فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ0%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید محمد سعید طباطبائی
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: صفحے: 367
مشاہدے: 183647
ڈاؤنلوڈ: 4413


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 183647 / ڈاؤنلوڈ: 4413
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امیرالمومنین ؑ اور آپ کے معاصرین کے کلام کا اثر یہ ہوا کہ شیعیت کے عقائد ظاہر ہوگئے

آپ نے گذشتہ صفحات میں کچھ تصریحات پڑھیں اور کچھ باتیں چوتھے سوال کے جواب میں بھی آنےوالی ہیں،ان تمام باتوں کو دیکھنے کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خلافت کے معاملے میں امیرالمومنین ؑ اور اصحاب پیغمبر ؐ کے نظریہ کے وقتاً فوقتاً وضاحت اور مسلسل تاکید سے ایک بڑا فائدہ جو ہوا وہ یہ کہ اکثر مسلمان اس حقیقت سے وقف اور متنبہ ہوگئے جو مسلسل چھپائی جارہی تھی،وہ حقیقت تھی خلافت کے بارے میں شیعہ عقیدہ،جب جمہور کے شور میں یہ آواز بالکل الگ سے بلند ہوئی تو لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور قرآن و سنّت میں اس کے لئے دلیلیں تلاش کرنے لگے پھر مزید دلیلیں ملتی گئیں یہاں تک کہ امیرالمومنین ؑ ہی کے زمانہ میں حقیقت آب بلّور کی طرح چمکنے لگی،ایک جماعت(شیعوں)کو اتنی بصیرت حاصل ہوگئی کہ ان لوگوں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ اس حقیقت کو اعلان کرنے کے لئے اگر انھیں جہاد بھی کرنا پڑا تو کریں گے،بلکہ اگر جان و مال کی قربانی بھی دینی پڑی تو خوشی سے دیں گے،اگر چہ نبی ؐ کی سنت کو معطل کردیا تیا تھا،جیسا کہ میں نے آپ کے ساتویں سوال کے جواب میں عرض کیا ہے،سنّت نبی ؐ کے خلاف فیصلے ہوا کرتے تھے(لیکن شیعہ عقائد نبی ؐ کی سیرت اور قرآن کی آیتوں میں اتنا واضح تھے کہ)فرقہ شیعہ کا ایک مستقل وجود تاریخ نے اس دور میں درج کرلیا اور پھر یہ عقیدہ تدریجاً مضبوط ہوتا گیا اور یہ حق کا قافلہ آخر میں ہم تک پہنچا،بہتر سمجھتا ہوں کہ بعض شواہد کا تذکرہ کرتا چلوں ۔

1 ۔ جب جمل میں امیرالمومنین ؑ کا لشکر قبیلہ طے سے گذرا تو ایک بوڑھا جو قبیلہ طے سے تعلق رکھتا تھا اور بالکل ہی ضعیف ہوچکا تھا اس نے اپنی دونوں بھوؤں کو اٹھایا اور جناب امیرالمومنین ؑ کے چہرے پر نظر کی پھر پوچھا کیا آپ ہی ابوطالب ؑ کے بیٹے ہیں،فرمایا ہاں،اس نے کہا خوش آمدید اھلاً و سہلاً و مرحباً...اگر ہم نے آپ کی بیعت نہ بھی کی ہوتی اور آپ ہم سے مدد مانگتےتو قرابت پیغمبر ؐ کی

۲۰۱

وجہ سے ہم آپ کی ضرور مدد کرتے اس لئے کہ آپ نے بڑے صالح ایام(اور بہت مشہور کارنامے)انجام دیئے ہیں،آپ کی سربلند سیرت کا بیان جو کچھ میں سنتا رہا ہوں اگر حق ہے تو مجھے قریش پر تعجب ہے کہ انھوں نے آپ کو موخّر کرکے آپ کے غیر کو مقدم کیا،انھوں نے حدود خدا کو توڑا اور خدا کے ساتھ زیادتی کی،آپ ہمارے یہاں تشریف لایئے،ہمارے قبیلہ میں کوئی آپ کی مخالفت نہیں کرےگا مگر وہ جو غلام ہوگا یا حرام زادہ ہوگا،مگر یہ کہ آپ اجازت دیں ۔(1)

آپ اس بوڑھے شخص کو دیکھیں وہ امیرالمومنین ؑ کی طرف صرف اس لئے جھک رہا ہے کہ آپ کے کارنامے اس تک پہنچے ہیں پھر وہ تعجب کررہا ہے کہ جب امیرالمومنین ؑ کی عبقریت کا شہرہ اتنا زیادہ ہے تو قریش نے آپ کے علاوہ کسی کو کیسے امیر بنالیا ۔

2 ۔ ابن ابی الحدید نے جناب ابوذر ؑ کی وفات کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ ابوذر غفاری کے پاس آپ کی وفات کے وقت کچھ لوگ آئے تھے،حدیث نبوی ؐ ہے کہ((ابوذر ؑ کی وفات کے وقت ان کے پاس سے ایک جماعت گذرےگی))ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا حدیث کو ابوعمر بن عبدالبر نے سوانح حیات جندب کے اول باب میں لکھنے سے پہلےلکھا ہے کہ ربذہ میں وفات ابوذر ؒ کے وقت جو جماعت گذری تھی اس میں حجر بن عدی اور مالک اشتر بھی تھے(حجر بن ادبر اور مالک بن الحارث اشتر)

میں(ابن ابی الحدید)کہتا ہوں کہ حجر بن ادبر وہی ہیں جن کو معاویہ نے بہت سنگدلی کے ساتھ شہید کردیا،آپ اعلام شیعہ اور عظیم لوگوں میں سے تھے اور مالک اشتر شیعوں میں اسی طرح مشہور ہیں جس طرح ابوالھذیل معتزلہ میں ۔

ہمارے استاد عبدالوہاب بن سکینہ کے سامنے کتاب الاستیعاب پڑھی جارہی تھیں میں وہیں موجود تھا جب پڑھنے والا مذکورہ بالا روایت تک پہنچا،میں اس کے ساتھ حدیث سن رہا تھا،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الامامۃ و السیاسۃ ج:1ص:52،حضرت علیؑ کی مدد کے لئے عدی بن حاتم کی اپنی قوم کو للکارنا۔

۲۰۲

تو میرے استاد عمر بن عبداللہ الدّباس نے کہا اب تو شیعہ جو چاہے کہہ سکتے ہیں اس لئے کہ شیخ مفید اور سید مرتضی تو وہی کچھ کہتے ہیں جو عثمان اور متقدمیں عثمان کے بارے میں حجر بن عدی اور مالک اشتر کہتے تھے،یہ سن کر شیخ ابن سکینہ نے استاد دبّاس کو چپ ہوجانے کا اشارہ کیا تو وہ خاموش ہوگئے ۔(1)

3 ۔ شریح بن ہانی کو مولائے کائنات ؑ نے عمروعاص کو سمجھانے کے لئے بھیجا،شریح نے عمروعاص سے کہا دیکھو بھائی جو حق تھا وہ میں نے تم تک پہنچادیا،یہ سن کر عمروعاص کا چہرہ بگڑ گیا اور کہنے لگا:میں علی ؑ کا مشورہ قبول ہی کب کرتا ہوں؟!میں نہ ان کی طرف آؤں گا اور نہ ہی ان کی رائے کو کسی شمار میں رکھتا ہوں ۔(2)

شریح کہتے ہیں:میں نے کہا اے ابن نابغہ تجھے تیری مولا اور نبی ؐ کے بعد مسلمانوں کے سردار کی رائے قبول کرنے سے کس چیز نے بارز رکھا ہے؟آپ دیکھیں کہ شریح جو ایک شیعہ تھے،ان کے الفاظ جو انھوں نے امیرالمومنین ؑ کے لئے استعمال کئے اس بات کے ثبوت ہیں کہ شیعہ مولائے کائنات ؑ کو ابوبکر،عمر اور عثمان سے مقدم سمجھتے تھے.

