فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206453 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

خدا کی قسم یہ لوگ حق کی طرف بغیر تلوار کے آہی نہیں سکتے،اتنے میں عبداللہ بن عمر بن خطاب وہاں پہنچے اور کہنے لگے،ابوالحسنؑ کیا آپ بعض کو بعض سے لڑانا چاہتے ہیں،آپ نے فرمایا وائے ہو تجھ پر،تو چپ رہ اگر تیرے باپ نے میرا حق نہیں مارا ہوتا تو آج عثمان کی ہمت نہیں تھی کہ ہم سے لڑتا اور نہ ابن عوف کی اتنی ہمت تھی کہ وہ مجھ سے جھگڑا کرتا،یہ سن کر عبداللہ بن عمر فوراً کھڑا ہوگیا اور باہر نکل گیا،شعبی کہتے ہیں کہ:دوسرے دن مقدادؒ نکلے اور عبدالرحمٰن بن عوف سے ملے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگے تم نے جو کچھ کیا ہے اگر اس کا مقصد ذات باری تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے تو اللہ تمہیں دنیا و آخرت میں ثواب دے اور اگر تم نے محض دنیا کے لئے کیا ہے تو اللہ تہمارے مال میں اضافہ کرے یہ سن کر عبدالل کا نپ گئے اور بولے مقداد خدا پر رحم کرے سنو تو سہی مقداد نے کہا خدا کی قسم میں کچھ نہیں سنوں گا اور ان کا ہاتھ پکڑ کے کھینچتے ہوئے مولائے کائناتؑ کے پاس لائے،جناب امیرالمومنینؑ سے کہا آپ اٹھیں قتال کریں تا کہ ہم بھی آپؑ کے ساتھ آپ کی قیادت میں قتال کریں۔مولائے کائناتؑ نے فرمایا خدا تم پر رحم کرے،کس کے سہارے پر قتال کروں؟اتنے میں عمار آگئے اور آواز دی((اے اسلام کی طرف سے فریاد کرنےوالے اٹھ اور فریاد کر،معروفات مرگئے اور منکرات ظاہر ہوگئے))(ترجمہ شعر)خدا کی قسم کاش میرے مددگار ہوتے تو میں ان(غاصبوں)سے جنگ کرتا اگر ایک آدمی بھی ان سے جنگ کرنے کو اٹھتا تو خدا کی قسم میں دوسرا ہوتا،مولانئے کائنات نے فرمایا اے ابوالیقظان(عمار کی کنیت)خدا کی قسم ان کے خلاف ہمارے پاس مددگار نہیں ہیں اور میں تم لوگوں کو تکلیف مالایطاق نہیں دینا چاہتا پھر آپ اپنے گھر ہی میں بیٹھے رہے اور آپ کے پاس آپ کے اہل بیتؑ کے چند افراد تھے،عثمان کے خوف سے آپ کے پاس کوئی نہیں آتا تھا۔(۱)

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ عوانہ نے کہا ان سے اسماعیل نے کہا ان سے شعبی نے کہا کہ مجھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۵۴۔۵۵

۱۸۱

سے عبدالرحمٰن بن جندب نے کہا انھوں نے اپنے باپ جندب بن عبداللہ ازدی کے حوالہ سے نقل کیا کہ جس دن عثمان کی بیعت ہوئی میں مدینہ میں ہی تھا میں آکر مقداد بن عمرو کے پاس بیٹھ گیا مقداد کہہ رہے تھے خدا کی قسم اس گھر کے رہنےوالو!اہل بیتؑ پر جیسی مصیبت آئی کسی گھر پر ویسی مصیبت نہیں آئی،عبدالرحمٰن بن عوف وہیں بیٹھے تھے مقداد اس جملہ سے تمہارا کیا مطلب ہے؟مقداد نے کہا میں اس گھروں والوں کو محض محبت پیغمبرؐ کی وجہ سے چاہتا ہوں،مجھے قریش پر تعجب ہورہا ہے کہ وہ پیغمبرؐ کا حوالہ دیکر لوگوں پر اپنی فضیلت ظاہر کرتے ہیں اور ان کے اہل بیتؑ سے نبیؐ کا اقتدار اور ان کا حق چھین لیتے ہیں،عبدالرحمٰن نے کہا بھئی میں نے تم لوگوں کے لئے کوئی کوشش اٹھا نہیں رکھی،مقداد بولے تم نے ایسے مرد کو چھوڑ دیا ہے جو حق کی بنیاد پر حکم دینےوالوں میں سے ہے اور حق کی بنیاد پر عدالت کرنےوالوں میں سے ہے خدا کی قسم اگر میں قریش کے خلاف مددگار پاتا تو ان سے ضرور جنگ کرتا جیسے بدر و احد میں ان سے لڑا تھا،عبدالرحمٰن ڈرگئے بولے تمہاری ماں تمہارے ماتم میں بیٹھے یہ باتیں اور لوگوں سے نہ کہنا دوسرے لوگ یہ کلام سنیں بھی نہیں،مجھے خوف ہے کہ تم فتنہ پردازی اور تفرقہ انگیزی کی طرف جارہے ہو!مقداد نے کہا:جو حق،اہل حق اور صاحبان امر کی طرف بلاتا ہے وہ اہل فتنہ نہیں ہوتا عبدالرحمٰن!صاحب فتنہ وہ ہے جو لوگوں کو باطل میں ڈبودے اور خواہش نفس کو حق پر ترجیح دے پس عبدالرحمٰن کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔۔پھر وہ عبدالرحمٰن کے پاس سے اٹھے اور چلے گئے،جندب بن عبداللہ کہتے ہیں میں مقداد کے پیچھے پیچھے چلا اور میں نے ان سے کہا اے بندہ خدا میں تمہارا مددگار ہوں،مقداد نے کہا خدا تم پر رحم کرے،یہ کام دو تین آدمیوں کے بس کا نہیں ہے جندب بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اسی وقت مولائے کاتناتؑ کی خدمت میں پہنچا،جب میں آپ کے پاس بیٹھ گیا تو میں نے عرض کیا اے ابوالحسنؑ!آپ کی قوم نے خلافت آپ سے چھین کر آپ کو کتنا نقصان پہنچایا ہے،آپ نے فرمایا:صبر جمیل ہی مناسب ہے اور اللہ ہی سے مدد مانگی جاتی ہے میں نے کہا لیکن آپ بھی بڑے صابر ہیں فرمایا صبر نہ کروں تو کیا کروں؟میں نے کہا کہ میں ابھی مقداد بن عمرو اور عبدالرحمٰن کے پاس بیٹھا تھا وہاں ان لوگوں مٰں اس طرح کی بحث ہوئی میں نے پوری بات

