پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور20%

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 394

جلد ۱ جلد ۲
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 394 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316760 / ڈاؤنلوڈ: 7969
سائز سائز سائز
پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور

پشاور میں ایک یاد گار مناظرہ خورشید خاور --ترجمہ-- شبہائے پشاور جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی (PDF) ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

اس کتاب کی پہلی جلد کی PDF کےلئے اس لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

حکم رسول(ص) کی اطاعت واجب ہے

شیخ : میں سوچتا ہوں کہ آپ کا یہ بیان حقیقت نہ رکھتا ہوگا اس لیے کہ عقل اس کو نہیں مانتی کہ کوئی شخص رسول خدا(ص) کو روکنے کی طاعت رکھتا ہو جب کہ قرآن کریم صاف صاف کہہ رہا ہے"وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوه ومانهاكم عنه فانتهوا" ( یعنی رسول خدا(ص) تم کو جس چیز کی ہدایت کریں اس کو قبول کرو اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہو) نیز اور متعدد آیتوں میں آںحضرت(ص) کے احکام کی اطاعت لازمی قرار دی گئی ہے جیسے"أَطِيعُوااللَّهَ‏ وَأَطِيعُواالرَّسُولَ" ( یعنی اللہ اور رسول(ص) کی اطاعت کرو) بدیہی چیز ہے کہ رسول اللہ(ص) کی اطاعت سے انکار کرنا کفر ہے لہذا صحابہ اور آںحضرت(ص) کے ماننے والے ایسا عمل نہیں کرسکتے تھے کہ آپ کو وصیت سے منع کریں۔ ممکن ہے کہ یہ گڑھی ہوئی روایت ہو جس کو امت کی بے اعتنائی ثابت کرنے کے لیے ملحدین کی طرف سے مشہور کردیا گیا ہو۔

پیغمبر(ص) کو وصیت سے روکنا

خیر طلب: میں التماس کرتا ہوں کہ انجان بننے کی کوشش نہ کیجئے! یہ گڑھی ہوئی روایتوں میں سے نہیں ہے بلکہ مسلم الثبوت اخبار صحیح میں سے ہے جس کی صحت پر جملہ اسلامی فرقوں کو اتفاق ہے یہاں تک کہ شیخین بخاری و مسلم نے بھی نقل روایت میں اس قدر سخت احتیاط کے باوجود کہ کوئی ایسی روایت درج نہ ہونے پائے جس سے مخالفین کو گرفت اور استدلال کا موقع ملنے اپنی صحیحین میں اس دردناک واقعے کو نقل کیا ہےکہ رسول اللہ(ص) نے موت کے وقت فرمایا کہ دوات اور کاغذ لائو تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔ حاضرین مجلس میں سے کچھ لوگ ایک (سیاسی ) آدمی کے بہکانے میں آکر مانع ہوئے اور اس قدر ہنگامہ برپا کیا کہ آں حضرت بہت دل شکستہ ہوئے اور ناراض ہو کر ان کو اپنے پاس سے نکال دیا۔

شیخ : میں ہرگز اس بات کا یقین نہیں کرسکتا۔ بھلاکون شخص ایسی جرات کرسکتا تھا کہ رسول خدا(ص) کا مد مقابل بنے؟ اگرا یک معمولی انسان بھی وصیت کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کو منع نہیں کرسکتا نہ کہ خدا کے رسول(ص) کو جس کی اطاعت واجب اور جس سے مخالفت و سرکشی باعث کفر ہے۔

چونکہ بزرگحوں کی وصیت ذریعہ ہدایت ہوتی ہے لہذا کوئی اس کی ممانعت نہیں کرتا، چنانچہ خلیفہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے وصیت کی اور کسی نے روک ٹوک نہیں کی۔

میں پھر عرض کرتا ہوں کہ ایسی روایت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔

۸۱

خیر طلب: آپ حق رکھتے ہیںکہ یقین نہ کریں۔ اس پر آپ ہی نہیں ہرمسلمان تعجب کرتا ہے بلکہ اس سے بالاتر میں کہتا ہوں کہ ہر قوم وملت کا سننے والا اس قضیہ سے حیرت میں ہے کہ اگر ایک واجب الاطاعت پیغمبر(ص) آخری وقت میں ایسی وصیت کرنا چاہے جس کا مقصد امت کو گمراہی سے بچانا اور راہ سعادت پر لگانا ہو تو کیونکر اس کو منع کریں گے لیکن کیا کیا جائے کہ ایسی حرکت کی گئی ہے اور اس نے مسلمانوںکے غم و مصیبت کو بڑھا دیا ہے۔

پیغمبر(ص) کو وصیت سے باز رکھنے پر ابن عباس(رض) کا گریہ

یہ صدمہ صرف ہمارے ہی اور آپ کے لیے نہیں ہے بلکہ اصحاب رسول(ص) بھی اس غم انگیز حادثے پر گریہ کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری و مسلم اور آپکے دوسرے اکابر علماء نے روایت کی ہے کہ عبداللہ ابن عباس ( حبر امت) اکثر روتے تھے اور کہتے تھے" يوم الخميس ما يو الخميس" (۱) اس کے بعد اس قدر گریہ کرتے تھے کہ زمین آںسوئوں سےبھیگ جاتی تھی۔

جب لوگ پوچھتے تھے کہ پنچ شنبے کے روز کیا واقعہ ہوا ہے جس پر آپ اس قدر روتے ہیں؟ تو کہتے تھے کہ جب رسول اللہ(ص) پر مرض الموت طاری ہوا تو آپنے حکم دیا کہ دوات اور کاغذ لے آئو تاکہ تمہارے لیے ایسا نوشتہ لکھ دوں جس سے تم لوگ میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو۔ بعض حاضرین بزم مانع ہوئے اور مزید بر آں یہ کہا کہ محمد(ص) ہذہانبکتے ہیں( معاذ اللہ) وہ جمعرات کا دن تھا جو فراموش نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ قطع نظر اس سے کہ

آں حضرت(ص) کو وصیت نہیں کرنے دی زبان سے بھی تکلیف پہنچائی۔

شیخ : رسول خدا(ص) کو وصیت کرنے سے کس نے منع کیا؟

خیر طلب: یہ خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب تھے جنہوں نے آں حضرت(ص)کو وصیت سے روکا۔

شیخ : میں بہت ممنون ہوں کہ آپ نے جلد ہی میری الجھن رفع کردی۔ چونکہ ان بیانات سے میں بہت پریشان تھا اور یہ کہنا چاہتا تھا کہ اس قسم کی روایتیں شیعہ عوام کی گڑھی ہوئی ہیں لیکن آپ کے لحاظ سے خاموش تھا، اب دل کی بات ظاہر کرتا ہوں اور آپ کو سمجھاتا ہوں کہ اس طرح کے جعلی روایات سے کام نہ لیجئے۔

خیر طلب : میں بھی آپ کو سمجھاتا ہوں کہ بغیر سوچے سمجھے انکار یا اقرار نہ کیا کیجئے کہ حقیقت کھلنے کے بعد (پچھتانا پڑے۔ چنانچہ اس موضوع میں بھی آپ جلدی کر گئے اور اپنی پرانی عادت اور بدگمانی کی بنا پر بغیر سمجھے بوجھے پاکدامن شیعوں پر جعلسازی کی تہمت لگادی۔ حالانکہ میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ ہم شیعوں کو گڑھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیونکہ خود آپ ہی کی کتابوں میں ہمارے موافق اور ہمارے عقیدے کے ثبوت میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ یعنی جمعرات کا دن، کیسا تھا جمعرات کا دن۔

۸۲

حدیث منع وصیت کے ماخذ

اس زیر بحث موضوع میں اگر آپ اپنے علماء کی معتبر کتابیں دیکھئیے تو معلوم ہوگا کہ آپ ہی کےاکابر علماء نے اس قضیہ کو نقل کیا ہے مثلا بخاری نے صحیح بخاری جلد دوم ص۱۱۸ میں، مسلم نے اپنی صحیح مسلم آخر کتاب وصیت میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں، امام احمد بن حنبل نے مسند جلد اول ص۲۲۲ میں، ابن ابی الحدید نہج البلاغہ جلد دوم ص۵۶۳ میں، کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں، نودی نے شرح صحیح مسلم میں، ابن حجر نے صواعق میں نیز قاضی ابو علی قاضی روز بہان، قاضی عیاض، امام غزالی، قطب الدین شافعی، محمد ابن عبدالکریم شہرستانی، ابن اثیر، حافظ ابونعیم اصفہانی، سبط ابن جوزی، غرض کہ بالعموم آپ کے علماء نے اس المناک وقوعے کی تصدیق کی ہے۔ کہ حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد رسول اللہ(ص) بیمار ہوئے اور اصحاب کی ایک جماعت عیادت کے لیے حاضر ہوئی تو آں حضرت(ص) نے فرمایا"ايتونى‏ بدوات‏ وبياض لاكتب لكم كتابالن تضلوابعدي" ( یعنی میرے پاس دوات اور سادہ کاغذ لےآئو میں تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دوں کہ میرے بعد تم لوگ ہرگز گمراہ نہ ہو۔)

امام غزالی نے سر العالمین مقالہ چہارم میں لکھا ہے۔ جس سے سبط ابن جوزی نے بھی تذکرہ ص۳۶ میں نقل کیا ہے نیز آپ کے بعض دوسرے بزرگ علماء نے اس طرح روایت کی ہے کہ فرمایا دوات اور ایک سادہ کاغذ لے آئو" لازيل عنکم اشکال الامر واذکر لکم من المستحق لها بعدی "( اور بعض روایتوں میں ہے کہ فرمایا:)

"لأكتب‏ لكم‏ كتابالاتختلفون فيهبعدي)فقالعمر: عوا الرجل فإنهليهجر،حسبناكتاباللّه"

یعنی تاکہ تم سے (امر خلافت) کا اشکال دفع کردوں، یہ بتادوں کہ میرے بعد اس خلافت کا مستحق کون ہے یا یہ کہ تمہارے لیے ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ جس سے تم لوگ میرے بعد اس معاملہ میں اختلاف پیدا نہ کرو۔ پس عمر نے کہا کہ اس شخص ( یعنی رسول اللہ(ص)، کو چھوڑو کیونکہ در حقیقت یہ ہذیان بک رہا ہے( معاذاللہ) کتاب خدا ہمارے لیے کافی ہے۔

اصحاب کا مجمع دو گروہوں میں بٹ گیا، کچھ عمر کے طرفدار ہوگئے ادر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور کچھ لوگ رسول اللہ(ص) کے حامی رہے یہاں تک کہ آپس میں اس قدر تھکا فضیحتی شور و غوغا ہوا کہ آںحضرت(ص) نے ( جو خلق عظیم کے مجسمہ تھے) غصے میں بھر کر فرمایا "قوموا عنی ولا ينبغی عندی التنازع" ( یعنی میرے پاس سے اٹھ جائو کیونکہ میرے پاس لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں ہے) یہ وہ پہلا فتنہ و فساد تھا جو پیغمبر(ص) کی تیس سال کیجانگاہ محنتوں کے بعد مسلمانوں کے درمیان خود آنحضرت(ص) کے سامنے رونما ہوا اور اس فتنے اور گروہ بندی کے باعث خلیفہ عمر تھے جنہوں نے اپنی باتوں سے نفاق و اختلاف کا بیج بویا اور در پارٹیاں قائم کر دیں، یہاں تک کہ آجکی رات بھی ہماور آپ دونوں اسلامی بھائیوں کو دو گروہوں میں بانٹ کے ایک دوسرے کے مقابلے پر لا کھڑا کیا۔

شیخ : آپ جیسے مہذب اور با اخلاق آدمی سے ایسی جرات اور جسارت کی امید نہیں تھی کہ خلیفہ کی ایسی بزرگ ہستی پر ایسا الزام لگائیے گا۔

۸۳

خیر طلب : آپ کو خدا کا واسطہ کہ محبت و عداوت کو الگ رکھ کے اور بدگمانی سے ہٹ کے ذرا اںصاف سے بتائیے کہ آپکے انکار کے جواب میں آپ ہی کی کتابوں سے تاریخی واقعات نقلکر کے میں نے جرات و جسارت کی یا خلیفہ عمر نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت با عظمت میں انتہائی درجے کی گستاخی کی کہ علاوہ وصیت سے روکنے، فتنہ و فساد پیدا کرنے اور بیماری کی حالت میں رسول اللہ(ص) کی ایسی بلند شخصیت کے سرہانے شور و ہنگامہ برپا کرنے کے منہ کے اوپر گالی بھی دی اور کہا کہ یہ شخص ہذیان یعنی پاگل پن کی باتیں بک رہا ہے( معاذ اللہ)؟

اس موقع کی مناسبت سے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے

وتبصرفيالعينمني‏ القذى‏وفيعينكالجذعلاتبصره‏

یعنی میری آنکھ کا تنکا تو ڈھونڈتے ہو اور اپنی آںکھ کا شہتیر تم کو نظر نہیں آتا ( مطلب یہ کہ آپ میرے چھوٹے چھوٹے عیوب کی تاک میں تو رہتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں لیکن اپنے بڑے بڑے عیب نہیں دیکھتے) آیا خدائے تعالی آیت نمبر۴۰ سورہ نمبر۳۳( احزاب) میں ارشاد نہیں فرماتا ہے کہ :

"ماكانَ‏ مُحَمَّدٌأَباأَحَدٍمِنْرِجالِكُمْوَلكِنْرَسُولَاللَّهِوَخاتَمَالنَّبِيِّينَ‏"

یعنی محمد(ص) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول(ص) اور خاتم النبیین ہیں۔

اشارہ یہ ہے کہ آں حضرت(ص) کا ذکر ہمیشہ ادب اور احترام کے ساتھ کرنا چاہئیے اور رسول اللہ(ص) یا خاتم النبیین کہنا چاہئیے۔ یعنی آن حضرت(ص) کو نام لے کر نہ پکارو بلکہ رسول اللہ(ص) کہو۔

لیکن اس موقع پر عمر نے بغیر ادب اور فرمان الہی کا لحاظ کئے ہوئے نام کے ساتھ بھی نہیں بلکہ یہ شخص کہہ کے آں حضرت(ص) کی طرف اشارہ کیا۔

خدا کے لیے انصاف سے کہئے کہ گستاخی میں نے کی یا خلیفہ نے؟

شیخ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ ہجر کے معنی ہذیان کے ہیں جس سے بے ادبی اور جسارت کا شبہ کیا جائے؟

