پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور0%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سلطان الواعظین آقائے سید محمد شیرازی
زمرہ جات: صفحے: 394
مشاہدے: 276237
ڈاؤنلوڈ: 6130


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 276237 / ڈاؤنلوڈ: 6130
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

خدا جانتا ہے کہ میں کٹ حجتی نہیں کرتا

حافظ : خدا اور آپ کے جد امجد رسول خدا(ص) کے اس عظیم حق کی قسم کھاتا ہوں جو ہم لوگوں پر ہے کہ میں ذاتی طور پر کوئی عناد و تعصب یا بے جا ضد نہیں رکھتا۔ ان راتوں میں جب سے آپ کا ساتھ ہے یقینا آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ میں کج بحثی نہیں کرتا۔ جس مقام پر میں نے مضبوط دلیل و برہان کے ساتھ کوئی قاعدے کی بات سنی تو اپنے اندر سکون و اطمینان کا جذبہ پایا اور یہ میری خاموشی خود حق و اںصاف کی بات تسلیم کر لینے کی دلیل ہے ورنہ اگر ہم حیلہ سازی اور کٹ حجتی کرنا چاہتے تو آپ کے بیانات اور دلائل کو مغالطہ بازی میں ڈال کر جھٹلا سکتے تھے جیسا کہ ہمارے پچھلے لوگ کرتے رہے ہیں۔ لیکن میں نظرتا جھگڑالو اور مکار نہیں تھا بالخصوص جس وقت سے آپ کا سامنا ہوا ( تو اگرچہ یہاں پہنچے اور آپ کی ملاقات سے قبل میں کسی اور ہی قصد سے چلا تھا) آپ کی پاک نفسی تہذیب خوش اخلاقی، سادگی اور جذبہ حقیقت نے مجھ پر ایسا اثر کیا ہے میں نے اپنے خدا سے اصولی منطقی بات کےسامنے پورے طور پر سر تسلیم خم کردینے کا عہد کر لیا۔چاہے یہ طریقہ لوگوں کے توقعات پر پانی ہی کیوں نہ پھر دے آپ یقین کیجئے کہ میں وہ پہلی شب والا آدمی نہیں ہوں اور نڈر ہوکر بالکل صاف صاف کہتا ہوں کہ آپ کے دلائل و براہین اور تاثرات نے میرے دل پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ میں تمنا کرتا ہوں کہ محبت و ولائے محمد و آل محمد(ص) کے ساتھ مروں تاکہ رسول خدا(ص) کے سامنے سرخرو ہوں۔

خیر طلب : آپ کے ایسے انصاف پسند عالم سے میں اس کے خلاف امید بھی نہیں کرتا تھا۔ اور نہ آئیندہ کروں گا۔ آپ کے ان الفاظ نے میرے دل میں کچھ اور ہی اثر کیا اور آپ سے ایک قلبی لگائو پیدا ہوگیا ہے۔ اب میں جناب عالی سے درخواست کرنا چاہتا ہوں، امید ہے کہ آپ قبول فرمائیں گے۔

حافظ : بہتر ہے فرمائیے۔

خیر طلب : میں چاہتا ہوں کہ آج کی شب آپ کو قاضی اور دوسرے حضرات کو گواہ قرار دوں اور آپ انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ فیصلہ فرمائیے کہ آیا میرا بیان حق ہے اور میں اپنا دعوی ثابت کرسکتا ہوں یا نہیں؟

ہوسکتا ہے کہ جس موضوع کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں وہہر رات سے کچھ طولانی ہوجائے لیکن اس زحمت کو برداشت کر لیں تاکہ میں اپنے اندرونی درد و غم کو ظاہر کر کے تھوڑا سکون حاصل کرسکوں۔

بعض جاہلوں اور بے خبر عقیدت مندوں کا قول ہے کہ جو معاملہ تیرہ سو سال واقع ہوا ہے ہم کو اس میں گفتگو کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ یہ نہیں سمجھتے کہ علمی مسائل ہر زمانہ اور ہر دور میں قابل بحث ہوتے ہیں، عادلانہ مباحثوں میں حقیقتوں کا انکشاف ہوتا ہے اور خاص طور پر وارثت کا دعوی تو قانونا ہر زمانے میں کسی وارث کی طرف سے فیصلے کے لیے پیش کیا جاسکتا ہے ۔ چونکہ وارثوں کی ایک فرد میںِ بھی ہوں لہذا آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ براہ کرم منصفانہ جواب عنایت فرمائیے۔

۶۱

حافظ : میں انتہائی رغبت اور توجہ سے آپ کے بیانات سننے کے لیے حاضر ہوں۔

خیر طلب : اگر ایک باپخدا کے حکم سے کوئی جائداد اپنے بیٹےکو ہبہ کر دے اور باپ کے مرنے کے بعد اس قابض و متصرف بیٹے سے وہ جائداد چھین لی جائے تو اس کی کیا نوعیت ہوگی؟

حافظ : کھلی ہوئی بات ہے کہ جس طریقے سے آپبیان کر رہے ہیں غصب کرنے والا بدترین ظم کا مرتکبہوگا۔ لیکن اس ظالم و مظلوم اور غاصب و مغصوب سے آپ کا مقصود کون ہے اور کیا ہے؟ صاف صاف فرمائیے۔

خیر طلب: بالکل واضح بات ہے کہ جو ظلم ہماری جدہ ماجدہ صدیقہ کبری فاطمہ زہرا صلوۃ اللہ علیہا کے اوپر ہوا وہ کسی اور پر نہیں ہوا۔

حقیقت فدک اور اس کا غصب

کیونکہ خیبر کے قلعے فتح ہوگئے تو اشراف و مالکان فدک و عوالی ( یہان مدینے کے پہاڑوں کے دامن میں سمندر کے ساحل تک آگے پیچھے سات گائوں تھے جو بہت زر خیز تھے۔ نخلستان بکثرت تھے اور اراضی کو طول و عرض بہت وسیع تھا اس کے حددود اربعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حد مدینے کے نزدیک کوہ احد، ایک حد عریش ، ایک سمندر کے کنارے اور ایک حد دومتہ الجندل تک تھی۔

رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اس اور اس شرط پر صلح کی کہ سارے فدک کا نصف ان کا اور نصف حصہ رسول خدا(ص) کی ملکیت ہوگا۔ جیسا کہ صاحب معجم البلدان یاقوت حموی نے فتح البلدان جلد ششم ص343 میں، احمد بن یحیی بلاذری بغدادی متوفی سنہ279 نے اپنی تاریخ میں، ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم مطبوعہ مصر ص78 میں، ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری سے نقل کرتے ہوئے، محمد بن جریر طبری نے تاریخ کبیر میں اور آپ دوسرے محدثین و مورخین نے درج کیا ہے۔

آیہ و آت ذا القربیٰ حقہ کا نزول

مدینہ منورہ میں واپسی کے بعد رب جلیل کی طرف سے جبرئیل نازل ہوئے اور سورہ نمبر17 (بنی اسرائیل) کی آیت نمبر28 پڑھی کہ:

"وَآتِ ذَاالْقُرْبى‏ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاتُبَذِّرْتَبْذِيراً"

یعنی اپنے اقربا نیز فقیروں اور مجبور مسافروں کا حق ادا کرو اور اسراف ہرگز نہ کرو۔

رسول خدا(ص) سوچنے لگے کہ ذوی القربی کون ہیں اور ان کا حق کیا ہے؟ جبرئیل پھر حاضر ہوئے اور عرض کیا خدا فرماتا ہے " ادفع فدکا الی فاطمہ" فدک فاطمہ(ع) کو دے دیجئے! آں حضرت(ص) نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور فرمایا: "إنّ اللّه أمرني أن أدفع‏ إليك‏ فدكا" بتحقیق خدا نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ فدک تم کو دیدوں

۶۲

پس اسی وقت فدک جناب فاطمہ (ع) کو ہبہ فرمایا اور قبضہ دے دیا۔

حافظ : آیا آیہ شریفہ کی یہ شان نزول شیعوں کے کتب و تفاسیر میں لکھی ہوئی ہے یا آپ نے ہماری معتبر کتابوں میں بھی اس کے شواہد دیکھے ہیں؟

خیر طلب : امام المفسرین احمد ثعلبی کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر جلد چہارم میں حافظ ابن مردویہ سے مشہور مفسر احمد بن موسی متوفی سنہ352 ہجری ابوسعید خدری اور حاکم ابوالقاسم حسکانی سے، ابن کثیر عماد الدین اسمعیل ابن عمر دمشقی فقیہ شافعی اپنی تاریخ میں اور شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب39 میں تفسیر ثعلبی ، جمع الفوائد اور عیون الاخبار سے نقل کرتے ہیں کہ:

"لَمَّانَزَلَتْ‏: وَآتِ‏ ذَاالْقُرْبى‏ حَقَّهُ دَعَاالنبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْه ِوَآلِه ِو سلم فَاطِمَةَوَأَعْطَاهَافَدَك الکبير."

