فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ10%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206540 / ڈاؤنلوڈ: 6000
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

جائے کہ آپ کا استحقاق نص کی وجہ سے ہے تو اس سے بڑے بڑے مہاجرین کافر یا فاسق قرار پاتے ہیں(یعنی معتزلی فرقہ کی نظر میں آپ کی خلافت منصوص نہیں ہے اگر چہ حقیقت میں منصوص ہی ہے لیکن اگر منصوص مان لیا جائے تو پھر بڑے بڑے لوگ بڑے بڑے کافر و فاسق اور ظالم قرار پائیں گے)

بہرحال علامہ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ ہم لوگ آپ کی خلافت کو منصوص نہیں مانتے وجہ اوپر بیان کی جاچکی ہے لیکن امامیہ اور زیدیہ نے جناب امیرؑ کے اقوال کے ظاہری معنیٰ لئے ہیں اور اس طرح وہ دونوں فرقے سرکش اونٹنی پر سوار ہوگئے ہیں(یعنی مشکل میں گرفتار ہوگئے ہیں)میری جان کی قسم جناب امیرؑ کے یہ الفاظ محض وہم کی وجہ سے ہیں اور زیدیہ اور امامیہ نے محض ظن کے غلبہ کی وجہ سے حکم لگایا ہے حالانکہ حالات و واقعات ایسے ظن کو باطل قرار دیتے ہیں اور وہم کو ختم کرتے ہیں کلام ابن ابی الحدید کا اختتام۔(۱)

میں کہتا ہوں وہ کون سے حالات ہیں؟اور وہ حالات کیسے اس نظریہ کو باطل کرتے ہیں؟بلکہ حالات تو(شیعوں کے نظریہ کی)تاکید و تائید کرتے ہیں،ان کی بنیاد کو مضبوط کرتے ہیں اور ان کی دلیلوں کو محکم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام سے رضا ظاہر نہیں ہوتی

بہرحال یہاں موضوع گفتگو اثبات نص نہیں ہے اس کے بارے میں ہم دوسری جگہ گفتگو کریں گے،نص کے بارے میں تو آپ فرمارہے ہیں کہ اگر شیعوں کے قول کے مطابق نص مان لی جائے تو(ہمارے مہاجرین و انصار کافر ہوجائیں گے)یہاں گفتگو تو اس موضوع پر ہورہی ہے کہ ائمہ اہل بیتؑ غاصب خلفا کا اقرار بھی کرتے تھے اور ان کی خلافت پر راضی بھی تھے جب کہ امیرالمومنینؑ کا کلام جو کچھ بھی پیش کیا گیا اس سے اقرار ہوتا ہے نہ رضا البتہ ناراضگی اور اختلاف ظاہر ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۳۰۷

۱۶۱

خلافت کے بارے میں صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا موقف

صدیقہ طاہرہ صلوات اللہ علیہا نے ایک خطبہ میں غصب فدک کو ایک غاصبانہ اقدام بتایا ہے اور غصب فدک کے بارے میں آپ کا اظہار ناراضگی درحقیقت خلافت کے سلسلے میں رونما ہونےوالے حادثات کا شدّت سے انکار ہے ورنہ اسی خطبہ میں آپ نے غصب کو ایک جرم بتایا اور غاصبوں کی پول کھول دی ہے۔اسی خطبہ کے کچھ اجزا ملاحظہ ہوں،آپؐ فرماتی ہیں:یہاں تک کہ اللہ نے اپنے نبیؐ کو انبیا کی منزل میں(وفات پیغمبرؐ)پہنچایا اب نفاق کا راز ظاہر ہونےلگا اور دین کی نقاب بوسیدہ ہو کے پھٹ گئی،گونگے لگے اور گمنام نابغہ دہر ہوگئے،باطل پرست طاقتیں ابھرنے لگیں،شیطان نےاپنے گھونسلے سے ابھارا اور تمہارے آنکھوں میں رینگنےلگا اور تمہیں اٹھانے کی کوشش کی تو بہت ہلکا پایا اور تمہیں دوہنےلگا تو دودھ کے بدلے میں تمہیں غیظ و غضب دیدیا،اس نے تمہیں پکارا تو تمہیں اپنا جواب دینےوالا اور اپنے مکر و فریب اور دھوکےکا لحاظ کرنےوالا پایا،پس تم نے اُس اونٹ کو داغ لگایا جو تہمارا نہیں تھا اور تم اس گھاٹ پر اترے جو تمہارا گھاٹ نہیں تھا،یہ سب کچھ ہوگیا لیکن عہد قریب ہے،زخم گہرا ہے جو ابھی بھرا نہیں ہے تم فتنوں سے خوف زدہ ہو:( أَلَافِيالْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ) (۱)

ترجمہ آیت:((حالانکہ وہ لوگ فتنے میں گرچکے ہیں اور جہنم نے کافروں کو گھیر رکھا ہے))۔

تمہارے حال پر افسوس ہے!تم کہاں بہکے جا رہے ہو تمہارے سامنے یہ خدا کی کتاب موجود ہے جس میں بالاعلان ڈانٹا گیا ہے جس کے شواہد چمک رہے ہیں اور اوامر واضح ہیں،کیا تم اس کو چھوڑ کے منھ موڑچکے ہو یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز کو بنیاد بنا کے فیصلہ کررہے ہو۔

(بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا)(۲)

ترجمہ آیت:((ظالموں کو بدلے میں کیا بری چیز ملی ہے))۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ توبہ آیت:۴۹ (۲)سورہ کہف آیت:۵۰

۱۶۲

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِيناً فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ آیت:(اورج و اسلام کے علاوہ کسی دین کو لیکے آئےگا تو وہ ہرگز قبول نہ کیا جائےگا آخرت میں وہ نقصان اٹھانےوالں سے ہوجائےگا)۔(۱)

پھر آپ نے فدک کا معاملہ اٹھایا اور اس پر طویل گفتگو اور شدت سے غصب فدک کی مخالفت کی پھر خطبہ ختم کیا۔(۲)

ایک روایت میں ہے کہ آپؑ قبر نبیؐ کی طرف متوجہ ہوئیں اور مندرجہ ذیل اشعار پڑھے جس میں صرف شکایت ہی شکایت ہے یہ اشعار ہند بنت اثاثہ کے ہیں۔

ترجمہ اشعار:آپ کے بعد بہت سی چیزیں بارش کے قطروں کی طرح پھیلیں اگر آپ ان کو دیکھتے ہوتے تو مصیبتں زیادہ نہ ہوتیں،جب آپ کی وفات ہوگئی اور زمانہ ہمارے اور آپ کے درمیان حائل ہوگیا تو ہماری طرف سے لوگوں کے دلوں میں جو راز تھے ظاہر ہوگئے،لوگ ہم پر حملہ آور ہوگئے اور ہمارا استخفاف کردیا،آپ نے جیسے ہی غیبت اختیار کی تو لوگوں نے ہمارا حق غصب کرلیا۔(۳)

آپ کا خطبہ صغیرہ ہی کے موضوع پر ہے اور آپ نے غاصبان خلافت کی واضح طور سے مخالفت کی ہے اور اپنے حق مغصوبہ پر احتجاج کیا ہے تاریخ شاہد ہے کہ جب آپ بیمار پڑیں تو عورتیں آپ کی عیادت کو آئیں آپ سے پوچھنے لگیں،بنت رسولؐ آپ کی بیماری کا کیا حال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ آل عمران آیت:۸۵

(۲)بلاغات النساء ابن طیفورص:۱۳۔۱۴خطبہ فاطمہ زہراؑ،شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۵۱جواہرالمطالب فی مناقب امام علیؑ،ابن دمشقی ج:۱ص:۱۵۹

(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۱۲غریب الحدیث،ابن سلام ج:۴ص:۱۱۶۔و شرح نہج البلاغہ ج:۲ص:۵۰ج:۶ص:۴۳،غریب الحدیث ابن قتیبہ ج:۱ص:۲۶۷،اسی طرح کتاب البدءو التاریخ،ج:۵ص:۶۸۔۶۹

۱۶۳

ہے؟آپ نے فرمایا میں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ میں تمہارے دنیا سے تنگ آچکی ہوں،تمہارے مردوں سے بیزار ہوں،میں نے ان کو گونگا کرنے کے بعد ان سے گفتگو کی ہے،میں نے انھیں آزمانے کے بعد برا سمجھا ہے،برا ہودھار کے مڑجانے،قناتوں کے گرجانے اور نظریات کے مفلوج ہوجانے کا((انھوں نے بہت برے اعمال اپنے لئے بھیجے ہیں کہ خدا ان سے ناراض ہے اور وہ ہمیشہ عذاب ہی میں رہیں گے))میں نے ان کے گلے میں دنیا کا پھندا ڈال دیا اور بےپناہ کرکے غارت کردیا،بےعزتی،کاہلی اور رحمت خدا سے ظالم قوم کے لئے دوری ہو اور ان پر وائے ہو انھوں نے رسالت کی بلندیوں کو کہاں لا پٹکا؟نبوت کی دیواروں کو کہاں گراویا؟روح امین کی منزل ھبوط کو کیا ذلیل کیا؟اور دین و دنیا کے امور پر نظر رکھنےوالے کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟خبردار ہوجاؤ یہی کھلا ہوا گھاٹا ہے))انھوں نے ابولحسنؑ سےکس چیز کا بدلہ لیا ہے؟(۱) اس خطبہ کو مولائے کائناتؑ کے خلیفہ ہونے سے جو فوائد مرتب ہوئے اس سلسلے میں لکھا جاچکا ہے۔

ابن ابی الحدید فدک کے بارے میں جو واقعات ہوئے ان کو لکھنے کے بعد اسی سلسلہ میں دونوں خطبہ بھی لکھتے ہیں،اس کے بعد لکھتے ہیں!یہ جان لو کہ میں نے اس فصل میں وہ تمام باتیں لکھ دی ہیں جس کی روایت رجال حدیث اور ان کے معتبر افراد نے کی ہیں اور احمد بن عبدالعزیز جوہری نے جو کچھ اپنی کتاب میں لکھا ہے اس لئے کہ جوہری اصحاب حدیث کے نزدیک ثقہ بھی ہیں اور امین بھی،لیکن شیعوں کے علما اور ان کے اخباریوں نے جو کچھ اپنی کتابوں میں لکھا ہے اس کو اصحاب حدیث روایت کرتے ہیں نہ نقل کرتے ہیں۔(۲) خدارا مجھے کوئی بتائے کہ اخباری شیعہ اصحاب حدیث کیوں نہیں ہوسکتے؟کیا اصحاب حدیث راویاں اخبار کے علاوہ افراد ہیں؟یا اصحاب حدیث کے لئے شرط ہے کہ وہ شیعہ نہ ہوں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۳۳،بلاغات النساء ابن طیفور ص:۱۹خطبہ فاطمہ زہراؑ،جواہر المطالب،ابن دمشقی ج:۱ص:۱۶۵۔۱۶۶۔

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۳۴۔۲۳۵

۱۶۴

خلافت کے معاملے میں امام حسن علیہ السلام کا موقف

یہ امام حسن علیہ السلام ہیں اگر چہ آپ کا صبر،حلم اور صلح پسندی مشہور ہے لیکن خلافت جو اہل بیتؑ کا حق تھا وہ جب غصب کرلیا گیا تو آپ غافل نہیں رہے اور دنیا کو متنبہ کرنے کے ساتھ تاریخ میں اپنا انکار درج کرادیا،آپ کے کچھ ارشادات ملاحظہ ہوں۔

۱۔آپؑ ہی کے لئے مشہور ہے کہ ابوبکر منبر پر خطبہ دے رہے تھے تو آپ اٹھے اور فرمایا میرے باپ کے منبر سے اترجا!(۱)

۲۔جب موالئے کائناتؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی بیعت کی گئی تو آپؑ نے معاویہ کو لکھا اما بعد!اللہ نے حضور سرور کائناتؐ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا،جب آپ کی وفات ہوگئی تو خلافت کے لئے عرب زورآزمائی کرنے لگے قریش کہنے لگے ہم نبیؐ کے قبیلہ والے اور آپؐ کے ولی ہیں ہم سے پیغمبرؐ کی سلطنت مت چھینو!عربوں نےقریش کے اس دعویٰ کو مان لیا لیکن قریش نے ہمارے دعوے کو رد کردیا جب کہ ہم نے وہی دعویٰ کیا تھا جو انھوں نے عربوں کے مقابلہ میں کیا تھا،عرب نے ان کے دعوے کو مانا لیکن انھوں نے ہمارے اس دعوے کو رد کردیا،افسوس قریش نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔(۲)

معاویہ کو اس نے امام حسن علیہ السلام کے حق میں نقطہ ضعف خیال کیا اس لئے اس نے جواب میں لکھا((آپ نے نبیؐ کو جن لفظوں سے ہمیں یاد دلایا ہے،میں اس میں کوئی شک نہیں کرتا اس لئے کہ سرکار دو عالمؐ سارے عالمین میں فضیلت کے حقدار ہیں))لیکن آپ نے امر خلافت میں مسلمانوں کے جھگڑے کا جو تذکرہ کیا ہے تو آپ نے اس بیان میں عمر اور ابوبکر صدیق اور امانتدار ابوعبیدہ اور باکردار مہاجرین پر صریحی تہمت لگائی ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ریاض النضرہ ج:۲ص:۱۴۸،پہلا باب واقعہ خلافت ابوبکر،تاریخ دمشق ج:۳۰ص:۳۰۷حالات ابوبکر،المنتظم ج:۴ص:۷۰،ذکر خلافت ابوبکر،کنزالعمال ج:۵ص:۶۱۶حدیث:۱۴۰۸۴

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۴

۱۶۵

شایان شان نہیں ہے۔(۱)

