پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 276209
ڈاؤنلوڈ: 6130


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 276209 / ڈاؤنلوڈ: 6130
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جبرئیل امین تھے ( جو اس صورت میں ظاہر ہوئے) اور انہوں نے اس کی تاکید کرنا اہی جو میں نے علی کے بارے میں کہا تھا۔

اب میں آپ حضرات سے انصاف چاہتا ہوں کہ آیا یہ مناسب تھا کہ دو ہی مہینے کی مدت میں ایسے مضبوط عہد و پیمان کو توڑ دیا جائے جو رسول اللہ(ص) نے بحکم خدا ان لوگوں کے ساتھ باندھا تھا، بیعت سے انحراف کریں ہوا و ہوس میں پھنس کے حق کو پس پشت ڈال دیں اور وہ کچھ کریں جو نہ کرنا چاہیئے تھا ان کے دروازے پر آگ لے جائیں ان کے اوپر تلوار اٹھائیں۔ اہانتیں کریں اور بجبر و اکراہ ایک ہنگامہ اور فساد برپا کر کے توہین و تذلیل کے ساتح ڈرا دھمکا کر بیعت کے لیے مسجد میں لے جائیں؟

حافظ : مجھ کو آپ کے ایسے جلیل القدر مہذب سید سے یہ توقع نہیں تھی کہ اصحاب رسول(ص) کی طرف ہوا پرستی کی نسبت دیں گے حالانکہ آنحضرت(ص) نے اصحاب کو قوم کی ہدایت کا ذریعہ قرار دیا تھا جیسا کہ ارشاد ہے : "اصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم" ( یعنی میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کرو گے ہدایت پائو گے۔

اقتدائے اصحاب کی حدیث غیر معتبر ہے

خیر طلب : پہلی درخواست تو میری یہ ہے کہ بار بار ایک ہی بات نہ دہرائیے ۔ ابھی بھی آپ اس حدیث سے استدلال کرچکے ہیں اور میں جواب عرض کرچکا ہوں کہ اصحاب بھی دوسرے لوگوں کی طرح جائز الخطا تھے، پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ معصوم نہیں تھے تو اگر دلیل کے ساتھ ان میں سے کسی کی طرف ہوا پرستی کی نسبت دی جائے تو کونسی حیرت کی بات ہے؟ دوسرے آپ کے خیالات کو صاف کرنے اور یاد دہانی کے لیے چاہتا ہوں کہ پھر جواب عرض کردوں تاکہ اس کے بعد آپ ایسی کمزور حدیثوں کا سہارا نہ لیں۔ چونکہ آپ نے تجدید کلام فرمائی ہے لہذا میں بھی تکرار جواب کررہا ہوں۔ خود آپ کے اکابر علماء کی بحث و تحقیق کی بنا پر یہ حدیث قابل اعتبار نہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں۔ قاضی عیاض مالکی نے آپ کے اجلہ علماء سے نقل کیا ہے کہ اس کے سلسلے روایات میں چونکہ مجہول الحال راوی حارث بن قضین اور حمزہ نصیبی کا نام بھی شامل ہے جس پر کذب و دروغ گوئی کا الزام ہے لہذا یہ قابل نقل نہیں ہے۔ نیز قاضی عیاض نے شرح شفاء میں اور تعدیل احادیث کے نقاد بیہقی نے اپنی کتاب میں خود حدیث کو موضوع بنایا ہے اور اس کی سند کو ضعیف و مردود شمار کیا ہے۔

بعض صحابہ ہوائے نفس کے تابع اور حق سے منحرف ہوگئے

تیسرے میں تہذیب و ادب سے ہٹ کے ہرگز کوئی بات نہیں کہتا میں تو وہی کہتا ہوں جو خود آپ کے علماء لکھ چکے ہیں بہتر ہوگا آپ حضرات فاضل تفتازانی کی شرح مقاصد ملاحظہ فرمائیے جس میں وہ جیسا میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں

۴۱

صاف صاف لکھتے ہیں کہ صحابہ کے درمیان چونکہ کثرت سے اختلافات ، عداوتیں اور لڑائیاں رونما ہوئیں۔لہذا پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ راہ حق سے منحرف ہو کر ہوائے نفس کے تابع ہوگئے تھے بلکہ ظالم اور فاسق تھے۔

پس ہر فرد یا جماعتقابل احترام نہیں سمجھی جاسکتی۔ جس نے رسول اکرم (ص) کی مصاحبت پالی بلکہ احترام انکے اعمال و کردار کا ہے اگر وہ اہل نفاق نہیں تھے بلکہ رسول اللہ(ص) کے مطیع و فرمانبردار تھے اور آں حضرت(ص) کے احکام و ہدایات کے برخلاف عمل نہیں کرتے تھے تو یقینا بزرگ و محترم ہوں گے اور ان کی خاک قدم ہمارے لیے سرمہ چشم ہوگی۔

صاحبان انصاف یا تو آپ کو یہ کہنا چاہئیے کہ آپ کی معتبر کتابوں میں کثرت کے ساتھ جو اخبار و واحادیث امیرالمومنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنے کے بارے میں وارد ہوئے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا علی(ع) جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے یہ سب بے بنیاد ہیں۔ یا اگر تصدیق کیجئے گا کہ اس طرح کی حدیثیں اور روایتیں انتہائی معتبر ہیں اس لیے سلسلہ اسناد صحیحہ کے ساتھ آپ اکابر علماء کی کتابوں میں منقول ہیں( علاوہ اس تواتر کے جو علماء شیعہ کی معتبر کتابوں میں موجود ہے) تو آپ کو یہ ماننے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ متعدد اصحاب فاسد، کھوٹے اور باطل پرست تھے۔ مثلا معاویہ، عمرو عاص، ابوہریرہ ،ثمرہ بن جندب، طلحہ اور زبیروغیرہ جو علی(ع) سے جنگ کرنے اٹھے ، کیونکہ علی(ع) سے جنگ کرنا رسول خدا(ص) سے جنگ کرنا تھا۔

اور چونکہ انہوں نے رسول اللہ(ص) سے جنگ کی لہذا قطعا حق سے برگشتہ تھے۔ پس اگر ہم نے کہہ دیا کہ بعض صحابہ ہوا و ہوس کے تابع ہوگئے تو غلط نہیں کہا بلکہ دلیل و برہان کے ساتھ کہا ہے۔ علاوہ اس کے ہم اس دعوے میں تنہا نہیں ہیں کہ بعض صحابہ فاسق و ظالم تھے اور حق سے منحرف ہوکر منافقین میں شامل تھے، بلکہ آپکے اکابر علماء سے اس کی سند لیتے ہیں۔

صحابہ کی عہد شکنی پر امام غزالی کا قول

آپ اگر کتاب سر العالمین مولفہ حجتہ الاسلام ابو حامد محمد بن حمد غزالی ؟؟؟؟ کا مطالعہ کریں تو ہرگز ہم پ؛ر ایراد نہ کریں۔ مجبورا میں اس کے چوتھے مقالے کا ایک حصہ اثبات حق کے لیے پیش کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں:

"أسفرت‏ الحجّةوجهه اوأجمعالجماهيرعلى متن الحديث من خطبته- صلى اللّه عليه وآله وسلم- في يوم غديرخمّ باتّفاق الجميع وهويقول: «من كنت مولاه فعليّ مولاه»فقالعمر: «بخ بخ لك ياأباالحسن لقدأصبحتم ولايوم ولى كلّ مؤمن ومؤمنة»فهذاتسليم ورضىوتحكيم؛ثمّ بعدهذاغلب الهوى بحبّ الرّئاسةوحمل عمودالخلافةوعقودالبنودوخفقانالهواءفيقع قعةالرايات واشتباك ازدحامالخيول وفتح الأمصارسقاهم كأسالهوى،فعادواإلى الخلاف الأوّل،فنبذواالحقّ وراءظهورهم واشتروابه ثمناقليلافبئس مايشترون و لما مات رسول الله قال قبل وفاته ايتونی بدوات و بياض

۴۲

روبيضا نسخة) لا زيل عنکم اشکال الامر و اذکر لکم من الستحق لو ابعدی قال عمرو عوا الرجل فانه لبهجر. و قيل بهذا فاذا بطل تعلقکم بتاويل النصوص فعدتم الی الاجماع و هذا منقوص ايفا فان العباس و اولاده و عليا و زوجته و اولاده لم يحضروا حلقة البية و خالقکم اصحاب السفية فی مبايعة الخزرجی ثم خالفهم الانصار"

یعنی جہت و برہان کا چہرہ روشن ہوگیا اور خطبہ روز غدیر کے متن حدیث پر متفقہ حیثیت سے جمہور مسلمین کا اجماع ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا جس کا مولا و آقا میں ہوں علی(ع) بھی اس کے مولا و آقا ہیں، پس فورا عمر نے کہا مبارک ہو مبارک ہو تم کو اے ابو الحسن( علی) کو تم میرے مولا و آقا اور سردار اور ہر مومن و مومنہ کے مولا و آقا ہوگئے اس قسم کی مبارک باد کا کھلا ہوا مطلب فرمان رسول(ص) کا مان لینا اور حکومت و خلافت علی(ع) کو بہ رضا و رغبت قبول کرنا ہے) لیکن اس کے بعد ان پر نفس امارہ غالب آگیا، مسند ریاست خلافت کی عمارت بلند کرنے، حکومت کا سہارا باندھنے، پھڑپھڑاتے پھریروں میں، ہوا کی سنناہٹ، کی طرف پلٹ گئے، خدا و رسول(ص) کے کم کو پس پشت ڈال دیا اور دین کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالا اور ان لوگوں نے خدا کے ساتھ کیا برا معاملہ کیا جب رسول(ص) کی موت کا وقت قریب آیا تو آں حضرت(ص) نے اپنی وفات سے قبل فرمایا کہ کاغذ و قلم دوات لائو تاکہ میں تمہاری مشکل رفع کردوں اور اپنے امر خلافت کا مستحق بتا جائوں ؟ لیکن عمر نے کہا کہ اس شخص کو چھوڑو یہ ( معاذ اللہ) ہذیان بک رہا ہے۔ پس جب قرآن و حدیث کی تاویل سے تمہارا کام نہیں چلا تو تم نے اجماع کا سہارا لیا حالانکہ اسی طرح سقیفہ والوں نے بھی خزرجی کی بیعت سے اختلاف کیا پھر انصار نے بھی مخالفت کی۔