یعنی جب آیتوَآتِ‏ ذَاالْقُرْبى‏ حَقَّهُ‏ نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے فاطمہ(ع) کو بلایا اور فدک بزرگ ان کو عطا فرمایا۔

چنانچہ جب تک آں حضرت(ص) حیات رہے فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے تصرف میں رہا وہ معظمہ اس کو ٹھیکے پردیتی تھیں اور مال اجارہ تین قسطوں میں وصول ہوتا تھا۔ جس میں سے بی بی فاطمہ(ع) اپنی اور اپنے فرزندوں کی ایک شب کی خوراک کے حساب سے نکال کر فقرائے بنی ہاشم کے درمیان اور فاضل رقم دیگر فقراء و ضعفاء کو اپنی رضا و رغبت سے بطور اعانت تقسیم فرمادیتی تھیں۔

رسول اللہ(ص) کی وفات کے بعد خلیفہ وقت کے کارندوں نے جار یہ جائداد بی بی فاطمہ(ع) کے اجارہ داروں سے چھین کر ضبط کر لی۔ حضرات خدا کے لیے انصاف سے بتائیے کہ اس حرکت کا کیا نام رکھنا چاہیئے۔

حافظ : یہ پہلا موقع ہے جب میں آپ سے سن رہا ہوں کہ رسول خدا(ص) نے خدا کے حکم سے فدک فاطمہ(ع) کے سپرد کردیا تھا۔

خیر طلب: ممکن ہے آپ کی نظر سے نہ گذرا ہو لیکن میں نے بہت دیکھا ہے میں عرض کرچکا کہ آپ کے اکثر اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس کو درج کیا ہے لیکن مزید توضیح کے لیے پھر عرض کرتا ہوں کہ حافظ ابن مردویہ، واقدی اور حاکم نے اپنی تفسیر و تاریخ میں، جلال الدین سیوطی نے درالمنثور جلد چہارم ص177 میں، مولوی علی متقی نے کنزل العمال اور اس مختصر حاشیہ میں جو مسند امام احمد ابن حنبل کی کتاب الاخلاق کے مسئلہ صلہ رحم پر لکھا ہے اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم میں، ابو سعید خدری کے علاوہ دوسرے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فدک کو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سپرد کیا۔

حدیث لا نورث سے استدلال اور اس کا جواب

حافظ : مسلم تو یہ ہے کہ خلفاء نے فدک کو اس مشہور حدیث کی بنیاد پر ضبط کیاکہ خلیفہ ابوبکر نے کہا میں نے رسول خدا(ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا :

"نحن معاشرالأنبياءلانورث‏ماتركناه صدقة"

یعنی ہم گروہ انبیاء وارث نہیں بناتے ، جو ہمارے ترکہ ہو وہ صدقہ ہے۔ ( یعنی امت کا حق ہے)

۶۳

خیر طلب : اول تو یہ وراثت نہیں تھی ہبہ تھا دوسرے جو عبارت آپ نے حدیث کے عنوان سے نقل کی ہے اس میں بھی بہت سے اشکال ہیں اور باطل ہے۔

حافظ : اس مسلم حدیث کی مردویت کے اوپر آپ کی دلیل کیا ہے؟

خیر طلب : اس کی مردودیت کے دلائل بہت ہیں جو صاحبان علم و اںصاف کے نزدیک ثابت ہیں۔

اول تو یہ جس شخص نے بھی یہ حدیث بنائی ہے بغیر غور فکر کے یہ جملے منہ سے نکال دے اس لیے کہ اگر غور کیا ہوتا تو ایسی عبارت بناتا جس سے بعد کو شرمندگی نہ ہو اور ارباب عقل و دانش اس کا مذاق نہ اڑائیں ۔"و نحنمعاشرالأنبياءلانورث‏" ہرگز نہ کہتا کیوں کہ وہ سمجھ لیتا کہ ایک روز اس کا جھوٹ خود اس مصنوعی حدیث کی عبارت سے کھل جائے گا۔ اگر کہا ہوتا "انا لااورث‏ " یعنی صرف میں نے جو خاتم الانبیاء ہوں وارث قرار نہیں دی ہے تو گفتگو میں فرار کا راستہ نکل سکتا تھا، لیکن جب کلمہ جمع استعمال کیا کہ ہم گروہ انبیاء وارث نہیں بناتے تو ہم حدیث کی صحتوسقم کی جانچ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور خود آپ ہی کے قول کی بناء پر قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ حقیقت ظاہر ہوجائے۔

جس وقت قرآن سے اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں قرآن مجید میں وراثت انبیاء کے بارے میں کافی آیتیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ سارے انبیاء عظام میراث رکھتے تھے اور ان کے بعد ورثاء اس پر تصرف کرتے تھے۔ لہذا اس حدیث کی مردودیت واضح ہوجاتی ہے۔

چنانچہ عالم محدث ابوبکر احمد بن عبدالغزیر جوہری نے جن کے متعلق ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص78 میں توثیق کی ہے کہ اہل سنن کے اکابر علماء و محدثین میں سے اور صاحب ورع و تقویتھے کتاب سقیفہ میں، ابن اثیر نے نہایہ میں، مسعودی نے اخبار الزمان اور اوسط میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص ؟؟؟؟؟؟میں، ابوبکر احمد جوہری سے بحوالہ، کتاب سقیفہ و فدک بکثرت طرق و اسانید کے ساتھ جن میں سے بعض نے امام پنجم ابوجعفر حضرت محمد باقر علیہ السلام سے بسلسلہ صدیقہ صغری زینب کبری اور بعض نے عبداللہ ابن حسن سے بروایت صدیقہ کبری فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا اور ص93میں بسند ام المومنین عائشہ نیز ص94 میں محمد بن عمر عمران مرزبانی سے۔ انہوں نے جناب زید بن علی بن الحسین علیہم السلام سے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے، انہوں نے اپنے پدر گرامی حضرت امام حسین علیہم السلام سے اور انہوں نے جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا سے نقل کیا ہے۔ اور آپ کے دوسرے علماءنے بھی۔

مسجد کے اندر مہاجرین و اںصاف کے مقابل مسلمانوںکے مجمع عام میں جناب فاطمہ مظلومہ، سلام اللہ علیہا کی اس تقریر اور استدلال کو نقل کیا ہے جس نے مخالفین کو اس طریقے سے مبہوت کیا کہ وہ کوئی جواب نہ ہی دے سکے( چونکہ ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا لہذا ہنگامے اور دھاندلی سے کام نکالا۔)

ان کی اس جھوٹی، مہمل اور بے بنیاء حدیث کے مقابلہ میں جناب معصومہ کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ فرمایا کہ اگر یہ حدیث

۶۴

صبح ہے اور انبیاء میراث نہیں چھوڑتے تھے تو قرآن مجید کے اندر وراثت کی ساری آیتیں کیوں موجود ہیں؟

حدیث لا نورث کے رد میں جناب فاطمہ(ع) کے دلائل

ایک مقام پر ارشاد ہےووارث سلیمان دائود آیت نمبر16سورہ نمبر27( نمل) یعنی سلیمان نے دائود کی میراث پائی) حضرت زکریا کے قصے میں فرمایا "فَهَبْلِيمِنْلَدُنْكَوَلِيًّايَرِثُنِيوَيَرِثُمِنْآلِيَعْقُوبَ‏ " آیت نمبر5 سورہ نمبر19 ( مریم) ( یعنی اپنے لطف خاص سے مجھ کو ایک فرزند صالح اور جانشین عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو) اور حضرت زکریا کی دعا کے میں آیا ہے"وَزَكَرِيَّاإِذْنادى‏ رَبَّهُ‏ رَبِّ لاتَذَرْنِي فَرْداًوَأَنْتَ خَيْرُالْوارِثِينَ فَاسْتَجَبْنالَهُ وَوَهَبْنالَهُ يَحْيى‏" آیت نمبر89 سورہ نمبر21 ( انبیاء) یعنی اور یاد کرو زکریا کو جب کہ انہوں نے اپنے خدا کو پکارا کہ خداوند مجھ کو تنہا نہ چھوڑ( یعنی مجھ کو بیٹا اور وارث عطا فرما) اور تو دنیا کے تمام وارثوں سے بہتر ہے۔ پس ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں یحیی سا فرزند عطا کیا۔

اس کے بعد فرماتی ہیں:

"يابن‏ أبي‏ قحافةأفي كتابالله أن ترث أباك ولاأرثأبي،لقدجئت شيئافريا،أفعلى عمد تركتم كتابالله ونبذتموه وراءظهوركم"

اے پسر ابو قحافہ!آیا کتاب خدا میں یہی ہے کہ تو اپنے باپ کا وارث ہو اور میں اپنے باپ کی وارثت سے محروم رہوں؟ یہ تو نے بڑا بہتان باندھا ہے آیا تم لوگوں نے جان بوجھ کر عمدا اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا اور قرآن کو پس پشت ڈال دیا؟ کیا میں پیغمبر(ص) کی اولاد نہیں ہوں کہ مجھے میرے حق سے محروم کر رہے ہو؟ پس یہ سب وراثت کی آیتیں جو عام طور سے انسانوں کے لیے اور خاص طور پر انبیاء کے لیے ہیں آخر کس وجہ سے قرآن مجید میں درج ہوئیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی آیتیں روز قیامت تک اپنی حقیقت پر باقی ہیں کیا قرآن یہ ارشاد نہیں ہے۔"وَأُولُواالْأَرْحامِبَعْضُهُمْأَوْلى‏ بِبَعْضٍ" ( یعنی خویش و اقربا میں سے بعض وارثت میں، بعض دوسروں پر مقدم ہیں۔ آیت نمبر76 سورہ نمبر4 ( انفال)"يُوصِيكُمُاللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِمِثْلُ‏ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ‏" (یعنی تمہاری اولاد کے بارے میں حکم خدا یہ ہے کہ لڑکے لڑکیوں سے دوگنی وراثت پائیں۔ آیت نمبر12 سورہ نمبر4 (نساء) :

" كُتِبَ‏ عَلَيْكُمْ‏ إِذاحَضَرَأَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْراً- الْوَصِيَّةُلِلْوالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّاعَلَى الْمُتَّقِينَ‏"

یعنی سب کو باقاعدہ ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر تم میں سے کسی کو موت کو وقت آجادے اور وہ کچھ مال متاع چھوڑے تو اپنے ماں باپ اور خویش و اقرباء کے لیے نیکی کے ساتھ وصیت کرے۔ یہ کام پرہیز گاروں پر فرض ہے آیت نمبر186 سورہ نمر4( نساء) آخر کس خصوصیت نے مجھ کو باپ کے ترکہ سے محروم کیا؟

"أَفَخَصَّكُمُ اللَّهُ بِآيَةٍأَخْرَجَ مِنْهَاأَبِي (ص) أَمْ‏ أَنْتُمْ‏ أَعْلَمُ‏ بِخُصُوصِ‏ الْقُرْآنِ‏ وَعُمُومِهِ مِنْ أَبِي وَابْنِ عَمِّي؟!"

