فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206443 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کے خاتمے پر مذہب شیعہ کی حقیقت اس پر ظاہر اور روشن ہوگئی اور اس نے مذہب حقہ امامیہ اختیار کر لیا۔ اور تمام بلاد ایران میں شیعہ مذہب کی آزادی کا اعلان نافذ کردیا ۔ اور اسی وقت سے سارے حکام اور ولایتوں کے گورنروں کو اطلاع دے دی کہ ساری مسجدوں اور مجمعوں میں امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے نام کا خطبہ پڑھیں اور حکم دیا کہ دیناروں پر تین متوازی سطروں میں کلمہ طیبہ" لا اله الا اﷲ محمد رسول اﷲ علی ولی اﷲ" کو سکہ نقش کیا جائے۔

جناب علامہ حلی کو جنہیں ایک اختلافی مسئلہ حل کرنے کے لیے جلہ سے بلوایا تھا ( اور اسی کی بنا پر اس جلسے میں مناظرہ کا دروازہ کھل گیا ۔ اور تشیع کی حقیقت ظاہر ہوئی) اپنے پاس ٹھہرا لیا آپ کے لیے مدرسہ سیارہ تعمیر کرایا اور طالبان علوم آپ کے گرد جمع ہوگئے چونکہ آپ بلا تقیہ اور کھلم کھلا حقائق کو بیان فرماتے تھے لہذا بے خبر لوگوں نے بھی طریقہ حقہ امامیہ کا پتہ لگا لیا، ولایت کا آفتاب درخشان ابر خفا سے باہر آگیا اور اسی زمانے سے مذہب حقہ، شیعہ کی روشنی جہالت و نادانی کا پردہ چاک کر کے ظاہر اور نمایاں ہوئی۔

تقریبا سات سو سال کے بعد با اقتدار صفوی بادشاہوں کی حمایت اور اس زمانے کی مکمل تبلیغات کے اثر سے باطل تیرہ و تار بادل بالکل چھٹ گئے اور ولایت و امامت کا آفتاب عالمگیر ضیا پاشی کرنے لگا۔

چنانچہ ایرانی اگر چہ ایک روز مجوسی اور دو خداؤں ( یزادن و اہرمن) کے معتقد تھے لیکن جس وقت سے انہوں نے اہل اسلام کے عقلی دلائل و براہین کو سنا ان کو دل و جان سے قبول کیا اور اب تک پورے خلوص کے ساتھ اپنے اسلامی عقیدے پر ثابت قدم ہیں۔

اگر ایرانیوں میں چند افراد ایسے پیدا ہوجائیں جو مجوسی ہوں یا کسی طریقے کے پابند نہ ہوں یا غلات کے سلسلے میں شامل ہوکر حضرت علی(ع) کو ان کی منزل سے بلند کر کے الوہیت کے درجے پر پہنچا دیں اور ان کو بندوں کا خالق و رازق سمجھنے لگیں ۔، حلول و اتحاد اور وحدت وجود کے قائل ہوں تو اس کو پاک نفس ایرانیوں کی اصل جماعت اور اکثریت سے کوئی ربط نہیں ہے۔

اس طرح کے غیر مناسب اور بے عقل و خرد افراد ہر قوم و ملت میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن شریف و عقلمند ایرانی قوم کی اکثریت وحدانیت حق تعالی اور نبوت خاتم الانبیاء پر مضبوط عقیدے سے اور ایمان کی حامل ہے۔ اور رسول اﷲ(ص) کے حسب الحکم سب امیرالمومنین علیہ السلام اور ان حضرت کے گیارہ فرزندوں کے پیرو ہیں۔

حافظ : آپ کے ایسے حجازی ، مکی اور مدنی بزرگ سے تعجب ہے کہ چند روز کے لیے ایران میں قیام کر لیا تو ایرانیوں کی اس قدر طرفداری کررہے ہیں۔ اور ان کو علی کرم اﷲ وجہ ، کا پیرو سمجھتے ہیں باوجودیکہ علی (ع) خود خدائے تعالی کے مطیع و فرمانبردار بندے تھے لیکن ایرانی شیعہ سب کےسب آپ کو خدا سمجھتے ہیں اور

۴۱

خدا سے جدا نہیں جانتے اور اپنے اشعار میں آپ کو بمنزلہ حق بلکہ عین حق قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ ان کے دلوں اور مکتوبات میں ا س طرح کی کفریات واضح طور پر موجود ہیں کیا ۔ اس قسم کے اشعار ایرانی شیعہ عارفین سے وارد نہیں ہیں جنہیں علی کرم اﷲ وجہ کی زبان سے نقل کرتے ہیں ۔ ( حالانکہ علی(ع) قطعا اس قسم کے عقیدے سے بیزار ہیں۔)

من طلسم عیب و کنز لاستم چون بہ کنیز لارسی الاستم

یعنی از اﷲ ولا بالا ستم نقطہ ام بار بار گویا ستم

کثرت تاترات پندارت کند

مظہر کل عجائب کیست من مظہر سرِ غرائب کیست من

صاحب عون نواسب کیست من در حقیقت ذاب واجب کیست من

ایک دوسرے شخص نے کہا ہے۔

در مذہب عارفان آگاہ ( گمراہ) اﷲ علی، علی است اﷲ

خیر طلب : آپ سے تعجب ہے کہ بغیر تحقیق کے قوم ایرانی شیعوں کو غالی اور علی پرست سمجھتے ہیں اور اس قسم کی باتوں سے بے خبر سنی بھائیوں کے سامنے معاملے کو شبہ کر کے برادر کشی کا دروازہ کھولتے ہیں ، چنانچہ افغانستان ، ہندوستان، ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ میں اس قدر شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا کہ خون کے دھارے بہہ گئے۔

ازبکستان اور ترکستان کے مسلمان اپنے علماء کے بھڑکانے سے کہتے تھے کہ شیعہ علی پرست مشرک اور کافر ہیں اور ان کا قتل واجب ہے ان سبھوں نے ایرانی مسلمانوں کا اس کثرت سے خون بہایا کہ تاریخ کے صفحات کو داغدار بنا دیا۔

بے چارے سنی عوام آپ کے ایسے بزرگ علماء کی رہنمائی میں ایرانی مسلمانوں کو نگاہ کینہ بلکہ کفر و شرک اور ارتداد کے خیالی سے دیکھتے ہیں۔

گذشتہ زبانوں میں ترکمان لوگ خراسان کے راستے میں سر راہ ایرانی قافلوں کو گرفتار کر کے قتل و غارت میں مشغول ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ جو شخص سات عدد رافضیوں ( شیعوں ) کو قتل کردے اس پر بہشت واجب ہوجاتی ہے۔

قطعی طور پر جان لیجئے کہ اس طرح کے افعال اور قتل عام کی جواب دہی آپ ہی جیسے حضرات کے ذمے ہے جو ان کے کانوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ شیعہ علی(ع) پرست مشرک اور کافر ہیں اور بے خبر عقیدت مند سنی عوام

۴۲

اس کو قبول بھی کر لیتے ہیں ۔ لہذا بقصد ثواب اس قسم کی حرکتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا

پہلے میں آپ کے جملہ اول کا جواب عرض کرتا ہوں تاکہ ہم لوگ اصل مطلب تک پہنچیں۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ تم حجازی ، مکی اور مدنی ہو کر ایرانی بھائیوں کی طرفداری کس لیے کرتے ہو؟ تو یہ بدیہی بات ہے کہ مجھ کو اپنے مکی مدنی اور محمدی ہونے پر فخر ہے لیکن نسلی تعصب جو جہالت اور نادانی کے آثار میں سے ہے میں اپنے دل مین نہیں رکھتا ہوں۔ اس لیے کہ میرے جد بزرگوار حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے باوجودیکہ ہر ملت کی قومیت اور وطنیت کی حفاظت ملحوظ رکھی ہے۔ اور جملہ حب الوطن من الایمان کے ساتھ ہر قوم و ملت کو محب وطن کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن آں حضرت (ص) نے النافوں کے اتحاد اور ہر فرد بشر کے دل سے ہر طرح کے بیہودہ خیالات دور کرنے کے لیے جو بڑے قدم اٹھائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کو کلی طور پر جڑ سے کاٹ دیا اور ایک بلند اور موثر آواز کے ساتھ دنیا والوں کو اپنے اس اعلان کی طرف متوجہ فرمایا کہ

"لافخر للعرب علی العجم ولا للعجم علی العرب ولا للابيض علی الاسود ولا للاسود علی الابيض الا بالعلم و التقی ۔" (1)

اور نیز اس لیے کہ عالم اور متقی اشخاص کو اشتباہ نہ پیدا ہوجائے کہ آں حضرت (ص) کے ارشاد سے سند لے کر تواضع اور خاکساری سے ہٹ جائیں اور دوسروں پر کبر و خودی کا اظہار کرنے لگیں فرمایا ۔

" انا من العرب ولا فخروا فاسيد ولد الآدم ولا فخر ۔ " (2)

نتیجہ کلام یہ کہ میں باوجودیکہ عرب اور سید آدم ہوں لیکن اس نسل اور منزلت سے دوسروں پر کوئی فخر و مباہات نہیں کرتا۔

پیغمبر(ص) کا فخر صرف اس بات پر تھا کہ پروردگار کے اطاعت گذار بندے ہیں۔ آں حضرت(ص) مقام مناجات میں عرض کرتے تھے۔

" کفی بی فخرا ان اکون لک عبدا " یعنی میرے لیے یہی فخر ومباہات کافی ہے کہ تجھ ایسے پروردگار کا بندہ ہوں۔

خدا تعالی سورہ نمبر49 ( حجرات) آیت نمبر13 میں ارشاد فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ عرب کو عجم پر عجم کو عرب پر ، سفید کو سیاہ پر اور سیاہ کو سفید پر کوئی فخر و مباہات نہیں ہے سوا علم و تقوی کے۔

2 ـ میں قوم عرب سے ہوں لیکن ان پر فخر نہیں کرتا میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔ لیکن اس پر فخر نہیں کرتا ہوں۔

۴۳

" يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ " (الحجرات، 13) (1)

اس نے فضل و شرف اور بزرگی تقوی میں قرار دی ہے۔ نیز اسی سورے کے آیت نمبر 10 میں فرمایا ہے:

" إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ "( الحجرات ، 10)

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا ہمیشہ اپنے ایمانی بھائیوں کے درمیان اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو صلح کرا دیا کرو ) چنانچہ ایشائی ، افریقی، یورپی اور امریکی سفید و سیاہ ، سرخ و زرد شہرستانی اور کوہستانی نسلوں کے جملہ افراد لوائے اسلام اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے ماتحت آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر کوئی فخر و مباہات نہیں رکھتے۔

اسلام کے عظیم المرتب قائد حضرت خاتم الانبیاء نے عملی طور پر اس کا ثبوت دیا ہے عجم سے سلمان فارسی کو روم سے صہیب رومی کو اور حبش سے بلال سیاہ کو اپنے آغوش محبت میں قبول فرمایا لیکن اپنے شریف النسل چچا ابولہب کو جو عرب کی بہترین نسل سے تھا اپنے سے دور فرمادیا اور اس کی مذمت میں ایک سورہ نازل ہوا جس میں صریح طور پر ارشاد ہے ۔ تبت یدا ابی لھب۔ ( یعنی ابولہب کے ددنوں ہاتھ قطع ہوجائیں ( جو رسول اﷲ(ص) کے درپے آزار تھے۔)

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں

انسانوں کے تمام فتنہ و فساد اور جنگ و جدال انہیں نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کی بنا پر ہیں۔ جرمنی کے باشندے کہتے ہیں کہ آرین اور جرمنی نسلی سب سے بلند ہے ۔ جاپانی کہتے ہیں کہ سرداری کا حق ان کی زرد نسل کو حاصل ہے اور یورپ والے کہتے ہیں کہ سفید فام لوگ حاکم اور سب کے اوپر افسر ہیں۔ امریکہ کے متمدن ممالک میں اب تک سیاہ فام لوگ اجتماعی حقوق سے محروم ہیں ۔ یہاں تک کہ سفید فاموں کے کیفے ، سینما اور مہمان خانوں میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتے اور سیاہ فام عیسائی کو سفید فاموں کے کلیساء میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے تعجب خیز بات یہ ہے کہ عبادت گاہ میں بھی ایک دوسرے کے برابر بیٹھنے کے حقدار نہیں ، سیاہ کھال کے علماء اور افاضل اگر سفید کھال کے دانشمندوں کے جلسوں میں جاتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ جوتے اتارنے کی جگہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ اے انسانو ! ہم نے سب کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے ۔ اور ان میں مختلف شاخیں اور قبیلے قرار دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو( اور سمجھ لو کہ اصل ونسب اور نسلی سرمایہ افتخار نہیں ہے بلکہ خدا کے نزدیک تم سب میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو تم لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

۴۴

بیٹھیں ، ان کو سفید فاموں کے سامنے علم و ہنر کا اظہار نہ کرنا چاہئیے ایک بوڑھے سیاہ فام عالم کو چاہیئے کہ سفید فام جوان کے سامنے تعظیم بجالائے اور مطیع و فرمانبردار رہے۔ سفید فام اساتذہ سیاہ فاموں کو اپنے مدرسوں میں داخل نہیں کرتے ، یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشنوں پر اگر کوئی سیاہ فام چھوٹ گیا ہو تو ان کو سفید فاموں کے مسافر خانوں میں گھسنے کا اختیار نہیں۔ خلاصہ یہ کہ امریکہ میں سیاہ فام لوگ باوجود ان کوششوں کے جو ان لوگوں کی آزادی کے لیے عمل میں لائی جاتی ہیں) حیوانات میں شمار ہوتے ہیں اور سفید فاموں کی طرح وسائل تمدن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ (1)

لیکن مقدس دین اسلام نے سارے بیہودہ اور موہوم عقائد کو تیرہ سو سال پہلے ہی درمیان سے اٹھادیا تھا، اس کا اعلان ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں چاہے جس نسل اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ یورپ ، ایشا، امریکہ اور افریقہ کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایک دوسرے کے لیے خلوص و محبت کا آغوش کھلا رکھیں اور دنیا کے جس مقام پر بھی ہوں، ہمیشہ ایک دوسرے کے یار و غمگسار رہیں۔ اسلام حجازی، مکی اور مدنی مسلمانوں اور دوسرے ممالک کے مسلمین میں کوئی فرق نہیں کرتا ۔ چنانچہ اگر میری نسل حجازی ، قریشی ، ہاشمی اور محمدی ہے تو جائز نہیں ہے کہ سچی بات کو چھپاؤں اور مہمل خیالات کی بنا پر حق کو پس پشت ڈال دوں ۔ میں قطعی طور پر حجازی گمراہوں سے متنفر اور ایرانی شیعوں کا دوستدار ہوں۔

مادروں را بنگریم و حال را نے درون را بنگریم و قال را

دوسری چیز یہ ہے کہ آپ نے ایرانی غالیوں کو بغیر کسی مناسبت اور دلیل و برہان کے پاک باز موحد اور خالص شیعوں کے ساتھ مخلوط کردیا ہے۔

