فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206513 / ڈاؤنلوڈ: 6000
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)(۱)

ترجمہ آیت:وہ قوم جس کے پاس اللہ اور روز آخرت پر ایمان کی دولت ہے اس کو تم ان لوگوں سےمحبت کرتا ہوا نہیں پاؤگے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ سے دشمنی کرتے ہیں چاہے وہ لوگ ان صاحبان ایمان کے باپ ہوں،بیٹے ہوں،بھائی ہوں یا قبیلہ والے ہوں،یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل میں ایمان بیٹھ چکا ہے اور روح ایمان ان کی مدد کررہی ہے(یا خدا اپنی طرف سے ایک روح بھیج کے ان کی مدد کرتا ہے)اللہ انھیں ان باغوں میں داخل کرےگا جن میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،وہی لوگ اللہ کے لشکر ہیں اور سن لو کہ اللہ کا لشکر ہی فلاح پانےوالا ہے.

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:( إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ٭ جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ (۲)

ترجمہ آیت:(بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے کام کرتے ہیں دنیا میں سب سے بہتر ہیں،ان کی جزا خدا کے نزدیک عدن کے باغات ہیں جس کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں،یہ شرف اس کو ملتا ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا ہے))۔

بلکہ دونوں مذکورہ آیروں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب مومنین آخرت میں خدا کی خدمت میں جائیں گے اور اس سے ملاقات کریں گے تو اللہ کی رضا انہیں حاصل ہوچکی ہوگی،پھر علما اہل سنت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ مجادلہ آیت۲۲

(۲)سورہ بینہ آیت:۸،۷

۱۰۱

رضا کے لئے استقامت کی قید کیوں نہیں لگاتے اور اگر ان کے لئے خدا کی رضا استقامت سے مقید ہے تو پھر انہوں نے دلیل دینے کے وقت استقامت کی قید کیوں نہیں لگائی؟

رضا بشرط استقامت ہے اور اس کی تائید باقی رہےگی

میری بات کو مندرجہ ذیل امور سے تقویت ملتی ہے۔

۱۔پہلے سوال کے جواب میں میں نے عرض کیا تھا کہ صحابہ کے حالات و مقامات اور ان کے آپسی اختلافات کو دیکھتے ہوئے بیعت رضواں والوں کی یقینی نجات کے بارے میں فیصلہ غلط ہوگا۔

۲۔اگر ان کی نجات قطعی اور یقینی مان لی جائے تو انہیں افعال قبیحہ کی چھوٹ مل جائےگی۔

۳۔مذکورہ آیت سابقون اوّلوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ آیت تب نازل ہوئی ہے جب مسلمانوں کی کثرت ہوچکی تھی اور ان کے لئے نازل ہوئی جو بیعت رضواں میں شریک تھے۔

ان کثیر مسلمانوں میں مغیرہ بن شعبہ(زانی)ابوالعادیہ حضرت عمار یاسر کا قاتل(۱) اور منافقون کاسردار عبداللہ ابن ابی تھا،یہ سب لوگ بیعت رضواں والےتھے۔(۲)

امر ثانی۔آپ اپنے سوال میں فرماتے یں کہ ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ صحابہ(سابقون اوّلون)کو شخصی نزعات پر مجبور کردیا کرتے تھے،کسی پر کوئی مصلحت سوار ہوجاتی اور کبھی ایک دوسرے پر غبطہ کرنے لگتے،پھر شیعہ ابوبکر،عمر،اور عثمان کے قول کی تاویل کیوں نہیں کرلیتے اور حضرت علیؑ کی موجودگی میں ان لوگوں کی خلافت پر قبضہ جمالینے کی تاویل کیوں نہیں کرلیتے کہ خلفائے ثلاثہ کا یہ فعل انھیں ذاتی اور شخصی نزعات کا نتیجہ ہے،شرعاً ان غلطیوں پر کوئی شرعی مواخذہ نہیں کیا جاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الفصل فی الملل و النحل ج:۴ص:منھاج السنۃ نبویہ ج:۶ص:۲۰۵)

(۲)امتاع الاسماع ص:۶۰۵مغازی للواقدی ج:۲ص:۶۱۰)

۱۰۲

غطبہ اور حسد میں فرق ہے

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ(پہلے غبطہ کی تعریف کردی جائے)غبطہ انسان کے اس جذبے کا نام ہےکہ دوسروں کے اس کسی چیز کو دیکھ کے اپنے پاس بھی اس کے ہونے کی تمنا کرے،نہ کہ دوسرے کے پاس کسی نعمت کو دیکھ کے،اس کے دل میں یہ جذبہ(یا تمنا)پیدا ہو کہ اس آدمی کے پاس سے وہ نعمت زائل ہوجائے دوسرے کے لئے زوال نعمت کی تمنا کا نام حسد ہے۔

لسان العرب کے مصنف نے غبطہ کے مادہ کی تشریح میں غبطہ کے معنی پر ایک طویل گفتگو کے بعد لکھا ہے،کہ ازھری کہتے ہیں(خداوند عالم نے اپنی کتاب میں صاحبان تدبر اور نگاہ اعتبار کے لئے غبطہ اور حسد میں واضح فرق بتادیا ہے)ارشاد ہوتا ہے:

وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُواْ اللّهَ مِن فَضْلِهِ(۱)

ترجمہ آیت:اس کی ہوس نہ کرو کیوں کہ فضیلت تو اعمال سے ہے مردوں کو اپنے کئے کا حصہ ہے اور عورتوں کو ان کے کئے کا حصہ ہے۔یہ اور بات ہے کہ تم خدا سے اس کے فضل و کرم کی خواہش کرو)۔

اس آیت میں واضح ہدایت دی گئی ہے کہ کسی مسلمان بھائی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کے اس نعمت کے زوال کی تمنا کرنا جائز ہے،لیکن یہ تمنا کرنا کہ وہ نعمت میرے پاس بھی ہوجائے جائز ہے،تو یہ غبطہ میں مغبوط کو اچھی حالت میں دیکھنے کی خواہش کے ساتھ خود کو بھی انسان اسی حالت میں پہنچانا چاہتا ہے اس میں مغبوط کے زوال،نعمت کی خواہش نہیں ہوتی خدا سے مانگتا بھی ہے تو بس یہ کہ جس کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور اللہ اپنی رضا سے اس کو جو کچھ دیتا ہے۔

لیکن حسد کا معاملہ دوسرا ہے حسد میں انسان دوسرے کی نعمت کا زوال اور اسی نعمت کا اپنے پاس ہونے کی خواہش کرتا ہے،مقصد یہ ہے کہ کسی کے زوال نعمت کے ساتھ اپنے پاس اسی نعمت کے ہونے کی تمنا غبطہ نہیں حسد ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ نساءآیت:۳۲

۱۰۳

حسد اعظم محرمات میں سے ہے

ظاہر ہے کہ حسد جملہ صحیح نہیں ہے،نبیؐ اور اہل بیتؑ نبی کی حدیثیں اس کی حرمت کے تذکرے سے بھری پڑی ہیں،حضورؐ نے اکثر اپنے اصحاب سے فرمایا کہ ان کے اندر حسد رینگ رہا ہے،علی بن جعفرؑ اپنے بھائی موسیٰ بن جعفرؑ وہ اپنے والدہ وہ اپنے جد سے روایت کرتے ہیں ایک دن حضورؐ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ خبردار ہوجاؤ!گذشتہ امتوں کی بیماریاں اندر رینگ رہی ہیں،وہ بیماری حسد ہے،یہ بالوں کی تحلیق نہیں کرتی بلکہ دین کی تحلیق کرتی ہے،اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے ہاتھ اور زبان کو روکے رہے اور اپنے مومن بھائی پر طعنے نہیں مارے۔(۱)

زبیر بن عوام سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا(تمہارے اندر گذشتہ امتوں کی بیماری رینگ رہی ہے وہ بیماری حسد اور بغض ہے،یہ بیماری مونڈنےوالی ہے،لیکن بالوں کو نہین دین کو مونڈتی ہے،اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے تم اس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو اور میں بتاؤں یہ محبت کیسے پیدا ہوگی،کھل کے(با آواز بلند سلام کیا کرو،(۲)

ابوہریرہ کی حدیث میں فرمایا(دیکھو حسد سے بچو حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو یا جھاڑی کو کھا جاتی ہے(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)وسائل الشیعہ ج:۱۱ص:۲۹۴باب:۵۵باب جہاد النفس،حدیث:۱۵

(۲)مسند احمدج:۱ص:۱۶۴،مسند زبیر ابن عوام،سنن ترمذی،ج:۴ص:۶۶۳۔۶۶۴،مجمع الزوائدج:۸ص:۳۰،السنن الکبری،بیھقی،ج:۱۰ص:۲۳۲،کتاب الشہادت،مسند البزار،ج:۶ص:۱۹۲،مسند الشاشی ج:۱ص:۱۱۴،مسند الطیالسی ج:۱ص:۲۷،زبیر ابن عوام کی احادیث میں اس کے علاوہ دیگر منابع اور ماخذ۔

(۳)سنن ابی داودج:۵ص:۳۳۰،کتاب ادب و حسد کے باب میں سنن ابن ماجہ ج:۲ص:۱۴۰۸،کتاب زہد،باب حسد،مصنف ابن ابی شیبۃ،ج:۵ص:۳۳۰،کتاب ادب وہ جو حسد کے باب میں آیا ہے مسند ابی یعلی،ج:۶ص:۳۳۰،اس چیز کے مورد میں جو روایت ابوزناد نے انس سے کی تھی،مسند عبد بن حمیدص:۴۱۸،مسند الشھاب ج:۲ص:۱۳۶،ساتواں باب،حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے،جامع العلوم و الحکم،ص:۳۲۷،شعب الایمان ج:۵ص:۲۶۶،تفسیر القرطبی ج:۵ص:۲۵۱،مصباح الزجاجۃ ج:۴ص:۲۳۸،کتاب زہد باب حسد اس کے علاوہ بہت سے مصادر ہیں،

۱۰۴

ابوبصیر ابوعبداللہ جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں،کفر کی تین جڑیں ہیں حرص،استکبار(خود کو بڑا سمجھنا)اور حسد۔(۱)

اس مضمون کی دوسری حدیثیں بھی ہیں۔

اب حسد کے ساتھ دوسرے سے نعمت کا چھین لینا اور اس کا حق غصب کرنا صرف گفتگو پر اقتصار نہ کرنا(بلکہ ہاتھ اور تلوار کا بھی استعمال کرنا)حسد تو ناقابل معانی جرم ہے ہی،اس کے ساتھ مندرجہ بالا جرائم کا اضافہ کرنے سے دو گناہ ہوتے ہیں،ایک گناہ حسد اور دوسرا گناہ ظلم،تعدی اور غصب کی ہوئی چیز کی اہمیت کےساتھ ہی عمل غصب کی اہمیت بھی بڑھ جائےگی،پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ آپ کے(سابقون اوّلون)صحابہ کا غصب(خلافت و فدک)ایسا گناہ ہے جن کا شرعی طور پر کوئی مواخذہ نہیں ہے،جب آپ نے خود ہی یہ فرمایا ہے کہ غبطہ کی وجہ سے انہوں نے خدا کے اس بلند منصب کو ان سے چھین لیا جو شیعوں کے نزدیک اس منصب کے شرعی مالک تھے،اب ایک بات رہ جاتی ہے وہ یہ کہ شیعہ اس فعل غصب کی یہ تاویل کیوں نہیں کرلیتے کہ ان لوگوں نے آپس کی رضامندی کی وجہ سے خلافت دوسروں کے حوالے کردی،دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب حقدار ہی اس بات پر راضی ہوگیا کہ دوسرا اس کا حق لے لے تو پھر دوسروں کے لئے اس کا حق لینا جائز ہوگیا اور اس کا فعل نافذ ہوگیا،سوال کے اس ٹکڑے کا جواب ہم آپ کے تیسرے سوال کے ذیل میں دیں گے۔انشااللہ۔

اپنے اماموں کے بارے میں شیعوں کا نظریہ سنیوں کے اماموں کے بارے میں سنیوں کا نظریہ ان دونوں میں بہت فرق ہے

امر ثالث:آپ کے سابقہ بیان سے ظاہر ہے کہ شیعوں کا اپنے ائمہ اہل بیتؑ کے بارے میں جو نظریہ ہے وہ اہل سنت کے اپنے اماموں کے متعلق نظریہ سے بالکل الگ ہے،آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)وسائل الشیعہ ج:۱۱ص:۲۹۴باب۹۴باب جہاد النفس:حدیث:۱

۱۰۵

ہی کے بیان کے مطابق اپنے نفس کی محبت اور ہوس کاری کے جذبات نے اہل سنت کے اماموں کا اتنا گرادیا کہ وہ حصول سلطنت کے لئے ٹوٹ پڑے ایک دوسرے پر سبقت کرنے لگے اور حق دار پر زیادتی کر کے آخرت سلطنت پر قبضہ جمالیا یہ عمل شیعوں کے مطابق نص شرع کے خلاف تھا اور اگر سنیوں کے مطابق مانا جائے جب بھی یہ عمل ہوس اور حسد کا نتیجہ ہے

لیکن شیعہ اپنے ائمہ اہل بیتؑ کا ایسا حقدار سمجھتے ہیں جن کی امامت پر نص ہے،مگر ان(ائمہ اہل بیتؑ)نے یہ کبھی نہ چاہا کہ وہ اپنے اس حق کو اقتدار کی محبت اور حکومت کی ہوس کے لئے استعمال کریں،بلکہ وہ امام اس لئے ہونا چاہتے تھے کہ حق کو قائم کردیں دین کو مضبوط کریں اور عدل کا بول بالا ہوجائے خود ان حضرات کے خطبہ اور حدیثیں اس بات کی شاہد ہیں۔

حضرت امیرالمومنینؑ کی گفتگو کا ایک حصہ ملاحظہ ہو(پالنےوالے تو جانتا ہے کہ ہم اہل بیتؑ نہ حکومت کی ہوس رکھتے ہیں اور نہ اس کچرے(دنیا)کے طلب گار ہیں لیکن ہم تو تیرے دین کا علم چاہتے ہیں،تیرے شہروں میں عدل اور اصلاح کا ظہور چاہتے ہیں کہ تیرے مظلوم بندوں کو امن ملے اور تیرے معطل حدود قائم ہوجائیں۔(۱)

