فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ15%

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ مؤلف:
: مولانا شاہ مظاہر حسین
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 367

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206449 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ

فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ جلد ۲

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

امیرالمومنین ؑ اور آپ کے معاصرین کے کلام کا اثر یہ ہوا کہ شیعیت کے عقائد ظاہر ہوگئے

آپ نے گذشتہ صفحات میں کچھ تصریحات پڑھیں اور کچھ باتیں چوتھے سوال کے جواب میں بھی آنےوالی ہیں،ان تمام باتوں کو دیکھنے کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خلافت کے معاملے میں امیرالمومنین ؑ اور اصحاب پیغمبر ؐ کے نظریہ کے وقتاً فوقتاً وضاحت اور مسلسل تاکید سے ایک بڑا فائدہ جو ہوا وہ یہ کہ اکثر مسلمان اس حقیقت سے وقف اور متنبہ ہوگئے جو مسلسل چھپائی جارہی تھی،وہ حقیقت تھی خلافت کے بارے میں شیعہ عقیدہ،جب جمہور کے شور میں یہ آواز بالکل الگ سے بلند ہوئی تو لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور قرآن و سنّت میں اس کے لئے دلیلیں تلاش کرنے لگے پھر مزید دلیلیں ملتی گئیں یہاں تک کہ امیرالمومنین ؑ ہی کے زمانہ میں حقیقت آب بلّور کی طرح چمکنے لگی،ایک جماعت(شیعوں)کو اتنی بصیرت حاصل ہوگئی کہ ان لوگوں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ اس حقیقت کو اعلان کرنے کے لئے اگر انھیں جہاد بھی کرنا پڑا تو کریں گے،بلکہ اگر جان و مال کی قربانی بھی دینی پڑی تو خوشی سے دیں گے،اگر چہ نبی ؐ کی سنت کو معطل کردیا تیا تھا،جیسا کہ میں نے آپ کے ساتویں سوال کے جواب میں عرض کیا ہے،سنّت نبی ؐ کے خلاف فیصلے ہوا کرتے تھے(لیکن شیعہ عقائد نبی ؐ کی سیرت اور قرآن کی آیتوں میں اتنا واضح تھے کہ)فرقہ شیعہ کا ایک مستقل وجود تاریخ نے اس دور میں درج کرلیا اور پھر یہ عقیدہ تدریجاً مضبوط ہوتا گیا اور یہ حق کا قافلہ آخر میں ہم تک پہنچا،بہتر سمجھتا ہوں کہ بعض شواہد کا تذکرہ کرتا چلوں ۔

۱ ۔ جب جمل میں امیرالمومنین ؑ کا لشکر قبیلہ طے سے گذرا تو ایک بوڑھا جو قبیلہ طے سے تعلق رکھتا تھا اور بالکل ہی ضعیف ہوچکا تھا اس نے اپنی دونوں بھوؤں کو اٹھایا اور جناب امیرالمومنین ؑ کے چہرے پر نظر کی پھر پوچھا کیا آپ ہی ابوطالب ؑ کے بیٹے ہیں،فرمایا ہاں،اس نے کہا خوش آمدید اھلاً و سہلاً و مرحباً...اگر ہم نے آپ کی بیعت نہ بھی کی ہوتی اور آپ ہم سے مدد مانگتےتو قرابت پیغمبر ؐ کی

۲۰۱

وجہ سے ہم آپ کی ضرور مدد کرتے اس لئے کہ آپ نے بڑے صالح ایام(اور بہت مشہور کارنامے)انجام دیئے ہیں،آپ کی سربلند سیرت کا بیان جو کچھ میں سنتا رہا ہوں اگر حق ہے تو مجھے قریش پر تعجب ہے کہ انھوں نے آپ کو موخّر کرکے آپ کے غیر کو مقدم کیا،انھوں نے حدود خدا کو توڑا اور خدا کے ساتھ زیادتی کی،آپ ہمارے یہاں تشریف لایئے،ہمارے قبیلہ میں کوئی آپ کی مخالفت نہیں کرےگا مگر وہ جو غلام ہوگا یا حرام زادہ ہوگا،مگر یہ کہ آپ اجازت دیں ۔(۱)

آپ اس بوڑھے شخص کو دیکھیں وہ امیرالمومنین ؑ کی طرف صرف اس لئے جھک رہا ہے کہ آپ کے کارنامے اس تک پہنچے ہیں پھر وہ تعجب کررہا ہے کہ جب امیرالمومنین ؑ کی عبقریت کا شہرہ اتنا زیادہ ہے تو قریش نے آپ کے علاوہ کسی کو کیسے امیر بنالیا ۔

۲ ۔ ابن ابی الحدید نے جناب ابوذر ؑ کی وفات کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ ابوذر غفاری کے پاس آپ کی وفات کے وقت کچھ لوگ آئے تھے،حدیث نبوی ؐ ہے کہ((ابوذر ؑ کی وفات کے وقت ان کے پاس سے ایک جماعت گذرےگی))ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا حدیث کو ابوعمر بن عبدالبر نے سوانح حیات جندب کے اول باب میں لکھنے سے پہلےلکھا ہے کہ ربذہ میں وفات ابوذر ؒ کے وقت جو جماعت گذری تھی اس میں حجر بن عدی اور مالک اشتر بھی تھے(حجر بن ادبر اور مالک بن الحارث اشتر)

میں(ابن ابی الحدید)کہتا ہوں کہ حجر بن ادبر وہی ہیں جن کو معاویہ نے بہت سنگدلی کے ساتھ شہید کردیا،آپ اعلام شیعہ اور عظیم لوگوں میں سے تھے اور مالک اشتر شیعوں میں اسی طرح مشہور ہیں جس طرح ابوالھذیل معتزلہ میں ۔

ہمارے استاد عبدالوہاب بن سکینہ کے سامنے کتاب الاستیعاب پڑھی جارہی تھیں میں وہیں موجود تھا جب پڑھنے والا مذکورہ بالا روایت تک پہنچا،میں اس کے ساتھ حدیث سن رہا تھا،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)الامامۃ و السیاسۃ ج:۱ص:۵۲،حضرت علیؑ کی مدد کے لئے عدی بن حاتم کی اپنی قوم کو للکارنا۔

۲۰۲

تو میرے استاد عمر بن عبداللہ الدّباس نے کہا اب تو شیعہ جو چاہے کہہ سکتے ہیں اس لئے کہ شیخ مفید اور سید مرتضی تو وہی کچھ کہتے ہیں جو عثمان اور متقدمیں عثمان کے بارے میں حجر بن عدی اور مالک اشتر کہتے تھے،یہ سن کر شیخ ابن سکینہ نے استاد دبّاس کو چپ ہوجانے کا اشارہ کیا تو وہ خاموش ہوگئے ۔(۱)

۳ ۔ شریح بن ہانی کو مولائے کائنات ؑ نے عمروعاص کو سمجھانے کے لئے بھیجا،شریح نے عمروعاص سے کہا دیکھو بھائی جو حق تھا وہ میں نے تم تک پہنچادیا،یہ سن کر عمروعاص کا چہرہ بگڑ گیا اور کہنے لگا:میں علی ؑ کا مشورہ قبول ہی کب کرتا ہوں؟!میں نہ ان کی طرف آؤں گا اور نہ ہی ان کی رائے کو کسی شمار میں رکھتا ہوں ۔(۲)

شریح کہتے ہیں:میں نے کہا اے ابن نابغہ تجھے تیری مولا اور نبی ؐ کے بعد مسلمانوں کے سردار کی رائے قبول کرنے سے کس چیز نے بارز رکھا ہے؟آپ دیکھیں کہ شریح جو ایک شیعہ تھے،ان کے الفاظ جو انھوں نے امیرالمومنین ؑ کے لئے استعمال کئے اس بات کے ثبوت ہیں کہ شیعہ مولائے کائنات ؑ کو ابوبکر،عمر اور عثمان سے مقدم سمجھتے تھے.

۴ ۔ تاریخ کہتی ہے کہ زیادہ جب کوفہ کا عامل تھا تو معاویہ نے اس کو خط لکھا جو حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں تھا،اس میں معاویہ نے یہ لکھا تھا کہ حجر بن عدی کا جرم ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ تخت خلافت کے لئے سوائے آل ابی طالب ؑ کے کسی کو صالح نہیں سمجھتے ۔(۳)

۵ ۔ جب عبداللہ بن زبیر نے ابن مطیع کو کوفہ کا والی بنایا تو اس نے کہا،میں ضرور بالضرور عثمان اور عمر کی سیرت کی پیروی کروں گا،سائب بن مالک کھڑے ہوگئے اور کہا:عمر کی سیرت تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۱۵ص:۱۰۰۔۱۰۱،

(۲)وقعۃ صفین ص:۵۴۳،

(۳)تاریخ طبری ج:۳ص:۵۱،۲۲۶ سنہکےواقعات،الکامل فی التاریخ ج:۳ص:۵۱،۳۳۳ سنہکےواقعات،مقتل شہید عثمان ج:۱ص:۲۲۵شہادت عمرو بن حمق خزاعی کے ذکر میں

۲۰۳

ہمارے لئے بہت کم ضرر رساں ہے سیرت عثمان سے لیکن تجھ پر واجب ہے کہ سیرت علی ؑ کی پیروی کرے اس سے کم پر ہم راضی نہیں ہیں ۔(۱)

۶ ۔ بعض توابین(وہ لوگ جو خون حسین ؑ کا انتقام لینے کے لئے اٹھے تھے بعد میں جناب مختار کو اپنا امیر بنالیا)کہتے ہیں کہ حصین ابن نمیر آیا در حالیکہ اس نے ہمارے خلاف لشکر تیار کیا تھا جب وہ لوگ قریب آئے تو ہم نے انھیں اتحاد کی پیشکش کی اس کے لشکر نے یہ شرط رکھی کہ ہمارے ساتھ مل کر عبدالملک مروان کے ساتھ ہوجائیں اور اس کی اطاعت میں داخل ہوجائیں اور ہم نے انھیں یہ دعوت دی کہ وہ عبیداللہ ابن زیاد کو ہمارے حوالے کردیں تا کہ ہم اس کو اپنے کچھ بھائیوں کے انتقام میں قتل کرسکیں اور عبدالملک بن مروان کو ہٹادیا جائے،آل ابن زبیر کو ہمارے شہروں سے نکال دیا جائے پھر ہم یہ حکومت اپنے نبی ؐ کے اہل بیت ؑ کے حوالے کردیں جن کی وجہ سے اللہ نے ہمیں یہ ہمت اور کرامت بخشی ہے لیکن اس قوم نے ان شرطوں کو نہیں مانا تو ہم نے بھی ان کی شرطوں کو ٹھکرادیا ۔(۲)

۷ ۔ بنی امیہ کے امرا اور گورنر شیعیت کی جانچ اور پرکھ کرنے کے لئے کسی سے بھی یہ پوچھتے تھے تمہارا شیخین کے بارے میں کیا نظریہ ہے اور جو ان سے اظہار برائت کرتا تھا،شیعہ سمجھا جاتا تھا اور مواخذہ کا سزاوار ہوتا تھا،اس سے پتہ چلتا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ عصر اولیٰ ہی میں مشہور ہوچکا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)انساب الاشراف ج:۶ص:۳۸۳،قصہ امیر مختار،تاریخ طبری ج:۳ص:۶۶،۴۳۵ سنہکےواقعات،الکامل فی التاریخ ج:۴ص:۲۸،جم۶۶ سنہکےواقعات،الفتوح لابن اعثم کوفی،ج:۳ص:۲۴۹،ابتداء خروج مختارؑ

(۲)تاریخ طبری ج:۳ص:۶۵،۳۸۳ سنہکےواقعات اور توابین کا خروج،انساب الاشراف ج،۶ص:۳۷۱،فی امرالتوابین الفتوح لابن اعثم کوفی ج:۳ص:۳۴۵،تاریخ کامل ج:۴ص:۶۵،۷ سنہکےواقعات

۲۰۴

۸ ۔ ملاحظہ کریں یہ ابوحمزہ شاری خارجی ہیاور بنوامیہ کے آخری دور میں مدینہ میں داخل ہوتا ہے(اور خطبہ دے کر شیعوں کی کچھ خاص پہچان بتا دیتا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہ شیعیت اسلام کے صدر اول میں ہی اپنے عقائد میں منفرد تھی اور جانی پہچانی تھی)

ابوحمزہ خارجی کے خطبہ کو دیکھیں کہتا ہے کہ:اور ہمارے شیعہ بھائی جو اگر چہ دین میں ہمارے بھائی نہین ہیں لیکن میں نے خدا کا یہ قول سنا ہے کہ(اے لوگو!میں نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہارے اندر شعبے اور قبیلے قرار دیئے تا کہ تم پہچانے جاؤ)تو یہ وہ فرقہ ہےجس نے کتاب خدا کے ذریعہ غالب آنے کی کوشش کی اور خدا کو چھوڑ کے ایک گروہ بنالیا ان کی نگاہیں قرآن میں رس ہیں نہ فقہ میں بالغ نظری ہے،تو اب حقیقت کی جانچ نہیں کرتے اور اپنے معاملات کو خواہشات نفس کا قیدی بنادیا ہے،ان کے مذھب کی بنیاد ایک قوم کی محبت پر ہے جس کو انہوں نے لازم قرار دیا ہے اور وہ لوگ انھیں کی اطاعت کرتے ہیں،گمراہی ہو یا ہدایت،رجعت کا یقین رکھتے ہیں اور مرنے کے بعد حکومت کے منتظر ہیں اور قیامت کے پہلے مبعوث ہونے کے قائل ہیں،مخلوق کے لئے علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ(جن لوگوں کو وہ عالم غیب سمجھتے ہیں ان میں کا کوئی آدمی یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کے گھر میں کیا ہے؟بلکہ یہ تک نہیں جانتا کہ اس کے کپڑے میں کیا لپٹا ہوا ہے؟یا اس کے جسم کو کس چیز نےگھیر رکھا ہے،گناہوں کی وجہ سے گناہگاروں کی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ اسی پر وہ عمل کرتے ہیں اور اس سے نکلنے کا وہ راستہ نہیں پاتے،اپنے دین میں جفا کار اور کم عقل ہیں،انھوں نے اپنے دین کی باگ ڈ ور عرب کے ایک گھروالوں کے حوالہ کردی ہے،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی(اہل بیت ؑ کی)محبت انھیں اعمال صالحہ سے بےنیاز کردےگی اور برے اعمال کی سزاؤں سے بچالےگی،خدا انھیں قتل کرےگا کہاں بہکے جارہے ہیں؟ ۔(۱) مندرجہ بالا خطبہ اگر چہ شیعوں کی منقصت میں وارد ہوا ہے اور اس میں شیعوں پر بہت سارے الزامات عائد کئے گئے ہیں جن کی کوئی اصل و بنیاد نہیں ہے اور ایسے لوگوں سے شیعوں کو یہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)شرح نہج البلاغہ ج:۵ص:۱۱۹،

