فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206459 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

معاہدہ کی پابندی کا دوسرا نمونہ '' حلف الفضول'' کا معاہدہ ہے ، یہ وہ معاہدہ ہے جو جاہلیت کے زمانے میں قریش کے کچھ جوانوں نے مظلومین کے حقوق سے دفاع کے لئے کیا تھا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس میں شامل تھے آپ نے صرف بعثت سے پہلے اس معاہدہ پر قاءم رہے بلکہ بعثت کے بعد بھی جب کبھی اسکو یاد کرلیتے تو فرماتے کہ میں اس عہد کو توڑنے پر تیار نہیں ہوں چاہے اس کے بدلے میرے سامنے بہت قیمتی چیز ہی کیوں نہ پیش کی جائے_(۱)

عمار یاسر فرماتے ہیں کہ میں اپنے گوسفند چرا رہا تھا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی گوسفند چرا رہے تھے ایک دن میں نے آپ سے کہا کہ میں نے مقام ''فج'' میں ایک عمدہ چراگاہ دیکھی ہے کیا آپ کل وہاں چلیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، جب میں صبح وہاں پہنچا تو دیکھا کہ آپ پہلے سے موجود ہیں لیکن گوسفند کو چرنے کے لئے چراگاہ میں داخل نہیں ہونے دیا ہے میں نے پوچھا آپ ایسے ہی کیوں کھڑے ہیں ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میں نے تم سے عہد کیا تھا کہ ہم دونوں ملکر گوسفند چرائیں گے _ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ خلاف وعدہ عمل کروں اور اپنے گوسفند کو تم سے پہلے ہی چرالوں _(۲)

امام جعفر صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک شخص سے وعدہ کیا کہ جب تک تم آؤگے اسی پتھر کے کنارے تمہارا منتظر رہوں گا_ گرمی بہت زیادہ تھی اصحاب نے

___________________

۱) (سیرہ حلبی ج۲ص ۱۳۱)_

۲) (بحارالانوار ج۱۶ ص۲۲۴)_

۸۱

فرمایا: اے اللہ کے رسول آپ سایہ میں چلے جائیں اور وہاں اسکا انتظار کریں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں نے اس سے وعدہ کیا ہے میں یہیں رہو نگا اگر وہ نہیں آئیگا تو وعدہ کے خلاف عمل کرے گا _(۱)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس قسم کے سلوک سے اسلام میں وعدہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے_

اجتماعی معاہدوں کی پابندی

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہونچنے کے بعد اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک نئے معاشرہ کی تشکیل کی وجہ سے سماجی معاہدوں کی ضرورت محسوس ہوئی اس لئے کہ قریش جو آپ کے بڑے دشمن تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چین سے رہنے نہیں دیتے تھے دوسری طرف مدینہ کے یہودی کہ جو صاحب کتاب تھے لیکن حق کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے وہ اپنی مخصوص ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسی ایسے دین کو ماننے پر تیار نہ تھے جس کو غیر بنی اسرائیل کا کوئی شخص لایا ہو سب سے اہم بات یہ ہے کہحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے لائے ہوئے دین کو عالمی دین سمجھتے تھے اسی لئے صرف مدینہ میں رہنے والے محدود افراد پر اکتفاء نہیں کرسکتے تھے اور یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ دوسروں سے کوئی سروکار نہ رکھیں ان پہلوؤں کے پیش نظر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عرب کے بعض

___________________

۱) (بحارالانوار ج۹۵/۷۵)_

۸۲

قباءل سے دفاعی معاہدہ کیا اس معاہدہ کی بنیاد پر اگر کوئی کسی پر زیادتی کرتا تو دوسرے کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس سے اپنا دفاع کرے اور بعض لوگوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا کہ تم سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا یعنی طرفین میں کوئی بھی کسی پر نہ زیادتی کرے اور نہ اس کے خلاف کوئی اقدام کرے ان میں سے سب سے اہم معاہدے وہ تھے جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار قریش اور مدینہ کے یہودیوں سے کئے تھے_

مشرکین سے معاہدوں کی پابندی

سنہ ۶ ھ میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خواب میں دیکھا کہ مسلمانوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد الحرام میں مناسک حج ادا کررہے ہیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس خواب کو اپنے اصحاب کے سامنے بیان کیا اصحاب نے اسکو نیک فال سمجھا لیکن بعض افراد کو اسکی صحت پر ابھی مکمل اطمینان حاصل نہیں ہوا تھا کہ خدا نے اپنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خواب کی تعبیر میں آیت نازل کی:

( لقد صدق الله رسوله الروایا بالحق لتدخلن مسجد الحرام ان شاء الله آمنین محلقین رؤسکم مقصرین لا تخافون فعلم مالم تعلموا فجعل من دون ذلک فتحاً قریباً ) (۱)

___________________

۱) (فتح آیت ۲۷)_

۸۳

(بیشک خدا نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خواب کو آشکار کردیا تم لوگ انشاء اللہ بلاخوف و خطر اپنے سروں کے بال منڈواکر اور تقصیر کیے ہوئے مسجد الحرام میں داخل ہوگئے خداوہ جانتاہے جو تم نہیں جانتے اور خدا نے اس ( مکہ میں داخل ہونے ) سے پہلے بہت نزدیک کامیابی (صلح حدیبیہ) قرار دی)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مسلمان مطمئن ہوگئے کہ وہ بہت جلد نہایت محافظ طریقہ سے خانہ خدا کی زیارت کے لئے جائیں گے _

ماہ ذیقعدہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرہ کے قصد سے مکہ جانے کا ارادہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام مسلمانوں کو بھی اپنے ہمراہ مکہ چلنے کی دعوت دی چنانچہ ایک جماعت کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ کی جانب روانہ ہوئے راستہ میں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خبردی گئے کہ قریش آپ کی آمد سے واقف ہوگئے ہیں اورانہوں نے اپنے آپ کوجنگ کے لئے تیار کرلیاہے وہ لوگ مقام '' ذی طوی'' میں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں اور انہوں نے قسمیں کھائی ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کو مکہ نہیںجانے دیں گے _

چونکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ کے لئے نہیں نکلے تھے بلکہ آپ عمرہ کے ارادہ سے تشریف لائے تھے اسلئے آپ نے ان سے مذاکرہ کیا آپ کے اور ان کے درمیان معاہدہ ہوا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے اس معاہدہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند امور کو انجام دینے کی پابندی اپنے اوپر عاءد کی ان میں سے مجھ درج ذیل ہے_

۸۴

۱_ قریش میں سے اگر کوئی بھی شخص اپنے بزرگ کی اجازت کے بغیر مکہ سے فرار کرکے اسلام قبول کرلے اور مسلمانوں سے آکر مل جائے تو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے قریش کو واپس کردیں گے لیکن اگر مسلمانوں میں سے کوئی بھاگ کر قریش سے جاملے تو قریش اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ اسکو واپس کردیں '' جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش کے نمآئندہ کے ساتھ یہ معاہدہ کررہے تھے اسی وقت سہیل کا بیٹا '' ابوجندل'' جو مسلمان ہوگیا تھا لیکن اپنے مشرک باپ کی زنجیر میں جکڑا ہوا تھا مکہ سے فرار کرکے آیا اور مسلمانوں کے ساتھ مل گیا سہیل نے جب اسکو دیکھا تو کہا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ معاہدہ کی پابندی کا پہلا موقع ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ صلح قاءم رہے تو اسکو واپس کردیں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول کیا سہیل نے اپنے بیٹے کا گریبان پکڑا اور کھینچتے ہوئے مکہ لے گیا_

ابوجندل نے (نہایت ہی دردناک لہجہ میں ) فریاد کی کہ اے مسلمانو کیا تم اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ مجھ کو مشرکین کے حوالہ کیا کردیا جائے اور میں دوبارہ ان کے چنگل میں پھنس جاؤں؟ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے ابوجندل صبر کرو خدا تمہارے اور تم جیسوں کے لئے کشادگی پیدا کریگا ہم نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور اب ہم اپنا عہد و پیمان نہیں توڑسکتے(۱)

___________________

۱) (سیرہ ابن ہشام ج۳ص۳۳۲ _ ۳۳۳)_

۸۵

یہ ایک ہی موقع نہیں تھا کہ جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلح نامہ کی اس شرط کی مطابق عمل کیا تھا کہ جو مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت تھی ، بلکہ جب کوئی مسلمان مشرکین کے چنگل سے چھوٹ کر مسلمانوں سے آملتا تھا اسی وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے ان کے حوالہ کردیتے تھے جیسا کہ ابوبصیر کا واقعہ گواہ ہے_

ابوابصیر ان مسلمانوں میں شامل ہے جو مکہ میں گھرے ہوئے تھے اور صلح حدیبیہ کے بعد وہاں سے فرار کرکے مدینہ آگئے تھے قریش کے نمایان افراد نے ایک خط پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام لکھا اور اس کو ایک شخص کے حوالہ کیا کہ وہ اپنے غلام کے ساتھ مدینہ جاکر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وہ خط پہنچا دے تا کہ قرار داد کے مطابق ابوبصیر کے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے واپس لیکر مکہ لوٹ آئے جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس وہ خط پہونچا تو آپ نے ابوبصیر کو بلایا اور کہا اے ابوبصیر تم کو معلوم ہے کہ ہم نے قریش سے عہد و پیمان کیا ہے اور اس معاہدہ کی مخالفت ہمارے لئے صحیح نہیں ہے خدا تمہارے لئے اور تم جیسوں کیلئے کشادگی پیدا کریگا ابوبصیر نے کہا : اے اللہ کے رسول کیا آپ ہم کو دشمن کے سپرد کردینگے تا کہ وہ ہم کو دین سے برگشتہ کردیں ؟آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے ابوبصیر پلٹ جاؤ خدا تمہارے لئے وسعت پیدا کریگا_

ابوبصیر ان دونوں کے ساتھ مکہ کی طرف چل دیئے جب مقام ''ذوالحلیفہ'' پر پہونچے تو ایک دیوار کے سایہ میں آرام کرنے لگے ابوبصیر نے اس آدمی کی طرف رخ کرکے کہا یہ

تمہاری تلوار بہت تیز ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں ابوبصیر نے کہا کیا میں اسکو دیکھ

۸۶

سکتاہوں اس آدمی نے جواب دیا اگر دیکھنا چاہتے ہو تو دیکھو ابوبصیر نے تلوار اپنے ہاتھ میں لیکر اچانک اس آدمی پر حملہ کرکے اسکو مار ڈالا مقتول کے غلام نے جب یہ ماجرا دیکھا تو ڈر کے مارے مدینہ کی طرف بھاگا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ غلام داخل ہوا جب آپ کی نظر اس غلام پر پڑی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ اس نے بڑا ہولناک منظر دیکھا ہے اس کے بعد اس سے پوچھا کہ کیا خبر ہے غلام نے کہا کہ ابوبصیر نے اس آدمی کو قتل کردیا