۱۸۲

آپ کو بتادی آپ نے فرمایا:مقداد تو سچ کہہ رہے ہیں لیکن میں کیا کروں؟میں نے عرض کیا:آپ لوگوں تک اپنی بات پہنچائیں اور اپنی طرف انھیں متوجہ کریں،آپ لوگوں کو بتائیں کہ آپ نبیؐ کی خلافت کے سب سے زیادہ حق دار ہیں اور لوگوں سے کہیں کہ آپ کے خلاف مظاہرہ کرنےوالوں کے مقابلے میں لوگ آپ کی مدد کریں،اگر سو میں سے دس آدمی بھی آپ کی تائید کرتے ہیں تو ان کو لیکر آپ دوسروں پر سختی کریں،اگر لوگ آپ کے ساتھ آجاتے ہیں تو ہمارا مقصد یہی ہے ورنہ آپ ان سے جنگ کریں،آپ صاحب عذر ہوں گے چاہے آپ شہید ہوجائیں یا باقی رہ جائیں،خدا کے نزدیک آپ کی حجت بلند ہی رہےگی آپ نے فرمایا:جندب کیا تم امید کرتے ہو کہ دس میں سے ایک آدمی بھی میری بیعت کرےگا؟میں نے کہا:مجھے تو یہی امید ہے،فرمایا((خدا کی قسم میں سمجھتا ہوں کہ سو میں سے ایک آدمی بھی میری بیعت نہیں کرےگا(تم دس فیصد امید کرتے ہو مجھے ایک فیصد کی بھی امید نہیں ہے)سنو!میں تمہیں بتاتا ہوں،حق یہ ہے کہ لوگ قریش کے بارے میں سوچتے ہیں کہ قریش محمدؐ کی قوم و قبیلہ والے ہیں لیکن قریش کہتے ہیں کہ آل محمد کو لوگوں پر نبوت کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے،وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ قریش میں آل محمدؐ ہی اس امر خلافت کے حقدار ہیں نہ کہ دوسرے لوگ،اگر آل محمدؐ حاکم ہوگئے تو پھر ان کے ہاتھ سے حکومت کبھی نکالی ہی نہیں جاسکتی البتہ اگر دوسروں کے ہاتھ میں حکومت رہی تو قریش بھی اس میں حصہ دار ہوتے رہیں گے،خدا کی قسم لوگ دل سے تو ہمارا حق دینے کو بھی تیار نہیں ہوں گے))میں نے عرض کیا اے پیغمبرؐ کے چچازاد بھائی میں آپ پر قربان ہوجاؤں کیا آپ کی گفتگو کا وہاں اعلان کردوں؟اور لوگوں کو آپ کی طرف دعوت دوں؟آپ نے فرمایا ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے جندب کہتے ہیں،پھر میں عراق میں آگیا اور مسلسل لوگوں سے فضائل علیؑ بیان کرتا رہا مجھے کوئی آدمی ایسا نہیں ملا جو یہ بتاتا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اس کو وہ ناگوار سمجھ رہا ہے یا اچھا مگر یہ کہنےوالے ضرور ملے کہ جندب یہ باتیں چھوڑو،ایسی باتیں کرو جو تم کو فائدہ پہنچائیں،میں نے کہا یہی باتیں توہیں جو تمہیں اور مجھے دونوں کے لئے فائدہ بخش ہیں،یہ سن کر لوگ میرے پاس سے اٹھ جاتے تھے اور مجھے تنہا چھوڑ کے چلے جاتے تھے۔

۱۸۳

ابوبکر احمد بن عبدالعزیزی جوہری نے یہ اضافہ کیا ہے کہ،جندب نے کہا میری یہ باتیں ولید بن عقبہ تک پہنچی جو اس وقت ہمارا حاکم تھا،اس نے مجھے پکڑ کر بند کردیا،پھر میرے بارے میں کچھ لوگوں کی سفارش پہنچی تو مجھے رہا کردیا۔

اور جوہری روایت کرتے ہیں کہ عمار یاسر نے بیعت عثمان والے دن آواز دی اے مسلمانو!(ایک زمانہ تھا کہ ہم)ہم موجود تو تھے لیکن ہماری تعداد بہت کم تھی جس کی وجہ سے ہم بول نہین سکتے تھے تو اللہ نے اپنے دین کے ذریعہ ہمیں عزت دی اور اپنے رسولؐ کے ذریعہ ہمیں مکرم کیا،پس خدا کی حمد ہے اے قریش کے لوگو!آخر تم اپنے نبیؐ کے اہل بیتؑ کے ہاتھوں سے خلافت لیکے کبھی اس ہاتھ میں اور کبھی اس ہاتھ میں کب تک گھماتے رہوگے مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں خدا تم سے اس کو چھین کر دوسروں کو نہ دیدے جس طرح تم نے اس کو اہل حق سے چھینا ہے اور نااہلوں کےحوالے کردیا ہے۔

پس ہاشم بن ولید بن مغیرہ کہنےلگا اے سمیہ کے بیٹے تو بہت بڑھ بڑھ کے باتیں کررہا ہے تو اپنی قدر نہیں پہچانتا تو کون ہے قریش کے بارے میں حکم لگانےوالا؟تجھے قریش کے امر اور ان کی امارت سے کیا مطلب؟خاموش ہوجا،اس کے بعد تو قریش کا ہر آدمی بولنےلگا اور عمار کو ڈانٹنے لگا اور ان کو جھڑکیاں دینے لگا عمار نے کہا!الحمدللہ کہ اہل حق کو ہمیشہ ذلیل کیا گیا یہ کہہ کے اٹھے اور چلے گئے(۱)

میں نے اس گفتگو کو اتنا طویل اس لئے کیا ہے کہ صدر اول میں جو عام واقعات رونما ہوئے ان کی واضح تصویر اس گفتگو میں ملتی ہے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ صاحبان ذوق کے لئے تاریخوں اور حدیثوں میں سے اس طرح کے دوسرے واقعات و شواہد ڈھونڈھنے میں آسانی ہو۔

چوتھے سوال کے جواب میں نص کے بارے میں مزید بعض صحابہ کا نظریہ پیش کیا جائےگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۵۶۔۵۸

۱۸۴

بعض اعلام جمہور کی تصریحات

بعض اعلام جمہور اہل بیتؑ کے مخالف تو ہیں لیکن کبھی کبھی ان کی زبان سے بھی حق بات نکل ہی گئی ہے،انھوں نے عمداً یا سہواً،اکثر اعتراف کیا ہے کہ اہل بیتؑ مظلوم ہیں انھیں ستایا گیا اور ان کا حق غصب کیا گیا۔

عمر بن خطاب کا اعتراف حق

۱۔ابن ابی الحدید،جوہری کی کتاب السقیفہ کے حوالہ سے اور موفقیات زبیر بن بکار کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا:میں عمر کے ساتھ مدینہ کی گلی میں ٹہل رہا تھا،انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ رکھا تھا،دفعتاً عمر کہنے لگےابن عباس میں تمہارے صاحب کو نہیں سمجھتا(علیؑ کو نہیں سمجھتا)مگر مظلوم،میں نے سونچا کہ بخدا یہ کہیں حق بات کہنے میں مجھ سے سبقت نہ کرجائیں،میں نے فوراً کہا،امیرالمومنین پھر ان کی ظلامت(حق)ان کو واپس کردیں تو یہ سنکر عمر نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے کھینچ لیا اور کچھ دور تک بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئے،پھر رک گئے تو میں ان سے ملحق ہوگیا،عمر بولے،ابن عباس میرا خیال ہے کہ قوم نے تمہارے صاحب(علیؑ)کو اس لئے منع کیا کہ انھوں نے علیؑ کو چھوٹا سمجھا،میں نے اپنے دل میں کہا یہ تو پہلی والی بات سے بھی غلط ہے،پھر میں نے کہا((امیرالمومنین!لیکن اللہ نے تو انھیں چھوٹٓ نہیں سمجھا بلکہ سورہ برات(توبہ)کی تبلیغ کی ذمہ داری ابوبکر سے لیکر علیؑ کے ذمہ کردی))۔(۱)

آپ نے عمر کے جملوں پر غور کیا!انھوں نے ابن عباس سے یہ نہیں کہا کہ تمہارے صاحب تو اس فیصلہ پر راضی اور خلافت کا اقرار کرتے ہیں پھر ظلامت کیسی جس کو واپس کیا جائے۔

ابن عباس سے ایک روایت اور بھی ہے کہ جب وہ(ابن عباس)عمر کے ساتھ شام کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۴۵،ج۱۲ص:۴۶،تھوڑے سے فرق کے ساتھ