۲۰۵

امید بھی ہے لیکن اس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ شیعوں کے عقائد اسلامی دور کی ابتدا ہی میں شائع اور مشہور ہوچکے تھے ۔

۹ ۔ حق تو یہ ہے کہ اگر شیعوں کے عقائد صدر اول میں نکھر کے سامنے نہ آچکے ہوتے،خصوصاً شیخین کے غصب خلافت اور موالئے کائنات ؑ اور اہل بیت ؑ کے استحقاق خلافت کا عقیدہ تو بنی عباس اتنی آسانی سے سریر آرائے سلطنت نہ ہوجاتے،انھوں نے اپنی حکومت کی اساس ہی شیخین سے اظہار برائت پر رکھی تھی اور لوگوں کو یہی بتا رہے تھے کہ شیخین کی خلافت شرعی نہیں تھی اور صرف اہل بیت ؑ مخصوص بالخلافہ ہیں،اس سلسلے میں کچھ شواہد میں نے آپ کے دوسرےسوال کے جواب میں پیش کئے ہیں،اگر چہ خلفائے بنوعباس بھی بدل گئے اور اہل بیت اطہار ؑ سے عداوت کا اظہار کردیا،شیعیت سے الگ ہوگئے اور اس کا انکار کرنے لگے اور اس کی شدت سے مخالفت کرنے لگے،نتیجہ میں ان کے خلاف علوئین کھڑے ہوگئے اور ان کی جنگجو جماعتیں خلافت کا مطالبہ کرنےلگیں ان کے پاس بھی یہی دلیل تھی کہ خلافت کا حق حق جب اہل بیت ؑ کا ہے تو اولاد علی ؑ ہونے کی وجہ سے اہل بیت ؑ سے رشتہ ہونے کے ناطے بنوعباس سے زیادہ حقدار خلافت ہیں،یعنی ان کے دعوےکا اساس بھی شیعت ہی تھی،اگر شیعوں کے عقائد مشہور و معروف و منفرد نہ ہوچکے ہوتے تو لوگ انقلاب کے نعرے کو شیعہ پلیٹ فارم سے بلند نہیں کرسکت تھے،شیعیت ایک مستقل مذہب اور حق کی علامت بن چکا تھا اور اس حد تک اس کو صحیح سمجھا جاتا تھا کہ اسی بنیاد پر مسلمانوں کو حق کی طرف بلایا جاتا تھا اور لوگ ان کی دعوت قبول کرتے تھے پھر شیعیت کو عمل میں لاکے حاکم بن جاتے تھے ۔

شیعہ عقائد کے چہرے پر یہ نکھار کس کا عطیہ ہے؟صرف امیرالمومنین ؑ کی کوشش کا نتیجہ تھا آپ اپنی زندگی میں صحابہ کو اپنی سیرت،اپنے خطبے اور اپنے طرز عمل سے مسلسل متوجہ کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ خلافت میرا حق تھا جو غصب کرلیا گیا،میں آپ کے چوتھے سوال کے جواب میں یہ باتیںعرض کرچکا ہوں گذشتہ بیان کو سامنے رکھ کے سوچئے کس عبارت اور کس کتاب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام غاصبین خلافت سے راضی تھے،ان کا اقرار کرتے تھے اور ان کے حق میں دست بردار ہوگئے تھے تا کہ ان کی حکومت کی کوئی شرع عذر حاصل ہوسکے ۔

۲۰۶

امیرالمومنین کا واضح موقف اور علما اہل سنت کا ادراک

حق بات تو یہ ہے کہ اہل سنت کے اکثر علما اور مخصوص افراد یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن چونکہ امیرالمومنین ؑ کی عظمت سے وہ انکار نہیں کرسکتے اور آپ کی رفعت شان کا اقرار بھی کرتے ہیں لٰہذا آپ کے موقف کو غلط نہیں ٹھہراسکتے اور آپ کے دشمن کا بھی احتارم کرتے لٰہذا بعض مقامات پر غیراختیاری طور پر وہ آپ کے نظریات کا اظہار کربیٹھے ہیں کبھی کبھی ان کا خود اپنے نفس پر رقابو نہیں ہوتا اور حق ان کی زبان سے نکل ہی جاتا ہے،اس کی چند مثالیں اس وقت اس کتاب میں بھی گذرچکی ہیں جہاں ہم نے شیعوں کا ان کےائمہ ھدیٰ علیہم السلام سے اختصاص اور شیعوں کے نظریات کی ائمہ ؑ کی طرف سے تصدیق پیش کی تھی،اب ایک واقعہ پھر مقام مثال میں پیش کیا جارہا ہے،اسے غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ اہل سنت حضرات شیخین کی حقانیت کا زبردستی اقرار کرکے کس چیستان میں پھنس چکے ہیں ۔

شیخین کے متعلق امیرالمومنین ؑ کے موقف کے بارے میں اسمٰعیل حنبلی کا واقعہ

امیرالمومنین ؑ کی خلافت کے بارے میں شکایت کا تذکرہ کرنے کے بعد ابن ابی الحدید نے ایک پر لطف واقعہ لکھا ہے جو ذیل میں پیش کیا جاررہا ہے ۔

وہ کہتے ہیں مجھے یحییٰ بن سعید جو ابن عالیہ کے نام سے مشہور ہیں اور بغداد کے غربی علاقے میں((قطفتا))کےرہنےوالے ہیں ۔ بتایا(بیان کیا)کہ میں فخر اسمٰعیل بن علی حنبلی جو حنبلیوں کے فقیہ اور((غلام ابن منیٰ))کے نام سے مشہور ہیں کی خدمت میں حاضر تھا،آپ بغداد میں حنبلی فرقہ کے فقیہہ اور مناظرے میں ماہر مانے جاتے تھے،اس وقت وہ کسی منطقی بحث میں الجھے ہوئے تھے،بڑے شیرین گفتار تھے،میں نے انھیں دیکھا تھا اور ان سے روایتیں بھی کی ہیں،ان کی خدمت میں حاضر رہتا تھا اور ان کی باتیں سنتا تھا ان کی وفات ۶۱۰ سنہمیں ہوئی ۔

۲۰۷

ابن عالیہ کہتے ہیں کہ میں فخر اسماعیل کی خدمت میں حاضر تھا اور باتیں ہورہی تھیں کہ ایک حنبلی شخص آیا،اس شخص کا ایک کوفی کے پاس کچھ پیسہ قرض تھا اور اس نے اس کوفی سے اپنے قرض کا بہت سختی سے مطالبہ کیا تھا،اس کوفی نے یہ طے کیا تھا کہ یوم غدیر کی زیارت پر اس کا قرض ادا کرےگا،اس لئے یہ حنبلی اپنا قرض لینے کوفہ گیا تھا،یوم غدیر کا مطلب ہے(( ۱۸ ذی الحجہ))اس تاریخ کو امیرالمومنین علیہ السلام کے مزار اقدس پر بہت بڑا مجمع ہوتا ہے لوگ دنیا کے ہر گوشے سے آپ کی زیارت کو آتے ہیں اور اتنا بڑا مجمع ہوتا ہے جو ناقابل شمار ہے ۔

ابن عالیہ کہتے ہیں جب شیخ فخر اسماعیل کی مجلس میں وہ حنبلی آیا تو وہ اس سے اس کے قرض کے بارے میں پوچھنے لگے کہ کوفہ میں تم نے کیا دیکھا اور کس سے ملے،تمہارے مقروض نے تمہارا قرض ادا کیا یا نہیں اور کیا اس کے پاس تمہارا پیسہ ابھی باقی ہے اور وہ شخص ان کا جواب دے ہی رہا تھا،یہاں تک کہ اس نے کہا اے میرے سردار:کاش آپ نے کبھی غدیر کے دن امیرالمومنین ؑ کی زیارت کی ہوتی اور دیکھتے کہ ان کے مزار پر کیا کیا ہوتا ہے،صحابہ کی کیسی فضیحت کی جاتی ہے اور کیسے برے افعال انجام دئے جاتے ہیں،صحابہ کو بلند آواز میں گالیاں دی جاتی ہیں،بغیر کسی خوف اور جھجک کےخلفا کو برا کھلا کہا جاتا ہے،یہ سن کر فخر اسماعیل نے کہا وہ تو ہے لیکن اس میں شیعوں کا کیا قصور ہے؟جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا راستہ تو صاحب قبر ؑ نے دکھایا ہے اور صحابہ پر سب شتم کا دروازہ تو اس صاحبِ قبر(مولائے کائنات ؑ )نے کھولا ہے،اس حنبلی نے پوچھا صاحب قبر سے آپ کی مراد کون ہیں؟کہنے لگے:علی ابن ابی طالب علیہ السلام، ۔ اس نے کہا اے میرے سردار کیا یہ طریقہ علی ابن ابی طالب ؑ کا جاری کیا ہوا ہے،کیا علی ہی نے انھیں تعلیم دی ہے اور سب صحابہ کا راستہ دکھایا ہے وہ کہنے لگے خدا کی قسم ہاں،اس حنبلی نے کہا کہ جناب عالی!اگر علی ؑ حق پر ہیں تو ہم فلاں،فلاں سے محبت کیوں کرتے ہیں اور اگر علی ؑ باطل پر ہیں تو پھر ہم علی ؑ سے محبت کیوں کرتے ہیں اور ان سے اظہار برائت کیوں نہیں کرتے،دونوں میں سے ایک سے تو ہمیں تبرا کرنا چاہئے،علی ؑ سے یا شیخین سے ۔

۲۰۸

ابن عالیہ کہتے ہیں:یہ سن کر فخر اسماعیل جلدی سے کھرے ہوگئے اور اپنی جوتیاں پہل لیں پھر بولے خدا لعنت کرے اسماعیل پر اگر اسے اس مسئلہ کا جواب معلوم ہو!یہ کہہ کر اپنے حرم میں داخل ہوگئے،ہم بھی اٹھے اور وہاں سے واپس چلے آئے ۔(۱)

اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیعہ اپنے ائمہ ؑ سے کبھی اختلاف نہیں کرتے بلکہ ہر قدم پر ان حضرات ؑ کی پیروی کرتے ہیں،قرآن اور سنت نبی ؐ نے شیعوں کو یہ،بتایا کہ اہل بیت علیہم السلام امّت کے مرجع اور امام ہیں اور اس بنیاد پر شیعوں نے اہل بیت ؑ کا دامن تھام لیا،اب شیعوں کا عمل شیخین کے معاملات میں شیعوں کے اماموں کا آئینہ دار ہے اور بس ہم جس موضوع پر گفتگو کررہے ہیں ابھی بہت سی باتیں اس سلسلے میں مقام شھادت میں آنے والی ہیں ۔

یہ دعویٰ کہ ائمہ ؑ شیخین کی خلافت کا اقرار کرتے تھے اور ان سے راضی تھےمحتاج دلیل ہے

اب صرف ایک بات رہ گئی جس کو اس سلسلے میں ضروری سمجھا جاسکتا ہے وہ یہ کہ جب یہ بات طے ہوچکی کہ خلافت کے مستحق صرف امیرالمومنین ؑ تھے جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں اور یہی بات سوال میں بھی مفروض ہے،اس کے بعد یہ دعویٰ کہ امیرالمومنین اور دوسرے ائمہ اہل بیت ؑ اپنے اس حق خلافت سے دستبردار ہوچکے تھے اور غیروں کی خلافت کا اقرار کرچکے تھے،اصل کے خلاف ہے اس لئےمحتاج دلیل ہے اور دلیل بھی ایسی جس کے بعد بہانے اور عذر کی گنجائش نہ رہے ۔

اس لئے ہمیں اس بات کا حق حاصل ہے کہ جو آدمی اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ امیرالمومنین ؑ اپنے حق سے دستبردار ہوچکے تھے اور شیخین کی خلافت کا اقرار کرچکےتھے،کیا اس کے پاس اس دوعوے پر کوئی ایسی دلیل ہے جس پر اعتماد کیا جائے اور جس کی بنیاد پر یہ طے ہوجائے کہ گذشتہ باتیں غلط ہیں اور سابقہ تحریفات مردود ہیں یا جس دلیل کے ذریعہ سابقہ تصریحات سے منھ موڑ لیا جائے اور عملی طور پر وہ دلیل اتنی قومی ہو جو دوسری دلیلوں پر بھاری پڑے اگر اس کے پاس ایسی کوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۹ ص: ۳۰۸،۳۰۷ ،

۲۰۹

دلیل یہ ہے تو برائے مہربانی وہ پیش کرےتا کہ ہم اس پر نظر کریں ۔

لیکن گذشتہ تصریحات سے ایک بات بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ شیخین کے بارے میں شیعوں کا نظریہ کسی تعصب اور عناد کی وجہ سے یا اصحابِ پیغمبر ؐ سے بغض و عداوت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد بہت مضبوط دلیلوں پر ہے،وہ دلیلیں جو کامیاب انسانوں کی فہم و فراست کا نتیجہ ہیں،اب اگر کوئی خواہ مخواہ یہ بات کہے کہ نہیں ان کا کامیاب لوگوں نے غلطی کی ہے اس لئے کہ ان کی دلیلوں سے قوی تر دلیلیں جن سے وہ ناواقف تھے مقام استدلال میں موجود ہیں تو میں عرض کروں گا کہ پھر انھیں معذور سمجھا جائے،خاص طور سے اہل سنت کو تو یہ بات مان لینی چاہئے اس لئے کہ ان کے یہاں خطائے اجتہادی میں بہت گنجائش ہے،اس طرح کی باتوں میں خطائے اجتہادی پر بھی ثواب ملتا ہے جب کہ ان حضرات نے معاویہ،عمروعاص اور مغیرہ بن شعبہ جیسے لوگوں کو خطائے اجتہادی کا مجرم سمجھ کے معاف کردیا ہے تو...بہرحال اللہ نیتّوں سے واقف ہے اور وہی ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے ۔

۲۱۰

سوال نمبر ۔ ۴

کیا یہ ممکن ہے کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد علی ؑ کی نص شرعی سے غافل رہی ہو اور ان پر نص کی موجودگی میں نص کی اندیکھی کی ہو؟جب کہ اللہ ان کے بارے میں فرماتا ہے کہ:تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے انتخاب کئے گئےہو کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو؟(۱)

