فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ21%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206527 / ڈاؤنلوڈ: 6000
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

نمازشب انجام دینے سے اچھے اخلاق اورنیک سیرت کامالک بن جاتاہے چنانچہ اس مطلب کویوں ذکرفرمایاہے :وتحسن الخلق کہ خوش اخلاق اورنیک سیرتی کی اہمیت اورضرورت کے تمام انسان قائل ہیں اگرچہ کسی قانون اورمذہب سے منسلک نہ بھی ہو لہٰذااگرکوئی شخص خوش رفتار اوراچھے اخلاق کامالک بنناچاتاہے تونمازشب کوہرگزفراموش نہیں کرناچاہئے کیونکہ نمازشب کانتیجہ خوش اخلاقی اورنیک سیرتی ہے ۔

١٤۔نمازشب بصیرت میں اضافہ کاسبب

دنیوی فوائد میں سے ایک جسکا امامؑ نے مذکورہ روایت میں تذکرہ فرمایا ہے بصیرت اور بینائی میں اضافہ ہے کہ اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:وتجلّواالبصر یعنی نماز شب کی وجہ سے آنکھوں کی بصیرت میں اضافہ ہوتاہے ۔

توضیح : دنیا میں انسان کو دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک اہم ترین نعمت بصیرت ہے کہ جس کی حفاظت کے لئے خود خدا نے ہی ایک ایسا نظام اور سسٹم مہیا فرمایا ہے کہ جس کی تحقیق کرنے والے حضرات اس سے واقف ہیں لہٰذا انسان کی کوشش بھی اسی کی حفاظت اور بقا رکھنے میں مرکوزہے پس اگر ہم بصیرت میں اضافہ اور نوراینیت میں ترقی کے خواہاں ہیں تو نماز شب پڑھنا ہوگا

١٥۔ قرضہ کی ادائیگی کا سبب نماز شب

نیز دنیوی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب قرضہ کی ادائیگی کا سبب ہے چنانچہ امام نے فرمایا و تقضی الدین یعنی نماز شب قرضہ کو ادا کرتی ہے کہ دنیا میں انسان کے لئے مشکل ترین کاموںمیں سے ایک قرضہ کی ادائیگی ہے کہ اس سے نجات ملنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے لہٰذا مقروض حضرات کو ہمیشہ سرزنش اور اہانت کا سامنا کرنا پڑتاہے اگر ہم اس سے نجات او معاشرے میں باوقار رہنا چاہتے ہیں تو نماز شب کا پابند رہنا ہوگا چنانچہ امام نے فرمایا: تدر الرزق نیز پریشانی کی برطرفی کا سبب بھی نماز شب ہے

۱۰۱

١٦۔نماز شب دشمن پر غلبہ پانے کا ذریعہ

اگرہم نمازشب انجام دیناشروع کردیں توانشاء اﷲہم اپنے دشمنوں پرہمیشہ غالب اورہروقت ہماری قسمت میں فتح ونصرت ہوگی خواہ ہمارادشمن ظاہری ہویاباطنی اگرکوئی شخص نمازشب جیسے اسلحے کے ساتھ مسلّح ہوکرمیدان جنگ میں واردہوجائے تویقیناکامیابی اورفتح سے ہمکنارہوجائے گالہٰذامسلمانوں کابہترین اسلحہ یہی نمازشب ہے چنانچہ مولاعلی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کومطالعہ کرنے سے اس مطلب کی وضاہت ہوجاتی ہے کہ آپ نے بہتّرجنگوںمیں دشمنوںسے مقابلہ کیااورہمیشہ مشکلات میں کامیاب ہوئے کہ اس کامیابی کے پیچھے نمازشب جیسے عظیم معنوی اسلحہ کی طاقت تھی کہ جس سے آپ مددلیاکرتے تھے اس طرح امام حسین علیہ السلام نے کربلامیں اس انسان ساز عظیم قربانی کے موقع پردشمنوں سے جنگ کرنے سے پہلے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ نمازشب انجام دیں اوراپنی بہن بی بی زینب سے نماز شب کی سفارش بھی کی لہٰذانمازشب کے فوائد میں سے ایک دشمنوں پرغلبہ ہے کہ اس مطلب کو امام )ع(نے یوںارشادفرمایا:صلاة ا لیل سلاح علیٰ الاعدائ (١)

یعنی نمازشب دشمنوںپرفتح پانے کے لئے بہترین اسلحہ ہے اسی مضمون کے مانندکچھ اورروایات کاتذکرہ پہلے ہوچکاہے ان تمام روایات کانتیجہ یہ ہے کہ نمازشب مشکلات کی برطرفی اوردشمنوںپرکامیابی کابہترین ذریعہ ہے اگرکسی کادشمن طاقت اوراسلحہ وغیرہ کے حوالے سے کسی پرغالب نظرآئے تواسے چاہئے کہ وہ نمازشب انجام دے کیونکہ نماز شب ہی انسان سے ہرلمحات پرحملہ آورہونے والے دشمن کودورکردیتی ہے کہ جس دشمن کوقرآن میں عدوء مبین کی تعبیرسے یادفرمایاہے۔

چنانچہ اس مطلب کوامام علی علیہ السلام نے یوں بیان فرمایاہے ''صلاة الیل کراهته الشیطان'' نمازشب پڑھنے والوں کوشیطان نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہے لہٰذاعدومبین ہے یعنی انسان کاآشکار دشمن شیطان ہے کہ اس کے بارے میں سب کااجماع ہے اگرچہ خودشیطان کی حقیقت کے بارے میںعلماء اورمحققین کے درمیان اختلاف نظرپائی جاتی ہے کہ جن کاخلاصہ یہ ہے شیطان کی حقیقت کے بارے میں تین نظریے پائے جاتے ہیں ۔

١۔شیطان انسان کی مانندایک مستقل موجود ہے جوانسان کونظرنہیں

____________________

(١)بحارج٨٧.

۱۰۲

آتاہے لیکن ہمیشہ انسان پرمسلط رہتاہے لہٰذاانسان کی اعضاء وجوارح پرغیرشرعی تصرف کرتاہے جس اس کی حرکتیں شیطانی نظرآتاہے ۔

٢۔یہی دنیا عین شیطان ہے شیطان کوئی مستقل چیزنہیں ہے ۔

٣۔خودانسان ہی عین شیطان ہے ہمارے محترم استاد حضرت آیت اﷲمصباح یزدی نے اپنے فلسفہ اخلاق کے لیکچرمیں ان نظریات میں سے پہلے نظریے کوقبول کیاہے اورکہتے ہیںکہ شیطان ایک مستقل موجودہے لہٰذا مزید تفصیلات کے لئے ان کے فلسفہئ اخلاق کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب کی طرف مراجعہ فرمائےے۔

خلاصہ یہ ہے کہ شیطان کاوجوداوراس کاانسان کے لئے عدو مبین اورسب سے خطرناک دشمن ہوناایک واضح اورمسلم حقیقت ہے جس کاقرآن مجیدمیں بھی متعددبارذکرہواہے جیساکہ ارشادہے( انّ الشیطان لکم عدو مبین ) اورخالق رحیم نے اس خطرناک اورعیاردشمن سے بچاؤکے متعددذریعے فراہم فرمایاہے جن میں سے ایک اہم ذریعہ نمازشب ہے ۔

۱۰۳

١٧۔نمازشب باعث خیروسعادت

نماز شب کے مادّی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے مؤمن کو خیر و سعادت نصیب ہوتی ہے کہ علم اخلاق کے دانشمندوں نے خیر و سعادت کے اصول و ضوابط کے بارے میں مختلف نظریات کو ذکر کیا ہے کہ جن کی آراء کا تذکرہ کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا اختصار کے پیش نظر راقم الحروف اس کی طرف صرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کیونکہ نماز شب ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کی برکت سے دنیا میں ہی انسان سعادت مند بن جاتا ہے اور ہر باشعور انسان کی یہی کوشش رہی ہے کہ سعادت مند بن جائے اسی لئے انسان ہزاروں زحمتیں اور مشکلات اٹھاتا ہے تاکہ سعادت جیسی عظیم نعمت حاصل کرنے سے محروم نہ رہے پیغمبر اکرم)ص( نے جنگ تبوک میں اپنے صحابی معاذ ابن جمیل سے فرمایا کیا میں تجھے خیر و سعادت کے اسباب سے مطلع نہ کروں تو معاذ ابن جمیل نے کہا: یارسول اﷲ کیوں نہیں! اس وقت پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ سے نجات مل جاتی ہے اور صدقہ دینے کے نتیجے میں اشتباہات کا خسارہ ختم ہوجاتا ہے جبکہ اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرنے سے سعادت مند ہوجاتا ہے پھر اس آیہئ شریفہ کی تلاوت فرمائی:

( تَتَجَافَی جُنُوبُهُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ ) (١)

یعنی نماز شب پڑھنے والے اپنے پہلو کو بستروں سے دور کیا کرتے ہیں۔(٢) لہٰذا جو انسان باعزت اور سعادت مند ہونےکا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب انجام دے ۔

____________________

(١) سورہئ سجدہ آیت ١٦.

(٢)بحار ج٨٧.

۱۰۴

١٨۔انسان کے اطمئنان کا ذریعہ

اسی طرح نماز شب کے فوائد مادّی میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب پڑھنے سے انسان کو سکون اور آرام حاصل ہوجاتا ہے کہ آج انسان اکیسویں صدی میں داخل ہے اور آبادی چھہ ارب سے بھی تجاوز کرچکی ہے لیکن ان میں بہت سارے انسان سکون او ر آرام جیسی نعمت کے حصول کی خاطر منشیات اور مضر اشیاء کے عادی بن چکے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے وسائل انسان کو حقیقی آرام و سکون مہیا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ کچھ عرصہ شراب اور دیگر مضر چیزوں کے استعمال سے سکون اور آرام پیدا ہونے کے بعد نتیجتاً خودکشی کرلیتا ہے یا پھر انسانیت کے دائرے سے ہی نکل جاتا ہے اسی لئے شریعت اسلام میں اس قسم کے مضر چیزوں کے استعمال کوحرام قراردیاگیاہے لہٰذااگرہم ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلامی تعلیمات کاپوری طرح سے پابندہوجائے تومعلوم ہوتاہے کہ اس میں کس قدرلذت اورسکون ہے کہ جس کاہم اندازہ نہیں لگاسکتے اوراسی کے طفیل ہمارے نفسیاتی تمام امراض دور ہوجاتے ہیں کہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں بیان فرمایا ہے:

صلاة اللیل راحة الابدان (١)

یعنی نماز شب کی وجہ سے بدنوں میں آرام و سکون پید اہوجاتا ہے ۔

____________________

(١)بحار ج٨٧

۱۰۵

١٩۔نماز شب طولانی عمر کا ذریعہ

اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے نزدیک عمر اور زندگی سے زیادہ محبوب کوئی اور چیز نظر نہیں آتی بہت سار ے محققین نے عمر میں ترقی اور اضافہ کی خاطر مختلف راستوں کو بیان کیا ہے لیکن جس حقیقی راستے کی نشاندہی اسلامی تعلیمات اور آئمہ معصومینؑ کے اقوال میں کی گئی ہے اس کا اور کسی محقق کی بات یا نظریہ میں ملنا مشکل ہے لہٰذا اگر قرآنی تعلیمات یا انبیاء اور آئمہ کے اقوال کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے ان کے فرمودات میں انسان کی روز مرہ زندگی کی تمام ضروریات کی طرف رہنمائی پائی جاتی ہے اگر چہ انسان یہ خیال کرے کہ نماز شب اور طولانی عمر کا آپس میں کیا رابطہ ہوسکتا ہے؟ لیکن انبیاء اور آئمہ کے اقوال اور ان کے عمل و کردار میں فائدہ ہی فائدہ ہے جس کی حقیقت کو درک کرنے سے اکثر لوگ قاصرہیں پس اگر انسان اپنی عمر میں ترقی دولت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو ایک مہم ترین سبب نماز شب ہے اس کو فراموش نہ کیجئے کہ اس مطلب کو امام رضا علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا: تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ جو شخص آٹھ رکعت نماز شب پڑھے دو رکعت نماز شفع اور ایک رکعت نماز وتر (کہ جس کے قنوت میں ستر دفعہ استغفراﷲ کا ذکر تکرار کیا جاتا ہے) انجام دیگا تو خداوند اسکو عذاب قبر اور جہنم کی آگ سے نجات اور اس کی عمر میں اضافہ فرماتا ہے۔(١)

____________________

(١) بحار الانوار ج٨٧.