آیا خاص طور پر خدا نے تمہارے اوپر کوئی آیت نازل کی

۶۵

ہے جس سے میرے باپ کو محروم رکھا ہے؟ یا تم میرے باپ( محمد (ص)) اور میرے ابن عم (علی(ع)) سے زیادہ قرآن کے عام اورخاص کو جانتے ہو؟ جب وہ لوگ ان دلائل اور حق باتوں کے مقابلے میں بالکل ساکت ہوگئے اور سوا مغالطہ بازی، فحش بکنے اور اہانت کرنے کے ان کے پاس کوئی جواب نہ رہا تو بالآخر انہیں طریقوں سے جناب معصومہ(ع) کو مجبور بنایا۔

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فریاد بلند کی اور فرمایا کہ آج تم نے میرا دل توڑدیا اور زبردستی میرا حق چھیں لیا ہے۔ لیکن میں قیامت کے روز اللہ کے محکمہ عدالت میں تمہارے خلاف دعوی دائر کروںگی اور خدائے قادر و توانا تم سے میرا حق وصول کرے گا۔

"فنعم‏ الحكم‏ اللّه‏،والزعيم محمد،والموعدالقيامة،وعندالساعةيَخْسَرُالْمُبْطِلُونَ‏،ولِكُلِّ نَبَإٍمُسْتَقَرٌّوَسَوْفَ تَعْلَمُونَ‏ مَنْ يَأْتِيهِ عَذابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذابٌ مُقِيمٌ"

یعنی سب سے بہتر حکم کرنے والا اللہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رئیس و آقا ہیں۔ ہماری تمہاری وعدہ گاہ قیامت ہے اس روز اہل باطل گھاٹے میں رہیں گے اور ندامت و پریشانی تم کو کوئی نفع نہ بخشے گی، ہر چیز کے لیے ایک وقت اور موقع ہے اور عنقریب تم کو معلوم ہوگا کہ ذلیل وخوار کرنے والا عذاب کس پر نازل ہوتا ہے اور کون ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا ہوتا ہے۔

حافظ : کون شخص اتنی جرائت کرسکتا تھا رسول اللہ(ص) کی امانت اور پارہ جگر فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کرے جو آپ فرماتے ہیں کہ مغالطہ بازی میں ان معظمہ کو فحش باتیں کہیں؟ میں اس بیان پر یقین نہیں کرسکتا۔ مغالطہ بازی ممکن ہے لیکن فحش باتیں کہنا ممکن نہیں۔ آپ دوبارہ ایسی بات نہ فرمائیے گا۔

خیر طلب: کھلی ہوئی بات ہے کہ کسی کو اتنی جرائت نہیں تھی سوا آپ کےخلیفہ ابوبکر کے جو ان مظلومہ بی بی کی مضبوط دلیلوں کا جواب نہ دے سکے تو اسی وقت منبر پر چڑھ گئے اور گستاخی کرنا شروع کی۔ اور صرف جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نہیں بلکہ ان کے شوہر اور ابن عم، محبوب خدا و رسول امیرالمومنین علی علیہ السلام کی بھی اہانت کی۔

حافظ : میرا خیال ہے کہ اس قسم کی تہمتیں شیعہ عوام اور متعصب لوگوں کی طرف سے پھیلائی گئی ہوں گی۔

خیر طلب : آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے یہ چیزیں شیعہ عوام کی طرف سے نہیں بلکہ اہل سنت والجماعت کے خواص اور بڑے بڑے علماء کی طرف سے نشر ہوئیں شیعہ جماعت میں ایسا تعصب بہت ہی شاذ بلکہ ناممکن ہے کہ جھوٹی باتیں پھیلائی جائیں، ہمارے عوام چاہے جتنے متعصب ہوں لیکن روایتیں نہیں گڑھتے۔ پس یہ بالکل سچی روایت ہے جس کو آپ کے اکابر علما نےبھی نقل کیا ہے۔ آپ اپنے یہاں کی معتبر اور مشہور کتابیں دیکھئے تو خود ہی تصدیق کیجئے کہ آپ کے انصاف پسند اکابر علماء بھی ان حقائق کے معترف ہیں چنانچہ ابن ابی معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص80 مطبوعہ مصر میں، ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری سے نقل کرتے ہوئے علی (ع)وفاطمہ علیہما السلام کے احتجاج کے بعد ابوبکر کا منبر پر جانا اور اس امانت رسول(ص) کی اہانتیں کرنا تفصیل سے درج کیا ہے

۶۶

ابوبکر سے علی(ع) کا احتجاج

اس کے علاوہ دوسروں نے بھی لکھا ہے کہ جب جناب فاطمہ سلام اللہعلیہا نےاپنا خطبہ تمام کیا تو علی علیہ السلام نے احتجاج شروع کیا، مسجد کے اندر مہاجرین و انصار اور مسلمانوں کے عام مجمع میں ابوبکر کی طرف رخ کر کے فرمایا کہ تم نے فاطمہ (ع) کو ان کے باپ کی میراث سے کیوں محروم کیا، در آنحالیکہ وارثت کے علاوہ وہ اپنے باپ کی زندگی ہی میں اس کی مالک اور متصرف تھیں؟ ابوبکر نے کہا فدک مسلمانوں کا مال غنیمت ہے۔ اگر فاطمہ(ع) مکمل شہادت پیش کریں کہ یہ ان کی ملکیت ہے تو میں ضرور ان کو دے دوں گا ورنہ محروم کردوں گا۔

حضرت نے فرمایا :

"أَتَحْكُمُ‏ فِينَابِخِلَافِ حُكْمِ اللَّهِ فِي الْمُسْلِمِينَ؟"( یعنی آیا تم مسلمانوں کے درمیان جو کچھ حکم دیتے ہو ہمارے بارے میں اس کے خلاف حکم لگاتے ہو؟

کیا رسول خدا(ص) نے نہیں فرمایا ہے کہ"الْبَيِّنَةُعَلَى‏ مَنِ‏ ادَّعَى‏ وَالْيَمِينُ عَلَى مَنِ ادُّعِيَ عَلَيْهِ." ( یعنی ثبوت اور گواہ مدعی کے ذمے ہے اور قسم مدعا علیہ کے ذمے ؟ تم نے قول رسول(ص) کو رد کر دیا اور دستور شرع کے برخلاف فاطمہ(ع) سے گواہ طلب کرتے ہو پیغمبر(ص) کے زمانے سے اب تک اس پر متصرف رہیں۔ کیا فاطمہ(ع) کو قول و فعل ( جو اصحاب کساء کی ایک فرد اور آیہ تطہیر میںشامل ہیں) حق نہیں ہے؟

"أخبرنا لو انّ شاهدين شهداعلى‏ فاطمةبفاحشةماكنت صانعة بها؟قال أقيم عليهاالحدّكسائرالنساء قال عليه السلام كنت اذاًعنداللّه من الكافرين لانّك رددت شهادةاللّه لهابالطّهارةإِنَّمايُرِيدُاللَّه لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَالْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً"

یعنی مجھے بتائو کہ اگر دو گواہ گواہی دے دیں کہ ( معاذ اللہ( فاطمہ(ع) سے کوئی بدکاری سرزد ہوئی ہے تو تم ان سے کیا برتائو کرو گے؟ ابوبکر نے کہا کہ دوسری عورتوں کی طرح ان پر بھی حد جاری کروں گا۔حضرت نے فرمایا کہ اگر تم ایسا کرو تو خدا کے نزدیک کافر قرار پائو گے کیونکہ تم نے طہارت فاطمہ(ع) کے بارے میں اللہ کی گواہی کو جھٹلا دیا جیسا کہ اس کا ارشاد ہے کہ سوا اس کے نہیں ہے کہ خدا یہ ارادہ رکھتا ہے کہ اے اہل بیت(ع) تم سے ہر گندگی کو دور رکھے اور تم کو اس طرح سے پاک و پاکیزہ جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

کیا یہ آیت ہمارے حق میں نازل نہیں ہوئی ہے؟ کہا کیوں نہیں، حضرت نے فرمایا کہ آیا فاطمہ(ع) جنکی طہارت پر خدا نے شہادت دی ہے دنیا کی ایک حقیر جائداد کے لیے جھوٹا دعوی کرسکتی ہیں؟ تم طاہرہ کی شہادت تو رد کرتے ہو"وقبلت شهادةاعرابيّ بائل على عقبه" اور اس اعرابی کی شہادت قبول کر لیتے ہو۔ جو اپنے پائوں کی ایڑی پر پیشاب کرتا ہے؟

حضرت یہ جملے ارشاد فرما کر جھنجھلائے ہوئے اپنے گھر تشریف لے گئے اس احتجاج سے لوگوں میں ایک عجیب ہنگامہ برپا

۶۷

ہوگیا ہر شخص یہی کہتا تھا کہ حق علی(ع) و فاطمہ(ع) کےساتھ ہے خدا کی قسم علی(ع) سچ کہتے ہیں۔ آخر رسول(ص) کی بیٹی سے یہ کیسا سلوک کیا جارہا ہے۔

بالائے منبر ابوبکر کی بدکلامی اور علی(ع) و فاطمہ(ع) کو گالی دینا

اسی موقع پر ابن ابی الحدید نقل کرتے ہیں کہ جب علی(ع) و فاطمہ(ع) کے احتجاج سے لوگ متاثر ہوئے اور شور کرنے لگے تو ان دونوں حضرات کے چلے جانے کے بعد ابوبکر منبر پر گئے اور کہا ایہا الناس تم نے یہکیا شور وغل مچا رکھا ہے اور ہر ایک کی بات پر کان دھرتے ہو؟ چونکہ میں ان کی شہادت رد کر دی ہے اس لیے وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔

"إنماهوثعالةشهيده‏ذنبه(1) مرب لكل فتنة هوالذي يقول كروهاجذعةبعدماهرمت يستعينون بالضعفةويستنصرون بالنساءكأمطحال أحب أهلهاإليهاالبغي"