4 ۔ تاریخ کہتی ہے کہ زیادہ جب کوفہ کا عامل تھا تو معاویہ نے اس کو خط لکھا جو حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں تھا،اس میں معاویہ نے یہ لکھا تھا کہ حجر بن عدی کا جرم ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ تخت خلافت کے لئے سوائے آل ابی طالب ؑ کے کسی کو صالح نہیں سمجھتے ۔(3)

5 ۔ جب عبداللہ بن زبیر نے ابن مطیع کو کوفہ کا والی بنایا تو اس نے کہا،میں ضرور بالضرور عثمان اور عمر کی سیرت کی پیروی کروں گا،سائب بن مالک کھڑے ہوگئے اور کہا:عمر کی سیرت تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:15ص:100۔101،

(2)وقعۃ صفین ص:543،

(3)تاریخ طبری ج:3ص:51،226 سنہکےواقعات،الکامل فی التاریخ ج:3ص:51،333 سنہکےواقعات،مقتل شہید عثمان ج:1ص:225شہادت عمرو بن حمق خزاعی کے ذکر میں

۲۰۳

ہمارے لئے بہت کم ضرر رساں ہے سیرت عثمان سے لیکن تجھ پر واجب ہے کہ سیرت علی ؑ کی پیروی کرے اس سے کم پر ہم راضی نہیں ہیں ۔(1)

6 ۔ بعض توابین(وہ لوگ جو خون حسین ؑ کا انتقام لینے کے لئے اٹھے تھے بعد میں جناب مختار کو اپنا امیر بنالیا)کہتے ہیں کہ حصین ابن نمیر آیا در حالیکہ اس نے ہمارے خلاف لشکر تیار کیا تھا جب وہ لوگ قریب آئے تو ہم نے انھیں اتحاد کی پیشکش کی اس کے لشکر نے یہ شرط رکھی کہ ہمارے ساتھ مل کر عبدالملک مروان کے ساتھ ہوجائیں اور اس کی اطاعت میں داخل ہوجائیں اور ہم نے انھیں یہ دعوت دی کہ وہ عبیداللہ ابن زیاد کو ہمارے حوالے کردیں تا کہ ہم اس کو اپنے کچھ بھائیوں کے انتقام میں قتل کرسکیں اور عبدالملک بن مروان کو ہٹادیا جائے،آل ابن زبیر کو ہمارے شہروں سے نکال دیا جائے پھر ہم یہ حکومت اپنے نبی ؐ کے اہل بیت ؑ کے حوالے کردیں جن کی وجہ سے اللہ نے ہمیں یہ ہمت اور کرامت بخشی ہے لیکن اس قوم نے ان شرطوں کو نہیں مانا تو ہم نے بھی ان کی شرطوں کو ٹھکرادیا ۔(2)

7 ۔ بنی امیہ کے امرا اور گورنر شیعیت کی جانچ اور پرکھ کرنے کے لئے کسی سے بھی یہ پوچھتے تھے تمہارا شیخین کے بارے میں کیا نظریہ ہے اور جو ان سے اظہار برائت کرتا تھا،شیعہ سمجھا جاتا تھا اور مواخذہ کا سزاوار ہوتا تھا،اس سے پتہ چلتا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ عصر اولیٰ ہی میں مشہور ہوچکا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)انساب الاشراف ج:6ص:383،قصہ امیر مختار،تاریخ طبری ج:3ص:66،435 سنہکےواقعات،الکامل فی التاریخ ج:4ص:28،جم66 سنہکےواقعات،الفتوح لابن اعثم کوفی،ج:3ص:249،ابتداء خروج مختارؑ

(2)تاریخ طبری ج:3ص:65،383 سنہکےواقعات اور توابین کا خروج،انساب الاشراف ج،6ص:371،فی امرالتوابین الفتوح لابن اعثم کوفی ج:3ص:345،تاریخ کامل ج:4ص:65،7 سنہکےواقعات

۲۰۴

8 ۔ ملاحظہ کریں یہ ابوحمزہ شاری خارجی ہیاور بنوامیہ کے آخری دور میں مدینہ میں داخل ہوتا ہے(اور خطبہ دے کر شیعوں کی کچھ خاص پہچان بتا دیتا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہ شیعیت اسلام کے صدر اول میں ہی اپنے عقائد میں منفرد تھی اور جانی پہچانی تھی)

ابوحمزہ خارجی کے خطبہ کو دیکھیں کہتا ہے کہ:اور ہمارے شیعہ بھائی جو اگر چہ دین میں ہمارے بھائی نہین ہیں لیکن میں نے خدا کا یہ قول سنا ہے کہ(اے لوگو!میں نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہارے اندر شعبے اور قبیلے قرار دیئے تا کہ تم پہچانے جاؤ)تو یہ وہ فرقہ ہےجس نے کتاب خدا کے ذریعہ غالب آنے کی کوشش کی اور خدا کو چھوڑ کے ایک گروہ بنالیا ان کی نگاہیں قرآن میں رس ہیں نہ فقہ میں بالغ نظری ہے،تو اب حقیقت کی جانچ نہیں کرتے اور اپنے معاملات کو خواہشات نفس کا قیدی بنادیا ہے،ان کے مذھب کی بنیاد ایک قوم کی محبت پر ہے جس کو انہوں نے لازم قرار دیا ہے اور وہ لوگ انھیں کی اطاعت کرتے ہیں،گمراہی ہو یا ہدایت،رجعت کا یقین رکھتے ہیں اور مرنے کے بعد حکومت کے منتظر ہیں اور قیامت کے پہلے مبعوث ہونے کے قائل ہیں،مخلوق کے لئے علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ(جن لوگوں کو وہ عالم غیب سمجھتے ہیں ان میں کا کوئی آدمی یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کے گھر میں کیا ہے؟بلکہ یہ تک نہیں جانتا کہ اس کے کپڑے میں کیا لپٹا ہوا ہے؟یا اس کے جسم کو کس چیز نےگھیر رکھا ہے،گناہوں کی وجہ سے گناہگاروں کی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ اسی پر وہ عمل کرتے ہیں اور اس سے نکلنے کا وہ راستہ نہیں پاتے،اپنے دین میں جفا کار اور کم عقل ہیں،انھوں نے اپنے دین کی باگ ڈ ور عرب کے ایک گھروالوں کے حوالہ کردی ہے،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی(اہل بیت ؑ کی)محبت انھیں اعمال صالحہ سے بےنیاز کردےگی اور برے اعمال کی سزاؤں سے بچالےگی،خدا انھیں قتل کرےگا کہاں بہکے جارہے ہیں؟ ۔(1) مندرجہ بالا خطبہ اگر چہ شیعوں کی منقصت میں وارد ہوا ہے اور اس میں شیعوں پر بہت سارے الزامات عائد کئے گئے ہیں جن کی کوئی اصل و بنیاد نہیں ہے اور ایسے لوگوں سے شیعوں کو یہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:5ص:119،

