فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206523 / ڈاؤنلوڈ: 6000
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

جائے کہ آپ کا استحقاق نص کی وجہ سے ہے تو اس سے بڑے بڑے مہاجرین کافر یا فاسق قرار پاتے ہیں(یعنی معتزلی فرقہ کی نظر میں آپ کی خلافت منصوص نہیں ہے اگر چہ حقیقت میں منصوص ہی ہے لیکن اگر منصوص مان لیا جائے تو پھر بڑے بڑے لوگ بڑے بڑے کافر و فاسق اور ظالم قرار پائیں گے)

بہرحال علامہ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ ہم لوگ آپ کی خلافت کو منصوص نہیں مانتے وجہ اوپر بیان کی جاچکی ہے لیکن امامیہ اور زیدیہ نے جناب امیرؑ کے اقوال کے ظاہری معنیٰ لئے ہیں اور اس طرح وہ دونوں فرقے سرکش اونٹنی پر سوار ہوگئے ہیں(یعنی مشکل میں گرفتار ہوگئے ہیں)میری جان کی قسم جناب امیرؑ کے یہ الفاظ محض وہم کی وجہ سے ہیں اور زیدیہ اور امامیہ نے محض ظن کے غلبہ کی وجہ سے حکم لگایا ہے حالانکہ حالات و واقعات ایسے ظن کو باطل قرار دیتے ہیں اور وہم کو ختم کرتے ہیں کلام ابن ابی الحدید کا اختتام۔(۱)

میں کہتا ہوں وہ کون سے حالات ہیں؟اور وہ حالات کیسے اس نظریہ کو باطل کرتے ہیں؟بلکہ حالات تو(شیعوں کے نظریہ کی)تاکید و تائید کرتے ہیں،ان کی بنیاد کو مضبوط کرتے ہیں اور ان کی دلیلوں کو محکم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام سے رضا ظاہر نہیں ہوتی

بہرحال یہاں موضوع گفتگو اثبات نص نہیں ہے اس کے بارے میں ہم دوسری جگہ گفتگو کریں گے،نص کے بارے میں تو آپ فرمارہے ہیں کہ اگر شیعوں کے قول کے مطابق نص مان لی جائے تو(ہمارے مہاجرین و انصار کافر ہوجائیں گے)یہاں گفتگو تو اس موضوع پر ہورہی ہے کہ ائمہ اہل بیتؑ غاصب خلفا کا اقرار بھی کرتے تھے اور ان کی خلافت پر راضی بھی تھے جب کہ امیرالمومنینؑ کا کلام جو کچھ بھی پیش کیا گیا اس سے اقرار ہوتا ہے نہ رضا البتہ ناراضگی اور اختلاف ظاہر ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۳۰۷

۱۶۱

خلافت کے بارے میں صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا موقف

صدیقہ طاہرہ صلوات اللہ علیہا نے ایک خطبہ میں غصب فدک کو ایک غاصبانہ اقدام بتایا ہے اور غصب فدک کے بارے میں آپ کا اظہار ناراضگی درحقیقت خلافت کے سلسلے میں رونما ہونےوالے حادثات کا شدّت سے انکار ہے ورنہ اسی خطبہ میں آپ نے غصب کو ایک جرم بتایا اور غاصبوں کی پول کھول دی ہے۔اسی خطبہ کے کچھ اجزا ملاحظہ ہوں،آپؐ فرماتی ہیں:یہاں تک کہ اللہ نے اپنے نبیؐ کو انبیا کی منزل میں(وفات پیغمبرؐ)پہنچایا اب نفاق کا راز ظاہر ہونےلگا اور دین کی نقاب بوسیدہ ہو کے پھٹ گئی،گونگے لگے اور گمنام نابغہ دہر ہوگئے،باطل پرست طاقتیں ابھرنے لگیں،شیطان نےاپنے گھونسلے سے ابھارا اور تمہارے آنکھوں میں رینگنےلگا اور تمہیں اٹھانے کی کوشش کی تو بہت ہلکا پایا اور تمہیں دوہنےلگا تو دودھ کے بدلے میں تمہیں غیظ و غضب دیدیا،اس نے تمہیں پکارا تو تمہیں اپنا جواب دینےوالا اور اپنے مکر و فریب اور دھوکےکا لحاظ کرنےوالا پایا،پس تم نے اُس اونٹ کو داغ لگایا جو تہمارا نہیں تھا اور تم اس گھاٹ پر اترے جو تمہارا گھاٹ نہیں تھا،یہ سب کچھ ہوگیا لیکن عہد قریب ہے،زخم گہرا ہے جو ابھی بھرا نہیں ہے تم فتنوں سے خوف زدہ ہو:( أَلَافِيالْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ) (۱)

ترجمہ آیت:((حالانکہ وہ لوگ فتنے میں گرچکے ہیں اور جہنم نے کافروں کو گھیر رکھا ہے))۔

تمہارے حال پر افسوس ہے!تم کہاں بہکے جا رہے ہو تمہارے سامنے یہ خدا کی کتاب موجود ہے جس میں بالاعلان ڈانٹا گیا ہے جس کے شواہد چمک رہے ہیں اور اوامر واضح ہیں،کیا تم اس کو چھوڑ کے منھ موڑچکے ہو یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز کو بنیاد بنا کے فیصلہ کررہے ہو۔

(بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا)(۲)

ترجمہ آیت:((ظالموں کو بدلے میں کیا بری چیز ملی ہے))۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ توبہ آیت:۴۹ (۲)سورہ کہف آیت:۵۰

۱۶۲

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِيناً فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ آیت:(اورج و اسلام کے علاوہ کسی دین کو لیکے آئےگا تو وہ ہرگز قبول نہ کیا جائےگا آخرت میں وہ نقصان اٹھانےوالں سے ہوجائےگا)۔(۱)

پھر آپ نے فدک کا معاملہ اٹھایا اور اس پر طویل گفتگو اور شدت سے غصب فدک کی مخالفت کی پھر خطبہ ختم کیا۔(۲)

ایک روایت میں ہے کہ آپؑ قبر نبیؐ کی طرف متوجہ ہوئیں اور مندرجہ ذیل اشعار پڑھے جس میں صرف شکایت ہی شکایت ہے یہ اشعار ہند بنت اثاثہ کے ہیں۔

ترجمہ اشعار:آپ کے بعد بہت سی چیزیں بارش کے قطروں کی طرح پھیلیں اگر آپ ان کو دیکھتے ہوتے تو مصیبتں زیادہ نہ ہوتیں،جب آپ کی وفات ہوگئی اور زمانہ ہمارے اور آپ کے درمیان حائل ہوگیا تو ہماری طرف سے لوگوں کے دلوں میں جو راز تھے ظاہر ہوگئے،لوگ ہم پر حملہ آور ہوگئے اور ہمارا استخفاف کردیا،آپ نے جیسے ہی غیبت اختیار کی تو لوگوں نے ہمارا حق غصب کرلیا۔(۳)

آپ کا خطبہ صغیرہ ہی کے موضوع پر ہے اور آپ نے غاصبان خلافت کی واضح طور سے مخالفت کی ہے اور اپنے حق مغصوبہ پر احتجاج کیا ہے تاریخ شاہد ہے کہ جب آپ بیمار پڑیں تو عورتیں آپ کی عیادت کو آئیں آپ سے پوچھنے لگیں،بنت رسولؐ آپ کی بیماری کا کیا حال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ آل عمران آیت:۸۵

(۲)بلاغات النساء ابن طیفورص:۱۳۔۱۴خطبہ فاطمہ زہراؑ،شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۵۱جواہرالمطالب فی مناقب امام علیؑ،ابن دمشقی ج:۱ص:۱۵۹

(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۱۲غریب الحدیث،ابن سلام ج:۴ص:۱۱۶۔و شرح نہج البلاغہ ج:۲ص:۵۰ج:۶ص:۴۳،غریب الحدیث ابن قتیبہ ج:۱ص:۲۶۷،اسی طرح کتاب البدءو التاریخ،ج:۵ص:۶۸۔۶۹

۱۶۳

ہے؟آپ نے فرمایا میں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ میں تمہارے دنیا سے تنگ آچکی ہوں،تمہارے مردوں سے بیزار ہوں،میں نے ان کو گونگا کرنے کے بعد ان سے گفتگو کی ہے،میں نے انھیں آزمانے کے بعد برا سمجھا ہے،برا ہودھار کے مڑجانے،قناتوں کے گرجانے اور نظریات کے مفلوج ہوجانے کا((انھوں نے بہت برے اعمال اپنے لئے بھیجے ہیں کہ خدا ان سے ناراض ہے اور وہ ہمیشہ عذاب ہی میں رہیں گے))میں نے ان کے گلے میں دنیا کا پھندا ڈال دیا اور بےپناہ کرکے غارت کردیا،بےعزتی،کاہلی اور رحمت خدا سے ظالم قوم کے لئے دوری ہو اور ان پر وائے ہو انھوں نے رسالت کی بلندیوں کو کہاں لا پٹکا؟نبوت کی دیواروں کو کہاں گراویا؟روح امین کی منزل ھبوط کو کیا ذلیل کیا؟اور دین و دنیا کے امور پر نظر رکھنےوالے کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟خبردار ہوجاؤ یہی کھلا ہوا گھاٹا ہے))انھوں نے ابولحسنؑ سےکس چیز کا بدلہ لیا ہے؟(۱) اس خطبہ کو مولائے کائناتؑ کے خلیفہ ہونے سے جو فوائد مرتب ہوئے اس سلسلے میں لکھا جاچکا ہے۔

ابن ابی الحدید فدک کے بارے میں جو واقعات ہوئے ان کو لکھنے کے بعد اسی سلسلہ میں دونوں خطبہ بھی لکھتے ہیں،اس کے بعد لکھتے ہیں!یہ جان لو کہ میں نے اس فصل میں وہ تمام باتیں لکھ دی ہیں جس کی روایت رجال حدیث اور ان کے معتبر افراد نے کی ہیں اور احمد بن عبدالعزیز جوہری نے جو کچھ اپنی کتاب میں لکھا ہے اس لئے کہ جوہری اصحاب حدیث کے نزدیک ثقہ بھی ہیں اور امین بھی،لیکن شیعوں کے علما اور ان کے اخباریوں نے جو کچھ اپنی کتابوں میں لکھا ہے اس کو اصحاب حدیث روایت کرتے ہیں نہ نقل کرتے ہیں۔(۲) خدارا مجھے کوئی بتائے کہ اخباری شیعہ اصحاب حدیث کیوں نہیں ہوسکتے؟کیا اصحاب حدیث راویاں اخبار کے علاوہ افراد ہیں؟یا اصحاب حدیث کے لئے شرط ہے کہ وہ شیعہ نہ ہوں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۳۳،بلاغات النساء ابن طیفور ص:۱۹خطبہ فاطمہ زہراؑ،جواہر المطالب،ابن دمشقی ج:۱ص:۱۶۵۔۱۶۶۔

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۳۴۔۲۳۵

۱۶۴

خلافت کے معاملے میں امام حسن علیہ السلام کا موقف

یہ امام حسن علیہ السلام ہیں اگر چہ آپ کا صبر،حلم اور صلح پسندی مشہور ہے لیکن خلافت جو اہل بیتؑ کا حق تھا وہ جب غصب کرلیا گیا تو آپ غافل نہیں رہے اور دنیا کو متنبہ کرنے کے ساتھ تاریخ میں اپنا انکار درج کرادیا،آپ کے کچھ ارشادات ملاحظہ ہوں۔

۱۔آپؑ ہی کے لئے مشہور ہے کہ ابوبکر منبر پر خطبہ دے رہے تھے تو آپ اٹھے اور فرمایا میرے باپ کے منبر سے اترجا!(۱)

۲۔جب موالئے کائناتؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی بیعت کی گئی تو آپؑ نے معاویہ کو لکھا اما بعد!اللہ نے حضور سرور کائناتؐ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا،جب آپ کی وفات ہوگئی تو خلافت کے لئے عرب زورآزمائی کرنے لگے قریش کہنے لگے ہم نبیؐ کے قبیلہ والے اور آپؐ کے ولی ہیں ہم سے پیغمبرؐ کی سلطنت مت چھینو!عربوں نےقریش کے اس دعویٰ کو مان لیا لیکن قریش نے ہمارے دعوے کو رد کردیا جب کہ ہم نے وہی دعویٰ کیا تھا جو انھوں نے عربوں کے مقابلہ میں کیا تھا،عرب نے ان کے دعوے کو مانا لیکن انھوں نے ہمارے اس دعوے کو رد کردیا،افسوس قریش نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔(۲)

معاویہ کو اس نے امام حسن علیہ السلام کے حق میں نقطہ ضعف خیال کیا اس لئے اس نے جواب میں لکھا((آپ نے نبیؐ کو جن لفظوں سے ہمیں یاد دلایا ہے،میں اس میں کوئی شک نہیں کرتا اس لئے کہ سرکار دو عالمؐ سارے عالمین میں فضیلت کے حقدار ہیں))لیکن آپ نے امر خلافت میں مسلمانوں کے جھگڑے کا جو تذکرہ کیا ہے تو آپ نے اس بیان میں عمر اور ابوبکر صدیق اور امانتدار ابوعبیدہ اور باکردار مہاجرین پر صریحی تہمت لگائی ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ریاض النضرہ ج:۲ص:۱۴۸،پہلا باب واقعہ خلافت ابوبکر،تاریخ دمشق ج:۳۰ص:۳۰۷حالات ابوبکر،المنتظم ج:۴ص:۷۰،ذکر خلافت ابوبکر،کنزالعمال ج:۵ص:۶۱۶حدیث:۱۴۰۸۴

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۴

۱۶۵

شایان شان نہیں ہے۔(۱)

۳۔معاویہ کو ایک دوسرے خط میں آپ نے لکھا((اما بعد!خداوند عالم نے حضور سرور کائناتؑ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا جب آپ کی وفات ہوگئی تو عرب امر خلافت میں لڑنے لگے،قریش نے کہا ہم نبیؐ کے قبیلہ سے آپؐ کے خاندان سے ہیں اور آپ کے ولی ہیں،تمہارے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ تم محمدؐ کی سلطنت اور ان کا حق ہم سے چھین لو،عربوں نے دیکھا کہ قریش کی باتوں میں وزن ہے اور جانشینی پیغمبرؐ میں جو جھگڑا کر رہا ہے اس کے خلاف قریش کے پاس یہ محکم دلیل ہے،پس عرب نے تسلیم کرلیا اور حکومت ان کے حوالے کردی پھر ہم(اہل بیت پیغمبرؐ)وہی دعویٰ جو قریش نے عربوں کے خلاف کیا تھا قریش کے سامنے لیکے گئے لیکن قریش نے عربوں کی طرح ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا،انھوں نے قرابت پیغمبرؐ اور قربت خاندان کا واسطہ دیکےعربوں سے حکومت حاصل کرلی لیکن ہم اہل بیت نبوتؐ نے جب وہی دلیل قریش کے خلاف استعمال کی تو انھوں نے اس کو ماننے سے انکار کردیا ہمیں خلافت سے دور کردیا اور اجماعی طور پر ہم سے ولایت پیغمبرؐ چھین لی اور ہمارا مال کھا گئے،ہم ان سے دور ہیں وعدہ گاہ تو اللہ ہے وہی سرپرست اور مددگار ہے۔

ہمیں حیرت ہورہی ہے کہ ان لوگوں پر جو ہمارے خلاف ہمارے حق کے بارے میں اچھل کود کرتے رہے حالانکہ وہ لوگ صاحبان فضیلت تھے اور سابق الاسلام ہم تو ان کے خلاف اس لئے کچھ نہیں کرسکے کہ ہمیں خوف تھا کہ کہیں دین برباد ہوجائے یا منافقین اور دشمن کے گروہ دیوار اسلام میں رخنہ نہ ڈال دیں یا ہمارا جہاد انھیں ان کے مفسد ارادوں میں کامیاب نہ کردے اور معاویہ!اس سے بڑا تعجب مجھے تیری اچھل کود پر ہورہا ہے تو وہ طلب کر رہا ہے جس کا تو اہل نہیں ہے۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۵