پس حضرات یاد رکھئے کہ جو کچھ آپ کے بڑے بڑے انصاف پسند علماء کہتے ہیں وہی بات شیعہ بھی کہتے ہیں لیکن چونکہ آپ ہم لوگوں سے بدگمانی رکھتے ہیں لہذا ہماری باقاعدہ باتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اپنے علماء پر کوئی گرفت نہیں کرتے کہ انہوں نےلکھا کیوں، بلکہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے از روئے علم و انصاف حق کو ظاہر کیا اور واقعات کی حقیقت کو صفحات تاریخ کے حوالے کرگئے۔

شیخ : کتاب سرالعالمین امام غزالی کی تصنیف نہیں ہے اور ان کی منزل اس سے بلند ہے کہ ایسی کتاب لکھیں۔ چنانچہ خاص خاص علماء بھی اس کے قائل ہیں کہ یہ کتاب ان بزرگوار عالی مقام کی نہیں ہے۔

۴۳

سرّ العالمین امام غزالی کی کتاب ہے

خیر طلب : آپ کے متعدد علماء نے تصدیق کی ہے کہ یہ کتاب امام غزالی کی لکھی ہوئی ہے۔ اس وقت جو کچھ میرے پیش نظر ہے عرض کرتا ہوں کہ یوسف سبط ابن جوزی نے جو بہت نکتہ رس تھے اور نقل مطالب میں بہت احتیاط سےقلم اٹھاتے تھے اس کے علاوہ نیت میں بھی متعصب تھے تذکرۃ خواص الامہ میں اسی موضوع پر بحوالہ سر العالمین امام غزالی کے قول سے استدلال کیا ہے اور یہی عبارتیں نقل کی ہیں جو میں نے پیش کیں اور چونکہ ان باتوں پر کوئی تنقید نہیں کی ہے لہذا ثابت ہوتا ہے کہ اول تو وہ اس چیز کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ کتاب امام غزالی ہی کی ہے، دوسرے موصوف کے ان اقوال سےبھی موافقت کرتے ہیں جو میں نے وقت کے لحاظ سے مختصر طور پر عرض کئے ہیں لیکن انہوں نے تفصیل اور زیادتی کے ساتھ نقل کئے ہیں ورنہ ان پر نقد و تبصرہ ضرور کرتے البتہ آپ کے متعصب علماء جب اس قسم کے حقائق اور کابر علماء کے بیانات سے دوچار ہوتے ہیں اور کوئی منطقی جواب دینے سے عاجز ہوتے ہیں تو یا یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ کتاب اس عالم کی تالیف ہی نہیں ہے یا ان کی طرف تشیع کی نسبت دینے لگتے ہیں۔ بلکہ اگر ممکن ہو تو ان صاحبان انصاف کو فاسق اور کافر کہہ کر بالکل جڑ ہی کاٹ دیتے ہیں کہ انہوں نے انصاف کی بات کیوں کہی اور حق و حقیقت کا انکشاف کیوں کیا؟ اس لیے کہ

مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتدرازورنہ مجلس رنداں خبرے نیست کہ نیست

ابن عقدہ کی حالت

چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ آپ کے بہت سے اکابر علماء حق گوئی اور حق نگاری کی وجہ سے اپنی زندگی ہی میں حیران و پریشان اور حقیر بے بس ہوگئے اور ان کی کتابوں کا پڑھنا متعصب علماء اور بے خبر عوام نے حرام سمجھ لیا۔ یہاں تک کہ اس خطا میں ان کو قتل کر دیا گیا۔

مثلا حافظ ابن عقدہ ابوالعباس احمد بن محمد بن سعید ہمدانی متوفی سنہ333ہجری جو آپ کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں۔ اور آپ کے علماء رجال جیسے ذہبی اور یافعی وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے اور ان کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کو مع اسناد تین لاکھ حدیثیں یاد تھیں اور بہت ثقہ اور سچے تھے۔ لیکن چونکہ تیسری صدی ہجری میں کوفہ اور بغداد کے اندر عام مجمعوں میں شیخیں ( ابوبکر و عمر) کے عیوب اور برائیاں بیان کر دیتے تھے لہذا لوگ ان کو رافضی کہتے تھے اور ان کی روایتیں نقل کرنے

۴۴

سے پرہیز کرتے تھے۔ چنانچہ ابن کثیر ، ذہبی اور یافعی نے ان کے بارے میں لکھا ہے۔

"ان هذا الشيخ کان يجلس فی جامع براثا و يحدث الناس بمثالب الشيخين و لذا ترکت روايته فلا کلام لاحد فی صدقه و ثقته"

یعنی شیخ ابن عقدہ جامع براثا میں(مسجد براثا بغداد اور کاظمین کے درمیان مشہور جگہ ہے) بیٹھ کر لوگوں کے سامنے شیخین ( ابوبکر و عمر) کے معائب نقل کرتے تھے اسی وجہ سے ان کی روایتیں ترک کردی گئیں ورنہ ان کےسچے اور معتبر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے)

اور خطیب بغداد نے بھی اپنی تاریخ میں ان کی تعریف کی ہے لیکن آخر میں کہتے ہیں کہ "انه کان خرج مثالب الشيخين "( یعنی یہ شیخین کے معائب و مثالب بیان کرتے تھے لہذا رافضی تھے) پس آپ حضرات اس خیال میں نہ رہیں کہ صرف شیعہ ہی ان حقائق کو بیان کرتے ہیں بلکہ خود آپ کے اکابر علماء جیسے امام غزالی اور ابن عقدہ وغیرہ بھی کبار صحابہ کے عیوب و نقائص نقل کرتے تھے۔

طبری کی موت

تاریخ کے ہر دور میں کثرت سے اس قسم کے علماء و دانشمندان گزرے ہیں جو حق کہنے اور حق لکھنے کے جرم میں متروک و مردود قرار دئے گئے یا قتل ہوئے جیسے تیسری صدی ہجری کے مشہور معروف مفسر و مورخ محمد بن جریر طبری جو آپ کے اکابر علماء کے اندر مایہ ناز تھے جب سنہ310 ہجری میں چھیاسی سال کی عمر میں بغداد کے اندر فوت ہوئے تو لوگوں نے دن کو ان کا جنازہ ہی نہیں اٹھنے دیا اور فساد پر آمادہ ہوئے لہذا مجبورا ان کی میت رات کے وقت انہیں کے گھر میں دفن کی گئی۔

امام نسائی کا قتل

تمام واقعات سے عجیب تر امام ابو عبدالرحمن احمد بن علی نسائی کے قتل کا واقعہ ہے جو بہت جلیل القدر اور ائمہ صحابہ ستہ میں سے تھے اور جو تیسری صدی ہجری کے اواخر میں آپ کے سرمایہ افتخار اکابر علماء میں سے تھے۔ اس واقعہ کی مختصر کیفیت کے بعد حتی کہ ہر نماز جمعہ کے خطبے میں امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر علانیہ سب و شتم اور لعنت کرتے ہیں، ان کو بہت صدمہ ہوا اور انہوں نے طے کر لیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل میں رسول خدا(ص) کی جو معتبر حدیثیں اپنے سلسلہ اسناد کے ساتھ ان کو یاد ہیں ان کو جمع کریں گے۔

چنانچہ حضرت کے مراتب عالیہ اور فضائل کاملہ کے اثبات میں کتاب خصائص العلوی لکھی اور برسر منبر اس کتاب کو

۴۵

اور اس کی حدیثوں کو پڑھ کے آپ کے فضائل و مناقب نشر کرتے تھے۔

ایک روز منبر پر یہ فضیلتیں بیان کر رہے تھے کہ جاہل اور متعصب لوگوں نے ہجوم کر کے ان کو منبر سے نیچے کھینچ لیا، سخت زد و کوب کی، ان کے انیثیں کو کوٹا اور آلہ تناسل کو پکڑ کے کھینچتے ہوئے مسجد کے باہر لے جاکر ڈال دیا۔ چنانچہ انہیں سخت ضربات اور لاتوں گھونسوں کی چوٹ سے چند روز کے بعد وفات پائی اور حسب وصیتان کی میت مکہ معظمہ لے جا کر دفن کر دی گئی۔

اسی طرح کے حرکات اس قوم کے بغض و عناد ،جہل مرکب اور احمقانہ تعصبات کے نتائج ہیں جو اپنے بزرگان ملت کو اس جرم ذلیل و رسوا اور تفس کرتے ہیں کہ انہوں نے سچی بات کیوں کہی اور حقائق کو بے نقاب کیوں کیا؟ حالانکہ اتنا نہیں سمجھتے کہ حق کو جس قدر چھپایا جائے گا اسی قدر آفتاب کی طرح چمکے گا اور باطل کے پردے چاک ہوں گے۔

