فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206490 / ڈاؤنلوڈ: 6000
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تھا ممکن ہے کہ وہ پہلے امیرالمومنین ؑ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہوں،اس امید پر کہ شاید اس کے بدلے میں امیرالمومنین ؑ انہیں معاف کردیں لیکن سابقہ روایت میں گذرچکا(کہ امیرالمومنین ؑ نے معاف کرنے کی ٹیڑھی شرط رکھ دی)تو جب عمر امیرالمومنین ؑ سے مایوس ہوگئے تو ان کے دل میں بدخیالی آئی(اور وہ جنت کے خواب دیکھنے لگے)انہوں نے امیرالمومنین ؑ کو اس جماعت میں قرار دیا جو دنیا کے بندے تھے اور خدا پر جسارت کرنےوالے تھے پھر ایسی کہ امیرالمومنین ؑ کی خلافت کے ہر راستے کو مسدود کردیا گیا اور کچھ ایسی تدبیر کی خلافت پھر عثمان ہی کے خاندان میں رہے اس خاندان میں جو حکومت کے لئےکچھ بھی کرسکتا تھا اور دنیا حاصل کرنے ے لئے کسی گناہ سے پرہیز نہیں کرتا تھا عمر کی تدبیر کا یہ منشا بھی یہی تھا کہ خلافت مولا علی ؑ اور آپ ک اہل بیت ؑ تک کبھی پہنچ ہی نہ سکے ۔

عمر نے یہ حرکت یا تو عثمان کی محبت میں کی تھی یا امیرالمومنین علیہ السلام کے اعراض کرنے کے لئے کہ ان کے دل میں آپ کی طرف سے بہت پرانا کینہ تھا یا اس لئے کہ آپ نے انہیں معاف نہیں کیا تھا یا اس لئے کہ وہ ڈ ر رہے تھے کہ حکومت اگر علی ؑ اور ان کے اہلبیت ؑ تک پہنچ گئی تو ان کی حقیقت کھل کر سامنے آجائےگی اور ان کی ناانصافی جو انہوں نے اہلبیت ؑ کے ساتھ کی تھی تا کہ حکومت ان تک نہ پہنچے تو ظاہر ہوجائےگی اور لوگ اہل بیت ؑ کی بات سننے لگیں گے ۔

بہرحال جو بھی ہو یہ روایت سچی ہو یا جھوٹی ایک بات تو سمجھ میں آرہی ہے کہ امیرالمومنین ؑ کو اہمیت دیکے خلافت کے معاملات سے خودبخود پردہ اٹھایا جارہا ہے اور یہ کہ لوگوں کے سامنے حکم الٰہی بالکل ظاہر تھا(اور سب لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مولا علی ؑ خلافت کے مستحق ہیں)اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں اور یہی باتیں امیرالمومنین ؑ کے لئے قوی تر مانع ہیں جو آپ کو اور اہل بیت ؑ کو غیروں کی خلافت کے اقرار سے روکتی ہیں اور خلیفہ غاصب کی شرعیت سے انکار کرتی ہیں کاش کہ انہیں اقرار کا حق ملا ہوتا ۔

۱۲۱

اسلام کی اعلی ظرفی اجازت نہیں دیتی کہ شریعت الٰہیہ کی پیروی قہر و غلبہ اور بزور کروائی جائے

ثانیاً ۔ اسلام کی اعلیٰ مزاجی اس کے پیغام کی بلندی اور مثالی تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ شریع الٰہیہ کی پیروی قوت کے ذریعہ کرائی جائے اور نہ اس کی اجازت دیتی ہے کہ حقدار اپنا حق زبردستی حاصل کرے جب کہ شریعت اسلامی میں خلافت الٰہیہ کا مقام بہت بلند اور بےپناہ قدامت و عظمت کا حامل ہے بخصوص قہر و غلبہ اور زور و زبردستی کی بدولت اپنے حق پر تسلط،حسد و غیرہ کی طرح نفسانی خواہشات کی پیروی اور پسندیدہ صفات اخلاقی کے منافی ہے جس کا تذکرہ دوسرے سوال کے جواب میں بھی کچھ حد تک کیا جاچکا ہے ۔

(اسلام کے بارے میں تو کم از کم یہ بات نہیں کہی جاسکتی)البتہ اسلام ہی کے معاصر اس وقت عرب میں دودین تھے یہودی اور نصرانی،ان کے بیان کے مطابق شریعت مقدسہ کی پابندی قہر و غلبہ کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور دینی مناصب قوت کے ذریعہ حاصل کرنا جائز ہے لیکن یہ جواز بھی ان خرافاتی قصّوں کی بنیاد پر تھا جنہیں دین میں تحریف و تاویل کرکے بنایا گیا تھا اور انھیں باتوں کو وہ دونوں قومیں دین سمجھتی تھیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ہی دین چونکہ آسمانی تھے اس لئے حقیقت میں ان فضول باتوں سے پاک تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دین اسلام جیسا عظیم دین جو تمام ادیان کا خاتم ہے اور اپنی تشریع میں مثالیت اور ہر کمال کا جامع ہےس کے اندر یہ غلط بات جائز ہوجائے ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ طے ہوگیا کہ ائمہ اہل بیت ؑ ہی امامت کے حق دار ہیں اور ان کے حق پر خدا کی طرف سے نص ہے جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں تو پھر ان حضرات کی طرف سے دونوں خلیفہ کی خلافت کے اقرار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور شریعت کی جانب داری کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے اس لئے کہ یہ دونوں باتیں نص الٰہی کے منافی ہیں اور دونوں ہی باتیں اسلامی شریعت کے تقدس اور اس کی اعلی ظرفی اور مثالی کردار کو نقصان پہنچاتی ہیں ۔

۱۲۲

خلیفہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امت کے کاروبار کو چلانے کے لئے اپنا نائب بنائے

ہاں خلیفہ شرعی کو اس بات کا حق حاصل ہے یہ کہ وہ امت کے امور کی دیکھ ریکھ کے لئے خاص خاص شہروں میں یا خاص حالات کے تحت کسی کو اپنا نائب بنادے اسی طرح کہ یہ شخص اس کا نائب ہو اس کی زیرنگرانی ہو اور اس کا ماتحت ہو،لیکن خلیفہ وہی(مصوص من اللہ)رہےگا،یہ نیابت خلافت کا بدل ہرگز نہیں ہوگی کہ خلیفہ اس کے حق میں دست بردار ہوگیا ہو یا اس کو ہبہ کردیا ہو یا اس کے ہاتھوں خلافت کو بیج دیا ہو ۔

سب کو معلوم ہے کہ مذکورہ بالا معنی میں نیابت ان دونوں خلفا کو بہرحال حاصل نہیں تھی نہ کسی دوسرے خلیفہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی وہ لوگ تو بس خود ہی حکومت کے ولی بن بیٹھے تھے خود کو حاکم اور خلیفہ اور ائمہ اہل بیت ؑ کو اپنی رعایا اور محکوم سمجھتے تھے ۔

شیعہ اچھی طرح اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اہل بیت ؑ اپنے حق سے دست بردا رنہیں ہوئے

شیعوں کو اس بات کی کامل بصیرت ہے کہ ائمہ اہل بیت ؑ اپنے حق سے دست بردار نہٰں ہوئے تھے بلکہ ان حضرات نے ہر دور میں اس بات کی شکایت کی ہے کہ ان کا حق غصب کرلیا گیا ہے اور ان پر ظلم کیا گیا ہے،ہر عہد میں وہ ظالموں کا انکار کرتے رہے،ان سے اظہار برائت کرتے رہے اور ان کی مخالفت میں بولتے رہے وہ لوگ اس اظہار برائت اور انکار کو دین واجب التُّمسُّک کا تتمّہ مانتے تھے اور نجات کو اس پر موقوف سمجھتے تھے اس بات کی تائید میں شیعوں نے اپنے اماموں سے بیشمار حدیثیں روایت کی ہیں جو استفاضہ کی حد اور تواتر کے مرتبے کو پہنچی ہوئی ہیں،نتیجے میں صورت

۱۲۳

حال یہ ہوگئی کہ یہ عقیدہ ان کے ضروریات دین میں شامل ہوگیا وہ اس میں نہ اختلاف کرتے ہیں نہ ہی اس عقیدے کو چھوڑنے پر تیار ہیں ۔

یہ دعویٰ کرنا کہ شیعہ اپنے اماموں کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں کہاںتک حقیقت پر مبنی ہے؟

ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ دعویٰ کرے کہ شیعہ اپنے اماموں کی طرف جھوٹے افعال کی نسبت دیتے ہیں اس معاملے میں شیعہ خطاکار ہیں اور اماموں پر بہتان باندھتے ہیں یہ دعویٰ خاص طور سے ان لوگوں کا ہے جو شیعیت کے چہرے کو مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کے اوپر بڑے بڑے گناہوں کی تہمت رکھتے ہیں لگتا ہے وہ لوگ دین اور حق کو پہچانتے ہی نہیں اور انہوں نے اپنے دینی عقیدے اور مسلک کی بنیاد محض افترا پردازی،گمراہی،بدعت اور خرافات پر رکھی ہے ۔

مذکورہ دعوی کی تردید اور شیعوں کی صداقت کے شواہد

حقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ دعویٰ اس لئے ہے کہ شیعہ حق پر ہیں اور ان کی دلیلوں کی کوئی کاٹ دشمن کے پاس موجود نہیں ہے شیعوں نے اپنی دلیلوں کو ڈ ھال بناکے ان دشمنوں کی خُصومت برداشت کی اور ان کے تمام راستے بند کردیئے،مجبور ہو کے دشمنوں نے ہٹ دھرمی اور بہتان کا سہارا لیا تا کہ شیعوں کے لئے نفرت پیدا کرسکیں اور اتنی نفرت پیدا کردیں کہ ان کا دعویٰ اور ان کی دلیلوں کی طرف کوئی توجہ ہی نہ دے ورنہ اگر ذوق جستجو رکھنےوالا انسان اپنے مسلمات و جذبات سے الگ ہو کے از نگاہ انصاف دیکھے اور دلائل و شواہد کا مطالعہ کرے تو شیعوں کی صداقت اس پر مشکوک نہیں رہےگی وہ سمجھ لےگا کہ شیعوں نے اپنے

۱۲۴

اماموں کی طرف کوئی جھوٹ نہیں منسوب کیا ہے اس لئے کہ شیعہ اماموں سے بہت محبت رکھتے ہیں بڑی عقیدت رکھتے ہیں ان کی سیرت کو مقام استدلال میں پیش کرتے ہیں اور ان کی سیرت سے سبق لےکے اسی پر زندگی گذراتے ہیں ۔

جھوٹ بولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جب کہ شیعہ انھیں عقیدوں کی وجہ سے ہمیشہ بلاؤں کا سامنا کرتے رہے

۱ ۔ اگر یہ باتیں ان کے اماموں سے صادر نہیں ہوتیں تو شیعہ ان باتوں کو محض افترا کے طور پر ان کی طرف منسوب نہیں کرتے،نہ انھیں دین سمجھ کے مانتے،نہ ان پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھتے اس لئے کہ محض جھوٹ اور افترا کے لئے بلائیں جھیلنے اور مصیبتیں اٹھانے پر کوئی تیار نہیں ہوتا ہے،شیعہ صرف انہیں عقائد کی وجہ سے شروع ہی سے دنیا بھر کی سختیاں جھیلتے رہے اور مصیبتیں اٹھاتے رہے ہیں ۔

پھر یہ سوچیئے کہ عقائد اور معلومات میں غلطی کب ہوتی ہے جب انسان مرکز سے دور ہو مثلاً انبیائے کرام ؐ کے بارے میں یا ان کی تعلیمات کے بارے میں غلطی کا امکان اس لئے ہے کہ انبیاء ؐ اور امت کے درمیان ہزاروں صدیوں کے پردے حائل ہیں صاحب دعوت اور مبشرین اور ان کی سیرت کے ناقلین کے درمیان ایک بُعد زمانی پایا جاتا ہے،لیکن شیعہ اور سنیوں کے اماموں کے درمیان اس بُعد زمانی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے کہ یہ عقائد تو شیعوں کے یہاں امیرالمومنین علی علیہ السلام کے دور ہی میں جانے پہچانے جاچکے تھے جیسا کہ ابھی پیش کئے جائیں گے ان عقیدوں کی مزید وضاحت شہادت حسین ؑ کے بعد ہوگئی اس لئے کہ ہمارے اماموں نے یہ سمجھ لیا کہ ابھی ہمیں سلطنت کا مطالبہ نہیں کرنا ہے اور مستقبل قریب میں حکومت ہمیں نہیں ملنےوالی ہے تو آپ حضرات نے شیعہ ثقافت کی تہذیب و تربیت پر بھرپور توجہ دی اور اپنے علوم و معارف کو شیعوں کے درمیان پھیلانا شروع کیا تا کہ شیعوں کا ایک ماحول اور شیعہ طرز زندگی کا ایک خاکہ لوگوں کے سامنے آجائے شیعہ عقائد

۱۲۵

ایسے دور میں سامنے آرہے تھے جس وقت شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ رہ رہے تھے انہیں یکے بعد دیگر اپنے ائمہ ؑ سے دوسو سال تک اختصاص حاصل رہا بلکہ غیبت صغریٰ کے زمانے کو بھی اس سے ملا لیا جائے تو یہ مدت اور بڑھ جاتی ہے جس میں شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ وقت گذارتے رہے اور بلاواسطہ ان سے مستفید ہوت رہے پھر ملاوٹ کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،میں نے غیبت صغریٰ سے نواب اربعہ کے توسط سے بہرحال لگاؤ بنا ہوا تھا دوسوستر( ۲۷۰) سال تک شیعہ اپنے اماموں سے ملتے جلتے رہے پھر ممکن نہیں ہے کہ ہر امام کی کوئی رائے یا کوئی نظریہ ان کے شیعوں سے پوشیدہ رہا یا کوئی اختلاف پیدا ہوا ہو ۔

اگر شیعہ مفتری ہوتے تو ان کے امام ان سے الگ ہوجاتے

اگر شیعوں کے پاس ان کے معصوم اماموں کا بنایا ہوا مذہب نہ ہوتا بلکہ ان کا خود ساختہ مذہب ہوتا تو اماموں پر واجب تھا کہ وہ شیعوں کا انکار کردیتے اور اگر شیعہ اپنے افترا اور بہتان پر اصرار کررہے ہوتے تو معصوم امام پر واجب تھا کہ وہ شیعوں کو چھوڑ دیتے انھیں خود سے دور کردیتے ان سے الگ ہوجاتے اور ان کے ساتھ مل جل کے ہرگز نہ رہتے جب کہ غلط کاروں کے ساتھ انہوں نے ایسا ہی سلوک کیا،مثلاً امیرالمومنین علیہ السلام نے انھیں چھوڑ دیا جو آپ کی ذات میں غلو کرتے تھے،امام صادق علیہ السلام ابوالخطاب اور اس کی جماعت سے الگ ہوگئے بعد کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام نے بھی ان لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جو اماموں کے طریقوں سے الگ ہو کے اپنا راستہ بنارہے تھے اور معصوموں کی ذات کو ملوث کررہے تھے لیکن شیعوں کے ساتھ ان حضرات کا لگاؤ ہمیشہ بنارہا،آپ حضرات اپنے شیعوں کے ماحول میں پائے جاتے تھے شیعہ فرقہ ان سے طاقت حاصل کرتا رہا،ان کی محبت شیعوں کی پہیچان بن گئی،شیعہ انھیں کی طرف متوجہ رہے،ان کی خوشی میں خوش اور ان کے غم سے رنجیدہ،ان کی سیرت کے جویا اور ان کے طرز زندگی سے واقف ہونے کے لئے کوشاں،ان کے فقہ

۱۲۶

احادیث اور تعلیمات پر عمل پیراں رہے اور ان گرانقدر چیزوں کے اپنے مکتوبات اور کتابوں میں محافظ رہے،ان کی حدیث اور سیرت کا تذکرہ اپنی مجلسوں میں کرتے رہے،انہیں پر بھروسہ کرتے رہے اور ان کو اپنے لئے عزت کا سبب سمجھتے رہے بلکہ انھیں آثار و معالم کے ذریعہ دشمن پہ حملہ کرتے رہے۔

دنیا کا طریقہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے امام کی رائے اور خیالات کا علم اس امام کے اصحاب کے واسطے سے اور اس کے خاص لوگوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے پھر ائمہ اہل بیتؑ کے مذہب کا علم ان حضرات کے شیعوں کے واسطے سے کیوں نہیں ہوگا؟جب کہ یہ شیعہ ان حضرات کے آس پاس ہمیشہ موجود رہے،ان کے مخصوص افراد بنتے رہے اور ان کے افعال میں مدد کرتے رہے،یہ سلسلہ طویل مدت تک چلتا رہا اور سب کے سامنے یہ عمل ہوتا رہا جب کہ اس دور کے رئیسوں اور بادشاہوں سے شیعہ اتنے قریب نہیں تھے جتنا اپنے اماموں سے تھے۔

ائمہ اہل بیتؑ کی میراث کا تحفظ شیعوں ہی نے کیا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شیعہ ان حضرات سے مخصوص تھے

اس کے باوجود اگر کوئی ہٹ دھرم اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ شیعہ اہل بیت ؑ کے اماموں سے مخصوص نہیں تھے اور ان سے مذہبی معاملات میں ہدایتیں نہیں لیتے تھے اور یہ کہ شیعوں نے اہل بیت ؑ سے جھوٹی حدیثیں منسوب کی ہیں تو میں اس سے کہوں گا کہ پھر ان دعاؤں(۱) اور زیارتوں(۲) کا کیا کرو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)جیسے دعائے کمیل،صباح،عشرات،نیز وہ دعائیں جو حضرت امیرالمومنینؑ سے مروی ہیں اور عرفہ کے دن امام حسینؑ کی دعا،صحیفہ سجادیہ کی دعائیں،دعائے افتتاح،ابوحمزہ ثمالی جو رمضان میں پڑھی جاتی ہے نیز باقی ماہ رمضان کے روز و شب اور سحر کی دعائیں اور رجب و شعبان کی دعائیں،شب جمعہ کی دعائیں نیز اس کے علاوہ بےشمار دعائیں،مضامین عالیہ جو اللہ کی تمجید سے متعلق ہے اور اس کی تقدیس اور ثناء سے متعلق ہے۔