۳۔معاویہ کو ایک دوسرے خط میں آپ نے لکھا((اما بعد!خداوند عالم نے حضور سرور کائناتؑ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا جب آپ کی وفات ہوگئی تو عرب امر خلافت میں لڑنے لگے،قریش نے کہا ہم نبیؐ کے قبیلہ سے آپؐ کے خاندان سے ہیں اور آپ کے ولی ہیں،تمہارے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ تم محمدؐ کی سلطنت اور ان کا حق ہم سے چھین لو،عربوں نے دیکھا کہ قریش کی باتوں میں وزن ہے اور جانشینی پیغمبرؐ میں جو جھگڑا کر رہا ہے اس کے خلاف قریش کے پاس یہ محکم دلیل ہے،پس عرب نے تسلیم کرلیا اور حکومت ان کے حوالے کردی پھر ہم(اہل بیت پیغمبرؐ)وہی دعویٰ جو قریش نے عربوں کے خلاف کیا تھا قریش کے سامنے لیکے گئے لیکن قریش نے عربوں کی طرح ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا،انھوں نے قرابت پیغمبرؐ اور قربت خاندان کا واسطہ دیکےعربوں سے حکومت حاصل کرلی لیکن ہم اہل بیت نبوتؐ نے جب وہی دلیل قریش کے خلاف استعمال کی تو انھوں نے اس کو ماننے سے انکار کردیا ہمیں خلافت سے دور کردیا اور اجماعی طور پر ہم سے ولایت پیغمبرؐ چھین لی اور ہمارا مال کھا گئے،ہم ان سے دور ہیں وعدہ گاہ تو اللہ ہے وہی سرپرست اور مددگار ہے۔

ہمیں حیرت ہورہی ہے کہ ان لوگوں پر جو ہمارے خلاف ہمارے حق کے بارے میں اچھل کود کرتے رہے حالانکہ وہ لوگ صاحبان فضیلت تھے اور سابق الاسلام ہم تو ان کے خلاف اس لئے کچھ نہیں کرسکے کہ ہمیں خوف تھا کہ کہیں دین برباد ہوجائے یا منافقین اور دشمن کے گروہ دیوار اسلام میں رخنہ نہ ڈال دیں یا ہمارا جہاد انھیں ان کے مفسد ارادوں میں کامیاب نہ کردے اور معاویہ!اس سے بڑا تعجب مجھے تیری اچھل کود پر ہورہا ہے تو وہ طلب کر رہا ہے جس کا تو اہل نہیں ہے۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۵

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۳۳۔۳۴

۱۶۶

معاویہ نے بھی اس خط کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑا وہ لکھتا ہے((آپؑ نے وفات پیغمبرؐ کا تذکرہ کیا پھر آپ کی وفات کے بعد امر خلافت کے لئے مسلمانوں کے جھگڑے کا تذکرہ کیا اور یہ کہ لوگ آپ کے والد پر تغلب کرگئے تو اس بیان میں آپ نے ابوبکر صدیق،عمر فاروق،ابوعبیدہ امین،حواری پیغمبرؐ اور انصار مہاجرین کے صالح لوگوں پر تہمت لگائی ہے،میں آپ کی طرف سے ایسی باتوں کو ناگوار سمجھتا ہوں،آپ میرے نزدیک اور دوسرے لوگوں کے نزدیک بھی ان افراد میں ہیں جن کے بارے میں بدگمانی نہیں کی جاتی اور برا نہیں سمجھا جاتا نہ آپ کمینے لوگوں میں ہیں(معاذ اللہ)آپ سے تو میں قول سدید اور اچھی اچھی باتوں کی امید رکھتا ہوں(سننا چاہتا ہوں)(۱)

۴۔ابن اثیر لکھتے ہیں کہ!جب امام حسنؑ نے حکومت معاویہ کے حوالہ کرنے کا ارادہ کیا تو آپ منبر پر گئے اور خطبہ دیا:فرمایا((اے لوگو!ہم ہی تمہارے امیر اور تمہارے مہمان ہیں ہم ہی تمہارے نبیؐ کے وہ اہل بیتؑ ہیں جنھیں اللہ نے برائیوں سے دور رکھا اور ایسا پاک و پاکیزہ رکھا ہ جو پاک رکھنے کا حق ہے،آپ اس آیت کی تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ مجسل میں کوئی نہیں تھا مگر یہ کہ رو رہا ہو اور لوگ اتنا روئے کہ ہچکیوں کی آواز بلند ہوگئی۔(۲)

آپ دیکھیں!امام حسنؑ نے کس طرح یہ بات پکی کردی کہ حکومت و خلافت صرف اہل بیتؑ نبیؐ کا حق ہے آپ نے لوگوں کے ہمدردانہ جذبات اس طرح ابھارے کہ لوگ اہل بیتؑ کی مظلومیت پر ہچکیوں سے روئے۔

خلافت کے معاملے میں امام حسین علیہ السلام کا موقف

حضرت امام ابوعبداللہ الحسین الشہیدؑ نے اپنے بزرگوں کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اکثر یاد دلایا کہ پیغمبرؐ کے بعد اہل بیتؑ کے علاوہ جس کے ہاتھ میں بھی خلافت رہی وہ غاصب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۳۵

(۲)الکامل فی التاریخ ج:۳ص:۴۱،۲۷۳ سنہکے واقعات،تاریخ طبری ج:۳ص:۴۱۱۶۹ سنہکے واقعات

۱۶۷

۱۔منبر پر عمر کو ٹوک دیا فرمایا:میرے باپ کے منبر سے اتر اور اپنےباپ کے منبر پر جا۔عمر نے کہا میرے باپ کا کوئی منبر نہیں ہے۔(۱)

بلکہ پورا واقعہ عبداللہ بن کعب سے سنئے،وہ کہتے ہیں جمعہ کے دن عمر پیغمبرؐ کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے حسین بن علیؑ اٹھے آپ ابھی بہت کمسن تھے آپ نے فرمایا میرے جد کے منبر سے اترجا،عمر نے کہا بھتیجے رک جاؤ لیکن امام حسین ان کی روا پکڑ کر کھینچتے رہے اور بار بار کہتے رہے میرے جد کے منبر سے اترجا،آخر عمر کو خطبہ روکنا پڑا اور منبر سے اترے اور نماز کا حکم دیا۔(۲)

۲۔آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں امام حسین علیہ السلام کی وصیت کا تذکرہ کیا ہے جو آپ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے کی تھی آپ نے فرمایا تھا میں صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں،میرا ارادہ ہے کہ میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کروں اور اپنے جد اور اپنے والد ماجد علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت پر عمل کروں۔

آپ کی اس وصیت سے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ وہ سیرت جو قابل پیروی(بلکہ واجب الاتباع)ہے وہ صرف حضور سرور کائناتؐ اور مولائے کائناتؑ کی سیرت ہے اس کے علاوہ کوئی سیرت قابل پیروی نہیں ہے۔

----------------

(۱)سیراعلام النبلاءج:۳ص:۲۸۵حالات امام حسینؑ سیراعلام النبلاءحسین شہیدؑ کے حالات میں بعینہ الاصابۃج:۲ص:۷۷پر حسین بن علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،معرفۃ الثقات،ج:۱ص:۳۰۱حسین بن علی بن ابی طالب کے حالات میں تہذیب التہذیب ج:۲ص:۳۰۰،حسین بن علیؑ کے حالات میں،تہذیب الکمال ج:۶ص:۴۰۴،حسین بن علیؑ کے حالات میں،تاریخ واسط،ج:۱ص:۳۰۲،ابوالحسین سعد بن وہب بن مناف سلمی کے حالات میں،تاریخ الخلفاءج:۱ص:۲۰۳،عمر بن خطاب کے حالات میں،تاریخ بغدادج:۱ص:۱۴۱،حسین بن علیؑ کے حالات میں بغیۃ الطلب فی تاریخ الحلب ج:۶ص:۲۵۸۴۔۲۵۸۵،حسین بن علی بن عبد مناف ابی طالب کے حالات میں،التحفۃ اللطیفۃ فی تاریخ المدینۃ الشریفہ ج:۱ص:۲۹۵،حسین بن علی کے حالات میں علل الدار قطنی،ج:۲ص:۱۲۵،تاریخ دمشق ج:۱۴ص:۱۷۵،حسین بن علیؑ کے حالات میں،کنزالعمال ج:۱۳ص:۶۵۴،حدیث:۳۷۶۶۲،تاریخ مدینہ منورہ ج:۳ص:۷۹۹،

(۲)تاریخ مدینہ منورہ ج:۳ص:۷۹۸

۱۶۸

یہی وجہ ہے کہ آپ مادی اعتبار سے کمزور پڑگئے،جو لوگ ابوبکر اور عمر کے چاہنےوالے تھے ان کی ہمدردیاں آپ سے مفقود ہوگئیں اور جس وقت آپ نے قیام کیا تھا اس وقت دونوں خلیفہ کے چاہنےوالے زیادہ تھے یعنی حکومت بنوامیہ کے ہاتھ میں تھی اور آپ دیکھ چکے ہیں کہ معاویہ نے اپنے دو خطوں میں جو امام حسنؑ کو بھیجے تھے یہ لکھا تھا کہ آپ ان دونوں کا انکار نہ کریں بنوامیہ ابوبکر و عمر کی مخالفت کو اہل بیتؑ کا سب سے کمزور پہلو سمجھتے تھے،ابھی مقام شہادت میں معاویہ کے وہ خطوط بھی پیش کئے جائیں گے جو اس حقیقت کو زیادہ ثابت کریں گے،امام حسینؑ اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ ابوبکر و عمر کا انکار آپ کی مادّی قوت کو کم کردے گا اور آپ کا ساتھ صرف اسی وجہ سے نہیں دیں گے لیکن آپ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ مادّی قوت اور فوجی طاقت حاصل کرنے سے اہم بات اظہار حق ہے،اہل بیتؑ کے مذہب کا اظہار اور اپنے استحقاق پر اصرار آپ کی نظر میں مادّی فتح اور فوجی غلبہ سے زیادہ اہم تھا اس لئے آپ نے جہاں جو بات کہی دو ٹوک کہی اور کھل کے اعلان کیا۔۳۔آپ نے مکہ والوں اور اہل بصرہ کو ایک ہی طرح کا خط لکھا لیکن اس خط کا مضمون بھی صرف اظہار حق اور اعلان مظلومیت پر مشتمل تھا،آپ نے اس خط میں لکھا خداوند عالم نے حضرت محمد مصطفیٰﷺکو اپنی تمام مخلوقات سے منتخب کیا آپ کو نبوت سے عزت بخشی اور رسالت کے لئے اختیار کیا پھر اللہ نے آپ کو نبوت سے عزت بخشی اور رسالت کے لئے اختیار کیا پھر اللہ نے آپ کو اپنے پاس بلالیا،حضور سرور کائناتؐ نے اس کے بندوں کی خیرخواہی کی اور اللہ کا پیغام پہنچادیا،اہل بیتؑ آپ کے وارث اور ولی ہیں اور آپ کی جگہ لینے کے سب سے زیادہ مستحق ہم ہی ہیں لیکن ہماری قوم نے ہم پر دوسروں کو ترجیح دی تو ہم راضی رہے اور تفرقہ پردازی سے پرہیز کیا اور عافیت کو پسند کیا،حالانکہ ہمیں یقین ہے کہ ہم خلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں ولی امر بنایا گیا ہے وہ ہمارے حق کے غاصب ہیں۔(۱) آپ کا مندرجہ بالا کلام پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ امام حسینؑ صرف اہل بیتؑ کو مستحق خلافت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۳ص:۲۸۰کوفیوں کی طرف سے امام حسینؑ کو دعوت جانا اور مسلم ابن عقیلؑ کی روانگی۔بدایہ و نہایۃ ج:۸ص:۱۵۸،۱۵۷ امام حسینؑ کے مکہ سے نکلنے کی وجہ اور دارالمارہ میں طلب کرنا ار مقتل کے حالات،

۱۶۹

سمجھتے ہیں اور جو کچھ اس سلسلے میں تشدد ہوا اس پر اگر یہ لوگ راضی بھی رہے تو محض اس لئے کہ فرقہ بندی نہ ہو اور عافیت برقرار رہے اس لئے نہیں کہ وہ دوسروں کے لئے اپنے حق سے دست بردار ہوگئے تھے،ان کی ولایت پر راضی تھے اور ان کے حکم پر دستخط کررہے تھے بلکہ امام حسینؑ انھیں خلافت کا اہل ہی نہیں سمجھتے تھے۔

خلافت کے معاملے میں امام زین العابدین علیہ السلام کا موقف

۱۔حضرت ابومحمد علی بن حسینؑ زین العابدین علیہ السلام بھی اپنے آبا و اجداد طاہرینؑ کے طریقے پر چلتے ہوئے اپنے حق کا اظہار دعاؤں میں کرتے ہیں اور اپنی معنی خیز دعاؤں میں ان لوگوں سے کھل کے اظہار ناراض گی کرتے ہیں جنہوں نے آپ کا حق غصب کیا آپ اللہ سے شکایت کرتے ہیں کہ آپ کے اہل بیتؑ پر ظلم کیا گیا،صحیفہ کاملہ کی اڑتالیسویں دعا کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو،آپ یہ دعا یوم الاضحیٰ اور یوم جمعہ کو پڑھا کرتے تھے اس مٰں فرماتے ہیں پالنےوالے یہ مقام تیرے منتخب بندوں کا ہے اور تیرے خلفا اور تیرے امانتداروں کی یہ جگہ ہے،وہ بلند درجہ تو نے ان خاص بندوں کو جس سے مخصوص کیا ہے یہاں تک کہ تیرے چنے ہوئے بندے مغلوب و مقہور اور گمنام ہوگئے وہ تیرے حکم کو بدلتا ہوا تیری کتاب کو تقسیم ہوتا ہوا اور تیری شریعت کی سمت سے تیرے فرائض کو تحریف ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور تیرے نبی کی سنت کو متروک دیکھ رہے ہیں پالنےوالے لعنت کر ان کے دشمنوں پر(اولین و آخرین پر جو دشمن اہل بیتؑ ہیں)اور ان پر جو ان کے اس فعل سے راضی ہیں اور ان کے مطیع ار فرمابردار ہیں۔

مندرجہ بالا دعا کے فقروں میں امام نے صراحت سے اپنی مظلومت کا زکر کیا ہے وہ مظلومیت جو حق کے چھن جانے اور منصب کے غصب ہوجانے کی وجہ سے اہل بیتؑ کو جھیلنی پڑی،یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ چونکہ حق،حقدار کو نہیں مل سکا اس کی وجہ سے دین میں تحریف ہوگئی اور احکام دین میں رکاوٹ آئی،آپ نے اس ظلم سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا ہے بلکہ آخری فقرے تو تعمیم

۱۷۰

کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۲۔چبیسویں دعا میں آپ اپنے پڑوسی اور اپنے چاہنےوالوں کے لئے دعا کررہے ہیں جب ان کا تذکرہ کرتے ہیں تو فرماتے ہیں پالنےوالے!محمدؐ و آل محمد پر درود بھیج اور میرے پڑوسیوں کو اور ان کو جو ہمارے چاہنےوالے ہیں اور ہمارے حق کو پہچانتے ہیں اپنی افضل ولایت سے سرفراز فرما اور انھیں بھی جو ہمارے دشمنوں سے دور رہتے ہیں،مالک تو انھیں اپنی سنت قائم کرنے کی توفیق عنایت فرما۔