جواب:اس سوال کا جواب ہم کئی صورت سے دے سکتے ہیں ۔

صحابہ کا نص سے تغافل یا نبی ؐ کا امر امت سے اہمال،کون بدتر ہے؟

پہلی صورت:اگر یہ بات بعید از قیاس مان لی جائے کہ صحابہ نے امر خلافت کے معاملے میں نص کی طرف توجہ نہیں دی اور نص کی موجودگی میں مولائے کائنات ؑ کو چھوڑ کے دوسرے کو خلیفہ مان لیا تو اس سے زیادہ بعید از قیاس یہ ہے کہ نبی ؐ نے امر امت کی طرف توجہ نہیں دی اور بےسردار کی فوج چھوڑ کے چلے گئے،کیا یہ ممکن ہے کہ سرکار دو عالم ؐ نے امر خلافت کو بغیر نص کے چھوڑ دیا ہو،خلافت کے حدود کی وضاحت نہیں کی ہو اور اس کو قابل توجہ نہیں سمجھا ہو جب کہ آنےوالے وقتوں میں امر خلافت نے دین میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل کرلی اور خلافت ہی مسلمانوں کے جملہ امور کی ترتیب و تنظیم اور نظم و ضبط کا مرکز قرار پائی،مسلمانوں کے درمیان جو بھی معرکہ ہوئے اور جتنی بھی خوں ریزی ہوئی وہ صرف اور صرف خلافت کے لئے ہوئی،ہر مسلمان کے دل میں خلافت کی لالچ،ہر آدمی کی خلافت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) سورہ آل عمران:آیت: ۱۱۰

۲۱۱

کے بارے میں الگ رائے،ہر آدمی کا خلافت کے بارے میں اپنا اجتہاد نہ کوئی ضاطبہ،نہ کوئی حد،نہ کوئی اصول،امر خلافت کی اہمیت کو دیکھئے خلیفہ کے عدم تشخیص کی وجہ سے مسلمانوں کو پہنچنےوالے نقصانات کا انداز کیجئے اور پھر سونچئے کے سرکار دو عالم ؐ نے اتنے اہم مسئلہ کو ت شنہ تفسیر چھوڑ دیا،نہ کوئی نص فرمائی نہ کوئی اشارہ کیا،یوں ہی امت کے ہاتھ میں دے کے چلے گئے اور وہ امت جس کے تمام انسان اپنی الگ الگ نظریے رکھتے ہیں،حضور ؐ کے تجربات شاہد ہیں کہ امت کو ایک شیرازہ میں باندھنا،ایک پلیٹ فارم پر لانا،ایک کلمہ پر متحد کرنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ مین ڈ وں کو تولنا،پھر سوچئے کہ ان تمام باتوں کے باوجود اگر حضور سرور کائنات ؐ نے خلافت کے مسئلہ کو غیرمنصوص چھوڑدیا تو یہ اسلام عظیم کے ساتھ زیادتی نہیں تو کیا ہے؟حالانکہ خدا نے اسلام کو ناقص نہیں چھوڑا ہے،اپنی نبی ؐ کو مقام نبوت میں ناقص نہیں رکھا ہے،اس نے دین کو کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تمام کردیں،پھر نبی ؐ کے بارے میں یہ کیسے خیال کیا جاسکتا ہے کہ آپ دین کو ناقص چھوڑ کے چلے گئے اور مات کو ایسی فوج قرار دیا جس کا کوئی سردار اور سپہ سالار نہیں تھا ۔ حضور سرور کائنات ؐ نے اس وقت جب کہ دعوت کا ابتدائی دور تھا،اس کےک پہلے دولت کا تصور پایا جاتا تھا نہ حکومت کا،سلطنت کی خواہش تھی نہ اقتدار کی،تب تو دعوت اسلام کو بغیر نظام و انتظام امور کے چھوڑا نہیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور ؐ بغیر کسی نظام قاطع کے اسلام کو یوں ہی چھوڑ دیا جب کہ لوگوں کے دلوں میں حکومت کی طمع موجود تھی اور خلافت کی وجہ سے فخر و مباہات میں آگے بڑھنے کی ہوس پائی جاتی تھی،خاص طور سے جب کہ حضور سرور کائنات ؐ اپنے بعد ہونےوالے فتنوں سے متعدد جگہ باخبر کرچکے تھے،روایت یہاں تک ملتی ہے کہ حذیفہ ؒ کہتے ہیں سرکار ؐ نے فرمایا دجّال کے فتنہ سے زیادہ میں سے بعض مسلمانوں کے فتنوں سے خوف زدہ ہوں ۔(۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)صحیح ابن حبان ج:۱۵ص:۲۱۸،ان احادیث کے باب میں جن میں فتنہ اور حوادث سے باخبر کیا گیا ہے،نیز ان اخبار کی علامتوں کے بیان میں جن کے ذریعہ انسان کی نجات ہوگی،اسی طرح،مجموع الزوائد،ج:۷ص:۳۳۵،میں موجود ہے مسند احمد ج:۵ص:۳۸۹،حذیفہ بن یمانی کے رسول اکرمؐ سے حدیث کے ضمن میں،موارد الضمان،ص:۴۶۸،مسند البزراج ج:۷ص:۲۳۲۔۲۳۳،جو طارق ابن شہاب نے حذیفہ سے روایت کی ہے ذیل میں،کنزالعمال ج:۱۴،ص:۳۲۲،حدیث:۳۸۸۱۲،

۲۱۲

روایات میں ہےکہ مسلسل سرکار ؐ نے بُرے بادشاہوں کی حکومت سے امت کو خبردار کرتے رہے،یہ بھی بتاتے رہے کہ یہ برے حکمراں امت کا خون بہائیں گے اور ان کی ہتک حرمت کریں گے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور سرور کائنات ؐ نے امر خلافت کو بیکار اور مہمل قرار دیا ہو اور اس پر کوئی نص وارد نہ کی ہو،ولایت کی تعریف نہ کی ہو اور اس کا تعارف نہ کرایا ہو اور حق و باطل،عدل و جور کی کوئی پہچان نہ بتائی ہو؟

اس سے زیادہ پر لطف بات تو یہ ہے کہ حضور ؐ اگر نص وارد بھی کرتے ہیں تو نامکمل جیسے صرف اس بیان پر کفایت کرتے ہیں کہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے ۔(۱)

بغیر کسی سنجیدہ تعریف کے،آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ قریش کے کس شعبے سے؟قریش میں تو اکثر وہ لوگ ہیں جو بہت بعد میں مسلمان ہوئے ۔ جب مغلوب ہوگئے تو مجبوری میں کلمہ پڑھ لیا،مسلمان ہونے سے پہلے انھوں نے اسلام سے ایک طویل جنگ لڑی،کافی خون بہائے،بہت سے اسلامی مصالح کو نقصان پہنچایا،جس کی وجہ سے دلوں میں بغض و حسد بھر گیا،پھر وہ بالکل آخر میں مسلمان ہوئے،کیا اماموں میں مولفۃ القلوب قریش بھی شامل ہیں ۔

پھر کیا قریش مجموعہ اضداد نہیں تھے،کیا ان کی دینداری،عفّت اور شرافت میں استقلال تھا؟سنئے!قریش میں ایمان کی بنیاد پر اگر درجہ بندی کی جائے اور مراتب کو ترتیب دیا جائے تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)السنن الکبری للبیھقی ج:۳ص:۱۲۱،باب صاحبان کی نسبت اقتدار کی جائےگی اگر قرآن اور فقہ کے لحاظ سے سب برابر ہوں گے،ج:۸ص:۱۴۴۔۱۴۳،السنن الکبریٰ،نسائی ج:۳ص:۱۴۳،الاحادیث المختارہ،ج:۴ص:۴۰۳،جو کچھ بکیر بن وہب نے انس سے،ج:۶ص:۱۴۳،پر روایت کی ہے،المستدرک علی صحیحین،ج:۴ص:۸۵،المصنف،ابن شیبۃ،ج:۶ص:۴۰۳۔۴۰۲،کتاب الفضائل،مسند احمد،ج:۳ص:۱۲۹۔۱۸۳،مسند انس بن مالک،ج:۴ص:۴۲۱،المعجم الاوسط ج:۴ص:۲۶،المعجم الصغیرج:۱ص:۲۶۰،مسند الطیاسی،ج:۱ص:۸۲۵۔۲۸۴،مسند ابی یعلی ج:۶ص:۳۲۱،جو سعد بن ابراہیم نے انس سے روایت کی ہے،ج:۷ص:۹۴،جو سہل ابواسود نے انس سے روایت کی ہے،المعجم الکبیرج:۱ص:۲۵۲،نیز جن مصادر پر انس بن مالک نے تکیہ کیا ہے،

۲۱۳

تاریخی اعتبار سے مندرجہ ذیل گروہ سامنے آتےہیں،پہلے درجہ پر اہل بیت نبی ؐ ہیں،اہل بیت نبی ؐ میں بھی اکچھ اعلیٰ اور کچھ کمتر ہیں،پھر ان کے بعد بدرجہ تنزیل ہی کی منزلیں ہیں،اور قریش دینداری اور تقویٰ سے دور ہو کے اخلاقی کم مائیگی،طغیان،جرم اور خباثت کی پستیوں میں گرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،مثلاً بنوامیہ جو قرآن میں شجرہ ملعونہ(۱) کے نام سے مشہور ہیں،آل ابوالعاص جنھوں نے مال خدا کو ہمیشہ اپنا مال سمجھا،بندگان خدا کو اپنا غلام اور دین کو فریب کاری(۲) کا ذریعہ سمجھا پھر کیا ضابطہ اور کیسا قانون ہے جس کے ذریعہ قریش کے اماموں کو پر کھا جائے؟

سرکار دو عالم ؐ نے خاص طور سے امت کو ان لوگوں کی حرکتوں سے خبردار کرنا ضروری سمجھا اور بڑی وضاحت سے فرمایا کہ:اس امت کی ہلاکت قریش کے لون ڈ وں کے ہاتھوں ہوگی(۳) اس طرح کی اور بھی حدیثیں ہیں جن کو دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ سرکار دو عالم ؐ نے عام قریش کو امامت کا ذمہ دار بنایا ہوگا اور کوئی اختصاص اور تحدید کے بغیر جس پر بھی لفظ قریش کا اطلاق ہو اس کی امامت کا اعلان کردیا ہوگا،بغیر کسی ایسی حد بندی کے جس کے ذریعہ قریش کے ادنیٰ لوگوں کے دلوں میں حکومت کی امید منقطع ہوجائے اور ان کی ولایت شرعی اعتبار سے ممتنع ہوجائے یہ بھی تو دیکھئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) تفسیر القرطبی ج: ۱۰ ص: ۲۸۶ ،الدر المنثورج: ۵ ص: ۳۱۰ ،فتح القدیرج: ۳ ص: ۲۴۰ ۔ ۲۳۹ ،روح المعانی ج: ۱۵ ص: ۱۰۷ ،لسان المیزان ج: ۱ ص: ۱۸۹ ،تاریخ طبری ج: ۵ ،ص: ۱۲۶ ،تفسیر طبری ج: ۱۵ ص: ۱۱۲ ،اور تفسیر ابن کثیرج: ۲ ص: ۵۰)

( ۲) المستدرک علی صحیحین ج: ۴ ص: ۵۲۷ ،مجمع الزوائدج: ۵ ص: ۲۴۱ ،المعجم الاوسط ج: ۸ ص: ۶ ،المعجم الصغیرج: ۲ ص: ۲۷۱ مسند ابی یعلی ج: ۱۱ ص: ۴۰۲ والمعجم الکبیرج: ۱۲ ص: ۲۳۶ ،اورض: ۱۹ ص: ۳۸۲ ،الفتن لنعیم بن حماد ج: ۱ ص: ۱۳۰ ،

( ۳) المستدرک علی صحیحین ج: ۴ ص: ۵۲۶ اورص: ۵۷۲ ،کتاب الفتن و الملاحم،صحیح بخاری ج: ۳ ص: ۱۳۱۹ کتاب المناقب باب اسلام میں علائم نبوت ج: ۶ ص: ۲۵۸۹ ،مسند احمدج: ۲ ص: ۵۲۰ ،مسند ابی ہریرہ،مسند بن اسحاق بن راھویہ ج: ۱ ص: ۳۵۸ ۔ ۳۵۹ ،المعجم الصغیرج: ۱ ص: ۳۳۴ ،مسند طیالسی ص: ۳۲۷ ،فتح الباری ج: ۱۱ ص: ۴۷۸ ،السنن الواردہ فی الفتن ج: ۲ ص: ۴۷۲ ۔ ۴۷۱ ،الفتن لنعیم بن حمادج: ۱ ص: ۱۳۰ ،باب بنی امیہ ص: ۴۰۷ الفردوس بماثور الخطاب ج: ۴ ص: ۳۴۶ ،تاریخ کبیرج: ۳ ص: ۴۹۹ اور حالات سعید بن عمرو بن سعید بن العاصی الاموی القرشی،ج: ۷ ص: ۳۰۹ اور حالات مالک بن ظالم،الثقات ج: ۵ ص: ۳۸۸ اور حالات مالک بن ظالم،تھذیب التھذیب ج: ۱۱ ص: ۱۶ ،

۲۱۴

کہ دھلڑے سے روایت لکھی جاتی ہے کہ عمرابن خطاب نے لکھا ہے کہ ابو بکر کی بیعت ایک بے سوچا سمجھا عمل تھا جس کے شر سے اللہ نے مومنین کو بچایا(۱)

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے خطرناک فتنوں سے نجات پانے کا کیا راستہ طے ہے جن کی کوئی حد نہیں معلوم ؟ کیا ان فتنوں کے شرسے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے؟

اس سے بھی زیادہ پر لطف بات یہ ہے کہ نبی ص نص خلافت سے غافل تھے مگر مسلمان جاگ رہا تھا(غافل نہیں تھا) اور تعین خلیفہ کو ضروری سمجھتا تھا کہ وہ باربار عمر سے کہتا ہے کہ حضور اپنے بعد کسی کو خلیفہ بنا کے جائیے(۲)

بلکہ بعض لوگ تو ان خطرات کی تشریح بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں تنہائی میں اپنے باپ سے ملا تو انھوں نے مجھ سے لوگوں کے حالات پوچھے میں نے بتائے ، پھر میں نے عرض کیا اباجان ! کچھ لوگ ایسی باتیں کررہے ہیں جنھیں میں آپ تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں ، لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کسی کو خلیفہ نہیں بنائیں گے سوچئے اگر آپ اونٹ یا بکری کے چرواہے ہوتے اور آپ کو موت آجاتی اورآپ اپنے جانوروں کے گلے کو بغیر کسی چرواہے کے حوالہ کیے بغیر چلے جاتے تو پورا گلہ ضائع ہوجاتا ، پھر انسان تو بہرحال انسان ہے