(۲)جیسے حضرت امیرالمومنینؑ کی زیارت جو(امین اللہ)کے نام سے معروف ہے اور آپ کی باقی زیارتیں جو مختلف مناسبتوں سے پڑھی جاتی ہیں،زیارت وارثہ،نصب شعبان کی شب میں امام حسینؑ کے لئے نیز آپ کی باقی زیارتیں جو مختلف مناسبتوں سے پڑھی جاتی ہیں تمام ائمہؑ کے لئے زیارت جامعہ کبیرہ اور باقی معصومینؑ کی زیارتیں جو بلند و بالا مضامین کا دفتر ہے۔

۱۲۷

گے جو صرف شیعوں کے پاس ہیں اور ان کے اماموں سے مروی ہیں دعاؤں اور زیارتوں کی ایک بڑی مقدار ہے جو مختلف مواقع پر مختلف الفاظ میں ائمہ اہل بیت ؑ سے وارد ہوئی ہے وہ دعائیں اور زیارتیں حکمت،موعظہ،خطابت اور دوسرے مضامین عالیہ پر مشتمل ہیں جن کو پڑھ کے پتہ چلتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ ہیں جو ائمہ اہل بیت ؑ کو حاصل تھیں اور علم الٰہی کے یہ خزانے صرف شیعوں کے پاس ہیں جو شیعوں کو دوسرے فرقوں سے ممتاز کرتے ہیں اس لئے کہ ان دعاؤں اور زیارتوں کی زبان اور ان کے مضامین پکار پکار کے کہہ رہے ہیں کہ یہ مضامین صرف وہی وارد کرسکتا ہے جس کو ادھر سے علم ملا ہے اور یہ دوسروں کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ نگاہ انصاف سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکلےگا کہ ائمہ اہل بیت ؑ نے شیعوں کو جو دعائیں ودیعت کیں یا جو زیارتیں وارد فرمائیں اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ شیعہ ان سے مخصوص تھے شیعوں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دینا ضروری سمجھا اور شیعہ ان کی رضا کے طالب اور ان کے پسندیدہ افراد تھے ۔

ورنہ یہ دعائیں اور زیارتیں سینوں کے پاس کیوں نہیں ہیں؟انہوں نے کیوں نہیں نقل کیا یا اگر نقل کیا تھا تو کیوں نہیں حفاظت سے رکھا اور اس کےحق کی رعایت کیوں نہیں کی؟(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ہمعصر دینی مرجع سید شہاب الدین مرعشیؒ صحیفہ سجادیہ کے مقدمہ میں اپنی استدراک جو۱۳۶۱سنہ میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے اور ہم۱۳۵۳سنہگذار رہے ہیں میں نے اس کا ایک نسخہ علامہ معاصر شیخ جوہری طنطاوی کی خدمت میں ارسال کیا جو صاحب التفسیر بھی ہیں جس کی شہرت مفتی اسکندریہ کے نام سے ہوئی ہے تا کہ وہ مطالعہ کریں پھر انھوں نے صحیفہ پہنچنے کی قاہرہ سے مجھے اطلاع دی اور میرا اس گرانقدر ہدیہ پر شکریہ ادا کیا اور اس کی مدح و ثنا میں رطب اللسان ہوگئے یہاں تک کہ آپ نے کہا:اس وقت ہماری بدبختی یہ ہے کہ ہم اس اثر جاوید تک رسائی نہیں رکھتے جو نبوت اور اہل بیتؑ کی میراث کا ایک جزء ہے اور میں نے جتنا غور و خوض کیا اسے مخلوق کے کلام سے بالا اور خالق کے کلام کے بعد ہی پایا،پھر مجھے سے اس کے بارے میں سوال کیا کہ آیا علماء اسلام میں سے کسی نے اس کی شرح کی ہے پھر میں نے شارحین کے اسماء درج کئے جسے میں بھی جانتا تھا پھر میں نے ریاض السالکین سید علی خان کی خدمت پیش کیا تو انھوں نے بھی اس کے پہنچنے کی خبر دی،اور لکھا کہ میں عزم مصمم رکھتا ہوں کہ اس گرانقدر صحیفہ کی شرح کروں،اگر شیخ جوہری طنطاوی اپنی کثیر معلومات اور کثیر اطلاع کے باوجود اس صحیفہ سجادیہ سے بےخبر رہے جب کہ اس کی شہرت اور اس کا چرچا،مکتب خیال کے الگ ہونے کے باوجود شیعوں کے درمیان تھی تو پھر جو کم اطلاع رکھتے ہیں ان کے لئے کیسے ممکن ہے پھر ان کا کیا حال ہوگا جو صحیفہ سجادیہ سے کم رتبہ اور اہمیت کتاب رکھتے ہوں گے۔

۱۲۸

یہ بات ماننی پڑےگی کہ جس طرح قرآن مجید صداقت نبوت کی گواہی دیتا ہے اسی طرح یہ اور وضائف اس بات کی گوہی دیتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت ؑ کو یہ نبی ؐ کی طرف سے میراث میں ملے ہیں اور شیعوں کو یہ علم ائمہ اہل بیت ؑ کی طرف سے درحقیقت نبی ؐ کی ہدایت سے ملا ہے ۔ ائمہ اہل بیت ؑ کی واردہ کردہ دعاؤں اور زیارتوں کو دیکھئے پھر غور کیجئے کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی عظیم المرتبہ دعائیں اور اتنی معنی خیز زیارتیں شیعہ یا کوئی انسان اپنی طرف سے بنالے اور پھر اس کو اہل بیت ؑ کی طرف منسوب کردے،عادۃً یہ مشکل ہے کہ اتنے بڑے مجموعہ کی بنیاد کذب اور بہتان پر ہو اور ان ارشادت کو وارد کرنےوالا کوئی نہ ہو جو ان کو حق پر جمع کرسکے بلکہ حق تو یہ ہے کہ عادۃً یہ مشکل ہے کہ اتنے بڑے مجموعہ کی بنیاد کذب اور بہتان پر ہو اور ان ارشادت کو وارد کرنےوالا کوئی نہ ہو جو ان کو حق پر جمع کرسکے بلکہ حق تو یہ ہے کہ عادۃً ان دعاؤں کا صدور ائمہ اہل بیت ؑ کے علاوہ کسی سے بھی ناممکن ہے اس لئے کہ اہل بیت ؑ نبی کریم ؐ کے وارث ہیں اور انھوں نے سرکار سے علم لیا ہے جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اہل بیت ؑ اطہار گفتگو کے بادشاہ تھے(۱) اور انہیں کے پاس حکمت اور فصل خطاب تھا ۔(۲) ایک طرف تو یہ علمی ذخیرہ شیعوں کی صداقت کا گواہ ہے اس لئے کہ شیعہ اس خزانے کے تنہا وارث ہیں اس خزانے کی معرفت شیعوں کو ہے اور اسی خزانے کی وجہ سے وہ عالم اسلام میں قابل عزت ہیں دوسری طرف یہ علمی خزانہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ شیعوں اپنے اماموں کی طرف جو نسبت دی ہے وہ سب کی سب صحیح ہے اور شیعہ اپنے اماموں سے مخصوص ہیں ان کی ہدایتوں پر عمل کرتے ہیں،ان کے علوم و معارف کے حامل ہیں اور اماموں کی خاص عنایت کے مستحق ہیں شیعوں کو ان کے اماموں نے اپنے مقدس مبارک اور شریف علوم سے فیضیاب کیا ہے ۔

شیعوں کے کردار میں اماموں کے اخلاق کی جھلک

خیال وہ ہے جو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں امیرالمومنینؑ کی سوانح حیات میں لکھا ہے،وہ لکھتے ہیں جہاں تک وسعت اخلاق خندہ پیشانی،زندہ دلی،اور تبسم کا سوال ہے تو مولائے کائنات کی ان صفات میں مثال دی جاتی ہے یہاں تک کہ آپ کے دشمن ان صفات حسنہ کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)نہج البلاغہ ج:۲ص:۲۶۶ (۲)بحارالانوارج:۹ص:۲۰۹،ج:۲۸ص:۵۳

۱۲۹

عیب کہہ کے پیش کرتے تھے،عمروعاص نے اہل شما سے کہا علی ؑ بہت زیادہ پر مذاق آدمی ہیں(ہنسنے ہنسانےوالا)حلانکہ عمروعاص کا یہ جملہ بھی اس کا نہیں ہے بلکہ اس کا نہیں ہے بلکہ اس نے یہ جملہ عمر بن خطاب سے لیا ہے،جب عمر نے مولا علی ؑ کو خلیفہ بنانے کا ارادہ کیا تھا تو یہ کہا تھا کہ خدا تمہارے باپ کو بخشے اگر تم پر مذاق نہ ہوتے تو عمر تم ہی پر اقتصار کرتا عمروعاص نے اس میں کچھ اضافہ کیا ہے اور مقام مذمت میں وارد کیا ہے صعصعہ ابن صوحان اور آپ کے دوسرے شیعہ اور اصحاب آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ ؑ ہمارے درمیان ہم ہی جیسے بن کے رہتے تھے،نرم دل منکسر مزاج اور سہل القیادۃ تھے،پھر بھی ہم پر آپ کی ہیبت اس طرح طاری رہتی تھی جیسے ایک قطار میں بندھے ہوئے قیدیوں پر ان کے سامنے کوئی تلوار لےکے کھڑا ہو ۔

یہ اخلاق حسنہ آپ کے اولیا اور آپ کے چاہنےوالوں میں میراث کے طور پر منتقل ہوئے اور اب تک ان کے اندر باقی ہیں جس طرح آپ کے دشمنوں کو جفا بدروی اور بداخلاقی ان کے بزرگوں سے میراث میں ملی ہے اور اب تک باقی ہے جو اخلاقیات میں سطحی نظر بھی رکھتا ہے وہ اس فرق کو ضرر محسوس کرلےگا ۔(۱)

ظاہر ہے کہ جب ائمہ اہل بیت ؑ کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ اپنے شیعوں کو اپنے اخلاق و کردار کے سانچے میں ڈ ھال سکتے تھے اور ان کے اندر اپنے اخلاق عالیہ کو منتقل کرسکتے تھے جیسے نرم دلی،وسعت اخلاق و غیرہ تو پھر ان کے اندر یہ صلاحیت بھی ماننی پڑےگی کہ وہ شیعوں کو امامت و خلافت کے بارے میں اپنے مذہب سے باخبر رکھتے اور انہیں حکم دیتے کہ وہ امامت کے معاملے میں ان کے مذہب کی پیروی کریں اور چونکہ شیعہ ذاتی طور پر ان حضرات سے متاثر تھے اور اخلاق میں ان کے نقش قدم پر چلتے تھے تو وہ بہرحال عقیدہ امامت و خلافت میں بھی ان کی پیروی کرتے تھے اور ان کے مزہب سے الگ نہیں تھے اس لئے کہ یہ تو ایک علمی مسئلہ تھا اور اس کا جان لینا اور مان لینا تو اخلاق و سیرت کی عملی پیروی سے زیادہ آسان ہے شیعہ ایک زمانے سے سنی بھائیوں کی بےرحمی ظلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۲۵۔۲۶،علیؑ کے ایک قول اور ان کے فضائل کا ذکر۔

۱۳۰

اور زیادتی جھیلتے چلے آرہے ہیں اس کے باوجود ان کے اندر اخلاقی وسعت طبیعت کی نرمی اور خوش خلقی پائی جاتی ہے ورنہ حالات کا تو تقاضا یہ تھا کہ وہ سنیوں کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ان کی طرف سے دل میں کینہ رکھتے اور ان سے بداخلاقی سے پیش آتے یہ صرف ائمہ اہل بیت ؑ کی سیرت کا اثر ہے کہ شیعہ دشمنی کینہ اور حسد جھیل رہے ہیں لیکن اپنے اماموں کی سیرت چھوڑنے پر تیار نہیں ۔

اہل سنت کی ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے کنارہ کشی

حالات کا نگاہ انصاف سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلےگا کہ جمہور اہل سنت نے اپنے عقائد و ثقافت میں ائمہ اہل بیت ؑ سے کچھ نہیں لیا ہے اور ہمیشہ ان حضرات کو معزول سمجھا ہے،ہر دور میں سنی سماج چاہے عوام ہوں یا خواص،چاہے فقہا ہوں یا روات،سب کے سب اہل بیت سے ہمیشہ الگ رہے خاص طور سے متاخر،ائمہ ؑ کو سنیوں نے بالکل ہی نظرانداز کردیا جن کے دور میں شیعہ امامیہ کے عقائد اور معالم نکھر کر سامنے آئے اور شیعوں کو ایک مستقل اور ممتاز حیثیت ملی حالانکہ سنی حضرات اس تاریخی حقیقت سے انکار کی کوشش کرتے بہرحال اہل بیت ؑ کا احترام تو وہ بھی کرتے ہیں لیکن ان کا یہ انکار قابل قبول نہیں ہے اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اصول دین میں یہ لوگ اشاعرہ،ماتریدی اور معتزلی فرقہ کی پیروی کرتے ہیں،جب کہ فروع میں مذہب اربعہ میں سے کسی ایک مذہب پر عمل کرتے ہیں وہ اپنے عقائد و فقہ میں سے کسی بات کو ائمہ اہل بیت ؑ کی طرف منسوب نہیں کرتے حلانکہ اہل بیت ؑ کی طرف سے فقہ و اصول اور اقوال جو بھی وارد ہوئے ہیں ان میں سے اکثر مذکورہ بالا فرقوں کے نظریہ سے بالکل ہی الگ ہیں ائمہ اہل بیت ؑ کی باتوں پر صرف ائمہ اہل بیت ؑ کے شیعہ عامل ہیں،سنی ان کو سرے سے نہیں مانتے ۔

شیعیان اہل بیت ع اور دشمنان اہل بیت ع کے بارے میں سنیوں کا نظریہ

جمہور اہل سنت کے ان لوگوں سے خوب دوستی کرتے ہیں جنہوں نے اہل بیت ع سے جنگ کی یا ان کو برا بھلا کہا ایسے افراد کا یہ لوگ بہت احترام کرتے ہیں ، ان کی غلط حرکتوں سے تجاہل برتتے ہوئے انہیں کی

۱۳۱

روایتوں سے احتجاج کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی غلطیوں کی یا تو توجیہ کریں یا ان کی صفائی پیش کرکے ان کی طرف سے معذرت کرلیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اہل بیت ؑ کے شیعہ ایسے لوگوں سے ہمیشہ الگ رہے اور شروع ہی سے ان کی سخت مخالفت کی اور کڑا رویہ اپنایا(لیکن دشمنان اہل بیت ؑ کی حمایت)یہ حضرات صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے کبھی اہل بیت ؑ کی پیروی نہیں کی ان سے کوئی سروکار نہیں رکھا اور اہل بیت ؑ کے نقش قدم پر اس طرح نہیں چلے جس طرح وہ اوّلین یعنی عمر،ابوبکر کے نقش قدم پر چلتے آئے اور انہوں نے اہل بیت ؑ سے ویسی محبت بھی کبھی نہیں کی جیسی ان دونوں سے وہ محبت کرتے رہے ہیں بلکہ بعض مقامات پر تو اہل سنت کے خواص و عوام کے دل میں اہل بیت ؑ کی طرف سے جو کینہ ہے وہ ان کی تحریروں میں ظاہر بھی ہوگیا ہے،افسوس کی بات یہ ہے کہ جوش و جذبہ کے عالم میں انہوں نے اپنے دل کے حالات کھول کے بیان کردئے اور چھپانے کی کوشش کی مگر چھپا نہیں سکے ۔

ائمہ اہل بیت ؑ کے بارے میں علما اہل سنت کے کچھ نظریے

۱ ۔ علامہ ذہبی سُنّی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں،ابوجعفر محمد بن علی امام بھی تھے اور مجتہد بھی یعنی کتاب خدا کی تلاوت کرنےوالے،شان میں بڑے تھے،لیکن علم قرآن میں ان کا درجہ ابن کثیر اور ان کے جیسے علما تک نہیں پہنچتا تھا،فقہ میں وہ ابوزنا اور ربیعہ سے کم تھے اور سنت نبوی کی معرفت اور اس کا تحفظ ابن شہاب اور قتادہ سے کم درجہ پر تھا ۔(۱)

افسوس!ذرا دنیا کی زبوں حالی اور پستی دیکھئے یہ لوگ کس سے مقابلہ کررہے ہیں حد ہوگئی کہ ایسے(نچلے طبقے کے)لوگ محمد باقر علیہ السلام سے افضل بتائے جارہے ہیں حالانکہ امام محمد باقر ؑ کے لئے آپ کے جد کی سیرت میں نمونہ عمل ہے امیرالمومنین ؑ فرمایا کرتے تھے کہ((میری ذات اوّل ہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سیرہ اعلام النبلاءج:۴ص:۴۰۲ترجمہ ابی جعفر باقر

۱۳۲

کے مقابلے میں مقام شک میں کب تھی کہ مجھے ایسے لوگوں کا مقارن بنایا جارہا ہے ۔(۱)