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے شیعہ سب کے سب حق تعالےٰ کے خالص بندے ہیں۔ خدا اور اس کے بندے و رسول محمد(ص) کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور علی ابن ابی طالب (ع) کے بارے میں پیغمبر(ص) نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کے علاوہ نہ اور کچھ کہتے ہیں نہ ہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہم لوگ حضرت علی(ع) کو پروردگار کا عبد صالح اور رسول اﷲ(ص) کا وصی اور خلیفہ مںصوص سمجھتے ہیں۔ اور جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو اس کے مردود اور اپنے سے الگ جانتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ اٹلی کے قائد اور پیشوا مسولینی نے حکم دیا تھا کہ اس کا نمائندہ ادارہ مجلس اقوام سے نکل آئے۔ اس کا عذر یہ تھا کہ میرے لیے باعث ننگ ہے کہ میرا نمائندہ ایسے مجمع میں بیٹھے جہاں حبشی سیاہ فاموں کا نمائیندہ بیٹھا ہوا ہو۔ لیکن اسلام کے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) نے چودہ سو برس پہلے) بلال سیاہ و حبشی کو اپنے آغوش محبت میں لے لیا اور فرماتے تھے کہ ارحنا یا بلال ! یعنی اے بلال میرے سامنے قرآن پڑھو اور مجھ کو شاد و مسرور کرو ۔ اب ناظرین محترم انصاف کریں اور دیکھیں کہ تفاوت راہ کہاں تک ہے۔

۴۵

جیسے مسلمانوں میں سے غلات از قبیل سائیبہ ، خطابیہ، غرابیہ، علیادیہ مخمہ وبزیفیہ اور انہیں کے امثال جیسے نصیریہ جو ایران کے بعض شہروں اور قریوں اور دوسرے بلاد میں مثل موصل اور شام کے اہل حق کے نام سے متفرق طور پر آباد ہیں۔

شیعہ بالعموم ان سے علیحدہ اور ان کو کافر و مرتد اور نجس سمجھتے ہیں ۔ فقہ کی ساری کتابوں اور عملیہ رسالوں میں فقہائے امامیہ نے غلات کو کافروں میں شمار کیا ہے کیونکہ وہ لوگ بے شمار فاسد عقیدوں کے حامل ہیں جن میں سے کچھ کہتے ہیں کہ چونکہ جسم کے قالب میں روح کا ظہور محال نہیں ہے ۔ جیسے کہ جبرائیل وحبہ کلبی کی صورت میں پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر ہوتے تھے۔لہذا خدا کی حکیمانہ مصلحت کا تقاضا ہوا کہ اس کی ذات اقدس انسانی قالب میں ظاہر ہو چنانچہ علی(ع) کی صورت اور جسم میں نمایاں ہوا، اسی سبب سے علی(ع) کی منزل کو رسول اﷲ(ص) کی مقدس منزل سے بلند تر سمجھتے ہیں اور خود انہیں حضرت کے زمانے میں شیاطین جن و انس کے بہکانے سے ایک جماعت اس عقیدے کی قائل تھی۔ ہند اور سوڈان کے باشندون کی ایک جماعت آئی اور اس نے آپ کی الوہیت کا اقرار کیا۔ حضرت نے ہر چند ان لوگوں کو نصیحت کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر کار جس طریقے سے کہ کتب اخبار میں درج ہے آپ کے حکم سے دھویں کے کنووں میں ہلاک کردئیے گئے۔ چنانچہ اس قبیلے کی مفصل تشریح علامہ جلیل ملا محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کی تالیف بحار الانوار جلد ہفتم میں لکھی ہوئی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین سلام اﷲ علیہم اجمعین نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ مثلا جو ہماری معتبر کتابوں میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے۔ کہ فرمایا :

" اللَّهُمَّ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنَ الْغُلَاةِ كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مِنَ النَّصَارَى اللَّهُمَّ اخْذُلْهُمْ أَبَداًوَ لَا تَنْصُرْ مِنْهُمْ أَحَداً."

یعنی خداوندا میں گروہ غلات سے بری ہوں ۔ جیسے عیسی بن مریم نصاری سے بیزار تھے ۔ خداوندا ان کو ہمیشہ ذلیل و خوار رکھ۔ اور ان میں سے کسی کی مدد نہ فرما۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :

" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ وَ لَا ذَنْبَ لِي مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَ مُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ وَ أَنَا أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مِمَّنْ يَغْلُو فِينَا وَ يَرْفَعُنَا فَوْقَ حَدِّنَا كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ع مِنَ النَّصَارَى "

یعنی میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوتے ہیں اورمیرے ذمے کوئی گناہ نہیں ہے (یعنی چونکہ میں ان کے عمل سے راضی نہیں لہذا گنہگار نہیں ہوں) ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو میری محبت میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بلا سبب مجھ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں یقینا میں ان لوگوں سے خدا کی طرف بیزاری اختیار کرتا ہوں جو ہمارے بارے میں غلو کرتے ہیں اور ہم کو ہماری حد سے بڑھاتے ہیں جس طرح سے عیسی بن مریم(ع) نے ںصاری سے بیزاری اختیار کی۔

۴۶

نیز فرمایا ہے۔" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ. " ( یعنی میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوتے ہیں، ایک ایسے دوست جو محبت میں غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ دشمن جو مجھ کو میری منزل سے گھٹاتے ہیں۔

اسی وجہ سے شیعہ امامیہ اثنا عشریہ ہر اس شخص سے بیزاری اختیار کرتے ہیں جو نظم و نثر میں امیرالمومنین (ع) اور ان کے اہل بیت اطہار (ع) کے لیے غلو کرے اور مقام تعریف میں ان کو منزل سے بلند قرار دے جو خدا و رسول(ص) نے ان کے لیے معین فرمائی ہے اور بندگی سے خدائی پر پہنچا دے جو لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوں وہ ہم میں سے نہیں ہیں بلکہ غالی اور ملعون ہیں۔ آپ اثنا عشریہ شیعہ امامیہ جماعت کا معاملہ ان سے الگ سمجھئے کیونکہ غالی فرقوں کے کفر و نجاست پر علمائے امامیہ کا اجماع ہے اور اگر آپ فقہاء شیعہ کی استدلالی کتابوں جیسے جواہر الکلام اور مسالک وغیرہ اور عملیہ رسالوں جیسے مرحوم آیتہ اﷲ یزدی قدس سرہ کی عروة الوثقی اور آیتہ اﷲ اصفہانی اعلی اﷲ مقامہ کی وسیلہ النجات کے باب طہارت باب زکوة ، باب ازدواج اور باب ارث کی طرف رجوع کریں تو ہمارے فقہاء کے فتوے ان لوگوں کے کفر ونجاست پر ملیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ سب نے یہی فتوی دیا ہے کہ ان کے غسل و دفن میں شرکت جائز نہیں ہے ۔ ان کے ساتھ نکاح حرام ہے ( باوجودیکہ متعہ کی صورت سے اہل کتاب کیساتھ تزویج کو جائز جانتے ہیں۔) اور مسلمانوں کا حق وراثت ان کو نہیں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو صدقات و زکوة کادینا بھی ممنوع ہے۔

فرقہ ناجیہ شیعہ کی فن کلام اور عقائد کی کتابوں میں تفصیل اور استدلالی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ فرقہ فاسد اور کافر ہے ہر مسلمان پر اور خاص طور سے خالص العقیدہ شیعوں پر ان سے تبرا اور بیزاری واجب و لازم ہے۔

غلات کی مخالفت اور رد میں آیات و اخبار سے کافی مضبوط اور مکمل دلیلیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں نے اشارہ کر دیا ہے ۔ سورہ نمبر5( مائدہ) آیت نمبر81 میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

" قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا في دينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَ لا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَ أَضَلُّوا كَثيراً وَ ضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبيلِ "( المائدة ، 77 )

یعنی کہہ دو( اے رسول(ص)) کہ اے اہل کتاب غلو مت کرو اپنے دین میں کہ وہ حق نہیں ہے اور اس قوم کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو خود گمراہ ہوئے بہتوں کو گمراہ کردیا اور راہ راست سے دور جا پڑے۔

مرحوم علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار جلد سوم میں ( جو شیعہ امامیہ فرقے کا دائرة المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے ، ان کی مذمت اور ان لوگوں کے مدعا سے خاندان رسالت کے دور ہونے میں بہت سی روائتیں نقل کی ہیں، من جملہ ان کے امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ فرمایا :

" و ما نحن الا عبيد الذي خلقنا و اصطفانا، ما لنا على اللّه من حجة، و لا معنا من اللّه براءة، و انا لميتون، و موقوفون، و

۴۷

مسئولون، من احب الغلاة فقد ابغضنا و من ابغضهم فقد احبنا الغلاة كفّار و المفوضة مشركون، لعن اﷲ الغلاة ۔۔۔۔۔۔ "

( خلاصہ مطلب یہ کہ ہم اس خدا کے بندے ہیں جس نے ہم کو پیدا کیا اور مخلوقات میں سے منتخب کیا۔ در حقیقت غالیوں کو دوست رکھے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو شخص ان کو دشمن رکھے وہ ہمارا دوست ہے غلات کافر اور ملفوضہ مشرک ہیں۔ خدا کی لعنت ہو غلات پر)

نیز انہیں حضرت سے شیعوں کے ایک بڑے پیشوا نے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

" لعن اللّه عبد اللّه بن سبأ إنه ادّعى الربوبية في أمير المؤمنين و كان و اللّه أمير المؤمنين عبدا للّه طائعا، الويل لمن كذب علينا، و إن قوما يقولون فينا ما لا نقوله في أنفسنا نبرأ إلى اللّه منهم نبرأ إلى اللّه منهم "

(یعنی لعنت خدا کی، عبداﷲ بن سبا پر جس نے امیرالمومنین (ع) کےلیے ربوبیت اور خدائی کا دعوی کیا ۔ خدا کی قسم وہ حضرت خدا کے مطیع بندے تھے ، وائے ہو ان لوگوں پر جنہوں نے ہم پر افترا کیا، ایک گروہ ہمارے بارےمیں وہ باتیں کہتا ہے جو ہم خود اپنے بارےمیں نہیں کہتے ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ، ان سے خدا کی طرف ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ان سے خدا کی طرف۔

صدوق ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی قدس سرہ نے جو جلیل القدر فقہائے امامیہ میں سے ہیں کتاب عقائد میں ایک روایت زرارہ بن اعین سے جو موثق شیعہ راوی ، حافظ علم اہل بیت(ع) اور حضرت باقر العلوم و صادق آل محمد علیہم السلام کے اصحاب میں سے تھے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ عبداﷲ بن سبا کی اولاد میں سے ایک شخص تفویض کا قائل ہے ۔ فرمایا تفویض کیا؟ میں نے عرض کیا وہ کہتا ہے:

"إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ مُحَمَّداً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ وَ عَلِيّاً- عَلَيْهِ السَّلَامُ- ثُمَّ فَوَّضَ الْأَمْرَ إِلَيْهِمَا، فَخَلَقَا، وَ رَزَقَا، وَ أَحْيَيَا، وَ أَمَاتَا."

( یعنی خدائے عزوجل نے محمد (ص) و علی(ع) کو پیدا کیا پھر بندوں کے امور ان کے سپرد کردئیے چنانچہ وہی خالق ہیں وہی رازق ہیں وہی زندہ کرتے ہیں ۔ وہی مارتے ہیں ) حضرت نے فرمایا کذب واﷲ جھوٹ بولتا ہے دشمن خدا جب تم پلٹ کر اس کے پاس جاؤ تو سورہ رعد کی یہ آیت پڑھو :

"أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْ ءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ " ( الرعد ،16)

“ یعنی کیا مشرکین نے خدائے تعالیٰ کے کچھ شریک قرار دیئے کہ خدا کا پیدا کیا ہوا کون اور ان شرکاء کا پیدا کیا ہوا کون ہے۔ کہدو (اے محمد(ص)) کہ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ صرف خدائے تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی الوہیت میں یکتا ہے جس کا ارادہ ساری کائنات پر غالب ہے۔”

یہ آیت خود توحید باری تعالی کی تصریح کر رہی ہے۔ زرارہ کہتے ہیں کہ جس وقت میں اس کے پاس گیا اور یہ آیت حسبِ

۴۸

ارشاد امام(ع) میں نے اس کے سامنے پڑھی تو گویا میں نے اس کے منہ پر پتھر مار دیا وہ مبہوت ہو کے رہ گیا۔

اس طرح کی روایتیں ہماری معتبر کتابوں میں آئمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم اجمعین اور شیعوں کے برحق پیشواؤں کی طرف سے گروہ غلات کے لیے لعن و طعن اور بر کہنے میں کثرت سے وارد ہوئی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ جس طرح ہم آپ کے علماء کی کتابیں پڑھتے ہیں آپ بھی علمائے شیعہ کی معتبر کتابیں پڑھا کیجئے تاکہ ایسے الفاظ زبان سے نہ نکالیے جو بے چارے عوام کو بہکانے والے ہوں۔ اور آپ بھی خدا کے دربار عدالت میں گرفتار ہوں۔

حضرات محترم! میں آپ سے انصاف چاہتا ہوں ۔ آیا ایسی صورت میں جب کہ ہمارے ائمہ نے اپنے شیعوں کی رہنمائی کے لیے ایسے بیانات ارشاد فرمائے ہیں اور سچے شیعہ علی (ع) واولاد علی(ع) کے پیرو اپنے مقتداؤں سے ان روایتوں کے سنے ہوئے ہیں اس کے بعد بھی ان کو خدا یا خدائی کی جگہ پر قرار دیں گے؟ غالیوں کا گروہ ہم سے بالکل الگ اور ہم ان لوگوں سے بیزار اور علیحدہ ہیں۔ چاہے وہ بظاہر تشیع کا دعوی کریں۔ لیکن خدا اور رسول(ص) علی و اولا علی علیہم السلام سب کےسب ان سے بیزار اور سارے شیعہ بھی ان سے بیزار اورالگ ہیں۔

چنانچہ ہمارے مولا امیرالمومنین علیہ السلام نے رئیس غلات عبداﷲ بن سبا ملعون کو تین روز تک مقید رکھا اور توبہ کا حکم دیا جب اس نے قبول نہ کیا تو مجبورا اس کو آگ میں جلوا دیا۔ آپ کو خدا کے سامنے اس سے شرم آنا چاہئیے کہ آپ کے علماء تعصب و عادت اور اسلاف کی پیروی میں یہ لکھیں کہ تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا یہی عبداﷲ ملعون تھا جو حضرت علی(ع) کے حکم سے جلا دیا گیا۔ حالانکہ علمائے شیعہ نے ساری متعلقہ کتابوں میں اپنے ائمہ کی پیروی کرتے ہوئے عبداﷲ بن سبا کو ملعون بتایا ہے۔ لہذا عبداﷲ کے پیرو بھی ملعون ہیں کیونکہ وہ غلات میں سے ہیں نہ کہ آل محمد(ص) اور عترت طاہرہ پیغمبر(ص) کے محبت خالص شیعوں مین سے اس لیے کہ وہ س خداندان جلیل کے بارے میں غلو کی وہ سے دور اور مطرود ہیں۔

اگر تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا عبداﷲ ملعون ہوتا اور شیعہ اس کے پیرو ہوتے جیسا کہ آپ کے متعصب علماء نے لکھا ہے اور دوسرے ان کی اندھی تقلید کر کے جلسوں میں اس کو نقل کرتے ہیں تو کم سے کم شیعوں کی کسی ایک ہی کتاب میں اس کی کچھ تعریف درج ہونا چاہئیے تھی۔ اگر آپ علماء شیعہ امامیہ کی کسی ایک ایسی کتاب کا پتہ دے دیجئے جس میں عبداﷲ ملعون کی کوئی تعریف کی گئی ہو تو میں آپ کی ساری باتیں ماننے کے لیے تیار ہوں اور اگر یہ پتہ نہ دیں ( اور ہرگز نہیں دے سکتے ہیں) تو روز حساب اور محکمہ عدل الہی سے ڈرئیے ، پاک و موحد شیعوں کو عبداﷲ ملعون کا پیرو نہ کہیئے اور حقیقت کو بیخبر عوام کی نگاہوں میں مشتبہ نہ بنائیے۔

اس کے علاوہ میں آپ سے برادرانہ التماس کرتا ہوں کہ آپ چونکہ اہل علم ہیں لہذا ہمیشہ قاعدہ علم و منطق اور حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو فرمائیں اور خلاف عقل و حقیقت باتوں اور بے بنیاد شہرتوں کا سہارا نہ لیں۔

۴۹

جن کو دشمنوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے شیعوں کی طرف منسوب کیا ہے۔

حافظ : آپ کی برادرانہ نصیحتیں ہر عقلمند کے لیے قابل قبول و توجہ ہیں لیکن اجازت دیجئیے کہ میں بھی فرمائش کے طور پر چند جملے عرض کروں۔

خیر طلب : میں بہت ممنوں ہوں گا فرمائیے!

