پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور15%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316755 / ڈاؤنلوڈ: 7969
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

خدا جانتا ہے کہ میں کٹ حجتی نہیں کرتا

حافظ : خدا اور آپ کے جد امجد رسول خدا(ص) کے اس عظیم حق کی قسم کھاتا ہوں جو ہم لوگوں پر ہے کہ میں ذاتی طور پر کوئی عناد و تعصب یا بے جا ضد نہیں رکھتا۔ ان راتوں میں جب سے آپ کا ساتھ ہے یقینا آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ میں کج بحثی نہیں کرتا۔ جس مقام پر میں نے مضبوط دلیل و برہان کے ساتھ کوئی قاعدے کی بات سنی تو اپنے اندر سکون و اطمینان کا جذبہ پایا اور یہ میری خاموشی خود حق و اںصاف کی بات تسلیم کر لینے کی دلیل ہے ورنہ اگر ہم حیلہ سازی اور کٹ حجتی کرنا چاہتے تو آپ کے بیانات اور دلائل کو مغالطہ بازی میں ڈال کر جھٹلا سکتے تھے جیسا کہ ہمارے پچھلے لوگ کرتے رہے ہیں۔ لیکن میں نظرتا جھگڑالو اور مکار نہیں تھا بالخصوص جس وقت سے آپ کا سامنا ہوا ( تو اگرچہ یہاں پہنچے اور آپ کی ملاقات سے قبل میں کسی اور ہی قصد سے چلا تھا) آپ کی پاک نفسی تہذیب خوش اخلاقی، سادگی اور جذبہ حقیقت نے مجھ پر ایسا اثر کیا ہے میں نے اپنے خدا سے اصولی منطقی بات کےسامنے پورے طور پر سر تسلیم خم کردینے کا عہد کر لیا۔چاہے یہ طریقہ لوگوں کے توقعات پر پانی ہی کیوں نہ پھر دے آپ یقین کیجئے کہ میں وہ پہلی شب والا آدمی نہیں ہوں اور نڈر ہوکر بالکل صاف صاف کہتا ہوں کہ آپ کے دلائل و براہین اور تاثرات نے میرے دل پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ میں تمنا کرتا ہوں کہ محبت و ولائے محمد و آل محمد(ص) کے ساتھ مروں تاکہ رسول خدا(ص) کے سامنے سرخرو ہوں۔

خیر طلب : آپ کے ایسے انصاف پسند عالم سے میں اس کے خلاف امید بھی نہیں کرتا تھا۔ اور نہ آئیندہ کروں گا۔ آپ کے ان الفاظ نے میرے دل میں کچھ اور ہی اثر کیا اور آپ سے ایک قلبی لگائو پیدا ہوگیا ہے۔ اب میں جناب عالی سے درخواست کرنا چاہتا ہوں، امید ہے کہ آپ قبول فرمائیں گے۔

حافظ : بہتر ہے فرمائیے۔

خیر طلب : میں چاہتا ہوں کہ آج کی شب آپ کو قاضی اور دوسرے حضرات کو گواہ قرار دوں اور آپ انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ فیصلہ فرمائیے کہ آیا میرا بیان حق ہے اور میں اپنا دعوی ثابت کرسکتا ہوں یا نہیں؟

ہوسکتا ہے کہ جس موضوع کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں وہہر رات سے کچھ طولانی ہوجائے لیکن اس زحمت کو برداشت کر لیں تاکہ میں اپنے اندرونی درد و غم کو ظاہر کر کے تھوڑا سکون حاصل کرسکوں۔

بعض جاہلوں اور بے خبر عقیدت مندوں کا قول ہے کہ جو معاملہ تیرہ سو سال واقع ہوا ہے ہم کو اس میں گفتگو کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ یہ نہیں سمجھتے کہ علمی مسائل ہر زمانہ اور ہر دور میں قابل بحث ہوتے ہیں، عادلانہ مباحثوں میں حقیقتوں کا انکشاف ہوتا ہے اور خاص طور پر وارثت کا دعوی تو قانونا ہر زمانے میں کسی وارث کی طرف سے فیصلے کے لیے پیش کیا جاسکتا ہے ۔ چونکہ وارثوں کی ایک فرد میںِ بھی ہوں لہذا آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ براہ کرم منصفانہ جواب عنایت فرمائیے۔

۶۱

حافظ : میں انتہائی رغبت اور توجہ سے آپ کے بیانات سننے کے لیے حاضر ہوں۔

خیر طلب : اگر ایک باپخدا کے حکم سے کوئی جائداد اپنے بیٹےکو ہبہ کر دے اور باپ کے مرنے کے بعد اس قابض و متصرف بیٹے سے وہ جائداد چھین لی جائے تو اس کی کیا نوعیت ہوگی؟

حافظ : کھلی ہوئی بات ہے کہ جس طریقے سے آپبیان کر رہے ہیں غصب کرنے والا بدترین ظم کا مرتکبہوگا۔ لیکن اس ظالم و مظلوم اور غاصب و مغصوب سے آپ کا مقصود کون ہے اور کیا ہے؟ صاف صاف فرمائیے۔

خیر طلب: بالکل واضح بات ہے کہ جو ظلم ہماری جدہ ماجدہ صدیقہ کبری فاطمہ زہرا صلوۃ اللہ علیہا کے اوپر ہوا وہ کسی اور پر نہیں ہوا۔

حقیقت فدک اور اس کا غصب

کیونکہ خیبر کے قلعے فتح ہوگئے تو اشراف و مالکان فدک و عوالی ( یہان مدینے کے پہاڑوں کے دامن میں سمندر کے ساحل تک آگے پیچھے سات گائوں تھے جو بہت زر خیز تھے۔ نخلستان بکثرت تھے اور اراضی کو طول و عرض بہت وسیع تھا اس کے حددود اربعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حد مدینے کے نزدیک کوہ احد، ایک حد عریش ، ایک سمندر کے کنارے اور ایک حد دومتہ الجندل تک تھی۔

رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اس اور اس شرط پر صلح کی کہ سارے فدک کا نصف ان کا اور نصف حصہ رسول خدا(ص) کی ملکیت ہوگا۔ جیسا کہ صاحب معجم البلدان یاقوت حموی نے فتح البلدان جلد ششم ص۳۴۳ میں، احمد بن یحیی بلاذری بغدادی متوفی سنہ۲۷۹ نے اپنی تاریخ میں، ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم مطبوعہ مصر ص۷۸ میں، ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری سے نقل کرتے ہوئے، محمد بن جریر طبری نے تاریخ کبیر میں اور آپ دوسرے محدثین و مورخین نے درج کیا ہے۔

آیہ و آت ذا القربیٰ حقہ کا نزول

مدینہ منورہ میں واپسی کے بعد رب جلیل کی طرف سے جبرئیل نازل ہوئے اور سورہ نمبر۱۷ (بنی اسرائیل) کی آیت نمبر۲۸ پڑھی کہ:

"وَآتِ ذَاالْقُرْبى‏ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاتُبَذِّرْتَبْذِيراً"

یعنی اپنے اقربا نیز فقیروں اور مجبور مسافروں کا حق ادا کرو اور اسراف ہرگز نہ کرو۔

رسول خدا(ص) سوچنے لگے کہ ذوی القربی کون ہیں اور ان کا حق کیا ہے؟ جبرئیل پھر حاضر ہوئے اور عرض کیا خدا فرماتا ہے " ادفع فدکا الی فاطمہ" فدک فاطمہ(ع) کو دے دیجئے! آں حضرت(ص) نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور فرمایا: "إنّ اللّه أمرني أن أدفع‏ إليك‏ فدكا" بتحقیق خدا نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ فدک تم کو دیدوں

۶۲

پس اسی وقت فدک جناب فاطمہ (ع) کو ہبہ فرمایا اور قبضہ دے دیا۔

حافظ : آیا آیہ شریفہ کی یہ شان نزول شیعوں کے کتب و تفاسیر میں لکھی ہوئی ہے یا آپ نے ہماری معتبر کتابوں میں بھی اس کے شواہد دیکھے ہیں؟

خیر طلب : امام المفسرین احمد ثعلبی کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر جلد چہارم میں حافظ ابن مردویہ سے مشہور مفسر احمد بن موسی متوفی سنہ۳۵۲ ہجری ابوسعید خدری اور حاکم ابوالقاسم حسکانی سے، ابن کثیر عماد الدین اسمعیل ابن عمر دمشقی فقیہ شافعی اپنی تاریخ میں اور شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب۳۹ میں تفسیر ثعلبی ، جمع الفوائد اور عیون الاخبار سے نقل کرتے ہیں کہ:

"لَمَّانَزَلَتْ‏: وَآتِ‏ ذَاالْقُرْبى‏ حَقَّهُ دَعَاالنبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْه ِوَآلِه ِو سلم فَاطِمَةَوَأَعْطَاهَافَدَك الکبير."