خلاصہ یہ کہ میں معذرت چاہتا ہوں کہ مطلب سے دور ہوگیا ورنہ مقصد یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے مقام ولایت کو صرف علمائے شیعہ ہی نے تحریر نہیں کیا ہے بلکہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے ستر ہزار یا ایک لاکھ بیس ہزار کے سامنے علی(ع) کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے امت کی امامت کے لیے نامزد فرمایا۔

لفظ مولیٰ میں اشکال

حافظ : اس قضیئے کے محل وقوع اور اصل حدیث میں کوئی حدیث میں کوئی شک و شبہ اور اشکال نہیں ہے لیکن اس اہمیت اور آب و تاب کے ساتھ نہیں جس طرح آپ نے بیان فرمایا۔

اس کے علاوہ متن حدیث بعض ایسے اشکال موجود ہیں جو آپ کے نقطہ نظر اور مقصد سے مطابقت نہیں کرتے۔ من جملہ ان کے لفظ مولا کے اندر بھی یہی بات ہے جس کے لیے اپنی تقریر کےسلسلے میں آپ نے ثابت کرنا چاہا ہے کہ مولی اولی بتصرف کے معنی میں ہے حالانکہ یہ طے ہوچکا ہے کہ اس حدیث میں مولی کے معنی محب و ناصر اور دوست کے ہیں، کیونکہ پیغمبر جانتے تھے کہ علی کرم اللہ وجہہ کے دشمن بہت میں لہذا آپ نے چاہا کہ وصیت کر کے امت کو بتادیں کہ جس کا محب و دوست اور ناصر میں ہوں، علی(ع) بھی اس کے محب و دوست اور ناصر ہیں اور اگر لوگوں سے کوئی بیعت لی ہے تو محض اس لیے کہ آں حضرت(ص) کے بعد علی کرم اللہ وجہہ کو اذیت نہ پہنچائیں۔

خیر طلب : میرا خیال ہے کہ کبھی کبھی آپ زبردستی اور خواہ مخواہ اپنے اسلاف و عادات کی پیروی کرنے لگتے ہیں، ورنہ اگر تھوڑا سا غور کریں، اپنے علم و اںصاف سے کام لیں اور قرائن پر توجہ کریں تو حق و حقیقت پوری طرح ظاہر و آشکار ہوجائے۔

حافظ : کون سے قرائن کے ساتھ آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ مہربانی کر کے بیان فرمائیے۔

۴۶

اولی بہ تصرف کے معنی اور آیہ بلغ

خیر طلب : سب سے پہلا قرینہ قرآن مجید اور آیہ نمبر17 سورہ نمبر5( مائدہ) ہے:

"ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ماأُنْزِلَ‏إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمابَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ"

یعنی اے رسول(ص) جو کچھ تم پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو امت تک پہنچا دو! کیونکہ ایسا نہ کروگے تو گویا تم نے تبلیغ رسالت کا فرض ہی انجام نہیں دیا۔ اور اللہ تم کو لوگوں کے شر سے محفوط رکھے گا۔

حافظ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ آیت اس روز اور اس مقصد کے لیے نازل ہوئی؟

خیر طلب : آپ کے فحول علماء جیسے جلال الدین سیوطی نے در منثور جلد دوم ص298 میں، حافظ ابن ابی حاتم رازی نے تفسیر غدیر میں، حافظ ابو جعفر طبری نے کتاب الولایہ میں، حافظ ابو عبداللہ محاملی نے امالی میں، حافظ ابوبکر شیرازی نے مانزل من القرآن فی امیرالمومنین میں، حافظ ابوسعید سجستانی نے کتاب الولایہ میں، حافظ ابن مردویہ نے آیت کی تفسیر میں، حافظ ابوقاسم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، ابو الفتح نطتری نے خصائص العلوی میں، معین الدین میبدینے شرح دیوان میں، قاضی شوکانی نے فتح القدیر جلد سوم ص57 میں، سید جمال الدین شیرازی نے اربعین میں، بدالدین حنفی نے عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری جلد ہشتم ص584 میں، امام اصحاب حدیث احمد ثعلبی نے تفسیر کشف البیان میں، امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر جلد سیم ص636 میں،حافظ ابو نعیم اصفہانی نے ما نزل من القرآن فی علی میں، ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد السمطین میں، نظام الدین نیشاوپوری نے اپنی تفسیر جلد ششم ص170 میں، سید شہاب الدین آلوسی بغدادی نے روح المعانی جلد دوم ص348 میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے فصول المہمہ ص37 میں، علی بن احمد واحدی نے اسباب النزول ص150 میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص16 میں، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں اور شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب39 میں، خلاصہ یہ کہ جہاں تک میں نے دیکھا ہے خود آپ کے تقریبا تیس علماء اعلام نے اپنی معتبر ترین کتب و تفاسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیہ شریفہ روز غدیر خم امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی یہاں تک کہ قاضی روز بہان بھی باوجود اپنے انتہائی عناد و ضد اور تعصب کے لکھتے ہیں کہ "فقد ثبت هذا فی الصحاح " یعنی بتحققی کی یہ قضیہ ہماری صحاح معتبر میں ثابت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کا بازو تھام کر فرمایا:"منكنتمولاهفعليّمولاه " اور تعجب یہ ہے کہ انہیں متعصب قاضی صاحب نے کشف الغمہ میں رزین بن عبداللہ سے ایک عجیب روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا ہم لوگ رسول خدا(ص) کے زمانہ میں اس آیت کو یوں پڑھتے تھے:

"ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ماأُنْزِلَ‏ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ انَّ عَلياََ مُولَی المُومِنِينَ فانَ لَمْ تَفْعَلْ فَمابَلَّغْتَ رِسالَتَهُ "

یعنی اے پیغمبر(ص) جو کچھ خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے یعنی یہ کہ علی علیہ السلام مومنین کے امور میں اولی بتصرف ہیں اس کو

۴۷

لوگوں تک پہنچا دو۔ پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تبلیغ رسالت کا فریضہ ہی پورا نہیں کیا۔

نیز سیوطی نے درالمنثور میں ابن مردویہ سے، ابن عساکر اور ابن ابی حاتم نے ابوسعید خدری اور عبداللہ ابن مسعود (کاتب وحی) سے اور قاضی شوکانی نے تفسیر فتح القدیر میں نقل کیا ہے کہ زمانہ رسول(ص) میںہم بھی اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے۔

غرضیکہ آیہ مبارکہ میں اس تاکید بلکہ تہدید سے کہ اگر اس امر کی تبلیغ نہ کرو گے تو گویا رسالت کا کوئی کام ہی انجام نہیں دیا صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ آں حضرت جس اہم اور عظیم امر کی تبلیغ پر مامور ہوئے تھے وہ مقام رسالت ہی کے قدم بہ قدم تھا اور قطعا وہ امامت و وصایت اور اولی بتصرف ہونے کا معاملہ تھا جو رسول خدا(ص) کے بعد دین و احکام الہی کا محافظ اور نگہبان ہے۔

غدیر خم میں

آیہ اکملت لکم دینکم

دوسرا قرینہ آیت نمبر5 سورہ نمبر5(مائدہ) کا نزول ہے جس میںتکمیل دین کے لیے ارشاد ہے :

"الْيَوْمَ‏ أَكْمَلْتُ‏ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً"

یعنی آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا، تم اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو ایک پاکیزہ دین قرار دیا۔

حافظ: مسلم تو یہ ہے کہ آیت روز عرفہ نازل ہوئی ہے اور کسی عالم نے اس کا نزول روز غدیر میں نہیں بتایا ہے۔

خیر طلب : میری درخواست ہے کہتقریر کے وقت انکار میں جلدی نہ فرمایا کیجئے کیونکہ شاید اثبات کا کوئی راستہ موجود ہی ہو۔ بلکہ مطالب کے بیان میں احتیاط کو مد نظر رکھا کیجئے تاکہ جواب ملنے پر ندامت کی زحمت نہ ہو۔

میں مانتا ہوں کہ آپ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ آیت عرفہ میں نازل ہوئی لیکن آپ ہی کے اکابر علماء کی ایک بڑی جماعت نے روز غدیر میں اس کا نازل ہونا نقل کیا ہے۔ نیز کے چند علماء کا قول ہے کہ غالبا یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی، ایک مرتبہ غروب عرفہ کے وقت اور ایک مرتبہ غدیر میں۔ چنانچہ سبط ابن جوزی، تذکرہ خواص الامہ آخر ص18 میں کہتے ہیں کہ:

"احتمل ان الآية نزلت مرتين مرة بعرفة و مرة يوم الغدير کما نزلت بسم الله الرحمن الرحيم مرتين مرة بمکة و مرة بالمدينة"

یعنی احتمال ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ایک مرتبہ عرفہ میں، اور ایک مرتبہ روز غدیر، جیسے بسم اللہ الرحمن الرحیم دو مرتبہ نازل ہوئی ایک مرتبہ مکہ میں اور ایک مرتبہ مدینہ میں۔

ورنہ آپ کے موثق اکابر علماء جیسے جلال الدین سیوطی نے در المنثور جلد دوم ص256 اور اتقان جلد اول ص31 میں، العلوی میںامام المفسرین ثعلبی نے کشف البیان میں ، حافظ ابو نعیم اصفہانی نے ما نزل من القرآن فی علی میں ، ابوالفتح نطززی نے خصائص العلوی میں ابن کثیر شامی نے اپنی تفسیر جلد دوم ص14 میں، حافظ ابن مردویہ کے طریق سے، تیسری صدی ہجری کے مفسر اور مورخ عالم