ذرا دیر بعد ابوبصیر بھی خدمت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں پہونچے اور کہنے لگے یا رسول اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا عہد و پیمان پورا کیا اور مجھ کو ان کے حوالہ کردیا لیکن میں اپنے دین کے بارے میں ڈرگیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر اس شخص کے ساتھی موجود ہوتے تو آپ جنگ برپا کردیتے_

ابوبصیر نے دیکھا کہ اگر مدینہ میں رہ گئے تو لوگ پھر پہنچ جائیں گے اور واپسی کا مطالبہ کریں گے اسلئے وہ مدینہ سے نکل کر سواحل دریائے احمر پر پہنچ گئے وہ جگہ ایسی تھی جہاں سے شام جانے والے قریش کے کاروان تجارت گذرتے تھے_

دوسری طرف جب ابوبصیر کی داستان اور ان کی بارے میںرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قول کا علم ان سارے مسلمانوں کو ہوا جو مکہ میں پھنسے ہوئے تھے تو وہ کسی طرح سے اپنے کو مشرکین کے چنگل سے چھڑا کر مکہ سے بھاگ کر ابوبصیر تک پہنچے یہاں تک کہ کچھ ہی دنوں میں ابوبصیر سے جاملنے والے مسلمانوں کی تعداد ستر (۷۰) ہوگئی اب وہ لوگ قریش کے قافلہ کیلئے

واقعی خطرہ بن گئے اگر قریش میں سے کوئی مل جاتا تھاتو یہ لوگ اس کو قتل کردیتے تھے اور اگر کوئی قافلہ ادھر سے گذرتا تھا تو اس کے راستہ میں رکاوٹ بنتے یہاں تک کہ قریش نے تھک کررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خط لکھا اور یہ گذارش کی کہ ان کو مدینہ بلالیں اور قریش کو ان کے ہاتھوں اطمینان حاصل ہوجائے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو بلایا اور سب لوگ مدینہ چلے آئے _

ابوجندل اور ابوبصیر کو واپس کردینے کے عمل سے پتہ چلتاہے کہ رسول خدا انسانی بلند قدروں کی اہمیت سمجھتے تھے_

___________________

۱) (سیرہ ابن ہشام ج۱ ص ۳۳۷ ، ۳۳۸)_

۸۷

خلاصہ درس

۱) قرآن کریم اسلام کی زندہ سند ہے وہ معاہدہ کی پابندی کو ضروری سمجھتاہے اور مؤمنین کو اسکی پابندی کی تلقین کرتاہے_

۲)پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا کی طرف سے بہترین نمونہ کے عنوان سے تعارف کروایا گیاآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی زندگی کی اس بنیادی بات سے صرف نظر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسکی پابندی کی تلقین کی ہے_

۳) عہد و پیمان سے وفاداری اور معاہدہ کی پابندی کی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اہل بیت کے نزدیک اتنی اہمیت ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:لا دین لمن لاعهد له '' وہ شخص دین دار نہیں ہے جو معاہدہ کا پابند نہیں ہے _

۴) کلی طور پرا گرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاہدوں کا جاءزہ لیا جائے تو دو طرح کے معاہدے نظر آتے ہیں_

الف: ذاتی معاہدہ

ب: سماجی معاہدے اور سیاسی قرار دادیں

۵ ) تاریخ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تحقیق سے یہ پتہ چلتاہے کہ آپ کے نزدیک دونوں ہی طرح کے معاہدے محترم تھے اور آپ نے اپنی طرف سے کبھی کوئی معاہدہ نہیں توڑا_

۸۸

سوالات :

۱_ عہدو پیمان کی پابندی کے سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کے ذریعہ اسلام کا نظریہ بیان کیجئے؟

۲_ عہد و پیمان کی پابندی کی اہمیت کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیجئے؟

۳_پیغمبر اکرم کے کسی ذاتی معاہدہ کا ذکر کیجئے_

۴_ سیاسی معاہدوں میں سے ایک معاہدہ بیان کرتے ہوئے ان معاہدوں کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے طریقہ کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کیجئے؟

۵ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کفار قریش کے ساتھ جو معاہدے کئے تھے وہ کس نوعیت کے حامل تھے؟

۸۹

چھٹا سبق:

(یہودیوں کیساتھآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاہدے)

مدینہ وہ شہر تھا کہ جہاں بمدت عرصہ قبلی یہود کے کچھ قباءل نے ہجرت کی اور وہ اس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمد کے منتظر تھے کہ جسکی توریت نے بشارت دی تھی چونکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قوم بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں اسلئے ان کی رسالت کو قبول کرنا ان کےلئے مشکل ہوگیا تھا_ لیکن چوں کہ مدینہ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے باہمی قدیمی اخلاف کو ختم کرکے ایک امت بنادیا تھا اسلئے وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکتے تھے لیکن مسلمانوں کے ممکن الوقوع خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے ان میں سے چند سربرآوردہ اشخاص پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے:

اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم آپ کے پاس معاہدہ کرنے کیلئے آئے ہیں اور وہ معاہدہ یہ ہے کہ ہم آپ کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے، آپ کے اصحاب پر حملہ نہیں کریں گے اور آپ کے خلاف کسی بھی گروہ کی مدد نہیں کریں گے _ اسی طرح آپ بھی ہم سے کوئے سروکار نہ

۹۰

رکھیں گے بعد میں دیکھا جائے گا کہ کیا ہوتاہے_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول فرمایا اور جو معاہدہ نامہ لکھا گیا اسمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اضافہ فرمایا کہ اگر یہودیوں نے اس قرار داد کے خلاف عمل کیا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کا خون بہانے، ان کے مال کو ضبط کرلینے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرنے میں آزاد ہوں گے _

اس معاہدہ پر تین بزرگ قبیلوں، بنی نضیر، بنی قریظہ اور بنی قینقاع نے دستخط کئے _(۱)

البتہ یہ صرف ایک معاہدہ نہیں تھا جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور یہودیوں کے درمیان ہوا بلکہ دوسرے مواقع پر بھی اس طرح سیاسی اور سماجی معاہدے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور یہودیوں کے درمیان ہوئے ہیں ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان تمام معاہدوں پر ثابت قدم رہے اور یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ آپ نے ایک بار بھی کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو_

معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا برتاو

جس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاہدوں کے پابند تھے اور اس کو اہمیت دیتے تھے اسی طرح پیمان شکنی سے بیزار بھی تھے اور اس کو ایک ناشاءستہ عمل جانتے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر میں پیمان شکنی کرنیوالا گنہگار اور سزا کا مستحق تھا_

انفرادی معاہدہ میں اگر کسی نے معاہدہ کرکے توڑ دیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بزرگی اور عظمت کے

___________________

۱) (بحارالانوار ج۱۹ ص ۱۱۰ ، ۱۱۱)_

۹۱

خلاف یہ بات تھی کہ آپ اس سے سوال کرتے_ لیکن اجتماعی اور سیاسی معاہدوں میں جس کا تعلق نظام اسلام سے ہوتا تھا ، ان سے کسی طرح کی چشم پوشی کو آپ روا نہیں رکھتے تھے اور اس سے نہایت سختی کا برتاو کرتے تھے اسکا ایک نمونہ وہ رد عمل ہے جس کا اظہار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ کے یہودیوں کے معاہدہ توڑدینے پر فرمایا تھا_

مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے جو قباءل آباد تھے ان کیلئے تقریبا ہر ایک نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعرض نہ کرے اور مشترک دفاع کا معاہدہ کیا تھا لیکن ان میں سے ہر گروہ نے بڑے نازک موقع پر اپنا معاہدہ توڑا اور اسلام سے اپنے بغض اور عناد کا مظاہرہ کیا تھا _ ذیل میں ایسی چند مثالوں اور ان عہدشکنی کرنیوالوں کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جو برتاؤ تھا اس کی طرف اشارہ کیا جائیگا_

بنی قینقاع کے یہودیوں کی پیمان شکنی

''بنی قینقاع '' یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ و جدال سے پرہیز کا معاہدہ کیا تھا لیکن ابھی کچھ دن نہ گذرے تھے کہ اسلام کو سرعت کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے اپنا معاہدہ توڑڈالا ، اس گروہ نے افواہیں پھیلانا اور اسلام کے خلاف غلط قسم کے نعرے لگانا شروع کردیئے _

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قینقاع کے بازار میں تقریر کی اور انہیں بہت سختی سے خبردار کیا_

۹۲

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلمات سے نصیحت حاصل کرنے کے بجائے بنی قنیقاع کے یہودی جواب دینے پر اتر آئے اور کہنے لگے آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم کمزور و ناتواں ہیں اور قریش کی طرح جنگ کے رموز سے نا واقف ہیں ؟ آپ اس گروہ سے الجھ پڑے تھے جو جنگ کے اصولوں اور ٹیکنیک سے واقف نہیں تھا لیکن بنی قنیقاع والوں کی طاقت کا آپ کو اس وقت اندازہ ہو گا جب آپ میدان جنگ میں ان سے مقابلہ کیلئے اتریں گے _

ان تیزو تند باتوں نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے حوصلوں کو پست نہیں کیا بلکہ مسلمان تیار ہوگئے کہ کسی مناسب موقعہ پر ان کی رجز خوانی کا جواب دیں ،ایک دن ایک عرب عورت بنی قنیقاع کے بازار میں ایک یہودی سنا رکی دکان پر کچھ سامان بیچ رہی تھی اور اس حوالے سے محتاط تھی کہ کوئی اسکا چہرہ نہ دیکھے مگر بنی قینقاع کے کچھ یہودیوں کو اس کا چہرہ دیکھنے پر اصرار تھا لیکن چونکہ عورت اپنا چہرہ دکھانے پر تیار نہیں تھی اس لئے یہودی سنار نے اس عورت کے دامن کو اس کی پشت پر سی دیا _

تھوڑی دیر کے بعد وہ عورت اٹھی تو اس کے جسم کا کچھ حصہ نمایاں ہوگیا یہ دیکھ کر بنی قنیقاع کے کچھ جوانوں نے اس عورت کا مذاق اڑایا _

بنی قینقاع کا یہ عمل اعلانیہ طور پر پیغمبر سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو توڑ رہا تھا اس عورت کی حالت دیکھ کر ایک مسلمان کو طیش آگیا اس نے فورا اہتھیار نکالا اور اس یہودی سنا ر کو قتل کر ڈالا ، وہاں جو یہودی موجود تھے انہوں نے مل کر اس مسلمان کو بہت بری طرح قتل کیا _

