صحیفہ زھراء سلام اللہ علیھا

صحیفہ زھراء سلام اللہ علیھا 0%

صحیفہ زھراء سلام اللہ علیھا مؤلف:
زمرہ جات: فاطمہ زھرا(سلام اللّہ علیھا)

صحیفہ زھراء سلام اللہ علیھا

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مشاہدے: 10129
ڈاؤنلوڈ: 2575

تبصرے:

صحیفہ زھراء سلام اللہ علیھا
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 19 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10129 / ڈاؤنلوڈ: 2575
سائز سائز سائز
صحیفہ زھراء سلام اللہ علیھا

صحیفہ زھراء سلام اللہ علیھا

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

صحیفہ زھراء سلام اللہ علیھا

حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا کےاقوال دعائیں اور مناجات

زندگی نامہ جناب زھرا سلام اللہ علیھا

بسم الله الرحمن الرحیم

فاطمہ، وہ کوثر ہے جو خدا نے انہیں عطا کی ہے۔

فاطمہ، شجرہ طوبیٰ سے اٹھنے والی وہ خوشبو میں ہیں جسے شب معراج رسالتمآب ہمراہ لائے تھے۔

فاطمہ، شجرہ طوبیٰ کا وہ پھل ہے جسے شب معراج رسالتمآب نے تناول فرمایا۔

فاطمہ، وہ الھیات سے مانوس ہستی ہیں جو اپنی ولادت سے پہلے اپنی والدہ ماجدہسے ہم کلام ہوتی تھی۔

فاطمہ، ذبح عظیم کی مادر گرامی ہیں جس کی وجہ سے انہیں ام ابیھا بولا جاتا ہے۔

فاطمہ، جنت کے جوانوں کے سردار حسنین شریفین کی مادر گرامی ہیں۔

فاطمہ، مباھلہ نجران میں مرکزی نقطہ ہیں۔

فاطمہ، باپ، شوہر اور بیٹوں کے درمیان حدیث کسآ میں محور ہیں۔

فاطمہ،بل هی ام الکلمات المحکة فی غیب داتها فکانت مبهمة فی افق المسجد هی الزهراء للشمس من زهرتها الضیاء بل هی نور عالم الانوار ومطلع الشموس ولا قمار

فاطمہ، محراب عبادت میں ملکوت کو منور کرنے والی ہیں۔

فاطمہ، بہشتی اور حوروں سے مانوس مخلوق ہے جس کے بازوں پر تازیانوں کے زخم ہیں۔

فاطمہ، ایسی معصومہ ہیں جس کا غضب و رضا اللہ کا غضب اور رضا ہے۔

فاطمہ، مرضیہ، محدثہ، طاہرہ، بتول اور منصورہ سماوات ہے۔

فاطمہ، امام وقت کی غم گسار ہیں۔ سخت ترین حالات میں بھی حتی کہ حضرت محسن کی شہادت کے وقت بھی حضرت فضہ سے امیر المومنین کے متعلق پوچھا ۔

فاطمہ، اس مہدی، برحق کی والدہ ہیں جو ا ہلبیت اطہار کے انتقام لینے والے ہیں۔

فاطمہ، تسبیح و تہلیل کی صداؤں میں اونٹ پر سوار ہو کر محشر میں نمودار ہوں گی۔

فاطمہ، اپنے حسین کی قمیض لئے اپنے چاہنے والوں کی شفاعت کی خاطر بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوں گی۔

امام جواد علیہ السلام نے فرمایااے آزمائشوں سے گزرنے والی خاتون! خداوند تبارک و تعالیٰ نے آپ کی خلقت سے پہلے آپ کو آزمایا، امتحان لیا، اور اس امتحان میں آپ کو صابر پایا، اور ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم آپ کی تصدیق کرنے والے اور آپ سے خصوصی ارادت رکھنے والے لوگ ہیں، اور جو کچھ آپ کے والد گرامی اور ان کے جانشین لائے ہیں اس پرصابر ہیں،پس اگر ہمارا یہ عقیدہ درست ہے تو ان دونوں کی تصدیق کے بدلے ہمیں اپنے ساتھ متصل فرماتا کہ اپنے آپ کو بشارت دے سکیں کہ آپ سے مودت اور دوستی کی وجہ سے پاک ہو گئے ہیں۔