۴۸

محمد بن جریر طبری نے تفسیر کتاب الولایہ میں، حافظ ابوالقاسم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامۃ ص18 میں، ابو اسحاق حموینی نے فرائد السمطین باب دوازدہم میں، ابوسعید سجستانی نے کتاب الولایہ میں، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد ہشتم ص290 میں، ابن مغازلی فقییہ شافعی نے مناقب میں، ابوالموئد موفق بن احمد خورزمی نے مناقب فصل چہاردہم اور مقتل الحسین فصل چہارم میں نیز آپ کے دوسرے علماء نے لکھا ہے کہ غدیر خم کے روز جب رسول اللہ(ص) بحکم الہی علی علیہ السلام کو لوگوں کے سامنے نمایاں کر کے منصب ولایت پر معین فرمایا۔

علی(ع) کے بارے میں جس امر پر مامور تھے اس کی تبلیغ فرمائی اور آپ کو اپنے ہاتھوں پر اس قدر بلند فرمایا کہ دونوں بغلوں کی سفیدی نمودار ہوگئی تو اس وقت امت سے ارشاد فرمایا کہسلموا علی علیّ بامرة المومنین " یعنی امارت مومنین کے ساتھ علی(ع) پر سلام کرو اور ساری امت نے اس کی تعمیل کی۔ ابھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوئے تھے کہ مذکورہ آیہ شریفہ نازل ہوئی۔

خاتم الانبیاء اس آیت کے نازل ہونے سے بہت خوش ہوئے لہذا حاضرین کی طرف متوجہ ہو کر :

" الله اکبر علی اکمال الدين و اتمام النعمة و رضا الرب برسالتی والولايه لعلی ابن ابی طالب بعدی "

یعنی اللہ بزرگ ہے جس نے دین کا کامل اور نعمت کو تمام کیا اور میری رسالت اورمیرے بعد علی(ع) کی ولایت پر راضی ہوا۔

امام حسکانی اور امام احمد ابن حنبل نے تو اس قضیے کو پوری تفصیل سے نقل کیا ہے اگر آپ حضرات تھوڑی دیر کے لیے اپنی عادت سے الگ ہو کر چشم انصاف اور حقیقت بین نگاہوں سے دیکھیں تو آیات کریمہ کے نزول اور حدیث شریف سے آپ پر بخوبی واضح ہوجائے گا کہ لفظ مولی، امامت و ولایت اور اولی بہ تصرف کے معنی میں ہے۔

اگر مولی اور ولی اولی بہ تصرف کے معنی میں نہ ہوتا تو بعدی کا فقرہ بے معنی ہو جاتا۔ یہ جملہ جو بار بار رسول خدا(ص) کی زبان مبارک پر جاری ہوا ہے ثابت کرتا ہے کہ مولی اور ولی اولی بہ تصرف کے معنی میں ہے کیونکہ فرماتے ہیں میرے بعد یہ منصب علی علیہ السلام کے لیے مخصوص ہے۔

تیسرے ذرا گہری نظر سے جائزہ لیجئے اور اںصاف کیجئے کہ اس گرم ہوا اور بے گیاہ میدان میں جہاں پہلے سے مسافروں کی کوئی منزل نہیں تھی پیغمبر تمام امت کو جمع کریں۔ آگے جانے والوں کو پلٹانے کا حکم دیں، اس دیکتی ہوئی دھوپ میں جب لوگ اپنے پائوں کو دامنوں سے لپیٹے ہوئے اونٹوں کے سائے میں بیٹھے تھے منبر پر تشریف لے جائیں اور فضائل و مقامات امیرالمومنین کے اثبات میں وہ طولانی خطبہ ارشاد فرمائیں جس کو خوارزمی و ابن مردویہ نے مناقب میں طبری نے کتاب الولایتہ میں نیز دوسروں نے نقل کیا ہے، تین روز تک لوگوں کا وقت لے کر اسی گرم وخشک صحرا میں ٹھہرائے رکھیں اور حکم دیں کہ تمام اعلی اونی اشخاص کر فردا فردا علی علیہ السلام کی بیعت کرنا چاہیئے اور نتیجہ صرف اتنا ہی ہو کہ علی (ع) کو دوست رکھو یا یہ کہ علی(ع) تمہارے دوست اور ناصر ہیں؟ ایسی صورت میں کہ افراد امت میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو علی(ع) کے ساتھ آنحضرت(ص) کے انتہائی ربط کو نہ جانتا

۴۹

ہو اور بار بار آپ کی وصیت اور سفارش کو نہ سن چکا ہو( جیسا کہ ان میں سے بعض کی طرف میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں) دوبارہ خاص طور پر ایسے سخت گرم مقام پر نزول آیات اور اس قدر شدید تاکید کی کیا ضرورت تھی کہ اگر زحمت اور تعطل میں پڑ جائیں اور نتیجہ فقط یہ ہو کہ علی کودوست رکھو؟ بلکہ اگر آپ اچھی طرح سے غور کریں تو یہ عمل جب کہ اس کا کوئی اہم مقصد اور خاص پہلو نہ ہو۔ صاحبان عقل کی نظر میں لغو ٹھہرے گا۔ اور رسول اکرم(ص) سے کوئی لغو کام ہرگز صادر نہیں ہوتا۔

پس عند العقلاء ثابت ہے کہ یہ سارا ارضی و سماوی اہتمام و انتظام محض محبت و دوستی کے لیے نہ تھا بلکہ منصب رسالت کے قدم بہ قدم کوئی اہم کام تھا اور وہ وہی امر ولایت و امامت تھا اور مسلمانوں کے امور اولی بہ تصرف ہونا تھا۔

مولی کے معنی میں سبط ابن جوزی کا عقیدہ

چنانچہ آپ کے اکابر علماء کے ایک گروہ نے از روئے غور و اںصاف اس بات کی تصدیق کی ہے۔ من جملہ ان کے سبط ابن جوزی تذکرۃ خواص الامہ باب دوم میں کلمہ مولیٰ کے دس مطلب ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان معانی میں سے کوئی بھی رسول اللہ(ص) کے کلام سے مطابقت نہیں کرتا :

"و المراد من‏ الحديث‏، الطاعة المحضة المخصوصة، فتعيّن الوجه العاشر و هوالأولى، و معناه: من كنت أولى به من نفسه، فعليّ أولى به."

یعنی حدیث سے خالص اور مخصوص اطاعت مراد ہے پس دسواں مطلب صحیح ٹھہرتا ہے اور وہ اولی بہ تصرف ہونا ہے لہذا معنی یہ ہوئے کہ جس شخص کے لیے میں اس کے نفس سے زیادہ اولی بہ تصرف ہوں علی(ع) بھی اس کے لیے اولی بہ تصرف ہیں۔

اور کتاب مرج البحرین میں حافظ ابوالفرج یحیی بن سعید ثقفی اصفہانی کا قول بھی اس معنی کی صراحت کرتا ہے جنہوں نے اس حدیث کی اپنے اسناد کے ساتھ اپنے مشایخ سے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ پیغمبر(ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کے فرمایا "من كنت وليه وأولى به من نفسه فعلي‏ وليه‏." یعنی جس کا میں ولی اور اس کے نفس سے اولی بہ تصرف ہوں۔ پس علی(ع) بھی اس کے ولی یعنی اولیٰ بہ تصرف ہیں۔

پھر سبط ابن جوزی کہتے ہیں:

"ودل‏ عليه‏ أيضاقوله‏عليهالسلام«الست أولى بالمؤمنين منأنفسهم»وهذانص صريح في إثباتامامته وقبول طاعته"

یعنی آں حضرت (ص) کا قول الست اولی بالمومنین من انفسہم بھی اس پر دلالت کرتا ہے اور یہ علی علیہ السلام کی امامت اور ان کی اطاعت قبول کرنے کے اثبات میں ایک کھلی ہوئی نص ہے۔ انتہی کلامہ۔

۵۰

مولیٰ کے معنی میں

ابن طلحہ شافعی کا نظریّہ

نیز محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول باب اول اواسط پنجم ص16 میں کہتے ہیں کہ لفظ مولی کے متعدد معنی ہیں مثلا اولیٰ بہ تصرف، ناصر، وارث، صدیق اور سید، اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حدیث اسرار آیہ مباہلہ میں سے ہے اس لیے کہ خدائے تعالی نے علی علیہ السلام بمنزلہ نفس پیغمبر(ص) فرمایا ہے اور نفس علی(ع) کے درمیان کوئی جدائی نہیں تھی کیونکہ ان دونوں کو رسول اللہ(ص) کی طرف ضمیر مضاف کے ذریعے باہم جمع فرمایا ہے۔

"أثبت‏ رسول‏ اللّه‏ لنفس‏ علي‏ بهذاالحديث ماهوثابت لنفسه على المؤمنين عموما،فإنه أولى بالمؤمنين،وفاءالمؤمنين،وسيدالمؤمنين،وكل معنى أمكن إثباتهم مايدل عليه لفظ المولى لرسول اللّه فقدجعله لعلي (ع)،وهي مرتبةسامية،ومنزلةسامقة،ودرجةعلية،ومكانةرفيعة،خصصه بهادونغيره،فلهذاصارذلكاليوميومعيده وموسمسرورلأوليائه."