۳۔صحیفہ کاملہ کی سیتالیسویں دعا ملاحظہ فرمائیں:جو آپ یوم عرفہ میں پڑھتے تھے،آپ فرماتے ہیں پالنےوالے تو نے ہر دور میں اپنے دین کی تائید ایسے امام سے کی جو تیرے بندوں کے لئے ایک نشانی،تیرے شہروں کے لئے منارہ نور ہوا کرتا ہے،تو نے اس کی رسی اپنی محبت سے باندھ دی اور اس کو اپنی مرضی تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا تو نے اس کی اطاعت فرض کی اور اس کی نافرمانی سے ڈرایا تو نے حکم دیا تو نے اس کی اطاعت فرض کی اور اس کی نافرمانی سے ڈرایا تونے حکم دیا کہ اس کے امر کا امتثال کیا جائے اور اس کے نواہی سے باز رہا جائے کوئی آگے بڑھنےوالا اس سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے نہ کوئی پیچھے رہنےوالا اس سے پیچھے رہنے کی کوشش کرے،پس وہ امام صاحبان خلوص کے لئے پناہ اور مومنین کے لئے گوشہ عافیت ہے،وہ امام تمسک کرنےوالوں کے لئے عروہ اور عالمین کی شان ہوا کرتا ہے۔

پالنےوالے درود بھیج ان کے چاہنےوالوں پر جو ان کے مقام کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کے راستے کی پیروی کرتے ہیں،ان کے آثار کو تلاش کرتے ہیں اور ان کے سہارے سے متمسک ہیں،ان کی ولا کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں،ان کی امامت اور ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنےوالے ہیں اور ان کی اطاعت کے لئے بھرپور کوشش کرنےوالے ہیں،ان کے ایام فرج کے منتظر ہیں،انھوں نے اپنی آنکھیں ان کی طرف لگا رکھی ہیں،ان پر صلوٰت بھیج ایسی صلوات جو مبارک ہو اور ان کو پاک کرنےوالی ہو اور ان میں قوت نمو پیدا کرنےوالی ہو صبح و شام صلوت بھیج۔

مندرجہ بالا دعاؤں ہی ٹکڑے اگر چہ غصب منصب اور اظہار مظلومیت سے خالی ہیں

۱۷۱

لیکن دونوں ہی ٹکڑوں میں آپ نے اپنا چاہنےوالوں کے لئے دعا کی ہے اور ان دعاؤں میں ان کے لئے دنیا و آخرت دونوں ہی کے لئے فلاح طلب کی ہے،آپ نے اپنے چاہنےوالوں کے جو صفات بیان کئے ہیں وہ صرف شیعیان امامیہ پر منطبق ہوتے ہیں،اگر تھوڑا غور کر کے سمجھیں تو پتہ چلےگا کہ ان دعاؤں میں امامؑ نے شیعوں کے عقائد کا اقرار کیا ہے اور ان کی تصدیق کی ہے اور اس عقیدے کی بھی تقریر فرمائی جو شیعہ ابوبکر و عمر کی خلافت کے سلسلہ میں رکھتے ہیں۔

جیسے دوسری دعا کا یہ فقرہ((اور تو نے اس(امام)کی طاعت فرض کی اور یہ کہ کوئی بڑھنےوالا اس سے آگے نہ بڑھے اور پیچھے رہنےوالا اس سے تاخر نہ کرے))یہ فقرے غاصبان خلافت پر کھلے ہوئے اعتراض ہیں آپ نے وضاحت کے ساتھ بتادیا کہ خلافت غصب کرنے والے اہل بیتؑ سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے تھے۔

خلافت کے معاملے میں امام محمد باقر علیہ السلام کا موقف

امام محمد باقر علیہ السلام کا موقف تو آپ کے پہلے سوال کے جواب میں بتادیا گیا ہے،جب اہل بدروالی حدیث پیش کی گئی تھی اور جمہور صحابہ کی نظروں کی وضاحت کے ساتھ حدیثوں کے جعلی(من گھڑت)ہونے کے سلسلے میں امام ابوجعفر محمد باقرؑ کا کلام پیش کیا گیا تھا،اس کلام کا ذکر ابن ابی الحدید نے بھی کیا ہے اور آپ کا یہ کلام اعلان کررہا ہے کہ خلافت اہل بیتؑ کا حق ہے اس کے ساتھ ہی آپ نے غصب خلافت کا شکوا بھی کیا ہے،آپ سوال اول کا جواب ملاحظہ کریں۔اصل بات یہ ہے کہ امام محمد باقرؑ کے کلام کے ساتھ دوسرے ائمہ اہل بیتؑ کا اس موضوع پر کلام اس کثرت سے وارد ہوا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے،اسی طرح شیعیان علیؑ کا کلام بھی ہے،لیکن ہم یہاں صرف ان باتوں پر اختصار کررہے ہیں جن کا تذکرہ علما جمہور نے بھی اپنی کتابوں میں کیا ہے اور جس کی دشہرت اس پائے کو پہنچی ہے کہ تجاہل یا انکار ممکن ہی نہیں ہے۔

۱۷۲

خلافت کے مسئلہ میں محمد بن حنفیہ کا موقف

عبداللہ بن زبیر اپنے خطبہ میں مولائے کائناتؑ کی ذات پر رکیک حملہ کررہا تھا یہ خبر محمد بن حنفیہ تک پہنچی،آپ اسی وقت وہاں پہنچے،ابھی وہ خطبہ دے ہی رہا تھا لیکن آپ کے لئے ایک کرسی رکھ دی گئی،آپ اس پر بیٹھے اور اس کے خطبہ کو روک دیا پھر فرمایا اے گروہ عرب!تمہارے چہرے سیاہ ہوں،علیؑ کو برا کہا جارہا ہے اور تم سن رہے ہو!علیؑ دشمنان خدا کے خلاف اللہ کے ہاتھ ہیں اور اس کے حکم سے گرائی ہوئی ایک بجلی ہیں،خدا نے کافروں پر اور حق اللہ کا انکار کرنےوالوں پر علیؑ کو بجلی بنا کر گرایا تھا اور علیؑ نے کافروں کے کفر کی وجہ سے انھیں قتل کیا تو وہ انھیں برا کہنے لگے ان سے بغض رکھنے لگے اور کینہ و حسد اپنے دل میں چھپالیا،اس لئے کہ پیغمبرؐ زندہ تھے اور ابھی آپ کی وفات نہیں ہوئی تھی،پس جب اللہ نے پیغمبرؐ کو اپنے جوار میں منتقل کر لیا اور اپنے پاس موجود نعمتوں سے انھیں ملا دینا پسند کیا تو لوگوں کے دلوں کے کینے ظاہر ہوگئے،دل کا میل ظاہر ہوگیا،(لوگ علیؑ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے)کسی نے آپ کا حق چھیں لیا،کوئی آپ کو قتل کرنے کے لئے مشورے کرنے لگا اور کوئی آپ کو گالیاں دینے لگا اور جھوٹے عیب لگانے لگا۔۔۔۔(۱)

دیکھا آپ نے جناب محمد بن حنفیہ نے دشمنان علیؑ سے تبرّا کیا،اپنی ناراض گی کا اظہار بھی کیا اور اس طرح یہ سب کچھ کیا کہ جس سے ثابت ہوجائے کہ وہ خلافت مغصوبہ پر راضی نہیں تھے اور غاصبوں کی خلافت،شرعی بنیاد پر نہیں تھی کہ وہ حق کے غصب سے بری الذمہ قرار پائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۴ص:۶۲،مروج الذھب ج:۳ص:۹۰،معاویہ بن یزید بن معاویہ کے دور حکومت کا ذکر اور مروان بن حکم اور مختار بن ابی عبید و عبداللہ بن زبیر

۱۷۳

خلافت کے بارے میں عباس بن عبدالمطلب کا موقف

جب ابوبکر نے عباس بن عبدالمطلب کو پیش کش کی کہ وہ اور ان کی اولاد خلافت میں سے کچھ حصہ لےلیں،سازش یہ تھی کہ یہ پیشکش بنوہاشم میں پھوٹ کا سبب بن جائے اور عباس بن عبدالمطلب اور ان کی اولاد علیؑ سے ٹوٹ کر علیٰیحدہ ہوجائیں لیکن عباس نے بہت جچا تلا جواب دیا،انھوں نے کہا:اگر تم پیغمبر کی وجہ سے خلافت کے طالب ہو تو تم نے ہمارا حق غصب کیا ہے اور اگر تم مومنین کے ذریعہ خلیفہ بنے ہو تو ہم بھی مومن ہیں لیکن ہم تمہاری خلافت سے راضی نہیں ہیں اور تمہاری باتوں میں کتنا اختلاف ہے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مومنین تم پر طعن کررہے ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ مومنین تمہاری طرف مائل ہوئے ہیں،بہرحال جو کچھ تم ہمیں دے رہے ہو اگر تمہارا حق ہے توا پنے پاس ہی رکھو اور اگر مومنین کا حق ہے تو تم فیصلہ کرنےوالے کون ہو اور اگر ہمارا حق ہے تو ہم اپنے حصے تقسیم نہیں کریں گے۔

تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ پیغمبرؐ ہم میں سے بھی ہیں اور تم میں سے بھی تو پیغمبرؐ اس درخت سے ہیں جس کی ہم شاخیں ہیں لیکن تم پڑوسی ہو،(۱)

امر خلافت میں فضل بن عباس کا نظریہ

فضل بن عباس نے قریش پر احتجاج کرتے ہوئے فرمایا((اے قریش کے لوگو!خصوصاً اے بنی تمیم!اس میں کوئی شک نہیں کہ تم نے نبی کی خلافت ہتھیا لی لیکن ہم لوگ تم سے زیادہ مستحق ہیں اگر ہم جو خلافت اہل ہیں خلافت طلب کرتے تو لوگوں کو دوسروں کے مطالبہ سے زیادہ ہمارا مطالبہ ناگوار گذرتا اس لئے کہ لوگ ہم سے حسد کرتے ہیں اور کینہ رکھتے ہیں۔لیکن ہم خلافت کا مطالبہ جو نہیں کر رہے ہیں اس کی ایک وجہ ہے وہ یہ کہ:ہمارا قائد نے ایک عہد کیا ہوا ہے جو انھیں طلبِ خلافت سے روک رہا ہے))(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۲۲۱،الامامت و السیاست ج:۱ص:۱۸علی بن ابی طالبؑ کی بیت کیسے ہوئی تھی،تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۶،۱۲۵ واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ اور ابوبکر کی بیعت

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۱

۱۷۴

امر خلافت میں عبداللہ بن عباس کا موقف

اس موضوع پر عبداللہ بن عباس اور عمر بن خطاب سے اکثر گفتگو ہوئی ہے ان میں سے ایک مکالمہ حاضر ہے:

۱۔طبری،ابن عباس سے وہ عمر سے روایت کرتے ہیں کہ عمر نے ان سے پوچھا اے ابن عباس تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری قوم کو تم سے محمدؐ کے بعد کس چیز نے روکا ابن عباس کہتے ہیں کہ مجھے اس سوال کا جواب دینا گوارہ نہ ہوا،میں نے کہا کہ اگر میں نہیں جانتا تو امیرالمومنین مجھے بتادیں عمر نے کہا:لوگوں کو یہ بات پسند نہ آئی کہ ایک ہی خاندان میں نبوت اور خلافت جمع ہو اور تم اپنی قوم کے سامنے فخر کرنے لگو اس لئے قریش نے خلافت اپنے لئے چن لی پس انھوں نے صحیح کیا اور ٹہر گئے،ابن عباس کہتے ہیں مٰں نے جواب دیا امیرالمومنین کو قیش نے اپنے لئے چن لیا اور انھوں نے صحیح کیا لیکن اگر اس کا انتخاب کیا ہوتا جسے اللہ نے اختیار کیا ہے تو زیادہ بہتر ہوتا نہ کوئی رد کرتا نہ حسد کرتا آپ نے جو یہ فرمایا کہ انھوں نے یعنی قریش نے کراہت محسوس کی کہ نبوت و خلافت ایک ہی خاندان میں جمع ہو تو اللہ نے کراہت کرنےوالوں کا تعارف بھی کرادیا ہے اور انجام بھی بتادیا ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ((یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نازل کی ہوئی باتوں کو مکروہ سمجھتے ہیں اس لئے ان کے اعمال حبط کردئے گئے))۔

عمر بولے میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو،لوگوں نے ہم سے خلافت حسد اور ظلم سے چھین لی،ابن عباس نے کہا اے امیرالمومنین ظلم کے بارے میں تو عالم جاہل سب جانتے ہیں حسد کے بارے میں کہنا ہے کہ ابلیس نے ہمارے جد آدم پر حسد کیا اور ہم لوگ آدم کی اولاد میں سے ہیں اگر ہم بھی محسود ہوئے تو کیا ہوا؟(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۳ص:۲۸۹،موسسہ اعلمی بیروت،اس جگہ پر تاریخ طبری کے کمپیوٹری پروگرامؐ الالفیۃ))میں حذف ہے۔

۱۷۵

۲۔ابن ابی حدید نے عبداللہ بن عمر سے اس گفتگو کی حکایت کی ہے جو ابن عباس اور عمر کے درمیان ہوئی تھی دونوں بیانوں میں تھوڑا سا اختلاف بھی ہے اور کچھ اضافہ بھی،اضافہ یہ ہے کہ عمر نے تنگ آکر کہا کہ ابن عباس ہوش میں آؤ تم بنوہاشم کے دلوں نے قریش کی حکومت سے کینہ اور حسد کا بیڑا اٹھایا ہے تمہارے دل کینہ و حسد سے خالی ہو ہی نہیں سکتے،ابن عباس نے کہا امیرالمومنین ذرا زبان سنبھال کے اس لئے کہ بنوہاشم کے دلوں میں پیغمبرؐ خدا کابھی دل شامل ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا ہے اور بنوہاشم میں وہ اہل بیتؑ بھی ہیں جن کے بارے میں اللہ نے ارادہ کیا ہے کہ انھیں پاک رکھے اور ان سے ہر رجس کو دور رکھے اور ایسا پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ہے اور آپ نے جو کینہ پروری والی بات کہی ہے تو اس کا دل کینے سے کیسے پاک رہےگا دیکھ رہا ہے کہ اس کی چیز دوسرے کے قبضہ میں ہے اور اس سے غصب کرلی گئی ہے؟