دوسری جگہ خطبہ شقشقیہ میں ارشاد فرماتے ہیں(لیکن اس کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور کائنات کو پیدا کیا اگر حاضر کا حضور نہ ہوتا اور ناصر کی موجودگی میں حجت کا قیام واجب نہ ہوتا اور خدا اس خلافت کی اونٹنی کی مہار اس کی پیٹھ پر ڈال دیتا(یعنی آزاد چھوڑ دیتا)اور اس کے آکر کو اس کے اول ہی کے پیالے سے پلاتا تم دیکھتےکہ میرے لئے یہ دنیا بکری کی ناک سے نکلتی ہوئی گندگی سے بھی زیادہ قابل پرہیز ہوں(۲) جب عمر نے شوریٰ کے افراد معین کردئے تو آپ نے ایک گفتگو میں اپنے چچا عباس سے فرمایا(خدا کی قسم مجھے سلطنت کی ہوس نہیں ہےنہ دنیا کی محبت ہے ہاں اگر عدل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۸ص:۲۶۳

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۲۰۲،کتاب نہایۃ اور کتاب لسان العرب مادہ عفظ میں آخری عبارت ذکر ہوئی ہے

۱۰۶

کو ظاہر کرنے کا موقعہ ملے اور کتاب و سنت پر عمل کرنے کرانے کا موقعہ ملے تو اس کے بارے میں سوچنا چاہتا ہوں)(۱)

مقام ذیقار میں ابن عباس سے آپ انی جوتی کی قیمت پوچھتے ہیں(اس وقت آپ اپنی جوتیوں کو اپنے دست مبارک سے ہی رہے تھے)ابن عباس نے کہا اس جوتی کی کوئی قیمت نہیں آپ نے فرمایا خدا کی قسم مجھے یہ میری جوتی!تمہاری اس حکومت سے زیادہ محبوب ہے مگر یہ کہ حق کو قائم کرسکوں اور باطل کو دفع کرسکوں۔(۲)

امام حسینؑ کربال کے لئے نکلے ہیں آپ کے بھائی محمد حنفیہ ملنے آتے ہیں آپ ان سے وصیت کرتے ہیں وصیت میں اپنے ہدف کی وضاحت بھی کرتے ہیں(میں سرکشی ار اتاہٹ میں نہیں نکلا ہوں ظالم اور مفسدین بن کے نہیں نکلا ہوں،میں نےتو اپنے جد کی امت میں اصلاح کے لئے خروج کیا ہے،میرا مقصد ہے،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا اپنے جد محمد مصطفیٰؐ اور اپنے والد علی مرتضیٰؑ کی سیرت پر عمل کرنا اور کرانا ہے تو جو مجھے حق سمجھ کے قبول کرے تو اللہ حق ہونے کا زیادہ مستحق ہے اور جو میری باتوں کو نہیں مانےگا تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ میرا اور اس قوم کا حق کے ذریعہ فیصلہ کردے اور اللہ سب سے بہترین فیصلہ کرنےوالا ہے)(۳)

ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے اپنی حکومت کی غرض اور اقتدار کا ہدف اس طرح کی دوسری حدیثوں میں بھی بتادیا ہے،انشااللہ میں ایسی حدیثوں کے بعض حصے آئندہ بھی پیش کروں گا خدا را فیصلہ کیجئے مسلمانوں کی امانت کا حقدار کون ہے؟جب کہ ہم جانتے ہیں کہ منصب امامت ایک بلند اور مقدس مرتبہ ہے امام دین اسلام کی عظمت کا امانت دار ہوتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۵۱

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۸۰

(۳)بحار الانوارج:۴۴ص:۳۲۹

۱۰۷

اسلامی تشریعات اس کی عزت اور اس کے دینی ماحول کا امین ہوتا ہے،مسلمانوں کے جان و مال اور ناموس کا پاسدار ہوتا ہے،اس لئے مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ امام کی خیرخواہی میں اخلاص برتیں اس کی اطاعت کریں اور اس کی نصرت کرتے رہیں۔

اس تفصیل کے بعد میں آپ کے دینی شعور اور ضمیر کو آواز دیتا ہوں اور بس(آپ کو امامت کے بارے میں)جو نظریہ اچھا لگے اسے اختیار کرلیں(مگر یہ یاد رکھیں)کہ خدا کی شہادت اس کی سرپرستی اور اس کا فیصلہ کافی ہے۔

۱۰۸

سوال نمبر۔۳

ہم اہل سنت اور آپ شیعہ حضرات کیوں نہیں ایسا کرتے کہ صدر اسلام میں جو بھی(تلخ و شیرین)واقعات ہوئے ہیں ان میں ہم علیؑ کی سیرت اور خاص کر امام حسنؑ کی سیرت پر عمل کریں یعنی ان حضرات نےجن باتوں کا اقرار کیا ہم بھی اقرار کریں اور ان حضرات نے جن باتوں کا انکار کیا ہم بھی انکار کریں لہٰذا ذیل کے امور پر پابندی سے عمل کریں۔

۱۔علی علیہ السلام نے ابوبکر کی خلافت کا اقرار کیا۔

۲۔آپ نے عمر کے لئے ابوبکر کی تنصیب خلافت کا اقرار کیا۔

۳۔آپ نے شوریٰ کی ایک فرد ہونے کا اقرار کیا۔

۴۔معاویہ کی شام پر حکومت کا انکار کیا،اس لئے کہ آپ اس کو حکومت کے لئے نااہل سمجھتے تھے،اس کے علاوہ اس کی حکومت کی وجہ سے اسلامی سماج میں فتنہ و فساد پھیل رہا تھا۔

جواب:مجھے اس بات کا حق حاصل کہ آپ سے پوچھوں اقرار کا کیا مطلب ہے؟آپ اقرار سے کیا مراد لیتے ہیں؟

۱۰۹

جو ہورہا ہے اس کو ہونے دینا

۱ ۔ اگر اقرار سے آپ کی مراد یہ ہے کہ جیسی چل رہی ہے چلنے دینا اس میں مدد دینا اس کے بازو کو مضبوط کرنا اور مقصد یہ ہو کہ اسلام کی مصالح کا تحفظ ہوتا رہے اسلام میں اختلاف کی خلیج نہ پیدا ہو،کلمہ اسلام میں پھوٹ نہ پڑے،ان تمام باتوں کے علاوہ حالات ابھی انقلاب کی اجازت نہٰں دیتے یا انقلاب کی ذرا سی کوشش کی جائے تو ڈ ر ہو کہ اسلام کی اس انقلاب سے جو حاصل ہوگا اس سے زیادہ نقصان پہنچ جائےگا،تو یقیناً اس طرح کا اقرار تو ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے کیا ہے لیکن اس اقرار سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ زبردستی خلیفہ بن بیٹھنےوالوں کی خلافت شرعی تھی یہ بات تو واضح ہے کہ حقدار اگر اس امید میں خاموش ہوجائے کہ اس کا حق کبھی نہ کبھی اس کو ملےگا تو یہ خاموشی اس کے استحقاق کو باطل نہیں کرتی،یہ خاموشی(اگر آپ کے بیان کے مطابق اقرار ہے)تو اس طرح کا سکوت تو امام حسن ؑ نے بہرحال کیا،جب آپ نے اپنے والد ماجد کی پیروی کرتے ہوئے معاویہ سے دوسری بار جنگ کی کوشش کی اور پھر(ماحول سازگار نہیں پایا تو)خاموش ہوگئے،اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام اور آپ کی اولاد طاہرہ نے بھی خلفائے جور کے دور میں خاموشی اختیار کی اور یزید کے دور میں اور یزید کے بعد دوسرے غاصبوں کے دور میں ائمہ اہل بیت ؑ نے عملی احتجاج نہیں کیا اور آپ حضرات کے شیعہ بھی اپنے اماموں کی پیروی میں اسی خاموشی اور سکوت کی سیرت پر عمل کرتے رہے،ائمہ اہل بیت ؑ کی یہ خاموشی آپ کے خلفائے ثلاثہ سے ہی مخصوص نہیں ہے جیسا کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہوتا ہے اور اگر کہیں عملی احتجاج ہوا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اماموں کی سیرت میں اختلاف تھا ہمارا ہر امام اپنے ماحول کے اعتبار سے عمل کرنے کا مکلّف ہے جیسا کہ ظاہر ہے ۔

حالات حاضرہ کو جاری رکھنا اور شرعی شکل دینا

۲ ۔ اور اگر آپ اقرار سے یہ مراد لیتے ہیں کہ دونوں خلیفہ نے جو حالات پیدا کئے تھے اس سے مولائے کائنات ؑ راضی تھے اور آپ ان کے افعال کو شرعی جواز دینا چاہتے ہیں اس حیثیت سے کہ شریعت کی

۱۱۰

نظر میں وہ غصب اور زیادتی کی حدوں میں نہیں آتے،یعنی آپ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ حقدار اپنی ملکیت اور حق سے دوسرے کے حق میں دست بردار ہوگیا اور جس کے حق میں دست بردار ہوا ہے حق ملکیت اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق اب اس کی طرف منتقل ہوگیا تو یہ بات غلط ہے اس کے دو اسباب ہیں ۔

خلافت کا تعین خدا کرتا ہے خلیفہ کو حق(نہیں کہ وہ دوسرے کے حق میں دست بردار ہوجائے)

۱ ۔ شیعہ مذہب کی دلیلوں کی بیناد پر خلیفہ یا امام کو صرف اللہ ہی معّین کرتا ہے اور اسی کی طرف سے نص ہوتی ہے،کسی امام کو یہ حق نہیں ہے وہ اپنے بجائے کسی اور کو خلیفہ بنادے یہ حق تو نبی کو بھی حاصل نہیں(کہ وہ خدا کے معین کردہ امام سے امامت و خلافت لیکے)کسی اور کو خلیفہ اور امام بنادے اگر نبی ؐ نے بھی ایسا کیا تو یہ امر الہٰی کی تردید اور اس کے فرائض سے کھلواڑ ہوگا ۔

(مندرجہ بالا بات کی شہادت تاریخ سے ملتی ہے)جب حضور سرور عالم ؐ نے عربوں کے سامنے اپنی نبوت پیش کی کہ وہ نبی کو نبی سمجھ کے آپ کی مدد کریں،یہ بات ہجرت کے پہلے کی ہے تو حضور ؐ نے جب اپنی نبوت پیش کی تو جن لوگوں کے سامنے نبوت پیش کی گئی تھی ان میں بنوعامر بھی تھے تو ان میں سے ایک شخص نے سرکار ؐ سے یہ سوال کیا کہ ہم آپ کی اطاعت کریں اور خدا آپ کو اپنے مخالفوں پر غالب کردے تو کیا آپ کے بعد ہمیں حکومت ملےگی،آپ نے صاف فرمایا،یہ حق تو اللہ کو ہے جس کو چاہےگا دےگا ۔(۱) عبادہ کی حدیث ہے کہ ہم نے پیغمبر ؐ کی اس بات پر بیعت کی کہ آپ کی بات سنیں گے اور آپ کا حکم مانیں گے صاحبان امر سے(ان کی خلافت کے معاملے میں)جگھڑا نہیں کریں گے حق جہاں بھی ہوگا ہم حق ہی کا ساتھ دیں گے اور خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنےوالے کی پرواہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الثقات ج:۱ص:۹۰،۸۹خود کو رسول خداؐ نے قبائل کے سامنے پیش کیا،تاریخ طبری،ج:۱ص:۵۵۶،السیرۃ النبویۃ،ابن ہشام ج:۲ص:۲۷۲،البدایۃ و النہایۃ،ج:۳ص:۱۳۹،السیرۃ الحلبیۃج:۲ص:۳،الکامل فی التاریخ،ج:۱ص:۶۰۹،ابوطالب اور خدیجہ کے ذکر وفات کے بیان میں نیز رسول اللہؐ کا عرب کے سامنے خود کو پیش کرنا،کتاب الاکتفا،بما تضمنہ من مغازی رسول اللہ الثلاثۃ الخلفاءص:۳۰۴،

۱۱۱

نہیں کریں گے(۱) اس حدیث سے ظاہر ہے کہ امامت و خلافت کے کچھ حق دار ہیں جن سے لڑنا حرام ہے،عمرو بن اشعث کی حدیث ہے کہ میں نے سرکار صادق آل محمد علیھم السلام کو فرماتے سنا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم اہل بیت ؑ میں سے کوئی امام آزاد ہے کہ جس کے حق میں چاہے امامت کی وصیت کردے،نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے نبی ؐ سے آپ کے ہر جانشین کے لئے عہد لیا ہے،یہاں تک اسی معاہدے کے تحت ہر امام اپنے بعد والے امام پر نص کرتا اور امر صاحبت امر تک پہنچتا ہے ۔(۲)

محمد بن فضیل ابوالحسن رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو صاحب امانت کے حوالے کردو امام نے فرمایا باری تعالیٰ کا یہ خطاب ائمہ اہل بیت ؑ سے ہے کہ امامت اپنے بعد والے کے حوالے کردو اور دوسروں کو اس سے مخصوص نہ کرو اور حق دار کو امامت سے الگ نہ کرو ۔(۳)

یزید بن سُلیط ابوابراہیم موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں،اسی حدیث میں ساتویں امام کے صاحبزادے علی بن موسیٰ کی امامت پر نص بھی ہے،فرماتے ہیں کہ اے ابوعمارہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ میں اپنے گھر سے نکلنے والا ہوں(نکلتا ہوں)تو میں اپنے فلاں بیٹے کو اپنا وصی بنا رہا ہوں اور دوسرے بیٹوں کو بظاہر اس کا شریک بنا رہا ہوں لیکن باطنی طور پر وہی میرا وصی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)مسند احمدج:۳ص:۴۴۱مسند احمدج:۳ص:۴۴۱،عبادۃ بن ولید کے حدیث میں،یہی عبارت السنن الکبریٰ،بیھقی،ج:۸ص:۱۴۵،السنن الکبریٰ،ج:۴،کتاب البیعۃ،ص:۴۲۱،سمعاً و طاعۃ بیعت کے بیان میں،ص:۴۲۲،مسند ابن جعد،ص:۲۶۱،سیر اعلام النبلاء،ج:۲ص:۷عبادۃ بن صامت کے حالات میں،تذکرۃ الحفاظ،ج:۳ص:۱۱۳۱،ابن عبدالبر کے باب میں،تاریخ دمشق،ج:۲۶،ص:۱۹۶،عبادۃ بن صامت کی سوانح حیات میں،صحیح ابن حبان،ج:۱۰،ص:۴۱۳،مسند ابی عوانۃ،ج:۴ص:۴۰۷،