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۳۳۔۳۴

۱۶۶

معاویہ نے بھی اس خط کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑا وہ لکھتا ہے((آپؑ نے وفات پیغمبرؐ کا تذکرہ کیا پھر آپ کی وفات کے بعد امر خلافت کے لئے مسلمانوں کے جھگڑے کا تذکرہ کیا اور یہ کہ لوگ آپ کے والد پر تغلب کرگئے تو اس بیان میں آپ نے ابوبکر صدیق،عمر فاروق،ابوعبیدہ امین،حواری پیغمبرؐ اور انصار مہاجرین کے صالح لوگوں پر تہمت لگائی ہے،میں آپ کی طرف سے ایسی باتوں کو ناگوار سمجھتا ہوں،آپ میرے نزدیک اور دوسرے لوگوں کے نزدیک بھی ان افراد میں ہیں جن کے بارے میں بدگمانی نہیں کی جاتی اور برا نہیں سمجھا جاتا نہ آپ کمینے لوگوں میں ہیں(معاذ اللہ)آپ سے تو میں قول سدید اور اچھی اچھی باتوں کی امید رکھتا ہوں(سننا چاہتا ہوں)(۱)

۴۔ابن اثیر لکھتے ہیں کہ!جب امام حسنؑ نے حکومت معاویہ کے حوالہ کرنے کا ارادہ کیا تو آپ منبر پر گئے اور خطبہ دیا:فرمایا((اے لوگو!ہم ہی تمہارے امیر اور تمہارے مہمان ہیں ہم ہی تمہارے نبیؐ کے وہ اہل بیتؑ ہیں جنھیں اللہ نے برائیوں سے دور رکھا اور ایسا پاک و پاکیزہ رکھا ہ جو پاک رکھنے کا حق ہے،آپ اس آیت کی تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ مجسل میں کوئی نہیں تھا مگر یہ کہ رو رہا ہو اور لوگ اتنا روئے کہ ہچکیوں کی آواز بلند ہوگئی۔(۲)

آپ دیکھیں!امام حسنؑ نے کس طرح یہ بات پکی کردی کہ حکومت و خلافت صرف اہل بیتؑ نبیؐ کا حق ہے آپ نے لوگوں کے ہمدردانہ جذبات اس طرح ابھارے کہ لوگ اہل بیتؑ کی مظلومیت پر ہچکیوں سے روئے۔

خلافت کے معاملے میں امام حسین علیہ السلام کا موقف

حضرت امام ابوعبداللہ الحسین الشہیدؑ نے اپنے بزرگوں کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اکثر یاد دلایا کہ پیغمبرؐ کے بعد اہل بیتؑ کے علاوہ جس کے ہاتھ میں بھی خلافت رہی وہ غاصب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۳۵

(۲)الکامل فی التاریخ ج:۳ص:۴۱،۲۷۳ سنہکے واقعات،تاریخ طبری ج:۳ص:۴۱۱۶۹ سنہکے واقعات

۱۶۷

۱۔منبر پر عمر کو ٹوک دیا فرمایا:میرے باپ کے منبر سے اتر اور اپنےباپ کے منبر پر جا۔عمر نے کہا میرے باپ کا کوئی منبر نہیں ہے۔(۱)

بلکہ پورا واقعہ عبداللہ بن کعب سے سنئے،وہ کہتے ہیں جمعہ کے دن عمر پیغمبرؐ کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے حسین بن علیؑ اٹھے آپ ابھی بہت کمسن تھے آپ نے فرمایا میرے جد کے منبر سے اترجا،عمر نے کہا بھتیجے رک جاؤ لیکن امام حسین ان کی روا پکڑ کر کھینچتے رہے اور بار بار کہتے رہے میرے جد کے منبر سے اترجا،آخر عمر کو خطبہ روکنا پڑا اور منبر سے اترے اور نماز کا حکم دیا۔(۲)

۲۔آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں امام حسین علیہ السلام کی وصیت کا تذکرہ کیا ہے جو آپ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے کی تھی آپ نے فرمایا تھا میں صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں،میرا ارادہ ہے کہ میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کروں اور اپنے جد اور اپنے والد ماجد علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت پر عمل کروں۔

آپ کی اس وصیت سے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ وہ سیرت جو قابل پیروی(بلکہ واجب الاتباع)ہے وہ صرف حضور سرور کائناتؐ اور مولائے کائناتؑ کی سیرت ہے اس کے علاوہ کوئی سیرت قابل پیروی نہیں ہے۔

----------------

(۱)سیراعلام النبلاءج:۳ص:۲۸۵حالات امام حسینؑ سیراعلام النبلاءحسین شہیدؑ کے حالات میں بعینہ الاصابۃج:۲ص:۷۷پر حسین بن علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،معرفۃ الثقات،ج:۱ص:۳۰۱حسین بن علی بن ابی طالب کے حالات میں تہذیب التہذیب ج:۲ص:۳۰۰،حسین بن علیؑ کے حالات میں،تہذیب الکمال ج:۶ص:۴۰۴،حسین بن علیؑ کے حالات میں،تاریخ واسط،ج:۱ص:۳۰۲،ابوالحسین سعد بن وہب بن مناف سلمی کے حالات میں،تاریخ الخلفاءج:۱ص:۲۰۳،عمر بن خطاب کے حالات میں،تاریخ بغدادج:۱ص:۱۴۱،حسین بن علیؑ کے حالات میں بغیۃ الطلب فی تاریخ الحلب ج:۶ص:۲۵۸۴۔۲۵۸۵،حسین بن علی بن عبد مناف ابی طالب کے حالات میں،التحفۃ اللطیفۃ فی تاریخ المدینۃ الشریفہ ج:۱ص:۲۹۵،حسین بن علی کے حالات میں علل الدار قطنی،ج:۲ص:۱۲۵،تاریخ دمشق ج:۱۴ص:۱۷۵،حسین بن علیؑ کے حالات میں،کنزالعمال ج:۱۳ص:۶۵۴،حدیث:۳۷۶۶۲،تاریخ مدینہ منورہ ج:۳ص:۷۹۹،

(۲)تاریخ مدینہ منورہ ج:۳ص:۷۹۸

۱۶۸

یہی وجہ ہے کہ آپ مادی اعتبار سے کمزور پڑگئے،جو لوگ ابوبکر اور عمر کے چاہنےوالے تھے ان کی ہمدردیاں آپ سے مفقود ہوگئیں اور جس وقت آپ نے قیام کیا تھا اس وقت دونوں خلیفہ کے چاہنےوالے زیادہ تھے یعنی حکومت بنوامیہ کے ہاتھ میں تھی اور آپ دیکھ چکے ہیں کہ معاویہ نے اپنے دو خطوں میں جو امام حسنؑ کو بھیجے تھے یہ لکھا تھا کہ آپ ان دونوں کا انکار نہ کریں بنوامیہ ابوبکر و عمر کی مخالفت کو اہل بیتؑ کا سب سے کمزور پہلو سمجھتے تھے،ابھی مقام شہادت میں معاویہ کے وہ خطوط بھی پیش کئے جائیں گے جو اس حقیقت کو زیادہ ثابت کریں گے،امام حسینؑ اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ ابوبکر و عمر کا انکار آپ کی مادّی قوت کو کم کردے گا اور آپ کا ساتھ صرف اسی وجہ سے نہیں دیں گے لیکن آپ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ مادّی قوت اور فوجی طاقت حاصل کرنے سے اہم بات اظہار حق ہے،اہل بیتؑ کے مذہب کا اظہار اور اپنے استحقاق پر اصرار آپ کی نظر میں مادّی فتح اور فوجی غلبہ سے زیادہ اہم تھا اس لئے آپ نے جہاں جو بات کہی دو ٹوک کہی اور کھل کے اعلان کیا۔۳۔آپ نے مکہ والوں اور اہل بصرہ کو ایک ہی طرح کا خط لکھا لیکن اس خط کا مضمون بھی صرف اظہار حق اور اعلان مظلومیت پر مشتمل تھا،آپ نے اس خط میں لکھا خداوند عالم نے حضرت محمد مصطفیٰﷺکو اپنی تمام مخلوقات سے منتخب کیا آپ کو نبوت سے عزت بخشی اور رسالت کے لئے اختیار کیا پھر اللہ نے آپ کو نبوت سے عزت بخشی اور رسالت کے لئے اختیار کیا پھر اللہ نے آپ کو اپنے پاس بلالیا،حضور سرور کائناتؐ نے اس کے بندوں کی خیرخواہی کی اور اللہ کا پیغام پہنچادیا،اہل بیتؑ آپ کے وارث اور ولی ہیں اور آپ کی جگہ لینے کے سب سے زیادہ مستحق ہم ہی ہیں لیکن ہماری قوم نے ہم پر دوسروں کو ترجیح دی تو ہم راضی رہے اور تفرقہ پردازی سے پرہیز کیا اور عافیت کو پسند کیا،حالانکہ ہمیں یقین ہے کہ ہم خلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں ولی امر بنایا گیا ہے وہ ہمارے حق کے غاصب ہیں۔(۱) آپ کا مندرجہ بالا کلام پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ امام حسینؑ صرف اہل بیتؑ کو مستحق خلافت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۳ص:۲۸۰کوفیوں کی طرف سے امام حسینؑ کو دعوت جانا اور مسلم ابن عقیلؑ کی روانگی۔بدایہ و نہایۃ ج:۸ص:۱۵۸،۱۵۷ امام حسینؑ کے مکہ سے نکلنے کی وجہ اور دارالمارہ میں طلب کرنا ار مقتل کے حالات،

۱۶۹

سمجھتے ہیں اور جو کچھ اس سلسلے میں تشدد ہوا اس پر اگر یہ لوگ راضی بھی رہے تو محض اس لئے کہ فرقہ بندی نہ ہو اور عافیت برقرار رہے اس لئے نہیں کہ وہ دوسروں کے لئے اپنے حق سے دست بردار ہوگئے تھے،ان کی ولایت پر راضی تھے اور ان کے حکم پر دستخط کررہے تھے بلکہ امام حسینؑ انھیں خلافت کا اہل ہی نہیں سمجھتے تھے۔

خلافت کے معاملے میں امام زین العابدین علیہ السلام کا موقف

۱۔حضرت ابومحمد علی بن حسینؑ زین العابدین علیہ السلام بھی اپنے آبا و اجداد طاہرینؑ کے طریقے پر چلتے ہوئے اپنے حق کا اظہار دعاؤں میں کرتے ہیں اور اپنی معنی خیز دعاؤں میں ان لوگوں سے کھل کے اظہار ناراض گی کرتے ہیں جنہوں نے آپ کا حق غصب کیا آپ اللہ سے شکایت کرتے ہیں کہ آپ کے اہل بیتؑ پر ظلم کیا گیا،صحیفہ کاملہ کی اڑتالیسویں دعا کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو،آپ یہ دعا یوم الاضحیٰ اور یوم جمعہ کو پڑھا کرتے تھے اس مٰں فرماتے ہیں پالنےوالے یہ مقام تیرے منتخب بندوں کا ہے اور تیرے خلفا اور تیرے امانتداروں کی یہ جگہ ہے،وہ بلند درجہ تو نے ان خاص بندوں کو جس سے مخصوص کیا ہے یہاں تک کہ تیرے چنے ہوئے بندے مغلوب و مقہور اور گمنام ہوگئے وہ تیرے حکم کو بدلتا ہوا تیری کتاب کو تقسیم ہوتا ہوا اور تیری شریعت کی سمت سے تیرے فرائض کو تحریف ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور تیرے نبی کی سنت کو متروک دیکھ رہے ہیں پالنےوالے لعنت کر ان کے دشمنوں پر(اولین و آخرین پر جو دشمن اہل بیتؑ ہیں)اور ان پر جو ان کے اس فعل سے راضی ہیں اور ان کے مطیع ار فرمابردار ہیں۔

مندرجہ بالا دعا کے فقروں میں امام نے صراحت سے اپنی مظلومت کا زکر کیا ہے وہ مظلومیت جو حق کے چھن جانے اور منصب کے غصب ہوجانے کی وجہ سے اہل بیتؑ کو جھیلنی پڑی،یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ چونکہ حق،حقدار کو نہیں مل سکا اس کی وجہ سے دین میں تحریف ہوگئی اور احکام دین میں رکاوٹ آئی،آپ نے اس ظلم سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا ہے بلکہ آخری فقرے تو تعمیم

۱۷۰

کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۲۔چبیسویں دعا میں آپ اپنے پڑوسی اور اپنے چاہنےوالوں کے لئے دعا کررہے ہیں جب ان کا تذکرہ کرتے ہیں تو فرماتے ہیں پالنےوالے!محمدؐ و آل محمد پر درود بھیج اور میرے پڑوسیوں کو اور ان کو جو ہمارے چاہنےوالے ہیں اور ہمارے حق کو پہچانتے ہیں اپنی افضل ولایت سے سرفراز فرما اور انھیں بھی جو ہمارے دشمنوں سے دور رہتے ہیں،مالک تو انھیں اپنی سنت قائم کرنے کی توفیق عنایت فرما۔

۳۔صحیفہ کاملہ کی سیتالیسویں دعا ملاحظہ فرمائیں:جو آپ یوم عرفہ میں پڑھتے تھے،آپ فرماتے ہیں پالنےوالے تو نے ہر دور میں اپنے دین کی تائید ایسے امام سے کی جو تیرے بندوں کے لئے ایک نشانی،تیرے شہروں کے لئے منارہ نور ہوا کرتا ہے،تو نے اس کی رسی اپنی محبت سے باندھ دی اور اس کو اپنی مرضی تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا تو نے اس کی اطاعت فرض کی اور اس کی نافرمانی سے ڈرایا تو نے حکم دیا تو نے اس کی اطاعت فرض کی اور اس کی نافرمانی سے ڈرایا تونے حکم دیا کہ اس کے امر کا امتثال کیا جائے اور اس کے نواہی سے باز رہا جائے کوئی آگے بڑھنےوالا اس سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے نہ کوئی پیچھے رہنےوالا اس سے پیچھے رہنے کی کوشش کرے،پس وہ امام صاحبان خلوص کے لئے پناہ اور مومنین کے لئے گوشہ عافیت ہے،وہ امام تمسک کرنےوالوں کے لئے عروہ اور عالمین کی شان ہوا کرتا ہے۔

پالنےوالے درود بھیج ان کے چاہنےوالوں پر جو ان کے مقام کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کے راستے کی پیروی کرتے ہیں،ان کے آثار کو تلاش کرتے ہیں اور ان کے سہارے سے متمسک ہیں،ان کی ولا کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں،ان کی امامت اور ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنےوالے ہیں اور ان کی اطاعت کے لئے بھرپور کوشش کرنےوالے ہیں،ان کے ایام فرج کے منتظر ہیں،انھوں نے اپنی آنکھیں ان کی طرف لگا رکھی ہیں،ان پر صلوٰت بھیج ایسی صلوات جو مبارک ہو اور ان کو پاک کرنےوالی ہو اور ان میں قوت نمو پیدا کرنےوالی ہو صبح و شام صلوت بھیج۔

مندرجہ بالا دعاؤں ہی ٹکڑے اگر چہ غصب منصب اور اظہار مظلومیت سے خالی ہیں

۱۷۱

لیکن دونوں ہی ٹکڑوں میں آپ نے اپنا چاہنےوالوں کے لئے دعا کی ہے اور ان دعاؤں میں ان کے لئے دنیا و آخرت دونوں ہی کے لئے فلاح طلب کی ہے،آپ نے اپنے چاہنےوالوں کے جو صفات بیان کئے ہیں وہ صرف شیعیان امامیہ پر منطبق ہوتے ہیں،اگر تھوڑا غور کر کے سمجھیں تو پتہ چلےگا کہ ان دعاؤں میں امامؑ نے شیعوں کے عقائد کا اقرار کیا ہے اور ان کی تصدیق کی ہے اور اس عقیدے کی بھی تقریر فرمائی جو شیعہ ابوبکر و عمر کی خلافت کے سلسلہ میں رکھتے ہیں۔

جیسے دوسری دعا کا یہ فقرہ((اور تو نے اس(امام)کی طاعت فرض کی اور یہ کہ کوئی بڑھنےوالا اس سے آگے نہ بڑھے اور پیچھے رہنےوالا اس سے تاخر نہ کرے))یہ فقرے غاصبان خلافت پر کھلے ہوئے اعتراض ہیں آپ نے وضاحت کے ساتھ بتادیا کہ خلافت غصب کرنے والے اہل بیتؑ سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے تھے۔