یعنی جب آیتوَآتِ‏ ذَاالْقُرْبى‏ حَقَّهُ‏ نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے فاطمہ(ع) کو بلایا اور فدک بزرگ ان کو عطا فرمایا۔

چنانچہ جب تک آں حضرت(ص) حیات رہے فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے تصرف میں رہا وہ معظمہ اس کو ٹھیکے پردیتی تھیں اور مال اجارہ تین قسطوں میں وصول ہوتا تھا۔ جس میں سے بی بی فاطمہ(ع) اپنی اور اپنے فرزندوں کی ایک شب کی خوراک کے حساب سے نکال کر فقرائے بنی ہاشم کے درمیان اور فاضل رقم دیگر فقراء و ضعفاء کو اپنی رضا و رغبت سے بطور اعانت تقسیم فرمادیتی تھیں۔

رسول اللہ(ص) کی وفات کے بعد خلیفہ وقت کے کارندوں نے جار یہ جائداد بی بی فاطمہ(ع) کے اجارہ داروں سے چھین کر ضبط کر لی۔ حضرات خدا کے لیے انصاف سے بتائیے کہ اس حرکت کا کیا نام رکھنا چاہیئے۔

حافظ : یہ پہلا موقع ہے جب میں آپ سے سن رہا ہوں کہ رسول خدا(ص) نے خدا کے حکم سے فدک فاطمہ(ع) کے سپرد کردیا تھا۔

خیر طلب: ممکن ہے آپ کی نظر سے نہ گذرا ہو لیکن میں نے بہت دیکھا ہے میں عرض کرچکا کہ آپ کے اکثر اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس کو درج کیا ہے لیکن مزید توضیح کے لیے پھر عرض کرتا ہوں کہ حافظ ابن مردویہ، واقدی اور حاکم نے اپنی تفسیر و تاریخ میں، جلال الدین سیوطی نے درالمنثور جلد چہارم ص۱۷۷ میں، مولوی علی متقی نے کنزل العمال اور اس مختصر حاشیہ میں جو مسند امام احمد ابن حنبل کی کتاب الاخلاق کے مسئلہ صلہ رحم پر لکھا ہے اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم میں، ابو سعید خدری کے علاوہ دوسرے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فدک کو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سپرد کیا۔

حدیث لا نورث سے استدلال اور اس کا جواب

حافظ : مسلم تو یہ ہے کہ خلفاء نے فدک کو اس مشہور حدیث کی بنیاد پر ضبط کیاکہ خلیفہ ابوبکر نے کہا میں نے رسول خدا(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا :

"نحن معاشرالأنبياءلانورث‏ماتركناه صدقة"

یعنی ہم گروہ انبیاء وارث نہیں بناتے ، جو ہمارے ترکہ ہو وہ صدقہ ہے۔ ( یعنی امت کا حق ہے)

۶۳

خیر طلب : اول تو یہ وراثت نہیں تھی ہبہ تھا دوسرے جو عبارت آپ نے حدیث کے عنوان سے نقل کی ہے اس میں بھی بہت سے اشکال ہیں اور باطل ہے۔

حافظ : اس مسلم حدیث کی مردویت کے اوپر آپ کی دلیل کیا ہے؟

خیر طلب : اس کی مردودیت کے دلائل بہت ہیں جو صاحبان علم و اںصاف کے نزدیک ثابت ہیں۔

اول تو یہ جس شخص نے بھی یہ حدیث بنائی ہے بغیر غور فکر کے یہ جملے منہ سے نکال دے اس لیے کہ اگر غور کیا ہوتا تو ایسی عبارت بناتا جس سے بعد کو شرمندگی نہ ہو اور ارباب عقل و دانش اس کا مذاق نہ اڑائیں ۔"و نحنمعاشرالأنبياءلانورث‏" ہرگز نہ کہتا کیوں کہ وہ سمجھ لیتا کہ ایک روز اس کا جھوٹ خود اس مصنوعی حدیث کی عبارت سے کھل جائے گا۔ اگر کہا ہوتا "انا لااورث‏ " یعنی صرف میں نے جو خاتم الانبیاء ہوں وارث قرار نہیں دی ہے تو گفتگو میں فرار کا راستہ نکل سکتا تھا، لیکن جب کلمہ جمع استعمال کیا کہ ہم گروہ انبیاء وارث نہیں بناتے تو ہم حدیث کی صحتوسقم کی جانچ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور خود آپ ہی کے قول کی بناء پر قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ حقیقت ظاہر ہوجائے۔

جس وقت قرآن سے اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں قرآن مجید میں وراثت انبیاء کے بارے میں کافی آیتیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ سارے انبیاء عظام میراث رکھتے تھے اور ان کے بعد ورثاء اس پر تصرف کرتے تھے۔ لہذا اس حدیث کی مردودیت واضح ہوجاتی ہے۔

چنانچہ عالم محدث ابوبکر احمد بن عبدالغزیر جوہری نے جن کے متعلق ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۷۸ میں توثیق کی ہے کہ اہل سنن کے اکابر علماء و محدثین میں سے اور صاحب ورع و تقویتھے کتاب سقیفہ میں، ابن اثیر نے نہایہ میں، مسعودی نے اخبار الزمان اور اوسط میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص ؟؟؟؟؟؟میں، ابوبکر احمد جوہری سے بحوالہ، کتاب سقیفہ و فدک بکثرت طرق و اسانید کے ساتھ جن میں سے بعض نے امام پنجم ابوجعفر حضرت محمد باقر علیہ السلام سے بسلسلہ صدیقہ صغری زینب کبری اور بعض نے عبداللہ ابن حسن سے بروایت صدیقہ کبری فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا اور ص۹۳میں بسند ام المومنین عائشہ نیز ص۹۴ میں محمد بن عمر عمران مرزبانی سے۔ انہوں نے جناب زید بن علی بن الحسین علیہم السلام سے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے، انہوں نے اپنے پدر گرامی حضرت امام حسین علیہم السلام سے اور انہوں نے جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا سے نقل کیا ہے۔ اور آپ کے دوسرے علماءنے بھی۔

مسجد کے اندر مہاجرین و اںصاف کے مقابل مسلمانوںکے مجمع عام میں جناب فاطمہ مظلومہ، سلام اللہ علیہا کی اس تقریر اور استدلال کو نقل کیا ہے جس نے مخالفین کو اس طریقے سے مبہوت کیا کہ وہ کوئی جواب نہ ہی دے سکے( چونکہ ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا لہذا ہنگامے اور دھاندلی سے کام نکالا۔)

ان کی اس جھوٹی، مہمل اور بے بنیاء حدیث کے مقابلہ میں جناب معصومہ کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ فرمایا کہ اگر یہ حدیث

۶۴

صبح ہے اور انبیاء میراث نہیں چھوڑتے تھے تو قرآن مجید کے اندر وراثت کی ساری آیتیں کیوں موجود ہیں؟

حدیث لا نورث کے رد میں جناب فاطمہ(ع) کے دلائل

ایک مقام پر ارشاد ہےووارث سلیمان دائود آیت نمبر۱۶سورہ نمبر۲۷( نمل) یعنی سلیمان نے دائود کی میراث پائی) حضرت زکریا کے قصے میں فرمایا "فَهَبْلِيمِنْلَدُنْكَوَلِيًّايَرِثُنِيوَيَرِثُمِنْآلِيَعْقُوبَ‏ " آیت نمبر۵ سورہ نمبر۱۹ ( مریم) ( یعنی اپنے لطف خاص سے مجھ کو ایک فرزند صالح اور جانشین عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو) اور حضرت زکریا کی دعا کے میں آیا ہے"وَزَكَرِيَّاإِذْنادى‏ رَبَّهُ‏ رَبِّ لاتَذَرْنِي فَرْداًوَأَنْتَ خَيْرُالْوارِثِينَ فَاسْتَجَبْنالَهُ وَوَهَبْنالَهُ يَحْيى‏" آیت نمبر۸۹ سورہ نمبر۲۱ ( انبیاء) یعنی اور یاد کرو زکریا کو جب کہ انہوں نے اپنے خدا کو پکارا کہ خداوند مجھ کو تنہا نہ چھوڑ( یعنی مجھ کو بیٹا اور وارث عطا فرما) اور تو دنیا کے تمام وارثوں سے بہتر ہے۔ پس ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں یحیی سا فرزند عطا کیا۔

اس کے بعد فرماتی ہیں:

"يابن‏ أبي‏ قحافةأفي كتابالله أن ترث أباك ولاأرثأبي،لقدجئت شيئافريا،أفعلى عمد تركتم كتابالله ونبذتموه وراءظهوركم"

اے پسر ابو قحافہ!آیا کتاب خدا میں یہی ہے کہ تو اپنے باپ کا وارث ہو اور میں اپنے باپ کی وارثت سے محروم رہوں؟ یہ تو نے بڑا بہتان باندھا ہے آیا تم لوگوں نے جان بوجھ کر عمدا اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا اور قرآن کو پس پشت ڈال دیا؟ کیا میں پیغمبر(ص) کی اولاد نہیں ہوں کہ مجھے میرے حق سے محروم کر رہے ہو؟ پس یہ سب وراثت کی آیتیں جو عام طور سے انسانوں کے لیے اور خاص طور پر انبیاء کے لیے ہیں آخر کس وجہ سے قرآن مجید میں درج ہوئیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی آیتیں روز قیامت تک اپنی حقیقت پر باقی ہیں کیا قرآن یہ ارشاد نہیں ہے۔"وَأُولُواالْأَرْحامِبَعْضُهُمْأَوْلى‏ بِبَعْضٍ" ( یعنی خویش و اقربا میں سے بعض وارثت میں، بعض دوسروں پر مقدم ہیں۔ آیت نمبر۷۶ سورہ نمبر۴ ( انفال)"يُوصِيكُمُاللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِمِثْلُ‏ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ‏" (یعنی تمہاری اولاد کے بارے میں حکم خدا یہ ہے کہ لڑکے لڑکیوں سے دوگنی وراثت پائیں۔ آیت نمبر۱۲ سورہ نمبر۴ (نساء) :

" كُتِبَ‏ عَلَيْكُمْ‏ إِذاحَضَرَأَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْراً- الْوَصِيَّةُلِلْوالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّاعَلَى الْمُتَّقِينَ‏"

یعنی سب کو باقاعدہ ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو موت کو وقت آجادے اور وہ کچھ مال متاع چھوڑے تو اپنے ماں باپ اور خویش و اقرباء کے لیے نیکی کے ساتھ وصیت کرے۔ یہ کام پرہیز گاروں پر فرض ہے آیت نمبر۱۸۶ سورہ نمر۴( نساء) آخر کس خصوصیت نے مجھ کو باپ کے ترکہ سے محروم کیا؟

"أَفَخَصَّكُمُ اللَّهُ بِآيَةٍأَخْرَجَ مِنْهَاأَبِي (ص) أَمْ‏ أَنْتُمْ‏ أَعْلَمُ‏ بِخُصُوصِ‏ الْقُرْآنِ‏ وَعُمُومِهِ مِنْ أَبِي وَابْنِ عَمِّي؟!"