حافظ : آپ اپنے بیانات میں برابر یہی فرمارہے ہیں کہ ہم اماموں کے بارے میں غلو نہیں کرتے اور غلات کو مردود و ملعون اور جہنمی جانتے ہیں لیکن ان دو راتوں میں آپ کی زبان سے بار بار اماموں کے حق میں ایسے الفاظ سنے جارہے ہیں کہ آپ ہی کے بیان کیئے ہوئے قواعد کی روسے وہ حضرات اس قسم امور پر راضی نہیں ہیں ۔ لہذا ممکن ہو تو آپ بھی بات چیت کے موقع پر اس کا لحاظ رکھیں تاکہ مطعون نہ ہوں۔

خیر طلب : میں خشک و تنگ نظر اور متعصب و جاہل انسان نہیں ہوں ، بہت ممنون ہونگا کہ اگر میری گفتگو میں کوئی لغزش پائی جاتی ہو تو اس کی یاد دہانی فرما دیجئیے چونکہ انسان سہو و نسیان کا مرکز ہے لہذا تمنا رکھتا ہوں کہ ان دو راتوں میں جوکچھ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوکہ ائمہ ہدی علیہم السلام کے خلاف مرضی کہا گیا ہے اور علم و عقل و منطق سے مطابقت نہیں کرتا اس کو بیان فرمائیے۔

حافظ : میں نے ان دو شبوں میں مکرر آپ سے سنا ہے کہ جس موقع پر اپنے اماموں کا نام لیتے ہین تو بجائے اس کے کہ رضی اﷲ عنہم کہیں ، سلام اﷲ علیہم اور صلوات اﷲ علیہم کہا ہے در آںحالیکہ خود جانتے ہیں کہ سورہ احزاب کی آیہ شریفہ کے حکم سے جس میں ارشاد ہے :

" إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً" ( الاحزاب، 56 )

یعنی خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر کی روح پاک پر درود بھیجتے ہیں۔ اے اہل ایمان تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کرو ( اور ان کے فرمان کو تسلیم کرو) آیت نمبر56 سورہ نمبر133 ( احزاب) سلام اور صلوة صرف رسول خدا(ص) سے مخصوص ہے چونکہ آپ اپنے بیانات میں اماموں کے لیے بھی صلوات و سلام کا ذکر کرتے ہیں ۔ لہذا بدیہی چیز ہے کہ یہ عمل قرآن مجید کی ںص صریح کے خلاف ہے۔

آپ کے اوپر جو اعتراض کئیے جاتے ہیں ان میں سے ایک موضوع یہ بھی ہے کہ کہتے ہیں یہ امر بدعت ہے اور اہل بدعت اہل ضلالت ہیں۔

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ

خیر طلب :- جماعت شیعہ نے ہ رگز کوئ ی عمل نص کے خلاف ن ہ ک یا ہے ن ہ کرت ے ہیں ۔ ہ وا یہ کہ گذشت ہ

۵۰

صد یوں میں خوارج و نواصب ،بنی امیہ اور ان کے پ یرووں نے ح یلہ سازیاں شروع کیں اور شیعوں کو اہ ل بدعت نام زد کرنے ک یلئے فرضی دلیلیں قائم کیں جن کا بڑے ب ڑے ش یعہ علماء نے مکمل جواب د یا اور ثابت کیا ہے ک ہ ہ م ا ہ ل بد عت ن ہیں ہیں ۔ چونک ہ دشمن ک ے ہ ات ھ و ں م یں قلم ہے ل ہ ذا تن ہ ا قاض ی بن کر جو چاہ ت ے ہیں لکھ ت ے ہیں ۔ اس موضوع پر ب ھی مفصّل جواب دیا جاچکا ہے ۔ ل یکن چونکہ وقت کاف ی گزر چکا ہے ۔ ل ہ ذا تفص یلی جواب سے قظع نظر کرتا ہ و ں محض اس لئ ے ک ی آپ کی فرمائش بغیر جواب کے ن ہ ر ہ جائ ے اور حضرات ا ہ ل جلس ہ اور م یرے برادران عزیز کے سامن ے حق یقت امر مشتبہ ن ہ ر ہے مختصر طور س ے عرض کرتا ہ و ں ، اوّل تو یہ کہ اس آیت میں کسی دوسرے پر سلام وصلوات ب ھیجنے کو منع نہیں کیا گیا ہے ۔ فقط حکم د یا جاتا ہے ک ہ مسلمانو ں کو لازم ہے ک ہ آ ں حضرت (ص) پر صلوات ب ھیجیں ۔

دوسرے جس خدائے بر تر ن ے یہ آیت نازل فرمائی ہے و ہی سورہ 37 (صافات)آ یت 130میں فرماتا ہے ۔ سلام عل ی آل یاسین (یعنی سلام ہ و یسین کی آل پر )خاندان رسالت کی اہ م خصوص یات میں سے ا یک یہ بھی ہے ک ہ قرآن مج ید میں ہ رجگ ہ مخصوص طور پر انب یائے کرام پر سلام ہے و ہ ف رماتا ہے ۔ "سلام عل ی نوح فی العالمین"،"سلام علی ابراہیم "،"سلام علی موسی وھ ارون" (سور ہ صافات ) ل یکن کسی مقام پر اولاد انبیا ء کے ل یئے سلام نہیں آیا ہے ،سوا اولاد خاتم الانب یاء کے جن ک ے لئ ے ارشاد ال ہی ہے ، سلام عل ی آل یا سین ، یاسین بھی رسول خدا(ص) کا ایک نام ہے ۔

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے

آپ کو معلوم ہے ک ہ قرآن مج ید میں پیغمبر(ص)کے بار ہ نامو ں م یں سے پانچ نام امت ک ی مزید معرفت کیلئے ذکر کئے گئ ے ہیں اور وہ پانچ مقدس اسماء محمد، احمد، عبدالل ہ ، نون اور یاسین ہیں ۔ سور ہ نمبر 36 ک ے شروع م یں فرماتا ہے " یس و القرآن الحکیم انّک لمن المر سلین " یا حرف ندا اور "س"آنحضرت (ص) کا نام مبارک اور آنحضرت (ص) کی ظاہ ر ی وباطنی معتدل حقیقت اور مساوات کی طرف اشارہ ہے ۔

نواب:- اس کا کیا سبب ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی میں "س" آنحضرت (ص) کا نام مبارک قرار پایا ؟

خیر طلب :- میں نے عرض ک یا کہ آنحضرت(ص) ک ے عالم معنو ی اورحقیقت اعتدال کی طرف ایک اشارہ ہے ۔ ک یونکہ منزل خاتمیت کی حقدار وہی ذات ہے جس کا وجود حد اعتدال کو پ ہ نچا ہ وا ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب اس کا

۵۱

ظا ہ ر وباطن یکساں ہ و اور یہ مرتبہ آ ں حضرت (ص) ک ے وجود مق دس کو حاصل تھ ا ،ل ہ ذا حرف "س" ک ے سات ھ اس ح یثیت کا اظہار فرمایا ۔

عام عقلوں س ے قر یب تر بیان یہ ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی کے درم یان صرف "س" ہی ایسا ہے جس کا ظا ہ ر وباطن برابر ہے اس معن ی سے ک ہ ا ٹھ ائ یس حرفوں م یں سے ہ ر ا یک کے لئ ے علمائ ے علم اعداد ک ے نزد یک ایک زبر اور ایک بیّنہ ہے اور حرف ک ے زبر و ب یّنہ کا تطابق کرنے م یں قطعی طور پر یا اس کا زبر زیادہ ہ وتا ہے یا بیّنہ ۔

نواب :- قبلہ معاف فرمائ یے گا میں جسارت کر رہ ا ہ و ں ۔ چونک ہ م یں گہ ر ے مضام ین کو سمجھ ن ے س ے معذور ہ و ں ل ہ ذا استدعا ہے ک ہ ان راتو ں م یں مطالب کو سادہ اور واضح طر یقے سے ب یان فرمائیے تاکہ ہم سب کے لئ ے لائق توج ہ اور قابل قبول ہ و ں چونک ہ ہ م لوگو ں ن ے زبر وب یّنہ ک ے معن ی نہیں سمجھے ،ل ہ ذا م یں متمنی ہ و ں ک ہ ساد ہ ب یان کے سات ھ وضاحت فرمائ یے تاکہ یہ معمّا حل ہ و جائ ے ۔

خیرطلب :-بسرو چشم ،زبر سے حرف ک ی صورت مراد ہے جو کاغذ پر لک ھی جاتی ہے ا ور بیّنہ سے و ہ ز یادتی ہے جو بولن ے ک ے وقت ظا ہ ر ہ وت ی ہے "س" کاغذ ک ے اوپر ا یک حرف ہے ل یکن تلفظ کے وقت ت ین حرف ہ وجات ے ہیں ۔ س ۔ی ۔ ن ۔ بولن ے ہیں اس پر یا اور نون کا اضافہ ہ وجاتا ہے ۔ اورا ٹھ ائ یس حروف تہ ج ی میں صرف "س" ہی وہ حرف ہے ک ہ حساب ک ی مطابقت کرنے م یں اس کا زبر اور بیّنہ برابر رہ تا ہے "س" ک ے عدد سا ٹھ ہیں اور اس کا بیّنہ بھی جس سے " ی"اور"ن"مراد ہیں ساٹھ عدد کا حامل ہے " ی" کے (10)اور"ن"ک ے (50)مل کر سا ٹھ ہ وئ ے اس ی وجہ سے قرآن مج ید میں خاتم الانبیاء کوآنحضرت (ص)کے ظا ہ ر و باطن ک ی طرف اشارہ کرت ے ہ وئ ے " یس"کہہ کر مخاطب ک یا ۔یعنی اے و ہ شخص جو ظا ہ ر وباطن دونو ں ح یثیتوں سے اعتدال پر ہے ۔

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں

اب چونکہ حضرت کا نام مبارک "س" ہے ل ہ ذا اس آ یہ مبارکہ م یں فرماتا ہے "سلام عل ی آل یسین "یعنی سلام آل محمد(ص) پر۔

حافظ:- یہ ایسے مطالب ہیں جن کو آپ اپنے جادو ب یانی سے ثابت کرنا ہ ت ے ہیں ورنہ علماء ک ے درم یان اس کا ذکر نہیں آیا ہے ک ہ آل یا سین پر سلام ہ و ۔

۵۲

خیر طلب :- میں متمنی ہ و ں ک ہ انکار ک ے مواقع پر قطع ی طور سے کوئ ی بات نہ ک ہہ د یا کیجیئے بلکہ ترد ید کی صورت میں فرمایا کیجئے تاکہ جواب ک ے وقت آپ کو پچ ھ تان ے ک ی ضرورت نہ ہ و ۔ اگر آپ اپن ے علماء ک ی کتابو ں س ے ب ے خبر یا واقف ہیں لیکن تصدیق کرنے ک ے خلاف سمج ھتے ہیں تو میں آپ کی کتابوں س ے باخبر ہ و ں اور حق س ے من ہ ب ھی نہیں موڑ تا ہ و ں ۔

آپ کے ب ڑے ب ڑے علماء ک ی کتابوں م یں کثرت سے اس معن ی کی طرف اشارہ ک یا گیا ہے ،منجمل ہ ان ک ے متعصب ابن حجر ن ے صواعق محرق ہ ک ے اندر جو آ یات فضائل اہ ل ب یت علیھ م السلام میں نقل کی ہے ان م یں سے ت یسری آیت کے ذ یل میں لکھ ا ہے ک ہ مفسّر ین کی ایک جماعت نے مفسّر اور خ یر امّت ابن عباس سے نقل ک یا ہے ک ہ "المراد بذالک سلام عل ی آل محمد"یعنی الیاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں لہ ذا آل یاسین پر سلام کا مطلب ہے سلام آل محمد(ص) پر اور لک ھ ت ے ہیں کہ اما م فخر الد ین رازی نے ذکر ک یا ہے ۔ ان اهل بیته صلّی الله علیه وآله وسلّم یساوونه فی خمسة اشیاء ،فی السلام قال" السلام علیک ایها النبی" و قال" سلام علی الیاسین "، فی الصلواة علیه علیهم فی التشهد وفی الطهارة قال الله تعالی "طه یا طاهر "وقال " یطهرکم تطهیرا "،و فی تحریم الصدقة ،وفی المحبة قال تعالی "قل ان کنتم تحبّون الله فاتبعونی یحببکم الله وقال قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی"

(یعنی رسول کے ا ہ ل ب یت علیھ م السلام پانچ چیزوں میں آنحضرت (ص) کے برابر ہیں اول سلام میں فرمایا سلام پیغمبر بزرگوار اور یہ بھی فرمایا سلا م آل یاسین پر (یعنی سلام آل محمد پر۔ )دوسر ے صلوات م یں تشہ د نماز م یں۔ ت یسرے طہ ارت م یں خدائے تعال ی نے فرمایا ہے ط ہ یعنی اے طا ہ ر اور ان حضرات ک ے بار ے م یں آیت تظہیر نازل فرمائی ۔ چوت ھے تحر یم صدقہ م یں کیونکہ پیغمبر اور ان کے ا ہ ل ب یت پر صدقہ حرام ہے ،پانچو یں محبت میں ،ک یوں کہ خدائ ے تعال ی نے فرما یا (محمدص) کہہ دو(امت س ے )م یں تم سے کوئ ی اجر اور مزدوری نہیں چاہ تا ہ و ں سوا م یرے ذوی القربی اور اہ لب یت سے محبت ک ے ) ۔

سید ابو بکر بن شہ اب الد ین علوی کتاب "شفتہ الصاد ی من الصادی من بحر فضائل بنی النبی الھ اد ی(مطبوعہ مطبع ہ اعلام یہ مصر سنہ 1303 ھ ک ے باب اول صفح ہ 24 پر مفسر ین کی ایک جماعت سے بروا یت ابن عباس ونقاش کلبی سے اور باب 2 صفح ہ 42 پر نقل ک یا ہے ک ہ آ یت میں آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں اور امام فخرالدین رازی نے تفس یر کبیر جلد ہ فتم صفح ہ 163 م یں اسی آیت شریفہ کے ما تحت آ یت کے معن ی میں کئی وجہیں نقل کی ہیں اور وجہ دوم م یں کہ ا ہے ک ہ ال یا سین سے مراد آل محمد سلام الل ہ عل یھ م اجمعین ہیں نیز ابن حجر نے صواعق محرق ہ م یں ذکر کیا ہے ک ہ مفسر ین کی ایک جماعت نے ابن عباس سے نقل ک یا ہے ، ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "سلام عل ی الیاسین" سلام آل محمد (ص) پر۔

۵۳

لیکن اہ ل ب یت علیھ م السلام پر صلواۃ بھیجنا تو ایک ایسا امر ہے جو فر یقین کے درم یان مسلم ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی اور مسلم بھی اپنی صحیحین میں تصدیق کرتے ہیں کہ پ یغمبر نے فرما یا میرے اور میرے اہ ل ب یت علیھ م السلام کے دوم یان صلواۃ میں جدائی نہ ڈ الو ۔

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے

مخصوص طور پر بخاری اپنی صحیح کی جلد سوم میں مسلم اپنی صحیح کی جلد اول میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ میں حتی ابن حجر ایسے متعصب نے صواعق م یں اور آپ کے دوسر ے ب ڑے علماء کعب بن عجز ہ س ے نقل کرت ے ہیں کہ جب آ یت "انّ اللہ و ملائکت ہ یصلون علی النبی "(سورہ احزاب 43) ہ وئ ی تو ہ م لوگو ں ن ے عرض ک یا کہ یا رسو ل اللہ آپ پر سلام کرن ے کا طر یقہ تو ہ م کو معلوم ہ وا ل یکن "کیف یصلی علیک ؟" آپ پر صلواۃ کس طرح بھیجیں ؟ آں حضرت ن ے فرما یا صلوات اس طریقے سے ب ھیجو" اللھ م صلّ عل ی محمد وآل محمد اور دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے ک ہ "کما صلّ یت علی ابراھیم و آل ابراھیم انّک حمید مجید "

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 797 م یں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص) س ے لوگو ں ن ے سوال ک یا کہ ہ م آپ پر کس طرح س ے صلوا ۃ بھیجیں ؟ آنحضرت (ص) نے فرما یا کہ و " اللهم صلّ علی محمد و علی آل محمد کما صلّیت علی ابراهیم وعلی آل ابرا هیم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم انّک حمید مجید.