۱۸۵

لئے نکلے تھے تو کہتے ہیں عمر نے مجھ سے کہا اے ابن عباس میں آپ سے آپ کے ابن عم کی شکایت کرتا ہوں میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ شام چلیں لیکن وہ شام جانے پر تیار نہیں ہوئے،دیکھتا ہوں کہ وہ ہمیشہ کچھ سونچتے رہتے ہیں،آپ بتاسکتے ہیں کہ وہ کس چیز کے لئے فکرمند ہیں؟میں نے کہا آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ان کے فکر کا سبب کیا ہے؟کہنے لگے میرا خیال ہے کہ وہ خلافت کے نہیں ملنے کی وجہ سے غمگین ہیں،میں نے کہا کہ یہی بات ہے،ان کا خیال ہے کہ پیغمبرؐ نے چاہا تھا کہ وہی خلیفہ ہوں،عمر نے کہا ابن عباس مانتا ہوں کہ پیغمبرؐ نے انھیں امیر بنانا چاہا تھا لیکن اس سے کیا ہوتا ہے؟حق تو یہ ہے کہ نبیؐ نے چاہا اور خدا نے نہیں چاہا۔(۱) ۲۔دوسری روایت میں ہے کہ عمر نے کہا پیغمبرؐ تو چاہتے ہی تھے کہ علیؑ خلیفہ ہوں لیکن میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فتنہ کے خوف کی وجہ سے روک دیا،مجھے ڈر ہوا کہ شیرازہ اسلام بکھر جائےگا،پیغمبرؐ بھی میرے دل کی بات جان گئے اور خاموش ہوگئے،نتیجہ میں وہی ہوا جس کا اللہ نے حتمی فیصلہ کیا تھا۔(۲)

۳۔ابن عباس کی گفتگو تیسیری بار عمر سے ہوئی،ابن عباس کہتے ہیں کہ عمر نے میری انگلویں کو اپنی انگلیوں میں پھنسار رکھا تھا اور مجھے لیکر چلے جارہے تھے یہاں تک کہ قبرستان جنۃ البقیع میں پہنچ گئے،وہاں جاکے بوالے ابن عباس تمہارے چچازاد بھائی(علیؑ)خدا کی قسم سب سے زیادہ مستحق خلافت ہیں لیکن ہم ان سے دو باتوں کے بارے میں خوف زدہ ہیں،ابن عباس کہتے ہیں عمر نے ایسی بات کہی کہ میں خود کو وضاحت چاہنے سے نہیں روک سکا میں نے پوچھ ہی لیا امیرالمومنین وہ کونسی دو باتیں ہیں(جن کی وجہ سے علیؑ خلافت کے اہل نہیں ہیں)کہنے لگے کمسنی اور بنی عبدالمطلب سے ان کی محبت،ہم انھیں دو باتوں سے ڈرتے ہیں۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۲ص:۷۸

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱۲ص:۷۹

(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۲ص:۵۷

۱۸۶

۴۔چوتھی گفتگو کا ذکر گذشتہ صفحہ میں کیا جاچکا ہے۔

۵۔مغیرہ بن شعبہ کہتا ہے کہ میں عمر بن خطاب کے پاس بیٹھا تھا اور ہم دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہا اے امیرالمومنین کیا آپ کو ان لوگوں کے بارے میں بھی کچھ خبر ہے جو ہیں تو اصحاب پیغمبرؐ لیکن ان کا خیال ہے کہ ابوبکر نے اپنے لئے اور آپ کے لئے جو کچھ حاصل کیا وہ ان کا حق تھا ہی نہیں یہ کام کسی کے مشورے اور رائے سے نہیں ہوا،وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چلو ایک معاہدہ کریں کہ اس طرح کی بات پھر نہ ہو!عمر نے اس سے پوچھا کہ وہ لوگ کہاں ہیں؟اس نے کہا طلحہ کے گھر میں،پس عمر نکلے میں(مغیرہ)بھی ان کے ساتھ نکلا،میں نے دیکھا کہ وہ سخت غصہ کے عالم میں مجھے دیکھ رہے تھے،جب ان لوگوں کے پاس پہنچے تو ان لوگوں کو بہت ناگوار ہوا اور وہ لوگ سمجھ گئے کہ ان کےآنے کی وجہ کیا ہے،عمر ان لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور بولے تم لوگ کیا باتیں کررہے تھے؟خدا کی قسم تم میں آپس میں محبت اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ یہ چار چیزیں ایک دوسرے کو چاہنے نہ لگیں،انسان اور شیطان کہ شیطان انسان کو بہکاتا ہے اور انسان شیطان پر لعنت کرتا ہے،آگ اور پانی،کہ پانی آگ کو بجھاتا ہے اور آگ پانی کو جلاتی ہے،اب تمہیں وقت نہیں دیا جائےگا تمہارا وقت پورا ہوچکا ہے،بےوقوف کا وقت وہی ہے جب وہ خرج کرے،مغیرہ کہتا ہے کہ یہ سن کر لوگ اِدھر اُدھر ہوگئے(بکھر گئے)ہر ایک نے ایک الگ ہی راستہ اپنایا پھر عمر نے مجھ(مغیرہ)سے کہا کہ جا کے علیؑ کا پتہ کرو اور انھیں گرفتار کرکے میرے پاس لاؤ،میں نے کہا امیرالمومنین میں ایسا نہیں کرسکتا،علیؑ کہیں باہر گئے ہوئے ہیں،عمر نے کہا جاکے ان کا پتہ کرو ورنہ میں تم کو فلاں کا بیٹا کہوں گا،میں یہ سن کر وہاں سے چلا اور علیؑ کے پاس پہنچا میں نے کہا آپ اپنے امام کے حکم سے اپنی جگہ رکے رہیں اور سمجھداری سے کام لیں،وہ صاحب سلطنت ہیں ورنہ آپ بھی پچھتائیں گے اور وہ بھی پچھتائیں گے،اتنے میں عمر آگئے اور علیؑ سے کہنے لگے،بخدا یہ امر خلافت نہیں نکلا ہے مگر صرف آپ کے ہاتھ سے،آپ نے فرمایا:عمر ڈرو!کہیں ایسا نہ ہو کہ جس کی وجہ سے ہم تمہاری اطاعت کررہے ہیں وہی تمہارے لئے فتنہ بن جائے،عمر نے کہا آپ چاہتے ہیں کہ آپ فتنہ پرور

۱۸۷

بنیں؟فرمایا نہیں،لیکن میں تمہیں وہ باتیں یاد دلا رہا ہوں جو تم بھولتے جارہے ہو،پس عمر میری طرف(مغیرہ کی طرف)متوجہ ہوئے اور کہنے لگے تم یہاں سے چلے جاؤ،تم نے مجھ سے غصہ میں جو کچھ سنا وہی کافی ہے تو میں قریب ہی میں جاکر چھپ گیا اور میں اس انتظار میں کھڑا تھا بس اب ان کے درمیان جھگڑا ہونا ہی چاہتا ہے تو میں نے دیکھا دونوں باتیں تو کررہے تھے لیکن آپس میں راضی ہی الگ رہے تھے نہ کہ غضبناک پھر میں نے دیکھا دونوں ہنستے ہوئے الگ ہوگئے عمر میرے پاس آگئے اور میں ان کے ساتھ چلنے لگا میں نے عمر پوچھا کہ خدا آپ کو بخشے:کیا آپ غصہ میں ہیں تو انہوں نے علیؑ کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگے:خدا کی قسم اگر اس آدمی کے اندر مسخرہ پن(معاذ اللہ)نہیں ہوتا تو مجھے اس کی ولایت میں ذرا بھی شک نہیں تھا اگر چہ اس کے لئے مجھے قریش کی ناک رگڑنی پڑتی۔(۱)