(۲)الکافی ج:۱ص:۲۷۸باب:اللہ سے امامت کا عہد،حدیث۲،

(۳)الکافی ج:۱ص:۲۷۷،۲۷۶،اس باب میں کہ امام اپنے بعدوالے کا تعارف کراتا ہے اور خداوند عالم کا قول(کہ امانتیں ان کے اہل تک پہنچادو)ان ائمہؑ کے بارے میں آیت کا نزول ہوا ہے،حدیث۳،

۱۱۲

پس میری وصیت تنہا اسی لئے ہے،اگر مجھے(وصی بنانے کا)اختیار ہوتا تو میں اپنے بیٹے قاسم کو وصی بناتا اس لئے کہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں اور اس پر بہت مہربان ہوں،لیکن وصی اور امام کا معاملہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے جو کو چاہتا ہے بناتا ہے ۔(۱) ائمہ اہل بیت ؑ سے اس سلسلے میں کثیر تعداد میں حدیثیں وارد ہوئی ہیں ۔(۲)

منصب(امامت)کی اہلیت صرف اسی میں ہوتی ہے جس کو اللہ منصب کے لئے معین کرتا ہے

حسن تو یہ ہے کہ اللہ نے بھی صرف اسی کو صاحب منصب قرار دیا ہے جس کے اندر اس منصب کی اہلیت دیکھی ہے اور اس کے علاوہ ہر کسی کے اندر صلاحیتِ منصوب کو معدوم پایا ہے،ثبوت کے لئے مشاہدہ کافی ہے ہم ان فوائد و آثار پر غور کریں،جو امیرالمومنین ؑ کے خلیفہ ہونے سے امت کو حاصل ہوئے،امیرالمومنین ؑ کی خلافت پر شیعوں کے دعوے کے مطانق نص وارد ہوئی ہے،اگر مولا علی ؑ کو پیغمبر ؐ کے بعد خلافت حاصل ہوجاتی اور صاحب اقتدار ہوجاتےتو اس سے کیا فائدے حاصل ہوتے خود حدیث نبی ؐ سے معلوم کیجئے ۔

۱ ۔ حدیث ثقلین ملاحظہ فرمایئے،حضور سرور ؐ کائنات کا ارادہ ہے کہ اس دنیا کو چھوڑنے سے پہلے ایک ایسی تحریر لکھ دیں کہ امت گمراہی سے محفوظ رہے آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں اس حدیث کے بارے میں کافی گفتگو ہوچکی ہے شواہد کا فیصلہ ہے کہ حضور کائنات ؐ اس تحریر کے ذریعہ مولائے کائنات علی بن ابی طالب ؑ کی خلافت کا اعلان کرنا چاہتے تھے اور آپ کی خلافت کو اس انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے کہ آپ کے مخالفوں کے لئے راستے بند ہوجائیں،اس بات کا اعتراف عمر نے بھی کیا ہے،یہ واقعہ آئندہ کے صفحات میں آئےگا،سرکار دو عالم ؐ امت کو گمراہی سے بچانا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الکافی ج:۱ص:۳۱۴باب اشارہ و نص علی ابی الحسن الرضؑا حدیث۱۴،

(۲)الکافی ج:۱ص:۲۸۱،۲۷۶،وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں

۱۱۳

چاہتے تھے اور امت کے لئے اس سے بڑی بات کیا ہوگی کہ وہ گمراہی سے محفوظ رہے ۔

۲ ۔ معصومہ کونین صدیقہ طاہرہ ؑ کا ایک خطبہ شاہد ہے کہ علی ؑ کی خلافت سے کیا فائدے حاصل ہوئے،معصومہ نے یہ خطبہ دیکے کہ مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی خلافت سے عدول کرکے دوسرے کو خلیفہ بنا کے کیا کیا نقصانات نہیں اٹھائے!معصومہ اپنے چھوٹےوالے خطبے میں فرماتی ہیں:خدا کی قسم ابوالحسن سے انھیں کوئی دشمنی نہیں تھی،مگر دشمنی تھی آپ کی تلوار کی دھار سے اور آپ کی صراط مستقیم پر تیز روی آپ ؑ کی وقعت سے جو لوگوں کے لئے قابل پیروی ہے اور ذات خدا میں آپ ؑ کے خلوص سے پیغمبر ؐ نے زمام حکومت جن ہاتھوں میں دی تھی اگر یہ اسی ہاتھ میں رہنے دیتے تو خدا کی قسم وہ انھیں باندھ کے رکھتا اور ان کے ساتھ نرم روی سے چلتا کہ چلنے میں پسلیاں نہ بجتیں اور راکب کو جرکنگ( Jarking )نہیں ہوتی وہ انہیں ایسے گھاٹ پر پہنچاتا(اپنے حوض پر پہنچاتا)جو کنارے تک لبالب بھرا ہوا ہے اور ان لوگوں کو سیراب کردیتا وہ لوگ حیرت میں پڑجاتے بغیر کسی بیکار کوشش کے پیاسا سیراب ہوجاتا اور بھوک مٹ جاتی ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں نازل ہوتیں اور اللہ ان کے اعمال کو قبول کرتا،سنو خبردار ہوجاؤ جب تک زندہ رہوگے دنیا اپنے عجائب تمہیں دکھاتی رہےگی اور اگر تم تعجب ہی کرنا چاہتے ہو تو سب سے زیادہ تعجب خیز یہ حادثہ ہے دیکھ لو انہوں نے کس کا سہارا لیا ہے اور کس سہارے کو پکڑا ہے جسے ولی بنایا گیا ہے وہ بھی برا ہے اور وہ معاشرہ بھی جس نے ولی بنایا اور ظالموں کو برا بدلا ملےگا ۔

خدا کی قسم انہوں نے اگلے حصّے کو چھوڑ کے دم پکڑی(افضل کو چھوڑ کے ادنیٰ کے پیچھے بھاگے)چاق و چوبند اور تجربہ کار آدمی کو چھوڑ کے ب ڈ ھے کی بیعت کرلی،اس قوم کی جلد ہی ناک کٹےگی،جس کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہم بہت اچھا کام کررہے ہیں،حالانکہ خبردار رہنا یہی لوگ فسادی ہیں لیکن نہیں سمجھ رہے ہیں،ان پروائے ہو جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ پیروی کا زیادہ حقدار ہے یا وہ جو رہنمائی نہیں کرتا مگر جن کی رہنمائی کی جاتی ہے انھیں کیا ہوا ہے یہ کیسے فیصلے کرتے ہیں اونٹنی حاملہ ہوئی

۱۱۴

اور ابھی وضع حمل کا انتظار ہی کر رہی تھی کہ ان لوگوں نے دوہنا شروع کردیا نتیجہ میں انہیں خون اور بدبودار پانی ملا جس میں تلخی ہے یہیں پر باطل گروہ کو نقصان اٹھانا پڑا اور بعدوالوں کو معلوم ہوگیا کہ ان کے پہلےوالوں نے جو بنیاد رکھی تھی وہ تہہ نشین ہوچکی ہے،پھر تم اپنے نفس کی تعریف کرو اور اطمینان سے بیٹھ کے ایک جو شلیے فتنے کا انتظار کرو تمہیں چمکتی ہوئی تلواروں کی بشارت ہوا ورتمہارے حالات کے اضطراب کی بشارت ہو،ظالموں کے ظلم و استبداد کی خوشخبری ہو،جو تمہارے مال غنیمت پر قبضہ جمالیں گے اور تمہارے بوئے ہوئے کو کاٹ لے جائیں گے(۱) معصومہ ؐ کا ایک دوسرا خطبہ بھی ہے انشااللہ مناسب مقام پر اسے بھی پیش کیا جائےگا ۔

۳ ۔ ابوعمر جونی کہتے ہیں جب ابوبکر کی بیعت ہوئی تو سلمان فارسی نے کہا کرداذونا کرداذ تمہاری سمجھ میں جو آیا وہ تم نے کیا لیکن اگر یہ لوگ حضرت علی ؑ کی بیعت کئے ہوتے تو آسمانوں سے بھی کھاتے اور زمین سے بھی پاتے ۔(۲)

۴ ۔ حبیب بن ثابت کہتے ہیں سلمان فارسی نے بیعت والےدن فرمایا تم ب ڈ ھے کو خلیفہ بنا کے سمجھے کہ تم نے صحیح کیا اور اپنے نبی ؐ کے اہل بیت ؑ کو ولایت نہ دے کے تم نے غلطی کی اگر تم خلافت اہل بیت نبی ؐ میں قرار دیتے تو دو آدمی بھی اختلاف نہیں کرتے اور تم پیٹ بھر کھاتے(۳) سلمان کے یہ جملے حروف ردہ والی حدیث کے موقعہ پر آنا چاہیں جو میں نے آپ کے چوتھے سوال کے جواب میں پیش کیا ہے ۔

۵ ۔ اسی طرح کی حدیث ابوالھیعہ سے بھی ہے،کہتے ہیں جب سرکار ؐ کی وفات ہوئی تو ابوذر نہیں تھے،ابوذر آئےتو(سقیفہ کا ڈ رامہ ختم ہوچکا تھا)ابوبکر خلیفہ بن چکے تھے،ابوذر نے تبصرہ کیا فرمایا:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۱۶ ص: ۳۳۳ ۔ ۳۳۴ ،بلاغات النسا ابن طیفور ص: ۲۰ ،اقوال فاطمہ بنت رسول اللہؐ،جواہر المطالب فضائل امام علیؑ،ابن دمشقی ج: ۱ ص: ۱۶۵ ۔ ۱۶۹ ،

( ۲) انساب الاشراف ج: ۲ ص: ۲۷۴ ،امر سقیفہ)

( ۳) شرح نہج البلاغہ ج: ۲ ص: ۴۹ ،اور اسی طرح ج: ۶ ص: ۴۳

۱۱۵

تم نے قناعت(تھوڑے)کو صحیح سمجھا اور قرابت پیغمبر کو چھوڑ دیا،اگر اس امر خلافت کو تم اپنے نبی کے اہل بیت ؑ میں قرار دیتے تو تمہارے یہاں دو آدمی آپس میں اختلاف نہیں کرتے(۱)

دوسری جگہ آپ نے عثمان کے دور میں ایک معرکۃ الآرا خطبہ دیا ہے ملاحظہ ہو:کہتے ہیں جو مجھے پہچانتا ہے پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں رَبذہ کا رہنےوالا ابوذر غفاری ہوں میں جندب بن جاندہ ربذی ہوں بیشک اللہ نے منتخب کیا آدم کو،نوح کو،آل ابراہیم کو اور آل عمران کو،ساری کائنات میں ایک ذریت سے دوسرے سے افضل ہے اور اللہ سننےوالا اور جاننےوالا ہے،محمد ؐ اولاد نوح ؑ میں منخب کئے گئے،جو ابراہیم ؑ کے وارث اور اسماعیل ؑ کے خاندان سے ہیں اور محمد ؐ کی وہ عترت جو رہنما ہے،ان کے شرف بلند کئے گئے اور انہیں پوری قوم پر حق فضیلت دیا گیا،وہ ہمارے درمیان ایسے ہیں جیسے بلند آسمان یا پردہ وار کعبہ یا منصوب قبلہ یا بلند ہوتا ہوا سورج یا سفر کرتا ہوا چاند یا رہبری کرتے ہوئے ستارے،یا زیتون کا درخت جس کا تیل روشنی دیتا ہے اور جس کی زیادتی میں برکت دی گئی ہے محمد ؐ آدم کے وارث ہیں اور تمام انبیا ماسلف کو جو فضیلت دی گئی محمد ؐ ان تمام فضائل کے وارث ہیں اور علی بن ابی طالب ؑ محمد ؐ کے وصی اور ان کے علم کے وارث ہیں اے وہ امت جو اپنے نبی کے بعد حیرت میں پڑگئی اگر تم نے اسے آگے بڑھایا ہوتا جس کو اللہ نے بڑھا رکھا ہے اور اسے پیچھے ہوتا تو تم آسمانوں سے بھی پاتے اور زمین سے بھی کھاتے اور خدا کے دوست کمزور نہ ہوتے اور فرائض خدا کو معطل نہیں کیا جاتا اور تمہارے درمیان اگر دو آدمی بھی اختلاف کرتے تو ان کے مسائل کا حل تم کتاب خدا ور سنت نبی ؐ میں پالیتے لیکن اب تو تم جو کیا وہ کردیا اب اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتو!عنقریب ظالم جان جائیں گے کہ کس ٹھکانے پر پہنچنےوالے ہیں ۔(۲)

۶ ۔ عمر اصحاب شوریٰ کو معین کررہے ہیں کہتے ہیں اگر تم نے حضرت علی ؑ کو اپنا ولی بنایا تو خدا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۱۳

(۲)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۷۱،زمانہ عثمان میں

۱۱۶

کی قسم وہ تمہیں واضح حق کے راستے پر ڈ ال دیں گے اور روشن حجت تمہارے سامنے پیش کردیں گے ۔(۱)

میں پوچھتا ہوں مسلمان اور عالم اسلام کے لئے اس سے بہتر بات کیا ہوگی؟(کہ انہیں حق کے راستے پر چلایا جائے)بہرحال گذشتہ مضمون کی کثیر حدیثیں ہیں جو نبی ؐ اور اہل بیت نبی ؐ کی طاہر زبانوں پر ہمہ وقت جاری رہتی تھیں ۔ ان حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصب امامت و خلافت کے لئے منصوص افراد پر کفایت کرنا ضروری ہے اور ان منصوص کا قائم مقام دوسرا ہو ہی نہیں سکتا کہ شریعت اس کی جانب داری کرے اور منصوص علیہ کو معزول کردے(اگر چہ منصوص علیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غاصبوں کو معزول کردے)کاش یہ حق اسے دیا گیا ہوتا ۔