۲ ۔ اور سنیوں کے امام الحدیث بخاری،انہوں نے کبھی امام جعفر صادق علیہ السلام کی کسی حدیث سے احتجاج نہیں کیا اپنی صحیح میں آپ سے کوئی روایت بھی نہیں لی(۲) حالانکہ مروان بن حکم(۳) ( ملعون پیغمبر ؐ )اور عمران بن حطان(۴) خارجی(جس نے مولیٰ امیرالمومنین علی ؑ کے قاتل ابن مجلم کی بڑی تعریف کی ہے اور ابن ملجم کو متقی پرہیزگار اور عنداللہ ماجور قرار دیا ہے)تک سے روایتیں لی ہیں ۔

امام بخاری کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن اسود نے ان سے یحییٰ بن سعید نے کہا کہ:اگر جعفر ابن محمد کا معاملہ یہ ہے کہ اگر تم ان سے معافی مانگوگے تو وہ کوئی ہرج نہیں محسوس کریں گےاور اگر تم ان پر محمول کروگے تو وہ خود پر محمول کرلیں گے ۔(۵)

۳ ۔ یحییٰ بن سعید کہتا ہے کہ جعفر ابن محمد نے مجھے ایک لمبی حدیث لکھوائی وہ حدیث حج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)نہج البلاغہ ج:۱ص:۳۵

(۲)تذکرۃ الحفاظ،ج:۱ص:۱۶۷،امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کے ضمن میں،سیر اعلام النبلاءج:۶ص:۲۶۹

میزان الاعتدال،ج:۲ص:۱۴۴،امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کے ضمن میں،المگنی فی الضعفاء،ص:۱۳۴،تہذیب التہذیب ج:۲ص:۹۰امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات میں۔

(۳)صحیح بخاری ج:۱ص:۲۶۵،کتاب صفۃ الصلاۃ،باب مغرب میں قرات کا بیان ج:۲ص:۵۶۷،کتاب الحج،حج تمتع افراد قرآن اور نسخ حج کے بیان میں اگر قربانی ہمراہ نہ ہو،ج:۲ص:۸۱۰،کتاب الوکالۃ باب اگر وکیل کو کوئی چیز ہبہ کردے یا قوم کے شفیع کو تو نبیؐ کے بقول جائز ہے جو آپ نے ہوازن گروہ کے جواب میں فرمایا تھا کہ انھوں غنیمتوں کے بارے میں سوال کیا تھا اس پر رسولؐ نے کہا میرا حصہ تمہارے لئے ہےج:۳ص:۱۰۴۲،کتاب الجہاد و السیر،ج:۳ص:۱۳۶۲،کتاب فضائل الصحابۃ،ج:۴ص:۱۵۳۲،کتاب المغازی،غزوہ حدیبیہ کے باب میں ج:۴ص:۱۶۷۷،کتاب التفسیر باب جنگ میں جانےوالوں راہ خدا میں جہاد کرنےوالوں کے برابر نہیں ہیں ج:۵ص:۲۰۳۹،کتاب طلاق

(۴)صحیح بخاری ج:۵ص:کتاب اللباس ص:۲۱۹۴،ریشمی لباس کے باب ص:۲۲۲۰،باب نقص صور

(۵)تاریخ کبیرج:۲ص:۱۹۸حالات جعفر بن محمد بن علیؑ

۱۳۳

کے بارے میں تھی لیکن ان کی لکھوائی ہوئی حدیث کے خلاف میرے دل میں پھانس ہے میرے نزدیک مجالدان سے زیادہ پیارا ہے ۔(۱)

۴ ۔ ابوحاتم محمد بن حبان تمیمی نے امام صادق علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کا ان روایتوں سے احتجاج کیا جاسکتا ہے جو ان کی اولاد کے علاوہ لوگوں نے نقل کی ہیں،اس لئے کہ ان کی اولاد سے جو حدیثیں آئی ہیں ان میں تو بہت سے مناکیر(قابل انکار)باتیں ہیں،ہمارے اماموں میں سے جن لگوں نے ان کی اولاد کی حدیث دیکھی ہے وہی لوگ ان کے اقوال کو کمزور بتاتے ہیں(۲)

حالانکہ آپ کی اولاد مسلمانوں میں سادات کا درجہ رکھتی ہے اور انہیں اولاد میں ائمہ اہل بیت ؑ بھی ہیں ۔

۵ ۔ مصعب بن عبداللہ زبیری کہتے ہیں کہ مالک ابن انس جعفر بن محمد ؑ سے روایت لیتے تو تھے لیکن جب بلند مرتبہ راویوں کی حدیثیں لکھ لیتے تھے تو سب سے آخر میں امام جعفر صادق ؑ حدیث رکھتے تھے ۔(۴)

۶ ۔ احمد بن حنبل سے امام صادق علیہ السلام کے بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگے ان سے یحییٰ نے روایت کی ہے لیکن انہیں کمزور بتایا ہے ۔(۵)

۷ ۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں،امام صادق علیہ السلام قابل اعتبار تھے،صاحب عقل تھے صاحب حکمت،بڑے پرہیزگار اور فاضل تھے،جعفری فقہ انھیں کی طرف منسوب ہے اور شیعہ امامیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۲)سیر اعلام النبلاءج:۶ص:۲۵۶،جعفر بن محمد صادق علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الکامل فی ضعفاءالرجال،ج:۲ص:۱۳۱۔۱۳۲۔۱۳۳،جعفر بن محمد صادقؑ کی سوانح حیات میں،اور کتاب نصب الرایۃ،ج:۲ص:۴۱۳،اور تہذیب التہذیب ج:۲ص:۸۸،

(۴)تھذیب الکمال ج:۵ص:۷۶،حالات جعفر بن محمد الصادق،الکامل فی ضعفاءالرجال ج:۲ص:۱۳۱،حالات جعفر بن محمد الصادقؑ۔

(۵)العلل و معرفۃ الرجال ص:۵۲بحرم الدم ص:۹۷

۱۳۴

انھیں کی فقہ پر عمل کرتے ہیں،لیکن شیعوں نے ان کے بارے میں بہت سے جھوٹ منسوب کر رکھے ہیں مجھے تو یاد نہیں ہے ابن عینیہ نے کہا ہے ان جھوٹی باتوں میں سے اس کے پاس کچھ محفوظ ہیں۔(۱)

۸۔ابن حجر کہتے ہیں کہ امام صادقؑ کے بارے میں سعد نے کہا ہے کہ آپ کثیرالحدیث تو ہیں لیکن آپ کی روایتوں سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ وہ ضعیف راوی ہیں،ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ کیا آپ نے یہ حدیثیں اپنے والد سے لی ہیں تو بولے ہاں پھر دوسری بار پوچھا گیا تو کہنے لگے میں نے اپنے والد کے مخطوطات میں دیکھا ہے۔(۲)

۹۔ابوحاتم نے حضرت امام ابوالحسن علی رضا علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے واجب ہے کہ ان کی حدیثوں کا اعتبار کیا جائے لیکن صرف ان حدیثوں کا جن کو ان کی اولاد یا ان کے شیعوں نے روایت نہیں کیا ہو،خاص طور سے ابوصلت نے۔(۳)

حالانکہ امام رضا علیہ السلام کے صرف ایک ہی بیٹے تھے یعنی ابوجعفر محمد الجوادؑ۔

ابوحاتم کہتا ہے کہ ان کے صاحبزادے ان کے حوالے سے عجیب و غریب روایتیں بیان کرتے تھے اباصلت و غیرہ بھی عجائب کے راوی تھے لگتا ہے ان کو وہم ہوتا تھا یا غلطی کرتے تھے(۴)

۱۰۔ابن طاہر کہتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام اپنے آبا و اجداد کے حوالے سے عجائب بیان کیا کرتے تھے۔(۵)

۱۱۔نباتی نے امام رضا علیہ السلام کی طرف منسوب حدیث کا انکار کرتے ہوئے کہا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)التمھید،ابن عبدالبرج ج:۲ص:۶۶،حالات جعفر بن محمد بن علیؑ،

(۲)تھذیب التہذیب ج:۲ص:۸۸حالات جعفر بن محمد بن علیؑ

(۳)الثقات ج:۸ص:۴۵۶حالات علی بن موسی رضاؑ

(۴)المجروحین ج:۲ص:۱۰۶حالات علی بن موسی الرضاؑ،تھذیب التھذیب ج:۷ص:۳۳۹حالات علی بن موسی الرضا،سیرہ اعلام نبلاءج:۹ص:۳۸۹حالات علی الرضاؑ

(۵)المغنی فی الضعفاء،ج:۲ص:۴۵۶،میزان الاعتدال ج:۵ص:۱۹۲حالات علی بن موسی الرضاؑ

۱۳۵

کہ جو ایسی حدیثوں کی روایت کرتا ہے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے اور ان سے بچا جائے۔(۱)

۱۲۔اور ابن خلدون نے بہت سخت باتیں لکھی ہیں،لکھتا ہے کہ اہل بیت کا مذہب بالکل اکیلا ہے جس کو انہوں نے بدعۃً ایجاد کیا ہے،ان کی فقہ منفرد ہے،ان کے مذہب کی بنیاد قدح صحابہ اور اپنے اماموں کی عصمت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اماموں میں اختلاف ہو ہی نہیں سکتا حالانکہ یہ سارے اصول بالکل واہیات ہیں اس طرح کی شاذ باتیں خوارج بھی کیا کرتے ہیں،ہمارے علما جمہور کا اس مذہب اور ایسے عقائد میں کوئی رول نہیں ہے بلکہ ہمارے علما نے ان عقائد سے شدت سے انکار کیا ہے اور بڑے پیمانے پر مخالفت کی ہے ہم ان کے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے نہ ان سے کوئی روایت لیتے ہیں اسلامی ملکوں میں ان کے آثار بھی نہین پائے جاتے مگر ان کے وطن میں ملتے ہیں،شیعہ کتابیں ان کے ہی شہروں میں ملیں گی جہاں ان کو حکومت چل رہی ہے۔(۲)

مذکورہ بالا بیان ابن خلدون کے قلم سے اگر چہ اہل بیتؑ کی دشمنی اور ان کے بغض میں ڈوب کے نکلا ہے بلکہ خود حضرت نبیؐ کی دشمنی میں ڈوبا ہوا ہے اس لئے کہ آپؐ نے ہی اہلبیتؑ کو اپنی امت کا مرجع قرار دیا تھا جو انہیں گمراہی اور ہلاکت سے بچانے کے ذمہ دار تھے لیکن ایک بات اس بیان سے بہرحال صاف ہوگئی وہ یہ کہ علما جمہور بلکہ جمہور اہل سنت کو اہل بیتؑ سے کوئی مطلب نہیں ہے یہ لوگ اہل بیتؑ سے ہمیشہ کنارہ کشی کرتے رہے۔

مذکورہ بالا بیان اس بات کی بھی شہادت دیتا ہے کہ شیعہ ہمیشہ خود کو اہل بیتؑ سے منسوب کرتے رہے انہیں اپنا امام سمجھتے رہے اور ان کی پیروی کرتے رہے جب کہ سنی ان پر یہ الزام لگاتے رہے کہ یہ لوگ خواہ مخواہ خود کو اہل بیتؑ سے منسوب کرتے ہیں اور جھوٹ باتیں منسوب کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تہذیب التہذیب ج:۷ص:۳۳۹،حالات علی بن موسی الرضّا

(۲)مقدمہ ابن خلدون ج:۱ص:۴۴۶ساتویں فصل،علم فقہ اور اس کی اتباع و فرائض

۱۳۶

کاش میں سمجھ سکتا کہ جب یہ بڑے بڑے علما اہل بیتؑ کے لوگوں کو علم میں کمتر،حدیث میں ضعیف اور شاذ و غیرہ بتارہے ہیں تو وہ کون سے اہل بیتؑ تھے جنھیں نبیؐ نے(حدیث عترت و اہل بیت میں)گمراہی سے بچنے کا ذریعہ اور ہلاکت سے نجات کا وسیلہ بتایا تھا۔(۱)

کسی بھی صاحب عقل کے لئے میرا یہ سوال قابل غور ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے تا کہ اس سوال کے جواب سے انسان اطمینان بخش نتیجہ تک پہنچ سکے اور خدا کے سامنے عذر پیش کرنے کے لائق بن سکے اس دن جب وہ خدا کے سامنے کھڑا ہوگا،((یوم لا یغنی مولی عن مولی شیئاً ولا ہم ینصرون))(۲)

ترجمہ آیت:((جس دن کوئی بھی دوست اپنے دوست کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکےگا اور نہ ان کی مدد کی جائےگی))۔

ائمہ اہل بیتؑ کے بارے میں عام سنیوں کے کچھ نظریئے

عام اہل سنت بھی اہل بیتؑ کے بارے میں اپنے علما کی پیروی کرتے ہیں کبھی اپنے علما کا دفاع بھی کرتے ہیں اور کبھی عجیب و غریب انداز میں صفائیاں پیش کرتے ہیں لیکن ایک بات سب میں مشترک ہے یعنی جب اہل بیتؑ کا معاملہ آتا ہے تو وہ بالکل الگ ہوجاتے ہیں اور شدت سے اہل بیتؑ سے کنارہ کشی کرتے ہیں،تاریخ کے واقعات اور مسلمان ملکوں کے حالات میرے مذکورہ بالا بیان پر شاہد ہیں۔

میں نمونے کے طور پر کچھ واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

۱۔ابن اثیر۳۶۳سنہکے بغداد کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے ابوتغلب بغداد کا کوتوال تھا کہ سرکشی کرنےوالے اور شرپسند عناصر نے بغداد کے مغربی علاقے میں فساد برپا کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)جیسا کہ حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ و غیرہ میں آیا ہے

(۲)سورہ دخان آیت:۴۱

۱۳۷

سنی شیعہ فساد شہر میں بہت تیزی سے پھوٹ پڑا،سوق طعام کے کچھ اہل سنت نے ایک عورت کو ناقہ پر بٹھا دیا اور اس کا نام عائشہ رکھا خود ان کے مردوں میں کسی کا نام طلحہ اور کسی کا نام زبیر رکھا گیا اور پھر دوسرے فرقے سے انہوں نے قتال شروع کیا اور کہنے لگے ہم علی بن ابی طالبؑ سے لڑرہے ہیں اسی طرح کی شرانگیز باتیں کرنے لگے۔(۱)

ابن کثیر لکھتا ہے کہ عاشور کے دن بغداد میں رافضیوں کی طرح بہت سی شنیع(غلیظ)بدعتوں پر عمل کیا گیا اہل سنت اور رافضیوں کے درمیان ایک بڑا فتنہ ہوا دونوں ہی عقل سے کورے یا کم عقل تھے ان پر کسی کا کنٹرول نہیں تھا فتنہ یہ تھا کہ اہل سنت نے ایک عورت کو اونٹ پر بٹھایا اور اس کا نام عائشہ رکھا مردوں میں کسی نے اپنا نام طلحہ رکھا تو کسی نے زبیر اور کہنے لگے ہم علیؑ کیا صحاب سے جنگ کررہے ہیں نتیجہ میں بغداد کی گلیوں میں بہت خون بہا اور دونوں فرقوں میں سے بہت سے لوگ مارے گئے۔(۲)

۲۔جب جمہور اہل سنت نے دیکھا کہ وہ عزائے حسینؑ کو روکنے سے عاجز ہیں اور شیعوں کو حسین شہید پر ماتم کرنے سے نیہں روکا جاسکتا نہ آپ کی زیارت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے تو انہوں نے غم حسینؑ کی ضد میں ایسے طریقے قائم کئے جن سے ان کے رجحان فکر کا پتہ چلتا ہے،کاش کسی کی سمجھ میں یہ بات آجاتی کہ وہ شیعوں سے کہتے ہیں کہ ہم تم سے زیادہ حسینؑ اور اہل بیتؑ پر حق رکھتے ہیں پھر وہ اپنے طریقے پر عزائے مولا اور زیارت حسینؑ کا دستور بناتے اور اس طرح زیارت کرتے جو ان کے عقیدے کے مطابق ہوتا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے مقابلہ میں دشمنان اہل بیتؑ کی عزاداری قائم کی اور ان کی بزرگی کا اعلان کیا وہ مصعب ابن زبیر کا ماتم ٹھیک شیعوں کی طرح کرنے لگے اور جس طرح شیعہ حسینؑ مظلوم کی زیارت کرتے ہیں اسی طرح وہ مصعب ابن زبیر کی زیارت کرنے لگے یہ سلسلہ ان میں برسوں چلتا رہا۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الکامل فی التاریخ ج:۷ص:۳۶۳،۳۴۰سنہکے حادثات۔

(۲)البدایہ و النھایہ ج:۱۱ص:۳۶۳،۲۷۵سنہکے حادثات۔

(۳)البدایہ و النھایہ ج:۱۱ص:۳۶۳،۳۲۳،۳۲۶سنہکے حادثات،الکامل فی التاریخ ج:۸ص:۳۶۳،۱۰سنہکے حادثات

۱۳۸

ظاہر ہے کہ مصعب ابن زبیر کوئی ایسی شخصیت تو ہے نہیں کہ جس کا احترام کیا جائے نہ اس کی اندر ایسی کوئی صفت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کو مقدس سمجھا جائے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں نے مصعب ابن زبیر کا غم عزاداری کے لئے کیوں منتخب کیا،ایک بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ اور اس کے مسلک کے لوگ جو زبیریوں کے نام سے جانے جاتے ہیں اہل بیتؑ سے کھلی ہوئی دشمنی رکھتے تھے جمہور اہل سنت کے دل میں اہل بیتؑ سے جو کینہ اور بغض بھرا ہوا ہے اس کا مظاہرہ اسی طرح ہوسکتا تھا کہ کسی دشمن اہل بیتؑ کی عزاداری کا اہتمام کیا جائے اور انہوں نے ایسا ہی کیا اور اپنے دل کینہ کا اظہار اس وسلیہ سے کیا۔