خلافت کے معاملے میں امام محمد باقر علیہ السلام کا موقف

امام محمد باقر علیہ السلام کا موقف تو آپ کے پہلے سوال کے جواب میں بتادیا گیا ہے،جب اہل بدروالی حدیث پیش کی گئی تھی اور جمہور صحابہ کی نظروں کی وضاحت کے ساتھ حدیثوں کے جعلی(من گھڑت)ہونے کے سلسلے میں امام ابوجعفر محمد باقرؑ کا کلام پیش کیا گیا تھا،اس کلام کا ذکر ابن ابی الحدید نے بھی کیا ہے اور آپ کا یہ کلام اعلان کررہا ہے کہ خلافت اہل بیتؑ کا حق ہے اس کے ساتھ ہی آپ نے غصب خلافت کا شکوا بھی کیا ہے،آپ سوال اول کا جواب ملاحظہ کریں۔اصل بات یہ ہے کہ امام محمد باقرؑ کے کلام کے ساتھ دوسرے ائمہ اہل بیتؑ کا اس موضوع پر کلام اس کثرت سے وارد ہوا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے،اسی طرح شیعیان علیؑ کا کلام بھی ہے،لیکن ہم یہاں صرف ان باتوں پر اختصار کررہے ہیں جن کا تذکرہ علما جمہور نے بھی اپنی کتابوں میں کیا ہے اور جس کی دشہرت اس پائے کو پہنچی ہے کہ تجاہل یا انکار ممکن ہی نہیں ہے۔

۱۷۲

خلافت کے مسئلہ میں محمد بن حنفیہ کا موقف

عبداللہ بن زبیر اپنے خطبہ میں مولائے کائناتؑ کی ذات پر رکیک حملہ کررہا تھا یہ خبر محمد بن حنفیہ تک پہنچی،آپ اسی وقت وہاں پہنچے،ابھی وہ خطبہ دے ہی رہا تھا لیکن آپ کے لئے ایک کرسی رکھ دی گئی،آپ اس پر بیٹھے اور اس کے خطبہ کو روک دیا پھر فرمایا اے گروہ عرب!تمہارے چہرے سیاہ ہوں،علیؑ کو برا کہا جارہا ہے اور تم سن رہے ہو!علیؑ دشمنان خدا کے خلاف اللہ کے ہاتھ ہیں اور اس کے حکم سے گرائی ہوئی ایک بجلی ہیں،خدا نے کافروں پر اور حق اللہ کا انکار کرنےوالوں پر علیؑ کو بجلی بنا کر گرایا تھا اور علیؑ نے کافروں کے کفر کی وجہ سے انھیں قتل کیا تو وہ انھیں برا کہنے لگے ان سے بغض رکھنے لگے اور کینہ و حسد اپنے دل میں چھپالیا،اس لئے کہ پیغمبرؐ زندہ تھے اور ابھی آپ کی وفات نہیں ہوئی تھی،پس جب اللہ نے پیغمبرؐ کو اپنے جوار میں منتقل کر لیا اور اپنے پاس موجود نعمتوں سے انھیں ملا دینا پسند کیا تو لوگوں کے دلوں کے کینے ظاہر ہوگئے،دل کا میل ظاہر ہوگیا،(لوگ علیؑ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے)کسی نے آپ کا حق چھیں لیا،کوئی آپ کو قتل کرنے کے لئے مشورے کرنے لگا اور کوئی آپ کو گالیاں دینے لگا اور جھوٹے عیب لگانے لگا۔۔۔۔(۱)

دیکھا آپ نے جناب محمد بن حنفیہ نے دشمنان علیؑ سے تبرّا کیا،اپنی ناراض گی کا اظہار بھی کیا اور اس طرح یہ سب کچھ کیا کہ جس سے ثابت ہوجائے کہ وہ خلافت مغصوبہ پر راضی نہیں تھے اور غاصبوں کی خلافت،شرعی بنیاد پر نہیں تھی کہ وہ حق کے غصب سے بری الذمہ قرار پائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۴ص:۶۲،مروج الذھب ج:۳ص:۹۰،معاویہ بن یزید بن معاویہ کے دور حکومت کا ذکر اور مروان بن حکم اور مختار بن ابی عبید و عبداللہ بن زبیر

۱۷۳

خلافت کے بارے میں عباس بن عبدالمطلب کا موقف

جب ابوبکر نے عباس بن عبدالمطلب کو پیش کش کی کہ وہ اور ان کی اولاد خلافت میں سے کچھ حصہ لےلیں،سازش یہ تھی کہ یہ پیشکش بنوہاشم میں پھوٹ کا سبب بن جائے اور عباس بن عبدالمطلب اور ان کی اولاد علیؑ سے ٹوٹ کر علیٰیحدہ ہوجائیں لیکن عباس نے بہت جچا تلا جواب دیا،انھوں نے کہا:اگر تم پیغمبر کی وجہ سے خلافت کے طالب ہو تو تم نے ہمارا حق غصب کیا ہے اور اگر تم مومنین کے ذریعہ خلیفہ بنے ہو تو ہم بھی مومن ہیں لیکن ہم تمہاری خلافت سے راضی نہیں ہیں اور تمہاری باتوں میں کتنا اختلاف ہے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مومنین تم پر طعن کررہے ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ مومنین تمہاری طرف مائل ہوئے ہیں،بہرحال جو کچھ تم ہمیں دے رہے ہو اگر تمہارا حق ہے توا پنے پاس ہی رکھو اور اگر مومنین کا حق ہے تو تم فیصلہ کرنےوالے کون ہو اور اگر ہمارا حق ہے تو ہم اپنے حصے تقسیم نہیں کریں گے۔

تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ پیغمبرؐ ہم میں سے بھی ہیں اور تم میں سے بھی تو پیغمبرؐ اس درخت سے ہیں جس کی ہم شاخیں ہیں لیکن تم پڑوسی ہو،(۱)

امر خلافت میں فضل بن عباس کا نظریہ

فضل بن عباس نے قریش پر احتجاج کرتے ہوئے فرمایا((اے قریش کے لوگو!خصوصاً اے بنی تمیم!اس میں کوئی شک نہیں کہ تم نے نبی کی خلافت ہتھیا لی لیکن ہم لوگ تم سے زیادہ مستحق ہیں اگر ہم جو خلافت اہل ہیں خلافت طلب کرتے تو لوگوں کو دوسروں کے مطالبہ سے زیادہ ہمارا مطالبہ ناگوار گذرتا اس لئے کہ لوگ ہم سے حسد کرتے ہیں اور کینہ رکھتے ہیں۔لیکن ہم خلافت کا مطالبہ جو نہیں کر رہے ہیں اس کی ایک وجہ ہے وہ یہ کہ:ہمارا قائد نے ایک عہد کیا ہوا ہے جو انھیں طلبِ خلافت سے روک رہا ہے))(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۲۲۱،الامامت و السیاست ج:۱ص:۱۸علی بن ابی طالبؑ کی بیت کیسے ہوئی تھی،تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۶،۱۲۵ واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ اور ابوبکر کی بیعت

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۱

۱۷۴

امر خلافت میں عبداللہ بن عباس کا موقف

اس موضوع پر عبداللہ بن عباس اور عمر بن خطاب سے اکثر گفتگو ہوئی ہے ان میں سے ایک مکالمہ حاضر ہے:

۱۔طبری،ابن عباس سے وہ عمر سے روایت کرتے ہیں کہ عمر نے ان سے پوچھا اے ابن عباس تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری قوم کو تم سے محمدؐ کے بعد کس چیز نے روکا ابن عباس کہتے ہیں کہ مجھے اس سوال کا جواب دینا گوارہ نہ ہوا،میں نے کہا کہ اگر میں نہیں جانتا تو امیرالمومنین مجھے بتادیں عمر نے کہا:لوگوں کو یہ بات پسند نہ آئی کہ ایک ہی خاندان میں نبوت اور خلافت جمع ہو اور تم اپنی قوم کے سامنے فخر کرنے لگو اس لئے قریش نے خلافت اپنے لئے چن لی پس انھوں نے صحیح کیا اور ٹہر گئے،ابن عباس کہتے ہیں مٰں نے جواب دیا امیرالمومنین کو قیش نے اپنے لئے چن لیا اور انھوں نے صحیح کیا لیکن اگر اس کا انتخاب کیا ہوتا جسے اللہ نے اختیار کیا ہے تو زیادہ بہتر ہوتا نہ کوئی رد کرتا نہ حسد کرتا آپ نے جو یہ فرمایا کہ انھوں نے یعنی قریش نے کراہت محسوس کی کہ نبوت و خلافت ایک ہی خاندان میں جمع ہو تو اللہ نے کراہت کرنےوالوں کا تعارف بھی کرادیا ہے اور انجام بھی بتادیا ہے،ارشاد ہوتا ہے کہ((یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نازل کی ہوئی باتوں کو مکروہ سمجھتے ہیں اس لئے ان کے اعمال حبط کردئے گئے))۔

عمر بولے میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو،لوگوں نے ہم سے خلافت حسد اور ظلم سے چھین لی،ابن عباس نے کہا اے امیرالمومنین ظلم کے بارے میں تو عالم جاہل سب جانتے ہیں حسد کے بارے میں کہنا ہے کہ ابلیس نے ہمارے جد آدم پر حسد کیا اور ہم لوگ آدم کی اولاد میں سے ہیں اگر ہم بھی محسود ہوئے تو کیا ہوا؟(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۳ص:۲۸۹،موسسہ اعلمی بیروت،اس جگہ پر تاریخ طبری کے کمپیوٹری پروگرامؐ الالفیۃ))میں حذف ہے۔

۱۷۵

۲۔ابن ابی حدید نے عبداللہ بن عمر سے اس گفتگو کی حکایت کی ہے جو ابن عباس اور عمر کے درمیان ہوئی تھی دونوں بیانوں میں تھوڑا سا اختلاف بھی ہے اور کچھ اضافہ بھی،اضافہ یہ ہے کہ عمر نے تنگ آکر کہا کہ ابن عباس ہوش میں آؤ تم بنوہاشم کے دلوں نے قریش کی حکومت سے کینہ اور حسد کا بیڑا اٹھایا ہے تمہارے دل کینہ و حسد سے خالی ہو ہی نہیں سکتے،ابن عباس نے کہا امیرالمومنین ذرا زبان سنبھال کے اس لئے کہ بنوہاشم کے دلوں میں پیغمبرؐ خدا کابھی دل شامل ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا ہے اور بنوہاشم میں وہ اہل بیتؑ بھی ہیں جن کے بارے میں اللہ نے ارادہ کیا ہے کہ انھیں پاک رکھے اور ان سے ہر رجس کو دور رکھے اور ایسا پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ہے اور آپ نے جو کینہ پروری والی بات کہی ہے تو اس کا دل کینے سے کیسے پاک رہےگا دیکھ رہا ہے کہ اس کی چیز دوسرے کے قبضہ میں ہے اور اس سے غصب کرلی گئی ہے؟

عمر نے کہا:ابن عباس تمہارے بارے میں کچھ سن رہا ہوں تم یہ کہتے پھر رہے ہو کہ یہ تمہارا حق تھا جو تم پر ظلم و جور کر کے چھین لیا گیا،ابن عباس نے جواب دیا کہ آپ جو حسد والی بات کہہ رہے ہیں تو ہم آدمؑ کی اولاد ہیں آدمؑ سے ابلیس نے حسد کیا حسد نے اس کو جنت سے نکال دیا گیا ہم آدمؑ کی اولاد ہیں محسود ہونا ہماری میراث ہے رہ گیا ظلم کا سوال تو امیرالمومنین آپ جانتے ہیں کہ حقدار کون ہے؟(۱)

۳۔دوسری حدیث میں ابن عباس اور عمر کی گفتگو کو ابن ابی الحدید نے مالی ابوجعفر محمد بن حبیب سے نقل کیا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن میں عمر کے پاس پہنچا تو عمر کہنے لگے اے ابن عباس یہ شخص عبادت میں اتنی کوشش کررہا ہے کہ لگتا ہے کہ ریا کاری کررہا ہے میں نے پوچھا وہ کون ہے؟کہنے لگے تمہارا چچازاد بھائی یعنی علیؑ،میں نے کہا وہ ریا کاری نہیں کرتے اے امیرالمومنین عمر نے کہا وہ لوگوں کے سامنے خود کو سزاوار خلافت تو ظاہر کررہے ہیں میں نے کہا ظاہر کرنا کیا مطلب؟اور ان کو ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟پیغمبرؐ تو ان کو خلافت دے کر ہی گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۲ص:۵۴

۱۷۶

تھے لیکن آپ نے ان سے چھین لیا عمر نے کہا:اصل بات یہ ہے کہ وہ ابھی جوان اور کم عمر تھے عرب نے ان کے سن کو چھوٹا سمجھا اب وہ کامل ہوچکے ہیں کیا تم جانتے نہیں کہ اللہ نے کسی نبیؐ کو مبعوث نہیں کیا مگر چالیس سال کا ہونے کے بعد میں نے کہا اے امیرالمومنین لیکن جو لوگ صاحبان عقل و فہم ہیں وہ تو علیؑ کو اس دن سے کامل سمجھ رہے ہیں،جب اسلام کا منارہ بلند ہوا لیکن علیؑ کو محروم بھی سمجھتے ہیں(۱) اس کے علاوہ بھی کئی بار عمر بن خطاب اور عبدالہ بن عباس سے گفتگو ہوئی جس کو عمر کی رائے پیش کرنے کے وقت لکھا جائےگا۔۴۔عتبیٰ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ جب سفر کربلا میں امام حسینؑ مکہ پہنچے اور وہاں حج کو عمرہ سے بدل کر کوفہ جانے لگے تو اس وقت ابن زبیر اور ابن عباس ایک دن اکھٹا ہوئے ابن عباس نے ابن زبیر کے پہلو میں ٹہوکا مارا اور یہ شعر مقام مثال میں پڑھا۔ترجمہ شعر:اے چنڈول(قنبرہ)اپنے گھوسلے میں خوشی سے بیٹھ کہ اب فضا خالی ہوگئی،خوب چہہ چہہ کر اور جتنا چاہے چونچ مار اطمینان سے انڈے دے۔اے ابن زبیر!خدا کی قسم امام حسینؑ چلے گئے اور مکہ تمہارے لئے خالی ہوگیا،ابن زبیر نے کہا،خدا کی قسم تم(بنی ہاشم)کچھ نہیں سوچتے مگر یہ کہ خلافت صرف تم لوگوں کا حق ہے،ابن عباس نے کہا سنو!سوچتا وہ ہے جس کو شک ہو ہم لوگ تو یقین رکھتے ہیں۔(۲)

۵۔یہ ابن عباس ہی تھے جو خطبہ شقشقیہ کے ناتمام رہ جانے پر بول اٹھے تھے کہ مجھے کسی کلام کے نامکمل رہ جانے پر اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس کلام کے نامکمل رہنے پر افسوس ہے،امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس خطبہ میں بات کو وہاں تک نہیں پہنچا سکے جہاں تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے تھے۔(۳) یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خطبہ شقشقیہ میں عمر اور ابوبکر کی بھرپور شکایت کی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۲ص:۸۰

(۲)سیرہ اعلام النبلاءج:۳ص:۳۵۴،حالات عبداللہ ابن عباس شرح نہج البلاغہ ج:۲۰ص:۱۳۴

(۳)نہج البلاغہ ج:۱ص:۳۷

۱۷۷

خطبہ شقشقیہ مقام تنقید میں

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے استاد ابوالخیر مصدق بن شبیب واسطی نے ۶۰۳سنہمیں کہا کہ میں نے شیخ ابومحمد عبداللہ بن احمد جو ابن خشاب کے نام سے مشہور ہیں ان کے سامنے یہ خطبہ پڑھا تو جب میں اس منزل پر پہنچا(کہ ابن عباس کو خطبہ نامکمل رہنے کا افسوس رہا)ابن خشاب نے کہا اگر میں ہوتا اور ابن عباس کو یہ کہتے ہوئے سنتا تو یہ ضرور پوچھتا کہ کیا تمہارے چچازاد بھائی کے دلم یں کچھ اور بھی باقی تھا جو اس خطبہ مٰں نہیں کہہ سکے؟(کہ تم کو افسوس ہورہا ہے کہ جس منزل تک علیؑ خطبہ کو پہنچانا چاہتے تھے نہیں پہنچاسکے؟)خدا کی قسم انھوں نے اولین کو چھوڑا نہ آخرین کو اور ان کے دل میں جس کے بارے میں جو کچھ تھا وہ کہہ ڈالا سوائے پیغمبرؐ کے تذکرہ کے۔