آیا خاص طور پر خدا نے تمہارے اوپر کوئی آیت نازل کی

۶۵

ہے جس سے میرے باپ کو محروم رکھا ہے؟ یا تم میرے باپ( محمد (ص)) اور میرے ابن عم (علی(ع)) سے زیادہ قرآن کے عام اورخاص کو جانتے ہو؟ جب وہ لوگ ان دلائل اور حق باتوں کے مقابلے میں بالکل ساکت ہوگئے اور سوا مغالطہ بازی، فحش بکنے اور اہانت کرنے کے ان کے پاس کوئی جواب نہ رہا تو بالآخر انہیں طریقوں سے جناب معصومہ(ع) کو مجبور بنایا۔

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فریاد بلند کی اور فرمایا کہ آج تم نے میرا دل توڑدیا اور زبردستی میرا حق چھیں لیا ہے۔ لیکن میں قیامت کے روز اللہ کے محکمہ عدالت میں تمہارے خلاف دعوی دائر کروںگی اور خدائے قادر و توانا تم سے میرا حق وصول کرے گا۔

"فنعم‏ الحكم‏ اللّه‏،والزعيم محمد،والموعدالقيامة،وعندالساعةيَخْسَرُالْمُبْطِلُونَ‏،ولِكُلِّ نَبَإٍمُسْتَقَرٌّوَسَوْفَ تَعْلَمُونَ‏ مَنْ يَأْتِيهِ عَذابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذابٌ مُقِيمٌ"

یعنی سب سے بہتر حکم کرنے والا اللہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رئیس و آقا ہیں۔ ہماری تمہاری وعدہ گاہ قیامت ہے اس روز اہل باطل گھاٹے میں رہیں گے اور ندامت و پریشانی تم کو کوئی نفع نہ بخشے گی، ہر چیز کے لیے ایک وقت اور موقع ہے اور عنقریب تم کو معلوم ہوگا کہ ذلیل وخوار کرنے والا عذاب کس پر نازل ہوتا ہے اور کون ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا ہوتا ہے۔

حافظ : کون شخص اتنی جرائت کرسکتا تھا رسول اللہ(ص) کی امانت اور پارہ جگر فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کرے جو آپ فرماتے ہیں کہ مغالطہ بازی میں ان معظمہ کو فحش باتیں کہیں؟ میں اس بیان پر یقین نہیں کرسکتا۔ مغالطہ بازی ممکن ہے لیکن فحش باتیں کہنا ممکن نہیں۔ آپ دوبارہ ایسی بات نہ فرمائیے گا۔

خیر طلب: کھلی ہوئی بات ہے کہ کسی کو اتنی جرائت نہیں تھی سوا آپ کےخلیفہ ابوبکر کے جو ان مظلومہ بی بی کی مضبوط دلیلوں کا جواب نہ دے سکے تو اسی وقت منبر پر چڑھ گئے اور گستاخی کرنا شروع کی۔ اور صرف جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نہیں بلکہ ان کے شوہر اور ابن عم، محبوب خدا و رسول امیرالمومنین علی علیہ السلام کی بھی اہانت کی۔

حافظ : میرا خیال ہے کہ اس قسم کی تہمتیں شیعہ عوام اور متعصب لوگوں کی طرف سے پھیلائی گئی ہوں گی۔

خیر طلب : آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے یہ چیزیں شیعہ عوام کی طرف سے نہیں بلکہ اہل سنت والجماعت کے خواص اور بڑے بڑے علماء کی طرف سے نشر ہوئیں شیعہ جماعت میں ایسا تعصب بہت ہی شاذ بلکہ ناممکن ہے کہ جھوٹی باتیں پھیلائی جائیں، ہمارے عوام چاہے جتنے متعصب ہوں لیکن روایتیں نہیں گڑھتے۔ پس یہ بالکل سچی روایت ہے جس کو آپ کے اکابر علما نےبھی نقل کیا ہے۔ آپ اپنے یہاں کی معتبر اور مشہور کتابیں دیکھئے تو خود ہی تصدیق کیجئے کہ آپ کے انصاف پسند اکابر علماء بھی ان حقائق کے معترف ہیں چنانچہ ابن ابی معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۸۰ مطبوعہ مصر میں، ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری سے نقل کرتے ہوئے علی (ع)وفاطمہ علیہما السلام کے احتجاج کے بعد ابوبکر کا منبر پر جانا اور اس امانت رسول(ص) کی اہانتیں کرنا تفصیل سے درج کیا ہے

۶۶

ابوبکر سے علی(ع) کا احتجاج

اس کے علاوہ دوسروں نے بھی لکھا ہے کہ جب جناب فاطمہ سلام اللہعلیہا نےاپنا خطبہ تمام کیا تو علی علیہ السلام نے احتجاج شروع کیا، مسجد کے اندر مہاجرین و انصار اور مسلمانوں کے عام مجمع میں ابوبکر کی طرف رخ کر کے فرمایا کہ تم نے فاطمہ (ع) کو ان کے باپ کی میراث سے کیوں محروم کیا، در آنحالیکہ وارثت کے علاوہ وہ اپنے باپ کی زندگی ہی میں اس کی مالک اور متصرف تھیں؟ ابوبکر نے کہا فدک مسلمانوں کا مال غنیمت ہے۔ اگر فاطمہ(ع) مکمل شہادت پیش کریں کہ یہ ان کی ملکیت ہے تو میں ضرور ان کو دے دوں گا ورنہ محروم کردوں گا۔

حضرت نے فرمایا :

"أَتَحْكُمُ‏ فِينَابِخِلَافِ حُكْمِ اللَّهِ فِي الْمُسْلِمِينَ؟"( یعنی آیا تم مسلمانوں کے درمیان جو کچھ حکم دیتے ہو ہمارے بارے میں اس کے خلاف حکم لگاتے ہو؟

کیا رسول خدا(ص) نے نہیں فرمایا ہے کہ"الْبَيِّنَةُعَلَى‏ مَنِ‏ ادَّعَى‏ وَالْيَمِينُ عَلَى مَنِ ادُّعِيَ عَلَيْهِ." ( یعنی ثبوت اور گواہ مدعی کے ذمے ہے اور قسم مدعا علیہ کے ذمے ؟ تم نے قول رسول(ص) کو رد کر دیا اور دستور شرع کے برخلاف فاطمہ(ع) سے گواہ طلب کرتے ہو پیغمبر(ص) کے زمانے سے اب تک اس پر متصرف رہیں۔ کیا فاطمہ(ع) کو قول و فعل ( جو اصحاب کساء کی ایک فرد اور آیہ تطہیر میںشامل ہیں) حق نہیں ہے؟

"أخبرنا لو انّ شاهدين شهداعلى‏ فاطمةبفاحشةماكنت صانعة بها؟قال أقيم عليهاالحدّكسائرالنساء قال عليه السلام كنت اذاًعنداللّه من الكافرين لانّك رددت شهادةاللّه لهابالطّهارةإِنَّمايُرِيدُاللَّه لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَالْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً"

یعنی مجھے بتائو کہ اگر دو گواہ گواہی دے دیں کہ ( معاذ اللہ( فاطمہ(ع) سے کوئی بدکاری سرزد ہوئی ہے تو تم ان سے کیا برتائو کرو گے؟ ابوبکر نے کہا کہ دوسری عورتوں کی طرح ان پر بھی حد جاری کروں گا۔حضرت نے فرمایا کہ اگر تم ایسا کرو تو خدا کے نزدیک کافر قرار پائو گے کیونکہ تم نے طہارت فاطمہ(ع) کے بارے میں اللہ کی گواہی کو جھٹلا دیا جیسا کہ اس کا ارشاد ہے کہ سوا اس کے نہیں ہے کہ خدا یہ ارادہ رکھتا ہے کہ اے اہل بیت(ع) تم سے ہر گندگی کو دور رکھے اور تم کو اس طرح سے پاک و پاکیزہ جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

کیا یہ آیت ہمارے حق میں نازل نہیں ہوئی ہے؟ کہا کیوں نہیں، حضرت نے فرمایا کہ آیا فاطمہ(ع) جنکی طہارت پر خدا نے شہادت دی ہے دنیا کی ایک حقیر جائداد کے لیے جھوٹا دعوی کرسکتی ہیں؟ تم طاہرہ کی شہادت تو رد کرتے ہو"وقبلت شهادةاعرابيّ بائل على عقبه" اور اس اعرابی کی شہادت قبول کر لیتے ہو۔ جو اپنے پائوں کی ایڑی پر پیشاب کرتا ہے؟

حضرت یہ جملے ارشاد فرما کر جھنجھلائے ہوئے اپنے گھر تشریف لے گئے اس احتجاج سے لوگوں میں ایک عجیب ہنگامہ برپا

۶۷

ہوگیا ہر شخص یہی کہتا تھا کہ حق علی(ع) و فاطمہ(ع) کےساتھ ہے خدا کی قسم علی(ع) سچ کہتے ہیں۔ آخر رسول(ص) کی بیٹی سے یہ کیسا سلوک کیا جارہا ہے۔

بالائے منبر ابوبکر کی بدکلامی اور علی(ع) و فاطمہ(ع) کو گالی دینا

اسی موقع پر ابن ابی الحدید نقل کرتے ہیں کہ جب علی(ع) و فاطمہ(ع) کے احتجاج سے لوگ متاثر ہوئے اور شور کرنے لگے تو ان دونوں حضرات کے چلے جانے کے بعد ابوبکر منبر پر گئے اور کہا ایہا الناس تم نے یہکیا شور وغل مچا رکھا ہے اور ہر ایک کی بات پر کان دھرتے ہو؟ چونکہ میں ان کی شہادت رد کر دی ہے اس لیے وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔

"إنماهوثعالةشهيده‏ذنبه(۱) مرب لكل فتنة هوالذي يقول كروهاجذعةبعدماهرمت يستعينون بالضعفةويستنصرون بالنساءكأمطحال أحب أهلهاإليهاالبغي"

