبار و احادیث کو نقل کرتے ہیں جو آیتیں اس جلیل القدر خاندان کی شان میں نازل ہوئی ہیں ان کو اور ان کی تفسیر کو درج کرتے ہیں اور ان پر اظہار بھی کرتے ہیں لیکن عادت کے ماتحت

۳۷۱

بغیر دلیل و برہان کے اپنے اسلاف کی پیروی کئے جاتے ہیں۔

اور بعض کو تعصب زبان سے تصدیق نہیں کرنے دیتا۔ لہذا بے محل نہ ہوگا کہا جاۓ کہ ان کاعلمی عروج و ارتقاء باکل بے نتیجہ رہا۔ اور عادت وتعصب کا جذبہ ان کی قوت عاقلہ پر غالب آگیا بلکہ کبھی کبھیتو رسول خدا صلعم سے منقول حدیثوں کی ایسی بار وتاویلیں کرتے ہیں جو برودت میں برف سے بھی بدرجہا بڑھی ہوئی ہوتی ہیں اور جن کو دیکھ کر صاحبان عل و تحقیق حیرت میں پڑجاتے ہیں۔

طلب حق میں جاحظ کا بیان

اگر حقیقت اور واقعیت سے تعصب و عناد کا پردہ ہٹا دیا جاۓ تو علم وعقل اور اںصاف کی رہنمائی میں( باوجود تعصب کے حق واضح اور آشکار نظر آۓ گا۔ چنانچہ صاحب کتاب البیان والتبیین ابوعثمان عمرو بن بحر جاحظ بصری معتزلی متوفی سنہ۲۵۵ جو اہل سنتکے علماۓ محققین اور اعیان متعصبین متقدمین میں سے ہیں) انہیں حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور خواجہ بزرگ حنفی نے ینابیع المودۃ باب۵۲ میں ان کے بعض کلمات کو درج کیا ہے۔ کہتے ہیں:

" ان الخصومات نقصت العقول السلیمةوافسدت الاخلاق الحسنةمن المنازعةفی فضل اهل البیت علی غیرهم فالواجب علیناطلب الحق واتباعةوطلب مرادالله فی کتابه وترکالتعصب والهوی وطرح تقلید السلف والاساتید والاٰباء"

یعنی در حقیقت اہل بیت کے اوپر دوسروں کو فضیلت دینے میں نزاع کرنے کی وجہ سے خصومتوں نے سلیم عقلوں کو ناقص اور اچھے اخلاق کو فاسد بنادیا ہے۔ پس ہم پر طلبحق اور اس کا اتباع، قرآن مجید میں خدا کی مراد معلوم کرنا۔ تعصب اور ہواۓ نفسانی کوترک کرنا اور اپنے اسلاف و اساتذہ و آباؤ اجداد کیتقلید سے دور رہنا واجب ہے۔

لیکن افسوس کا مقام ہے کہ باوجودیکہ ایسے نظریات بے اختیار ان کے قلم سے جاری ہوتے رہتے ہیں پھر بھی عادت اور تعصب ان کے علم و عقل پر غالب ہے اور اپنے اسلاف کی پیروی میں حقیقت کے برخلاف راستہ اختیار کر کے ارباب عقل کو حیرت اورتعجب کا موقع دیتے ہیں اپنی عادت اور تعصب و عناد کے زیر اثر نزاع و مخاصمت پر آمادہ رہتے ہیں ہواۓ نفسانی کی بنا پر ناحق دوسروں کو اہل بیت طہارت پر مقدم کرکے نصوص قرآنی اور احادیث معتبرہ کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور بغیر کسی مضبوط دلیل و برہان کے آنکھ بند کر کے اسلاف کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں۔

مثلا محض جہالت اور تعصب کی بناء پر ابوحنیفہ یا مالک یا دوسرے فقہاء اور عالم نما اشخاص کی پیروی تو کرتے ہیں جو صرف قیاس و راۓ کے حامل اور علم سے بے بہرہ تھے لیکن فقیہہاہل بیت طہارت(ع) حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے۔ حالانکہ خود حضرت اہلتسنن کے اکابر علماء جیسے ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ یہ لوگ رسول اللہ کے نمایندگان خاص یعنی اہل بیت عصمت وطہارت کے خرمن علم و دانش کے خوشہ چین تھے( جیسا کہ اسی کتاب میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے)