عمر نے کہا:ابن عباس تمہارے بارے میں کچھ سن رہا ہوں تم یہ کہتے پھر رہے ہو کہ یہ تمہارا حق تھا جو تم پر ظلم و جور کر کے چھین لیا گیا،ابن عباس نے جواب دیا کہ آپ جو حسد والی بات کہہ رہے ہیں تو ہم آدمؑ کی اولاد ہیں آدمؑ سے ابلیس نے حسد کیا حسد نے اس کو جنت سے نکال دیا گیا ہم آدمؑ کی اولاد ہیں محسود ہونا ہماری میراث ہے رہ گیا ظلم کا سوال تو امیرالمومنین آپ جانتے ہیں کہ حقدار کون ہے؟(۱)

۳۔دوسری حدیث میں ابن عباس اور عمر کی گفتگو کو ابن ابی الحدید نے مالی ابوجعفر محمد بن حبیب سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن میں عمر کے پاس پہنچا تو عمر کہنے لگے اے ابن عباس یہ شخص عبادت میں اتنی کوشش کررہا ہے کہ لگتا ہے کہ ریا کاری کررہا ہے میں نے پوچھا وہ کون ہے؟کہنے لگے تمہارا چچازاد بھائی یعنی علیؑ،میں نے کہا وہ ریا کاری نہیں کرتے اے امیرالمومنین عمر نے کہا وہ لوگوں کے سامنے خود کو سزاوار خلافت تو ظاہر کررہے ہیں میں نے کہا ظاہر کرنا کیا مطلب؟اور ان کو ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟پیغمبرؐ تو ان کو خلافت دے کر ہی گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۲ص:۵۴

۱۷۶

تھے لیکن آپ نے ان سے چھین لیا عمر نے کہا:اصل بات یہ ہے کہ وہ ابھی جوان اور کم عمر تھے عرب نے ان کے سن کو چھوٹا سمجھا اب وہ کامل ہوچکے ہیں کیا تم جانتے نہیں کہ اللہ نے کسی نبیؐ کو مبعوث نہیں کیا مگر چالیس سال کا ہونے کے بعد میں نے کہا اے امیرالمومنین لیکن جو لوگ صاحبان عقل و فہم ہیں وہ تو علیؑ کو اس دن سے کامل سمجھ رہے ہیں،جب اسلام کا منارہ بلند ہوا لیکن علیؑ کو محروم بھی سمجھتے ہیں(۱) اس کے علاوہ بھی کئی بار عمر بن خطاب اور عبدالہ بن عباس سے گفتگو ہوئی جس کو عمر کی رائے پیش کرنے کے وقت لکھا جائےگا۔۴۔عتبیٰ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ جب سفر کربلا میں امام حسینؑ مکہ پہنچے اور وہاں حج کو عمرہ سے بدل کر کوفہ جانے لگے تو اس وقت ابن زبیر اور ابن عباس ایک دن اکھٹا ہوئے ابن عباس نے ابن زبیر کے پہلو میں ٹہوکا مارا اور یہ شعر مقام مثال میں پڑھا۔ترجمہ شعر:اے چنڈول(قنبرہ)اپنے گھوسلے میں خوشی سے بیٹھ کہ اب فضا خالی ہوگئی،خوب چہہ چہہ کر اور جتنا چاہے چونچ مار اطمینان سے انڈے دے۔اے ابن زبیر!خدا کی قسم امام حسینؑ چلے گئے اور مکہ تمہارے لئے خالی ہوگیا،ابن زبیر نے کہا،خدا کی قسم تم(بنی ہاشم)کچھ نہیں سوچتے مگر یہ کہ خلافت صرف تم لوگوں کا حق ہے،ابن عباس نے کہا سنو!سوچتا وہ ہے جس کو شک ہو ہم لوگ تو یقین رکھتے ہیں۔(۲)

۵۔یہ ابن عباس ہی تھے جو خطبہ شقشقیہ کے ناتمام رہ جانے پر بول اٹھے تھے کہ مجھے کسی کلام کے نامکمل رہ جانے پر اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس کلام کے نامکمل رہنے پر افسوس ہے،امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس خطبہ میں بات کو وہاں تک نہیں پہنچا سکے جہاں تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے تھے۔(۳) یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خطبہ شقشقیہ میں عمر اور ابوبکر کی بھرپور شکایت کی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۲ص:۸۰

(۲)سیرہ اعلام النبلاءج:۳ص:۳۵۴،حالات عبداللہ ابن عباس شرح نہج البلاغہ ج:۲۰ص:۱۳۴

(۳)نہج البلاغہ ج:۱ص:۳۷

۱۷۷

خطبہ شقشقیہ مقام تنقید میں

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے استاد ابوالخیر مصدق بن شبیب واسطی نے ۶۰۳سنہمیں کہا کہ میں نے شیخ ابومحمد عبداللہ بن احمد جو ابن خشاب کے نام سے مشہور ہیں ان کے سامنے یہ خطبہ پڑھا تو جب میں اس منزل پر پہنچا(کہ ابن عباس کو خطبہ نامکمل رہنے کا افسوس رہا)ابن خشاب نے کہا اگر میں ہوتا اور ابن عباس کو یہ کہتے ہوئے سنتا تو یہ ضرور پوچھتا کہ کیا تمہارے چچازاد بھائی کے دلم یں کچھ اور بھی باقی تھا جو اس خطبہ مٰں نہیں کہہ سکے؟(کہ تم کو افسوس ہورہا ہے کہ جس منزل تک علیؑ خطبہ کو پہنچانا چاہتے تھے نہیں پہنچاسکے؟)خدا کی قسم انھوں نے اولین کو چھوڑا نہ آخرین کو اور ان کے دل میں جس کے بارے میں جو کچھ تھا وہ کہہ ڈالا سوائے پیغمبرؐ کے تذکرہ کے۔

مصدق کہتے ہیں کہ ابن خشاب پر مذاق اور مسخرے قسم کے آدمی تھے،مصدق کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ خطبہ امیرالمومنینؑ کا نہیں ہے؟بلکہ من گھڑت ہے،ابن خشاب بولے مجھے اسی طرح اس کے کلام علیؑ ہونے کا یقین ہے جیسے تمہارے مصدق ہونے کا،میں نے کہا لوگ کہتے ہیں یہ سید رضیؒ کا کلام ہے،وہ کہنے لگے اچھا بس خاموش رہو!رضی ہوں یا غیر رضی،کسی کا اتنا بڑا کلیجہ نہیں نہ کسی کو یہ اسلوب میسّر ہے))ہم نے رضی کے رسائل بھی پڑھے ہیں اور ان کے کلام منشور کا لہجہ ار طیرقہ ایراد بھی خوب پہچانتا ہوں اس کلام سے اس کا کوئی میل نہیں،پھر بولے میں نے اس خطبہ کو ان کتابوں میں دیکھا ہے جو رضی کی پیدائش سے دو سو سال پہلے لکھی گئی ہیں میں نے اس انداز تحریر میں اس کو دیکھا ہے جس کو میں خوب پہچانتا ہوں میں اس دور کے علم اور اہل ادب کے انداز تحریر سے بھی واقف ہوں جو رضی کے والد ابواحمد نقیب کی پیداےش کے پہلے موجود تھے۔

مصدق کہتے ہیں میں نے کہا کہ میں نے اس خطبہ کو اپنے استاد ابوالقاسم بلخی کی تصنیفات میں دیکھا،یہ ابوالقاسم بغدادی معتزلیوں کے امام ہیں یہ معتمد عباسی کے دور حکومت میں تھے،وہ دور علامہ رضی کے بہت پہلے کا زمانہ تھا،اس خطبہ کو میں نے شیعوں کے مناظر ابوجعفر بن قبہ کی کتاب میں بھی

۱۷۸

دیکھا ہے ان کی یہ کتاب بہت مشہور ہے اور اس کا نام کتاب الانصاف ہے،یہ ابوجعفر،ابوالقاسم بلخی کے شاگرد تھے اور علامہ رضی کی پیدائش کے بہت پہلے انھوں نے دنیا کو چھوڑ دیا تھا۔(۱)

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے خاص اصحاب اور امر خلافت

امیرالمومنین علیہ السلام کے خاص اصحاب جو گروہ صحابہ کے بھی نمایاں لوگ تھے انھوں نے سقیفہ کے دن بھی اور سقیفہ کے بعد بھی اکثر فرمایا کہ خلافت صرف علیؑ کا حق ہے۔

اس سوال کے جواب کی ابتدائی عبارتوں میں کچھ کلام گذرچکا ہے،چوتھے سوال کے جواب میں بھی کچھ باتیں عرض کی جائیں گی اس وقت ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ کلام پیش کیا جائے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب خاص خلافت سے راضی تھے نہ اس کو صحیح سمجھتے تھے۔

صادق اللہجہ ابوذر اور امر خلافت

حافظ ابن مردویہ اپنی کتاب(جو عبداللہ شافعی کے مناقب کی رد میں لکھی گئی ہے اس کے صفحہ ۸۷پر مرفوعاً اپنی سند کے ساتھ داؤد بن ابی عوف سے،انھوں نے معاویہ بن ثعلبہ لیثی سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا:کیا میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں جس سے تم اختلاف نہ کرو؟میں نے کہا:بسم اللہ،تو انھوں نے کہا ابوذرؒ جب بیمار ہوئے تو علیؑ کو وصی بنایا،ایک آدمی ابوذرؒ کی عیادت کو پہنچا،اس نے کہا آپؒ نے امیرالمومنین عمر سے کیوں نہ وصیّت کی،علیؑ سے وصیّت کرنے سے تو بہتر ہی ہوتا،ابوذرؒ کہنے لگے(تم ہی تو کہتے ہو کہ امیرالمومنین سے وصیّت کرنی چاہئے تھی تو)جو حقیقت میں امیرالمومنین ہے اس سے میں نے وصیّت کردی،خدا کی قسم وہی امیرالمومنینؑ ہیں اور وہی وہ بہار ہیں.جہاں سکون ملاتا ہے،اگر وہ تم سے جدا ہوجائیں تو لوگ بھی تمہارا انکار کردیں گے اور زم تمہارا انکار کردےگی،اس آدمی نے کہا:ابوذر!میں جانتا ہوں کہ جو پیغمبرؐ کا محبوب تر ہے وہی آپ کا بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۲۰۵۔۲۰۶

۱۷۹

محبوب تر ہے ابوذر نے کہا:تم نے بالکل صحیح سنا ہے،میں نے پوچھا کہ پھر اس وقت آپ کا سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟آپ نے فرمایا:یہی بزرگ جو مظلوم اور خانہ نشین ہے اور جس کا حق چھین لیا گیا یعنی علیؑ ابن ابی طالب۔(۱)

حذیفہ اور امر خلافت

ابوشریح سے روایت ہے کہ:حذیفہ مدائن میں تھے ہم لوگ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ امام حسنؑ اور عمار کوفہ سے آئے اور لوگوں کو علیؑ کے لشکر میں شامل ہو کر جنگ کرنے پر ابھارنے لگے،حذیفہ نے کہا اے لوگو!امام حسنؑ اور عمار تمہیں علیؑ کے لشکر میں شامل ہو کر جنگ کرنے پر ابھارنے لگے،حذیفہ نے کہا اے لوگو!امام حسنؑ اور عمار تمہیں علیؑ کے حق میں لڑنے کے لئے بلانے آئے ہیں،سنو!جو حقیقی امیرالمومنین سے ملاقات کرنا چاہتا ہے وہ علیؑ کے ساتھ ہوجائے۔(۲)

شوریٰ کے متعلق بعض صحابہ کا موقف

شعبی کی کتاب شوریٰ و مقتل عثمان کے حوالہ سے ابن ابی الحدید نے شوریٰ کے بارے میں لکھا ہے،شعبی کہتے ہیں اس کی روایت ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری نے اپنی کتاب((السقیفہ))کے زیادات میں کی ہے۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ عثمان کی بیعت کئے بعد جو واقعات ہوئے ان میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے((عوانہ نے یزید بن جریر سے انھوں نے شعبی سے انھوں نے شقیق بن مسلمہ سے روایت کی ہے کہ بیعت عثمان کے بعد مولائے کائناتؑ جب اپنے قافلے میں پہنچے تو آپ نے قبیلہ بنوہاشم کو خطاب کر کے فرمایا:اے عبدالمطلب کے بیٹو!تمہاری قوم نے تم پر اسی طرح زیادتی کی جس طرح نبیؐ کی حیات میں کرتے تھے اگر تمہاری قوم اطاعت بھی کرےگی تو تمہیں امیر ہرگز نہیں بناسکتی،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ملحقات احقاق ج:۸ص:۶۷۹،الباب المتم للعشرین:الثالث مارواہ ابوذر

(۲)انساب الاشراف ج:۲ص:۳۶۶،حالات امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام میں۔

۱۸۰

خدا کی قسم یہ لوگ حق کی طرف بغیر تلوار کے آہی نہیں سکتے،اتنے میں عبداللہ بن عمر بن خطاب وہاں پہنچے اور کہنے لگے،ابوالحسنؑ کیا آپ بعض کو بعض سے لڑانا چاہتے ہیں،آپ نے فرمایا وائے ہو تجھ پر،تو چپ رہ اگر تیرے باپ نے میرا حق نہیں مارا ہوتا تو آج عثمان کی ہمت نہیں تھی کہ ہم سے لڑتا اور نہ ابن عوف کی اتنی ہمت تھی کہ وہ مجھ سے جھگڑا کرتا،یہ سن کر عبداللہ بن عمر فوراً کھڑا ہوگیا اور باہر نکل گیا،شعبی کہتے ہیں کہ:دوسرے دن مقدادؒ نکلے اور عبدالرحمٰن بن عوف سے ملے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگے تم نے جو کچھ کیا ہے اگر اس کا مقصد ذات باری تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے تو اللہ تمہیں دنیا و آخرت میں ثواب دے اور اگر تم نے محض دنیا کے لئے کیا ہے تو اللہ تہمارے مال میں اضافہ کرے یہ سن کر عبدالل کا نپ گئے اور بولے مقداد خدا پر رحم کرے سنو تو سہی مقداد نے کہا خدا کی قسم میں کچھ نہیں سنوں گا اور ان کا ہاتھ پکڑ کے کھینچتے ہوئے مولائے کائناتؑ کے پاس لائے،جناب امیرالمومنینؑ سے کہا آپ اٹھیں قتال کریں تا کہ ہم بھی آپؑ کے ساتھ آپ کی قیادت میں قتال کریں۔مولائے کائناتؑ نے فرمایا خدا تم پر رحم کرے،کس کے سہارے پر قتال کروں؟اتنے میں عمار آگئے اور آواز دی((اے اسلام کی طرف سے فریاد کرنےوالے اٹھ اور فریاد کر،معروفات مرگئے اور منکرات ظاہر ہوگئے))(ترجمہ شعر)خدا کی قسم کاش میرے مددگار ہوتے تو میں ان(غاصبوں)سے جنگ کرتا اگر ایک آدمی بھی ان سے جنگ کرنے کو اٹھتا تو خدا کی قسم میں دوسرا ہوتا،مولانئے کائنات نے فرمایا اے ابوالیقظان(عمار کی کنیت)خدا کی قسم ان کے خلاف ہمارے پاس مددگار نہیں ہیں اور میں تم لوگوں کو تکلیف مالایطاق نہیں دینا چاہتا پھر آپ اپنے گھر ہی میں بیٹھے رہے اور آپ کے پاس آپ کے اہل بیتؑ کے چند افراد تھے،عثمان کے خوف سے آپ کے پاس کوئی نہیں آتا تھا۔(1)