تعصب آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے

خیر طلب : تمام اہل لغت و تفسیر اور بالخصوص آپ کے اکابرعلماء جیسے ابن اثیر جامع الاصول میں ابن حجر شرح صحیح بخاری میں اور صاحبان صحاح وغیرہ کہتے ہیں کہ ہجر ہذیان کے معنی میں ہے۔ محترم ! انسان کو تعصب وعناد کا لباس اتار دینا چاہئیے تاکہ حقائق بے نقاب ہو کر سامنے آئیں۔جس پیغمبر(ص) کے حق قرآن مجید ہدایتدے رہا ہے کہ ان کو رسول اللہ(ص) اور خاتم النبیین کہو اگر کوئی شخص ان الرجل لیہجرکہہ کے عمدا ان بزرگوار کی شان اس قدر گھٹائے کہ کہے یہ شخص ہذیان بک رہا ہے( معاذ اللہ) تو کیا اس نے ادب اور حکم قرآن کے خلاف بات نہیں کہی؟

اور جس رسول(ص)کی نبوت و عصمت تا دم مرگ زائل نہ ہوئی ہو بالخصوص اس موقع پر جب کہ قوم کی ہدایت اور تبلیغ کی منزل میں ہو

۸۴

اگر کوئی شخص اس کی طرف ہذیان گوئی کی نسبت دے تو کیا یہ اس کی عدم معرفت اور آں حضرت پر ایمان نہ لانے کی دلیل نہیں ہے؟

شیخ : آیا مقام خلافت کے مقابلہ میں ایسا الزام مناسب ہے کہ وہ معرفت اور مرتبہ رسالت پر ایمان نہرکھتے تھے؟

خیر طلب: اول جناب عالی نے جس وقت یہ سنا کہ رسول اللہ(ص) کی طرف ہذیان کی نسبت دی گئی تو کیوں متاثر نہیں ہوئے؟ حالانکہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ آںحضرت کو رو دررو دشنام دینے اور ہذیان سے منسوب کرنے والے سے بیزازی اختیار کرے۔ لیکن جس وقت ایک معمولی آدمی کے لیے جس کا زیادہ سے زیادہ درجہ یہ ہے کہ اصحاب رسول کی ایک فرد ہو افور بعد کو چند اشخاص کے بل پر مسند خلافت تک پہنچ گیا ہو، اس قسم کا اشارہ کیا گیا تو آپ کو نا گوار ہوا۔ در آنحالیکہ یہ خیالات صرف میرے ہی نہیں تھے بلکہ ہر صاحب علم اور معقول انسان ان واقعات کے سننے کے بعد فطری طور پر یہی سوچتا ہے کہ ایک مومن شخص کیا رسول اللہ(ص) کی طرف ایسی نسبت دے گا؟ لہذا ظاہر ہے کہ ایک خوش عقیدہ اور پاک نفس مسلمان کے جذبات کیا ہوں گے۔

علمائے عامہ کا اعتراف کہ لفظ ہذیان کہنے والے کو معرفتِ رسول(ص) نہ تھی

چنانچہ آپ کے منصف اور با فہم علماء جیسے قاضی عیاض شافعی نے کتاب شفاء میں، کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں اور نودی نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ ایسی بات کہنے والا چاہے جو بھی تھا وہ قطعا رسول اللہ(ص) پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور آں حضرت(ص) کی منزل اور مرتبے کو پہچاننے سے عاجز تھا، اس لیے کہ ارباب مذاہب کے نزدیک ثابت ہے کہ انبیاء عظام ارشاد و ہدایت خلق کی منزل میں عالم غیب سے اتصال رکھتے ہیں اور تندرستی کا زمانہ ہو یا بیماری کی حالت بہر حال ان کے احکام کی تعمیل واجب ہے پس آں حضرت(ص) کی مخالفت بالخصوص جسارت و دشنام اور کلمہ ہذیان کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو رسول(ص) کی معرفت حاصل نہ تھی۔ انتہی کلامہم۔

پیغمبر(ص) کے روبرو اسلام کے اندر پہلا فتنہ

دوسرے آپ نے جو یہ فرمایا تھا کہ میں نے فتنہ اور نفاق پیدا کرنے کا الزام کیوں لگایا تو یہ بات بھی میری تنہا میری ہی جانب سے نہیں ہے بلکہ آپ کے انصاف پسند علماء نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

عالم جلیل حسین میبذی شرح دیوان میں کہتے ہیں کہ پہلا فتنہ جو اسلام کے اندر برپا ہوا وہ مرض الموت میں خود رسول اللہ(ص) کے روبرو ہوا جب کہ آں حضرت(ص) نے وصیت کرنا چاہا اور عمر مانع ہوئے۔ نتیجہ کے طور پر مسلمانوں میں فتنہ، فساد فرقہ بندی اور مذہبی اختلاف پیدا ہوگیا۔

شہرستانی اپنی کتاب ملل و نحل کے مقدمہ چہارم میں کہتے ہیں کہ پہلی مخالفت جو اسلام کے اندر واقع ہوئی وہ رسول اللہ(ص) کے حکم سے وصیت لکھنے کے لیے دوات اور کاغذ لانے سے عمر کا منع کرنا تھا۔

۸۵

اورع ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص۵۶۳ میں اسی مقصد کی طرف اشارہ کیا ہے۔

شیخ : اگر خلیفہ عمر رضی اللہ نے یہ الفاظ کہے ہوں تو میں اس میں کوئی بے ادبی نہیں سمجھتا بلکہ ایسے امور انسان کے جسمانی عوارض میں سے ہیں۔ جس وقت کسی شخص پر مرض کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ بے تک جملہ بولنے لگتا ہے جن کو ہذیان سے تعبیر کرتے ہیں اور جسم کے ان فطری کیفیات میں پیغمبر(ص) اور دوسرے لوگوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو گا۔

خیر طلب : آپ بخوبیجانتے ہیں کہ نبوت کی ایک خاص صفت عصمت بھی ہے جو نبی سے مرتے دمتک سلب نہیں ہوتی، خصوصا جب کہ ارشاد اور ہدایت خلق کی منزل میں ہو اور فرمائے کہ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھنا چاہتا ہوں تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔

پس چونکہ آں حضرت(ص) مقام ارشاد و ہدایت میں تھے لہذا قطعا با عصمت اور حق سے متصل تھے۔ اگر آپ آیہ شریفہ "وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْهُوَإِلَّاوَحْيٌيُوحى‏" و آیہ مبارکہ" وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوهومانهاكمعنهفانتهوا" اور آیت " أَطِيعُوااللَّهَ‏ وَأَطِيعُواالرَّسُولَوَأُولِيالْأَمْرِمِنْكُمْ‏" پیغمبر(ص) اپنی خواہش نفس سے نہیںبولتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف خدا کی وحی ہوتی ہے۔ اور تم کو رسول جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو۔ اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول(ص) کی۔ کی طرف توجہ کریں تو خود ہی حقیقت آپ کے اوپر ظاہر ہوجائے گی اور معلوم ہوجائے گا کہ دوات اور کاغذ لانے سے روکنا اور آںحضرت(ص) کو امت کی ہدایت کے لیے وصیت نامہ لکھنے سے مانع ہونا در حقیقت خدا کی مخالفت تھی۔ طے شدہ چیز ہے کہ لفظ ہذیان کھلی ہوئی گالی تھی، پھر اس کے ساتھ رجل کہہ کے اشارہ کرنا اور بھی سخت توہین ہے۔

حضرات ! اںصاف سے بتائیے گا کہ اگر اس جلسہ میں سے کوئی شخص آپ کی طرف اشارہ کر کے کہے کہ یہ شخص ہذیان بکتا ہے تو آپ کو کیسا معلوم ہوگا؟ حالانکہ ہم اور آپ معصوم نہیں ہیں۔ ہذیان بھی بک سکتے ہیں۔ آیا آپ اس کلام کو ادب و احترام کی کوئی قسم سمجھیں گے یا بے ادبی توہین اور گستاخی؟

اگر یہ گفتگو ادب و احترام کے خلاف ہے تو ماننا پڑے گا کہ حضرت خاتم النبییین (ص) کی شان میں یہ اور زیادہ اہانت و جسارت ہے۔

اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں ایسی توہین آمیز بات کہنے والے سے بیزاری اختیار کرنا ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ جب کہ خدائے تعالی نے قرآن مجید میں آں حضرت کو صاف طور سے رسول(ص) اور خاتم النبیین(ص) کہا ہے۔ اگر جانبداری اور تعصب کو الگ رکھئیے تو آپ کی عقل و حق شناسی ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتی ہے جو آں حضرت(ص) کو رسول اللہ(ص) اور خاتم النبیین(ص) کہنے کے عوض کہے یہ شخص ہذیان بک رہا ہے۔

شیخ : فرض کیجئے کہ ہم غلطی کے قابل بھی ہوجائیں تو چونکہ یہ خلیفہ رسول(ص) تھے اور دین و شریعت کی حفاظت کے لیے اجتہاد کیا تھا لہذا قطعا بری الذمہ اور قابل درگزر ہیں۔

خیر طلب : اول تو آپ نے یہی بے محل بات کہی کہ چونکہ خلیفہ رسول(ص) تھے لہذا اجتہاد کیا، کیونکہ جس روز عمر نے یہ الفاظ کہے اس روز وہ

۸۶

خلیفہ تھے ہی نہیں بلکہ شاید خلافت کا خواب بھی نہ دیکھا ہوگا۔ وفات رسول(ص) کے بعد جیسا کہ آپ خود بہتر جانتے ہیں۔ ہنگامی طور پر چند لوگوں نے جلد بازی کر کے ابوبکر کو خلیفہ بنادیا اور بعد کو بھی جبر و تشدد، قتل و اہانت اور دروازےمیں آگ لگانے کے ذرائع سے دوسروں کو قابو میںلائے۔ پھر دو سال تین ماہ کے بعد اپنے مرنے کے وقت ابوبکر نے عمر کو خلافت کی گدی سونپ دی۔

دوسرے آپ کا فرمانا بھی بہت تعجب خیز ہے کہ اجتہاد کیا، کیا آپ نے اتنا بھی غور نہیں کیا کہ ںص اور صریحی حکم کے مقابلہ میں اجتہاد کی کوئی حقیقت ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی خطا ہے جو معافی اور درگذر کے قابل نہیں۔

تیسرے آپ نے فرمایا ہے کہ دین و شریعت کی حفاظت کے لیے ایسا کیا آپ جیسے علماء سے ایسی غلط بات سن کر سخت حیرت ہوتی ہے کہ آپ کے عدل و اںصاف پر تعصب کس طرح سے غالب آگیا ہے۔

جناب محترم ! دین و شریعت کی حفااظت رسول خدا(ص) کے ذمے تھی یا عمر ابن خطاب کے ؟ آیا آپ کی عقل قبول کرتی ہے کہ رسول اللہ(ص) کو تو اس قید کے باوجود کہ اس تحریر کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ، یہ پتہ نہ ہو کہ امت کے لیے وصیت نامہ لکھنا دین و شریعت کے خلاف ہے لیکن عمر ابن خطاب کو معلوم ہو اور وہ حفاظت دین و شریعت کے لیے آںحضرت(ص) کو وصیت سے روک دیں؟"فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏ الْأَبْصارِ"

آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ضروریات دین میں خطا کرنا بہت بڑا جرم ہے اور ہرگز اس سے عفو و چشم پوشی نہیں ہوسکتی۔

شیخ : اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے دینکے حالات و کیفیات سے اندازہ لگایا تھا کہ اگر رسول خدا(ص) کوئی چیز لکھیں گے تو اختلاف پیدا ہوجائے گا اور فتنہ بر پا ہوگا لہذا از روئے خیر خواہی خود پیغمبر(ص) کے فائدے کے لیے دوات اور کاغذ نہیں لانے دیا۔

عذر گناہ بدتر از گناہ

خیر طلب: جو کچھ آپ نے فرمایا ہے، عذر گناہ بدتر از گناہ اسی کو کہتے ہیں مجھ کو یاد ہے کہ طالب العلمی کے زمانہ میں میرے ایک استاد جامع منقول و معقول فاضل قزوینی الحاج شیخ محمد علی تھے جو فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک غلطی کو نبھانے کی کوشش کی جائے تو ہوسکتا ہے کہ ایک کے بجائے سو غلطیان ہوجائیں۔ بعینہ مین اسی طرح دیکھ رہا ہوں کہ آپ خلیفہ کی طرف سے خواہ مخواہ جو دفاع کررہے ہیں وہ ایک خطا اور فاحش غلطی کو بہت سی غلطیوں کا مجموعہ بنا رہا ہے۔

آپ کی اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ(ص) درجہ عصمت ( یعنی خطا سے محفوظ ہونے) اور عالم غیت سے اتصال کے باوجود امت کے ارشاد و ہدایت کے موقع پر خیر و اصلاح اور فتنہ و فساد کیطرف کوئی توجہ نہیں رکھتے تھے لہذا خلیفہ عمر نے آںحضرت(ص) کی خیر خواہی اور رہنمائی کی۔

۸۷

اگر آپ آیت نمبر۳۶ سور نمبر۳۳( احزاب) پر تھوڑا غور کیجئے جس میں ارشاد ہے:

"وَماكانَلِمُؤْمِنٍوَلامُؤْمِنَةٍإِذاقَضَىاللَّهُوَرَسُولُهُأَمْراًأَنْيَكُونَلَهُمُالْخِيَرَةُمِنْأَمْرِهِمْوَمَنْ‏ يَعْصِ‏ اللَّهَ‏وَرَسُولَهُفَقَدْضَلَّضَلالًامُبِيناً"

یعنی جب خدا و رسول(ص) کسی کام کا حکم دیں تو کسی مرد یا عورت کو اس میں اپنے ارادے اور اختیار سے کوئی دخل حاصل نہیں ( یعنی اپنے قول و فعل سے آں حضرت(ص) کو روکنے یا اختلاف رائے کا حق نہیں رکھتے) اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانیکرے تو یقینا کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوا۔

تو یقینا اپنے الفاظ واپس لیجئے گا اور خلیفہ عمر کے اس عمل کی حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ آں حضرت کے حکم سے سرتابی، وصیت سے روکنا اور لفظ ہذیان کے ذریعہ گستاخی کرنا انتہائی شنیع فعل تھا اور اس نے پیغمبر(ص) کو اتنا متاثر کیا کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔

شیخ : خلیفہ کی نیک نیتی تو ان کے آخری جملے سے ظاہر ہے کہا "حسبنا کتاب اللہ" یعنی خداکی کتاب قرآن کریم ہمارے لیے کافی ہے ہم کو رسول خدا(ص) کے نوشتہ کی ضرورت نہیں ہے۔

خیر طلب: اتفاق سے خود یہی جملے ان کے عدم معرفت اور قرآن مجید پر توجہ نہ ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے یا پھر عمدا رسول اللہ(ص) کو رنج پہنچانا اور اس عمل سے روکنا مقصود تھا جو ان لوگوں کے جذبات کےخلاف تھا کیوںکہ اگر قرآن مجید کی پوری معرفت ہوتی تو یہ بھی معلوم ہوتا کہ جملہ امور میں قرآن تنہا کفایت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ یہ وہ یکتا کتاب محکم ہے جو مجمل اور مختصر ہے۔ اس نے کلیات احکام تو بیان کر دیے ہیں لیکن ان کے جزئیات کو شارح اور مفسر کی توضیح پر چھوڑ دیا ہے۔کیونکہ ممکن ہے کہ ایک معمولی انسان بغیر فیضان الہی اور بیان عالم ربانی کے اس جمل اور جامع قرآن سے پورا فائدہ اٹھا سکے؟ علاوہ ان باتوں کے اگر تنہا قرآن امت کے امور میں کافی ہوتا تو یہ آیت کیوں نازل ہوتی کہ

"وماأتاكم‏ الرسول‏ فخذوهومانهاكمعنهفانتهوا"

(یعنی رسول اللہ(ص) جس چیز کی ہدایت کریں اس کو اختیار کرو اور جس سے منع کریں اس سےباز رہو) نیز کیا آیت نمبر۸۵ سورہ نمبر۴(نساء) میں یہ ارشاد نہیں ہے:

"وَلَوْرَدُّوهُ‏ إِلَى‏ الرَّسُولِ وَإِلى‏ أُولِي الْأَمْرِمِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ‏"

یعنی اگر رسول(ص) اور صاحبان حکم و رسول کے بعد پیشوایان اسلام کی طرف رجوع کرتے تو یقینا جو اہل معرفت ہیں وہ صحیح تدبیر معلوم کر لیتے۔

پر ثابت ہوا کہ قرآن مجید تنہا مفید طلب نہیں ہے جب تک شارحین قرآن یعنی محمد و آل محمد صلواۃ اللہ علیہم اجمعین کی تفسیر بھی ساتھ ساتھ نہ ہو۔

چنانچہ فریقین کی متواتر حدیث میں ( جس کے چنداسناد گذشتہ شبوں میں پیش کرچکا ہوں)(۱) وارد ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء نے بار بار یہاں تک کہ وفات کے وقت بھی فرمایا :

"إني‏ تارك‏ فيکم الثقلين كتاباللّهوعترتياهلبيتي لنيتفرّقاحتىيرداعليّالحوض أنتمسكتمبهما فقد نجوتملنتضلواابدا"

یعنی میں ( رسول خدا(ص)) تمہارے درمیان یقینا دو گرانقدر چیزیں چھوڑتا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت و اہل بیت، یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص----

۸۸

کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیں۔ اگر تم لوگ ان دوںوں سے تمسک رکھو گے تو ضرور نجات پائو گے اور کبھی ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

صاحبان عقل کی فہم و فراست سے تعجب ہے کہ وہ اس پرغور کیوں نہیں کرتے کہ رسول اللہ(ص) تو ( جن کا ہر قول بحکم آیہ"وَمايَنْطِقُ‏ عَنِ‏ الْهَوى‏ إِنْهُ وَإِلَّاوَحْيٌ يُوحى‏" خدا کی طرفسے ہوتا ہے، ہدایت و نجات امت کے لیے تنہا قرآن کافی نہ سمجھیں اور اس کو اپنی عترت طاہرہ سے وابستہکرتے ہوئے صاف صاف فرمائیں کہ اگر دونوں ( یعنی قرآن و عترت) سے تمسک رکھو گے تب نجات پائو گے اور ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ لیکن خلیفہ عمر یہ کہیں کہ نہیں اکیلا قرآن ہی کافی ہے؟

اب ذرا آپ حضرات اںصاف سے کام لیں اور سچا فیصلہ کریں کہ ایک طرف تو خدا کے بھیجے ہوئے بر حق پیغمبر(ص) کا یہ ارشاد ہے کہ قرآن و اہل بیت(ع) دونوں سے تمسک کرو کیونکہ یہ دونوں تا قیامت ایک دوسرے سے وابستہ ایک دوسرے کی ںظیر اور ایک ساتھ ذریعہ ہدایت ہیں اورکا یہ قول کہ ہم کو صرف قرآن کافی ہے جس کا مطلب یہ کہ انہوں نے فقط عترت ہی کو نہیں ٹھکرایا بلکہ رسول اللہ(ص) کے حکم اور وصیت کو بھی قبول نہیں کیا۔

ایسی صورت میں ہم پر ان دونوں میں سے کس کی اطاعت واجب ہے؟ ہرگز کوئی عقلمند انسان یہ نہیں کہے گا کہ بارگاہ خداوندی سے الحاق رکھنے والے اللہ کے رسول(ص) کا فرمان چھوڑ کے عمر کی بات ماننا چاہئیے۔ تو پھر آپ نے کیوں عمر کا قول لے لیا اور آںحضرت(ص) کا قول پس پشت ڈال دیا؟ اگر فقط کتاب خدا کافی تھی تو آیت نمبر۳۵ سورہ نمبر۱۶ (نحل):"فَسْئَلُواأَهْلَ‏ الذِّكْرِإِنْكُنْتُمْ لاتَعْلَمُونَ‏" (یعنی اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر( یعنی اہل بیت رسول(ص) ہیں) سے دریافت کرو۔) میں ہم کو کیوں حکم دیا گیا ہے کہ اہل ذکر سے سوال کرو؟ ظاہر ہے کہ ذکر سے مراد قرآن یا رسول خدا(ص) ہیں اور اہل ذکر آںحضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت ہیں۔

چنانچہ پچھلی راتون میں دلائل اور اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں کہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء جیسے سیوطی وغیرہ نے درج کیا ہے کہ اہل ذکر سے رسول اللہ(ص) کے اہل بیت پاک (ع) مراد ہیں جو عدیل قرآن ہیں۔

آپ ہماری باتوں کو بدگمانی کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور یہ نہ سمجھیں کہ صرف ہمیں ان چیزوں کی گرفت کرتے ہیں کیوں کہ آپ کے اکابر علماء بھی محل انصاف میں خلیفہ عمر کے اس قول پر مضحکہ کرتے ہیں۔

عمر کے قول پر قطب الدین شیرازی کا اعتراض

آپ کے اکابر علماء میں سے قطب الدین شافعی شیرازی کشف الغیوب میں کہتے ہیں یہ امر مسلم ہے کہ بغیر راہنما کے راستہ طے نہیں کیا جاسکتا ہم کو خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول پر تعجب ہے کہ چونکہ ہمارے درمیان قرآن موجود ہے لہذا ہم کو کسی رہنما کی احتیاج نہیں ہے یہ بات تو ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کہے چونکہ ہمارے پاس طب کی کتابیں موجود ہیں لہذا ہم کو کسی طبیب کی ضرورت نہیں ---- کہ یہ بات ناقابل قبول اور بالکل غلط ہے اس لیے کہ جو شخص طبی کتابوں سے مطلب حل نہ کرسکے اس گو قطعی طور پر کسی ہوشیار طبیب کی طرف

۸۹

رجوع کرنا چاہئیے۔ یہی صورت قرآن کریم کی ہے کہ جو شخص اپنی عقل کے ذریعے اس سے پورا فائدہ نہ اٹھا سکے اس کو مجبورا ان ہستیوں کی طرف جھکنا پڑے گا جو عالم قرآن ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے :

"وَلَوْرَدُّوهُ‏ إِلَىالرَّسُولِوَإِلى‏ أُولِيالْأَمْرِمِنْهُمْلَعَلِمَهُالَّذِينَيَسْتَنْبِطُونَهُمِنْهُمْ‏"

یعنی اگر یہ لوگ رسول(ص) اور صاحبان امر( پیشوایان اسلام) کی طرف رجوع کرتے تو جو لوگ اہل معرفت ہیں وہ صحیح نتیجے تک پہنچ جاتے۔

آیت نمبر۸۳ سورہ نمبر۴(نساء) حقیقی کتاب تو اہل علم کے سینے ہیں جیسا کہ آیت نمبر۴۸ سورہ نمبر۲۹( عنکبوب) میں ارشاد ہے:"هُوَآياتٌ‏ بَيِّناتٌ‏ فِيصُدُورِالَّذِينَأُوتُواالْعِلْمَ‏" ( یعنی بلکہ یہ قرآن و روشن آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جن کو( من جانب خدا) علم خدا دیا گیا ہے) اسی وجہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے:"أَنَاكِتَابُ‏ اللَّهِ النَّاطِقُ هوالصَّامِتُ." ( یعنی میں خدا کی بولتی ہوئی کتاب ہوں اور یہ قرآن خاموش کتاب ہے۔ انتہی۔

پس خلیفہ کے کلام کے اول و آخر دونوں حصے نا قابل اعتبار اور علم و عمل اور اںصاف رکھنے والے کے نزدیک لائق نفرت ہیں لہذا آپ بھی تصدیق کیجئے کہ انہوں نے رسول اللہ(ص) پر بہت بڑا ظلم کیا جو وصیت نہیں لکھنے دی۔

ابوبکر کو مرتے دم وصیت لکھنے سے نہ روکنا

رہا آپ کا بار بار یہ فرمانا کہ لوگوں نے ابوبکر و عمر کو صیت کرنے سے نہیں روکا تو یہ درست ہے اور یہی چیز انتہائی حیرت اور تعجب کا باعث ہے جس کو آپ کے تمام مورخین و محدثین نے اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے کہ خلیفہ ابوبکر نے اپنے مرنے کے وقت عثمان ابن عفان سےکہا کہ جو کچھ میں کہتا ہوں اس کو لکھ کیوں کہ یہ لوگوں کی طرف میرا وصیت نامہ ہے۔ چنانچہ جو کچھ ابوبکر نے کہا انہوں نے لکھ لیا۔ خلیفہ عمر وغیرہ بھی موجود تھے لیکن کسی نے اس سے انکار نہیں کیا۔

بالخصوص عمر نے اس وقت یہ نہیں کہا " حسبنا کتاب اللہ" ہم کو ابوبکر کے وصیت نامے کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے۔ لیکن خاتم الانبیاء کو اسی بہانے سے کہ ہمارے لیے خدا کافی ہے وصیت نہ لکھنے دی۔"فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏ الْأَبْصارِ"

اگر اس سازش کے آگےسرنیا زخم کرنے سے ہم کو اور کوئی دلیل مانع نہ ہو تو صرف یہی توہین و جسارت، رسول اکرم(ص) کو دشنام دینا اور اس وصیت سے منع کرنا جو امت کے لیے ہدایت اور ضلالت و گمراہی سے حفاظت کا ذریعہ بنتی، ہر عالم و عاقل اور نکتہ رس منصف کو یہ سمجھا دینے کےلیے کافی ہے کہ اس روز کی یہ کار روائی کسی دلیل و برہان کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ محض دھاندلی، ہنگامہ سازی اور سیاسی چالا کی تھی۔

۹۰

مصیبت عظیم وقت آخر اہانت رسول(ص) اور ممانعت ہدایت

ابن عباس گریہ کرنے میں حق بجانب تھے بلکہ میں تو کہتا ہوں سارے مسلمانوں کو خون کے آنسوئوں سے رونا چاہئیے کو خاتم المرسلین کو اتنی مہلت بھی دی کہ وصیت کر کے امت کے لیے دستور العمل معین کر جائیں، اور زندگی کے آخری لمحون میں آںحضرت(ص) کو توہین و دشنام کے ذریعے تبلیغ رسالت کو عوض دیا۔ اگر وصیت کا موقع دے دیا ہوتا تو یقینا امر خلافت بالکل واضح ہوجاتا اور آں حضرت کے پچھلے ارشادات کی تائید ہوجاتی۔ لیکن سیاسی دائو پیچ جاننے والے بغاوت کر کے سد راہ بن گئے۔

شیخ : یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ آں حضرت(ص) خلافت کے بارے میں کچھ فرمانا چاہتے تھے؟

خیر طلب: اولا مطلب بالکل ظاہر ہے کہ وقت وفات تک دین کے احکام و قواعد میں سے کوئی چیز باقی ہی رہ گئی تھی کہ امت کی ہدایت کے لیے اس کی یاد دہانی ضروری ہوتی، کیونکہ آیت اکمال دین نازل ہوچکی تھی، البتہ خلافت کا معاملہ ایسا تھا آں حضرت(ص) نے تئیس سال کی مدت میں اس کے لیے جو کچھ فرمایا تھا چاہتے تھے کہ اس کی تائید میں مزید وضاحت فرمادیں، چنانچہ میں عرض کرچکا ہوں کہ امام غزالی نے سرالعالمین کے مقالہ چہارم میں نقل کیا ہے کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا :

"ايتونى‏ بدوات‏ وبياضلاكتبلكمكتابالنتضلوابعدي لازيل عنکم اشکال الامر واذکر لکم من المستحق لها بعدی"

یعنی دوات و کاغذ لے آئو تاکہ تم سے امر خلافت کا اشکال دور کر دوں اور اپنے بعدکے لیے اس کے مستحق کی یاد دہانی کر جائو۔

پھر جملہ"لنتضلوابعدی" بھیثابت کرتا ہے کہ وصیت کا موضوع ہدایت امت تھا۔ اور طرق ہدایت میں سوا امر خلافت و امامت کے اور کسی چیز کی تاکید باقی نہ تھی۔ اس کے علاوہ ہم کو اصرار بھی نہیں ہے کہ آں حضرت(ص) خلافت و امامت کے لیے کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن اتنا تو قطعا چاہتے تھے کہ امت کی ہدایت و رہنمئی کے لیے کوئی تحریر دے دیں۔ تاکہ ضلالت و گمراہی نہ پھیلے تو پھر کیوں ممانعت کی؟ فرض کر لیا جائے کہ ممانعت ہی مناسب تھی تو کیا اس کے لیے فحش و دشنام اور اہانت بھی ضروری تھی؟