۳۷۲

شیعوں کا مںصفانہ اقرار

لیکن ہم شیعہ چونکہ خداۓ قادر و یکتا سے ڈرتے ہیں اور موت و روز قیامت پر یقین رکھتے ہیں لہذا جب ہم دلائل و براہین دیکھتے ہیں جن کو اکابر علماۓ اہل سنت والجماعت نے بھی اپنی معتبرکتابوں میں درج کیا ہے تو عادت اور جانبداری پر غالب آکے جو کچھ رسول اللہ(ص) نے ارشاد فرمایا ہے اور جو کچھ خدا نے حکم دیا ہے قلب وزبان سے اس کا اقرار اعتراف کرتے ہیں نیز اسی کتاب مقدس اور عترت طاہرہ کی پیروی کرتے ہیں جس کو آں حضرت(ص) نے ہمارے سپرد کیا ہے اور امید کرتے ہیں کہ اسیذریعے سے ہم سعادت ابدی پر فائز ہوں گے، کیونکہ رسول اللہ(ص) نے ابدی سعادت اور ںجات اسی جلیل القدر خاندان کی محبت اور متابعت میں اقرار دی ہے چنانچہ حافظ ابن عقدہ احمد بن محمد کوفی ہمدانی جو علماۓ عامہ میں سے ہیں اپنے علماۓ مشائخ سے اور وہ عبدالقیس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا، میں نے بصرہ میں ابوایوب اںصاری سے ایک مفصل حدیث سنی، یہاں تک کہ انہوں نے کہا، میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ فرمایا، میں نے شب معراج ساق عرش پر نظر کی تودیکھا ہوا ہے"لا إله إلّا اللّه محمّد رسول اللّه- صلّى اللّه عليه و آله- أيّده‏ بعليّ‏ و نصرتهبه "(یعنی نہیں ہے کوئی معبود سوا للہ کے، محمد اللہ کے رسول ہیں جن کی تائید ونصرت میں نے علی کے ذریعے کی ہے، اس کے بعد لکھا ہوا تھا" الحسن والحسین وعلی و علی وعلی ومحمد و محمدوجعفر و موسی والحسن والحجہ " ( یعنی حسن وحسین، تین علی، و محمد، جعفر، موسی، حسن اور حضرت حجۃ۔) میں نے عرض کیا خداوندا یہ کون ہیں؟ وحی ہوئی یہ تمہارےبعدتمہارے اوصیاء ہیں"فطوبى‏ لمحبّهم‏ و الويل لمبغضهم" ( یعنی بہشت ہے ان کے دوستوں کے لئے اور جنہم ہے ان کے دشمنوں کے لئے۔( اس موقع پر میں نے نواب صاحب سے مخاطب ہو کے کہا جناب نواب صاحب! آپ کے کل رات والے اشکال کا جواب ہوگیا اور آپ مطمئن ہوگئے یا ابھی اور اضافہ کروں؟)

نواب: ہم آپ کے انتہائی ممنون ہیں کہ ہم نے پورا پورا فیض حاصل کیا اور روشن ضمیر لوگوں کے دلوں میں اب کوئی شبہ اور اشکال باقی نہیں ہے۔ خدا آپ کو اور ہم کو جزاۓ خیر عطا فرماۓ۔ سب نے مل کے آمین کہی اور خود میں نے بھی پورےخلوص کے ساتھ آمین کہی کیونکہ میں صرف خداۓ تعالی ہی سے اجر اور جزا کی امید رکھتا ہوں کہ محمد وآل محمد سلام اللہ علیہم اجمعین ک طفیل میں ہم پر لطف و عنایت کی نظر فرماۓ اور امید ہے کہ جس طرح آج تک ہم کو اپنے بے شمار مراحم و الطاف سے فیض یاب رکھا ہے اسی طرح روز قیامت تک رہے گا۔

بقیہ تقریر کا خلاصہ

اس کے بعد سلطان الواعظین مدظلہم نے مسلمانوں کے باہمی اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر زور دیا ہے اور آپس میں لڑائیوں اور شیعوں کے خلاف نفرت و بدگمانی پھیلانے والوں کی رشیہ دوانیوں سے بچنے اور ہوشیار رہنے کی تلقین کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اہم اخلاقی تعلیم کو قبول کرنے سے کسی ہوشمند اور سلیم الطبع انسان کو انکار نہیں ہوسکتا لہذا بنظر اختصار تفصیل کو نظر انداز کر کے ترجمے کو تمام کرتا ہوں اور بارگاہ مجیب الدعوات

۳۷۳

میں دست بدعا ہوں کہ بطفیل محمد و آل محمد علیہم الصلوۃ والسلام میری اس دینی خدمت کو شرف قبولیت عطا فرماۓ، مولف و ناشر اور خاکسار مترجم کو اجر جزیل عنایت فرماۓ اور ہمارے برادران اسلامی کو توفیق کرامت عطا فرماۓ کہ اس حقیقت نما کتاب کو ٹھنڈے دل سے پڑھیں اور غور کریں۔

این دعا از من و از جملہ جہان آیین بادوَ السَّلامُ عَلى‏ مَنِ‏ اتَّبَعَ‏ الْهُدى .