عثمان کی خلافت پر کوئی نص نہیں تھی مگر وہ معزول ہونے پر تیار نہیں تھے

لطیفہ یہ ہے کہ جب عوام نے عثمان سے(ان کی بدکرداریوں کی بنا پر)مطالبہ کیا کہ وہ خلافت سے معزول ہوجائیں تو عثمان نے احتجاجاً ایک جملہ کہا کہنے لگے اللہ نے جو قمیص مجھے پہنائی ہے اس کو نہیں اتاروں گا ۔(۲) حالانکہ وہ عوام کی بیعت کی بنیاد پر خلیفہ بنے تھے ۔ اللہ نے کوئی نص نہیں فرمائی تھی،اس کے باوجود لوگ اہل بیت ؑ کے بارے میں یہ جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ منصوص من اللہ تو تھے ان کے علاوہ کوئی منصوص علیہ نہیں تھا مگر انہوں نے خود کو معزول کرلیا تھا اور اپنا حق دوسروں کو دیدیا تھا اور ان کی حکومت پر راضی تھے،باب کو مزید واضح کرنے کے لئے ملاحظہ ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ،ج:۱ص:۱۸۶،انھیں الفاظ اور مختلف تعبیر میں نہج البلاغہ کی ج:۶ص:۳۲۶،پر بھی ہے المستدرک علی صحیحین،ج:۳ص:۱۰۱،والامامۃ و السیاسۃ،ج:۱ص:۲۶،والطبقاب الکبریٰ،ج:۳ص:۳۴۲،تاریخ یعقوبی،ج:۲ص:۱۵۸،عمر بن خطاب کے زمانے میں،المصنف،عبدالرزاق،ج:۵ص:۴۴۷،۴۴۶،ابوبکر کی بیعت کے بارے میں،الادب المفرد،بخاری،ص:۲۰۴،انساب الاشراف،ج:۳ص:۱۴،حضرت علی بن ابی طالبؑ کی بیعت کے بارے میں،اورج:۶ص:۱۲۰،امر شوریٰ اور عثمان کی بیعت سے متعلق،والعقد الفرید،ج:۴ص:۲۵۵،الفتوح،ابن اعثم،ج:۱ص:۳۲۴،عمر بن خطاب کے قتل کے بارے میں،تاریخ مدینۃ،ابن شیبۃ،ج:۳ص:۸۸۲،

(۲)تاریخ طبری،ج:۲ص:۳۵،۶۷۵سنہ کے واقعات میں،الکامل فی التاریخ،ج:۳ص:۳۵،۶۷سنہ کے واقعات میں،المنتظم،ج:۵ص:۳۵،۵۵سنہ کے واقعات میں،اہل مصر اور ان کے موافقین کا عثمان کے خلاف خروج،تاریخ دمشق،ج:۳۹،ص:۴۳۸،عثمان بن عفان کے سوانح عمری میں۔

۱۱۷

دورخلافت کے جاری رکھنے سے معالم حق کی بربادی لازم آتی ہے

اوّلا۔عمر اور ابوبکر زبردستی خلیفہ بنے تھے لیکن یہ غلط فہمی نہ ہو کہ دونوں حقدار کی حقیقت کا اعتراف بھی کر رہے تھے بلکہ وہ سرے سے(اہل بیتؑ کو)خلافت کا حقدار ہی نہیں سمجھتے تھے اس لئے کہ وہ نص سے تجاہل عارفانہ کر رہے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ خلافت عام قریش کا حق ہے یا یہ کہ بنوہاشم کا حق بہرحال نہیں ہے باقی چاہے جس کا حق ہو،دلیل یہ تھی کہ خلافت اور نبوت ایک ہی گھر میں جمع نہیں ہوسکتی(دوسری دلیلیں بھی ہیں)اس صورت مین اہل بیت کا ان دونوں کی خلافتوں پر جہاد کرنا اور خود ساختہ خلیفہ کی خلافت کا اقرار کرنا حکم الٰہی میں تحریف اور معالم کو ضائع کرنا ہے وہ معالم حق جس کو لوگوں تک پہنچانا لازمہے یہ کیسے کہا جائے کہ اس اقرار سے صرف اس دور کے لوگوں کے لئے خدا کی نشانیاں ضائع ہوں گی،میں کہتا ہوں کہ جمہور عالم اسلام کے لئے تو وہ نشانیاں ضائع ہو ہی گئیں اس لئے کہ جمہور اہل سنت منصب خلافت کے لئے نص کے قائل نہیں ہیں سب یہ ہے کہ خودساختہ خلفا نے خود بنا کے پیش کیا اور ان حضرات کو نص سے تغافل رکھایا یہ کہ خود غافل کیا حالانکہ نص موجود تھی اور ایک بڑا گروہ نص کا قائل تھا نص کا اعلان اور اس کی تاکید کر رہا تھا اس نص کے ذریعہ لوگوں کے سامنے حجت پیش کر رہا تھا پھر آپ خود سونچیں کیا ہوتا ہے اگر آپ کی طرح اہل بیت ؑ اور ان کے شیعہ بھی غاصبوں کی خلافت کا اقرار کر لیتے اس کی شرعی حیثیت کا اعلان کردیتے اور اہل بیت اطہار ؑ اور ان کے شیعہ ان کا انکار کرنے کے بجائے خاموش رہتے؟مجلسی علیہ الرحمہ نے کتاب استدارک کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے لکھتے ہیں کہ عیسیٰ بن مہران نے اپنی کتاب((الوفاۃ))(۱) میں اپنی اسناد سے حسن بن حسین عرنی سے انہوں نے کہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شیخ ابوجعفر محمد بن حسن طوسی نے کتاب فہرست میں کہا:عیسی بن مہران جو مستعطف کے نام سے مشہور تھا جس کی ابوموسیٰ کنیت تھی اس کی تصنیف میں کتاب الوفاۃ میں تلعکبری نے ایک جماعت سے اور انھوں نے ابن ہمام سے اور انھوں نے احمد بن محمد بن موسیٰ نوفلی سے ہمیں خبر دی اور ابن ندیم نے اسے کتابوں میں ذکر کیا،مقتل عثمان سے متعلق کتاب میں،الفہرست باب عیسیٰ،ص:۱۴۲،نجاشی نے کہا(عیسیٰ بن مہران مستعطف جس کی نیت ابوموسیٰ تھی اس کی چند کتابیں ہیں انھیں میں سے ایک کتاب مقتل عثمان نامی بھی ہے،کتاب الوفاۃ)کتاب الکشف الرجال باب عیسیٰ ص:۲۹۷،

۱۱۸

مجھ سے مصبح العجلی نے ان سے ابوعوانہ نے ان سے اعمش نے ان سے مجاہد نے ان سے عمر کے صاحبزادے نے وہ کہتے ہیں کہ جب میرے باپ عمر پر سخت وقت آیا یعنی موت کا وقت تو انہوں نے مجھے حکم دیا کہ ذرا علی ؑ کو بلا لو میں علی ؑ کو بلا کے لایا تو میرے باپ کہنے لگے ابوالحسن میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنھوں نے آپ سے منھ پھیر لیا تھا اور میں نے ہی سب سے پہلے آپ سے جھگڑا کیا لیکن میں آپ کا ساتھی ہوں آپ مجھے معاف کردیں،مولا نے کہا معاف تو کردوں گا لیکن تم بھی اعتراف جرم دو آدمیوں کے سامنے کرو!یہ سن کے میرے باپ نے دیوار کی طرف منھ موڑ لیا اور کچھ دیر تک خاموش رہے پھر فرمایا ابوالحسن آپ کیا کہہ رہے ہیں مولا علی ؑ نے کہا مجھے جو کچھ کہنا تھا کہدیا،شرط وہی کہ دو آدمیوں کی موجودگی میں یہ بات کہو،عمر نے پھر دیوار کی طرف منھ پھیر لیا اور بہت دیر تک خاموش رہے یہاں تک کہ مولائے کائنات ؑ اٹھے اور باہر نکل گئے،ابن عمر کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے کہا،علی ؑ نے تو آپ کے ساتھ انصاف کیا تھا،کاش آپ صرف دو آدمیوں کو گواہ بناکے یہ بات کہہ دیتے عمر نے کہا بیٹا تم کو نہیں معلوم ہے علی ؑ چاہتے ہیں کہ دو آدمی بھی میرے لئے استغفار نہ کریں ۔(۱) اگر چہ میں اس روایت کی صحت پر مکمل یقین نہیں رکھتا لیکن قصہ شوریٰ کے حوالے سے مورخین کا بیان اس روایت سے بہت کچھ ملتا جلتا ہے،عمر اصحاب شوریٰ کو نامزد کررہے ہیں اور ہر ایک کی کمزوری بھی بیان کرتے جارہے ہیں تا کہ ارکان شوریٰ کو خلافت سے دور رکھنے کی وجہ لوگوں کی سمجھ میں آجائے(۲) انہوں نے سب پر بڑے بڑے عیب لگائے لیکن جب مولا علی ؑ کا نام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)بحارالانوارج:۳۰،ص:۱۴۲،ابوبکر اور عمر نے غضب خلافت سے متعلق جو موت کے وقت ندامت و شرمندگی کا اظہار کیا ہے کے باب میں،حدیث۱۰،اسی الفاظ میں،ج:۸ص:۲۰۶،

(۲)الاستیعاب ج:۳ص:۱۱۱۹،علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الامامۃ و السیاسۃ،ج:۱ص:۲۶،کتاب الآثار،ص:۲۱۷،الانساب الاشراف ج:۶ص:۲۲۱،تاریخ المدینۃ،ابن شیبۃج:۳،شوریٰ اور قتل عثمان سے متعلق بیان میں،ص:۸۸۰۔۸۸۱۔۸۸۲۔۸۸۳،شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۲۶،کنزالعمال،ج:۵ص:۷۴۰،حدیث:۱۴۲۶۶،ص:۷۴۲،حدیث۱۴۲۶،الفائق فی غریب الحدیث،ج:۳ص:۱۶۸،غریب الحدیث،ابن سلام،ج:۳ص:۳۳۱،مادہ قنب میں،الفتوح،ابن اعثم،ج:۱ص:۳۲۴،عمر ابن خطاب کے قتل کے بیان کے آغاز میں۔

۱۱۹

لیا تو صرف یہ کہا کہ علی ؑ بہت خوش مزاج اور پر مذاق ہیں ۔(۱)

پھر فوراً یہ بھی صراحت سے کہہ دیا کہ اگر تم ان کو حاکم بناؤگے تو وہ تمہیں حق پر چلاکے چھوڑیں گے اور روشن حجت قائم کریں گے،یہ بات پہلے بھی گذرچکے ہے،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عمر مولا علی ؑ کو خلافت سے قریب کرنا چاہتے تھے اور انھیں کی طرف اشارہ کررہے تھے،

بلکہ طبری کہتے ہیں کہ لوگ نکلے اور عمر کے پاس آئے اور کہنے لگے اے امیرالمومنین آپ کسی کو خلیفہ تو بنادیں پر عمر نے کہا میں نے اپنے قول کے بعد تمہارے بارے میں اپنی رائے کو جمع کیا تو میں اس حکومت کا دلی ایک ایسے آدمی کو بنا رہا ہوں جو اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم کو حق کے راستے پر ڈ ال دے اس کے بعد انہوں نے حضرت علی ؑ کی طرف اشارہ کیا پھر مجھے غش آگیا اور میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص باغ میں داخل ہوا جو اس نے خود لگایا تھا اور ہر ڈ الی سے تازہ پھل توڑے اور انہیں نچوڑ نچوڑ کر اپنے سر پر ڈ النےلگا،میں سمجھ گیا کہ خدا کا امر غالب ہے اور عمر مرنےوالا ہے تو میں مروں یا زندہ رہوں خلافت کا بار اب نہیں اٹھاؤں گا تم پر واجب ہے کہ اس گروہ(شوریٰ)کی بات مانو!پھر طبری نے عمر کی طرف سے شوریٰ کے تانے بانے پیش کئے ہیں،جو مشہور ہے اور جانا پہچانا ہے ۔(۲)

عمری کی گفتگو کے الٹ پھیر سے تو یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے بہت چالاکی سے گوٹی بٹھا کے شوریٰ کو امت پر اس انداز میں لاددیا کہ سوائے عثمان کے کوئی خلیفہ بن ہی نہیں سکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الاستیعاب ج:۳ص:۱۱۱۹،علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الانساب والاشراف ج:۶ص:۲۲۱،تاریخ المدینۃ،ابن شیبۃج:۳ص:۸۸۰،شرح نہج البلاغہ ج:۳ص:۳۲۶۔۳۲۷،کنزالعمال ج:۵ص:۷۴۰،حدیث:۱۴۲۶۶،ص:۷۴۲،حدیث:۱۴۲۶،الفائق فی غریب الحدیث،ج:۳ص:۱۶۸،غریب الحدیث،ابن سلام،ج:۳ص:۳۳۱،مادہ قنب میں،الفتوح،ابن اعثم،ج:۱ص:۳۲۴،عمر ابن خطاب کے قتل کے بیان کے آغاز میں۔

(۲)تاریخ طبری،ج:۲ص:۵۸۰،اس کے بعد شوریٰ کا قصہ ہے،کلمہ(رہقتنی)تاریخ طبری سے الفیہ کے پروگراموں میں حذف ہوگیا ہے لہذا ہم نے موجودہ نسخہ پر اعتماد کرتے ہوئے جو معجم فقہی کے پروگرام میں درج ہے ملحق کردیا ہے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

طلب نصرت کی ابتدا تو کردی ہے لیکن آپ کی نظر میں اسلام عظیم کی وحدت اور اس کی عظمت کی سب سے زیادہ اہمیت ہے اور جب آپ یہ دیکھیں گے کہ آپ کے خروج سے اسلام عظیم کی اجتماعی حیثیت،وقار اور اتحاد کو نقصان پہنچ رہا ہے تو بیٹھ جائیں گے،ان خیالات نے صحابہ کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ اس کشمکش میں آپ کا سب سے کمزور پہلو اسلام کی محبت ہے،اسی وجہ سے آپ کی مادی قوت بھی قابل اعتبار نہیں ہے ۔