مصدق کہتے ہیں کہ ابن خشاب پر مذاق اور مسخرے قسم کے آدمی تھے،مصدق کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ خطبہ امیرالمومنینؑ کا نہیں ہے؟بلکہ من گھڑت ہے،ابن خشاب بولے مجھے اسی طرح اس کے کلام علیؑ ہونے کا یقین ہے جیسے تمہارے مصدق ہونے کا،میں نے کہا لوگ کہتے ہیں یہ سید رضیؒ کا کلام ہے،وہ کہنے لگے اچھا بس خاموش رہو!رضی ہوں یا غیر رضی،کسی کا اتنا بڑا کلیجہ نہیں نہ کسی کو یہ اسلوب میسّر ہے))ہم نے رضی کے رسائل بھی پڑھے ہیں اور ان کے کلام منشور کا لہجہ ار طیرقہ ایراد بھی خوب پہچانتا ہوں اس کلام سے اس کا کوئی میل نہیں،پھر بولے میں نے اس خطبہ کو ان کتابوں میں دیکھا ہے جو رضی کی پیدائش سے دو سو سال پہلے لکھی گئی ہیں میں نے اس انداز تحریر میں اس کو دیکھا ہے جس کو میں خوب پہچانتا ہوں میں اس دور کے علم اور اہل ادب کے انداز تحریر سے بھی واقف ہوں جو رضی کے والد ابواحمد نقیب کی پیداےش کے پہلے موجود تھے۔

مصدق کہتے ہیں میں نے کہا کہ میں نے اس خطبہ کو اپنے استاد ابوالقاسم بلخی کی تصنیفات میں دیکھا،یہ ابوالقاسم بغدادی معتزلیوں کے امام ہیں یہ معتمد عباسی کے دور حکومت میں تھے،وہ دور علامہ رضی کے بہت پہلے کا زمانہ تھا،اس خطبہ کو میں نے شیعوں کے مناظر ابوجعفر بن قبہ کی کتاب میں بھی

۱۷۸

دیکھا ہے ان کی یہ کتاب بہت مشہور ہے اور اس کا نام کتاب الانصاف ہے،یہ ابوجعفر،ابوالقاسم بلخی کے شاگرد تھے اور علامہ رضی کی پیدائش کے بہت پہلے انھوں نے دنیا کو چھوڑ دیا تھا۔(۱)

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے خاص اصحاب اور امر خلافت

امیرالمومنین علیہ السلام کے خاص اصحاب جو گروہ صحابہ کے بھی نمایاں لوگ تھے انھوں نے سقیفہ کے دن بھی اور سقیفہ کے بعد بھی اکثر فرمایا کہ خلافت صرف علیؑ کا حق ہے۔

اس سوال کے جواب کی ابتدائی عبارتوں میں کچھ کلام گذرچکا ہے،چوتھے سوال کے جواب میں بھی کچھ باتیں عرض کی جائیں گی اس وقت ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ کلام پیش کیا جائے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب خاص خلافت سے راضی تھے نہ اس کو صحیح سمجھتے تھے۔

صادق اللہجہ ابوذر اور امر خلافت

حافظ ابن مردویہ اپنی کتاب(جو عبداللہ شافعی کے مناقب کی رد میں لکھی گئی ہے اس کے صفحہ ۸۷پر مرفوعاً اپنی سند کے ساتھ داؤد بن ابی عوف سے،انھوں نے معاویہ بن ثعلبہ لیثی سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا:کیا میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں جس سے تم اختلاف نہ کرو؟میں نے کہا:بسم اللہ،تو انھوں نے کہا ابوذرؒ جب بیمار ہوئے تو علیؑ کو وصی بنایا،ایک آدمی ابوذرؒ کی عیادت کو پہنچا،اس نے کہا آپؒ نے امیرالمومنین عمر سے کیوں نہ وصیّت کی،علیؑ سے وصیّت کرنے سے تو بہتر ہی ہوتا،ابوذرؒ کہنے لگے(تم ہی تو کہتے ہو کہ امیرالمومنین سے وصیّت کرنی چاہئے تھی تو)جو حقیقت میں امیرالمومنین ہے اس سے میں نے وصیّت کردی،خدا کی قسم وہی امیرالمومنینؑ ہیں اور وہی وہ بہار ہیں.جہاں سکون ملاتا ہے،اگر وہ تم سے جدا ہوجائیں تو لوگ بھی تمہارا انکار کردیں گے اور زم تمہارا انکار کردےگی،اس آدمی نے کہا:ابوذر!میں جانتا ہوں کہ جو پیغمبرؐ کا محبوب تر ہے وہی آپ کا بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱ص:۲۰۵۔۲۰۶

۱۷۹

محبوب تر ہے ابوذر نے کہا:تم نے بالکل صحیح سنا ہے،میں نے پوچھا کہ پھر اس وقت آپ کا سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟آپ نے فرمایا:یہی بزرگ جو مظلوم اور خانہ نشین ہے اور جس کا حق چھین لیا گیا یعنی علیؑ ابن ابی طالب۔(۱)

حذیفہ اور امر خلافت

ابوشریح سے روایت ہے کہ:حذیفہ مدائن میں تھے ہم لوگ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ امام حسنؑ اور عمار کوفہ سے آئے اور لوگوں کو علیؑ کے لشکر میں شامل ہو کر جنگ کرنے پر ابھارنے لگے،حذیفہ نے کہا اے لوگو!امام حسنؑ اور عمار تمہیں علیؑ کے لشکر میں شامل ہو کر جنگ کرنے پر ابھارنے لگے،حذیفہ نے کہا اے لوگو!امام حسنؑ اور عمار تمہیں علیؑ کے حق میں لڑنے کے لئے بلانے آئے ہیں،سنو!جو حقیقی امیرالمومنین سے ملاقات کرنا چاہتا ہے وہ علیؑ کے ساتھ ہوجائے۔(۲)

شوریٰ کے متعلق بعض صحابہ کا موقف

شعبی کی کتاب شوریٰ و مقتل عثمان کے حوالہ سے ابن ابی الحدید نے شوریٰ کے بارے میں لکھا ہے،شعبی کہتے ہیں اس کی روایت ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری نے اپنی کتاب((السقیفہ))کے زیادات میں کی ہے۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ عثمان کی بیعت کئے بعد جو واقعات ہوئے ان میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے((عوانہ نے یزید بن جریر سے انھوں نے شعبی سے انھوں نے شقیق بن مسلمہ سے روایت کی ہے کہ بیعت عثمان کے بعد مولائے کائناتؑ جب اپنے قافلے میں پہنچے تو آپ نے قبیلہ بنوہاشم کو خطاب کر کے فرمایا:اے عبدالمطلب کے بیٹو!تمہاری قوم نے تم پر اسی طرح زیادتی کی جس طرح نبیؐ کی حیات میں کرتے تھے اگر تمہاری قوم اطاعت بھی کرےگی تو تمہیں امیر ہرگز نہیں بناسکتی،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)ملحقات احقاق ج:۸ص:۶۷۹،الباب المتم للعشرین:الثالث مارواہ ابوذر

(۲)انساب الاشراف ج:۲ص:۳۶۶،حالات امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام میں۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

پیش نظر بیعت کرلی تاکہ ایسا نہ ہو یہ لوگ آگے بڑھ جائیں اور سعد بن عبادہ امیر ہوجائیں۔ یہاں تک کہ اس میں بعد کو رفتہ رفتہ توسیع ہوتی گئی حالانکہ اجماع کیدلیل اگرمضبوط چیز تھی تو، اتنا توقف کرنا چاہئیے تھا کہ ساری امت ( یا بقول آپ کے عقلمند گروہ) جمع ہوجائے اور مجمع عام کے اندر استصواب رائے کر لیا جائے تاکہ صحیح طور پر اجماع صادق آجائے۔

حافظ : میں نے عرض کیا کہ فتنے اٹھ رہے تھے۔ اوس و خزرج دو قبیلے سقیفے میں جمع تھے اور آپس میں نزاع کر رہے تھے۔ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ مسلمانوں کی امارت و حکومت کا تقرر اپنی طرف سے کرے بدیہی بات ہے، کہ ایک ادنی سی غفلت بھی انصار کے حق میں مفید ثابت ہوتی اور مہاجرین کا کوئی قابو نہ رہتا، اسی وجہ سے مجبور تھے کہ کام میں جلدی کریں۔

خیر طلب : ہم بھی چشم پوشی کرتے ہوئے آپ کی بات تسلیم کئے لیتے ہیں اور آپ ہی کے قول سے سند لیتے ہیں نیز جیسا کہ آپ کے مورخین مثلا محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ جلد دوم ص457 میں اور دوسروں نے لکھا ہے کہ مسلمان سقیفے میں امر خلافت پر رائے زنی کرنے جمع نہیں ہوئے تھے بلکہ اوس خزرج ک دو قبیلے چاہتے تھے کہ اپنے لیے امیر معین کریں۔ ابوبکر و عمر نے بھی اپنے کو ، اس صف آرائی میں پہنچا یا اور اس اختلاف سے خود فائدہ اٹھا لیا۔ اگر واقعی امر خلافت میں صلاح و مشورہ کرنے اکٹھا ہوئے ہوتے تو پہلے جملہ مسلمانوں کو ضرور خبر دیتے کہ رائے دینے کے لیے حاضر ہوں۔

بازیگروں سے اسامہ کی گفتگو

چنانچہ جیسا آپ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو خبر دینے کا موقع نہیں تھا اور وقت گزرا جارہا تھا۔ ہم بھی آپ کے ہم آواز ہوکر کہتے کہ مکہ، یمن، طائف اور دوسری مسلمان آبادیوں تک دسترس نہیں تھا مگر کیا اسامہ بن زید کے لشکر تک بھی رسائی ممکن نہ تھی جو مدینے کے باہر ہی پڑائو ڈالے ہوئے تھا کہ ان بزرگ اصحاب کو بلا کر مشورہ لے لیتے جو اس فوج میں شامل تھے اور جن میں سے ایک نمایاں فرد مسلمانوں کے امیر لشکر اسامہ بن زید بھی تھے جن کو خود رسول اللہ(ص) نے افسری عطا فرمائی تھی اور ابوبکر و عمر بھی ان کے ماتحت تھےجس وقت اسامہ نے سنا کہ ایک سازش کے ذریعے تین آدمیوں کے ہاتھ خلیفہ سازی ہوئی ہے اور ان لوگوں نے بغیر کسی مشورے اور اطلاع کے ایک شخص کی بیعت کر لیے ہے تو سوار ہو کر مسجد رسول(ص) میں آئے اور بقول تمام مورخین کے ایک نعرہ مارا کہ تم لوگوں نے یہ کیا ہنگامہ برپا کر رکھا ہے؟ کس کی اجازت سے خلیفہ گھڑ لیا ہے؟ تم چند نفر کیا حیثیت رکھتے تھے کہ مسلمانوں اور بزرگان صحابہ کے مشورے اور اجماع سے خلیفہ مقرر کر لیا؟ عمر نے لیپ پوت کرتے ہوئے کہا اسامہ کام ختم ہوچکا اور بیعت واقع ہوچکی ، اب پھوٹ نہ پیدا کرو بلکہ تم بھی بیعت کر لو۔ اسامہ کو تائو آگیا،

۳۰۱

انہوں نے کہا کہ پیغمبر(ص) نے مجھ کو تمہارا سردار بنایا تھا اور امارت سے معزول بھی نہیں کیا تھا۔ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ تم لوگوں پر رسول خدا(ص) کا منتخب فرمایا ہوا امیر اپنے ہاتحتوں اور محکوموں کی بیعت کرے۔ اس کے علاوہ اور بہت کچھ بات چیت ہوئی لیکن نمونتہ اسی قدر کافی ہے۔ اگر آپ کہئے کہ اسامہ کا لشکر بھی شہر سے کچھ فاصلے پر تھا اور وقت نکلا جا رہا تھا تو حضرات کیا سقیفے سے مسجد اور خانہ پیغمبر(ص) بھی بہت دور تھا؟ آخر علی علیہ السلام کو جو باتفاق فریقین مسلمانوں کے اندر ایک بڑی شخصیت کے مالک تھے، عم رسول(ص) عباس کو تمام بن ہاشم اور عترت پیغمبر(ص) کو جن کے لیے آں حضرت(ص) نے وصیتیں فرمائی تھیں اور جو عدیل قرآن تھے اور کبار صحابہ کو جو وہاں موجود تھے کیوں مطلع نہیں کیا تاکہ ان کی رائے سے فائدہ اٹھایا جائے؟

حافظ : میرا خیال ہے کہ صورت حال ایسی خطرناک تھی کی غفلت اور سقیفہ سے باہر آنے کا موقع نہیں تھا۔

خیر طلب : آپ زیادتی کر رہے ہیں، موقع تھا لیکن انہوں نے جان بوجھ کر علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور کبار صحابہ کو جو خانہ رسول(ص) میں جمع تھے اطلاع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

حافظ : ان کے عمدا ایسا کرنے پر آپ کی دلیل کیا ہے؟

خیر طلب : سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خلیفہ عمر رسول اللہ(ص) کے دروازے تک آئے تھے لیکن اندر داخل نہیں ہوئے تاکہ اس گھر میں مجتمع علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور اصحاب کبار کوخبر نہ ہونے پائے۔

حافظ : یہ بات تو قطعا رافضیوں کی گھڑی ہوئی ہے۔

خیر طلب: پھر آپ نے بے لطفی کی بات کی۔ یہ بات کسی کا گھڑی ہوئی نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ اسے تیسری صدی کے بڑے عالم محمد بن جریرطبری کی مشہور تاریخ جلد دوم ص256 کا مطالعہ فرمائیے۔

وہ لکھتے ہیں کہ عمر خانہ رسول (ص) کے در تک آئے لیکن اندر نہیں گئے بلکہ ابوبکر کو پیغام بھیجا کہ جلدی آئو بہت ضروری کام ہے ۔ ابوبکر نے جواب دیا کہ اس وقت مجھ کو فرصت نہیں ہے۔ انہوں نے پھر کہلایا کہ ایک خاص کام در پیش ہے جس میں تمہاری موجودگی ضروری ہے۔ ابوبکر باہر آئے تو خفیہ طور سے ان کو سقیفے میں اںصار کے جمع ہونے کا معاملہ بتایا اور کہاکہ ہم کو فورا وہاں پہنچ جانا چایئے ۔ یہ دونوں چلے او راستے میں ابو عبیدہ ( گور رکن) کو بھی ساتھ لے لیا۔ تاکہ تین آدمی مل کر اجماع امت کی تشکیل کریں اور آج آپ اسی کا سہارا لیں خدا کے لیے انصاف کیجئے کہ اگر کوئی سازش اور قرار واد کام نہیں کر رہی تھی تو عمر خانہ پیغمبر (ص) تک جارکر اندر کیوں نہیں گئے تاکہ صورت واقعہ کو تمام بنی ہاشم اور کبار صحابہ کے گوش کر کے سب سے مدد طلب کریں؟ کیا ساری امت رسول(ص) امت میں صرف ایک ابوبکر ہی عقل کلی رہ گئے تھے اور دوسرے صحابہ اور عترت رسول سب بیگانہ تھے جن کو اس حادثے کی خبر ہی نہ ہونا چاہتے تھا۔

چشم باز و گوش بازو این عمیحیر تم از چشم بندی خدا

آیا آپ کا یہ خود ساختہ اجماع جیسا کہ آپ کے تمام مورخین نے لکھا ہے فقط تین آدمیوں ( ابوبکر و عمر

۳۰۲

اور ابوعبیدہ جراح ( گورکن) کے ہاتھوں پر قائم ہوگیا؟ آیا دنیا کے کس خطے میں عقیدہ قابل قبول ہے کہ اگر تین شخص یا کوئی جتھہ کسی شہر یا دار السلطنت میں اکٹھا ہو اور فرض کیا جائے کہ اس شہر کے باشندے کسی شخص کی ریاست و حکومت یا خلافت پر اجماع بھی کرلیں تو دوسرے مقامات کے صاحبان عقل و علم اور دانش مندوں پر ان کی پیروی واجب ہوجائے؟ یا ایسے چند عقلمندوں کی رائے جن کو دوسروں نے منتخب نہ کیا ہو باقی عقلندوں کے لیے واجب العمل بن جائے؟ آیا یہ جائز ہے کہ ایک گروہ کی ہنگامہ سازی اور دھمکی کے مقابلے میں پوری قوم کے خیالات کا گلا گھونٹ دیا جائے؟ حضرات انصاف کیجئے ! اگر ایک جماعت والے حق بات کہنا چاہیں اور علمی مباحثوں او عملی تنقیدوں کی روشنی میں بتایں کہ یہ خود ساختہ خلافت و اجماع کسی دینی یا دنیاوی قانوں کے مطابق صحیح نہیں ے تو ان کو رافضی، مشرک اور نجس کہا جائے، ان کا قتل واجب سمجھا جائے اور کوئی ایسی تہمت باقی ن رہے جو ان پر تھوپ دی جائے؟