ادم الحجاج والزائر ین عاصی محمد باقر الباقری الجوراسی عفی عنہ

قصبہ جوراس۔ ضلع بارہ بنکی۔ ( یو۔ پی)

وہ کتابیں جن سے حوالے دے گئے

قرآن مجید۔نہج البلاغہ۔

تفسیر کبیر مفاتیح الغیب، امام فخرالدین رازی، تفسیر کشاف جار اللہ زمخشری، تفسیر انوار لتنزیل، قاضی بیضاوی، تفسیر اتقان جلال الدین سیوطی، تفسیر درالمنثور، جلال الدین سیوطی۔ تفسیر نظام الدین نیشاپوری۔ تفسیر رموز لاکنوز امام عبدالرزاق الرسعی۔ تفسیر کبیر محمد بن جریر الطبری۔ تفسیر کشف البیان، امام احمد ثعلبی، تفسیر القرآن ، فاضل نیشاپوری ۔ تفسیر اسباب المنزول، واحدی۔ تفسیر نزول القرآن۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، تفسیر کشف البیان، امام احمد ثعلبی، تفسیر عرائب القرآن، فاضل نیشاپوری تفسیر اسباب المنزول ، واحدی، تفسیر نزول القرآن، حافظ ابونعیم اصفہانی، تفسیر شواہد التنزیل، حاکم ابوالقاسم حسکانی، تفسیر التبصرہ کواشی، تفسیر مانزل من القرآن فی علی، حافظ ابوبکر شیرازی، تفسیر روح المعانی سید شہاب الدین آلوسی۔ تفسیر فتح القدیر ، قاضی شوکانی، اثبات الوصیہ علی بن الحسین مسعودی، الامامۃ والسیاسۃ ، محمد بن مسلم بن قتیبہ اسد الغابہ، ابن اثیر جزری۔ استیعاب ، حافظ ابن عبدالبر قرطبی احیاء العلوم، امام غزالی، امالی حافظ ابو عبداللہ۔ اربعین۔ سید جمال الدین شیرازی، اوسط ، طبرانی، اعتقادات، محمد بن مومن شیرازی۔ اسنی المطالب، محمد حوت بیروتی۔ اسعاف الراغبین محمد علی الصبان المعری، ابطال الباطل قاضی روز بہان شیرازی۔ احیاء المیت بفضائل اہل البیت ، جلال الدین سیوطی۔ اربعین طوال ، محدث شام۔ اخبار الزمان، مسعودی ازالہ الخفاء۔ جلال الدین سیوطی، اوسط مسعودی۔ ارشاد الساری، شہاب الدین قسطلانی، الف باء ابو الحاج اندلسی، اسنی المطالب ، محمد بن محمد جزری، اصابہ، ابن حجر عسقلانی، احادیث المتواترہ مقبلی، بعیتہ الوعاظ فی طبقات اللغویین،جلال الدین سیوطی،بحر الاسانید، حافظ ابومحمد سمرقندی، تاریخ المدینہ علامہ سمہودی، تاریخ الخلفاء، جلال الدین سیوطی، تاریخ بغداد، ابوبکر خطیب بغدادی، تاریخ الامم و الملوک طبری، تاریخ کبیر، ابن کثیر دمشقی، تاریخ ابن خلدون، تاریخ ابن خلکان، تاریخ یعقوبی، تاریخ ۔ اعثم کوفی، تاریخ۔ نکارستان ،تاریخ بلادزی، تاریخ، واقدی، تاریخ حافظ ابرو۔ تاریخ، روضتہ الصفا، محمد خاوند شاہ۔ تاریخ ابوالفداء ۔ تاریخ ابن مردویہ۔ کامل التاریخ ۔ ابن اثیر تلخیص الستدرک ، مذہبی۔ تذکرہ الموضوعات، مقدسی، تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی تہذیب الاسماء واللغات، یحی بن شرف النودی۔ تاویل مختلف الحدیث۔ ابن قتیبہ دینوری توضیح الدلائل علی ترجیح الفضائل ، سید شہاب الدین۔ تذکرہ خواص الامہ سبط ابن جوزی۔ تذکرۃ الحفاظ، ذہبی، جواہر المفضیہ فی طبقات الحنفیہ ، عبدالقادر قریشی ۔ جمع بین الصحیحین ، حمیدی، جمع بین الصحاح الستہ، عبدی، جامع الاصول، ابن اثیر جزری، جامع الصغیر، وجمع الجوامع ، سیوطی ۔ جواہر العقیدین، نورالدین سمہودی۔ حلیتہ الاولیاء۔ حافظ ابونعیم