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ وہ علی(ع) ایک لومڑی ہے جس کی گواہ اس کی دم ہے ہر طرح کے فتنے برپا کرتا ہے۔ بڑے بڑے فتنوں کا ہلکا کر کے بیان کرتا ہے اور لوگوں کو فتنہ و فساد پر آمادہ کرتا ہے کمزوروں سے کمک چاہتا ہے اور عورتوں سے مدد چاہتا ہے وہ ام طحال کے مانند ہے جس سے اس کے گھر والے زنا کرنے کے شائق تھے۔

آپ حضرات فحش اور اہانت کے لفظ سے تعجب کرتے ہیں تو کیا یہ دشنام اور اہانت کے الفاظ نہیں تھے؟ کیا لومڑی کی دم او زنا کار عورت ام طحال سے علی(ع) و فاطمہ(ع) کو نسبت دینا ہی وہ تعریف و احترام ، محبت و نصرت اور ہمدردی تھی جس کی پیغمبر(ص) ہدایت فرمائی تھی؟ حضرات اس حسن ظن اور تعصب میں کب تک غرق رہیئے گا ؟ بیچارے شیعوں سے کب تک بدگمانی کیجئے گا اور ان کو محض اس جرم میں کب تک رافضی و کافر کہتے رہیئے گا کہ وہ ان اشخاص کے ایسے اقوال و افعال پر نکتہ چینی کیوں کرتے ہیں جو خود آپ کی کتابوں میں درج ہیں۔

منصفانہ فیصلہ ضروری ہے

آخر آپ حق و اںصاف کی آنکھیں کیوں نہیں کھولتے تاکہ حقیقت نطر آئے؟ آیا رسول اللہ(ص) کے بوڑھے مصاحب کی یہ حرکت اور غیر مہذب گفتگو مناسب اور جائز تھی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ دوسری کتابوں میں ہے کہ کہا :إنماهوثعالةشهيده‏ ذنبها یعنی معاذ اللہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ایسی لومڑی ہیں جس کی گواہ اس کی دمہے (یعنی معاذ اللہ علی علیہ السلام)

۶۸

اگر کوئی بازاری اور حقیر آدمی کسی کو گالی دے تو اس میں اور اس بوڑھے انسان میں فرق ہے جو رات دن مسجد میں موجود رہتا ہے اور ذکر وعبادت میں دلچسپی دکھاتا ہو پھر بھی ایسے الفاظ منہ سے نکالے۔

معاویہ ، مروان اور خالد جیسے لوگوں کی زبان سے زشت و بیہودہ کلمات فحش گوئی ، دشنام طرازی اور رکیک اتہامات دل کو اتنی زیادہ تکلیف نہیں پہنچاتے جس طرح رسول اللہ(ص) کے مصاحب غار کے منہ سے۔

حضرات ہم اس زمانے میں موجود نہیں تھے صرف علی(ع) ابوبکر، عمر ، عثمان ، طلحہ، زبیر، معاویہ، مروان، خالد اور ابو ہریرہ وغیرہ کے نام سنتے ہیں لہذا ان میں سے کسی کے ساتھ ہماری دوستی یا دشمنی نہیں ہے۔ ہم تو صرف دو چیزیں دیکھتے ہیں ایک یہ کہ خدا و رسول(ص) ان میں سے کس کو دوست رکھتے تھے اورکس لیے سفارشاور وصیت فرمائی ہے؟ دوسرے ان کے اعمال و اقوال اور رفتار و گفتار کا جائزہ لیتے ہیں ، اس کے بعد انصاف کے ساتھ حق فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم آپ حضرات کی طرح فورا یقین نہیں کرلیتے اور خواہ مخواہ سر نہیں جھکاتے۔ ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ محض حسن ظن کی بنا پر آنکھیں بند کر کے ہرکس و ناکس کے برے عمل کو بھی نیکی پر محمول کریں، اس کی تعظیم و تکریم فرض سمجھیں اور اس کے ناجائز حرکات کی بے موقع صفائی پیش کریں۔

انسان جس وقت آںکھوں پر سفید عینک لگاتا ہے تو اس کو ہررنگ اپنی اصلی حالت پر نظر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اگر اس کو سفید رنگ مطلوب ہے تو سیاہ زرد اور سرخ رنگ بھی سفید نظر آئیں۔ لہذا اگر آپ حضرات بھی اپنی دوستی اور دشمنی سے الگ ہوکر انصاف کی سفید اور نورانی عینک لگائیں تو اچھا اور برے کو برا دیکھیں۔ اور تصدیق کریں گے کہ ابوبکر جیسے آدمی کے لیے ایسا قول و فعل انتہائی مذموم ہے ۔ جو شخص اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ سمجھے اور ایک مدت تک رسول اللہ(ص) کی صحبت میں بیٹھ چکا ہو وہ جاہ و اقتدار کی محبت میں اور شان حکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسے رکیک جملے اور انتہائی قبیح گالیاں زبان پر جاری کرنے کے لیے تیار ہوجائے، اور وہ بھی خدا و رسول(ص) کی دو محبوب ہستیوں کی شان میں؟

ابوبکر کی باتوں پر ابن ابی الحدید کا تعجب

اس برتائو پر صرف ہمیں کو تعجب نہیں ہے بلکہ آپ کے انصاف پسند علماء کو بھی حیرت ہوتی ہے، چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۸۰ میں لکھا ہے کہ خلیفہ کی اس گفتگو سے مجھ کو تعجب ہوا اور میں نے اپنے استاد ابو یحیی نقیب جعفر بن یحیی بن ابی زید البصری سے دریافت کیا کہ ان کلمات میں خلیفہ کا کنایہ اور تعریض کا رخ کس کی طرف تھا؟ انہوں نے کہا کہ کنایہ اور تعریض نہیں تھی بلکہ صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے میں نے کہا کہ اگر صراحت ہوتی تو میں سوال ہی نہ کرتا :

"فضحك وقال بعلي بن أبيطالب عقلت هذاالكلام‏ كله‏ لعلي‏ يقوله قال نعم إنه الملكي ابني"

یعنی وہ ہنس پڑے اورکہا کہ یہ باتیں علی علیہ السلام کو کہی گئیں میں نے کہا کیا یہ سارے الفاظ علی علیہ السلام کے لیے

۶۹

استعمال کئے گئے؟ انہوں نے کہا ہاں اے فرزند سلطنت اسی کو کہتے ہیں۔( یعنی جاہ طلب لوگ اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے ایسے عمل سے بھی دریغ نہیں کرتے)

صاحبان انصاف!عبرت حاصل کیجئے اور منصفانہ فیصلہ کیجئے کہ اگر کوئی شخص آپ کے ماں باپ کے لیے ایسی جسارت و اہانت کرے اور ان کو لومڑی، لومڑی کی دم اور زنا کار عورت سے مثال دے تو کیا آپ کا دل اس سے صاف ہوسکتا ہے؟ کیا یہی انصاف ہے کہ اگر ہم اس پر گرفت کریں تو آپ اعتراض کے لیے تیار ہوجائیں ؟ پھر بھی ہمارا ایمان مانع ہے کہ جتنا واقعہ ہوا ہے اور جس کی خود آپ کے اکابر علماء نے تصدیق کی ہے اس سے زیادہ نہ کہیں اور نہ لکھیں۔

اگر اس مجمع کے سامنے کوئی شخص کہے کہ حافظ صاحب لومڑی ہیں شیخ صاحب اس کی دم ہیں اور فاحشہ عورت کی طرح جلسے میں گفتگو کرتے ہیں تو آپ کو کس قدر ناگوار ہوگا؟

حضرات آنکھیں بند نہ کیجئے بلکہ دیدہ اںصاف سے مسجد رسول(ص) پر نظر ڈالئے کہ ایک بوڑھا شخص پیغمبر(ص) کا یار غار بعنوان خلافت منبر رسول(ص) کے اوپر مہاجرین و اںصار کے سامنے کہتا ہے کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام(معاذ اللہ) لومڑی ہیں، فاطمہ(ع) اس کی دم ہیں( یا دوسری روایتوں کی بنا پر اس کے برعکس اور یہ ( نعوذ باللہ) زن زانیہ و فاحشہ کے مانند لوگوں کے درمیان حرکتیں کرتے ہیں تو اس وقت ہمارے مولا و آقاامیرالمومنین اور ہماری جدہ مظلومہ زہرا صلوات اللہ علیہا پر اس مجمع کے سامنے کیا گذری؟ خدا جانتا ہے کہ اس وقت میرا بند بند کانپ رہا ہے، اور آپ دیکھ رہےہیں کہ لزرتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ میں آپ سے گفتگو کر رہا ہوں۔ اب اس بارے میں اس سے زیادہ کچھ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا ورنہ ہمارا درد دل بہت ہے۔ع

ایں زماں بگذارتا وقت دگر

آیا رسول اللہ(ص) کی مسند پر بیٹھنے والے اور مصاحب کے لیے سزاوار تھا کہ مطالبہ حق اور صحیح و معقول باتوں کے جواب میں گالیاں دے اور رکیک الفاظ سے حقیقی مومنین کی اور امت کے درمیان آں حضرت کی امانتوں کی توہین کرے۔ ظاہر ہے کہ فحش کہنا عاجزی کا حربہ ہے جس کے پاس صحیح جواب نہیں ہوتا ہے وہ اپنے حریف کو بدزبانی سے مغلوب کرتا ہے۔ پھر یہ سب حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ کیا گیا جن کے لیے آپ کے تمام علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا "علی مع الحق والحق مع علی حيث دار " ( یعنی علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ گردش کرتا ہے) دشنام دینے کے بعد آپ کی طرف فتنہ انگیزی نسبت بھی دی گئی اور آپ کو سارے فساد کا بانی بتایا گیا۔

علی(ع) کو ایذا دینا پیغمبر(ص) کو ایذا دینا ہے

کیا علی(ع) وفاطمہ علیہما السلام کے بارے میں پیغمبر(ص) کی ان سفارشوں کا یہی نتیجہ تھا جن کو آپ کے سارے علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے؟ یعنی آں حضرت(ص) نے ان دونوں حضرات کے لیے علیحدہ علیحدہ فرمایا کہ ان کو اذیت دینا مجھ کو