--------------

(۱)صحیح بخاری ج ۶ ص:۲۵۰۳-۲۵۰۵ صحیح ابن حبان ج ۲ص ۱۴۸ باب حق الوالدین ، نیز اس بات کے انسان اپنے آباء سے پھر جائے کے بارے میں تو بیخ ، مجمع الزوائد ، ج ۶ص ۵ السنن الکبری ، نسائی ج:۴ ص ۲۷۳-۲۷۲ المصنف، ابن شیبہ ج :ج:۶ ص:۴۵۳ ، مسند البراج :ج ۱ ص :۴۱۰ ، مسند احمد ، ج: ۱ص: ۵۵ عمربن خطاب کی مسند کے ضمن میں ،مسند الشہاب ، ج :۱ ص : ۲۳۷ ، جامع العلوم والحکم ،ص :۳۸۶ ، التمہید ، ابن البر، ج:۲۲ ص ۱۵۴ الثّقات ، ابن حبان ،ج :۲ ص:۱۵۶-۱۵۳ ، کتاب الخلفاء ابوبکر بن ابی قحافہ صدیق ،کا خلافت کے لئے چناؤ ، الفصل للموصل المدرج، ج"۱ص ۴۹۳ -۴۹۰ ، الریاض النضرۃ ، ج:۲۰۲، تاریخ طبری ، ج:۲ص:۲۳۵ ،حدیث سقیفہ السیرۃ النبویۃ ج:۶ ص:۷۸- ، سقیفہ بنی ساعدہ کے ذیل میں نیز اس کے علاوہ مصادر

(۲)السنن الکبری للبیھقی ج: ۸ص:۱۴۸ ، مسندابی عوانہ ج:۴ص:۳۷۴ ، مسند ابی یعلی ، ج :اص:۱۸۲ نیز دیگر مصادر

۲۱۵

ان کی قیادت کا تو آپ کو انتظام کرنا ہی چاہئے ابن عمر کہتے ہیں کہ میرے ابا جان میری بات سے متفق ہوگئےور کچھ دیر تک اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھے سوچتے رہے،پھر بولے:خدائے عز و جل اپنے دین کی حفاظت کرےگا اگر میں نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا تو نبی ؐ نے بھی نہیں بنایا تھا اور اگر میں نے کسی کو خلیفہ بنایا تو ابوبکر نے بھی خلیفہ بنایا تھا ۔(۱)

اس مفروضہ غفلت اور اہمال کا نتیجہ

پھر یہ بھی دیکھیں کہ نبی ؐ کی اس مفروضہ غفلت اور آپ ک زعم ناقص کے مطابق نبی ؐ کے اس اہمال سے امت کو کیا کیا نقصانات پہنچے،اہل سنت کی نظر میں امر خلافت کہاں منتہی ہوتا ہے کیونکہ ان کے فقہا میں خلافت کے تیئں حدود و شرط میں بے حد اختلاف پایا جاتا ہے،یہ تو رہا نظریاتی اختلاف اب آیئے ذرا عملی اعتبار سے بھی دیکھیں تو اس خلافت کے لئے لالچی لوگوں نے اور خلافت کو چھین کے اپنے قبضہ میں کرنےوالوں نے خلافت کو کہاں پہنچایا؟حکومت ان ذلیل پاجیوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی جو ظلم و جور اور طغیان کے ماحول کے پروردہ تھے اور جن کی مذمت میں خاموش رہنے سے زبانوں نے انکار کردیا ہے ۔

نص شرعی کے انکار کی وجہ سے ظلم و جور کا سلسلہ چل پڑا اور اسلام میں فتنے اٹھے،جنگیں ہوئیں،خون کی ندیاں بہہ گئیں نہ جانے کتنے پاکیزہ خون بہائے گئے جیسے امیرالمومنین ؑ کا خون،امام حسین ؑ کا خون،اہل بیت ؑ کے منتخب افراد کا خون،پھر ان سے کم مرتبےوالوں کا خون،حلانکہ السلام خون کی عظمت اور اس کی اہمیت کا اعلان کرتا ہے(پھر آپ کے زعم ناقص کے مطابق نبی ؐ کی غفلت کی وجہ سے)مقدسات اسلامی کی ایسی توہین کی گئی کہ جس کو بیان کرنے سے زبان اور قلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) صحیح مسلم ج: ۳ ص: ۱۴۵۵ ،مسند احمدج: ۱ ص: ۴۷ ،مسند ابی عوانہ ج: ۴ ص: ۳۷۵ کتاب الامارۃ،باب خلافت و ترکہ،مسند احمدج: ۱ ص: ۴۱ ،مسند عمر بن خطاب،مسند ابی عوانہ،ج: ۴ ص: ۳۷۵ ،سنن کبریٰ للبیہقی،ج: ۸ ص: ۱۴۸ ،المصنف لعبدالرزاق ج: ۵ ص: ۴۴۸ ،

۲۱۶

دونوں ہی قاصر ہیں،حرمت کعبہ برباد ہوگئی،حرمین شریفین کی توہین کی گئی،دوسرے مقدسات کی حرمتیں بھی برباد کی گئیں ۔

یہ سب کچھ ہوا اور بہت کم میں ہوا اور یہ سب اس وقت ہوا جب وہ صحابہ جو نبی ؐ کے ساتھ زندگی گذار چکے تھے وافر مقدار میں موجود تھے انھوں نے نبی ؐ کی سلطنت دیکھی تھی،آپ کی حکومت و عدالت کا مشاہدہ کیا تھا اور آپ کی تعلیمات و ارشادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا،آپ نے فتنوں کا تذکرہ ان کے سامنے کیا تھا،آپ نے فتنوں کا تذکرہ ان کے سامنے کیا تھا ۔

پھر تو دین کمزور ہوتا گیا اور مسلمان پست سے پست تر ہوتے گئے،وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کے وجود میں ضعف آتا رہا یہاں تک کہ ہمارا یہ آتا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان کہاں سے کہاں پہنچ گئے،احساس کمتری،آپس کے اختلافات،کمزوری کا احساس مسلمانوں کی کم مائیگی جو کسی شرح و بیان کی محتاج نہیں ہے ۔ انا للہ و انّا الیہ راجعون

اسلام کی پائیدار بلندی اور اس کا کمال رفعت

اس موقعہ پر ابن ابی الحدید کہتے ہیں ابوجعفر طبری نے اپنی میں لکھا ہے کہ عمر نے قریش اور مہاجرین کے نمایا افراد کو دوسرے شہروں میں جانے پر پابندی عائد کردی تھی،اگر کوئی جاتا بھی تھا تو عمر کی اجازت سے اور ایک معین مدت کے لئے ہی جاتا تھا،پس انھوں نے عمر سے اس بات کا شکوہ کیا،یہ سن کر عمر کھڑے ہوئے اور ایک خطبہ دیا،کہنے لگے میں تو اسلام کی کسی اونٹ کی طرح برت رہا ہوں اسلام ابتدا میں اونٹ کے بچے کی طرح شیرخوار تھا،پھر اس کے دو دانت ہوئے،پھر چار دانت،پھر چھ دانت ہوئے،پھر وہ بالغ ہوگیا ہر اونٹ بالغ ہونے کے بعد نقصان کی طرف جاتا ہے تو پھر اسلام بھی بالغ ہونے کے بعد عُمر کی حدوں سے بڑھےگا تو نقصان کی طرف جائےگا یعنی بلوغ کے بعد اب صرف انحطاط کی منزل ہے،دیکھو اسلام بالغ ہوچکا ہے جیسے آٹھ سال کا کامل اونٹ اور قریش مال خدا کو اپنے لئے سمیٹ لینا چاہتے ہیں،قریش نے اپنے دل میں فرقہ پردازی اور قیادت سے الگ

۲۱۷

ہونے کی ٹھان لی ہے لیکن جب تک خطاب کا بیٹا زندہ ہے یہ نہیں ہوگا،میں فرقہ پردازی کے دروازوں کو بند کردوں گا اور قریش کی گردن پکڑے رہوں گا اور انھیں آگ میں گرنے سے روکتا رہوں گا،(۱)

دیکھا آپ نے!خلیفہ صاحب اسلما کو کس وضع کا پابند سمجھتے ہیں اسلام آٹھ سال کا اونٹ ہے،اب بڑھےگا تو بڑھاپے کی طرف جائےگا میرا خیال ہے کہ یہ واقعہ بیسوی ہجری کے آس پاس کا ہے،جب کہ یہ نشاط اسلامیہ کا ابتدائی دور تھا اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اسلام اس وقت اپنے نقطہ کمال پر پہنچ چکا تھا اور اس دور میں جو خامیاں اور جو منفی واقعات ہوئے تھے ان سے صرف نظر بھی کرلیا جائے تو ماننا پڑےگا کہ خلیفہ صاحب کے خیال کے مطابق ان کے دور میں اسلام بیسوی ہجری میں کامل ہونے کے بعد اب نقصان کی طرف مائل ہے،بیس سال کی قلیل مدت اس کے کمال کی ہے،اس کے بعد نقص کا دور شروع ہوتا ہے،سوچنے کیا یہ بات کسی عقل میں آسکتی ہے؟اور کیا انصاف یہی کہتا ہے کہ عمر کے دور کے بعد اسلام مائل بہ نقصان ہے؟جب کہ خداوند عالم نے اس دین کو قیامت تک کے لئے بھیجا ہے کہ وہ ہر دور میں عالم بشریت کی ہدایت کرے اور اپنے گوارہ آبِ احکام و دستور سے انھیں سیراب کرے عالم انسانیت کی ھدایت کرے اور قیامت تک انسان اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا رہے ۔

کیا کوئی صاحب عقل یہ بات مان لےگا کہ جس اسلام سے خدا راضی ہوا،قیامت تک کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنایا اس کے پائدار قوامین کو مکمل کیا وہ صرف بیس سال میں اپنے نقطہ کمال کو حاصل کر کے مائل بہ انحطاط ہے اور نقصان کی گہرائیوں میں گرتا چلا جائےگا ۔

جناب عالی!ماننا پڑےگا کہ امر خلافت ایسی چیز ہی نہیں تھی جس سے نبی ؐ برحق غفلت برتیں اور خود عمر بھی اپنے گذشتہ خطبہ میں اس حقیقت کے قائل ہیں اور اصل مستحق خلافت کو چھوڑ کے مسلمانوں کو جن واقعات کا سامنا کرنا پڑا وہ واقعات بھی اس بات کے شاہد ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ۱) شرح نہج البلاغہ ج: ۱۱ ص: ۱۲ ،تاریخ طبری ج: ۲ ص: ۶۷۹ اور تاریخ دمشق ج: ۳۹ ص: ۳۰۲ اور باب حادثہ واقعہ جمل ص: ۷۵ ،اور کنزالعمال ج: ۱۴ ص: ۷۵ ،حدیث: ۳۷۹۷۷

۲۱۸

عدم نص کے نظریہ کی ناکامی وجود نص کی سب سے بڑی دلیل ہے

انصاف تو یہ ہے کہ اگر وجود نص پر کوئی دلیل سوائے عملی طور سے عدم نص کے نظریہ کی ناکامی اور اعلام و مسلمین پر بیتے حادثات اور خونریز واقعات کے نہ ہوتی تو تب بھی اللہ کی طرف مسلمانوں پر حجت تمام ہونے کے لئے کافی ہے جس کے مقابلے میں آپ کا استبعاد ٹھہر نہیں سکتا نہ ہی عموم صحابہ کا تجاہل اور نہ ہی اس حجت خدا کے خلاف خروج صحابہ معیار بن سکتا ہے چاہے صحابہ جس پائے کے ہوں اور جتنے بھی محترم کیوں نہ ہوں خدا خود ارشاد فرماتا ہے کہ:

(قُلْ فَلِلَّهِالْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ)(۱)

ترجمہ آیت:((کہہ دیجئے(اے رسول ؐ )خدا کے لئے حجت بالغہ ہے اگر ہو چاہے تو وہ تم سب کی ہدایت کرسکتا ہے)) ۔

دوسری صورت:تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ صحابہ اکثر نص شرعی سے غافل رہتے ہیں اور تجاہل برتتے ہیں ۔

خود نبی ؐ کی حیات میں صحابہ کی نص سے مخالفت

اوّلاً:صلح حدیبیہ کے بعد کے واقعات ملاحظہ فرمائیں،کثرت سے احادیث موجود ہیں کہ جمہور صحابہ نے چونکہ صلح حدیبیہ میں حضور ؐ سرور کائنات نے صحابہ کی خواہشوں کے خلاف اقرار صلح کرلیا تھا تو اب صحابہ نے یہ طے کرلیا کہ ہم نبی ؐ کا حکم نہین مانیں گے چنانچہ نبی ؐ قربانی اور تحلیق کے لئے صحابہ کو باربار حکم دیتے رہے اور مسلمان انکار کرتے رہے اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا ۔

اسی طرح حجۃ الوداع میں سرکار ؐ نے احرام کی حلیت کا حکم دیا اور اس کو عمرہ قرار دینے کا حکم دیا وہیں سے عمرہ تمتّع اور حج تمتع کی ابتدا ہوئی تو سرکار فرما رہے تھے کہ اپنے احرام کو کھول دو لیکن مسلمان برابر انکار کرتے رہے اور آپ کا حکم نہیں مانا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)سورہ انعام،آیت:۱۴۹

۲۱۹

مذکورہ دونوں حادثوں کی تفصیل پر غور کیجئے،آپ کے دوسرے سوال کے جواب میں دونوں واقعات کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے،تاریخ و حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی یہ واقعات ملتے ہیں،پھر سوچئے کہ ان دونوں واقعات میں حکم پیغمبر ؐ سے سرتابی کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟پیغمبر ؐ ان صحابہ کے سامنے موجود ہیں اور آپ کے حکم سے سرتابی کی جارہی ہے آپ کے قول کی مخالفت کی جارہی ہے جب کہ اس سے صحابہ کا کوئی ذاتی فائدہ بھی دکھائی نہیں دیتا اب صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ صرف ہٹ دھرمی اور خودرائی کی بنا پر سرکار دو عالم ؐ کی مخالفت کررہے تھے اور یہ ان کا پرانا طریقہ تھا ۔

دوسری مثالیں ملاحظہ فرمائیں،نبی ؐ اپنے ہاتھ سے لشکر تیار کرتے ہیں اسامہ کو اس کا سردار بناتے ہیں اور تمام مسلمانوں کو جن میں شیخین بھی شامل تھے اسامہ کی قیادت میں جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیتے ہیں لیکن صحابہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور غریب اسامہ مدینہ کے باہر سراپا انتظار بنے کھڑے ہیں کہ اب صحابہ آئیں اور ہم جہاد کے لئے جائیں،یہ نص شرعی کی مخالفت نہیں تو اور کیا ہے؟خدارا بتایئے:نبی ؐ کہتے ہیں قلم اور کاغذ لاؤ ایک تحریر لکھ دوں یا لکھوادوں کہ تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے آپ چاہتی ہیں کہ ہر دور میں مسلمان گمراہی سے محفوظ رہے لیکن صحابہ مخالفت کرتے ہیں اور امت نبی ؐ کی ہدایت سے محروم ہوجاتی ہے جمعرات کی مصیبت جس دن یہ واقعہ ہوا تھا تاریخوں اور حدیثوں میں مشہور ہے اور آپ کہتے ہیں صحابہ نص سے غافل نہیں ہوسکتے:پھر یہ کیا ہے؟