امیرالمومنین ؑ کے اصولی موقوف پر بعض شواہد

مولائے کائنات کا نقطہ نظر کیا تھا؟اور آپ نے اصول کو کس قدر اہمیت دی تھی؟اس کے چند شواہد پیش کئے جاتے ہیں،مثلاً آپ سقیفہ میں اس وقت نہیں پہنچ سکے جب لوگ آپ پر سبقت کررہے تھے اور خلافت کی کھچڑی پَک رہی تھی،آپ نے اس وقت نہ پہنچنے کا یہ معقول عذر پیش کیا کہ میں پیغمبر ؐ کے جنازے کی تجہیز و تکفین چھوڑ کے آپ کی خلافت کے لئے لوگوں سے جنگ نہیں کر سکتا تھا(1) عباس بن عبدالمطلب نے آپ سے کہا:آیئے ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں،تا کہ لوگ کہیں عم پیغمبر ؐ نے پیغمبر ؐ کے ابن اعم(چچازاد)کی بیعت کرلی،پھر آپ سے کوئی نہیں لڑےگا،آپ نے فرمایا:چچا!میں پسند نہیں کرتا کہ یہ کام پردے کے پیچھے ہو میں تو چاہتا ہوں جو کچھ ہو علانیہ ہو ۔(2) اس طرح ابوسفیان نے((جس کے قبیلہ کی قوت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا))جب آپ کے نقطہ نظر کو موڑ کے قبائلی تعصّب کا رُخ دینا چاہا اور کوشش کی کہ امیرالمومنین ؑ کو قبائلی بنیادوں پر مطالبہ خلافت کی طرف لے جائے تو آپ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اُسے ڈ انٹ دیا ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 16 ،شرح نہج البلاغہ ج: 6 ص: 13 الفتوح لابن اعثم ص: 13

( 2) شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 196 ،ج: 11 ص: 9

( 3) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 83 ،المصنف لعبد الرزاق ج: 5 ص: 451 ،الاستیعاب ج: 3 ص: 974 ،ج: 4 ص: 1679 ،تاریخ الخلفاءج: 1 ص: 67 ،انساب الاشراف ج: 2 ص: 271 ،تاریخ طبری ج: 2 ص: 237 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 45

۲۶۱

جب کہ ابوبکر نے اس کی خوشامد کر کے راضی کرلیا اور صدقہ کے اموال دیئے(1) اور اس کے بیٹے کو گورنر بنادیا(2) نتیجہ میں وہ اس کی اولاد اور گھر والے ابوبکر کے مددگار اور تائید کرنےوالوں میں شامل ہوگئے ۔

میرا خیال تو یہ ہے کہ شاید تاریخ کا یہ اصول دین بن چکا ہے کہ کسی نبی کی امت میں بھی اختلاف ہوتا ہے تو امت کے باطل پرست افراد اہل حق پر غالب آجاتے ہیں ۔(3) وجہ یہ ہے کہ اہل حق کی اصول پرستی اپنے اصولوں کی قربانی پر سمجھوتہ نہیں کرتی اور مددگاروں سے محروم رہ جاتی ہے جب کہ امت کے اہل باطل فرصت سے فائدہ اٹھالیتے ہیں اور پھر نتیجہ میں مادّی اعتبار سے اہل باطل ہی فتحیاب ہوتے ہیں ۔

نتیجہ چاہے تو ہو،امام منصوص کی آواز پر لبیک کہنا واجب ہے

لیکن صحابی ہوں یا غیر صحابی،صرف یہ کہہ دینے سے کہ امام منصوص کے پاس طاقت نہیں ہے یا ان کی کامیابی کا ہمیں یقین نہیں ہے اس لئے ہم ان کی نصرت پر آمادہ نہیں ہوتے،نہ واجب ادا ہوجائےگا اور نہ ان کو بری الذّمہ سمجھا جائےگا بلکہ ہر انسان پر امام منصوص کی اطاعت اور اس کی دعوت پر لبیک کہنا واجب ہے نتیجہ چاہے جو ہو عام انسان کو امام منصوص کی نصرت کے بارے میں نہ اجتہاد کا حق پہنچتا ہے نہ غور کی مہلت،اس لئے کہ امام منصوص جانتا ہے کہ لوگوں کی بھلائی کس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) العقد الفرید ج: 4 ص: 240 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 44

( 2) الطبقات الکبری ج: 4 ص: 97 ۔ 98 ،المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 279 ،تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 133 ،تاریخ طبری ج: 2 ص: 331 ،تاریخ دمشق ج: 16 ص: 78 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 58 ۔ 59

( 3) مجمع الزوائد ج: 1 ص: 157 ،المعجم الاوسط ج: 7 ص: 370 ،فیض القدیر ج: 5 ص: 415 ،حلیۃ الاولیا ج: 4 ص؛ 313 ،تذکرۃ الحفاظ ج: 1 ص: 87 ،کنز العمال ج: 1 ص: 183 حدیث 929 ،الجامع الصغیر للسیوطی ج: 2 ص: 481 حدیث 7799 ،شرح نہج البلاغہ ج: 5 ص: 181

۲۶۲

چیز میں ہے حالانکہ لوگ مصلحتوں سے ناواقف اور مفید نتائج سے بےخبر ہوتے ہیں جیسا کہ صلح حدیبیہ میں واقعہ پیش آیا،نبی ؐ کو معلوم تھا کہ اس صلح سے کیا کیا فائدہ حاصل ہونےوالا ہے در حالیکہ مسلمان عواقب و نتائج سے ناواقفیت کی بنا پر مخالفت پر اتر آئے تھے اس سلسلہ میں بعض مطالب دوسرے سوال کے جواب میں گذر چکے ہیں ۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جلد بازی میں اٹھایا ہوا کوئی قدم فتح کا سبب بن جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مسلسل منصوبہ بندی کرنے کے باوجود آدمی شکست سے دوچار ہوتا ہے،اچھا!اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ حق کی نصرت پر لبیک کہنے اور باطل کی مخالفت میں جنگ کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے پھر بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ غافل متبہ ہوجاتے ہیں،خدا کے لئے حجّت قائم ہوجاتی ہے اور نصرتِ حق میں اُٹھی ہوئی آواز دلوں کو جگا دیتی ہے،میرا خیال ہے کہ یہ فائدہ بھی کچھ کم نہیں ہے،دینِ خدا اور خدا کی طرف دعوت دینےوالوں کو یہ عظیم فائدہ تو حاصل ہو ہی جاتا ہے اور یہی فائدہ کیا کم ہے ۔

ابوسالم جیشانی کہتے ہیں:میں نے سنا مولائے کائنات ؑ کوفہ میں فرما رہے تھے کہ((میں اس لئے لڑ رہا ہوں کہ حق قائم ہو،حالانکہ حق ہرگز قائم نہیں ہوسکے گا جب تک حکومت معاویہ والوں کے ہاتھ میں رہےگی))روای کہتا ہے کہ میں نے اپنے اصحاب سے کہا:یہاں ٹھہرنے کا مقام نہیں ہے در حالیکہ ہمیں بتلادیا جاچکا ہے کہ معاویہ کے طرفداروں کو حق حکومت نہیں ہے پھر ہم نے آپ سے مصر جانے کی اجازت طلب کی آپ نے ہم میں سے جس کو چاہا اجازت دی آپ نے ہر ایک کو ایک ایک ہزار درہم دیئے اور ہمارے گروہ سے ایک حصہ ان کے ساتھ وہیں ٹھہرگیا(1)

آپ نے ملاحظہ کیا کہ امام ؑ کو معلوم تھا کہ معاویہ آپ پر غالب ہوگا اس کے باوجود آپ نے حق کی راہ میں جہاد سے منہ نہیں موڑا اور صاحبانِ بصیرت افراد بھی آپ کے ہمراہ حق کے محاذ پر ڈ ٹے رہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الفتن لنعیم بن حماد ج: 1 ص: 127

۲۶۳

اسود دوئلی کی حدیث ملاحظہ ہو،وہ اپنے باب ابوالاسود دوئیلی سے روایت کرتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ نے فرمایا:((میرے پاس عبداللہ بن سلام آئے،اس وقت میں نے رکاب میں پیر ڈ ال رکھے تھے اور عراق کے لئے عازمِ سفر تھا،عبداللہ بن سلام نے مجھ سے کہا:آپ عراق نہ جائیں،اگر آپ عراق جائیں گے تو آپ کو تلوار کی دھار کا سامنا کرنا پڑےگا،میں نے(مولائے علی ؑ نے)کہا خدا کی قسم یہ بات تو ہادی برحق ؐ مجھے تم سے پہلے بتاچکے ہیں))،ابوالاسود کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا:میں نے آج تک ایسا آدمی بھی نہیں دیکھا جو جنگ کے لئے تیار ہو اور لوگوں سے ایسی باتیں کرتا ہو ۔(1)

آپ نے غور کیا کہ امام ؑ لوگوں کو اپنے عنقریب قتل(شہید)ہونے کی خبر بھی دے رہے ہیں اور لوگوں کو جہاد کی دعوت بھی دے رہے ہیں،صرف یہ ثابت کرنے کے لئے کہ جہاد کا ہدف،فتح و نُصرت سے بہت بلند ہے ۔

امام ابوعبداللہ الحسین ؑ کو دیکھئے،مکّہ مکرمہ میں آپ انقلاب کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور اسی سلسلے میں مدینہ کے بنوہاشم کو لکھتے ہیں ۔

"بسم الله الرحمن الرحیم: حسین ؑ بن علی ؑ کی طرف سے محمد بن علی اور ان کے قبیلہ(یعنی بنی ہاشم)کو معلوم ہو کہ جو مجھ سے آملے گا وہ درجہ شہادت پر فائز ہوگا اور جو مجھ سے ملحق نہیں ہوگا وہ فتح بھی نہیں پاسکتا،والسلام(2)

اسی طرح جب آپ نے مکہ سے عراق جانے کا ارادہ کیا تو خطبہ دیا،خطبہ کے الفاظ ملاحظہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 151 ،کتاب معرفۃ الصحابۃ،مناقب امیرالمومنینؑ،امام حاکم نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اگر چہ شیخین نے نقل نہین کیا ہے لیکن ان کی شرط پر پوری روایت پوری اترتی ہے اور صحیح ہے،صحیح ابن جبان،ج: 15 ص: 127 ،موارد الظمآن،ج: 1 ص: 245 ،تاریخ دمشق،ج: 42 ،ص: 546

( 2) کامل الزیارات ص: 157 ،بصائر الدرجات ص: 502 ،نوادر المعجزات ص: 110 ،دلائل الامامۃ ص: 188 ،الخرائج و الجرائح ج: 2 ص: 771 ۔ 772

۲۶۴

فرمائیں:((الحمداللہ و ماشاءاللہ تعالی قوت صرف اللہ کی ہے،خدا کا درود ہو اس کے نبی ؐ پر،موت انسان کے گلے سے یوں ہی لپٹی ہے جیسے دوشیزہ کے گلے میں گلوبند لپٹا رہتا ہے،مجھے اپنے اسلاف سے ملاقات کی خواہش نے اسی طرح بے چین کیا ہوا ہے جیسے یعقوب ؑ کے دل میں یوسف ؑ سے شوقِ ملاقات،میرے لئے ایک مقتل چُنا گیا ہے جس کی طرف میں جا رہا ہوں،گویا کہ صحرا کے اُموی بھیڑیئے میرے بند بند کو کاٹ رہے ہیں اور میرے جسم سے اپنی بھوک مٹا رہے ہیں،کاتب تقدیر نے جو دن اپنے قلم سے لکھ دیا ہے اس سے انسان الگ نہیں ہوسکتا،خدا کی مرضی ہی ہم اہلبیت ؑ کی رضا ہے،ہم اس کی بلاؤں پر صبر کرتے ہیں،وہ ہمیں صبر کرنے والوں کا اجر دےگا،پیغمبر ؐ سے ان کے گوشت الگ نہیں کیا جاسکتا،بلکہ آپ کے جسم کے تمام حصے محضرِ قدس میں اکٹھا ہونے والے ہیں،جس سے آپ کی آنکھیں ٹھن ڈ ی ہوں گی اور آپ نے جو وعدہ کیا ہے ہمیں لوگوں کے ذریعہ پورا ہوگا ۔ پس جو اپنی جان کو ہماری راہ میں قربان کرنا چاہتا ہے اور اپنے نفس کو خدا سے ملاقی کرنے پر آمادہ کرچکا ہے اسے چاہیے کہ ہمارے ساتھ چلے اس لئے کہ میں کل انشاءاللہ جانے والا ہوں)) ۔(1)

اگر عاشقانِ حق کا نقطہ نظر اور طرزِ زندگی سمجھ سکتے ہیں تو امام حسین ؑ کے کلمات ملاحظہ فرمایئے،دیکھئے!امام حسین ؑ کی نظر میں فتح کیا ہے اور کامیابی کسے کہتے ہیں،مذکورہ خطبہ میں فرماتے ہیں کہ((میں قتل کردیا جاؤں گا))آپ اپنے قتل کی علی الاعلان خبر دے رہے ہیں اور اپنے خط میں((جو آپ نے بنوہاشم کو لکھا ہے))آپ نے جنگ سے پہلے ہی اپنی فتح کا اعلان کردیا ہے،اور اس فتح کے لئے لوگوں سے مدد مانگ رہے ہیں،وہ فتح بھی کیا ہے،ایسی فتح جو بغیر قتل اور شہادت کے حاصل نہیں ہوسکتی ۔

یہ وہ فتح ہے جسے عام انسان ناکامی اور شکست سمجھتا ہے،اسی لئے لوگوں نے امام حسین ؑ کو مشورہ دیا تھا کہ خروج مت کیجئے،لیکن امام وقت جانتا ہے کہ کس وقت کیا ضروری ہے اسی لئے آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مقتل الحسین للمقرم ص: 193 ۔ 194 ،کشف الغمہ ج: 2 ص: 239 ،بحارالانوار ج: 44 ص: 366 ۔ 367

۲۶۵

نے خروج پر اصرار کیا،اپنے خاص شیعوں پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ نے قیام فرمایا اور آپ کے خاص چاہنے والوں نے بھی امرِ خدا کا امتثال کیا اور آپ کے ساتھ سر سے کفن باندھ کے نکل پڑے،انہوں نے حقِ پیغمبر ؐ کو ادا کیا اور امام ؑ کے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوئے ان لوگوں کو فتحِ مبین اور سعادت ازلی نصیب ہوئی جو ان کے پروردگار نے ن کے لئے مقدر کردی تھی ۔