التھذیب ۶:۹ جمال الاسبوع ۶۸ بحار الانوار ۱۰۰:۱۹۴

مقدمہ مؤلف

اے زھراء عزیز آپ کی عظیم الشان بارگاہ میں ہدیہ پیش کرتے ہیں۔ اے محبوبہ خدا، اے خاتم الانبیاء کے دل و جان سکون، اے دختر نبوت اور مادر ولایت، اے زوجہ اور شریک حیات علی ، اے عطاء خدا سبحان اور قیمتی ترین کوثر قرآن، اور اے جھان خلقت میں عظیم المرتبہ خاتون اے ہم سب کے دل و جان سے پیاری، اگر اس دن آپ پر ظلم کیا گیا ، اور پیغمبر اسلام(ص) کے پڑے جنازے سے بھی شرم نہیں کی گئی، اور وحی اترنے والے گھر کی حرمت کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا، اور آپ کی زندگی کو انتہائی بے رحمی کے انداز میں بند دروازوں میں محصور کیا گیا، تو اب اپنی نگاہیں اٹھائیں اور دیکھیں کہ کس طرح لوگ آپ کے دکھوں میں سینے پیٹتے ہیں، اگر اس دن آپ نے انہتائی دکھی دل سے فریاد بلند کی تھی، کیسی فریاد تھی گویا آپ کے غم میں ہمارے دل سے اٹھی، اور اے خدا اور اس کے رسول کی محبوبہ، اگر اس دن آپ سے یوں رویہ رکھا گیا تھا، تو معجزہ خداوندی یہ ہوا کہ تمام ان پردہ پوشیوں کے باوجود زمانے کے گہرے بادلوں سے آپ کے چہرے کو نمایاں کیا اور لوگوں کو آپ سے آگاہ کیا، حضرت فاطمہ (س) سے معرفت درحقیقت کتاب رسالت کے ایک باب سے معرفت ہوجانا ہے۔ جس کا مطالعہ معرفت روح اسلام کی راہ میں ایک کوشش ہے اور دنیا کا گرانقدر ذخیرہ ہے کیونکہ وہ وحی خدا کی گود میں پروان چڑھی اور پیغمبر اسلام(ص) نے انہیں ام ابیھا کہہ کر افتخار بخشا۔ وہ اسلام کا ایک حصہ ہیں جو رسول اکرم(ص) کے وجود پاک سے روشن ہوا۔ اور ان کی زندگی ہر مسلمان عورت بلکہ ہردور کے صاحب ایمان انسان کیلئے نمونہ عمل ہے۔ کیونکہ حضرت فاطمہ زھرا آسمان معرفت کا آفتاب اور پرہیزگاری اور خدا پرستی کا روشن باب ہیں، اور یہ روشنی کچھ گھنٹوں اور دنوں سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ اپنی ذمہ داریوں کے آغاز سے آج تک اور پھر رہتی دنیا تک اسلامی تربیت کے ساحل پر گوہر کی ماند چمکتی رہیں گی۔ وہ انسانی صورت میں فرشتہ ہیں جو عالم وجود میں بہترین انداز میں جڑا ہوا ہے، وہ تمام جہانوں کی عورتوں سے عظیم ہیں کہ اس کے نور کی شعائیں قیامت کے دن ہر جگہ پڑیں گیں اور آخر کار یہ وہی فاطمہ ہیں، کہ جن کی ناراضگی سے خداوند تبارک و تعالیٰ بھی ناراض اور رضاعت کے ساتھ راضی ہے، وہ گناہگاروں کی شفاعت کرکے انہیں ہمیشہ کے لئے جنت کا سزا وار بنائیں گی، وہ قیامت میں ہمارے لئے وسیلہ ہیں، یہ ساری باتیں ان کے فضائل و مناقب کی دنیا سے ایک جزکو بھی نمایاں نہیں کرتیں۔

آپ کی ولادت:

کسی بھی شخصیت کا زیادہ تعلق خاندان، والدین اور معاشرے سے ہوتا ہے۔ والدین اپنی گود سے ہی اولاد کی اساس اور بنیاد تشکیل دیتے ہیں اور اس کو اپنے روحانی اور اخلاقی سانچے میں ڈھال کر معاشرے کے حوالے کرتے ہیں۔

پیغمبر اسلام(ص) جیسی عظیم الشان شخصیت جو روحانی برتری، اخلاق حسنہ، بلند ہمتی اور فدا کاری اور شجاعت جیسے اوصاف سے مزین ہے سے ہر مسلمان بلکہ کسی بھی صاحب دانا وبینا سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان کی عظمت و بزرگی کیلئے یہی کافی ہے کہ خداوند تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، اے محمد آپ خلق عظیم کے مالک ہیں۔ آپ کی مادر گرامی خدیجہ نامی خاتون تھیں، جو سرمایہ دار عورت تھیں اور تجارت کرتی تھیں، بہت سے لوگ خدیجہ کیلئے تجارت کرتے تھے، جبسے انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کو تجارت کی غرض سے منتخب کیا، تو انکی ایمانتداری اور صداقت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں، لہذا انہیں شادی کا پیغام بھجوایا، کیونکہ حضرت خدیجہ نے بعض دانشمندوں سے سن رکھا تھا کہ یہ آخرالزمان نبی ہیں۔

وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعوت پر لبیک کہا اور اپنی تمام تر دولت بغیر کسی شرائط کے ان کے اختیار میں دے دی، عائشہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) ہر وقت خدیجہ کو خوبیوں کے ساتھ یاد کرتے تھے، تو ایک دن میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ خدیجہ ایک بوڑھی عورت تھی، جبکہ خدا نے اس سے بہتر آپ کو عطا کیں ہیں، تو پیغبر اسلام غضبناک ہوئے اور فرمایا، خدا کی قسم، اس سے بہتر خدا نے مجھے نہیں دیں، خدیجہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب دوسرے انکار کر رہے تھے، اس وقت میری تصدیق کی جب دوسرے مجھے جھٹلا رہے تھے، اور اس وقت اپنی تمام دولت میرے اختیار میں دی جب دوسروں نے مجھے محروم کیا، اور میری نسل کو اس کی اولاد سے قرار دیا۔

روایات میں ہے، کہ جب جبرئیل پیغمبر اسلام(ص) پر نازل ہوتے تو عرض کرتے کہ بارگاہ ایزدی سے خدیجہ کو سلام پہنچادیں اور انہیں کہیں خداوند تبارک و تعالیٰ نے بہشت میں ان کے لئے ایک خوبصورت محل تعمیر کیا ہے۔ ایک روز جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا کہ خداوند تبارک و تعالیٰ نے سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ چالیس دن اور چالیس راتیں خدیجہ سے الگ ہو کر عبادت اور تہجد میں مشغول رہیں اور پھر پیغمبر اسلام(ص) خداوند حکیم کے حکم کے مطابق چالیس دن تک خدیجہ کے گھر نہیں گئے، اس عرصے میں پیغمبر اسلام(ص) راتوں کو نماز اور عبادت میں مصروف ہو تے اور دن میں روزے رکھتے۔ جیسے ہی چالیس دن پورے ہوئے فرشتہ آیا اور جنت سے لائی ہوئی غذا پیش کرتے ہوئے عرض کی آج رات اس بہشتی غذا سے تناول فرمانا، رسول خدا نے ان ہی جنتی اور روحانی غذاؤں سے روزہ افطار کیا، جیسے ہی پیغمبر اسلام(ص) نماز کیلئے اٹھے، جبرئیل آئے اور عرض کی، کہ اے رسول خدا آج رات مستجی نمازوں کو چھوڑ کر حضرت خدیجہ کے گھر جائیں، کیونکہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ آپ کی صلب سے ایک پاکیزہ اولاد پیدا کرے۔