مندرجہ بالا واقعات کو مقام مثال میں دیکھنے کے بعد کیا اب بھی آپ یہی کہتے ہیں کہ صحابہ کا نص سے غافل رہنا یا تجاھل کرنا بعید از قیاس ہے اور تعجب خیز ہے،حدیبیہ اور حج تمتع والے واقعات میں انکار سے ان کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں تھا لیکن امر خلافت پر نص سے انکار یا تغافل میں تو بہت سےدنیاوی فائدے تھے اس لئےکہ اگر امیرالمومنین ؑ کی بیعت پر نص سے انکار کردیتے ہیں تو ان کےلئے پھر خلافت کی جگہ خالی ہوجاتی ہے اورکسی بھی ایرے غیرے کو خلیفہ بنادینے کی گنجائش نکلتی ہے ویسے بھی خلافت اور عافیت طلبی خود اتنا بڑا شرف ہے کہ جس کو حاصل کرنے کے لئے لالچی انسان ایمان اور نص پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی قربان کرسکتے ہیں ۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

طلب نصرت کی ابتدا تو کردی ہے لیکن آپ کی نظر میں اسلام عظیم کی وحدت اور اس کی عظمت کی سب سے زیادہ اہمیت ہے اور جب آپ یہ دیکھیں گے کہ آپ کے خروج سے اسلام عظیم کی اجتماعی حیثیت،وقار اور اتحاد کو نقصان پہنچ رہا ہے تو بیٹھ جائیں گے،ان خیالات نے صحابہ کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ اس کشمکش میں آپ کا سب سے کمزور پہلو اسلام کی محبت ہے،اسی وجہ سے آپ کی مادی قوت بھی قابل اعتبار نہیں ہے ۔

امیرالمومنین ؑ کے اصولی موقوف پر بعض شواہد

مولائے کائنات کا نقطہ نظر کیا تھا؟اور آپ نے اصول کو کس قدر اہمیت دی تھی؟اس کے چند شواہد پیش کئے جاتے ہیں،مثلاً آپ سقیفہ میں اس وقت نہیں پہنچ سکے جب لوگ آپ پر سبقت کررہے تھے اور خلافت کی کھچڑی پَک رہی تھی،آپ نے اس وقت نہ پہنچنے کا یہ معقول عذر پیش کیا کہ میں پیغمبر ؐ کے جنازے کی تجہیز و تکفین چھوڑ کے آپ کی خلافت کے لئے لوگوں سے جنگ نہیں کر سکتا تھا(1) عباس بن عبدالمطلب نے آپ سے کہا:آیئے ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں،تا کہ لوگ کہیں عم پیغمبر ؐ نے پیغمبر ؐ کے ابن اعم(چچازاد)کی بیعت کرلی،پھر آپ سے کوئی نہیں لڑےگا،آپ نے فرمایا:چچا!میں پسند نہیں کرتا کہ یہ کام پردے کے پیچھے ہو میں تو چاہتا ہوں جو کچھ ہو علانیہ ہو ۔(2) اس طرح ابوسفیان نے((جس کے قبیلہ کی قوت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا))جب آپ کے نقطہ نظر کو موڑ کے قبائلی تعصّب کا رُخ دینا چاہا اور کوشش کی کہ امیرالمومنین ؑ کو قبائلی بنیادوں پر مطالبہ خلافت کی طرف لے جائے تو آپ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اُسے ڈ انٹ دیا ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 16 ،شرح نہج البلاغہ ج: 6 ص: 13 الفتوح لابن اعثم ص: 13

( 2) شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 196 ،ج: 11 ص: 9

( 3) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 83 ،المصنف لعبد الرزاق ج: 5 ص: 451 ،الاستیعاب ج: 3 ص: 974 ،ج: 4 ص: 1679 ،تاریخ الخلفاءج: 1 ص: 67 ،انساب الاشراف ج: 2 ص: 271 ،تاریخ طبری ج: 2 ص: 237 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 45

۲۶۱

جب کہ ابوبکر نے اس کی خوشامد کر کے راضی کرلیا اور صدقہ کے اموال دیئے(1) اور اس کے بیٹے کو گورنر بنادیا(2) نتیجہ میں وہ اس کی اولاد اور گھر والے ابوبکر کے مددگار اور تائید کرنےوالوں میں شامل ہوگئے ۔

میرا خیال تو یہ ہے کہ شاید تاریخ کا یہ اصول دین بن چکا ہے کہ کسی نبی کی امت میں بھی اختلاف ہوتا ہے تو امت کے باطل پرست افراد اہل حق پر غالب آجاتے ہیں ۔(3) وجہ یہ ہے کہ اہل حق کی اصول پرستی اپنے اصولوں کی قربانی پر سمجھوتہ نہیں کرتی اور مددگاروں سے محروم رہ جاتی ہے جب کہ امت کے اہل باطل فرصت سے فائدہ اٹھالیتے ہیں اور پھر نتیجہ میں مادّی اعتبار سے اہل باطل ہی فتحیاب ہوتے ہیں ۔

نتیجہ چاہے تو ہو،امام منصوص کی آواز پر لبیک کہنا واجب ہے

لیکن صحابی ہوں یا غیر صحابی،صرف یہ کہہ دینے سے کہ امام منصوص کے پاس طاقت نہیں ہے یا ان کی کامیابی کا ہمیں یقین نہیں ہے اس لئے ہم ان کی نصرت پر آمادہ نہیں ہوتے،نہ واجب ادا ہوجائےگا اور نہ ان کو بری الذّمہ سمجھا جائےگا بلکہ ہر انسان پر امام منصوص کی اطاعت اور اس کی دعوت پر لبیک کہنا واجب ہے نتیجہ چاہے جو ہو عام انسان کو امام منصوص کی نصرت کے بارے میں نہ اجتہاد کا حق پہنچتا ہے نہ غور کی مہلت،اس لئے کہ امام منصوص جانتا ہے کہ لوگوں کی بھلائی کس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) العقد الفرید ج: 4 ص: 240 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 44

( 2) الطبقات الکبری ج: 4 ص: 97 ۔ 98 ،المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 279 ،تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 133 ،تاریخ طبری ج: 2 ص: 331 ،تاریخ دمشق ج: 16 ص: 78 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 58 ۔ 59

( 3) مجمع الزوائد ج: 1 ص: 157 ،المعجم الاوسط ج: 7 ص: 370 ،فیض القدیر ج: 5 ص: 415 ،حلیۃ الاولیا ج: 4 ص؛ 313 ،تذکرۃ الحفاظ ج: 1 ص: 87 ،کنز العمال ج: 1 ص: 183 حدیث 929 ،الجامع الصغیر للسیوطی ج: 2 ص: 481 حدیث 7799 ،شرح نہج البلاغہ ج: 5 ص: 181

۲۶۲

چیز میں ہے حالانکہ لوگ مصلحتوں سے ناواقف اور مفید نتائج سے بےخبر ہوتے ہیں جیسا کہ صلح حدیبیہ میں واقعہ پیش آیا،نبی ؐ کو معلوم تھا کہ اس صلح سے کیا کیا فائدہ حاصل ہونےوالا ہے در حالیکہ مسلمان عواقب و نتائج سے ناواقفیت کی بنا پر مخالفت پر اتر آئے تھے اس سلسلہ میں بعض مطالب دوسرے سوال کے جواب میں گذر چکے ہیں ۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جلد بازی میں اٹھایا ہوا کوئی قدم فتح کا سبب بن جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مسلسل منصوبہ بندی کرنے کے باوجود آدمی شکست سے دوچار ہوتا ہے،اچھا!اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ حق کی نصرت پر لبیک کہنے اور باطل کی مخالفت میں جنگ کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے پھر بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ غافل متبہ ہوجاتے ہیں،خدا کے لئے حجّت قائم ہوجاتی ہے اور نصرتِ حق میں اُٹھی ہوئی آواز دلوں کو جگا دیتی ہے،میرا خیال ہے کہ یہ فائدہ بھی کچھ کم نہیں ہے،دینِ خدا اور خدا کی طرف دعوت دینےوالوں کو یہ عظیم فائدہ تو حاصل ہو ہی جاتا ہے اور یہی فائدہ کیا کم ہے ۔

ابوسالم جیشانی کہتے ہیں:میں نے سنا مولائے کائنات ؑ کوفہ میں فرما رہے تھے کہ((میں اس لئے لڑ رہا ہوں کہ حق قائم ہو،حالانکہ حق ہرگز قائم نہیں ہوسکے گا جب تک حکومت معاویہ والوں کے ہاتھ میں رہےگی))روای کہتا ہے کہ میں نے اپنے اصحاب سے کہا:یہاں ٹھہرنے کا مقام نہیں ہے در حالیکہ ہمیں بتلادیا جاچکا ہے کہ معاویہ کے طرفداروں کو حق حکومت نہیں ہے پھر ہم نے آپ سے مصر جانے کی اجازت طلب کی آپ نے ہم میں سے جس کو چاہا اجازت دی آپ نے ہر ایک کو ایک ایک ہزار درہم دیئے اور ہمارے گروہ سے ایک حصہ ان کے ساتھ وہیں ٹھہرگیا(1)

آپ نے ملاحظہ کیا کہ امام ؑ کو معلوم تھا کہ معاویہ آپ پر غالب ہوگا اس کے باوجود آپ نے حق کی راہ میں جہاد سے منہ نہیں موڑا اور صاحبانِ بصیرت افراد بھی آپ کے ہمراہ حق کے محاذ پر ڈ ٹے رہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الفتن لنعیم بن حماد ج: 1 ص: 127

۲۶۳

اسود دوئلی کی حدیث ملاحظہ ہو،وہ اپنے باب ابوالاسود دوئیلی سے روایت کرتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ نے فرمایا:((میرے پاس عبداللہ بن سلام آئے،اس وقت میں نے رکاب میں پیر ڈ ال رکھے تھے اور عراق کے لئے عازمِ سفر تھا،عبداللہ بن سلام نے مجھ سے کہا:آپ عراق نہ جائیں،اگر آپ عراق جائیں گے تو آپ کو تلوار کی دھار کا سامنا کرنا پڑےگا،میں نے(مولائے علی ؑ نے)کہا خدا کی قسم یہ بات تو ہادی برحق ؐ مجھے تم سے پہلے بتاچکے ہیں))،ابوالاسود کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا:میں نے آج تک ایسا آدمی بھی نہیں دیکھا جو جنگ کے لئے تیار ہو اور لوگوں سے ایسی باتیں کرتا ہو ۔(1)

آپ نے غور کیا کہ امام ؑ لوگوں کو اپنے عنقریب قتل(شہید)ہونے کی خبر بھی دے رہے ہیں اور لوگوں کو جہاد کی دعوت بھی دے رہے ہیں،صرف یہ ثابت کرنے کے لئے کہ جہاد کا ہدف،فتح و نُصرت سے بہت بلند ہے ۔

امام ابوعبداللہ الحسین ؑ کو دیکھئے،مکّہ مکرمہ میں آپ انقلاب کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور اسی سلسلے میں مدینہ کے بنوہاشم کو لکھتے ہیں ۔

"بسم الله الرحمن الرحیم: حسین ؑ بن علی ؑ کی طرف سے محمد بن علی اور ان کے قبیلہ(یعنی بنی ہاشم)کو معلوم ہو کہ جو مجھ سے آملے گا وہ درجہ شہادت پر فائز ہوگا اور جو مجھ سے ملحق نہیں ہوگا وہ فتح بھی نہیں پاسکتا،والسلام(2)

اسی طرح جب آپ نے مکہ سے عراق جانے کا ارادہ کیا تو خطبہ دیا،خطبہ کے الفاظ ملاحظہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 151 ،کتاب معرفۃ الصحابۃ،مناقب امیرالمومنینؑ،امام حاکم نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اگر چہ شیخین نے نقل نہین کیا ہے لیکن ان کی شرط پر پوری روایت پوری اترتی ہے اور صحیح ہے،صحیح ابن جبان،ج: 15 ص: 127 ،موارد الظمآن،ج: 1 ص: 245 ،تاریخ دمشق،ج: 42 ،ص: 546

( 2) کامل الزیارات ص: 157 ،بصائر الدرجات ص: 502 ،نوادر المعجزات ص: 110 ،دلائل الامامۃ ص: 188 ،الخرائج و الجرائح ج: 2 ص: 771 ۔ 772

۲۶۴

فرمائیں:((الحمداللہ و ماشاءاللہ تعالی قوت صرف اللہ کی ہے،خدا کا درود ہو اس کے نبی ؐ پر،موت انسان کے گلے سے یوں ہی لپٹی ہے جیسے دوشیزہ کے گلے میں گلوبند لپٹا رہتا ہے،مجھے اپنے اسلاف سے ملاقات کی خواہش نے اسی طرح بے چین کیا ہوا ہے جیسے یعقوب ؑ کے دل میں یوسف ؑ سے شوقِ ملاقات،میرے لئے ایک مقتل چُنا گیا ہے جس کی طرف میں جا رہا ہوں،گویا کہ صحرا کے اُموی بھیڑیئے میرے بند بند کو کاٹ رہے ہیں اور میرے جسم سے اپنی بھوک مٹا رہے ہیں،کاتب تقدیر نے جو دن اپنے قلم سے لکھ دیا ہے اس سے انسان الگ نہیں ہوسکتا،خدا کی مرضی ہی ہم اہلبیت ؑ کی رضا ہے،ہم اس کی بلاؤں پر صبر کرتے ہیں،وہ ہمیں صبر کرنے والوں کا اجر دےگا،پیغمبر ؐ سے ان کے گوشت الگ نہیں کیا جاسکتا،بلکہ آپ کے جسم کے تمام حصے محضرِ قدس میں اکٹھا ہونے والے ہیں،جس سے آپ کی آنکھیں ٹھن ڈ ی ہوں گی اور آپ نے جو وعدہ کیا ہے ہمیں لوگوں کے ذریعہ پورا ہوگا ۔ پس جو اپنی جان کو ہماری راہ میں قربان کرنا چاہتا ہے اور اپنے نفس کو خدا سے ملاقی کرنے پر آمادہ کرچکا ہے اسے چاہیے کہ ہمارے ساتھ چلے اس لئے کہ میں کل انشاءاللہ جانے والا ہوں)) ۔(1)

اگر عاشقانِ حق کا نقطہ نظر اور طرزِ زندگی سمجھ سکتے ہیں تو امام حسین ؑ کے کلمات ملاحظہ فرمایئے،دیکھئے!امام حسین ؑ کی نظر میں فتح کیا ہے اور کامیابی کسے کہتے ہیں،مذکورہ خطبہ میں فرماتے ہیں کہ((میں قتل کردیا جاؤں گا))آپ اپنے قتل کی علی الاعلان خبر دے رہے ہیں اور اپنے خط میں((جو آپ نے بنوہاشم کو لکھا ہے))آپ نے جنگ سے پہلے ہی اپنی فتح کا اعلان کردیا ہے،اور اس فتح کے لئے لوگوں سے مدد مانگ رہے ہیں،وہ فتح بھی کیا ہے،ایسی فتح جو بغیر قتل اور شہادت کے حاصل نہیں ہوسکتی ۔