خلافت کے بارے میں عثمان بن عفان کا نظریہ

۶۔ابن عباس سے عثمان کی ایک لمبی گفتگو ہوئی،اس کو ابن ابی الحدید نے زبیر بن بکار کے حوالہ سے ان کی اسناد کے ساتھ لکھا ہے ایک حصہ ملاحظہ ہو،عثمان نے ابن عباس سے کہا میں آپ کی رشتہ داری اور اسلام دونوں کا واسطہ دیتا ہوں،خدا کی قسم میں مغلوب ہوگیا اور آپ لوگوں کے معاملے میں آزمائش میں پڑگیا،بخدا میں تو یہی چاہتا تھا کہ مجھے چھوڑ کے امر خلافت کے ذمہ دار آپ ہی لوگ ہوتے،آپ لوگ مجھ سے یہ بار لے لیتے اور میں آپ کے مددگاروں میں ہوتا،اس وقت آپ لوگوں کے ساتھ میں اس سے بہتر سلوک کرتا جو آپ لوگ ابھی مجھ سے کررہے ہیں،میں یہ تو جانتا ہوں کہ حکومت(خلافت)آپ لوگوں کا حق ہے لیکن آپ کی قوم نے آپ کو اس حق سے محروم رکھا اور آپ کو الگ رکھ کے دوسروں کو خلیفہ بنایا،مجھے نہیں معلوم کے خلافت کو آپ نے خود چھوڑ دیا یا آپ کی قوم نے آپ کو خلافت سے باز رکھا۔

------------------

(۱)العقد الفرید ج:۴ص:۲۶۱-۲۶۲

۱۸۸

ابن عباس نے کہا:امیرالمومنین رک جایئے،ہماری قوم نے ہم سے خلافت کو جو الگ کیا اس کے پیچھے حسد کا جذبہ کار فرما تھا جو آپ اچھی طرح جانتے ہیں،ہماری قوم نے جو ہمارے ساتھ بغاوت کی وہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور ہماری قوم کے درمیان اللہ حاکم ہے۔(۱)

معاویہ کا خط محمد بن ابی بکر کے نام

۷۔نصر بن مزاحم کی روایت کے مطابق محمد بن ابی بکر نے معاویہ کو ایک خط لکھا جس میں انھوں نے معاویہ کو مولائے کائناتؑ سے لڑنے سے منع کیا اور مولائے کائناتؑ کی مخالفت سے روکا تھا،معاویہ نے اس خط کا جواب دیا،اس خط میں معاویہ نے اقرار کیا کہ عمر اور ابوبکر نے مولائے کائناتؑ پر زیادتی کی تھی،خط کی عبارت کا ترجمہ حاضر ہے،معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے اپنے باپ پر عیب لگانےوالے محمد بن ابی بکر کی خدمت میں عرض ہے کہ تمہارا خط ملا جس میں تم نے اللہ کو اہل سلطنت و اقتدار بتایا ہے اور یہ کہ اس نے اپنے نبیؐ کو منتخب کیا اور سلطنت و اقتدار کا اہل قرار دیا اس کے ساتھ ہی تم نے کچھ باتیں اپنی طرف سے بھی لکھی ہیں جنھیں تم نے وضع کیا ہے ان باتوں سے تمہاری رائے کی کمزوری ظاہر ہورہی ہے اور تمہارے باپ پر بھی کچھ الزامات آرہے ہیں تم نے اپنے خط میں ابوطالب کے بیٹے کو حقدار خلافت بتایا ہے اور ان کیا اور حجت کو کامیاب کیا،تو نبیؐ کو اٹھالیا،تہمارے باپ اور ان کے فاروق،سب سے پہلے انھیں دو آدمیوں نے علیؑ کا حق چھینا اور ان کی مخالفت کی اس بات پر دونوں کے دل ملے ہوئے تھے اور دونوں بالکل متفق تھے پھر انھوں نے علیؑ سے اپنے لئے بیعت مانگی تو علیؑ نے ان کی بیعت کرنے میں تاخیر کی اور ان کی کمزوریاں انھیں بتادیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۹

۱۸۹

تو انھوں نے علیؑ کے بارے میں برے ادارے کئے اور بڑے بڑے پروگرام بنائے،پس علیؑ نے(مجبور ہوکے)ان کی بیعت کی اور(خلافت)ان کے پاس چھوڑ دی،وہ دونون اپنے امور میں علیؑ کو شریک نہیں کرتے تھے اور اپنے راز سے علیؑ کو مطلع نہیں کرتے تھے پھر ان کا تیسرا عثمان بن عفان کھڑا ہوا انھیں دونون کی دکھائی ہوئی راہ پر عثمان بھی چلتے تھے اور انھیں کی سیرت پر عمل کرتے تھے ان کی(عثمان کی)حکومت کی تمہید تمہارے باپ ہی نے کی تھی اور ان کی بادشاہت کی بنیاد تمہارے باپ ہی نے رکھی تھی تو اگر ہم لوگ صحیح راستے پر ہیں تو یہ راستہ تمہارے باپ کا ہے انھیں شرف اوّلیت حاصل ہے اور اگر ہم لوگ غلط راستے پر ہیں تو یہ راستہ تمہارے باپ ہی نے بنایا تھا ہم لوگ تو شریک کار ہیں ہم نے انھیں سے رہنمائی لی ہے اور انھیں کے کام کی اقتدار کی ہے،اگر تمہارے باپ نے علیؑ کی مخالفت ہم سے پہلے نہ کی ہوتی تو ہم ہرگز علیؑ کے مخالف نہ ہوتے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے لیکن ہم نے تمہارے باپ کو دیکھا تو انھیں کے نقش قدم پر چل پڑے اور انھیں کے فعل کی اقتدار کرنے لگے،بھائی!پہلے تم اپنے باپ کی عیب چینی کرو اور جو سمجھ میں آئے کہو یا پھر سکوت اختیار کرو۔(۱) طبری لکھتے ہیں:ہشام بن ابی مخنف نے کہا کہ یزید بن ظبیان ھمدانی نے کہا کہ محمد بن ابی ببکر نے معاویہ کو حکومت حاصل ہونے کے بعد ایک خط لکھا تھا،پھر اس خط و کتابت کا تذکرہ کیا جو معاویہ اور محمد بن ابی بکر کے درمیان ہوتی رہی،میں ان خطوں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا،اس لئے کہ اس میں کچھ ایسی باتیں لکھی گئی ہیں جسکو عامہ(سنی)برداشت نہیں کرپائیں گے۔(۲) محاد بن ابی بکر کی ولایت کے بارے میں ابن اثیر نے بھی کچھ اس طرح کی بات لکھی ہے۔(۳) طبری اور ابن اثیر یہ دونوں حضرات اس خط و کتابت کی تکذیب بھی نہیں کرتے اور تذکرہ بھی نہیں کرتے،تذکرہ اس لئے نہیں کرتے کہ عامہ(سنی)اس کو برداشت نہیں کرپائیں گے،ان دونوں مورخون کے سامنے عامہ(سنیوں)کو راضی رکھنا زیادہ اہم ہے اور واقعات و حقائق کو پیش کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)وقعۃ صفین ص:۱۲۱،۱۱۸،دوسرے مصادر و منابع بھی پائے گئے ہیں،شرح نہج البلاغہ ج:۳ص:۱۸۸۔انساب الاشراف ج:۳ص:۱۶۵۔۱۶۷۔اور مروج الذھب ج:۳ص:۲۰۔۲۲