اور ابن حجر نے ت ھ و ڑے س ے لفظ ی اختلاف کے سات ھ یہی روایت حاکم سے نقل ک ی ہے اس ک ے بعد اپن ے عق یدے اوررائے کا اظ ہ ار کرت ے ہ و ے ک ہ ت ے ہیں ۔ "وف یہ دلیل ظاھ ر عل ی ان الامر بالصلوات علیہ الصلوات علی آلہ " یعنی حدیث میں اس پر کھ ل ی ہ وئ ی دلیل ہے ک ہ پ یغمبر (ص)پر صلوات بھیجنے کا حکم آنحضرت (ص)کی آل پر بھی صلوات بھیجنے کے لئ ے ہے ۔ ن یز روایت کی ہے ک ہ فرما یا "لا تصلّوا علیّ الصلواة البتراء" یعنی مجھ پر بترا اور دم بر یدہ صلوات نہ ب ھیجو لوگوں ن ے عرض ک یا یا رسول اللہ صلوا ۃ بتراء کون ہے ؟ فرما یا اگر کہ و "اللھ م صلّ عل ی محمد "لہ ذا یوں کہ و"الل ھ م صلّ عل ی محمدو علی آل محمد۔

اس کے علاو ہ د یلمی نے نقل ک یا ہے ک ہ رسول اکرم (ص)"الدعا ء محجوب حت ی یصلی علی محمد وآلہ " ۔ دعا پرد ے م یں رہ ت ی ہے (اور قبول ن ہیں ہ وت ی )جب تک محمد وآل محمد پر درود نہ ب ھیجیں ۔ اور اما م شافع ی سے نقل ک یا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا :

۵۴

یا اهل بیت رسول الله حبکم ----- فرض من الله فی القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر انکم ----- من لم یصل علیکم لا صلواة له

(یعنی اے ا ہ ل ب یت رسول اللہ (ص) تم ہ ار ی دوستی خدا نے قرآن مجید میں واجب کی ہے ،تم ہ ار ی بزرگی ،منزلت اور مرتبے ک یلئے یہی کافی ہے ک ہ جو شخص تم پر صلوا ۃ نہ ب ھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہ وت ی ، شافعی کی مراد تشہ د نماز م یں صلوات ہے ، جس کو اگر عمدا ترک کرد یں تو نماز باطل اور غیر مقبول ہے ۔)

رسول اکرم(ص)کے اس ارشاد ک ے پ یش نظر کہ "الصلواة عمود الدین ان قبلت قبل ما سواها وان ردّت ردّ ما سواها "( یعنی نماز دین کا نگہ بان اور ستون ہے اگر نماز قبول ہ وجائ ے تو اس ک ے علاو ہ دوسر ے تمام اعمال ب ھی قبول ہ وجات ے ہیں ، اور اگر نماز رد ہ وجائ ے تو دوسر ے اع مال بھی رد ہ وجات ے ہیں ۔ تمام اعمال ک ی قبولیت نماز سے وابست ہ ہے اور جو روا یتیں پیش کی گئی ہیں ، ان پر نظر کرتے ہیں ہ وئ ے نماز ک ی قبولیت بھی محمد وآل محمد (ص) پر صلوات بھیجنے میں منحصر ہے ج یسا کہ شافع ی نے خود اقرار ک یا ہے ۔

سید ابو بکر شہ اب الد ین نے کتاب "شفت ہ الصاد ی من بحر فضائل بنی النبی الہ اد ی"باب 2 میں صفحہ 29-35 تک محمد وآل محمد پر صلوات ب ھیجنے کے وجوب م یں کئی بیانات درج کئے ہیں اور دلائلی نے نسائ ی سے دارقطن ی ،ابن حجر اور بہیقی نے ابوبکر طوس ی سے ان ہ و ں ن ے ابو اسحاق مروزی اور سمہ ود ی سے ، نوو ی نے تنق یح میں اور شیخ سراج الدین قصیمی یمنی نے نقل ک یا ہے ک ہ نماز ک ے تش ہ د م یں محمد صلی اللہ عل یہ وآلہ وسلم ک ے نام مبارک ک ے بعد آل محمد پر صلوات ب ھیجنا واجب ہے ۔

چونکہ وقت کافی گزر چکا ہے ل ہ ذا مفصل ب یان سے قطع نظر کرتا ہ و ں اور ف یصلہ آپ حضرات کے پاک ضم یر پر چھ و ڑ تا ہ و ں ۔

چنانچہ آپ حضرات اس کی تصدیق فرما ئیں کہ ا ہ ل ب یت پیغمبر پر درود سلام بدعت نہیں بلکہ سنت اور ا یسی عبادت ہے جس ک ے لئ ے خود رسول (ص) ک ی تاکید ہے اور اس ک ی حقیقت سے کوئ ی انکار نہیں کرسکتا سوا خوارج و نواصب اور ضدی کینہ تو پرور اور دشمن متعصبین( خذلھ م الل ہ )ک ے جن ہ و ں ن ے اصل ی بات کو برادران اہ ل سنت ک ی نگاہ و ں پر مشتب ہ بنا د یا ہے اور بنات ے ر ہ ت ے ہیں ۔

یہ بدیہی بات ہے ک ہ جو ہ ست یاں اس حکم میں خاتم الانبیاء (ص) سے اس قدر قر یب ہیں اور ذکر میں دوسروں پر مقدم ہیں ان کا دوسروں پر ق یاس کرنا اور دوسروں کو ان ک ے اوپر ترج یح دینا سوا سفاہ ت اور ج ہ الت یا تعصب کے وب ے خبر ی کے اور ک یا ہے ؟

اس موقع پر چونکہ آدھی رات گزرچکی تھی۔ اور بعض حاضرین جلسہ کے چہروں پر کسل مندی کے

۵۵

آثار ظاہر تھے ۔ لہذا ہم لوگوں نے نشست کو ختم کردیا اور چائے نوشی اور اس اقرار کے بعد کہ کل شب میں ذرا سویرے تشریف لائینگے سب حضرات متفرق ہوگئے -

تیسری نشست

شب یک شنبہ 25 رجب سنہ1345ھ

ہم لوگ نماز مغرب سے فارغ ہوچکے تو مولوی صاحبان تشریف لے آئے اور معمولی صاحب سلامت کے بعد چاء نوش میں مشغول ہوئے میں بھی نماز عشاء ختم کرنے کے بعد اطمینان کے ساتھ ان حضرات کی گفتگو سننے کے لیے حاضر ہوا۔

حافظ : قبلہ صاحب کا شب میں جب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس گئے تو میں نے اپنے کو بہت ملامت کی کہ ہم دوسری قوموں کے عقائد میں اس لیے زیادہ غور فکر نہیں کرتے اور (بقول آپ کے) صرف بعض متعصب لوگوں کی کتابوں پر اکتفا کر لیتے ہیں جس سے حقیقت ہم پر ظاہر نہیں ہوتی۔

خیر طلب : جیسا کہ خدائے تعالی نے سورہ نمبر5( انعام ) ، آیت ص150 میں ارشاد فرمایا ہے کہ قل ﷲ الحجة البالغہ ۔ (1) کل شب کی نشست بھی خدائی دلیلوں میں سے ایک دلیل تھی تاکہ اس کے ذریعہ سے آپ حضرات ابتدائے صحبت ہی میں کسی قدر اپنی عادت سے ہٹ کے اور دیدہ انصاف و علم و عقل کے ساتھ میری گزارش پر توجہ کر کے یہ جان لیں کہ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں وہ علم عقل اور منطق و حقیقت کی میزان پر تلا ہوا ہے۔اور جو

باتیں پہلے سے آپ حضرات کے سمع مبارک میں پہنچائی گئی ہیں، اور جنہوں نے آپ کے ذہن کو غلط راستہ پر ڈال دیا ہے اور خود غرض متعصب لوگوں کے عناد اور ضد کا نتیجہ ہیں۔

میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ ان جلسوں میں میرا نظر یہ قطعی طور پر یہ نہیں ہے ۔ کہ گفتگو میں خود غالب رہوں اور آپ حضرات کو مغلوب کروں بلکہ ہمیشہ کی طرح میرا مقصد اور نقطہ نظر حریم تشیع کی طرف سے دفاع اورحق و حقیقت کو نمایاں کرنا ہے۔

حافظ : کل شب کے بیانات میں آپ کے فقرات سے ظاہر ہوا کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں، تو آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ کہدو اے پیغمبر کہ خدا کے لیے کامل حجت ہے۔

۵۶

شیعوں کے کس طبقے کو برحق اور ان کے اقوال و عقائد کو صحیح سمجھتے ہیں ؟ اگر ممکن ہوتو مطلب واضح ہونے کے کیے ان طبقات کو بیان فرمائیے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کس گروہ کے بارے میں ہم کو بحث کرنا چاہیے۔

خیرطلب : میں نے گذشتہ شب میں یہ تو عرض نہیں کیا ہے کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں بلکہ شیعہ کی جس معنی کے ساتھ میں نے تشریح کی ہے یعنی خدا و رسول(ص) کے فرمانبردار بندے اورآں حضرت(ص) کے حکم سے خاندان رسالت کے پیرور دہ ایک طبقے سے زیادہ نہیں ہیں۔ البتہ چند شعبدہ باز فرقوں نے تشیع کے نام پر اپنی نمائش کر کے بے خبر جاہل لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا۔ مقدس شیعہ نام سے غلط فائدہ اٹھایا اور باطل عقائد بلکہ کفر و بے دینی کو اس نام سے لوگوں کے درمیان رائج کیا لہذا نا واقف اشخاص نے جو حقائق کی تشخیص نہٰیں کرتے ہیں تاریخ میں لفظ شیعہ سے ان کو موسوم کیا ہے ۔ ان لوگوں کے بنیادی طبقے چار ہیں جن میں صرف دو باقی رہ گئے ہیں اور دو بالکل فنا ہوچکے ہیں۔ اور ان کے ہر طبقے سے اور دوسرے فرقے پیدا ہوئے ان چار فرقوں سے مراد ہیں زیدیہ ، کیسانیہ، قداحیہ اور غلات۔

عقائد زیدیہ

پہلا فرقہ زیدیہ ہے اور وہ ایسے لوگ ہیں جو زید ابن علی ابن الحسین علیہما السلام کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد زید کو امام مانتے ہیں ، زیدیہ فرقے والے فی الحال یمن اور اس کے اطراف میں کثرت سے ہیں ، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو علوی اور فاطمی شخص عالم و زاہد اور شجاع ہو ، اس کے علاوہ تلوار کے ساتھ خروج کرے اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے وہ امام ہے اور چونکہ جناب زید نے ہشام ابن عبدالملک اموی کے زمانہ خلافت میں بنی امیہ کے ظلم اور چیرہ دستی کی وجہ سے کوفہ میں خروج کیا اور شربت شہادت نوش فرمایا۔ جیسا کہ پرسوں کی شب میں میں نے ایک موقع پر ان بزرگواروں کی مفصل کیفیت عرض کی ہے۔ لہذا ان کو امام سمجھ کر ان کی پیروی اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔ حالانکہ جناب زید کی منزل اس سے کہیں الگ ہے کہ ان کی طرف ایسی نسبت دیں ۔ جناب زید بنی ہاشم کے بزرگ سادات میں سے تھے۔ زہد، علم، فضل ، فہم، دینداری، پرہیزگاری، عبادت ، شجاعت اور سخاوت میں قوم کے اندر نمایاں اور ہمیشہ قائم اللیل اور صائم النہار تھے۔

رسول اکرم(ص) آں جناب کی خبر شہادت دے چکے تھے جیسا کہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

" وضع رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم يده على صلبي فقال: يا حسين يخرج من صلبك رجل يقال له زيد يقتل شهيدا إذا كان يوم القيامة يتخطّى هو و أصحابه رقاب الناس، فيدخلون الجنة "

( یعنی رسول اﷲ(ص) نے اپنا دست مبارک میری پشت پر رکھا اور فرمایا کہ اے حسین(ع)

۵۷

عنقریب تمہاری صلب سے ایک مرد پیدا ہوگا۔ جس کا نام زید ہوگا وہ شہید قتل ہوگا۔ اور جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ اور اس کے اصحاب لوگوں کی گردنوں پر قدم رکھتے ہوئے بہشت میں داخل ہوں گے۔)

( اور یہ بدیہی بات ہے کہ اصحاب سے وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے خروج کے موقع پر ظلم بنی امیہ کے مقابلے میں ان جناب کے ہمراہ مقاومت کی لیکن خود جناب زید نے کبھی امامت کا دعوی نہیں کیا۔ اور یہ ایک تہمت ہے جو ان پر لگائی گئی ہے ورنہ وہ خود اپنے کو اپنے برادر بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا تابع اور مطیع سمجھتے تھے۔ البتہ ان جناب کے بعد چند شعبدہ باز اس اصول کے قائل ہوگئے کہ:

"ليس الامام من جلس في بيته و أرخى عليه ستره، بل الامام كل فاطمي عالم صالح ذي رأي يخرج بالسيف."