یہ وہ فتح ہے جسے عام انسان ناکامی اور شکست سمجھتا ہے،اسی لئے لوگوں نے امام حسین ؑ کو مشورہ دیا تھا کہ خروج مت کیجئے،لیکن امام وقت جانتا ہے کہ کس وقت کیا ضروری ہے اسی لئے آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مقتل الحسین للمقرم ص: 193 ۔ 194 ،کشف الغمہ ج: 2 ص: 239 ،بحارالانوار ج: 44 ص: 366 ۔ 367

۲۶۵

نے خروج پر اصرار کیا،اپنے خاص شیعوں پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ نے قیام فرمایا اور آپ کے خاص چاہنے والوں نے بھی امرِ خدا کا امتثال کیا اور آپ کے ساتھ سر سے کفن باندھ کے نکل پڑے،انہوں نے حقِ پیغمبر ؐ کو ادا کیا اور امام ؑ کے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوئے ان لوگوں کو فتحِ مبین اور سعادت ازلی نصیب ہوئی جو ان کے پروردگار نے ن کے لئے مقدر کردی تھی ۔

بہرحال صورتِ حال جو بھی ہو،جب امام وقت مدد کے لئے پکارے تو امت پر اس کی نصرت واجب ہے،اس وقت نتائج سے خوفزدہ ہو کر صدائے امام ؑ کو نظرانداز کردینا غلط ہے،اُمت کی تکلیف شرعی ہے امام ؑ کی آواز پر لبیک کہنا،اس لئے کہ امام ؑ کی آواز خدا کی طرف سے اور اس کے حکم سے بُلند ہوتی ہے اور خدا نے امام ؑ کی پیروی کا حکم دیا ہے،جیسا کہ امیرالمومنین ؑ نے اپنے مخلص شیعوں کی تعریف میں ارشاد فرمایا کہ((انہوں نے اپنے قائد پر اعتماد کیا تو اس کی پیروی کی)) ۔(1)

شیعوں کو یہی شکایت ہے کہ صحابہ کی کثیر تعداد نے سقیفہ میں امام منصوص سے منہ موڑ لیا،جب کہ ان کے سامنے واضح نص موجود تھی،انہوں نے امام ؑ کی دعوت پر لبیک نہیں کہی،امام ؑ کی کمر مضبوط نہیں کی اور ان کی مدد نہیں کی کہ وجہ حق کو غاصبانِ حق سے واپس لے سکتے اس لئے کہ مرادِ خدا بھی یہی تھی ۔

امام منصوص کی نصرت نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے نص کی اندیکھی کی

شیعوں کے قول کے مطابق نص کی موجودگی میں امام ؑ کی نصڑت نہ کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے نص کی اندیکھی کی،یا نَص پر توجہ نہیں دی بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سُستی کی اور ایک واجب کو ادا کرنے میں کوتاہی کی،حقدار کی نصرت اور اس کو حق دلانے کے لئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) نہج البلاغہ ج: 2 ص: 109 ،ینابیع المودۃ ج: 2 ص: 29

۲۶۶

انہیں جہاد کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا،جس طرح غزوہ بدر میں صحابہ گھر سے نکلنا نہیں چاہتے تھے،یہ ان کی غلطی تھی جب پیغمبر ؐ حکم دے رہے تھے تو اُنہیں بہانہ نہیں بتانا چاہئے تھا،قرآن مجید اس وقت کی حکایت کرتا ہوا کہتا ہے((جیسا کہ تمہارے پروردگار نے تمہیں حق کے ساتھ تمہارے گھر سے نکالا حالانکہ مومنین کے ایک گروہ کو یہ کام بہت ناگوار گزر رہا تھا وہ تم سے حق کے بارے میں خواہ مخواہ اُلجھ رہے تھے جب کہ ان کے سامنے حق کی وضاحت ہوچکی تھی،لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ان کو موت کی طرف کھینچا جارہا ہو اور وہ موت کا انتظار کررہے ہوں)) ۔(1)

اسی طرح معرکہ اُحد و حُنین میں ان کا جنگ سے فرار کرنا،خندق میں ان کا نبی ؐ کی نصرت سے انکار کرنا اور غزوہ تبوک میں نکلنے کے وقت نبی ؐ سے ان کی مخالفت اور بھی بہت سارے واقعات ہیں جس میں انہوں نے نبی ؐ کی نصرت و حمایت یا تائید سے پہلو تہی کی ہے،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ نبی ؐ کی تکذیب کررہے تھے یا نبی ؐ کی نبوت کو جُھٹلا رہے تھے ۔

اسی طرح اہل کوفہ نے امیرالمومنین ؑ کی نُصرت سے آپ کے آخرِ ایام میں پہلو تہی کی امام حسن ؑ کی نصرت میں سستی کی یا مسلمانوں نے امام حسین ؑ کی نصرت میں کوتاہی کی،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ ان حضرات کی امامت کے قائل نہیں تھے یا نص سے تجاہل کر رہے تھے ۔

امامِ منصوص کی نصرت نہیں کرنا ایسا گناہ ہے جو قابلِ توبہ ہے

البتہ امام ؑ کی نصرت نہیں کرنا بہت بڑا گناہ ہے،جیسے میدان جنگ سے فرار جس کی اللہ نے بہت زیادہ مذمت کی ہے یہ گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے جیسے وہ لوگ جنہوں نے پیغمبر ؐ سے اس جہاد میں منہ موڑ لیا جس میں شرکت کی اللہ نے سخت تاکید کی تھی لیکن پھر اللہ نے توبہ کا دروازہ کھول دیا اور جس طرح وہ اپنے بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیا کرتا ہے،اس گناہ کو بھی بخش دیا،جنگ اُحد سے بھاگنے والے مسلمانوں کو معاف کر کے ان کی مغفرت کی صراحت بھی کردی ہے،اسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ انفال آیت: 5 ۔ 6

۲۶۷

طرح اللہ نے تین مخصوص افراد کی مغفرت کی تصریح کردی،اشارد ہوتا ہے((اور وہ تین افراد جو جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے یہاں تک کہ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے پھر انہیں معاف کردیا تا کہ وہ پاک ہوجائیں،اللہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنےوالا اور رحم کرنے والا ہے ۔(1)

صحابہ کی امیرالمومنین ؑ کی طرف واپسی اور آپ کی مدد کرنا

صحابہ نے امیرالمومنین ؑ کی نصرت سے ہاتھ اٹھا کر بڑا گناہ کیا لیکن پھر انہیں احساس ہوا کہ امیرالمومنین ؑ کے ہاتھ سے خلافت نکل جانے سے کتنی خرابیاں پیدا ہوئیں اور اس احساس کی وجہ سے وہ لوگ امیرالمومنین ؑ اور اہل بیت ؑ کی طرف پلٹے اور قتلِ عثمان کے بعد امیرالمومنین ؑ کی بیعت کے لئے ممکنہ حالات پیدا ہوئے،اس لئے کہ صحابہ نے امیرالمومنین ؑ کے بارے میں جو تقصیر کی تھی اس کا انھیں احساس ہوگیا تھا ۔

قتل عثمان کے بعد صحابہ کا امیرالمومنین ؑ کی ہمراہی کرنا

قتلِ عثمان کے بعد مسلمان اجتماعی طور پر مولائے کائنات ؑ کی طرف بڑھے اور سب نے آپ کی بیعت پر اصرار کیا،اس تاریخی اتحاد کے پیچھے بہت سے آپ کے مخلص صحابہ کی تبلیغ اور امیرالمومنین ؑ کی حقانیت کا ہاتھ تھا،آپ کے مخلص صحابہ مسلمانوں کو مسلسل متوجہ کرتے رہے کہ خلافت کے اصلی حقدار مولائے کاتنات ؑ ہیں جو تمام مسلمانوں سے افضل ہیں،حالانکہ جب پوری امت عثمان کے خلاف تھی اور لوگ عثمان کی فضیحت کرنے میں لگے ہوئے تھے،تاریخ شاہد ہے کہ مولائے کائنات ؑ عثمان کے ساتھ بہت نرمی کا برتاؤ کررہے تھے اور قتلِ عثمان کے بعد بھی آپ مسلم حکومت کی سربراہی قبول کرنے پر تیار نہیں تھے،لیکن یہ صحابہ ہی تھے جنہوں نے لوگوں کو اُبھارا اور لوگ آپ کی بیعت پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ توبہ آیت: 118

۲۶۸

مُضر ہوگئے پھر آپ کی بیعت کے بعد آپ کی مدد بھی کی تمام جنگوں میں آپ کے ساتھ ساتھ رہے اور آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں پیش پیش رہے،ان تمام باتوں کے شواہد حدیث و تاریخ کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں،میں بھی کچھ شواہد پیش کر رہا ہوں ۔

1۔ ابوجعفر اسکافی کہتے ہیں:قتلِ عثمان کے بعد صحابہ مسجد میں جمع ہوئے اور امامت کے مسئلے پر گفتگو ہونے لگی،تو ابوھیثم ابن تیہان،رفاعہ بن رافع،مالک بن عجلان،ابوایوب انصاری اور عمار یاسر نے مشورہ دیا کہ اب تو خلافت علیؑ کو مل ہی جانی چاہئے اور علیؑ کے فضائل و مناقب،آپ کے کارنامے،آپ کا جہاد اور آپ کی پیغمبرؐ سے قرابت قریبہ کو مقام احتجاج می پیش کرتے ہوئے ان لوگوں نے طے کیا کہ علیؑ ہی مستحقِ خلافت ہیں،ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو مولائے کائنات کو اس زمانہ میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور کچھ کا کہنا تھا کہ امیرالمومنینؑ تمام مسلمانوں سے افضل ہیں پھر لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی۔ (1) جب اجلہ صحابہ نے آپ کی بیعت کرلی تو لوگوں کو آپ کی بیعت پر اُبھارا اور آپ کی طرف علی الاعلان دعوت دینا شروع کی یہ صحابہ لوگوں سے آپ کا حق،آپ کا مرتبہ اور آپ کے فضائل بیان کر کے مسلسل آپ کی طرفداری کررہے تھے اور انہوں نے آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور اُسے چلانے میں آپ کی بہت مدد کی۔ آئندہ صفحات میں ہم ان تصریحات کو لکھیں گے جو آپ کی فضیلت میں صحابہ کی طرف سے کی گئیں اور وہ خطبہ بھی پیش کریں گے جو آپ نے اپنی بیعت ہونے کے بعد فرمایا تھا۔

2 ۔ اسی طرح اسکافی ان حالات پر بھی روشنی ڈ التے ہیں جو آپ کی بیعت کے بعد پیدا ہوئے،چونکہ آپ نے مال کی تقسیم برابری سے کی اور آپ کے پہلے جو حکومتیں تھیں ان کے دور میں بدکردار افراد غیر شرعی طور پر مالِ خدا سے فائدہ اٹھا رہے تھے،آپ نے ان پر اعتراض کیا اس لئے آپ سے چند افراد،جن کا غیرشرعی مفاد مجروح ہو رہا تھا آپ سے ناراض ہوگئے اور اختلاف و نفاق پیدا کرکے اپنے ناحق مطالبوں کو منوانا چاہا،اصحاب اس وقت متنبّہ ہوگئے اور اس صورتِ حال کو ختم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغی ج: 7 ص: 36

۲۶۹

کرنے کی بھرپور کوششیں شروع کریدں چنانچہ اسکافی لکھتے ہیں((جب مخالفین حکومت کی ساشیں سامنے آئیں تو عمار بن یاسر اپنے اصحاب کے پاس آئے اور کہنے لگے:چلو اپنے بھائیوں کے اس گروہ کے پس جو اختلاف پیدا کررہے ہیں اُن کے بارے میں ہمارے پاس کچھ خبریں پہنچی ہیں اور ہم ان کی سازشوں کو دیکھ بھی رہے ہیں کہ وہ اختلاف پیدا کررہے ہیں اور اپنے امام پر حملہ کررہے ہیں،جفاکاروں نے زبیر اور اعسرعاق یعنی طلحہ کے یہاں بہت مداخلت پیدا کرلی ہے))،

پس ابوہثیم،عمار،ابوایوب،سہل بن حنیف اور اُن کے ساتھ ایک جماعت اٹھ کھڑی ہوئی،وہ لوگ مولائے کائنات ؑ کے پاس آئے اور کہنے لگے،امیرالمومنین ؑ آپ اپنے معاملات پر غور کیجئے،قریش کی یہ شاخ(طلحہ و زبیر)((جو آپ ہی کی قوم سے ہیں))،آُ سے ناراض ہوگئی ہے انہوں نے آپ سے کیا ہوا عہد توڑ دیا ہے آپ سے وعدہ کرکے وعدہ خلافی کی ہے اور در پردہ آپ کو چھوڑ دینے کی وہ ہمیں دعوت دے رہے ہیں،خدا آپ کو آپ کے حق پر باقی رکھے،ان کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کی رہبری کا ناگوار سمجھتے ہیں اور بیت المال سے ملنے والی اضافی امداد کو کھوچکے ہیں،چونکہ آپ نے ان کو اور کچھ لوگوں کو ایک ہی میزانِ نظر میں رکھا ہے اس لئے وہ لوگ آپ کو بُرا کہہ رہے ہیں،انہوں نے آپ پر آپ کے دشمن کو ترجیح دی ہے اور اُسے بڑھا کرکے پیش کیا ہے،وہ لوگ خونِ عثمان کا بدلہ لینے کے لئے مظاہرہ کررہے ہیں،جماعت میں فرقہ پیدا کررہے ہیں اور گمراہوں سے محبت کررہے ہیں،آپ اپنی رائے ظاہر کریں))(1) آپ ملاحظہ کررہے ہیں کہ خاص صحابہ کس طرح امیرالمومنین ؑ کے حق کی وضاحت کررہے ہیں،آپ کی خیرخواہی میں لگے ہوئے ہیں،آپ کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں اور آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔

3 ۔ خفاف بن عبداللہ طائی معاویہ سے قتل عثمان کے بعد کے واقعات بیان کرتا ہوا کہتا ہے پھر لوگ علی ؑ کی بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے جیسے کہ ٹ ڈ یوں کا لشکر آتا ہے پھر امیرالمومنین ؑ نے چلنے کا ارادہ کیا تو آپ کے ساتھ مہاجرین و انصار کا بڑا مجمع نے جھجک چل پڑا،صرف تین افراد نے آپ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغی ج: 7 ص: 39

۲۷۰

قیادت میں جہاد کرنے سے گریز کیا اور وہ تین افراد،سعد بن مالک،عبداللہ بن عمر،محمد بن مسلمہ ہیں،لیکن علی ؑ نے کسی کو بھی اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کیا،جو لوگ آپ کے ساتھ آسانی سے شریک ہوئے تھے ان کی وجہ سے آپ بےنیاز تھے اور جو لوگ حیل،حُجت کررہے تھے ان کی آپ نے ضرورت بھی نہیں محسوس کی ۔(1)

4 ۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے لئے جب امیرالمومنین ؑ نکلے تو آپ کے ساتھ آٹھ سو انصار تھے اور چارسو بیعت رضوان والے صحابہ تھے ۔(2) ایک روایت میں ہے کہ آپ کے ساتھ سات سو انصار تھے ۔(3)

5 ۔ معاویہ نے جب عبداللہ بن عمر کو خط لکھ کے مدد مانگی تو انہوں نے جواب میں لکھا((وہ نظریہ جس کی وجہ سے تمہارے دل میں لالچ پیدا ہوا ہے وہ تمہاری رائے ہے لیکن میں نے انصار و مہاجرین میں علی ؑ سے لگاؤ نہیں رکھا ہے اور طلحہ و زبیر نے ام المومنین عائشہ کو بھی چھوڑ دیا ہے تو کیا تمہاری پیروی کرلوں!