(۲)تاریخ طبری ج:۳ص:۶۸، (۳)الکامل فی التاریخ ج:۳ص:۱۵۷،ولایت قیس بن سعد،

۱۹۰

دوسری جگہوں پر معاویہ کا اعتراف حق

۸۔نصر نے ایک خط کا تذکرہ کیا ہے جو معاویہ نے امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا اس میں وہ لکھتا ہے،اما بعد بے شک خداوند عالم نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے علم سے مصطفیٰ کیا اور اپنے وحی کا امین بنایا اور اپنی مخلوقات پر پیغمبرؐ بنایا اور اللہ نے مسلمانوں میں سے نبیؐ کے مددگار چنے اور ان مددگاروں کے ذریعہ آپ کی مدد کی نبیؐ کے سامنے اور ان مسلمانوں کی منزلت اسلام کے اعتبار سے ہوئی پھر ان لوگوں میں افضل فی الاسلام خدا و رسولؐ کا سب سے زیادہ خیز خواہ وہ ہوا جو نبیؐ کے بعد خلیفہ ہوا اور پھر اس خلیفہ اور تیسرے نمبر پردہ مظلوم خلیفہ(عثمان)لیکن علیؑ آپ نے سب سے حسد کیا اور سب کے خلاف بغاوت کی ہم نے محسوس کیا کہ آپ اب بھی اس معاملے میں آمادہ جنگ ہیں اور آپ کی گفتگو میں لگاؤ ہے،آپ کی ٹھنڈی سانس اور خلفا کے لئے آپ کی سستی کو ہم اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ہر خلیفہ کے پاس آپ کو اس طرح کھینچ کے لیجایا جاتا ہے جیسے سرکش اونٹ کو کھینچا جاتا ہے،یہاں تک کہ آپ کراہت کے ساتھ بیعت کرتے تھے۔(۱)

گذشتہ صفحات میں امیرالمومنین علیہ السلام کی تصریحات،جو آپ نے خلافت کے معاملے میں معاویہ کے خط کے جواب میں فرمائی تھیں پیش کی جاچکی ہیں،معاویہ نے لکھا تھا کہ آپ نے بہت تنگ آکے اور مجبور ہو کے ابوبکر کی بیعت کی تھی،اس بیعت کو توڑ دینا چاہتے تھے اور ان کی بیعت کو برا سمجھتے تھے۔

۹۔روایت ہے کہ امام حسن علیہ السلام معاویہ کے پاس بیٹھے تھے اور دونوں میں کچھ نفرت انگیز گفتگو ہورہی تھی،پھر معاویہ نے آپ کی خدمت میں تین لاکھ(درہم یا دینار)پیش کئے جب آپ اٹھ کے چلے گئے تو یزید نے معاویہ سے کہا خدا کی قسم میں نے ایسا بےباک انداز گفتگو وہ بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)وقعۃ صفین ص:۸۶۔۸۷،(شرح نہج البلاغہ ج:۵ص:۱۵ص:۷۴ انساب الاشراف ج:۳ص:۶۶۔۶۷،امر صفین المناقب للخوارزمی ص:۲۵۱ العقد الفرید ج:۴ص:۳۰۷۔۳۰۸،صبح الاعشی ج:۱ص:۲۷۳

۱۹۱

آپ(یعنی خلیفۃ المسلمین)سے نہیں دیکھا جیسا کہ حسن ابن علیؑ نے آپ سے روا رکھا اس کے باوجود آپ نے انھیں تین لاکھ دے دیئے!معاویہ نے کہا بیٹا حق تو انھیں کا ہے نہ تمہارا!ان میں سے جو بھی آئے اس پر تھوڑا مٹی ڈال دیا کرو(کچھ دیدیا کرو)(۱)

عمرو بن عاص کی بات بھی سنئے

۱۰۔ایک مجلس میں عمروعاص،معاویہ اور امام حسنؑ بیٹھے تھے،علیؑ کی بات نکلی تو عمروعاص نے کہا:وہ(علیؑ)ابوبکر کو گالی دیتے تھے،ان کی خلافت کو غلط سمجھتے تھے اور ان کی بیعت سے انکار کررہے تھے پھر بیعت کی بھی تو جبر و اکراہ کے بعد۔(۲)

عبداللہ بن زبیر کا نظریہ

کے سابقہ کارناموں کو یاد دلانے کے ساتھ پیغمبرؐ سے ان کی قرابتداری کا بھی تذکرہ کیا ہے،میں اور تمہارے باپ دور پیغمبرؐ میں ساتھ ہی رہتے تھے اور ابوطالب کے بیٹے کا حق خود پر لازم سمجھتے تھے اور ان کو خود سے افضل مانتے تھے،جب اللہ نے نبیؐ برحق کو اپنی نبوت کے لئے منتخب کیا،اپنا وعدہ پورا کیا اور نبیؐ کی دعوت کو ظاہر عبداللہ بن زبیر کی گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیں،ابن عباس ہیں،عبداللہ بن زبیر ابن عباس پر طعنہ زنی کرتے ہوئے کہاتا ہے وہ موجود تھے اور زبیر کے بیٹے کی بات پر اعتراض بھی کیا تھا عبداللہ بن زبیر بولے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ابوبکر کی بیعت غلط تھی،اچانک تھی اور زبردستی ہوگئی،سنو!ابوبکر کی شان اس طرح کے کلمات سے بہت بلند ہے،لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر سقیفہ کا واقعہ نہ ہوتا تو حکومت ان کے ہاتھ میں آجاتی،پس ابن عباس بولے اے ابوبکر،عمر اور خلافت کے بارے میں بڑھ بڑھ کے بولنےوالے ذرا ہوش میں رہنا!بخدا وہ دونوں کامیاب نہیں ہوئے نہ ان میں سے ایک بھی کامیاب ہوا!ہمارے صاحب(علیؑ)ان دونوں سے بہتر ہیں چاہے وہ کتنا ہی کامیاب ہوجائیں،ہم نے آگے بڑھنےوالے کے تقدم کو اس لئے برا نہیں کہا کہ ہماری آنکھیں عیب دار ہیں،اگر ہمارے صاحب(علیؑ)کو خلافت میں مقدم رکھا جاتا تو وہ ہر طرح سے اہل ثابت ہوتے اور ہر سزاوار خلافت سے زیادہ سزاوار خلافت ہوتے۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۱۲، (۲)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۲۸۷-----(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۲۰ص:۱۳۲،

۱۹۲

علمائے جمہور کی حدیثیں اس سلسلے میں کثرت سے ہیں جس کو ذوق نظر رکھنےوالا مختلف کتابوں میں دیکھ سکتا ہے،یہ تمام حدیثیں پکار کر کہہ رہی ہیں کہ امیرالمومنینؑ اور باقی اہل بیت علیہم السلام،غیروں کی خلافت پر راضی نہیں تھے نہ کسی خلیفہ کے مویّد تھے،وہ واقعات جو دور خلافت میں واقع ہوئے وہ سب کے سب علیؑ اور اہل بیتؑ رسولؐ کی مرضی کے خلاف تھے اور یہ حضرات دونوں خلفا سے سخت متنفر اور بالکل الگ تھے۔