چشم باز و گوش باز وایں عمی حیرتم از چشم بندی خدا

فَاعْتَبِرُواياأُولِي‏الْأَبْصارِ

صاف فرمائیے گا سلسلہ کلام ذرا طولانی ہوگیا لیکن یہ میرے اختیار سے نہیں تھا بلکہ درد و دل کا ایک مختصر سا نمونہ تھا جو آپ کی توجہ کے لیے بے ساختہ زبان پر آگیا۔

پس ان مقدمات سے معلوم ہوگیا کہ علی علیہ السلام رسول خدا(ص) کے وصی تھے اور باوجودیکہ آن حضرت(ص) بارہا ہدایات جاری فرماچکے تھےلیکن آخری منزل پر تکمیل وصیت کے لیے چاہا کہ یہ حقائق تحریر کر کے امت کی ذمہ داری کو پختہ فرمادیں سیاسی بازیگر سمجھ رہے تھے لہ کیا لکھنا چاہتے ہیں لہذا شور و غوغا اور اہانت کر کے روک دیا۔

۹۱

اںحضرت(ص) نے اتمام حجت اور رفع شبہات کے لیے بعض احادیث میں خصوصیت کے ساتھ فرمایا ہے کہ جس خدا نے دیگر انبیائے کرام آدم(ع)، نوح(ع)، موسی(ع)، اور عیسی(ع) وغیرہ کے لیے وصی معین فرمائے اس نے میرے لیے بھی علی(ع) کو وصی قرار دیا۔

نیز فرمایا ہے کہ علی میرے اہل بیت اور میری امت میں میرے بعد میرے وصی ہیں۔ اور یہ خود ایک مضبوط دلیل ہے اس بات کی کہ وصایت اس مقام پر خلافت کے معنی میں ہے۔ لہذا علی وصی و خلیفہ رسول(ص) ہیں۔

شیخ : یہ اخبار اگر صحیح بھی ہوں تو متواتر نہیں ہیں لہذا آپ کیونکر ان سے سند لے رہے ہیں؟

خیر طلب : تواتر وصیت کا مسئلہ ہمارے نزدیک تو اہل بیت عترت و طہارت کے طریق سے جو عدیل قرآن ہیں ثابت و مسلم ہے۔ لیکن آپ کو یاد ہوگا میں نے پچھلی راتوں میں عرض کیا ہے کہ آپ کے علماء اپنے علمی بیانات میں خبر واحد کو بحث سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان اخبار میں اگر تواتر لفظی نہ ہو تو تواتر معنوی قطعا موجود ہے۔

ان بے شمار روایتوں سے ( جن کی پوری تفصیل سے اس وقت معذور ہوں کیونکہ اتنا وقت ہے نہ سب حافظے میں محفوظ ہیں لہذا موقع کے لحاظ سے ان میں سے بعض کو جو اس وقت یاد تھیں پیش کر دیا) معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے لیے ایسی وصایت پر نص فرمائی ہے جس سے صاف صاف خلافت کے معنی نکلتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ جو تواتر کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں اور جس وقت ہمارے مقابل کوئی حربہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں یا جس مقام پر لا جواب ہوجاتے ہیں تواتر کی آڑ لینے لگتے ہیں۔ ذرا یہ فرمائیے کہ حدیث لا نورث کا تواتر کہاں سے ثابت کیجئے گا؟ در آنحالیکہ اس حدیث کے راوی بقول آپ کے ابوبکر یا اوس بن حدثانتھے اور چند معلوم الحال مطلبی اشخاص نے ہاں میں ہاں ملادی لیکن ہر زمانے میں کروڑوں موحد اور پاک نفس مسلمان اس حدیث کے منکر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کے باب علم رسول علی علیہ السلام اور تمام عترت و اہل بیت پیغمبر(ص) کا انکار جو عدیل قرآن ہیں اس کے باطل ہونے پر ایک بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ ان حضرات نے منطقی دلائل کے ساتھ اس کے غلط اور مصنوعی ہونے کو ثابت کیا ہے، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا چکا۔ اور ان ساری دلیلوں سے اہم خود ابوبکر کے سامنے صدیق و صدیقہ علی و فاطمہ علیہما السلام کی مخالفت اور انکار تھا۔ اس لیے کہ جس وقت رسول اللہ(ص) کا باب علم اور آں حضرت(ص) کے ارشاد کے مطابق اہل تقوی کا امام کسی حدیث کو جھٹلا دے تو قطعا یہ اس کے مصنوعی او جھوٹ ہونے پر کامل حجت ہوگی۔

اگر تمام انبیاء بالعموم اور خاتم الانبیء بالخصوص اپنا کوئی وارث نہیںرکھتے تھے تو وصی اور وارث کیونکر بنایا؟ جیساکہ عرض کر چکا ہوں کہ آں حضرت نے فرمایا " لکل نبی وصیووارث و ان علیا وصیی ووارثی" ( یعنی ہر پیغمبر کے لیے ایک وصی و وارث ہے اور یقینا علی میرے وصی اور وارث ہیں۔)اور ظاہر ہے کہ بغیر مال و جائداد کی میراث کے وصی اور وارث کے کوئی معنی نہیں۔ اگر آپ کہئے کہ مالی نہیں بلکہ علمی وراثت مراد ہے( حالانکہ عقلی و نقلی اور علمی دلائل و براہین سے ثابت ہے کہ مالی وراثت مراد تھی) تو میرا مطلب اور زیادہ ثابت ہوجاتا ہے کہ سب سے پہلے تو پیغمبر(ص) کے وارث منصب خلافت کے لیے اولی اور حقدار ہوگا تب کہیں ان لوگوں کا نام لیا جاسکتا ہے جو آں حضرت(ص) کے علم سے کورے تھے۔

۹۲

دوسرے یہ کہ یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو اپنا وصی اور وارث قرار دیا ہے بلکہ ان احادیث کے حکم سے جو آپ کے علماء نے نقل کئے ہیں( جن میں سے بعض کی طرف اشارہ بھی ہوچکا ہے) خدا ہی نے آپ کو اس درجے پر معین فرمایا ہے یہ کیونکر ممکن ہے ہے اس حدیث کو اپنے وصی اور وارث ( یا بقول آپ کے وارث علمی) سے تو نہ فرمایا ہوتا کہ بعد کو اختلاف نہ پیدا ہو لیکن اس شخص سے فرما دیا جو نہ وصی تھا نہوارث؟

شخت تعجبہے کہ جب دینی احکام میں علی علیہ السلام کوئی فیصلہ فرماتے تھے تو ابوبکر و عمر چونکہ خود ناواقف تھے لہذا آپ کے قول کو حجت سمجھ کے فورا تصدیق کرتے تھے کہ آپ کا فرمانا صیحی ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتے تھے چنانچہ آپ کے علماء و مورخین نے ابوبکر عمر او عثمان کے زمانہ خلافت میں حضرت کے فیصلے نقل کئے ہیں۔ لیکن خاص طور سے اس موقع پر حضرت(ع) کے قول کو قبول نہیں کیا بلکہ ایسی رکیک مثالوں کےساتھ اہانت بھی کی کہ ہر عقلمند انسان ان کو نقل کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے۔

حافظ : سخت تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں خلفاء رضی اللہ عنہم دینی احکام نہیں جانتے تھے اور علی کرم اللہ وجہہ ان کو یاد دلاتے تھے۔

خیر طلب : اس میںتعجب کی کوئی بات نہیں ہے اس لیے کہ سارے احکام و قواعد کا جاننا بہت مشکل کام ہے اور سوا اس کے جو پیغمبر(ص) یا باب علم ہو کسی معمولیانسان کے لیے اتنا مکمل علم ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ تنہا میں ہی اس عقیدے کا قائل نہیں ہوں بلکہ آپ کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے۔ مطلب واضح کرنے کے لیے ایسے اتفاقات میں سے ایک نمونہ پیس کئے دیتا ہوں تاکہ نا واقف لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم توہیں کے مقصد سے ایسا کہتے ہیں۔

چھ مہینے کا بچہ جننے والی عورت کے حق میں علی(ع) کا حکم

امام احمد بن حنبل مسند میں، امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی ذخائر العقبی می، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور شیخ سلیمان حنفی ینابیع المودۃ باب۵۶ میں احمد بن عبداللہ ، اور احمد بن حنبل، قلعی اور ابن سمان سے روایت کرتے ہیں:

"أنعمرأرادرجمامرأةالتی ولدت لستةأشهرفقاللهعليعليه السلام فیكتاباللهوَحَمْلُهُوَفِصالُهُثَلاثُونَشَهْراً ثمقالو فصاله فی عامين فالحمل ستةأشهرفترکها وقاللولاعلي‏ لهلك‏ عمر"

یعنی عمر نے ایک ایسی عورت کو سنگسار کرنا چاہا جس کے یہاں چھ مہینے کا بچہ پیدا ہوا تھا، تو علی علیہ السلام نے فرمایا خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ حمل و رضاعت سے دودھ بڑھائی تک تیس (۳۰) مہینوں کی مدت ہے اور چونکہ دودھ چھڑا نے تک رضاعت کا زمانہ دو سال ہے لہذا حمل کا زمانہ چھ ماہ رہ جاتا ہے ( خلاصہ یہ کہ چھ ماہ میں ولادت

۹۳

ممکن ہے کیونکہ حمل کی کم سےکم مدت چھ ہی مہینے ہے) پس عمر نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور کہا کہ علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا نیز اسی باب میں مناقب احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں۔

"ان عمر بن الخطاب اذا اشکل عليه شئی اخذ من علی رضی الله عنه."

یعنی جس وقت عمر کو کوئی مشکل مرحلہ پیش آتا تھا( اور بات سمجھ میں نہیں آتی تھی) تو علی علیہ السلام سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔

اس قسم کے قضیے ابوبکر، عمر اور عثمان کے دور خلافت میں کثرت سے پیش آئے کہ جب یہ لوگ مشکل میں پھنس جاتے تھے تو علی علیہ السلام اصلی حکم بتاتے تھے اور یہ بھی اس کو تسلیم کر کے عمل کرتے تھے۔

ابآپ حضرات غور کیجئے کہ آخر اس مقام پر علی علیہ السلام کی بات کیوں نہیں مانی بلکہ جسارت و اہانت شور و غل اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے جناب فاطمہ مظلومہ صلوات اللہ علیہا کا بنیادی حق بھی چھینلیا؟ بات در اصل یہ ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں دکھانے کے اور

تیسری دلیل اس حدیث کے بطلان پر خود خلیفہ ابوبکر کا قول و فعل ہے کیونکہ اگر حدیث صحیح ہے تو جو کچھ رسول اللہ(ص) نے چھوڑا تھا، سب ضبط کر لینا چاہئیے تھا۔ وارثوں کو آں حضرت کی کسی چیز پر تصرف کا حق نہیں تھا لیکن ابوبکر نے حجرہ فاطمہ ان کو دے دیا، اور ازواج رسول عائشہ و حفصہ وغیرہ کے حجرے بھی میراث کے طور پر ان سب کے عطا کئے۔ یک بامو دو ہوا کی مثل اسی موقع کے لیے ہے ۔يومن ببعض و يکفر ببعض ۔

علاوہ ان چیزوں کے اگر یہ حدیث صحیح تھی اور اس پر ان کا ایمانتھا کہ یہ آل رسول(ص) ہے تو فدک کو ضبط کرنے کےبعد جو ( ان کے خیال میں) صدقہ مسلمین تھا، ابوبکر نے یہتحریر کیوں دی کہ میں نے فدک فاطمہ(ع) کو واپس دیا جس کے بعد عمر مانع ہوئے اور وہ سند لے کر چاک کر ڈالی؟

حافظ ؟ آپ کا یہ بیان انوکھا ہے میں نے تو نہیں سنا کہ خلیفہ نے فدک واپس کیا ہو۔ آخر اس مضمون کی سند کہاں سے ہے؟

ابوبکر کا فاطمہ(ع) کو فدک واپس کرنا اور عمر کا مانع ہونا

خیر طلب : غالبا آپ میرے اس اصول سے واقف ہوں گے کہ بغیر سند کے میں کوئی بات عرض نہیں کرتا۔ نیز میرا اندازہ ہے کہ آپ کے پاس مطالعہ کتب کا وقت بہت کم ہے۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں اور علی بن برہان الدین شافعی ، تاریخ سیرۃ اطلبیہ جلد سوم ص۳۹۱ میں لکھتے ہیں کہ ابوبکر فاطمہ(ع) کی گفتگو سے متاثر ہو کر رونے لگے ( در اصل یہ واقعہ چند روز کے بعد ابوبکر کے مکان پر پیش آیا۔)

"فاستعيرو بکی و کتب لها برد فدک"

۹۴

یعنی حال فاطمہ(ع) پر گریہ کیا اور لکھ دیا کہ میںنے فدک فاطمہ(ع) کو واپس کیا، لیکن عمر نے وہ پروانہ لے کر پھاڑ ٰڈالا۔

تعجب یہ ہے کہ انہیں عمر نے جنہوں نے اس روز تحریر چاک کر ڈالی تھی اور فدک واپس کر نے پر اعتراض کیا تھا خود انے زمانہ خلافت میں اس کو واپس دیا اور اسی طرح بعد کے ( اموی اور عباسی) خلفا نے بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے وارثوں کو فدک لوٹایا۔

حافظ : آپ کی اس تقریر تو بہت ہی تعجب ہے یہ کیونکر ممکن ہے کہ خلیفہ عمر جو بقول آپ کے فاطمہ(ع) کو فدک واپس دینے میں سختی سے مانع ہوئے تھے کیونکہ یہ صدقہ مسلمین تھا، یہاں تک کہ تحریر کو بھی پھاڑ کے پھینک دیا تھا خود ہی فاطمہ(ع) کے وارثوں کو اسے واپس کردیں؟

خیر طلب : تعجب ہونا بھی چاہئیے۔ ممکن ہے آپ نے نہ دیکھا ہو لہذا اب میں آپ کی اجازت سے ذکر اسناد کے ساتھ آپ کے اکابر علماء سے ان خلفاء کے حوالے نقل کرتا ہوں جنہوں نے واپس دیا اور واپس لیا، تاکہ تعجب نہ کریں اور سمجھ لیں کہ حق ہمارے ساتھ ہے۔