یعنی رسول اللہ(ص) اس حدیث کے ذریعے نفس علی(ع) کے لیے بالعموم ہر وہ چیز ثابت فرمادی جو مومنین پر ان کے نفس کے لیے ثابت ہے، پس آں حضرت یقینا مومنین کے امور میں اولی بہ تصرف ، مومنین کے مددگار اور مومنین کے سید و آقا ہیں اور ہر وہ معنی جس پر رسول خدا(ص) کے لیے لفظ مولا دلالت کرتا ہے اور اس کا اثبات ممکن ہے علی(ع) کے لیے بھی قرار دیا، اور یہ ایک مرتبہ عالیہ، منزلت بزرگ ، درجہ بلند اور مقام رفیع ہے۔ جس سے بلاشرکت غیرے صرف آپ کو مخصوص فرمایا چنانچہ اسی وجہ سے روز غدیر آپ کے دوستوں کے لیے عید اور موسم سرور بن گیا۔

حافظ : آپ کے ارشاد کے پیش نظر لفظ مولی چونکہ متعدد معانی میں استعمال ہوا ہے لہذا اس کو تمام معانی کے درمیان سے بغیر کسی مختص کے صرف اولی بہ تصرف کے معنی سے مخصوص کردینا باطل ہوگا۔

خیر طلب : آپ محققین علم اصول کے اس قول سے تو یقینا بخوبی واقف ہیں کہ حیثیت سے جس لفظ کے متعدد معانی آئے ہیں ان میں سے ایک حقیقی ہے اور باقی مجازی، اور یہبدیہی چیز ہے کہ ہر جگہ حقیقت مجاز پر مقدم ہوتی ہے۔ پس اس اصول کی بنا پر لفظ مولی و ولی ہیں حقیقی معنی مولی بہ تصرف کے ہوتے ہیں۔ جیسے ولی نکاح یعنی امر نکاح کا متولی، عورت کا دل اس کا شوہر اور بچے کا ولی اس کا باپ یعنی اس پر اولی بہ تصرف اور بادشاہ کا ولی عہد یعنی بادشاہ کے بعد اس کے امور سلطنت میں متصرف اسی قبیل سے دوسرے تمام معنی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اعتراض تو خود آپ ہی پر وارد ہوتا ہے کہ لفظ ولی و مولی کو جس کے متعدد معنی ہیں صرف محب و ناصر کے معنی سے مخصوص کرتے ہیں لہذا یہ تخصیص بلا مخصص قطعا باطل ہے۔ اور یہ ایراد زیادہ تر آپ ہی پر وارد ہے نہ کہ ہم پر اس لیے کہ ہم نے اگر تخصیص کی ہے تو بلا مخصص نہیں ہےبلکہ آیات و اخبار اور بزرگان قوم

۵۱

کے اقوال کے ان کثیر قرائن و دلائل کے روسے ہے جو اس مفہوم پر قائم ہیں۔

من جملہ ان کے وہ دلیلیں بھی ہیں جو آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے سبط ابن جوزی اور محمد بن ابی طلحہ شافعی نے بیان کی ہیں۔ اور سب سے بڑی دلیل وہ ظاہیر و باطنی قرینے ہیں جو اس کے معنی کی تخصیص کرتے ہیں۔ اور جن میں سے بعض کی طرف میں اشارہ بھی کرچکا ہوں کہ ہمارے اور آپ کے طرق سے بکثرت احادیث میں سے ایک یہ ہے کہ اس آیہ مبارکہ کو اس طرح نقل کیا ہے:

"ياأَيُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ‏ ماأُنْزِلَ‏ إِلَيْكَ فی و لاية علی و امامةاميرالمومنين"

چنانچہ جلال الدین سیوطی نے جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں در المنثور میں ان حدیثوں کو جمع کیا ہے۔

رحبہ میں حدیث غدیر سے علی(ع) کا احتجاج

الرحبہ حدیث اور لفظ مولی امامت اور خلافت اولی پر نص نہ ہوتی تو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اس سے بار بار احتجاج نہ فرماتے اور بالخصوص شوری کے جلسوں میں اس سے استدلال نہ کرتے۔ جیسا کہ خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابراہیم بن محمد حموینی نے فرائد باب58 میں، حافظ ابن عقدہ نے کتاب الولایہ میں، ابن حاتم دمشقی نے وراء النظم میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص61 میں تفصیل سے نقل کیا ہے اور خالص طور پر یہ کہ رحبہ میں تیس عدد اصحاب نے اس کی گواہی دی۔

چنانچہ امام احمد بن حنبل نے مسند جز اول ص119 وجزء چہارم ص370 میں، ابن اثیر جزری نے اسد الغابہ جلد سوم ص307 و جلد پنجم ص205، ص276 میں، ابن قتیبہ نے معارف ص194 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ص362 میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاء جلد پنجم ص26 میں، ابن حجر عسقلانی نے اصابہ جلد دوم ص408 میں، محب الدین طبری نے ذخائر العقبی ص67 میں، امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی ص26 میں، علامہ سمہودی نے جواہر العقدین میں، شمس الدین جزری نے اسنی المطالب ص3 میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب4 میں، حافظ ابن عقدہ نے کتاب الولایہ میں اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے رحبہ کوفہ (یعنی مسجد کوفہ کے صحن) میں مسلمانوں سے علی علیہ السلام کا احتجاج نقل کیا ہے کہ حضرت نے لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ جس شخص نے غدیر خم میں اپنے کانوں سے میرے بارے میں رسول اللہ(ص) سے کچھ سنا ہو وہ اٹھ کر گواہی دے! اصحاب میں سے تیس نفر اٹھے جن میں بارہ عدد بدری صحابی تھے اور کہا کہ ہم نے غدیر خم کے روز دیکھا کہ رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کے لوگوں سے فرمایا:

"اتعلمون‏ اني‏ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ‏؟قالوا: نعم،قال من كنت مولاه فهذامولاه- الخ"

یعنی آیا تم جانتے ہو کہ میں مومنین کے جانوں سے زیادہ ان پر حق رکھتا ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں ، تو فرمایا جس شخص کا میں مولا ہوں پس یہ علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں۔

اس مجمعمیں سے تین افراد نے شہادت نہیں دی جن میں ایک انس بن مالک بھی تھے جنہوں نے کہا مجھ پر بڑھاپا غالب

۵۲

آگیا ہے اس وجہ سے بھول گیا ہوں۔ حضرت نے ان لوگوں پر نفرین اور بد دعا فرمائی اور خصوصیت سے انس کے لیے فرمایا کہ اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو خدا تم کو جذام اور برص میں مبتلا کرے جس کو عمامہ چھپا نہ سکے! پس انس ابھی اپنی جگہ سے اٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ ان کے جسم میں کوڑھ اور سفید داغ پیدا ہوگئے( بعض روایتوں میں ہے کہ اندھے اور کوڑھی ہوگئے)

بدیہی چیز ہے کہ اس حدیث کو حجت قرار دینا اور اس سے استشہاد کرنا اس کی مکمل دلیل ہے کہ آپ نے سب سے بڑھے حق یعنی امارت و خلافت مںصوصہ کو ثابت فرمایا۔

( اس موقع پر مئوذن کی آواز بلند ہوئی اور مولوی صاحبان نماز عشاء پڑھنے کے لیے اٹھ گئے ۔ ادائے فریضہ تھوڑی استراحت اور چائے نوشی کے بعد پھر گفتگو شروع ہوئی۔)

چوتھا قرینہ

الست اولی بکم من انفسکم

خیر طلب : چوتھے حدیث کا قرینہ کلام خود اس مقصد کو ثابت کررہا ہے کہ مولی سے مراد اولی بہ تصرف ہے کیونکہ خطبہ غدیر اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ(ص) نے اظہار مطلب سے قبل فرمایا "الست اولی بکم من انفسکم " یعنی آیا میں تمہارے نفوس سے زیادہ تم پر اولی بہ تصرف نہیں ہوں؟( اشارہ سورہ نمبر33 ( احزاب) کے آیہ نمبر6 کی طرف جس میں ارشاد ہے "النبی أنّي أولى بالمؤمنين من أنفسهم" ( یعنی پیغمبر(ص) مومنین کی جانوں سے زیادہ ان کے لیے اولی بہ تصرف اور حقدار ہیں)

اور کتب فریقین میں یہ حدیث صحیح بھی وارد ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا " ما من مومن الا انا اولی به فی الدنيا والآخرة " یعنی کوئی مومن ایسا نہیں ہے جس پر میں دنیا و آخرت میں اولی بہ تصرف ہوں۔

سب نے کہا ہاں، آپ ہمارے نفوس سے زیادہ ہم پر اولی بہ تصرف ہیں، تب آں حضرت(ص) نے فرمایا"من كنت مولاه فهذا عليّ مولاه" پس سباق کلام بتاتا ہے کہ مولی سے وہی اولیت مراد ہے جو رسول خدا(ص) کو امت پر حاصل تھی۔

حافظ : بہت سی کتابوں میں اس قرینے کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ فرمایا ہو" الست اولی بکم من انفسکم "

خیر طلب : حدیث غدیر کے سلسلہ میں عبارات و الفاظ اور نقل کرنے والوں کے اقوال مختلف ہیں۔ اخبار امامیہ میں تو عمومیت ہے اور جمہور علماء شیعہ نے اپنی معتبر کتابوں میں اسی قرینے کے ساتھ نقل کیا ہے۔ لیکن آپ کی معتبر کتابوں میں بھی کثرت سے موجود ہے۔ چنانچہ اس وقت جہاں تک میرے پیش نظر ہے، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص18 میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، نور الدین بن صباغ مالکی نے امام احمد وزہری اور حافظ ابوبکر بیہقی سے نقل کرتے ہوئے فصول المہمہ میں، ابوالفتوح اسعد بن ابی الفضائل بن خلف العجلی نے اپنی کتاب الموجز فی الفضائل الخلفاء الاربعہ میں، خطیب خوارزمی نے مناقب فصل چہاردہم