۹۳

ایک مسلمان کے سننے خیز قتل کی خبر دوسرے مسلمانوں کے کان تک پہونچی ، بنی قنیقاع نے جب بگڑی ہوئی حالت دیکھی تو اپنے ان گھروں میں جاچھپے جو مضبوط قلعوں کے در میان بنے ہوئے تھے_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ دشمن کا محاصرہ کیا جائے مسلمانوں نے پندرہ روز تک قلعوں کا محاصرہ کیا اور کسی طرح کی امداد وہاں تک نہ پہونچنے دی _ قلعہ کے یہودی محاصرہ کی بناپر تنگ آگئے اور انہوں نے اپنے کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالہ کردیا_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو سخت تنبیہہ کی جائے لکن '' عبداللہ ابی '' کے اصرار پر جو مدینہ کا ایک منافق تھا مگر ظاہرمیں اسلام کا اظہار کیا کرتا تھا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سختی نہیں کی اور یہ طئے پایا کہ یہ لوگ اپنا اسلحہ اوراپنی دولت دیکر جتنی جلدی ہوسکے مدینہ کو ترک کردیں(۱)

۲_ بنی نضیر کے یہودیوں کی پیمان شکنی

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کئے ہوئے معاہدہ کو توڑنے والے '' بنی نضیر'' کے یہودی بھی تھے_

ایک دن ایک مسلمان نے قبیلہ بنی عامر کے ایسے دو آدمیوں کو جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معاہدہ کئے ہوئے تھے قتل کرڈالا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان لوگوں کا خون بہاء ادا کرنے

___________________

۱) ( مغازی واقدی ج۱ ص ۱۷۶ و ۱۷۸)_

۹۴

کے سلسلہ میں بنی نضیر کے یہودیوں سے مدد لینے اپنے چند اصحاب کے ساتھ ان کے یہاں گئے _ انہوں نے ظاہر بظاہر بڑی گرم جوشی سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا استقبال کیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک گھر کی دیوار کے سہارے کھڑے تھے اسی اثنا میں کھانا تناول فرمانے کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بلالیا اسی حال میں '' حی ابن خطب'' جو قبیلہ بنی نضیر کا سردار تھا جس نے بنی نضیر کے یہودیوں کی طرف سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہونے والے معاہدہ پر دستخط کئے تھے، خفیہ طور پر اس نے یہودیوں سے کہا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے آج ان سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیئے _ آج جتنے کم افراد ان کے ساتھ ہیںاتنے کم افراد تو ان کے ساتھ کبھی بھی نہیں رہے ، ایک آدمی کوٹھے پر چڑھ گیا تا کہ سرپر ایک پتھر گرا کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کام تمام کردے خدا نے یہودیوں کی سازش سے پردہ اٹھادیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کے برے ارادہ سے مطلع کردیا_

اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی کام سے ایک طرف چلے گئے، اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واپس آنے کے منتظر رہے وہ لوگ بیٹھے رہے مگر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واپس نہیں آئے، وہ لوگ اٹھے کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھونڈھا جائے،اتنے میں ایک شخص وارد ہوا لوگوں نے اس سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں پوچھا اس نے کہا کہ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مدینہ میں دیکھا ہے اصحاب مدینہ پہونچے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چلے آنے کا سبب پوچھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: خدا نے مجھ کو اس سازش سے آگاہ کردیا تھا جو یہودیوں نے میرے خلاف کی تھی اسلئے میں وہاں سے چلا آیا_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ کےلئے نکلنے کا حکم دیا لشکر اسلام نے چھ روز تک بنی نضیر کے گھروں کا محاصرہ کیا چھ روز کے بعد خوف کی وجہ سے ان لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور کہا ہم یہاں

۹۵

سے چلے جانے کے لئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہم ہتھیار کے علاوہ اپنے تمام منقولہ سامان اپنے ساتھ لے جائینگے ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی شرط مان لی وہ اپنا تمام سامان حتی کہ دروازہ بھی اکھاڑ کر اونٹوںپر لاد کرلے گئے_(۱)

۳_بنی قریظہ کے یہودیوں کی عہد شکنی

پیمان شکن یہودیوں کے ساتھ رد عمل کے طور پر پیغمبر کا جو برتاؤ ہو تا اس میں شدید ترین برتاو بنی قریظہ کے عہد شکن یہودیوں کے ساتھ روا رکھا _ انہوں نے اس نازک زمانہ میں اپنا معاہدہ توڑا جس زمانہ میں مشرکین قریش نے تمام اسلام مخالف گروہوں سے مل کر بنے ہوئے ایک بڑے لشکر کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کاکام تمام کردینے کے ارادہ سے مدینہ پر حملہ کیا تھا بنی قریظہ کے لوگوں نے مشرکین مکہ کو پیغام بھیج کر دو ہزار کا لشکرمانگا تا کہ مدینہ کو نیست و نابود کردیں اور اندر سے مسلمانوں کو کھوکھلا کردیں_ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان خندق کی حفاظت کررہے تھے ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو افسر اور پانچ سو سپاہیوں کو معین کیا تا کہ شہر کے اندر گشت لگاکر پہرہ دیتے رہیں اور نعرہ تکبیر کی آواز بلند کرکے بنی قریظہ کے حملوں کو روکیں اس طرح صدائے تکبیر کو سن کر عورتوں اور بچوں کی ڈھارس بندھی رہے گی(۲)

___________________

۱) ( سیرہ ابن ہشام ج۳ ص ۱۹۹ _۲۰۰)_

۲) (مغازی واقدی ج۲ ص ۴۶۰)_

۹۶

جب مشرکین احزاب مسلمانوں سے ہارگئے اور بڑی بے عزتی سے میدان چھوڑ کر بھاگے تو پھر بنی قریظہ کے یہودیوں کی بار ی آئی_

ابھی جنگ احزاب کی تھکن اترنے بھی نہ پائی تھی کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے لڑنے کی آواز بلند کی اور لشکر اسلام نے فورا ان کے قلعے کا محاصرہ کرلیا_

بنی قریظہ کے یہودیوں نے جب اپنے کو خطرہ میں گھرا ہوا محسوس کیا تو انہوں نے پہلے تو یہ درخواست کی کہ تمام یہودیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہی ان کے ساتھ بھی ہو تا کہ وہ لوگ بھی اپنے قابل انتقال سامان کو لیکر مدینہ سے چلے جائیں لیکن پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول نہیں فرمایا اس کے بعد وہ اس بات پر تیار ہوئے کہ ان کے ہم پیمان '' سعد ابن معاذ'' جو فیصلہ کریں گے وہ بلاچون و چرا اس کو قبول کرلینگے پیغمبر نے بھی اس بات کو قبول کرلیا_

سعد ابن معاذ کہ جو تیر لگنے کی وجہ سے زخمی تھے، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب لایا گیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد سے کہا : کہ بنی قریظہ کے یہویوں کے بارے میں فیصلہ کرو_

۹۷

سعد ، جنہوں نے بنی قریظہ کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ عہد و پیمان دیکھا تھا اورجن کے پیش نظر جنگ احزاب میں یہودیوں کی عہد شکنی اور خیانت بھی تھی ، انہوں نے حکم دیا :

۱_ ان کے جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کردیا جائے_

۲_ ان کے مال و اسباب کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے_

۳_ ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالیا جائے _(۱)

معاہدہ توڑنا وہ بھی ایسے موقع پر جب فریق مقابل کیلئے وہ معاہدہ زندگی کا مسئلہ ہو اس کی سزا یہی ہوسکتی ہے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس عمل سے بتایا کہ جب کوئی شخص یا کوئی گروہ کسی عہد و پیمان کو نظر انداز کردے تو پھر اس کاکوئی احترام نہیں رہ جاتا اور نہ اس کی کوئی قدر و قیمت باقی رہتی ہے _

___________________

۱) (مغازی واقدی ج ۲ ص ۵۰۲)_

۹۸

خلاصہ درس

۱) مدینہ میں بسنے والے یہودیوں نے ممکنہ خطرہ سے محفوظ رہنے کیلئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی بھی قسم کی چھیڑ خانی نہ کرنے کا معاہدہ کیا _

۲) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جتنے معاہدے کئے ان سب میں ثابت قدم رہے _ کسی بھی معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہیں دیکھا گیا _

۳) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سماجی اور سیاسی معاہدہ توڑے جانے کی صورت میں کسی طرح کی چشم پوشی سے کام نہیں لیا اور معاہدہ توڑنے والوں کے ساتھ نہایت سخت برتاو کیا _

۴) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قینقاع اور بنی نضیر کے ان یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا جنہوں نے امن کے مانہ میں معاہدہ توڑا تھا لیکن بنی قریظہ کے یہودیوں کیساتھ جنہوں نے اسلام کے دشمنوں کی مددکی تھی سخت رویہ اختیار کیا اور سعد بن معاذ کے فیصلہ کے مطابق جنگ کرنے والے مردوں کو قتل کرڈالا ان کے مال کو ضبط کرلیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالایا_

۹۹

سوالات :

۱_ یہودیوں کے قبیلوں نے کس وجہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی _

۲_ یہودیوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کس طرح کا معاہدہ کیا ؟

۳_ یہودیوں کے سربرآوردہ افراد نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو معاہدہ کیا تھا اسکی شرطیں کیا تھیں ؟

۴_ بنی قینقاع کے یہودیوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا سلوک تھا ؟ اجمالی طور پر بیان کیجئے؟

۵_ بنی قریظہ کے یہودیوں نے دشمنان اسلام میں سے کس سے تعاون کیا ؟ ان کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۱۰۰

حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)(۱)

ترجمہ آیت:وہ قوم جس کے پاس اللہ اور روز آخرت پر ایمان کی دولت ہے اس کو تم ان لوگوں سےمحبت کرتا ہوا نہیں پاؤگے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ سے دشمنی کرتے ہیں چاہے وہ لوگ ان صاحبان ایمان کے باپ ہوں،بیٹے ہوں،بھائی ہوں یا قبیلہ والے ہوں،یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل میں ایمان بیٹھ چکا ہے اور روح ایمان ان کی مدد کررہی ہے(یا خدا اپنی طرف سے ایک روح بھیج کے ان کی مدد کرتا ہے)اللہ انھیں ان باغوں میں داخل کرےگا جن میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،وہی لوگ اللہ کے لشکر ہیں اور سن لو کہ اللہ کا لشکر ہی فلاح پانےوالا ہے.