۳۷۴

اصفہانی۔ حیاۃ الحیوان، دمیری ،خصایص العلوی، امام نسائی خصائص العلویہ ابوالفتح نطتری، خصایص الکبری، سیوطی، خطط ، مقریزی درالمنظم، ابن طلحہ حلبی، دلائل النبوۃ، حافظ ابوبکر بیہقی، ذخیرۃ المعاد، عبدالقادر عجیلی، ذخائر لعقبی، امام الحرم حلبی، رسالۃ الاظہار المتناثرہفی الاحادیث المتواترہ، سیوطی ، ریاض النضرہ۔ محب الدین طبری، ریاض المنضرہ الذہبی۔ روضتہ المناظرفی اخبار الادائل والاواخر و ربیعر الابرار ذمخشری، زاد المعاد فی ہدی خیر العباد، ابن القیم۔ الزینیہ ، ابوحاتم رازی ۔زین الفتی۔ شرح سورہ ہل اتی ، و سنن و دلائل بہیقی سنن، ابن ماجہ قزوینی، سفر السعادات ، فیروز آبادی، سیرۃ الحلبیہ ، علی ابن برہان الدین شافعی سر العالمین، امام غزالی ۔ سیرۃ النبویہ ابو محمد عبدالملک بن ہشام، سبل الہدی ولرشاد، محمد بن یوسف شامی، سراج المنیر ، شرح جامع الصغیر و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید شرح دیوان ، میبدی۔ شرف النبی، خرگوشی، شرح عقایدنسفی، ملا سعد تفتازانی ۔ شرح التجرید ۔ مولوی علی قوشجی ۔ شرح صحیح بخاری، کرمانی،شرح صحیح مسلم، نودی شرح الشفاء قاضی عیاض، شرح المقاصد، فاضل تفتازانی۔ شرح المواقف سید علی شریف جرجانی، شرح الدائرۃ ، صلاح الدین ۔ شفا الصدور، ابن سبع مغربی، شرف المصطفی، حافظ ابوسعید ، شرف الموئد، شیخ یوسف بنہانی بیرونی ۔ صحیح بخاری ، صحیح مسلم، صحیح ترمذی، صحیح ابوداؤد، صحیح ابن عقدہ، صواعق محرقہ، ابن حجر مکی، طبقات ، محمد بن سعد،طبقات الکبیر،واقدی، طرق الحکمۃ ابن قیم جوزیہ، طبقات المشائخ ۔ عبدالرحمن سلمی، عقد الفرید، ابن عبدویہ ، عروۃ الوثقی، علائ الدولہ، عمدۃ القاری، بدرالدین حنفی، الغدیر، حافظ ابو حاتم رازی، فصول المہمہ ، ابن صباغ مالکی، فرائد السمطین، شیخ الاسلام حموینی الفصل فی الملل و الںحل، ابن حزم اندلسی، فتح الباری، ابن حجر عسقلانی، فرقتہ الناجیہ، قطیفی فصل الخطاب، خواجہ پارسا، فردوس الاخبار، ابن شیرویہ ، فیض القدیر، عبدالرؤف المنادی، فضائل العترۃ الطاہرہ، ابوالسعادات ، فواید المجموعتہ فی الاحادیث الموضوعہ، قاضی محمد شوکانی۔ قرۃ العینین جلال الدین سیوطی، قاموس اللغہ،فیروزآبادی، کنزالاعمال، محمد بن جریر طبری، کنوز الدقائق ، منادی مصری، کنزالعمال ،مولوی علی متقی ہندی، کنز البراہین، خضری، کفایت الطالب، محمد گنجی شافعی، کشف الغیوب ، قطب الدین شیرازی، کشفہ اللغمہ ، قاضی روزبہان، کوکب منیز شرح جامع الصغیر شمس الدین علقمی، کتاب الامتاع فی احکام السماع ، جعفر بن ثعلب شافعی۔ کتاب الدرایہ فی حدیث الولایہ، ابوسعید سجستانی، کتاب الغرر، ابن خزانہ، کتاب الامر، محمد بن ادریس شافعی ، کتاب الاسلام فی العم والآباء سید الانام، علامہ سید محمد بن سید رسول بزرنجی، کتاب الموافقہ ، ابن السمان، کتاب الاتحاف یجب الاشراف، شبرادی شافعی، کتاب الولایہ، ابن عقدہ حافظی، الآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ، سیوطی، لسان المیزان، ابن حجر عسقلانی، مودۃ القربی، میر سید علی ہمدانی، مطالب السئوال محمد بن طلحہ شافعی، مسند الہمام احمد ابن حنبل، مستدرک ، حاکم ابوعبداللہ نیشاپوری،ملل و نحل ، شہرستانی، مناقب ، خطیب خوارزمی، مناقب ابن مغازلی شافعی، مروج الذہب ، مسعودی، مواقف ، قاضی عبدالرحمن لاسچی شافعی، مرقاۃ شرح بر مشکوۃ ، ملا علی قاری ہروی ،معالم العترۃ النبوۃ، حافظ عبدالعزیز، مفتاح النجا، شیخ محمد بدخشانی،معجم البلدان یاقوت حموی، المجاس، نصر بن محمد سمرقندی، مصابیح السنہ، حسین بن مسعود بغوی، الموضوعات، ابوالفرج ابنجوزی، مرج البحرین، ابوالفرج اصفہانی،معجم الکبیر، سلیمان بن احمد طبرانی المنظم، ابن جوزی، المخ الملکیہ، ابن حجر، منحول فی علم الاصول ابوحامد غزالی،