۱۰۶

لہٰذا اس روایت کی بنا پر عمر میں ترقی ہونا حتمی ہے لیکن اس کے باوجود توفیق کا نہ ہونا ہماری بدقسمتی ہے

ب۔ عالم برزخ میں نماز شب کے فوائد

مقدمہ :

جب ہم دور حاضر کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم کو محققین اور فلاسفرنے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔

١۔عالم طبیعت :۔ کہ اس عالم کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ تمام حرکات و سکنات مادہ یا مادیات سے وابستہ ہے اور نماز شب کے کچھ فوائداس عالم سے مربوط ہیں کہ جن کا بیان ہوچکا ہے ۔

٢۔عالم برزخ :۔ کہ جس کا آغاز موت سے ہوتاہے اور اس کا انتہاء قیامت ہے یعنی عالم دنیا کے بعد اور عالم آخرت سے پہلے درمیانی اوقات کا نام عالم برزخ ہے کہ جس کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان دنیوی اور مادی لوازمات سے استفاہ نہیں کرسکتاہے ۔

٣۔عالم آخرت:۔کہ جس کی وضاحت عنقریب کی جائے گی (تاکہ خوش نصیب افراد نماز شب کے عادی ہوں اور اس کے نتائج سے مستفیض ہوں) لہٰذا اب ان فوائد کی طرف اشارہ کرنا لازم سمجھتاہوں جو عالم برزخ سے مربوط ہیں۔

١۔نماز شب قبر میں روشنی کا ذریعہ

اگر انسان ایک لمحہ کے لئے عالم برزخ کا تصور کرے تو اس سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ عالم انسان کے لئے کتنا مشکل اور سخت عالم ہے کہ اس کی حقیقت کو ہم درک نہیں کرسکتے اور ہم میں سے کسی کو خبر نہیں ہے صرف آئمہ معصومینؑ کے اقوال اور سیرت طیبہ کے مطالعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ عالم برزخ میں دوست و احباب اورتمام لوازمات زندگی اور مادی وسائل سے منقطع اور محروم ہوجاتاہے اسی لئے اس کو قیامت صغریٰ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ انسان اس میں ہر قسم کی سختیوں اور دشواریوں سے دوچار ہوگا ہم عالم برزخ کے عذاب اور اس کی سختیوں سے نجات کے خواہاں ہیں تو نماز شب جیسی عبادات کوانجام دینے میں کوتاہی نہیں کرنا ہوگی کیونکہ عالم برزخ میں ہونے والی سختیوں میں سے ایک قبر کی بھیانک تاریکی ہے کہ جس سے انسان کا موت کے آتے ہی سامنا ہوجاتاہے

۱۰۷

کہ تاریکی اور اندھیرا ایک ایسی بھیانک چیز ہے جس سے انسان دنیا میں خوف زدہ ہوجاتاہے کہ ایک لمحہ بھی تاریکی میں گذارنا اس کے لئے کتنا مشکل ہوجاتاہے اسی طرح جب انسان عالم برزخ میں پہنچے گاتو وہ لمحات بہت ہی سخت ہوںگے کیونکہ دنیا میں ہر قسم کی سہولیات جیسے بجلی سورج چاند ستارے اور دوسرے وسائل کا سلسلہ موجود ہے لہٰذا دنیوی اندھیرے اور تاریکی سے نجات مل سکتی ہے لیکن عالم برزخ میںان تمام ذرایع سے محروم ہوگا لہٰذا عالم برزخ کی تاریکی سے نجات کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ اس غربت کے زاد راہ کا فکر کریں اور اس تاریک گھر (قبر) کی روشنی کا اس دنیا سے جانے سے پہلے بندوبست کریں اور قبر میں کام آنے والے اور قبر کی تاریکی کو نور میں بدلنے والے اعمال میں سے ایک مہم عمل نماز شب ہے نماز شب عالم برزخ میں بجلی کے مانند ہے اور اس کی وجہ سے قبر منور ہوگی چنانچہ اس مطلب کی طرف حضرت علی علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا اگر کوئی شخص پوری رات عبادت الٰہی میں بسر کرے یعنی رات کو تلاوت قرآن کریم اور نماز شب انجام دے کہ جس کے رکوع و سجود ذکر الٰہی پر مشتمل ہو تو خدا وند اس کی قبر کو نور سے منور کرتا ہے اور دل حسد کی بیماری اور دوسرے گناہوں کی آلودگیوں سے شفاء پاتا ہے اور اس کو قبر کے عقاب و عذاب اور جہنم کی آگ سے نجات ملتی ہے، چنانچہ معصوم علیہ السلام نے فرمایا:

''یثبت النور فی قبر ه و ینزع الاثم والحسد من قلبه ویجار من عذاب القبر و یعطی برأة من النار ۔''(١)

اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح انسان کے لئے دنیا میں نور اور روشنی کے وسائل خدا نے مہیا فرمائے ہیں اسی طرح عالم برزخ میں بھی روشنی اور نور کے اسباب کو فراہم کیا لیکن دنیوی نور کے ذرایع مادّی ہیں جبکہ عالم برزخ کی روشنی اور نور کاذریعہ معنوی چیزیں ہیں جیسے نماز شب. لیکن نماز شب سے قبر میں نور حاصل

____________________

(١)ثواب الاعمال ص١٠٢.

۱۰۸

ہونے میں شرط یہ ہے کہ اس کو اخلاص کے ساتھ انجام دیا جائے ۔

نیز حضرت پیغمبر ؐ کا یہ قول ہے:

''صلاة اللیل سراج لصاحبها فی ظلمة القبر'' (١)

نماز شب قبر کی تاریکی میں نمازی کےلئے ایک چراغ کے مانند روشنی دیتی ہے ۔

٢۔ وحشت قبر سے نجات ملنے کا ذریعہ

نماز شب کے برزخی فوائد میں سے دوسرا فائدہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے خداوند انسانوں کو وحشت قبر سے نجات دیتا ہے اور یہاں وحشت قبر کی تفصیل و حالات بیان کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا مذہب حق جو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اہل بیت اطہار کے نام سے موسوم ہے ان کا عقیدہ یہ ہے کہ موت کیوجہ سے فنا نہیں ہوتاہے بلکہ موت کے بعد مزید دو زندگی کا آغاز ہوتا ہے

١۔ مثالی زندگی ۔

٢۔ابدی زندگی ۔

مثالی زندگی سے مراد وہ زندگی ہے جو عالم برزخ میں گذارا جاتا ہے کہ اس عالم میں ہر انسان کو مختلف قسم کے عذاب اور طرح طرح کی سختیوں سے دوچار

____________________

(١) بحار ج٨٧

۱۰۹

ہونا یقینی ہے جیسے وحشت قبر لیکن خدا اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے اسی لئے وہ انھیں اس عالم کی سختیوں سے نجات دینے کی خاطر کچھ مستحب اعمال کو انجام دینے کی ترغیب دلائی ہے جیسے نماز شب یعنی اگر ہم نماز شب کو انجام دیں توعالم برزخ میںوحشت قبر جیسی سختیوں سے نجات پاسکیں گے.چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام یوں ارشاد فرمایا ہے:

''صلّی فی سواد اللیل لوحشة القبر'' (١)

یعنی رات کی تاریکی میں نماز انجام دو تاکہ قبر کی وحشت اور خوف سے نجات پاسکو اسی طرح دوسری روایت میںخداوند نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دستور دیتے ہوئے فرمایا:

''قم فی ظلمة اللیل اجعل قبرک روضة من ریاض الجنان ''(٢)

یعنی اے موسیٰ! تو رات کی تاریکی میں (نماز شب انجام دینے کی خاطر ) اٹھا کرو( تاکہ میں اس کے عوض میں) تیری قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دوں۔

لہٰذا ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وحشت قبر یقینی ہے لیکن اگر توفیق

____________________

(١)بحار ج٨٧.

(٢) بحارج١٠٠.

۱۱۰

شامل حال ہو تو اس کا علاج نماز شب ہے کیوں کہ اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتاہے کہ دنیا ہی عالم برزخ اور آخرت کے لئے خلق کیا گیا ہے ۔

٣۔قبر کا ساتھی نماز شب

جب انسان اس دار فانی سے چل بسے تو اس کے عزیز و اقارب ہی تجہیز و تکفین ادا کرنے کے بعد سپرد خاک کرکے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور بس پھر آپ کا اس قبرستان کے اس ہولناک ماحول میں کوئی پرسان حال نہ ہوگا حتیٰ ماں باپ اور بھائی،فرزند ہونے کے باوجود اکیلے چھوڑجائیں گے اور پھر آپ ہی کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی کوٹھی یا بنگلہ میں ہی آئے گا اور آپ کے خون پسینہ کرکے کمائی ہوئی جائداد اور مال دولت تقسیم کرینگے جب کہ آپ قبر میں تنہائی کے عالم میں ہر قسم کے عذاب میں مبتلا ہونگے اور ادھر یہی افراد جو آپ کے مال و دولت اور جائیداد پر ناز کرتے ہوئے نظر آئیں گے ان ہی میں سے کوئی ایک بھی ایک لمحہ کے لئے آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں تاکہ آپ کو قبر کی وحشت اور مشکلات میں آپ کی مدد کریں لہٰذا احباب کی اس لاتعلقی کا اندازہ مرنے سے پہلے لگائیے جب کہ ہمارا حقیقی خالق ہمیشہ ہما رے فلاح و بہبود کا خواہاں ہیں اسی لئے آپ کو قبرمیں تنہائی سے نجات دینے کی خاطر آپ کے قبر کے ساتھی کا بھی تعارف کرایاہے کہ وہ باوفا ساتھی جو کبھی بھی آپ سے بے وفائی نہیں کریگا اور ہمیشہ آپ کا محافظ اور مددگار کی حیثیت سے آپ کے ہمراہ رہے گا وہ نماز شب ہے یعنی اگر آپ نماز شب انجام دینگے تو قبر میں تنہائی محسوس نہیں کرینگے کیونکہ نماز شب تنہائی کی سختی سے نجات دیتی ہے

۱۱۱

چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں بیان فرمایا ہے نماز شب ملک الموت اور نماز گذار کے درمیان ایک واسطہ اور قبر میں ایک چراغ اور جس مصلّے پر نماز شب پڑھی جاتی ہے وہ لباس نکیر و منکر کے لئے جواب دہ اور روز قیامت تک قبر کی تنہائی میں آپ کی ساتھی ہوگی۔(١)

اور دنیا میں یہ عام رواج ہے کہ مخصوص ایام اور پروگراموں میں شرکت کرنے کی خاطر مخصوص لباس پہنا جاتاہے اور اسی طرح علماء عاملین کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ جب وہ اپنے ملائے حقیقی کی عبادت کے لئے آمادہ ہوا کرتے ہیں تو خاص لباس پہن کر عبادت کرتے تھے تاکہ روز قیامت وہ لباس ان کے حق میں شہادت دے اسی لئے علماء اور مؤمنین موت کے وقت اپنی وصیتوں میں ایسے لباس کے بارے میں تاکید کرتے تھے جس لباس میںمیںنے خدا کی عبادت کی ہے وہ لباس میرے ہمراہ قبر میں دفن کیا جائے تاکہ وحشت قبر اور اس کی تنہائی اور تاریکی میں اس کی شفاعت کرسکیں لہٰذا مرحوم آیۃ اﷲ مرعشی نجفیؒ کے وصیت نامہ میں ایسے ہی الفاظ ملتے ہیں کہ آپ نے وصیت نامہ میں فرمایا:

میرا وہ لباس میرے ساتھ دفن کیا جائے کہ جس میں میں نے نماز شب پڑھی ہے اور اس رومال کو بھی میرے ساتھ دفن کرے کہ جس سے امام حسین علیہ

____________________

(١)بحار ج٨٧.