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:( إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ٭ جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ (۲)

ترجمہ آیت:(بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے کام کرتے ہیں دنیا میں سب سے بہتر ہیں،ان کی جزا خدا کے نزدیک عدن کے باغات ہیں جس کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،یہ شرف اس کو ملتا ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا ہے))۔

بلکہ دونوں مذکورہ آیروں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب مومنین آخرت میں خدا کی خدمت میں جائیں گے اور اس سے ملاقات کریں گے تو اللہ کی رضا انہیں حاصل ہوچکی ہوگی،پھر علما اہل سنت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ مجادلہ آیت۲۲

(۲)سورہ بینہ آیت:۸،۷

۱۰۱

رضا کے لئے استقامت کی قید کیوں نہیں لگاتے اور اگر ان کے لئے خدا کی رضا استقامت سے مقید ہے تو پھر انہوں نے دلیل دینے کے وقت استقامت کی قید کیوں نہیں لگائی؟

رضا بشرط استقامت ہے اور اس کی تائید باقی رہےگی

میری بات کو مندرجہ ذیل امور سے تقویت ملتی ہے۔

۱۔پہلے سوال کے جواب میں میں نے عرض کیا تھا کہ صحابہ کے حالات و مقامات اور ان کے آپسی اختلافات کو دیکھتے ہوئے بیعت رضواں والوں کی یقینی نجات کے بارے میں فیصلہ غلط ہوگا۔

۲۔اگر ان کی نجات قطعی اور یقینی مان لی جائے تو انہیں افعال قبیحہ کی چھوٹ مل جائےگی۔

۳۔مذکورہ آیت سابقون اوّلوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ آیت تب نازل ہوئی ہے جب مسلمانوں کی کثرت ہوچکی تھی اور ان کے لئے نازل ہوئی جو بیعت رضواں میں شریک تھے۔

ان کثیر مسلمانوں میں مغیرہ بن شعبہ(زانی)ابوالعادیہ حضرت عمار یاسر کا قاتل(۱) اور منافقون کاسردار عبداللہ ابن ابی تھا،یہ سب لوگ بیعت رضواں والےتھے۔(۲)

امر ثانی۔آپ اپنے سوال میں فرماتے یں کہ ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ صحابہ(سابقون اوّلون)کو شخصی نزعات پر مجبور کردیا کرتے تھے،کسی پر کوئی مصلحت سوار ہوجاتی اور کبھی ایک دوسرے پر غبطہ کرنے لگتے،پھر شیعہ ابوبکر،عمر،اور عثمان کے قول کی تاویل کیوں نہیں کرلیتے اور حضرت علیؑ کی موجودگی میں ان لوگوں کی خلافت پر قبضہ جمالینے کی تاویل کیوں نہیں کرلیتے کہ خلفائے ثلاثہ کا یہ فعل انھیں ذاتی اور شخصی نزعات کا نتیجہ ہے،شرعاً ان غلطیوں پر کوئی شرعی مواخذہ نہیں کیا جاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الفصل فی الملل و النحل ج:۴ص:منھاج السنۃ نبویہ ج:۶ص:۲۰۵)

(۲)امتاع الاسماع ص:۶۰۵مغازی للواقدی ج:۲ص:۶۱۰)

۱۰۲

غطبہ اور حسد میں فرق ہے

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ(پہلے غبطہ کی تعریف کردی جائے)غبطہ انسان کے اس جذبے کا نام ہےکہ دوسروں کے اس کسی چیز کو دیکھ کے اپنے پاس بھی اس کے ہونے کی تمنا کرے،نہ کہ دوسرے کے پاس کسی نعمت کو دیکھ کے،اس کے دل میں یہ جذبہ(یا تمنا)پیدا ہو کہ اس آدمی کے پاس سے وہ نعمت زائل ہوجائے دوسرے کے لئے زوال نعمت کی تمنا کا نام حسد ہے۔

لسان العرب کے مصنف نے غبطہ کے مادہ کی تشریح میں غبطہ کے معنی پر ایک طویل گفتگو کے بعد لکھا ہے،کہ ازھری کہتے ہیں(خداوند عالم نے اپنی کتاب میں صاحبان تدبر اور نگاہ اعتبار کے لئے غبطہ اور حسد میں واضح فرق بتادیا ہے)ارشاد ہوتا ہے:

وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُواْ اللّهَ مِن فَضْلِهِ(۱)

ترجمہ آیت:اس کی ہوس نہ کرو کیوں کہ فضیلت تو اعمال سے ہے مردوں کو اپنے کئے کا حصہ ہے اور عورتوں کو ان کے کئے کا حصہ ہے۔یہ اور بات ہے کہ تم خدا سے اس کے فضل و کرم کی خواہش کرو)۔

اس آیت میں واضح ہدایت دی گئی ہے کہ کسی مسلمان بھائی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کے اس نعمت کے زوال کی تمنا کرنا جائز ہے،لیکن یہ تمنا کرنا کہ وہ نعمت میرے پاس بھی ہوجائے جائز ہے،تو یہ غبطہ میں مغبوط کو اچھی حالت میں دیکھنے کی خواہش کے ساتھ خود کو بھی انسان اسی حالت میں پہنچانا چاہتا ہے اس میں مغبوط کے زوال،نعمت کی خواہش نہیں ہوتی خدا سے مانگتا بھی ہے تو بس یہ کہ جس کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور اللہ اپنی رضا سے اس کو جو کچھ دیتا ہے۔

لیکن حسد کا معاملہ دوسرا ہے حسد میں انسان دوسرے کی نعمت کا زوال اور اسی نعمت کا اپنے پاس ہونے کی خواہش کرتا ہے،مقصد یہ ہے کہ کسی کے زوال نعمت کے ساتھ اپنے پاس اسی نعمت کے ہونے کی تمنا غبطہ نہیں حسد ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ نساءآیت:۳۲

۱۰۳

حسد اعظم محرمات میں سے ہے

ظاہر ہے کہ حسد جملہ صحیح نہیں ہے،نبیؐ اور اہل بیتؑ نبی کی حدیثیں اس کی حرمت کے تذکرے سے بھری پڑی ہیں،حضورؐ نے اکثر اپنے اصحاب سے فرمایا کہ ان کے اندر حسد رینگ رہا ہے،علی بن جعفرؑ اپنے بھائی موسیٰ بن جعفرؑ وہ اپنے والدہ وہ اپنے جد سے روایت کرتے ہیں ایک دن حضورؐ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ خبردار ہوجاؤ!گذشتہ امتوں کی بیماریاں اندر رینگ رہی ہیں،وہ بیماری حسد ہے،یہ بالوں کی تحلیق نہیں کرتی بلکہ دین کی تحلیق کرتی ہے،اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے ہاتھ اور زبان کو روکے رہے اور اپنے مومن بھائی پر طعنے نہیں مارے۔(۱)

زبیر بن عوام سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا(تمہارے اندر گذشتہ امتوں کی بیماری رینگ رہی ہے وہ بیماری حسد اور بغض ہے،یہ بیماری مونڈنےوالی ہے،لیکن بالوں کو نہین دین کو مونڈتی ہے،اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے تم اس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو اور میں بتاؤں یہ محبت کیسے پیدا ہوگی،کھل کے(با آواز بلند سلام کیا کرو،(۲)

ابوہریرہ کی حدیث میں فرمایا(دیکھو حسد سے بچو حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو یا جھاڑی کو کھا جاتی ہے(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)وسائل الشیعہ ج:۱۱ص:۲۹۴باب:۵۵باب جہاد النفس،حدیث:۱۵

(۲)مسند احمدج:۱ص:۱۶۴،مسند زبیر ابن عوام،سنن ترمذی،ج:۴ص:۶۶۳۔۶۶۴،مجمع الزوائدج:۸ص:۳۰،السنن الکبری،بیھقی،ج:۱۰ص:۲۳۲،کتاب الشہادت،مسند البزار،ج:۶ص:۱۹۲،مسند الشاشی ج:۱ص:۱۱۴،مسند الطیالسی ج:۱ص:۲۷،زبیر ابن عوام کی احادیث میں اس کے علاوہ دیگر منابع اور ماخذ۔

(۳)سنن ابی داودج:۵ص:۳۳۰،کتاب ادب و حسد کے باب میں سنن ابن ماجہ ج:۲ص:۱۴۰۸،کتاب زہد،باب حسد،مصنف ابن ابی شیبۃ،ج:۵ص:۳۳۰،کتاب ادب وہ جو حسد کے باب میں آیا ہے مسند ابی یعلی،ج:۶ص:۳۳۰،اس چیز کے مورد میں جو روایت ابوزناد نے انس سے کی تھی،مسند عبد بن حمیدص:۴۱۸،مسند الشھاب ج:۲ص:۱۳۶،ساتواں باب،حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے،جامع العلوم و الحکم،ص:۳۲۷،شعب الایمان ج:۵ص:۲۶۶،تفسیر القرطبی ج:۵ص:۲۵۱،مصباح الزجاجۃ ج:۴ص:۲۳۸،کتاب زہد باب حسد اس کے علاوہ بہت سے مصادر ہیں،

۱۰۴

ابوبصیر ابوعبداللہ جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں،کفر کی تین جڑیں ہیں حرص،استکبار(خود کو بڑا سمجھنا)اور حسد۔(۱)

اس مضمون کی دوسری حدیثیں بھی ہیں۔

اب حسد کے ساتھ دوسرے سے نعمت کا چھین لینا اور اس کا حق غصب کرنا صرف گفتگو پر اقتصار نہ کرنا(بلکہ ہاتھ اور تلوار کا بھی استعمال کرنا)حسد تو ناقابل معانی جرم ہے ہی،اس کے ساتھ مندرجہ بالا جرائم کا اضافہ کرنے سے دو گناہ ہوتے ہیں،ایک گناہ حسد اور دوسرا گناہ ظلم،تعدی اور غصب کی ہوئی چیز کی اہمیت کےساتھ ہی عمل غصب کی اہمیت بھی بڑھ جائےگی،پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ آپ کے(سابقون اوّلون)صحابہ کا غصب(خلافت و فدک)ایسا گناہ ہے جن کا شرعی طور پر کوئی مواخذہ نہیں ہے،جب آپ نے خود ہی یہ فرمایا ہے کہ غبطہ کی وجہ سے انہوں نے خدا کے اس بلند منصب کو ان سے چھین لیا جو شیعوں کے نزدیک اس منصب کے شرعی مالک تھے،اب ایک بات رہ جاتی ہے وہ یہ کہ شیعہ اس فعل غصب کی یہ تاویل کیوں نہیں کرلیتے کہ ان لوگوں نے آپس کی رضامندی کی وجہ سے خلافت دوسروں کے حوالے کردی،دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب حقدار ہی اس بات پر راضی ہوگیا کہ دوسرا اس کا حق لے لے تو پھر دوسروں کے لئے اس کا حق لینا جائز ہوگیا اور اس کا فعل نافذ ہوگیا،سوال کے اس ٹکڑے کا جواب ہم آپ کے تیسرے سوال کے ذیل میں دیں گے۔انشااللہ۔

اپنے اماموں کے بارے میں شیعوں کا نظریہ سنیوں کے اماموں کے بارے میں سنیوں کا نظریہ ان دونوں میں بہت فرق ہے

امر ثالث:آپ کے سابقہ بیان سے ظاہر ہے کہ شیعوں کا اپنے ائمہ اہل بیتؑ کے بارے میں جو نظریہ ہے وہ اہل سنت کے اپنے اماموں کے متعلق نظریہ سے بالکل الگ ہے،آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)وسائل الشیعہ ج:۱۱ص:۲۹۴باب۹۴باب جہاد النفس:حدیث:۱