بہرحال صورتِ حال جو بھی ہو،جب امام وقت مدد کے لئے پکارے تو امت پر اس کی نصرت واجب ہے،اس وقت نتائج سے خوفزدہ ہو کر صدائے امام ؑ کو نظرانداز کردینا غلط ہے،اُمت کی تکلیف شرعی ہے امام ؑ کی آواز پر لبیک کہنا،اس لئے کہ امام ؑ کی آواز خدا کی طرف سے اور اس کے حکم سے بُلند ہوتی ہے اور خدا نے امام ؑ کی پیروی کا حکم دیا ہے،جیسا کہ امیرالمومنین ؑ نے اپنے مخلص شیعوں کی تعریف میں ارشاد فرمایا کہ((انہوں نے اپنے قائد پر اعتماد کیا تو اس کی پیروی کی)) ۔(1)

شیعوں کو یہی شکایت ہے کہ صحابہ کی کثیر تعداد نے سقیفہ میں امام منصوص سے منہ موڑ لیا،جب کہ ان کے سامنے واضح نص موجود تھی،انہوں نے امام ؑ کی دعوت پر لبیک نہیں کہی،امام ؑ کی کمر مضبوط نہیں کی اور ان کی مدد نہیں کی کہ وجہ حق کو غاصبانِ حق سے واپس لے سکتے اس لئے کہ مرادِ خدا بھی یہی تھی ۔

امام منصوص کی نصرت نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے نص کی اندیکھی کی

شیعوں کے قول کے مطابق نص کی موجودگی میں امام ؑ کی نصڑت نہ کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے نص کی اندیکھی کی،یا نَص پر توجہ نہیں دی بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سُستی کی اور ایک واجب کو ادا کرنے میں کوتاہی کی،حقدار کی نصرت اور اس کو حق دلانے کے لئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) نہج البلاغہ ج: 2 ص: 109 ،ینابیع المودۃ ج: 2 ص: 29

۲۶۶

انہیں جہاد کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا،جس طرح غزوہ بدر میں صحابہ گھر سے نکلنا نہیں چاہتے تھے،یہ ان کی غلطی تھی جب پیغمبر ؐ حکم دے رہے تھے تو اُنہیں بہانہ نہیں بتانا چاہئے تھا،قرآن مجید اس وقت کی حکایت کرتا ہوا کہتا ہے((جیسا کہ تمہارے پروردگار نے تمہیں حق کے ساتھ تمہارے گھر سے نکالا حالانکہ مومنین کے ایک گروہ کو یہ کام بہت ناگوار گزر رہا تھا وہ تم سے حق کے بارے میں خواہ مخواہ اُلجھ رہے تھے جب کہ ان کے سامنے حق کی وضاحت ہوچکی تھی،لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ان کو موت کی طرف کھینچا جارہا ہو اور وہ موت کا انتظار کررہے ہوں)) ۔(1)

اسی طرح معرکہ اُحد و حُنین میں ان کا جنگ سے فرار کرنا،خندق میں ان کا نبی ؐ کی نصرت سے انکار کرنا اور غزوہ تبوک میں نکلنے کے وقت نبی ؐ سے ان کی مخالفت اور بھی بہت سارے واقعات ہیں جس میں انہوں نے نبی ؐ کی نصرت و حمایت یا تائید سے پہلو تہی کی ہے،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ نبی ؐ کی تکذیب کررہے تھے یا نبی ؐ کی نبوت کو جُھٹلا رہے تھے ۔

اسی طرح اہل کوفہ نے امیرالمومنین ؑ کی نُصرت سے آپ کے آخرِ ایام میں پہلو تہی کی امام حسن ؑ کی نصرت میں سستی کی یا مسلمانوں نے امام حسین ؑ کی نصرت میں کوتاہی کی،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ ان حضرات کی امامت کے قائل نہیں تھے یا نص سے تجاہل کر رہے تھے ۔

امامِ منصوص کی نصرت نہیں کرنا ایسا گناہ ہے جو قابلِ توبہ ہے

البتہ امام ؑ کی نصرت نہیں کرنا بہت بڑا گناہ ہے،جیسے میدان جنگ سے فرار جس کی اللہ نے بہت زیادہ مذمت کی ہے یہ گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے جیسے وہ لوگ جنہوں نے پیغمبر ؐ سے اس جہاد میں منہ موڑ لیا جس میں شرکت کی اللہ نے سخت تاکید کی تھی لیکن پھر اللہ نے توبہ کا دروازہ کھول دیا اور جس طرح وہ اپنے بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیا کرتا ہے،اس گناہ کو بھی بخش دیا،جنگ اُحد سے بھاگنے والے مسلمانوں کو معاف کر کے ان کی مغفرت کی صراحت بھی کردی ہے،اسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ انفال آیت: 5 ۔ 6

۲۶۷

طرح اللہ نے تین مخصوص افراد کی مغفرت کی تصریح کردی،اشارد ہوتا ہے((اور وہ تین افراد جو جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے یہاں تک کہ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے پھر انہیں معاف کردیا تا کہ وہ پاک ہوجائیں،اللہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنےوالا اور رحم کرنے والا ہے ۔(1)

صحابہ کی امیرالمومنین ؑ کی طرف واپسی اور آپ کی مدد کرنا

صحابہ نے امیرالمومنین ؑ کی نصرت سے ہاتھ اٹھا کر بڑا گناہ کیا لیکن پھر انہیں احساس ہوا کہ امیرالمومنین ؑ کے ہاتھ سے خلافت نکل جانے سے کتنی خرابیاں پیدا ہوئیں اور اس احساس کی وجہ سے وہ لوگ امیرالمومنین ؑ اور اہل بیت ؑ کی طرف پلٹے اور قتلِ عثمان کے بعد امیرالمومنین ؑ کی بیعت کے لئے ممکنہ حالات پیدا ہوئے،اس لئے کہ صحابہ نے امیرالمومنین ؑ کے بارے میں جو تقصیر کی تھی اس کا انھیں احساس ہوگیا تھا ۔

قتل عثمان کے بعد صحابہ کا امیرالمومنین ؑ کی ہمراہی کرنا

قتلِ عثمان کے بعد مسلمان اجتماعی طور پر مولائے کائنات ؑ کی طرف بڑھے اور سب نے آپ کی بیعت پر اصرار کیا،اس تاریخی اتحاد کے پیچھے بہت سے آپ کے مخلص صحابہ کی تبلیغ اور امیرالمومنین ؑ کی حقانیت کا ہاتھ تھا،آپ کے مخلص صحابہ مسلمانوں کو مسلسل متوجہ کرتے رہے کہ خلافت کے اصلی حقدار مولائے کاتنات ؑ ہیں جو تمام مسلمانوں سے افضل ہیں،حالانکہ جب پوری امت عثمان کے خلاف تھی اور لوگ عثمان کی فضیحت کرنے میں لگے ہوئے تھے،تاریخ شاہد ہے کہ مولائے کائنات ؑ عثمان کے ساتھ بہت نرمی کا برتاؤ کررہے تھے اور قتلِ عثمان کے بعد بھی آپ مسلم حکومت کی سربراہی قبول کرنے پر تیار نہیں تھے،لیکن یہ صحابہ ہی تھے جنہوں نے لوگوں کو اُبھارا اور لوگ آپ کی بیعت پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ توبہ آیت: 118

۲۶۸

مُضر ہوگئے پھر آپ کی بیعت کے بعد آپ کی مدد بھی کی تمام جنگوں میں آپ کے ساتھ ساتھ رہے اور آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں پیش پیش رہے،ان تمام باتوں کے شواہد حدیث و تاریخ کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں،میں بھی کچھ شواہد پیش کر رہا ہوں ۔

1۔ ابوجعفر اسکافی کہتے ہیں:قتلِ عثمان کے بعد صحابہ مسجد میں جمع ہوئے اور امامت کے مسئلے پر گفتگو ہونے لگی،تو ابوھیثم ابن تیہان،رفاعہ بن رافع،مالک بن عجلان،ابوایوب انصاری اور عمار یاسر نے مشورہ دیا کہ اب تو خلافت علیؑ کو مل ہی جانی چاہئے اور علیؑ کے فضائل و مناقب،آپ کے کارنامے،آپ کا جہاد اور آپ کی پیغمبرؐ سے قرابت قریبہ کو مقام احتجاج می پیش کرتے ہوئے ان لوگوں نے طے کیا کہ علیؑ ہی مستحقِ خلافت ہیں،ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو مولائے کائنات کو اس زمانہ میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور کچھ کا کہنا تھا کہ امیرالمومنینؑ تمام مسلمانوں سے افضل ہیں پھر لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی۔ (1) جب اجلہ صحابہ نے آپ کی بیعت کرلی تو لوگوں کو آپ کی بیعت پر اُبھارا اور آپ کی طرف علی الاعلان دعوت دینا شروع کی یہ صحابہ لوگوں سے آپ کا حق،آپ کا مرتبہ اور آپ کے فضائل بیان کر کے مسلسل آپ کی طرفداری کررہے تھے اور انہوں نے آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور اُسے چلانے میں آپ کی بہت مدد کی۔ آئندہ صفحات میں ہم ان تصریحات کو لکھیں گے جو آپ کی فضیلت میں صحابہ کی طرف سے کی گئیں اور وہ خطبہ بھی پیش کریں گے جو آپ نے اپنی بیعت ہونے کے بعد فرمایا تھا۔

2 ۔ اسی طرح اسکافی ان حالات پر بھی روشنی ڈ التے ہیں جو آپ کی بیعت کے بعد پیدا ہوئے،چونکہ آپ نے مال کی تقسیم برابری سے کی اور آپ کے پہلے جو حکومتیں تھیں ان کے دور میں بدکردار افراد غیر شرعی طور پر مالِ خدا سے فائدہ اٹھا رہے تھے،آپ نے ان پر اعتراض کیا اس لئے آپ سے چند افراد،جن کا غیرشرعی مفاد مجروح ہو رہا تھا آپ سے ناراض ہوگئے اور اختلاف و نفاق پیدا کرکے اپنے ناحق مطالبوں کو منوانا چاہا،اصحاب اس وقت متنبّہ ہوگئے اور اس صورتِ حال کو ختم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغی ج: 7 ص: 36

۲۶۹

کرنے کی بھرپور کوششیں شروع کریدں چنانچہ اسکافی لکھتے ہیں((جب مخالفین حکومت کی ساشیں سامنے آئیں تو عمار بن یاسر اپنے اصحاب کے پاس آئے اور کہنے لگے:چلو اپنے بھائیوں کے اس گروہ کے پس جو اختلاف پیدا کررہے ہیں اُن کے بارے میں ہمارے پاس کچھ خبریں پہنچی ہیں اور ہم ان کی سازشوں کو دیکھ بھی رہے ہیں کہ وہ اختلاف پیدا کررہے ہیں اور اپنے امام پر حملہ کررہے ہیں،جفاکاروں نے زبیر اور اعسرعاق یعنی طلحہ کے یہاں بہت مداخلت پیدا کرلی ہے))،

پس ابوہثیم،عمار،ابوایوب،سہل بن حنیف اور اُن کے ساتھ ایک جماعت اٹھ کھڑی ہوئی،وہ لوگ مولائے کائنات ؑ کے پاس آئے اور کہنے لگے،امیرالمومنین ؑ آپ اپنے معاملات پر غور کیجئے،قریش کی یہ شاخ(طلحہ و زبیر)((جو آپ ہی کی قوم سے ہیں))،آُ سے ناراض ہوگئی ہے انہوں نے آپ سے کیا ہوا عہد توڑ دیا ہے آپ سے وعدہ کرکے وعدہ خلافی کی ہے اور در پردہ آپ کو چھوڑ دینے کی وہ ہمیں دعوت دے رہے ہیں،خدا آپ کو آپ کے حق پر باقی رکھے،ان کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کی رہبری کا ناگوار سمجھتے ہیں اور بیت المال سے ملنے والی اضافی امداد کو کھوچکے ہیں،چونکہ آپ نے ان کو اور کچھ لوگوں کو ایک ہی میزانِ نظر میں رکھا ہے اس لئے وہ لوگ آپ کو بُرا کہہ رہے ہیں،انہوں نے آپ پر آپ کے دشمن کو ترجیح دی ہے اور اُسے بڑھا کرکے پیش کیا ہے،وہ لوگ خونِ عثمان کا بدلہ لینے کے لئے مظاہرہ کررہے ہیں،جماعت میں فرقہ پیدا کررہے ہیں اور گمراہوں سے محبت کررہے ہیں،آپ اپنی رائے ظاہر کریں))(1) آپ ملاحظہ کررہے ہیں کہ خاص صحابہ کس طرح امیرالمومنین ؑ کے حق کی وضاحت کررہے ہیں،آپ کی خیرخواہی میں لگے ہوئے ہیں،آپ کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں اور آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔

3 ۔ خفاف بن عبداللہ طائی معاویہ سے قتل عثمان کے بعد کے واقعات بیان کرتا ہوا کہتا ہے پھر لوگ علی ؑ کی بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے جیسے کہ ٹ ڈ یوں کا لشکر آتا ہے پھر امیرالمومنین ؑ نے چلنے کا ارادہ کیا تو آپ کے ساتھ مہاجرین و انصار کا بڑا مجمع نے جھجک چل پڑا،صرف تین افراد نے آپ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغی ج: 7 ص: 39

۲۷۰

قیادت میں جہاد کرنے سے گریز کیا اور وہ تین افراد،سعد بن مالک،عبداللہ بن عمر،محمد بن مسلمہ ہیں،لیکن علی ؑ نے کسی کو بھی اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کیا،جو لوگ آپ کے ساتھ آسانی سے شریک ہوئے تھے ان کی وجہ سے آپ بےنیاز تھے اور جو لوگ حیل،حُجت کررہے تھے ان کی آپ نے ضرورت بھی نہیں محسوس کی ۔(1)

4 ۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے لئے جب امیرالمومنین ؑ نکلے تو آپ کے ساتھ آٹھ سو انصار تھے اور چارسو بیعت رضوان والے صحابہ تھے ۔(2) ایک روایت میں ہے کہ آپ کے ساتھ سات سو انصار تھے ۔(3)

5 ۔ معاویہ نے جب عبداللہ بن عمر کو خط لکھ کے مدد مانگی تو انہوں نے جواب میں لکھا((وہ نظریہ جس کی وجہ سے تمہارے دل میں لالچ پیدا ہوا ہے وہ تمہاری رائے ہے لیکن میں نے انصار و مہاجرین میں علی ؑ سے لگاؤ نہیں رکھا ہے اور طلحہ و زبیر نے ام المومنین عائشہ کو بھی چھوڑ دیا ہے تو کیا تمہاری پیروی کرلوں!