۲۰۵

امید بھی ہے لیکن اس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ شیعوں کے عقائد اسلامی دور کی ابتدا ہی میں شائع اور مشہور ہوچکے تھے ۔

9 ۔ حق تو یہ ہے کہ اگر شیعوں کے عقائد صدر اول میں نکھر کے سامنے نہ آچکے ہوتے،خصوصاً شیخین کے غصب خلافت اور موالئے کائنات ؑ اور اہل بیت ؑ کے استحقاق خلافت کا عقیدہ تو بنی عباس اتنی آسانی سے سریر آرائے سلطنت نہ ہوجاتے،انھوں نے اپنی حکومت کی اساس ہی شیخین سے اظہار برائت پر رکھی تھی اور لوگوں کو یہی بتا رہے تھے کہ شیخین کی خلافت شرعی نہیں تھی اور صرف اہل بیت ؑ مخصوص بالخلافہ ہیں،اس سلسلے میں کچھ شواہد میں نے آپ کے دوسرےسوال کے جواب میں پیش کئے ہیں،اگر چہ خلفائے بنوعباس بھی بدل گئے اور اہل بیت اطہار ؑ سے عداوت کا اظہار کردیا،شیعیت سے الگ ہوگئے اور اس کا انکار کرنے لگے اور اس کی شدت سے مخالفت کرنے لگے،نتیجہ میں ان کے خلاف علوئین کھڑے ہوگئے اور ان کی جنگجو جماعتیں خلافت کا مطالبہ کرنےلگیں ان کے پاس بھی یہی دلیل تھی کہ خلافت کا حق حق جب اہل بیت ؑ کا ہے تو اولاد علی ؑ ہونے کی وجہ سے اہل بیت ؑ سے رشتہ ہونے کے ناطے بنوعباس سے زیادہ حقدار خلافت ہیں،یعنی ان کے دعوےکا اساس بھی شیعت ہی تھی،اگر شیعوں کے عقائد مشہور و معروف و منفرد نہ ہوچکے ہوتے تو لوگ انقلاب کے نعرے کو شیعہ پلیٹ فارم سے بلند نہیں کرسکت تھے،شیعیت ایک مستقل مذہب اور حق کی علامت بن چکا تھا اور اس حد تک اس کو صحیح سمجھا جاتا تھا کہ اسی بنیاد پر مسلمانوں کو حق کی طرف بلایا جاتا تھا اور لوگ ان کی دعوت قبول کرتے تھے پھر شیعیت کو عمل میں لاکے حاکم بن جاتے تھے ۔

شیعہ عقائد کے چہرے پر یہ نکھار کس کا عطیہ ہے؟صرف امیرالمومنین ؑ کی کوشش کا نتیجہ تھا آپ اپنی زندگی میں صحابہ کو اپنی سیرت،اپنے خطبے اور اپنے طرز عمل سے مسلسل متوجہ کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ خلافت میرا حق تھا جو غصب کرلیا گیا،میں آپ کے چوتھے سوال کے جواب میں یہ باتیںعرض کرچکا ہوں گذشتہ بیان کو سامنے رکھ کے سوچئے کس عبارت اور کس کتاب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام غاصبین خلافت سے راضی تھے،ان کا اقرار کرتے تھے اور ان کے حق میں دست بردار ہوگئے تھے تا کہ ان کی حکومت کی کوئی شرع عذر حاصل ہوسکے ۔

۲۰۶

امیرالمومنین کا واضح موقف اور علما اہل سنت کا ادراک

حق بات تو یہ ہے کہ اہل سنت کے اکثر علما اور مخصوص افراد یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن چونکہ امیرالمومنین ؑ کی عظمت سے وہ انکار نہیں کرسکتے اور آپ کی رفعت شان کا اقرار بھی کرتے ہیں لٰہذا آپ کے موقف کو غلط نہیں ٹھہراسکتے اور آپ کے دشمن کا بھی احتارم کرتے لٰہذا بعض مقامات پر غیراختیاری طور پر وہ آپ کے نظریات کا اظہار کربیٹھے ہیں کبھی کبھی ان کا خود اپنے نفس پر رقابو نہیں ہوتا اور حق ان کی زبان سے نکل ہی جاتا ہے،اس کی چند مثالیں اس وقت اس کتاب میں بھی گذرچکی ہیں جہاں ہم نے شیعوں کا ان کےائمہ ھدیٰ علیہم السلام سے اختصاص اور شیعوں کے نظریات کی ائمہ ؑ کی طرف سے تصدیق پیش کی تھی،اب ایک واقعہ پھر مقام مثال میں پیش کیا جارہا ہے،اسے غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ اہل سنت حضرات شیخین کی حقانیت کا زبردستی اقرار کرکے کس چیستان میں پھنس چکے ہیں ۔

شیخین کے متعلق امیرالمومنین ؑ کے موقف کے بارے میں اسمٰعیل حنبلی کا واقعہ

امیرالمومنین ؑ کی خلافت کے بارے میں شکایت کا تذکرہ کرنے کے بعد ابن ابی الحدید نے ایک پر لطف واقعہ لکھا ہے جو ذیل میں پیش کیا جاررہا ہے ۔

وہ کہتے ہیں مجھے یحییٰ بن سعید جو ابن عالیہ کے نام سے مشہور ہیں اور بغداد کے غربی علاقے میں((قطفتا))کےرہنےوالے ہیں ۔ بتایا(بیان کیا)کہ میں فخر اسمٰعیل بن علی حنبلی جو حنبلیوں کے فقیہ اور((غلام ابن منیٰ))کے نام سے مشہور ہیں کی خدمت میں حاضر تھا،آپ بغداد میں حنبلی فرقہ کے فقیہہ اور مناظرے میں ماہر مانے جاتے تھے،اس وقت وہ کسی منطقی بحث میں الجھے ہوئے تھے،بڑے شیرین گفتار تھے،میں نے انھیں دیکھا تھا اور ان سے روایتیں بھی کی ہیں،ان کی خدمت میں حاضر رہتا تھا اور ان کی باتیں سنتا تھا ان کی وفات 610 سنہمیں ہوئی ۔

۲۰۷

ابن عالیہ کہتے ہیں کہ میں فخر اسماعیل کی خدمت میں حاضر تھا اور باتیں ہورہی تھیں کہ ایک حنبلی شخص آیا،اس شخص کا ایک کوفی کے پاس کچھ پیسہ قرض تھا اور اس نے اس کوفی سے اپنے قرض کا بہت سختی سے مطالبہ کیا تھا،اس کوفی نے یہ طے کیا تھا کہ یوم غدیر کی زیارت پر اس کا قرض ادا کرےگا،اس لئے یہ حنبلی اپنا قرض لینے کوفہ گیا تھا،یوم غدیر کا مطلب ہے(( 18 ذی الحجہ))اس تاریخ کو امیرالمومنین علیہ السلام کے مزار اقدس پر بہت بڑا مجمع ہوتا ہے لوگ دنیا کے ہر گوشے سے آپ کی زیارت کو آتے ہیں اور اتنا بڑا مجمع ہوتا ہے جو ناقابل شمار ہے ۔