آپ کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے خلافت کا معاملہ امت پر ( یا بقول آپ کے عقلائے امت پر) چھوڑ دیا۔ خدا کے لیے انصاف سے کہئے گا کہ امت اور عقلائے امت کیا فقط تین ہی آدمی تھے ابوبکر وعمر اور ابو عبیدہ جراح( گورکن) جنہوں نے آپس می سمجھوتہ کر کے دونے ایک کو مان لیا تو سارے مسلمانوں پر فرض ہوگیا کہ انہیں کے راستے پر چلیں؟ اور اگر کچھ لوگ یہ کہہ دیں کہ یہ تینوں اشخاص بھی باقی امت اور صحابہ کے مانند تھے لہذا سارے اصحاب سے صلاح و مشورہ کیوں نہیں کیا؟ تو وہ کافر، مردود اور گردن زدنی قرار پائیں؟

باتفاق فریقین اجماع کا واقع نہ ہونا

حضرات اگر آپ تعصب کا جامہ اتار کر تھوڑا غور کیجئے تو بخوبی واضح ہوجائے گا کہ اقلیت واکثریت اور اجماع کے درمیان بڑا فرق ہے۔ اگر کسی خاص مقصد کےلیے بزم مشاورت منعقد کی جائے تو تھوڑے لوگ کوئی رائے دیں تو کہا جائے گا کہ جلسے کی اقلیت نے یہ رائے دی، اگر زیادہ مجمع رائے دے تو اکثریت کی رائے کہی جائے گی اور اگر سب کے سب باتفاق رائے کوئی بات کہیں تو کہا جائے گا کہ اجماع واقع ہوا یعنی ایک فرد بھی مخالف نہیں تھی۔ اب برائے خدا یہ بتائیے کہ کیا سقیفہ میں اور اس کے بعد مسجد میں پھر شہر مدینہ میں لوگوں نے خلافت ابوبکر کے لیے ایسی اجماعی رائے دی اگر آپ کے حسب خواہش ہم جبرا ساری امت سے حق رائے دہندگی چھین لیں اور آپ کی آواز میں آواز ملاکر کہنے لگیں کہ اجماع سے صرف مرکز اسلامی یعنی مدینہ منورہ کے عقلاء اورکبار صحابہ ہی کو مراد لینا کافی ہے تب بھی آپ کو خدا کی قسم سچ بتائیے کہ آیا ایسا اجماع واقع ہوا جس میں مدینے کے تمام عقلاء کبار صحابہ بالاتفاق خلافت ابوبکر کے لیے رائے دی ہو؟ آیا اس تھوڑی سی جماعت نے بھی متفقہ رائے دی تھی جو سقیفے میں حاضر تھی ؟ قطعا

۳۰۳

جواب نفی میں ہوگا۔ چنانچہ صاحب مواقف نے خود اعتراف کیا ہے کہ خلافت ابوبکر میں کوئی اجماع واقع نہیں ہوا یہاں تک کہ خود مدینے کے اندر اور اہل حل و عقد میں بھی، اس لیے کہ سعد بن عبادہ انصاری ان کی اولاد، خاص خاص صحابہ، تمام بنی ہاشم ، ان کے دوست اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام چھ ماہ تک مخالفت کرتے رہے اور بیعت نہیں کی۔

در اصل جب ہم حق و انصاف کے روسے تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ خود مدینہ منورہ میں بھی جو نبوت اور حکومت اسلامی کا مرکز تھا ایسا اجماع واقع نہیں ہوا جس میں وہاں پر موجود صاحبان عقل اور صحابہ نے خلافت ابوبکر کی متحدہ تائید کی ہو۔

چنانچہ خود آپ کے اکثر ثقہ راویوں اور بڑے بڑے مورخون نے جیسے امام فخر الدین رازی ، جلال الدین سیوطی، ابن ابی الحدید معتزلی، طبری، بخاری اور مسلم وغیرہ نے مختلف عبارتوں کے ساتھ بتایا ہے اور نقل کیا ہے کہ خود مدینے میں پورا اجماع منعقد نہیں ہوا۔

علاوہ اس کے کہ تمام بنی ہاشم و رسول اللہ(ص) کے اہل بیت(ع) جو عدیل قرآن تھے اور دوسرے اہل خاندان جن کی رائے اچھی خاصی اہمیت رکھتی تھی اور بنی امیہ بلکہ عام اصحاب بھی سوا تین نفر کے سقیفہ میں خلافت پر رائے دینے کے لیے حاضر نہ تھے۔ بلکہ سننے کے بعد انہوں نے اس پر پورا اعتراض بھی کیا۔ یہاں تک کہ مہاجرین و انصار میں سے جن بزرگ اصحاب نے بیعت سقیفہ کو غلط بتایا تھا ان میں سے چند مقتدر حضرات سے مسجد میں جاکر ابوبکر سے احتجاجات بھی کئے جیسے مہاجرین میں سے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد بن اسود کندی، عمار یاسر، بریدہ اسلمی اور خالد بن سعید بن عاص اموی۔ اور انصار میں سے ابوالہیثم بن التیہان خذیفہ بن ثابت ذوالشہادتین ( جن کو رسول اکرم(ص) نے ذوالشہادتین لقب دیا تھا، ابو ایوب انصاری، ابی بن کعب، سہل بن حنیف اور عثمان بن حنیف۔ ان میں سے ہر ایک نے مسجد کے اندر کافی اور شافی دلائل و براہین پیش کئے جن کی تفصیل بیان کرنے کا وقت نہیں ہے۔ صرف حاضرین اور سامعین کی بصیرت افروزی اور اتمام حجت کے لیے یہ مختصر خاکہ پیش کر دیا تاکہ واضح ہوجائے کہ اجماع مکمل طور پر باطل اور بے بنیاد ہے کیونکہ خود مدینے میں بھی اجماع واقع نہیں ہوا بلکہ مدینے کے عقلاء اور اکابر اصحاب کا اجماع بھی صریحی جھوٹ ہے کچھ مخالفین خلافت کے نام آپ کی معتبر کتابوں سے عرض کرتا ہوں۔

کبار صحابہ کی بیعت ابوبکر سے علیحدگی

ابن حجر عسقلانی اور بلاذری تاریخ میں، محمد خاوندشاہ روضتہ الصفا می، ابن عبدالبر استیعاب میں، اور دوسرے علماء کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ، قبیلہ خزرج اور قریش کے ایک گروہ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کہ نیز اٹھارہ

۳۰۴

نفر بزرگان صحابہ نے بیعت نہیں کی اور رافضی ہوگئے۔ یہ لوگ علی ابن ابی طالب(ع) کے شیعہ تھے۔

ان اٹھارہ اصحاب کے نام یہ تھے ۔1۔ سلمان فارسی۔ 2۔ ابوذر غفاری۔3۔ مقداد بن اسود (کندی) ۔ 4۔ عمار یاسر۔ 5۔ خالد بن سعید بن العاص۔ 6۔ بریدہ الاسلمی۔ 7۔ ابی بن کعب۔ 8۔ خذیمہ بن ثابت ذوالشہادتین۔9۔ ابوالہیثم بن التیہان۔ 10۔ سہل بن حنیف ۔ 11۔ عثمان بن حنیف ذوالشہادتین۔ 12۔ ابو ایوب انصاری۔ 13۔ جابر بن عبداللہ انصاری۔ 14۔ حذیفہ بن الیمان۔ 15۔ سعد بن عبادہ ۔ 16۔ قیس بن سعد ۔ 17۔ عبداللہ بن عباس۔ 18۔ زید بن ارقم۔

یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ :

" لقد تخلف عن بيعة ابی بکر قوم من المهاجرين والانصار ومالوا مع علی ابن ابی طالب. منهم العباس بن عبدالمطلب و الفضل بن العباس و الزبير بن العوام بن العاص و خالد بن سعيد والمقداد بن عمر و سلمان الفارسی و ابوذر الغفاری و عمار بن ياسر و البراء بن عازب و ابی بن کعب."

یعنی مہاجرین و اںصار کی ایک جماعت نے بیعت ابی بکر سے اختلاف اور علیحدگی اختیار کی اور علی بن ابی طالب(ع) کی طرف مائل ہوئی من جملہ ان کے عباس ابن عبدالمطلب، فضل بن عباس، زبیر بن عوام بن العاص، خالد بن سعید، مقداد بن عمر، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عماریاسر، براء بن عازب اور ابی بن کعب بھی تھے۔

تو کیا یہ افراد قوم کے صاحبان عقل، اکابر اصحاب اور رسول اللہ(ص) کے ہمدم و ہمراز نہیں تھے؟ کیا علی علیہ السلام ، عباس عم پیغمبر(ص) اور دوسرے بزرگان بنی ہاشم عقلائے قوم نہ تھے؟ خدا کے لیے ذرا اںصاف سے بتائیے یہ کیسا اجماع تھا، جو بغیر ان حضرات کی موجودگی ، مشورے، رضامندی اور تصدیق کے قائم ہوگیا؟ اس مجمع کے درمیان سے راز دانہ طور پر صرف تنہا ابوبکر کو بلا کر لے جائیں اور دوسرے کبار صحابہ کو نہ کوئی اطلاع دیں نہ ان سے صلاح ومشورہ لیں تو آیا اس سے اجماع کے معنی پیدا ہوتے ہیں یا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ایک سیاسی سازش کام کر رہی تھی؟

پس علاوہ اس کے کہ تعیین خلافت کے موقع پر تمام امت کا اجماع منعقد نہیں ہوا تمام اہل مدینہ کا اجماع ہوسکا بلکہ سعد بن عبادہ اور ان کے ہمراہیوں کے نکل جانے سے اہل سقیفہ کے اس چھوٹے موٹے گروہ میں بھی اجماع نہیں ہوسکا البتہ یہ وہ پہلا کھیل تماشا تھا جو عالم اسلامی نے انسانی تاریخ کو امانت دیا۔

حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ

ان سب سے قطع نظر بنی ہاشم اور عترت و اہل بیت رسول(ص) بھی جن کا اجماع یقینا حجت تھا باعتبار حدیث مسلم بین الفریقین جس کو میں گزشتہ شبوں میں معتبر اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

" إنّي تارك

۳۰۵

فيكم الثقلين كتاباللّه وعترتي في أهلبيتي،ان تمسّكتم بهمافقد نجوتم ( و فی نسخة) لنتضلّوا بعدها ابدا"

یعنی میں تمہارے درمیان دو بزرگ چیزیں چھوڑ رہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت و اہل بیت اگر ان دونوں سے تمسک رکھوگے تو یقینا نجات پائوگے ( اور ایک نسخے میں ہے) ہرگز گمراہ نہ ہوگے ( دیکھئے اس کتاب کا صفحہ نہ سقیفے میں موجود تھے نہ خلافت ابوبکر کی حمایت کی( یعنی ان کو اطلاع ہی نہیں دی گئی کہ وہاں اکٹھا ہوں تاکہ اجماع صادق آسکے۔

دوسری مشہور حدیث جو حدیث سفینہ کے نام سے موسوم ہے اور پچھلی راتوں میں مع اسناد کے ذکر کی جاچکی ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

" مثل اهل بيتى كمثل سفينةنوح من توسل بهم نجى ومن تخلّف عنه اهلك"

یعنی میرے اہلبیت(ع) کی مثال کشتی نوح(ع) کے مانند ہے جو شخص اس سے متوسل رہے گا وہ نجات پائے گا اور جو شخص ان سے رو گردانی کرے گا وہ ہلاک ہوجائے گا۔

ثابت کرتی ہے کہ جس طرح طوفان اور بلائوں میں امت نوح کی نجات سفینے کے ذریعے سے تھی اس امت کو بھی حوادث اور آفات میں اہل بیت(ع) رسول(ص) کے دامن سے متمسک رہنا چاہیے تاکہ نجات حاصل ہو۔ اسی طرح جو ان کے دور اور الگ رہے گا ہلاک ہوگا۔

نیز ابن حجر صواعق محرقہ ذیل آیہ چہارم ص90 میں ابن سعد سے دو حدیثیں اہل بیت رسالت(ص) اور عترت پاک(ع) سے وابستہ رہنے کے وجوب میں نقل کرتے ہیں یہ کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا:

"أناوأهل بيتي شجرةفي الجنّة،وأغصانهافي الدنيا،فمن شاء ان يتّخذإلى ربّه سبيلا فليتمسک بها"

یعنی میں اور میرے اہل بیت جنت کے ایک درخت ہیں جس کی شاخیں دنیا میں ہیں۔ پس جو شخص خدا کی طرف راستہ چاہتا ہو اس کو اس سے تمسک ضروری ہے۔

دوسری حدیث یہ کہ فرمایا :

"فى كُلِ خَلَفٍ مِنْ امتى عُدُولٌ مِنْ اهلبيتى يَنْفُونَ عَنْ هَذَاالدِّينِ تَحْرِيفَالضَّالِّين َوَانْتِحَال َالْمُبْطِلِينَ،وَتَأْوِيل َالْجَاهِلِينَ الاوانائمتكم وَفْدُكُمْ الى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ فَانْظُرُوامَنْ تُوفِدُونَ"

یعنی میری امت کے لیے ہر دور میں میرے اہل بیت(ع) میں سے کچھ عادل افراد ہیں جو اس دین سے گمراہوں کی تحریف باطل پرستوں کے دعوی اور جاہلوں کی تاویل کو دور کرتے رہتے ہیں۔ آگاہ ہو کہ یقینا تمہارے ائمہ اللہ کی طرف تمہارے سفیر ہیں پس یہ دیکھ لو کہ سفارت کس کے سپرد کرتے ہو۔

غرضیکہ تمام وہ اشخاص جن کی موجودگی اجماع و بیعت اور تعیین خلیفہ میں اثر انداز ہوتی بیعت کے مخالف تھے پس یہ کیسا اجماع تھا کہ صحابہ کبار، دانشمندان قوم اور عترت و اہل بیت رسالت(ص) مدینے میں ہوتے ہوئے اس میں شریک نہ تھے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اجماع کیسا اکثریت بھی نہیں پیدا ہوئی۔ چنانچہ ابن عبدالبر قرطبی جو آپ کے بڑے عالم ہیں، استیعاب میں، ابن حجر اصابہ میں اور دوسرے علماء کہتےہیں کہ سعد بن عبادہ نے جو خلافت کے دعویدار

۳۰۶

تھے قطعا ابوبکر اور عمر کی بیعت نہیں کی اور وہ بھی اس لیے ان سے متعرض نہیں ہوئے کہ ان کا قبیلہ اچھا خاصا ہے کہیں کوئی فساد نہ اٹھ کھڑا ہو۔ سعد امی اختلاف کی وجہ سے شام چلے گئے اور بروایت روضتہ الصفا ایک بزرگ شخصیت کی تحریک؟؟؟ سے ( جس سے با خبر ہستیاں واقف ہیں کہ کون شخص تھا جس کا حکم نافظ تھا) رات کے وقت تیر مار کر ہلاک کرادئے گئے اور کہا گیا کہ جنات نے مار ڈالا ( لیکن مورخین روایت کرتے ہیں کہ تیر مارنے والے خالد ابن ولید تھے جو مالک ابن نویرہ کو قتل کرنے اور ان کی زوجہ پر تصرف کرنے کے بعد شروع خلافت ابوبکر سے خلیفہ ثانی عمر کے غیظ و غضب کی زد میں تھے چنانچہ عمر کے زمانہ خلافت میں انہوں نے چاہا کہ خلیفہ کی نظر میں اپنا وقار قائم کریں اور یہی کیا کہ رات کو انہیں تیر سے مار ڈالا اور مشہور یہ ہوا کہ جنات نے مارا) اب آپ حضرات خدا کے لیے اپنی عادت اور تعصب کو الگ رکھ کے تھوڑا غور کیجئے کہ یہ کیسا اجماع تھا جس میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، عباس عم رسول(ص)، ابن عباس تمام بنی ہاشم، عترت و اہل بیت پیغمبر(ص)، بنی امیہ اور انصار داخل نہیں تھے۔

حافظ : چونکہ فساد کا احتمال تھا اور ساری امت تک پہنچ نہیں تھی لہذا مجبورا جلد بازی میں انہیں چند حاضرین سقیفہ پر اکتفا کر کے بیعت لے لی، بعد کو امت نے بھی مان لیا۔

خیر طلب : مدینے سے باہر کی نمایاں شخصیتوں ، بزرگاں صحابہ اور دانشمندان قوم تک رسائی نہیں تھی لیکن خدا کے لیے اںصاف کیجئے کہ اگرکوئی چال نہیں جارہی تھی تو بزم شوری میں حاضرین مدینہ کو کیوں نہیں بلایا؟ آیا رسول خدا(ص) کے عم محترم ( شیخ القبیلہ) عباس، آںحضرت(ص) کے دماد علی ابن ابی طالب(ع) ، بنی ہاشم اورمدینے کے اندر موجود کبار صحابہ کی رائے لینا ضروری نہیں تھا؟ فقب عمر اور ابوعبیدہ جراح کی رائے ساری دنیائے اسلام کے لیے کافی تھی؟ فَاعْتَبِرُواياأُولِي الْأَبْصارِ !!!