خلفاءکا اولاد فاطمہ(ع) کو فدک لوٹانا

مدینہ منورہ کے مشہور محدث و مورخ علامہ سمہودی متوفی سنہ۹۱۱ھ تاریخ المدینہ میں اور یاقوت بن عبداللہ رومی حسمومی معجم البلدان میں نقل کرتے ہیں کہ ابوبکر نے اپنے زمانہ خلافت میں فدک پر تصرف کیا اور عمر نے اپنے دور خلافت میں علی علیہ السلام اور عباس کے حق میں واگزار کردیا۔ اگر ابوبکر نے رسول اللہ(ص) کے حکم سے مسلمانوں کا حق سمجھ کے فدک پر قبضہ کیا تھا تو عمر نے کس دلیل سے سارے مسلمانوں کی جائداد کسی ایک فرد کے سپرد کردی؟

شیخ : شاید اس نیت سے ایک مسلمان فرد کے حق میں واگزار کیا ہو کہ مسلمانوں ہی کے تصرف میں رہے۔

خیر طلب : آپ کی توضیح پر تو مدعی سست گواہ چست کی مثل صادق آتی ہے کیونکہ خود خلیفہ کا یہ مقصد نہیں تھا۔ اگر مسلمانوں کے خرچ کے لیے واپس کیا ہوتا توتاریخ میں اس کا تذکرہ ہونا چاہئیے تھا، حالانکہ آپ کے بڑے بڑے مورخین لکھتے ہیں کہ عمر نے علی علیہ السلام اور عباس کے حق میں واگزار کیا۔ اور علی علیہ السلام نے بھی میراث کے طور پر فدک کو قبول کیا تھا نہ کہ ایک مسلمان فرد کی حیثیت سے، ورنہ ایک مسلمان تمام مسلمانوں کے حق پر قابض و متصرف نہیں ہوسکتا ۔

شیخ : شاید عمر ابن عبدالعزیز مراد ہوں۔

عمر ابن عبدالعزیز کا فدک واپس کرنا

خیر طلب : ( مسکراتے ہوئے) علی علیہ السلام اور عباس عمر ابن عبدالعزیز اموی کے زمانے میں نہیں تھے۔ عمر ابن عبدالعزیز کا حکم اس کے علاوہ ہے،چنانچہ علامہ سمہودی تاریخ المدینہ میں اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۱۸ میں ابوبکر جوہری سے نقل کرتے ہیں کہ

۹۵

عوام عمر ابن عبدالعزیز کو خلافت حاصل ہوئی تو مدینے میں اپنے عامل کو لکھا کہ فدک اولاد فاطمہ کو واپس کر دو لہذا اس نے حسن ابن حسن مجتبی اوربعض کا قول ہے کہ حضرت کا قول ہے کہ حضرت علی بن الحسین علیہما السلام کو بلا کر ان کے پسرد کردیا۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم مطبوعہ مصر کے ص۸۱ سطر اول میں یہ عبارت لکھی ہے کہ کانت اول ظلامہ ردہا ( یعنی یہ وہ پہلی بجز وظلم چھنی ہوئی جائداد تھی جو عمر ابن عبدالعزیز نے اولاد فاطمہ(ع) کو دی، اور یہ ایک مدت تک ان حضرات کے تصرف میں رہی، یہاں تک کہ خلیفہ یزید ابن عبدالملک نے پھر اس کو غصب کر لیا اور اس پر بنی امیہ کا قبضہرہا۔ جب خلافت بنی عباس کا زمانہآیا تو پہلے عباسی خلیفہ عبداللہ سفاح نے اولاد امام حسن علیہ السلام کے سپرد کیا اور وہ حقوق وارثت کی صورت میں آمدنی کو بنی فاطمہ کے درمیان تقسیم کردیتے تھے۔

عبداللہ مہدی، اور مامون عباسی کا نسل فاطمہ(ع) کو فدک واپس دینا

جب اولاد امام حسن(ع) پر مںصور نے خروج کیا تو فدک ان سے چھین لیا، جب اس کا بیٹا مہدی خلیفہہوا تو ان کو لوٹا دیا، موسی بن ہادی خلیفہ ہوا تو اس نے پھر ضبط کر لیا، یہاں تک کہ مامون الرشید عباسی نے اپنی خلافت کے دور میں حکم دیا کہ اس کو اولاد علی اور بنی فاطمہ(ع) کے حق واگزار کر دیا جائے۔

یاقوت حمومی نے معجم البلدان طبع اول ذیل حرف" ف، و" میں مامون کے پروانے کی عبارت درج ہے کہ اس نے اپنے عامل قثم بن جعفر کو لکھا:

انه کان رسول الله صلی اللهعليه وسلم اعطی ابنته فاطمه رضی الله عنها فدک و تصدق عليها بها و ان ذالک کا امرا ظاهرا معروفا عند آلهعليه الصلوة والسلام"

یعنی بتحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک اپنی بیٹی فاطمہ(ع) کو عطا فرما دیا تھا اور یہ امر آں حضرت کی اولاد کے نزدیک ظاہر اور معروف تھا۔

مشہور شاعر دعبل خزاعی بھی موجود تھے انہوں نے اٹھ کر کچھ اشعار پڑھے جن کا مطلع یہ تھا

اصبح وجه الزمان قد ضحکا برد مامون هاشم فدکا

یعنی آج زمانہ شاد و خنداں ہے کہ مامون نے بنی ہاشم کو فدک لوٹا دیا۔

۹۶

فدک کے عطیہ ہونے کا ثبوت

یہ قطعی دلیلوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پاس رسول(ص) کا عطیہ تھا جس کو روز اول ہی بغیر کسی شرعی جواز کے غصب کر لیا گیا، لہذا بعض خلفاء نے انصاف یا سیاست کی بنا پر اس کو ان مظلوم بی بی کی اولاد کی طرف پلٹا دیا۔

حافظ : اگرفدک فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بخش دیا گیا تھا تو انہوں نے وراثت کا دعوی کیوں کیا اور ہبہ کے بارے میں کوئی لفظ کیوں نہیں کیا؟

خیر طلب: پہلی مرتبہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ہبہ ہی کا دعوی کیا لیکن جب شارع مقدس اسلام کی ہدایت کے خلاف قابض و متصرف سے گواہ طلب کئے گئے اور انہوں نے گواہ پیش کردئے تو شرع انور کے برخلاف ان شہادتوں کو رد کردیا گیا، لہذا آپ نے مجبورا وراثت کا راستہ اختیار کیا تاکہ احقاق حق ہوجائے۔

حافظ : میراخیال ہے کہ آپ کو دھوکا ہو رہا ہے اس لیے کہ کسی مقام پر یہ نہیں دیکھا گیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہبہ کے سلسلے میں ایک حرف بھی کہا ہو۔

خیر طلب: مجھ کو دھوکا نہیں ہوا بلکہ یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ فقط شیعہ میں نہیں بلکہ خود آپ کےاکابر علماء کی کتابوں میں بھی درج ہے چنانچہ سیرۃ الحلبیہ مولفہ علی بن برہان الدین حلبی شافعی متوفی سنہ۱۰۴۴ھ کے ص۳۹ پر لکھا ہوا ہے کہ پہلے فاطمہ(ع) نے ابوبکر سے اس عنوان پر مناظرہ کیا کہ فدک پر ان کا مالکانہ قبضہ ہے اور رسول خدا(ص) نے ان کو عطا کردیا تھا، لیکن چونکہ شرعی گواہ نہیں مل سکے لہذا مجبورا وراثت کے قاعدے سے دعوی کیا پس وراثت کا دعوی ہبہ کےبعد تھا۔

نیز امام فخر الدین تفسیر کبیر ضمن ادعائے فاطمہ(ع) میں ، یاقوب حموی، معجم البلدان میں، ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص۸۰ میں ابوبکر جوہری سے اور ابن حجر متعصب صواعق محرقہ میں آخر صہ۲۱ میں شہبہ ہفتم از شبہات رفضہ کے ضمن میں کلام کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا پہلا دعوی ہبہ کے متعلق تھا لیکن جب ان کی گواہیاں مسترد کردی گئیں تو رنجیدہ اور ناراض ہو کر فرمایا کہ اب میں آئیندہ تم سے بات نہیں کروں گی۔(۱)

اور ہوا بھی یہی کہ پھر نہ ان لوگوں سے ملاقات کی نہ ان سے ہمکلام ہوئیں، یہاں تک کہ آپ کی وفات کا زمانہ آیا تو وصیت کردی کہ ان میں سے کوئی بھی میرے جنازے پر نماز نہ پڑھے۔ آپ کے چچا عباس نے نماز پڑھی اور رات کے وقت دفن کی گئیں۔

(لیکن پر بنائے روایات شیعہ و بیانات ائمہ عترت طاہر حضرت علی علیہ السلام نے جناب معصومہ پر نماز پڑھی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ یہاں تک ابن تیمیہ اور ابن قیم وغیرہ اکابر علمائے اہل سنت نے بھی اقرار کیا ہے کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے دعوی کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک مجھ کو بخش دیا ہے۔

۹۷

مخالفین کا قول کہ ابوبکر نے آیہ شہادت پر عمل کیا اور اس کا جواب

حافظ : اس میں کوئی شک نہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بہت دل تنگ اور رنجیدہ خاطر ہوئیں لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی زیادہ قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ بھی شرع کی ظاہری صورت پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے۔ چونکہ آیت شہادت کا عام حکم ہے کہ مدعی کو اپنے ثبوت میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں یا چار عورتیں جو دو مردوں کے برابر ہیں گواہی میں پیش کرنا چاہئیے اور یہاں گواہوں کی تعداد مکمل نہیں ہوسکی لہذا وہ بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے موافق کوئی قطعی فیصلہ نہیں دے سکے۔

خیر طلب: ممکن ہے اس مقام پر سلسلہ کلام طولانی ہوجائے اور حضرات حاضرین جلسہ کے لیے باعث زحمت ہو لہذا آگر آپ بھی مناسب سمجھیں تو بہتر ہوگا کہ بقیہ گفتگو کل شب کے لیے اٹھا رکھی جائے؟

نواب : قبلہ صاحب! ہمارے درمیان ایک اہم موضوع یہ بھی زیر بحث تھا اور ہم اس کی حقیقت معلوم کرنے کے از حد مشتاق ہیں، حسن اتفاق سے آج یہ مسئلہ معرض تحقیق میں آگیا ہے لہذا التجا ہے کہ اگر آپ خستگی اور تکان محسوس نہ کر رہے ہوں تو مطلب ادھورا نہ چھوڑئیے کیونکہ بات کٹ جانے سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔یہ گفتگو اگر صبح تک طول کھینچے تب بھی ہم سامعین کی جانب سے کوئی عذر نہیں بلکہ سب اتنہائی شوق و ذوق سے سننے کے لیے تیار ہیں، اور جب تک یہ قضیہ حل نہ ہوجائے یہاں سے واپس نہ جائیں گے۔ آپ پوری وضاحت کےساتھ تقریر فرمائیں۔ البتہ اگر آپ ہی تھک گئے ہوں تو ایسی صورت میں ہم تکلیف نہ دیں گے۔

خیر طلب: مجھ کو علمی اور دینی مباحث میں کبھی زحمت یا خستگی نہیں ہوتی، میں تو صرف آپ حضرات کا خیال کررہا ہوں کیونکہ سبھی کی رعایت ملحوظ رکھنا چاہئیے۔

( سارے اہل جلسہ نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کے بیانات باعثِ زحمت نہیں ہیں، خصوصا فدک کے موضوع پر جو بہت اہم اور قابل سماعت ہے اور ہم سب اس کے لیے بے چین ہیں۔)

خیر طلب: حافظ صاحب نے فرمایا ہے کہ خلیفہ شرعی قانون پر عمل کرنے کے لیے مجبور تھے۔ چونکہ گواہ پورے نہیں تھے اس لیے حکم صادر نہیں ہوا۔ اس مقام پر چند جملے عرض کرنا ضروری ہیں۔ آپ حضرات انصاف سے فیصلہ کریں۔

قابض و متصرف سے گواہ مانگنا خلافِ شرع تھا

اولا بقول آپ کے حضرات ابوبکر قانون شرع سے مجبور تھے تو یہ فرمائیے کہ شرع میں یہ حکم کہاں پر ہے کہ قبضہ وار سے گواہ طلب کئے جائیں؟ بالاتفاق ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا قابض و متصرف تھیں لہذا ابوبکر کا یہ عمل جس کو آپ کے

۹۸

تمام علماء نے لکھا ہے کہ ان مظومہ بی بی سے گواہ طلب کئے آخر دین و شریعت کے کس قانون کے مطابق تھا؟ کیا شریعت کا دستور یہ نہیں ہے کہ گواہ مدعی کو پیش کرنا چاہئیے متصرف کو نہیں؟ آیا یہ طریقہ انور کے خلاف تھا یا نہیں؟ ذرا انصاف سے فیصلہ کیجئے۔

ثانیا آیہ شہادت کی عمومیت سے کسی کا انکار نہیں ہے، اس کی عمومیت اپنی جگہ پر باقی ہے لیکن بمقتضائے قاعدہ مسلمہ ما من عام الا و قد خص ، یعنی ہر عام کا ایک خاص ہوتا ہے ۱۲ مترجم) قابل استثناء اور تخصیص کی حامل ضرور ہے۔

حافظ : آپ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ آیہ شہادت تخصیص کی حامل ہے؟

خزیمہ ذوالشہادتین

خیر طلب : اس مقصد کی دلیل وہ روایت ہے جو آپ کی معتبر صحاح کے اندر بھی نقل ہوئی ہے کہ جس وقت خزیمہ ابن ثابت نے گھوڑے کی فروخت کے معاملے میں ایک عرب کے مقابل جس نے رسول اللہ(ص) کے خلاف دعوی کیا تھا آں حضرت(ص) کے موافق شہادت دی تو تنہا انہیں کی گواہی کافی سمجھی گئی اور پیغمبر(ص) نے ان کا لقب ذوالشہادتین مقرر فرمایا کیونکہ ان کی ایک شہادت دو عادل گواہوں کے برابر قرار دی گئی پس معلوم ہوا کہ آیہ شہادت کی تخصیص موجود ہے۔ جہاں پر امت کی ایک مومن اور صحابی ذوخزیمہ آیت کے مخصص بن جائیں وہاں علی(ع) و فاطمہ علیہما السلامجو نبض آیہ تطہیر درجہ عصمت پر فائز ہیں بدرجہ اولی مستثنی ہوں گے۔ معصوم و معصومہ اور صدیق و صدیقہ قطعا کذب و دروغ سے مبرا ہیں اور ان کی تردید یقینا خدا کی تردید ہے۔