علامہ علی بن فارقی کی باتیں

اس موقعہ پر ابن ابی الحدید کا قول ملاحطہ فرمائیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے مدرسہ بغداد کے مدرس علی بن فارقی سے پوچھا کہ کیا(معاملہ فدک میں)فاطمہؑ سچ کہہ رہی تھیں،انھوں نے کہا بالکل سچ کہہ رہیں تھیں،میں نے پوچھا پھر ابوبکر نے انھیں فدک دے کیوں نہیں دیا جب وہ ابوبکر کی نظر میں اپنے دعوے میں سچی تھیں!ابن فارقی یہ سن کر مسکرانے لگے پھر ایک لطیف اور پسندیدہ بات روا روی اور مزاحیہ انداز میں کہہ دی حالانکہ وہ بڑے معزز،محترم اور بہت کم ہنستے تھے،کہنے لگے اگر ابوبکر صرف دعوائے فدک پر فاطمہؑ کو فدک دیدیتے تو وہ دوسرے دن اپنے شوہر کے لئے دعوائے خلافت لیکر پہنچ جاتیں اور ان کو ان کی جگہ سے ہٹادیتیں اور ابوبکر کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا نہ کوئی بنیاد تھی جس پر وہ کھڑے ہوتے،اس لئے کہ وہ اپنے آپ اس طرح انھیں صادقہ مان کر اپنے کو محکوم کر بیٹھے پھر فاطمہؑ جو بھی دعویٰ کرتیں انھیں اس کی تصدیق کرنا پڑتی اور بغیر کسی گواہ و شہود کے ان کی بات ماننی پڑتی(استاد ابن فارقی کی)یہ باتیں کاملاً صحیح ہیں اگر چہ انھوں نے یہ باتیں ہنسی مزاق میں ہی کہی ہیں(۱)

مندرجہ بالا واقعہ اس بات کا شاہد ہے کہ اھلبیتؑ اپنے حقِ خلافت سے دست بردار نہیں ہوئے تھے(یہ الگ بات ہے کہ وہ غاصبوں سے اپنا حق واپس لینے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے)اور اگر ان کو استطاعت حاصل ہوتی تو ضرور اپنا حق واپس لےلیتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۶ص:۲۸۴

۱۹۳

وہ واقعات جن سے اہل بیتؑ کا خلافت پر عدم اقرار ثابت ہوتا ہے

امر ثانی:مورخین و اہل حدیث نے جو واقعات نقل کئے ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت اطہارؑ نے کسی بھی دور خلفائے غاصبین کی خلافت کا اقرار نہیں کیا نہ اہل بیتؑ کے خاص لوگوں نے کبھی اقرار کیا،لوگ ان سے دشمنی بھی اس وجہ سے کرتے تھے کہ وہ حضرات خلافت کے منکر تھے،ان حضرات نے پہلے تو اپنا حق ظاہر کرنے کی کوشش کی پھر جب دیکھا کہ حق گو اور حق پرست بہت کم لوگ ہیں جو ان کی نصرت کے لئے ناکافی ہیں تو خاموش بیٹھ گئے اور بظاہر تسلیم ہوگئے لیکن یہ خاموش اور استسلام بھی اس لئے تھا کہ دشمن صرف انکار خلافت کی بنا پر ان کے در پئے آزار تھے،مسلسل دھمکیاں دی جارہی تھیں جس کی وجہ سے وہ دشمن کے مقابلہ میں سخت موقف نہیں اختیار کرسکے اور حالات سے سمجھوتہ کرکے ان کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگئے۔

سقیفہ کی باتیں

۱۔تاریخ میں یہ باتیں اچھی خاصی مشہور ہیں اور بہت وضاحت کے ساتھ ملتی ہیں کہ لوگوں نے امیرالمومنین علیہ السلام،آپ کے اہل بیتؑ اور اصحاب کو گھر میں بیٹھے رہنے پر مجبور کردیا تھا،اہل بیتؑ اور ان کے اصحاب خاص کو(جب بیعت کے لئے بلایا گیا تو)بیعت سے صاف انکار کردیا،دوسرے فریق نے ان پر سختی کی اور زبردستی کی اور زبردستی گھر سے نکالنے کی کوشش کی تا کہ وہ لوگ بیعت کرلیں یہ ساری باتیں تاریخ میں بہت تفصیل سے ملتی ہیں یہاں ان کے بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔(۱)

ابن ابی الحدید،مسعودی کے حوالے سے لکھتے ہیں((عروہ بن زبیر اپنے بھائی کو الزام سے بری کرنے کی کوشش کرتا تھا،اس کے بھائی نے بنی ہاشم کے محلّہ کا محاصرہ کیا تھا اور ان کے جلانے کے لئے لکڑیاں اکھٹا کی تھیں،عروہ کہتا تھا کہ میرے بھائی نے یہ سب کچھ اسلامی اتحاد کے لئے کیا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۶،واقعہ سقیفہ بنی سعدہ اور ابوبکر کی بیعت،الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۱۵سعد بن عبادہ کا انکار بیعت کرنا،ص:۱۶،شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۴۵،

۱۹۴

اور اس لئے کہ مسلمانوں میں اختلاف نہ ہو،لوگ ایک جھنڈے(پرچم)کے نیچے آجائیں اور بات صرف ایک رہے،یہ کام اس نے عمر کی پیروی میں کیا تھا(انھوں نے اور((عمر نے))بھی یہ نیک کام کیا تھا؟!)جب بنی ہاشم نے ابوبکر کی بیعت کرنے میں دیر کی تو انھوں نے آگ اور لکڑی منگائی تا کہ ان کے گھروں کو جلادیں تو وہ نکلنے پر مجبور ہوجائیں گے۔(۱)

ابھی گذشتہ صفحات میں معاویہ کا خط بھی گذرچکا ہے جس میں اس نے یہ لکھا تھا کہ امیرالمومنین علیؑ کو بیعت کے لئے سرکش اونٹ کی طرح کھینچا جاتا تھا۔(۲)

امیرالمومنینؑ پر جب بیعت کے لئے سختی کی جارہی تھی تو آپؑ نے قبر پیغمبرؐ کی طرف رخ کرکے فریاد کی(اے میری ماں کے بیٹے اس قوم نے مجھے کمزور کردیا ہے اور قریب ہے کہ مجھے قتل کرڈالیں)(۳)

اُدھر ابوبکر بھی مرنے کے وقت کہہ رہے تھے کاش میں نے پیغمبرؐ کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کی تفتیش نہ کی ہوتی،کاش میں نے بنت پیغمبرؐ کے گھر میں مردوں کو داخل نہ کیا ہوتا،چاہے وہ گھر مجھ سے جنگ ہی کے لئے بند کیا گیا ہوتا۔(۴)

سقیفہ کے بعد کیا ہوا

۲۔ایک جماعت امیرالمومنینؑ کے پاس آئی اور وہ لوگ کہنے لگے اے امیرالمومنینؑ آپ اپنے حق کے غاصبوں سے جنگ کریں،امیرالمومنینؑ نے فرمایا کہ:کل آپ لوگ تشریف لائیں لیکن اپنا سرمنڈا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاگہ ج:۲۰ص:۱۴۷،اور مروج الذھب ج:۲ص:۷۹،طبع بولاق مصر۱۲۸۳سنہ

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۳ص:۳۰،مناقب خوارزمی ص:۳۰۱،شرح نہج البلاغہ،ج:۱۵ص:۷۴،العقد الفریدج:۴ص:۳۰۸،انساب الاشراف ج:۳ص:۶۶۔۶۷،وقعۃ الصفین،ص:۸۷،لابن دمشقی،ج:۱ص:۳۵۷،صبح الاعشی،ج:۱ص:۲۲۸،

(۳)الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۱۳۷،شرح نہج البلاغہ ج:۱۱ص:۱۱۱،

(۴)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۳۷،مجمع الزوائدج:۵ص:۲۰۳،کتاب الصداقت،باب کراہۃ الولایت،الاحادیث المختارہ ج:۱ص:۸۹،المعجم الکبیرج:۱ص:۶۲،میزان الاعتدال ج:۵ص:۱۳۵،تاریخ دمشق ج:۳۰ص:۴۱۸،لسان المیزان ج:۴ص:۱۸۹،الضعفاءللعقیلی،ج:۳ص:۴۲۰،تاریخ طبری ج:۲ص:۳۵۳،