۱۱۲

السلام کی مصیبت کو یاد کرکے بہائے گئے آنسو پونچھا کوجمع کیا لہٰذا نماز شب کے اتنے فوائد ہونے کے بعد اس سے محروم ہونا شاید ہماری بدقسمتی ہے پالنے والا ہم سب کو نماز شب پڑھنے کی توفیق عطا فرما ۔

٤۔نماز شب مانع فشار قبر

جیسا کہ معلوم ہیںکہ عذاب الٰہی کی تین قسمیں ہیں :

١۔ دنیوی عذاب ۔

٢۔برزخی عذاب ۔

٣۔اخروی عذاب ۔

لیکن ہمارے درمیان معروف ہے کہ عذاب کا سلسلہ اس عالم دنیا اور عالم برزخ کے سفر طے کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے جبکہ یہ خام خیالی ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہو تو کچھ کی سزا دنیا ہی میں مل جاتی ہے اور اسی کو عذاب دنیوی کہا جاتا ہے اگر چہ انسان غفلت اور سستی کے نتیجے میں دنیوی عذاب کو درک کرنے سے عاجز رہتا ہے لہٰذا یہی وجہ ہے کہ جب خدا کی طرف سے کسی جرم کی سزا دینا میں دی جائے تو غافل انسان اس کی مختلف توجیہات سے کام لیتا ہے۔ جب کہ اس کی اصلی علت یہی نافرمانی ہوتی ہے ۔

۱۱۳

اسی طرح کچھ دوسرے جرم ہیں کہ جس کی سزا اس عالم میں نہیں دی جاتی بلکہ اس کی سزا عالم برزخ میں روبرو ہوتی ہے اور اسی طرح کچھ ایسے گناہ اور جرائم ہیں کہ جن کی سزا خداوند عالم آخرت میں دیتا ہے لہٰذا نماز شب واحد ذریعہ ہے جو انسان کو قبر کے تمام عذاب سے نجات دینے والی ہے لہٰذا نماز شب کے برزخی فوائد میں سے چوتھا فائدہ یہ ہے کہ نمازی کو قبر کے عذاب اور فشار قبر سے نجات دیتی ہے کہ فشار قبر اتنا سخت سزا ہے جو انسان کے بدن کے گوشت کو ہڈیوں سے الگ کردیتی ہے اس مطلب کو صحابی رسول اکرم)ص( جناب ابوذر نے یوںارشاد فرمایا ہے کہ ایک دن کعبہ کے نزدیک بیٹھے ہوئے لوگوں کو نصیحت کررہے تھے اور انھیں ابدی زندگی کی طرف ترغیب و تشویق دلارہے تھے اتنے میں لوگوں نے آپ سے پوچھا اے ابوذر وہ کونسی چیز ہے جو آخرت کے لئے زادراہ بن سکتی ہے تو آپنے فرمایا گرمی کے موسم میں روزہ رکھنے سے حساب و کتاب آسان ہوجاتاہے اور رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز پڑھنے سے وحشت قبر سے نجات ملتی ہے اور صدقہ دینے سے انسان کی تنگ دستی دور اور مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔(١)

اسی طرح دوسری روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا کہ تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ جو شخص رات کے آخری وقت میں گیارہ رکعت نماز انجام دے تو خداوند اس کو قبر کے عذاب اور جہنم کی آگ سے نجات عطا فرماتاہے۔(٢)

____________________

(١)داستان ج٢ص٢٦.

(٢)بحار ج٨٧ص١٦١.

۱۱۴

٥۔نماز شب قبر میں آپ کی شفیع

جس طرح عالم دنیامیں کسی کی سفارش اور تعاون کے بغیر کوئی بھی مشکل برطرف نہیں ہوتی اسی طرح عالم برزخ میں بھی مشکلات اور سختیوں کو برطرف کرنے کے لئے مدد کی ضرورت یقینی ہے اگر چہ ان دو سفارشوں کے مابین فرق ہی کیوں نہ ہو لہٰذا عالم دنیا کی سفارش مادی اسباب کا نتیجہ ہے جیسے کسی بڑی شخصیت کی سفارش جب وہ میسر نہ آئے تو پھر رشوت وغیرہ کے ذریعہ سے مشکلات کی برطرفی اور مقاصد کے حصول کے لئے ہر انسان کوشش کرتا ہے جب کہ عالم برزخ اور مثالی عالم کی سفارش معنوی اور صوری ذرایع کی ہوتی ہے۔

لہٰذا عالم برزخ میں دنیا کے اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات کام نہیں آئیں گی بلکہ خدا کی نظر میںجو مقرب اور نیک حضرات ہیں وہی اس مشکل کو حل اور ہماری سفارش کرسکتے ہیں لہٰذا ایسے وسائل کے بارے میں بھی انسان کو شناخت و معرفت اور ان میںسے ایک معنوی تعلق جوڑنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے تبھی تو خدا وند عالم نے برزخ میں بھی مؤمن انسان کی شفاعت اور اس کی فلاح کے لئے کچھ دستورات دئے ہیں ان کو انسان پابندی کے ساتھ انجام دینے کی صورت میں اور محرمات سے اجتناب کرنے میں اور اخلاق حسنہ اپنانے میں اور اخلاق رذیلہ سے اپنے آپ دور رکھنے کی صورت میں اس کی تمام مشکلات برطرف ہوسکتی ہے چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا:

۱۱۵

صلاة اللیل شفیع صاحبها (١)

یعنی نماز شب قبر کی وحشت ناک تنہائی میں نمازی کی شفیع ہوگی پس نماز شب قبر کے وحشت ناک تنہائی اور عالم غربت کی سختی کے وقت اور ملک الموت و نکیر و منکر کے سوال و جواب کے موقع پرآپ کی شفیع ہے لہٰذا آیات و روایات کی روشنی میں بخوبی یہ نتیجہ نکلتاہے کہ نماز شب کے فوائد عالم برزخ میں بہت زیادہ ہیں لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں چند فوائد پر اکتفاء کرینگے پس جب ہم دنیوی فوائد ااوربرزخی فوائد سے فارغ ہوگئے تونمازشب کے ایسے فوائد کی طرف بھی اشارہ کریں گے جوابدی زندگی سے مربوط ہیں کیونکہ ابدی زندگی کے فوائدمادی زندگی اورمثالی زندگی کے فوائدسے زیادہ اہم ہیں تاکہ مومنین کے لئے اطمئنان قلب کا باعث بنے ۔

ج۔عالم آخرت میں نماز شب کے فوائد

١۔جنت کادروازہ نمازشب

اخروی فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ جوشخص علم جیسی نعمت سے بہرہ مندہواوراس کی نظروں سے کچھ کتابیں نما شب کے اخروی فوائد سے متعلق گذری ہوگی کہ دنیوی زندگی اورمثالی زندگی گزرنے کے بعد انسان کی ابدی زندگی

____________________

(١)جامع آیات و احادیث ج٢

۱۱۶

کاآغازہوجاتاہے کہ اس زندگی گزرنے کی جگہ مومن کے لئے جنت ہے لیکن اگرکافرہے توجہنم ہے.

لہٰذا جنت اور جہنم میں زندگی گذار نا ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے یعنی انسان کے اعمال و کردارعلت ہے،جنت میں داخل ہونایا جہنم میں رہنا معلول ہے تب ہی توانسان کے اعمال و کردار دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے نیک اعمال اور بد اعمال. اگر انسان اس دنیا میں اچھے اعمال کا عادی ہو اور اسلام کی تعلیمات کا پابند ہو تو جنت میں ابدی زندگی سے ہمکنار ہوتے ہوئے ہمیشہ جنت میں رہے گا لیکن اگر اس دنیا میں برے اعمال کا عادی رہا ہو اور اسلامی تعلیمات سے دور ہو یعنی اپنی خواہشات کا تابع ہو تو اس کی ابدی زندگی کی جگہ جہنم جیسی بری جگہ ہوگی پس جنت و جہنم دو ایسے مقام کا نام ہے کہ جس کی زندگی مثالی زندگی اور مادّی زندگی سے مختلف ہے لہٰذا جنت و جہنم کی زندگی کو ابدی کہا جاتاہے جب کہ باقی زندگی کو موقتی اور تغییر پذیر زندگی کہا جاتاہے چنانچہ اس مطلب پر قرآن کی کئی آیات میں اشارہ ملتاہے مثلاً:

۱۱۷

'' فیہا خالدون...'' یعنی جنت اور جہنم میں ہمیشہ رکھا جاتا ہے جب کہ ایسے الفاظ قرآن وسنت میں دنیوی زندگی کے بارے میں نظر نہیں آتے پس انسان غور سے کام لے تو بخوبی معلوم ہوتاہے کہ انسان کتنا غافل ہے کہ دنیا میں دنیوی زندگی سے اس قدر محبت رکھتاہے جبکہ یہ زندگی کچھ مدت کی زندگی ہے لیکن اگر یہی انسان خدا کا مطیع ہو تو فرشتوں سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے کہ اس تعبیر کی حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیوی زندگی کو ہی حقیقی زندگی مان لے توحیوانات سے بھی بدتر ہے لیکن اگر دنیوی زندگی کو ابدی زندگی کے لئے مقدمہ سمجھے تو فرشتوں سے بھی افضل ہے تبھی تو قرآن وسنت میں کئی مقام پر تدبر و تفکر سے کام لینے کی ترغیب ہوئی ہے تاکہ غافل انسان یہ نہ سمجھے کہ زندگی کا دار ومدار یہی زندگی ہے پس اگر کوئی ابدی زندگی کو آباد کرنے کا خواہاں ہے تو آج ہی نماز شب انجام دینے کا عزم کیجئے کیونکہ نماز شب جن فوائدپر مشتمل ہے شاید کوئی اور عمل نہ ہو لہٰذا نماز شب انجام دینے سے جنت کے دروازے ہمیشہ کےلئے کھل جاتے ہیں اور نمازی آسانی سے جنت میں داخل ہوسکتے ہیں چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( کا یہ ارشاد ہے: اے خاندان عبدالمطلب تم لوگ رات کے وقت جب تمام انسان خواب غفلت میں غرق ہوجاتے ہیں تو شب بیداری کیا کرو اور خدا سے راز و نیاز کرو تاکہ جنت میں آسانی سے جاسکوں۔(١)

دوسری روایت میں پیغمبر )ص( نے فرمایا:

''من ختم له بقیام اللیل ثم مات فله الجنة '' (٢)

اگر کوئی شخص شب بیداری کا عادی ہو اور مرجائے تو خداوند اس کے عوض میں اس کو جنت عطا فرمائے گا۔

____________________

(١)محاسن برقی ص٨٧.

(٢)وسائل ج٥.

۱۱۸

نیز تیسری روایت جس میں حضرت پیغمبر اکرم)ص( نے جناب ابوذر سے فرمایا :

'' یا اباذر ایما رجل تطوع فی یوم ولیلة اثنتا عشرة رکعة سوی المکتوبة کان له حقاً واجباً بیت فی الجنة''

اے ابوذر اگر کوئی شخص چوبیس گھنٹے کے اوقات میں واجبات کے علاوہ بارہ رکعات مستحبی (نماز شب) بھی انجام دے تو خداوند اس کے بدلے میں اس کو جنت عطا کریگا(١)

تفسیر وتحلیل:

ان مذکورہ روایات کا خلاصہ یہ ہوا کہ جنت میں جانے کے خواہاں افراد کو چاہیے کہ وہ نماز شب کو ترک نہ کریں کیونکہ نماز شب کی خاطر جنت میں خداوندخوش نصیب افراد کو ایک خاص قسم کا قصر عطا کریگا ۔

٢۔جنت میں سکون کا ذریعہ

نماز شب کے فوائد اخروی میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے کے نتیجے میں خداوند نمازی کو ابدی زندگی میں سکون جیسی نعمت عطا فرماتاہے کہ سکون جیسی نعمت کی نیاز تمام زندگی کے مراحل میں یقینی ہے چنانچہ دنیا میں ہر انسان کی طبیعت یہ ہے کہ زندگی سکون سے گذارے لہٰذا سکون کی خاطر طرح طرح

____________________

(١)مکارم الاخلاق ص٤٦١.