پھر ابن عمر نے ابن غزیہ سے کہا کہ اس شخص(معاویہ)کا جواب دو ابن غزیہ کا باپ ایک گوشہ نشین زاہد تھا اور وہ خود قریش کا سب سے بڑا شاعر تھا،اس نے ابن عمر کی فرمائش پر معاویہ کے خط کے جواب میں کچھ اشعار کہے ۔

ترجمہ اشعار:ہم نے علی ابن ابی طالب ؑ کو اصحابِ محمد ؐ کے درمیان چھوڑ دیا ہے حالانکہ ہمیں امید نہیں تھی کہ وہ جس چیز(خلافت)سے دور رکھے گئے ہیں اس پالیں گے انصار ان کے ساتھ ہیں اور مہاجرین کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہیں اور مہاجرین و انصار علی ؑ کی قیادت میں شیروں کی طرح جال میں جکڑے ہوئے ہیں یعنی سب ان کے ساتھ ہیں ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 65 الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 74 ،شرح نہج البلاغہ ج: 3 ص: 111

( 2) تاریخ خلیفہ بن خیاط ج: 1 ص: 184 ،جنگ جمل کے تفصیلی واقعات،العقد الفرید ج: 4 ص: 289 ،جنگ جمل

( 3) انساب الاشراف ج: 3 ص: 30

( 4) وقعۃ صفین ص: 72 ۔ 73

۲۷۱

6 ۔ محمد بن ابی بکر ایک خط معاویہ کو لکھا اور اس میں مولا علی ؑ کے فضائل کا تذکرہ کیا لکھتے ہیں:اور علی ؑ کے ساتھ علی ؑ کے فضائل اور آپ سابقات تو ہیں ہی اس کے علاوہ وہ مہاجرین و انصار ہیں جن کے فضائل قرآن بیان کرتا ہے اور اللہ ان کی تعریف کرتا ہے وہ علی ؑ کے مددگار ہیں علی ؑ سے شدید محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ آپ کو گھرے رہتے وہ اپنی تلواروں کو جنبش دیتے ہیں اور علی ؑ کے لئے اپنا خون بہانے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔(1)

7 ۔ امیرالمومنین ؑ جنگ جمل میں جانے کے لئے نکلے اور جب مقام فید پر پہنچے تو آپ کی خدمت میں قبیلہ بنی اسد اور قبیلہ طے حاضر ہوا اور آپ کی قیادت میں جہاد کرنے کے لئے خود کو یپش کیا،آپ نے فرمایا تم لوگ اپنے قریے(گاؤں)میں ہی رہو!میرے لئے مہاجرین کافی ہیں،(2)

8 ۔ امیرالمومنین ؑ نے معاویہ کو ایک خط لکھا((میں صحراؤں کو قطع کرتا ہوا تیری طرف بڑھ رہا ہوں،میرے ساتھ مہاجرین و انصار کی بڑی جماعت ہے اور ان کی اولاد جو نیکی میں اُن کی پیروی کرتی ہے وہ بڑی فوج کی صورت میں گرد اُراتے ہوئے تیری طرف بڑھ رہے ہیں اُن کے ساتھ اصحاب بدر کی ذرّیت اور ہاشمی تلواریں بھی ہیں ۔(3)

9 ۔ حضرت عقیل بن ابی طالب ؑ نے معاویہ سے کہا:جس روز میں تیرے پاس آنے کے لئے نکلا ہوں میں نے علی ؑ کے ساتھیوں پر نظر کی تو مجھے نہیں نظر آتے مگر مہاجرین و انصار اور تیرے ساتھیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے دکھائی نہیں دیتے مگر طلقا کی اولاد اور جنگ احزاب کے بقیۃ السیف ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 119 ،شرح نہج البلاغہ ج: 3 ص: 188 ،مروج الذھب ج: 3 ص: 21 ،حالات معاویہ

( 2) الکامل فی التاریخ ج: 3 ص: 117 ،الفتنۃ و وقعۃ الجمل ج: 1 ص: 137 ،تاریخ طبری ج: 3 ص: 24 ،شرح نہج البلاغہ ج: 14 ص: 18

( 3) نہج البلاغہ ج: 3 ص: 35 ،شرح نہج البلاغہ ج: 15 ص: 184 ،مناقب الامام علی لابن الدمشقی ج: 1 ص: 737 ،ینابیع المودۃ ج: 3 ص: 447

( 4) الموفقیات ص: 335

۲۷۲

10 ۔ حدیثوں میں لشکر کا بیان دیا ہوا ہے:امیرالمومنین ؑ کے لشکر کی ترتیب جنگِ صفین میں کچھ اس طرح تھی کہ امیرالمومنین ؑ خود قلبِ لشکر میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ اہل مدینہ،اہلِ کوفہ اور اہل بصرہ تھے مدینہ والوں میں سب سے بھاری تعداد انصار کی تھی ۔(1) - 11 ۔ نصر بن مزاحم اپنی اسناد سے ابوسنان اسلمی سے روایت کرتے ہیں کہ جب مولا علی ؑ کو یہ بتایا گیا کہ معاویہ اور عمروعاص خطبہ دے دیلے لوگوں کو آپ کے خلاف ورغلا رہے ہیں تو آپ نے حکم دیا کہ لوگوں کو جمع کیا جائے،راوی کہتا کہ گویا میں علی ؑ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے اپنی کمال پر تکیہ لگا رکھا ہے،اصحاب پیغمبر ؐ آپ کے پاس جمع ہوگئے ہیں اور آپ کو اس طرح گھیر رکھا ہے جیسے لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ اصحابِ پیغمبر ؐ کا سب سے بڑا مجمع آپ کے ساتھ ہے ۔(2)

12 ۔ عمرو بن عاص نے معاویہ سے کہا:تم اہل شام کو ایسے آدمی سے لڑانا چاہتے ہو جو محمد ؐ سے قرابت قربیہ تو رکھتا ہی ہے اس کے ساتھ ہی تمہاری طرف اصحاب پیغمبر ؐ کی ایک بڑی جماعت لیکے آ رہا ہے،اصحاب محمد ؐ میں شہسوار بھی ہیں،قاریان قرآن بھی ہیں،قدیم الاسلام بھی ہیں،یہ ایسے لوگ ہیں جن کی لوگوں کے دلوں پر ہیبت بیٹھی ہوئی ہے ۔(3)

13 ۔ سعید بن قیس نے اپنے اصحاب کو خطاب کیا،انہوں نے اپنے خطبہ میں کہا:خداوند عالم نے ہمیں اپنی خاص نعمت سے مخصوص کیا ہے،ہم اس کا شکر ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے،اور اس کی کما حقّہ قدر نہیں نہیں کرسکتے،محمد ؐ کے چُنے ہوئے اصحاب((جو اہل خیر بھی ہیں))ہمارے ساتھ ہیں،اُس خدا کی قسم جو اپنے بندوں کے حال سے وقف ہے اگر ہمارا قائد نکّٹا حبشی بھی ہوتا اور بدری سپاہیوں میں ستر افراد کی تعداد ہمارے ساتھ ہوتی تو ہمیں فخر محسوس ہوتا اور ہماری سمجھداری قابلِ تعریف ہوتی،چہ جائے کہ ہمارا قائد پیغمبر ؐ کا ابنِ عم ہے ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:3ص:84،لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرنے کی تیاری

(2)وقعۃ صفین ص:223

(3)وقعۃ صفین ص:222

(4)وقعۃ صفین ص:236۔237،شرح نہج البلاغہ ج:5ص:189،جمبرۃ خطب العرب ج:1ص:355،سعید بن قیس کے خطبہ میں

۲۷۳

14 ۔ نصر کہتے ہیں کہ معاویہ نے نعمان بن بشیر اور مسلمہ بن مخلد انصاری کو بلایا بس یہی دو انصاری اس کے ساتھ تھے تو معاویہ نے کہا،اے دونو!مجھے اوس و خزرج کی طرف سے بہت غم ہوا ہے،انہوں نے اپنی تلواریں اپنے کاندھوں پر رکھی ہوئی ہیں اور مسلسل جنگ کی طرف بلا رہے ہیں یہاں تک کہ ہمارے اصحاب ڈ رگئے چاہے وہ بہادر ہوں یا بُزدل،اب حالت یہ ہے کہ جس شامی شہسوار کے بارے میں پوچھتا ہوں جواب ملتا ہے کہ اُسے انصار نے مار ڈ الا،انصار میدانِ جنگ میں نعرہ لگا رہے تھے کہ ہم انصار ہیں،میں مانتا ہوں انہوں نے رسول اسلام ؐ کو پناہ دی اور نُصرت بھی،لیکن انہوں نے اپنے تمام حقوق کو باطل کام(میری مخالفت)کرکے باطل کردیا ۔

جب معاویہ کی یہ باتیں انصار تک پہنچیں تو قیس بن سعد انصاری نے انصار کو جمع کیا اور خطبہ دینے کھڑے ہوئے،خطبہ میں کہا:معاویہ نے جو کچھ کہا ہے وہ آپ لوگوں کو معلوم ہوچکا ہے،میری جان کی قسم اگر آج آپ نے معاویہ کو غصہ دلایا ہے تو کوئی نئی بات نہیں ہے کل بھی آپ لوگوں نے غضب ناک کیا تھا اور اگر زمانہ اسلام میں آپ لوگوں نے معاویہ کو پچھاڑا ہے تو زمانہ کفر میں بھی آپ لوگ اسے پچھاڑ چکے ہیں، ۔ آپ اس کے خلاف جنگ کرکے کوئی گناہ نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ تو آپ اس دین کی نصرت میں کررہے ہیں جس کی آپ پیروی کرتے ہیں،آج تو وہ کارنامہ انجام دیجئے جو کل کے کارناموں کو بُھلادے اور کل انشااللہ ایسے کام کیجئے گا جسے دیکھ کر لوگ آج کے کارنامے بھول جائیں(آپ لوگ تو منزل یقین پر فائز ہیں)آپ تو اس عَلم کے سارئے میں کھڑے ہیں جس عَلم کے داہنی طرف جبرائیل ؑ اور بائیں طرف میکائیل کھڑے ہو کے جہاد کرتے تھے جب کہ معاویہ کی قوم ابوجہل اور احزاب کے جھن ڈ ے کے ساتھ ہے ۔(1)

15 ۔ معاویہ نے نعمان کو بُلا کر میدان میں بھیجا کہ وہ قیس بن سعد بن عبادہ کو سمجھائے اور اُن سے کہے کہ وہ جنگ نہ کریں،نعمان نکلا اور دونوں صفوں کے درمیان کھڑا ہوا پھر اس نے کہا:اے قیس ابن سعد میں نعمان بن بشیر ہوں،یہ سُن کر قیس بن سعد نکلے اور دونوں میں گفتگو ہونے لگی،قیس نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 445 ۔ 447

۲۷۴

دورانِ گفتگو کہا:خدا کی قسم اگر تمام عرب بھی معاویہ کے ساتھ ہوجاتا جب بھی انصار تو اُس سے لڑتے ہی اور تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ ہم عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں تو سنو!ہم لوگ اس جنگ میں اس طرح ہیں جیسے پیغمبر ؐ کے ساتھ تھے،اپنے چہروں کو تلواروں کی ڈ ھال اور گردنوں کو نیزوں کا نشانہ بنارہے ہیں،تا کہ حق کی فتح ہو اور امرِ خدا ظاہر ہوجائے اور دشمن کو یہ بات ناگوار گذرتی ہے تو گذرے نعمان ذرا دیکھو تو کہ معاویہ کے ساتھ کون لوگ ہیں؟یا تو طلیق ہیں،یا عرب کے دیہاتی یا خطہ یمن کے کچھ لوگوں کو دھوکہ سے ساتھ میں ملایا گیا ہے،دیکھو تو مہاجرین و انصار اور نیکی میں اُن کی پیروی کرنے والے جن سے خدا راضی ہے،کہاں پر ہیں؟پھر دیکھو!معاویہ کے ساتھ اپنے اور اپنے حقیر ساتھی(مسلمہ انصاری)کے علاوہ کسی اور انصاری کو بھی پاتے ہو؟اور تم دونوں نہ بدری ہو،نہ اُحد کے جانبازوں میں،نہ تم نے اسلام میں سبقت کی ہے،نہ تمہاری شان میں قرآن کی کوئی آیت اتری ہے،خدا کی قسم تم نے آج ہمیں دھوکہ دیا ہے تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے تمہارے باپ ہم سے غداری کرچکے ہیں ۔(1)

بشیر بن سعد جو نعمان کا باپ تھا سب سے پہلے اسی نے ابوبکر کی بیعت کی تھی،جناب قیس بن سعد کا اشارہ((اس کے باپ کی غداری ہے))اسی طرف ہے،یہ بھی مشہور ہے کہ اس کے باپ نے یا تو سب سے پہلے بیعت(2) کی تھی یا ان لوگوں میں شامل تھے جن کو بیعتِ ابوبکر میں اوّلیت حاصل ہے ۔

16 ۔ واقعات صفین کے ذیل میں بیان کیا جاتا ہے کہ عمار بن یاسر نے بَدری سپاہیوں کی ایک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 449 ،شرح نہج البلاغی ج: 8 ص: 87 ۔ 88 ،الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 91 ۔ 92 ،جمبرۃ خطب العرب ج: 1 ص: 367 ،خلافت امام علیؑ

( 2) تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 124 ،الریاض النضرۃج: 2 ص: 215 ،الصابۃ ج: 1 ص: 311 ،فتح الباری ج: 7 ص: 31 ،الطبقات الکبری ج: 3 ص: 182)

۲۷۵

بڑی تعداد لیکے اور دوسرے مہاجرین و انصار کے ساتھ عمروعاص پر حملہ کیا اس وقت وہ تنوخ اور نہد جیسے شامیوں کی قیادت کررہا تھا(1)

17 ۔ ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ:میں جنگ صفین کے نزدیک سے دیکھنے والے افراد میں سے ہوں وہ کہتے ہیں کہ:میں نے عمار یاسر کو دیکھا کسی بھی میدان یا وادی میں دکھائی نہیں دئیے مگر یہ کہ اصحاب محمد ؐ اُن کے ساتھ ساتھ جیسے کہ عمار یاسر اُن کے عَلَم ہوں جس کو وہ گھیرے رہتے تھے ۔(2)