۱۰۵

ہی کے بیان کے مطابق اپنے نفس کی محبت اور ہوس کاری کے جذبات نے اہل سنت کے اماموں کا اتنا گرادیا کہ وہ حصول سلطنت کے لئے ٹوٹ پڑے ایک دوسرے پر سبقت کرنے لگے اور حق دار پر زیادتی کر کے آخرت سلطنت پر قبضہ جمالیا یہ عمل شیعوں کے مطابق نص شرع کے خلاف تھا اور اگر سنیوں کے مطابق مانا جائے جب بھی یہ عمل ہوس اور حسد کا نتیجہ ہے

لیکن شیعہ اپنے ائمہ اہل بیتؑ کا ایسا حقدار سمجھتے ہیں جن کی امامت پر نص ہے،مگر ان(ائمہ اہل بیتؑ)نے یہ کبھی نہ چاہا کہ وہ اپنے اس حق کو اقتدار کی محبت اور حکومت کی ہوس کے لئے استعمال کریں،بلکہ وہ امام اس لئے ہونا چاہتے تھے کہ حق کو قائم کردیں دین کو مضبوط کریں اور عدل کا بول بالا ہوجائے خود ان حضرات کے خطبہ اور حدیثیں اس بات کی شاہد ہیں۔

حضرت امیرالمومنینؑ کی گفتگو کا ایک حصہ ملاحظہ ہو(پالنےوالے تو جانتا ہے کہ ہم اہل بیتؑ نہ حکومت کی ہوس رکھتے ہیں اور نہ اس کچرے(دنیا)کے طلب گار ہیں لیکن ہم تو تیرے دین کا علم چاہتے ہیں،تیرے شہروں میں عدل اور اصلاح کا ظہور چاہتے ہیں کہ تیرے مظلوم بندوں کو امن ملے اور تیرے معطل حدود قائم ہوجائیں۔(۱)

دوسری جگہ خطبہ شقشقیہ میں ارشاد فرماتے ہیں(لیکن اس کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور کائنات کو پیدا کیا اگر حاضر کا حضور نہ ہوتا اور ناصر کی موجودگی میں حجت کا قیام واجب نہ ہوتا اور خدا اس خلافت کی اونٹنی کی مہار اس کی پیٹھ پر ڈال دیتا(یعنی آزاد چھوڑ دیتا)اور اس کے آکر کو اس کے اول ہی کے پیالے سے پلاتا تم دیکھتےکہ میرے لئے یہ دنیا بکری کی ناک سے نکلتی ہوئی گندگی سے بھی زیادہ قابل پرہیز ہوں(۲) جب عمر نے شوریٰ کے افراد معین کردئے تو آپ نے ایک گفتگو میں اپنے چچا عباس سے فرمایا(خدا کی قسم مجھے سلطنت کی ہوس نہیں ہےنہ دنیا کی محبت ہے ہاں اگر عدل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۸ص:۲۶۳

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۲۰۲،کتاب نہایۃ اور کتاب لسان العرب مادہ عفظ میں آخری عبارت ذکر ہوئی ہے

۱۰۶

کو ظاہر کرنے کا موقعہ ملے اور کتاب و سنت پر عمل کرنے کرانے کا موقعہ ملے تو اس کے بارے میں سوچنا چاہتا ہوں)(۱)

مقام ذیقار میں ابن عباس سے آپ انی جوتی کی قیمت پوچھتے ہیں(اس وقت آپ اپنی جوتیوں کو اپنے دست مبارک سے ہی رہے تھے)ابن عباس نے کہا اس جوتی کی کوئی قیمت نہیں آپ نے فرمایا خدا کی قسم مجھے یہ میری جوتی!تمہاری اس حکومت سے زیادہ محبوب ہے مگر یہ کہ حق کو قائم کرسکوں اور باطل کو دفع کرسکوں۔(۲)

امام حسینؑ کربال کے لئے نکلے ہیں آپ کے بھائی محمد حنفیہ ملنے آتے ہیں آپ ان سے وصیت کرتے ہیں وصیت میں اپنے ہدف کی وضاحت بھی کرتے ہیں(میں سرکشی ار اتاہٹ میں نہیں نکلا ہوں ظالم اور مفسدین بن کے نہیں نکلا ہوں،میں نےتو اپنے جد کی امت میں اصلاح کے لئے خروج کیا ہے،میرا مقصد ہے،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا اپنے جد محمد مصطفیٰؐ اور اپنے والد علی مرتضیٰؑ کی سیرت پر عمل کرنا اور کرانا ہے تو جو مجھے حق سمجھ کے قبول کرے تو اللہ حق ہونے کا زیادہ مستحق ہے اور جو میری باتوں کو نہیں مانےگا تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ میرا اور اس قوم کا حق کے ذریعہ فیصلہ کردے اور اللہ سب سے بہترین فیصلہ کرنےوالا ہے)(۳)

ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے اپنی حکومت کی غرض اور اقتدار کا ہدف اس طرح کی دوسری حدیثوں میں بھی بتادیا ہے،انشااللہ میں ایسی حدیثوں کے بعض حصے آئندہ بھی پیش کروں گا خدا را فیصلہ کیجئے مسلمانوں کی امانت کا حقدار کون ہے؟جب کہ ہم جانتے ہیں کہ منصب امامت ایک بلند اور مقدس مرتبہ ہے امام دین اسلام کی عظمت کا امانت دار ہوتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۵۱

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۸۰

(۳)بحار الانوارج:۴۴ص:۳۲۹

۱۰۷

اسلامی تشریعات اس کی عزت اور اس کے دینی ماحول کا امین ہوتا ہے،مسلمانوں کے جان و مال اور ناموس کا پاسدار ہوتا ہے،اس لئے مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ امام کی خیرخواہی میں اخلاص برتیں اس کی اطاعت کریں اور اس کی نصرت کرتے رہیں۔

اس تفصیل کے بعد میں آپ کے دینی شعور اور ضمیر کو آواز دیتا ہوں اور بس(آپ کو امامت کے بارے میں)جو نظریہ اچھا لگے اسے اختیار کرلیں(مگر یہ یاد رکھیں)کہ خدا کی شہادت اس کی سرپرستی اور اس کا فیصلہ کافی ہے۔

۱۰۸

سوال نمبر۔۳

ہم اہل سنت اور آپ شیعہ حضرات کیوں نہیں ایسا کرتے کہ صدر اسلام میں جو بھی(تلخ و شیرین)واقعات ہوئے ہیں ان میں ہم علیؑ کی سیرت اور خاص کر امام حسنؑ کی سیرت پر عمل کریں یعنی ان حضرات نےجن باتوں کا اقرار کیا ہم بھی اقرار کریں اور ان حضرات نے جن باتوں کا انکار کیا ہم بھی انکار کریں لہٰذا ذیل کے امور پر پابندی سے عمل کریں۔

۱۔علی علیہ السلام نے ابوبکر کی خلافت کا اقرار کیا۔

۲۔آپ نے عمر کے لئے ابوبکر کی تنصیب خلافت کا اقرار کیا۔

۳۔آپ نے شوریٰ کی ایک فرد ہونے کا اقرار کیا۔

۴۔معاویہ کی شام پر حکومت کا انکار کیا،اس لئے کہ آپ اس کو حکومت کے لئے نااہل سمجھتے تھے،اس کے علاوہ اس کی حکومت کی وجہ سے اسلامی سماج میں فتنہ و فساد پھیل رہا تھا۔

جواب:مجھے اس بات کا حق حاصل کہ آپ سے پوچھوں اقرار کا کیا مطلب ہے؟آپ اقرار سے کیا مراد لیتے ہیں؟

۱۰۹

جو ہورہا ہے اس کو ہونے دینا

۱ ۔ اگر اقرار سے آپ کی مراد یہ ہے کہ جیسی چل رہی ہے چلنے دینا اس میں مدد دینا اس کے بازو کو مضبوط کرنا اور مقصد یہ ہو کہ اسلام کی مصالح کا تحفظ ہوتا رہے اسلام میں اختلاف کی خلیج نہ پیدا ہو،کلمہ اسلام میں پھوٹ نہ پڑے،ان تمام باتوں کے علاوہ حالات ابھی انقلاب کی اجازت نہٰں دیتے یا انقلاب کی ذرا سی کوشش کی جائے تو ڈ ر ہو کہ اسلام کی اس انقلاب سے جو حاصل ہوگا اس سے زیادہ نقصان پہنچ جائےگا،تو یقیناً اس طرح کا اقرار تو ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے کیا ہے لیکن اس اقرار سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ زبردستی خلیفہ بن بیٹھنےوالوں کی خلافت شرعی تھی یہ بات تو واضح ہے کہ حقدار اگر اس امید میں خاموش ہوجائے کہ اس کا حق کبھی نہ کبھی اس کو ملےگا تو یہ خاموشی اس کے استحقاق کو باطل نہیں کرتی،یہ خاموشی(اگر آپ کے بیان کے مطابق اقرار ہے)تو اس طرح کا سکوت تو امام حسن ؑ نے بہرحال کیا،جب آپ نے اپنے والد ماجد کی پیروی کرتے ہوئے معاویہ سے دوسری بار جنگ کی کوشش کی اور پھر(ماحول سازگار نہیں پایا تو)خاموش ہوگئے،اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام اور آپ کی اولاد طاہرہ نے بھی خلفائے جور کے دور میں خاموشی اختیار کی اور یزید کے دور میں اور یزید کے بعد دوسرے غاصبوں کے دور میں ائمہ اہل بیت ؑ نے عملی احتجاج نہیں کیا اور آپ حضرات کے شیعہ بھی اپنے اماموں کی پیروی میں اسی خاموشی اور سکوت کی سیرت پر عمل کرتے رہے،ائمہ اہل بیت ؑ کی یہ خاموشی آپ کے خلفائے ثلاثہ سے ہی مخصوص نہیں ہے جیسا کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہوتا ہے اور اگر کہیں عملی احتجاج ہوا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اماموں کی سیرت میں اختلاف تھا ہمارا ہر امام اپنے ماحول کے اعتبار سے عمل کرنے کا مکلّف ہے جیسا کہ ظاہر ہے ۔

حالات حاضرہ کو جاری رکھنا اور شرعی شکل دینا

۲ ۔ اور اگر آپ اقرار سے یہ مراد لیتے ہیں کہ دونوں خلیفہ نے جو حالات پیدا کئے تھے اس سے مولائے کائنات ؑ راضی تھے اور آپ ان کے افعال کو شرعی جواز دینا چاہتے ہیں اس حیثیت سے کہ شریعت کی

۱۱۰

نظر میں وہ غصب اور زیادتی کی حدوں میں نہیں آتے،یعنی آپ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ حقدار اپنی ملکیت اور حق سے دوسرے کے حق میں دست بردار ہوگیا اور جس کے حق میں دست بردار ہوا ہے حق ملکیت اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق اب اس کی طرف منتقل ہوگیا تو یہ بات غلط ہے اس کے دو اسباب ہیں ۔