۳۔ابن اثیر کے حوالہ سے عرض کرتا ہوں کہ شیعہ کے خلاف بغداد میں جو فتنہ اٹھا تھا وہ بھی اہل بیتؑ سے دشمنی کا ایک مظاہرہ تھا جو اہل سنت کی طرف سے کیا جارہا تھا اس فتنہ کا سبب یہ تھا کہ اہل کرخ(شیعوں)نے باب سماکین کو قلائین نے باب مسعود کی باقی ماندہ عمارت کو تعمیر کیا اور اس میں بہت سے گنبد بنائے ان گنبدوں پر سونے کے پانی سے ایک کتبہ لکھا کتبہ کا مضمون تھا(محمد و علی خیرالبشر)اہل سنت نے کہا یہ تحریر غلط ہے انہوں نے کہا کہ ان گنبدوں پر لکھا ہوا ہے:(محمد و علی خیر البشر فمن رضی فقد شکر و من ابیٰ فقد کفَرَ)یعنی محمد و علی خیر بشر ہیں جو اس پر راضی ہے اس نے شکر ادا کیا اور جو اس کا منکر ہے وہ کافر ہے،اہل کرخ(شیعہ)نے کہا ہم نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے ہم اپنی مسجدوں پر یہی لکھتے چلے آئے ہیں بات خلیفہ تک پہنچ گئی اس دور میں خلیفہ عباسی قائم بامراللہ تھا اس نے عباسیوں کے نقیب ابوتمام اور علویین کے نقیب عدنان بن رضی کو دریافت حال کے لئے بھیجا اور فتنہ کو روکنے کی بھی ہدایت کی یہ دونوں آئے حالات کا جائزہ لیا اور دونون نے شیعوں کے عمل کو صحیح قرار دیا اور ان کی تصدیق کی،خلیفہ نے حکم دیا اور نواب رحیم نے بھی کہ جنگ و جدال بند کردی جائے لیکن اہل سنت نے نہیں مانا،قاضی ابن مذہب زہری اور دوسرے حنبلیوں نے لکھا ہے ان میں عبدالصمد کے اصحاب بھی شامل ہیں کہ اہل سنت نے بہت طوفان مچایا اور

۱۳۹

شہر کے رئیس الرؤسا نے شیعوں پر بہت تشدد کیا آخر شیعوں نے اس کتبے سے خیرالبشر ہٹا کر وہاں علیہما السلام لکھ دیا لیکن سنی اس پر بھی راضی نہین ہوئے ان کا مطالبہ تھا کہ ہم وہ تختی ہی اکھیڑ دیں گے جس پر محمدؐ و علیؑ لکھا ہوا ہے اور یہ کہ شیعہ اذان میں(حی علیٰ خیر العمل)نہ پکاریں شیعوں نے یہ مطالبہ رد کردیا جس کی وجہ سے فتنہ بڑھتا رہا اور تین ربیع الاول تک آپس میں قتل و غارت اور حربیہ اور باب بصرہ کے علاوہ تمام سنی محلوں میں گھوم کر لوگوں کو اس کے خون کا بدلہ لینے پر ابھارتے رہے جب دفن کرکے واپس پلٹے تو مشہد کے باب سوم پر حملہ کردیا(کاظمین پر حملہ کردیا)لوگوں نے اس کا دروازہ بند کردیا تو انہوں نے دیوار میں نقب لگانی شروع کردی اور دربانوں کو ڈرایا،دھمکایا ان غریبوں نے مارے ڈر کے دروازے کھول دیئے یہ لوگ مشہد میں درّانہ گھسے اور تمام قندیلیں لوغ لیں،محرابوں میں جو کچھ سونا چاندی تھا سب کو لوٹ لیا،سارے پردے لوٹ لئے،تربت اور دیواروں پر جو قیمتی سامان تھے وہ بھی لوٹ لیا یہاں تک کہ راہ ہوگئی تو یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس ہوئے،دوسرے دن پہلے سے زیادہ(بڑا)مجمع آیا اور مشہد(کاظمین)میں آگ لگادی گئی سارے کمروں میں اور برامدوں کو جلا ڈالا،موسیٰ بن جعفر اور محمد بن علی علیہما السلام کی ضریح میں آگ لگادی اور ان دونوں قبوں میں بھی آگ لگادی جو ان کی ضریح کے اوپر بنائے گئے تھے پھر اس ضریح کے آس پاس کی تمام چیزوں کو جلا دیا اور اتنے گندم کام کئے کہ اس سے پہلے دنیا میں ایسے کام نہیں ہوئے تھے۔

(ربیع الاوّل)مہینہ کی پانچویں تاریخ کو وہ لوگ پھر آئے اور دونوں مظلوم اماموں(یعنی موسیٰ بن جعفر اور محمد بن علی رضا علیہما السلام)کی قبر کھودنی شروع کی تا کہ دونوں حضرات کے جسم اطہر کو حنبلیوں کے قبرستان میں لے جائیں لیکن ملبہ بہت تا اس لئے نشان قبر نہیں پاسکے تو پھر آس پاس میں نقب لگا کے قبر تک پہنچنا چاہا عباسیوں کے نقیب ابوتمام نے جب یہ حرکت دیکھی اور دوسرے ہاشمیوں اور کچھ سنیوں کو یہ خبر ملی تو وہ لوگ آئے اور اپنے لوگوں کو اس فعل قبیح سے روکا۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الکام فی التاریخ ج:۸ص:۳۰۱۔۳۰۲بغداد میں جو جھگڑا ہوا اور مشہد کو جلایا یہ حادثہ سال۴۴۳سنہمیں ہوا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

خَلْقَه - إِنَّه مَا تَوَجَّه الْعِبَادُ إِلَى اللَّه تَعَالَى بِمِثْلِه - واعْلَمُوا أَنَّه شَافِعٌ مُشَفَّعٌ وقَائِلٌ مُصَدَّقٌ - وأَنَّه مَنْ شَفَعَ لَه الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُفِّعَ فِيه - ومَنْ مَحَلَ بِه الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صُدِّقَ عَلَيْه - فَإِنَّه يُنَادِي مُنَادٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - أَلَا إِنَّ كُلَّ حَارِثٍ مُبْتَلًى فِي حَرْثِه وعَاقِبَةِ عَمَلِه - غَيْرَ حَرَثَةِ الْقُرْآنِ - فَكُونُوا مِنْ حَرَثَتِه وأَتْبَاعِه - واسْتَدِلُّوه عَلَى رَبِّكُمْ واسْتَنْصِحُوه عَلَى أَنْفُسِكُمْ - واتَّهِمُوا عَلَيْه آرَاءَكُمْ واسْتَغِشُّوا فِيه أَهْوَاءَكُمْ.

الحث على العمل

الْعَمَلَ الْعَمَلَ ثُمَّ النِّهَايَةَ النِّهَايَةَ - والِاسْتِقَامَةَ الِاسْتِقَامَةَ ثُمَّ الصَّبْرَ الصَّبْرَ والْوَرَعَ الْوَرَعَ - إِنَّ لَكُمْ نِهَايَةً فَانْتَهُوا إِلَى نِهَايَتِكُمْ - وإِنَّ لَكُمْ عَلَماً فَاهْتَدُوا بِعَلَمِكُمْ - وإِنَّ لِلإِسْلَامِ غَايَةً فَانْتَهُوا إِلَى غَايَتِه - واخْرُجُوا إِلَى اللَّه بِمَا افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَقِّه - وبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ وَظَائِفِه - أَنَا شَاهِدٌ لَكُمْ وحَجِيجٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَنْكُمْ.

مخلوقات سے سوال نہ کرو۔اس لئے کہ مالک کی طرف متوجہ ہونے کا اس کا جیسا کوئی وسیلہ نہیں ہے اور یاد رکھو کہ وہ ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور ایسا بولنے والا ے جس کی بات مصدقہ ہے۔جس کے لئے قرآن روز قیامت سفارش کردے اس کے حق میں شفاعت مقبول ہے اور ایسا بولنے والا ہے جس کی بات مصدقہ ہے۔جس کے لئے قرآن روز قیامت سفارش کردے اس کے حق میں شفاعت قبول ہے اور جس کے عیب کو وہ بیان کردے اس کا عیب تصدیق شدہ ہے۔روز قیامت ایک منادی آوازدے گا کہ ہر کھیتی کرنے والا اپنی کھیتی اور اپنے عمل کے انجام میں مبتلا ہے لیکن جو اپنے دل میں قرآن کا بیج بونے والے تھے وہ کامیاب ہیں لہٰذا تم لوگ انہیں لوگوں اور قرآن کی پیروی کرنے والوں میں شامل ہو جائو۔ اسے مالک کی بارگاہ میں رہنما بنائو اور اس سے اپنے نفس کے بارے میں نصیحت کرواور اپنے خیالات کو متہم قراردو اور اپنے خواہشات کو فریب خوردہ تصور کرو۔

عمل کرو عمل

انجام پر نگاہ رکھو انجام۔استقامت سے کام لو استقامت اور احتیاط کرو احتیاط تمہارے لئے ایک انتہا معین ہے اس کی طرف قدم آگے بڑھائو اور اللہ کی بارگاہ میں اس کے حقوق کی ادائیگی اور اس کے احکام کی پابندی کے ساتھ حاضری دو۔میں تمہارے اعمال کا گواہ بنوںگا اور روز قیامت تمہاری طرف سے وکالت کروں گا۔

۳۲۱

نصائح للناس

أَلَا وإِنَّ الْقَدَرَ السَّابِقَ قَدْ وَقَعَ - والْقَضَاءَ الْمَاضِيَ قَدْ تَوَرَّدَ - وإِنِّي مُتَكَلِّمٌ بِعِدَةِ اللَّه وحُجَّتِه - قَالَ اللَّه تَعَالَى -( إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا الله ثُمَّ اسْتَقامُوا - تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ولا تَحْزَنُوا - وأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ) - وقَدْ قُلْتُمْ رَبُّنَا اللَّه فَاسْتَقِيمُوا عَلَى كِتَابِه - وعَلَى مِنْهَاجِ أَمْرِه وعَلَى الطَّرِيقَةِ الصَّالِحَةِ مِنْ عِبَادَتِه - ثُمَّ لَا تَمْرُقُوا مِنْهَا ولَا تَبْتَدِعُوا فِيهَا - ولَا تُخَالِفُوا عَنْهَا - فَإِنَّ أَهْلَ الْمُرُوقِ مُنْقَطَعٌ بِهِمْ عِنْدَ اللَّه يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِيَّاكُمْ وتَهْزِيعَ الأَخْلَاقِ وتَصْرِيفَهَا - واجْعَلُوا اللِّسَانَ وَاحِداً ولْيَخْزُنِ الرَّجُلُ لِسَانَه - فَإِنَّ هَذَا اللِّسَانَ جَمُوحٌ بِصَاحِبِه - واللَّه مَا أَرَى عَبْداً يَتَّقِي تَقْوَى تَنْفَعُه حَتَّى يَخْزُنَ لِسَانَه - وإِنَّ لِسَانَ الْمُؤْمِنِ مِنْ وَرَاءِ قَلْبِه - وإِنَّ قَلْبَ الْمُنَافِقِ مِنْ وَرَاءِ لِسَانِه - لأَنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِكَلَامٍ تَدَبَّرَه فِي نَفْسِه - فَإِنْ كَانَ خَيْراً

(نصائح)

یاد رکھو کہ جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا اور جو فیصلہ خداوندی تھا وہ سامنے آچکا ۔میں خدائی وعدہ اور اس کی حجت کے سہارے کلام کر رہا ہوں '' بیشک جن لوگوں نے خدا کو خدا مانا اور اسی بات پر قائم رہ گئے۔ان پر ملائکہ اس بشارت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں کہ خبر دار ڈرو نہیں اور پریشان مت ہو۔تمہارے لئے اس جنت کی بشارت ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے '' اور تم لوگ تو خداکوخدا کہہ چکے ہو تو اب اس کی کتاب پر قائم رہو اور اس کے امر کے راستہ پر ثابت قدم رہو۔اس کی عبادت کے نیک راستہ پرجمے رہو اور اس سے خروج نہ کرو اور نہ کوئی بدعت ایجاد کرو اور نہ سنت سے اختلاف کرو۔اس لئے کہاطاعت الٰہی سے نکل جانے والے کا رشتہ پروردگار سے روز قیامت ٹوٹ جاتا ہے۔اس کے بعد ہوشیار ہوکر تمہارے اخلاق میں الٹ پھیرا دل بدل نہ ہونے پائے۔اپنی زبان کو ایک رکھو اور اسے محفوظ رکھو اس لئے کہ یہ زبان اپنے مالک سے بہت منہ زوری کرتی ہے۔خدا کی قسم میں نے کسی بندۂ مومن کو نہیں دیکھا جس نے اپنے تقویٰ سے فائدہ اٹھایا ہو مگر یہ کہ اپنی زبان کو روک کر رکھا ہے۔مومن کی زبان ہمیشہ اس کے دل کے پیچھے ہوتی ہے اور منافق کا دل ہمیشہ اس کی زبان کے پیچھے ہوتا ہے۔اس لئے کہ مومن جب بات کرنا چاہتا ہے تو پہلے دل میں غوروفکر کرتا ہے۔اس کے بعد حرف خیر ہوتا ہے تو اس کا

۳۲۲

أَبْدَاه وإِنْ كَانَ شَرّاً وَارَاه - وإِنَّ الْمُنَافِقَ يَتَكَلَّمُ بِمَا أَتَى عَلَى لِسَانِه - لَا يَدْرِي مَا ذَا لَه ومَا ذَا عَلَيْه - ولَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - لَا يَسْتَقِيمُ إِيمَانُ عَبْدٍ حَتَّى يَسْتَقِيمَ قَلْبُه - ولَا يَسْتَقِيمُ قَلْبُه حَتَّى يَسْتَقِيمَ لِسَانُه - فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى اللَّه تَعَالَى - وهُوَ نَقِيُّ الرَّاحَةِ مِنْ دِمَاءِ الْمُسْلِمِينَ وأَمْوَالِهِمْ - سَلِيمُ اللِّسَانِ مِنْ أَعْرَاضِهِمْ فَلْيَفْعَلْ.

تحريم البدع

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه أَنَّ الْمُؤْمِنَ يَسْتَحِلُّ الْعَامَ - مَا اسْتَحَلَّ عَاماً أَوَّلَ ويُحَرِّمُ الْعَامَ مَا حَرَّمَ عَاماً أَوَّلَ - وأَنَّ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ لَا يُحِلُّ لَكُمْ شَيْئاً - مِمَّا حُرِّمَ عَلَيْكُمْ - ولَكِنَّ الْحَلَالَ مَا أَحَلَّ اللَّه والْحَرَامَ مَا حَرَّمَ اللَّه - فَقَدْ جَرَّبْتُمُ الأُمُورَ

اظہار کرتا ہے ورنہ اسے دل ہی میں چھپا رہنے دیتا ہے لیکن منافق جواس کے منہ میں آتاہے بک دیتاہے ۔اسے اس بات کی فکرنہیں ہوتی ہے کہ میرے موافق ہے یا مخالف اور پیغمبر (ص) اسلام نے فرمایا ہے کہ '' کسی شخص کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا ہے جب تک اس کا دل درست نہ ہو اور کسی شخص کا دل درست نہیں ہو سکتا ہے جب تک اس کی زبان درست نہ ہو۔اب جو شخص بھی اپنے پروردگار سے اس عالم میں ملاقات کر سکتا ہے کہ اس کا ہاتھ مسلمانوں کے خون اور ان کے مال سے پاک ہو اور اس کی زبان ان کی آبرو ریزی سے محفوظ ہو تو اسے بہر حال ایسا ضرور کرنا چاہیے۔

(بدعتوں کی ممانعت)

یاد رکھو کہ مرد مومن اس سال(۱) اسی چیز کو حلال کہتا ہے کہ جسے اگلے سال حلال کہہ چکا ہے اور اس سال اسی شے کو حرام قرار دیتا ہے جسے پچھلے سال حرام قرار دے چکا ہے۔اور لوگوں کی بدعتیں اور ان کی ایجادات حرام الٰہی کو حلال نہیں بنا سکتی ہیں۔ حلال و حرام وہی ہے جسے پروردگار نے حلال و حرام کہہ دیا ہے۔تم نے تمام امور کو

(۱)اسلام کے حلال و حرام دو قسم کے ہیں بعض امور وہ ہیں جنہیں مطلق طور پر حلال یا حرام قراردیا گیا ہے۔ان میں تغیر کا کوی امکان نہیں ہے اور انہیں بدلنے والا دین خدا میں دخل اندازی کرنے والا ہے جو خود ایک طرح کا کفر ہے۔اگرچہ بظاہر اس کا نام کفر یا شرک نہیں ہے۔

اور بعض امور وہ ہیں جن کی علیت یا حرمت حالات کے اعتبارسے رکھی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ ان کا حکم حالات کے بدلنے کے ساتھ خود ہی بدل جائے گا۔اس میں کسی کے بدلنے کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا ہے۔ایک مسلمان اور غیر مسلم یا ایک مومن اور غیر مومن کا فرق یہی ہے کہ مسلمان اور امر الہیہ کا مکمل اتباع کرتاہے اور کافر یا منافق ان احکام کو اپنے مصالح اور منافع کے مطابق بدل لیتا ہے اور اس کا نام مصلحت اسلام یا مصلحت مسلمین رکھ دیتا ہے ۔

۳۲۳

وضَرَّسْتُمُوهَا - ووُعِظْتُمْ بِمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ وضُرِبَتِ الأَمْثَالُ لَكُمْ - ودُعِيتُمْ إِلَى الأَمْرِ الْوَاضِحِ فَلَا يَصَمُّ عَنْ ذَلِكَ إِلَّا أَصَمُّ - ولَا يَعْمَى عَنْ ذَلِكَ إِلَّا أَعْمَى - ومَنْ لَمْ يَنْفَعْه اللَّه بِالْبَلَاءِ والتَّجَارِبِ - لَمْ يَنْتَفِعْ بِشَيْءٍ مِنَ الْعِظَةِ وأَتَاه التَّقْصِيرُ مِنْ أَمَامِه - حَتَّى يَعْرِفَ مَا أَنْكَرَ ويُنْكِرَ مَا عَرَفَ - وإِنَّمَا النَّاسُ رَجُلَانِ مُتَّبِعٌ شِرْعَةً ومُبْتَدِعٌ بِدْعَةً - لَيْسَ مَعَه مِنَ اللَّه سُبْحَانَه بُرْهَانُ سُنَّةٍ ولَا ضِيَاءُ حُجَّةٍ.