۱۱۹

کی مشقتیں برداشت کرکے عدم سکون جیسی بلا سے جان بخشی کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتا ہے لہٰذا اگر کوئی شخص جنت میں زیادہ سے زیادہ آرام و سکون کا خواہاں ہو کہ انسانی فطرت اور عقل بھی یہی چاہتی ہے تو اس آرزو کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک عمل درکار ہے اور وہ عمل نماز شب ہے کہ جو اس مشکل کو حل کرسکتاہے یعنی سکون اور آرام جیسی نعمت سے زیادہ سے زیادہ مالامال ہوسکتاہے چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے ارشاد فرمایا:اطولکم قنوتاً فی الوتر اطولکم یوم القیامة فی الموقف ، تم لوگ نماز وتر کے قنوت کو جتنا زیادہ وقت تک انجام دوگے تو اتنا ہی خدا قیامت کے دن آرام و سکون میں اضافہ فرمائے گا(١) پس اسی روایت کی روشنی میں یہ کہہ سکتاہے کہ سکون جیسی نعمت کا ذریعہ بھی نماز شب ہے.

٣۔دائیں ہاتھ میں نامہئ اعمال دیا جانے کا سبب

نماز شب کے عالم آخرت سے مربوط نتائج میں سے اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے کی وجہ سے خداوند قیامت کے حساب وکتاب کے دن نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں دے گا کہ یہی قبولیت اعمال اور رضایت خدا کی علامت ہے لہٰذا اس مطلب کو روایت کی روشنی میں بیان کرنے سے پہلے ایک مقدمہ ضروری ہے کہ وہ مقدمہ یہ ہے کہ قیامت کی بحث علم کلام میں مستقل ایک بحث

____________________

(١)بحارالانوار ج٨٧.

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

امیرالمومنین ؑ اور آپ کے معاصرین کے کلام کا اثر یہ ہوا کہ شیعیت کے عقائد ظاہر ہوگئے

آپ نے گذشتہ صفحات میں کچھ تصریحات پڑھیں اور کچھ باتیں چوتھے سوال کے جواب میں بھی آنےوالی ہیں،ان تمام باتوں کو دیکھنے کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خلافت کے معاملے میں امیرالمومنین ؑ اور اصحاب پیغمبر ؐ کے نظریہ کے وقتاً فوقتاً وضاحت اور مسلسل تاکید سے ایک بڑا فائدہ جو ہوا وہ یہ کہ اکثر مسلمان اس حقیقت سے وقف اور متنبہ ہوگئے جو مسلسل چھپائی جارہی تھی،وہ حقیقت تھی خلافت کے بارے میں شیعہ عقیدہ،جب جمہور کے شور میں یہ آواز بالکل الگ سے بلند ہوئی تو لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور قرآن و سنّت میں اس کے لئے دلیلیں تلاش کرنے لگے پھر مزید دلیلیں ملتی گئیں یہاں تک کہ امیرالمومنین ؑ ہی کے زمانہ میں حقیقت آب بلّور کی طرح چمکنے لگی،ایک جماعت(شیعوں)کو اتنی بصیرت حاصل ہوگئی کہ ان لوگوں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ اس حقیقت کو اعلان کرنے کے لئے اگر انھیں جہاد بھی کرنا پڑا تو کریں گے،بلکہ اگر جان و مال کی قربانی بھی دینی پڑی تو خوشی سے دیں گے،اگر چہ نبی ؐ کی سنت کو معطل کردیا تیا تھا،جیسا کہ میں نے آپ کے ساتویں سوال کے جواب میں عرض کیا ہے،سنّت نبی ؐ کے خلاف فیصلے ہوا کرتے تھے(لیکن شیعہ عقائد نبی ؐ کی سیرت اور قرآن کی آیتوں میں اتنا واضح تھے کہ)فرقہ شیعہ کا ایک مستقل وجود تاریخ نے اس دور میں درج کرلیا اور پھر یہ عقیدہ تدریجاً مضبوط ہوتا گیا اور یہ حق کا قافلہ آخر میں ہم تک پہنچا،بہتر سمجھتا ہوں کہ بعض شواہد کا تذکرہ کرتا چلوں ۔

۱ ۔ جب جمل میں امیرالمومنین ؑ کا لشکر قبیلہ طے سے گذرا تو ایک بوڑھا جو قبیلہ طے سے تعلق رکھتا تھا اور بالکل ہی ضعیف ہوچکا تھا اس نے اپنی دونوں بھوؤں کو اٹھایا اور جناب امیرالمومنین ؑ کے چہرے پر نظر کی پھر پوچھا کیا آپ ہی ابوطالب ؑ کے بیٹے ہیں،فرمایا ہاں،اس نے کہا خوش آمدید اھلاً و سہلاً و مرحباً...اگر ہم نے آپ کی بیعت نہ بھی کی ہوتی اور آپ ہم سے مدد مانگتےتو قرابت پیغمبر ؐ کی

۲۰۱

وجہ سے ہم آپ کی ضرور مدد کرتے اس لئے کہ آپ نے بڑے صالح ایام(اور بہت مشہور کارنامے)انجام دیئے ہیں،آپ کی سربلند سیرت کا بیان جو کچھ میں سنتا رہا ہوں اگر حق ہے تو مجھے قریش پر تعجب ہے کہ انھوں نے آپ کو موخّر کرکے آپ کے غیر کو مقدم کیا،انھوں نے حدود خدا کو توڑا اور خدا کے ساتھ زیادتی کی،آپ ہمارے یہاں تشریف لایئے،ہمارے قبیلہ میں کوئی آپ کی مخالفت نہیں کرےگا مگر وہ جو غلام ہوگا یا حرام زادہ ہوگا،مگر یہ کہ آپ اجازت دیں ۔(۱)

آپ اس بوڑھے شخص کو دیکھیں وہ امیرالمومنین ؑ کی طرف صرف اس لئے جھک رہا ہے کہ آپ کے کارنامے اس تک پہنچے ہیں پھر وہ تعجب کررہا ہے کہ جب امیرالمومنین ؑ کی عبقریت کا شہرہ اتنا زیادہ ہے تو قریش نے آپ کے علاوہ کسی کو کیسے امیر بنالیا ۔

۲ ۔ ابن ابی الحدید نے جناب ابوذر ؑ کی وفات کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ ابوذر غفاری کے پاس آپ کی وفات کے وقت کچھ لوگ آئے تھے،حدیث نبوی ؐ ہے کہ((ابوذر ؑ کی وفات کے وقت ان کے پاس سے ایک جماعت گذرےگی))ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا حدیث کو ابوعمر بن عبدالبر نے سوانح حیات جندب کے اول باب میں لکھنے سے پہلےلکھا ہے کہ ربذہ میں وفات ابوذر ؒ کے وقت جو جماعت گذری تھی اس میں حجر بن عدی اور مالک اشتر بھی تھے(حجر بن ادبر اور مالک بن الحارث اشتر)

میں(ابن ابی الحدید)کہتا ہوں کہ حجر بن ادبر وہی ہیں جن کو معاویہ نے بہت سنگدلی کے ساتھ شہید کردیا،آپ اعلام شیعہ اور عظیم لوگوں میں سے تھے اور مالک اشتر شیعوں میں اسی طرح مشہور ہیں جس طرح ابوالھذیل معتزلہ میں ۔

ہمارے استاد عبدالوہاب بن سکینہ کے سامنے کتاب الاستیعاب پڑھی جارہی تھیں میں وہیں موجود تھا جب پڑھنے والا مذکورہ بالا روایت تک پہنچا،میں اس کے ساتھ حدیث سن رہا تھا،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۵۲،حضرت علیؑ کی مدد کے لئے عدی بن حاتم کی اپنی قوم کو للکارنا۔

۲۰۲

تو میرے استاد عمر بن عبداللہ الدّباس نے کہا اب تو شیعہ جو چاہے کہہ سکتے ہیں اس لئے کہ شیخ مفید اور سید مرتضی تو وہی کچھ کہتے ہیں جو عثمان اور متقدمیں عثمان کے بارے میں حجر بن عدی اور مالک اشتر کہتے تھے،یہ سن کر شیخ ابن سکینہ نے استاد دبّاس کو چپ ہوجانے کا اشارہ کیا تو وہ خاموش ہوگئے ۔(۱)

۳ ۔ شریح بن ہانی کو مولائے کائنات ؑ نے عمروعاص کو سمجھانے کے لئے بھیجا،شریح نے عمروعاص سے کہا دیکھو بھائی جو حق تھا وہ میں نے تم تک پہنچادیا،یہ سن کر عمروعاص کا چہرہ بگڑ گیا اور کہنے لگا:میں علی ؑ کا مشورہ قبول ہی کب کرتا ہوں؟!میں نہ ان کی طرف آؤں گا اور نہ ہی ان کی رائے کو کسی شمار میں رکھتا ہوں ۔(۲)

شریح کہتے ہیں:میں نے کہا اے ابن نابغہ تجھے تیری مولا اور نبی ؐ کے بعد مسلمانوں کے سردار کی رائے قبول کرنے سے کس چیز نے بارز رکھا ہے؟آپ دیکھیں کہ شریح جو ایک شیعہ تھے،ان کے الفاظ جو انھوں نے امیرالمومنین ؑ کے لئے استعمال کئے اس بات کے ثبوت ہیں کہ شیعہ مولائے کائنات ؑ کو ابوبکر،عمر اور عثمان سے مقدم سمجھتے تھے.

۴ ۔ تاریخ کہتی ہے کہ زیادہ جب کوفہ کا عامل تھا تو معاویہ نے اس کو خط لکھا جو حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں تھا،اس میں معاویہ نے یہ لکھا تھا کہ حجر بن عدی کا جرم ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ تخت خلافت کے لئے سوائے آل ابی طالب ؑ کے کسی کو صالح نہیں سمجھتے ۔(۳)

۵ ۔ جب عبداللہ بن زبیر نے ابن مطیع کو کوفہ کا والی بنایا تو اس نے کہا،میں ضرور بالضرور عثمان اور عمر کی سیرت کی پیروی کروں گا،سائب بن مالک کھڑے ہوگئے اور کہا:عمر کی سیرت تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۵ص:۱۰۰۔۱۰۱،

(۲)وقعۃ صفین ص:۵۴۳،

(۳)تاریخ طبری ج:۳ص:۵۱،۲۲۶ سنہکےواقعات،الکامل فی التاریخ ج:۳ص:۵۱،۳۳۳ سنہکےواقعات،مقتل شہید عثمان ج:۱ص:۲۲۵شہادت عمرو بن حمق خزاعی کے ذکر میں

۲۰۳

ہمارے لئے بہت کم ضرر رساں ہے سیرت عثمان سے لیکن تجھ پر واجب ہے کہ سیرت علی ؑ کی پیروی کرے اس سے کم پر ہم راضی نہیں ہیں ۔(۱)

۶ ۔ بعض توابین(وہ لوگ جو خون حسین ؑ کا انتقام لینے کے لئے اٹھے تھے بعد میں جناب مختار کو اپنا امیر بنالیا)کہتے ہیں کہ حصین ابن نمیر آیا در حالیکہ اس نے ہمارے خلاف لشکر تیار کیا تھا جب وہ لوگ قریب آئے تو ہم نے انھیں اتحاد کی پیشکش کی اس کے لشکر نے یہ شرط رکھی کہ ہمارے ساتھ مل کر عبدالملک مروان کے ساتھ ہوجائیں اور اس کی اطاعت میں داخل ہوجائیں اور ہم نے انھیں یہ دعوت دی کہ وہ عبیداللہ ابن زیاد کو ہمارے حوالے کردیں تا کہ ہم اس کو اپنے کچھ بھائیوں کے انتقام میں قتل کرسکیں اور عبدالملک بن مروان کو ہٹادیا جائے،آل ابن زبیر کو ہمارے شہروں سے نکال دیا جائے پھر ہم یہ حکومت اپنے نبی ؐ کے اہل بیت ؑ کے حوالے کردیں جن کی وجہ سے اللہ نے ہمیں یہ ہمت اور کرامت بخشی ہے لیکن اس قوم نے ان شرطوں کو نہیں مانا تو ہم نے بھی ان کی شرطوں کو ٹھکرادیا ۔(۲)

۷ ۔ بنی امیہ کے امرا اور گورنر شیعیت کی جانچ اور پرکھ کرنے کے لئے کسی سے بھی یہ پوچھتے تھے تمہارا شیخین کے بارے میں کیا نظریہ ہے اور جو ان سے اظہار برائت کرتا تھا،شیعہ سمجھا جاتا تھا اور مواخذہ کا سزاوار ہوتا تھا،اس سے پتہ چلتا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ عصر اولیٰ ہی میں مشہور ہوچکا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)انساب الاشراف ج:۶ص:۳۸۳،قصہ امیر مختار،تاریخ طبری ج:۳ص:۶۶،۴۳۵ سنہکےواقعات،الکامل فی التاریخ ج:۴ص:۲۸،جم۶۶ سنہکےواقعات،الفتوح لابن اعثم کوفی،ج:۳ص:۲۴۹،ابتداء خروج مختارؑ