امام جعفرصادق فرماتے ہیں جب سے خدیجہ نے رسول خدا سے عقد کیا، مکہ کی عورتوں نے آپ سے قطع تعلق کر لیا تھا اور آپ کے گھر آنا جانا بند کردیا تھا، وہ اس وجہ سے غمگین رہتی تھیں، لیکن جیسے ہی حضرت فاطمہ سے حاملہ ہوئیں تو تنہائی کے غم سے نجات پاگئیں اور اپنے شکم میں موجود بچے سے مانوس ہوگئیں اور اس سے باتیں کرتی رہتیں۔ جبرئیل پیغمبر اسلام(ص) اور حضرت خدیجہ کو خوشخبری سنانے کیلئے آئے اور کہا کہ اے پیغمبر اسلام(ص) خدیجہ کے رحم میں ایک ایسی بیٹی ہے جس سے تیری نسل چلے گی، وہ پیغمبر دین کے پیشواؤں اور اماموں کی ماں ہوگی جو وحی کے منقطع ہوجانے سے تیرے جانشین ہوں گے، جیسے ہی پیغمبر اسلام(ص) نے پروردگار جہاں کا پیام خدیجہ کو پہنچایا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔

جی ہاں!پروردگار جہاں نے کچھ اس طرح کا ارادہ کر رکھاتھا کہ پاک و پاکیزہ نسل نبوی فقط فاطمہ سے ہی چلے اور یہ پاکیزہ زمین اس شرف و عزت والے درخت کو اپنے دامن میں پروان چڑھائے، نسل پیغمبر ہی اولاد فاطمہ ہیں اور پیغمبر کی ان پر خصوصی توجہ اس کی بہترین دلیل ہے۔

نام

امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ کے نو نام ہیں، فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، ذکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہرا۔

آپ کے نام مختلف مناسبتوں سے رکھے گئے ہیں، اسم اور مسمی کے درمیان مطابقت توجہ طلب ہے اور یہاں پر فقط دو ناموں (فاطمہ، محدثہ) کے متعلق عرض کرنا ہے۔

نام اور شخصیت

اس بات کی تائید بہت سی روایت سے ملتی ہے۔

(الف) لغت میں فطم کے معنی کاٹنے والا، جدا کرنے والا کے ہیں، اور فاطم اور فاطمہ بمعنی کٹا ہوا کے ہیں، امام رضا علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) کیلئے فاطمہ نام دکھنے کی علت یہ ہے کہ وہ اور ان کے شیعہ جہنم کی آگ سے الگ ہیں۔

امام محمد باقر سے روایت ہے کہ آپ کے نام فاطمہ رکھنے کی علت یہ ہے آپ نے علم دودھ کے ذریعہ سے اخذ کیا ہے یعنی وہ علم و دانش کا مرکز ہیں۔

امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ آپ کا نام فاطمہ رکھنے کی علت یہ ہے کہ شر اور برائی آپ کے وجود اقدس سے جدا ہیں۔

(ب) ان کے ناموں سے ایک نام محدثہ ہے، محدث وہ ہوتا ہے جس پر فرشتہ نازل ہو، جس طرح بارہ امام محدث تھے اسی طرح فاطمہ بھی محدثہ ہیں۔

امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ پیغمبر کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا محدثہ تھیں البتہ پیغمبر نہ تھیں، اسی وجہ سے انکو محدثہ کہتے ہیں، کیونکہ فرشتے آسمان سے اتر کر آپ سے ہمکلام ہوتے جس طرح مریم بنت عمران سے ہمکلام ہوتے تھے۔

روایات میں واضح طور پر اس موضوع کے متعلق آیا ہے پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد خداوند تبارک و تعالیٰ نے آنحضرت(ص) کی تسلی اور تشفی کیلئے فرشتوں کو آپ سے مانوس کردیا، حضرت جبرئیل آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آنحضرت(ص) کی زندگی کے بعد ہونے والے واقعات سے خبر دیتے، حضرت امام علی ان کو تحریری طور پر محفوظ کر لیتے، ان آثار کو مصحف فاطمہ کہتے ہیں، جو آئمہ سے ہوتے ہوئے اب امام زمان (عجل) کی خدمت میں ہیں۔