۵۳

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب اول میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب4 میں، مسند احمد حنبل مشکوۃ ال؟؟؟؟ سنن ابن ماجہ، حلیتہ الاولیاء حافظ ابو نعیم اصفہانی، مناقب ابن مغازلی شافعی اور کتاب الموالات ابن عقدہ کے حوالوں سے اور آپ کے دوسرے اکابر علماء نے الفاظ اور انداز بیان کے معمولی فرق کے ساتھ حدیث غدیر کو نقل کیا ہے اور ہر ایک کے یہاں جملہ "الست اولی بکم من انفسکم " موجود ہے۔ تیمنا و تبرکا میں اس حدیث کا ترجمہ عرض کرتا ہوں جو اصحاب حدیث کے امام احمد بن حنبل نے مسند جلد چہارم ص481 میں، براء بن عازب کی سند سے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں ایک سفر میں رسول خدا(ص) کے ساتھ تھا، یہاں تک کہ ہم لوگ غدیر میں پہنچے۔ آں حضرت(ص) نے منادی کرائی " الصلوۃ جامعۃ " ( عادت اور رسم یہی تھی کہ جب کوئی اہم مسئلہ در پیش ہوتا تھا تو آں حضرت(ص) حکم دیتے تھے کہ " الصلوۃ جامعۃ " کی ندا دی جائے جب امت جمع ہوجاتی تھی تو ادائے نماز کے بعد اس امر خاص کی تبلیغ فرماتے تھے) اس کے بعد دو درختوں کے درمیان پیغمبر(ص) کی قیام گاہ بنائی گئی اور ادائے نماز کے بعد آں حضرت(ص) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر مجمع کے سامنے ارشاد فرمایا :

"ألستم تعلمون أنّي أولى بالمؤمنين من أنفسهم قالوا: بلى.قال: ألستم‏ تعلمون‏ أنّي‏ أولى‏ بكلّ مؤمن من نفسه؟!قالوا: بلى.قال: من كنت مولاه فعليّ مولاه، اللّهمّ وال من والاه، و عاد من عاداه. فلقيه عمر بن الخطاب بعد ذلك، فقال له: هنيئا يا بن أبي طالب! أصبحت و أمسيت مولى كلّ مؤمن و مؤمنة"

یعنی آیا تم لوگ نہیں جانتے ہو کہ میں مومنین کے نفسوں سے زیادہ ان پر تصرف کا حق رکھتا ہوں؟ لوگوں نے کہا ہاں ہم واقف ہیں۔ پھر فرمایا آیا تم لوگ نہیں جانتے ہو کہ میں ہر مومن پر اس کی جان سے بڑھ کے اولی بتصرف ہوں؟ پھر دعا فرمائی کہ خداوند دوست رکھ اس کو جو علی(ع) کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی(ع) کو دشمن رکھے۔ اس کے بعد فورا عمر ابن خطاب نے علی علیہ السلام سے ملاقات کی اور کہا مبارک ہو تم کو اے ابوطالب کے فرزند کہ تم ہر مومن ومومنہ کے مولا ہوگئے۔

نیز میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں ، سلیمان بلخی حنفی نے یبابیع میں اور حافظ ابو نعیم نے حلیہ میں مختصر لفظی تفاوت کے ساتھ اسی حدیث کو درج کیا ہے۔

بالخصوص حافظ ابو الفتح نے جن سے ابن صباغ نے بھی فصول المہمہ میں نقل کیا ہے اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے، کہ خاتم الانبیاء(ص) نے فرمایا :

"ايهاالناس ان الله تبارک و تعالی مولای و انا اولی بکم من انفسکم الا ومن کنت مولاه فعلی مولاه"

یعنی اے لوگو خدائے تبارک و تعالی میرا مولا ہے اور میں تمہارے نفوس سے زیادہ تم پر اولی بہ تصرف ہوں۔ آگاہ ہو کہ جس کے لیے میں اولی بہ تصرف ہوں پس علی(ع) بھی اس کے لیے اسی طرح اولویت رکھتے ہیں۔

ابن ماجہ قزوینی نے سنن میں اور امام ابو عبدالرحمن نسائی نے احادیث ص81،83، و ص92، 94، میں بھی اسی قرینے کو نقل کیا ہے اور حدیث نمبر84 میں

۵۴

زید بن ارقم سے اس عبارت کے ساتھ روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے خطبے کے ضمن میں فرمایا :

"ألستم‏ تعلمون‏ أنّي‏ أولى‏ بكلّ مؤمن من نفسه؟!قالوا: بلى. نشهد لانت اولی بکل مومن من نفسه قال: فانی من كنت مولاه فعليّ مولاه و اخذ بيد علی عليه السلام"

یعنی آیاتم نہیں جانتے ہو کہ میں ہر مومن و مومنہ پر اس کے نفس سے زیادہ تصرف کا حق رکھتا ہوں؟ سب نے کہا ہاں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہر مومن کے نفس سے زیادہ اس پر اولی بہ تصرف ہیں اس وقت فرمایا کہ جس پر میں اولی بہ تصرف ہوں یہ بھی اس پر اولی بہ تصرف ہیں۔ اور علی(ع) کا ہاتھ پکڑ لیا اس کے علاوہ ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی متوفی سنہ463 ہجری نے تاریخ بغداد جلد ہشتم ص290 میں ابوہریرہ سے ایک مفصل حدیث نقل کی ہے کہ جو شخص اٹھارہویں ذی حجہ ( روز غدیر) کو روزہ رکھے تو اس کو ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب حاصل ہوگا۔ پھر مذکورہ حدیث غدیر کو اسی قرینے کے ساتھ نقل کیا ہے۔

میرے خیال میں نمونے کے لیے اسی قدر روایتوں کا نقل کردینا کافی ہوگا تاکہ آپ دوبارہ یہ نہ فرمائیں کہ اخبار و احادیث میں قرینہ "الست اولی بکم من انفسکم " کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

رسول اللہ(ص) کے سامنے حسان کے اشعار

پانچوان قرینہ حسان بن ثابت اںصاری کے وہ اشعار ہیں جو انہوں نے رسول اللہ(ص) کے سامنے خود آنحضرت(ص) کی اجازت سے اسی جلسے میں پڑھے جس میں علی(ع) کے منصب ولایت کا اعلان فرمایا گیا تھا۔ سبط ابن جوزی وغیرہ لکھتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے جس وقت یہ اشعار سنے تو فرمایا :

"ياحسان‏ لاتزال‏ مؤيدابروح القدس مانصرتناأونافحت عنابلسانك."

یعنی اے حسان جب تک تم ہماری نصرت یا اپنی زبان سے ہماری تعریف و توصیف کرتے رہے ہوگے روح القدس برابر تمہاری تائید کرتا رہے گا۔ یعنی تمہارے یہ اشعاد روح القدس کی تائید میں سے ہیں٫

چنانچہ چوتھی صدی ہجری کے مشہور مفسر و محدث حافظ ابن مردویہ احمد بن موسی متوفی سنہ352 ہجری مناقب میں، صدر الائمہ موفق بن احمد خوارزمی مناقب اور مقتل الحسین فصل چہارم میں، جلال الددن سیوطی رسالہ الازہار فیما عقدہ الشعراء میں، حافظ ابوسعید خرگوشی شرف المصطفی میں، حافظ ابوالفتح نطتری خصائص العلویہ میں، حافظ جمال الدین زرندی نظم دار السمطین میں، حافظ ابونعیم اصفہانی مانزل من القرآن فی علی میں، ابراہیم بن محمد حمیونی فرائد السمطین باب 12 میں، حافظ ابوسعید سجستانی کتاب الولایہ میں، یوسف ابن جوزی ت تذکرۃ خواص الامہ ص20 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب اول میں، اور آپ کے دوسرے علماء و محدثین و مورخین ابو سعید خدزی سے نقل کرتے ہیں کہ روز غدیر خم خطبہ رسول(ص) اور نصب امیرالمومنین نیز گر تشریحات کے بعد جن کا مختصر ذکر ہوچکا ہے حسان بن ثابت نے عرض کیا:

"أَتَأْذَنُ لِي أَنْ‏ أَقُولَ‏ أَبْيَاتاً فَقَالَ صلی الله عليه ،سلم

۵۵

قُلْ بىبَرَكَةِاللَّهِ"

یعنی کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اس بارے میں کچھ اشعار کہوں؟آنحضرت(ص) نے فرمایا کہو یہ برکتِ خداوندی یعنی لطف و عنایت پروردگار۔ پس وہ ایک بلند قدم پر کھڑے ہوئے اور فی البدیہ یہ اشعار شروع کئے۔

يُنَادِيهِمْ يَوْمَ الْغَدِيرِنَبِيُّهُمْ‏بِخُمٍّ وَأَسْمِعْ بِالنَّبِيِّ مُنَادِياً

أَلَسْتُ أَنَامَوْلَاكُمْ وَوَلِيَّكُمْ‏فَقَالُواوَلَمْ يَبْدُواهُنَاكَ التَّعَامِيَا

إِلَهُكَ مَوْلَانَاوَأَنْتَ وَلِيُّنَاوَلَاتَجِدَنْ فِي الْخَلْقِ لِلْأَمْرِعَاصِياً

فَقَالَ لَه ُقُمْ يَاعَلِيُّ فَإِنَّنِي‏رَضِيتُكَ مِنْ بَعْدِي إِمَاماًوَهَادِياً