( یعنی وہ شخص اور امام نہیں ہے جو گھر میں بیٹھ رہے اور اپنے کو لوگوں سے پوشیدہ رکھے بلکہ ہر وہ عالم، صالح اور صاحب رائے فاطمی امام ہے۔جو خروج بہ شمشیر کرے۔)

لوگوں کو آپ کی امامت کی طرف دعوت دی اور نئی نئی شکلیں ایجاد کر کے اپنے مقاصد حل کرنے کے لیے ایک وکان کھول دی یہ لوگ پانچ فرقوں میں تقسیم ہوئے ۔ مغیریہ ، جارودیہ، ذکریہ، خشییہ اور خلقیہ۔

عقائد کیسانیہ

دوسرا فرقہ کیسانیہ ہے یہ لوگ کیسان غلام و آزاد کردہ علی ابن ابی طالب کے اصحاب شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ حسنین علیہما السلام کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کے سب سے بڑے فرزند محمد ابن حنفیہ کی امت کے قائل تھے ۔ لیکن جناب محمدخود ایسا دعوی نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ ان کو سید لتابعین کہا جاتا تھا اور علم زہد ورع و تقوی اور امر مولیٰ کی اطاعت میں مشہور تھے بعض بازی گروہ نے حضرت زین العابدین علیہ السلام کے ساتھ آپ کی مخالفتوں کے قضیہ کو حیلہ بنایا اور آپ کے دعوی امامت کی دلیل قرار دیا ۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ نہیں تھی کہ آپ امامت کے مدعی تھے بلکہ ان مخالفتوں سے جناب محمد کا مقصود امام چہارم حضرت سید سجاد علیہ السلام کی منزل ظاہر کرتا تھا تاکہ اس طریقہ سے اپنے جاہل مریدین اور سادہ لوح معتقدین کو متوجہ فرما دیں کہ میں اس منصب پر فائز نہیں ہوں چنانچہ اسی مسجد الحرام کے اندر حجر اسود کے سامنے ثبوت حق اور حضرت سید سجاد علیہ السلام کی امامت کے بارے میں حجر اسود کے اقرار کے بعد جیسا کہ کتب اخبار و تاریخ میں اس کی تفصیل موجود ہے، ابو خالد کابلی نے ان جناب کے معتقدین کا راس و رئیس تھا محمد حنیفہ کو امام ماننے والوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان جناب کی پیروی کرتے ہوئے امامت حضرت سید سجاد علیہ السلام کا اعتراف کیا، لیکن چند مکاروں نے بے عقل اور بے خبر عوام کے ایک گروہ کو اسی عقیدے پر باقی رکھا۔ اور

۵۸

بہانہ یہ بنایا کہ جناب محمد نے انکسار سے کام لیا ہے اور بنی امیہ کے مقابلہ میں سیاست کا یہی تقاضا بھی تھا ورنہ ان کی امامت مسلم ہے آپ کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ اس پر جمے رہے اور کہا کہ جناب محمد مرے نہیں بلکہ جبل رضوی کے غار میں پوشیدہ ہوگئے ہیں ایک زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و داد سے بھر دیں گے ۔ ان کے چار فرقے تھے۔ مختاریہ، کربیہ، اسحاقیہ اور حربیہ، لیکن آج اس عقیدے پر کوئی شخص باقی نہیں ہے۔

عقائد قداحیہ

تیسرا گروہ قداحیہ ہے ان لوگوں کے مذہب کی بنیاد بظاہر تشیع مگر باطنا محض کفر ہے۔ اس مذہب کی اصل تشکیلات میمون ابن سالم یا ( ویصان) معروف بہ قداح اور عیسی جہار لختان کے ہاتھوں مصر میں شروع ہوئیں اور انہوں نے قرآن مجید و اخبار میں اپنی خواہش کے مطابق تاویلات کا دروازہ کھولا ۔ شریعت کے لیے ایک ظاہر اور ایک باطن قرار دیا اور کیا کہ باطن شریعت کی خدا نے پیغمبر کو پیغمبر نے علی(ع) کو انہوں نے اپنے فرزندوں کو اور خالص شیعوں کو تعلیم دی۔ ان کا قول ہے کہ جن لوگوں نے باطن شریعت کو سمجھ لیا وہ ظاہری طاعت و عبادت ی قید سے آزاد اوربے فکر ہوگئے۔

انہوں نے مذہب کی بنیاد سات ستونوں پر قائم کی۔ سات پیغمبروں کے معتقد ہیں۔ سات امام مانتے ہیں اور ساتویں امام کا غائب جانتے ہیں۔ اور ان کے ظہور کے منتظر ہیں۔ یہ دو جماعتوں پر متقسم تھے۔

ناصریہ : مذہب خسرو علوی کے اصحاب جنہوں نے اپنے اشعار و گفتار اور کتابوں میں شیعہ کے نام پر بہت سے لوگوں کو کفر و الحاد کی طرف کھینچ لیا اور طبرستان میں کافی پھیلے ہوئے تھے۔

صباحیہ : یہ دوسری جماعت حسن صباح کے اصحاب تھے جو در اصل معرکا باشندہ تھا لیکن ایران میں آکر قزوین کے اندر واقعہ اسفناک اور الموت کا فتنہ عظیم پرپا کیا اور بکثرت قتل و خونریزی کا باعث بنا جس کی تفصیل تاریخ میں موجود ہے لیکن اس مختصر مجلس میں اس کے مفصل تاریخی حالات بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔

عقائد غلات

چوتھی جماعت غالیہ ہے جو تمام قوموں اور فرقوں سے زیادہ پست ہے یہ لوگ تشیع کے نام سے مشہور ہوگئے لیکن یہ سب کےسب کافر نجس اور فاسد و مفسد ہیں ان کے اصلی فرقے سات میں سبائیہ، منصوریہ، غرابیہ،

۵۹

بزیعینہ، یعقوبیہ، اسماعیلیہ، اور ازدریہ، ان کے حالات اور پیدائش کی تشریح کل کی شب میں مقتضائے مجلس کے لحاظ سے مختصر طور پر عرض کرچکا ہوں ۔ ہم شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی پوری ملت بلکہ دنیا کے سارے مسلمان ان سے اور ان کے عقائد سے بیزار ہیں ہم ان کو ہر نجس سے زیادہ نجس کافر ملحد اور بے دین سمجھتے ہیں۔

کفر والحاد کے قاعدے پر جو عقیدہ بھی صراحتہ یا کنایة شیعوں کے نام سے زبانوں پر مشہور اور بعض کتابوں میں عمدا یا سہوا درج ہوا ہے، وہ زیادہ تراسی گروہ سے ہے جو اپنے کو شیعہ علی کہتا ہے لیکن جماعت شیعہ امامیہ اثنا عشریہ جو دنیا میں اسی کروڑ سے زیادہ تعداد کے مالک ہے ان فاسد عقائد سے دور ہے بلکہ اصلی دین، پاکیزہ مذہب اور شریعت کا لب لباب جو باب علم رسول امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے حاصل ہوا ہے انہیں لوگوں کے پاس ملتا ہے۔

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ

پانچواں گروہ شیعہ امامیہ اور فرقہ فقہ اثناعشریہ ہے جو عقل و نقل کے مطابق شریعت کے لب و لباب کا حامل ہے اور در اصل حقیقی شیعہ یہی لوگ ہیں اور وہ چار فرقے فرضی شیعہ ہیں۔

ان میں حقیقی شیعوں کے اعتقاد کا خلاصہ فہرست کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیئے دیتا ہوں تاکہ بعد کو ان کی طرف غلط باتیں منسوب نہ کیجئے۔

شیعہ امامیہ کی پوری جماعت ذات واجب الوجود خداوند جل و علا کا اعتقاد رکھتی ہے کہ وہ ایسا واحد یکتا ہے جو اپنا شبیہ و عدیل اور نظیر نہیں رکھتا نہ جسم ہے نہ صورت نہ جوہر ہے نہ عرض ، جملہ صفات مکانیہ سے مبرا و معرا ہے بلکہ سارے اعراض و جواہر کا خالق ہے اور خلق موجودات اور ان پر فیوض نازل کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ بعض عارفین نے پروردگار کی صفات سلبیہ کو شعر میں اس طرح نظم کیا ہے۔

نہ مرکب بود نہ جسم نہ جوہر نہ عرضبے شریک است و معانی تو غنی داں خالق

چونکہ ذات واجب الوجود ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ دیکھا جا سکے اور دوسری طرف مخلوق کی ہدایت و رہنمائی بھی ضروری تھی۔ لہذا قوم انسانی سے معیار کے لحاظ سے کامل انبیاء و مرسلین منتخب کر کے ہر زمانہ والوں کے حالات و ضروریات کے مطابق دلائل و براہین ، معجزات ، بینات اور کافی ہدیات سپرد کر کےبھیجے ۔ جن کی تعداد بہت اور بے شمار ہے یہ سب کے سب ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں کے احکام کے ماتحت

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

جائے کہ آپ کا استحقاق نص کی وجہ سے ہے تو اس سے بڑے بڑے مہاجرین کافر یا فاسق قرار پاتے ہیں(یعنی معتزلی فرقہ کی نظر میں آپ کی خلافت منصوص نہیں ہے اگر چہ حقیقت میں منصوص ہی ہے لیکن اگر منصوص مان لیا جائے تو پھر بڑے بڑے لوگ بڑے بڑے کافر و فاسق اور ظالم قرار پائیں گے)

بہرحال علامہ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ ہم لوگ آپ کی خلافت کو منصوص نہیں مانتے وجہ اوپر بیان کی جاچکی ہے لیکن امامیہ اور زیدیہ نے جناب امیرؑ کے اقوال کے ظاہری معنیٰ لئے ہیں اور اس طرح وہ دونوں فرقے سرکش اونٹنی پر سوار ہوگئے ہیں(یعنی مشکل میں گرفتار ہوگئے ہیں)میری جان کی قسم جناب امیرؑ کے یہ الفاظ محض وہم کی وجہ سے ہیں اور زیدیہ اور امامیہ نے محض ظن کے غلبہ کی وجہ سے حکم لگایا ہے حالانکہ حالات و واقعات ایسے ظن کو باطل قرار دیتے ہیں اور وہم کو ختم کرتے ہیں کلام ابن ابی الحدید کا اختتام۔(۱)

میں کہتا ہوں وہ کون سے حالات ہیں؟اور وہ حالات کیسے اس نظریہ کو باطل کرتے ہیں؟بلکہ حالات تو(شیعوں کے نظریہ کی)تاکید و تائید کرتے ہیں،ان کی بنیاد کو مضبوط کرتے ہیں اور ان کی دلیلوں کو محکم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام سے رضا ظاہر نہیں ہوتی

بہرحال یہاں موضوع گفتگو اثبات نص نہیں ہے اس کے بارے میں ہم دوسری جگہ گفتگو کریں گے،نص کے بارے میں تو آپ فرمارہے ہیں کہ اگر شیعوں کے قول کے مطابق نص مان لی جائے تو(ہمارے مہاجرین و انصار کافر ہوجائیں گے)یہاں گفتگو تو اس موضوع پر ہورہی ہے کہ ائمہ اہل بیتؑ غاصب خلفا کا اقرار بھی کرتے تھے اور ان کی خلافت پر راضی بھی تھے جب کہ امیرالمومنینؑ کا کلام جو کچھ بھی پیش کیا گیا اس سے اقرار ہوتا ہے نہ رضا البتہ ناراضگی اور اختلاف ظاہر ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۳۰۷

۱۶۱

خلافت کے بارے میں صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا موقف

صدیقہ طاہرہ صلوات اللہ علیہا نے ایک خطبہ میں غصب فدک کو ایک غاصبانہ اقدام بتایا ہے اور غصب فدک کے بارے میں آپ کا اظہار ناراضگی درحقیقت خلافت کے سلسلے میں رونما ہونےوالے حادثات کا شدّت سے انکار ہے ورنہ اسی خطبہ میں آپ نے غصب کو ایک جرم بتایا اور غاصبوں کی پول کھول دی ہے۔اسی خطبہ کے کچھ اجزا ملاحظہ ہوں،آپؐ فرماتی ہیں:یہاں تک کہ اللہ نے اپنے نبیؐ کو انبیا کی منزل میں(وفات پیغمبرؐ)پہنچایا اب نفاق کا راز ظاہر ہونےلگا اور دین کی نقاب بوسیدہ ہو کے پھٹ گئی،گونگے لگے اور گمنام نابغہ دہر ہوگئے،باطل پرست طاقتیں ابھرنے لگیں،شیطان نےاپنے گھونسلے سے ابھارا اور تمہارے آنکھوں میں رینگنےلگا اور تمہیں اٹھانے کی کوشش کی تو بہت ہلکا پایا اور تمہیں دوہنےلگا تو دودھ کے بدلے میں تمہیں غیظ و غضب دیدیا،اس نے تمہیں پکارا تو تمہیں اپنا جواب دینےوالا اور اپنے مکر و فریب اور دھوکےکا لحاظ کرنےوالا پایا،پس تم نے اُس اونٹ کو داغ لگایا جو تہمارا نہیں تھا اور تم اس گھاٹ پر اترے جو تمہارا گھاٹ نہیں تھا،یہ سب کچھ ہوگیا لیکن عہد قریب ہے،زخم گہرا ہے جو ابھی بھرا نہیں ہے تم فتنوں سے خوف زدہ ہو:( أَلَافِيالْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ) (۱)

ترجمہ آیت:((حالانکہ وہ لوگ فتنے میں گرچکے ہیں اور جہنم نے کافروں کو گھیر رکھا ہے))۔

تمہارے حال پر افسوس ہے!تم کہاں بہکے جا رہے ہو تمہارے سامنے یہ خدا کی کتاب موجود ہے جس میں بالاعلان ڈانٹا گیا ہے جس کے شواہد چمک رہے ہیں اور اوامر واضح ہیں،کیا تم اس کو چھوڑ کے منھ موڑچکے ہو یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز کو بنیاد بنا کے فیصلہ کررہے ہو۔

(بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا)(۲)

ترجمہ آیت:((ظالموں کو بدلے میں کیا بری چیز ملی ہے))۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ توبہ آیت:۴۹ (۲)سورہ کہف آیت:۵۰

۱۶۲

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِيناً فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ آیت:(اورج و اسلام کے علاوہ کسی دین کو لیکے آئےگا تو وہ ہرگز قبول نہ کیا جائےگا آخرت میں وہ نقصان اٹھانےوالں سے ہوجائےگا)۔(۱)

پھر آپ نے فدک کا معاملہ اٹھایا اور اس پر طویل گفتگو اور شدت سے غصب فدک کی مخالفت کی پھر خطبہ ختم کیا۔(۲)

ایک روایت میں ہے کہ آپؑ قبر نبیؐ کی طرف متوجہ ہوئیں اور مندرجہ ذیل اشعار پڑھے جس میں صرف شکایت ہی شکایت ہے یہ اشعار ہند بنت اثاثہ کے ہیں۔

ترجمہ اشعار:آپ کے بعد بہت سی چیزیں بارش کے قطروں کی طرح پھیلیں اگر آپ ان کو دیکھتے ہوتے تو مصیبتں زیادہ نہ ہوتیں،جب آپ کی وفات ہوگئی اور زمانہ ہمارے اور آپ کے درمیان حائل ہوگیا تو ہماری طرف سے لوگوں کے دلوں میں جو راز تھے ظاہر ہوگئے،لوگ ہم پر حملہ آور ہوگئے اور ہمارا استخفاف کردیا،آپ نے جیسے ہی غیبت اختیار کی تو لوگوں نے ہمارا حق غصب کرلیا۔(۳)

آپ کا خطبہ صغیرہ ہی کے موضوع پر ہے اور آپ نے غاصبان خلافت کی واضح طور سے مخالفت کی ہے اور اپنے حق مغصوبہ پر احتجاج کیا ہے تاریخ شاہد ہے کہ جب آپ بیمار پڑیں تو عورتیں آپ کی عیادت کو آئیں آپ سے پوچھنے لگیں،بنت رسولؐ آپ کی بیماری کا کیا حال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ آل عمران آیت:۸۵

(۲)بلاغات النساء ابن طیفورص:۱۳۔۱۴خطبہ فاطمہ زہراؑ،شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۵۱جواہرالمطالب فی مناقب امام علیؑ،ابن دمشقی ج:۱ص:۱۵۹

(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۱۲غریب الحدیث،ابن سلام ج:۴ص:۱۱۶۔و شرح نہج البلاغہ ج:۲ص:۵۰ج:۶ص:۴۳،غریب الحدیث ابن قتیبہ ج:۱ص:۲۶۷،اسی طرح کتاب البدءو التاریخ،ج:۵ص:۶۸۔۶۹

۱۶۳

ہے؟آپ نے فرمایا میں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ میں تمہارے دنیا سے تنگ آچکی ہوں،تمہارے مردوں سے بیزار ہوں،میں نے ان کو گونگا کرنے کے بعد ان سے گفتگو کی ہے،میں نے انھیں آزمانے کے بعد برا سمجھا ہے،برا ہودھار کے مڑجانے،قناتوں کے گرجانے اور نظریات کے مفلوج ہوجانے کا((انھوں نے بہت برے اعمال اپنے لئے بھیجے ہیں کہ خدا ان سے ناراض ہے اور وہ ہمیشہ عذاب ہی میں رہیں گے))میں نے ان کے گلے میں دنیا کا پھندا ڈال دیا اور بےپناہ کرکے غارت کردیا،بےعزتی،کاہلی اور رحمت خدا سے ظالم قوم کے لئے دوری ہو اور ان پر وائے ہو انھوں نے رسالت کی بلندیوں کو کہاں لا پٹکا؟نبوت کی دیواروں کو کہاں گراویا؟روح امین کی منزل ھبوط کو کیا ذلیل کیا؟اور دین و دنیا کے امور پر نظر رکھنےوالے کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟خبردار ہوجاؤ یہی کھلا ہوا گھاٹا ہے))انھوں نے ابولحسنؑ سےکس چیز کا بدلہ لیا ہے؟(۱) اس خطبہ کو مولائے کائناتؑ کے خلیفہ ہونے سے جو فوائد مرتب ہوئے اس سلسلے میں لکھا جاچکا ہے۔