خلافت کا تعین خدا کرتا ہے خلیفہ کو حق(نہیں کہ وہ دوسرے کے حق میں دست بردار ہوجائے)

۱ ۔ شیعہ مذہب کی دلیلوں کی بیناد پر خلیفہ یا امام کو صرف اللہ ہی معّین کرتا ہے اور اسی کی طرف سے نص ہوتی ہے،کسی امام کو یہ حق نہیں ہے وہ اپنے بجائے کسی اور کو خلیفہ بنادے یہ حق تو نبی کو بھی حاصل نہیں(کہ وہ خدا کے معین کردہ امام سے امامت و خلافت لیکے)کسی اور کو خلیفہ اور امام بنادے اگر نبی ؐ نے بھی ایسا کیا تو یہ امر الہٰی کی تردید اور اس کے فرائض سے کھلواڑ ہوگا ۔

(مندرجہ بالا بات کی شہادت تاریخ سے ملتی ہے)جب حضور سرور عالم ؐ نے عربوں کے سامنے اپنی نبوت پیش کی کہ وہ نبی کو نبی سمجھ کے آپ کی مدد کریں،یہ بات ہجرت کے پہلے کی ہے تو حضور ؐ نے جب اپنی نبوت پیش کی تو جن لوگوں کے سامنے نبوت پیش کی گئی تھی ان میں بنوعامر بھی تھے تو ان میں سے ایک شخص نے سرکار ؐ سے یہ سوال کیا کہ ہم آپ کی اطاعت کریں اور خدا آپ کو اپنے مخالفوں پر غالب کردے تو کیا آپ کے بعد ہمیں حکومت ملےگی،آپ نے صاف فرمایا،یہ حق تو اللہ کو ہے جس کو چاہےگا دےگا ۔(۱) عبادہ کی حدیث ہے کہ ہم نے پیغمبر ؐ کی اس بات پر بیعت کی کہ آپ کی بات سنیں گے اور آپ کا حکم مانیں گے صاحبان امر سے(ان کی خلافت کے معاملے میں)جگھڑا نہیں کریں گے حق جہاں بھی ہوگا ہم حق ہی کا ساتھ دیں گے اور خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنےوالے کی پرواہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الثقات ج:۱ص:۹۰،۸۹خود کو رسول خداؐ نے قبائل کے سامنے پیش کیا،تاریخ طبری،ج:۱ص:۵۵۶،السیرۃ النبویۃ،ابن ہشام ج:۲ص:۲۷۲،البدایۃ و النہایۃ،ج:۳ص:۱۳۹،السیرۃ الحلبیۃج:۲ص:۳،الکامل فی التاریخ،ج:۱ص:۶۰۹،ابوطالب اور خدیجہ کے ذکر وفات کے بیان میں نیز رسول اللہؐ کا عرب کے سامنے خود کو پیش کرنا،کتاب الاکتفا،بما تضمنہ من مغازی رسول اللہ الثلاثۃ الخلفاءص:۳۰۴،

۱۱۱

نہیں کریں گے(۱) اس حدیث سے ظاہر ہے کہ امامت و خلافت کے کچھ حق دار ہیں جن سے لڑنا حرام ہے،عمرو بن اشعث کی حدیث ہے کہ میں نے سرکار صادق آل محمد علیھم السلام کو فرماتے سنا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم اہل بیت ؑ میں سے کوئی امام آزاد ہے کہ جس کے حق میں چاہے امامت کی وصیت کردے،نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے نبی ؐ سے آپ کے ہر جانشین کے لئے عہد لیا ہے،یہاں تک اسی معاہدے کے تحت ہر امام اپنے بعد والے امام پر نص کرتا اور امر صاحبت امر تک پہنچتا ہے ۔(۲)

محمد بن فضیل ابوالحسن رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو صاحب امانت کے حوالے کردو امام نے فرمایا باری تعالیٰ کا یہ خطاب ائمہ اہل بیت ؑ سے ہے کہ امامت اپنے بعد والے کے حوالے کردو اور دوسروں کو اس سے مخصوص نہ کرو اور حق دار کو امامت سے الگ نہ کرو ۔(۳)

یزید بن سُلیط ابوابراہیم موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں،اسی حدیث میں ساتویں امام کے صاحبزادے علی بن موسیٰ کی امامت پر نص بھی ہے،فرماتے ہیں کہ اے ابوعمارہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ میں اپنے گھر سے نکلنے والا ہوں(نکلتا ہوں)تو میں اپنے فلاں بیٹے کو اپنا وصی بنا رہا ہوں اور دوسرے بیٹوں کو بظاہر اس کا شریک بنا رہا ہوں لیکن باطنی طور پر وہی میرا وصی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسند احمدج:۳ص:۴۴۱مسند احمدج:۳ص:۴۴۱،عبادۃ بن ولید کے حدیث میں،یہی عبارت السنن الکبریٰ،بیھقی،ج:۸ص:۱۴۵،السنن الکبریٰ،ج:۴،کتاب البیعۃ،ص:۴۲۱،سمعاً و طاعۃ بیعت کے بیان میں،ص:۴۲۲،مسند ابن جعد،ص:۲۶۱،سیر اعلام النبلاء،ج:۲ص:۷عبادۃ بن صامت کے حالات میں،تذکرۃ الحفاظ،ج:۳ص:۱۱۳۱،ابن عبدالبر کے باب میں،تاریخ دمشق،ج:۲۶،ص:۱۹۶،عبادۃ بن صامت کی سوانح حیات میں،صحیح ابن حبان،ج:۱۰،ص:۴۱۳،مسند ابی عوانۃ،ج:۴ص:۴۰۷،

(۲)الکافی ج:۱ص:۲۷۸باب:اللہ سے امامت کا عہد،حدیث۲،

(۳)الکافی ج:۱ص:۲۷۷،۲۷۶،اس باب میں کہ امام اپنے بعدوالے کا تعارف کراتا ہے اور خداوند عالم کا قول(کہ امانتیں ان کے اہل تک پہنچادو)ان ائمہؑ کے بارے میں آیت کا نزول ہوا ہے،حدیث۳،

۱۱۲

پس میری وصیت تنہا اسی لئے ہے،اگر مجھے(وصی بنانے کا)اختیار ہوتا تو میں اپنے بیٹے قاسم کو وصی بناتا اس لئے کہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں اور اس پر بہت مہربان ہوں،لیکن وصی اور امام کا معاملہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے جو کو چاہتا ہے بناتا ہے ۔(۱) ائمہ اہل بیت ؑ سے اس سلسلے میں کثیر تعداد میں حدیثیں وارد ہوئی ہیں ۔(۲)

منصب(امامت)کی اہلیت صرف اسی میں ہوتی ہے جس کو اللہ منصب کے لئے معین کرتا ہے

حسن تو یہ ہے کہ اللہ نے بھی صرف اسی کو صاحب منصب قرار دیا ہے جس کے اندر اس منصب کی اہلیت دیکھی ہے اور اس کے علاوہ ہر کسی کے اندر صلاحیتِ منصوب کو معدوم پایا ہے،ثبوت کے لئے مشاہدہ کافی ہے ہم ان فوائد و آثار پر غور کریں،جو امیرالمومنین ؑ کے خلیفہ ہونے سے امت کو حاصل ہوئے،امیرالمومنین ؑ کی خلافت پر شیعوں کے دعوے کے مطانق نص وارد ہوئی ہے،اگر مولا علی ؑ کو پیغمبر ؐ کے بعد خلافت حاصل ہوجاتی اور صاحب اقتدار ہوجاتےتو اس سے کیا فائدے حاصل ہوتے خود حدیث نبی ؐ سے معلوم کیجئے ۔

۱ ۔ حدیث ثقلین ملاحظہ فرمایئے،حضور سرور ؐ کائنات کا ارادہ ہے کہ اس دنیا کو چھوڑنے سے پہلے ایک ایسی تحریر لکھ دیں کہ امت گمراہی سے محفوظ رہے آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں اس حدیث کے بارے میں کافی گفتگو ہوچکی ہے شواہد کا فیصلہ ہے کہ حضور کائنات ؐ اس تحریر کے ذریعہ مولائے کائنات علی بن ابی طالب ؑ کی خلافت کا اعلان کرنا چاہتے تھے اور آپ کی خلافت کو اس انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے کہ آپ کے مخالفوں کے لئے راستے بند ہوجائیں،اس بات کا اعتراف عمر نے بھی کیا ہے،یہ واقعہ آئندہ کے صفحات میں آئےگا،سرکار دو عالم ؐ امت کو گمراہی سے بچانا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الکافی ج:۱ص:۳۱۴باب اشارہ و نص علی ابی الحسن الرضؑا حدیث۱۴،

(۲)الکافی ج:۱ص:۲۸۱،۲۷۶،وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں

۱۱۳

چاہتے تھے اور امت کے لئے اس سے بڑی بات کیا ہوگی کہ وہ گمراہی سے محفوظ رہے ۔

۲ ۔ معصومہ کونین صدیقہ طاہرہ ؑ کا ایک خطبہ شاہد ہے کہ علی ؑ کی خلافت سے کیا فائدے حاصل ہوئے،معصومہ نے یہ خطبہ دیکے کہ مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی خلافت سے عدول کرکے دوسرے کو خلیفہ بنا کے کیا کیا نقصانات نہیں اٹھائے!معصومہ اپنے چھوٹےوالے خطبے میں فرماتی ہیں:خدا کی قسم ابوالحسن سے انھیں کوئی دشمنی نہیں تھی،مگر دشمنی تھی آپ کی تلوار کی دھار سے اور آپ کی صراط مستقیم پر تیز روی آپ ؑ کی وقعت سے جو لوگوں کے لئے قابل پیروی ہے اور ذات خدا میں آپ ؑ کے خلوص سے پیغمبر ؐ نے زمام حکومت جن ہاتھوں میں دی تھی اگر یہ اسی ہاتھ میں رہنے دیتے تو خدا کی قسم وہ انھیں باندھ کے رکھتا اور ان کے ساتھ نرم روی سے چلتا کہ چلنے میں پسلیاں نہ بجتیں اور راکب کو جرکنگ( Jarking )نہیں ہوتی وہ انہیں ایسے گھاٹ پر پہنچاتا(اپنے حوض پر پہنچاتا)جو کنارے تک لبالب بھرا ہوا ہے اور ان لوگوں کو سیراب کردیتا وہ لوگ حیرت میں پڑجاتے بغیر کسی بیکار کوشش کے پیاسا سیراب ہوجاتا اور بھوک مٹ جاتی ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں نازل ہوتیں اور اللہ ان کے اعمال کو قبول کرتا،سنو خبردار ہوجاؤ جب تک زندہ رہوگے دنیا اپنے عجائب تمہیں دکھاتی رہےگی اور اگر تم تعجب ہی کرنا چاہتے ہو تو سب سے زیادہ تعجب خیز یہ حادثہ ہے دیکھ لو انہوں نے کس کا سہارا لیا ہے اور کس سہارے کو پکڑا ہے جسے ولی بنایا گیا ہے وہ بھی برا ہے اور وہ معاشرہ بھی جس نے ولی بنایا اور ظالموں کو برا بدلا ملےگا ۔