آپ کی تاریخ تولد اور اس کا تعین

فاطمہ زھرا انتہائی عظیم المرتبت والدین سے پیدا ہوئیں، لیکن تاریخ والادت بلکہ سال ولادت بھی صحیح طور پر واضح نہیں ہے۔ مورخین نے فقط آپ کے بارے میں ہی متفق نہیں ہیں بلکہ ھادیان اور آئمہ معصومین کی تاریخوں اور مزید یہ کہ انکی تاریخ تولد بلکہ پیغمبر اسلام(ص) کی تاریخ وفات جیسے اہم ترین موضوع پر بھی متفق نہیں ہیں۔ بہرحال جو کچھ آسمانی ستارے کی تاریخ تولد کے بارے میں کہا گیا ہے، اس میں تین مشہور قول ہیں۔ الف۔ بعشت سے پانچ سال قبل، ب۔ بعشت کے پانچ سال بعد پیدا ہوئیں۔ البتہ تمام راویوں اور علماء و محدثین کی باتوں میں ایک قوی اور قابل توجہ قرینہ پایا جاتا ہے، جو واضح کرتا ہے کہ آنحضرت(ص) کی ولادت بعثت کے بعد میں ہوتی ے اور وہ قرینہ آپ کی ولادت اور معراج النبی کے درمیان ارتباط سے ہے کیونکہ روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا ہے کہ شب معراج مجھے جنت سے سیب دیا گیاجس سے میری بیٹی زہرا کا وجود اقدس اسی سبب سے تشکیل پایا۔ علاوہ ازیں علماء شیعہ معراج کو بعشت سے دو سال بعد سے لیکر ہجرت سے چھ ماہ قبل تک لکھتے ہیں۔

دوسری طرف سے کتاب شریف امالی میں شیخ صدوق علیہ الرحمة سے روایت ہے کہ جناب سیدہ کی ولادت کے موقع پر قریش اور بنی ہاشم کی خواتین سے کوئی بھی حضرت خدیجہ کی مدد کیلئے نہیں آئیں۔ بلکہ کہنے لگیں کہ اے خدیجہ اس وقت ہماری بات نہیں سنی اور ابو طالب کے یتیم بھتیجی سے شادی کرلی۔

مسلمہ بات ہے کہ اگر تاریخ تولد کو بعثت سے پانچ سال بعد قبول کرلیں، تو اس مدت میں تو یقینا پیغمبر مددگار رکھتے تھے بلکہ ایک طبقہ ایسا تھا جو دل و جان سے پیغمبر کا شیدائی تھا اور حضرت خدیجہ غیر مسلموں سے امداد کی نیاز مند ہی نہ تھیں، اور یتیم ابوطالب کے طعنے بھی بے بنیاد تھے۔ دوسری طرف سے چند شیعہ اور سنی روایات جناب فاطمہ کی ولادت کو خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے ساتھ مربوط کرتے ہیں، یہ تعمیر نو والی داستان، اور حجر اسود کے نصب کرنے میں پیغمبر کوقاضی قرار دینے والی باتیں مسلماً بعثت سے پہلے یا اوائل بعثت میں تھیں، کیونکہ بعثت کے پانچویں سال میں قریش پیغمبر سے دشمنی رکھتے تھے، لہذا اس حکم کی قضا پیغمبر کو نہ دیتے۔

شیعہ روایت میں اس طرح ہے کہ سیدہ بعثت سے پانچ یا دو سال بعد پیدا ہوئیں۔ جبکہ اہل سنت کی روایات بعثت سے پانچ سال پہلے والے قول کی تائید کرتی ہیں۔

حقیقی بات یہ ہے کہ بزرگ و عظیم المرتبت شخصیات کی تاریخ ولادت یا شہادت یا رحلت اتنی اہم نہیں ہوتی بلکہ جو چیز ایسے برجستہ اور عظیم المرتبت شخصیات کی زندگیوں سے آئندہ نسلوں کیلئے قابل توجہ ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ جان لیں کہ وہ بے نظیر لوگ کون تھے، کیسے زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے دور میں اور آئندہ کیلئے معاشرے میں کیا اثر چھوڑ گئے ہیں۔