پس آپ کی دلیل اجماع عمومی حیثیت سے نیز خصوصی طور پر کیوں کہ مہاجرین و اںصار میں سے عقلاء کبار صحابہ نے اس میں شرکت نہیں کی۔ بلکہ مخالفت بھی کی بالکل مہمل و باطل اور صاحبان عقل کے نزدیک درجہ اعتبار سے ساقط ہے۔

چونکہ جیسا عرض کرچکا ہوں اجماع اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس سے اختلاف نہ کرے اور آپ کے اس خود ساختہ اجماع میں عام طور پر آپ کے علماء ومورخین کے اقرار اور آپ کی تصدیق کے مطابق ارباب علم و عقل نےرائے دینے میں عمومی شرکت نہیں کی۔ چنانچہ امام فخرالدین رازی نہایت الاصول میں صاف صاف کہتے ہیں کہ خلافت ابوبکر و عمر میں ہرگز اجماع واقعی نہیں ہوا یہاں تک کہ سعد بن عبادہ کے قتل ہوجانے کے بعد اجماع منعقد ہوا لہذا سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے معدوم اور فرضی اجماع کو آپ نے حقانیت کی دلیل کیونکر بنالیا۔

وقت کا لحاظ کرتے ہوئے اس مختصر بیان کے ساتھ آپ کی پہلی دلیل کا جواب دیا گیا۔

۳۰۷

اس کی تردید کی ابوبکر سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے خلیفہ ہوئے

رہی آپ کی دوسری دلیل کہ ابوبکر چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام سے عمر میں زیادہ تھے لہذا ان کا حق مقدم تھا تو یہ خلافت کے معاملے میں انتہائی مردود اور پہلی دلیل کے بھی زیادہی مہمل، بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔

اس لیے کہ اگر خلافت میں سن کی شرط تھی تو ابوبکر و عمر سے زیادہ بوڑھے بہت لوگ تھے اور یہ تو کھلی ہوئی بات ہے کہ ابوبکر کے باپ ابوقحافہ اپنے بیٹے سے بڑے تھے اور اس وقت زندہ بھی تھے، ان کو کس لیے خلیفہ نہیں بنایا ؟

حافظ : ابوبکر کا بڑھاپا لیاقت کے ساتھ تھا۔ جب کسی قوم کے اندر ایک جہاں دیدہ اور محبوب رسول اللہ(ص) بزرگ ہوتو کسی نا تجربہ کار جوان کو سردار نہیں بنایا کرتے۔

بوڑھے اصحاب کی موجودگی میں پیغمبر(ص) جوان علی(ع) کو ترجیح دیتے تھے

خیرطلب : اگر جیسا آپ کہہ رہے ہیں۔ سچ مچ ایسا ہی ہو کہ آزمودہ کار بوڑھے کی موجودگی میں کسی جوان کو کام پر اور وہ بھی خدا کے کام پر مقرر نہ کرنا چاہئیے تو یہ اعتراض سب سے پہلے رسول خدا(ص) پر وارد ہوتا ہے کیونکہ جس وقت آںحضرت(ص) غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو منافقین نے خفیہ طور پر یہ طے کیا کہ آں حضرت(ص) کی عدم موجودگی میں مدینے کے اندر ایک انقلاب بر پا کریں گے۔ لہذا مدینے کا انتظام سنبھالنے کےلیے ایک تجربہ کار انسان کی ضرورت تھی جو آنحضرت(ص) کی جگہ پر یہاں ٹھہرے، ہمت اور حسن تدبیر کے ساتھ حالات کو قابو میں رکھے اور منافقین کے ہاتھ پائوں ڈھیلے کردے آپ حضرات سے میری درخواست ہے کہ فرمائیے پیغمبر(ص) نے مدینے میں کس شخص کو اپنی خلافت اور جانشینی سپرد فرمائی؟

حافظ : مسلم سے کہ علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا خلیفہ اور قائم مقام بنایا تھا۔

خیر طلب : تو کیا ابوبکر و عمر اور دوسرے بوڑھے اصحاب مدینے نہیں تھے کہ رسول اکرم(ص) نے امیرالمومنین علیہ السلام جیسے جوان کو با قاعدہ اپنا خلیفہ اور جانشین بنایا اور صاف صاف فرمایا " انت خليفتی فی اهلبيتی و دار هجرتی " یعنی تم میرے خلیفہ ہو میرے اہل بیت(ع) میں اور میرے مقام ہجرت یعنی مدینے میں۔

بہتر ہوگا کہ آپ حضرات ذرا سوچ سمجھ کے دلیلیں قائم کیا کریں تاکہ جواب کے موقع پر لا جواب نہ رہ جائیں

۳۰۸

پس ابوبکر و عمر وغیرہ کے ایسے بوڑھے صحابہ کے سامنے علی علیہ السلام کو عین شباب میں خلیفہ مقرر کرنے سے آنحضرت(ص) کا ایک خاص مقصد یہ بھی تھا کہ آج آپ کے لیے ایک عملی جواب مہیا ہوجائے اور آپ یہ نہ کہیں کہ جہاندیدہ بوڑھے کے سامنے جوان کو ذمہ دار نہ بنانا چاہئیے ۔ رسول خدا(ص) کا عمل اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ تعیین خلافت اور تبلیغ رسالت میں پیری اور جوانی کو کوئی دخل نہیں ہے۔

اگر سال خوردہ بوڑھوں کے ہوتے ہوئے نو عمر جوان کا تقرر نہ ہونا چاہئیے تو اہل مکہ پر سورہ برائت کی ابتدائی آیتیں پڑھنے کے لیے جب کہ ایسے موقع پر قطعا ایک پیر کہن سال اور ہوشیار و جہاندیدہ بزرگ کی ضرورت تھی جو خوش اسلوبی اور سیاست کے ساتھ اس فریضے کو ادا کرے۔ رسول اکرم(ص) نے کس لیے بوڑھے ابوبکر کو راستے سے واپس بلا لیا اور جوان علی(ع) کو اس عذر کے ساتھ اس اہم کام پر مامور کردیا کہ خدا فرماتا ہے میری رسالت کو یا تم پہنچا سکتے ہو یا تمہیں جیسا کوئی مرد؟

اسی طرح اہل یمن کی ہدایت کرنےکے لیے ابوبکر وعمر وغیرہ کے ایسے سن رسیدہ بزرگوں کے وجود سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا اور امیرالمومنین علیہ السلام کو یمن والوں کی ہدایت پر مامور فرما دیا۔

اس قسم کے مواقع بہت ہیں جب کہ ابوبکر و عمر جیسے شیوخ قوم کی موجودگی میں آں حضرت(ص) نے علی(ع) جیسے جوان کو منتخب فرمایا اور بڑے بڑے کام آن کے سپرد فرمائے۔ پس معلوم ہوا کہ آپ کی یہ بڑھاپے والی شرط انتہائی پھس پھسی اور فضول و مہمل ہے۔ نبوت و ولایت اور خلافت کے شرائط میں بوڑھا ہونا ہرگز نہیں ہے بلکہ خلافت کی اصلی شرط نبوت کے مانند مکمل جامعیت ہے جو خداوند عالم کے نزدیک محبوب و پسندیدہ ہو او رجو فرد بذھی جملہ صفات عالیہ کی جامع ہو چاہے وہ کوئی بوڑھا شخص ہو یا جوان، خدائے تعالی اسی کو منصب خلافت کے لیے چنتا ہے اور نبی و رسول کے ذریعے لوگوں میں اعلان فرماتا ہے اور لوگوں پر واجب ہے کہ خدا و رسول کی طرح اس کی بھی اطاعت کریں۔

ایک اور بڑی دلیل مجھ کو یاد آگئی جس کو ان لوگوں کی خلافت کے رد میں بہت بڑا ثبوت سمجھنا چاہئیے اور وہ یہ کہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف سے اس مصنوعی اجماع کی مخالفت ہوئی ہے۔

علی(ع) حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں

اس لیے کہ ارشاد رسول(ص) کے مطابق علی علیہ السلام کو ذات حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی تھی، چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے اس بارے میں بہت سی روایتیں نقل کی ہیں۔

۳۰۹

من جملہ ان کے شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب16 میں کتاب السبطین فی فضائل امیرالمومنین(ع) سے،امام الحرم ابوجعفر احمد بن عبداللہ شافعی نے ستر حدیثوں میں سے بارہویں حدیث کو فردوس دیلمی کے، امیرسید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت ششم میں، حافظ نے امالی میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب44 ،میں بسند ابن عباس و ابی لیلی غفاری و ابو غفاری الفاظ و عبارت کے مختضر فرق اور کمی وبیشی کے ساتھ حضرت رسول خدا(ص) سے یہ حدیث نقل کی ہے جس کا آخری جملہ ہر جگہ ایک ہے کہ فرمایا :

"سَتَكُونُ مِنْ بَعْدِي فِتْنَةٌفَإِذَاكَانَ ذَلِكَ فَالْزَمُواعَلِيَّ بْنَ أَبِيطَالِبٍ فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ يَرَانِي وَأَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُنِي يَوْمَالْ قِيَامَةِوَهُوَمعِی فِی السَّماءِ العُليَاوَهُوَفَارُوقُ هَذِهِ الْأُمَّةِيَفْرُق ُبَيْنَ الْحَقّ ِوَالْبَاطِلِ"

یعنی عنقریب میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا۔ پس جب ایسا ہو تو تم لوگ لازمی طور پر علی ابن ابی طالب(ع) کے ساتھ رہنا کیونکہ وہ پہلے شخص ہیں جو قیامت کے روز مجھ کو دیکھیں گے اور سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ وہ بلند منزلوں میں میرے ساتھ اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

پس اصولا وفات رسول(ص) کے بعد ایسی صورت حال اور فتنہ عظیم جب مہاجرین و اںصار آپس میں دست و گریبان تھے اور ہر فریق یہ چاہتا تھا کہ خلیفہ ہم میں سے ہو ( گویا ہر ایک بہتے دریا سے ہاتھ دھونا چاہتا تھا) آںحضرت(ص) کے حکم و ہدایت کے مطابق امت والوں کا فرض تھا کہ علی علیہ السلام کو لاتے اور ان کا دامن پکڑتے کہ حق کو باطل سے جدا کریں۔ اور یقینا ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق جس طرف علی علیہ السلام ہوتے ادھر حق ہوتا اور دوسری طرف باطل۔

حافظ : یہ حدیث جو آپ نے نقل کی ہے خبر واحد ہے اور خبر واحد قابل اعتماد نہیں تھی کہ اس پر علمدر آمد ہوتا۔

خیر طلب : بہت تعجب ہے کہ آپ اتنی جلدی بھول جاتے ہیں یا عملا بھلا دیتے ہیں۔ خبر واحد کا جواب شروع میں عرض کرچکا ہوں کہ علمائے اہل سنت خبر واحد کو حجت مانتے ہیں لہذا اس بنا پر آپ اس روایت کو خبر واحد کہہ کر رد نہیں کرسکتے۔ علاوہ اس کے یہی ایک روایت نہیں ہے بلکہ آپ کے موثق علماء کے طریق سے مختلف عبارتوں کے ساتھ بہت سی روایتیں اس مطلب کو ثابت کررہی ہیں جن میں سے بعض کو ہم پچھلی راتوں میں بیان بھی کرچکے ہیں۔ اس وقت جہاں تک وقت اجازت دیتا ہے اپنی یادداشت کے موافق مختصرا صرف راویوں اور کتابوں کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے مزید تائید کے لیے بجائے ان تمام مستند احادیث کو پیش کرنے کے چند کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔ من جملہ ان کے ایک حدیث ہے جس کو محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں طبرانی نے کبیر میں، بیہقی نے سنن میں، نور الدین مالکی نے فصول المہمہ میں، حاکم نے مستدرک میں، حافظ ابو نعیم نے حلیہ میں، ابن عساکر نے تاریخ میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، طبرانی نے اوسط میں، محب الدین نے ریاض نفرہ میں، حموینی نے فرائد میں، اور سیوطی نے درالمنثور میں ، ابن العباس و سلمان و ابوذر حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے دست مبارک سے علی ابن ابی طالب(ع) کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :

"إنّ هذاأوّل من آمن بي ،وأوّل من يصافحني يومالقيامة،

۳۱۰

وهذاالصّديق الأكبر،وهذافاروق هذه الأمّةيفرّق بين الحقّ والباطل"

یعنی در حقیقت یہ (علی) پہلے شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور پہلے شخص ہیںجو روز قیامت مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ یہ علی(ع) صدیق اکبر(یعنی سب سے بڑے سچ بولنے والے) اور اس امت کے فاروق ہیں جو حق و باطل کے درمیان جدائی ڈالیں گے۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب 44 میں اسی حدیث کو ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے۔

"وهويعسوب المؤمنين والمال يعسوب الظلمة،وهوبابي الذي اوتي منه،وهوخليفتي من بعدي."

یعنی وہ مومنین کے بادشاہ ہیں، یہ میرے دروازہ ہیں جس سے لوگ آتے ہیں اور وہ میرے بعد خلیفہ ہیں۔

( اس کے بعد گنجی شافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو محدث شام نے اپنی کتاب کے انچاسویں(49) جزء میں فضائل علی (ع) میں تین سو حدیثوں کے بعد لکھا ہے) محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، خطیب خوارزمی نے مناقب میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد چہاردہم ص21 میں، حافظ مردویہ نے مناقب میں، سمعانی نے فضائل الصحابہ میں، دیلمی نے فردوس میں، ابن قتیبہ نے الامامتہ والسیاسہ جلد اول ص68 میں زمخشری نے ربیع الابرار میں، حموینی نے فرائد باب37 میں، طبرانی نے اوسط میں، فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر جلد اول ص111 میں، گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، امام احمد نے مسند میں اور آپ کے دوسرے علماء نے نقل کیاہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا " علی مع الحق والحق مع علی حيث دار " یعنی علی (ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ پھرتا ہے ( یعنی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے)

انہیں کتابوں میں ہے نیز شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے ینابیع المودت باب20 میں حموینی سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا " علی مع الحق والحق مع علی يميل مع الحق کيف مال " یعنی علی (ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ ہے جس طرف حق مائل ہوتا ہے اسی طرف علی(ع) بھی مائل ہوتے ہیں۔)

اور حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی سنہ431ھ نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص63 میں اپنے اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"يامعشرالأنصارألاأدلكم على من إن تمسكتم به لن تضلوابعده أبداقالوابلى يارسول الله قال هذاعلي فأحبوه بحبي وأكرموه بكرامتي فإن جبرائيل أمرني بالذي قلت لكم عن الله عزوجل "

یعنی اے جماعت انصار آیا تمہاری رہنمائی نہ کروں میں اس شخص کی طرف کہ اگر اس سے تمسک کرو گے تو س کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے؟ سب نے

۳۱۱

عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ(ص) آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ وہ شخص یہ علی(ع) ہیں لہذا ان کو دوست رکھو میری محبت کے ساتھ اور ان کا اکرام کرو میری کرامت کے ساتھ کیونکہ جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے جبرئیل نے خدا کی طرف سے مجھ کو اس کا حکم دیا ہے۔

ان میں سے ہر حدیث رسول(ص) اپنے الفاظ اور راوی و حافظ کے اختلاف کی وجہ سے اگر چہ پہلی نظر میں خبر واحد معلوم ہوتی ہے جس میں ایک خاص مفہوم ادا کیا گیا ہے لیکن اہل علم کی نگاہوں میں اس سے تواتر معنوی ثابت ہوتا ہے کیونکہ ان سب کے مضامین سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کچھ خاص دلائل ہیں جو ایک عام مقصود کے لیے وارد ہوئے ہیں اور ان کی باہمی شرکت سے وہی مقصود عام ثابت ہوتا ہے۔