(۲)تاریخ طبری ج:۳ص:۶۵،۳۸۳ سنہکےواقعات اور توابین کا خروج،انساب الاشراف ج،۶ص:۳۷۱،فی امرالتوابین الفتوح لابن اعثم کوفی ج:۳ص:۳۴۵،تاریخ کامل ج:۴ص:۶۵،۷ سنہکےواقعات

۲۰۴

۸ ۔ ملاحظہ کریں یہ ابوحمزہ شاری خارجی ہیاور بنوامیہ کے آخری دور میں مدینہ میں داخل ہوتا ہے(اور خطبہ دے کر شیعوں کی کچھ خاص پہچان بتا دیتا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہ شیعیت اسلام کے صدر اول میں ہی اپنے عقائد میں منفرد تھی اور جانی پہچانی تھی)

ابوحمزہ خارجی کے خطبہ کو دیکھیں کہتا ہے کہ:اور ہمارے شیعہ بھائی جو اگر چہ دین میں ہمارے بھائی نہین ہیں لیکن میں نے خدا کا یہ قول سنا ہے کہ(اے لوگو!میں نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہارے اندر شعبے اور قبیلے قرار دیئے تا کہ تم پہچانے جاؤ)تو یہ وہ فرقہ ہےجس نے کتاب خدا کے ذریعہ غالب آنے کی کوشش کی اور خدا کو چھوڑ کے ایک گروہ بنالیا ان کی نگاہیں قرآن میں رس ہیں نہ فقہ میں بالغ نظری ہے،تو اب حقیقت کی جانچ نہیں کرتے اور اپنے معاملات کو خواہشات نفس کا قیدی بنادیا ہے،ان کے مذھب کی بنیاد ایک قوم کی محبت پر ہے جس کو انہوں نے لازم قرار دیا ہے اور وہ لوگ انھیں کی اطاعت کرتے ہیں،گمراہی ہو یا ہدایت،رجعت کا یقین رکھتے ہیں اور مرنے کے بعد حکومت کے منتظر ہیں اور قیامت کے پہلے مبعوث ہونے کے قائل ہیں،مخلوق کے لئے علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ(جن لوگوں کو وہ عالم غیب سمجھتے ہیں ان میں کا کوئی آدمی یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کے گھر میں کیا ہے؟بلکہ یہ تک نہیں جانتا کہ اس کے کپڑے میں کیا لپٹا ہوا ہے؟یا اس کے جسم کو کس چیز نےگھیر رکھا ہے،گناہوں کی وجہ سے گناہگاروں کی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ اسی پر وہ عمل کرتے ہیں اور اس سے نکلنے کا وہ راستہ نہیں پاتے،اپنے دین میں جفا کار اور کم عقل ہیں،انھوں نے اپنے دین کی باگ ڈ ور عرب کے ایک گھروالوں کے حوالہ کردی ہے،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی(اہل بیت ؑ کی)محبت انھیں اعمال صالحہ سے بےنیاز کردےگی اور برے اعمال کی سزاؤں سے بچالےگی،خدا انھیں قتل کرےگا کہاں بہکے جارہے ہیں؟ ۔(۱) مندرجہ بالا خطبہ اگر چہ شیعوں کی منقصت میں وارد ہوا ہے اور اس میں شیعوں پر بہت سارے الزامات عائد کئے گئے ہیں جن کی کوئی اصل و بنیاد نہیں ہے اور ایسے لوگوں سے شیعوں کو یہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۵ص:۱۱۹،

۲۰۵

امید بھی ہے لیکن اس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ شیعوں کے عقائد اسلامی دور کی ابتدا ہی میں شائع اور مشہور ہوچکے تھے ۔

۹ ۔ حق تو یہ ہے کہ اگر شیعوں کے عقائد صدر اول میں نکھر کے سامنے نہ آچکے ہوتے،خصوصاً شیخین کے غصب خلافت اور موالئے کائنات ؑ اور اہل بیت ؑ کے استحقاق خلافت کا عقیدہ تو بنی عباس اتنی آسانی سے سریر آرائے سلطنت نہ ہوجاتے،انھوں نے اپنی حکومت کی اساس ہی شیخین سے اظہار برائت پر رکھی تھی اور لوگوں کو یہی بتا رہے تھے کہ شیخین کی خلافت شرعی نہیں تھی اور صرف اہل بیت ؑ مخصوص بالخلافہ ہیں،اس سلسلے میں کچھ شواہد میں نے آپ کے دوسرےسوال کے جواب میں پیش کئے ہیں،اگر چہ خلفائے بنوعباس بھی بدل گئے اور اہل بیت اطہار ؑ سے عداوت کا اظہار کردیا،شیعیت سے الگ ہوگئے اور اس کا انکار کرنے لگے اور اس کی شدت سے مخالفت کرنے لگے،نتیجہ میں ان کے خلاف علوئین کھڑے ہوگئے اور ان کی جنگجو جماعتیں خلافت کا مطالبہ کرنےلگیں ان کے پاس بھی یہی دلیل تھی کہ خلافت کا حق حق جب اہل بیت ؑ کا ہے تو اولاد علی ؑ ہونے کی وجہ سے اہل بیت ؑ سے رشتہ ہونے کے ناطے بنوعباس سے زیادہ حقدار خلافت ہیں،یعنی ان کے دعوےکا اساس بھی شیعت ہی تھی،اگر شیعوں کے عقائد مشہور و معروف و منفرد نہ ہوچکے ہوتے تو لوگ انقلاب کے نعرے کو شیعہ پلیٹ فارم سے بلند نہیں کرسکت تھے،شیعیت ایک مستقل مذہب اور حق کی علامت بن چکا تھا اور اس حد تک اس کو صحیح سمجھا جاتا تھا کہ اسی بنیاد پر مسلمانوں کو حق کی طرف بلایا جاتا تھا اور لوگ ان کی دعوت قبول کرتے تھے پھر شیعیت کو عمل میں لاکے حاکم بن جاتے تھے ۔

شیعہ عقائد کے چہرے پر یہ نکھار کس کا عطیہ ہے؟صرف امیرالمومنین ؑ کی کوشش کا نتیجہ تھا آپ اپنی زندگی میں صحابہ کو اپنی سیرت،اپنے خطبے اور اپنے طرز عمل سے مسلسل متوجہ کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ خلافت میرا حق تھا جو غصب کرلیا گیا،میں آپ کے چوتھے سوال کے جواب میں یہ باتیںعرض کرچکا ہوں گذشتہ بیان کو سامنے رکھ کے سوچئے کس عبارت اور کس کتاب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام غاصبین خلافت سے راضی تھے،ان کا اقرار کرتے تھے اور ان کے حق میں دست بردار ہوگئے تھے تا کہ ان کی حکومت کی کوئی شرع عذر حاصل ہوسکے ۔

۲۰۶

امیرالمومنین کا واضح موقف اور علما اہل سنت کا ادراک

حق بات تو یہ ہے کہ اہل سنت کے اکثر علما اور مخصوص افراد یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن چونکہ امیرالمومنین ؑ کی عظمت سے وہ انکار نہیں کرسکتے اور آپ کی رفعت شان کا اقرار بھی کرتے ہیں لٰہذا آپ کے موقف کو غلط نہیں ٹھہراسکتے اور آپ کے دشمن کا بھی احتارم کرتے لٰہذا بعض مقامات پر غیراختیاری طور پر وہ آپ کے نظریات کا اظہار کربیٹھے ہیں کبھی کبھی ان کا خود اپنے نفس پر رقابو نہیں ہوتا اور حق ان کی زبان سے نکل ہی جاتا ہے،اس کی چند مثالیں اس وقت اس کتاب میں بھی گذرچکی ہیں جہاں ہم نے شیعوں کا ان کےائمہ ھدیٰ علیہم السلام سے اختصاص اور شیعوں کے نظریات کی ائمہ ؑ کی طرف سے تصدیق پیش کی تھی،اب ایک واقعہ پھر مقام مثال میں پیش کیا جارہا ہے،اسے غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ اہل سنت حضرات شیخین کی حقانیت کا زبردستی اقرار کرکے کس چیستان میں پھنس چکے ہیں ۔

شیخین کے متعلق امیرالمومنین ؑ کے موقف کے بارے میں اسمٰعیل حنبلی کا واقعہ

امیرالمومنین ؑ کی خلافت کے بارے میں شکایت کا تذکرہ کرنے کے بعد ابن ابی الحدید نے ایک پر لطف واقعہ لکھا ہے جو ذیل میں پیش کیا جاررہا ہے ۔

وہ کہتے ہیں مجھے یحییٰ بن سعید جو ابن عالیہ کے نام سے مشہور ہیں اور بغداد کے غربی علاقے میں((قطفتا))کےرہنےوالے ہیں ۔ بتایا(بیان کیا)کہ میں فخر اسمٰعیل بن علی حنبلی جو حنبلیوں کے فقیہ اور((غلام ابن منیٰ))کے نام سے مشہور ہیں کی خدمت میں حاضر تھا،آپ بغداد میں حنبلی فرقہ کے فقیہہ اور مناظرے میں ماہر مانے جاتے تھے،اس وقت وہ کسی منطقی بحث میں الجھے ہوئے تھے،بڑے شیرین گفتار تھے،میں نے انھیں دیکھا تھا اور ان سے روایتیں بھی کی ہیں،ان کی خدمت میں حاضر رہتا تھا اور ان کی باتیں سنتا تھا ان کی وفات ۶۱۰ سنہمیں ہوئی ۔

۲۰۷

ابن عالیہ کہتے ہیں کہ میں فخر اسماعیل کی خدمت میں حاضر تھا اور باتیں ہورہی تھیں کہ ایک حنبلی شخص آیا،اس شخص کا ایک کوفی کے پاس کچھ پیسہ قرض تھا اور اس نے اس کوفی سے اپنے قرض کا بہت سختی سے مطالبہ کیا تھا،اس کوفی نے یہ طے کیا تھا کہ یوم غدیر کی زیارت پر اس کا قرض ادا کرےگا،اس لئے یہ حنبلی اپنا قرض لینے کوفہ گیا تھا،یوم غدیر کا مطلب ہے(( ۱۸ ذی الحجہ))اس تاریخ کو امیرالمومنین علیہ السلام کے مزار اقدس پر بہت بڑا مجمع ہوتا ہے لوگ دنیا کے ہر گوشے سے آپ کی زیارت کو آتے ہیں اور اتنا بڑا مجمع ہوتا ہے جو ناقابل شمار ہے ۔

ابن عالیہ کہتے ہیں جب شیخ فخر اسماعیل کی مجلس میں وہ حنبلی آیا تو وہ اس سے اس کے قرض کے بارے میں پوچھنے لگے کہ کوفہ میں تم نے کیا دیکھا اور کس سے ملے،تمہارے مقروض نے تمہارا قرض ادا کیا یا نہیں اور کیا اس کے پاس تمہارا پیسہ ابھی باقی ہے اور وہ شخص ان کا جواب دے ہی رہا تھا،یہاں تک کہ اس نے کہا اے میرے سردار:کاش آپ نے کبھی غدیر کے دن امیرالمومنین ؑ کی زیارت کی ہوتی اور دیکھتے کہ ان کے مزار پر کیا کیا ہوتا ہے،صحابہ کی کیسی فضیحت کی جاتی ہے اور کیسے برے افعال انجام دئے جاتے ہیں،صحابہ کو بلند آواز میں گالیاں دی جاتی ہیں،بغیر کسی خوف اور جھجک کےخلفا کو برا کھلا کہا جاتا ہے،یہ سن کر فخر اسماعیل نے کہا وہ تو ہے لیکن اس میں شیعوں کا کیا قصور ہے؟جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا راستہ تو صاحب قبر ؑ نے دکھایا ہے اور صحابہ پر سب شتم کا دروازہ تو اس صاحبِ قبر(مولائے کائنات ؑ )نے کھولا ہے،اس حنبلی نے پوچھا صاحب قبر سے آپ کی مراد کون ہیں؟کہنے لگے:علی ابن ابی طالب علیہ السلام، ۔ اس نے کہا اے میرے سردار کیا یہ طریقہ علی ابن ابی طالب ؑ کا جاری کیا ہوا ہے،کیا علی ہی نے انھیں تعلیم دی ہے اور سب صحابہ کا راستہ دکھایا ہے وہ کہنے لگے خدا کی قسم ہاں،اس حنبلی نے کہا کہ جناب عالی!اگر علی ؑ حق پر ہیں تو ہم فلاں،فلاں سے محبت کیوں کرتے ہیں اور اگر علی ؑ باطل پر ہیں تو پھر ہم علی ؑ سے محبت کیوں کرتے ہیں اور ان سے اظہار برائت کیوں نہیں کرتے،دونوں میں سے ایک سے تو ہمیں تبرا کرنا چاہئے،علی ؑ سے یا شیخین سے ۔