خدا کی قسم انہوں نے اگلے حصّے کو چھوڑ کے دم پکڑی(افضل کو چھوڑ کے ادنیٰ کے پیچھے بھاگے)چاق و چوبند اور تجربہ کار آدمی کو چھوڑ کے ب ڈ ھے کی بیعت کرلی،اس قوم کی جلد ہی ناک کٹےگی،جس کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہم بہت اچھا کام کررہے ہیں،حالانکہ خبردار رہنا یہی لوگ فسادی ہیں لیکن نہیں سمجھ رہے ہیں،ان پروائے ہو جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ پیروی کا زیادہ حقدار ہے یا وہ جو رہنمائی نہیں کرتا مگر جن کی رہنمائی کی جاتی ہے انھیں کیا ہوا ہے یہ کیسے فیصلے کرتے ہیں اونٹنی حاملہ ہوئی

۱۱۴

اور ابھی وضع حمل کا انتظار ہی کر رہی تھی کہ ان لوگوں نے دوہنا شروع کردیا نتیجہ میں انہیں خون اور بدبودار پانی ملا جس میں تلخی ہے یہیں پر باطل گروہ کو نقصان اٹھانا پڑا اور بعدوالوں کو معلوم ہوگیا کہ ان کے پہلےوالوں نے جو بنیاد رکھی تھی وہ تہہ نشین ہوچکی ہے،پھر تم اپنے نفس کی تعریف کرو اور اطمینان سے بیٹھ کے ایک جو شلیے فتنے کا انتظار کرو تمہیں چمکتی ہوئی تلواروں کی بشارت ہوا ورتمہارے حالات کے اضطراب کی بشارت ہو،ظالموں کے ظلم و استبداد کی خوشخبری ہو،جو تمہارے مال غنیمت پر قبضہ جمالیں گے اور تمہارے بوئے ہوئے کو کاٹ لے جائیں گے(۱) معصومہ ؐ کا ایک دوسرا خطبہ بھی ہے انشااللہ مناسب مقام پر اسے بھی پیش کیا جائےگا ۔

۳ ۔ ابوعمر جونی کہتے ہیں جب ابوبکر کی بیعت ہوئی تو سلمان فارسی نے کہا کرداذونا کرداذ تمہاری سمجھ میں جو آیا وہ تم نے کیا لیکن اگر یہ لوگ حضرت علی ؑ کی بیعت کئے ہوتے تو آسمانوں سے بھی کھاتے اور زمین سے بھی پاتے ۔(۲)

۴ ۔ حبیب بن ثابت کہتے ہیں سلمان فارسی نے بیعت والےدن فرمایا تم ب ڈ ھے کو خلیفہ بنا کے سمجھے کہ تم نے صحیح کیا اور اپنے نبی ؐ کے اہل بیت ؑ کو ولایت نہ دے کے تم نے غلطی کی اگر تم خلافت اہل بیت نبی ؐ میں قرار دیتے تو دو آدمی بھی اختلاف نہیں کرتے اور تم پیٹ بھر کھاتے(۳) سلمان کے یہ جملے حروف ردہ والی حدیث کے موقعہ پر آنا چاہیں جو میں نے آپ کے چوتھے سوال کے جواب میں پیش کیا ہے ۔

۵ ۔ اسی طرح کی حدیث ابوالھیعہ سے بھی ہے،کہتے ہیں جب سرکار ؐ کی وفات ہوئی تو ابوذر نہیں تھے،ابوذر آئےتو(سقیفہ کا ڈ رامہ ختم ہوچکا تھا)ابوبکر خلیفہ بن چکے تھے،ابوذر نے تبصرہ کیا فرمایا:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۱۶ ص: ۳۳۳ ۔ ۳۳۴ ،بلاغات النسا ابن طیفور ص: ۲۰ ،اقوال فاطمہ بنت رسول اللہؐ،جواہر المطالب فضائل امام علیؑ،ابن دمشقی ج: ۱ ص: ۱۶۵ ۔ ۱۶۹ ،

( ۲) انساب الاشراف ج: ۲ ص: ۲۷۴ ،امر سقیفہ)

( ۳) شرح نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۴۹ ،اور اسی طرح ج: ۶ ص: ۴۳

۱۱۵

تم نے قناعت(تھوڑے)کو صحیح سمجھا اور قرابت پیغمبر کو چھوڑ دیا،اگر اس امر خلافت کو تم اپنے نبی کے اہل بیت ؑ میں قرار دیتے تو تمہارے یہاں دو آدمی آپس میں اختلاف نہیں کرتے(۱)

دوسری جگہ آپ نے عثمان کے دور میں ایک معرکۃ الآرا خطبہ دیا ہے ملاحظہ ہو:کہتے ہیں جو مجھے پہچانتا ہے پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں رَبذہ کا رہنےوالا ابوذر غفاری ہوں میں جندب بن جاندہ ربذی ہوں بیشک اللہ نے منتخب کیا آدم کو،نوح کو،آل ابراہیم کو اور آل عمران کو،ساری کائنات میں ایک ذریت سے دوسرے سے افضل ہے اور اللہ سننےوالا اور جاننےوالا ہے،محمد ؐ اولاد نوح ؑ میں منخب کئے گئے،جو ابراہیم ؑ کے وارث اور اسماعیل ؑ کے خاندان سے ہیں اور محمد ؐ کی وہ عترت جو رہنما ہے،ان کے شرف بلند کئے گئے اور انہیں پوری قوم پر حق فضیلت دیا گیا،وہ ہمارے درمیان ایسے ہیں جیسے بلند آسمان یا پردہ وار کعبہ یا منصوب قبلہ یا بلند ہوتا ہوا سورج یا سفر کرتا ہوا چاند یا رہبری کرتے ہوئے ستارے،یا زیتون کا درخت جس کا تیل روشنی دیتا ہے اور جس کی زیادتی میں برکت دی گئی ہے محمد ؐ آدم کے وارث ہیں اور تمام انبیا ماسلف کو جو فضیلت دی گئی محمد ؐ ان تمام فضائل کے وارث ہیں اور علی بن ابی طالب ؑ محمد ؐ کے وصی اور ان کے علم کے وارث ہیں اے وہ امت جو اپنے نبی کے بعد حیرت میں پڑگئی اگر تم نے اسے آگے بڑھایا ہوتا جس کو اللہ نے بڑھا رکھا ہے اور اسے پیچھے ہوتا تو تم آسمانوں سے بھی پاتے اور زمین سے بھی کھاتے اور خدا کے دوست کمزور نہ ہوتے اور فرائض خدا کو معطل نہیں کیا جاتا اور تمہارے درمیان اگر دو آدمی بھی اختلاف کرتے تو ان کے مسائل کا حل تم کتاب خدا ور سنت نبی ؐ میں پالیتے لیکن اب تو تم جو کیا وہ کردیا اب اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتو!عنقریب ظالم جان جائیں گے کہ کس ٹھکانے پر پہنچنےوالے ہیں ۔(۲)

۶ ۔ عمر اصحاب شوریٰ کو معین کررہے ہیں کہتے ہیں اگر تم نے حضرت علی ؑ کو اپنا ولی بنایا تو خدا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۱۳

(۲)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۷۱،زمانہ عثمان میں

۱۱۶

کی قسم وہ تمہیں واضح حق کے راستے پر ڈ ال دیں گے اور روشن حجت تمہارے سامنے پیش کردیں گے ۔(۱)

میں پوچھتا ہوں مسلمان اور عالم اسلام کے لئے اس سے بہتر بات کیا ہوگی؟(کہ انہیں حق کے راستے پر چلایا جائے)بہرحال گذشتہ مضمون کی کثیر حدیثیں ہیں جو نبی ؐ اور اہل بیت نبی ؐ کی طاہر زبانوں پر ہمہ وقت جاری رہتی تھیں ۔ ان حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصب امامت و خلافت کے لئے منصوص افراد پر کفایت کرنا ضروری ہے اور ان منصوص کا قائم مقام دوسرا ہو ہی نہیں سکتا کہ شریعت اس کی جانب داری کرے اور منصوص علیہ کو معزول کردے(اگر چہ منصوص علیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غاصبوں کو معزول کردے)کاش یہ حق اسے دیا گیا ہوتا ۔

عثمان کی خلافت پر کوئی نص نہیں تھی مگر وہ معزول ہونے پر تیار نہیں تھے

لطیفہ یہ ہے کہ جب عوام نے عثمان سے(ان کی بدکرداریوں کی بنا پر)مطالبہ کیا کہ وہ خلافت سے معزول ہوجائیں تو عثمان نے احتجاجاً ایک جملہ کہا کہنے لگے اللہ نے جو قمیص مجھے پہنائی ہے اس کو نہیں اتاروں گا ۔(۲) حالانکہ وہ عوام کی بیعت کی بنیاد پر خلیفہ بنے تھے ۔ اللہ نے کوئی نص نہیں فرمائی تھی،اس کے باوجود لوگ اہل بیت ؑ کے بارے میں یہ جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ منصوص من اللہ تو تھے ان کے علاوہ کوئی منصوص علیہ نہیں تھا مگر انہوں نے خود کو معزول کرلیا تھا اور اپنا حق دوسروں کو دیدیا تھا اور ان کی حکومت پر راضی تھے،باب کو مزید واضح کرنے کے لئے ملاحظہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ،ج:۱ص:۱۸۶،انھیں الفاظ اور مختلف تعبیر میں نہج البلاغہ کی ج:۶ص:۳۲۶،پر بھی ہے المستدرک علی صحیحین،ج:۳ص:۱۰۱،والامامۃ و السیاسۃ،ج:۱ص:۲۶،والطبقاب الکبریٰ،ج:۳ص:۳۴۲،تاریخ یعقوبی،ج:۲ص:۱۵۸،عمر بن خطاب کے زمانے میں،المصنف،عبدالرزاق،ج:۵ص:۴۴۷،۴۴۶،ابوبکر کی بیعت کے بارے میں،الادب المفرد،بخاری،ص:۲۰۴،انساب الاشراف،ج:۳ص:۱۴،حضرت علی بن ابی طالبؑ کی بیعت کے بارے میں،اورج:۶ص:۱۲۰،امر شوریٰ اور عثمان کی بیعت سے متعلق،والعقد الفرید،ج:۴ص:۲۵۵،الفتوح،ابن اعثم،ج:۱ص:۳۲۴،عمر بن خطاب کے قتل کے بارے میں،تاریخ مدینۃ،ابن شیبۃ،ج:۳ص:۸۸۲،

(۲)تاریخ طبری،ج:۲ص:۳۵،۶۷۵سنہ کے واقعات میں،الکامل فی التاریخ،ج:۳ص:۳۵،۶۷سنہ کے واقعات میں،المنتظم،ج:۵ص:۳۵،۵۵سنہ کے واقعات میں،اہل مصر اور ان کے موافقین کا عثمان کے خلاف خروج،تاریخ دمشق،ج:۳۹،ص:۴۳۸،عثمان بن عفان کے سوانح عمری میں۔