فمن کنت مولاه فهذا وليهفکونوا لهانصار صدق مواليا

هناک دعا اللخم وال وليهو کن الذی عادی عليا معاديا

یعنی غدیر خم کے روز نبی اکرم(ص) نے امت کو آواز دی اور میں نے آں حضرت(ص) کے منادی کی ندا سنی۔ آں حضرت(ص) نے فرمایا کہ تمہارا مولا اور ولی ( یعنی اولی بہ تصرف ) کون ہے ؟ تو لوگوں نے صاف صاف کہا کہ خدا ہمارا مولی اور آپ ہمارے ولی ہیں اور کسی کو اس حقیقت سے انکار نہیں ہے۔ پس آں حضرت (ص) نے علی(ع) سے فرمایا کہ اٹھو میں اپنے بعد تمہارے امام اور ہادی ہونے پر راضی ہوں پس میں جس کے امور میں ولی اور اولی بہ تصرف ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے امور میں ولی اور اولی بہ تصرف ہیں، لہذا اے امت والو سچائی اور وفادار کے ساتھ ان کے یار و مددگار بنو پھر دعا فرمائی کہ خداوندا جو علی(ع) کا دوست ہو اس کو دوست رکھ اور جو ان کا دشمن ہو اس کو دشمن رکھ۔

یہ اشعار بہت واضح دلیل ہیں اس بات کی کہ اس روز اور اس موقع پر اصحاب نے لفظ مولی سے علی علیہ السلام کی امامت و خلافت کے سوا اور کوئی مطلب نہیں نکلا۔ اگر مولا امام ہادی اور اولی بہ تصرف کے معنی میں نہ ہوتا تو قطعا جس وقت حضرت نے حسان کے اشعار میں مصرع "رَضِيتُ كَمِنْ بَعْدِيإ ِمَام اًوَهَادِياً " سنا تھا فوراارشاد فرماتے کہ حسان تم نے دھوکا کھایا اور میرا مقصد نہیں سمجھے اس لیے کہ اس بیان سے میرا مقصود امام و ہادی اور اولی بہ تصرف قائم مقام منصب نبوت نہیں بلکہ دوست و ناصر کا مفہوم مراد تھا۔ لیکن قطع نظر اس سے کہ ان کی تکذیب نہیں کی، الفاظ "لاتزال‏ مؤيدابروح القدس " سے ان کی تصدیق بھی فرما دی ۔ اس کے علاوہ خطبے کی ضمن میں بھی پوری وضاحت کے ساتھ آپ کی امامت و خلافت کا اعلان فرمایا آپ حضرات کو لازم ہے کہ خطبہ ولایت کا مطالعہ کیجئے جو رسول خدا(ص) نے غدیر کے روز بیان فرمایا تھا اور جس کو ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی سنہ310 ہجری نے کتاب الولایہ میں تمام و کمال نقل کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

"اسمعواوأطيعوافإن‏ الله‏ مولاكم‏وعلي إمامكم ثم الإمامةفي ولدي من صلبه إلى يوم القيامة. معاشر الناس هذا اخی و وصيی و داعی علمی و خليفتی علی من آمن بی و علی تفسير کتاب ربی"

یعنی سنو اور اطاعت کرو پس یقینا اللہ تمہارا مولا اور علی(ع) تمہارے امام ہیں۔ پھر قیامت تک امامت علی(ع) کی نسل سے میری اولاد ہی میں رہے گی۔ اے گروہ ناس یہ(علی(ع)) میرے بھائی،

۵۶

میرے وصی میرے علم کے محافظ اور میرے خلیفہ ہیں ہر اس شخص پر جو مجھ پر اور کتاب الہی کی تفسیر پر ایمان لایا ہے۔

حضرات ! اگر انصاف سے دیکھئے تو خود آں حضرت(ص) کے بیانات کے علاوہ یہ اشعار سننے کےبعد آپ کی خاموشی دلیل قاطع ہے اس چیز پر کہ آں حضرت(ص) کی مراد محب و ناصر نہیں تھی بلکہ وہی تھی جس کو حسان نے نظم کیا ہے یعنی امام و ہادی امور مسلمین میں اولی بہ تصرف۔ چنانچہ فرمایا کہ حسان ! یہ حقیقت تمہاری زبان پر روح القدس کی تائید سے جاری ہوئی ہے۔

صحابہ کی وعدہ شکنی

بہر حال آں حضرت(ص) کے حسب الارشاد و لایت مطلقہ کے حقیقی معنی لیے جائیں یا آپ کے عقیدے کے مطابق محب و ناصر کے معنی، یہ مسلم ہے کہ اس روز اصحاب نے حکم رسول(ص) سے کچھ وعدہ کیا تھا، ایک بیعت کی تھی اور کوئی عہد و پیمان کیا تھا۔ جس پر علمائے فریقین ( شیعہ و سنی) کا اتفاق ہے، پس آخر اس عہد و پیمان کو کیوں توڑا؟ اگر آپ ہی کا فرمانا صحیح فرض کر لیا جائے کہ آنحضرت(ص) کا مقصود دوستی اور یاوری تھا تو خدا کے لیے انصاف سے بتائیے کہ جس دوستی کا اور نصرت و یاری کا عہد باندھا تھا کیا اس کا مطلب اور نتیجہ یہی ہونا چاہئیے تھا کہ ان کے دروازے پر آگ لے جائیں، ان کی بیوی بچوں کو جو اولاد رسول(ص) تھے آزار پہنچائیں اور خوف زدہ کریں ان کو جبرا کھینچتے ہوئے مسجد میں لے جائیں، اور ننگی تلواریں لیے ہوئے ان کو قتل کردینے کی دھمکی دیں، رسول خدا(ص) کا پارہ جگر جناب فاطمہ(ع) کو خوفزدہ اور اذیت میں مبتلا کریں اور حمل ساقط کریں؟

آیا اس خاص تاریخ میں اس قدر عظیم الشان انتظامات اور اتنے سخت تاکیدات کے ساتھ رسول(ص) کی سفارشوں کا یہی مقصد تھا؟ آیا آں حضرت(ص) کی وفات کے بعد اس قسم کے حرکات خدا و رسول(ص) سے عہد شکنی نہیں تھی؟ آیا جن لوگوں نے یہ عہد توڑٰا یا ( آپ کے خیال سے ) دوستی کا پیمان آخر تک نہیں نبھایا۔ انہوں نے سورہ نمبر13 ( رعد) کی آیت نمبر25 نہیں پڑھی تھی؟ اگر ہم جاہلانہ محبت اور بغض کو الگ رکھیں تو حق و حقیقت بالکل ظاہر ہے۔

گرپردہ زروئے کار ہا بردارندمعلوم شود کہ درجہ کار ہمہ

احد حنین اور حدیبہ میں صحابہ کی عہد شکنی

غزوہ احد اور حنین میں جب رسول اللہ(ص) نے تمام اصحاب سے عہد لیا تھا کہ آج کے روز فرار نہ کرنا تو کیا ان لوگوں نے فرار نہیں کیا؟ آیا یہ میدان جنگ سے بھاگنا اور دشمنوں کے مقابلہ میں پیغمبر(ص) کو تنہا چھوڑ کر چل دینا، جس کو خود آپ کے مورخین طبری، ابن ابی الحدید اور ابن عثم کوفی وغیرہ نے بھی لکھا ہے، عہد شکنی نہیں تھی؟

۵۷

قسم خدا کی آپ لوگ بلا وجہ ہم پر اعتراض کرتے ہیں۔ شیعہ بھی وہی کہتے ہیں جو آپ کے بڑے بڑے علماء نے کہا ہے اور کتابوں میں وہی لکھتے ہیں جو خود آپ کے علماء ومورخین لکھ چکے ہیں۔

اگر علماء شیعہ نے صحابہ پر کچھ تنقیدیں کی ہیں تو وہ وہی ہیں جو آپ کے علماء نے لکھی ہیں۔

اںصاف سے فیصلہ کرنا چاہئیے

پس آخر آپ لوگ نسلا بعد نسل ہم پر کس لیے حملے کرتے چلے آرہے ہیں؟ آپ لوگ لکھیں تو کوئی عیب نہیں اور نہ قابل گرفت ہے۔ لیکن جو کچھ سنی اکابر علماء نے لکھا ہے اگر وہی ہم کہہ دیں تو کافر ہوجاتے ہیں، ہمارا قتل واجب ہوجاتا ہے محض اس جر م میں کہ بعض صحابہ کے افعال زشت اور اعمال قبیحہ پر تبصرہ اور نکتہ چینی کرتے ہیں۔

حالانکہ اگر صحابہ پر طعن و تشنیع مذموم اور موجب رفض ہے تو قطعا تمام صحابہ بھی رافضی تھے کیونکہ عام طور پر سب نے ایک دوسرے کو لعنت ملامت کی ہے اور اعمال کی مذمت کی ہے یہاں تک کہ ابوبکر و عمر نے بھی۔

اگر تنگی وقت کا خیال نہ ہوتا تو تفصیل سے ان کے اقوال بیان کرتا۔ اگر آپ بخوبی اس کی جانچ کرنا چاہتےہوں کہ اصحاب رسول(ص) بھی دوسرے لوگوں کی طرح جائز الخطا تھے۔ ان میں سے جنہوں نے پرہیزگاری اختیار کی وہ مومنین یا پاکباز اور قابل احترام ٹھہرے اور جو لوگ ہوا و ہوس کے بندے بنے اور ان سے بری حرکتیں سر زد ہوئیں وہ مطعون مذموم قرار پائے تو شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد چہارم کے ص454 سے ص462 تک صحابہ کے بارے میں ابوالمعانی جوینی کے اعتراض پر زیدی کا مفصل جواب ملاحظہ فرمائیے۔ جس کو ابوجعفر نقیب نے نقل کیا ہے تاکہ آپ کومعلوم ہو کہ صحابہ کس قدر اختلاف و افتراق تھا اور کس طرح ایک دوسرے کی تفسیق و تکفیر اور لعنت و ملامت کرتے تھے۔