۱۹۵

لیجئےگا جس سے جنگ پر آپ کی رضا معلوم ہوگی،دوسرے دن آپ کے پاس تین(۱) یا چار آدمی سے زیادہ نہیں پہنچے۔(۲)

۳۔ابن ابی الحدید نے جوہری کی کتاب(السقیفہ)سے لکھا ہے کہ امیرالمومنینؑ نے صدیقہ عالم صلوات اللہ علیہا کو ایک خچر پر بٹھایا اور انصار کے ہر دروازے پر صدیقہ صلوات اللہ علیہا کو لیکر گئے،دونوں(معصوموں)نے انصار سے نصرت کا سوال کیا تا کہ غاصبوں سے اپنا حق واپس لے سکیں،لیکن انصار نے یہ بہانہ کیا کہ ابوبکر کی بیعت پہلے ہوچکی ہے اب کچھ نہیں ہوسکتا لیکن دونوں(معصوموں)نے انصار کا یہ عذر قبول نہیں کیا۔(۳)

واقعات سقیفہ پر صدیقہ طاہرہ صلوات اللہ علیہا کا رد عمل

۴۔یہ تو سب کو معلوم ہے کہ صدیقہ طاہرہ جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا شیخین سے غضبناک تھیں،غصہ کی وجہ شیخین کے کالے کر توت تھے،انھوں نے آپ کے شوہر کا حق اور ان کا حق فدک غصب کرلیا تھا۔

شیخین چاہتے تھے کہ معصومہؑ کی خدمت میں باریابی ہو اور ان کو راضی کرلیں لیکن معصومہؐ ان کو اپنے پاس آنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں آخر انھوں نے مولائے کائناتؑ سے کہا کہ آپ سفارش کردیں تا ایک بار ہم صدیقہؐ کی خدمت میں پہنچ تو جائیں۔

مولائے کائناتؑ نے کسی طرح صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا کو راضی کیا اور ان دونوں کے لئے اجازت لےلی،جب دونوں صدیقہؐ کی خدمت میں پہنچے تو صدیقہ سلام اللہ علیھا نے اپنا رخ دیوار کی طرف کرلیا،یہ دیکھ کر دونوں گریہ و زاری کرنے لگے،صدیقہؐ نے فرمایا سنو!(یہ سب ڈرامہ بازی چھوڑو)میں تمہیں پیغمبرؐ کی ایک حدیث سناتی ہوں کیا تم اس کا اعتراف اور عملی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۲۶، (۲)شرح نہج البلاغہ ج:۱۱ص:۱۴،

(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۶ص:۱۳،الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۱۶،بیعت ابوبکر سے امیرالمومنین کا انکار

۱۹۶

تصدیق کروگے،دونوں نے کہا ہاں آپؐ نے فرمایا میں تمہیں خدا کا واسطہ دیکے پوچھتی ہوں کہ پیغمبرؐ نے کیا یہ نہیں فرمایا تھا؟کہ(فاطمہؐ کی رضا میری رضا اور فاطمہؐ کا غصہ میرا غصہ ہے۔

جو میری بیٹی فاطمہؐ سے محبت کرے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو فاطمہ کو راضی رکھے وہ مجھے راضی رکھتا ہے ار جو فاطمہ کو غضبناک کرے وہ مجھے غضبناک کرتا ہے)تم نے یہ حدیث سنی ہے یا نہیں؟دونوں نے کہا ہاں ہم نے پیغمبرؐ سے یہ حدیث سنی ہے،آپؐ نے فرمایا میں خدا اوراس کے فرشتوں کو گواہ بنا کے کہتی ہوں کے تم دونوں نے مجھے ناراض کیا ہے اور مجھے راضی نہیں رکھا ہے اور جب میں نبیؐ سے ملوں گی تو تم دونوں کی ضرور شکایت کروں گی۔

ابوبکر بولے:میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں اس کی ناراض گی اور آپ کی ناراضگی سے اے فاطمہ پھر ابوبکر پر گریہ طاری ہوا،اتنا روئے کہ لگتا تھا اب مرجائیں گے،لیکن معصومہ سلام علیہا مسلسل یہ کہتی رہیں کہ خدا کی قسم میں ہر نماز میں تمہارے لئے بددعا کروں گی۔(۱)

۵۔صدیقہ طاہرہؑ نے امیرالمومنین علیؑ کو وصیت کی تھی کہ وہ دونوں((جن سے آپؐ ناراض تھیں،آپ کے جنازہ میں شریک نہ ہوں اور ان کو جنازہ سے الگ رکھنے کے لئے آپ کا جنازہ شب میں اٹھایا جائے،نتیجہ میں آپ کے جنازہ میں چند افراد سے زیادہ شریک نہیں تھے جنازہ شب میں اٹھا اور نشان قبر چھپا دیا گیا جو آج تک ظاہر نہیں ہے(۲) یہ ساری باتیں باتیں صرف اس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۱۷،کیفیت بیعت امیرالمومنینؑ کے باب میں،اعلام النساء ج:۴ص:۱۲۴،فاطمہ بنت محمدؐ،

(۲)حضرت فاطمہ زہراؐ کے حق کا غصب کرنے کا واقتہ نیز رات میں دفن ہونے اور صحابہ کے آپ کے دفن میں شریک نہ ہوکنے کا واقعہ،صحیح بخاری،ج:۴ص:۱۵۴۹،کتاب مغازی باب غزوہ خیبر،صحیح بخاری،ج:۶ص:۲۴۷۴،کتاب الفرائض باب قول النبیؐ:لا نورث ما تکناہ صدقۃ،صحیح مسلم،ج:۳ص:۱۳۸۰،کتاب الجہاد السیر باب قول النبیؐ لانورث ماترکناہ صدقۃ،صحیح ابن حبان،ج:۱۱ص:۱۵۳،باب الغنائم،ذکر خمس،مسند ابی عوانہ،ج:۴ص:۲۵۱،مبدا کتاب جہاد،المصنف لعبد الرزاق،ج:۵ص:۴۷۲،فی خصومۃ علی و العباس،الطبقات الکبریٰ،ج:۲ص:۳۱۵،فی ذکر میراث رسول اللہؐ،الامامۃ و السیاسۃ،ج:۱ص:۱۷،کیفیت بیعت امیرالمومنینؑ،طرح التثریب،ج:۱ص:۱۵۰،حضرت فاطمہؐ کی سوانح حیات میں،الاصابۃ،ج:۸ص:۵۹حضرت فاطمہؐ کی سوانح حیات میں،اور دیگر مصادر و منابع تاریخی میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

۱۹۷

لئے تھیں کے معصومہ عالم صلوات اللہ علیھا شیخین کی حرکتوں سے عاجز تھیں اور ان کی باتوں کی عملی تردید پیش کررہیں تھیں تا کہ ثابت ہوجائے آپ ان سے اور ان کی کشتی والوں سے سخت بیزار ہیں یا یہ کہ آپ نے ان سے آنکھیں موڑلی تھیں اورتبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