ابن عالیہ کہتے ہیں جب شیخ فخر اسماعیل کی مجلس میں وہ حنبلی آیا تو وہ اس سے اس کے قرض کے بارے میں پوچھنے لگے کہ کوفہ میں تم نے کیا دیکھا اور کس سے ملے،تمہارے مقروض نے تمہارا قرض ادا کیا یا نہیں اور کیا اس کے پاس تمہارا پیسہ ابھی باقی ہے اور وہ شخص ان کا جواب دے ہی رہا تھا،یہاں تک کہ اس نے کہا اے میرے سردار:کاش آپ نے کبھی غدیر کے دن امیرالمومنین ؑ کی زیارت کی ہوتی اور دیکھتے کہ ان کے مزار پر کیا کیا ہوتا ہے،صحابہ کی کیسی فضیحت کی جاتی ہے اور کیسے برے افعال انجام دئے جاتے ہیں،صحابہ کو بلند آواز میں گالیاں دی جاتی ہیں،بغیر کسی خوف اور جھجک کےخلفا کو برا کھلا کہا جاتا ہے،یہ سن کر فخر اسماعیل نے کہا وہ تو ہے لیکن اس میں شیعوں کا کیا قصور ہے؟جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا راستہ تو صاحب قبر ؑ نے دکھایا ہے اور صحابہ پر سب شتم کا دروازہ تو اس صاحبِ قبر(مولائے کائنات ؑ )نے کھولا ہے،اس حنبلی نے پوچھا صاحب قبر سے آپ کی مراد کون ہیں؟کہنے لگے:علی ابن ابی طالب علیہ السلام، ۔ اس نے کہا اے میرے سردار کیا یہ طریقہ علی ابن ابی طالب ؑ کا جاری کیا ہوا ہے،کیا علی ہی نے انھیں تعلیم دی ہے اور سب صحابہ کا راستہ دکھایا ہے وہ کہنے لگے خدا کی قسم ہاں،اس حنبلی نے کہا کہ جناب عالی!اگر علی ؑ حق پر ہیں تو ہم فلاں،فلاں سے محبت کیوں کرتے ہیں اور اگر علی ؑ باطل پر ہیں تو پھر ہم علی ؑ سے محبت کیوں کرتے ہیں اور ان سے اظہار برائت کیوں نہیں کرتے،دونوں میں سے ایک سے تو ہمیں تبرا کرنا چاہئے،علی ؑ سے یا شیخین سے ۔

۲۰۸

ابن عالیہ کہتے ہیں:یہ سن کر فخر اسماعیل جلدی سے کھرے ہوگئے اور اپنی جوتیاں پہل لیں پھر بولے خدا لعنت کرے اسماعیل پر اگر اسے اس مسئلہ کا جواب معلوم ہو!یہ کہہ کر اپنے حرم میں داخل ہوگئے،ہم بھی اٹھے اور وہاں سے واپس چلے آئے ۔(1)

اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیعہ اپنے ائمہ ؑ سے کبھی اختلاف نہیں کرتے بلکہ ہر قدم پر ان حضرات ؑ کی پیروی کرتے ہیں،قرآن اور سنت نبی ؐ نے شیعوں کو یہ،بتایا کہ اہل بیت علیہم السلام امّت کے مرجع اور امام ہیں اور اس بنیاد پر شیعوں نے اہل بیت ؑ کا دامن تھام لیا،اب شیعوں کا عمل شیخین کے معاملات میں شیعوں کے اماموں کا آئینہ دار ہے اور بس ہم جس موضوع پر گفتگو کررہے ہیں ابھی بہت سی باتیں اس سلسلے میں مقام شھادت میں آنے والی ہیں ۔

یہ دعویٰ کہ ائمہ ؑ شیخین کی خلافت کا اقرار کرتے تھے اور ان سے راضی تھےمحتاج دلیل ہے

اب صرف ایک بات رہ گئی جس کو اس سلسلے میں ضروری سمجھا جاسکتا ہے وہ یہ کہ جب یہ بات طے ہوچکی کہ خلافت کے مستحق صرف امیرالمومنین ؑ تھے جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں اور یہی بات سوال میں بھی مفروض ہے،اس کے بعد یہ دعویٰ کہ امیرالمومنین اور دوسرے ائمہ اہل بیت ؑ اپنے اس حق خلافت سے دستبردار ہوچکے تھے اور غیروں کی خلافت کا اقرار کرچکے تھے،اصل کے خلاف ہے اس لئےمحتاج دلیل ہے اور دلیل بھی ایسی جس کے بعد بہانے اور عذر کی گنجائش نہ رہے ۔

اس لئے ہمیں اس بات کا حق حاصل ہے کہ جو آدمی اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ امیرالمومنین ؑ اپنے حق سے دستبردار ہوچکے تھے اور شیخین کی خلافت کا اقرار کرچکےتھے،کیا اس کے پاس اس دوعوے پر کوئی ایسی دلیل ہے جس پر اعتماد کیا جائے اور جس کی بنیاد پر یہ طے ہوجائے کہ گذشتہ باتیں غلط ہیں اور سابقہ تحریفات مردود ہیں یا جس دلیل کے ذریعہ سابقہ تصریحات سے منھ موڑ لیا جائے اور عملی طور پر وہ دلیل اتنی قومی ہو جو دوسری دلیلوں پر بھاری پڑے اگر اس کے پاس ایسی کوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 308،307 ،

۲۰۹

دلیل یہ ہے تو برائے مہربانی وہ پیش کرےتا کہ ہم اس پر نظر کریں ۔

لیکن گذشتہ تصریحات سے ایک بات بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ شیخین کے بارے میں شیعوں کا نظریہ کسی تعصب اور عناد کی وجہ سے یا اصحابِ پیغمبر ؐ سے بغض و عداوت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد بہت مضبوط دلیلوں پر ہے،وہ دلیلیں جو کامیاب انسانوں کی فہم و فراست کا نتیجہ ہیں،اب اگر کوئی خواہ مخواہ یہ بات کہے کہ نہیں ان کا کامیاب لوگوں نے غلطی کی ہے اس لئے کہ ان کی دلیلوں سے قوی تر دلیلیں جن سے وہ ناواقف تھے مقام استدلال میں موجود ہیں تو میں عرض کروں گا کہ پھر انھیں معذور سمجھا جائے،خاص طور سے اہل سنت کو تو یہ بات مان لینی چاہئے اس لئے کہ ان کے یہاں خطائے اجتہادی میں بہت گنجائش ہے،اس طرح کی باتوں میں خطائے اجتہادی پر بھی ثواب ملتا ہے جب کہ ان حضرات نے معاویہ،عمروعاص اور مغیرہ بن شعبہ جیسے لوگوں کو خطائے اجتہادی کا مجرم سمجھ کے معاف کردیا ہے تو...بہرحال اللہ نیتّوں سے واقف ہے اور وہی ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے ۔

۲۱۰

سوال نمبر ۔ 4

کیا یہ ممکن ہے کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد علی ؑ کی نص شرعی سے غافل رہی ہو اور ان پر نص کی موجودگی میں نص کی اندیکھی کی ہو؟جب کہ اللہ ان کے بارے میں فرماتا ہے کہ:تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے انتخاب کئے گئےہو کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو؟(1)