فاطمہ(ع) کے گواہوں کی تردید

صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ(ع) نے دعوی کیا کہ فدک میرا نحلہ ہے اور میرے باپ نے مجھ کو بخش دیا تھا اور میں خود آں حضرت(ص) کی حیات ہی میں اس پر متصرف تھی۔ اس دستور شرع کے خلاف جناب معصومہ سےگواہ مانگے گئے۔ آپ نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، ام ایمن اور حسنین علیہا السلام کو شہادت میں پیش کیا لیکن ان کو رد کردیا گیا۔ آیا یہ عمل حقیقت اور قواعد شرع کے بر خلاف نہیں تھا اگر فاطمہ کے پاس سوا قبضے کے اور کوئی گواہ نہ ہوتا تب بھی قانون شریعت کے مطابق آپ کی حقانیت کے لیے کافی تھا۔ علاوہ اس کے کہ خدائے تعالی نے آیہ تطہیر میں ان معظمہ کی پاکیزگی کی شہادت دی ہے کہ آپ ہر رجس اور گندگی سے مبرا ہیں جس میں جھوٹ بولنا اور غلط ادعا کرنا بھی شامل ہے۔ بالخصوص ایسی صورت میں کہ امیرالمومنین علی علیہ السلام جیسے کامل گواہ نے ان طاہرہ بی بی کی صداقت پر شہادت دی، جن کی گواہی کو جھٹلانا قطعا خدا کو جھٹلانا ہے، کیونکہ خدائے اعلی نے علی علیہ السلام کو آیات قرآنی میں صادق و صدیق فرمایا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس کی تصدیق خدا کرے اس کی بات کو رد کرنے کی جرائت کیونکہ ہوئی؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ

۹۹

علی کے ساتھ رہو یعنی ان کی پیروی کرو، اور جیسے زید" عدل" اپنی اتنہائی سچائی کی وجہ سے مجسمہ صدق بن گئے تھے آپ کو بھی صادق فرمایا چنانچہ آیت نمبر۱۲۰ سورہ نمبر۹(توبہ) میں ارشاد ہے۔

"ياأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااتَّقُوااللَّهَوَكُونُوامَعَ‏ الصَّادِقِينَ‏"

یعنی اے مومنین خدا سے ڈرو اور سچوں کے( جن سے محمدج(ص) و علی(ع) اور اہل رسولی مراد ہیں، ساتھ رہو۔

جیسا کہ اسی کتاب کے ص؟؟؟؟ میں اشارہ ہوچکا ہے۔

حافظ : یہ آیت آپ کے مقصد پر کیونکر دلالت کرتی ہے جس سے علی کرم اللہ وجہہ کی پیروی فرض ہوجائے؟

صادقین سے محمد(ص) و علی(ع) مراد ہیں

خیر طلب : آپ کے اکابر علماء اپنی کتابوں اور تفسیروں میں کہتے ہیں کہ یہ آیت محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام کی شان میں نازل ہوئی ہے کہ صادقین سے یہی دونوں بزرگوار اور بعض اخبار کی بنا پر علی علیہ السلام مراد ہیں، نیز دوسری بعض روایتوں میں ہے کہ عترت رسول(ص) مراد ہے۔

امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، جلال الدین سیوطی درالمنثور میں ابن عباس سے، حافظ ابوسعید عبدالملک بن محمد خرگوشی کتاب شرف المصطفے میں اصمعی سے اور حافظ ابو نعیم اصفہانی حلیتہ الاولیاء میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا " ہو محمد و علی علیہا السلام " ( یعنی یہ صادق محمد و علی علیہما السلام ہیں ۱۲ مترجم)

شیخ سلمان حنفی ینابیع المودۃ باب ۲۹ ص۱۱۹ مطبوعہ اسلام بول میں موفق بن احمد خوارزمی۔ حافظ ابونعیم اصفہانی اور حموینی سے بروایت ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ

" الصادقون فی هذه الايةمحمد صلی الله عليه و سلم و اهلبيته"

یعنی اس آیت میں صادقین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور ان کے اہل بیت طاہرین ہیں۔

اور شیخ الاسلام ابراہیم بن محمد حموینی جو آپ کے اجلہ علماء میں سے ہیں فرائد السمطین میں، محمد بن یوسف گنجی کفایت الطالب باب ۶۲ میں، نیز محدث شام اپنی تاریخ میں سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ:

"مع الصادقين ای مع علی ابن ابی طالب " (یعنی صادقین کے ساتھ یعنی علی ابن ابی طالب کے ساتھ۱۲ مترجم)

(۲) آیت نمبر۳۴ سورہ نمبر۳۹ ( زمر) میں فرماتا ہے۔

"وَالَّذِيجاءَبِالصِّدْقِ‏وَصَدَّقَبِهِأُولئِكَهُمُالْمُتَّقُونَ."

یعنی جو شخص سچی بات لے کر آیا ( پیغمبر(ص)) اور جس نے اس کی تصدیق کی( علی ابن ابی طالب)

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

جناب ابوبکر کی اس حدیث کی تائید کردی ((ص) )_

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس مباحثے میں بھی حضرت زہراء (ع) غالب آئیں اور دلائی و برہان سے ثابت کردیا کہ وہ حدیث جس کا تم دعوی کر رہے ہو وہ صریح قرآنی نصوص کے خلاف ہے اور جو حدیث بھی قرآن کی صریح نص کے خلاف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتی جناب ابوبکر مغلوب ہوئے اور آپ کے پاس اس کے سوا کوئی علاج نہ تھا کہ جناب فاطمہ (ع) کے جواب میں اسی سابقہ جواب کی تکرار کریں_

یہاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہی جناب عائشےہ جنہوں نے اس جگہ اپنے باپ کی بیان کردہ وضعی حدیث کی تائید کی ہے جناب عثمان کی خلافت کے زمانے میں ان کے پاس گئیں اور پیغمبر (ص) کی وراثت کا ادعا کیا_ جناب عثمان نے جواب دیا کیا تم نے گواہی نہیں دی تھی کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے؟ اور اسی سے تم نے جناب فاطمہ (ع) کو وراثت سے محروم کردیا تھا، اب کیسے آپ خود رسول (ص) کی وراثت کا مطالبہ کر رہی ہیں(۲) _

خلیفہ سے وضاحت کا مطالبہ

جناب زہراء (ع) پہلے مرحلہ میں کامیاب ہوئیں اور اپنی منطق اور برہان سے اپنے مد مقابل کو محکوم

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ س ۱۰۴_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۵_

۱۸۱

کردیا قرآن مجید کی آیات سے اپنی حقانیت کو ثابت کیا اور اپنے مد مقابل کو اپنے استدلال سے ناتواں بنادیا، آپ نے دیکھا کہ _ مد مقابل اپنی روش کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کے عمل کو بجالانے کے لئے حتی کہ حدیث بناکر پیش کرنے کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور دلیل و برہان کے مقابلے میں قوت اور طاقت کا سہارا ڈھونڈتا ہے_

آپ نے تعجب کیا اور کہا عجیب انہوں نے میرے شوہر کی خلافت پر قبضہ کرلیا ہے_ یہ آیات قرآن کے مقابل کیوں سر تسلیم خم نہیں کرتے؟ کیوں اسلام کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں؟ کیوں جناب ابوبکر تو مجھے تحریر لکھ کر دیتے ہیں لیکن جناب عمر اسے پھاڑ ڈالتے ہیں؟ اے میرے خدا یہ کسی قسم کی حکومت ہے اور یہ کسی قضاوت ہے؟ تعجب در تعجب: جناب ابوبکر رسول خدا(ص) کی جگہ بیٹھتے ہیں، لیکن حدیث از خود بناتے ہیں تا کہ میرے حق کو پائمال کریں؟ ایسے افراد دین اور قرآن کے حامی ہوسکتے ہیں؟ مجھے فدک اور غیر فدک سے دلچسپی نہیں لیکن اس قسم کے اعمال کو بھی تحمل نہیں کرسکتی بالکل چپ نہ رہوں گی اور مجھے چاہیئے کہ تما لوگوں کے سامنے خلیفہ سے وضاحت طلب کروں اور اپنی حقانیت کو ثابت کروں اور لوگوں کو بتلادوں کہ جس خلیفہ کا تم نے انتخاب کیا ہے اس میں صلاحیت نہیں کہ قرآن اور اسلام کے دستور پر عمل کرے اپنی مرضی سے جو کام چاہتا ہے انجام دیتا ہے_ جی ہان مسجد جاؤں گی اور لوگوں کے سامنے تقریر کروں گی_

یہ خبر بجلی کی طرح مدینہ میں پھیل گئی اور ایک بم کی طرح پورے شہر کو ہلاک رکھ دیا، فاطمہ (ع) جو کہ پیغمبر(ص) کی نشانی ہیں چاہتی ہیں کہ تقریر کریں؟ لیکن

۱۸۲

کس موضوع پر تقریر ہوگی؟ اور خلیفہ اس پر کیا رد عمل ظاہر کرے گا؟ چلیں آپ کی تاریخی تقریر کو سنیں_

مہاجر اور انصار کی جمعیت کا مسجد میں ہجوم ہوگیا، بنی ہاشم کی عورتیں جناب زہراء (ع) کے گھر گئیں اور اسلام کی بزرگ خاتون کو گھر سے باہر لائیں، بنی ہاشم کی عورتیں آپ کو گھیرے میں لئے ہوئے تھیں، بہت عظمت اور جلال کے ساتھ آپ چلیں، پیغمبر(ص) کی طرح قدم اٹھا رہی تھیں، جب مسجد میں داخل ہوئیں تو پردہ آپ کے سامنے لٹکا دیاگیا، باپ کی جدائی اور ناگوار حوادث نے جناب فاطمہ (ع) کو منقلب کردیا کہ آپ کے جگر سے آہ و نالہ بلند ہوا اور اس جلا دینے والی آواز نے مجمع پر بھی اثر کیا اور لوگ بلند آواز سے رونے لگے_

آپ تھوڑی دیر کے لئے ساکت رہیں تا کہ لوگ آرام میں آجائیں اس کے بعد آپ نے گفتگو شروع کی، اس کے بعد پھر ایک دفعہ لوگوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں آپ پھر خاموش ہوگئیں یہاں تک کہ لوگ اچھی طرح ساکت ہوگئے اس وقت آپ نے کلام کا آغاز کیا اور فرمایا:

جناب فاطمہ (ع) کی دہلا اور جلادینے والی تقریر

میں خدا کی اس کی نعمتوں پر ستائشے اور حمد بجالاتی ہوں اور اس کی توفیقات پر شکر ادا کرتی ہوں اس کی بے شمار نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا بجالاتی ہوں وہ نعمتیں کہ جن کی کوئی انتہانہیں اور نہیں ہوسکتا کہ

۱۸۳

ان کی تلافی اور تدارک کیا جاسکے ان کی انتہا کاتصور کرنا ممکن نہیں، خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکریہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالی نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکرہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالی مقامی نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا نے ہم سے حمد و ثنا کو طلب کیا ہے تا کہ وہ اپنی نعمتوں کو ہمارے لئے زیادہ کرے_

میں خدا کی توحید اور یگانگی گواہی دیتی ہوں توحید کا وہ کلمہ کہ اخلاص کو اس کی روح اور حقیقت قرار دیا گیا ہے اور دل میں اس کی گواہی دے تا کہ اس سے نظر و فکر روشن ہو، وہ خدا کہ جس کو آنکھ کے ذریعے دیکھا نہیں جاسکتا اور زبان کے ذریعے اس کی وصف اور توصیف نہیں کی جاسکتی وہ کس طرح کا ہے یہ وہم نہیں آسکتا_ عالم کو عدم سے پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے میں وہ محتاج نہ تھا اپنی مشیئت کے مطابق خلق کیا ہے_ جہان کے پیا کرنے میں اسے اپنے کسی فائدے کے حاصل کرنے کا قصد نہ تھا_ جہان کو پیدا کیا تا کہ اپنی حکمت اور علم کو ثابت کرے اور اپنی اطاعت کی یاد دہانی کرے، اور اپنی قدرت کا اظہار کرے، اور بندوں کو عبادت کے لئے برانگیختہ کرے، اور اپنی دعوت کو وسعت دے، اپنی اطاعت کے لئے جزاء مقرر کی اور نافرمانی کے لئے سزا معین فرمائی_ تا کہ اپنے بندوں کو عذاب سے نجات دے اور بہشت کی طرف لے جائے_

میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمد(ص) اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں، پیغمبری کے لئے بھیجنے سے پہلے اللہ نے ان کو چنا اور قبل

۱۸۴

اس کے کہ اسے پیدا کرے ان کا نام محمّد(ص) رکھا اور بعثت سے پہلے ان کا انتخاب اس وقت کیا جب کہ مخلوقات عالم غیب میں پنہاں اور چھپی ہوئی تھی اور عدم کی سرحد سے ملی ہوئی تھی، چونکہ اللہ تعالی ہر شئی کے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان کے مقدرات کے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے ، خدا نے محمّد(ص) کو مبعوث کیا تا کہ اپنے امر کو آخر تک پہنچائے اور اپنے حکم کو جاری کردے، اور اپنے مقصد کو عملی قرار دے_ لوگ دین میں تفرق تھے اور کفر و جہالت کی آگ میں جل رہے تھے، بتوں کی پرستش کرتے تھے اور خداوند عالم کے دستورات کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے_

پس حضرت محمّد(ص) کے وجود مبارک سے تاریکیاں چھٹ گئیں اور جہالت اور نادانی دلوں سے دور ہوگئی، سرگردانی اور تحیر کے پردے آنکھوں سے ہٹا دیئے گئے میرے باپ لوگوں کی ہدایت کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کو گمراہی سے نجات دلائی اور نابینا کو بینا کیا اور دین اسلام کی طرف راہنمائی فرمائی اور سیدھے راستے کی طرف دعوت دی، اس وقت خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کی مہربانی اور اس کے اختیار اور رغبت سے اس کی روح قبض فرمائی_ اب میرے باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ہیں اور آخرت کے عالم میں اللہ تعالی کے فرشتوں اور پروردگار کی رضایت کے ساتھ اللہ تعالی کے قرب میں زندگی بسر کر رہے ہیں، امین اور وحی کے لئے چتے ہوئے پیغمبر پر درود ہو_