القرآن

وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَعِظْ أَحَداً بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ - فَإِنَّه حَبْلُ اللَّه الْمَتِينُ وسَبَبُه الأَمِينُ - وفِيه رَبِيعُ الْقَلْبِ ويَنَابِيعُ الْعِلْمِ - ومَا لِلْقَلْبِ جِلَاءٌ غَيْرُه مَعَ أَنَّه قَدْ ذَهَبَ الْمُتَذَكِّرُونَ - وبَقِيَ النَّاسُونَ أَوِ الْمُتَنَاسُونَ - فَإِذَا رَأَيْتُمْ خَيْراً فَأَعِينُوا عَلَيْه - وإِذَا رَأَيْتُمْ شَرّاً فَاذْهَبُوا عَنْه - فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَانَ يَقُولُ - يَا ابْنَ آدَمَ اعْمَلِ الْخَيْرَ ودَعِ الشَّرَّ - فَإِذَا أَنْتَ جَوَادٌ قَاصِدٌ ».

آزمالیا ہے اور سب کا باقاعدہ تجربہ کرلیا ہے اور تمہیں پہلے والوں کے حالات سے نصیحت بھی کی جا چکی ہے اور ان کی مثالیں بھی بیان کی جا چکی ہے اور ایک واضح امر کی دعوت بھی دی جا چکی ہے کہ اب اس معاملہ میں بہرہ پن اختیار نہیں کرے گا مگر وہی جو واقعاً بہرہ ہو اور انددھا نہیں بنے گا مگر وہی جو واقعاً اندھا ہو اور پھر جسے بلائیں اور تجربات فائدہ نہ دے سکیں اسے نصیحتیں کیا فائدہ دیں گی۔اس کے سامنے صرف کوتاہیاں ہی رہیں گی جن کے نتیجہ میں برائیوں کو اچھا اور اچھائیوں کو برا سمجھنے لگے گا۔لوگ دو ہی قسم کے ہوتے ہیں۔یا وہ جو شریعت کا اتباع کرتے ہیں یا وہ جو بدعتوں کی ایجاد کرتے ہیں اور ان کے پاس نہ سنت کی کوئی دلیل ہوتی ہے اور نہ حجت پروردگار کی کوئی روشنی ۔

(قرآن)

پروردگار نے کسی شخص کو قرآن سے بہتر کوئی نصیحت نہیں فرمائی ہے۔کہ یہی خدا کی مضبوط رسی اور اس کا امانت دار وسیلہ ہے اس میں دلوں کی بہار کا سامان اور علم کے سر چشمے ہیں اور دل کی جلاء اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اب اگرچہ نصیحت حاصل کرنے والے جا چکے ہیں اور صرف بھول جانے والے یا بھلا دینے والے باقی رہ گئے ہیں لیکن پھر بھی تم کوئی خیر دیکھو تو اس پر لوگوں کی مدد کرو اور کوئی شر دیکھو تو اس سے دور ہو جائو کہ رسول اکرم (ص) برابر فرمایا کرتے تھے '' فرزند آدم خیر پرعمل کر اور شر کونظراندازکردے تاکہ بہترین نیک کردار اورمیانہ رو ہو جائے ۔

۳۲۴

أنواع الظلم

أَلَا وإِنَّ الظُّلْمَ ثَلَاثَةٌ - فَظُلْمٌ لَا يُغْفَرُ وظُلْمٌ لَا يُتْرَكُ - وظُلْمٌ مَغْفُورٌ لَا يُطْلَبُ - فَأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي لَا يُغْفَرُ فَالشِّرْكُ بِاللَّه - قَالَ اللَّه تَعَالَى( إِنَّ الله لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِه ) - وأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي يُغْفَرُ - فَظُلْمُ الْعَبْدِ نَفْسَه عِنْدَ بَعْضِ الْهَنَاتِ - وأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي لَا يُتْرَكُ - فَظُلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِهِمْ بَعْضاً - الْقِصَاصُ هُنَاكَ شَدِيدٌ لَيْسَ هُوَ جَرْحاً بِاْلمُدَى - ولَا ضَرْباً بِالسِّيَاطِ ولَكِنَّه مَا يُسْتَصْغَرُ ذَلِكَ مَعَه - فَإِيَّاكُمْ والتَّلَوُّنَ فِي دِينِ اللَّه - فَإِنَّ جَمَاعَةً فِيمَا تَكْرَهُونَ مِنَ الْحَقِّ - خَيْرٌ مِنْ فُرْقَةٍ فِيمَا تُحِبُّونَ مِنَ الْبَاطِلِ - وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يُعْطِ أَحَداً بِفُرْقَةٍ خَيْراً مِمَّنْ مَضَى - ولَا مِمَّنْ بَقِيَ.

لزوم الطاعة

يَا أَيُّهَا النَّاسُ - طُوبَى لِمَنْ شَغَلَه عَيْبُه عَنْ عُيُوبِ النَّاسِ - وطُوبَى لِمَنْ لَزِمَ بَيْتَه وأَكَلَ قُوتَه - واشْتَغَلَ بِطَاعَةِ رَبِّه وبَكَى عَلَى خَطِيئَتِه - فَكَانَ مِنْ نَفْسِه فِي شُغُلٍ والنَّاسُ مِنْه فِي رَاحَةٍ!

اقسام ظلم

یاد رکھو کہ ظلم کی تین قسمیں ہیں۔وہ ظلم جس کی بخشش نہیں ہے اور وہ ظلم جسے چھوڑا نہیں جا سکتا ہے۔اور وہ ظلم جس کی بخش ہوجاتی ہے اور اس کا مطالبہ نہیں ہوتا ہے۔ وہ ظلم جس کی بخشش نہیں ہے وہ اللہ کا شریک قرار دینا ہے کہ پروردگار نے خود اعلان کردیا ہے کہ اس کا شریک قراردینے والے کی مغفرت نہیں ہو سکتی ہے اوروہ ظلم جو معاف کردیا جاتا ہے وہ انسان کا اپنے نفس پر ظلم ہے معمولی گناہوں کے ذریعہ۔اور وہ ظلم جسے چھوڑا نہیں جا سکتا ہے۔وہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم ہے کہ یہاں قصاص بہت سخت ہے اور یہ صرف چھری کا زخم اور تازیانہ کی مار نہیں بلکہ ایسی سزا ہے جس کے سامنے یہ سب بہت معمولی ہیں لہٰذا خبردار دی خدا میں رنگ بدلنے کی روشن اختیار مت کرو کہ جس حق کو تم نا پسند کرتے ہو اس پرمتحد رہنا اس باطل پر چل کرمنتشر ہو جانے سے بہر حال بہتر ہے جسے تم پسند کرتے ہو۔پروردگار نے افتراق و انتشار میں کسی کو کوئی خیرنہیں دیا ہے نہ ان لوگوں میں جو چلے گئے اور نہ ان میں جوباقی رہ گئے ہیں۔

لوگو!خوش نصیب ہے وہ جسے اپنا عیب دوسروں کے عیب پر نظر کرنے سے مشغول کرلے اور قابل مبارکباد ہے وہ شخص جو اپنے گھرمیں بیٹھ رہے ۔اپنا رزق کھائے اور اپنے پروردگار کی اطاعت کرتا رہے اوراپنے گناہوں پر گریہ کرتا رہے۔وہ اپنے نفس میں مشغول رہے اور لوگ اس کی طرف سے مطمئن رہیں۔

۳۲۵

(۱۷۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معنى الحكمين

فَأَجْمَعَ رَأْيُ مَلَئِكُمْ عَلَى أَنِ اخْتَارُوا رَجُلَيْنِ - فَأَخَذْنَا عَلَيْهِمَا أَنْ يُجَعْجِعَا عِنْدَ الْقُرْآنِ ولَا يُجَاوِزَاه - وتَكُونُ أَلْسِنَتُهُمَا مَعَه وقُلُوبُهُمَا تَبَعَه فَتَاهَا عَنْه - وتَرَكَا الْحَقَّ وهُمَا يُبْصِرَانِه - وكَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا والِاعْوِجَاجُ رَأْيَهُمَا - وقَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَاؤُنَا عَلَيْهِمَا فِي الْحُكْمِ بِالْعَدْلِ - والْعَمَلِ بِالْحَقِّ سُوءَ رَأْيِهِمَا وجَوْرَ حُكْمِهِمَا - والثِّقَةُ فِي أَيْدِينَا لأَنْفُسِنَا حِينَ خَالَفَا سَبِيلَ الْحَقِّ - وأَتَيَا بِمَا لَا يُعْرَفُ مِنْ مَعْكُوسِ الْحُكْمِ

(۱۷۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(صفین کے بعد حکمین کے بارے میں )

تمہاری جماعت(۱) ہی نے دوآدمیوں کے انتخاب پر اتفاق کرلیا تھا۔میں نے تو ان دونوں سے شرط کرلی تھی کہ قرآن کی حدوں پر واقف کریں گے اور اس سے تجاوز نہیں کریں گے۔ان کی زبان اس کے ساتھ رہے گی اوروہ اسی کا اتباع کریں گے لیکن وہ دونوں بھٹک گئے اور حق کو دیکھ بھال کر نظر انداز کردیا۔ظلم ان کی آرزو تھا اور کج فہمی ان کی رائے جب کہ اس بد ترین رائے اوراس ظالمانہ فیصلہ سے پہلے ہی میں نے یہ شرط کردی تھی کہ عدالت کے ساتھ فیصلہ کریں گے اور حق کے مطابق عمل کریں گے لہٰذا اب میرے پاس اپنے حق میں حجت و دلیل موجود ہے کہ ان لوگوں نے راہ حق سے اختلاف کیا ہے اور طے شدہ قرار داد کے خلاف الٹا حکم کیا ہے۔

(۱) جب معاویہ نے صفین میں اپنے لشکر کو ہارتے ہوئے دیکھا تو نیزوں پر قرآن بلند کردیا کہ ہم قرآن سے فیصلہ چاہتے ہیں۔امیر المومنین نے فرمایا کہ یہ صرف مکاری اور غداری ہے ورنہ میں تو خود ہی قرآن ناطق ہو ں ۔مجھ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے لیکن شام کے نمک خوار اور ضمیر فروش سپاہیوں نے ہنگامہ کردیا اور حضرت کومجبور کردیا کہ دو افراد کو حکم بنا کر ان سے فیصلہ کرائیں ۔آپ نے اپنی طرف سے ابن عباس کو پیش کیا لیکن ظالموں نے اسے بھی نہ مانا۔بالآخر آپ نے فرمایا کہ کوئی بھی فیصلہ کرے لیکن قرآن کے حدود سے آگے نہ بڑھے کہ میں نے قرآن ہی کے نام پرجنگ کو موقوف کیا ہے مگر افسوس کہ یہ کچھ نہ ہو سکا اور عمرو عاص کی عیارینے آپ کے خلاف فیصلہ کرادیا اوراس طرح اسلام ایک عظیم فتنہ سے دوچار ہوگیا لیکن آپ کا عذر واضح رہا کہ میں نے فیصلہ میں قرآن کی شرط کی تھی اور یہ فیصلہ قرآن سے نہیں ہوا ہے لہٰذا مجھ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

۳۲۶

(۱۷۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الشهادة والتقوى. وقيل: إنه خطبها بعد مقتل عثمان في أول خلافته

اللَّه ورسوله

لَا يَشْغَلُه شَأْنٌ ولَا يُغَيِّرُه زَمَانٌ - ولَا يَحْوِيه مَكَانٌ ولَا يَصِفُه لِسَانٌ - لَا يَعْزُبُ عَنْه عَدَدُ قَطْرِ الْمَاءِ ولَا نُجُومِ السَّمَاءِ - ولَا سَوَافِي الرِّيحِ فِي الْهَوَاءِ - ولَا دَبِيبُ النَّمْلِ عَلَى الصَّفَا - ولَا مَقِيلُ الذَّرِّ فِي اللَّيْلَةِ الظَّلْمَاءِ - يَعْلَمُ مَسَاقِطَ الأَوْرَاقِ وخَفِيَّ طَرْفِ الأَحْدَاقِ - وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه غَيْرَ مَعْدُولٍ بِه - ولَا مَشْكُوكٍ فِيه ولَا مَكْفُورٍ دِينُه - ولَا مَجْحُودٍ تَكْوِينُه شَهَادَةَ مَنْ صَدَقَتْ نِيَّتُه - وصَفَتْ دِخْلَتُه وخَلَصَ يَقِينُه وثَقُلَتْ مَوَازِينُه - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه الَمْجُتْبَىَ مِنْ خَلَائِقِه - والْمُعْتَامُ لِشَرْحِ حَقَائِقِه والْمُخْتَصُّ بِعَقَائِلِ كَرَامَاتِه - والْمُصْطَفَى لِكَرَائِمِ رِسَالَاتِه - والْمُوَضَّحَةُ بِه أَشْرَاطُ الْهُدَى والْمَجْلُوُّ بِه غِرْبِيبُ الْعَمَى.

(۱۷۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(شہادت ایمان اور تقویٰ کے بارے میں )

نہ اس پر کوئی حالت طاری ہو سکتی ہے اور نہ اسے کوئی زمانہ بدل سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی مکان حاوی ہو سکتا ہے اور نہ اس کی توصیف ہو سکتی ہے۔اس کے علم سے نہ بارش کے قطرے مخفی ہیں اور نہآسمان کے ستارے۔نہ فضائوں میں ہواکے جھکڑ مخفی ہیں اور نہ پتھروں پرچیونٹی کے چلنے کی آواز اور نہ اندھیری رات میں اس کی پناہ گاہ۔وہ پتوں کے گرنے کی جگہ بھی جانتا ہے اورآنکھ کے دز دیدہ اشارے بھی۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔نہ اس کا کوئی ہمسرو عدیل ہے اور نہ اس میں کسی طرح کا شک ے نہ اس کے دین کا انکار ہو سکتا ہے اور نہ اس کی تخلیق سے انکار کیا جا سکتا ہے۔یہ شہادت اس شخص کی ہے جس کی نیت سچی ہے اور باطن صاف ہے اس کا یقین خالص ہے اور میزان عمل گرانبار۔

اور پھر میں شہادت دیتا ہوں کہ حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور تمام مخلوقات میں منتخب رسول ہیں۔انہیں حقائق کی تشریح کے لئے چنا گیا ہے اور بہترین شرافتوں سے مخصوص کیا گیا ہے۔عظیم ترین پیغامات کے لئے ان کا انتخاب ہوا ہے اور ان کے ذریعہ ہدایت کی علامات کی وضاحت کی گئی ہے اور گمراہی کی تاریکیوں کو دور کیا گیا ہے۔

۳۲۷

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ الدُّنْيَا تَغُرُّ الْمُؤَمِّلَ لَهَا والْمُخْلِدَ إِلَيْهَا - ولَا تَنْفَسُ بِمَنْ نَافَسَ فِيهَا وتَغْلِبُ مَنْ غَلَبَ عَلَيْهَا - وايْمُ اللَّه مَا كَانَ قَوْمٌ قَطُّ فِي غَضِّ نِعْمَةٍ مِنْ عَيْشٍ - فَزَالَ عَنْهُمْ إِلَّا بِذُنُوبٍ اجْتَرَحُوهَا لـ( أَنَّ الله لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ) - ولَوْ أَنَّ النَّاسَ حِينَ تَنْزِلُ بِهِمُ النِّقَمُ وتَزُولُ عَنْهُمُ النِّعَمُ فَزِعُوا إِلَى رَبِّهِمْ بِصِدْقٍ مِنْ نِيَّاتِهِمْ ووَلَه مِنْ قُلُوبِهِمْ - لَرَدَّ عَلَيْهِمْ كُلَّ شَارِدٍ وأَصْلَحَ لَهُمْ كُلَّ فَاسِدٍ - وإِنِّي لأَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تَكُونُوا فِي فَتْرَةٍ - وقَدْ كَانَتْ أُمُورٌ مَضَتْ مِلْتُمْ فِيهَا مَيْلَةً - كُنْتُمْ فِيهَا عِنْدِي غَيْرَ مَحْمُودِينَ - ولَئِنْ رُدَّ عَلَيْكُمْ أَمْرُكُمْ إِنَّكُمْ لَسُعَدَاءُ - ومَا عَلَيَّ إِلَّا الْجُهْدُ - ولَوْ أَشَاءُ أَنْ أَقُولَ لَقُلْتُ( عَفَا الله عَمَّا سَلَفَ ) !