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ عوانہ نے کہا ان سے اسماعیل نے کہا ان سے شعبی نے کہا کہ مجھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:9ص:54۔55

۱۸۱

سے عبدالرحمٰن بن جندب نے کہا انھوں نے اپنے باپ جندب بن عبداللہ ازدی کے حوالہ سے نقل کیا کہ جس دن عثمان کی بیعت ہوئی میں مدینہ میں ہی تھا میں آکر مقداد بن عمرو کے پاس بیٹھ گیا مقداد کہہ رہے تھے خدا کی قسم اس گھر کے رہنےوالو!اہل بیتؑ پر جیسی مصیبت آئی کسی گھر پر ویسی مصیبت نہیں آئی،عبدالرحمٰن بن عوف وہیں بیٹھے تھے مقداد اس جملہ سے تمہارا کیا مطلب ہے؟مقداد نے کہا میں اس گھروں والوں کو محض محبت پیغمبرؐ کی وجہ سے چاہتا ہوں،مجھے قریش پر تعجب ہورہا ہے کہ وہ پیغمبرؐ کا حوالہ دیکر لوگوں پر اپنی فضیلت ظاہر کرتے ہیں اور ان کے اہل بیتؑ سے نبیؐ کا اقتدار اور ان کا حق چھین لیتے ہیں،عبدالرحمٰن نے کہا بھئی میں نے تم لوگوں کے لئے کوئی کوشش اٹھا نہیں رکھی،مقداد بولے تم نے ایسے مرد کو چھوڑ دیا ہے جو حق کی بنیاد پر حکم دینےوالوں میں سے ہے اور حق کی بنیاد پر عدالت کرنےوالوں میں سے ہے خدا کی قسم اگر میں قریش کے خلاف مددگار پاتا تو ان سے ضرور جنگ کرتا جیسے بدر و احد میں ان سے لڑا تھا،عبدالرحمٰن ڈرگئے بولے تمہاری ماں تمہارے ماتم میں بیٹھے یہ باتیں اور لوگوں سے نہ کہنا دوسرے لوگ یہ کلام سنیں بھی نہیں،مجھے خوف ہے کہ تم فتنہ پردازی اور تفرقہ انگیزی کی طرف جارہے ہو!مقداد نے کہا:جو حق،اہل حق اور صاحبان امر کی طرف بلاتا ہے وہ اہل فتنہ نہیں ہوتا عبدالرحمٰن!صاحب فتنہ وہ ہے جو لوگوں کو باطل میں ڈبودے اور خواہش نفس کو حق پر ترجیح دے پس عبدالرحمٰن کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔۔پھر وہ عبدالرحمٰن کے پاس سے اٹھے اور چلے گئے،جندب بن عبداللہ کہتے ہیں میں مقداد کے پیچھے پیچھے چلا اور میں نے ان سے کہا اے بندہ خدا میں تمہارا مددگار ہوں،مقداد نے کہا خدا تم پر رحم کرے،یہ کام دو تین آدمیوں کے بس کا نہیں ہے جندب بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اسی وقت مولائے کاتناتؑ کی خدمت میں پہنچا،جب میں آپ کے پاس بیٹھ گیا تو میں نے عرض کیا اے ابوالحسنؑ!آپ کی قوم نے خلافت آپ سے چھین کر آپ کو کتنا نقصان پہنچایا ہے،آپ نے فرمایا:صبر جمیل ہی مناسب ہے اور اللہ ہی سے مدد مانگی جاتی ہے میں نے کہا لیکن آپ بھی بڑے صابر ہیں فرمایا صبر نہ کروں تو کیا کروں؟میں نے کہا کہ میں ابھی مقداد بن عمرو اور عبدالرحمٰن کے پاس بیٹھا تھا وہاں ان لوگوں مٰں اس طرح کی بحث ہوئی میں نے پوری بات

۱۸۲

آپ کو بتادی آپ نے فرمایا:مقداد تو سچ کہہ رہے ہیں لیکن میں کیا کروں؟میں نے عرض کیا:آپ لوگوں تک اپنی بات پہنچائیں اور اپنی طرف انھیں متوجہ کریں،آپ لوگوں کو بتائیں کہ آپ نبیؐ کی خلافت کے سب سے زیادہ حق دار ہیں اور لوگوں سے کہیں کہ آپ کے خلاف مظاہرہ کرنےوالوں کے مقابلے میں لوگ آپ کی مدد کریں،اگر سو میں سے دس آدمی بھی آپ کی تائید کرتے ہیں تو ان کو لیکر آپ دوسروں پر سختی کریں،اگر لوگ آپ کے ساتھ آجاتے ہیں تو ہمارا مقصد یہی ہے ورنہ آپ ان سے جنگ کریں،آپ صاحب عذر ہوں گے چاہے آپ شہید ہوجائیں یا باقی رہ جائیں،خدا کے نزدیک آپ کی حجت بلند ہی رہےگی آپ نے فرمایا:جندب کیا تم امید کرتے ہو کہ دس میں سے ایک آدمی بھی میری بیعت کرےگا؟میں نے کہا:مجھے تو یہی امید ہے،فرمایا((خدا کی قسم میں سمجھتا ہوں کہ سو میں سے ایک آدمی بھی میری بیعت نہیں کرےگا(تم دس فیصد امید کرتے ہو مجھے ایک فیصد کی بھی امید نہیں ہے)سنو!میں تمہیں بتاتا ہوں،حق یہ ہے کہ لوگ قریش کے بارے میں سوچتے ہیں کہ قریش محمدؐ کی قوم و قبیلہ والے ہیں لیکن قریش کہتے ہیں کہ آل محمد کو لوگوں پر نبوت کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے،وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ قریش میں آل محمدؐ ہی اس امر خلافت کے حقدار ہیں نہ کہ دوسرے لوگ،اگر آل محمدؐ حاکم ہوگئے تو پھر ان کے ہاتھ سے حکومت کبھی نکالی ہی نہیں جاسکتی البتہ اگر دوسروں کے ہاتھ میں حکومت رہی تو قریش بھی اس میں حصہ دار ہوتے رہیں گے،خدا کی قسم لوگ دل سے تو ہمارا حق دینے کو بھی تیار نہیں ہوں گے))میں نے عرض کیا اے پیغمبرؐ کے چچازاد بھائی میں آپ پر قربان ہوجاؤں کیا آپ کی گفتگو کا وہاں اعلان کردوں؟اور لوگوں کو آپ کی طرف دعوت دوں؟آپ نے فرمایا ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے جندب کہتے ہیں،پھر میں عراق میں آگیا اور مسلسل لوگوں سے فضائل علیؑ بیان کرتا رہا مجھے کوئی آدمی ایسا نہیں ملا جو یہ بتاتا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اس کو وہ ناگوار سمجھ رہا ہے یا اچھا مگر یہ کہنےوالے ضرور ملے کہ جندب یہ باتیں چھوڑو،ایسی باتیں کرو جو تم کو فائدہ پہنچائیں،میں نے کہا یہی باتیں توہیں جو تمہیں اور مجھے دونوں کے لئے فائدہ بخش ہیں،یہ سن کر لوگ میرے پاس سے اٹھ جاتے تھے اور مجھے تنہا چھوڑ کے چلے جاتے تھے۔

۱۸۳

ابوبکر احمد بن عبدالعزیزی جوہری نے یہ اضافہ کیا ہے کہ،جندب نے کہا میری یہ باتیں ولید بن عقبہ تک پہنچی جو اس وقت ہمارا حاکم تھا،اس نے مجھے پکڑ کر بند کردیا،پھر میرے بارے میں کچھ لوگوں کی سفارش پہنچی تو مجھے رہا کردیا۔

اور جوہری روایت کرتے ہیں کہ عمار یاسر نے بیعت عثمان والے دن آواز دی اے مسلمانو!(ایک زمانہ تھا کہ ہم)ہم موجود تو تھے لیکن ہماری تعداد بہت کم تھی جس کی وجہ سے ہم بول نہین سکتے تھے تو اللہ نے اپنے دین کے ذریعہ ہمیں عزت دی اور اپنے رسولؐ کے ذریعہ ہمیں مکرم کیا،پس خدا کی حمد ہے اے قریش کے لوگو!آخر تم اپنے نبیؐ کے اہل بیتؑ کے ہاتھوں سے خلافت لیکے کبھی اس ہاتھ میں اور کبھی اس ہاتھ میں کب تک گھماتے رہوگے مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں خدا تم سے اس کو چھین کر دوسروں کو نہ دیدے جس طرح تم نے اس کو اہل حق سے چھینا ہے اور نااہلوں کےحوالے کردیا ہے۔

پس ہاشم بن ولید بن مغیرہ کہنےلگا اے سمیہ کے بیٹے تو بہت بڑھ بڑھ کے باتیں کررہا ہے تو اپنی قدر نہیں پہچانتا تو کون ہے قریش کے بارے میں حکم لگانےوالا؟تجھے قریش کے امر اور ان کی امارت سے کیا مطلب؟خاموش ہوجا،اس کے بعد تو قریش کا ہر آدمی بولنےلگا اور عمار کو ڈانٹنے لگا اور ان کو جھڑکیاں دینے لگا عمار نے کہا!الحمدللہ کہ اہل حق کو ہمیشہ ذلیل کیا گیا یہ کہہ کے اٹھے اور چلے گئے(1)

میں نے اس گفتگو کو اتنا طویل اس لئے کیا ہے کہ صدر اول میں جو عام واقعات رونما ہوئے ان کی واضح تصویر اس گفتگو میں ملتی ہے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ صاحبان ذوق کے لئے تاریخوں اور حدیثوں میں سے اس طرح کے دوسرے واقعات و شواہد ڈھونڈھنے میں آسانی ہو۔

چوتھے سوال کے جواب میں نص کے بارے میں مزید بعض صحابہ کا نظریہ پیش کیا جائےگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:9ص:56۔58

۱۸۴

بعض اعلام جمہور کی تصریحات

بعض اعلام جمہور اہل بیتؑ کے مخالف تو ہیں لیکن کبھی کبھی ان کی زبان سے بھی حق بات نکل ہی گئی ہے،انھوں نے عمداً یا سہواً،اکثر اعتراف کیا ہے کہ اہل بیتؑ مظلوم ہیں انھیں ستایا گیا اور ان کا حق غصب کیا گیا۔

عمر بن خطاب کا اعتراف حق

1۔ابن ابی الحدید،جوہری کی کتاب السقیفہ کے حوالہ سے اور موفقیات زبیر بن بکار کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا:میں عمر کے ساتھ مدینہ کی گلی میں ٹہل رہا تھا،انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ رکھا تھا،دفعتاً عمر کہنے لگےابن عباس میں تمہارے صاحب کو نہیں سمجھتا(علیؑ کو نہیں سمجھتا)مگر مظلوم،میں نے سونچا کہ بخدا یہ کہیں حق بات کہنے میں مجھ سے سبقت نہ کرجائیں،میں نے فوراً کہا،امیرالمومنین پھر ان کی ظلامت(حق)ان کو واپس کردیں تو یہ سنکر عمر نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے کھینچ لیا اور کچھ دور تک بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئے،پھر رک گئے تو میں ان سے ملحق ہوگیا،عمر بولے،ابن عباس میرا خیال ہے کہ قوم نے تمہارے صاحب(علیؑ)کو اس لئے منع کیا کہ انھوں نے علیؑ کو چھوٹا سمجھا،میں نے اپنے دل میں کہا یہ تو پہلی والی بات سے بھی غلط ہے،پھر میں نے کہا((امیرالمومنین!لیکن اللہ نے تو انھیں چھوٹٓ نہیں سمجھا بلکہ سورہ برات(توبہ)کی تبلیغ کی ذمہ داری ابوبکر سے لیکر علیؑ کے ذمہ کردی))۔(1)

آپ نے عمر کے جملوں پر غور کیا!انھوں نے ابن عباس سے یہ نہیں کہا کہ تمہارے صاحب تو اس فیصلہ پر راضی اور خلافت کا اقرار کرتے ہیں پھر ظلامت کیسی جس کو واپس کیا جائے۔

ابن عباس سے ایک روایت اور بھی ہے کہ جب وہ(ابن عباس)عمر کے ساتھ شام کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:45،ج12ص:46،تھوڑے سے فرق کے ساتھ

۱۸۵

لئے نکلے تھے تو کہتے ہیں عمر نے مجھ سے کہا اے ابن عباس میں آپ سے آپ کے ابن عم کی شکایت کرتا ہوں میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ شام چلیں لیکن وہ شام جانے پر تیار نہیں ہوئے،دیکھتا ہوں کہ وہ ہمیشہ کچھ سونچتے رہتے ہیں،آپ بتاسکتے ہیں کہ وہ کس چیز کے لئے فکرمند ہیں؟میں نے کہا آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ان کے فکر کا سبب کیا ہے؟کہنے لگے میرا خیال ہے کہ وہ خلافت کے نہیں ملنے کی وجہ سے غمگین ہیں،میں نے کہا کہ یہی بات ہے،ان کا خیال ہے کہ پیغمبرؐ نے چاہا تھا کہ وہی خلیفہ ہوں،عمر نے کہا ابن عباس مانتا ہوں کہ پیغمبرؐ نے انھیں امیر بنانا چاہا تھا لیکن اس سے کیا ہوتا ہے؟حق تو یہ ہے کہ نبیؐ نے چاہا اور خدا نے نہیں چاہا۔(1) 2۔دوسری روایت میں ہے کہ عمر نے کہا پیغمبرؐ تو چاہتے ہی تھے کہ علیؑ خلیفہ ہوں لیکن میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فتنہ کے خوف کی وجہ سے روک دیا،مجھے ڈر ہوا کہ شیرازہ اسلام بکھر جائےگا،پیغمبرؐ بھی میرے دل کی بات جان گئے اور خاموش ہوگئے،نتیجہ میں وہی ہوا جس کا اللہ نے حتمی فیصلہ کیا تھا۔(2)