اس مقصود عام سے مراد ولایت و امامت کی منزل میں رسول اللہ(ص) کی عنایت ہے جو بلا شرکت غیرے صرف علی علیہ السلام کی طرف آنحضرت(ص) کا میلان ظاہر کرتی ہے نیز اس کا ثبوت دیتی ہے کہ پیغمبر(ص) کی یہ شفقت و مہربانی تنہا علی علیہ السلام کے لیے مخصوص تھی اور آںحضرت(ص) ہمیشہ انہیں سے امداد طلب فرماتے تھے کیونکہ آپ نصرت کرنے میں یکتا تھے اور اسی وجہ سے امت کو بھی حکم فرماتے ہیں کہ میرے بعد علی (ع) کی طرف رجوع کرو اور ان سے تمسک اختیار کرو اس لیے کہ یہ ہمیشہ حق کے ساتھی اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔

اس قسم کی حدیثوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اںصاف کیجئے کہ آیا ابوبکر سے علی علیہ السلام کی مخالفت و آپ کے خیالی اجماع سے علیحدگی اور بیعت نہ کرنا ابوبکر کی حقانیت ثابت کرتا ہے یا ان کی خلافت باطل ہونے کا دلیل ہے؟ اگر ابوبکر کی خلافت دست تھی تو علی علیہ السلام نے جو حق و صداقت کے پیکر تھے اور رسول اکرم(ص) نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ ہمیشہ حق کے ساتھ اور حق ان کے ساتھ گردش کرتا ہے ان کی بیعت کیوں نہیں کی بلکہ مخالفت بھی کی؟ واقعی سقیفے کے روز جتنی پھرتی سے کام لیا گیا وہ بہت افسوس اور حیرت کا مقام ہے اور اس روز کا طریقہ کار ہر نکتہ رس ہوشمند انسان کو قطعی طر پر شبے میں ڈالتا ہے کہ اگر کوئی سازش کار فرما نہیں تھی تو ( چند گھنٹے ہی سہی) آخر انتظار کیوں نہ کیا کہ علی ابن ابی طالب(ع) جو بقول رسول (ص) حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے تھے ، کبار صحابہ، بنی ہاشم اور بالخصوص آن حضرت(ص) کے چچا عباس سب ک سب جمع ہوجائیں اور امر خلافت میں جو ایک عمومی فریضہ تھا اپنے خیالات ظاہر کریں؟

حافظ : یہ بات تو یقینی ہے کہ کوئی سازش نہیں چل رہی تھی بلکہ حالات چونکہ خطرناک دیکھے لہذا حفاظت اسلام کے لیے تعیین میں جلدی کی۔

خیرطلب : یعنی آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ابوعبیدہ جراح ( مکے سابق گورکن) وغیرہ کو رسول اللہ(ص) کے بزرگ چچا عباس اور علی بن ابی طالب(ع) سے جنہوں نے اس دین کے راستے میں اپنی زندگی وقف کردی تھی یا دوسرے

۳۱۲

کبار صحابہ اور بنی ہاشم سے زیادہ اسلام کا درد تھا اور جتنی دیر وہاں باتیں بنائی تھیں اگر اتنی دیر ٹھہرجاتے یا ابوبکر وعمر مجمع کو باتوں میں مشغول رکھتے اور فورا ابوعبیدہ یا کسی اور کو بھیج کر عباس و علی(ع) کو اس خطرناک صورت حال سے آگاہ کردیتے تاکہ جلد وہاں پہنچ جائیں اور پھر تھوڑی دیر صبر کر لیتے کہ وہ بزرگوار آجائیں تو کیا اسلام ہاتھ سے نکل جاتا؟ اور ایسا فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا کہ اس کو روک تھام ہو ہی نہ سکتی؟

اںصاف سے کام لیجئے تو قطعا اگر تھوڑا صبر کر کے کم از کم بنی ہاشم اور بزرگان صحابہ کو مع عباس و علی(ع) کے سقیفے میں بلا لیتے تو وہ تینوں اشخاص و ابوبکر و عمر اور ابوعبیدہ اگر حق بات کہتے تھے تو ان کی طاقت اور بڑھ جاتی، اسلام کے اندر اتنا اختلاف رونما نہ ہوتا اور آج ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد ہم اور آپ برادران اسلامی اس جلسے میں ایک دوسرے کے مقابلے پر نہ آجاتے بلکہ تمام قوتوں کو متحد کر کے دشمنوں سے ٹکر لیتے ۔

پس تصدیق کیجئے کہ اسلام کے سرپر جو آفت آئی اسی روز سے آئی اور وہ فقط اسی تعجیل کا نتیجہ تھی جس پر تینوں افراد ( ابوبکر و عمر و ابوعبیدہ) نے عمل کر کے اپنے خفیہ ولی مقاصد پورے گئے۔

نواب : قبلہ صاحب آخر سبب کیا تھا کہ ان لوگوں نے اس قدر جلدی کی اور بقول آپ کے حاضرین مسجد و خانہ رسول(ص) کو بھی خبر نہیں دی؟

خیر طلب : اتنی جلدی کرنے کے سبب قطعا یہی تھا کہ وہ جانتے تھے کہ اگر تمام مسلمانوں کے آںے کا انتظار کریں گے یا کم سے کم اسامہ بن زید کی سر برآوردہ ہستیاں، مدینے کے اندر موجود بزرگ اصحاب اور بنی ہاشم وغیرہ سب جمع ہو کر مشورے میں شرکت کریں گے تو نامزدگی کے وقت علی علیہ السلام کا نام ضرور لیا جائے گا اور اگر علی(ع) یا عباس کا نام آگیا تو اس مجمع میں حق اور حقیقت کے طرفدار لوگ ا پنی مضبوط اور واضح دلیلوں سے میدان سیاست میں ہماری پگڑی اچھال دیں گے لہذا عجلت کی تاکہ جب تک بنی ہاشم اور بزرگ اصحاب پیغمبر(ص) کے غسل و کفن اور دفن میں مشغول ہیں ہم اپنا کام بنالیں اور ابوبکر کو اسی دو نفری تدبیر سے مسند خلافت پر بٹھا دیں چنانچہ وہی کیا اور آپ حضرات بھی آج تک اس کو مسلمانوں کا اجماع کہے چلے آرہے ہیں۔

آپ کے اکابر علماء جیسے طبری اور ابن ابی الحدید وغیرہ نے بھی لکھا ہے کہ عمر کہتے تھے ابوبکر کی خلافت جلدی میں اچانک قائم ہوگئی ہے خدا خیر کرے۔

۳۱۳

عمر کے اس قول کی تردید کہ نبوت و سلطنت ایک جگہ جمع نہ ہوگی

اب رہی آپ کی دوسری دلیل خلیفہ عمر کی سند سے کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی ہے تو یہ بھی آیت نمبر57 سورہ4 ( نساء) کی نص صریح سے باطل ہے ارشاد ہے۔

"أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلى ماآتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ِفَقَدْآتَيْناآلَإِبْراهِيمَ الْكِتاب َوَالْحِكْمَةَوَآتَيْناهُمْ مُلْكاًعَظِيماً"

یعنی آیا خدا نے جو کچھ ان کو اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے اس پر لوگ حسد کرتے ہیں؟ پس یقینا ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت دی اور ان کو زبردست ملک و سلطنت عطا کیا۔

پس اس آیہ شریفہ کے حکم سے آپ کی یہ دلیل مردود ہے اور یہ حدیث قطعا ضعیف بلکہ موضوعات میں سے ہے جو خلیفہ عمر کی طرف منسوب کی گئی ہے اس لیے کہ رسول اللہ(ص) قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں فرماتے اور یہ آیت خود اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ نبوت و سلطنت کا ایک جگہ جمع ہونا ممکن ہے ( جیسا کہ آل ابراہیم وغیرہ میں جمع ہوئی) اس کے علاوہ منصب خلافت عہدہ نبوت کا ایک جزء ہے بلکہ اس کا تتمہ ہے ، سلطنت اور بادشاہی نہیں ہے جس کے لیے آپ کہہ سکیں کہ ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی۔

اگر حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی جناب ہارون علیہ السلام خلافت موسی سے برطرف ہیں تو علی علیہ السلام بھی خلافت خاتم الانبیاء سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اور اگر بحکم قرآن موسی ہارون علیہما السلام میں نبوت و خلافت جمع ہوئی تو قطعا محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام میں بھی جمع ہوگی ۔ چنانچہ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں حدیث منزلت اس کی گواہ ہے پس آپ کی یہ حدیث قطعا بنی امیہ کے موضوعات میں سے ہے اور مجہول اور ہر پہلو سے ناقابل قبول ہے۔

اگر نبوت اورخلافت ( یا بقول خلیفہ عمر کے سلطنت) ایک جگہ جمع نہیں ہوتی ہے تو پھر مجلس شوری میں خلیفہ عمر نے علی علیہ السلام کو خلافت کےلیے کیوں نامزد کیا تھا؟ اور اسی کے بعد چوتھے نمبر پر آپ لوگ بھی حضرت کو خلیفہ کیوں مانتے ہیں؟ عجیب بات ہے کہ خلافت بلافصل تو ( حدیث گھڑ کے نبوت کےساتھ جمع نہ ہو لیکن خلافت مع الفصل جمع ہو جائے۔

چشم باز و گوش باز داں عمی حیرتم از چشم بندی خدا

اس کے علاوہ رسول اللہ (ص) صاف صاف فرماتے ہیں کہ جس راستے پر علی (ع) چلیں ادھر تم بھی چلو، دوسرون کی پیروی نہ کرو آپ کہتے ہیں کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں اکھٹا نہیں ہوتیں، حالانکہ آنحضرت(ص) نے اپنی عترت کی پیروی امت پر واجب قرار دی ہے اور ان کی مخالفت کو محض ضلالت و گمراہی جانا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ راتوں

۳۱۴

میں میں نے یہ معتبر اور متفق علیہ فریقین صریحی حدیث مع اس کے اسناد کے عرض کی ہے کہ آنحضرت(ص) نے بار بار فرمایا :

"إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَبَيْتِي إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَالَن ْتَضِلُّوابَعْدِي أَبَداً"

یعنی میں تمہارے درمیان دو بزرگ و بہتر گراں چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ، ایک قرآن مجید اور دوسری میری عترت اور اہل بیت(ع)، اگر ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو ہرگز کبھی گمراہ نہ ہوگے۔

جس طرح سے طوفان نوح کی آمد مِں حضرت نوح(ع) کے حکم سے جو شخص آپ کی بنائی ہوئی کشتی میں بیٹھ گیا اس نے نجات پائی اور جس نے منہ موڑا ہلاک ہوگیا چاہے وہ ان کا بیٹا ہی کیوں نہ رہا ہو۔ اسی طرح اس امت مرحومہ میں بھی حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے اپنی عترت اور اہل بیت (ع) کو بمنزلہ کشتی نوح(ع) بیان فرمایا ہے کہ آیندہ مشکلات و اختلافات میں اس گھرانے کے علم و عقل اور ظاہر و باطن کے دامن سے وابستہ رہیںگ ے تو نجات حاصل کریں گے اور کشتی نوح(ع) سے روگردانی کرنے والوں کے مانند تخلف کریں گے تو ہلاک ہوجائیں گے (جسیا کہ اسی کتاب کے ص؟؟؟؟؟؟؟؟؟ میں تفصیل سے گزر چکا )

پس اس قسم کے نصوص صریحہ اور قواعد واضحہ کے رو سے امت کا فرض ہے کہ اختلاف اور دشواریوں میں عترت و اہل بیت رسالت(ع) کی رائے سے فائدہ اٹھائیں اور امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام چونکہ مزید علمی و عملی فضائل اور پیغمبر(ص) کے تاکیدی احکام کی روشنی میں آں حضرت(ص) کی عترت و اہل بیت کی ایک فرد اکمل تھے پس کیوں تھوڑی دیر تامل کر کے آپکو اطلاع نہیں دی تاکہ آپ کے غور وفکر اور صائب رائے سے مدد ملتی؟

اس میں قطعا ایسا راز پوشیدہ تھا جس پر عقل و علم اور اںصاف والے حیران اور مبہوت ہیں جس وقت یہ لوگ اپنے اسلاف کی اندھی تقلید چھوڑ کر عادلانہ جائزہ لیتے ہیں تو حقیقت کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ سیاسی بازیگروں نے علی(ع) کو انکے مستقل حق سے محروم کرنے کے لیے جلدی کر کے آپ کی اور دوسرے اصحاب و اہل تقوی کی غیر موجودگی میں ابوبکر کو مسند خلافت پر بٹھا دیا۔

شیخ : آپ کس دلیل سے فرماتے ہیں کہ صرف علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی پیروی کر کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی رایوں اور اجماع کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیئے تھا؟

تعیین خلافت میں پھر اظہار حقیقت

خیر طلب : اول تو ہم نے یہ کہا ہی نہیں ہے کہ صحابہ کی رائیں اور ان کا اجماع قابل احترام نہیں ہے۔ البتہ ہمارے اور آپ کے درمیان فرق یہ ہے کہ آپ نے جونہی کسی صحابی کا نام سنا بس چاہیے وہ کوئی منافق ہی ہو یا ابوہریرہ ہی ہوں جن کو خلیفہ عمر کوڑے سے مارتے تھے اور کذاب ( بہت بڑا جھوٹا ) کہتے تھے فورا زانوئے ادب

۳۱۵

تہ کردیتے ہیں، لیکن ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک وہی صحابی محترم ہے اور اسی کے قدم آنکھوں سے لگانے کے قابل ہیں جس نے رسول اللہ(ص) کی مصاحبت کے شرائط پورے کئے ہوں، ہوائو ہوس کا بندہ نہ رہا ہو اور احکام خدا و رسول(ص) کا آخر عمر تک دیانتداری سے پا بند رہا ہے۔

دوسرے ہم واضح دلائل سے آپ کے سامنے ثابت کرچکے کہ سقیفہ میں خلیفہ ابوبکر کی بیعت پر کوئی اجماع نہیں ہوا تاکہ امت کی اجماعی رائے سے ان کی خلافت مسلم ہوجائے۔ اب اس کے خلاف اگر آپ کے پاس کوئی قاعدے کا جواب ہو تو بیان فرمائیے تاکہ حضرات حاضرین جلسہ بے لاگ فیصلہ کرسکیں اور میں بھی اس اجماعی تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کروں، اگر آپ اپنی کتابوں سے اس کا ثبوت دے دیجئے کہ سقیفہ میں ساری امت یا کم از کم بقول آپ کے تمام عقلائے قوم جمع ہوئے اور سب نے مل کر رائے دی کہ ابوبکر کو خلیفہ ہونا چاہئیے تو میں مان لوں گا اور اگر سوا دو نفر ( عمر و ابوعبیدہ) اور قبیلہ اوس کے چند افراد کے جن کو قبیلہ خزرج کے ساتھ اپنی دیرینہ عداوت و مخالفت کا لحاظ تھا دوسرے اشخاص نے بیعت نہیں کی تھی تو آپ تصدیق کیجئے کہ ہم(شیعہ) غلط راستے پر نہیں ہیں۔

تیسرے اس سب پر ہماری تنقید یہ ہے اور ہم دینا کے سارے عقلمندوں پر اس کا فیصلہ چھوڑتے ہیں کہ آیا صرف تین صحابی ایسا کرنے کے مجاز ہیں کہ پوری ملت کی باگ ڈور ہاتھ میں لے لیں اور باہمی گفت و شنید اور جنگ زرگری کر کے دو نفر ایک نفر کی بیعت کرلیں اس کے بعد لوگوں کو دھونس دے کےتلوار ، آگ اور اہانت سے مرعوب کر کے اپنا بنایا ہوا خاکہ ماننے پر مجبور کریں؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔

میں مطلب کو دہراتے ہوئے پھر عرض کرتا ہوں کہ ہمارا اعتراض اس بات پ؛ر ہے کہ اس روز جب وہ تین نفر ( ابوبکر و عمر اور ابو عبیدہ جراح) سقیفہ پہنچے اور دیکھا کہ خلافت کی بحث در پیش ہے تو بزرگان قوم اور عقلا و کبار صحابہ کا تعاون کیوں نہیں حاصل کیا جن میں سے کچھ لوگ خانہ رسول (ص) میں تھے اور ایک جماعت لشکر اسامہ میں تھی؟

شیخ : ہم کہتے ہیں کہ کوئی غفلت ہوئی یا نہیں ہوئی ہم اس روز موجود نہیں تھے کہ دیکھتے وہ لوگ کس دشواری میں پھنسے ہوئے تھے، لیکن آج جب کہ ہمارے سامنے ایک طے شدہ عمل ہے چاہے وہ اجماع رفتہ رفتہ واقع ہو۔ ہم کو اس کے مقابلے میں اختلاف کی آواز نہ اٹھانا چاہیئے بلکہ سر تسلیم خم کر کے جس راستے وہ گئے ہیں اسی راستے پر گامزن ہوجانا چاہیئے۔