۳۷۵

منہاج الاصول، قاضی بیضاوی ، مہناج السنہ، ابن تیمیہ، میزان الاعتدال ، ذہبی، معرفتہالصحابہ حافظ ابونعیم اصفہانی، مقتل الحسین، خطیب خوارزمی، مجمع الزوائد، حافظ علی ہیثیم، مقاصد الحسنہ، شمس الدین سخاوی، محاضرات تاریخ الامم السلامیہ شیخ محمد حضرمی نہایت اللغہ ، ابن اثیر، صلاح الدین صفدی، ہدایت لمرتاب، حاج احمد آفندی، ہدایت السعدائ، شہاب الدین دولت آبادی، ہدایہ ، برہان الدین حنفی۔

تفسیر علی بن ابراہیم قمی، مجمع البحرین، شیخ فخرالدین طریحی ۔ اصول کافی، محمد بن یعقوب کلینی، تاریخ حبیب السیر غیاث الدین خواند میر، عیون اخبار الرضا، صدوق ابن بابویہ قمی، تاریخ روضہ لصفانا مری، رضاقلی خان، ہدایت بحر الانساب، سید محمد عمیدی الدین نجفی، سفارت نامہ خوارزم، ہدایت ، احتجاج ، احمد بن علی طبری، مصباح المتہجد شیخ طوسی، تاریخ ؟؟؟ العجم، فرصت الددولہ شیرازی، عمدۃ المطالب فیک انساب آل ابی طالب و ہزار مزار شیرازی، دائرۃ المعارف قرن نوزدہم فرانس ، تمدن العرب، ڈاکٹر گوسادلولون فرانسیی الابطال، مسٹر کارلائل انگلستانی سیاستہ الحسینیہ، ڈاکٹر جوزف فرانسیسی ۔ دیوان لاناٹور۔کامیل ۔ فلاماریون فرانسیسی ۔ مرگ و اسرار۔فلامادیون۔

فقط

بالخیر

۳۷۶

فہرست

شروع حصہ دوم۲

آٹھویں نشست ۲

شب جمعہ یکم شعبان المعظم سنہ۱۳۴۵ھ ۲

اسلام اور ایمان میں فرق ۳

مراتب ایمان ۴

اہل سنت قرآنی قواعد کے خلاف شیعوں کو مطعون کرتے ہیں ۶

شیعہ علی(ع) اور اہلبیت(ع) کی پیروی کیوں کرتے ہیں اور ائمہ اربعہ کی تقلید کیوں نہیں کرتے ۷