ابوبکر کی بیعت سے امیرالمومنینؑ کا باز رہنا

۶۔امیرالمومنینؑ نے بہت دنوں تک یا کچھ دنوں تک(۱) ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور(بفرض محال)اگر بیعت کر بھی لی تو ان کی حکومت میں داخل نہیں ہوئے اور ان کے ساتھ رہن سہن کو برقرار نہیں رکھا مگر اس لئے کہ آپ کے آپ اسلالم کے نقصان پہنچنے سے خائف تھے،جیسا کہ آپ نے اہل مصر کو ایک خط میں لکھا،میں نے اپنے ہاتھ کو روکے رکھا یہاں تک کہ دیکھا لوگ اسلام سے واپس پلٹ رہے ہیں اور دین محمد کو مٹانے کی دعوت دے رہے ہیں تو میں ڈرا کہ اگر میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہیں کروں گا تو اسلام میں رخنہ پڑھ جائےگا یا اسلام کی عمارت کو منہودم ہوتے ہوئے دیکھوں تو یہ تمہاری حکومت میرے ہاتھ سے نکلنے کی وجہ سے جو مصیبت آئی ہے اس مصیبت سے بڑی مصیبت ہوگی،حالانکہ دنیا کی حکومت تو محض چندوں کی ہے اور یہاں جو ہوتا ہے فوراً مٹ جاتا ہے یا گویا کہ دنیا بے موسم کا برستا ہوا بادل ہے پس میں اسلام کی مدافعت کے لئے اٹھ کھڑا ہوا،یہاں تک کہ باطل برباد ہوگیا اور مٹ گیا اور دین مطمئن ہوکے گنگنانے لگا(ٹھہرگیا)۔(۲)

شوریٰ کے واقعات اور امیرالمومنینؑ اور آپؑ کے اصحاب کا نظریہ

۷۔امیرالمومنینؑ نے شوریٰ کے واقعات کی اکثر شکایت کی ہے جس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں پیش کی جاچکی ہے،سب جانتے ہیں کہ شوری کی بنیاد ہی زبردستی اور تغلّب پر رکھی گئی تھی،شوریٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)صحیح بخاری ج:۴ص:۱۵۴۹،کتاب مغازی،باب غزوہ خیبر،صحیح مسلم ج:۳ص:۱۳۸۰،کتاب جہاد و السیر،قول نبیؐ کے باب میں،ہم میراث نہیں چھوڑتے بلکہ جو چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے،صحیح ابن حبان ج:۱۱ص:۱۵۳،باب غنائم،مسند ابی عوانہ ج:۴ص:۲۵۱،المصنف لعبد الرزاق ج:۵ص:۴۷۲۔۴۷۳،الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۱۷،

(۲) نہج البلاغہ ج ۳ ص:۱۱۹

۱۹۸

کے پہلے ہی یہ بات طے ہوچکی تھی کہ جو شوریٰ کے فیصلے سے انکار کرے اس کی گردن ماردی جائے اور عمر نے یہی وصیّت ابوطلحہ انصاری سے کی تھی۔

طبری کہتے ہیں کہ جب عبدالرحمٰن نے عثمان کی بیعت کرلی تو امیرالمومنینؑ نے ان سے کہا تم ایک زمانے سے ان کی حمایت کررہے ہو،یہ کوئی پہلا دن نہیں ہے کہ تم نے ہم پر زبردستی کی ہے،میں صبر جمیل کروں گا اور اللہ سے مدد طلب کروں گا،خدا کی قسم تم نے عثمان کو ولی اس لئے بنایا ہے کہ حکومت تمہارے پاس واپس آجائے اللہ تو ہر روز ایک الگ ہی شان میں ہے))عبدالرحمٰن نے کہا علیؑ اپنے نفس کے خلاف سبیل نہ پیدا کرو(صریحی دھمکی دی ہے قتل کی)(۱)

کچھ دنوں کے بعد عبدالرحمٰن سے عثمان کی بات بگڑگئی اور عبدالرحمٰن نے جو امیدیں لگائی تھیں وہ عثمان پوری نہیں کرسکے تو مولائے کائناتؑ نے عبدالرحمٰن سے کہا:عوف کے بیٹے!عثمان نے تمہارے احسان کا کیا بدلہ دیا؟بہت سے بھروسہ کرنےوالے شرمندہ ہوئے ہیں اور انسان جب اپنے اعمال غیراللہ کے لئے انجام دیتا تو مدح کرنےوالے لوگ اس کی مذمت کرنے لگتے ہیں۔(۲)

ابن ابی الحدید نے شعبی کے حوالے سے لکھا کہ اہل شوریٰ نے یہ طے کیا جو بیعت نہیں کرتا ہے اس کی یک زبان ہو کر مخالف کی جائے،تو وہ علیؑ کے پاس آئے اور بولے اٹھئے اور بیعت کر لیجئے،آپ نے فرمایا:اگر میں نہ کروں تو؟کہنے لگے ہم آپ سے جہاد کریں گے،پس آپ عثمان کے پاس گئے اور بیعت کرلی اس وقت آپ یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے سچ کہا تھا۔(۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)تاریخ طبری ج:۲ص:۵۸۳،فی قصۃ الشوریٰ،شرح نہج البلاغہ ج:۱۲ص:۲۶۴،تاریخ مدینۃ لابن شبۃ ج:۳ص:۹۳۰،العقد الفریدج:۴ص:۲۵۹،العسجدۃ الثانیۃ فی خلافۃ عثمان

(۲)شرح نہج البلاغہ ج:۲ص:۳۱۶،

(۳)شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۵۵،

۱۹۹

جوہری اور شعبی دونوں ہی نے عبدالرحمٰن بن عوف کی کوششں کی حکایت کی ہے،لکھتے ہیں:عبدالرحمان بن عوف نے کہا:عثمان نے ہاتھ کھولا تو انھوں نے بیعت کی اور ارباب شوریٰ بیعت کر کے جانے لگے سوائے علی ؑ کے،علی ؑ نے بیعت نہیں کی،پس عثمان لوگوں کے سامنے آئے اور خوشی سے ان کا چہرہ چمک رہا تھا،علی ؑ بھی نکلے تو آپ کے چہرہ سے سستی ظاہر ہو رہی تھی اور(ان دونوں مورخوں کے الفاظ میں)چہرہ تاریک تھا،آپ فرما رہے تھے اے ابن عوف!یہ پہلا دن ہماری مظلومیت اور تمہارے ظلم کا نہیں ہے ہمارا حق ہم سے چھین لیا اور ہم پر دوسروں کو ترجیح دی گئی یہ تو تم لوگوں کا ہمارے خلاف ہمیشہ کا دستور ہے اور یہ طریقہ تم نے ترکہ میں چھوڑا ہے ۔(۱)

شوریٰ کے متعلق مولائے کائنات ؑ کے اصحاب خاص کے نظریات و موافقت کی تصریح کتابوں میں بھری پڑی ہے،ذوق جستجو رکھنےوالے کے لئے ان معلومات کا اکھٹا کرنا بہت آسان ہے ویسے ہم چوتھے سوال کے جواب میں بھی شوریٰ کے حوالے سے کچھ عرض کریں گے انشااللہ تعالیٰ ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ابوبکر و عمر کے سلسلے میں شیعہ بس اتنا ہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے امام امیرالمومنین علیہ السلالم اہل بیت ؑ اور اصحاب پیغمبر ؐ جو مولیٰ علی ؑ کے ہم نوا تھے نے فرمایا ہے اس سے زیادہ کچھ اور آپ شیعوں کا موقف مولیٰ علی ؑ ،اہل بیت ؑ اور اصحاب خاص پیغمبر ؐ سے زیادہ سخت موقف نہیں پائیں گے ۔

اب اگر کوئی حقائق کا انکار کرنا بھی چاہے اور یہ انکار بھی شک کی بنیاد پر یا خبر آحاد کی وجہ سے ہوگا یا اس وجہ سے کہ اسناد کی وضاحت نہیں ہوئی ہے یا اس وجہ سے کہ استدلال کرنے میں زور و زبردستی سے کام لیا گیا ہے تو وہ انکار قابل نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص گذشتہ صفحات میں مرقوم تمام باتوں کا انکار اس کی تکذیب یا اس میں تشکیک و تجاہل نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان کی مجموعی دلالت کو نقص کرسکتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۵۳ ،

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367