۲۰۸

ابن عالیہ کہتے ہیں:یہ سن کر فخر اسماعیل جلدی سے کھرے ہوگئے اور اپنی جوتیاں پہل لیں پھر بولے خدا لعنت کرے اسماعیل پر اگر اسے اس مسئلہ کا جواب معلوم ہو!یہ کہہ کر اپنے حرم میں داخل ہوگئے،ہم بھی اٹھے اور وہاں سے واپس چلے آئے ۔(۱)

اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیعہ اپنے ائمہ ؑ سے کبھی اختلاف نہیں کرتے بلکہ ہر قدم پر ان حضرات ؑ کی پیروی کرتے ہیں،قرآن اور سنت نبی ؐ نے شیعوں کو یہ،بتایا کہ اہل بیت علیہم السلام امّت کے مرجع اور امام ہیں اور اس بنیاد پر شیعوں نے اہل بیت ؑ کا دامن تھام لیا،اب شیعوں کا عمل شیخین کے معاملات میں شیعوں کے اماموں کا آئینہ دار ہے اور بس ہم جس موضوع پر گفتگو کررہے ہیں ابھی بہت سی باتیں اس سلسلے میں مقام شھادت میں آنے والی ہیں ۔

یہ دعویٰ کہ ائمہ ؑ شیخین کی خلافت کا اقرار کرتے تھے اور ان سے راضی تھےمحتاج دلیل ہے

اب صرف ایک بات رہ گئی جس کو اس سلسلے میں ضروری سمجھا جاسکتا ہے وہ یہ کہ جب یہ بات طے ہوچکی کہ خلافت کے مستحق صرف امیرالمومنین ؑ تھے جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں اور یہی بات سوال میں بھی مفروض ہے،اس کے بعد یہ دعویٰ کہ امیرالمومنین اور دوسرے ائمہ اہل بیت ؑ اپنے اس حق خلافت سے دستبردار ہوچکے تھے اور غیروں کی خلافت کا اقرار کرچکے تھے،اصل کے خلاف ہے اس لئےمحتاج دلیل ہے اور دلیل بھی ایسی جس کے بعد بہانے اور عذر کی گنجائش نہ رہے ۔

اس لئے ہمیں اس بات کا حق حاصل ہے کہ جو آدمی اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ امیرالمومنین ؑ اپنے حق سے دستبردار ہوچکے تھے اور شیخین کی خلافت کا اقرار کرچکےتھے،کیا اس کے پاس اس دوعوے پر کوئی ایسی دلیل ہے جس پر اعتماد کیا جائے اور جس کی بنیاد پر یہ طے ہوجائے کہ گذشتہ باتیں غلط ہیں اور سابقہ تحریفات مردود ہیں یا جس دلیل کے ذریعہ سابقہ تصریحات سے منھ موڑ لیا جائے اور عملی طور پر وہ دلیل اتنی قومی ہو جو دوسری دلیلوں پر بھاری پڑے اگر اس کے پاس ایسی کوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۳۰۸،۳۰۷ ،

۲۰۹

دلیل یہ ہے تو برائے مہربانی وہ پیش کرےتا کہ ہم اس پر نظر کریں ۔

لیکن گذشتہ تصریحات سے ایک بات بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ شیخین کے بارے میں شیعوں کا نظریہ کسی تعصب اور عناد کی وجہ سے یا اصحابِ پیغمبر ؐ سے بغض و عداوت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد بہت مضبوط دلیلوں پر ہے،وہ دلیلیں جو کامیاب انسانوں کی فہم و فراست کا نتیجہ ہیں،اب اگر کوئی خواہ مخواہ یہ بات کہے کہ نہیں ان کا کامیاب لوگوں نے غلطی کی ہے اس لئے کہ ان کی دلیلوں سے قوی تر دلیلیں جن سے وہ ناواقف تھے مقام استدلال میں موجود ہیں تو میں عرض کروں گا کہ پھر انھیں معذور سمجھا جائے،خاص طور سے اہل سنت کو تو یہ بات مان لینی چاہئے اس لئے کہ ان کے یہاں خطائے اجتہادی میں بہت گنجائش ہے،اس طرح کی باتوں میں خطائے اجتہادی پر بھی ثواب ملتا ہے جب کہ ان حضرات نے معاویہ،عمروعاص اور مغیرہ بن شعبہ جیسے لوگوں کو خطائے اجتہادی کا مجرم سمجھ کے معاف کردیا ہے تو...بہرحال اللہ نیتّوں سے واقف ہے اور وہی ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے ۔

۲۱۰

سوال نمبر ۔ ۴

کیا یہ ممکن ہے کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد علی ؑ کی نص شرعی سے غافل رہی ہو اور ان پر نص کی موجودگی میں نص کی اندیکھی کی ہو؟جب کہ اللہ ان کے بارے میں فرماتا ہے کہ:تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے انتخاب کئے گئےہو کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو؟(۱)

جواب:اس سوال کا جواب ہم کئی صورت سے دے سکتے ہیں ۔

صحابہ کا نص سے تغافل یا نبی ؐ کا امر امت سے اہمال،کون بدتر ہے؟

پہلی صورت:اگر یہ بات بعید از قیاس مان لی جائے کہ صحابہ نے امر خلافت کے معاملے میں نص کی طرف توجہ نہیں دی اور نص کی موجودگی میں مولائے کائنات ؑ کو چھوڑ کے دوسرے کو خلیفہ مان لیا تو اس سے زیادہ بعید از قیاس یہ ہے کہ نبی ؐ نے امر امت کی طرف توجہ نہیں دی اور بےسردار کی فوج چھوڑ کے چلے گئے،کیا یہ ممکن ہے کہ سرکار دو عالم ؐ نے امر خلافت کو بغیر نص کے چھوڑ دیا ہو،خلافت کے حدود کی وضاحت نہیں کی ہو اور اس کو قابل توجہ نہیں سمجھا ہو جب کہ آنےوالے وقتوں میں امر خلافت نے دین میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل کرلی اور خلافت ہی مسلمانوں کے جملہ امور کی ترتیب و تنظیم اور نظم و ضبط کا مرکز قرار پائی،مسلمانوں کے درمیان جو بھی معرکہ ہوئے اور جتنی بھی خوں ریزی ہوئی وہ صرف اور صرف خلافت کے لئے ہوئی،ہر مسلمان کے دل میں خلافت کی لالچ،ہر آدمی کی خلافت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ آل عمران:آیت: ۱۱۰

۲۱۱

کے بارے میں الگ رائے،ہر آدمی کا خلافت کے بارے میں اپنا اجتہاد نہ کوئی ضاطبہ،نہ کوئی حد،نہ کوئی اصول،امر خلافت کی اہمیت کو دیکھئے خلیفہ کے عدم تشخیص کی وجہ سے مسلمانوں کو پہنچنےوالے نقصانات کا انداز کیجئے اور پھر سونچئے کے سرکار دو عالم ؐ نے اتنے اہم مسئلہ کو ت شنہ تفسیر چھوڑ دیا،نہ کوئی نص فرمائی نہ کوئی اشارہ کیا،یوں ہی امت کے ہاتھ میں دے کے چلے گئے اور وہ امت جس کے تمام انسان اپنی الگ الگ نظریے رکھتے ہیں،حضور ؐ کے تجربات شاہد ہیں کہ امت کو ایک شیرازہ میں باندھنا،ایک پلیٹ فارم پر لانا،ایک کلمہ پر متحد کرنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ مین ڈ وں کو تولنا،پھر سوچئے کہ ان تمام باتوں کے باوجود اگر حضور سرور کائنات ؐ نے خلافت کے مسئلہ کو غیرمنصوص چھوڑدیا تو یہ اسلام عظیم کے ساتھ زیادتی نہیں تو کیا ہے؟حالانکہ خدا نے اسلام کو ناقص نہیں چھوڑا ہے،اپنی نبی ؐ کو مقام نبوت میں ناقص نہیں رکھا ہے،اس نے دین کو کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تمام کردیں،پھر نبی ؐ کے بارے میں یہ کیسے خیال کیا جاسکتا ہے کہ آپ دین کو ناقص چھوڑ کے چلے گئے اور مات کو ایسی فوج قرار دیا جس کا کوئی سردار اور سپہ سالار نہیں تھا ۔ حضور سرور کائنات ؐ نے اس وقت جب کہ دعوت کا ابتدائی دور تھا،اس کےک پہلے دولت کا تصور پایا جاتا تھا نہ حکومت کا،سلطنت کی خواہش تھی نہ اقتدار کی،تب تو دعوت اسلام کو بغیر نظام و انتظام امور کے چھوڑا نہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور ؐ بغیر کسی نظام قاطع کے اسلام کو یوں ہی چھوڑ دیا جب کہ لوگوں کے دلوں میں حکومت کی طمع موجود تھی اور خلافت کی وجہ سے فخر و مباہات میں آگے بڑھنے کی ہوس پائی جاتی تھی،خاص طور سے جب کہ حضور سرور کائنات ؐ اپنے بعد ہونےوالے فتنوں سے متعدد جگہ باخبر کرچکے تھے،روایت یہاں تک ملتی ہے کہ حذیفہ ؒ کہتے ہیں سرکار ؐ نے فرمایا دجّال کے فتنہ سے زیادہ میں سے بعض مسلمانوں کے فتنوں سے خوف زدہ ہوں ۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)صحیح ابن حبان ج:۱۵ص:۲۱۸،ان احادیث کے باب میں جن میں فتنہ اور حوادث سے باخبر کیا گیا ہے،نیز ان اخبار کی علامتوں کے بیان میں جن کے ذریعہ انسان کی نجات ہوگی،اسی طرح،مجموع الزوائد،ج:۷ص:۳۳۵،میں موجود ہے مسند احمد ج:۵ص:۳۸۹،حذیفہ بن یمانی کے رسول اکرمؐ سے حدیث کے ضمن میں،موارد الضمان،ص:۴۶۸،مسند البزراج ج:۷ص:۲۳۲۔۲۳۳،جو طارق ابن شہاب نے حذیفہ سے روایت کی ہے ذیل میں،کنزالعمال ج:۱۴،ص:۳۲۲،حدیث:۳۸۸۱۲،

۲۱۲

روایات میں ہےکہ مسلسل سرکار ؐ نے بُرے بادشاہوں کی حکومت سے امت کو خبردار کرتے رہے،یہ بھی بتاتے رہے کہ یہ برے حکمراں امت کا خون بہائیں گے اور ان کی ہتک حرمت کریں گے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور سرور کائنات ؐ نے امر خلافت کو بیکار اور مہمل قرار دیا ہو اور اس پر کوئی نص وارد نہ کی ہو،ولایت کی تعریف نہ کی ہو اور اس کا تعارف نہ کرایا ہو اور حق و باطل،عدل و جور کی کوئی پہچان نہ بتائی ہو؟

اس سے زیادہ پر لطف بات تو یہ ہے کہ حضور ؐ اگر نص وارد بھی کرتے ہیں تو نامکمل جیسے صرف اس بیان پر کفایت کرتے ہیں کہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے ۔(۱)

بغیر کسی سنجیدہ تعریف کے،آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ قریش کے کس شعبے سے؟قریش میں تو اکثر وہ لوگ ہیں جو بہت بعد میں مسلمان ہوئے ۔ جب مغلوب ہوگئے تو مجبوری میں کلمہ پڑھ لیا،مسلمان ہونے سے پہلے انھوں نے اسلام سے ایک طویل جنگ لڑی،کافی خون بہائے،بہت سے اسلامی مصالح کو نقصان پہنچایا،جس کی وجہ سے دلوں میں بغض و حسد بھر گیا،پھر وہ بالکل آخر میں مسلمان ہوئے،کیا اماموں میں مولفۃ القلوب قریش بھی شامل ہیں ۔