جواب:اس سوال کا جواب ہم کئی صورت سے دے سکتے ہیں ۔

صحابہ کا نص سے تغافل یا نبی ؐ کا امر امت سے اہمال،کون بدتر ہے؟

پہلی صورت:اگر یہ بات بعید از قیاس مان لی جائے کہ صحابہ نے امر خلافت کے معاملے میں نص کی طرف توجہ نہیں دی اور نص کی موجودگی میں مولائے کائنات ؑ کو چھوڑ کے دوسرے کو خلیفہ مان لیا تو اس سے زیادہ بعید از قیاس یہ ہے کہ نبی ؐ نے امر امت کی طرف توجہ نہیں دی اور بےسردار کی فوج چھوڑ کے چلے گئے،کیا یہ ممکن ہے کہ سرکار دو عالم ؐ نے امر خلافت کو بغیر نص کے چھوڑ دیا ہو،خلافت کے حدود کی وضاحت نہیں کی ہو اور اس کو قابل توجہ نہیں سمجھا ہو جب کہ آنےوالے وقتوں میں امر خلافت نے دین میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل کرلی اور خلافت ہی مسلمانوں کے جملہ امور کی ترتیب و تنظیم اور نظم و ضبط کا مرکز قرار پائی،مسلمانوں کے درمیان جو بھی معرکہ ہوئے اور جتنی بھی خوں ریزی ہوئی وہ صرف اور صرف خلافت کے لئے ہوئی،ہر مسلمان کے دل میں خلافت کی لالچ،ہر آدمی کی خلافت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ آل عمران:آیت: 110

۲۱۱

کے بارے میں الگ رائے،ہر آدمی کا خلافت کے بارے میں اپنا اجتہاد نہ کوئی ضاطبہ،نہ کوئی حد،نہ کوئی اصول،امر خلافت کی اہمیت کو دیکھئے خلیفہ کے عدم تشخیص کی وجہ سے مسلمانوں کو پہنچنےوالے نقصانات کا انداز کیجئے اور پھر سونچئے کے سرکار دو عالم ؐ نے اتنے اہم مسئلہ کو ت شنہ تفسیر چھوڑ دیا،نہ کوئی نص فرمائی نہ کوئی اشارہ کیا،یوں ہی امت کے ہاتھ میں دے کے چلے گئے اور وہ امت جس کے تمام انسان اپنی الگ الگ نظریے رکھتے ہیں،حضور ؐ کے تجربات شاہد ہیں کہ امت کو ایک شیرازہ میں باندھنا،ایک پلیٹ فارم پر لانا،ایک کلمہ پر متحد کرنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ مین ڈ وں کو تولنا،پھر سوچئے کہ ان تمام باتوں کے باوجود اگر حضور سرور کائنات ؐ نے خلافت کے مسئلہ کو غیرمنصوص چھوڑدیا تو یہ اسلام عظیم کے ساتھ زیادتی نہیں تو کیا ہے؟حالانکہ خدا نے اسلام کو ناقص نہیں چھوڑا ہے،اپنی نبی ؐ کو مقام نبوت میں ناقص نہیں رکھا ہے،اس نے دین کو کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تمام کردیں،پھر نبی ؐ کے بارے میں یہ کیسے خیال کیا جاسکتا ہے کہ آپ دین کو ناقص چھوڑ کے چلے گئے اور مات کو ایسی فوج قرار دیا جس کا کوئی سردار اور سپہ سالار نہیں تھا ۔ حضور سرور کائنات ؐ نے اس وقت جب کہ دعوت کا ابتدائی دور تھا،اس کےک پہلے دولت کا تصور پایا جاتا تھا نہ حکومت کا،سلطنت کی خواہش تھی نہ اقتدار کی،تب تو دعوت اسلام کو بغیر نظام و انتظام امور کے چھوڑا نہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور ؐ بغیر کسی نظام قاطع کے اسلام کو یوں ہی چھوڑ دیا جب کہ لوگوں کے دلوں میں حکومت کی طمع موجود تھی اور خلافت کی وجہ سے فخر و مباہات میں آگے بڑھنے کی ہوس پائی جاتی تھی،خاص طور سے جب کہ حضور سرور کائنات ؐ اپنے بعد ہونےوالے فتنوں سے متعدد جگہ باخبر کرچکے تھے،روایت یہاں تک ملتی ہے کہ حذیفہ ؒ کہتے ہیں سرکار ؐ نے فرمایا دجّال کے فتنہ سے زیادہ میں سے بعض مسلمانوں کے فتنوں سے خوف زدہ ہوں ۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح ابن حبان ج:15ص:218،ان احادیث کے باب میں جن میں فتنہ اور حوادث سے باخبر کیا گیا ہے،نیز ان اخبار کی علامتوں کے بیان میں جن کے ذریعہ انسان کی نجات ہوگی،اسی طرح،مجموع الزوائد،ج:7ص:335،میں موجود ہے مسند احمد ج:5ص:389،حذیفہ بن یمانی کے رسول اکرمؐ سے حدیث کے ضمن میں،موارد الضمان،ص:468،مسند البزراج ج:7ص:232۔233،جو طارق ابن شہاب نے حذیفہ سے روایت کی ہے ذیل میں،کنزالعمال ج:14،ص:322،حدیث:38812،

۲۱۲

روایات میں ہےکہ مسلسل سرکار ؐ نے بُرے بادشاہوں کی حکومت سے امت کو خبردار کرتے رہے،یہ بھی بتاتے رہے کہ یہ برے حکمراں امت کا خون بہائیں گے اور ان کی ہتک حرمت کریں گے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور سرور کائنات ؐ نے امر خلافت کو بیکار اور مہمل قرار دیا ہو اور اس پر کوئی نص وارد نہ کی ہو،ولایت کی تعریف نہ کی ہو اور اس کا تعارف نہ کرایا ہو اور حق و باطل،عدل و جور کی کوئی پہچان نہ بتائی ہو؟

اس سے زیادہ پر لطف بات تو یہ ہے کہ حضور ؐ اگر نص وارد بھی کرتے ہیں تو نامکمل جیسے صرف اس بیان پر کفایت کرتے ہیں کہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے ۔(1)

بغیر کسی سنجیدہ تعریف کے،آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ قریش کے کس شعبے سے؟قریش میں تو اکثر وہ لوگ ہیں جو بہت بعد میں مسلمان ہوئے ۔ جب مغلوب ہوگئے تو مجبوری میں کلمہ پڑھ لیا،مسلمان ہونے سے پہلے انھوں نے اسلام سے ایک طویل جنگ لڑی،کافی خون بہائے،بہت سے اسلامی مصالح کو نقصان پہنچایا،جس کی وجہ سے دلوں میں بغض و حسد بھر گیا،پھر وہ بالکل آخر میں مسلمان ہوئے،کیا اماموں میں مولفۃ القلوب قریش بھی شامل ہیں ۔

پھر کیا قریش مجموعہ اضداد نہیں تھے،کیا ان کی دینداری،عفّت اور شرافت میں استقلال تھا؟سنئے!قریش میں ایمان کی بنیاد پر اگر درجہ بندی کی جائے اور مراتب کو ترتیب دیا جائے تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)السنن الکبری للبیھقی ج:3ص:121،باب صاحبان کی نسبت اقتدار کی جائےگی اگر قرآن اور فقہ کے لحاظ سے سب برابر ہوں گے،ج:8ص:144۔143،السنن الکبریٰ،نسائی ج:3ص:143،الاحادیث المختارہ،ج:4ص:403،جو کچھ بکیر بن وہب نے انس سے،ج:6ص:143،پر روایت کی ہے،المستدرک علی صحیحین،ج:4ص:85،المصنف،ابن شیبۃ،ج:6ص:403۔402،کتاب الفضائل،مسند احمد،ج:3ص:129۔183،مسند انس بن مالک،ج:4ص:421،المعجم الاوسط ج:4ص:26،المعجم الصغیرج:1ص:260،مسند الطیاسی،ج:1ص:825۔284،مسند ابی یعلی ج:6ص:321،جو سعد بن ابراہیم نے انس سے روایت کی ہے،ج:7ص:94،جو سہل ابواسود نے انس سے روایت کی ہے،المعجم الکبیرج:1ص:252،نیز جن مصادر پر انس بن مالک نے تکیہ کیا ہے،