لوگو! یاد رکھو یہ دنیا اپنے سے لو گانے والے اور اپنی طرف کھینچ جانے والے کو ہمیشہ دھوکہ دیا کرتی ہے۔جو اس کا خواہش مند ہوتا ہے اس سے بخل نہیں کرتی ہے اورجواس پر غالب آجاتا ہے اس پرقابو پالیتی ہے ۔خدا کی قسم کوئی بھی قوم جو نعمتوں کی ترو تازہ اورشاداب زندگی میں تھی اور پھر اس کی وہ زندگی زائل ہوگئی ہے تو اس کا کوئی سبب سوائے ان گناہوں کے نہیں ہے جن کا ارتکاب(۱) اس قوم نے کیا ہے۔اس لئے کہ پروردگار اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہے۔پھر بھی جن لوگوں پر عتاب نازل ہوتاہے اورنعمتیں زائل ہو جاتی ہیں اگرصدق نیت اورت وجہ قلب کے ساتھ پروردگار کی بارگاہ میں فریاد کریں تو وہ گئی ہوئی نعمتوں کو واپس کردے گا اور بگڑے کاموں کو بنادے گا۔میں تمہارے بارے میں اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ کہیں تم جہالت اورنادانی میں نہ پڑ جائو ۔کتنے ہی معاملات ایسے گزر چکے ہیں جن میں تمہارا جھکائو اس رخ کی طرف تھا جس میں تم قطعاً قابل تعریف نہیں تھے۔اب اگر تمہیں پہلے کی روشن کی طرف پلٹا دیا جائے تو پھرنیک بخت ہو سکتے ہو لیکن میری ذمہ داری صرف محنت کرنا ہے اور اگر میں کہنا چاہوں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ پرردگار گزشتہ معاملات سے درگزر فرمائے۔

(۱)بعض حضرات نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر ارفاد کا زوال صرف گناہوں کی بنیاد پرہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ دنیا میں بے شمار بد ترین قسم کے گناہ گار پائے جاتے ہیں لیکن ان کی زندگی میں راحت و آرام' تقدم اورترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گناہوں کا راحت و آرام یا رنج و الم میں کوئی دخل نہیں ہے اور ان مسائل کے اسباب کسی اورشے میں پائے جاتے ہیں۔لیکن اس کا واضح سا جواب یہ ہے کہ امیر المومنین نے افراد کاذکر نہیں کیا ہے ۔قوم کاذکر کیا ہے اور قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کا زوال ہمیشہ انفرادی یا اجتماعی گناہوں کی بنا پر ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس قوم نے شکر خدا نہیں ادا کیا وہ صفحہ ہستی سے نابود ہوگئی اور جس قوم نے نعمت کی فراوانی کے باوجود شکر خدا سے انحراف نہیں کیا اس کا ذکرآج تک زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا۔

۳۲۸

(۱۷۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد سأله ذعلب اليماني فقال - هل رأيت ربك يا أمير المؤمنين

فقالعليه‌السلام - أفأعبد ما لا أرى فقال وكيف تراه فقال

لَا تُدْرِكُه الْعُيُونُ بِمُشَاهَدَةِ الْعِيَانِ - ولَكِنْ تُدْرِكُه الْقُلُوبُ بِحَقَائِقِ الإِيمَانِ - قَرِيبٌ مِنَ الأَشْيَاءِ غَيْرَ مُلَابِسٍ بَعِيدٌ مِنْهَا غَيْرَ مُبَايِنٍ - مُتَكَلِّمٌ لَا بِرَوِيَّةٍ مُرِيدٌ لَا بِهِمَّةٍ صَانِعٌ لَا بِجَارِحَةٍ - لَطِيفٌ لَا يُوصَفُ بِالْخَفَاءِ كَبِيرٌ لَا يُوصَفُ بِالْجَفَاءِ - بَصِيرٌ لَا يُوصَفُ بِالْحَاسَّةِ رَحِيمٌ لَا يُوصَفُ بِالرِّقَّةِ - تَعْنُو الْوُجُوه لِعَظَمَتِه وتَجِبُ الْقُلُوبُ مِنْ مَخَافَتِه

(۱۸۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم العاصين من أصحابه

أَحْمَدُ اللَّه عَلَى مَا قَضَى مِنْ أَمْرٍ وقَدَّرَ مِنْ فِعْلٍ - وعَلَى ابْتِلَائِي بِكُمْ

(۱۷۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب دغلب یمانی نے دریافت کیا کہ یا امیر المومنین کیا آپ نے اپنے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا کیا میں ایسے خدا کی عبادت کر سکتا ہوں جسے دیکھا بھی نہ ہو۔عرض کی مولا ! اسے کس طرح دیکھا جا سکتا ہے ؟فرمایا)

ا س ے نگاہیں آنکھوں کے مشاہدہ سے نہیں دیکھ سکتی ہیں۔اس کا ادراک دلوں کو حقائق ایمان کے سہارے حاصل ہوتا ہے ۔وہ اشیاء سے قریب ہے لیکن جسمانی اتصال کی بناپ ر نہیں اور دوربھی ہے لیکن علیحدگی کی بنیاد پر نہیں۔وہ کلام کرتا ہے لیکن فکر کا متحاج نہیں اور وہ اراد ہ کرتا ہے لیکن سوچنے کی ضرورت نہیں رکھتا ۔ وہ بلا اعضاء و جوارح کے صانع ہے اور بلا پوشیدہ ہوئے لطیف ہے۔ایسا بڑا ہے جو چھوٹوں پرظلم نہیں کرتا ہے اور ایسا بصیر ہے جس کے پاس حواس نہیں ہیں اور اس کی رحمت میں دل کی نرمی شامل نہیں ہے۔تمام چہرے اس کی عظمت کے سامنے ذلیل و خوار ہیں اور تمام قلوب اس کے خوف سے لرز رہے ہیں۔

(۱۸۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

میں خدا کا شکرکرتا ہوں ان امور پر جو گزر گئے اوران افعال پر جو اس نے مقدر کردئیے اوراپنے تمہارے ساتھ مبتلا

۳۲۹

أَيَّتُهَا الْفِرْقَةُ الَّتِي إِذَا أَمَرْتُ لَمْ تُطِعْ - وإِذَا دَعَوْتُ لَمْ تُجِبْ - إِنْ أُمْهِلْتُمْ خُضْتُمْ وإِنْ حُورِبْتُمْ خُرْتُمْ - وإِنِ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَى إِمَامٍ طَعَنْتُمْ - وإِنْ أُجِئْتُمْ إِلَى مُشَاقَّةٍ نَكَصْتُمْ -. لَا أَبَا لِغَيْرِكُمْ مَا تَنْتَظِرُونَ بِنَصْرِكُمْ - والْجِهَادِ عَلَى حَقِّكُمْ - الْمَوْتَ أَوِ الذُّلَّ لَكُمْ - فَوَاللَّه لَئِنْ جَاءَ يَومِي ولَيَأْتِيَنِّي لَيُفَرِّقَنَّ بَيْنِي وبَيْنِكُمْ - وأَنَا لِصُحْبَتِكُمْ قَالٍ وبِكُمْ غَيْرُ كَثِيرٍ - لِلَّه أَنْتُمْ أَمَا دِينٌ يَجْمَعُكُمْ ولَا حَمِيَّةٌ تَشْحَذُكُمْ - أَولَيْسَ عَجَباً أَنَّ مُعَاوِيَةَ يَدْعُو الْجُفَاةَ الطَّغَامَ - فَيَتَّبِعُونَه عَلَى غَيْرِ مَعُونَةٍ ولَا عَطَاءٍ

ہونے پر بھی اے وہ گروہ جسے میں حکم دیتا ہوں تو اطاعت نہیں کرتا ہے اورآواز دیتا ہوں تو لبیک نہیں کہتا ہے۔تمہیں مہلت دے دی جاتی ہے تو خوب باتیں بناتے ہو اور جنگ میں شامل کردیا جاتا ہے تو بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہو۔لوگ کسی امام پر اجتماع کرتے ہیں تو اعتراضات کرتے ہو اور گھیر کر مقابلہ کی طرف لائے جاتے ہو تو فرار اختیار کرلیتے ہو۔

تمہارے دشمنوں کا برا ہو آخر تم میری نصرت اور اپنے حق کے لئے جہاد میں کس چیزکا انتظار کر رہے ہو؟ موت کا یا ذلت کا ؟ خدا کی قسم اگر میرادن آگیا جو بہر حا ل آنے والا ہے تو میرے تمہارے درمیان اس حال میں جدائی ہوگی کہ میں تمہاری صحبت سے دل برداشتہ ہوں گا اور تمہاری موجودگی سے کسی کثرت کا احساس نہ کروں گا۔

خدا تمہارا بھلا کرے ! کیا تمہارے پاس کوئی دین نہیں(۱) ہے۔جو تمہیں متحد کرسکے اورنہ کوئی غیرت جو تمہیں آمادہ کر سکے ؟ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ معاویہ اپنے ظالم اور بدکار ساتھیوں کو آواز دیتاہے تو کسی امداد اور عطا کے بغیر بھی اس کی اطاعت کر لیتے ہیں

(۱) انسان کے پاس دو ہی سرمایہ ہیں جو اسے شرافت کی دعوت دیتے ہیں۔دیندار کے پاس دین اورآزاد منش کے پاس غیرت مگر افسوس کہ امیرالمومنین کے اطراف جمع ہو جانے والے افراد کے پاس نہ دین تھا اور نہ قومی شرافت کا احساس۔اور ظاہر ہے کہ ایسی قوم سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ وہ کسی وفاداری کا اظہار کر سکتی ہے۔کس قدرافسوس ناک یہ بات ہے کہ عام اسلام میں معاویہ اور عمرو عاص کی بات سنی جائے اورنفس رسول (ص) کی بات کو ٹھکرا دیا جائے بلکہ اس سے جنگ کی جائے ۔کیا اس کے بعد بھی کسی غیرت دار انسان کو زندگی کی آرزو ہو سکتی ہے اور وہ اس زندگی سے دل لگا سکتا ہے۔امیرالمومنین کے اس فقرہ میں کہ '' قزت و رب الکعبة '' بے پناہ درد پایا جاتا ہے۔جس میں ایک طرف اپنی شہادت اور قربانی کے ذریعہ کا میابی کا اعلان ہے اوردوسری طرف اس بے غیرت قوم سے جدائی کی مسرت کااظہار بھی پایا جاتا ہے کہ انسان ایسی قوم سے نجات حاصل کرلے اور اس انداز سے حاصل کرلے کہ اس پر کوئی الزام نہ ہو بلکہ وہ معرکہ حیات میں کامیاب رہے۔

۳۳۰

وأَنَا أَدْعُوكُمْ وأَنْتُمْ تَرِيكَةُ الإِسْلَامِ - وبَقِيَّةُ النَّاسِ إِلَى الْمَعُونَةِ أَوْ طَائِفَةٍ مِنَ الْعَطَاءِ - فَتَفَرَّقُونَ عَنِّي وتَخْتَلِفُونَ عَلَيَّ - إِنَّه لَا يَخْرُجُ إِلَيْكُمْ مِنْ أَمْرِي رِضًى فَتَرْضَوْنَه - ولَا سُخْطٌ فَتَجْتَمِعُونَ عَلَيْه - وإِنَّ أَحَبَّ مَا أَنَا لَاقٍ إِلَيَّ الْمَوْتُ - قَدْ دَارَسْتُكُمُ الْكِتَابَ وفَاتَحْتُكُمُ الْحِجَاجَ - وعَرَّفْتُكُمْ مَا أَنْكَرْتُمْ وسَوَّغْتُكُمْ مَا مَجَجْتُمْ - لَوْ كَانَ الأَعْمَى يَلْحَظُ أَوِ النَّائِمُ يَسْتَيْقِظُ - وأَقْرِبْ بِقَوْمٍ مِنَ الْجَهْلِ بِاللَّه قَائِدُهُمْ مُعَاوِيَةُ - ومُؤَدِّبُهُمُ ابْنُ النَّابِغَةِ !

(۱۸۱)

ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

وقَدْ أَرْسَلَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِه - يَعْلَمُ لَه عِلْمَ أَحْوَالِ قَوْمٍ مِنْ جُنْدِ الْكُوفَةِ - قَدْ هَمُّوا بِاللِّحَاقِ بِالْخَوَارِجِ - وكَانُوا عَلَى خَوْفٍ مِنْهعليه‌السلام فَلَمَّا عَادَ إِلَيْه الرَّجُلُ - قَالَ لَه أَأَمِنُوا فَقَطَنُوا أَمْ جَبَنُوا فَظَعَنُوا - فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ ظَعَنُوا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَعليه‌السلام

اورمیں تم کو دعوت دیتا ہوں اورتم سے عطیہ کاوعدہ بھی کرتا ہوں تو تم مجھ سے الگ ہو جاتے ہو اورمیری مخالفت کرتے ہو۔حالانکہ اب تمہیں اسلام کا ترکہ اور اس کے باقی ماندہ افراد ہو۔افسوس کہ تمہاری طرف نہ میری رضا مندی کی کوئی بات ایسی آتی ہے جس سے تم راضی ہو جائو اور نہ میری ناراضگی کا کوئی مسئلہ ایسا آتا ہے جس سے تم بھی ناراض ہو جائو۔اب تو میرے لئے محبوب ترین شے جس سے میں ملنا چاہتا ہوں صرف موت ہی ہے میں نے تمہیں کتاب خدا کی تعلیم دی ۔تمہارے سامنے کھلے ہوئے دلائل پیش کئے ۔جسے تم نہیں پہچانتے تھے اسے پہچنوایا اورجسے تم تھوک دیاکرتے تھے اسے خوشگوار بنایا۔مگر یہ سب اس وقت کارآمد ہے جب اندھے کو کچھ دکھائی دے اورسوتا ہوا بیدار ہو جائے۔وہ قوم جہالت سے کس قدر قریب ہے۔جس کا قائد معاویہ ہو اور اس کا ادب سکھانے والا نابغہ کا بیٹا ہو۔

(۱۸۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے ایک شخص کو اس کی تحقیق کے لئے بھیجا۔جوخوارج سے ملنا چاہتی تھی اور حضرت سے خوف زدہ تھی اور وہ شخص پلٹ کر آیاتو آپ نے سوال کیا کہ کیا وہ لوگ مطمئن ہو کر ٹھہر گئے ہیں یا بزدلی کا مظاہرہ کرکے نکل پڑے ہیں۔اس نے کہا کہ وہ کوچ کر چکے ہیں۔تو آپ نے فرمایا)

۳۳۱

بُعْداً لَهُمْ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ - أَمَا لَوْ أُشْرِعَتِ الأَسِنَّةُ إِلَيْهِمْ - وصُبَّتِ السُّيُوفُ عَلَى هَامَاتِهِمْ - لَقَدْ نَدِمُوا عَلَى مَا كَانَ مِنْهُمْ - إِنَّ الشَّيْطَانَ الْيَوْمَ قَدِ اسْتَفَلَّهُمْ - وهُوَ غَداً مُتَبَرِّئٌ مِنْهُمْ ومُتَخَلٍّ عَنْهُمْ - فَحَسْبُهُمْ بِخُرُوجِهِمْ مِنَ الْهُدَى وارْتِكَاسِهِمْ فِي الضَّلَالِ والْعَمَى - وصَدِّهِمْ عَنِ الْحَقِّ وجِمَاحِهِمْ فِي التِّيه

(۱۸۲)

ومِنْ خُطْبَةٍ لَهعليه‌السلام :

رُوِيَ عَنْ نَوْفٍ الْبَكَالِيِّ - قَالَ خَطَبَنَا بِهَذِه الْخُطْبَةِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّعليه‌السلام بِالْكُوفَةِ - وهُوَ قَائِمٌ عَلَى حِجَارَةٍ - نَصَبَهَا لَه جَعْدَةُ بْنُ هُبَيْرَةَ الْمَخْزُومِيُّ - وعَلَيْه مِدْرَعَةٌ مِنْ صُوفٍ وحَمَائِلُ سَيْفِه لِيفٌ - وفِي رِجْلَيْه نَعْلَانِ مِنْ لِيفٍ - وكَأَنَّ جَبِينَه ثَفِنَةُ بَعِيرٍ فَقَالَعليه‌السلام

خدا انہیں(۱) قوم ثمودکی طرح غارت کردے۔یاد رکھو نیزوں کی انیاں ان کی طرف سیدھی کردی جائیں گی اورتلواریں ان کے سروں پر برسنے لگیں گی تو انہیں اپنے کئے پر شرمندگی کا احساس ہوگا۔آج شیطان نے انہیں منتشر کردیا ہے اور کل وہی ان سے الگ ہو کر پرائت و بیزاری کا اعلان کرے گا۔اب ان کے لئے ہدایت سے نکل جانا۔ضلالت اور گمراہی میں گر پڑنا۔ راہ حق سے روک دینا اور گمراہی میں منہ زوری کرنا ہی ان کے تباہ ہونے کے لئے کافی ہے۔

(۱۸۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

نوف بکالی سے روایت کی گئی ہے کہ امیر المومنین نے ایک دن کوفہ میں ایک پتھر پرکھڑے ہو کرخطبہ ارشاد فرمایا جسے جعدہ بن ہبیرہ مخزومی نے نصب کیا تھا اور اس وقت آپ اون کا ایک جبہ پہنے ہوئے تھے اور آپ کی تلوار کا پرتلہ بھی لیف خرما کا تھا اور پیروں میں لیف خرما ہی کی جوتیاں تھیں آپ کی پیشانی اقدس پر سجدوں کے گھٹے نمایاں تھے ۔فرمایا !