پھر کیا قریش مجموعہ اضداد نہیں تھے،کیا ان کی دینداری،عفّت اور شرافت میں استقلال تھا؟سنئے!قریش میں ایمان کی بنیاد پر اگر درجہ بندی کی جائے اور مراتب کو ترتیب دیا جائے تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)السنن الکبری للبیھقی ج:۳ص:۱۲۱،باب صاحبان کی نسبت اقتدار کی جائےگی اگر قرآن اور فقہ کے لحاظ سے سب برابر ہوں گے،ج:۸ص:۱۴۴۔۱۴۳،السنن الکبریٰ،نسائی ج:۳ص:۱۴۳،الاحادیث المختارہ،ج:۴ص:۴۰۳،جو کچھ بکیر بن وہب نے انس سے،ج:۶ص:۱۴۳،پر روایت کی ہے،المستدرک علی صحیحین،ج:۴ص:۸۵،المصنف،ابن شیبۃ،ج:۶ص:۴۰۳۔۴۰۲،کتاب الفضائل،مسند احمد،ج:۳ص:۱۲۹۔۱۸۳،مسند انس بن مالک،ج:۴ص:۴۲۱،المعجم الاوسط ج:۴ص:۲۶،المعجم الصغیرج:۱ص:۲۶۰،مسند الطیاسی،ج:۱ص:۸۲۵۔۲۸۴،مسند ابی یعلی ج:۶ص:۳۲۱،جو سعد بن ابراہیم نے انس سے روایت کی ہے،ج:۷ص:۹۴،جو سہل ابواسود نے انس سے روایت کی ہے،المعجم الکبیرج:۱ص:۲۵۲،نیز جن مصادر پر انس بن مالک نے تکیہ کیا ہے،

۲۱۳

تاریخی اعتبار سے مندرجہ ذیل گروہ سامنے آتےہیں،پہلے درجہ پر اہل بیت نبی ؐ ہیں،اہل بیت نبی ؐ میں بھی اکچھ اعلیٰ اور کچھ کمتر ہیں،پھر ان کے بعد بدرجہ تنزیل ہی کی منزلیں ہیں،اور قریش دینداری اور تقویٰ سے دور ہو کے اخلاقی کم مائیگی،طغیان،جرم اور خباثت کی پستیوں میں گرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،مثلاً بنوامیہ جو قرآن میں شجرہ ملعونہ(۱) کے نام سے مشہور ہیں،آل ابوالعاص جنھوں نے مال خدا کو ہمیشہ اپنا مال سمجھا،بندگان خدا کو اپنا غلام اور دین کو فریب کاری(۲) کا ذریعہ سمجھا پھر کیا ضابطہ اور کیسا قانون ہے جس کے ذریعہ قریش کے اماموں کو پر کھا جائے؟

سرکار دو عالم ؐ نے خاص طور سے امت کو ان لوگوں کی حرکتوں سے خبردار کرنا ضروری سمجھا اور بڑی وضاحت سے فرمایا کہ:اس امت کی ہلاکت قریش کے لون ڈ وں کے ہاتھوں ہوگی(۳) اس طرح کی اور بھی حدیثیں ہیں جن کو دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ سرکار دو عالم ؐ نے عام قریش کو امامت کا ذمہ دار بنایا ہوگا اور کوئی اختصاص اور تحدید کے بغیر جس پر بھی لفظ قریش کا اطلاق ہو اس کی امامت کا اعلان کردیا ہوگا،بغیر کسی ایسی حد بندی کے جس کے ذریعہ قریش کے ادنیٰ لوگوں کے دلوں میں حکومت کی امید منقطع ہوجائے اور ان کی ولایت شرعی اعتبار سے ممتنع ہوجائے یہ بھی تو دیکھئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تفسیر القرطبی ج: ۱۰ ص: ۲۸۶ ،الدر المنثورج: ۵ ص: ۳۱۰ ،فتح القدیرج: ۳ ص: ۲۴۰ ۔ ۲۳۹ ،روح المعانی ج: ۱۵ ص: ۱۰۷ ،لسان المیزان ج: ۱ ص: ۱۸۹ ،تاریخ طبری ج: ۵ ،ص: ۱۲۶ ،تفسیر طبری ج: ۱۵ ص: ۱۱۲ ،اور تفسیر ابن کثیرج: ۲ ص: ۵۰)

( ۲) المستدرک علی صحیحین ج: ۴ ص: ۵۲۷ ،مجمع الزوائدج: ۵ ص: ۲۴۱ ،المعجم الاوسط ج: ۸ ص: ۶ ،المعجم الصغیرج: ۲ ص: ۲۷۱ مسند ابی یعلی ج: ۱۱ ص: ۴۰۲ والمعجم الکبیرج: ۱۲ ص: ۲۳۶ ،اورض: ۱۹ ص: ۳۸۲ ،الفتن لنعیم بن حماد ج: ۱ ص: ۱۳۰ ،

( ۳) المستدرک علی صحیحین ج: ۴ ص: ۵۲۶ اورص: ۵۷۲ ،کتاب الفتن و الملاحم،صحیح بخاری ج: ۳ ص: ۱۳۱۹ کتاب المناقب باب اسلام میں علائم نبوت ج: ۶ ص: ۲۵۸۹ ،مسند احمدج: ۲ ص: ۵۲۰ ،مسند ابی ہریرہ،مسند بن اسحاق بن راھویہ ج: ۱ ص: ۳۵۸ ۔ ۳۵۹ ،المعجم الصغیرج: ۱ ص: ۳۳۴ ،مسند طیالسی ص: ۳۲۷ ،فتح الباری ج: ۱۱ ص: ۴۷۸ ،السنن الواردہ فی الفتن ج: ۲ ص: ۴۷۲ ۔ ۴۷۱ ،الفتن لنعیم بن حمادج: ۱ ص: ۱۳۰ ،باب بنی امیہ ص: ۴۰۷ الفردوس بماثور الخطاب ج: ۴ ص: ۳۴۶ ،تاریخ کبیرج: ۳ ص: ۴۹۹ اور حالات سعید بن عمرو بن سعید بن العاصی الاموی القرشی،ج: ۷ ص: ۳۰۹ اور حالات مالک بن ظالم،الثقات ج: ۵ ص: ۳۸۸ اور حالات مالک بن ظالم،تھذیب التھذیب ج: ۱۱ ص: ۱۶ ،

۲۱۴

کہ دھلڑے سے روایت لکھی جاتی ہے کہ عمرابن خطاب نے لکھا ہے کہ ابو بکر کی بیعت ایک بے سوچا سمجھا عمل تھا جس کے شر سے اللہ نے مومنین کو بچایا(۱)

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے خطرناک فتنوں سے نجات پانے کا کیا راستہ طے ہے جن کی کوئی حد نہیں معلوم ؟ کیا ان فتنوں کے شرسے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے؟

اس سے بھی زیادہ پر لطف بات یہ ہے کہ نبی ص نص خلافت سے غافل تھے مگر مسلمان جاگ رہا تھا(غافل نہیں تھا) اور تعین خلیفہ کو ضروری سمجھتا تھا کہ وہ باربار عمر سے کہتا ہے کہ حضور اپنے بعد کسی کو خلیفہ بنا کے جائیے(۲)

بلکہ بعض لوگ تو ان خطرات کی تشریح بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں تنہائی میں اپنے باپ سے ملا تو انھوں نے مجھ سے لوگوں کے حالات پوچھے میں نے بتائے ، پھر میں نے عرض کیا اباجان ! کچھ لوگ ایسی باتیں کررہے ہیں جنھیں میں آپ تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں ، لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کسی کو خلیفہ نہیں بنائیں گے سوچئے اگر آپ اونٹ یا بکری کے چرواہے ہوتے اور آپ کو موت آجاتی اورآپ اپنے جانوروں کے گلے کو بغیر کسی چرواہے کے حوالہ کیے بغیر چلے جاتے تو پورا گلہ ضائع ہوجاتا ، پھر انسان تو بہرحال انسان ہے

--------------

(۱)صحیح بخاری ج ۶ ص:۲۵۰۳-۲۵۰۵ صحیح ابن حبان ج ۲ص ۱۴۸ باب حق الوالدین ، نیز اس بات کے انسان اپنے آباء سے پھر جائے کے بارے میں تو بیخ ، مجمع الزوائد ، ج ۶ص ۵ السنن الکبری ، نسائی ج:۴ ص ۲۷۳-۲۷۲ المصنف، ابن شیبہ ج :ج:۶ ص:۴۵۳ ، مسند البراج :ج ۱ ص :۴۱۰ ، مسند احمد ، ج: ۱ص: ۵۵ عمربن خطاب کی مسند کے ضمن میں ،مسند الشہاب ، ج :۱ ص : ۲۳۷ ، جامع العلوم والحکم ،ص :۳۸۶ ، التمہید ، ابن البر، ج:۲۲ ص ۱۵۴ الثّقات ، ابن حبان ،ج :۲ ص:۱۵۶-۱۵۳ ، کتاب الخلفاء ابوبکر بن ابی قحافہ صدیق ،کا خلافت کے لئے چناؤ ، الفصل للموصل المدرج، ج"۱ص ۴۹۳ -۴۹۰ ، الریاض النضرۃ ، ج:۲۰۲، تاریخ طبری ، ج:۲ص:۲۳۵ ،حدیث سقیفہ السیرۃ النبویۃ ج:۶ ص:۷۸- ، سقیفہ بنی ساعدہ کے ذیل میں نیز اس کے علاوہ مصادر

(۲)السنن الکبری للبیھقی ج: ۸ص:۱۴۸ ، مسندابی عوانہ ج:۴ص:۳۷۴ ، مسند ابی یعلی ، ج :اص:۱۸۲ نیز دیگر مصادر

۲۱۵

ان کی قیادت کا تو آپ کو انتظام کرنا ہی چاہئے ابن عمر کہتے ہیں کہ میرے ابا جان میری بات سے متفق ہوگئےور کچھ دیر تک اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھے سوچتے رہے،پھر بولے:خدائے عز و جل اپنے دین کی حفاظت کرےگا اگر میں نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا تو نبی ؐ نے بھی نہیں بنایا تھا اور اگر میں نے کسی کو خلیفہ بنایا تو ابوبکر نے بھی خلیفہ بنایا تھا ۔(۱)

اس مفروضہ غفلت اور اہمال کا نتیجہ

پھر یہ بھی دیکھیں کہ نبی ؐ کی اس مفروضہ غفلت اور آپ ک زعم ناقص کے مطابق نبی ؐ کے اس اہمال سے امت کو کیا کیا نقصانات پہنچے،اہل سنت کی نظر میں امر خلافت کہاں منتہی ہوتا ہے کیونکہ ان کے فقہا میں خلافت کے تیئں حدود و شرط میں بے حد اختلاف پایا جاتا ہے،یہ تو رہا نظریاتی اختلاف اب آیئے ذرا عملی اعتبار سے بھی دیکھیں تو اس خلافت کے لئے لالچی لوگوں نے اور خلافت کو چھین کے اپنے قبضہ میں کرنےوالوں نے خلافت کو کہاں پہنچایا؟حکومت ان ذلیل پاجیوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی جو ظلم و جور اور طغیان کے ماحول کے پروردہ تھے اور جن کی مذمت میں خاموش رہنے سے زبانوں نے انکار کردیا ہے ۔

نص شرعی کے انکار کی وجہ سے ظلم و جور کا سلسلہ چل پڑا اور اسلام میں فتنے اٹھے،جنگیں ہوئیں،خون کی ندیاں بہہ گئیں نہ جانے کتنے پاکیزہ خون بہائے گئے جیسے امیرالمومنین ؑ کا خون،امام حسین ؑ کا خون،اہل بیت ؑ کے منتخب افراد کا خون،پھر ان سے کم مرتبےوالوں کا خون،حلانکہ السلام خون کی عظمت اور اس کی اہمیت کا اعلان کرتا ہے(پھر آپ کے زعم ناقص کے مطابق نبی ؐ کی غفلت کی وجہ سے)مقدسات اسلامی کی ایسی توہین کی گئی کہ جس کو بیان کرنے سے زبان اور قلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح مسلم ج: ۳ ص: ۱۴۵۵ ،مسند احمدج: ۱ ص: ۴۷ ،مسند ابی عوانہ ج: ۴ ص: ۳۷۵ کتاب الامارۃ،باب خلافت و ترکہ،مسند احمدج: ۱ ص: ۴۱ ،مسند عمر بن خطاب،مسند ابی عوانہ،ج: ۴ ص: ۳۷۵ ،سنن کبریٰ للبیہقی،ج: ۸ ص: ۱۴۸ ،المصنف لعبدالرزاق ج: ۵ ص: ۴۴۸ ،