خیرطلب : خوب خوب ۔ مرحبا آپ کے استدلال پر اور آفرین آپ کے خیال اور عقیدے پر کہ آپ خواہ مخواہ ہم سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ مقدس دین اسلام ایک بھیڑیا دھسان مذہب ہے جس میں اگر دو تین آدمیوں نے ایک جگہ جمع ہوکر منصوبہ بنایا اور چند اشخاص نے ان کی حمایت میں ؟؟؟؟؟؟؟ مچادیا تو اب سارے مسلمانوں کا فرض ہوگیا کہ آنکھیں بند کر کے اس پر عملدرآمد کو قبول کریں۔ کیا خاتم النبیین(ص) کے پاک دین کا یہی مطلب ہے جب کہ صریحا آیت

۳۱۶

نمبر19 سورہ 29 ( زمر) ارشاد ہے۔

"فَبَشِّرْعِبادِالَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"

یعنی اے رسول(ص) ان بندوں کو میرے لطف و رحمت کی بشارت دے دیجئے جو بات سنتے ہیں پس اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں۔ (یعنی تحقیق کرلیتے ہیں، اندھی تقلید نہیں کرتے۔)؟

حالانکہ اسلام ایک تحقیقی دین ہے تقلیدی نہیں اور وہ بھی ابوعبیدہ (گورکن) معروف بہ جراح کی تقلید رسول اکرم(ص) نے خود ہمارے لیے راستہ کھول دیا ہے اور ہم کو پتہ دے دیا ہے کہ جس وقت امت دو گروہوں میں بٹ جائے تو ہم ان دونوں میں سے کس کی طرف جائیں تاکہ نجات پاسکیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہم کو کس دلیل سے امیرالمومنین علیہ السلام کی پیروی واجب ہے؟ اس کا جواب کھلا ہوا ہے کہ آیات قرآنی اور آپ کی معتبر کتابوں میں درج موثق حدیثوں کی دلیل ہے۔

من جملہ ان روایات و ںصوص کے جن کے ماتحت امت مجبور ہے کہ حوادث و انقلابات میں علی علیہ السلام کی پیروی کرے عمار یاسر کی مشہور حدیث ہے جس کو آپ کے بڑے بڑَ علماء جیسے حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیہ میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، بلاذری نے اپنی تاریخ میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب43 میں حموینی سے، میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت پنجم میں، دیلمی نے فردوس میں اور آپ کے دوسرے موثق علماء نے ابوایوب اںصاری سے ایک مفصل حدیث نقل کی ہے جس کو مکمل بیان کرنے کا وقت نہیں لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت لوگوں نے ابو ایوب سے سوال کیا ( بلکہ ان پر اعتراض کیا) کہ تم علی ابن ابی طالب(ع) کے طرفدار کیوں بن گئے اور ابوبکر کی بیعت کیوں نہیں کی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک روز میں رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر تھا کہ عمار یاسر وارد ہوئے اور آنحضرت سے سوال کیا حضرت نے گفتگو کے ضمن میں فرمایا

" يَاعَمَّارُ إِنْ سَلَكَ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَادِياًوَسَلَكَ عَلِيّ ٌوَادِياًفَاسْلُكْوَادِيَ عَلِيٍّ وَخَلِّ عَنِ النَّاسِ يَاعَمَّارُإِنَّ عَلِيّاًلَايَرُدُّكَ عَنْ هُدًى وَلَايَدُلُّكَ عَلَى رَدًى يَاعَمَّارُطَاعَةُعَلِيٍّ طَاعَتِي وَطَاعَتِي طَاعَةُاللَّهِ."

یعنی اے عمار اگر تمام لوگ ایک راستے پر جائیں اور تنہا علی(ع) ایک راستے پر تو تم علی(ع) کے راستے پر چلنا اور دوسروں سے بے نیاز ہوجانا اے عمار علی(ع) تم کو ہدایت سے برگشتہ نہ کریں گے اور ہلاکت کی طرف نہ لے جائیں گے اے عمار علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت ہے اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔

آیا جائز تھا کہ ان واضح نصوص اور صاف صاف احکام کے ہوتے ہوئے جو آپ کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں، باوجودیکہ علی علیہ السلام نے خلافت ابوبکر کی کھلی ہوئی مخالفت کی، چاہے ساری امت میں سے بنی ہاشم، بنی امیہ کبار صحابہ عقلاء قوم اور مہاجرین و انصار ان کے ہم آواز نہ بھی رہے ہوں (حالانکہ ہم آواز تھے) لوگ علی(ع) کی راہ کو چھوڑ دیں اور ایک غیر پیشوا کی پیروی کریں؟ کم سے کم یہی خواہش کرتے کہ اس قدر تامل کیا جائے کہ علی(ع) آجائیں اور ان کی تجویز معلوم کر لی جائے۔

( اتنے میں نماز عشاء کے لیے موذن کی آواز آئی اور مولوی صاحبان فریضہ ادا کرنے کے لیے اٹھ گئے نماز اور چائے کے بعد حافظ صاحب نے بات شروع کی۔)

۳۱۷

حافظ : جناب آپ نے اپنے بیانات کے ضمن میں دو باتیں عجیب فرمائیں ۔ اول تو آپ بار بار فرماتے ہیں۔ ( ابوعبیدہ گور کن) تو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ محترم بزرگ قبر کھودنے کا پیشہ کرتے تھے؟ دوسرے آپ نے فرمایا کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب بیعت میں شامل نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے مخالفت بھی کی در آنحالیکہ جملہ ارباب حدیث و تاریخ نے لکھا ہے کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب سب نے بیعت کی۔

خیر طلب : معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرات اپنے علماء کی تحریریں بھی غور سے نہیں پڑھتے۔ پہلی بات کہ ابوعبیدہ گوکن تھے۔ میں نے نہیں کہی ہے بلکہ آپ ہی کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ کتاب الہدایہ ولنہایہ مئولفہ ابن کثیر شامی جلد پنجم ص266 و ص267 کو ملاحظہ فرمائیے دفن رسول(ص) کے باب میں لکھا ہے کہ ابوعبیدہ جراح چونکہ اہل مکہ کی قبریں کھودا کرتے تھے لہذا جناب عباس نے ایک شخص کو مدینے کے گورکن ابوطلحہ کی تلاش میں اور ایک کو ابو عبیدہ کے تجسس میں روانہ کیا تاکہ دونوں آکر رسول اللہ(ص) کی قبر تیار کریں۔

دوسرے آپ نے فرمایا کہ علی(ع) و بنی ہاشم اور اصحاب سبھی نے بیعت کی۔ ہاں آپ بیعت کا لفظ تو ضرور پڑھ لیتے ہیں لیکن حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ کس نے کس وقت بیعت کی اور کیوں کر بیعت کی آپ کے سارے علمائے حدیث اور بڑے بڑے مورخین نے لکھا ہے کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم نے بیعت تو کر لی لیکن چھ مہینے کے بعد اور وہ بھی جبر و تشدد ، قتل و خون کی دھمکیوں اور انتہائی اہانتوں کے بعد جو ان بزرگوار کے لیے عمل میں لائی گئیں اور ان حضرات کا ہر طرح سے بائیکاٹ کردینے کے بعد۔

حافظ : آپ جیسے شریف انسان کے لیے مناسب نہیں کہ شیعہ عوام کے الفاظ اور عقائد کو زبان پر جاری کیجئے جو یہ کہتے ہیں کہ علی(ع) کو جبرا کھینچتے ہوئے لے گئے اور ان کو قتل کردینے کی دھمکی دی۔ حالانکہ ان جناب نے انہیں ابتدائی دنوں میں انتہائی خواہش و رغبت کے ساتھ ابوبکر کی خلافت قبول کر لی تھی۔

چھ ماہ کے بعد زبردستی علی (ع) اور بنی ہاشم کی بیعت

خیر طلب : آپ جو یہ فرمارہے ہیں کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم نے فوار بیعت کی تو میرا خیال کہ آپ جان بوجھ کر اپنے کو دھوکا دے رہے ہیں اس لیے کہ عام عام طور پر آپ کے مورخین تو یہ لکھتے ہیں کہ علی علیہ السلام کی بیعت جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد ہوئی ہے۔ چنانچہ بخاری نے صحیح جلد سوم ص37 باب غزوۃ خیبر میں اور مسلم بن حجاج نے اپنی صحیح جلد پنجم ص54 باب قول النبی لا نورث میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام کی بیعت وفات فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بعد ہوئی۔ اسی طرح عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری متوفی سنہ276ھ الامامت والسیاست آخر ص14 میں کہتے ہیں :

"فلم يبايع عليّ كرّم اللّه وجهه حتّى ماتت فاطمةرضي اللّه عنها"

یعنی علی علیہ السلام نے ( ابوبکر کی) بیعت نہیں کی یہاں تک کہ جناب فاطمہ(س) نے

۳۱۸

انتقال فرمایا۔

آپ کے بعض علماء وفات فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا وفات رسول اللہ صلعم کے پچھتر روز بعد جانتے ہیں جیسے خود ابن قتیبہ لیکن بالعموم آپ کے مورخین آںحضرت کے وفات کے چھ مہینے بعد سمجھتے ہیں جس سے نتیجہ یہ نکلا کہ علی علیہ السلام اور بنی ہاشم کی بیعت خلافت کے چھ ماہ بعد ہوئی ۔ چنانچہ مسعودی مروج الذہب جلد اول ص414 میں کہتے ہیں " ولم يبايع ه أحدمن بني هاشم حتّى ماتت فاطمة "

یعنی بنی ہاشم میں سے کسی ایک فرد نے بھی (ابوبکر کی ) بیعت نہیں کی یہاں تک کہ حضرت فاطمہ(س) نے وفات پائی۔

ابراہیم بن سعد ثقفی نے جو ثقات علماء میں سے ہیں زہری سے روایت کی ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بیعت نہیں کی لیکن چھ مہینے کے بعد اور ان کے اوپر لوگوں کی جرائت نہیں بڑھی لیکن وفات فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بعد جیسا کہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے۔

غرضیکہ آپ ہی کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام کی بیعت فورا نہیں ہوئی بلکہ بہت مدت کے بعد واقع ہوئی جب اس کے وسائل و اسباب اکٹھا ہوگئے اور حالات نے مجبور کردیا۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم آخر ص18 میں زہری سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ :

" فَلَمْ يُبَايِعْهُ عَلِيٌّ سِتَّةَأَشْهُرٍوَلَاأَحَدٌمِن ْبَنِي هَاشِمٍ حَتَّى بَايَعَهُ عَلِيٌّ"

" یعنی علی(ع) نے چھ ماہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور بنی ہاشم میں سے کسی نے بھی بیعت نہیں کی جب تک علی(ع) نے نہیں کی۔

نیز احمد بن اعثم کوفی شافعی نے فتوح میں اور ابونصر حمیدی نے جمع بین الصحیحین میں نافع سے اور انہوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ " ان عَلِيّا لَمْ يُبَايِعْهُ الا بعد سِتَّةَأَشْهُرٍ " ( یعنی علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی مگر چھ مہینے کے بعد) رہا آپ کا یہ فرمانا کہ تم عوام کے عقائد کی پیروی بے خودی میں ہم پر حملہ کرتے ہیں حالانکہ اپنی کتابوں کے مضامین سے واقف ہیں۔ قسم خدا کی ہر قوم کے علماء ہی فسادات کے ذمہ دار ہیں جو عوام کو دھوکا دیتے ہیں تاکہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ ان روایتوں کو ہم نے گھڑا ہے۔ حالانکہ خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے ان باتوں کا اقرار کیا ہے۔

حافظ ہمارے علماء نے کہاں یہ کہا ہے کہ علی(ع) کع جبرا کھینچا اور ان کے گھر میں آگ لگائی جیسا کہ شیعوں کے یہاں مشہور ہے اور اپنے مجالس میں جوش و خروش سے بیان کرتے ہیں۔ نیز یہ کہہ کر لوگوں کے جذبات ابھارتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی اور ان کا حمل ساقط کیا؟

خیر طلب : محترم حضرات یا تو واقعی آپ کو مطالعہ ہی بہت کم ہے یا عادتا اور قصدا اپنے اسلاف کی پیروی میں بیچارے مظلوم شیعوں کو عوام کی نگاہوں میں متہم کر کے ایسے جملوں سے اپنے بزرگوں کو پاکدامن دکھانا چاہتے ہیں۔ لہذا کہتے بھی

۳۱۹

ہیں اور لکھتے بھی ہیں کہ یہ روایتیں شیعوں نے بنائی ہیں( خصوصا سلطنت صفویہ کے زمانے سے ) کہ ابوبکر کے حکم سے عمر ایک مجمع کے ساتھ علی(ع) کے دروازے پر آگ لے کر گئے اور علی(ع) کو قتل کی دھمکی دے کر شور و شر کے ساتھ کھینچتے ہوئے بیعت کے لیے مسجد میں لے گئے۔

حالانکہ ایسا ہے نہیں میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ان تاریخی قضیوں کو صرف شیعوں نے درج نہیں کیا ہے بلکہ آپ کے اںصاف پسند اکابر علماء و مورخین نے بھی لکھا ہے ۔ البتہ بعض نے تعصب کی وجہ سے احتراز کیا ہے۔ اگر آپ چاہیں ، تو وقت کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کے معتمد علماء سے چند روایتیں جو اس وقت پیش نظر ہیں ثبوت کے لیے نقل کردوں تاکہ صاحبان انصاف کو معلوم ہوجائے کہ ہم بے قصور ہیں اور جو کچھ آپ نے کہا ہے وہی ہم بھی کہتے ہیں ۔

حافظ : فرمائیے ہم سننے کے لیے حاضر ہیں۔

بارہ دلیلیں اس پر کہ علی(ع) کو بزود شمشیر مسجد میں لے گئے

خیر طلب : 1۔ ابو جعفر بلاذری احمد بن یحیی بن جابر بغدادی متوفی سنہ279ھ نے جو آپ کے ایک موثق محدث اور مشہور مورخ ہیں اپنی تاریخ میں روایت کی ہے کہ جب ابوبکر نے علی علیہ السلام کو بیعت کے لیے طلب کیا ہے اور آپ نے قبول نہ کیا تو انہوں نے عمر کو بھیجا ، وہ آگ لے کر آئے کہ گھر کو جلا دیں گے۔ حضرت فاطمہ(س) نے دروازے کے قریب آکر فرمایا اے پسر خطاب کیا تم مجھ پر گھر جلا دوگے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ جو کچھ تمہارے باپ لے کر آئے ہیں اس میں یہ عمل بہت موثر ہے۔

2۔ عزالدین ابن ابی الحدید معتزلی اور محمد بن جریر طبری جو آپ کے معتمد ترین مورخ ہیں، روایت کرتے ہیں کہ عمر اسید بن خضیر ، سلمہ بن اسلم اور ایک جماعت کےہمراہ علی(ع) کے دروازے پر گئے اور کہا باہر نکلو ورنہ ہم گھر کو تمہارے اوپر جلا دیں گے۔

3۔ ابن خزابہ نے کتاب عزر میں زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا میں ان لوگوں میں سے تھا جو عمر کے ہاں لکڑیاں اٹھا کر فاطمہ(ع) کے دروازے پر لے گئے ۔ جب علی (ع) اور ان کے اصحاب نے بیعت سے انکار کیا تو عمر نے فاطمہ (ع) سے کہا کہ جو شخص اس گھر کے اندر ہو اس کو باہر نکالو ورنہ اور گھر والوں کو جلائے دیتا ہوں اس وقت علی و حسنین اور فاطمہ علیہم السلام اور صحابہ و بنی ہاشم کی ایک جماعت گھر کے اندر موجود تھی۔ فاطمہ(ع) نے فرمایا کیا تم مجھ پر اور میرے بچوں پر گھر جلادوگے؟ کہا ہاں خدا کی قسم، یہاں تک کہ سب باہر آکر خلیفہ رسول (ص) کی بیعت کریں۔

4۔ ابن عبدربہ نے جو آپ کے مشاہیر علماء میں سے ہیں حقدالفرید جلد سیم ص63 میں لکھا ہے کہ علی علیہ السلام اور عباس(ع) فاطمہ(ع) کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوبکر نے عمر سے کہا جائو ان لوگوں کو لائو، اور اگر آنے سے انکار کریں تو ان سے جنگ کرو پس عمر آگ لے کر آئے تاکہ گھر جلادیں ، فاطمہ(ع) دروازے پرآئیں اور فرمایا اے پسر خطاب کیا تم میرا گھر جلانے آئے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں۔ الخ

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367