شیعوں اور آپ کے منصف علماء اور عام حضرات اہل سنت وجماعت کے درمیان جو خاص فرق ہے وہ محبت اور بغض کے مسئلے میں ہے، آپ لوگ چونکہ بعض صحابہ سے اندھادھند عقیدت اور خلوص و محبت رکھتے ہیں لہذابمصداق حب الشی يعمی و يعصم ( یعنی کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرا بنادیتی ہے 12مترجم ) ان کے اندر برائی نظر ہی نہیں آتی بلکہ اگر نگاہ محبت سے دیکھنے کے باوجود بھی ان کے دامن داغدار نظر آتے ہیں تو ان کو تمام مطاعن سے مبرا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور کھلے ہوئے معائب کے مقابلہ میں ایسے پھسپھسے جوابات دیتے ہیں کہ ان پر ہنسی آجاتی ہے۔

لیکن ہم خدا کو گواہ کر کے کہتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول(ص) کو بغض و عناد اور عداوت کی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ متفقہ حالات و واقعات کا عقل وبرہان کی نگاہ سے جائزہ لیتے ہیں، اچھائیوں کو اچھا اور برائیوں کو برا دیکھتے ہیں اور حق فیصلہ کرتے ہیں٫

محترم حضرات! ہم اور آپ قیامت اور روز جزا پر ایمان رکھتے ہیں، دنیا کی اس چند روز زندگی میں کیا رکھا ہے جو عنقریب

۵۸

ختم ہوجائے گی۔ فکر تو اس روز کی کرنا چاہئے۔

قسم خدا کی ہم شیعہ مظلوم ہیں، بے خبر عوام کو بلاوجہ دھوکا نہ دیجئے اور موحد شیعوں کو کافر اور رافضی نہ کہئے۔ آیا یہ مناسب ہے کہ محمد(ص) و آل محمد صلوۃ اللہ علیہم اجمعین کے پیرئوں کو خواہ مخواہ بہانہ بنا کے رافضی اور خطا وار قرار دیجئے؟ در آنحالیکہ اگر اس تنقید اور اظہار حقیقت کی وجہ سے آپ شیعوں کر برا کہتے اور کافر سمجھتے ہیں تو ان سے پہلے اپنے بڑے بڑے علماء کو برا کہئے جن کے قلم سے اس قسم کی تنقیدیں نکلی ہیں اور آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہیں۔

حدیبیہ میں صحابہ کا فرار

مثلا قضیہ حدیبیہ کے سلسلے میں ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور آپ کے دوسرے مورخین لکھتے ہیں کہ قرار داد صلح کے بعد عمر ابن خطاب کے ساتھ اکثر صحابہ بگڑے ہوئے تھے اور رسول اللہ(ص) کو تائو دکھا رہے تھے کہ ہم صلح پر راضی نہیں تھے جنگ کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے کیوں صلح کر لی؟ آنحضرت(ص) نے فرمایا اگر تم لڑائی کا شوق ہے تو جائو میں منع نہیں کرتا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے حملہ کیا، لیکن قریش بھی تیار تھے انہوں نےمنہ توڑ جواب دیا اور ان کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ اب جو بھاگے تو پیغمبر(ص) کے پاس بھی نہیں ٹھہر سکے بلکہ صحرا کی طرف نکل گئے۔ آں حضرت(ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ تلوار اٹھائو اور قریش کی روک تھام کرو۔ قریش نے جونہی علی(ع) کو مقابلے پر دیکھا پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے بعدبھاگے ہوئے اصحاب تھوڑے تھوڑے کر کے واپس آئے اور اپنی حرکت سے شرمندہ ہوکر معذرت کرنے لگے۔ رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ میں تم کو پہنچانتا نہیں ہوں ؟ کیا تم لوگ وہی نہیں ہو جو غزوہ بدر کبری میں دشمنوں کے سامنے کانپ رہے تھے یہاں تک کہ خدا نے ہماری مدد کے لیے فرشتے بھیجے؟ آیا تمہیں لوگ میرے وہ اصحاب نہیں ہو جو احد کے روز بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھ گئے تھے اور مجھ کو اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ میں ہر چند پکارتا رہا لیکن تم لوگ نہیں پلٹے؟ خلاصہ یہ کہ آںحضرت(ص) ان کی تمام کمزوریان اور بے ثباتیاں گنواتے رہے اور وہ لوگ برابر عذار خواہی کرتے رہے بالآخر ابن ابی الحدید اس مقام پر لکھتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے یہ ساری زجرو توبیخ عمر کے اوپر کی جب وہ آں حضرت(ص) کے وعدوں کو جھٹلا چکے تھے۔ پھر لکھتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ احد میں ضرور بھاگے ہوں گے کیونکہ آں حضرت(ص) نے عتاب فرماتے ہوئے اس کا بھی ذکر فرمایا ہے آپ حضرات ملاحظہ فرمائیے کہ یہی قضیہ جس کو ابن ابی الحدید وغیرہ کے ایسے بزرگ علماء لکھ چکے ہیں اگر ہم بیاں کریں تو آپ فورا دھر پکڑ کرنے اور ہم کو رافضی و کافر کہنے لگتے ہیں کہ ایسا کیوں کہتے ہو اور خلیفہ کی توہین کیوں کرتے ہو، لیکن ابن ابی الحدید اور انہیں جیسے دوسرے علماء پر کوئی اعتراض نہیں، یاد رکھئیے ہم جو کچھ کہتے ہیں توہین کی غرض سے نہیں کہتے بلکہ تاریخی واقعات کو نقل کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ آپ ہماری طرف سے بد گمانی رکھتے ہیں لہذا اس کا کوئی اثر نہیں لیتے۔

۵۹

اس موقع کے لحاظ سے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

وعين‏ الرضاعنك لعيبك ليلةكماأن عين السخط تبديالمساويا

یعنی عقیدت مند کی آںکھ ہر عیب سے چشم پوشی کرتی ہے لیکن چشم غضب خطائوں کو ڈھونڈ نکالتی ہے۔

قیامت کے روز آپ کے علماء پر ہمارے بہت سے استغاثے ہیں ضیا تو گزر جائے گی لیکن اللہ کے دربار عدالت میں آپ کو ہماری مظلومانہ فریاد کی جواب دہی کے لیے حاضری دینا ہوگی۔

حافظ : آپ پر کون سا ظلم ہوا ہے کہ قیامت کے روز داد خواہی کیجئے گا؟

خیر طلب: مظالم بہت اور ہتک حرمت کے واقعات کثرت سے ہیں۔ لیکن اگر سب سے چشم پوشی کر لی جائے تب بھی چونکہ میں صدیقہ مظلومہ جناب فاطمہ صلوات اللہ علیہا کی اولاد میں ہونے کا فخر رکھتا ہوں لہذا اپنے حق سے ہرگز دست بردار نہ ہوں گا اور جس روز محکمہ عدل الہی قائم ہوگا جس پر ہمارا اعتقاد ہے تو میں بہت سے ظلموں و زیادتیوں کو داد خواہی کروں گا اور یقین رکھتا ہوں کہ انصاف کیا جائے گا۔

حافظ : گذارش ہے کہ جذبات کو نہ ابھاریئے آپ کا کون سا حق مارا گیا ہے اور آپ پر کیا ظلم ہوا ہے یہ بیان کیجئے؟

خیر طلب : ظلم و تعدی اور ہماری حق تلفی کوئی آج ہی کے دن سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہمارے جد بزرگوار حضرت خاتم الانبیاء(ص) کی وفات کے بعد ہی سے اس کی بنا قائم کی گئی کیونکہ خدا ورسول(ص) نے ہماری جدہ مظلومہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ان کے بچوں کی پرورش کے لیے جو واجبی حق عطا کیا تھا اس کو غصب کر لیا گیا اور ان معصومہ(ع) کے نالہ وفریاد کا کوئی اثر نہیں لیا گیا، یہاں تک کہ وہ پیغمبر(ص) کی یادگار عفوان شباب ہی میں درد بھرے دل کے ساتھ دنیا سے اٹھ گئی۔

حافظ : میں عرض کرتا ہوں کہ جناب عالی بہت تیزی دکھا رہے ہیں اور جوشیلے جملے استعمال کر کے لوگوں میں بلاوجہ ہیجان پیدا کرتے ہیں۔ آخر فاطمہ رضی اللہ عنہا کا واجبی حق کیا تھا جو زبردستی چھین لیا گیا؟ اگر آپ اپنے برادران مومن کے سامنے اپنا دعوی ثابت نہ کرسکے تو محکمہ عدل الہی میں درجہ اولی ہرگز کامیاب نہ ہوسکتیں گے آپ سمجھئے کہ آجہی محکمہ عدل الہی قائم ہے لہذا اپنا دعوی ثابت کیجئے۔

خیر طلب: وہاں خدائی عدالت ہے ذاتی اغراض اور تعصب وغیرہ کی گنجائش نہیں لہذا سچا اور بے لوث فیصلہ ہوگا۔ اگر آپ حضرات بھی نگاہ انصاف سے رکھتے ہوں تو قاضی عادل کی طرح غیر جانبداری کے ساتھ میرے معروضات سنیئے یقین ہے کہ ہماری حقانیت کی تصدیق کیجئے گا۔

۶۰