۲۱۳

تاریخی اعتبار سے مندرجہ ذیل گروہ سامنے آتےہیں،پہلے درجہ پر اہل بیت نبی ؐ ہیں،اہل بیت نبی ؐ میں بھی اکچھ اعلیٰ اور کچھ کمتر ہیں،پھر ان کے بعد بدرجہ تنزیل ہی کی منزلیں ہیں،اور قریش دینداری اور تقویٰ سے دور ہو کے اخلاقی کم مائیگی،طغیان،جرم اور خباثت کی پستیوں میں گرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،مثلاً بنوامیہ جو قرآن میں شجرہ ملعونہ(1) کے نام سے مشہور ہیں،آل ابوالعاص جنھوں نے مال خدا کو ہمیشہ اپنا مال سمجھا،بندگان خدا کو اپنا غلام اور دین کو فریب کاری(2) کا ذریعہ سمجھا پھر کیا ضابطہ اور کیسا قانون ہے جس کے ذریعہ قریش کے اماموں کو پر کھا جائے؟

سرکار دو عالم ؐ نے خاص طور سے امت کو ان لوگوں کی حرکتوں سے خبردار کرنا ضروری سمجھا اور بڑی وضاحت سے فرمایا کہ:اس امت کی ہلاکت قریش کے لون ڈ وں کے ہاتھوں ہوگی(3) اس طرح کی اور بھی حدیثیں ہیں جن کو دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ سرکار دو عالم ؐ نے عام قریش کو امامت کا ذمہ دار بنایا ہوگا اور کوئی اختصاص اور تحدید کے بغیر جس پر بھی لفظ قریش کا اطلاق ہو اس کی امامت کا اعلان کردیا ہوگا،بغیر کسی ایسی حد بندی کے جس کے ذریعہ قریش کے ادنیٰ لوگوں کے دلوں میں حکومت کی امید منقطع ہوجائے اور ان کی ولایت شرعی اعتبار سے ممتنع ہوجائے یہ بھی تو دیکھئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تفسیر القرطبی ج: 10 ص: 286 ،الدر المنثورج: 5 ص: 310 ،فتح القدیرج: 3 ص: 240 ۔ 239 ،روح المعانی ج: 15 ص: 107 ،لسان المیزان ج: 1 ص: 189 ،تاریخ طبری ج: 5 ،ص: 126 ،تفسیر طبری ج: 15 ص: 112 ،اور تفسیر ابن کثیرج: 2 ص: 50)

( 2) المستدرک علی صحیحین ج: 4 ص: 527 ،مجمع الزوائدج: 5 ص: 241 ،المعجم الاوسط ج: 8 ص: 6 ،المعجم الصغیرج: 2 ص: 271 مسند ابی یعلی ج: 11 ص: 402 والمعجم الکبیرج: 12 ص: 236 ،اورض: 19 ص: 382 ،الفتن لنعیم بن حماد ج: 1 ص: 130 ،

( 3) المستدرک علی صحیحین ج: 4 ص: 526 اورص: 572 ،کتاب الفتن و الملاحم،صحیح بخاری ج: 3 ص: 1319 کتاب المناقب باب اسلام میں علائم نبوت ج: 6 ص: 2589 ،مسند احمدج: 2 ص: 520 ،مسند ابی ہریرہ،مسند بن اسحاق بن راھویہ ج: 1 ص: 358 ۔ 359 ،المعجم الصغیرج: 1 ص: 334 ،مسند طیالسی ص: 327 ،فتح الباری ج: 11 ص: 478 ،السنن الواردہ فی الفتن ج: 2 ص: 472 ۔ 471 ،الفتن لنعیم بن حمادج: 1 ص: 130 ،باب بنی امیہ ص: 407 الفردوس بماثور الخطاب ج: 4 ص: 346 ،تاریخ کبیرج: 3 ص: 499 اور حالات سعید بن عمرو بن سعید بن العاصی الاموی القرشی،ج: 7 ص: 309 اور حالات مالک بن ظالم،الثقات ج: 5 ص: 388 اور حالات مالک بن ظالم،تھذیب التھذیب ج: 11 ص: 16 ،

۲۱۴

کہ دھلڑے سے روایت لکھی جاتی ہے کہ عمرابن خطاب نے لکھا ہے کہ ابو بکر کی بیعت ایک بے سوچا سمجھا عمل تھا جس کے شر سے اللہ نے مومنین کو بچایا(1)

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے خطرناک فتنوں سے نجات پانے کا کیا راستہ طے ہے جن کی کوئی حد نہیں معلوم ؟ کیا ان فتنوں کے شرسے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے؟

اس سے بھی زیادہ پر لطف بات یہ ہے کہ نبی ص نص خلافت سے غافل تھے مگر مسلمان جاگ رہا تھا(غافل نہیں تھا) اور تعین خلیفہ کو ضروری سمجھتا تھا کہ وہ باربار عمر سے کہتا ہے کہ حضور اپنے بعد کسی کو خلیفہ بنا کے جائیے(2)

بلکہ بعض لوگ تو ان خطرات کی تشریح بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں تنہائی میں اپنے باپ سے ملا تو انھوں نے مجھ سے لوگوں کے حالات پوچھے میں نے بتائے ، پھر میں نے عرض کیا اباجان ! کچھ لوگ ایسی باتیں کررہے ہیں جنھیں میں آپ تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں ، لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کسی کو خلیفہ نہیں بنائیں گے سوچئے اگر آپ اونٹ یا بکری کے چرواہے ہوتے اور آپ کو موت آجاتی اورآپ اپنے جانوروں کے گلے کو بغیر کسی چرواہے کے حوالہ کیے بغیر چلے جاتے تو پورا گلہ ضائع ہوجاتا ، پھر انسان تو بہرحال انسان ہے

--------------

(1)صحیح بخاری ج 6 ص:2503-2505 صحیح ابن حبان ج 2ص 148 باب حق الوالدین ، نیز اس بات کے انسان اپنے آباء سے پھر جائے کے بارے میں تو بیخ ، مجمع الزوائد ، ج 6ص 5 السنن الکبری ، نسائی ج:4 ص 273-272 المصنف، ابن شیبہ ج :ج:6 ص:453 ، مسند البراج :ج 1 ص :410 ، مسند احمد ، ج: 1ص: 55 عمربن خطاب کی مسند کے ضمن میں ،مسند الشہاب ، ج :1 ص : 237 ، جامع العلوم والحکم ،ص :386 ، التمہید ، ابن البر، ج:22 ص 154 الثّقات ، ابن حبان ،ج :2 ص:156-153 ، کتاب الخلفاء ابوبکر بن ابی قحافہ صدیق ،کا خلافت کے لئے چناؤ ، الفصل للموصل المدرج، ج"1ص 493 -490 ، الریاض النضرۃ ، ج:202، تاریخ طبری ، ج:2ص:235 ،حدیث سقیفہ السیرۃ النبویۃ ج:6 ص:78- ، سقیفہ بنی ساعدہ کے ذیل میں نیز اس کے علاوہ مصادر