آپ نے اس کے بعد مجمع کو خطاب کیا اور فرمایا لوگو تم اللہ تعالی

۱۸۵

کے امر اور نہی کے نمائندے اور نبوت کے دین اور علوم کے حامل تمہیں اپنے اوپر امین ہونا چاہیئےم ہو جن کو باقی اقوام تک دین کی تبلیغ کرنی ہے تم میں پیغمبر(ص) کا حقیقی جانشین موجود ہے اللہ تعالی نے تم سے پہلے عہد و پیمان اور چمکنے والانور ہے اس کی چشم بصیرت روش اور رتبے کے آرزومند ہیں اس کی پیروی کرنا انسان کو بہشت رضوان کی طرف ہدایت کرتا ہے اس کی باتوں کو سننا نجات کا سبب ہوتا ہے اس کے وجود کی برکت سے اللہ تعالی کے نورانی دلائل اور حجت کو دریافت کیا جاسکتا ہے اس کے وسیلے سے واجبات و محرمات اور مستحبات و مباح اور شریعت کے قوانین کو حاصل کیا جاسکتا ہے_

اللہ تعالی نے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے___ اللہ نے نماز واجب کی تا کہ تکبر سے روکاجائے_ زکوة کو وسعت رزق اور تہذیب نفس کے لئے واجب قرار دیا_ روزے کو بندے کے اخلاص کے اثبات کے لئے واجب کیا_ حج کو واجب کرنے سے دین کی بنیاد کو استوار کیا، عدالت کو زندگی کے نظم اور دلوں کی نزدیکی کے لئے ضروری قرار دیا، اہلبیت کی اطاعت کو ملت اسلامی کے نظم کے لئے واجب قرار دیا اور امامت کے ذریعے اختلاف و افتراق کا سد باب کیا_ امر بالمعروف کو عمومی مصلحت کے ماتحت واجب قرار دیا، ماں باپ کے ساتھ نیکی کو ان کے غضب سے مانع قرار دیا، اجل کے موخر ہونے اور نفوس کی زیادتی کے لئے صلہ رحمی کا دستور دیا_

۱۸۶

قتل نفس کو روکنے کے لئے قصاص کو واجب قرار دیا_ نذر کے پورا کرنے کو گناہوں گا آمرزش کا سبب بنایا_ پلیدی سے محفوظ رہنے کی غرض سے شراب خوری پر پابندی لگائی، بہتان اور زنا کی نسبت دینے کی لغت سے روکا، چوری نہ کرنے کو پاکی اور عفت کا سبب بتایا_ اللہ تعالی کے ساتھ شرک، کو اخلاص کے ماتحت ممنوع قرار دیا_

لوگو تقوی اور پرہیزگاری کو اپناؤ اور اسلام کی حفاظت کرو اور اللہ تعالی کے اوامر و نواحی کی اطاعت کرو، صرف علماء اور دانشمندی خدا سے ڈرتے ہیں_

اس کے بعد آپ نے فرمایا، لوگو میرے باپ محمد(ص) تھے اب میں تمہیں ابتداء سے آخر تک کے واقعات اور امور سے آگاہ کرتی ہوں تمہیں علم ہونا چاہیئےہ میں جھوٹ نہیں بولتی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کرتی_

لوگو اللہ تعالی نے تمہارے لئے پیغمبر(ص) جو تم میں سے تھا بھیجا ہے تمہاری تکلیف سے اسے تکلیف ہوتی تھی اور وہ تم سے محبت کرتے تھے اور مومنین کے حق میں مہربان اور دل سوز تھے_

لوگو وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ تمہاری عورت کے باپ، میرے شوہر کے چچازاد بھائی تھے نہ تمہارے مردوں کے بھائی، کتنی عمدہ محمّد(ص) سے نسبت ہے_ جناب محمد(ص) نے اپنی رسالت کو انجام دیا اور مشرکوں کی راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان کی پشت پر سخت ضرب وارد کی ان کا گلا پکڑا اور دانائی اور نصیحت سے خدا کی طرف دعوت دی، بتوں کو توڑا اور ان کے سروں کو سرنگوں کیا کفار نے شکست کھائی اور شکست کھا کر

۱۸۷

بھاگے تاریکیاں دور ہوگئیں اور حق واضح ہوگیا، دین کے رہبر کی زبان گویا ہوئی اور شیاطین خاموش ہوگئے، نفاق کے پیروکار ہلاک ہوئے کفر اور اختلاف کے رشتے ٹوٹ گئے گروہ اہلبیت کی وجہ سے شہادت کا کلمہ جاری کیا، جب کہ تم دوزخ کے کنارے کھڑے تھے اور وہ ظالموں کا تر اور لذیذ لقمہ بن چکے تھے اور آگ کی تلاش کرنے والوں کے لئے مناسب شعلہ تھے_ تم قبائل کے پاؤں کے نیچے ذلیل تھے گندا پانی پیتے تھے اور حیوانات کے چمڑوں اور درختوں کے پتوں سے غذا کھاتے تھے دوسروں کے ہمیشہ ذلیل و خوار تھے اور اردگرد کے قبائل سے خوف و ہراس میں زندگی بسر کرتے تھے_

ان تمام بدبختیوں کے بعد خدا نے محمد(ص) کے وجود کی برکت سے تمہیں نجات دی حالانکہ میرے باپ کو عربوں میں سے بہادر اور عرب کے بھیڑیوں اور اہل کتاب کے سرکشوں سے واسطہ تھا لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑکاتے تھے خدا سے خاموش کردیتا تھا، جب کوئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشرکوں میں سے کوئی بھی کھولتا تو محمد(ص) اپنے بھائی علی (ع) کو ان کے گلے میں اتار دیتے اور حضرت علی (ع) ان کے سر اور مغز کو اپنی طاقت سے پائمال کردیتے اور جب تک ان کی روشن کی ہوئی آگ کو اپنی تلوار سے خاموش نہ کردیتے جنگ کے میدان سے واپس نہ لوٹتے اللہ کی رضا کے لئے ان تمام سختیوں کا تحمل کرتے تھے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتے تھے، اللہ کے رسول کے نزدیک تھے_ علی (ع) خدا دوست تھے، ہمیشہ جہاد کے لئے آمادہ تھے، وہ تبلیغ اور جہاد کرتے تھے اور تم اس حالت میں آرام اور خوشی میں خوش و خرم زندگی گزار

۱۸۸

رہے تھے اور کسی خبر کے منتظر اور فرصت میں رہتے تھے دشمن کے ساتھ لڑائی لڑنے سے ا جتناب کرتے تھے اور جنگ کے وقت فرار کرجاتے تھے_

جب خدا نے اپنے پیغمبر کو دوسرے پیغمبروں کی جگہ کی طرف منتقل کیا تو تمہارے اندرونی کینے اور دوروئی ظاہر ہوگئی دین کا لباس کہنہ ہوگیا اور گمراہ لوگ باتیں کرنے لگے، پست لوگوں نے سر اٹھایا اور باطل کا اونٹ آواز دیتے لگا اور اپنی دم ہلانے لگا اور شیطان نے اپنا سرکمین گاہ سے باہر نکالا اور تمہیں اس نے اپنی طرف دعوت دی اور تم نے بغیر سوچے اس کی دعوت قبول کرلی اور اس کا احترام کیا تمہیں اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمہیں غضبناک ہونے کا حکم دیا اور تم غضبناک ہوگئے_

لوگو وہ اونٹ جو تم میں سے نہیں تھا تم نے اسے با علامت بناکر اس جگہ بیٹھایا جو اس کی جگہ نہیں تھی، حالانکہ ابھی پیغمبر(ص) کی موت کو زیادہ وقت نہیں گزرا ہے ابھی تک ہمارے دل کے زخم بھرے نہیں تھے اور نہ شگاف پر ہوئے تھے، ابھی پیغمبر(ص) کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تم نے فتنے کے خوف کے بہانے سے خلافت پر قبضہ کرلیا، لیکن خبردار رہو کہ تم فتنے میں داخل ہوچکے ہو اور دوزخ نے کافروں کا احاطہ کر رکھا ہے_ افسوس تمہیں کیا ہوگیا ہے اور کہاں چلے جارہے ہو؟ حالانکہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے اور اس کے احکام واضح اور اس کے اوامر و نواہی ظاہر ہیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تمہارا ارادہ ہے کہ قرآن سے اعراض اور روگردانی

۱۸۹

کرلو؟ یا قرآن کے علاوہ کسی اور ذریعے سے قضاوت اور فیصلے کرتا چاہتے تو؟ لیکن تم کو علم ہونا چاہیئے کہ جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیار کرے گا وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا، اتنا صبر بھی نہ کرسکے کہ وہ فتنے کی آگ کو خاموش کرے اور اس کی قیادت آسان ہوجائے بلکہ آگ کو تم نے روشن کیا اور شیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول خدا(ص) کے خاموش کرنے میں مشغول ہوگئے ہو_ کام کو الٹا ظاہر کرتے ہو اور پیغمبر(ص) کے اہلبیت کے ساتھ مکر و فریب کرتے ہو، تمہارے کام اس چھری کے زخم اور نیزے کے زخم کی مانند ہیں جو پیٹ کے اندر واقع ہوئے ہوں_

کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ ہم پیغمبر(ص) سے میراث نہیں لے سکتے، کیا تم جاہلیت کے قوانین کی طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانکہ اسلام کے قانون تمام قوانین سے بہتر ہیں، کیا تمہیں علم نہیں کہ میں رسول خدا(ص) کی بیٹی ہوں کیوں نہیں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب کی طرح یہ روشن ہے_ مسلمانوں کیا یہ درست ہے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم ہوجاؤں؟ اے ابوبکر آیا خدا کی کتاب میں تو لکھا ہے کہ تم اپنے باپ سے میراث لو اور میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رہوں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں کہتا کہ سلیمان داود کے وارث ہوئے_

''ورث سلیمان داؤد''

کیا قرآن میں یحیی علیہ السلام کا قول نقل نہیں ہوا کہ خدا سے انہوں نے عرض کی پروردگار مجھے فرزند عنایت فرما تا کہ وہ میرا وارث

۱۹۰

قرار پائے او آل یعقوب کا بھی وارث ہو_

کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ بعض رشتہ دار بعض دوسروں کے وارث ہوتے ہیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ اللہ نے حکم دیا کہ لڑکے، لڑکیوں سے دوگنا ارث لیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ تم پر مقرر کردیا کہ جب تمہارا کوئی موت کے نزدیک ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے کیونکہ پرہیزگاروں کے لئے ایسا کرنا عدالت کا مقتضی ہے_

کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں باپ سے نسبت نہیں رکھتی؟ کیا ارث والی آیات تمہارے لئے مخصوص ہیں اور میرے والد ان سے خارج ہیں یا اس دلیل سے مجھے میراث سے محروم کرتے ہو جو دو مذہب کے ایک دوسرے سے میراث نہیں لے سکتے؟ کیا میں اور میرا باپ ایک دین پر نہ تھے؟ آیا تم میرے باپ اور میرے چچازاد علی (ع) سے قرآن کو بہتر سمجھتے ہو؟

اے ابوبکر فدک اور خلافت تسلیم شدہ تمہیں مبارک ہو، لیکن قیامت کے دن تم سے ملاقات کروں گی کہ جب حکم اور قضاوت کرنا خدا کے ہاتھ میں ہوگا اور محمد(ص) بہترین پیشوا ہیں_

اے قحافہ کے بیٹھے، میرا تیرے ساتھ وعدہ قیامت کا دن ہے کہ جس دن بیہودہ لوگوں کا نقصان واضح ہوجائے گا اور پھر پشیمان ہونا فائدہ نہ دے گا بہت جلد اللہ تعالی کے عذاب کو دیکھ لوگے آپ اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:

اے ملت کے مددگار جوانو اور اسلام کی مدد کرنے والو کیوں حق

۱۹۱

کے ثابت کرنے میں سستی کر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس سے خواب غفلت میں ہو؟ کیا میرے والد نے نہیں فرمایا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ ہوتا ہے یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولاد کا احترام کیا کرو؟ کتنا جلدی فتنہ برپا کیا ہے تم نے؟ اور کتنی جلدی ہوی اور ہوس میں مبتلا ہوگئے ہو؟ تم اس ظلم کے ہٹانے میں جو مجھ پر ہوا ہے قدرت رکھتے ہو اور میرے مدعا اور خواستہ کے برلانے پر طاقت رکھتے ہو_ کیا کہتے ہو کہ محمد(ص) مرگئے؟ جی ہاں لیکن یہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے کہ ہر روز اس کا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس کا خلل زیادہ ہو رہا ہے_ آنجناب(ص) کی غیبت سے زمین تاریک ہوگئی ہے سورج اور چاند بے رونق ہوگئے ہیں آپ کی مصیبت پر ستارے تتربتر ہوگئے ہیں، امیدیں ٹوٹ گئیں، پہاڑ متزلزل اور ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں پیغمبر(ص) کے احترام کی رعایت نہیں کی گئی، قسم خدا کی یہ ایک بہت بڑی مصیبت تھی کہ جس کی مثال ابھی تگ دیکھی نہیں گئی اللہ کی کتاب جو صبح اور شام کو پڑھی جا رہی ہے آپ کی اس مصیبت کی خبر دیتی ہے کہ پیغمبر(ص) بھی عام لوگوں کی طرح مریں گے، قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ محمد(ص) بھی گزشتہ پیغمبروں کی طرح ہیں، اگر آپ(ص) مرے یا قتل کئے گئے تو تم دین سے پھر جاوگے، جو بھی دین سے خارج ہوگا وہ اللہ پر کوئی نقصان وارد نہیں کرتا خدا شکر ادا کرنے والوں کو جزا عنایت کرتا ہے(۱) _

اے فرزندان قبلہ: آیا یہ مناسب ہے کہ میں باپ کی میراث سے محروم

____________________

۱) سورہ آل عمران_

۱۹۲

رہوں جب کہ تم یہ دیکھ رہے ہو اور سن رہے ہو اور یہاں موجود ہو میری پکار تم تک پہنچ چکی ہے اور تمام واقعہ سے مطلع ہو، تمہاری تعداد زیادہ ہے اور تم طاقت ور اور اسلحہ بدست ہو، میرے استغاثہ کی آواز تم تک پہنچتی ہے لیکن تم اس پر لبیک نہیں کہتے میری فریاد کو سنتے ہو لیکن میری فریاد رسی نہیں کرتے تم بہادری میں معروف اور نیکی اور خیر سے موصوف ہو، خود نخبہ ہو اور نخبہ کی اولاد ہو تم ہم اہلبیت کے لئے منتخب ہوئے ہو، عربوں کے ساتھ تم نے جنگیں کیں سختیوں کو برداشت کیا، قبائل سے لڑے ہو، بہادروں سے پنجہ آزمائی کی ہے جب ہم اٹھ کھڑے ہوتے تھے تم بھی اٹھ کھڑے ہوتے تھے ہم حکم دیتے تھے تم اطاعت کرتے تھے اسلام نے رونق پائی اور غنائم زیادہ ہوئے اور مشرکین تسلیم ہوگئے اور ان کا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگیا اور دین کا نظام مستحکم ہوگیا_