3۔ابن عباس کی گفتگو تیسیری بار عمر سے ہوئی،ابن عباس کہتے ہیں کہ عمر نے میری انگلویں کو اپنی انگلیوں میں پھنسار رکھا تھا اور مجھے لیکر چلے جارہے تھے یہاں تک کہ قبرستان جنۃ البقیع میں پہنچ گئے،وہاں جاکے بوالے ابن عباس تمہارے چچازاد بھائی(علیؑ)خدا کی قسم سب سے زیادہ مستحق خلافت ہیں لیکن ہم ان سے دو باتوں کے بارے میں خوف زدہ ہیں،ابن عباس کہتے ہیں عمر نے ایسی بات کہی کہ میں خود کو وضاحت چاہنے سے نہیں روک سکا میں نے پوچھ ہی لیا امیرالمومنین وہ کونسی دو باتیں ہیں(جن کی وجہ سے علیؑ خلافت کے اہل نہیں ہیں)کہنے لگے کمسنی اور بنی عبدالمطلب سے ان کی محبت،ہم انھیں دو باتوں سے ڈرتے ہیں۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:12ص:78

(2)شرح نہج البلاغہ ج:12ص:79

(3)شرح نہج البلاغہ ج:2ص:57

۱۸۶

4۔چوتھی گفتگو کا ذکر گذشتہ صفحہ میں کیا جاچکا ہے۔

5۔مغیرہ بن شعبہ کہتا ہے کہ میں عمر بن خطاب کے پاس بیٹھا تھا اور ہم دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہا اے امیرالمومنین کیا آپ کو ان لوگوں کے بارے میں بھی کچھ خبر ہے جو ہیں تو اصحاب پیغمبرؐ لیکن ان کا خیال ہے کہ ابوبکر نے اپنے لئے اور آپ کے لئے جو کچھ حاصل کیا وہ ان کا حق تھا ہی نہیں یہ کام کسی کے مشورے اور رائے سے نہیں ہوا،وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چلو ایک معاہدہ کریں کہ اس طرح کی بات پھر نہ ہو!عمر نے اس سے پوچھا کہ وہ لوگ کہاں ہیں؟اس نے کہا طلحہ کے گھر میں،پس عمر نکلے میں(مغیرہ)بھی ان کے ساتھ نکلا،میں نے دیکھا کہ وہ سخت غصہ کے عالم میں مجھے دیکھ رہے تھے،جب ان لوگوں کے پاس پہنچے تو ان لوگوں کو بہت ناگوار ہوا اور وہ لوگ سمجھ گئے کہ ان کےآنے کی وجہ کیا ہے،عمر ان لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور بولے تم لوگ کیا باتیں کررہے تھے؟خدا کی قسم تم میں آپس میں محبت اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ یہ چار چیزیں ایک دوسرے کو چاہنے نہ لگیں،انسان اور شیطان کہ شیطان انسان کو بہکاتا ہے اور انسان شیطان پر لعنت کرتا ہے،آگ اور پانی،کہ پانی آگ کو بجھاتا ہے اور آگ پانی کو جلاتی ہے،اب تمہیں وقت نہیں دیا جائےگا تمہارا وقت پورا ہوچکا ہے،بےوقوف کا وقت وہی ہے جب وہ خرج کرے،مغیرہ کہتا ہے کہ یہ سن کر لوگ اِدھر اُدھر ہوگئے(بکھر گئے)ہر ایک نے ایک الگ ہی راستہ اپنایا پھر عمر نے مجھ(مغیرہ)سے کہا کہ جا کے علیؑ کا پتہ کرو اور انھیں گرفتار کرکے میرے پاس لاؤ،میں نے کہا امیرالمومنین میں ایسا نہیں کرسکتا،علیؑ کہیں باہر گئے ہوئے ہیں،عمر نے کہا جاکے ان کا پتہ کرو ورنہ میں تم کو فلاں کا بیٹا کہوں گا،میں یہ سن کر وہاں سے چلا اور علیؑ کے پاس پہنچا میں نے کہا آپ اپنے امام کے حکم سے اپنی جگہ رکے رہیں اور سمجھداری سے کام لیں،وہ صاحب سلطنت ہیں ورنہ آپ بھی پچھتائیں گے اور وہ بھی پچھتائیں گے،اتنے میں عمر آگئے اور علیؑ سے کہنے لگے،بخدا یہ امر خلافت نہیں نکلا ہے مگر صرف آپ کے ہاتھ سے،آپ نے فرمایا:عمر ڈرو!کہیں ایسا نہ ہو کہ جس کی وجہ سے ہم تمہاری اطاعت کررہے ہیں وہی تمہارے لئے فتنہ بن جائے،عمر نے کہا آپ چاہتے ہیں کہ آپ فتنہ پرور

۱۸۷

بنیں؟فرمایا نہیں،لیکن میں تمہیں وہ باتیں یاد دلا رہا ہوں جو تم بھولتے جارہے ہو،پس عمر میری طرف(مغیرہ کی طرف)متوجہ ہوئے اور کہنے لگے تم یہاں سے چلے جاؤ،تم نے مجھ سے غصہ میں جو کچھ سنا وہی کافی ہے تو میں قریب ہی میں جاکر چھپ گیا اور میں اس انتظار میں کھڑا تھا بس اب ان کے درمیان جھگڑا ہونا ہی چاہتا ہے تو میں نے دیکھا دونوں باتیں تو کررہے تھے لیکن آپس میں راضی ہی الگ رہے تھے نہ کہ غضبناک پھر میں نے دیکھا دونوں ہنستے ہوئے الگ ہوگئے عمر میرے پاس آگئے اور میں ان کے ساتھ چلنے لگا میں نے عمر پوچھا کہ خدا آپ کو بخشے:کیا آپ غصہ میں ہیں تو انہوں نے علیؑ کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگے:خدا کی قسم اگر اس آدمی کے اندر مسخرہ پن(معاذ اللہ)نہیں ہوتا تو مجھے اس کی ولایت میں ذرا بھی شک نہیں تھا اگر چہ اس کے لئے مجھے قریش کی ناک رگڑنی پڑتی۔(1)

خلافت کے بارے میں عثمان بن عفان کا نظریہ

6۔ابن عباس سے عثمان کی ایک لمبی گفتگو ہوئی،اس کو ابن ابی الحدید نے زبیر بن بکار کے حوالہ سے ان کی اسناد کے ساتھ لکھا ہے ایک حصہ ملاحظہ ہو،عثمان نے ابن عباس سے کہا میں آپ کی رشتہ داری اور اسلام دونوں کا واسطہ دیتا ہوں،خدا کی قسم میں مغلوب ہوگیا اور آپ لوگوں کے معاملے میں آزمائش میں پڑگیا،بخدا میں تو یہی چاہتا تھا کہ مجھے چھوڑ کے امر خلافت کے ذمہ دار آپ ہی لوگ ہوتے،آپ لوگ مجھ سے یہ بار لے لیتے اور میں آپ کے مددگاروں میں ہوتا،اس وقت آپ لوگوں کے ساتھ میں اس سے بہتر سلوک کرتا جو آپ لوگ ابھی مجھ سے کررہے ہیں،میں یہ تو جانتا ہوں کہ حکومت(خلافت)آپ لوگوں کا حق ہے لیکن آپ کی قوم نے آپ کو اس حق سے محروم رکھا اور آپ کو الگ رکھ کے دوسروں کو خلیفہ بنایا،مجھے نہیں معلوم کے خلافت کو آپ نے خود چھوڑ دیا یا آپ کی قوم نے آپ کو خلافت سے باز رکھا۔

------------------

(1)العقد الفرید ج:4ص:261-262

۱۸۸

ابن عباس نے کہا:امیرالمومنین رک جایئے،ہماری قوم نے ہم سے خلافت کو جو الگ کیا اس کے پیچھے حسد کا جذبہ کار فرما تھا جو آپ اچھی طرح جانتے ہیں،ہماری قوم نے جو ہمارے ساتھ بغاوت کی وہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور ہماری قوم کے درمیان اللہ حاکم ہے۔(1)

معاویہ کا خط محمد بن ابی بکر کے نام

7۔نصر بن مزاحم کی روایت کے مطابق محمد بن ابی بکر نے معاویہ کو ایک خط لکھا جس میں انھوں نے معاویہ کو مولائے کائناتؑ سے لڑنے سے منع کیا اور مولائے کائناتؑ کی مخالفت سے روکا تھا،معاویہ نے اس خط کا جواب دیا،اس خط میں معاویہ نے اقرار کیا کہ عمر اور ابوبکر نے مولائے کائناتؑ پر زیادتی کی تھی،خط کی عبارت کا ترجمہ حاضر ہے،معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے اپنے باپ پر عیب لگانےوالے محمد بن ابی بکر کی خدمت میں عرض ہے کہ تمہارا خط ملا جس میں تم نے اللہ کو اہل سلطنت و اقتدار بتایا ہے اور یہ کہ اس نے اپنے نبیؐ کو منتخب کیا اور سلطنت و اقتدار کا اہل قرار دیا اس کے ساتھ ہی تم نے کچھ باتیں اپنی طرف سے بھی لکھی ہیں جنھیں تم نے وضع کیا ہے ان باتوں سے تمہاری رائے کی کمزوری ظاہر ہورہی ہے اور تمہارے باپ پر بھی کچھ الزامات آرہے ہیں تم نے اپنے خط میں ابوطالب کے بیٹے کو حقدار خلافت بتایا ہے اور ان کیا اور حجت کو کامیاب کیا،تو نبیؐ کو اٹھالیا،تہمارے باپ اور ان کے فاروق،سب سے پہلے انھیں دو آدمیوں نے علیؑ کا حق چھینا اور ان کی مخالفت کی اس بات پر دونوں کے دل ملے ہوئے تھے اور دونوں بالکل متفق تھے پھر انھوں نے علیؑ سے اپنے لئے بیعت مانگی تو علیؑ نے ان کی بیعت کرنے میں تاخیر کی اور ان کی کمزوریاں انھیں بتادیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:9ص:9

۱۸۹

تو انھوں نے علیؑ کے بارے میں برے ادارے کئے اور بڑے بڑے پروگرام بنائے،پس علیؑ نے(مجبور ہوکے)ان کی بیعت کی اور(خلافت)ان کے پاس چھوڑ دی،وہ دونون اپنے امور میں علیؑ کو شریک نہیں کرتے تھے اور اپنے راز سے علیؑ کو مطلع نہیں کرتے تھے پھر ان کا تیسرا عثمان بن عفان کھڑا ہوا انھیں دونون کی دکھائی ہوئی راہ پر عثمان بھی چلتے تھے اور انھیں کی سیرت پر عمل کرتے تھے ان کی(عثمان کی)حکومت کی تمہید تمہارے باپ ہی نے کی تھی اور ان کی بادشاہت کی بنیاد تمہارے باپ ہی نے رکھی تھی تو اگر ہم لوگ صحیح راستے پر ہیں تو یہ راستہ تمہارے باپ کا ہے انھیں شرف اوّلیت حاصل ہے اور اگر ہم لوگ غلط راستے پر ہیں تو یہ راستہ تمہارے باپ ہی نے بنایا تھا ہم لوگ تو شریک کار ہیں ہم نے انھیں سے رہنمائی لی ہے اور انھیں کے کام کی اقتدار کی ہے،اگر تمہارے باپ نے علیؑ کی مخالفت ہم سے پہلے نہ کی ہوتی تو ہم ہرگز علیؑ کے مخالف نہ ہوتے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے لیکن ہم نے تمہارے باپ کو دیکھا تو انھیں کے نقش قدم پر چل پڑے اور انھیں کے فعل کی اقتدار کرنے لگے،بھائی!پہلے تم اپنے باپ کی عیب چینی کرو اور جو سمجھ میں آئے کہو یا پھر سکوت اختیار کرو۔(1) طبری لکھتے ہیں:ہشام بن ابی مخنف نے کہا کہ یزید بن ظبیان ھمدانی نے کہا کہ محمد بن ابی ببکر نے معاویہ کو حکومت حاصل ہونے کے بعد ایک خط لکھا تھا،پھر اس خط و کتابت کا تذکرہ کیا جو معاویہ اور محمد بن ابی بکر کے درمیان ہوتی رہی،میں ان خطوں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا،اس لئے کہ اس میں کچھ ایسی باتیں لکھی گئی ہیں جسکو عامہ(سنی)برداشت نہیں کرپائیں گے۔(2) محاد بن ابی بکر کی ولایت کے بارے میں ابن اثیر نے بھی کچھ اس طرح کی بات لکھی ہے۔(3) طبری اور ابن اثیر یہ دونوں حضرات اس خط و کتابت کی تکذیب بھی نہیں کرتے اور تذکرہ بھی نہیں کرتے،تذکرہ اس لئے نہیں کرتے کہ عامہ(سنی)اس کو برداشت نہیں کرپائیں گے،ان دونوں مورخون کے سامنے عامہ(سنیوں)کو راضی رکھنا زیادہ اہم ہے اور واقعات و حقائق کو پیش کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وقعۃ صفین ص:121،118،دوسرے مصادر و منابع بھی پائے گئے ہیں،شرح نہج البلاغہ ج:3ص:188۔انساب الاشراف ج:3ص:165۔167۔اور مروج الذھب ج:3ص:20۔22