ابن ابی الحدید فدک کے بارے میں جو واقعات ہوئے ان کو لکھنے کے بعد اسی سلسلہ میں دونوں خطبہ بھی لکھتے ہیں،اس کے بعد لکھتے ہیں!یہ جان لو کہ میں نے اس فصل میں وہ تمام باتیں لکھ دی ہیں جس کی روایت رجال حدیث اور ان کے معتبر افراد نے کی ہیں اور احمد بن عبدالعزیز جوہری نے جو کچھ اپنی کتاب میں لکھا ہے اس لئے کہ جوہری اصحاب حدیث کے نزدیک ثقہ بھی ہیں اور امین بھی،لیکن شیعوں کے علما اور ان کے اخباریوں نے جو کچھ اپنی کتابوں میں لکھا ہے اس کو اصحاب حدیث روایت کرتے ہیں نہ نقل کرتے ہیں۔(۲) خدارا مجھے کوئی بتائے کہ اخباری شیعہ اصحاب حدیث کیوں نہیں ہوسکتے؟کیا اصحاب حدیث راویاں اخبار کے علاوہ افراد ہیں؟یا اصحاب حدیث کے لئے شرط ہے کہ وہ شیعہ نہ ہوں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۳۳،بلاغات النساء ابن طیفور ص:۱۹خطبہ فاطمہ زہراؑ،جواہر المطالب،ابن دمشقی ج:۱ص:۱۶۵۔۱۶۶۔

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۳۴۔۲۳۵

۱۶۴

خلافت کے معاملے میں امام حسن علیہ السلام کا موقف

یہ امام حسن علیہ السلام ہیں اگر چہ آپ کا صبر،حلم اور صلح پسندی مشہور ہے لیکن خلافت جو اہل بیتؑ کا حق تھا وہ جب غصب کرلیا گیا تو آپ غافل نہیں رہے اور دنیا کو متنبہ کرنے کے ساتھ تاریخ میں اپنا انکار درج کرادیا،آپ کے کچھ ارشادات ملاحظہ ہوں۔

۱۔آپؑ ہی کے لئے مشہور ہے کہ ابوبکر منبر پر خطبہ دے رہے تھے تو آپ اٹھے اور فرمایا میرے باپ کے منبر سے اترجا!(۱)

۲۔جب موالئے کائناتؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی بیعت کی گئی تو آپؑ نے معاویہ کو لکھا اما بعد!اللہ نے حضور سرور کائناتؐ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا،جب آپ کی وفات ہوگئی تو خلافت کے لئے عرب زورآزمائی کرنے لگے قریش کہنے لگے ہم نبیؐ کے قبیلہ والے اور آپؐ کے ولی ہیں ہم سے پیغمبرؐ کی سلطنت مت چھینو!عربوں نےقریش کے اس دعویٰ کو مان لیا لیکن قریش نے ہمارے دعوے کو رد کردیا جب کہ ہم نے وہی دعویٰ کیا تھا جو انھوں نے عربوں کے مقابلہ میں کیا تھا،عرب نے ان کے دعوے کو مانا لیکن انھوں نے ہمارے اس دعوے کو رد کردیا،افسوس قریش نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔(۲)

معاویہ کو اس نے امام حسن علیہ السلام کے حق میں نقطہ ضعف خیال کیا اس لئے اس نے جواب میں لکھا((آپ نے نبیؐ کو جن لفظوں سے ہمیں یاد دلایا ہے،میں اس میں کوئی شک نہیں کرتا اس لئے کہ سرکار دو عالمؐ سارے عالمین میں فضیلت کے حقدار ہیں))لیکن آپ نے امر خلافت میں مسلمانوں کے جھگڑے کا جو تذکرہ کیا ہے تو آپ نے اس بیان میں عمر اور ابوبکر صدیق اور امانتدار ابوعبیدہ اور باکردار مہاجرین پر صریحی تہمت لگائی ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ریاض النضرہ ج:۲ص:۱۴۸،پہلا باب واقعہ خلافت ابوبکر،تاریخ دمشق ج:۳۰ص:۳۰۷حالات ابوبکر،المنتظم ج:۴ص:۷۰،ذکر خلافت ابوبکر،کنزالعمال ج:۵ص:۶۱۶حدیث:۱۴۰۸۴

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۴

۱۶۵

شایان شان نہیں ہے۔(۱)

۳۔معاویہ کو ایک دوسرے خط میں آپ نے لکھا((اما بعد!خداوند عالم نے حضور سرور کائناتؑ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا جب آپ کی وفات ہوگئی تو عرب امر خلافت میں لڑنے لگے،قریش نے کہا ہم نبیؐ کے قبیلہ سے آپؐ کے خاندان سے ہیں اور آپ کے ولی ہیں،تمہارے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ تم محمدؐ کی سلطنت اور ان کا حق ہم سے چھین لو،عربوں نے دیکھا کہ قریش کی باتوں میں وزن ہے اور جانشینی پیغمبرؐ میں جو جھگڑا کر رہا ہے اس کے خلاف قریش کے پاس یہ محکم دلیل ہے،پس عرب نے تسلیم کرلیا اور حکومت ان کے حوالے کردی پھر ہم(اہل بیت پیغمبرؐ)وہی دعویٰ جو قریش نے عربوں کے خلاف کیا تھا قریش کے سامنے لیکے گئے لیکن قریش نے عربوں کی طرح ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا،انھوں نے قرابت پیغمبرؐ اور قربت خاندان کا واسطہ دیکےعربوں سے حکومت حاصل کرلی لیکن ہم اہل بیت نبوتؐ نے جب وہی دلیل قریش کے خلاف استعمال کی تو انھوں نے اس کو ماننے سے انکار کردیا ہمیں خلافت سے دور کردیا اور اجماعی طور پر ہم سے ولایت پیغمبرؐ چھین لی اور ہمارا مال کھا گئے،ہم ان سے دور ہیں وعدہ گاہ تو اللہ ہے وہی سرپرست اور مددگار ہے۔

ہمیں حیرت ہورہی ہے کہ ان لوگوں پر جو ہمارے خلاف ہمارے حق کے بارے میں اچھل کود کرتے رہے حالانکہ وہ لوگ صاحبان فضیلت تھے اور سابق الاسلام ہم تو ان کے خلاف اس لئے کچھ نہیں کرسکے کہ ہمیں خوف تھا کہ کہیں دین برباد ہوجائے یا منافقین اور دشمن کے گروہ دیوار اسلام میں رخنہ نہ ڈال دیں یا ہمارا جہاد انھیں ان کے مفسد ارادوں میں کامیاب نہ کردے اور معاویہ!اس سے بڑا تعجب مجھے تیری اچھل کود پر ہورہا ہے تو وہ طلب کر رہا ہے جس کا تو اہل نہیں ہے۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۵

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۳۳۔۳۴

۱۶۶

معاویہ نے بھی اس خط کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑا وہ لکھتا ہے((آپؑ نے وفات پیغمبرؐ کا تذکرہ کیا پھر آپ کی وفات کے بعد امر خلافت کے لئے مسلمانوں کے جھگڑے کا تذکرہ کیا اور یہ کہ لوگ آپ کے والد پر تغلب کرگئے تو اس بیان میں آپ نے ابوبکر صدیق،عمر فاروق،ابوعبیدہ امین،حواری پیغمبرؐ اور انصار مہاجرین کے صالح لوگوں پر تہمت لگائی ہے،میں آپ کی طرف سے ایسی باتوں کو ناگوار سمجھتا ہوں،آپ میرے نزدیک اور دوسرے لوگوں کے نزدیک بھی ان افراد میں ہیں جن کے بارے میں بدگمانی نہیں کی جاتی اور برا نہیں سمجھا جاتا نہ آپ کمینے لوگوں میں ہیں(معاذ اللہ)آپ سے تو میں قول سدید اور اچھی اچھی باتوں کی امید رکھتا ہوں(سننا چاہتا ہوں)(۱)

۴۔ابن اثیر لکھتے ہیں کہ!جب امام حسنؑ نے حکومت معاویہ کے حوالہ کرنے کا ارادہ کیا تو آپ منبر پر گئے اور خطبہ دیا:فرمایا((اے لوگو!ہم ہی تمہارے امیر اور تمہارے مہمان ہیں ہم ہی تمہارے نبیؐ کے وہ اہل بیتؑ ہیں جنھیں اللہ نے برائیوں سے دور رکھا اور ایسا پاک و پاکیزہ رکھا ہ جو پاک رکھنے کا حق ہے،آپ اس آیت کی تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ مجسل میں کوئی نہیں تھا مگر یہ کہ رو رہا ہو اور لوگ اتنا روئے کہ ہچکیوں کی آواز بلند ہوگئی۔(۲)

آپ دیکھیں!امام حسنؑ نے کس طرح یہ بات پکی کردی کہ حکومت و خلافت صرف اہل بیتؑ نبیؐ کا حق ہے آپ نے لوگوں کے ہمدردانہ جذبات اس طرح ابھارے کہ لوگ اہل بیتؑ کی مظلومیت پر ہچکیوں سے روئے۔

خلافت کے معاملے میں امام حسین علیہ السلام کا موقف

حضرت امام ابوعبداللہ الحسین الشہیدؑ نے اپنے بزرگوں کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اکثر یاد دلایا کہ پیغمبرؐ کے بعد اہل بیتؑ کے علاوہ جس کے ہاتھ میں بھی خلافت رہی وہ غاصب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۳۵

(۲)الکامل فی التاریخ ج:۳ص:۴۱،۲۷۳ سنہکے واقعات،تاریخ طبری ج:۳ص:۴۱۱۶۹ سنہکے واقعات

۱۶۷

۱۔منبر پر عمر کو ٹوک دیا فرمایا:میرے باپ کے منبر سے اتر اور اپنےباپ کے منبر پر جا۔عمر نے کہا میرے باپ کا کوئی منبر نہیں ہے۔(۱)

بلکہ پورا واقعہ عبداللہ بن کعب سے سنئے،وہ کہتے ہیں جمعہ کے دن عمر پیغمبرؐ کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے حسین بن علیؑ اٹھے آپ ابھی بہت کمسن تھے آپ نے فرمایا میرے جد کے منبر سے اترجا،عمر نے کہا بھتیجے رک جاؤ لیکن امام حسین ان کی روا پکڑ کر کھینچتے رہے اور بار بار کہتے رہے میرے جد کے منبر سے اترجا،آخر عمر کو خطبہ روکنا پڑا اور منبر سے اترے اور نماز کا حکم دیا۔(۲)

۲۔آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں امام حسین علیہ السلام کی وصیت کا تذکرہ کیا ہے جو آپ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے کی تھی آپ نے فرمایا تھا میں صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں،میرا ارادہ ہے کہ میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کروں اور اپنے جد اور اپنے والد ماجد علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت پر عمل کروں۔

آپ کی اس وصیت سے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ وہ سیرت جو قابل پیروی(بلکہ واجب الاتباع)ہے وہ صرف حضور سرور کائناتؐ اور مولائے کائناتؑ کی سیرت ہے اس کے علاوہ کوئی سیرت قابل پیروی نہیں ہے۔

----------------

(۱)سیراعلام النبلاءج:۳ص:۲۸۵حالات امام حسینؑ سیراعلام النبلاءحسین شہیدؑ کے حالات میں بعینہ الاصابۃج:۲ص:۷۷پر حسین بن علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،معرفۃ الثقات،ج:۱ص:۳۰۱حسین بن علی بن ابی طالب کے حالات میں تہذیب التہذیب ج:۲ص:۳۰۰،حسین بن علیؑ کے حالات میں،تہذیب الکمال ج:۶ص:۴۰۴،حسین بن علیؑ کے حالات میں،تاریخ واسط،ج:۱ص:۳۰۲،ابوالحسین سعد بن وہب بن مناف سلمی کے حالات میں،تاریخ الخلفاءج:۱ص:۲۰۳،عمر بن خطاب کے حالات میں،تاریخ بغدادج:۱ص:۱۴۱،حسین بن علیؑ کے حالات میں بغیۃ الطلب فی تاریخ الحلب ج:۶ص:۲۵۸۴۔۲۵۸۵،حسین بن علی بن عبد مناف ابی طالب کے حالات میں،التحفۃ اللطیفۃ فی تاریخ المدینۃ الشریفہ ج:۱ص:۲۹۵،حسین بن علی کے حالات میں علل الدار قطنی،ج:۲ص:۱۲۵،تاریخ دمشق ج:۱۴ص:۱۷۵،حسین بن علیؑ کے حالات میں،کنزالعمال ج:۱۳ص:۶۵۴،حدیث:۳۷۶۶۲،تاریخ مدینہ منورہ ج:۳ص:۷۹۹،

(۲)تاریخ مدینہ منورہ ج:۳ص:۷۹۸

۱۶۸

یہی وجہ ہے کہ آپ مادی اعتبار سے کمزور پڑگئے،جو لوگ ابوبکر اور عمر کے چاہنےوالے تھے ان کی ہمدردیاں آپ سے مفقود ہوگئیں اور جس وقت آپ نے قیام کیا تھا اس وقت دونوں خلیفہ کے چاہنےوالے زیادہ تھے یعنی حکومت بنوامیہ کے ہاتھ میں تھی اور آپ دیکھ چکے ہیں کہ معاویہ نے اپنے دو خطوں میں جو امام حسنؑ کو بھیجے تھے یہ لکھا تھا کہ آپ ان دونوں کا انکار نہ کریں بنوامیہ ابوبکر و عمر کی مخالفت کو اہل بیتؑ کا سب سے کمزور پہلو سمجھتے تھے،ابھی مقام شہادت میں معاویہ کے وہ خطوط بھی پیش کئے جائیں گے جو اس حقیقت کو زیادہ ثابت کریں گے،امام حسینؑ اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ ابوبکر و عمر کا انکار آپ کی مادّی قوت کو کم کردے گا اور آپ کا ساتھ صرف اسی وجہ سے نہیں دیں گے لیکن آپ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ مادّی قوت اور فوجی طاقت حاصل کرنے سے اہم بات اظہار حق ہے،اہل بیتؑ کے مذہب کا اظہار اور اپنے استحقاق پر اصرار آپ کی نظر میں مادّی فتح اور فوجی غلبہ سے زیادہ اہم تھا اس لئے آپ نے جہاں جو بات کہی دو ٹوک کہی اور کھل کے اعلان کیا۔۳۔آپ نے مکہ والوں اور اہل بصرہ کو ایک ہی طرح کا خط لکھا لیکن اس خط کا مضمون بھی صرف اظہار حق اور اعلان مظلومیت پر مشتمل تھا،آپ نے اس خط میں لکھا خداوند عالم نے حضرت محمد مصطفیٰﷺکو اپنی تمام مخلوقات سے منتخب کیا آپ کو نبوت سے عزت بخشی اور رسالت کے لئے اختیار کیا پھر اللہ نے آپ کو نبوت سے عزت بخشی اور رسالت کے لئے اختیار کیا پھر اللہ نے آپ کو اپنے پاس بلالیا،حضور سرور کائناتؐ نے اس کے بندوں کی خیرخواہی کی اور اللہ کا پیغام پہنچادیا،اہل بیتؑ آپ کے وارث اور ولی ہیں اور آپ کی جگہ لینے کے سب سے زیادہ مستحق ہم ہی ہیں لیکن ہماری قوم نے ہم پر دوسروں کو ترجیح دی تو ہم راضی رہے اور تفرقہ پردازی سے پرہیز کیا اور عافیت کو پسند کیا،حالانکہ ہمیں یقین ہے کہ ہم خلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں ولی امر بنایا گیا ہے وہ ہمارے حق کے غاصب ہیں۔(۱) آپ کا مندرجہ بالا کلام پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ امام حسینؑ صرف اہل بیتؑ کو مستحق خلافت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۳ص:۲۸۰کوفیوں کی طرف سے امام حسینؑ کو دعوت جانا اور مسلم ابن عقیلؑ کی روانگی۔بدایہ و نہایۃ ج:۸ص:۱۵۸،۱۵۷ امام حسینؑ کے مکہ سے نکلنے کی وجہ اور دارالمارہ میں طلب کرنا ار مقتل کے حالات،