حضرت فاطمۃ الزہرا کا بچپن

حضرت فاطمہ علیھا السلام نے اپنی انتہائی شفیق ماں حضرت خدیجہ علیھا السلام کی گود میں پرورش پائی اورپاکیزہ دودھ جو شرافت، نجابت، بردبادی اور توحید پرستی جیسے صاف شفاف چشمہ اور مرکز سے ملا ہوا تھا سیراب ہوتی رہیں۔ جناب سیدہ کی شیرخوارگی کے ایام اور بچپن صدر اسلام کے انتہائی خطرناک اور بحرانی ایام پر محیط ہیں۔ زندگی کا کچھ حصہ شعب ابی طالب میں گذرا، تقریباً تین سال تک آپ نے سوائے شعب ابی طالب کے کچھ نہیں دیکھا۔

جب آپ اور بنی ہاشم شعب ابی طالب کی تنگ گھاٹی سے نجات پاتے ہیں اور اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں، تو زندگی کے مناظر اور آزادی جیسی نعمتیں آپ کیلئے خوش کن تھیں لیکن افسوس کہ خوشی کے ایام دوام پیدا نہ کرسکے، کیونکہ اپنی انتہائی شفیق ماں حضرت خدیجہ کے سایہ سے محروم ہوجاتی ہیں، جس سے ان کی حساس روح افسردہ ہوجاتی ہے۔ ماں کی شفقت سے محرومی کے بعد پیغمبر اسلام(ص) کی محبت آپ سے بڑھ گی۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا جب تک آپ کو پیار نہیں کرلیتے سوتے نہیں تھے۔ اس قسم کے حادثات اور مسلسل مشکلات ممتاز اور عظیم لوگوں کیلئے فقط روح کی تقویت کا سبب ہوتے ہیں بلکہ ان کی اندرونی استعداد اور پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارتے ہیں اور مشکلات کے مقابلے میں پائیداری کا سبب بنتے ہیں۔

جی ہاں حضرت فاطمہ کی زندگی میں موجود بحرانوں اور سختیوں نے نہ فقط ان کی روح کو متاثر کیا بلکہ ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی، اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے میں مدد دی۔

آپ کے وجود اقدس میں انسانیت، جوانمردی، عفت و بزرگواری جیسے خواص جو کسی خاتون میں ممکن نہیں ہو سکتے تھے موجود تھے، وہ خود فخر و مباہات کرتے ہوئے کہتی کہ میں نے مدرسہ نبوت میں تربیت پائی ہے اور رسالت کی درس گاہ میں کمال پایا ہے۔ اس گھر میں جو فرشتوں کے اترنے کا محل اور وحی کے نزول کی جگہ تھی پرورش پائی، اور اپنے باپ اور شوہر جو مجسمہ انسان کامل تھے ان سے استفادہ کیا۔ حضرت ابو بکر سے گفتگو کے دوران جس انداز میں آیات قرآنی سے استفادہ کیا یہ ایک حقیقت کو ظاہر کررہی ہے کہ آپ قرآن کی آیات پر مکمل عبور رکھتیں تھیں، ایسے کیونکر نہ ہو جبکہ رسول خدا کی زبان اقدس سے قرآن سنتی تھیں، اور پیغمبر اور علی کے وجود میں اس کی تجلیاں دیکھتی تھیں اپنی روح کو قرآن کے مفاہیم کے ساتھ منطبق کرتے ہوئے احکام اور اپنے وظائف اس سے استخراج کرتی تھیں کیونکہ آپ بھی اہل بیت کی طرح فصاحت و بلاغت سے بہرہ مند تھیں۔ اپنی گفتار کی قوت سے دلوں پر حکمرانی کرتی تھیں، زورِ بیان سے جانوں کو اپنے اختیار میں لے لیتی تھیں اور بہترین انداز میں بات کرتی تھیں، یہ ساری باتیں ابو بکر سے فدک اور امر خلافت میں بحث کرتے ہوئے واضح کی تھیں۔