۲۱۶

دونوں ہی قاصر ہیں،حرمت کعبہ برباد ہوگئی،حرمین شریفین کی توہین کی گئی،دوسرے مقدسات کی حرمتیں بھی برباد کی گئیں ۔

یہ سب کچھ ہوا اور بہت کم میں ہوا اور یہ سب اس وقت ہوا جب وہ صحابہ جو نبی ؐ کے ساتھ زندگی گذار چکے تھے وافر مقدار میں موجود تھے انھوں نے نبی ؐ کی سلطنت دیکھی تھی،آپ کی حکومت و عدالت کا مشاہدہ کیا تھا اور آپ کی تعلیمات و ارشادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا،آپ نے فتنوں کا تذکرہ ان کے سامنے کیا تھا،آپ نے فتنوں کا تذکرہ ان کے سامنے کیا تھا ۔

پھر تو دین کمزور ہوتا گیا اور مسلمان پست سے پست تر ہوتے گئے،وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کے وجود میں ضعف آتا رہا یہاں تک کہ ہمارا یہ آتا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان کہاں سے کہاں پہنچ گئے،احساس کمتری،آپس کے اختلافات،کمزوری کا احساس مسلمانوں کی کم مائیگی جو کسی شرح و بیان کی محتاج نہیں ہے ۔ انا للہ و انّا الیہ راجعون

اسلام کی پائیدار بلندی اور اس کا کمال رفعت

اس موقعہ پر ابن ابی الحدید کہتے ہیں ابوجعفر طبری نے اپنی میں لکھا ہے کہ عمر نے قریش اور مہاجرین کے نمایا افراد کو دوسرے شہروں میں جانے پر پابندی عائد کردی تھی،اگر کوئی جاتا بھی تھا تو عمر کی اجازت سے اور ایک معین مدت کے لئے ہی جاتا تھا،پس انھوں نے عمر سے اس بات کا شکوہ کیا،یہ سن کر عمر کھڑے ہوئے اور ایک خطبہ دیا،کہنے لگے میں تو اسلام کی کسی اونٹ کی طرح برت رہا ہوں اسلام ابتدا میں اونٹ کے بچے کی طرح شیرخوار تھا،پھر اس کے دو دانت ہوئے،پھر چار دانت،پھر چھ دانت ہوئے،پھر وہ بالغ ہوگیا ہر اونٹ بالغ ہونے کے بعد نقصان کی طرف جاتا ہے تو پھر اسلام بھی بالغ ہونے کے بعد عُمر کی حدوں سے بڑھےگا تو نقصان کی طرف جائےگا یعنی بلوغ کے بعد اب صرف انحطاط کی منزل ہے،دیکھو اسلام بالغ ہوچکا ہے جیسے آٹھ سال کا کامل اونٹ اور قریش مال خدا کو اپنے لئے سمیٹ لینا چاہتے ہیں،قریش نے اپنے دل میں فرقہ پردازی اور قیادت سے الگ

۲۱۷

ہونے کی ٹھان لی ہے لیکن جب تک خطاب کا بیٹا زندہ ہے یہ نہیں ہوگا،میں فرقہ پردازی کے دروازوں کو بند کردوں گا اور قریش کی گردن پکڑے رہوں گا اور انھیں آگ میں گرنے سے روکتا رہوں گا،(۱)

دیکھا آپ نے!خلیفہ صاحب اسلما کو کس وضع کا پابند سمجھتے ہیں اسلام آٹھ سال کا اونٹ ہے،اب بڑھےگا تو بڑھاپے کی طرف جائےگا میرا خیال ہے کہ یہ واقعہ بیسوی ہجری کے آس پاس کا ہے،جب کہ یہ نشاط اسلامیہ کا ابتدائی دور تھا اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اسلام اس وقت اپنے نقطہ کمال پر پہنچ چکا تھا اور اس دور میں جو خامیاں اور جو منفی واقعات ہوئے تھے ان سے صرف نظر بھی کرلیا جائے تو ماننا پڑےگا کہ خلیفہ صاحب کے خیال کے مطابق ان کے دور میں اسلام بیسوی ہجری میں کامل ہونے کے بعد اب نقصان کی طرف مائل ہے،بیس سال کی قلیل مدت اس کے کمال کی ہے،اس کے بعد نقص کا دور شروع ہوتا ہے،سوچنے کیا یہ بات کسی عقل میں آسکتی ہے؟اور کیا انصاف یہی کہتا ہے کہ عمر کے دور کے بعد اسلام مائل بہ نقصان ہے؟جب کہ خداوند عالم نے اس دین کو قیامت تک کے لئے بھیجا ہے کہ وہ ہر دور میں عالم بشریت کی ہدایت کرے اور اپنے گوارہ آبِ احکام و دستور سے انھیں سیراب کرے عالم انسانیت کی ھدایت کرے اور قیامت تک انسان اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا رہے ۔

کیا کوئی صاحب عقل یہ بات مان لےگا کہ جس اسلام سے خدا راضی ہوا،قیامت تک کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنایا اس کے پائدار قوامین کو مکمل کیا وہ صرف بیس سال میں اپنے نقطہ کمال کو حاصل کر کے مائل بہ انحطاط ہے اور نقصان کی گہرائیوں میں گرتا چلا جائےگا ۔

جناب عالی!ماننا پڑےگا کہ امر خلافت ایسی چیز ہی نہیں تھی جس سے نبی ؐ برحق غفلت برتیں اور خود عمر بھی اپنے گذشتہ خطبہ میں اس حقیقت کے قائل ہیں اور اصل مستحق خلافت کو چھوڑ کے مسلمانوں کو جن واقعات کا سامنا کرنا پڑا وہ واقعات بھی اس بات کے شاہد ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۱۱ ص: ۱۲ ،تاریخ طبری ج: ۲ ص: ۶۷۹ اور تاریخ دمشق ج: ۳۹ ص: ۳۰۲ اور باب حادثہ واقعہ جمل ص: ۷۵ ،اور کنزالعمال ج: ۱۴ ص: ۷۵ ،حدیث: ۳۷۹۷۷

۲۱۸

عدم نص کے نظریہ کی ناکامی وجود نص کی سب سے بڑی دلیل ہے

انصاف تو یہ ہے کہ اگر وجود نص پر کوئی دلیل سوائے عملی طور سے عدم نص کے نظریہ کی ناکامی اور اعلام و مسلمین پر بیتے حادثات اور خونریز واقعات کے نہ ہوتی تو تب بھی اللہ کی طرف مسلمانوں پر حجت تمام ہونے کے لئے کافی ہے جس کے مقابلے میں آپ کا استبعاد ٹھہر نہیں سکتا نہ ہی عموم صحابہ کا تجاہل اور نہ ہی اس حجت خدا کے خلاف خروج صحابہ معیار بن سکتا ہے چاہے صحابہ جس پائے کے ہوں اور جتنے بھی محترم کیوں نہ ہوں خدا خود ارشاد فرماتا ہے کہ:

(قُلْ فَلِلَّهِالْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ)(۱)

ترجمہ آیت:((کہہ دیجئے(اے رسول ؐ )خدا کے لئے حجت بالغہ ہے اگر ہو چاہے تو وہ تم سب کی ہدایت کرسکتا ہے)) ۔

دوسری صورت:تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ صحابہ اکثر نص شرعی سے غافل رہتے ہیں اور تجاہل برتتے ہیں ۔

خود نبی ؐ کی حیات میں صحابہ کی نص سے مخالفت

اوّلاً:صلح حدیبیہ کے بعد کے واقعات ملاحظہ فرمائیں،کثرت سے احادیث موجود ہیں کہ جمہور صحابہ نے چونکہ صلح حدیبیہ میں حضور ؐ سرور کائنات نے صحابہ کی خواہشوں کے خلاف اقرار صلح کرلیا تھا تو اب صحابہ نے یہ طے کرلیا کہ ہم نبی ؐ کا حکم نہین مانیں گے چنانچہ نبی ؐ قربانی اور تحلیق کے لئے صحابہ کو باربار حکم دیتے رہے اور مسلمان انکار کرتے رہے اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا ۔

اسی طرح حجۃ الوداع میں سرکار ؐ نے احرام کی حلیت کا حکم دیا اور اس کو عمرہ قرار دینے کا حکم دیا وہیں سے عمرہ تمتّع اور حج تمتع کی ابتدا ہوئی تو سرکار فرما رہے تھے کہ اپنے احرام کو کھول دو لیکن مسلمان برابر انکار کرتے رہے اور آپ کا حکم نہیں مانا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انعام،آیت:۱۴۹

۲۱۹

مذکورہ دونوں حادثوں کی تفصیل پر غور کیجئے،آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں دونوں واقعات کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے،تاریخ و حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی یہ واقعات ملتے ہیں،پھر سوچئے کہ ان دونوں واقعات میں حکم پیغمبر ؐ سے سرتابی کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟پیغمبر ؐ ان صحابہ کے سامنے موجود ہیں اور آپ کے حکم سے سرتابی کی جارہی ہے آپ کے قول کی مخالفت کی جارہی ہے جب کہ اس سے صحابہ کا کوئی ذاتی فائدہ بھی دکھائی نہیں دیتا اب صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ صرف ہٹ دھرمی اور خودرائی کی بنا پر سرکار دو عالم ؐ کی مخالفت کررہے تھے اور یہ ان کا پرانا طریقہ تھا ۔

دوسری مثالیں ملاحظہ فرمائیں،نبی ؐ اپنے ہاتھ سے لشکر تیار کرتے ہیں اسامہ کو اس کا سردار بناتے ہیں اور تمام مسلمانوں کو جن میں شیخین بھی شامل تھے اسامہ کی قیادت میں جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیتے ہیں لیکن صحابہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور غریب اسامہ مدینہ کے باہر سراپا انتظار بنے کھڑے ہیں کہ اب صحابہ آئیں اور ہم جہاد کے لئے جائیں،یہ نص شرعی کی مخالفت نہیں تو اور کیا ہے؟خدارا بتایئے:نبی ؐ کہتے ہیں قلم اور کاغذ لاؤ ایک تحریر لکھ دوں یا لکھوادوں کہ تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے آپ چاہتی ہیں کہ ہر دور میں مسلمان گمراہی سے محفوظ رہے لیکن صحابہ مخالفت کرتے ہیں اور امت نبی ؐ کی ہدایت سے محروم ہوجاتی ہے جمعرات کی مصیبت جس دن یہ واقعہ ہوا تھا تاریخوں اور حدیثوں میں مشہور ہے اور آپ کہتے ہیں صحابہ نص سے غافل نہیں ہوسکتے:پھر یہ کیا ہے؟

مندرجہ بالا واقعات کو مقام مثال میں دیکھنے کے بعد کیا اب بھی آپ یہی کہتے ہیں کہ صحابہ کا نص سے غافل رہنا یا تجاھل کرنا بعید از قیاس ہے اور تعجب خیز ہے،حدیبیہ اور حج تمتع والے واقعات میں انکار سے ان کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں تھا لیکن امر خلافت پر نص سے انکار یا تغافل میں تو بہت سےدنیاوی فائدے تھے اس لئےکہ اگر امیرالمومنین ؑ کی بیعت پر نص سے انکار کردیتے ہیں تو ان کےلئے پھر خلافت کی جگہ خالی ہوجاتی ہے اورکسی بھی ایرے غیرے کو خلیفہ بنادینے کی گنجائش نکلتی ہے ویسے بھی خلافت اور عافیت طلبی خود اتنا بڑا شرف ہے کہ جس کو حاصل کرنے کے لئے لالچی انسان ایمان اور نص پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی قربان کرسکتے ہیں ۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367