18 ۔ ام الخیر بنت حریش نے عمار کی شہادت پر کہا:اے گروہِ مہاجرین و انصار!صبر کرو،اپنے پروردگار کی طرف سے بصیرت لے کے اپنے دین پر ثابت قدمی کے ساتھ جہاد کرتے رہو ۔(3)

19 ۔ عکرشہ بنت ائدطش یا اطرش نے جنگ صفین میں کہا:اے گروہِ مہاجرین و انصار!اپنے دین سے بصیرت لیکے جہاد کرتے رہو ۔(4)

اس کے علاوہ بھی بہت سے شواہد ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر میں انہیں پیش نہیں کر رہا ہوں یہ تمام واقعات اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ جنگ صفین و جمل میں پیغمبر اعظم ؐ کے بلند مرتبہ اصحاب،مولائے کائنات حضرت علی ؑ کے ساتھ تھے اور آپ کو حقدارِ خلافت تسلیم کرکے آپ کے مخالفین سے جنگ کررہے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مروج الذھب ج: 2 ص: 375

( 2) الاستیعاب ج: 3 ص: 1138 تاریخ طبری ج: 3 ص: 99 ،مقتل عمار بن یاسر،المجموع فی شرح المہذب للنوری ج: 19 ص: 162 ،شرح نہج البلاغہ ج: 10 ص: 104 ،اسد الغابہ ج: 4 ص: 46)

( 3) جمبرۃ خطب العرب ج: 1 ص: 371 ،تاریخ دمشق ج: 7 ص: 235 ،العقد الفرید ج: 2 ص: 90 ،صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ج: 1 ص: 297 ،بلاغات النساء ص: 38 ،ام الخیر بنت حریش بارقینہ کی گفتگو کے ذیل میں،

( 4) بلاغات النسا ص: 71 ،العقد الفرید ج: 2 ص: 86 صبح الاعشی فی صناعۃ الانشا ج: 1 ص: 301 ،جمبرۃ خطب العرب ج: 1 ص: 368 ۔ 369 ،واقعۃ صفین میں شیعیت سے لبریز خطبے اور عکرشہ بنت اطرش کا خطبہ،

۲۷۶

امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے اصحابِ پیغمبر ؐ بڑے اور ذمہ دار عہدوں پر رکھے جاتے تھے

امیرالمومنین ؑ کے خاص لوگوں میں اصحابِ پیغمبر ؐ ہی تھے جن میں سے کچھ آپ کے لشکر کے قائد اور کچھ مختلف شہروں کے گورنر بنائے گئے تھے،بڑی ذمہ داریاں،نمایاں اصحاب کو دی جاتی تھیں،جیسے عمار بن یاسر،ابوایوب انصاری،حذیفہ بن یمان،ابن تیہان،ذوالشھادتین،قیس بن سعد بن عبادہ،عمروہ بن حمق خزاعی،ہاشم بن عتبہ مرقال،عدی بن حاتم طائی،عبداللہ اور محمد دونوں بدیل بن ورقۃ خزاعی کے فرزند ہیں،سھل اور عثمان دونوں حنیف کے صاحبزادے ہیں،جابر بن عبداللہ انصاری و غیرہ ۔

امیرالمومنینؑ کا اپنے خاص اصحاب کے لئے گریہ و اضطراب

امیرالمومنین ؑ اپنے اصحاب خاص کو بہت شدت سے یاد فرماتے تھے،خصوصاً اس وقت جب آپ لوگوں کو جہاد کی دعوت دیتے تھے تو اپنے خطبوں میں ان صحابہ کرام کا تذکرہ بڑے دل پذیر انداز میں کرتے تھے،ایک خطبہ میں آپ فرماتے ہیں کہ((کہاں ہیں میرے وہ بھائی جو راہِ خدا پر چلے اور حق پر ہی گزرگئے،کہاں ہیں عمار،کہاں ہیں ابن تیہان،کہاں ہیں ذوالشھادتین اور ان کے جیسے لوگ،میرے وہ بھائی جنہوں نے موت سے شرط باندھ رکھی تھی اور جن کے بریدہ سر فاجروں کے دل کو ٹھن ڈ ا کرتے تھے،راوی کہتا ہے کہ پھر آپ نے اپنے ریشِ مبارک و مقدس پر ہاتھ پھیرا اور بہت دیر تک روتے رہے پھر فرمایا:ہائے میرے وہ بھائی جنہوں نے قرآن کی تلاوت کی تو اسی کو حاکم قرار دیا،فرض پر غور کیا تو اس کو قائم کیا،سنت پیغمبر ؐ کو وہ زندہ کرتے تھے اور بدعتوں کو مٹاتے تھےمجہاد کے لئے بلائے جاتے تو لبیک کہتے تھے،انہوں نے اپنے قائد پر بھروسہ کیا تو اس کی پیروی کی)) ۔(1)

امیرالمومنین ؑ کے بعد بھی ان میں سے کچھ مقدس افراد امام حسن ؑ کے دور تک باقی رہے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:2ص:109

۲۷۷

جب امام حسن ؑ صاحبِ امر ہوئے تو وہ افراد آپ کے ساتھ تھے یہاں تک کہ امام ؑ نے معاویہ سے مصالحت کی جب بھی وہ لوگ موجود تھے وہ امام ؑ پر جان نچھاور کرتے تھے اور آپ کے اہل بیت ؑ کے شیدائی تھے ۔

معاویہ اصحاب امیرالمومنینؑ سے انتقام لیتا ہے

معاویہ نے اصحاب علی ؑ کو مجرم محبت علی ؑ کی خوب سزادی ایک ایک سے چُن چُن کے بدلہ لیا،کسی کو قتل کرایا،کسی کو زندگہ دفن کرایا،کسی کو سولی پر چڑھایا،صرف اس لئے کہ وہ محبتِ علی ؑ اور ولائے پیغمبر ؐ میں گرفتار تھے اور مولائے کائنات ؑ کے بعد بھی معاویہ کے مخالفت تھے،یہاں تک کہ اس نے عمرو بن حمق خزاعی جیسے جلیل القدر صحابی کو آوارہ وطن ہونے پر مجبور کردیا اور جب وہ مومن شہید ہوگئے یا مرگئے تو ان کا سر کاٹ کے معاویہ کے پاس بھیج دیا گیا،اُس نے عمرو بن حمق کی بیوی کو قید کر رکھا تھا،عمرو بن حمق کے سر کو آپ کی بیوی کی گود میں رکھ دیا وہ مومنہ اپنے شوہر کا سر دیکھ کے رونے لگی اور بولی:بہت دنوں تک تم لوگوں نے اِن کو ہم سے دور رکھا تھا اور جب ہمیں ملایا تو تو ان کی شہادت کے بعد ملایا ۔(1)

حجر بن عدی اور اصحاب حجر کی شہادت پر مسلمانوں کا اظہار نفرت

معاویہ نے عظیم المرتبہ صحابہ حجر بن عدی کو اُن کی جماعت کے ساتھ مرج عذرا کی چراگاہ میں شہید کردیا یہ بہت مشہور واقعہ ہے،ان لوگوں کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے معاویہ کے گورنرز یاد کی کوفہ پر حکومت سے انکار کردیا تھا اور اس کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام سے اظہار بر ات ب ھی نہیں کی،حجر و اصحابِ حجر کی شہادت سے عالمِ اسلام میں ایک شور برپا ہوگیا اور لوگ معاویہ کو ملعون و فاسق کہنے لگے،ہر مسلمان نے اس حادثہ فاجعہ کو اپنے طور پر اسلام اور مسلمان کے لئے ایک بڑی مصیبت سمجھا،چنانچہ دیکھئے!یہ عائشہ ہیں:جو حجر بن عدی کی شہادت پر معاویہ سے بہت ناراض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) اسد الغابہ ج: 4 ص: 101 ،حالاتعمر بن الحمق،بدایہ و النہایہ ج: 8 ص: 48 ،تاریخ دمشق ج: 69 ص: 40

۲۷۸

ہیں،جب شام پہنچیں اور معاویہ سے براہِ راست ملاقات ہوئی تو کہنے لگیں:اے معاویہ!تجھے حجر و اصحاب حجر کو قتل کرنے میں اللہ کا خوف محسوس نہیں ہوا؟(1)

دوسری روایت میں ہے کہ عائشہ نے کہا:کاش معاویہ کو معلوم ہوتا کہ کوفہ میں اس کی جسارتوں کو روکنے والے موجود ہیں تو وہ یہ جرات نہ کرتا کہ حجر اور اصحاب حجر کو کوفہ سے اٹھالے اور شام لے جاکے انھیں قتل کردے لیکن جگرِ خوارہ کا بیٹا یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ مردِ راہ حق اب نہیں رہے،خدا کی قسم اگر وہ ہوتے تو....))(2) دوسرے مقام پر بھی انہوں نے معاویہ سے کہا:اے معاویہ!تو نے جو ظلم حجر اور اصحابِ حجر پر کیا(3) اور انہیں شہید کردیا اس کی وجہ کیا تھی تجھے اس فعلِ قبیح پر کس نے مجبور کیا؟(4)

جب عبداللہ بن عمر کو خبرِ شہادت حجر ملی تو وہ بازار میں تھے،انہوں نے یہ کبر سنتے ہی پُشت سے بندھا ہوا کپڑا چھوڑ دیا اور کھڑے ہوگئے پھر بڑی شدت سے روئے ۔(5) جب ربیع بن زیاد کو یہ خبر ملی((جو معاویہ کے گورنر تھے))تو انہوں نے دعا کی:پالنے والے اگر ربیع کا کوئی نیک عمل تجھے پسند آیا تو اب ربیع کو اس دنیا سے اٹھالے ۔(6) حسن بصری نے کہا:معاویہ کے اندر خرابیاں ہیں جن میں سے ہر ایک اس کی ہلاکت کے لئے کافی ہیں،ایک تو اس امت پر زبردستی مسلّط ہوجانا،دوسرے حجر و اصحاب حجر کو شہید کرنا،حجر کی وجہ سے اُس پروائے ہو حجر کی وجہ سے اس پروائے ۔(7)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تاریخ طبری ج: 3 ص: 51،232 سنہکےواقعات

( 2) الاستیعاب ج: 4 ص: 126 حالات جعفر ابن عدی

( 3) البیان و التعریف ج: 2 ص: 72 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 126

( 4) تاریخ طبری ج: 3 ص: 232 ،اور تاریخ دمشق ج: 12 ص: 226 ۔ 229 ۔ 230

( 5) الاستیعاب ج: 1 ص: 330 ،تاریخ دمشق ج: 12 ص: 227 ۔ 228 ۔ 229 ،بدایہ النہایہ ج: 8 ص: 55

( 6) الاستیعاب ج: 1 ص: 330 ،تھذیب التھذیب ج: 3 ص: 211 ،تھذیب الکمال ج: 9 ص: 79

( 7) تاریخ طبری ج: 3 ص: 232 ،الاستیعاب ج: 1 ص: 331 ،الکامل فی التاریخ ج: 3 ص: 337 ،ینابیع المودۃ ج: 2 ص: 27 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 262)

۲۷۹

اس منزل میں دوسرے فقرے بھی ہیں جو مسلمانوں نے کہے،مسلمانوں نے شہادتِ حجر کی شدت سے مخالفت کی ہے،رضوان اللہ علیھم اجمعین(1)

لیکن میں اس جگہ وہ تمام باتیں عرض نہیں کروں گا،شہادت حجر کے بیان کو ختم کرنے سے پہلے صرف اس پیشین گوئی کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں جو سرکار دو عالم ؐ نے حجر اور اصحاب حجر کی شہادت کے سلسلے میں فرمائی تھی،آپ فرماتے ہیں((عذرا میں سات ایسے افراد شہید کئے جائیں گے جن کی شہادت پر خدا اور آسمان والے غضبناک ہوں گے)) ۔(2)

معاویہ نے اپنے تاریک دور میں اصحابِ علی ؑ پر بہت سختیاں کی ہیں ۔ صرف اس وجہ سے کہ ان کے دل میں محبت علی ؑ تھی اور وہ اہل بیت علیھم السلام کے چاہنے والے تھے،تاریخیں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں اور کسی پر بھی معاویہ کی یہ حرکتیں پوشیدہ نہیں ہیں ۔

(معاویہ انصارِ خدا سے شدیدترین بغض رکھتا تھا،جب وہ مدینہ آیا تو اس سے ابوقتادہ انصاری کی اچانک ملاقات ہوگئی،معاویہ نے کہا:ابوقتادہ تمام مسلمان ہم سے ملنے کے لئے آئے سوائے تم انصاریوں کے،آخر تم لوگوں کو کس نے روکا ہے؟انہوں نے کہا:ہمارے پاس سواریاں نہیں تھیں،پوچھا تہمارے اونٹ کیا ہوئے؟فرمایا:بدر کے دن تم کو اور تمہارے باپ کو تلاش کرنے سے تھکے ہوئے تھے،کہنے لگا ٹھیک کہہ رہے ہو اے ابوقتادہ! ۔ ابوقتادہ نے کہا:ہادی برحق نے ہمیں خبر دی ہے کہ ہم لوگ نبی ؐ کے بعد کچھ نشانیاں دیکھیں گے،پوچھا:پھر نبی ؐ نے اس وقت کے لئے کوئی حکم بھی تو دیا ہوگا؟کہا:ہاں ہمیں صبر کا حکم دیا ہے،کہنے لگا:پھر صبر ہی کرو یہاں تک کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تاریخ طبری ج: 3 ص: 232 ۔ 233 ،تاریخ دمشق ج: 12 ص: 219 ۔ 132 ۔ 233 ،بدایہ و النہایہ ج: 8 ص: 54 ۔ 55

( 2) انساب الاشراف ج: 5 ص: 274 ،تاریخ دمشق ج: 12 ص: 226 ،جامع الصغیر ج: 2 ص: 61 ،حدیث 4765 ،بدایہ و النہایہ ج: 6 ص: 226 ،مقتل حجر بن عدی ج: 8 ص: 55 ،کنز العمال ج: 11 ص: 126 ،حدیث: 30887 ،ج: 13 ص: 587 ،حدیث 37509 ،ص: 588 حدیث: 37510 ،تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 231 ،النصائح الکافیہ ص: 83 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 126 ،اور اسی طرح اصابہ میں ج: 2 ص: 38

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367