بحکم رسول(ص) امت کو عترت کا اتباع کرنا چاہیئے۷

انسان کو اندھی تقلید مناسب نہیں ۱۱

انسان کو علم و عقل کا پیرو ہونا چاہئیے۱۲

پیغمبر(ص) نے خلفا کی تعداد بارہ بتائی ہے ۱۳

امام جعفر صادق علیہ السلام کے مراتب ۱۵

مذہب جعفری کا ظہور۱۶

عظیم درد دل اور عترت سے بے اعتنائی۱۸

تاثر بالائے تاثر۱۹

شیعہ صحابہ اور ازواج رسول(ص) پر طعن کیوں کرتے ہیں؟۲۰

۳۷۷

صحابہ پر طعن و ایراد موجب کفر نہیں ۲۱

صحابہ کے نیک و بد اعمال رسول اللہ(ص) کے پیش نظر تھے۲۵

واقعہ عقبہ اور قتل رسول(ص) کا ارادہ۲۸

پیغمبر(ص) نے جھوٹوں کی پیروی کا حکم نہیں دیا ہے ۲۹

سقیفہ میں اصحاب کی مخالفت ۲۹

ابوبکر و عمر سے سعد بن عبادہ کی مخالفت ۳۰

بصرے میں علی علیہ السلامسے طلحہ و زبیر کا مقابلہ۳۰

معاویہ اور عمرو عاص علی علیہ السلام کو سب و شتم کرتے تھے۳۰

اصحابی کالنجوم کے اسناد ضعیف ہیں ۳۱

صحابہ معصوم نہیں تھے۳۲

خفیہ جلسے میں دس(۱۰) نفر صحابہ کی شراب نوشی۳۳

صحابہ کی عہد شکنی۳۵

قرآن میں صادقین سے مراد محمد(ص) و علی(ع) ہیں ۳۵

حدیث غدیر اور اس کی نوعیت ۳۶

علمائے عامہ میں سے حدیث غدیر کے معتبر راوی ۳۸

طبری، ابن عقدہ اور ابن حداد۳۹

عمر کو جبرئیل کی نصیحت ۴۰

۳۷۸

اقتدائے اصحاب کی حدیث غیر معتبر ہے ۴۱

بعض صحابہ ہوائے نفس کے تابع اور حق سے منحرف ہوگئے۴۱

صحابہ کی عہد شکنی پر امام غزالی کا قول ۴۲

سرّ العالمین امام غزالی کی کتاب ہے ۴۴

ابن عقدہ کی حالت ۴۴

طبری کی موت ۴۵

امام نسائی کا قتل ۴۵

لفظ مولیٰ میں اشکال ۴۶

اولی بہ تصرف کے معنی اور آیہ بلغ۴۷

غدیر خم میں ۴۸

آیہ اکملت لکم دینکم۴۸

مولی کے معنی میں سبط ابن جوزی کا عقیدہ۵۰

مولیٰ کے معنی میں ۵۱

ابن طلحہ شافعی کا نظریّہ۵۱

رحبہ میں حدیث غدیر سے علی(ع) کا احتجاج ۵۲

چوتھا قرینہ۵۳

الست اولی بکم من انفسکم۵۳

۳۷۹

رسول اللہ(ص) کے سامنے حسان کے اشعار۵۵

صحابہ کی وعدہ شکنی۵۷

احد حنین اور حدیبہ میں صحابہ کی عہد شکنی۵۷

اںصاف سے فیصلہ کرنا چاہئیے۵۸

حدیبیہ میں صحابہ کا فرار۵۹

خدا جانتا ہے کہ میں کٹ حجتی نہیں کرتا۶۱

حقیقت فدک اور اس کا غصب ۶۲

آیہ و آت ذا القربیٰ حقہ کا نزول ۶۲

حدیث لا نورث سے استدلال اور اس کا جواب ۶۳

حدیث لا نورث کے رد میں جناب فاطمہ(ع) کے دلائل ۶۵

ابوبکر سے علی(ع) کا احتجاج ۶۷

بالائے منبر ابوبکر کی بدکلامی اور علی(ع) و فاطمہ(ع) کو گالی دینا۶۸

منصفانہ فیصلہ ضروری ہے ۶۸

ابوبکر کی باتوں پر ابن ابی الحدید کا تعجب ۶۹

علی(ع) کو ایذا دینا پیغمبر(ص) کو ایذا دینا ہے ۷۰

علی(ع) کو دشنام دینا پیغمبر(ص) کو دشنام دینا ہے ۷۱

علی(ع) باب علم وحکمت ہیں ۷۲

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394