۱۱۷

دورخلافت کے جاری رکھنے سے معالم حق کی بربادی لازم آتی ہے

اوّلا۔عمر اور ابوبکر زبردستی خلیفہ بنے تھے لیکن یہ غلط فہمی نہ ہو کہ دونوں حقدار کی حقیقت کا اعتراف بھی کر رہے تھے بلکہ وہ سرے سے(اہل بیتؑ کو)خلافت کا حقدار ہی نہیں سمجھتے تھے اس لئے کہ وہ نص سے تجاہل عارفانہ کر رہے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ خلافت عام قریش کا حق ہے یا یہ کہ بنوہاشم کا حق بہرحال نہیں ہے باقی چاہے جس کا حق ہو،دلیل یہ تھی کہ خلافت اور نبوت ایک ہی گھر میں جمع نہیں ہوسکتی(دوسری دلیلیں بھی ہیں)اس صورت مین اہل بیت کا ان دونوں کی خلافتوں پر جہاد کرنا اور خود ساختہ خلیفہ کی خلافت کا اقرار کرنا حکم الٰہی میں تحریف اور معالم کو ضائع کرنا ہے وہ معالم حق جس کو لوگوں تک پہنچانا لازمہے یہ کیسے کہا جائے کہ اس اقرار سے صرف اس دور کے لوگوں کے لئے خدا کی نشانیاں ضائع ہوں گی،میں کہتا ہوں کہ جمہور عالم اسلام کے لئے تو وہ نشانیاں ضائع ہو ہی گئیں اس لئے کہ جمہور اہل سنت منصب خلافت کے لئے نص کے قائل نہیں ہیں سب یہ ہے کہ خودساختہ خلفا نے خود بنا کے پیش کیا اور ان حضرات کو نص سے تغافل رکھایا یہ کہ خود غافل کیا حالانکہ نص موجود تھی اور ایک بڑا گروہ نص کا قائل تھا نص کا اعلان اور اس کی تاکید کر رہا تھا اس نص کے ذریعہ لوگوں کے سامنے حجت پیش کر رہا تھا پھر آپ خود سونچیں کیا ہوتا ہے اگر آپ کی طرح اہل بیت ؑ اور ان کے شیعہ بھی غاصبوں کی خلافت کا اقرار کر لیتے اس کی شرعی حیثیت کا اعلان کردیتے اور اہل بیت اطہار ؑ اور ان کے شیعہ ان کا انکار کرنے کے بجائے خاموش رہتے؟مجلسی علیہ الرحمہ نے کتاب استدارک کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے لکھتے ہیں کہ عیسیٰ بن مہران نے اپنی کتاب((الوفاۃ))(۱) میں اپنی اسناد سے حسن بن حسین عرنی سے انہوں نے کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شیخ ابوجعفر محمد بن حسن طوسی نے کتاب فہرست میں کہا:عیسی بن مہران جو مستعطف کے نام سے مشہور تھا جس کی ابوموسیٰ کنیت تھی اس کی تصنیف میں کتاب الوفاۃ میں تلعکبری نے ایک جماعت سے اور انھوں نے ابن ہمام سے اور انھوں نے احمد بن محمد بن موسیٰ نوفلی سے ہمیں خبر دی اور ابن ندیم نے اسے کتابوں میں ذکر کیا،مقتل عثمان سے متعلق کتاب میں،الفہرست باب عیسیٰ،ص:۱۴۲،نجاشی نے کہا(عیسیٰ بن مہران مستعطف جس کی نیت ابوموسیٰ تھی اس کی چند کتابیں ہیں انھیں میں سے ایک کتاب مقتل عثمان نامی بھی ہے،کتاب الوفاۃ)کتاب الکشف الرجال باب عیسیٰ ص:۲۹۷،

۱۱۸

مجھ سے مصبح العجلی نے ان سے ابوعوانہ نے ان سے اعمش نے ان سے مجاہد نے ان سے عمر کے صاحبزادے نے وہ کہتے ہیں کہ جب میرے باپ عمر پر سخت وقت آیا یعنی موت کا وقت تو انہوں نے مجھے حکم دیا کہ ذرا علی ؑ کو بلا لو میں علی ؑ کو بلا کے لایا تو میرے باپ کہنے لگے ابوالحسن میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنھوں نے آپ سے منھ پھیر لیا تھا اور میں نے ہی سب سے پہلے آپ سے جھگڑا کیا لیکن میں آپ کا ساتھی ہوں آپ مجھے معاف کردیں،مولا نے کہا معاف تو کردوں گا لیکن تم بھی اعتراف جرم دو آدمیوں کے سامنے کرو!یہ سن کے میرے باپ نے دیوار کی طرف منھ موڑ لیا اور کچھ دیر تک خاموش رہے پھر فرمایا ابوالحسن آپ کیا کہہ رہے ہیں مولا علی ؑ نے کہا مجھے جو کچھ کہنا تھا کہدیا،شرط وہی کہ دو آدمیوں کی موجودگی میں یہ بات کہو،عمر نے پھر دیوار کی طرف منھ پھیر لیا اور بہت دیر تک خاموش رہے یہاں تک کہ مولائے کائنات ؑ اٹھے اور باہر نکل گئے،ابن عمر کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے کہا،علی ؑ نے تو آپ کے ساتھ انصاف کیا تھا،کاش آپ صرف دو آدمیوں کو گواہ بناکے یہ بات کہہ دیتے عمر نے کہا بیٹا تم کو نہیں معلوم ہے علی ؑ چاہتے ہیں کہ دو آدمی بھی میرے لئے استغفار نہ کریں ۔(۱) اگر چہ میں اس روایت کی صحت پر مکمل یقین نہیں رکھتا لیکن قصہ شوریٰ کے حوالے سے مورخین کا بیان اس روایت سے بہت کچھ ملتا جلتا ہے،عمر اصحاب شوریٰ کو نامزد کررہے ہیں اور ہر ایک کی کمزوری بھی بیان کرتے جارہے ہیں تا کہ ارکان شوریٰ کو خلافت سے دور رکھنے کی وجہ لوگوں کی سمجھ میں آجائے(۲) انہوں نے سب پر بڑے بڑے عیب لگائے لیکن جب مولا علی ؑ کا نام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)بحارالانوارج:۳۰،ص:۱۴۲،ابوبکر اور عمر نے غضب خلافت سے متعلق جو موت کے وقت ندامت و شرمندگی کا اظہار کیا ہے کے باب میں،حدیث۱۰،اسی الفاظ میں،ج:۸ص:۲۰۶،

(۲)الاستیعاب ج:۳ص:۱۱۱۹،علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الامامۃ و السیاسۃ،ج:۱ص:۲۶،کتاب الآثار،ص:۲۱۷،الانساب الاشراف ج:۶ص:۲۲۱،تاریخ المدینۃ،ابن شیبۃج:۳،شوریٰ اور قتل عثمان سے متعلق بیان میں،ص:۸۸۰۔۸۸۱۔۸۸۲۔۸۸۳،شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۲۶،کنزالعمال،ج:۵ص:۷۴۰،حدیث:۱۴۲۶۶،ص:۷۴۲،حدیث۱۴۲۶،الفائق فی غریب الحدیث،ج:۳ص:۱۶۸،غریب الحدیث،ابن سلام،ج:۳ص:۳۳۱،مادہ قنب میں،الفتوح،ابن اعثم،ج:۱ص:۳۲۴،عمر ابن خطاب کے قتل کے بیان کے آغاز میں۔

۱۱۹

لیا تو صرف یہ کہا کہ علی ؑ بہت خوش مزاج اور پر مذاق ہیں ۔(۱)

پھر فوراً یہ بھی صراحت سے کہہ دیا کہ اگر تم ان کو حاکم بناؤگے تو وہ تمہیں حق پر چلاکے چھوڑیں گے اور روشن حجت قائم کریں گے،یہ بات پہلے بھی گذرچکے ہے،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عمر مولا علی ؑ کو خلافت سے قریب کرنا چاہتے تھے اور انھیں کی طرف اشارہ کررہے تھے،

بلکہ طبری کہتے ہیں کہ لوگ نکلے اور عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے اے امیرالمومنین آپ کسی کو خلیفہ تو بنادیں پر عمر نے کہا میں نے اپنے قول کے بعد تمہارے بارے میں اپنی رائے کو جمع کیا تو میں اس حکومت کا دلی ایک ایسے آدمی کو بنا رہا ہوں جو اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم کو حق کے راستے پر ڈ ال دے اس کے بعد انہوں نے حضرت علی ؑ کی طرف اشارہ کیا پھر مجھے غش آگیا اور میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص باغ میں داخل ہوا جو اس نے خود لگایا تھا اور ہر ڈ الی سے تازہ پھل توڑے اور انہیں نچوڑ نچوڑ کر اپنے سر پر ڈ النےلگا،میں سمجھ گیا کہ خدا کا امر غالب ہے اور عمر مرنےوالا ہے تو میں مروں یا زندہ رہوں خلافت کا بار اب نہیں اٹھاؤں گا تم پر واجب ہے کہ اس گروہ(شوریٰ)کی بات مانو!پھر طبری نے عمر کی طرف سے شوریٰ کے تانے بانے پیش کئے ہیں،جو مشہور ہے اور جانا پہچانا ہے ۔(۲)

عمری کی گفتگو کے الٹ پھیر سے تو یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے بہت چالاکی سے گوٹی بٹھا کے شوریٰ کو امت پر اس انداز میں لاددیا کہ سوائے عثمان کے کوئی خلیفہ بن ہی نہیں سکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الاستیعاب ج:۳ص:۱۱۱۹،علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الانساب والاشراف ج:۶ص:۲۲۱،تاریخ المدینۃ،ابن شیبۃج:۳ص:۸۸۰،شرح نہج البلاغہ ج:۳ص:۳۲۶۔۳۲۷،کنزالعمال ج:۵ص:۷۴۰،حدیث:۱۴۲۶۶،ص:۷۴۲،حدیث:۱۴۲۶،الفائق فی غریب الحدیث،ج:۳ص:۱۶۸،غریب الحدیث،ابن سلام،ج:۳ص:۳۳۱،مادہ قنب میں،الفتوح،ابن اعثم،ج:۱ص:۳۲۴،عمر ابن خطاب کے قتل کے بیان کے آغاز میں۔

(۲)تاریخ طبری،ج:۲ص:۵۸۰،اس کے بعد شوریٰ کا قصہ ہے،کلمہ(رہقتنی)تاریخ طبری سے الفیہ کے پروگراموں میں حذف ہوگیا ہے لہذا ہم نے موجودہ نسخہ پر اعتماد کرتے ہوئے جو معجم فقہی کے پروگرام میں درج ہے ملحق کردیا ہے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367