۱۶۹

سمجھتے ہیں اور جو کچھ اس سلسلے میں تشدد ہوا اس پر اگر یہ لوگ راضی بھی رہے تو محض اس لئے کہ فرقہ بندی نہ ہو اور عافیت برقرار رہے اس لئے نہیں کہ وہ دوسروں کے لئے اپنے حق سے دست بردار ہوگئے تھے،ان کی ولایت پر راضی تھے اور ان کے حکم پر دستخط کررہے تھے بلکہ امام حسینؑ انھیں خلافت کا اہل ہی نہیں سمجھتے تھے۔

خلافت کے معاملے میں امام زین العابدین علیہ السلام کا موقف

۱۔حضرت ابومحمد علی بن حسینؑ زین العابدین علیہ السلام بھی اپنے آبا و اجداد طاہرینؑ کے طریقے پر چلتے ہوئے اپنے حق کا اظہار دعاؤں میں کرتے ہیں اور اپنی معنی خیز دعاؤں میں ان لوگوں سے کھل کے اظہار ناراض گی کرتے ہیں جنہوں نے آپ کا حق غصب کیا آپ اللہ سے شکایت کرتے ہیں کہ آپ کے اہل بیتؑ پر ظلم کیا گیا،صحیفہ کاملہ کی اڑتالیسویں دعا کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو،آپ یہ دعا یوم الاضحیٰ اور یوم جمعہ کو پڑھا کرتے تھے اس مٰں فرماتے ہیں پالنےوالے یہ مقام تیرے منتخب بندوں کا ہے اور تیرے خلفا اور تیرے امانتداروں کی یہ جگہ ہے،وہ بلند درجہ تو نے ان خاص بندوں کو جس سے مخصوص کیا ہے یہاں تک کہ تیرے چنے ہوئے بندے مغلوب و مقہور اور گمنام ہوگئے وہ تیرے حکم کو بدلتا ہوا تیری کتاب کو تقسیم ہوتا ہوا اور تیری شریعت کی سمت سے تیرے فرائض کو تحریف ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور تیرے نبی کی سنت کو متروک دیکھ رہے ہیں پالنےوالے لعنت کر ان کے دشمنوں پر(اولین و آخرین پر جو دشمن اہل بیتؑ ہیں)اور ان پر جو ان کے اس فعل سے راضی ہیں اور ان کے مطیع ار فرمابردار ہیں۔

مندرجہ بالا دعا کے فقروں میں امام نے صراحت سے اپنی مظلومت کا زکر کیا ہے وہ مظلومیت جو حق کے چھن جانے اور منصب کے غصب ہوجانے کی وجہ سے اہل بیتؑ کو جھیلنی پڑی،یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ چونکہ حق،حقدار کو نہیں مل سکا اس کی وجہ سے دین میں تحریف ہوگئی اور احکام دین میں رکاوٹ آئی،آپ نے اس ظلم سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا ہے بلکہ آخری فقرے تو تعمیم

۱۷۰

کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۲۔چبیسویں دعا میں آپ اپنے پڑوسی اور اپنے چاہنےوالوں کے لئے دعا کررہے ہیں جب ان کا تذکرہ کرتے ہیں تو فرماتے ہیں پالنےوالے!محمدؐ و آل محمد پر درود بھیج اور میرے پڑوسیوں کو اور ان کو جو ہمارے چاہنےوالے ہیں اور ہمارے حق کو پہچانتے ہیں اپنی افضل ولایت سے سرفراز فرما اور انھیں بھی جو ہمارے دشمنوں سے دور رہتے ہیں،مالک تو انھیں اپنی سنت قائم کرنے کی توفیق عنایت فرما۔

۳۔صحیفہ کاملہ کی سیتالیسویں دعا ملاحظہ فرمائیں:جو آپ یوم عرفہ میں پڑھتے تھے،آپ فرماتے ہیں پالنےوالے تو نے ہر دور میں اپنے دین کی تائید ایسے امام سے کی جو تیرے بندوں کے لئے ایک نشانی،تیرے شہروں کے لئے منارہ نور ہوا کرتا ہے،تو نے اس کی رسی اپنی محبت سے باندھ دی اور اس کو اپنی مرضی تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا تو نے اس کی اطاعت فرض کی اور اس کی نافرمانی سے ڈرایا تو نے حکم دیا تو نے اس کی اطاعت فرض کی اور اس کی نافرمانی سے ڈرایا تونے حکم دیا کہ اس کے امر کا امتثال کیا جائے اور اس کے نواہی سے باز رہا جائے کوئی آگے بڑھنےوالا اس سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے نہ کوئی پیچھے رہنےوالا اس سے پیچھے رہنے کی کوشش کرے،پس وہ امام صاحبان خلوص کے لئے پناہ اور مومنین کے لئے گوشہ عافیت ہے،وہ امام تمسک کرنےوالوں کے لئے عروہ اور عالمین کی شان ہوا کرتا ہے۔

پالنےوالے درود بھیج ان کے چاہنےوالوں پر جو ان کے مقام کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کے راستے کی پیروی کرتے ہیں،ان کے آثار کو تلاش کرتے ہیں اور ان کے سہارے سے متمسک ہیں،ان کی ولا کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں،ان کی امامت اور ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنےوالے ہیں اور ان کی اطاعت کے لئے بھرپور کوشش کرنےوالے ہیں،ان کے ایام فرج کے منتظر ہیں،انھوں نے اپنی آنکھیں ان کی طرف لگا رکھی ہیں،ان پر صلوٰت بھیج ایسی صلوات جو مبارک ہو اور ان کو پاک کرنےوالی ہو اور ان میں قوت نمو پیدا کرنےوالی ہو صبح و شام صلوت بھیج۔

مندرجہ بالا دعاؤں ہی ٹکڑے اگر چہ غصب منصب اور اظہار مظلومیت سے خالی ہیں

۱۷۱

لیکن دونوں ہی ٹکڑوں میں آپ نے اپنا چاہنےوالوں کے لئے دعا کی ہے اور ان دعاؤں میں ان کے لئے دنیا و آخرت دونوں ہی کے لئے فلاح طلب کی ہے،آپ نے اپنے چاہنےوالوں کے جو صفات بیان کئے ہیں وہ صرف شیعیان امامیہ پر منطبق ہوتے ہیں،اگر تھوڑا غور کر کے سمجھیں تو پتہ چلےگا کہ ان دعاؤں میں امامؑ نے شیعوں کے عقائد کا اقرار کیا ہے اور ان کی تصدیق کی ہے اور اس عقیدے کی بھی تقریر فرمائی جو شیعہ ابوبکر و عمر کی خلافت کے سلسلہ میں رکھتے ہیں۔

جیسے دوسری دعا کا یہ فقرہ((اور تو نے اس(امام)کی طاعت فرض کی اور یہ کہ کوئی بڑھنےوالا اس سے آگے نہ بڑھے اور پیچھے رہنےوالا اس سے تاخر نہ کرے))یہ فقرے غاصبان خلافت پر کھلے ہوئے اعتراض ہیں آپ نے وضاحت کے ساتھ بتادیا کہ خلافت غصب کرنے والے اہل بیتؑ سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے تھے۔

خلافت کے معاملے میں امام محمد باقر علیہ السلام کا موقف

امام محمد باقر علیہ السلام کا موقف تو آپ کے پہلے سوال کے جواب میں بتادیا گیا ہے،جب اہل بدروالی حدیث پیش کی گئی تھی اور جمہور صحابہ کی نظروں کی وضاحت کے ساتھ حدیثوں کے جعلی(من گھڑت)ہونے کے سلسلے میں امام ابوجعفر محمد باقرؑ کا کلام پیش کیا گیا تھا،اس کلام کا ذکر ابن ابی الحدید نے بھی کیا ہے اور آپ کا یہ کلام اعلان کررہا ہے کہ خلافت اہل بیتؑ کا حق ہے اس کے ساتھ ہی آپ نے غصب خلافت کا شکوا بھی کیا ہے،آپ سوال اول کا جواب ملاحظہ کریں۔اصل بات یہ ہے کہ امام محمد باقرؑ کے کلام کے ساتھ دوسرے ائمہ اہل بیتؑ کا اس موضوع پر کلام اس کثرت سے وارد ہوا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے،اسی طرح شیعیان علیؑ کا کلام بھی ہے،لیکن ہم یہاں صرف ان باتوں پر اختصار کررہے ہیں جن کا تذکرہ علما جمہور نے بھی اپنی کتابوں میں کیا ہے اور جس کی دشہرت اس پائے کو پہنچی ہے کہ تجاہل یا انکار ممکن ہی نہیں ہے۔

۱۷۲

خلافت کے مسئلہ میں محمد بن حنفیہ کا موقف

عبداللہ بن زبیر اپنے خطبہ میں مولائے کائناتؑ کی ذات پر رکیک حملہ کررہا تھا یہ خبر محمد بن حنفیہ تک پہنچی،آپ اسی وقت وہاں پہنچے،ابھی وہ خطبہ دے ہی رہا تھا لیکن آپ کے لئے ایک کرسی رکھ دی گئی،آپ اس پر بیٹھے اور اس کے خطبہ کو روک دیا پھر فرمایا اے گروہ عرب!تمہارے چہرے سیاہ ہوں،علیؑ کو برا کہا جارہا ہے اور تم سن رہے ہو!علیؑ دشمنان خدا کے خلاف اللہ کے ہاتھ ہیں اور اس کے حکم سے گرائی ہوئی ایک بجلی ہیں،خدا نے کافروں پر اور حق اللہ کا انکار کرنےوالوں پر علیؑ کو بجلی بنا کر گرایا تھا اور علیؑ نے کافروں کے کفر کی وجہ سے انھیں قتل کیا تو وہ انھیں برا کہنے لگے ان سے بغض رکھنے لگے اور کینہ و حسد اپنے دل میں چھپالیا،اس لئے کہ پیغمبرؐ زندہ تھے اور ابھی آپ کی وفات نہیں ہوئی تھی،پس جب اللہ نے پیغمبرؐ کو اپنے جوار میں منتقل کر لیا اور اپنے پاس موجود نعمتوں سے انھیں ملا دینا پسند کیا تو لوگوں کے دلوں کے کینے ظاہر ہوگئے،دل کا میل ظاہر ہوگیا،(لوگ علیؑ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے)کسی نے آپ کا حق چھیں لیا،کوئی آپ کو قتل کرنے کے لئے مشورے کرنے لگا اور کوئی آپ کو گالیاں دینے لگا اور جھوٹے عیب لگانے لگا۔۔۔۔(۱)

دیکھا آپ نے جناب محمد بن حنفیہ نے دشمنان علیؑ سے تبرّا کیا،اپنی ناراض گی کا اظہار بھی کیا اور اس طرح یہ سب کچھ کیا کہ جس سے ثابت ہوجائے کہ وہ خلافت مغصوبہ پر راضی نہیں تھے اور غاصبوں کی خلافت،شرعی بنیاد پر نہیں تھی کہ وہ حق کے غصب سے بری الذمہ قرار پائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۴ص:۶۲،مروج الذھب ج:۳ص:۹۰،معاویہ بن یزید بن معاویہ کے دور حکومت کا ذکر اور مروان بن حکم اور مختار بن ابی عبید و عبداللہ بن زبیر

۱۷۳

خلافت کے بارے میں عباس بن عبدالمطلب کا موقف

جب ابوبکر نے عباس بن عبدالمطلب کو پیش کش کی کہ وہ اور ان کی اولاد خلافت میں سے کچھ حصہ لےلیں،سازش یہ تھی کہ یہ پیشکش بنوہاشم میں پھوٹ کا سبب بن جائے اور عباس بن عبدالمطلب اور ان کی اولاد علیؑ سے ٹوٹ کر علیٰیحدہ ہوجائیں لیکن عباس نے بہت جچا تلا جواب دیا،انھوں نے کہا:اگر تم پیغمبر کی وجہ سے خلافت کے طالب ہو تو تم نے ہمارا حق غصب کیا ہے اور اگر تم مومنین کے ذریعہ خلیفہ بنے ہو تو ہم بھی مومن ہیں لیکن ہم تمہاری خلافت سے راضی نہیں ہیں اور تمہاری باتوں میں کتنا اختلاف ہے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مومنین تم پر طعن کررہے ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ مومنین تمہاری طرف مائل ہوئے ہیں،بہرحال جو کچھ تم ہمیں دے رہے ہو اگر تمہارا حق ہے توا پنے پاس ہی رکھو اور اگر مومنین کا حق ہے تو تم فیصلہ کرنےوالے کون ہو اور اگر ہمارا حق ہے تو ہم اپنے حصے تقسیم نہیں کریں گے۔

تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ پیغمبرؐ ہم میں سے بھی ہیں اور تم میں سے بھی تو پیغمبرؐ اس درخت سے ہیں جس کی ہم شاخیں ہیں لیکن تم پڑوسی ہو،(۱)

امر خلافت میں فضل بن عباس کا نظریہ

فضل بن عباس نے قریش پر احتجاج کرتے ہوئے فرمایا((اے قریش کے لوگو!خصوصاً اے بنی تمیم!اس میں کوئی شک نہیں کہ تم نے نبی کی خلافت ہتھیا لی لیکن ہم لوگ تم سے زیادہ مستحق ہیں اگر ہم جو خلافت اہل ہیں خلافت طلب کرتے تو لوگوں کو دوسروں کے مطالبہ سے زیادہ ہمارا مطالبہ ناگوار گذرتا اس لئے کہ لوگ ہم سے حسد کرتے ہیں اور کینہ رکھتے ہیں۔لیکن ہم خلافت کا مطالبہ جو نہیں کر رہے ہیں اس کی ایک وجہ ہے وہ یہ کہ:ہمارا قائد نے ایک عہد کیا ہوا ہے جو انھیں طلبِ خلافت سے روک رہا ہے))(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۲۲۱،الامامت و السیاست ج:۱ص:۱۸علی بن ابی طالبؑ کی بیت کیسے ہوئی تھی،تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۶،۱۲۵ واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ اور ابوبکر کی بیعت

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۱

۱۷۴

امر خلافت میں عبداللہ بن عباس کا موقف

اس موضوع پر عبداللہ بن عباس اور عمر بن خطاب سے اکثر گفتگو ہوئی ہے ان میں سے ایک مکالمہ حاضر ہے:

۱۔طبری،ابن عباس سے وہ عمر سے روایت کرتے ہیں کہ عمر نے ان سے پوچھا اے ابن عباس تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری قوم کو تم سے محمدؐ کے بعد کس چیز نے روکا ابن عباس کہتے ہیں کہ مجھے اس سوال کا جواب دینا گوارہ نہ ہوا،میں نے کہا کہ اگر میں نہیں جانتا تو امیرالمومنین مجھے بتادیں عمر نے کہا:لوگوں کو یہ بات پسند نہ آئی کہ ایک ہی خاندان میں نبوت اور خلافت جمع ہو اور تم اپنی قوم کے سامنے فخر کرنے لگو اس لئے قریش نے خلافت اپنے لئے چن لی پس انھوں نے صحیح کیا اور ٹہر گئے،ابن عباس کہتے ہیں مٰں نے جواب دیا امیرالمومنین کو قیش نے اپنے لئے چن لیا اور انھوں نے صحیح کیا لیکن اگر اس کا انتخاب کیا ہوتا جسے اللہ نے اختیار کیا ہے تو زیادہ بہتر ہوتا نہ کوئی رد کرتا نہ حسد کرتا آپ نے جو یہ فرمایا کہ انھوں نے یعنی قریش نے کراہت محسوس کی کہ نبوت و خلافت ایک ہی خاندان میں جمع ہو تو اللہ نے کراہت کرنےوالوں کا تعارف بھی کرادیا ہے اور انجام بھی بتادیا ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ((یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نازل کی ہوئی باتوں کو مکروہ سمجھتے ہیں اس لئے ان کے اعمال حبط کردئے گئے))۔

عمر بولے میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو،لوگوں نے ہم سے خلافت حسد اور ظلم سے چھین لی،ابن عباس نے کہا اے امیرالمومنین ظلم کے بارے میں تو عالم جاہل سب جانتے ہیں حسد کے بارے میں کہنا ہے کہ ابلیس نے ہمارے جد آدم پر حسد کیا اور ہم لوگ آدم کی اولاد میں سے ہیں اگر ہم بھی محسود ہوئے تو کیا ہوا؟(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۳ص:۲۸۹،موسسہ اعلمی بیروت،اس جگہ پر تاریخ طبری کے کمپیوٹری پروگرامؐ الالفیۃ))میں حذف ہے۔

۱۷۵

۲۔ابن ابی حدید نے عبداللہ بن عمر سے اس گفتگو کی حکایت کی ہے جو ابن عباس اور عمر کے درمیان ہوئی تھی دونوں بیانوں میں تھوڑا سا اختلاف بھی ہے اور کچھ اضافہ بھی،اضافہ یہ ہے کہ عمر نے تنگ آکر کہا کہ ابن عباس ہوش میں آؤ تم بنوہاشم کے دلوں نے قریش کی حکومت سے کینہ اور حسد کا بیڑا اٹھایا ہے تمہارے دل کینہ و حسد سے خالی ہو ہی نہیں سکتے،ابن عباس نے کہا امیرالمومنین ذرا زبان سنبھال کے اس لئے کہ بنوہاشم کے دلوں میں پیغمبرؐ خدا کابھی دل شامل ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا ہے اور بنوہاشم میں وہ اہل بیتؑ بھی ہیں جن کے بارے میں اللہ نے ارادہ کیا ہے کہ انھیں پاک رکھے اور ان سے ہر رجس کو دور رکھے اور ایسا پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ہے اور آپ نے جو کینہ پروری والی بات کہی ہے تو اس کا دل کینے سے کیسے پاک رہےگا دیکھ رہا ہے کہ اس کی چیز دوسرے کے قبضہ میں ہے اور اس سے غصب کرلی گئی ہے؟

عمر نے کہا:ابن عباس تمہارے بارے میں کچھ سن رہا ہوں تم یہ کہتے پھر رہے ہو کہ یہ تمہارا حق تھا جو تم پر ظلم و جور کر کے چھین لیا گیا،ابن عباس نے جواب دیا کہ آپ جو حسد والی بات کہہ رہے ہیں تو ہم آدمؑ کی اولاد ہیں آدمؑ سے ابلیس نے حسد کیا حسد نے اس کو جنت سے نکال دیا گیا ہم آدمؑ کی اولاد ہیں محسود ہونا ہماری میراث ہے رہ گیا ظلم کا سوال تو امیرالمومنین آپ جانتے ہیں کہ حقدار کون ہے؟(۱)

۳۔دوسری حدیث میں ابن عباس اور عمر کی گفتگو کو ابن ابی الحدید نے مالی ابوجعفر محمد بن حبیب سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن میں عمر کے پاس پہنچا تو عمر کہنے لگے اے ابن عباس یہ شخص عبادت میں اتنی کوشش کررہا ہے کہ لگتا ہے کہ ریا کاری کررہا ہے میں نے پوچھا وہ کون ہے؟کہنے لگے تمہارا چچازاد بھائی یعنی علیؑ،میں نے کہا وہ ریا کاری نہیں کرتے اے امیرالمومنین عمر نے کہا وہ لوگوں کے سامنے خود کو سزاوار خلافت تو ظاہر کررہے ہیں میں نے کہا ظاہر کرنا کیا مطلب؟اور ان کو ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟پیغمبرؐ تو ان کو خلافت دے کر ہی گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۲ص:۵۴

۱۷۶

تھے لیکن آپ نے ان سے چھین لیا عمر نے کہا:اصل بات یہ ہے کہ وہ ابھی جوان اور کم عمر تھے عرب نے ان کے سن کو چھوٹا سمجھا اب وہ کامل ہوچکے ہیں کیا تم جانتے نہیں کہ اللہ نے کسی نبیؐ کو مبعوث نہیں کیا مگر چالیس سال کا ہونے کے بعد میں نے کہا اے امیرالمومنین لیکن جو لوگ صاحبان عقل و فہم ہیں وہ تو علیؑ کو اس دن سے کامل سمجھ رہے ہیں،جب اسلام کا منارہ بلند ہوا لیکن علیؑ کو محروم بھی سمجھتے ہیں(۱) اس کے علاوہ بھی کئی بار عمر بن خطاب اور عبدالہ بن عباس سے گفتگو ہوئی جس کو عمر کی رائے پیش کرنے کے وقت لکھا جائےگا۔۴۔عتبیٰ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ جب سفر کربلا میں امام حسینؑ مکہ پہنچے اور وہاں حج کو عمرہ سے بدل کر کوفہ جانے لگے تو اس وقت ابن زبیر اور ابن عباس ایک دن اکھٹا ہوئے ابن عباس نے ابن زبیر کے پہلو میں ٹہوکا مارا اور یہ شعر مقام مثال میں پڑھا۔ترجمہ شعر:اے چنڈول(قنبرہ)اپنے گھوسلے میں خوشی سے بیٹھ کہ اب فضا خالی ہوگئی،خوب چہہ چہہ کر اور جتنا چاہے چونچ مار اطمینان سے انڈے دے۔اے ابن زبیر!خدا کی قسم امام حسینؑ چلے گئے اور مکہ تمہارے لئے خالی ہوگیا،ابن زبیر نے کہا،خدا کی قسم تم(بنی ہاشم)کچھ نہیں سوچتے مگر یہ کہ خلافت صرف تم لوگوں کا حق ہے،ابن عباس نے کہا سنو!سوچتا وہ ہے جس کو شک ہو ہم لوگ تو یقین رکھتے ہیں۔(۲)

۵۔یہ ابن عباس ہی تھے جو خطبہ شقشقیہ کے ناتمام رہ جانے پر بول اٹھے تھے کہ مجھے کسی کلام کے نامکمل رہ جانے پر اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس کلام کے نامکمل رہنے پر افسوس ہے،امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس خطبہ میں بات کو وہاں تک نہیں پہنچا سکے جہاں تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے تھے۔(۳) یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خطبہ شقشقیہ میں عمر اور ابوبکر کی بھرپور شکایت کی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۲ص:۸۰

(۲)سیرہ اعلام النبلاءج:۳ص:۳۵۴،حالات عبداللہ ابن عباس شرح نہج البلاغہ ج:۲۰ص:۱۳۴

(۳)نہج البلاغہ ج:۱ص:۳۷

۱۷۷

خطبہ شقشقیہ مقام تنقید میں

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے استاد ابوالخیر مصدق بن شبیب واسطی نے ۶۰۳سنہمیں کہا کہ میں نے شیخ ابومحمد عبداللہ بن احمد جو ابن خشاب کے نام سے مشہور ہیں ان کے سامنے یہ خطبہ پڑھا تو جب میں اس منزل پر پہنچا(کہ ابن عباس کو خطبہ نامکمل رہنے کا افسوس رہا)ابن خشاب نے کہا اگر میں ہوتا اور ابن عباس کو یہ کہتے ہوئے سنتا تو یہ ضرور پوچھتا کہ کیا تمہارے چچازاد بھائی کے دلم یں کچھ اور بھی باقی تھا جو اس خطبہ مٰں نہیں کہہ سکے؟(کہ تم کو افسوس ہورہا ہے کہ جس منزل تک علیؑ خطبہ کو پہنچانا چاہتے تھے نہیں پہنچاسکے؟)خدا کی قسم انھوں نے اولین کو چھوڑا نہ آخرین کو اور ان کے دل میں جس کے بارے میں جو کچھ تھا وہ کہہ ڈالا سوائے پیغمبرؐ کے تذکرہ کے۔

مصدق کہتے ہیں کہ ابن خشاب پر مذاق اور مسخرے قسم کے آدمی تھے،مصدق کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ خطبہ امیرالمومنینؑ کا نہیں ہے؟بلکہ من گھڑت ہے،ابن خشاب بولے مجھے اسی طرح اس کے کلام علیؑ ہونے کا یقین ہے جیسے تمہارے مصدق ہونے کا،میں نے کہا لوگ کہتے ہیں یہ سید رضیؒ کا کلام ہے،وہ کہنے لگے اچھا بس خاموش رہو!رضی ہوں یا غیر رضی،کسی کا اتنا بڑا کلیجہ نہیں نہ کسی کو یہ اسلوب میسّر ہے))ہم نے رضی کے رسائل بھی پڑھے ہیں اور ان کے کلام منشور کا لہجہ ار طیرقہ ایراد بھی خوب پہچانتا ہوں اس کلام سے اس کا کوئی میل نہیں،پھر بولے میں نے اس خطبہ کو ان کتابوں میں دیکھا ہے جو رضی کی پیدائش سے دو سو سال پہلے لکھی گئی ہیں میں نے اس انداز تحریر میں اس کو دیکھا ہے جس کو میں خوب پہچانتا ہوں میں اس دور کے علم اور اہل ادب کے انداز تحریر سے بھی واقف ہوں جو رضی کے والد ابواحمد نقیب کی پیداےش کے پہلے موجود تھے۔

مصدق کہتے ہیں میں نے کہا کہ میں نے اس خطبہ کو اپنے استاد ابوالقاسم بلخی کی تصنیفات میں دیکھا،یہ ابوالقاسم بغدادی معتزلیوں کے امام ہیں یہ معتمد عباسی کے دور حکومت میں تھے،وہ دور علامہ رضی کے بہت پہلے کا زمانہ تھا،اس خطبہ کو میں نے شیعوں کے مناظر ابوجعفر بن قبہ کی کتاب میں بھی

۱۷۸

دیکھا ہے ان کی یہ کتاب بہت مشہور ہے اور اس کا نام کتاب الانصاف ہے،یہ ابوجعفر،ابوالقاسم بلخی کے شاگرد تھے اور علامہ رضی کی پیدائش کے بہت پہلے انھوں نے دنیا کو چھوڑ دیا تھا۔(۱)

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے خاص اصحاب اور امر خلافت

امیرالمومنین علیہ السلام کے خاص اصحاب جو گروہ صحابہ کے بھی نمایاں لوگ تھے انھوں نے سقیفہ کے دن بھی اور سقیفہ کے بعد بھی اکثر فرمایا کہ خلافت صرف علیؑ کا حق ہے۔

اس سوال کے جواب کی ابتدائی عبارتوں میں کچھ کلام گذرچکا ہے،چوتھے سوال کے جواب میں بھی کچھ باتیں عرض کی جائیں گی اس وقت ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ کلام پیش کیا جائے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب خاص خلافت سے راضی تھے نہ اس کو صحیح سمجھتے تھے۔

صادق اللہجہ ابوذر اور امر خلافت

حافظ ابن مردویہ اپنی کتاب(جو عبداللہ شافعی کے مناقب کی رد میں لکھی گئی ہے اس کے صفحہ ۸۷پر مرفوعاً اپنی سند کے ساتھ داؤد بن ابی عوف سے،انھوں نے معاویہ بن ثعلبہ لیثی سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا:کیا میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں جس سے تم اختلاف نہ کرو؟میں نے کہا:بسم اللہ،تو انھوں نے کہا ابوذرؒ جب بیمار ہوئے تو علیؑ کو وصی بنایا،ایک آدمی ابوذرؒ کی عیادت کو پہنچا،اس نے کہا آپؒ نے امیرالمومنین عمر سے کیوں نہ وصیّت کی،علیؑ سے وصیّت کرنے سے تو بہتر ہی ہوتا،ابوذرؒ کہنے لگے(تم ہی تو کہتے ہو کہ امیرالمومنین سے وصیّت کرنی چاہئے تھی تو)جو حقیقت میں امیرالمومنین ہے اس سے میں نے وصیّت کردی،خدا کی قسم وہی امیرالمومنینؑ ہیں اور وہی وہ بہار ہیں.جہاں سکون ملاتا ہے،اگر وہ تم سے جدا ہوجائیں تو لوگ بھی تمہارا انکار کردیں گے اور زم تمہارا انکار کردےگی،اس آدمی نے کہا:ابوذر!میں جانتا ہوں کہ جو پیغمبرؐ کا محبوب تر ہے وہی آپ کا بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۲۰۵۔۲۰۶

۱۷۹

محبوب تر ہے ابوذر نے کہا:تم نے بالکل صحیح سنا ہے،میں نے پوچھا کہ پھر اس وقت آپ کا سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟آپ نے فرمایا:یہی بزرگ جو مظلوم اور خانہ نشین ہے اور جس کا حق چھین لیا گیا یعنی علیؑ ابن ابی طالب۔(۱)

حذیفہ اور امر خلافت

ابوشریح سے روایت ہے کہ:حذیفہ مدائن میں تھے ہم لوگ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ امام حسنؑ اور عمار کوفہ سے آئے اور لوگوں کو علیؑ کے لشکر میں شامل ہو کر جنگ کرنے پر ابھارنے لگے،حذیفہ نے کہا اے لوگو!امام حسنؑ اور عمار تمہیں علیؑ کے لشکر میں شامل ہو کر جنگ کرنے پر ابھارنے لگے،حذیفہ نے کہا اے لوگو!امام حسنؑ اور عمار تمہیں علیؑ کے حق میں لڑنے کے لئے بلانے آئے ہیں،سنو!جو حقیقی امیرالمومنین سے ملاقات کرنا چاہتا ہے وہ علیؑ کے ساتھ ہوجائے۔(۲)

شوریٰ کے متعلق بعض صحابہ کا موقف

شعبی کی کتاب شوریٰ و مقتل عثمان کے حوالہ سے ابن ابی الحدید نے شوریٰ کے بارے میں لکھا ہے،شعبی کہتے ہیں اس کی روایت ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری نے اپنی کتاب((السقیفہ))کے زیادات میں کی ہے۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ عثمان کی بیعت کئے بعد جو واقعات ہوئے ان میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے((عوانہ نے یزید بن جریر سے انھوں نے شعبی سے انھوں نے شقیق بن مسلمہ سے روایت کی ہے کہ بیعت عثمان کے بعد مولائے کائناتؑ جب اپنے قافلے میں پہنچے تو آپ نے قبیلہ بنوہاشم کو خطاب کر کے فرمایا:اے عبدالمطلب کے بیٹو!تمہاری قوم نے تم پر اسی طرح زیادتی کی جس طرح نبیؐ کی حیات میں کرتے تھے اگر تمہاری قوم اطاعت بھی کرےگی تو تمہیں امیر ہرگز نہیں بناسکتی،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ملحقات احقاق ج:۸ص:۶۷۹،الباب المتم للعشرین:الثالث مارواہ ابوذر

(۲)انساب الاشراف ج:۲ص:۳۶۶،حالات امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام میں۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367