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ وہ علی(ع) ایک لومڑی ہے جس کی گواہ اس کی دم ہے ہر طرح کے فتنے برپا کرتا ہے۔ بڑے بڑے فتنوں کا ہلکا کر کے بیان کرتا ہے اور لوگوں کو فتنہ و فساد پر آمادہ کرتا ہے کمزوروں سے کمک چاہتا ہے اور عورتوں سے مدد چاہتا ہے وہ ام طحال کے مانند ہے جس سے اس کے گھر والے زنا کرنے کے شائق تھے۔

آپ حضرات فحش اور اہانت کے لفظ سے تعجب کرتے ہیں تو کیا یہ دشنام اور اہانت کے الفاظ نہیں تھے؟ کیا لومڑی کی دم او زنا کار عورت ام طحال سے علی(ع) و فاطمہ(ع) کو نسبت دینا ہی وہ تعریف و احترام ، محبت و نصرت اور ہمدردی تھی جس کی پیغمبر(ص) ہدایت فرمائی تھی؟ حضرات اس حسن ظن اور تعصب میں کب تک غرق رہیئے گا ؟ بیچارے شیعوں سے کب تک بدگمانی کیجئے گا اور ان کو محض اس جرم میں کب تک رافضی و کافر کہتے رہیئے گا کہ وہ ان اشخاص کے ایسے اقوال و افعال پر نکتہ چینی کیوں کرتے ہیں جو خود آپ کی کتابوں میں درج ہیں۔

منصفانہ فیصلہ ضروری ہے

آخر آپ حق و اںصاف کی آنکھیں کیوں نہیں کھولتے تاکہ حقیقت نطر آئے؟ آیا رسول اللہ(ص) کے بوڑھے مصاحب کی یہ حرکت اور غیر مہذب گفتگو مناسب اور جائز تھی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ دوسری کتابوں میں ہے کہ کہا :إنماهوثعالةشهيده‏ ذنبها یعنی معاذ اللہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ایسی لومڑی ہیں جس کی گواہ اس کی دمہے (یعنی معاذ اللہ علی علیہ السلام)

۶۸

اگر کوئی بازاری اور حقیر آدمی کسی کو گالی دے تو اس میں اور اس بوڑھے انسان میں فرق ہے جو رات دن مسجد میں موجود رہتا ہے اور ذکر وعبادت میں دلچسپی دکھاتا ہو پھر بھی ایسے الفاظ منہ سے نکالے۔

معاویہ ، مروان اور خالد جیسے لوگوں کی زبان سے زشت و بیہودہ کلمات فحش گوئی ، دشنام طرازی اور رکیک اتہامات دل کو اتنی زیادہ تکلیف نہیں پہنچاتے جس طرح رسول اللہ(ص) کے مصاحب غار کے منہ سے۔

حضرات ہم اس زمانے میں موجود نہیں تھے صرف علی(ع) ابوبکر، عمر ، عثمان ، طلحہ، زبیر، معاویہ، مروان، خالد اور ابو ہریرہ وغیرہ کے نام سنتے ہیں لہذا ان میں سے کسی کے ساتھ ہماری دوستی یا دشمنی نہیں ہے۔ ہم تو صرف دو چیزیں دیکھتے ہیں ایک یہ کہ خدا و رسول(ص) ان میں سے کس کو دوست رکھتے تھے اورکس لیے سفارشاور وصیت فرمائی ہے؟ دوسرے ان کے اعمال و اقوال اور رفتار و گفتار کا جائزہ لیتے ہیں ، اس کے بعد انصاف کے ساتھ حق فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم آپ حضرات کی طرح فورا یقین نہیں کرلیتے اور خواہ مخواہ سر نہیں جھکاتے۔ ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ محض حسن ظن کی بنا پر آنکھیں بند کر کے ہرکس و ناکس کے برے عمل کو بھی نیکی پر محمول کریں، اس کی تعظیم و تکریم فرض سمجھیں اور اس کے ناجائز حرکات کی بے موقع صفائی پیش کریں۔

انسان جس وقت آںکھوں پر سفید عینک لگاتا ہے تو اس کو ہررنگ اپنی اصلی حالت پر نظر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اگر اس کو سفید رنگ مطلوب ہے تو سیاہ زرد اور سرخ رنگ بھی سفید نظر آئیں۔ لہذا اگر آپ حضرات بھی اپنی دوستی اور دشمنی سے الگ ہوکر انصاف کی سفید اور نورانی عینک لگائیں تو اچھا اور برے کو برا دیکھیں۔ اور تصدیق کریں گے کہ ابوبکر جیسے آدمی کے لیے ایسا قول و فعل انتہائی مذموم ہے ۔ جو شخص اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ سمجھے اور ایک مدت تک رسول اللہ(ص) کی صحبت میں بیٹھ چکا ہو وہ جاہ و اقتدار کی محبت میں اور شان حکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسے رکیک جملے اور انتہائی قبیح گالیاں زبان پر جاری کرنے کے لیے تیار ہوجائے، اور وہ بھی خدا و رسول(ص) کی دو محبوب ہستیوں کی شان میں؟

ابوبکر کی باتوں پر ابن ابی الحدید کا تعجب

اس برتائو پر صرف ہمیں کو تعجب نہیں ہے بلکہ آپ کے انصاف پسند علماء کو بھی حیرت ہوتی ہے، چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص80 میں لکھا ہے کہ خلیفہ کی اس گفتگو سے مجھ کو تعجب ہوا اور میں نے اپنے استاد ابو یحیی نقیب جعفر بن یحیی بن ابی زید البصری سے دریافت کیا کہ ان کلمات میں خلیفہ کا کنایہ اور تعریض کا رخ کس کی طرف تھا؟ انہوں نے کہا کہ کنایہ اور تعریض نہیں تھی بلکہ صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے میں نے کہا کہ اگر صراحت ہوتی تو میں سوال ہی نہ کرتا :

"فضحك وقال بعلي بن أبيطالب عقلت هذاالكلام‏ كله‏ لعلي‏ يقوله قال نعم إنه الملكي ابني"

یعنی وہ ہنس پڑے اورکہا کہ یہ باتیں علی علیہ السلام کو کہی گئیں میں نے کہا کیا یہ سارے الفاظ علی علیہ السلام کے لیے

۶۹

استعمال کئے گئے؟ انہوں نے کہا ہاں اے فرزند سلطنت اسی کو کہتے ہیں۔( یعنی جاہ طلب لوگ اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے ایسے عمل سے بھی دریغ نہیں کرتے)

صاحبان انصاف!عبرت حاصل کیجئے اور منصفانہ فیصلہ کیجئے کہ اگر کوئی شخص آپ کے ماں باپ کے لیے ایسی جسارت و اہانت کرے اور ان کو لومڑی، لومڑی کی دم اور زنا کار عورت سے مثال دے تو کیا آپ کا دل اس سے صاف ہوسکتا ہے؟ کیا یہی انصاف ہے کہ اگر ہم اس پر گرفت کریں تو آپ اعتراض کے لیے تیار ہوجائیں ؟ پھر بھی ہمارا ایمان مانع ہے کہ جتنا واقعہ ہوا ہے اور جس کی خود آپ کے اکابر علماء نے تصدیق کی ہے اس سے زیادہ نہ کہیں اور نہ لکھیں۔

اگر اس مجمع کے سامنے کوئی شخص کہے کہ حافظ صاحب لومڑی ہیں شیخ صاحب اس کی دم ہیں اور فاحشہ عورت کی طرح جلسے میں گفتگو کرتے ہیں تو آپ کو کس قدر ناگوار ہوگا؟

حضرات آنکھیں بند نہ کیجئے بلکہ دیدہ اںصاف سے مسجد رسول(ص) پر نظر ڈالئے کہ ایک بوڑھا شخص پیغمبر(ص) کا یار غار بعنوان خلافت منبر رسول(ص) کے اوپر مہاجرین و اںصار کے سامنے کہتا ہے کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام(معاذ اللہ) لومڑی ہیں، فاطمہ(ع) اس کی دم ہیں( یا دوسری روایتوں کی بنا پر اس کے برعکس اور یہ ( نعوذ باللہ) زن زانیہ و فاحشہ کے مانند لوگوں کے درمیان حرکتیں کرتے ہیں تو اس وقت ہمارے مولا و آقاامیرالمومنین اور ہماری جدہ مظلومہ زہرا صلوات اللہ علیہا پر اس مجمع کے سامنے کیا گذری؟ خدا جانتا ہے کہ اس وقت میرا بند بند کانپ رہا ہے، اور آپ دیکھ رہےہیں کہ لزرتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ میں آپ سے گفتگو کر رہا ہوں۔ اب اس بارے میں اس سے زیادہ کچھ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا ورنہ ہمارا درد دل بہت ہے۔ع

ایں زماں بگذارتا وقت دگر

آیا رسول اللہ(ص) کی مسند پر بیٹھنے والے اور مصاحب کے لیے سزاوار تھا کہ مطالبہ حق اور صحیح و معقول باتوں کے جواب میں گالیاں دے اور رکیک الفاظ سے حقیقی مومنین کی اور امت کے درمیان آں حضرت کی امانتوں کی توہین کرے۔ ظاہر ہے کہ فحش کہنا عاجزی کا حربہ ہے جس کے پاس صحیح جواب نہیں ہوتا ہے وہ اپنے حریف کو بدزبانی سے مغلوب کرتا ہے۔ پھر یہ سب حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ کیا گیا جن کے لیے آپ کے تمام علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا "علی مع الحق والحق مع علی حيث دار " ( یعنی علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ گردش کرتا ہے) دشنام دینے کے بعد آپ کی طرف فتنہ انگیزی نسبت بھی دی گئی اور آپ کو سارے فساد کا بانی بتایا گیا۔

علی(ع) کو ایذا دینا پیغمبر(ص) کو ایذا دینا ہے

کیا علی(ع) وفاطمہ علیہما السلام کے بارے میں پیغمبر(ص) کی ان سفارشوں کا یہی نتیجہ تھا جن کو آپ کے سارے علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے؟ یعنی آں حضرت(ص) نے ان دونوں حضرات کے لیے علیحدہ علیحدہ فرمایا کہ ان کو اذیت دینا مجھ کو