(2)تاریخ طبری ج:3ص:68، (3)الکامل فی التاریخ ج:3ص:157،ولایت قیس بن سعد،

۱۹۰

دوسری جگہوں پر معاویہ کا اعتراف حق

8۔نصر نے ایک خط کا تذکرہ کیا ہے جو معاویہ نے امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا اس میں وہ لکھتا ہے،اما بعد بے شک خداوند عالم نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے علم سے مصطفیٰ کیا اور اپنے وحی کا امین بنایا اور اپنی مخلوقات پر پیغمبرؐ بنایا اور اللہ نے مسلمانوں میں سے نبیؐ کے مددگار چنے اور ان مددگاروں کے ذریعہ آپ کی مدد کی نبیؐ کے سامنے اور ان مسلمانوں کی منزلت اسلام کے اعتبار سے ہوئی پھر ان لوگوں میں افضل فی الاسلام خدا و رسولؐ کا سب سے زیادہ خیز خواہ وہ ہوا جو نبیؐ کے بعد خلیفہ ہوا اور پھر اس خلیفہ اور تیسرے نمبر پردہ مظلوم خلیفہ(عثمان)لیکن علیؑ آپ نے سب سے حسد کیا اور سب کے خلاف بغاوت کی ہم نے محسوس کیا کہ آپ اب بھی اس معاملے میں آمادہ جنگ ہیں اور آپ کی گفتگو میں لگاؤ ہے،آپ کی ٹھنڈی سانس اور خلفا کے لئے آپ کی سستی کو ہم اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ہر خلیفہ کے پاس آپ کو اس طرح کھینچ کے لیجایا جاتا ہے جیسے سرکش اونٹ کو کھینچا جاتا ہے،یہاں تک کہ آپ کراہت کے ساتھ بیعت کرتے تھے۔(1)

گذشتہ صفحات میں امیرالمومنین علیہ السلام کی تصریحات،جو آپ نے خلافت کے معاملے میں معاویہ کے خط کے جواب میں فرمائی تھیں پیش کی جاچکی ہیں،معاویہ نے لکھا تھا کہ آپ نے بہت تنگ آکے اور مجبور ہو کے ابوبکر کی بیعت کی تھی،اس بیعت کو توڑ دینا چاہتے تھے اور ان کی بیعت کو برا سمجھتے تھے۔

9۔روایت ہے کہ امام حسن علیہ السلام معاویہ کے پاس بیٹھے تھے اور دونوں میں کچھ نفرت انگیز گفتگو ہورہی تھی،پھر معاویہ نے آپ کی خدمت میں تین لاکھ(درہم یا دینار)پیش کئے جب آپ اٹھ کے چلے گئے تو یزید نے معاویہ سے کہا خدا کی قسم میں نے ایسا بےباک انداز گفتگو وہ بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وقعۃ صفین ص:86۔87،(شرح نہج البلاغہ ج:5ص:15ص:74 انساب الاشراف ج:3ص:66۔67،امر صفین المناقب للخوارزمی ص:251 العقد الفرید ج:4ص:307۔308،صبح الاعشی ج:1ص:273

۱۹۱

آپ(یعنی خلیفۃ المسلمین)سے نہیں دیکھا جیسا کہ حسن ابن علیؑ نے آپ سے روا رکھا اس کے باوجود آپ نے انھیں تین لاکھ دے دیئے!معاویہ نے کہا بیٹا حق تو انھیں کا ہے نہ تمہارا!ان میں سے جو بھی آئے اس پر تھوڑا مٹی ڈال دیا کرو(کچھ دیدیا کرو)(1)

عمرو بن عاص کی بات بھی سنئے

10۔ایک مجلس میں عمروعاص،معاویہ اور امام حسنؑ بیٹھے تھے،علیؑ کی بات نکلی تو عمروعاص نے کہا:وہ(علیؑ)ابوبکر کو گالی دیتے تھے،ان کی خلافت کو غلط سمجھتے تھے اور ان کی بیعت سے انکار کررہے تھے پھر بیعت کی بھی تو جبر و اکراہ کے بعد۔(2)

عبداللہ بن زبیر کا نظریہ

کے سابقہ کارناموں کو یاد دلانے کے ساتھ پیغمبرؐ سے ان کی قرابتداری کا بھی تذکرہ کیا ہے،میں اور تمہارے باپ دور پیغمبرؐ میں ساتھ ہی رہتے تھے اور ابوطالب کے بیٹے کا حق خود پر لازم سمجھتے تھے اور ان کو خود سے افضل مانتے تھے،جب اللہ نے نبیؐ برحق کو اپنی نبوت کے لئے منتخب کیا،اپنا وعدہ پورا کیا اور نبیؐ کی دعوت کو ظاہر عبداللہ بن زبیر کی گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیں،ابن عباس ہیں،عبداللہ بن زبیر ابن عباس پر طعنہ زنی کرتے ہوئے کہاتا ہے وہ موجود تھے اور زبیر کے بیٹے کی بات پر اعتراض بھی کیا تھا عبداللہ بن زبیر بولے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ابوبکر کی بیعت غلط تھی،اچانک تھی اور زبردستی ہوگئی،سنو!ابوبکر کی شان اس طرح کے کلمات سے بہت بلند ہے،لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر سقیفہ کا واقعہ نہ ہوتا تو حکومت ان کے ہاتھ میں آجاتی،پس ابن عباس بولے اے ابوبکر،عمر اور خلافت کے بارے میں بڑھ بڑھ کے بولنےوالے ذرا ہوش میں رہنا!بخدا وہ دونوں کامیاب نہیں ہوئے نہ ان میں سے ایک بھی کامیاب ہوا!ہمارے صاحب(علیؑ)ان دونوں سے بہتر ہیں چاہے وہ کتنا ہی کامیاب ہوجائیں،ہم نے آگے بڑھنےوالے کے تقدم کو اس لئے برا نہیں کہا کہ ہماری آنکھیں عیب دار ہیں،اگر ہمارے صاحب(علیؑ)کو خلافت میں مقدم رکھا جاتا تو وہ ہر طرح سے اہل ثابت ہوتے اور ہر سزاوار خلافت سے زیادہ سزاوار خلافت ہوتے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:16ص:12، (2)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:287-----(3)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:132،

۱۹۲

علمائے جمہور کی حدیثیں اس سلسلے میں کثرت سے ہیں جس کو ذوق نظر رکھنےوالا مختلف کتابوں میں دیکھ سکتا ہے،یہ تمام حدیثیں پکار کر کہہ رہی ہیں کہ امیرالمومنینؑ اور باقی اہل بیت علیہم السلام،غیروں کی خلافت پر راضی نہیں تھے نہ کسی خلیفہ کے مویّد تھے،وہ واقعات جو دور خلافت میں واقع ہوئے وہ سب کے سب علیؑ اور اہل بیتؑ رسولؐ کی مرضی کے خلاف تھے اور یہ حضرات دونوں خلفا سے سخت متنفر اور بالکل الگ تھے۔

علامہ علی بن فارقی کی باتیں

اس موقعہ پر ابن ابی الحدید کا قول ملاحطہ فرمائیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے مدرسہ بغداد کے مدرس علی بن فارقی سے پوچھا کہ کیا(معاملہ فدک میں)فاطمہؑ سچ کہہ رہی تھیں،انھوں نے کہا بالکل سچ کہہ رہیں تھیں،میں نے پوچھا پھر ابوبکر نے انھیں فدک دے کیوں نہیں دیا جب وہ ابوبکر کی نظر میں اپنے دعوے میں سچی تھیں!ابن فارقی یہ سن کر مسکرانے لگے پھر ایک لطیف اور پسندیدہ بات روا روی اور مزاحیہ انداز میں کہہ دی حالانکہ وہ بڑے معزز،محترم اور بہت کم ہنستے تھے،کہنے لگے اگر ابوبکر صرف دعوائے فدک پر فاطمہؑ کو فدک دیدیتے تو وہ دوسرے دن اپنے شوہر کے لئے دعوائے خلافت لیکر پہنچ جاتیں اور ان کو ان کی جگہ سے ہٹادیتیں اور ابوبکر کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا نہ کوئی بنیاد تھی جس پر وہ کھڑے ہوتے،اس لئے کہ وہ اپنے آپ اس طرح انھیں صادقہ مان کر اپنے کو محکوم کر بیٹھے پھر فاطمہؑ جو بھی دعویٰ کرتیں انھیں اس کی تصدیق کرنا پڑتی اور بغیر کسی گواہ و شہود کے ان کی بات ماننی پڑتی(استاد ابن فارقی کی)یہ باتیں کاملاً صحیح ہیں اگر چہ انھوں نے یہ باتیں ہنسی مزاق میں ہی کہی ہیں(1)

مندرجہ بالا واقعہ اس بات کا شاہد ہے کہ اھلبیتؑ اپنے حقِ خلافت سے دست بردار نہیں ہوئے تھے(یہ الگ بات ہے کہ وہ غاصبوں سے اپنا حق واپس لینے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے)اور اگر ان کو استطاعت حاصل ہوتی تو ضرور اپنا حق واپس لےلیتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:16ص:284

۱۹۳

وہ واقعات جن سے اہل بیتؑ کا خلافت پر عدم اقرار ثابت ہوتا ہے

امر ثانی:مورخین و اہل حدیث نے جو واقعات نقل کئے ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت اطہارؑ نے کسی بھی دور خلفائے غاصبین کی خلافت کا اقرار نہیں کیا نہ اہل بیتؑ کے خاص لوگوں نے کبھی اقرار کیا،لوگ ان سے دشمنی بھی اس وجہ سے کرتے تھے کہ وہ حضرات خلافت کے منکر تھے،ان حضرات نے پہلے تو اپنا حق ظاہر کرنے کی کوشش کی پھر جب دیکھا کہ حق گو اور حق پرست بہت کم لوگ ہیں جو ان کی نصرت کے لئے ناکافی ہیں تو خاموش بیٹھ گئے اور بظاہر تسلیم ہوگئے لیکن یہ خاموش اور استسلام بھی اس لئے تھا کہ دشمن صرف انکار خلافت کی بنا پر ان کے در پئے آزار تھے،مسلسل دھمکیاں دی جارہی تھیں جس کی وجہ سے وہ دشمن کے مقابلہ میں سخت موقف نہیں اختیار کرسکے اور حالات سے سمجھوتہ کرکے ان کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگئے۔

سقیفہ کی باتیں

1۔تاریخ میں یہ باتیں اچھی خاصی مشہور ہیں اور بہت وضاحت کے ساتھ ملتی ہیں کہ لوگوں نے امیرالمومنین علیہ السلام،آپ کے اہل بیتؑ اور اصحاب کو گھر میں بیٹھے رہنے پر مجبور کردیا تھا،اہل بیتؑ اور ان کے اصحاب خاص کو(جب بیعت کے لئے بلایا گیا تو)بیعت سے صاف انکار کردیا،دوسرے فریق نے ان پر سختی کی اور زبردستی کی اور زبردستی گھر سے نکالنے کی کوشش کی تا کہ وہ لوگ بیعت کرلیں یہ ساری باتیں تاریخ میں بہت تفصیل سے ملتی ہیں یہاں ان کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔(1)

ابن ابی الحدید،مسعودی کے حوالے سے لکھتے ہیں((عروہ بن زبیر اپنے بھائی کو الزام سے بری کرنے کی کوشش کرتا تھا،اس کے بھائی نے بنی ہاشم کے محلّہ کا محاصرہ کیا تھا اور ان کے جلانے کے لئے لکڑیاں اکھٹا کی تھیں،عروہ کہتا تھا کہ میرے بھائی نے یہ سب کچھ اسلامی اتحاد کے لئے کیا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ یعقوبی ج:2ص:126،واقعہ سقیفہ بنی سعدہ اور ابوبکر کی بیعت،الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:15سعد بن عبادہ کا انکار بیعت کرنا،ص:16،شرح نہج البلاغہ ج:6ص:45،

۱۹۴

اور اس لئے کہ مسلمانوں میں اختلاف نہ ہو،لوگ ایک جھنڈے(پرچم)کے نیچے آجائیں اور بات صرف ایک رہے،یہ کام اس نے عمر کی پیروی میں کیا تھا(انھوں نے اور((عمر نے))بھی یہ نیک کام کیا تھا؟!)جب بنی ہاشم نے ابوبکر کی بیعت کرنے میں دیر کی تو انھوں نے آگ اور لکڑی منگائی تا کہ ان کے گھروں کو جلادیں تو وہ نکلنے پر مجبور ہوجائیں گے۔(1)

ابھی گذشتہ صفحات میں معاویہ کا خط بھی گذرچکا ہے جس میں اس نے یہ لکھا تھا کہ امیرالمومنین علیؑ کو بیعت کے لئے سرکش اونٹ کی طرح کھینچا جاتا تھا۔(2)

امیرالمومنینؑ پر جب بیعت کے لئے سختی کی جارہی تھی تو آپؑ نے قبر پیغمبرؐ کی طرف رخ کرکے فریاد کی(اے میری ماں کے بیٹے اس قوم نے مجھے کمزور کردیا ہے اور قریب ہے کہ مجھے قتل کرڈالیں)(3)

اُدھر ابوبکر بھی مرنے کے وقت کہہ رہے تھے کاش میں نے پیغمبرؐ کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کی تفتیش نہ کی ہوتی،کاش میں نے بنت پیغمبرؐ کے گھر میں مردوں کو داخل نہ کیا ہوتا،چاہے وہ گھر مجھ سے جنگ ہی کے لئے بند کیا گیا ہوتا۔(4)

سقیفہ کے بعد کیا ہوا

2۔ایک جماعت امیرالمومنینؑ کے پاس آئی اور وہ لوگ کہنے لگے اے امیرالمومنینؑ آپ اپنے حق کے غاصبوں سے جنگ کریں،امیرالمومنینؑ نے فرمایا کہ:کل آپ لوگ تشریف لائیں لیکن اپنا سرمنڈا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاگہ ج:20ص:147،اور مروج الذھب ج:2ص:79،طبع بولاق مصر1283سنہ

(2)شرح نہج البلاغہ ج:3ص:30،مناقب خوارزمی ص:301،شرح نہج البلاغہ،ج:15ص:74،العقد الفریدج:4ص:308،انساب الاشراف ج:3ص:66۔67،وقعۃ الصفین،ص:87،لابن دمشقی،ج:1ص:357،صبح الاعشی،ج:1ص:228،

(3)الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:137،شرح نہج البلاغہ ج:11ص:111،

(4)تاریخ یعقوبی ج:2ص:137،مجمع الزوائدج:5ص:203،کتاب الصداقت،باب کراہۃ الولایت،الاحادیث المختارہ ج:1ص:89،المعجم الکبیرج:1ص:62،میزان الاعتدال ج:5ص:135،تاریخ دمشق ج:30ص:418،لسان المیزان ج:4ص:189،الضعفاءللعقیلی،ج:3ص:420،تاریخ طبری ج:2ص:353،

۱۹۵

لیجئےگا جس سے جنگ پر آپ کی رضا معلوم ہوگی،دوسرے دن آپ کے پاس تین(1) یا چار آدمی سے زیادہ نہیں پہنچے۔(2)