(۱) بنی ناجیہ کا ایک شخص جس کا نام خریت بن راشد تھا۔امیر المومنین کے ساتھ صفین میں شریک رہا اور اس کے بعد گمراہ ہوگیا۔حضرت سے کہنے لگا کہ میں نہ آپ کی اطاعت کروں گا اور نہ میں آپ کے پیچھے نماز پڑھوں گا۔ آپ نے سبب دریافت کیا ؟ اس نے کہا کل بتائوں گا۔اور پھرآنے کے بجائے تیس افراد کو لے کر صحرائوں میں نکل گیا اورل وٹ مار کاکام شروع کردیا۔ایک امیرالمومنین کے چاہنے والے مسافر کو صرف حب علی کی بنیاد پر کافر قراردے کر قتل کردیا اور ایک یہودی کو آزاد چھوڑ دیا۔حضرت نے اس کی روک تھام کے لئے زیاد بن ابی حفصہ کو ۱۳۰ افراد کے ساتھ بھیجا۔زیاد نے چند افراد کو تہ تیغ کردیا اور خریت فرار کرگیا اور کردوں کو بغاوت پرآمادہ کرنے لگا آپ نے معقل بن قیس ریاحی کو دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ کیا۔انہوں نے زمین فارس تک اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ طرفین میں شدید جنگ ہوئی اورخریت نعمان بن صہیان کو اسیکے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اس فتنہ کاخاتمہ ہوگیا۔

۳۳۲

حمد اللَّه واستعانته

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي إِلَيْه مَصَائِرُ الْخَلْقِ - وعَوَاقِبُ الأَمْرِ نَحْمَدُه عَلَى عَظِيمِ إِحْسَانِه - ونَيِّرِ بُرْهَانِه ونَوَامِي فَضْلِه وامْتِنَانِه - حَمْداً يَكُونُ لِحَقِّه قَضَاءً ولِشُكْرِه أَدَاءً - وإِلَى ثَوَابِه مُقَرِّباً ولِحُسْنِ مَزِيدِه مُوجِباً - ونَسْتَعِينُ بِه اسْتِعَانَةَ رَاجٍ لِفَضْلِه مُؤَمِّلٍ لِنَفْعِه وَاثِقٍ بِدَفْعِه - مُعْتَرِفٍ لَه بِالطَّوْلِ مُذْعِنٍ لَه بِالْعَمَلِ والْقَوْلِ - ونُؤْمِنُ بِه إِيمَانَ مَنْ رَجَاه مُوقِناً - وأَنَابَ إِلَيْه مُؤْمِناً وخَنَعَ لَه مُذْعِناً - وأَخْلَصَ لَه مُوَحِّداً وعَظَّمَه مُمَجِّداً ولَاذَ بِه رَاغِباً مُجْتَهِداً.

اللَّه الواحد

( لَمْ يُولَد ْ) سُبْحَانَه فَيَكُونَ فِي الْعِزِّ مُشَارَكاً - و( لَمْ يَلِدْ ) فَيَكُونَ مَوْرُوثاً هَالِكاً - ولَمْ يَتَقَدَّمْه وَقْتٌ ولَا زَمَانٌ - ولَمْ يَتَعَاوَرْه زِيَادَةٌ ولَا نُقْصَانٌ - بَلْ ظَهَرَ لِلْعُقُولِ بِمَا أَرَانَا مِنْ عَلَامَاتِ التَّدْبِيرِ الْمُتْقَنِ - والْقَضَاءِ الْمُبْرَمِ  

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی طرف تمام مخلوقات کی بازگشت اورجملہ امور کی انتہاء ہے۔میں اس کی حمد کرتا ہوں اس کے عظیم احسان' واضح دلائل اور بڑھتے ہوئے فض و کرم پر۔وہ حمد جو اس کے حق کو پورا کر سکے اور اس کے شکر کوادا کرسکے۔اس کے عظیم احسان ' واضح دلائل اور بڑھتے ہوئے فضل و کرم پر۔وہ حمد جواس کے حق کو پورا کرا سکے اوراس کے شکر کوادا کرسکے۔اس کے ثواب سے قریب بنا سکے اورنعمتوں میں اضافہ کا سبب بن سکے۔میں اس سے مدد چاہتا ہوں اور اس بندہ کی طرح جو اس کے فضل کا امید وار ہو۔اس کے منافع کا طلب گار ہو۔اس کے دفع بلاء کا یقین رکھنے والا ہو اس کے کرم کا اعتراف کرنے والا ہو اور قول وعمل میں اس پر مکمل اعتماد کرنے والا ہو۔

میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اس بندہ کی طرح جو یقین کے ساتھ اس کا امید وار ہو اور ایمان کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو۔اذعان کے ساتھ اس کی بارگاہ میں سر بسجود ہو اور توحید کے ساتھ اس سے اخلاص رکھتا ہو۔تمجید کے ساتھ اس کی عظمت کا اقرار کرتا ہو اور رغبت و کوشش کے ساتھ اس کی پناہ میں آیا ہو۔

وہ پیدا نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی اس کی عزت میں شریک بن جائے اور اس نے کسی بیٹے کوپیدا نہیں کیا ہے کہ خود ہلاک ہو جائے اور بیٹا وارث ہو جائے۔نہ اس سے پہلے کوئی زمان و مکان تھا اور نہ اس پر کوئی کمی یا زیادتی طاری ہوتی ہے۔اس نے اپنی محکم تدبیر اور اپنے حتمی فیصلہ

۳۳۳

فَمِنْ شَوَاهِدِ خَلْقِه خَلْقُ السَّمَاوَاتِ مُوَطَّدَاتٍ بِلَا عَمَدٍ - قَائِمَاتٍ بِلَا سَنَدٍ دَعَاهُنَّ فَأَجَبْنَ طَائِعَاتٍ مُذْعِنَاتٍ - غَيْرَ مُتَلَكِّئَاتٍ ولَا مُبْطِئَاتٍ - ولَوْ لَا إِقْرَارُهُنَّ لَه بِالرُّبُوبِيَّةِ - وإِذْعَانُهُنَّ بِالطَّوَاعِيَةِ - لَمَا جَعَلَهُنَّ مَوْضِعاً لِعَرْشِه ولَا مَسْكَناً لِمَلَائِكَتِه - ولَا مَصْعَداً لِلْكَلِمِ الطَّيِّبِ والْعَمَلِ الصَّالِحِ مِنْ خَلْقِه جَعَلَ نُجُومَهَا أَعْلَاماً يَسْتَدِلُّ بِهَا الْحَيْرَانُ - فِي مُخْتَلِفِ فِجَاجِ الأَقْطَارِ - لَمْ يَمْنَعْ ضَوْءَ نُورِهَا ادْلِهْمَامُ سُجُفِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ - ولَا اسْتَطَاعَتْ جَلَابِيبُ سَوَادِ الْحَنَادِسِ - أَنْ تَرُدَّ مَا شَاعَ فِي السَّمَاوَاتِ مِنْ تَلأْلُؤِ نُورِ الْقَمَرِ - فَسُبْحَانَ مَنْ لَا يَخْفَى عَلَيْه سَوَادُ غَسَقٍ دَاجٍ - ولَا لَيْلٍ سَاجٍ فِي بِقَاعِ الأَرَضِينَ الْمُتَطَأْطِئَاتِ - ولَا فِي يَفَاعِ السُّفْعِ الْمُتَجَاوِرَاتِ - ومَا يَتَجَلْجَلُ بِه الرَّعْدُ فِي أُفُقِ السَّمَاءِ -

کی بنا پر اپنے کو عقلوں کے سامنے بالکل واضح اورنمایاں کردیا ہے۔اس کی خلقت کے شواہد میں ان آسمانوں کی تخلیق بھی ہے جنہیں بغیر ستون کے روک رکھا ہے اور بغیر کسی سہارے کے قائم کردیا ہے۔اس نے انہیں پکارا تو سب لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوگئے۔اطاعت و ادغان کے ساتھ۔نہ کسی طرح کی تساہلی اور نہ کاہلی۔اور ظاہر ہے کہ اگر ان آسمانوں نے اس طرح اس کی ربوبیت کا اقرارنہ کیا ہوتا اور اس کے سامنے سرتسلیم خم نہ کردیا ہوتا تو وہ کبھی انہیں اپنے عرش کی منزل(۱) ملائکہ کا مسکن۔کلمہ طیب اور عمل صاحل کی بلندیوں کا مرکز نہ قرار دیتا۔اس نے ان کے ستاروں کومختلف راستوں میں حیران و سرگرداں مسافروں کے لئے نشان منزل بنادیاہے۔ان کے انوار کی تابش کو زمین تک پہنچنے سے نہ تاریک رات کی سیاہی روک سکی ہے اور نہ سواد شب کی چادر میں اتنا دم ہے کہ آسمانوں میں پھیلے ہوئے نور قمر کی روشنی کو روک سکے ۔

پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس پر نہ تاریک رات کی سیاہی مخفی ہے اور نہ ٹھہری ہوئی شب کی تاریکی۔نہ پست زمینوں کے قطعات میں اورنہ باہمی ملے ہوئے پہاڑوں کی چوٹیوں میں۔اس کے لئے نہ آسمان کی بلندی پر گرجتی ہوئی رعد پوشیدہ ہے اور نہ بادلوں کی چمکتی ہوئی

(۱) اس مقام پر حضرت نے غافل انسانوں کو بیدار کرنا چاہا ہے کہ مالک کائنات کی بارگاہ میں کوئی مرتبہ اطاعت کے بغیر نہیں مل سکتا ہے۔اس نے آسمانوں کوب ھی اگر یہ بلندی عطا کی ہے کہ انہیں ملائکہ کی منزل اور عرش کا مستقر بنادیاہے تو یہ بھی ان کی اطاعت کا نتیجہ ہے۔لہٰذا انسان بھی اگرملکوتی صفات کاحامل بننا چاہتا ہے اور اپنے قلب کو عرش الٰہی کا مرتبہ دینا چاہتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ مالک کے سامنے سراپا اطاعت بن جائے اور زندگی کا ہر لمحہ اس کی بندگی میں صرف کردے جس طرح ان اولیاء کرام نے کیا ہے جنہیں مالک نے اپنے کمالات کا نمونہ اور صفات کا آئینہ بنا دیا ہے۔

۳۳۴

ومَا تَلَاشَتْ عَنْه بُرُوقُ الْغَمَامِ - ومَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ تُزِيلُهَا عَنْ مَسْقَطِهَا عَوَاصِفُ الأَنْوَاءِ - وانْهِطَالُ السَّمَاءِ - ويَعْلَمُ مَسْقَطَ الْقَطْرَةِ ومَقَرَّهَا ومَسْحَبَ الذَّرَّةِ ومَجَرَّهَا - ومَا يَكْفِي الْبَعُوضَةَ مِنْ قُوتِهَا ومَا تَحْمِلُ الأُنْثَى فِي بَطْنِهَا.

عود إلى الحمد

والْحَمْدُ لِلَّه الْكَائِنِ قَبْلَ أَنْ يَكُونَ كُرْسِيٌّ أَوْ عَرْشٌ - أَوْ سَمَاءٌ أَوْ أَرْضٌ أَوْ جَانٌّ أَوْ إِنْسٌ - لَا يُدْرَكُ بِوَهْمٍ ولَا يُقَدَّرُ بِفَهْمٍ - ولَا يَشْغَلُه سَائِلٌ ولَا يَنْقُصُه نَائِلٌ - ولَا يَنْظُرُ بِعَيْنٍ ولَا يُحَدُّ بِأَيْنٍ ولَا يُوصَفُ بِالأَزْوَاجِ - ولَا يُخْلَقُ بِعِلَاجٍ ولَا يُدْرَكُ بِالْحَوَاسِّ ولَا يُقَاسُ بِالنَّاسِ - الَّذِي كَلَّمَ مُوسَى تَكْلِيماً وأَرَاه مِنْ آيَاتِه عَظِيماً - بِلَا جَوَارِحَ ولَا أَدَوَاتٍ ولَا نُطْقٍ ولَا لَهَوَاتٍ - بَلْ إِنْ كُنْتَ صَادِقاً أَيُّهَا الْمُتَكَلِّفُ لِوَصْفِ رَبِّكَ - فَصِفْ جِبْرِيلَ ومِيكَائِيلَ وجُنُودَ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ فِي حُجُرَاتِ الْقُدُسِ مُرْجَحِنِّينَ

بجلیاں اور نہ درختوں سے گرتے ہوئے پتے جنہیں بالدوں کے ساتھ چلتی ہوئی تیز ہوائیں یاموسلا دھار بارش کا زور گرادیتا ے۔وہ ہر قطرہ کے گرنے کی جگہ بھی جانتا ہے اور ٹھہرنے کی جگہ بھی۔ہر چیونٹی کے چلنے کی جگہ سے بھی با خبر ہے اور کھینچ کر پہنچنے کی منزل سے بھی۔وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ایک مچھرکے لئے کتنی غذا کافی ہوتی ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ ایک مادہ اپنے شکم میں کیا لئے ہوئے ہے۔ساری تعریف اس خدا کے لئے ہے جو اس وقت بھی تھا جب نہ کرسی تھی اور نہ عرش ۔نہ آسمان تھا اور نہ زمین ۔نہ جنات تھے ننہ انسان نہ وہم سے اس کا ادراک ہوتا ہے اور نہ فہم سے اس کا اندازہ ۔نہ کوئی سائل اسے مشغول کر سکتا ے اور نہ کسی عطا سے اس کے خزانہ میں کوئی کمی آسکتی ہے ۔وہ نہ آنکھو سے دیکھتا ہے اور نہ کسی مکان میں محدود ہوتا ہے۔نہ ساتھیوں کے ساتھ اس کی توصیف ہو سکتی ہے اور نہ اعضاء و جوارح کی حرکت سے کسی چیز کوخلق کرتا ہے جو اس اس کا ادراک نہیں کر سکتے ہیں اور انسانوں پر اس کا قیاس نہیں کیا جا سکتاے۔اس نے موسیٰ کو کلیم بنایا تو انہیں عظیم نشانیاں بھی دکھلادیں حالانکہ نہ جوارح کو استعال کیا اورنہ آلات کو۔نہ کوئی نطق درمیان میں تھا اور نہ گلے کے کوے کی حرکت

اے توصیف پروردگار میں بلا سبب زحمت کرنے والو! اگرتمہارے خیال میں صداقت پائی جاتی ہے تو پہلے جبرائیل و میکائیل اوراس کے دوسرے مقرب ملائکہ کی توصیف بیان کرو جو پاکیزگی کے حجرات میں سر جھکا

۳۳۵

مُتَوَلِّهَةً عُقُولُهُمْ أَنْ يَحُدُّوا أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ - فَإِنَّمَا يُدْرَكُ بِالصِّفَاتِ ذَوُو الْهَيْئَاتِ والأَدَوَاتِ - ومَنْ يَنْقَضِي إِذَا بَلَغَ أَمَدَ حَدِّه بِالْفَنَاءِ - فَلَا إِلَه إِلَّا هُوَ أَضَاءَ بِنُورِه كُلَّ ظَلَامٍ - وأَظْلَمَ بِظُلْمَتِه كُلَّ نُورٍ.

الوصية بالتقوى

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - الَّذِي أَلْبَسَكُمُ الرِّيَاشَ وأَسْبَغَ عَلَيْكُمُ الْمَعَاشَ - فَلَوْ أَنَّ أَحَداً يَجِدُ إِلَى الْبَقَاءِ سُلَّماً أَوْ لِدَفْعِ الْمَوْتِ سَبِيلًا - لَكَانَ ذَلِكَ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَعليه‌السلام الَّذِي سُخِّرَ لَه مُلْكُ الْجِنِّ والإِنْسِ - مَعَ النُّبُوَّةِ وعَظِيمِ الزُّلْفَةِ - فَلَمَّا اسْتَوْفَى طُعْمَتَه واسْتَكْمَلَ مُدَّتَه - رَمَتْه قِسِيُّ الْفَنَاءِ بِنِبَالِ الْمَوْتِ - وأَصْبَحَتِ الدِّيَارُ مِنْه خَالِيَةً - والْمَسَاكِنُ مُعَطَّلَةً ووَرِثَهَا قَوْمٌ آخَرُونَ - وإِنَّ لَكُمْ فِي الْقُرُونِ السَّالِفَةِ لَعِبْرَةً!

أَيْنَ الْعَمَالِقَةُ وأَبْنَاءُ الْعَمَالِقَةِ - أَيْنَ الْفَرَاعِنَةُ وأَبْنَاءُ الْفَرَاعِنَةِ -

ئے ہوئے پڑے ہیں اور ان کی عقلیں حیران ہیں کہ احسن الخالقین کی توصیف کس طرح بیان کریں ۔

یاد رکھو صفات کے ذریعہ اس کا ادراک ہوتا ہے جس کی شکل و صورت ہوتی ہے اور جس کے اعضاء و جوارح ہوتے ہیں اور جو اپنی آخری حد پر پہنچ کر فنا ہو جاتا ہے۔پس اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے جس نے اپنے نور وجود سے ہر تاریکی کو منور بنادیا ہے اور پھر عدم کی ظلمت سے ہر نورانی شے کو تاریک بنادیا ہے۔

بندگان خدا! میں تمہیں اس خدا سے ڈرنے کی دعوت دیتا ہوں جس نے تمہیں بہترین لباس پہنائے ہیں اور تمہاری مکمل معیشت کا انتظام کیا ہے۔یاد رکھو اگر کوئی شخص ایسا ہوتا جسے بقا کی زینہ مل جاتا اور وہ موت کو ٹالنے کا راستہ تلاش کر لیتا تو وہ سلیمان بن دائود ہوتے جن کے لئے جن و انس دونوں کو مسخر کردیا گیا تھا اور پھر نبوت اور تقرب الٰہی کا شرف بھی حاصل تھا لیکن جب انہوں نے اپنے حصہ کی غذا استعمال کرلی اور اپنی مدت بقا کو پورا کرلیا تو فنا کی کمانوں نے موت کے تیر چلا دئیے اور سارے دیار ان سے خالی ہو گئے اور سارے قصر معطل ہو کر رہ گئے اور دوسری قومیں ان کی وارث ہوگئیں '' اور تمہارے لئے انہیں گذشتہ قوموں میں عبرت کا سامان فراہم کیا گیا ہے ''۔

کہاں ہیں ( شام و حجاز کے ) عمالقہ اور ان کی اولاد؟ کہاں ہیں ( مصر کے ) فراعنہ اور ان کی اولاد ؟ کہاں

۳۳۶

أَيْنَ أَصْحَابُ مَدَائِنِ الرَّسِّ الَّذِينَ قَتَلُوا النَّبِيِّينَ - وأَطْفَئُوا سُنَنَ الْمُرْسَلِينَ وأَحْيَوْا سُنَنَ الْجَبَّارِينَ - أَيْنَ الَّذِينَ سَارُوا بِالْجُيُوشِ وهَزَمُوا بِالأُلُوفِ - وعَسْكَرُوا الْعَسَاكِرَ ومَدَّنُوا الْمَدَائِنَ!