اے انصار متحیر ہوکر کہاں جارہے ہو؟ حقائق کے معلوم ہو جانے کے بعد انہیں کیوں چھپانے ہو؟ کیوں ایمان لے آنے کے بعد مشرک ہوئے ہو؟ برا حال ہو ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے ایمان اور عہد اور پیمان کو توڑا ڈالا ہو اور ارادہ کیا ہو کہ رسول خدا(ص) کو شہر _ بدر کریں اور ان سے جنگ کا آغاز کریں کیا منافقین سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ تمہیں تو صرف خدا سے ڈرنا چاہیئے تھا_ لوگو میں گویا دیکھ رہی کہ تم پستی کی طرف جارہے ہو، اس آدمی کو جو حکومت کرنے کا اہل ہے اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ میں بیٹھ کر عیش اور نوش

۱۹۳

میں مشغول ہوگئے ہو زندگی اور جہاد کے وسیع میدان سے قرار کر کے راحت طلبی کے چھوٹے محیط میں چلے گئے ہو، جو کچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر کردیا ہے اور جو کچھ پی چکے تھے اسے اگل دیا ہے لیکن آگاہ رہو اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کافر ہوجائیں تو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے_

اے لوگو جو کچھ مجھے کہنا چاہیئے تھا میں نے کہہ دیا ہے حالانکہ میں جانتی ہوں کہ تم میری مدد نہیں کروگے_ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفی نہیں، لیکن کیا کروں دل میں ایک درد تھا کہ جس کو میں نے بہت ناراحتی کے باوجود ظاہر کردیا ہے تا کہ تم پر حجت تمام ہوجائے_ اب فدک اور خلافت کو خوب مضبوطی سے پکڑے رکھو لیکن تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس میں مشکلات اور دشواریاں موجود ہیں اور اس کا ننگ و عار ہمیشہ کے لئے تمہارے دامن پہ باقی رہ جائے گا، اللہ تعالی کا خشم اور غصہ اس پر مزید ہوگا اور اس کی جزا جہنم کی آگ ہوگی اللہ تعالی تمہارے کردار سے آگاہ ہے، بہت جلد ستم گار اپنے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے_ لوگو میں تمہارے اس نبی کی بیٹی ہوں کہ جو تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا تھا_ جو کچھ کرسکتے ہو اسے انجام دو ہم بھی تم سے انتقام لیں گے تم بھی انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں(۱) _

____________________

۱) احتجاج طبرسی، طبع نجف ۱۳۸۶ ھ ج ۱ ۱۳۱_۱۴۱ _ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۱_ کتاب بلاغات النسائ، تالیف احمد بن طاہر، متولد ۲۰۴ ہجری ص ۱۲_ کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۶_

۱۹۴

خلیفہ کا ردّ عمل

حضرت زہرا (ع) نے اپنے آتشین بیان کو ہزاروں کے مجمع میں جناب ابوبکر کے سامنے کمال شجاعت سے بیان کیا اور اپنی مدلل اور مضبوط تقریر میں جناب ابوبکر سے فدک لینے کی وضاحت طلب کی اور ان کے ناجائز قبضے کو ظاہر کیا اور جو حقیقی خلیفہ تھے ان کے کمالات اور فضائل کو بیان فرمایا_

لوگ بہت سخت پریشان ہوئے اور اکثر لوگوں کے افکار جناب زہراء (ع) کے حق میں ہوگئے_ جناب ابوبکر بہت کشمکش__ _ میں گھر گئے تھے، اگر وہ عام لوگوں کے افکار کے مطابق فیصلہ دیں اور فدک جناب زہراء (ع) کو واپس لوٹا یں تو ان کے لئے دو مشکلیں تھیں_

ایک: انہوں نے سوچاگہ اگر حضرت زہراء (ع) اس معاملے میں کامیاب ہوگئیں اور ان کی بات تسلیم کرلی گئی تو ''انہیں اس کا ڈر ہوا کہ'' کل پھر آئیں گی اور خلافت اپنے شوہر کو دے دینے کا مطالبہ کریں گی اور پھر پر جوش تقریر سے اس کا آغاز کریں گے_

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ میں نے علی بن فاروقی سے جو مدرسہ غربیہ بغداد کے استاد تھے عرض کی آیا جناب فاطمہ (ع) اپنے دعوے میں سچی تھیں یا نہ، انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود کہ جناب ابوبکر انہیں سچا جانتے تھے ان کو فدک واپس کیوں نہ کیا؟ استاد ہنسے اور ایک عمدہ جواب دیا اور کہا اگر اس دن فدک فاطمہ (ع) کو واپس کردیتے تو دوسرے دن وہ واپس آتیں اور خلافت کا اپنے شوہر کے لئے مطالبہ کردیتیں اور جناب ابوبکر

۱۹۵

کو خلافت کے مقام سے معزول قرار دے دیتیں کیونکہ جب پہلے سچی قرار پاگئیں تو اب ان کے لئے کوئی عذر پیش کرنا ممکن نہ رہتا(۱) _

دوسرے: اگر جناب ابوبکر جناب فاطمہ (ع) کی تصدیق کردیتے تو انہیں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا اس طرح سے خلافت کے آغاز میں ہی اعتراض کرنے والوں کا دروازہ کھل جاتا اور اس قسم کا خطرہ حکومت اور خلافت کے لئے قابل تحمل نہیں ہوا کرتا_

بہرحال جناب ابوبکر اس وقت ایسے نظر نہیں آرہے تھے کہ وہ اتنی جلدی میدان چھوڑ جائیں گے البتہ انہوں نے اس قسم کے واقعات کے رونما ہونے کی پہلے سے پیشین گوئی کر رکھی تھی آپ نے سوچا اس وقت جب کہ موجودہ حالات میں ملت کے عمومی افکار کو جناب زہراء (ع) نے اپنی تقری سے مسخر کرلیا ہے یہ مصلحت نہیں کہ اس کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے لیکن اس کے باوجود اس کا جواب دیا جانا چاہیئے اور عمومی افکار کو ٹھنڈا کیا جائے، بس کتنا___ اچھا ہے کہ وہی سابقہ پروگرام دھرایا جائے اور عوام کو غفلت میں رکھا جائے اور دین اور قوانین کے اجراء کے نام سے جناب فاطمہ (ع) کو چپ کرایا جائے اور اپنی تقصیر کو ثابت کیا جائے، جناب ابوبکر نے سوچا کہ دین کی حمایت اور ظاہری دین سے دلسوزی کے اظہار سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے ہر چیز کو یہاں تک کہ خود دین کو بھی نظرانداز کرایا جاسکتا ہے_ جی ہاں دین سے ہمدردی کے مظاہرے سے دین کے ساتھ دنیا میں مقابلہ کیا جاتا ہے_

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۸۴_

۱۹۶

جناب ابوبکر کا جواب

رسول اللہ (ص) کی بیٹی کے قوی اور منطقی اور مدلل دلائل کے مقابلے میں جناب ابوبکر نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور کہا کہ اے رسول خدا(ص) کی دختر آپ کے باپ مومنین پر مہربان اور رحیم اور بلاشک محمّد(ص) آپ کے باپ ہیں اور کسی عورت کے باپ نہیں اور آپ کے شوہر کے بھائی ہیں اور علی (ع) کو تمام لوگوں پر ترجیح دیا کرتے تھے، جو شخص آپ کو دوست رکھے گا وہی نجات پائے گا اور جو شخص آپ سے دشمنی کرے گا وہ خسارے میں رہے گا، آپ پیغمبر(ص) کی عترت ہیں، آپ نے ہمیں خیر و صلاح اور بہشت کی طرف ہدایت کی ہے، اے عورتوں میں سے بہترین عورت اور بہتر پیغمبر(ص) کی دختر، آپ کی عظمت اور آپ کی صداقت اور فضیلت اور عقل کسی پر مخفی نہیں ہے_ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ آپ کو آپ کے حق سے محروم کرے، لیکن خدا کی قسم میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان سے تجاوز نہیں کرتا جو کام بھی انجام دیتا ہوں آپ کے والد کی اجازت سے انجام دیتا ہوں قافلہ کا سردار تو قافلے سے جھوٹ نہیں بولتا خدا کی قسم میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ فرما رہے تھے کہ ہم پیغمبر(ص) سوائے علم و دانش اور نبوت کے گھر اور جائیدار و وراثت میں نہیں چھوڑتے جو مال ہمارا باقی رہ جائے وہ مسلمانوں کے خلیفہ کے اختیار میں ہوگا، میں فدک کی آمدنی سے اسلحہ خریدتا ہوں اور کفار سے جنگ کرونگا، مبادا آپ کو خیال ہو کہ میں نے تنہا فدک پر قبضہ کیا ہے بلکہ اس اقدام میں تمام مسلمان میرے

۱۹۷

موافق اور شریک ہیں، البتہ میرا ذاتی مال آپ کے اختیار میں ہے جتنا چاہیں لے لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے والد کے دستورات کی مخالفت کروں؟

جناب فاطمہ (ع) کاجواب

جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر کی اس تقریر کا جواب دیا_ سبحان اللہ، میرے باپ قرآن مجید سے روگردانی نہیں کرسکتے اور اسلام کے احکام کی مخالفت نہیں کرتے کیا تم نے اجماع کرلیا ہے کہ خلاف واقع عمل کرو اور پھر اسے میرے باپ کی طرف نسبت دو؟ تمہارا یہ کام اس کام سے ملتا جلتا ہے جو تم نے میرے والد کی زندگی میں انجام دیا_ کیا خدا نے جناب زکریا کا قول قرآن میں نقل نہیں کیا جو خدا سے عرض کر رہے تھے،

فهب لی یرثنی و یرث من آل یعقوب (۱) _

خدایا مجھے ایسا فرزند دے جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث ہو_ کیا قرآن میں یہ نہیں ہے_

ورث سلیمان داؤد (۲) _

سلیمان داؤد کے وارث ہوئے_ کیا قرآن میں وراثت کے احکام موجود نہیں ہیں؟ کیوں نہیں، یہ تمام مطالب قرآن میں موجود ہیں اور تمہیں بھی اس

____________________

۱) سورہ مریم آیت۶_

۲) سورہ نمل آیت ۱۶_

۱۹۸

کی اطلاع ہے لیکن تمہارا ارادہ عمل نہ کرنے کا ہے اور میرے لئے بھی سواے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں_

جناب ابوبکر نے اس کا جواب دیا کہ خدا رسول (ص) اور تم سچ کہتی ہو، لیکن یہ تمام مسلمان میرے اور اپ کے درمیان فیصلہ کریں گے کیونکہ انہوں نے مجھے خلافت کی کرسی پر بٹھایا ہے اور میں نے ان کی رائے پر فدک لیا ہے(۱) _

جناب ابوبکر نے ظاہرسازی اور عوام کو خوش کرنے والی تقریر کر کے ایک حد تک عوام کے احساسات اور افکار کو ٹھنڈا کردیا اور عمومی افکار کو اپنی طررف متوجہ کرلیا_

جناب خلیفہ کا ردّ عمل

مجلس در ہم برہم ہوگئی لیکن پھر بھی اس مطلب کی سر و صدا خاموش نہ ہوئی اور اصحاب کے درمیان جناب زہراء (ع) کی تقریر کے موضوع پر گفتگو شروع ہوگئی اور اس حد تک یہ مطلب موضوع بحث ہوگیا کہ جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ ملت سے تہدید اور تطمیع سے پیش آئیں_

لکھا ہے کہ جناب زہراء (ع) کی تقریر نے مدینہ کو جو سلطنت اسلامی کا دارالخلافة تک منقلب کردیا_ لوگوں کے اعتراض اور گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں لوگ اتنا روئے کہ اس سے پہلے اتنا کبھی نہ روئے تھے_

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۴۱_

۱۹۹

جناب ابوبکر نے جناب عمر سے کہا تم نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دینے سے مجھے کیوں روکا اور مجھے اس قسم کی مشکل میں ڈال دیا؟ اب بھی اچھا ہے کہ ہم فدک کو واپس کردیں اور اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالیں_

جناب عمر نے جواب دیا _ فدک کے واپس کردینے میں مصلحت نہیں اور یہ تم جان لو کہ میں تیرا خیرخواہ اور ہمدرد ہوں_ جناب ابوبکر نے کہا کہ لوگوں کے احساسات جو ابھرچکے ہیں ان سے کیسے نپٹا جائے انہوں نے جواب دیا کہ یہ احساسات وقتی اور عارضی ہیں اور یہ بادل کے ٹکڑے کے مانند ہیں_ تم نماز پڑھو، زکوة دو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، مسلمانوں کے بیت المال میں اضافہ کرو اور صلہ رحمی بجالاؤ تا کہ خدا تیرے گناہوں کو معاف کردے، اس واسطے کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے، نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں_ حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ جناب عمر کے کندھے پر رکھا اور کہا شاباش تم نے کتنی مشکل کو حل کردیا ہے_

اس کے بعد انہوں نے لوگوں کو مسجد میں بلایا اور ممبر پر جاکر اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد کہا، لوگو یہ آوازیں اور کام کیا ہیں ہر کہنے والا آرزو رکھتا ہے، یہ خواہشیں رسول(ص) کے زمانے میں کب تھیں؟ جس نے سنا ہو کہے اس طرح نہیں ہے بلکہ یہ اس کا مطالبہ اس لومڑی جیسے ہے کہ جس کی گواہ اس کی دم تھی_

اگر میں کہنا چاہوں تو کہہ سکتا ہوں اور اگر کہوں تو بہت اسرار واضح کردوں، لیکن جب تک انہیں مجھ سے کوئی کام نہیں میں ساکت رہوں گا، اب لڑی سے مدد لے رہے ہیں اور عورتوں کو ابھار رہے ہیں_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394