3۔ابن ابی الحدید نے جوہری کی کتاب(السقیفہ)سے لکھا ہے کہ امیرالمومنینؑ نے صدیقہ عالم صلوات اللہ علیہا کو ایک خچر پر بٹھایا اور انصار کے ہر دروازے پر صدیقہ صلوات اللہ علیہا کو لیکر گئے،دونوں(معصوموں)نے انصار سے نصرت کا سوال کیا تا کہ غاصبوں سے اپنا حق واپس لے سکیں،لیکن انصار نے یہ بہانہ کیا کہ ابوبکر کی بیعت پہلے ہوچکی ہے اب کچھ نہیں ہوسکتا لیکن دونوں(معصوموں)نے انصار کا یہ عذر قبول نہیں کیا۔(3)

واقعات سقیفہ پر صدیقہ طاہرہ صلوات اللہ علیہا کا رد عمل

4۔یہ تو سب کو معلوم ہے کہ صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا شیخین سے غضبناک تھیں،غصہ کی وجہ شیخین کے کالے کر توت تھے،انھوں نے آپ کے شوہر کا حق اور ان کا حق فدک غصب کرلیا تھا۔

شیخین چاہتے تھے کہ معصومہؑ کی خدمت میں باریابی ہو اور ان کو راضی کرلیں لیکن معصومہؐ ان کو اپنے پاس آنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں آخر انھوں نے مولائے کائناتؑ سے کہا کہ آپ سفارش کردیں تا ایک بار ہم صدیقہؐ کی خدمت میں پہنچ تو جائیں۔

مولائے کائناتؑ نے کسی طرح صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا کو راضی کیا اور ان دونوں کے لئے اجازت لےلی،جب دونوں صدیقہؐ کی خدمت میں پہنچے تو صدیقہ سلام اللہ علیھا نے اپنا رخ دیوار کی طرف کرلیا،یہ دیکھ کر دونوں گریہ و زاری کرنے لگے،صدیقہؐ نے فرمایا سنو!(یہ سب ڈرامہ بازی چھوڑو)میں تمہیں پیغمبرؐ کی ایک حدیث سناتی ہوں کیا تم اس کا اعتراف اور عملی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ یعقوبی ج:2ص:126، (2)شرح نہج البلاغہ ج:11ص:14،

(3)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:13،الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:16،بیعت ابوبکر سے امیرالمومنین کا انکار

۱۹۶

تصدیق کروگے،دونوں نے کہا ہاں آپؐ نے فرمایا میں تمہیں خدا کا واسطہ دیکے پوچھتی ہوں کہ پیغمبرؐ نے کیا یہ نہیں فرمایا تھا؟کہ(فاطمہؐ کی رضا میری رضا اور فاطمہؐ کا غصہ میرا غصہ ہے۔

جو میری بیٹی فاطمہؐ سے محبت کرے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو فاطمہ کو راضی رکھے وہ مجھے راضی رکھتا ہے ار جو فاطمہ کو غضبناک کرے وہ مجھے غضبناک کرتا ہے)تم نے یہ حدیث سنی ہے یا نہیں؟دونوں نے کہا ہاں ہم نے پیغمبرؐ سے یہ حدیث سنی ہے،آپؐ نے فرمایا میں خدا اوراس کے فرشتوں کو گواہ بنا کے کہتی ہوں کے تم دونوں نے مجھے ناراض کیا ہے اور مجھے راضی نہیں رکھا ہے اور جب میں نبیؐ سے ملوں گی تو تم دونوں کی ضرور شکایت کروں گی۔

ابوبکر بولے:میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں اس کی ناراض گی اور آپ کی ناراضگی سے اے فاطمہ پھر ابوبکر پر گریہ طاری ہوا،اتنا روئے کہ لگتا تھا اب مرجائیں گے،لیکن معصومہ سلام علیہا مسلسل یہ کہتی رہیں کہ خدا کی قسم میں ہر نماز میں تمہارے لئے بددعا کروں گی۔(1)

5۔صدیقہ طاہرہؑ نے امیرالمومنین علیؑ کو وصیت کی تھی کہ وہ دونوں((جن سے آپؐ ناراض تھیں،آپ کے جنازہ میں شریک نہ ہوں اور ان کو جنازہ سے الگ رکھنے کے لئے آپ کا جنازہ شب میں اٹھایا جائے،نتیجہ میں آپ کے جنازہ میں چند افراد سے زیادہ شریک نہیں تھے جنازہ شب میں اٹھا اور نشان قبر چھپا دیا گیا جو آج تک ظاہر نہیں ہے(2) یہ ساری باتیں باتیں صرف اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:17،کیفیت بیعت امیرالمومنینؑ کے باب میں،اعلام النساء ج:4ص:124،فاطمہ بنت محمدؐ،

(2)حضرت فاطمہ زہراؐ کے حق کا غصب کرنے کا واقتہ نیز رات میں دفن ہونے اور صحابہ کے آپ کے دفن میں شریک نہ ہوکنے کا واقعہ،صحیح بخاری،ج:4ص:1549،کتاب مغازی باب غزوہ خیبر،صحیح بخاری،ج:6ص:2474،کتاب الفرائض باب قول النبیؐ:لا نورث ما تکناہ صدقۃ،صحیح مسلم،ج:3ص:1380،کتاب الجہاد السیر باب قول النبیؐ لانورث ماترکناہ صدقۃ،صحیح ابن حبان،ج:11ص:153،باب الغنائم،ذکر خمس،مسند ابی عوانہ،ج:4ص:251،مبدا کتاب جہاد،المصنف لعبد الرزاق،ج:5ص:472،فی خصومۃ علی و العباس،الطبقات الکبریٰ،ج:2ص:315،فی ذکر میراث رسول اللہؐ،الامامۃ و السیاسۃ،ج:1ص:17،کیفیت بیعت امیرالمومنینؑ،طرح التثریب،ج:1ص:150،حضرت فاطمہؐ کی سوانح حیات میں،الاصابۃ،ج:8ص:59حضرت فاطمہؐ کی سوانح حیات میں،اور دیگر مصادر و منابع تاریخی میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

۱۹۷

لئے تھیں کے معصومہ عالم صلوات اللہ علیھا شیخین کی حرکتوں سے عاجز تھیں اور ان کی باتوں کی عملی تردید پیش کررہیں تھیں تا کہ ثابت ہوجائے آپ ان سے اور ان کی کشتی والوں سے سخت بیزار ہیں یا یہ کہ آپ نے ان سے آنکھیں موڑلی تھیں اورتبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

ابوبکر کی بیعت سے امیرالمومنینؑ کا باز رہنا

6۔امیرالمومنینؑ نے بہت دنوں تک یا کچھ دنوں تک(1) ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور(بفرض محال)اگر بیعت کر بھی لی تو ان کی حکومت میں داخل نہیں ہوئے اور ان کے ساتھ رہن سہن کو برقرار نہیں رکھا مگر اس لئے کہ آپ کے آپ اسلالم کے نقصان پہنچنے سے خائف تھے،جیسا کہ آپ نے اہل مصر کو ایک خط میں لکھا،میں نے اپنے ہاتھ کو روکے رکھا یہاں تک کہ دیکھا لوگ اسلام سے واپس پلٹ رہے ہیں اور دین محمد کو مٹانے کی دعوت دے رہے ہیں تو میں ڈرا کہ اگر میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہیں کروں گا تو اسلام میں رخنہ پڑھ جائےگا یا اسلام کی عمارت کو منہودم ہوتے ہوئے دیکھوں تو یہ تمہاری حکومت میرے ہاتھ سے نکلنے کی وجہ سے جو مصیبت آئی ہے اس مصیبت سے بڑی مصیبت ہوگی،حالانکہ دنیا کی حکومت تو محض چندوں کی ہے اور یہاں جو ہوتا ہے فوراً مٹ جاتا ہے یا گویا کہ دنیا بے موسم کا برستا ہوا بادل ہے پس میں اسلام کی مدافعت کے لئے اٹھ کھڑا ہوا،یہاں تک کہ باطل برباد ہوگیا اور مٹ گیا اور دین مطمئن ہوکے گنگنانے لگا(ٹھہرگیا)۔(2)

شوریٰ کے واقعات اور امیرالمومنینؑ اور آپؑ کے اصحاب کا نظریہ

7۔امیرالمومنینؑ نے شوریٰ کے واقعات کی اکثر شکایت کی ہے جس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں پیش کی جاچکی ہے،سب جانتے ہیں کہ شوری کی بنیاد ہی زبردستی اور تغلّب پر رکھی گئی تھی،شوریٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:4ص:1549،کتاب مغازی،باب غزوہ خیبر،صحیح مسلم ج:3ص:1380،کتاب جہاد و السیر،قول نبیؐ کے باب میں،ہم میراث نہیں چھوڑتے بلکہ جو چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے،صحیح ابن حبان ج:11ص:153،باب غنائم،مسند ابی عوانہ ج:4ص:251،المصنف لعبد الرزاق ج:5ص:472۔473،الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:17،

(2) نہج البلاغہ ج 3 ص:119

۱۹۸

کے پہلے ہی یہ بات طے ہوچکی تھی کہ جو شوریٰ کے فیصلے سے انکار کرے اس کی گردن ماردی جائے اور عمر نے یہی وصیّت ابوطلحہ انصاری سے کی تھی۔

طبری کہتے ہیں کہ جب عبدالرحمٰن نے عثمان کی بیعت کرلی تو امیرالمومنینؑ نے ان سے کہا تم ایک زمانے سے ان کی حمایت کررہے ہو،یہ کوئی پہلا دن نہیں ہے کہ تم نے ہم پر زبردستی کی ہے،میں صبر جمیل کروں گا اور اللہ سے مدد طلب کروں گا،خدا کی قسم تم نے عثمان کو ولی اس لئے بنایا ہے کہ حکومت تمہارے پاس واپس آجائے اللہ تو ہر روز ایک الگ ہی شان میں ہے))عبدالرحمٰن نے کہا علیؑ اپنے نفس کے خلاف سبیل نہ پیدا کرو(صریحی دھمکی دی ہے قتل کی)(1)

کچھ دنوں کے بعد عبدالرحمٰن سے عثمان کی بات بگڑگئی اور عبدالرحمٰن نے جو امیدیں لگائی تھیں وہ عثمان پوری نہیں کرسکے تو مولائے کائناتؑ نے عبدالرحمٰن سے کہا:عوف کے بیٹے!عثمان نے تمہارے احسان کا کیا بدلہ دیا؟بہت سے بھروسہ کرنےوالے شرمندہ ہوئے ہیں اور انسان جب اپنے اعمال غیراللہ کے لئے انجام دیتا تو مدح کرنےوالے لوگ اس کی مذمت کرنے لگتے ہیں۔(2)

ابن ابی الحدید نے شعبی کے حوالے سے لکھا کہ اہل شوریٰ نے یہ طے کیا جو بیعت نہیں کرتا ہے اس کی یک زبان ہو کر مخالف کی جائے،تو وہ علیؑ کے پاس آئے اور بولے اٹھئے اور بیعت کر لیجئے،آپ نے فرمایا:اگر میں نہ کروں تو؟کہنے لگے ہم آپ سے جہاد کریں گے،پس آپ عثمان کے پاس گئے اور بیعت کرلی اس وقت آپ یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے سچ کہا تھا۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:2ص:583،فی قصۃ الشوریٰ،شرح نہج البلاغہ ج:12ص:264،تاریخ مدینۃ لابن شبۃ ج:3ص:930،العقد الفریدج:4ص:259،العسجدۃ الثانیۃ فی خلافۃ عثمان

(2)شرح نہج البلاغہ ج:2ص:316،

(3)شرح نہج البلاغہ ج:9ص:55،

۱۹۹

جوہری اور شعبی دونوں ہی نے عبدالرحمٰن بن عوف کی کوششں کی حکایت کی ہے،لکھتے ہیں:عبدالرحمان بن عوف نے کہا:عثمان نے ہاتھ کھولا تو انھوں نے بیعت کی اور ارباب شوریٰ بیعت کر کے جانے لگے سوائے علی ؑ کے،علی ؑ نے بیعت نہیں کی،پس عثمان لوگوں کے سامنے آئے اور خوشی سے ان کا چہرہ چمک رہا تھا،علی ؑ بھی نکلے تو آپ کے چہرہ سے سستی ظاہر ہو رہی تھی اور(ان دونوں مورخوں کے الفاظ میں)چہرہ تاریک تھا،آپ فرما رہے تھے اے ابن عوف!یہ پہلا دن ہماری مظلومیت اور تمہارے ظلم کا نہیں ہے ہمارا حق ہم سے چھین لیا اور ہم پر دوسروں کو ترجیح دی گئی یہ تو تم لوگوں کا ہمارے خلاف ہمیشہ کا دستور ہے اور یہ طریقہ تم نے ترکہ میں چھوڑا ہے ۔(1)

شوریٰ کے متعلق مولائے کائنات ؑ کے اصحاب خاص کے نظریات و موافقت کی تصریح کتابوں میں بھری پڑی ہے،ذوق جستجو رکھنےوالے کے لئے ان معلومات کا اکھٹا کرنا بہت آسان ہے ویسے ہم چوتھے سوال کے جواب میں بھی شوریٰ کے حوالے سے کچھ عرض کریں گے انشااللہ تعالیٰ ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ابوبکر و عمر کے سلسلے میں شیعہ بس اتنا ہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے امام امیرالمومنین علیہ السلالم اہل بیت ؑ اور اصحاب پیغمبر ؐ جو مولیٰ علی ؑ کے ہم نوا تھے نے فرمایا ہے اس سے زیادہ کچھ اور آپ شیعوں کا موقف مولیٰ علی ؑ ،اہل بیت ؑ اور اصحاب خاص پیغمبر ؐ سے زیادہ سخت موقف نہیں پائیں گے ۔

اب اگر کوئی حقائق کا انکار کرنا بھی چاہے اور یہ انکار بھی شک کی بنیاد پر یا خبر آحاد کی وجہ سے ہوگا یا اس وجہ سے کہ اسناد کی وضاحت نہیں ہوئی ہے یا اس وجہ سے کہ استدلال کرنے میں زور و زبردستی سے کام لیا گیا ہے تو وہ انکار قابل نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص گذشتہ صفحات میں مرقوم تمام باتوں کا انکار اس کی تکذیب یا اس میں تشکیک و تجاہل نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان کی مجموعی دلالت کو نقص کرسکتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 53 ،

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367