۷۰

اذیت دینا ہے۔ ان ارشادات کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا "من اذاهما فقد آذانی و من آذانی فقد اذی الله " ( یعنی جس شخص نے ان دونوں (علی و فاطمہ(ع)) کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھ کو آزار دیا اس نے خدا کو آزار دیا۔

نیز فرمایا:من آذی عليا فقد اذانی ( یعنی جس نے علی(ع) کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی۔)

علی(ع) کو دشنام دینا پیغمبر(ص) کو دشنام دینا ہے

اور ان سب سے بالاتر آپ کی معتبر کتابوں میں درج ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا "من سب عليا فقد سبنی و من سبنی فقد سب الله " یعنی جس نے علی(ع) کو دشنام دیا اس نے در اصل مجھ کو دشنام دیا اور جس نے مجھ کو دشنام دیا اس نے درحقیقت خدا کو دشنام دیا)

اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب10 کے شروع میں ابن عباس سے ایک مفصل حدیث نقل کی ے کہ انہوں نے شام والوں کو ایک جماعت کے سامنے جو علی(ع) کو سب و طعن کرتے تھے کہا کہ میں نے حدیث رسول خدا(ص) کو علی علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرماتے ہوئے سنا "من سبک فقد سبنی و من سبنی فقد سب الله و من سب الله ابنه الله علی مفخزيه فی النار " ( یعنی جو شخص تم کو گالیدے خدا اس کو منہ کےبل جہنم میں جھونک دے گا۔

اس حدیث کے بعد اور بھی مسند احادیث نقل کرتے ہیں جو سب کی سب ان لوگوں کے کفر پر دلالت کرتی ہیں جو علی (ع) کو دشنام دیں۔ چنانچہ دسویں باب کا عنوان ہیاس عبارت سے قائم کیا ہے کہ "الباب العاشر فی کفر من سبعليا "( یعنی دسواں باب اس شخص کے کفر میں جو علی(ع) کو دشنام دے)

نیز حاکم نے مستدرک جلد سوم ص121 میں آخری جملے کے علاوہ یہی حدیث نقل کی ہے پس ان حدیثوں کے مطابق علی علیہ السلام کو سب وشتم کرنے والے خدا و رسول(ص) کو سب و شتم کرنے والے ہیں اور خدا و رسول(ص) کو سب و شتم کرنے والے ہیں۔

جیسے فرزندان ابی سفیان دیگر بنی امیہ خوارج اور نواصب وغیرہ، ملعون اور جنہمی ہیں۔ بس اس قدر کافی ہے۔ قیامت چاہے دیر میں آئے لیکن آئے گی ضرور چونکہ ہماری جدہ مظلومہ(ع) نے سکوت اختیار کیا اور اس کی داد رسی روز قیامت محکمہ عدالت دالہیہپر اٹھا رکھی لہذا ہم بھی سکوت اختیار کر کے آپ کی معتمد علیہ حدیث کو رد کرنے والے دلائل کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

۷۱

علی(ع) باب علم وحکمت ہیں

حدیث لا نورث کی مردودیت پر دوسری دلیل یہ ہے کہ اس متفق علیہ فریقین (شیعہ وسنی) حدیث شریف کو دیکھتے ہوئے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا "انا مدينة العلم و علی بابها انا دار الحکمه و علی بابها" (یعنی میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کے در ہیں۔ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی(ع) اس کے در ہیں۔) علمی اور عقلی قواعد کے روسے لازمی ہے کہ رسول اللہ(ص) کا باب علم آں حضرت(ص) کے احادیث و ہادایات سے بالخصوص جن کا تعلق احکام سے ہو اور خاص الخاص طور پر جو وراثت کے بارے میں ہوں پوری آگاہی رکھتا ہو کیونکہ ان سے ساری امت کا فائدہ اور نقصان و ابستہ ہے۔ ورنہ پھر وہ باب علم نہیں ہوسکتا جس کے لیے رسول خدا(ص) فرمائیں "من اراد العلم فليات الباب " یعنی جو شخص علم حاصل کرنا چاہے وہ علی(ع) کے دروازہ پر آئے) اور نہ عقل اس کو باور کرسکتی ہے کہ پیغمبر(ص) نے بنا پر ان روایات کے جو آپ کی تمام معتبر کتابوں میں وارد ہیں علی علیہ السلام کو ساری امت سے بہتر فیصلہ کرنے والا بتایا ہوگا اور فرمایا ہوگا علی اقضاکم یعنی علی علم و قضاوت میں تم سب لوگوں سے افضل ہیں۔

کیا یہ ایک مضحکہ خیز بات نہیں ہے کہ رسول اللہ(ص) کسی کے لیے تصدیق فرمائیں کہ یہ علم قضاوت میں سب سے بالاتر ہے لیکن وہ وراثت و حقوق کے مسائل اچھی طرح نہ جانتا ہو۔ اور پھر آں حضرت(ص) احکام میراث اس کو بتائیں بھی نہیں؟ در آنحالیکہ قاضی کے لیے جملہ علوم میں کہ ایک حدیث اور وہ بھی میراث کے بارے میں جس کا خصوصیت سے رسول اللہ(ص) کے ذاتی اور گھریلو معاملات سے تعلق ہو آںحضرت کے وصی اور باب علم علی علیہ السلام نے تو نہ سنی ہو لیکن اوس بن حدثان یا ابوبکر ابن ابی قحافہ نے سن لی ہو؟

آیا آپ کی عقل قبول کرتی ہے کہ ایک معمولی جاہل آدمی بھی وصیت کرے، کسی قابل اطمیان انسان کی میراث کا معاملہ نہ بتائے بلکہ ایک غیر شخص سے کہہ جائے کہ میرے بعد ایسا ایسا ہوگا؟ نہ کہ رسول خدا(ص) کی ایسی جامع ومانع ہستی جو خاتم الانبیاء بھی ہوں اور جس کی غرض بعثت انسانوں کے نظام اجتماعی کی حفاظت اور دنیا و آخرت کی آسانیاں فراہم کرنا ہوں، اپنے لیے وصی و وراث اور جانشین معین فرمائے یعنی خدا علی (ع) کو آں حضرت کا وصی اور وارث مقرر کرے، اور پھر ایسی حدیث جو منصب و صایت پر فائز ہونے کے علاوہ آں حضرت کے علم و حکمت کا در بھی ہو؟

شیخ : ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی ہمارے نزدیک ثابت نہیں ہے کیوںکہ حدیث مدینہ کو اکابر علماء نے قبول نہیں کیا ہے اور موضوع وصایت بھی علماء جمہور کے نزدیک مردود اور غیر مسلم ہے اس لیے کہ بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں نیز ہمارے دوسرے بزرگ عالموں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی سند سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے احتضار کے وقت پیغمبر(ص) کا سر میرے

۷۲

سینے پر تھا یہاں تک کہ آپ نے انتقال فرمایا۔ یعنی میں دیکھ رہی تھی کہ کوئی وصیت نہیں کی یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی وصیت کی ہو اور ام المومنین کو پتہ نہ چلا ہو جب کہ آخر وقت تک رسول اللہ(ص) کا سر مبارک ان کے سینے پر تھا؟ اگر وصیت کی ہوتی تو ام المومنین رضی اللہ عنہا اس کو ضرور نقل کرتیں۔ پس وصیت کا قصہ سرے سے ہی ختم ہو جاتا ہے۔

خیر طلب: حدیث مدینہ کے بارے میں آپ نے زیادتی فرمائی کیونکہ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ اس پر فریقین کا اتفاق ہے اور یہ تقریبا تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے جیسا کہ آپ کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں مثلا امام ثعلبی، فیروز آبادی حاکم نیشاپوری محمد جزری، محمد بن جریر طبری، سیوطی، سخادی متقی ہندی، محمد بن یوسف گنجی شافعی، محمد بن طلحہ شافعی، قاضی فضل بن روز بہان منادی، ابن حجر مکی، خطیب خوارزمی، سلیمان قندوزی ، حنفی، ابن مغازل فقیہ شافعی، دیلمی، ابن طلحہ شافعی، میر سید علی ہمدانی، حافظ ابونعیم اصفہانی ، شیخ الاسلام حموینی، ابن ابی الحدید، معتزلی، طبرانی، سبط ابن جوزی اور امام ابوعبدالرحمن نسائی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ رہا موضوع وصایت اور رسول اللہ(ص) سے مروی نصوص تو وہ بکثرت، بے شمار اور متواترات مسلمہ میں سے ہیں۔ اور سوا کینہ پرور، ضدی متعصب اور جاہل انسان کے قطعا کوئی وصیت کا منکر نہیں ہوسکتا ۔

نواب : خلیفہ پیغمبر(ص) ہی آں حضرت(ص) کا وصی بھی ہے جو آںحضرت(ص) کے گھریلو کاموں کو بھی انجام دیتا ہے۔ جیسا کہ خلفاء رضی اللہ عنہم انجام دیتے تھے اور ازواج رسول (ص) کے وظیفہ ادا کرتے تھے۔ یہ کہاں سے معلوم ہواکہ علی کرم اللہ وجہہ کو خاص طور سے وصایت پر معین فرمایا تھا؟

خیر طلب : آپ نے صحیح فرمایا۔ جو بدیہی چیز ہے کہ رسول اللہ(ص) کا خلیفہ اور وصی ایک ہی شخص تھا چنانچہ دلائل و نصوص خلافت کو گذشتہ راتوں میں عرض کرچکا ہوں۔ اور آن حضرت کو وصایت نصوص جلیہ کےساتھ بالکل واضح و آشکار ہے کہ جس موقع پر دوسرے لوگ سازش اور سیاسی چالوں میں منہمک تھے وصی رسول(ص) آں حضرت کے غسل اور کفن و دفن میں مشغول تھا، اور بعد کو بھی وہ امانتیں ادا کرنے میں مصروف رہا جو آں حضرت کے پاس جمع تھیں۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس اور ہمارے آپ کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے۔