پھر ابن عمر نے ابن غزیہ سے کہا کہ اس شخص(معاویہ)کا جواب دو ابن غزیہ کا باپ ایک گوشہ نشین زاہد تھا اور وہ خود قریش کا سب سے بڑا شاعر تھا،اس نے ابن عمر کی فرمائش پر معاویہ کے خط کے جواب میں کچھ اشعار کہے ۔

ترجمہ اشعار:ہم نے علی ابن ابی طالب ؑ کو اصحابِ محمد ؐ کے درمیان چھوڑ دیا ہے حالانکہ ہمیں امید نہیں تھی کہ وہ جس چیز(خلافت)سے دور رکھے گئے ہیں اس پالیں گے انصار ان کے ساتھ ہیں اور مہاجرین کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہیں اور مہاجرین و انصار علی ؑ کی قیادت میں شیروں کی طرح جال میں جکڑے ہوئے ہیں یعنی سب ان کے ساتھ ہیں ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 65 الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 74 ،شرح نہج البلاغہ ج: 3 ص: 111

( 2) تاریخ خلیفہ بن خیاط ج: 1 ص: 184 ،جنگ جمل کے تفصیلی واقعات،العقد الفرید ج: 4 ص: 289 ،جنگ جمل

( 3) انساب الاشراف ج: 3 ص: 30

( 4) وقعۃ صفین ص: 72 ۔ 73

۲۷۱

6 ۔ محمد بن ابی بکر ایک خط معاویہ کو لکھا اور اس میں مولا علی ؑ کے فضائل کا تذکرہ کیا لکھتے ہیں:اور علی ؑ کے ساتھ علی ؑ کے فضائل اور آپ سابقات تو ہیں ہی اس کے علاوہ وہ مہاجرین و انصار ہیں جن کے فضائل قرآن بیان کرتا ہے اور اللہ ان کی تعریف کرتا ہے وہ علی ؑ کے مددگار ہیں علی ؑ سے شدید محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ آپ کو گھرے رہتے وہ اپنی تلواروں کو جنبش دیتے ہیں اور علی ؑ کے لئے اپنا خون بہانے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔(1)

7 ۔ امیرالمومنین ؑ جنگ جمل میں جانے کے لئے نکلے اور جب مقام فید پر پہنچے تو آپ کی خدمت میں قبیلہ بنی اسد اور قبیلہ طے حاضر ہوا اور آپ کی قیادت میں جہاد کرنے کے لئے خود کو یپش کیا،آپ نے فرمایا تم لوگ اپنے قریے(گاؤں)میں ہی رہو!میرے لئے مہاجرین کافی ہیں،(2)

8 ۔ امیرالمومنین ؑ نے معاویہ کو ایک خط لکھا((میں صحراؤں کو قطع کرتا ہوا تیری طرف بڑھ رہا ہوں،میرے ساتھ مہاجرین و انصار کی بڑی جماعت ہے اور ان کی اولاد جو نیکی میں اُن کی پیروی کرتی ہے وہ بڑی فوج کی صورت میں گرد اُراتے ہوئے تیری طرف بڑھ رہے ہیں اُن کے ساتھ اصحاب بدر کی ذرّیت اور ہاشمی تلواریں بھی ہیں ۔(3)

9 ۔ حضرت عقیل بن ابی طالب ؑ نے معاویہ سے کہا:جس روز میں تیرے پاس آنے کے لئے نکلا ہوں میں نے علی ؑ کے ساتھیوں پر نظر کی تو مجھے نہیں نظر آتے مگر مہاجرین و انصار اور تیرے ساتھیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے دکھائی نہیں دیتے مگر طلقا کی اولاد اور جنگ احزاب کے بقیۃ السیف ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 119 ،شرح نہج البلاغہ ج: 3 ص: 188 ،مروج الذھب ج: 3 ص: 21 ،حالات معاویہ

( 2) الکامل فی التاریخ ج: 3 ص: 117 ،الفتنۃ و وقعۃ الجمل ج: 1 ص: 137 ،تاریخ طبری ج: 3 ص: 24 ،شرح نہج البلاغہ ج: 14 ص: 18

( 3) نہج البلاغہ ج: 3 ص: 35 ،شرح نہج البلاغہ ج: 15 ص: 184 ،مناقب الامام علی لابن الدمشقی ج: 1 ص: 737 ،ینابیع المودۃ ج: 3 ص: 447

( 4) الموفقیات ص: 335

۲۷۲

10 ۔ حدیثوں میں لشکر کا بیان دیا ہوا ہے:امیرالمومنین ؑ کے لشکر کی ترتیب جنگِ صفین میں کچھ اس طرح تھی کہ امیرالمومنین ؑ خود قلبِ لشکر میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ اہل مدینہ،اہلِ کوفہ اور اہل بصرہ تھے مدینہ والوں میں سب سے بھاری تعداد انصار کی تھی ۔(1) - 11 ۔ نصر بن مزاحم اپنی اسناد سے ابوسنان اسلمی سے روایت کرتے ہیں کہ جب مولا علی ؑ کو یہ بتایا گیا کہ معاویہ اور عمروعاص خطبہ دے دیلے لوگوں کو آپ کے خلاف ورغلا رہے ہیں تو آپ نے حکم دیا کہ لوگوں کو جمع کیا جائے،راوی کہتا کہ گویا میں علی ؑ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے اپنی کمال پر تکیہ لگا رکھا ہے،اصحاب پیغمبر ؐ آپ کے پاس جمع ہوگئے ہیں اور آپ کو اس طرح گھیر رکھا ہے جیسے لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ اصحابِ پیغمبر ؐ کا سب سے بڑا مجمع آپ کے ساتھ ہے ۔(2)

12 ۔ عمرو بن عاص نے معاویہ سے کہا:تم اہل شام کو ایسے آدمی سے لڑانا چاہتے ہو جو محمد ؐ سے قرابت قربیہ تو رکھتا ہی ہے اس کے ساتھ ہی تمہاری طرف اصحاب پیغمبر ؐ کی ایک بڑی جماعت لیکے آ رہا ہے،اصحاب محمد ؐ میں شہسوار بھی ہیں،قاریان قرآن بھی ہیں،قدیم الاسلام بھی ہیں،یہ ایسے لوگ ہیں جن کی لوگوں کے دلوں پر ہیبت بیٹھی ہوئی ہے ۔(3)

13 ۔ سعید بن قیس نے اپنے اصحاب کو خطاب کیا،انہوں نے اپنے خطبہ میں کہا:خداوند عالم نے ہمیں اپنی خاص نعمت سے مخصوص کیا ہے،ہم اس کا شکر ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے،اور اس کی کما حقّہ قدر نہیں نہیں کرسکتے،محمد ؐ کے چُنے ہوئے اصحاب((جو اہل خیر بھی ہیں))ہمارے ساتھ ہیں،اُس خدا کی قسم جو اپنے بندوں کے حال سے وقف ہے اگر ہمارا قائد نکّٹا حبشی بھی ہوتا اور بدری سپاہیوں میں ستر افراد کی تعداد ہمارے ساتھ ہوتی تو ہمیں فخر محسوس ہوتا اور ہماری سمجھداری قابلِ تعریف ہوتی،چہ جائے کہ ہمارا قائد پیغمبر ؐ کا ابنِ عم ہے ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:3ص:84،لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرنے کی تیاری

(2)وقعۃ صفین ص:223

(3)وقعۃ صفین ص:222

(4)وقعۃ صفین ص:236۔237،شرح نہج البلاغہ ج:5ص:189،جمبرۃ خطب العرب ج:1ص:355،سعید بن قیس کے خطبہ میں

۲۷۳

14 ۔ نصر کہتے ہیں کہ معاویہ نے نعمان بن بشیر اور مسلمہ بن مخلد انصاری کو بلایا بس یہی دو انصاری اس کے ساتھ تھے تو معاویہ نے کہا،اے دونو!مجھے اوس و خزرج کی طرف سے بہت غم ہوا ہے،انہوں نے اپنی تلواریں اپنے کاندھوں پر رکھی ہوئی ہیں اور مسلسل جنگ کی طرف بلا رہے ہیں یہاں تک کہ ہمارے اصحاب ڈ رگئے چاہے وہ بہادر ہوں یا بُزدل،اب حالت یہ ہے کہ جس شامی شہسوار کے بارے میں پوچھتا ہوں جواب ملتا ہے کہ اُسے انصار نے مار ڈ الا،انصار میدانِ جنگ میں نعرہ لگا رہے تھے کہ ہم انصار ہیں،میں مانتا ہوں انہوں نے رسول اسلام ؐ کو پناہ دی اور نُصرت بھی،لیکن انہوں نے اپنے تمام حقوق کو باطل کام(میری مخالفت)کرکے باطل کردیا ۔

جب معاویہ کی یہ باتیں انصار تک پہنچیں تو قیس بن سعد انصاری نے انصار کو جمع کیا اور خطبہ دینے کھڑے ہوئے،خطبہ میں کہا:معاویہ نے جو کچھ کہا ہے وہ آپ لوگوں کو معلوم ہوچکا ہے،میری جان کی قسم اگر آج آپ نے معاویہ کو غصہ دلایا ہے تو کوئی نئی بات نہیں ہے کل بھی آپ لوگوں نے غضب ناک کیا تھا اور اگر زمانہ اسلام میں آپ لوگوں نے معاویہ کو پچھاڑا ہے تو زمانہ کفر میں بھی آپ لوگ اسے پچھاڑ چکے ہیں، ۔ آپ اس کے خلاف جنگ کرکے کوئی گناہ نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ تو آپ اس دین کی نصرت میں کررہے ہیں جس کی آپ پیروی کرتے ہیں،آج تو وہ کارنامہ انجام دیجئے جو کل کے کارناموں کو بُھلادے اور کل انشااللہ ایسے کام کیجئے گا جسے دیکھ کر لوگ آج کے کارنامے بھول جائیں(آپ لوگ تو منزل یقین پر فائز ہیں)آپ تو اس عَلم کے سارئے میں کھڑے ہیں جس عَلم کے داہنی طرف جبرائیل ؑ اور بائیں طرف میکائیل کھڑے ہو کے جہاد کرتے تھے جب کہ معاویہ کی قوم ابوجہل اور احزاب کے جھن ڈ ے کے ساتھ ہے ۔(1)

15 ۔ معاویہ نے نعمان کو بُلا کر میدان میں بھیجا کہ وہ قیس بن سعد بن عبادہ کو سمجھائے اور اُن سے کہے کہ وہ جنگ نہ کریں،نعمان نکلا اور دونوں صفوں کے درمیان کھڑا ہوا پھر اس نے کہا:اے قیس ابن سعد میں نعمان بن بشیر ہوں،یہ سُن کر قیس بن سعد نکلے اور دونوں میں گفتگو ہونے لگی،قیس نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 445 ۔ 447

۲۷۴

دورانِ گفتگو کہا:خدا کی قسم اگر تمام عرب بھی معاویہ کے ساتھ ہوجاتا جب بھی انصار تو اُس سے لڑتے ہی اور تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ ہم عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں تو سنو!ہم لوگ اس جنگ میں اس طرح ہیں جیسے پیغمبر ؐ کے ساتھ تھے،اپنے چہروں کو تلواروں کی ڈ ھال اور گردنوں کو نیزوں کا نشانہ بنارہے ہیں،تا کہ حق کی فتح ہو اور امرِ خدا ظاہر ہوجائے اور دشمن کو یہ بات ناگوار گذرتی ہے تو گذرے نعمان ذرا دیکھو تو کہ معاویہ کے ساتھ کون لوگ ہیں؟یا تو طلیق ہیں،یا عرب کے دیہاتی یا خطہ یمن کے کچھ لوگوں کو دھوکہ سے ساتھ میں ملایا گیا ہے،دیکھو تو مہاجرین و انصار اور نیکی میں اُن کی پیروی کرنے والے جن سے خدا راضی ہے،کہاں پر ہیں؟پھر دیکھو!معاویہ کے ساتھ اپنے اور اپنے حقیر ساتھی(مسلمہ انصاری)کے علاوہ کسی اور انصاری کو بھی پاتے ہو؟اور تم دونوں نہ بدری ہو،نہ اُحد کے جانبازوں میں،نہ تم نے اسلام میں سبقت کی ہے،نہ تمہاری شان میں قرآن کی کوئی آیت اتری ہے،خدا کی قسم تم نے آج ہمیں دھوکہ دیا ہے تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے تمہارے باپ ہم سے غداری کرچکے ہیں ۔(1)

بشیر بن سعد جو نعمان کا باپ تھا سب سے پہلے اسی نے ابوبکر کی بیعت کی تھی،جناب قیس بن سعد کا اشارہ((اس کے باپ کی غداری ہے))اسی طرف ہے،یہ بھی مشہور ہے کہ اس کے باپ نے یا تو سب سے پہلے بیعت(2) کی تھی یا ان لوگوں میں شامل تھے جن کو بیعتِ ابوبکر میں اوّلیت حاصل ہے ۔

16 ۔ واقعات صفین کے ذیل میں بیان کیا جاتا ہے کہ عمار بن یاسر نے بَدری سپاہیوں کی ایک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 449 ،شرح نہج البلاغی ج: 8 ص: 87 ۔ 88 ،الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 91 ۔ 92 ،جمبرۃ خطب العرب ج: 1 ص: 367 ،خلافت امام علیؑ

( 2) تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 124 ،الریاض النضرۃج: 2 ص: 215 ،الصابۃ ج: 1 ص: 311 ،فتح الباری ج: 7 ص: 31 ،الطبقات الکبری ج: 3 ص: 182)

۲۷۵

بڑی تعداد لیکے اور دوسرے مہاجرین و انصار کے ساتھ عمروعاص پر حملہ کیا اس وقت وہ تنوخ اور نہد جیسے شامیوں کی قیادت کررہا تھا(1)