۷۰

اذیت دینا ہے۔ ان ارشادات کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا "من اذاهما فقد آذانی و من آذانی فقد اذی الله " ( یعنی جس شخص نے ان دونوں (علی و فاطمہ(ع)) کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھ کو آزار دیا اس نے خدا کو آزار دیا۔

نیز فرمایا:من آذی عليا فقد اذانی ( یعنی جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی۔)

علی(ع) کو دشنام دینا پیغمبر(ص) کو دشنام دینا ہے

اور ان سب سے بالاتر آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا "من سب عليا فقد سبنی و من سبنی فقد سب الله " یعنی جس نے علی(ع) کو دشنام دیا اس نے در اصل مجھ کو دشنام دیا اور جس نے مجھ کو دشنام دیا اس نے درحقیقت خدا کو دشنام دیا)

اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۱۰ کے شروع میں ابن عباس سے ایک مفصل حدیث نقل کی ے کہ انہوں نے شام والوں کو ایک جماعت کے سامنے جو علی(ع) کو سب و طعن کرتے تھے کہا کہ میں نے حدیث رسول خدا(ص) کو علی علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرماتے ہوئے سنا "من سبک فقد سبنی و من سبنی فقد سب الله و من سب الله ابنه الله علی مفخزيه فی النار " ( یعنی جو شخص تم کو گالیدے خدا اس کو منہ کےبل جہنم میں جھونک دے گا۔

اس حدیث کے بعد اور بھی مسند احادیث نقل کرتے ہیں جو سب کی سب ان لوگوں کے کفر پر دلالت کرتی ہیں جو علی (ع) کو دشنام دیں۔ چنانچہ دسویں باب کا عنوان ہیاس عبارت سے قائم کیا ہے کہ "الباب العاشر فی کفر من سبعليا "( یعنی دسواں باب اس شخص کے کفر میں جو علی(ع) کو دشنام دے)

نیز حاکم نے مستدرک جلد سوم ص۱۲۱ میں آخری جملے کے علاوہ یہی حدیث نقل کی ہے پس ان حدیثوں کے مطابق علی علیہ السلام کو سب وشتم کرنے والے خدا و رسول(ص) کو سب و شتم کرنے والے ہیں اور خدا و رسول(ص) کو سب و شتم کرنے والے ہیں۔

جیسے فرزندان ابی سفیان دیگر بنی امیہ خوارج اور نواصب وغیرہ، ملعون اور جنہمی ہیں۔ بس اس قدر کافی ہے۔ قیامت چاہے دیر میں آئے لیکن آئے گی ضرور چونکہ ہماری جدہ مظلومہ(ع) نے سکوت اختیار کیا اور اس کی داد رسی روز قیامت محکمہ عدالت دالہیہپر اٹھا رکھی لہذا ہم بھی سکوت اختیار کر کے آپ کی معتمد علیہ حدیث کو رد کرنے والے دلائل کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

۷۱

علی(ع) باب علم وحکمت ہیں

حدیث لا نورث کی مردودیت پر دوسری دلیل یہ ہے کہ اس متفق علیہ فریقین (شیعہ وسنی) حدیث شریف کو دیکھتے ہوئے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا "انا مدينة العلم و علی بابها انا دار الحکمه و علی بابها" (یعنی میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کے در ہیں۔ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی(ع) اس کے در ہیں۔) علمی اور عقلی قواعد کے روسے لازمی ہے کہ رسول اللہ(ص) کا باب علم آں حضرت(ص) کے احادیث و ہادایات سے بالخصوص جن کا تعلق احکام سے ہو اور خاص الخاص طور پر جو وراثت کے بارے میں ہوں پوری آگاہی رکھتا ہو کیونکہ ان سے ساری امت کا فائدہ اور نقصان و ابستہ ہے۔ ورنہ پھر وہ باب علم نہیں ہوسکتا جس کے لیے رسول خدا(ص) فرمائیں "من اراد العلم فليات الباب " یعنی جو شخص علم حاصل کرنا چاہے وہ علی(ع) کے دروازہ پر آئے) اور نہ عقل اس کو باور کرسکتی ہے کہ پیغمبر(ص) نے بنا پر ان روایات کے جو آپ کی تمام معتبر کتابوں میں وارد ہیں علی علیہ السلام کو ساری امت سے بہتر فیصلہ کرنے والا بتایا ہوگا اور فرمایا ہوگا علی اقضاکم یعنی علی علم و قضاوت میں تم سب لوگوں سے افضل ہیں۔

کیا یہ ایک مضحکہ خیز بات نہیں ہے کہ رسول اللہ(ص) کسی کے لیے تصدیق فرمائیں کہ یہ علم قضاوت میں سب سے بالاتر ہے لیکن وہ وراثت و حقوق کے مسائل اچھی طرح نہ جانتا ہو۔ اور پھر آں حضرت(ص) احکام میراث اس کو بتائیں بھی نہیں؟ در آنحالیکہ قاضی کے لیے جملہ علوم میں کہ ایک حدیث اور وہ بھی میراث کے بارے میں جس کا خصوصیت سے رسول اللہ(ص) کے ذاتی اور گھریلو معاملات سے تعلق ہو آںحضرت کے وصی اور باب علم علی علیہ السلام نے تو نہ سنی ہو لیکن اوس بن حدثان یا ابوبکر ابن ابی قحافہ نے سن لی ہو؟

آیا آپ کی عقل قبول کرتی ہے کہ ایک معمولی جاہل آدمی بھی وصیت کرے، کسی قابل اطمیان انسان کی میراث کا معاملہ نہ بتائے بلکہ ایک غیر شخص سے کہہ جائے کہ میرے بعد ایسا ایسا ہوگا؟ نہ کہ رسول خدا(ص) کی ایسی جامع ومانع ہستی جو خاتم الانبیاء بھی ہوں اور جس کی غرض بعثت انسانوں کے نظام اجتماعی کی حفاظت اور دنیا و آخرت کی آسانیاں فراہم کرنا ہوں، اپنے لیے وصی و وراث اور جانشین معین فرمائے یعنی خدا علی (ع) کو آں حضرت کا وصی اور وارث مقرر کرے، اور پھر ایسی حدیث جو منصب و صایت پر فائز ہونے کے علاوہ آں حضرت کے علم و حکمت کا در بھی ہو؟

شیخ : ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی ہمارے نزدیک ثابت نہیں ہے کیوںکہ حدیث مدینہ کو اکابر علماء نے قبول نہیں کیا ہے اور موضوع وصایت بھی علماء جمہور کے نزدیک مردود اور غیر مسلم ہے اس لیے کہ بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں نیز ہمارے دوسرے بزرگ عالموں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی سند سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے احتضار کے وقت پیغمبر(ص) کا سر میرے

۷۲

سینے پر تھا یہاں تک کہ آپ نے انتقال فرمایا۔ یعنی میں دیکھ رہی تھی کہ کوئی وصیت نہیں کی یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی وصیت کی ہو اور ام المومنین کو پتہ نہ چلا ہو جب کہ آخر وقت تک رسول اللہ(ص) کا سر مبارک ان کے سینے پر تھا؟ اگر وصیت کی ہوتی تو ام المومنین رضی اللہ عنہا اس کو ضرور نقل کرتیں۔ پس وصیت کا قصہ سرے سے ہی ختم ہو جاتا ہے۔

خیر طلب: حدیث مدینہ کے بارے میں آپ نے زیادتی فرمائی کیونکہ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ اس پر فریقین کا اتفاق ہے اور یہ تقریبا تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے جیسا کہ آپ کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں مثلا امام ثعلبی، فیروز آبادی حاکم نیشاپوری محمد جزری، محمد بن جریر طبری، سیوطی، سخادی متقی ہندی، محمد بن یوسف گنجی شافعی، محمد بن طلحہ شافعی، قاضی فضل بن روز بہان منادی، ابن حجر مکی، خطیب خوارزمی، سلیمان قندوزی ، حنفی، ابن مغازل فقیہ شافعی، دیلمی، ابن طلحہ شافعی، میر سید علی ہمدانی، حافظ ابونعیم اصفہانی ، شیخ الاسلام حموینی، ابن ابی الحدید، معتزلی، طبرانی، سبط ابن جوزی اور امام ابوعبدالرحمن نسائی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ رہا موضوع وصایت اور رسول اللہ(ص) سے مروی نصوص تو وہ بکثرت، بے شمار اور متواترات مسلمہ میں سے ہیں۔ اور سوا کینہ پرور، ضدی متعصب اور جاہل انسان کے قطعا کوئی وصیت کا منکر نہیں ہوسکتا ۔

نواب : خلیفہ پیغمبر(ص) ہی آں حضرت(ص) کا وصی بھی ہے جو آںحضرت(ص) کے گھریلو کاموں کو بھی انجام دیتا ہے۔ جیسا کہ خلفاء رضی اللہ عنہم انجام دیتے تھے اور ازواج رسول (ص) کے وظیفہ ادا کرتے تھے۔ یہ کہاں سے معلوم ہواکہ علی کرم اللہ وجہہ کو خاص طور سے وصایت پر معین فرمایا تھا؟

خیر طلب : آپ نے صحیح فرمایا۔ جو بدیہی چیز ہے کہ رسول اللہ(ص) کا خلیفہ اور وصی ایک ہی شخص تھا چنانچہ دلائل و نصوص خلافت کو گذشتہ راتوں میں عرض کرچکا ہوں۔ اور آن حضرت کو وصایت نصوص جلیہ کےساتھ بالکل واضح و آشکار ہے کہ جس موقع پر دوسرے لوگ سازش اور سیاسی چالوں میں منہمک تھے وصی رسول(ص) آں حضرت کے غسل اور کفن و دفن میں مشغول تھا، اور بعد کو بھی وہ امانتیں ادا کرنے میں مصروف رہا جو آں حضرت کے پاس جمع تھیں۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس اور ہمارے آپ کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے۔