(2)السنن الکبری للبیھقی ج: 8ص:148 ، مسندابی عوانہ ج:4ص:374 ، مسند ابی یعلی ، ج :اص:182 نیز دیگر مصادر

۲۱۵

ان کی قیادت کا تو آپ کو انتظام کرنا ہی چاہئے ابن عمر کہتے ہیں کہ میرے ابا جان میری بات سے متفق ہوگئےور کچھ دیر تک اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھے سوچتے رہے،پھر بولے:خدائے عز و جل اپنے دین کی حفاظت کرےگا اگر میں نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا تو نبی ؐ نے بھی نہیں بنایا تھا اور اگر میں نے کسی کو خلیفہ بنایا تو ابوبکر نے بھی خلیفہ بنایا تھا ۔(1)

اس مفروضہ غفلت اور اہمال کا نتیجہ

پھر یہ بھی دیکھیں کہ نبی ؐ کی اس مفروضہ غفلت اور آپ ک زعم ناقص کے مطابق نبی ؐ کے اس اہمال سے امت کو کیا کیا نقصانات پہنچے،اہل سنت کی نظر میں امر خلافت کہاں منتہی ہوتا ہے کیونکہ ان کے فقہا میں خلافت کے تیئں حدود و شرط میں بے حد اختلاف پایا جاتا ہے،یہ تو رہا نظریاتی اختلاف اب آیئے ذرا عملی اعتبار سے بھی دیکھیں تو اس خلافت کے لئے لالچی لوگوں نے اور خلافت کو چھین کے اپنے قبضہ میں کرنےوالوں نے خلافت کو کہاں پہنچایا؟حکومت ان ذلیل پاجیوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی جو ظلم و جور اور طغیان کے ماحول کے پروردہ تھے اور جن کی مذمت میں خاموش رہنے سے زبانوں نے انکار کردیا ہے ۔

نص شرعی کے انکار کی وجہ سے ظلم و جور کا سلسلہ چل پڑا اور اسلام میں فتنے اٹھے،جنگیں ہوئیں،خون کی ندیاں بہہ گئیں نہ جانے کتنے پاکیزہ خون بہائے گئے جیسے امیرالمومنین ؑ کا خون،امام حسین ؑ کا خون،اہل بیت ؑ کے منتخب افراد کا خون،پھر ان سے کم مرتبےوالوں کا خون،حلانکہ السلام خون کی عظمت اور اس کی اہمیت کا اعلان کرتا ہے(پھر آپ کے زعم ناقص کے مطابق نبی ؐ کی غفلت کی وجہ سے)مقدسات اسلامی کی ایسی توہین کی گئی کہ جس کو بیان کرنے سے زبان اور قلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح مسلم ج: 3 ص: 1455 ،مسند احمدج: 1 ص: 47 ،مسند ابی عوانہ ج: 4 ص: 375 کتاب الامارۃ،باب خلافت و ترکہ،مسند احمدج: 1 ص: 41 ،مسند عمر بن خطاب،مسند ابی عوانہ،ج: 4 ص: 375 ،سنن کبریٰ للبیہقی،ج: 8 ص: 148 ،المصنف لعبدالرزاق ج: 5 ص: 448 ،

۲۱۶

دونوں ہی قاصر ہیں،حرمت کعبہ برباد ہوگئی،حرمین شریفین کی توہین کی گئی،دوسرے مقدسات کی حرمتیں بھی برباد کی گئیں ۔

یہ سب کچھ ہوا اور بہت کم میں ہوا اور یہ سب اس وقت ہوا جب وہ صحابہ جو نبی ؐ کے ساتھ زندگی گذار چکے تھے وافر مقدار میں موجود تھے انھوں نے نبی ؐ کی سلطنت دیکھی تھی،آپ کی حکومت و عدالت کا مشاہدہ کیا تھا اور آپ کی تعلیمات و ارشادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا،آپ نے فتنوں کا تذکرہ ان کے سامنے کیا تھا،آپ نے فتنوں کا تذکرہ ان کے سامنے کیا تھا ۔

پھر تو دین کمزور ہوتا گیا اور مسلمان پست سے پست تر ہوتے گئے،وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کے وجود میں ضعف آتا رہا یہاں تک کہ ہمارا یہ آتا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان کہاں سے کہاں پہنچ گئے،احساس کمتری،آپس کے اختلافات،کمزوری کا احساس مسلمانوں کی کم مائیگی جو کسی شرح و بیان کی محتاج نہیں ہے ۔ انا للہ و انّا الیہ راجعون

اسلام کی پائیدار بلندی اور اس کا کمال رفعت

اس موقعہ پر ابن ابی الحدید کہتے ہیں ابوجعفر طبری نے اپنی میں لکھا ہے کہ عمر نے قریش اور مہاجرین کے نمایا افراد کو دوسرے شہروں میں جانے پر پابندی عائد کردی تھی،اگر کوئی جاتا بھی تھا تو عمر کی اجازت سے اور ایک معین مدت کے لئے ہی جاتا تھا،پس انھوں نے عمر سے اس بات کا شکوہ کیا،یہ سن کر عمر کھڑے ہوئے اور ایک خطبہ دیا،کہنے لگے میں تو اسلام کی کسی اونٹ کی طرح برت رہا ہوں اسلام ابتدا میں اونٹ کے بچے کی طرح شیرخوار تھا،پھر اس کے دو دانت ہوئے،پھر چار دانت،پھر چھ دانت ہوئے،پھر وہ بالغ ہوگیا ہر اونٹ بالغ ہونے کے بعد نقصان کی طرف جاتا ہے تو پھر اسلام بھی بالغ ہونے کے بعد عُمر کی حدوں سے بڑھےگا تو نقصان کی طرف جائےگا یعنی بلوغ کے بعد اب صرف انحطاط کی منزل ہے،دیکھو اسلام بالغ ہوچکا ہے جیسے آٹھ سال کا کامل اونٹ اور قریش مال خدا کو اپنے لئے سمیٹ لینا چاہتے ہیں،قریش نے اپنے دل میں فرقہ پردازی اور قیادت سے الگ

۲۱۷

ہونے کی ٹھان لی ہے لیکن جب تک خطاب کا بیٹا زندہ ہے یہ نہیں ہوگا،میں فرقہ پردازی کے دروازوں کو بند کردوں گا اور قریش کی گردن پکڑے رہوں گا اور انھیں آگ میں گرنے سے روکتا رہوں گا،(1)

دیکھا آپ نے!خلیفہ صاحب اسلما کو کس وضع کا پابند سمجھتے ہیں اسلام آٹھ سال کا اونٹ ہے،اب بڑھےگا تو بڑھاپے کی طرف جائےگا میرا خیال ہے کہ یہ واقعہ بیسوی ہجری کے آس پاس کا ہے،جب کہ یہ نشاط اسلامیہ کا ابتدائی دور تھا اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اسلام اس وقت اپنے نقطہ کمال پر پہنچ چکا تھا اور اس دور میں جو خامیاں اور جو منفی واقعات ہوئے تھے ان سے صرف نظر بھی کرلیا جائے تو ماننا پڑےگا کہ خلیفہ صاحب کے خیال کے مطابق ان کے دور میں اسلام بیسوی ہجری میں کامل ہونے کے بعد اب نقصان کی طرف مائل ہے،بیس سال کی قلیل مدت اس کے کمال کی ہے،اس کے بعد نقص کا دور شروع ہوتا ہے،سوچنے کیا یہ بات کسی عقل میں آسکتی ہے؟اور کیا انصاف یہی کہتا ہے کہ عمر کے دور کے بعد اسلام مائل بہ نقصان ہے؟جب کہ خداوند عالم نے اس دین کو قیامت تک کے لئے بھیجا ہے کہ وہ ہر دور میں عالم بشریت کی ہدایت کرے اور اپنے گوارہ آبِ احکام و دستور سے انھیں سیراب کرے عالم انسانیت کی ھدایت کرے اور قیامت تک انسان اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا رہے ۔