17 ۔ ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ:میں جنگ صفین کے نزدیک سے دیکھنے والے افراد میں سے ہوں وہ کہتے ہیں کہ:میں نے عمار یاسر کو دیکھا کسی بھی میدان یا وادی میں دکھائی نہیں دئیے مگر یہ کہ اصحاب محمد ؐ اُن کے ساتھ ساتھ جیسے کہ عمار یاسر اُن کے عَلَم ہوں جس کو وہ گھیرے رہتے تھے ۔(2)

18 ۔ ام الخیر بنت حریش نے عمار کی شہادت پر کہا:اے گروہِ مہاجرین و انصار!صبر کرو،اپنے پروردگار کی طرف سے بصیرت لے کے اپنے دین پر ثابت قدمی کے ساتھ جہاد کرتے رہو ۔(3)

19 ۔ عکرشہ بنت ائدطش یا اطرش نے جنگ صفین میں کہا:اے گروہِ مہاجرین و انصار!اپنے دین سے بصیرت لیکے جہاد کرتے رہو ۔(4)

اس کے علاوہ بھی بہت سے شواہد ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر میں انہیں پیش نہیں کر رہا ہوں یہ تمام واقعات اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ جنگ صفین و جمل میں پیغمبر اعظم ؐ کے بلند مرتبہ اصحاب،مولائے کائنات حضرت علی ؑ کے ساتھ تھے اور آپ کو حقدارِ خلافت تسلیم کرکے آپ کے مخالفین سے جنگ کررہے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مروج الذھب ج: 2 ص: 375

( 2) الاستیعاب ج: 3 ص: 1138 تاریخ طبری ج: 3 ص: 99 ،مقتل عمار بن یاسر،المجموع فی شرح المہذب للنوری ج: 19 ص: 162 ،شرح نہج البلاغہ ج: 10 ص: 104 ،اسد الغابہ ج: 4 ص: 46)

( 3) جمبرۃ خطب العرب ج: 1 ص: 371 ،تاریخ دمشق ج: 7 ص: 235 ،العقد الفرید ج: 2 ص: 90 ،صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ج: 1 ص: 297 ،بلاغات النساء ص: 38 ،ام الخیر بنت حریش بارقینہ کی گفتگو کے ذیل میں،

( 4) بلاغات النسا ص: 71 ،العقد الفرید ج: 2 ص: 86 صبح الاعشی فی صناعۃ الانشا ج: 1 ص: 301 ،جمبرۃ خطب العرب ج: 1 ص: 368 ۔ 369 ،واقعۃ صفین میں شیعیت سے لبریز خطبے اور عکرشہ بنت اطرش کا خطبہ،

۲۷۶

امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے اصحابِ پیغمبر ؐ بڑے اور ذمہ دار عہدوں پر رکھے جاتے تھے

امیرالمومنین ؑ کے خاص لوگوں میں اصحابِ پیغمبر ؐ ہی تھے جن میں سے کچھ آپ کے لشکر کے قائد اور کچھ مختلف شہروں کے گورنر بنائے گئے تھے،بڑی ذمہ داریاں،نمایاں اصحاب کو دی جاتی تھیں،جیسے عمار بن یاسر،ابوایوب انصاری،حذیفہ بن یمان،ابن تیہان،ذوالشھادتین،قیس بن سعد بن عبادہ،عمروہ بن حمق خزاعی،ہاشم بن عتبہ مرقال،عدی بن حاتم طائی،عبداللہ اور محمد دونوں بدیل بن ورقۃ خزاعی کے فرزند ہیں،سھل اور عثمان دونوں حنیف کے صاحبزادے ہیں،جابر بن عبداللہ انصاری و غیرہ ۔

امیرالمومنینؑ کا اپنے خاص اصحاب کے لئے گریہ و اضطراب

امیرالمومنین ؑ اپنے اصحاب خاص کو بہت شدت سے یاد فرماتے تھے،خصوصاً اس وقت جب آپ لوگوں کو جہاد کی دعوت دیتے تھے تو اپنے خطبوں میں ان صحابہ کرام کا تذکرہ بڑے دل پذیر انداز میں کرتے تھے،ایک خطبہ میں آپ فرماتے ہیں کہ((کہاں ہیں میرے وہ بھائی جو راہِ خدا پر چلے اور حق پر ہی گزرگئے،کہاں ہیں عمار،کہاں ہیں ابن تیہان،کہاں ہیں ذوالشھادتین اور ان کے جیسے لوگ،میرے وہ بھائی جنہوں نے موت سے شرط باندھ رکھی تھی اور جن کے بریدہ سر فاجروں کے دل کو ٹھن ڈ ا کرتے تھے،راوی کہتا ہے کہ پھر آپ نے اپنے ریشِ مبارک و مقدس پر ہاتھ پھیرا اور بہت دیر تک روتے رہے پھر فرمایا:ہائے میرے وہ بھائی جنہوں نے قرآن کی تلاوت کی تو اسی کو حاکم قرار دیا،فرض پر غور کیا تو اس کو قائم کیا،سنت پیغمبر ؐ کو وہ زندہ کرتے تھے اور بدعتوں کو مٹاتے تھےمجہاد کے لئے بلائے جاتے تو لبیک کہتے تھے،انہوں نے اپنے قائد پر بھروسہ کیا تو اس کی پیروی کی)) ۔(1)

امیرالمومنین ؑ کے بعد بھی ان میں سے کچھ مقدس افراد امام حسن ؑ کے دور تک باقی رہے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:2ص:109

۲۷۷

جب امام حسن ؑ صاحبِ امر ہوئے تو وہ افراد آپ کے ساتھ تھے یہاں تک کہ امام ؑ نے معاویہ سے مصالحت کی جب بھی وہ لوگ موجود تھے وہ امام ؑ پر جان نچھاور کرتے تھے اور آپ کے اہل بیت ؑ کے شیدائی تھے ۔

معاویہ اصحاب امیرالمومنینؑ سے انتقام لیتا ہے

معاویہ نے اصحاب علی ؑ کو مجرم محبت علی ؑ کی خوب سزادی ایک ایک سے چُن چُن کے بدلہ لیا،کسی کو قتل کرایا،کسی کو زندگہ دفن کرایا،کسی کو سولی پر چڑھایا،صرف اس لئے کہ وہ محبتِ علی ؑ اور ولائے پیغمبر ؐ میں گرفتار تھے اور مولائے کائنات ؑ کے بعد بھی معاویہ کے مخالفت تھے،یہاں تک کہ اس نے عمرو بن حمق خزاعی جیسے جلیل القدر صحابی کو آوارہ وطن ہونے پر مجبور کردیا اور جب وہ مومن شہید ہوگئے یا مرگئے تو ان کا سر کاٹ کے معاویہ کے پاس بھیج دیا گیا،اُس نے عمرو بن حمق کی بیوی کو قید کر رکھا تھا،عمرو بن حمق کے سر کو آپ کی بیوی کی گود میں رکھ دیا وہ مومنہ اپنے شوہر کا سر دیکھ کے رونے لگی اور بولی:بہت دنوں تک تم لوگوں نے اِن کو ہم سے دور رکھا تھا اور جب ہمیں ملایا تو تو ان کی شہادت کے بعد ملایا ۔(1)

حجر بن عدی اور اصحاب حجر کی شہادت پر مسلمانوں کا اظہار نفرت

معاویہ نے عظیم المرتبہ صحابہ حجر بن عدی کو اُن کی جماعت کے ساتھ مرج عذرا کی چراگاہ میں شہید کردیا یہ بہت مشہور واقعہ ہے،ان لوگوں کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے معاویہ کے گورنرز یاد کی کوفہ پر حکومت سے انکار کردیا تھا اور اس کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام سے اظہار بر ات ب ھی نہیں کی،حجر و اصحابِ حجر کی شہادت سے عالمِ اسلام میں ایک شور برپا ہوگیا اور لوگ معاویہ کو ملعون و فاسق کہنے لگے،ہر مسلمان نے اس حادثہ فاجعہ کو اپنے طور پر اسلام اور مسلمان کے لئے ایک بڑی مصیبت سمجھا،چنانچہ دیکھئے!یہ عائشہ ہیں:جو حجر بن عدی کی شہادت پر معاویہ سے بہت ناراض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) اسد الغابہ ج: 4 ص: 101 ،حالاتعمر بن الحمق،بدایہ و النہایہ ج: 8 ص: 48 ،تاریخ دمشق ج: 69 ص: 40

۲۷۸

ہیں،جب شام پہنچیں اور معاویہ سے براہِ راست ملاقات ہوئی تو کہنے لگیں:اے معاویہ!تجھے حجر و اصحاب حجر کو قتل کرنے میں اللہ کا خوف محسوس نہیں ہوا؟(1)

دوسری روایت میں ہے کہ عائشہ نے کہا:کاش معاویہ کو معلوم ہوتا کہ کوفہ میں اس کی جسارتوں کو روکنے والے موجود ہیں تو وہ یہ جرات نہ کرتا کہ حجر اور اصحاب حجر کو کوفہ سے اٹھالے اور شام لے جاکے انھیں قتل کردے لیکن جگرِ خوارہ کا بیٹا یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ مردِ راہ حق اب نہیں رہے،خدا کی قسم اگر وہ ہوتے تو....))(2) دوسرے مقام پر بھی انہوں نے معاویہ سے کہا:اے معاویہ!تو نے جو ظلم حجر اور اصحابِ حجر پر کیا(3) اور انہیں شہید کردیا اس کی وجہ کیا تھی تجھے اس فعلِ قبیح پر کس نے مجبور کیا؟(4)

جب عبداللہ بن عمر کو خبرِ شہادت حجر ملی تو وہ بازار میں تھے،انہوں نے یہ کبر سنتے ہی پُشت سے بندھا ہوا کپڑا چھوڑ دیا اور کھڑے ہوگئے پھر بڑی شدت سے روئے ۔(5) جب ربیع بن زیاد کو یہ خبر ملی((جو معاویہ کے گورنر تھے))تو انہوں نے دعا کی:پالنے والے اگر ربیع کا کوئی نیک عمل تجھے پسند آیا تو اب ربیع کو اس دنیا سے اٹھالے ۔(6) حسن بصری نے کہا:معاویہ کے اندر خرابیاں ہیں جن میں سے ہر ایک اس کی ہلاکت کے لئے کافی ہیں،ایک تو اس امت پر زبردستی مسلّط ہوجانا،دوسرے حجر و اصحاب حجر کو شہید کرنا،حجر کی وجہ سے اُس پروائے ہو حجر کی وجہ سے اس پروائے ۔(7)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تاریخ طبری ج: 3 ص: 51،232 سنہکےواقعات

( 2) الاستیعاب ج: 4 ص: 126 حالات جعفر ابن عدی

( 3) البیان و التعریف ج: 2 ص: 72 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 126

( 4) تاریخ طبری ج: 3 ص: 232 ،اور تاریخ دمشق ج: 12 ص: 226 ۔ 229 ۔ 230

( 5) الاستیعاب ج: 1 ص: 330 ،تاریخ دمشق ج: 12 ص: 227 ۔ 228 ۔ 229 ،بدایہ النہایہ ج: 8 ص: 55

( 6) الاستیعاب ج: 1 ص: 330 ،تھذیب التھذیب ج: 3 ص: 211 ،تھذیب الکمال ج: 9 ص: 79

( 7) تاریخ طبری ج: 3 ص: 232 ،الاستیعاب ج: 1 ص: 331 ،الکامل فی التاریخ ج: 3 ص: 337 ،ینابیع المودۃ ج: 2 ص: 27 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 262)

۲۷۹

اس منزل میں دوسرے فقرے بھی ہیں جو مسلمانوں نے کہے،مسلمانوں نے شہادتِ حجر کی شدت سے مخالفت کی ہے،رضوان اللہ علیھم اجمعین(1)

لیکن میں اس جگہ وہ تمام باتیں عرض نہیں کروں گا،شہادت حجر کے بیان کو ختم کرنے سے پہلے صرف اس پیشین گوئی کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں جو سرکار دو عالم ؐ نے حجر اور اصحاب حجر کی شہادت کے سلسلے میں فرمائی تھی،آپ فرماتے ہیں((عذرا میں سات ایسے افراد شہید کئے جائیں گے جن کی شہادت پر خدا اور آسمان والے غضبناک ہوں گے)) ۔(2)

معاویہ نے اپنے تاریک دور میں اصحابِ علی ؑ پر بہت سختیاں کی ہیں ۔ صرف اس وجہ سے کہ ان کے دل میں محبت علی ؑ تھی اور وہ اہل بیت علیھم السلام کے چاہنے والے تھے،تاریخیں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں اور کسی پر بھی معاویہ کی یہ حرکتیں پوشیدہ نہیں ہیں ۔

(معاویہ انصارِ خدا سے شدیدترین بغض رکھتا تھا،جب وہ مدینہ آیا تو اس سے ابوقتادہ انصاری کی اچانک ملاقات ہوگئی،معاویہ نے کہا:ابوقتادہ تمام مسلمان ہم سے ملنے کے لئے آئے سوائے تم انصاریوں کے،آخر تم لوگوں کو کس نے روکا ہے؟انہوں نے کہا:ہمارے پاس سواریاں نہیں تھیں،پوچھا تہمارے اونٹ کیا ہوئے؟فرمایا:بدر کے دن تم کو اور تمہارے باپ کو تلاش کرنے سے تھکے ہوئے تھے،کہنے لگا ٹھیک کہہ رہے ہو اے ابوقتادہ! ۔ ابوقتادہ نے کہا:ہادی برحق نے ہمیں خبر دی ہے کہ ہم لوگ نبی ؐ کے بعد کچھ نشانیاں دیکھیں گے،پوچھا:پھر نبی ؐ نے اس وقت کے لئے کوئی حکم بھی تو دیا ہوگا؟کہا:ہاں ہمیں صبر کا حکم دیا ہے،کہنے لگا:پھر صبر ہی کرو یہاں تک کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تاریخ طبری ج: 3 ص: 232 ۔ 233 ،تاریخ دمشق ج: 12 ص: 219 ۔ 132 ۔ 233 ،بدایہ و النہایہ ج: 8 ص: 54 ۔ 55

( 2) انساب الاشراف ج: 5 ص: 274 ،تاریخ دمشق ج: 12 ص: 226 ،جامع الصغیر ج: 2 ص: 61 ،حدیث 4765 ،بدایہ و النہایہ ج: 6 ص: 226 ،مقتل حجر بن عدی ج: 8 ص: 55 ،کنز العمال ج: 11 ص: 126 ،حدیث: 30887 ،ج: 13 ص: 587 ،حدیث 37509 ،ص: 588 حدیث: 37510 ،تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 231 ،النصائح الکافیہ ص: 83 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 126 ،اور اسی طرح اصابہ میں ج: 2 ص: 38

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367