وصایت کے بارے میں روایتیں

اب میں مجبور ہوں کہ اس مطلب کے ثبوت میں چند مختصر حدیثوں کی طرف اشارہ کروں تاکہ شیخ صاحب پھر یہ نہ فرمائیں کہ ہمارے علماء کے نزدیک مردود ہے۔ امام ثعلبی مناقب اور اپنی تفسیر میں، ابن مغازلی فقیہ شافعی مناقب میں اور میر سید علی ہمدانی مودت القربیمودت ششم میں خلیفہ دوم عمر ابن خطاب سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" ان رسول الله لما عقد المواخاة بين اصحابه قال هذا علی اخی فی الدنيا والآخرة و خليفتی فی اهلی و وصيي فی امتی و وارث علمی و قاضی دينی ماله منی مالی منه نفعه نفعی و ضره ضری من‏أحبه‏فقدأحبني‏

۷۳

ومنأبغضهفقدأبغضني"

یعنی رسول اللہ (ص) نے جس روز اصحاب کے درمیان اخوت اور برادری قائم فرمائی تو فرمایا یہ علی(ع) دنیا و آخرت میں میرے بھائی، میرے اہل بیت میں میرے خلیفہ ، میری امت میں میرے وصی، میرے علم کے وارث اور میرے قرضکو ادا کرنے والے ہیں، جو ان کا ہے وہ میرا ہے،جو میرا ہے وہ ان کا ہے، ان کانفع میرا نفع اور ان کا ضرر میرا ضرر ہے، جو شخص ان کو دوست رکھے اس نے در اصل مجھ کو دوست رکھا اور جو ان سے دشمنی رکھے در حقیقت اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ کے باب15 کو اسی موضوع سے مخصوص کیا ے اور امام ثعلبی، حموینی، حافظ ابونعیم، احمد بن حنبل، ابن مغازلی، خوارزمی اور دیلمی سے بیس روایتیں وصایت علی علیہ السلام کے ثبوت میں نقل کی ہیں جن میں سے بعض کو آپ حضرات کے خیالات روشن کرنے کے لیے عرض کرتا ہوں۔

مسند امام احمد ابن حنبل سے نقل کرتے ہیں (سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص26، اور ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں بھی یہروایت نقل کی ہے) کہ انس بن مالک کہتے ہیں میں نے سلمان سے کہا کہ پیغمبر(ص) سے سوال کرو کہ ان کا وصی کون ہے؟

" فَقَال سَلْمَان يَارَسُولَاللَّهِمَنْ‏ وَصِيُّكَ‏،فقَالَ: يَاسَلْمَانُمَنْكَانَوَصِيُّمُوسَى،فَقَالَ: يُوشَعُبْنُنُونٍ. قَالَ: فَإِنَّوَصِيِّيوَوَارِثِييَقْضِيدَيْنِيوَيُنْجِزُمَوْعُودِيعَلِيُّبْنُأَبِيطَالِبٍ."

یعنی سلمان نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ(ص) آپ کا وصی کون ہے ؟ فرمایا اے سلمان موسی کاوصی کون تھا؟ عرض کیا یوشع بن نون ۔ فرمایا میرا وصی وارث جو میرے قرض کو ادا کرے گا اور میرے وعدے کو پورا کرے گا۔ علی ابن ابی طالب ہیں۔

خوارزم کے اخطب الخطباء موفق بن احمد سے اور وہبریدہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا :"لکل نبی وصی و وارث و ان عليا وصی و وارثی " ( یعنی ہر نبی کا ایک وصی اور وارث ہے اور بتحقیق میرے وصی اور وارث علی(ع) ہیں۔)

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب22 ص131 میں بھی سند کے ساتھ اسی خبر کی روایت کی ہے اور نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ ایسی بہتر حدیث ہے کہ اس کو محدث شام نے بھی اپنی تاریخ میں درج کیا ہے۔

شیخ الاسلام حموینی سے اور وہابوذر غفاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

"قال رسول الله صلی الله عليه وسلم انا خاتم النبيين و انت يا علی خاتم الوصيين الی يوم الدين"

یعنی رسول اللہ صلعم نے فرمایا میں خاتم الانبیاء ہوں اور تم اے علی(ع) خاتم الاوصیاء ہو روز قیامت تک۔

خطیب خوارزمی سے اور وہ ام المومنین ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"إِنَّاللَّهَعَزَّوَجَلَّاخْتَارَمِنْكُلِّنَبِيٍّوَصِيّاًوَعَلِيٌ‏ وَصِيِّي‏ فِي‏ عِتْرَتِي‏وَأَهْلِبَيْتِيوَأُمَّتِيمِنْبَعْدِي‏"

یعنی خدا نے ہر پیغمبرکے لے ایک وصی منتخب فرمایا اور میرے بعد میری عترت میرے اہل بیت اور میری امت میں میرے وصی علی(ع) ہیں۔

اور ابن مغازلی فقیہ شافعی سے اور وہ اصبغ ابن نباتہ سے ( جو امیرالمومنین(ع) کے اصحاب خاص میں سے تھے اور بخاری و مسلم نے بھی ان سے روایت کی ہے) نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہمارے مولا امیرالمومنین(ع) نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا :

"ايها الناس

۷۴

أناإمام‏ البرية،ووصي‏ خيرالخليقة،وأبوالعترةالطاهرة،أناأخورسولاللّهصلّىاللّهعليهوآلهووصيهووليهوصفيه،وحبيبه،أناأميرالمؤمنينوقائدالغرالمحجلينوسيدالوصيين،حربيحرباللّهوسلمىسلماللّهوطاعتىطاعةاللّهوولايتىولايةاللّهوشيعتىأولياءاللّهوأنصارىأنصاراللّه،"

یعنی لوگو میں امام خلائق بہترین مخلوقات کا وصی اورہدایت کرنے والی پاک عترت کا پدر ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھائی، ان کا وصی، ان کا ولی، ان کا خالص دوست اور ان کا حبیب ہوں، میں امیر المومنین، نورانی چہروں ہاتھوں اور پائوں والوں کا پیشوا اور اوصیاء کا سید و سردار ہوں مجھ سے جنگ کرنا خدا سے جنگ کرنا ہے مجھ سے صلح و آشتی رکھنا خدا سے صلح و آشتی رکھنا ہے، میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے، میری دوستی خدا کی دوستی ہے،میرے پیرو خدا کے دوست ہیں۔ اور میری نصرت کرنے والے خدا کی نصرت کرنے والے ہیں۔

نیز ابن مغازلی شافعی مناقب میں عبداللہ ابن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"انْتَهَتِ‏ الدَّعْوَةُإِلَيَّوَإِلَىعَلِيٍّلَمْيَسْجُدْأَحَدُنَاقَطُّلِصَنَمٍفَاتَّخَذَنِينَبِيّاًوَاتَّخَذَعَلِيّاًوَصِيّاً."

یعنی دعوت رسالت مجھ پر اور علی(ع) پر ختم ہوئی، ہم دونوں میں سے کسی نے قطعا بت کو سجدہ نہیں کیا، پس مجھ کو نبی(ص) اورعلی(ع) کو وصی بنایا۔

میر سید علی ہمدانی شافعی مودۃ القربی مودت چہارم میں عتبہ بن عامر جہنی سے نقل کرتے ہیں کہ کہا :

"بايعنارسول‏ الله‏علىقول ان لا الهالله وحده لا شريک لهوأن محمدا نبيهوعلياوصيهفأيالثلاثةتركناكفرنا"

یعنی ہم نے اس قول پر رسول اللہ(ص) کی بیعت کی کہ سوا اللہ کے کوئی خدا نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یقینا محمد(ص) اس کے نبی اور علی(ع) ان کے وصی ہیں۔ پس ہم ان تینوں باتوں میں سے جس کو بھی چھوڑیں گے کافر ہوجائیں گے۔

نیز اسی کتاب مودۃ القربی میں ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"إِنَّاللَّهَجَعَلَلِكُلِّنَبِيٍّوَصِيّاً- شَيْثوَصِيُّآدَمَ،يٌوشَع وَصِی مُوسَی وَشَمْعُونوَصِيُّعِيسَى،وَعَلِيّاوَصِيِّي،وَهُوَخَيْرُالْأَوْصِيَاءِفِيالبَدَاء،وَأَنَاالدَّاعِي‏،وَهُوَالْمُضِيئ."

یعنی در حقیقت خدائے تعالی نے ہر پیغمبرکے لیے ایک وصی قرار دیا شیث کو وصی آدم، یوشع کو وصی موسی، شمعون کو وصی عیسی، اور علی(ع) کو میرا وصی بنایا اور میرا وصی سارے او صیاء سے بہتر ہے میں حق کی طرف دعوت دینے والا ہوں اور علی(ع) اس کو روشن کرنے والے ہیں۔

صاحب ینابیع المودۃ مناقب موفق بن احمد خوارزمی سے اور وہ ابو ایوب اںصاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا جب رسول اللہ(ص) بیمار تھے تو فاطمہ سلام اللہ علیہا آئیں اور رونے لگیں، آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"يافاطمةإنّ‏ لكرامةاللّه‏إياكزوّجكمنهوأقدمهمسلماوأكثرهمعلما،وأعظمهمحلما،إنّاللّهعزّوجلّأطلعإلىأهلالأرضاطلاعةفاختارنيمنهمفبعثنينبيّامرسلا،ثمّأطلعاطلاعةفاختارمنهمبعلكفأوحىإليأنازوجهإياكواتخذهوصيّا."