کیا کوئی صاحب عقل یہ بات مان لےگا کہ جس اسلام سے خدا راضی ہوا،قیامت تک کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنایا اس کے پائدار قوامین کو مکمل کیا وہ صرف بیس سال میں اپنے نقطہ کمال کو حاصل کر کے مائل بہ انحطاط ہے اور نقصان کی گہرائیوں میں گرتا چلا جائےگا ۔

جناب عالی!ماننا پڑےگا کہ امر خلافت ایسی چیز ہی نہیں تھی جس سے نبی ؐ برحق غفلت برتیں اور خود عمر بھی اپنے گذشتہ خطبہ میں اس حقیقت کے قائل ہیں اور اصل مستحق خلافت کو چھوڑ کے مسلمانوں کو جن واقعات کا سامنا کرنا پڑا وہ واقعات بھی اس بات کے شاہد ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغہ ج: 11 ص: 12 ،تاریخ طبری ج: 2 ص: 679 اور تاریخ دمشق ج: 39 ص: 302 اور باب حادثہ واقعہ جمل ص: 75 ،اور کنزالعمال ج: 14 ص: 75 ،حدیث: 37977

۲۱۸

عدم نص کے نظریہ کی ناکامی وجود نص کی سب سے بڑی دلیل ہے

انصاف تو یہ ہے کہ اگر وجود نص پر کوئی دلیل سوائے عملی طور سے عدم نص کے نظریہ کی ناکامی اور اعلام و مسلمین پر بیتے حادثات اور خونریز واقعات کے نہ ہوتی تو تب بھی اللہ کی طرف مسلمانوں پر حجت تمام ہونے کے لئے کافی ہے جس کے مقابلے میں آپ کا استبعاد ٹھہر نہیں سکتا نہ ہی عموم صحابہ کا تجاہل اور نہ ہی اس حجت خدا کے خلاف خروج صحابہ معیار بن سکتا ہے چاہے صحابہ جس پائے کے ہوں اور جتنے بھی محترم کیوں نہ ہوں خدا خود ارشاد فرماتا ہے کہ:

(قُلْ فَلِلَّهِالْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ)(1)

ترجمہ آیت:((کہہ دیجئے(اے رسول ؐ )خدا کے لئے حجت بالغہ ہے اگر ہو چاہے تو وہ تم سب کی ہدایت کرسکتا ہے)) ۔

دوسری صورت:تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ صحابہ اکثر نص شرعی سے غافل رہتے ہیں اور تجاہل برتتے ہیں ۔

خود نبی ؐ کی حیات میں صحابہ کی نص سے مخالفت

اوّلاً:صلح حدیبیہ کے بعد کے واقعات ملاحظہ فرمائیں،کثرت سے احادیث موجود ہیں کہ جمہور صحابہ نے چونکہ صلح حدیبیہ میں حضور ؐ سرور کائنات نے صحابہ کی خواہشوں کے خلاف اقرار صلح کرلیا تھا تو اب صحابہ نے یہ طے کرلیا کہ ہم نبی ؐ کا حکم نہین مانیں گے چنانچہ نبی ؐ قربانی اور تحلیق کے لئے صحابہ کو باربار حکم دیتے رہے اور مسلمان انکار کرتے رہے اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا ۔

اسی طرح حجۃ الوداع میں سرکار ؐ نے احرام کی حلیت کا حکم دیا اور اس کو عمرہ قرار دینے کا حکم دیا وہیں سے عمرہ تمتّع اور حج تمتع کی ابتدا ہوئی تو سرکار فرما رہے تھے کہ اپنے احرام کو کھول دو لیکن مسلمان برابر انکار کرتے رہے اور آپ کا حکم نہیں مانا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ انعام،آیت:149

۲۱۹

مذکورہ دونوں حادثوں کی تفصیل پر غور کیجئے،آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں دونوں واقعات کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے،تاریخ و حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی یہ واقعات ملتے ہیں،پھر سوچئے کہ ان دونوں واقعات میں حکم پیغمبر ؐ سے سرتابی کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟پیغمبر ؐ ان صحابہ کے سامنے موجود ہیں اور آپ کے حکم سے سرتابی کی جارہی ہے آپ کے قول کی مخالفت کی جارہی ہے جب کہ اس سے صحابہ کا کوئی ذاتی فائدہ بھی دکھائی نہیں دیتا اب صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ صرف ہٹ دھرمی اور خودرائی کی بنا پر سرکار دو عالم ؐ کی مخالفت کررہے تھے اور یہ ان کا پرانا طریقہ تھا ۔

دوسری مثالیں ملاحظہ فرمائیں،نبی ؐ اپنے ہاتھ سے لشکر تیار کرتے ہیں اسامہ کو اس کا سردار بناتے ہیں اور تمام مسلمانوں کو جن میں شیخین بھی شامل تھے اسامہ کی قیادت میں جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیتے ہیں لیکن صحابہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور غریب اسامہ مدینہ کے باہر سراپا انتظار بنے کھڑے ہیں کہ اب صحابہ آئیں اور ہم جہاد کے لئے جائیں،یہ نص شرعی کی مخالفت نہیں تو اور کیا ہے؟خدارا بتایئے:نبی ؐ کہتے ہیں قلم اور کاغذ لاؤ ایک تحریر لکھ دوں یا لکھوادوں کہ تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے آپ چاہتی ہیں کہ ہر دور میں مسلمان گمراہی سے محفوظ رہے لیکن صحابہ مخالفت کرتے ہیں اور امت نبی ؐ کی ہدایت سے محروم ہوجاتی ہے جمعرات کی مصیبت جس دن یہ واقعہ ہوا تھا تاریخوں اور حدیثوں میں مشہور ہے اور آپ کہتے ہیں صحابہ نص سے غافل نہیں ہوسکتے:پھر یہ کیا ہے؟

مندرجہ بالا واقعات کو مقام مثال میں دیکھنے کے بعد کیا اب بھی آپ یہی کہتے ہیں کہ صحابہ کا نص سے غافل رہنا یا تجاھل کرنا بعید از قیاس ہے اور تعجب خیز ہے،حدیبیہ اور حج تمتع والے واقعات میں انکار سے ان کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں تھا لیکن امر خلافت پر نص سے انکار یا تغافل میں تو بہت سےدنیاوی فائدے تھے اس لئےکہ اگر امیرالمومنین ؑ کی بیعت پر نص سے انکار کردیتے ہیں تو ان کےلئے پھر خلافت کی جگہ خالی ہوجاتی ہے اورکسی بھی ایرے غیرے کو خلیفہ بنادینے کی گنجائش نکلتی ہے ویسے بھی خلافت اور عافیت طلبی خود اتنا بڑا شرف ہے کہ جس کو حاصل کرنے کے لئے لالچی انسان ایمان اور نص پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی قربان کرسکتے ہیں ۔

۲۲۰