ومِنْهَا - قَدْ لَبِسَ لِلْحِكْمَةِ جُنَّتَهَا - وأَخَذَهَا بِجَمِيعِ أَدَبِهَا مِنَ الإِقْبَالِ عَلَيْهَا - والْمَعْرِفَةِ بِهَا والتَّفَرُّغِ لَهَا - فَهِيَ عِنْدَ نَفْسِه ضَالَّتُه الَّتِي يَطْلُبُهَا - وحَاجَتُه الَّتِي يَسْأَلُ عَنْهَا - فَهُوَ مُغْتَرِبٌ إِذَا اغْتَرَبَ الإِسْلَامُ - وضَرَبَ بِعَسِيبِ ذَنَبِه - وأَلْصَقَ الأَرْضَ بِجِرَانِه بَقِيَّةٌ مِنْ بَقَايَا حُجَّتِه - خَلِيفَةٌ مِنْ خَلَائِفِ أَنْبِيَائِه.

ثم قالعليه‌السلام :

أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ بَثَثْتُ لَكُمُ الْمَوَاعِظَ - الَّتِي وَعَظَ الأَنْبِيَاءُ بِهَا أُمَمَهُمْ - وأَدَّيْتُ إِلَيْكُمْ مَا أَدَّتِ الأَوْصِيَاءُ إِلَى

ہیں (آذربائیجان کے ) اصحاب الرس؟ جنہوں نے انبیاء کو قتل کیا مرسلین کی سنتوں کوخاموش کیا اور جباروں کی سنتوں کو زندہ کردیا تھا۔کہاں ہیں وہ لوگ جو لشکر لے کر بڑھے اور ہزار ہا ہزار کو شکست دے دی۔لشکرکے لشکر تیار کئے اور شہروں کے شہر آباد کردئیے۔

(اسی خطبہ کا ایک حصہ)

وہ حکمت کی سپر زیب تن کئے ہوگا۔اور اسے پورے آداب کے ساتھ اختیار کئے ہوگا کہاس کی طرف متوجہ ہوگا۔اس کی معرفت رکھتا ہوگا اوراس کے لئے مکمل طور پر فارغ ہوگا۔یہ حکمت اس کی نگاہ میں اس کی گم شدہ دولت ہوگی جس کو تلاش کر رہا ہوگا اور ایسی ضرورت ہوگی جس کے بارے میں دریافت کر رہا ہوگا۔وہاسلام کی غربت کے ساتھ غریب الوطن ہوگا اور اس اونٹ کی طرح ہوگا جو تھکن سے زمین پر دم پٹک رہا ہو اورسینہ زمین پر ٹیک ہوئے ہو۔اللہ کی حجتوں میں سے آخری حجت اوراس کے انبیاء کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ۔

لوگو! میں نے تمہارے لئے وہ تمام نصیحتیں پیش کردی ہیں جو انبیاء(۱) نے اپنی امتوں کے سامنے پیش کی تھیں اورتم تک ان تمام ہدایتوں کو پہنچا دیاہے جو اولیاء نے

(۱)بیشک امیر المومنین وارث انبیاء تھے اورانہوں نے ان تمام نصیحتوں کو استعمال کیا جنہیں انبیاء کرام استعمال کرچکے تھے لیکن ان کے نصائح کا انجام بھی وہی ہوا جو انبیاء کرام کی نصیحتوں کا ہوا تھا کہ جناب نوح کو پتھروں میں دبا دیا گیا۔جناب ابراہیم کوآگمیں ڈال دیا گیا۔جناب موسیٰ کو ملک سے نکال باہرکیا گیا جناب عیسیٰ کو سولی پرچڑھانے کامنصوبہ بنایا گیا ۔سرکار دوعالم (ص) کے قتل کامکمل انتظام کیا گیا اور کوئی دو ر ایسا نہ آیا جب قوم کی اکثریت نصیحتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتی اور اللہ والوں کے مقدس وجود اور ان کے پاکیزہ تعلیمات سے فائدہ اٹھاتی۔امیرالمومنین نے توان نصیحتوں پر تازیانہ اور تنبیہ کابھی اضافہ کردیا لیکن اس کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا اور قوم مادیت کی دنیا سے نکل کر روحانیت کی فضا میں قدم رکھنے کے لئے تیار نہ ہوئی اور اس کے اثرات آجت ک باقی ہیں کہ کلام خدا اور رسول (ص) اور ارشادات معصومین کی صبح و شام تلاوت ہو رہی ہے لیکن کردار کا وہی عالم ہے جو اس سے پہلے دیکھا جا چکا ہے ۔

۳۳۷

مَنْ بَعْدَهُمْ وأَدَّبْتُكُمْ بِسَوْطِي فَلَمْ تَسْتَقِيمُوا - وحَدَوْتُكُمْ بِالزَّوَاجِرِ فَلَمْ تَسْتَوْسِقُوا - لِلَّه أَنْتُمْ - أَتَتَوَقَّعُونَ إِمَاماً غَيْرِي يَطَأُ بِكُمُ الطَّرِيقَ - ويُرْشِدُكُمُ السَّبِيلَ؟ أَلَا إِنَّه قَدْ أَدْبَرَ مِنَ الدُّنْيَا مَا كَانَ مُقْبِلًا - وأَقْبَلَ مِنْهَا مَا كَانَ مُدْبِراً، وأَزْمَعَ التَّرْحَالَ عِبَادُ اللَّه الأَخْيَارُ - وبَاعُوا قَلِيلًا مِنَ الدُّنْيَا لَا يَبْقَى - بِكَثِيرٍ مِنَ الآخِرَةِ لَا يَفْنَى - مَا ضَرَّ إِخْوَانَنَا الَّذِينَ سُفِكَتْ دِمَاؤُهُمْ وهُمْ بِصِفِّينَ - أَلَّا يَكُونُوا الْيَوْمَ أَحْيَاءً يُسِيغُونَ الْغُصَصَ - ويَشْرَبُونَ الرَّنْقَ قَدْ واللَّه لَقُوا اللَّه فَوَفَّاهُمْ أُجُورَهُمْ - وأَحَلَّهُمْ دَارَ الأَمْنِ بَعْدَ خَوْفِهِمْ.

أَيْنَ إِخْوَانِيَ الَّذِينَ رَكِبُوا الطَّرِيقَ - ومَضَوْا عَلَى الْحَقِّ أَيْنَ عَمَّارٌ وأَيْنَ ابْنُ التَّيِّهَانِ - وأَيْنَ ذُو الشَّهَادَتَيْنِ - وأَيْنَ نُظَرَاؤُهُمْ مِنْ إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ تَعَاقَدُوا عَلَى الْمَنِيَّةِ - وأُبْرِدَ بِرُءُوسِهِمْ إِلَى الْفَجَرَةِ.

قَالَ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِه عَلَى لِحْيَتِه الشَّرِيفَةِ الْكَرِيمَةِ - فَأَطَالَ الْبُكَاءَ ثُمَّ قَالَعليه‌السلام

أَوِّه عَلَى إِخْوَانِيَ الَّذِينَ تَلَوُا الْقُرْآنَ

بعدوالوں کےحوالہ کی تھیں۔میں نے اپنے تازیانہ سے تمہاری تنبیہ کی لیکن تم سیدھے نہ ہوئے اور تم کو زجرو تو بیخ سے ہنکانا چاہا لیکن تم متحد نہ ہوئے۔اللہ ہی تمہیں سمجھے کیا میرے بعد کسی اور امام کاانتظار کر رہے ہو جو تمہیں سیدھے راستہ پر چلائے گا اور راہ حق کی ہدایت دے گا۔

یاد رکھو جو چیزیں دنیا کی طرف رخ کئے ہوئے تھیں انہوں نے منہ پھیرا لیا ہے اور جومنہ پھیرائے ہوئے تھیں انہوں نے رخ کرلیا ہے اللہ کے نیک بندوں نے یہاں سے کوچ کرنے کا عزم کرلیا ہے اور دنیا کا وہ قلیل سرمایہ جو باقی رہنے والا نہیں ہے اسے بیچ ڈالا ہے ۔اس آخرت کے اجر کثیر کے مقابلہ میں جو فنا ہونے والا نہیں ہے۔ہمارے وہ ایمانی بھائی جن کا خون صفین کے میدان میں بہادیا گیا ان کا کیا نقصان ہوا ہے اگر وہ آج زندہ نہیں ہیں کہ دنیا کے مصائب کے گھونٹ پئیں اور گندے پانی پر گزارا کریں۔وہ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور انہیں ان کامکمل اجر مل گیا۔مالک نے انہیں خوف کے بعد امن کی منزل میں وارد کردیا ہے۔کہا ہیں میرے وہ بھائی جو سیدھے راستہ پر چلے اور حق کی راہ پر لگے رہے۔کہاں ہیں عمار ؟ کہاں ہیں ابن التیہان ؟۔کہاں ہیں ذوالشہادتین؟ کہاں ہیں ان کے جیسے ایمانی بھائی جنہوں نے موت کا عہدو پیمان باندھ لیا تھا اور جن کے سر فاجروں کے پاس بھیج دئیے گئے۔

(یہ کہہ کر آپ نے محاسن شریف پر ہاتھ رکھا اورتادیر گریہ فرماتے رہے اس کے بعد فرمایا :)

آہ ! میرے ان بھائیوں پر جنہوں نے قرآن کی

۳۳۸

فَأَحْكَمُوه - وتَدَبَّرُوا الْفَرْضَ فَأَقَامُوه - أَحْيَوُا السُّنَّةَ وأَمَاتُوا الْبِدْعَةَ - دُعُوا لِلْجِهَادِ فَأَجَابُوا ووَثِقُوا بِالْقَائِدِ فَاتَّبَعُوه.

ثُمَّ نَادَى بِأَعْلَى صَوْتِه

الْجِهَادَ الْجِهَادَ عِبَادَ اللَّه - أَلَا وإِنِّي مُعَسْكِرٌ فِي يَومِي هَذَا - فَمَنْ أَرَادَ الرَّوَاحَ إِلَى اللَّه فَلْيَخْرُجْ

قَالَ نَوْفٌ وعَقَدَ لِلْحُسَيْنِعليه‌السلام فِي عَشَرَةِ آلَافٍ - ولِقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ رحمهالله فِي عَشَرَةِ آلَافٍ - ولأَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ فِي عَشَرَةِ آلَافٍ - ولِغَيْرِهِمْ عَلَى أَعْدَادٍ أُخَرَ - وهُوَ يُرِيدُ الرَّجْعَةَ إِلَى صِفِّينَ - فَمَا دَارَتِ الْجُمُعَةُ حَتَّى ضَرَبَه الْمَلْعُونُ ابْنُ مُلْجَمٍ لَعَنَه اللَّه - فَتَرَاجَعَتِ الْعَسَاكِرُ فَكُنَّا كَأَغْنَامٍ فَقَدَتْ رَاعِيهَا - تَخْتَطِفُهَا الذِّئَابُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ!

(۱۸۳)

من خطبة لهعليه‌السلام

في قدرة اللَّه وفي فضل القرآن وفي الوصية بالتقوى الله تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الْمَعْرُوفِ مِنْ غَيْرِ رُؤْيَةٍ - والْخَالِقِ مِنْ غَيْرِ مَنْصَبَةٍ

تلاوت کی تو اسے مستحکم کیا اور فرائض پر غورو فکر کیا تو انہیں قائم کیا ۔سنتوں کو زندہ کیا اور بدعتوں کو مردہ بنایا۔ انہیں جہاد کے لئے بلایا گیا تو لبیک کہی اور اپنے قائد پر اعتماد کیا تواس کا اتباع بھی کیا۔

(اس کے بعد بلند آوازسے پکار کر فرمایا)

جہاد ،جہاد ، اے بندگان خدا! آگاہ ہو جائو کہ میں آج اپنی فوج تیار کر رہا ہوں اگر کوئی خدا کی بارگاہ کی طرف جانا چاہتا ہے تو نکلنے کے لئے تیار ہو جائے ۔

نوف کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضرت نے دس ہزار کا لشکر امام حسین کے ساتھ ۔دس ہزار قیس بن سعد کے ساتھ۔دس ہزار ابو ایوب انصاری کے ساتھ اوراسی طرح مختلف تعداد میں مختلف افراد کے ساتھ تیار کیا اور آپ کا مقصد دوبارہ صفین کی طرف کوچ کرنے کا تھا کہ آئندہ جمعہ آنے سے پہلے ہی آپ کو ابن ملجم نے زخمی کردیا اور اس طرح سارا لشکر پلٹ گیا اور ہم سب ان چوپایوں کے مانند ہوگئے جن کا رکھوالا گم ہو جائے اور انہیں چاروں طرف سے بھیڑئیے اچک لینے کی فکرمیں ہو۔

(۱۸۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(قدرت خدا فضیلت قرآن اور وصیت تقویٰ کے بارے میں )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو بغیر دیکھے بھی پہچانا ہوا ہے اور بغیر کسی تکان کے بھی خلق کرنے والا

۳۳۹

خَلَقَ الْخَلَائِقَ بِقُدْرَتِه - واسْتَعْبَدَ الأَرْبَابَ بِعِزَّتِه وسَادَ الْعُظَمَاءَ بِجُودِه - وهُوَ الَّذِي أَسْكَنَ الدُّنْيَا خَلْقَه - وبَعَثَ إِلَى الْجِنِّ والإِنْسِ رُسُلَه - لِيَكْشِفُوا لَهُمْ عَنْ غِطَائِهَا ولِيُحَذِّرُوهُمْ مِنْ ضَرَّائِهَا - ولِيَضْرِبُوا لَهُمْ أَمْثَالَهَا ولِيُبَصِّرُوهُمْ عُيُوبَهَا - ولِيَهْجُمُوا عَلَيْهِمْ بِمُعْتَبَرٍ مِنْ تَصَرُّفِ مَصَاحِّهَا وأَسْقَامِهَا - وحَلَالِهَا وحَرَامِهَا - ومَا أَعَدَّ اللَّه لِلْمُطِيعِينَ مِنْهُمْ والْعُصَاةِ - مِنْ جَنَّةٍ ونَارٍ وكَرَامَةٍ وهَوَانٍ - أَحْمَدُه إِلَى نَفْسِه كَمَا اسْتَحْمَدَ إِلَى خَلْقِه - وجَعَلَ( لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً ) - ولِكُلِّ قَدْرٍ أَجَلًا ولِكُلِّ أَجَلٍ كِتَاباً.

فضل القرآن

منها: فَالْقُرْآنُ آمِرٌ زَاجِرٌ وصَامِتٌ نَاطِقٌ - حُجَّةُ اللَّه عَلَى خَلْقِه أَخَذَ عَلَيْه مِيثَاقَهُمْ - وارْتَهَنَ عَلَيْهِمْ أَنْفُسَهُمْ أَتَمَّ نُورَه - وأَكْمَلَ بِه دِينَه وقَبَضَ نَبِيَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وقَدْ فَرَغَ إِلَى الْخَلْقِ مِنْ أَحْكَامِ الْهُدَى بِه - فَعَظِّمُوا مِنْه سُبْحَانَه مَا عَظَّمَ مِنْ نَفْسِه – فَإِنَّه لَمْ يُخْفِ عَنْكُمْ شَيْئاً مِنْ دِينِه - ولَمْ يَتْرُكْ شَيْئاً رَضِيَه أَوْ كَرِهَه إِلَّا وجَعَلَ لَه عَلَماً بَادِياً -

ہے۔اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا اور اپن یعزت کی بناپ ر ان سے مطالبہ عبدیت کیا۔وہ اپنے جودو کرم میں تمام عظماء عالم سے بالا تر ہے۔اسی نے اس دنیا میں اپنی مخلوقات کو آباد کیا ہے اور جن و انس کی طرف اپنے رسول بھیجے ہیں تاکہ وہ نگاہوں سے عبرت دلانے کا سامان کریں اور حلال و حرام اور اطاعت کرنے والوں کے لئے مہیا شدہ اجر اور نا فرمانوں کے لئے عذاب سے آگاہ کردیں۔میں اس کی ذات اقدس کی اسی طرح حمد کرتا ہوں جس طرح اس نے بندوں سے مطالبہ کیا ہے اور ہر شے کی ایک مقدار معین ہے اور ہر قدر کی ایک مہلت رکھی ہے اور ہرتحریری کی ایک معیاد معین کی ہے۔

دیکھو قرآن امر کرنے والا بھی ہے اور روکنے والا بھی۔وہ خاموش بھی ہے اور گویا بھی۔وہ مخلوقات پر پروردگار کی حجت ہے۔جس کا لوگوں سے عہد لیا گیا ہے اور ان کے نفسوں کو اس کا پابند بنا دیا گیا ہے۔مالک نے اس کے نور کو تمام بنایا ہے اور اس کے ذریعہ دین کو کامل قرار دیا ہے۔اپنے پیغمبر کو اس وقت اپنے پاس بلایا ہے جب وہ اس کے احکام کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے چکے تھے لہٰذا پروردگار کی عظمت کا اعتراف اس طرح کرو جس طرح اس نے اپنی عظمت کا اعلان کیا ہے کہ اس نے دین کی کسی بات کو مخفی نہیں رکھا ہے اور کوئی ایسی پسندیدہ یا نا پسندیدہ بات نہیں چھوڑی ہے جس کے لئے واضح نشان ہدایت نہ بنا دیا

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367