یعنی فاطمہ (ع) تم پر اللہکی خاص کرامت یہ ہے کہ تمہارا شوہر ایسے شخص کو قرار دیا جس

۷۵

کا اسلام سب سے سابق، جس کا علم سب سے زیادہ اور جس کی بردباری سب سے بڑھی ہوئی ہے۔

در حقیقت خدائے تعالی نے اہل زمین کی طرف مخصوص توجہ فرمائی پس ان میں سے مجھ کو منتخب کر کے نبوت و رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ پھر ایک خاص توجہ فرمائی اور ان میں سے تمہارے شوہر کو منتخب کیا، پس میری طرف وحی بھیجی کہ تمہارے ساتھ ان کا عقد کردوں اور ان کو اپنی وصی قرار دوں۔

ابن مغازلی فقیہ شافعی نے مناقب میں اس حدیث کو درج کرنے کے بعد یہ جملے مزید نقل کئے ہیں کہ فرمایا:

" يَافَاطِمَةُإِنَّاأَهْلَ‏الْبَيْتِ‏أُعْطِينَاسِتَّخِصَالٍلَمْيُعْطَهَاأَحَدٌمِنَالْأَوَّلِينَوَلَمْيُدْرِكْهَاأَحَدٌمِنَالْآخِرِينَمنا نَبِيُّنَاافضل الْأَنْبِيَاءِوَهُوَأَبُوكِوَوَصِيُّنَاخَيْرُالْأَوْصِيَاءِوَهُوَبَعْلُكِوَشَهِيدُنَاخَيْرُالشُّهَدَاءِوَهُوَحَمْزَةُعَمُّأَبِيكِوَمِنَّاالَذيلَهُجَنَاحَانِيَطِيرُبِهِمَافِيالْجَنَّةِحَيْثُيَشَاءُوَهُوَجَعْفَرٌابْنُعَمِّكِوَمِنَّاسِبْطَان و سَيدَا شَبَابِ اَهلِ الجَنَةِابْنَاكِوَالَّذِينَفْسِيبِيَدِهِان مَهْدِيّهَذِهِالْأُمَّةِيُصَلِّيعِيسَى بن مريمخَلْفَهُمِن وُلدِکِ"

یعنی اے فاطمہ(ع) ہم اہل بیت(ع) کو سات خصلتیں ایسی عطا کی گئیں جو نہ اولین میں سے کسی کو ملیں نہ آخرین میں سے کوئی ان کو پاسکے گا۔ سب سے افضل پیغمبر(ص) ہم میں سے ہے اور وہ تمہارا باپ ہے، ہمارا وصی تمام اوصیاء سے بہتر ہے اور تمہارا شوہر ہے، ہمارا شہید سب شہداء سے اچھاہے اور وہ تمہارے چچا حمزہ ہیں، ہم میں سے وہ شخص ہے جس کے دو شہپر ہیں جن سے وہ جب چاہتا ہے جنت میں پرواز کرتا ہے اور وہ تمہارے چچا کے بیٹے جعفر ہیں ہم میں سے دو سبط اور جوانان اہل جنت کے دو سردار ہیں اور وہ دونوں تمہارے فرزند ہیں اور قسم اس خدا کی جس کے قبضے میں میری جان ہے یقینا اس امت کے مہدی جن کے پیچھے عیسی ابن مریم نماز پڑھیں گے تمہاری اولاد میں سے ہیں۔

ابراہیم ابن محمد حموینی نے فرائد میں نقل حدیث کے بعد اتنے جملے اور زیادہ روایت کئے ہیں کہ نام مہدی علیہ السلام کے بعد فرمایا :

"ويملأالأرضعدلا و قسطاكماملئتجوراو ظلما يافاطمةلاتحزنيولاتبكيفإنّاللّهعزّوجلّأرحمبكوأرأفعليكمنّي وذالکلمكانكوموقعكفيقلبيقدزوّجكاللّهزوجاوهوأعظمهمحسبا، و اکرمهم نسباوأرحمهمبالرعية،وأعدلهم‏ بالسويّة،وابصرهمبالقضيّة"

یعنی یہ زمین کو عدل و داد سے بھر دیں گے جب وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ اے فاطمہ(ع) غمگین نہ ہو اور گریہ نہ کرو کیونکہ خدا تعالی تم پر مجھ سے زیادہ رحیم و مہربان ہے اور یہ میرے دل میں تمہاری قدر و منزلت کی وجہ سے ہے۔ در حقیقت تم کو ایسا شوہر عطا کیا ہے جو حسب میں سب سے بزرگ نسب میں سب سے بلند رعایا پر سب سے زیادہ مہربان، مساوات کے ساتھ سب سے زیادہ عادل اور فیصلے میں سب سے زیادہ باریک بیں ہے۔

میرا خیال ہے کہ نواب صاحب کی تسکین کی خاطر اور شیخ صاحب کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے اسی قدر احادیث نبوی(ص) کا نقل کر دینا کافی ہوگا۔ ورنہ بارگاہ رسالت سے منقولہ وہ احادیث جن میں سے ہر ایک میں کسی نہ کسی مناسبت سے

۷۶

حضرت علی(ع) کی وصایت کا ذکر کیا گیا ہے بہت کثرت سے اور بے شمار ہیں۔

وقتِ وفات رسول(ص) کا سر مبارک سینہ امیرالمومنین(ع) کے اوپر تھا

اور شیخ صاحب کا یہ فرمانا بھی بالکل مردود ہے کہ وقت وفات رسول اللہ(ص) کا سر مبارک ام المومنین عائشہ کے سینے پر تھا۔ اس لیے کہ ان اخبار کثیرہ کے خلاف ہے جو علاوہ اس کے کہ عترت اور اہل بیت طہارت(ع) کے نزدیک ثابت و محقق ہیں اور تمام علماء شیعہ نے تواتر کے ساتھ ان کو نقل کیا ہے، خود آپ کے اکابر علماء کی معتبر کتابوں میں بھی وارد ہے کہ وقت وفات آں حضرت(ص) کا سر مبارک حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے سینہ پر تھا اور اسی وقت سینہ علی(ع) میں علوم کے دروازے کشادہ فرمائے۔

شیخ : ہمارے علماء نے کونسی کتاب میں ایسا مضمون ذکر کیا ہے؟

خیر طلب: بہتر ہوگا کہ آپ کنز العمال جلد چہارم ص55 اور جلد ششم ص392 ، ص400 طبقات محمد بن سعد کاتب جز دوم ص51، مستدرک حاکم نیشاپوری جلد سومص139، تلخیص ذہبی، سنن ابن ابی شیبہ، کبیر طبرانی، مسند امام احمد حنبل جلد سوم، حلیتہ الاولیاء، حافظ ابونعیم اور دوسری معتبر کتابیں ملاحظہ فرمائیے جن میںالفاظ و مطالب کے تھوڑے تھوڑے اختلاف کے ساتھ سب کے سب ام المومنین ام سلمہ اور جابر ابن عبداللہ انصاری وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ اپنی وفات کے وقت رسول اللہ(ص) نے علی علیہ السلام کو بلایا اور آن حضرت(ص) کا سر مبارک ان کے سینے پر رہا یہاں تک کہ روح نے جس اقدس سے مفارقت کی۔

اور ان ساری روایتوں سے زیادہ اہم خود امیرالمومنین علیہ السلام کا بیان ہے جو نہج البلاغہ میں مذکور ہے۔ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص561 میں روایت کی ہے کہ حضرت نے اپنی تقریر میں صاف صاف فرمایا:

"وَلَقَدْقُبِضَ‏ رَسُولُ‏ اللَّهِ‏ صوَإِنَّرَأْسَهُعَلَىصَدْرِيوَلَقَدْسَالَتْنَفْسُهُفِيكَفِّيفَأَمْرَرْتُهَاعَلَىوَجْهِي"

یعنی در حقیقت رسول اللہ(ص) اس حالت میں قبض ہوئی کہ ان کا سر قطعا میرے سینے پر تھا اور ان کی رحالت میرے ہاتھوں پر ہوئی پس میں نے اپنے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر لیے۔

لیکن ابن ابی الحدید جلد دوم ص562 میں حضرت کے اس بیان کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ جب آں حضرت(ص) کا سر آپ کے سینے پر تھا تو چند قطرے خون کے جاری ہوئے جو علی علیہ السلام نے اپنے چہرے پر مل لئے۔

یہ سارے مضبوط دلائل ثابت کرتے ہیں کہ عائشہ والی روایت مردود ہے اور ناقابل قبول ہے اس لیے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے عائشہ کو پہلے ہی سے سخت عداوت تھی۔ چنانچہ آئندہ انشاء اللہ کسی شب میں اگر کوئی مناسب موقع آگیا تو اس کو بھی عرض کروں گا۔

۷۷

امر وصایت کی تحقیق

انہیں احادیث سے نواب صاحب کی اس بات کا ایک دوسرا مکمل جواب بھی نکلتا ہے کہ خلیفہ کی موجودگی میں وصی کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ اگر ایک عقلمند انسان اپنی عادت سے ہٹ کے ذرا انصاف کے ساتھ حدیثوں ہی میں غور کرےبالخصوص ان احادیث میں جن کے اندر ارشاد ہے کہ جس خدا نے اوصیاء اور انبیاء کرام کو معین فرمایا اسی نے علی کو میری وصایت پر مقرر فرمایا ہے تو اس کی سمجھ میں آجائے گا کہ یہاں ذاتی اور معمولی خاندانی وصیت مراد نہیں ہے جیسی کہ ہر فرد بشر اپنے بعد کے لے کرتا ہے بلکہ وصایت بمعنائے خلافت مراد ہے جس کا حامل امت کے جملہ اجتماعی و انفرادی معاملات میں تصرف کاحق رکھتا ہے اور یہی وصایت منصب نبوت کی قائم مقام ہے۔

حضرت کے مرتبہ وصایت کی آپ کے تمام بزرگ علماء نے تصدیق کی ہے اور سوا ان تھوڑے سے متعصب و معاند افراد کے جنہوں نے آپ کے جملہ فضائل سے انکار کردیا ہے اور کسی کو اس حقیقت سے انکار نہیں ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص26 مطبوعہ مصر میں کہتےہیں:

"فلاريب‏ عندناأنّعليّاعليهالسّلامكانوصيّرسولاللّهصلّىاللّهعليهوآلهوإنخالففيذلكمنهومنسوبإلىالعناد"