وصایت کے بارے میں روایتیں

اب میں مجبور ہوں کہ اس مطلب کے ثبوت میں چند مختصر حدیثوں کی طرف اشارہ کروں تاکہ شیخ صاحب پھر یہ نہ فرمائیں کہ ہمارے علماء کے نزدیک مردود ہے۔ امام ثعلبی مناقب اور اپنی تفسیر میں، ابن مغازلی فقیہ شافعی مناقب میں اور میر سید علی ہمدانی مودت القربیمودت ششم میں خلیفہ دوم عمر ابن خطاب سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" ان رسول الله لما عقد المواخاة بين اصحابه قال هذا علی اخی فی الدنيا والآخرة و خليفتی فی اهلی و وصيي فی امتی و وارث علمی و قاضی دينی ماله منی مالی منه نفعه نفعی و ضره ضری من‏أحبه‏فقدأحبني‏

۷۳

ومنأبغضهفقدأبغضني"

یعنی رسول اللہ (ص) نے جس روز اصحاب کے درمیان اخوت اور برادری قائم فرمائی تو فرمایا یہ علی(ع) دنیا و آخرت میں میرے بھائی، میرے اہل بیت میں میرے خلیفہ ، میری امت میں میرے وصی، میرے علم کے وارث اور میرے قرضکو ادا کرنے والے ہیں، جو ان کا ہے وہ میرا ہے،جو میرا ہے وہ ان کا ہے، ان کانفع میرا نفع اور ان کا ضرر میرا ضرر ہے، جو شخص ان کو دوست رکھے اس نے در اصل مجھ کو دوست رکھا اور جو ان سے دشمنی رکھے در حقیقت اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ کے باب۱۵ کو اسی موضوع سے مخصوص کیا ے اور امام ثعلبی، حموینی، حافظ ابونعیم، احمد بن حنبل، ابن مغازلی، خوارزمی اور دیلمی سے بیس روایتیں وصایت علی علیہ السلام کے ثبوت میں نقل کی ہیں جن میں سے بعض کو آپ حضرات کے خیالات روشن کرنے کے لیے عرض کرتا ہوں۔

مسند امام احمد ابن حنبل سے نقل کرتے ہیں (سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص۲۶، اور ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں بھی یہروایت نقل کی ہے) کہ انس بن مالک کہتے ہیں میں نے سلمان سے کہا کہ پیغمبر(ص) سے سوال کرو کہ ان کا وصی کون ہے؟

" فَقَال سَلْمَان يَارَسُولَاللَّهِمَنْ‏ وَصِيُّكَ‏،فقَالَ: يَاسَلْمَانُمَنْكَانَوَصِيُّمُوسَى،فَقَالَ: يُوشَعُبْنُنُونٍ. قَالَ: فَإِنَّوَصِيِّيوَوَارِثِييَقْضِيدَيْنِيوَيُنْجِزُمَوْعُودِيعَلِيُّبْنُأَبِيطَالِبٍ."

یعنی سلمان نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ(ص) آپ کا وصی کون ہے ؟ فرمایا اے سلمان موسی کاوصی کون تھا؟ عرض کیا یوشع بن نون ۔ فرمایا میرا وصی وارث جو میرے قرض کو ادا کرے گا اور میرے وعدے کو پورا کرے گا۔ علی ابن ابی طالب ہیں۔

خوارزم کے اخطب الخطباء موفق بن احمد سے اور وہبریدہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :"لکل نبی وصی و وارث و ان عليا وصی و وارثی " ( یعنی ہر نبی کا ایک وصی اور وارث ہے اور بتحقیق میرے وصی اور وارث علی(ع) ہیں۔)

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب۲۲ ص۱۳۱ میں بھی سند کے ساتھ اسی خبر کی روایت کی ہے اور نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ ایسی بہتر حدیث ہے کہ اس کو محدث شام نے بھی اپنی تاریخ میں درج کیا ہے۔

شیخ الاسلام حموینی سے اور وہابوذر غفاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

"قال رسول الله صلی الله عليه وسلم انا خاتم النبيين و انت يا علی خاتم الوصيين الی يوم الدين"

یعنی رسول اللہ صلعم نے فرمایا میں خاتم الانبیاء ہوں اور تم اے علی(ع) خاتم الاوصیاء ہو روز قیامت تک۔

خطیب خوارزمی سے اور وہ ام المومنین ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"إِنَّاللَّهَعَزَّوَجَلَّاخْتَارَمِنْكُلِّنَبِيٍّوَصِيّاًوَعَلِيٌ‏ وَصِيِّي‏ فِي‏ عِتْرَتِي‏وَأَهْلِبَيْتِيوَأُمَّتِيمِنْبَعْدِي‏"

یعنی خدا نے ہر پیغمبرکے لے ایک وصی منتخب فرمایا اور میرے بعد میری عترت میرے اہل بیت اور میری امت میں میرے وصی علی(ع) ہیں۔

اور ابن مغازلی فقیہ شافعی سے اور وہ اصبغ ابن نباتہ سے ( جو امیرالمومنین(ع) کے اصحاب خاص میں سے تھے اور بخاری و مسلم نے بھی ان سے روایت کی ہے) نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہمارے مولا امیرالمومنین(ع) نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا :

"ايها الناس

۷۴

أناإمام‏ البرية،ووصي‏ خيرالخليقة،وأبوالعترةالطاهرة،أناأخورسولاللّهصلّىاللّهعليهوآلهووصيهووليهوصفيه،وحبيبه،أناأميرالمؤمنينوقائدالغرالمحجلينوسيدالوصيين،حربيحرباللّهوسلمىسلماللّهوطاعتىطاعةاللّهوولايتىولايةاللّهوشيعتىأولياءاللّهوأنصارىأنصاراللّه،"

یعنی لوگو میں امام خلائق بہترین مخلوقات کا وصی اورہدایت کرنے والی پاک عترت کا پدر ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھائی، ان کا وصی، ان کا ولی، ان کا خالص دوست اور ان کا حبیب ہوں، میں امیر المومنین، نورانی چہروں ہاتھوں اور پائوں والوں کا پیشوا اور اوصیاء کا سید و سردار ہوں مجھ سے جنگ کرنا خدا سے جنگ کرنا ہے مجھ سے صلح و آشتی رکھنا خدا سے صلح و آشتی رکھنا ہے، میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے، میری دوستی خدا کی دوستی ہے،میرے پیرو خدا کے دوست ہیں۔ اور میری نصرت کرنے والے خدا کی نصرت کرنے والے ہیں۔

نیز ابن مغازلی شافعی مناقب میں عبداللہ ابن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"انْتَهَتِ‏ الدَّعْوَةُإِلَيَّوَإِلَىعَلِيٍّلَمْيَسْجُدْأَحَدُنَاقَطُّلِصَنَمٍفَاتَّخَذَنِينَبِيّاًوَاتَّخَذَعَلِيّاًوَصِيّاً."

یعنی دعوت رسالت مجھ پر اور علی(ع) پر ختم ہوئی، ہم دونوں میں سے کسی نے قطعا بت کو سجدہ نہیں کیا، پس مجھ کو نبی(ص) اورعلی(ع) کو وصی بنایا۔

میر سید علی ہمدانی شافعی مودۃ القربی مودت چہارم میں عتبہ بن عامر جہنی سے نقل کرتے ہیں کہ کہا :

"بايعنارسول‏ الله‏علىقول ان لا الهالله وحده لا شريک لهوأن محمدا نبيهوعلياوصيهفأيالثلاثةتركناكفرنا"

یعنی ہم نے اس قول پر رسول اللہ(ص) کی بیعت کی کہ سوا اللہ کے کوئی خدا نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یقینا محمد(ص) اس کے نبی اور علی(ع) ان کے وصی ہیں۔ پس ہم ان تینوں باتوں میں سے جس کو بھی چھوڑیں گے کافر ہوجائیں گے۔

نیز اسی کتاب مودۃ القربی میں ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"إِنَّاللَّهَجَعَلَلِكُلِّنَبِيٍّوَصِيّاً- شَيْثوَصِيُّآدَمَ،يٌوشَع وَصِی مُوسَی وَشَمْعُونوَصِيُّعِيسَى،وَعَلِيّاوَصِيِّي،وَهُوَخَيْرُالْأَوْصِيَاءِفِيالبَدَاء،وَأَنَاالدَّاعِي‏،وَهُوَالْمُضِيئ."

یعنی در حقیقت خدائے تعالی نے ہر پیغمبرکے لیے ایک وصی قرار دیا شیث کو وصی آدم، یوشع کو وصی موسی، شمعون کو وصی عیسی، اور علی(ع) کو میرا وصی بنایا اور میرا وصی سارے او صیاء سے بہتر ہے میں حق کی طرف دعوت دینے والا ہوں اور علی(ع) اس کو روشن کرنے والے ہیں۔

صاحب ینابیع المودۃ مناقب موفق بن احمد خوارزمی سے اور وہ ابو ایوب اںصاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا جب رسول اللہ(ص) بیمار تھے تو فاطمہ سلام اللہ علیہا آئیں اور رونے لگیں، آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"يافاطمةإنّ‏ لكرامةاللّه‏إياكزوّجكمنهوأقدمهمسلماوأكثرهمعلما،وأعظمهمحلما،إنّاللّهعزّوجلّأطلعإلىأهلالأرضاطلاعةفاختارنيمنهمفبعثنينبيّامرسلا،ثمّأطلعاطلاعةفاختارمنهمبعلكفأوحىإليأنازوجهإياكواتخذهوصيّا."