یعنی ہمارے نزدیک اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے وصی تھے، اگر چہ وہ شخص اس کی مخالفت کرتا ہے جو ہمارے نزدیک بغض و عناد رکھنے والا ہے۔

وصیت سے متعلق بعض صحابہ کے اشعار

پھر اصحاب رسول(ص) کےبہت سے اشعار نقل کئے ہیں جو سب کے سب وصایت امیرالمومنین کے سلسلے میں ہیں، منجملہ ان کے عبداللہ ابن عباس ( حبر امت) کے دو شعر ہیں۔ پہلے شعر میں کہتے ہیں۔

وَصِيُ‏ رَسُولِ‏ اللَّهِ‏ مِنْدُونِأَهْلِهِ‏وَفَارِسُهُإِنْقِيلَ: هَلْمِنْمُنَازِلِ

یعنی آپ رسول اللہ(ص) کے اہل بیت میں ہونے کے علاوہ ان کے وصی بھی ہیں۔ اور جس وقت مبارز طلب کیا جائے تو میدان جہاد کے شہسوار ہیں۔

خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتیں کے لیے نقل کیا ہے کہ وہ اپنے اشعار میں کہتے ہیں۔

وصيّ‏ رسول‏ اللّه‏مندونأهله‏وأنتعلىماكانمنذاكشاهده‏

یعنی آپ رسول اللہ(ص) کے اہل بیت میں ہونے کے علاوہ ان کے وصی ہیں۔ اور جو کچھ آں حضرت(ص) سے صادر ہوا ہے اس پر

۷۸

آپ ان کے گواہ ہیں۔

نیز ابوالہیثم بن تیہان صحابی کے اشعار میں سے یہ بھی لکھتے ہیں۔

إن‏ الوصي‏ إمامناوولينابرحالخفاءوباحتالأسرار.

یعنی یقینا وصی رسول (ص) ہی ہمارے امام اور ہمارے مولا ہیں، پردہ ہٹ گیا اور خفیہ باتوں کا اعلان ہوگیا۔

یعنی یقینا وصی رسول(ص) ہی ہمارے امام اور ہمارے مولا ہیں، پردہ ہٹ گیا اور خفیہ باتوں کا اعلان ہوگیا۔

اثبات مقصد کے لیے میں اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہوں، اگر آپ اس بارے میں بقیہ اشعار و اقوال دیکھنا چاہتے ہوں تو اسی کتاب کی طرف رجوع کیجئے تاکہ اس سے زیادہ حقیقت ظاہر ہو، جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر طوالت کا خوف نہ ہوتا تو میں ایسے اشعار سے بہترے اوراق بھر دیتا جن میں وصیت کا تذکرہ ہے۔

پس معلوم ہوا کہ وصایت او نبوت دنوں لازم و ملزوم ہیں یہ مقام نبوت کے بعد ایک منزل ہے اور یہی خلافت و ریاست عامہ الیہہ کا منصب ہے۔

شیخ : اگر یہ روایتیں صحیح ہیں تو کتب اخبار و احادیث میں ہم کو علی کرم اللہ وجہہ کے نام رسول خدا(ص) کا کوئی ایسا وصیت نامہ کیوں نہیںملتا جیسے مرنے کے وقت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے وصیت نامے ہیں۔

خیر طلب : حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے وصی ہونے کا ذکر اور منصب ولایت کے بارے میں حضرت خاتم الانبیاء(ص) کے جو ہدایات صادر ہوئے ہیں وہ اہل بیت طاہرین(ع) کے سلسلے سے اکابر علماء شیعہ کی معتبر کتابوں میں تواتر کے ساتھ مندرج اور مروی ہیں، لیکن چونکہ شب اول معاہدہ ہوچکا ہے کہ ہم لوگ یک طرفہ روایتوں سے استدلال نہیں کریں گےلہذا آپ کی معتبر کتابوں میں جو روایات منقول ہیں مجبورا ان میں سے بعض کی طرف جو فی الحال میرے پیش نظر ہیں اشارہ کرتا ہوں۔

فرمان وصیت کی طرف اشارہ

اگر آپ حضرات رسول خدا(ص) کی وصیت اور ان کی ہدایات کے متعلق جو حضرت امیرالمومنین کو دیئے گئے ہیں جملہ روایتوں کا پتہ لگانا چاہتے ہیں تو طبقات ابن جلد دوم ص61، ص63 کنزالعمال علی متقی جلد چہارم ص54 و جلد ششم ص155، ص393، ص403 مسند امام احمد ابن حنبل جلد چہارم ص164 اور مستدرک حاکم جلد سوم ص59، ص111 کی طرف رجوع کیجئے۔ ان کے علاوہ سنن، دلائل بیہقی استعیاب ابن عبدالبر، کبیر طبرانی اور تاریخ ابن مردویہ وغیرہ میں بھی آپ کے اکابر علماء نے مختلف عبارتوں کے ساتھ متفاوت زمانوں میں آں حضرت(ص) کی ہدایتیں نقل کی ہیں۔

جوعبارتیںمکرر ذکر کی گئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ فرمایا :

" يا علی أنتأخيووزيريوخليفتيمنبعديفيأهلي،تقضيدينيوتبرئ‏ ذمتي‏."

یعنی اے علی(ع) تم میرے بھائی اور میرے وزیر ہو تم میرے قرض کو ادا کروگے۔ میرے وعدے کو پورا کروگے

۷۹

اور مجھ کو بری الذمہ کروگے۔

"يَاعَلِيُّأَنْتَتُغَسِّلُنیوَتُؤَدِّيدَيْنِيوَتُوَارِينِي‏ فِيحُفْرَتِي"

یعنی تمہیں مجھ کو غسل دوگے، میرا قرضادا کروگے اور مجھ کو قبر میں پوشیدہ کروگے۔

علاوہ ان اخبار صریحہ کے اس طرح کے فرمان آںحضرت(ص) کی طرف سے بکثرت صادر ہوئے ہیں، وصیت پر عمل کرنے کے آثار بھی ثبوت دے رہے ہیں کہ امر وصیت کے ماتحت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے آں حضرت(ص) کو غسل دیا ، کفن پہنایا، آپ کے حجرے میں دفن کیا اور آپ کا پانچ لاکھ درہم قرض ادا کیا، جیسا کہ عبد الرزاق نے اپنی جامع میں نقل کیا ہے۔

شیخ : قرآن کے قاعدے اور حکم کے روسے جیسا کہ ارشاد ہے:

"كُتِبَ‏ عَلَيْكُمْ‏ إِذاحَضَرَأَحَدَكُمُالْمَوْتُإِنْتَرَكَخَيْراً- الْوَصِيَّةُلِلْوالِدَيْنِوَالْأَقْرَبِينَبِالْمَعْرُوفِحَقًّاعَلَىالْمُتَّقِينَ‏"

یعنی تمہارے اوپر فرض کیا گیا کہ جب تم سے کسی کی موت آئے تو اگر دنیاوی مال و متاع چھوڑ رہا ہے تو اپنے ماں باپ اور اقربا کے لیے اس میں سے مناسب حصے کی وصیت کرے یہ پرہیز گاروں کے لیے ضروری ہے۔ آیت ںمبر176 سورہ نمبر2( بقرہ)۔

لازم تھا کہ وفات کے وقت وصیت کریں اور اپنا وصی معین کریں۔ پس جب رسول خدا(ص) نے آثار موت مشاہدہ کئے تو اس موقع پر کیوں وصیت نہیں کی جس طرح سے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے وصیت کی ہے؟

خیر طلب : اول "إِذاحَضَرَأَحَدَكُمُالْمَوْتُ" کا معائنہ یعنی زندگی کے آخری لمحات مراد نہیں ہیں اس لیے کہ اس حالت میں مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنے ہوش میں رہے اور پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ اپنے فرائض پر عمل کرسکے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ موت کے اسباب و آثار و علامتیں مثلا بڑھاپا، ضعف جسمانی اورمرض وغیرہ ظاہر ہوجائے۔

دوسرے آپ کے اس بیان سے میرا درد دلتازہ ہوگیا اور ایک بڑی مصیبت یاد آگئی جو ہرگز بھولنے کے قابل نہیں ہے۔ وہ بڑی مصیبت یہ ہے کہ میرے جد بزرگوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے باجودیکہ آیات قرآنی کی روشنی میں وصیت کے لیے اس قدر سخت تاکیدات فرمائے اور یہاں تک کہ فرمایا کہ :"مَنْ‏ مَاتَ‏ بِغَيْرِوَصِيَّةٍمَاتَمِيتَةًجَاهِلِيَّةً." ( یعنی جو شخص بغیر وصیت کے مرجائے وہ اہل جاہلیت کی موت مرا۔) تاکہ امت کی کوئی فرد بغیر وصیت کے نہ مرے، مبادا اس کے بعد پس ماندگان میں کوئی نزاع پیدا ہوجائے لیکن جب خود آں حضرت(ص) کا وقت آیا تو حالانکہ تیئس سال کی مدت میں ایک مرتب دستور العمل کے ماتحت اپنے واحد عظیم المرتبت وصی کے لیے جس کو آں حضرت(ص) کے لیے خدا نے معین فرمایا تھا برابر اپنی وصیتوں کا خصوصی اعلان فرمارہے تھے آپ نے مرض الموت میں بھی چاہا کہ جو کچھ اس عرصہ میں کہہ چکے ہیں اس کی تکمیل فرما دیں تاکہ اس کے ذریعہ امت کے اندر ضلالت و گمراہی جنگ و نزاع اور گروہ بندی کی روک تھام ہوجائے لیکن افسوس کہ سیاسی بازیگروں نے سخت مخالفت کر کے آں حضرت(ص) کو اس شرعی اورع خدائی فریضے کہ عملی جامہ پہنانے کی مہلت نہیں دی، جس سے آج آپ کو بھی یہ فرمانے کا موقع ہاتھ آیا کہ آں حضرت(ص) نے مرض الموت میں کیوں وصیت نہیں کیا؟

۸۰