یعنی فاطمہ (ع) تم پر اللہکی خاص کرامت یہ ہے کہ تمہارا شوہر ایسے شخص کو قرار دیا جس

۷۵

کا اسلام سب سے سابق، جس کا علم سب سے زیادہ اور جس کی بردباری سب سے بڑھی ہوئی ہے۔

در حقیقت خدائے تعالی نے اہل زمین کی طرف مخصوص توجہ فرمائی پس ان میں سے مجھ کو منتخب کر کے نبوت و رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ پھر ایک خاص توجہ فرمائی اور ان میں سے تمہارے شوہر کو منتخب کیا، پس میری طرف وحی بھیجی کہ تمہارے ساتھ ان کا عقد کردوں اور ان کو اپنی وصی قرار دوں۔

ابن مغازلی فقیہ شافعی نے مناقب میں اس حدیث کو درج کرنے کے بعد یہ جملے مزید نقل کئے ہیں کہ فرمایا:

" يَافَاطِمَةُإِنَّاأَهْلَ‏الْبَيْتِ‏أُعْطِينَاسِتَّخِصَالٍلَمْيُعْطَهَاأَحَدٌمِنَالْأَوَّلِينَوَلَمْيُدْرِكْهَاأَحَدٌمِنَالْآخِرِينَمنا نَبِيُّنَاافضل الْأَنْبِيَاءِوَهُوَأَبُوكِوَوَصِيُّنَاخَيْرُالْأَوْصِيَاءِوَهُوَبَعْلُكِوَشَهِيدُنَاخَيْرُالشُّهَدَاءِوَهُوَحَمْزَةُعَمُّأَبِيكِوَمِنَّاالَذيلَهُجَنَاحَانِيَطِيرُبِهِمَافِيالْجَنَّةِحَيْثُيَشَاءُوَهُوَجَعْفَرٌابْنُعَمِّكِوَمِنَّاسِبْطَان و سَيدَا شَبَابِ اَهلِ الجَنَةِابْنَاكِوَالَّذِينَفْسِيبِيَدِهِان مَهْدِيّهَذِهِالْأُمَّةِيُصَلِّيعِيسَى بن مريمخَلْفَهُمِن وُلدِکِ"

یعنی اے فاطمہ(ع) ہم اہل بیت(ع) کو سات خصلتیں ایسی عطا کی گئیں جو نہ اولین میں سے کسی کو ملیں نہ آخرین میں سے کوئی ان کو پاسکے گا۔ سب سے افضل پیغمبر(ص) ہم میں سے ہے اور وہ تمہارا باپ ہے، ہمارا وصی تمام اوصیاء سے بہتر ہے اور تمہارا شوہر ہے، ہمارا شہید سب شہداء سے اچھاہے اور وہ تمہارے چچا حمزہ ہیں، ہم میں سے وہ شخص ہے جس کے دو شہپر ہیں جن سے وہ جب چاہتا ہے جنت میں پرواز کرتا ہے اور وہ تمہارے چچا کے بیٹے جعفر ہیں ہم میں سے دو سبط اور جوانان اہل جنت کے دو سردار ہیں اور وہ دونوں تمہارے فرزند ہیں اور قسم اس خدا کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یقینا اس امت کے مہدی جن کے پیچھے عیسی ابن مریم نماز پڑھیں گے تمہاری اولاد میں سے ہیں۔

ابراہیم ابن محمد حموینی نے فرائد میں نقل حدیث کے بعد اتنے جملے اور زیادہ روایت کئے ہیں کہ نام مہدی علیہ السلام کے بعد فرمایا :

"ويملأالأرضعدلا و قسطاكماملئتجوراو ظلما يافاطمةلاتحزنيولاتبكيفإنّاللّهعزّوجلّأرحمبكوأرأفعليكمنّي وذالکلمكانكوموقعكفيقلبيقدزوّجكاللّهزوجاوهوأعظمهمحسبا، و اکرمهم نسباوأرحمهمبالرعية،وأعدلهم‏ بالسويّة،وابصرهمبالقضيّة"

یعنی یہ زمین کو عدل و داد سے بھر دیں گے جب وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ اے فاطمہ(ع) غمگین نہ ہو اور گریہ نہ کرو کیونکہ خدا تعالی تم پر مجھ سے زیادہ رحیم و مہربان ہے اور یہ میرے دل میں تمہاری قدر و منزلت کی وجہ سے ہے۔ در حقیقت تم کو ایسا شوہر عطا کیا ہے جو حسب میں سب سے بزرگ نسب میں سب سے بلند رعایا پر سب سے زیادہ مہربان، مساوات کے ساتھ سب سے زیادہ عادل اور فیصلے میں سب سے زیادہ باریک بیں ہے۔

میرا خیال ہے کہ نواب صاحب کی تسکین کی خاطر اور شیخ صاحب کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے اسی قدر احادیث نبوی(ص) کا نقل کر دینا کافی ہوگا۔ ورنہ بارگاہ رسالت سے منقولہ وہ احادیث جن میں سے ہر ایک میں کسی نہ کسی مناسبت سے

۷۶

حضرت علی(ع) کی وصایت کا ذکر کیا گیا ہے بہت کثرت سے اور بے شمار ہیں۔

وقتِ وفات رسول(ص) کا سر مبارک سینہ امیرالمومنین(ع) کے اوپر تھا

اور شیخ صاحب کا یہ فرمانا بھی بالکل مردود ہے کہ وقت وفات رسول اللہ(ص) کا سر مبارک ام المومنین عائشہ کے سینے پر تھا۔ اس لیے کہ ان اخبار کثیرہ کے خلاف ہے جو علاوہ اس کے کہ عترت اور اہل بیت طہارت(ع) کے نزدیک ثابت و محقق ہیں اور تمام علماء شیعہ نے تواتر کے ساتھ ان کو نقل کیا ہے، خود آپ کے اکابر علماء کی معتبر کتابوں میں بھی وارد ہے کہ وقت وفات آں حضرت(ص) کا سر مبارک حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے سینہ پر تھا اور اسی وقت سینہ علی(ع) میں علوم کے دروازے کشادہ فرمائے۔

شیخ : ہمارے علماء نے کونسی کتاب میں ایسا مضمون ذکر کیا ہے؟

خیر طلب: بہتر ہوگا کہ آپ کنز العمال جلد چہارم ص۵۵ اور جلد ششم ص۳۹۲ ، ص۴۰۰ طبقات محمد بن سعد کاتب جز دوم ص۵۱، مستدرک حاکم نیشاپوری جلد سومص۱۳۹، تلخیص ذہبی، سنن ابن ابی شیبہ، کبیر طبرانی، مسند امام احمد حنبل جلد سوم، حلیتہ الاولیاء، حافظ ابونعیم اور دوسری معتبر کتابیں ملاحظہ فرمائیے جن میںالفاظ و مطالب کے تھوڑے تھوڑے اختلاف کے ساتھ سب کے سب ام المومنین ام سلمہ اور جابر ابن عبداللہ انصاری وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ اپنی وفات کے وقت رسول اللہ(ص) نے علی علیہ السلام کو بلایا اور آن حضرت(ص) کا سر مبارک ان کے سینے پر رہا یہاں تک کہ روح نے جس اقدس سے مفارقت کی۔

اور ان ساری روایتوں سے زیادہ اہم خود امیرالمومنین علیہ السلام کا بیان ہے جو نہج البلاغہ میں مذکور ہے۔ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۵۶۱ میں روایت کی ہے کہ حضرت نے اپنی تقریر میں صاف صاف فرمایا:

"وَلَقَدْقُبِضَ‏ رَسُولُ‏ اللَّهِ‏ صوَإِنَّرَأْسَهُعَلَىصَدْرِيوَلَقَدْسَالَتْنَفْسُهُفِيكَفِّيفَأَمْرَرْتُهَاعَلَىوَجْهِي"

یعنی در حقیقت رسول اللہ(ص) اس حالت میں قبض ہوئی کہ ان کا سر قطعا میرے سینے پر تھا اور ان کی رحالت میرے ہاتھوں پر ہوئی پس میں نے اپنے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر لیے۔

لیکن ابن ابی الحدید جلد دوم ص۵۶۲ میں حضرت کے اس بیان کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ جب آں حضرت(ص) کا سر آپ کے سینے پر تھا تو چند قطرے خون کے جاری ہوئے جو علی علیہ السلام نے اپنے چہرے پر مل لئے۔

یہ سارے مضبوط دلائل ثابت کرتے ہیں کہ عائشہ والی روایت مردود ہے اور ناقابل قبول ہے اس لیے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے عائشہ کو پہلے ہی سے سخت عداوت تھی۔ چنانچہ آئندہ انشاء اللہ کسی شب میں اگر کوئی مناسب موقع آگیا تو اس کو بھی عرض کروں گا۔

۷۷

امر وصایت کی تحقیق

انہیں احادیث سے نواب صاحب کی اس بات کا ایک دوسرا مکمل جواب بھی نکلتا ہے کہ خلیفہ کی موجودگی میں وصی کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ اگر ایک عقلمند انسان اپنی عادت سے ہٹ کے ذرا انصاف کے ساتھ حدیثوں ہی میں غور کرےبالخصوص ان احادیث میں جن کے اندر ارشاد ہے کہ جس خدا نے اوصیاء اور انبیاء کرام کو معین فرمایا اسی نے علی کو میری وصایت پر مقرر فرمایا ہے تو اس کی سمجھ میں آجائے گا کہ یہاں ذاتی اور معمولی خاندانی وصیت مراد نہیں ہے جیسی کہ ہر فرد بشر اپنے بعد کے لے کرتا ہے بلکہ وصایت بمعنائے خلافت مراد ہے جس کا حامل امت کے جملہ اجتماعی و انفرادی معاملات میں تصرف کاحق رکھتا ہے اور یہی وصایت منصب نبوت کی قائم مقام ہے۔

حضرت کے مرتبہ وصایت کی آپ کے تمام بزرگ علماء نے تصدیق کی ہے اور سوا ان تھوڑے سے متعصب و معاند افراد کے جنہوں نے آپ کے جملہ فضائل سے انکار کردیا ہے اور کسی کو اس حقیقت سے انکار نہیں ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص۲۶ مطبوعہ مصر میں کہتےہیں:

"فلاريب‏ عندناأنّعليّاعليهالسّلامكانوصيّرسولاللّهصلّىاللّهعليهوآلهوإنخالففيذلكمنهومنسوبإلىالعناد"

یعنی ہمارے نزدیک اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے وصی تھے، اگر چہ وہ شخص اس کی مخالفت کرتا ہے جو ہمارے نزدیک بغض و عناد رکھنے والا ہے۔

وصیت سے متعلق بعض صحابہ کے اشعار

پھر اصحاب رسول(ص) کےبہت سے اشعار نقل کئے ہیں جو سب کے سب وصایت امیرالمومنین کے سلسلے میں ہیں، منجملہ ان کے عبداللہ ابن عباس ( حبر امت) کے دو شعر ہیں۔ پہلے شعر میں کہتے ہیں۔

وَصِيُ‏ رَسُولِ‏ اللَّهِ‏ مِنْدُونِأَهْلِهِ‏وَفَارِسُهُإِنْقِيلَ: هَلْمِنْمُنَازِلِ

یعنی آپ رسول اللہ(ص) کے اہل بیت میں ہونے کے علاوہ ان کے وصی بھی ہیں۔ اور جس وقت مبارز طلب کیا جائے تو میدان جہاد کے شہسوار ہیں۔

خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتیں کے لیے نقل کیا ہے کہ وہ اپنے اشعار میں کہتے ہیں۔

وصيّ‏ رسول‏ اللّه‏مندونأهله‏وأنتعلىماكانمنذاكشاهده‏

یعنی آپ رسول اللہ(ص) کے اہل بیت میں ہونے کے علاوہ ان کے وصی ہیں۔ اور جو کچھ آں حضرت(ص) سے صادر ہوا ہے اس پر

۷۸

آپ ان کے گواہ ہیں۔

نیز ابوالہیثم بن تیہان صحابی کے اشعار میں سے یہ بھی لکھتے ہیں۔

إن‏ الوصي‏ إمامناوولينابرحالخفاءوباحتالأسرار.

یعنی یقینا وصی رسول (ص) ہی ہمارے امام اور ہمارے مولا ہیں، پردہ ہٹ گیا اور خفیہ باتوں کا اعلان ہوگیا۔

یعنی یقینا وصی رسول(ص) ہی ہمارے امام اور ہمارے مولا ہیں، پردہ ہٹ گیا اور خفیہ باتوں کا اعلان ہوگیا۔

اثبات مقصد کے لیے میں اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہوں، اگر آپ اس بارے میں بقیہ اشعار و اقوال دیکھنا چاہتے ہوں تو اسی کتاب کی طرف رجوع کیجئے تاکہ اس سے زیادہ حقیقت ظاہر ہو، جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر طوالت کا خوف نہ ہوتا تو میں ایسے اشعار سے بہترے اوراق بھر دیتا جن میں وصیت کا تذکرہ ہے۔

پس معلوم ہوا کہ وصایت او نبوت دنوں لازم و ملزوم ہیں یہ مقام نبوت کے بعد ایک منزل ہے اور یہی خلافت و ریاست عامہ الیہہ کا منصب ہے۔

شیخ : اگر یہ روایتیں صحیح ہیں تو کتب اخبار و احادیث میں ہم کو علی کرم اللہ وجہہ کے نام رسول خدا(ص) کا کوئی ایسا وصیت نامہ کیوں نہیںملتا جیسے مرنے کے وقت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے وصیت نامے ہیں۔

خیر طلب : حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے وصی ہونے کا ذکر اور منصب ولایت کے بارے میں حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے جو ہدایات صادر ہوئے ہیں وہ اہل بیت طاہرین(ع) کے سلسلے سے اکابر علماء شیعہ کی معتبر کتابوں میں تواتر کے ساتھ مندرج اور مروی ہیں، لیکن چونکہ شب اول معاہدہ ہوچکا ہے کہ ہم لوگ یک طرفہ روایتوں سے استدلال نہیں کریں گےلہذا آپ کی معتبر کتابوں میں جو روایات منقول ہیں مجبورا ان میں سے بعض کی طرف جو فی الحال میرے پیش نظر ہیں اشارہ کرتا ہوں۔

فرمان وصیت کی طرف اشارہ

اگر آپ حضرات رسول خدا(ص) کی وصیت اور ان کی ہدایات کے متعلق جو حضرت امیرالمومنین کو دیئے گئے ہیں جملہ روایتوں کا پتہ لگانا چاہتے ہیں تو طبقات ابن جلد دوم ص۶۱، ص۶۳ کنزالعمال علی متقی جلد چہارم ص۵۴ و جلد ششم ص۱۵۵، ص۳۹۳، ص۴۰۳ مسند امام احمد ابن حنبل جلد چہارم ص۱۶۴ اور مستدرک حاکم جلد سوم ص۵۹، ص۱۱۱ کی طرف رجوع کیجئے۔ ان کے علاوہ سنن، دلائل بیہقی استعیاب ابن عبدالبر، کبیر طبرانی اور تاریخ ابن مردویہ وغیرہ میں بھی آپ کے اکابر علماء نے مختلف عبارتوں کے ساتھ متفاوت زمانوں میں آں حضرت(ص) کی ہدایتیں نقل کی ہیں۔

جوعبارتیںمکرر ذکر کی گئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ فرمایا :

" يا علی أنتأخيووزيريوخليفتيمنبعديفيأهلي،تقضيدينيوتبرئ‏ ذمتي‏."

یعنی اے علی(ع) تم میرے بھائی اور میرے وزیر ہو تم میرے قرض کو ادا کروگے۔ میرے وعدے کو پورا کروگے

۷۹

اور مجھ کو بری الذمہ کروگے۔

"يَاعَلِيُّأَنْتَتُغَسِّلُنیوَتُؤَدِّيدَيْنِيوَتُوَارِينِي‏ فِيحُفْرَتِي"

یعنی تمہیں مجھ کو غسل دوگے، میرا قرضادا کروگے اور مجھ کو قبر میں پوشیدہ کروگے۔

علاوہ ان اخبار صریحہ کے اس طرح کے فرمان آںحضرت(ص) کی طرف سے بکثرت صادر ہوئے ہیں، وصیت پر عمل کرنے کے آثار بھی ثبوت دے رہے ہیں کہ امر وصیت کے ماتحت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے آں حضرت(ص) کو غسل دیا ، کفن پہنایا، آپ کے حجرے میں دفن کیا اور آپ کا پانچ لاکھ درہم قرض ادا کیا، جیسا کہ عبد الرزاق نے اپنی جامع میں نقل کیا ہے۔

شیخ : قرآن کے قاعدے اور حکم کے روسے جیسا کہ ارشاد ہے:

"كُتِبَ‏ عَلَيْكُمْ‏ إِذاحَضَرَأَحَدَكُمُالْمَوْتُإِنْتَرَكَخَيْراً- الْوَصِيَّةُلِلْوالِدَيْنِوَالْأَقْرَبِينَبِالْمَعْرُوفِحَقًّاعَلَىالْمُتَّقِينَ‏"

یعنی تمہارے اوپر فرض کیا گیا کہ جب تم سے کسی کی موت آئے تو اگر دنیاوی مال و متاع چھوڑ رہا ہے تو اپنے ماں باپ اور اقربا کے لیے اس میں سے مناسب حصے کی وصیت کرے یہ پرہیز گاروں کے لیے ضروری ہے۔ آیت ںمبر۱۷۶ سورہ نمبر۲( بقرہ)۔

لازم تھا کہ وفات کے وقت وصیت کریں اور اپنا وصی معین کریں۔ پس جب رسول خدا(ص) نے آثار موت مشاہدہ کئے تو اس موقع پر کیوں وصیت نہیں کی جس طرح سے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے وصیت کی ہے؟

خیر طلب : اول "إِذاحَضَرَأَحَدَكُمُالْمَوْتُ" کا معائنہ یعنی زندگی کے آخری لمحات مراد نہیں ہیں اس لیے کہ اس حالت میں مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنے ہوش میں رہے اور پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ اپنے فرائض پر عمل کرسکے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ موت کے اسباب و آثار و علامتیں مثلا بڑھاپا، ضعف جسمانی اورمرض وغیرہ ظاہر ہوجائے۔

دوسرے آپ کے اس بیان سے میرا درد دلتازہ ہوگیا اور ایک بڑی مصیبت یاد آگئی جو ہرگز بھولنے کے قابل نہیں ہے۔ وہ بڑی مصیبت یہ ہے کہ میرے جد بزرگوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے باجودیکہ آیات قرآنی کی روشنی میں وصیت کے لیے اس قدر سخت تاکیدات فرمائے اور یہاں تک کہ فرمایا کہ :"مَنْ‏ مَاتَ‏ بِغَيْرِوَصِيَّةٍمَاتَمِيتَةًجَاهِلِيَّةً." ( یعنی جو شخص بغیر وصیت کے مرجائے وہ اہل جاہلیت کی موت مرا۔) تاکہ امت کی کوئی فرد بغیر وصیت کے نہ مرے، مبادا اس کے بعد پس ماندگان میں کوئی نزاع پیدا ہوجائے لیکن جب خود آں حضرت(ص) کا وقت آیا تو حالانکہ تیئس سال کی مدت میں ایک مرتب دستور العمل کے ماتحت اپنے واحد عظیم المرتبت وصی کے لیے جس کو آں حضرت(ص) کے لیے خدا نے معین فرمایا تھا برابر اپنی وصیتوں کا خصوصی اعلان فرمارہے تھے آپ نے مرض الموت میں بھی چاہا کہ جو کچھ اس عرصہ میں کہہ چکے ہیں اس کی تکمیل فرما دیں تاکہ اس کے ذریعہ امت کے اندر ضلالت و گمراہی جنگ و نزاع اور گروہ بندی کی روک تھام ہوجائے لیکن افسوس کہ سیاسی بازیگروں نے سخت مخالفت کر کے آں حضرت(ص) کو اس شرعی اورع خدائی فریضے کہ عملی جامہ پہنانے کی مہلت نہیں دی، جس سے آج آپ کو بھی یہ فرمانے کا موقع ہاتھ آیا کہ آں حضرت(ص) نے مرض الموت میں کیوں وصیت نہیں کیا؟

۸۰

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394